احمد عزالدین


احمدرفاعی محمد ثانی‘ نائیجیریا کی ریاست زامفارا کے حکمران ہیں جو تاریخ میں اس حیثیت سے یاد رکھے جائیں گے کہ موجودہ دور میں نائیجیریا کی اس پہلی ریاست کے حکمران ہیں جس میں نفاذ شریعت کا اعلان کیا گیا۔ اس اقدام سے اسلامی افریقہ کے ان ممالک کی یاد تازہ ہو گئی جنھیں استعمار نے کچل کر رکھ دیا تھا۔

احمد رفاعی محمد ثانی نے ۲۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو ریاست میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا‘ اس وقت ان کی  عمر ۳۹ سال تھی۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے نفاذ شریعت کیسے کیا جائے‘ انھوں نے اس کی ایک   عمدہ مثال پیش کی ہے۔ نفاذ شریعت نائیجیریا کے مسلمان عوام کے دلوں کی آواز تھی۔ اس کے بعد نائیجیریا کی ۱۲شمالی ریاستوں نے اس کی تقلید کی۔ نائیجیریا میں ۳۶ ریاستیں اور ایک صوبہ ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے‘ ترجمان القرآن‘ ستمبر ۲۰۰۱ء)۔ احمد رفاعی محمد ثانی نے اس تجربے سے کیا سیکھا اور انھیں کس قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا؟ درج ذیل انٹرویو (شائع کردہ: المجتمع ۱۵۰۸‘ ۶ جولائی ۲۰۰۲ء) اس سوال کا جواب فراہم کرتا ہے۔

سوال: آغاز کہاں سے ہوا؟

جواب: جنوری ۱۹۹۹ء میں‘ میں نے زامفارا کے سربراہ کے انتخابات میں حصہ لیا۔ میں ’’کل الشعب پارٹی‘‘کی طرف سے امیدوار تھا۔ یہ کوئی اسلامی پارٹی نہیں تھی بلکہ ایک فیڈرل پارٹی تھی جس کے پورے نائیجیریا میں اثرات ہیں۔ یہ پارٹی افرادی قوت کے لحاظ سے نائیجیریا کی تین فیڈرل پارٹیوں میں سے دوسری بڑی پارٹی ہے۔

الحمدللہ! مئی ۱۹۹۹ء میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی۔ پارٹی کے نمایندوں نے ریاست کی ۲۴ میں سے ۱۹ نشستیں حاصل کیں۔ ۲۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو ریاست میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا گیا۔

س : آپ میں یہ سوچ کیسے پیدا ہوئی؟

ج : انتخابات سے پہلے میں شیخ ابوبکر محمود اور دیگر علما کے مواعظ اور دروس میں شرکت کیا کرتا تھا۔ جب میں نے نائیجیریا کے دستور کا مطالعہ کیا تو میں نے دیکھا کہ نفاذ شریعت اور نائیجیریا کے دستور میں کوئی تصادم نہیں ہے۔ نائیجیریا کی کسی بھی ریاست میں شریعت نافذ کی جا سکتی ہے کیونکہ نائیجیریا میں فیڈرل حکومت ہے اور ریاستوں کو اس حوالے سے قانونی خودمختاری حاصل ہے۔ نفاذ شریعت کی قرارداد اس ریاست کے عوام کی دلی تمنا تھی۔ یہ کوئی زبردستی ٹھونسا گیا فیصلہ نہیں تھا۔ اسے ریاست کی پارلیمنٹ میں تمام نمایندوں کی تائید حاصل ہوئی۔ اس مقصد کے لیے ہم نے ریاست میں اجتماع عام منعقد کیا جس میں ۲ لاکھ افراد نے شرکت کی‘ جب کہ ریاست کی کل آبادی ۲۷ لاکھ ہے۔

س: آپ معاشیات سے سیاست میں کیسے آئے؟

ج: میں نے زامفارا کی وزارت مالیات میںکام کا آغاز کیا۔ اس وقت زامفارا کی ریاست ’’سوکوتو‘‘ کا حصہ تھی۔ ۱۹۹۶ء میں ‘ میں زامفارا میں وزارت مالیات کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے لوٹ آیا۔ اس کے بعد میں نے استعفا دے دیا اور ’’کل الشعب پارٹی‘‘ میں شامل ہو گیا۔ ستمبر ۱۹۹۸ء سے میںنے باقاعدہ سیاست میں حصہ لیناشروع کیا۔

س: آپ کی ریاست میں ’’نفاذ شریعت‘‘ کن معنوں میں ہوا؟

ج: نفاذ شریعت سے مراد اس کا عمومی مفہوم ہے جس میں حدود‘ قصاص‘ نظام تعلیم‘ معیشت اور معاشرتی نظام‘ سب پہلو شامل ہیں۔ اس کے علاوہ روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور رشوت خوری کا سدباب کرنا اور لوگوں کے اندازفکر کو تبدیل کرنا تاکہ وہ قرآن و سنت اور دیگر اسلامی مصادر کی طرف رجوع کریں۔

س:  عدالتوں کی طرف رجوع اور قوانین کی تبدیلی کے سلسلے میں کیا پیش رفت ہوئی؟

ج :موجودہ عدالتی نظام ۲۷ جنوری ۲۰۰۰ء کو متعارف ہوا ۔ اکتوبر ۱۹۹۹ء سے جنوری ۲۰۰۰ء تک عدالتوں میں ججوں کو تیار کیا گیا اور عوام کی رہنمائی کا بندوبست کیا گیا۔

س:  کیا آپ نے نفاذ شریعت کے لیے حالات اور ماحول کو سازگارپایا؟

ج : نائیجیریا میں بہت سارے نوجوان اسلامی جامعات سے فارغ التحصیل ہیں جنھوں نے اندرون ملک اور بیرون ملک تعلیم پائی ہے۔ علما کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں بہت سے علما کی رہنمائی بھی حاصل رہی۔ صرف زامفارا ہی میں نہیں بلکہ بہت سی دوسری ریاستوں میں بھی علما کی بڑی تعداد موجود ہے۔ پارلیمنٹ کے بعد مجلس العلما کو اسلام کا نقطۂ نظر بیان کرنے اور مشاورت کی اتھارٹی دی گئی ہے۔ نفاذ شریعت سے پہلے وزارت مذہبی امور کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس وقت ابراہیم و کالامحمد اس کے  سربراہ ہیں۔ اس وزارت کے تحت ’’ادارہ دعوۃ و صلوٰۃ‘‘ اور ’’ادارہ زکوٰۃ و اوقاف‘‘ کا قیام عمل میں آیا ہے۔

س:  ریاست میں نفاذ شریعت کے حوالے سے ’’کل الشعب پارٹی‘‘ کا کیا موقف تھا؟

ج:  نفاذ شریعت کے مسئلے میں پارٹیوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ ’’کل الشعب پارٹی‘‘ کے سربراہ نے اعلان کیا کہ جن ریاستوں میں پارٹی کی حکومت ہے وہ سب نفاذ شریعت چاہتی ہیں اور انھیں اس سے کوئی اختلاف نہیں۔ ملک کی بڑی پارٹی صدر نائیجیریا کی پارٹی ہے۔ چونکہ اس کی دستوری اتھارٹی نہیں ہے اس لیے وہ مخالفت نہیں کرسکتی۔

س:  دوسری ریاستوں کا کیا موقف تھا اور انھوں نے آپ کے تجربے کی کیسے پیروی کی؟

ج : جس دن ہماری ریاست میں نفاذ شریعت کا اعلان ہوا‘اس دن ریاست نیجر کے سربراہ وہاں موجود تھے۔ زامفارا کے بعد اس ریاست میں نفاذ شریعت عمل میں آیا۔ اس کے بعد سوکوتو اور دوسری ریاستوں‘ مثلاً کابی‘ کانو‘ کاتسینا‘ جیقاوا‘ یوبی‘ بورلو‘ کوتشی‘ جومبی اور کالورنا میں شریعت نافذ کی گئی۔ یہ ساری شمالی ریاستیں ہیں۔

س: جنوب کی کیا صورت حال ہے؟

ج: جنوبی ریاستوں میں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اکثر باشندے شریعت کے نفاذ کامطالبہ کرتے ہیں۔

س:  اس بارے میں حکومت کا کیا موقف ہے؟

ج: مرکزی حکومت اس کی مخالفت کرتی ہے۔ مرکزی حکومت کے زیادہ تر وزرا عیسائی ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمان وزرا بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے صدر کی تائید کرتے ہیں۔

س: کیا آپ اس تضاد کو محسوس نہیں کرتے کہ افریقہ کا سب سے بڑا مسلمان ملک جس میں ایک ریاست کے بعد دوسری ریاست نفاذ شریعت کا اعلان کرتی ہے‘ اس ملک کے باشندے ایک عیسائی کو سربراہ مملکت کے طور پر منتخب کرتے ہیں؟

ج : سربراہ مملکت کے انتخاب کا معاملہ سابقہ انتخابات کی وجہ سے ہوا۔ اس کے علاوہ شمال اور جنوب کے مسائل نے بھی اس کو تقویت پہنچائی۔ اس لیے بعض افراد نے نائیجیریاکی سربراہی کے لیے ایک غیر مسلم کو صدر منتخب کیا۔ جب لوگوں نے نفاذ شریعت کے بعد اس کے ثمرات اور فوائد دیکھے تو انھوں نے دیگر ریاستوں میں بھی نفاذ شریعت کا مطالبہ کر دیا۔ یہ لوگ اپنی اصل کی طرف لوٹنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور عثمان فودیوکے زمانے کے اسلامی نائیجیریا کو یاد کرتے ہیں۔

س:  ہم جانتے ہیں کہ یہ صورت حال مغرب کے لیے قابل قبول نہیں؟ کیا مغرب نے آپ کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی؟

س: کاڈونا اور دیگر ریاستوں میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جو فسادات ہوئے وہ مغرب کی شہ پر ہوئے اور ان کا مقصد مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا تھا۔ شریعت مشکلات کا سبب نہیں بنتی بلکہ کچھ لوگ مصنوعی طور پر مشکلات پیدا کرتے ہیں اورانھیں شریعت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ اس لیے ایسے شرپسند عناصر نے ہمارے درمیان اور حکمران پارٹی کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ بہرحال مسلمان ’’شریعت یا موت‘‘ چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں کوئی تیسرا راستہ پسند نہیں۔ لیکن نائیجیریا کے عیسائی‘ عیسائیت کے ساتھ ایسی جذباتی وابستگی نہیں رکھتے۔ جو لوگ فتنے کو ہوا دے رہے تھے انھوں نے غیرمسلموں کو کافی روپیہ پیسہ دیا۔ لیکن فسادات کے دوران ہم نے پوری کوشش کی کہ غیرمسلموں کو نقصان نہ پہنچے۔ ہمارے اس طرزعمل سے بہت سارے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ مرکزی حکومت کے بہت سارے عہدے داران نے اسلام قبول کیا۔

س: اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے اور عیسائیوں کوناکام کرنے کے لیے آپ کیا کر رہے ہیں؟

ج : ہم ان کا عدل اور مساوات کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ غیرمسلم دیکھتے ہیں کہ نفاذ شریعت نے عدل اور مساوات کو فروغ دیا ہے اور وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ مسلمان ان کی مدد کرنے کے لیے اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشش کرتے ہیں اور غیرمسلموں کو ان کے حقوق مل رہے ہیں بلکہ مرکزی حکومت بھی مسلمانوں سے غیر مسلموں کے حقوق دلواتی ہے۔ اس وجہ سے عیسائی بھی مسلمانوں کی عدالتوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اسلام دشمن عناصر جن موثر شخصیات کوخرید کرفتنہ بھڑکاتے ہیں اس کا اتنا اثر نہیں ہوتا اورانھیں عوامی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔

س:  نائیجیریا کی جن ریاستوں میں شریعت نافذ کی گئی ہے‘ ان کی آبادی کتنی ہے؟

ج : جن ریاستوں میں شریعت کا نفاذ عمل میں آیاہے ان کی آبادی کل آبادی کا ایک تہائی ہے‘ یعنی ۳۵ فی صد۔

س: کیا آپ کا باہمی رابطہ ہے؟

ج: کوئی ایسی کمیٹی یا باہمی رابطے کا نظام نہیں ہے لیکن بعض ایسی اسلامی جماعتیں ہیں جو ان ریاستوں کی حکومتوں کے درمیان رابطے کے لیے کوشاں ہیں۔ نائیجیریا میں انتخابات کی آمد آمد ہے۔ اس لیے یہ کوشش ہو رہی ہے کہ مسلمان ایک پارٹی کی حیثیت سے انتخابات کے میدان میں اُتریں کیونکہ موجودہ ریاستوں کے سربراہ جنھوں نے شریعت نافذ کی ہے ایک پارٹی سے تعلق نہیں رکھتے۔

س: حدود کے نفاذ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں‘ رجم کرنا‘ کوڑے مارنا اور ہاتھ کاٹنا…؟

ج : زامفارا میں جب سے شریعت کا نفاذ عمل میں آیاہے‘ صرف دو دفعہ ہاتھ کاٹا گیا ہے اور ایک دفعہ شراب پینے کی وجہ سے کوڑے مارے گئے ہیں لیکن رجم نہیں ہوا۔ اس طرح کے واقعات کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے جن میں حدود نافذ کرنا پڑیں۔

س: اس بات کا وضاحت کے ساتھ جواب دیجیے کہ مسلمانوں نے ایک سے زیادہ دفعہ شریعت کے نفاذ کا تجربہ کیا لیکن یہ تجربات ناکامی سے دوچارہوئے۔ ناکامی سے بچنے کے لیے آپ نے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں؟

ج : پہلی بات یہ ہے کہ وزارت مذہبی امورکے ذریعے ہم نے لوگوں کی تربیت کی کہ اصل اقتدار کا مالک اللہ تعالیٰ ہے وہ جسے چاہتا ہے‘ اقتدار و اختیار عطا کرتا ہے۔ اس لیے پارٹی بازی اور گروہ بندی کو اہمیت نہ دی جائے اور نہ یہ دیکھا جائے کہ ہمارا تعلق مخالف پارٹی سے ہے۔ یہ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ زامفارا کے باشندے شریعت کے نفاذ کے لیے گروہ بندی اور پارٹیوں کو اہمیت نہیں دیتے۔

دوسری بات یہ ہے کہ لوگ عدل و انصاف اور مساوات کے متلاشی ہوتے ہیں اور یہ دونوں چیزیں انھیں مل رہی ہیں۔ اس لیے انھیں شریعت اوردیگر نظاموں کا فرق معلوم ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شریعت کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے لیے جان تک قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔

تیسری بات یہ ہے کہ ہماری توجہ روزگار کی فراہمی اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے پر مرتکز ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کی مدد کے لیے اوقاف اور لوگوں میں زکوٰۃ و صدقات وغیرہ کی تقسیم کے ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ ان ابتدائی اقدامات کی وجہ سے ریاست میں بھوک کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ ہر ایک کی بنیادی ضروریات کسی نہ کسی طور پر فراہم ہو جاتی ہیں۔

چوتھی بات یہ ہے کہ وزارت مذہبی امور کے ذریعے ہم نے داعیوں کو مقرر کیا ہے جن کو باقاعدہ تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔ یہ داعی دیہات میں گھوم پھر کر لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میںشریعت کی حمایت جاگزیں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ علما‘ ائمہ اور موذن حضرات کو باقاعدہ تنخواہیں دی جاتی ہیں تاکہ وہ معاش کے فکر سے آزاد ہو کر دعوت دین کا فریضہ سرانجام دے سکیں ۔ اس سے پہلے ان کی تنخواہوں کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ (ترجمہ:  محمد احمد زبیری)