یوں تو صوبہ سرحد میں ترجمان القرآن کے خریدار منفرد حیثیت سے مردان اور پشاور میں موجود تھے‘ لیکن تحریک اسلامی کا اجتماعی کام پہلے کل ہند اجتماع دارالاسلام، پٹھان کوٹ منعقدہ اپریل ۱۹۴۵ء کے بعد شروع ہوا۔ وہاں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مکان کے مردانہ حصے میں اجتماع کے شرکا نے ان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے نتیجے میں سات افراد جماعت کے رکن بنا دیے گئے اور انھوں نے حلفِ رکنیت مولانا کے سامنے لیا۔ پانچ افراد متفق قرار دیے گئے۔ سردار علی خان مرحوم (م:۱۹۷۲ئ) سرحد میں جماعت اسلامی کے سربراہ مقرر کیے گئے۔
جناب سردار علی خان نے سوات کے محترم تاج الملوک (م: ۱۹۶۲ئ) کے ساتھ مل کر تحریک کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے ان تھک طریقے سے جدوجہد شروع کی۔ فیصلہ کیا گیا کہ اجتماعات اور دوروں کے علاوہ جماعتی لٹریچر سے مناسب اقتباسات کو اچھے کاتبوں سے جلی قلم میں لکھوا کر دبینر اور عمدہ کاغذ پر چھاپ کر چارٹوں کی صورت میں تقسیم کیا جائے۔ اس منصوبے کے تحت اردو اور پشتو کے متعدد اقتباسات چھاپ کر ہزاروں کی تعداد میں تقسیم کیے گئے‘ جن کو دینی ذوق رکھنے والوں نے اپنی نشست گاہوں اور رہایشی کمروں میں آویزاں کیا۔
دوسرا فیصلہ یہ کیا گیا کہ تحریک کی اہم کتابوں کو پشتو میں ترجمہ کر کے عوام تک پہنچایا جائے تاکہ جو لوگ اردو نہیں سمجھتے وہ قائدِ تحریک کے خیالات پشتو میں جان سکیں اور تحریک کو سمجھ سکیں۔ اس سلسلے میں جماعت کے رکن محترم عبدالرحمن غریب غازوڈھیری کے ذمے کام لگایا گیا۔ جنھوں نے بڑی محنت سے دعوت اسلامی کے مطالبات، سلامتی کا راستہ، شہادت حق، ایک مضمون: ’’طاقت کا اصل سرچشمہ‘‘ اور دوسرے پمفلٹوں کا ترجمہ کیا۔ حاجی عون اللہ نے خطبات کا ترجمہ کیا۔ مولانا عبدالعزیز مظاہری نے رسالہ دینیات کا ترجمہ کیا۔ ان کتابوں کو ایک ایک ہزار کی تعداد میں چھاپا گیا لیکن اشاعتی تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے طباعت عمدہ نہیں تھی‘ اور یہ کتابیں پشتو کتابوں کے خریدار نہ ہونے کی وجہ سے فروخت نہ ہو سکیں۔ اس لیے مفت تقسیم کر دی گئیں۔
اس کے بعد افغانستان میں تحریک اسلامی کے لٹریچر کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کابل کے پشتو- فارسی اخبار گہیز (Gaheez)‘ یعنی طلوع سحر (Dawn) نے اس سلسلے میں بڑا بنیادی کام کیا۔ اس کے ایڈیٹر جناب منہاج الدین‘ آریانہ ائیرلائن کے کراچی کے دفتر میں کام کرچکے تھے اور اردو سمجھتے تھے۔ انھوں نے مولانا مودودی مرحوم کی کتابوں کے مختلف حصوں کا پشتو اور فارسی میں ترجمہ چھاپنا شروع کیا۔
شہیدمنہاج الدین‘ پشاور میں محترم قاضی حسین احمد سے ملے اور ان کے سامنے مولانا مودودیؒ کی کتابوں کے پشتو تراجم کی ضرورت و اہمیت کو بیان کیا۔ قاضی صاحب ان کو لاہور لے گئے جہاں پر مولانا مودودی مرحوم سے مفصل ملاقات کی۔ اسی زمانے میں محترم قاضی حسین احمد نے پشاور کے چند احباب کے ساتھ مل کر پشتو میں ترجمے کے لیے ایک ادارہ قائم کیا ۔ان احباب میں ڈاکٹر مراد علی شاہ، محمد اقبال اور عبدالحق شامل تھے۔ زیارت کاکا صاحب کے معروف ادیب اور پشتو لغت ظفراللغات کے مؤلف بہادر شاہ ظفر کی مدد سے ۲۳ چھوٹی بڑی کتابوں کا پشتو میں ترجمہ کیا گیا۔ ان کتب کو بہتر سے بہتر طباعت کے ساتھ چھاپ کر افغانستان بھیجا گیا۔
گہیز (Gaheez) کے پُرعزم مدیر، افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کے عہد حکومت میں کمیونسٹ روس کی خفیہ ایجنسی KGB کے ہاتھوں ۱۴ ستمبر ۱۹۷۲ء کو شہید کر دیے گئے۔ کچھ مدت بعد سردار دائود نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا ‘اور اسی دوران افغانستان کی اسلامی تحریک کے دور ابتلا کا آغاز ہوا۔ انھی ایام میں کابل یونی ورسٹی کے اسلام پسند طلبہ اور اساتذہ نے کمیونسٹوں کے مظالم اور قیدوبند سے بچ کر پاکستان ہجرت شروع کی۔ انھی دنوں میں مولانا راحت گل جنھوں نے رسالہ دینیات کا ترجمہ کر کے خصوصی اہتمام سے خود چھاپا۔ انھوں نے تفہیم القرآن کا پشتو ترجمہ شروع کیا‘ اور سورۂ توبہ تک چار جلدوں میں اس کو شائع کیا۔ جماعت اسلامی صوبہ سرحد کے ترجمہ و تالیف کے ادارے نے لاکھوں افغان مہاجرین کی ضرورت کے لیے تفہیم القرآن کا افغانی پشتو میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔ اس کے لیے ایک معروف عالم دین قیام الدین کشاف کی خدمات حاصل کی گئیں‘ جنھوں نے سالہا سال کی محنت کے بعد افغانی پشتو میں مکمل ترجمہ کیا۔ پھر اسے چھ جلدوں میں چھاپ کر مخیر حضرات کی طرف سے افغانیوں کے کیمپوں، آبادیوں اور تدریسی مراکز میں تقسیم کیا گیا۔ علاوہ ازیں کوئٹہ میں بھی افغان مہاجرین نے مولانا کی کتب کے پشتو ترجمے کا ایک فعال اور متحرک نظام قائم کیا۔
ترجمہ چمکنی پشاور کے ایک صاحب
نے کیا۔ مگر وہ شائع نہ ہو سکا۔
مطالبات مطالبات عبدالرحمن غریب