سید منیب اللہ حسینی


اس بات سے شاید ہی کسی کو انکار ہوگا کہ تحریک اسلامی کی کامیابی کے لیے اسے حاصل انتہائی قیمتی اور محدود وسائل کا بھرپور اور بہترین استعمال‘ ایک بیدارمغز تحریک اور اُس کی قیادت کے لیے انتہائی ضروری امر ہے۔ یہ نہ صرف دینی شعور اور دانش کا تقاضا ہے بلکہ موجودہ حالات بھی اس کی طرف نشان دہی کرتے ہیں۔

خواتین کی صلاحیتوں کے استعمال کی بات کی جاتی ہے تو ذہن فوراً اُن کی صنفی ذمہ داریوں کے باعث روایتی تحدیدات کی طرف مبذول ہوجاتا ہے‘ اور بہ سہولت یہ فیصلہ کر دیا جاتا ہے کہ خواتین کے لیے مزید ذمہ داریاں ان کے وجود کے لیے ضرر رساں ہوں گی‘ یا یہ کہ موجودہ حالات میں خواتین سے اس سے زیادہ کی توقع کم و بیش نہیں رکھی جاسکتی۔ اس طرح کے سہل فیصلے کرنے میں خواتین اور مرد حضرات دونوں ہی شامل ہیں۔ اس طرح کے خیالات کے پیچھے اکثر تاریخ کا ایک بہائو ہوتا ہے جس میں طے شدہ روایات سے انحراف یا اس کا دوبارہ تجزیہ بالعموم نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالات میں وہ کیا جوہری تبدیلی ہوگئی ہے کہ تقریباً اس طے شدہ امر کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے اس بات کا احاطہ کیا جانا چاہیے کہ دنیا کے مادی طور پر تبدیل شدہ موجودہ معاشرتی حالات کی وجہ سے خواتین کے عمومی حالات‘ ذمہ داریوں‘ اور وسائل میں کیا تبدیلیاں ہوئی ہیں‘ اور اس کے باعث وہ کون کون سی جہتیں ہیں جنھیں تحریک‘ طے شدہ اصولوں اور امور کو قربان کیے بغیر‘ اپنے فائدے کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔ ہماری بحث معاشرتی تبدیلیوں سے متعلق ہے‘ اس لیے اُن تغیرات کے عوامل اور عواقب اور ان کے صحیح اور غلط ہونے پر اظہارِ خیال سے اجتناب کیا گیا ہے۔

دوسرا اہم اصول جو اس تجزیے میں اختیار کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ معاشرتی حالات کا موازنہ آج سے ۲۵ سے ۵۰سال پہلے کے حالات سے کیا گیا ہے‘ کیونکہ آج بھی کسی نہ کسی انداز میں وہی پیمانے معاشرے کے روایتی تجزیوں کا معیار بنے ہوئے ہیں۔

یہ مضمون تحریکِ اسلامی کی جدوجہد کو مزید تقویت دینے کی تجویز کے طور پر پیش کیا گیا ہے‘ اور صرف اُن جہتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن سے تحریک بجا طور پر فائدہ اُٹھا سکتی ہے۔ یہ تجزیہ نگاروں اور منصوبہ سازوں اور صاحبانِ امرکے لیے دعوتِ فکر بھی ہے۔ حالات کا بھرپور ادراک رکھنے والے بہترین دماغ اسے مزید بہتر کرسکتے ہیں۔

عمومی حالات میں تبدیلی کا اجمالی جائزہ (چند متعلقہ امور سے متعلق)

۱-            لڑکیوں میں جدید تعلیم کا حصول عام ہونا اور اُس میں اکثر جگہ لڑکوں کے مقابلے میں امتیاز حاصل کرنا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اس میں لڑکیوں کی طبعی مستقل مزاجی و یکسوئی‘ distractions (دیگر مصروفیات)کی نسبتاً عدم موجودگی اور تعلیم کا مقصد بمقابلہ ملازمت کے حقیقی علم سے نسبتاً زیادہ استوار رہنا وغیرہ شامل ہیں۔

۲-            تعلیم میں لڑکوں کے مقابلے میں حقیقی علم سے قربت کی بنا پر علم کو سنجیدگی سے زندگی میں برتنے کے لیے (معاشی بندھنوں کی منزل کے حصول کی تگ و دو کے بغیر) آمادگی‘یعنی افکار سے جذباتی وابستگی۔

۳-            لڑکیوں کا‘ ماضی کی نسبت‘ دیر سے ازدواجی ذمہ داریوں سے منسلک ہونا جس کے باعث تقریباً پانچ سال‘ یا اُ س سے زیادہ‘کسی بڑی اور ہمہ وقتی مصروفیت کے بغیر نوجوان اور طرار ذہن کے لیے فارغ اوقات کا مہیا رہنا۔

۴-            جدید مادی سہولتوں کی بنا پر ازدواجی گھریلو زندگی میں منہمک خواتین کا جسمانی طاقت کا کم سے کم استعمال (تھکن کی کمی‘ ہسپتال کی سہولت وغیرہ)‘ ذمہ داریوں میں کمی اور زیادہ وقت کا مہیا ہونا۔

۵-            لڑکیوں اور خواتین کا جدید رسل و رسائل کی بدولت قریبی سفر کے لیے کسی مرد یا ساتھی کی احتیاج کے بغیر نسبتاً آسانی سے سفراختیار کرسکنا۔

۶-            مشترکہ خاندانی نظام کے منفی بندشی پہلوئوں سے آزادی‘ جو خصوصاً خواتین کو نسبتاً introvert(اپنی ذات تک محدود ہونا)بناتا تھا۔ موجودہ خاندانی اکائی نے جو خصوصاً خواتین میں تنہائی کا موجب بنی۔ انھیں extrovert (خارجی امور میں دل چسپی لینے والا)بنایا جس میں نقل و حمل اور پیغام رسانی کی موجودہ سہولیات نے بھرپور مدد دی۔

۷-            والدین کا پہلے کی بہ نسبت بیٹیوں کی اور شوہروں کا بیویوں کی جائز خواہشات کا احترام۔ اس معاملے میں تحریکی گھرانوں کا خصوصی طور پر معاون ہونا۔

۸-            مسلمانوں کے موجودہ حالات میں مردوں کے سوادِاعظم کی بے بسی اور بے حسی پر ممکنہ دائرۂ کار میں کچھ کر گزرنے کی اشد خواہش (اس سلسلے میں خواتین کا جذباتی ہونا بھی محرک ہے)

استفادے کی نظری ضرورت

موجودہ دور نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانانِ عالم کے بہترین دماغوں کو سائنسی‘ فنی اور دوسرے ادارتی شعبوں میں شتربے مہار کی طرح جھونک دینے کی وجہ سے ہم نظریاتی اور تحقیقی افلاس کے خلا میں زندہ ہیں (ذرا اندازہ تو کریں کہ اگر اس دور میں دبستانِ مودودیؒ کا سایہ بھی نہ ہوتا تو اس یتیمی کی کیفیت کیا ہوتی)۔ اس سے نکلنے کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ ہم نظریاتی علم اور تحقیقی عمل کو‘ جو عملی معاملات کی جہت اور معاشرے کو صحیح الفہم قیادت  فراہم کرتا ہے اور جس کی طرف سیدانِ مرحوم و مغفور (سید مودودیؒ اور سیدمحمدسلیمؒ) نے نہ صرف واضح نشان دہی کی‘ بلکہ عملی اقدامات بھی کیے‘ قرار واقعی اہمیت دیں اور ان کے حصول کے لیے اپنی مہم تیز تر کر دیں۔ ہمارے جو تحقیقی ادارے آج اس میدان میں بیش بہا کام کر رہے ہیں‘ وہ رجالِ کار اور وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ اس کمی کو دُور کرنے کے لیے اور ایک بہترین آغوش مادری کی تخلیق کے لیے کیوں نہ ہم اُن غیر روایتی وسائل کو بروے کار لائیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

چند عملی تجاویز

۱-            تحریک کے جتنے تحقیقی ادارے ہوں اُن میں ایک فعال شعبۂ خواتین بھی قائم کیا جائے جس کا باضابطہ ایک ادارتی منتظم یا coordinator ہو۔ اسی طرح اس سے منسلک خواتین کی ایک محدود کمیٹی ہو جو ادارے سے عملی تعاون کی ذمہ دار ہو۔

۲-            یہ ادارے تحقیقی کتب اور تراجم وغیرہ پر مبنی تمام مطلوب کاموں کی جامع فہرست بنائیں‘ جس کے لیے وہ تعاون کے متلاشی ہوں اور ساتھ ساتھ اُن وسائل کا تخمینی جائزہ بھی لیں جس سے یہ تقریباً متعین ہو جائے کہ ان کاموں کے لیے کن کن صلاحیتوں کی ضرورت ہوگی‘ کتنا وقت لگے گا‘ اور مزید معلومات اور مطالعے کے لیے کس لوازمے کی ضرورت پڑے گی۔

۳-            ان تمام امور کے لیے باقاعدہ نظامِ کار ہو‘ تاکہ کام کی ابتدا سے لے کر اختتام تک کا سارا ریکارڈ رکھا سکے اور کام کی رفتار اور اُس کے مسائل سے ہمہ وقتی طور پر آگاہی حاصل ہوتی رہے‘ نیز جہاں ضروری ہو وہاں عملی اقدامات کیے جائیں۔

۴-            اقتدار کے ایوانوں سے تحریک کی قربت کی بنا پر حکومتی پالیسیوں کی تحقیق کی نسبتاً نئی ذمہ داری آپڑی ہے۔ یہ تحقیقی معلومات حکومتی پیش رفت کا صحیح اور واضح ادراک رکھنے کے لیے ممبران اسمبلی‘ سینیٹ و دیگر کمیٹیوں کے لیے بے حد اہم (critical) ہیں۔ اس سے ان کی اُن ایوانوں میں اور ایوانوںکے باہر کارکردگی پر اثر پڑے گا۔ اس ضرورت کو خواتین ممبرانِ اسمبلی کی موجودگی میں خواتین پر مبنی مختلف تحقیقاتی کمیٹیاں پوری کر سکتی ہیں۔ امریکہ میں یہ افراد page کہلائے جاتے ہیں ہم معاون تحقیق کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف مفید معلومات اور تجزیے سامنے آتے ہیں بلکہ حکومتی مناصب پر تعیناتی سے قبل اُن افراد کی عملی تربیت بھی ہو جاتی ہے۔

۵-            یہ تجویز اوپر دی گئی تجاویز کی فوری معاون نہیں مگر آیندہ کے لیے کارگر ہوگی۔ تحریکی لڑکیاں بھی عام لڑکیوں کی طرح‘ تعلیم کی جہت متعین کرنے میں کسی باضابطہ تعلیمی مشاورتی سروس (educational consultancy service)کے بغیر‘ ہرسال ہزاروں کی تعداد میں بھیڑچال کا شکار ہوکر‘ لگے بندھے بے شعوری تعلیم کی قربان گاہوں میں اپنے وقت اور صلاحیتوں کے ساتھ‘ جو کہ تحریکی امانت ہیں‘ بے تکان و بے مصرف بھینٹ چڑھائی جا رہی ہیں۔ یقین کریں کہ اگر تحریکی بنیادوں پر صرف اس وقت لڑکیوں کے لیے ہی تعلیمی مشاورت (educational counselling)کا اجرا کیا جائے تو ہم سب اس اجتماعی بربادی اور غفلت سے نہ صرف مبرا ہوں گے‘ بلکہ اس کا یقینی فائدہ آنے والی نسلوں کو بھی ملے گا۔ نہ صرف والدین کو دنیا اور آخرت میں سکون ملے گا بلکہ اُن لڑکیوں کے لیے آخرت کا سوال جو جوانی سے متعلق ہوگا اس کا جواب بھی آسان ہوگا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بھی اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ آپؐ اپنے ساتھیوں کی صلاحیتوں کا جائزہ لینے اور ان کی بہترین صلاحیتوں کو نشوونما دینے پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ آپؐ باصلاحیت افراد کی تلاش میں بھی رہتے تھے۔ اس کی مثال وہ دعا ہے جس میں آپؐ نے اللہ سے دو عمرمیں سے ایک مانگا تھا‘ یعنی عمربن خطاب یا عمربن ہشام۔اس اقدام کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے آپؐ کے پاس بہترین افراد کی ایک ٹیم تیار ہوگئی۔ قائد تحریک اسلامی مولانا مودودیؒ بھی اس بات کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور رفقا کو ان کے ذوق و شوق اورصلاحیتوں کے جائزے کے بعد کام سونپتے تھے۔ موجودہ دور تو تخصص کا دور ہے ‘ مجلس دانش (think tank)کو خاص اہمیت حاصل ہے‘ لہٰذااس پہلو کو پیش نظر رکھ کر منصوبہ بندی اور اقدام ناگزیر ہے۔

راقم کو اس کوتاہی کا احساس ہے کہ ان تجاویز کی عملی تصویر کے بروے کار لانے میں جو مشکلات درپیش آسکتی ہیں اُسے ان کا صحیح ادراک نہیں۔ میں نے کوشش کی ہے کہ مسلم اُمہ کے ایک بے بہا سرمائے کو کسی طرح ضائع ہونے سے بچانے کی تدبیر کی جا سکے۔ اس سلسلے میں کبارعلما اور تحریکی قائدین ہی صحیح رہنمائی کرسکیں گے۔