سجدے کے بارے جب انسان غور کرتا ہے تو پوری کائنات اپنی تواضع‘ انکساری اور نیاز مندی کے ساتھ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور سجدہ ریز نظر آتی ہے۔اس کی ہیئت اوراس کی خود سپردگی اﷲ کے حکم کے موافق ہے اوراس میں اﷲ تعالیٰ کا حکم جاری و ساری ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہ‘ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِط وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ (الحج۲۲:۱۸)
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اﷲ کے آگے سربسجود ہے وہ سب جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے ‘ سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں۔
پس غور کرو کہ پوری کائنات کی کوئی شے اﷲ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرنے سے سرتابی کرنے والی نہیں ہے سوائے اس انسان کے کہ اس کی ایک نوع سجدے کرنے والی اور ایک اس سے انکار کرنے والی اور باقی کائنات سے ہٹ کر سجدہ کرنے سے سرتابی کرنے والی ہے۔ مگر وہ انسان جو اﷲ کا نافرمان اور ناشکرا ہے وہ پوری کائنات میں مختلف اور منفرد ہوتا ہے اور اس کی یہ انفرادیت اﷲ تعالیٰ کی عبادت سے بُعد اور تکبر ہے۔
لہٰذا بندے کو غور کرنا چاہیے کہ جب وہ اﷲ تعالیٰ کے لیے سجدہ کرتا ہے تو وہ اﷲ کی تسبیح و تحمید بیان کرنے والی اوراس کے آگے سجدہ ریز اس کائنات کا ایک جزو بن جاتا ہے۔ جیسا کہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے سورہ یٰسٓ میں فرمایا: وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَاط ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ (۳۶:۳۸ )’’اور سورج وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جارہا ہے۔ یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے‘‘۔ اس آیت کے معنی میں ابن کثیرؒ نے کہا ہے کہ غروب کے وقت اور اپنے ہرغروب میں آفتاب اﷲ تعالیٰ کے عرش کے آگے سجدہ کرتا ہے‘ اور اس کی تائید حضرت ابوذر ؓ کی روایت کی ہوئی بخاری کی حدیث کرتی ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سجدہ کیسے ہوتا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ وہ سجدہ زبان حال سے بھی ہے اور زبان قال سے بھی‘ یعنی علامتاً بھی اور فعلاً بھی ۔ اور اس میں کوئی تعجب ہے نہ تحیّر ‘ کیونکہ جو سجدہ بھی اﷲ تعالیٰ کو کیا جاتا ہے وہ اس کی ہیئت کو جانتا ہے‘ جب کہ ہم نہیں جانتے۔اﷲ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ (الرحمٰن۵۵:۶) ’’اور تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں‘‘۔اور اسی طرح سے اﷲ تعالیٰ سرتابی کرنے اور نافرمانوں کو اپنی ہدایت کی طرف توجہ دلاتا ہے اور ان پر حجت قائم فرماتا ہے ۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْھًا وَّظِلٰـلُھُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ (الرعد۱۳:۱۵) ’’وہ تو اﷲ ہی ہے جس کو زمین وآسمان کی ہر چیز طوعاًوکرھاً سجدہ کررہی ہے اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اس کے آگے جھکتے ہیں‘‘۔
اس آیت کے معنی یہ ہیںکہ اپنے اختیار سے سجدہ کرنے سے پہلوتہی کرنے والا شخص بھی اپنے سائے کے ساتھ اﷲ کی قدرت کے سامنے اپنی خلقت اور اپنی جبلت کے تحت بے اختیار اﷲ کی جناب میں سجدہ ریز ہوتا ہے۔ گویا پوری کی پوری کائنات اللہ کے آگے سجدہ ریز ہے۔ چنانچہ دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ انسان بھی اپنے دل اور ہیئت کے ساتھ سجدہ کرنے والا ہو۔
یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان جب سجدے کے بارے میں غور کرتا ہے تو وہ اسے ایک نعمت عظمہ پاتا ہے۔ اس پر مستزاد آیات قرآنی‘ احادیث نبویؐ اور ارشادت اسلاف ہیں۔ سجدے کی یہی وہ اہمیت ہے جو اسے تدبر اور سنجیدگی سے غوروفکر کی دعوت دیتی ہے کہ وہ اس کی حقیقت کو پانے کی کوشش کرے‘ نیزاس کا ایمانی وقلبی فہم کتنا ضروری ہے اوراس کی ادایگی پرعمل کرنے کا کیا حکم ہے؟
سعید بن جبیرؒ، جب مسروقؒؒ سے ملے توانھوں نے ان سے کہا :’’اے ابوسعید! اپنے چہروں کو خاک آلود کرنے ( سجدے )کے سوا کسی چیز سے ہمیں رغبت نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس دنیا میں ان کی سب سے بڑی خواہش اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں سجدہ ریز ہونے‘ اور اگر ان کے لیے کوئی حلاوت و لذت تھی تو وہ اس کی جناب میں عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنی جبینوں کو خاک آلود کرنے میں تھی۔
مسروق ؒ نے غایت دل چسپی کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا:’’واقعتا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہونے کے سوا کوئی ایسی چیز ہے جس کی اس دنیا میں فکر کی جائے‘‘ (نزھۃ الفضلاء تھذیب سیر اعلام النبلائ)۔ اسلاف امت کی یہ گفتگو واضح کرتی ہے کہ سجدہ کوئی معمولی عمل نہیں ہے۔ سجدہ محض انسانی اعضا کی حرکت اور زبانی دہراے جانے والے بے اثر کلمات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ جسم و روح پر اثرانداز ہونے والے اس عمل کا نام ہے جس کی تکمیل حضوری قلب‘ عجزوانکسار اور عقل و شعور کے گہرے ادراک و فہم کے ساتھ ہوتی ہے۔ لہٰذا سجدے کا مسئلہ بہت وسیع اور عمیق ہے اور ہمارے لیے اس کا بطریق احسن فہم ناگزیر ہے۔
صحیح بخاری میں وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اس ذات کی قسم‘ جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے‘ ابن مریم ؑ تمھارے درمیان حاکم عادل بن کر ضرور نازل ہوں گے ، وہ صلیب کو توڑیں گے ،خنز یر کو قتل کریںگے،جنگ کاخاتمہ کریں گے اور مال پانی کی طرح بہے گا حتیٰ کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا۔ ( اس وقت) ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا‘‘۔(کتاب احادیث الانبیائ)
حافظ ابن حجرؒ نے اس حدیث پر یہ تبصرہ کیا ہے:’’مال کی کثرت،برکات کے نزول، خیرات کی بارش، عدل گستری اور ظلم کے فقدان کی وجہ سے ہوگی۔اس وقت ز مین اپنے خزانے اگل دے گی، لوگوں میں قرب قیامت کے احساس سے مال کے حصول کی رغبت گھٹ جائے گی‘‘۔پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:یعنی لوگ اس وقت اﷲ کا قرب عبادت کے ساتھ حاصل کریں گے نہ کہ مال کے صدقے کے ساتھ۔ اور کہا جاتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ دنیا سے اپنی نظریں ہٹا لیں گے اورانھیں ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے محبوب تر ہوگا۔ پھرقرطبی ؒ کا قول نقل کیا ہے:’’حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت نماز صدقے سے افضل ہوگی‘ اس لیے کہ اس وقت مال کی کثرت ہوگی حتیٰ کہ اسے قبول کرنے والا کوئی نہ ہوگا‘‘۔ (فتح الباری ۶/۵۶۶)‘یعنی اس وقت ذرائع تقرب انفاق و صدقات نہ ہوں گے کہ انسان ان کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے بلکہ اس وقت اﷲ کے حضور میں سجدہ عظیم عبادت ہوگی اور کوئی دیگر عبادت اس کے برابر نہ ہوگی‘ حالانکہ حدیث کی رو سے صدقے سے اﷲ تعالیٰ کا غضب ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور آدمی بری موت سے بچتا ہے (سنن ترمذی کتاب الزکوٰۃ)۔چنانچہ جب یہ صدقہ منقطع ہوجائے گا تو تقرب الٰہی کا کوئی ذریعہ سجدے کے سوا باقی نہ رہے گا۔
اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ سجدہ اپنی حقیقت میں عظیم ترہے اور وہ اﷲتعالیٰ کے قرب کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ لیکن مسلمان دیگر امور میں مشغولیت کے باعث اسے بھول جاتا ہے اور دنیا میں دل چسپی اسے آخرت بھلا دیتی ہے۔اسی طرح سجدہ دوسرے اعمال‘ اگرچہ وہ نیکی کے اعمال ہوں‘کے مقابلے میں بھی عظیم تر ہے ۔ اگر کسی مسلمان کو صدقہ اور محتاج کی اعانت جیسی دیگر عبادات کی استطاعت نہ ہو تو سجدے کا حصہ نفلی عبادات کی نسبت سے اپنی اہمیت و اولیت کی وجہ سے زیادہ بڑا ہے۔
شیخ عبدالرحمن الدوسریؒ نے اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے اس ارشاد : یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ(اٰل عمرٰن۳:۴۳) ’’اے مریم‘ اپنے رب کی تابع فرمان بن کر رہ‘ اس کے آگے سربسجود ہو ‘اور جو بندے اس کے حضور جھکنے والے ہیں ان کے ساتھ توبھی جھک جا‘‘کی توضیح سجدے کی عظمت کے زمرے میں کی ہے۔ انھوں نے کہا: اس قول کی بنیاد پر کہ ’القنوت‘ کے معنی عبادت کے ہیں‘ ملائکہ حضرت مریم ؑکواولاً ہر نوع کی عبادت پر مداومت کی عمومی وصیت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ پھر ملائکہ نے انھیں عبادات میں سے افضل و اشرف عبادت‘ یعنی نماز کی ہدایت کی اور اس کی شکلوں میں سے رکوع وسجود کو ان دونوں کے شرف اور اہمیت کی بنا پر مخصوص کیا ‘ پھر سجدے کو رکوع پر مقدم کیا ۔ ا س لیے کہ بندہ اﷲ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے ۔ لہٰذا ارکان نماز میں سے افضل رکن سجدہ ہے(صفوۃ الاثار۴/۱۲۴)۔ لہٰذا جب اس معنی کے ساتھ آیت کریمہ میں سجدے کی عظمت انتہائی حد تک ثابت ہوتی ہے ‘تب وہ مخصوص ترین عبادت ہے اور نماز جو جملہ عبادات پر مقدم ہے ‘ سجدہ اس میں مقدم و معظم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں سجدے کی یہ فضیلت اس کے عظیم مرتبے کی دلیل ہے۔
فیض القدیر میں المنادیؒ کہتے ہیں:’’ یہ اس لیے کہ بندہ سجدے میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں بہ تمام و کمال عجزوانکساری کی حالت میں ہوتا ہے ۔ اور جب وہ اپنی پستی اور اپنی انتہائی احتیاج کو جان لیتا ہے تواسے یہ معرفت حاصل ہو جاتی ہے کہ اس کا رب عظیم اپنے ارادے کو نافذ کرنے پر غالب ہے‘ اور صاحب کبریا وجبروت ہے۔اس احساس کے ساتھ سجدے کا قبول کیا جانا متوقع ہے‘‘۔ (فیض القدیر ۲/۶۸‘ رقم الحدیث :۱۳۴۸)
ہر عبادت کا حاصل یہ ہے کہ انسان مقام عبودیت کو پالے‘ اپنی ذات کی حقیقت کو جان لے‘ اﷲ تعالیٰ کی عظمت کو سمجھ لے اور باور کر لے کہ وہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں فقیر ہے۔ وہ اپنے نقص کو حق تعالیٰ کے کمال مطلق کے سامنے رکھے جیسا کہ کہا جاتا ہے:’’عاجزی اختیار کی جاتی ہے تاکہ اﷲ سبحانہ تعالیٰ کی کمالِ قوت کا نظارہ کیا جائے‘ اوراس کے حضور میں اپنے فقر کو پیش کیا جائے تاکہ اس کے کمال بے نیازی کو دیکھنا ملے‘ اوراس کی جناب میں ضعف کا اظہار کیا جائے تاکہ اس کی قوت کا کمال نظر آئے۔ چنانچہ جب سجدہ بندے کی پستی اور رب کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے تو بندے کی طرف سے اپنے رب اور مولیٰ کے حضور میں اپنے فقر اور احتیاج کا اظہار بندے کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
سجدہ اﷲ تعالیٰ کے قرب کا ایک انداز ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: کَلَّاط لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ (العلق ۹۶:۱۹)’’ہرگز نہیں ‘ اس (نماز سے منع کرنے والے) کی بات نہ مانو‘اور سجدہ کرواور( اپنے رب کا ) قرب حاصل کرو‘‘۔اس آیت کریمہ میں غور کرو‘وہ اپنے اندر قلیل اور مختصر الفاظ کے باوجود حیات دنیا کی حقیقت اور انسان کے حوالے سے روح بندگی کی طرف واضح اشارہ لیے ہوئے ہے‘جب کہ یہ آیت اس شخص کے ذکر کے بعدآ رہی ہے جو اہلِ ایمان کو اﷲ کی بندگی سے روکتا ہے: اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یَنْھٰیoلا عَبْدًا اِذَا صَلّٰی (العلق ۹۶:۹-۱۰) ’’تم نے دیکھا اس شخص کو جوبندے کو منع کرتا ہے جب کہ وہ نماز پڑھتا ہو؟‘‘۔ وہ حق و باطل کی کش مکش اور اہل باطل کا اہل خیر پر عرصہء حیات تنگ کرنے کا اظہار ہے۔ اس مرحلے پر فیصلہ کن حکم صادر ہوتا ہے کَلَّا لَا تُطِعْہُ، یعنی عبادت کی مداومت اور اس کی کثرت سے روکنے والے کی بات نہ مانیے‘ اس کی پیروی نہ کیجیے‘ جہاں کہیں نماز پڑھنا چاہیں ‘ پڑھیے‘اﷲ تعالیٰ تمھارا حافظ و ناصر ہے۔وہ تمھیں لوگوں سے بچائے گا۔
اس آیت میں دشمنی و ایذا کے زبردست طوفان کے سامنے اوراس کا مقابلہ کرنے کے لیے طاقت حاصل کرنے کی کیفیت بیان کی گئی ہے اور وہ ہے سجدے کے ذریعے عبادت واستعانت کے ساتھ مربوط ہونا اوراس پر جمے رہنا ‘ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاۃِ (البقرہ۲:۱۵۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔اس آیت میں سجدے کو اس سرکشی اور باطل سے مدافعت اور اﷲ تعالیٰ کے حکم پر صبر و ثبات کا ایک وصف بنا دیا گیا ہے۔
امام مسلمؒ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ بندہ اپنے رب کے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ میں ہو ‘ لہٰذا (سجدے میں) خوب دعا کرو۔اور نبی کریمؐ کی ا س ہدایت پر بھی غور کرو جس میں آپؐ نے سجدے میں کیے جانے والے ذکر کی تعلیم دی ہے‘ ایسے موقع پر جب کہ آدمی کی پیشانی خاک آلود ہوتی ہے اور وہ پورے کا پورا ‘روح وجسم کے ساتھ اﷲ کے حضور میں جھکا ہوتا ہے‘ایسی حالت میں وہ کہتا ہے : سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی۔ جب وہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰیکہہ رہا ہوتا ہے تو اپنے آپ کو اﷲ کے قرب میں محسوس کرتا ہے۔اور یہ سجدے کی تفہیم کا بنیادی جزو ہے جو بندے کے عجز و انکسار اور رب کی عظمت اور بندے کا اپنے رب کے حضور قرب کا اہم ترین ذریعہ ہے۔
سوال یہ کہ ایسا کیوں ہے کہ سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب کے زیادہ قریب ہوتا ہے ؟
جب ہم نے یہ جان لیا کہ حیات دنیا میں صاحب ایمان انسان کے لیے اﷲ کی بندگی بلندترین درجہ ہے تو ہمارے لیے تقرب الٰہی کے لیے سجدے کے مختص ہونے کا راز آشکارا ہو گیا ۔ اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد میں غور کرو سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ َبارَکْنَا حَوْلَہ‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۱)’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی‘‘۔ یہ وہ مقام ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی معراج میں زمین سے پہلے آسمان‘ پھر دوسرے‘ پھر تیسرے ‘ پھر چوتھے حتیٰ کہ ساتویں آسمان تک تشریف لے گئے‘ اوراس مقام بلند تک رسائی حاصل کی جس تک کوئی مقرب فرشتہ اور نہ کوئی نبی مرسل ؑ پہنچ پایا تھا۔ یہ اس لیے کہ آپ ؐنے اﷲ تعالیٰ کی جناب میں عاجزی وفروتنی اور عبودیت کے اعلیٰ مقامات تک رسائی حاصل کر لی تھی اور وہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ عبادت کرنے والے تھے‘ وہ سب سے زیادہ اﷲ کی عظمت کے عارف تھے اور اﷲ کے حضور میں سب سے زیادہ اپنے فقر و ضعف کا اظہا رکرنے والے تھے۔چنانچہ آپؐ عبودیت کے ان معانی کے ساتھ متصف تھے اور یہی وہ شرف و امتیاز تھا جس کے ساتھ آپؐ اس بلندی تک پہنچے اور اﷲ تعالیٰ کے ہاں معنوی اور حسی رفعت کو حاصل کیا۔ معنوی اس طور پرکہ اﷲ تعالیٰ نے آپؐ سے فرمایا: وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ(الم نشرح۹۴:۴) ’’اور تمھاری خاطر تمھارے ذکر کا آوازہ بلند کر دیا‘‘۔لہٰذا آپ ؐ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ مذکور ہیں۔اور حسی طور پر یوں کہ آپؐ معراج کے سفر میں اس مقام بلند تک پہنچے جس کا ذکر نبیؐ کی صحیح احادیث میں وارد ہے۔
اس مرحلے پر ایک دوسرے پہلو سے بھی عبودیت کا ذکر کیا گیا ہے‘وہ یہ کہ مبالغہ کرنے والے اور حد سے بڑھ جانے والے ‘ حدِ اعتدال سے آگے نہ بڑھیں تاکہ آنحضوؐر کی عظمت وشرف کے سبب سے آپ ؐ کو حد بشریت سے نکال کر دائرہ الوہیت و معبودیت میں داخل نہ کر دیں ‘ جیساکہ سابقہ امتوںنے اپنے نبیوں ؑکے بارے میںکیا۔اس لیے آپؐ کو (عبداً) بندہ کا نام دیا گیا ہے‘ تاکہ اس بات کی تاکید ہو جائے کہ آپؐ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے بندے ہیں اور آپ ؐکو یہ رتبۂ بلند اس مقام بندگی کی وجہ سے ملا:
ومما زادني شرفاً وتیھاً
وکدت بأخمصي أطأ الثریا
دخولي تحت قولک یا عبادي
وأن صیرت أحمد لي نبیاً
اے اﷲ تو نے مجھے اپنے قول یا عبادی میں داخل فرما کر اور احمدؐ کو میرے لیے نبی بنا کر جو بڑااعزاز مجھے بخشا ہے ‘ اس پر میں فخر سے جھوم اٹھا ہوں اورقریب ہوں کہ اپنے تلووں سے ثریا کو بھی روند ڈالوں ۔
چنانچہ عبودیت وہ شرف ہے جس کے ساتھ بندہ‘ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف ارتقائی منازل طے کرتا ہے اور جب سجدہ تواضع وانکساری کی بلیغ ترین صورت ہے جو عبودیت کی روح ہے تو وہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ سے قرب کا اعلیٰ مقام ہے۔
m غرور و سرکشی کی نفی: معنوی علامات کا دوسرانکتہ یہ ہے کہ زمین کے ساتھ اتصال بندے کو اپنی ابتدا وانتہا یاد دلاتا ہے کیوں کہ انسان اپنی جبین کو خاک آلود کرتا ہے توا سے یاد آتا ہے کہ یہ اس کی پیدایش کی اصل خاک ہے اور وہ اسی خاک میں لوٹنے والا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے اسے ابتداً مٹی سے پیدا فرمایا اور قیامت کے دن اسے جزا و سزا کے لیے اسی مٹی سے اٹھائے گا۔ اور یہ معنی بلیغ ترین صور ت میں سجدے کی حالت میں اجاگر ہوتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ نیند کی حالت میں انسان زمین کے ساتھ زیادہ جڑا ہوتا ہے‘ لیکن یہ اتصال اس ہوشمند اور عاقل شخص کا نہیں ہوتا جو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ‘ اپنی عقل سے سمجھتا ہے اور اپنی زبان سے کلام کرتا ہے اور اس کیفیت میں ہوتا ہے جو مطلوب ہوتی ہے جس کا ذکر بعد میں آئے گا۔ جب یہ معنی سجدے میں ایک شکل اختیار کرلیتے ہیں توانسان کو اس کی اپنی اور اپنی نہایت کی حقیقت یاد دلادیتے ہیں۔ یہ کیفیت ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور بندے کو آخرت اور اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہونے اور اپنے عاجز ہونے کی یاد دلاتی رہتی ہے‘جس سے وہ اﷲ تعالیٰ کے مقام ِقرب سے زیادہ قریب ہو جاتا ہے ۔ خاک جو بندے کی پیدایش کی اصل ہے‘ کے ذریعے تذکیر اس کے لیے تواضع اورانکساری کا باعث بنتی ہے۔
وہ جس کی چال متکبرانہ ہے اور زمین پر اکڑ اکڑ کر چلتا ہے‘ اسے چاہیے کہ پاؤں آہستہ رکھے کیونکہ وہ خود بھی مٹی سے بنا ہے کل مٹی ہو جائے گا اور قدموں سے پامال کیا جائے گا۔ انسان بندگی کی حقیقت سے پہلوتہی تب ہی کرتا ہے جب وہ اپنی ابتداو انتہا کی حقیقت سے غافل ہو جاتا ہے۔ اسی لیے مطرف بن الشخیرؒ متکبرین و متفخرین کے بارے میں فرمایا کرتے تھے: اے ابن آدم تو اپنی ابتدا میں پانی کا ایک ناپاک قطرہ ہی تھا اور اپنی انتہا پر ایک غلیظ مردہ ہوگا‘ اور اس دوران تو گناہوں کا بوجھ اٹھائے پھرتا ہے۔ (احیاء علوم الدین ۳/۳۴۰)
انسان تب ہی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہوتا ہے اور سرکشی کا راستہ اختیار کرتا ہے جب اس حقیقت سے غافل ہو جاتا ہے۔ اور سجدہ اس زمین اور اس خا ک میں مل جانے کی بڑی بلیغ یاددہانی ہے جو ان تمام معانی کی یاد دلاتا ہے اور ان تمام اثرات کو یقینی بناتا ہے۔
جب سجدہ کرنے والا اس ہیئت میں ہوتا ہے‘ جب کہ وہ اﷲ کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے اور اپنے ربِّ اعلیٰ کے نام کی تسبیح کر رہا ہوتا ہے تواس کے ہاں یہ دونوں اُمور‘ دنیا کی زوال پذیری کی معرفت اور عبودیت کی عظمت کا ادراک جمع ہو جاتے ہیں اور وہ جان لیتا ہے کہ اس کے لیے مناسب نہیں کہ دنیا کی حیثیت کو اس حیثیت سے زیادہ بڑھائے جو اس نے سجدہ میں دیکھی ہے۔ اور اس وقت اس کا دل دنیا کی زیب و زینت کی طرف راغب نہیں ہوتا اور نہ اس کی چمک ہی ‘اس کی بصارت و بصیرت کو اچک لیتی ہے کہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی بندگی کی حقیقت سے منہ موڑ لے۔
سجدے کی ہیئت انسان کو یہ شعور دلاتی ہے کہ دنیا وہ نہیں ہے جس طرح کہ وہ چاہتا ہے اور نہ اُس طرح ہی ہے جس طرح شیطان اسے مزین کرکے دکھاتا ہے کہ اس میں ایسا اور ایسا سامان زیست ‘ عمدہ چیزیں ‘ لذتیں اور مرغوبات ہیں جو اس بات کی مستحق ہیں کہ انسان ان کے لیے اپنا وقت اور اپنی مساعی صرف کرے اور ان کی فکر میں گھلتا رہے۔ سجدہ اس زعم باطل کا ازالہ کر دیتا ہے اور جو کچھ اﷲ تعالیٰ کے پاس اعلیٰ علییّن میں ہے مسلمان کو اس کے ساتھ مربوط کر دیتا ہے۔ نتیجتاً وہ دنیا پرستی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اوراس سے اپنی نظروں کو ہٹا لیتا ہے ۔ جب بندۂ مومن اس حقیقت کو اپنے ذہن میں تازہ کرتا ہے تو وہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے۔
جب بندہ دنیا کے سحر اوراس کی محبت سے آزاد ہو گیا ‘ اور اس سے امید ‘ اس کے خوف اوراس کے نفع ونقصان سے بے نیاز ہو گیا تواس نے کمال بندگی حاصل کر لیا۔ اسے معلوم ہو گیا کہ اس کا انحصار صرف اﷲ پر ہے اور اسے یقین ہو گیا کہ وہ اﷲ سے بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتا‘ اور وہی اس کی امیدوں کا مرکز ہے ‘ جیسا کہ اس کا فرمان ہے: فَفِرُّوْا اِلَی اﷲِ (الذّٰریٰت ۴۹:۵۰) ’’پس دوڑو اﷲ کی طرف‘‘۔ یہ توایک معروف حقیقت ہے کہ ہر چیز جس سے وہ خوفزدہ ہوتی ہے اس سے گریزاں رہتی ہے سوائے اﷲ تعالیٰ کی جانب کے کہ جب کوئی چیز ا س سے خوفزدہ ہوتی ہے تواسی کی طرف دوڑ کر جاتی ہے ‘اور یہی تعلیم نبی کریمؐ نے دی ہے۔ اـ ـسی لیے سجدہ قرب کا موقع ہوتا ہے کیوںکہ اس میں اﷲ کی طرف یکسوئی اپنے کمال پر ہوتی ہے۔
m عاجزی و فقیری:پانچواں نکتہ یہ کہ سجدے میں انسانی جسم کے بڑے بڑے اعضا شریک ہوتے ہیں۔ انسان جب وقوف یا رکوع میں ہوتا ہے توا پنے بعض اعضا سے کام لیتا ہے‘لیکن جب وہ سجدہ میں ہوتا ہے تو وہ اپنے دونوں ہاتھوں‘ دونوں پاؤں ‘ دونوں گھٹنوں ‘ ناک اور پیشانی کے ساتھ زمین پر ہوتا ہے۔یہ سب کچھ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ پورے کا پورا اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ہے اور یہ بھی کہ اس کے سارے حواس اﷲ کی ہدایت کے مطابق استعمال ہورہے ہیں۔
پس اس کی آنکھیں‘ اس کے ہاتھ‘ اس کے پاؤں اور اس کی ہر چیز اسے یاد دلاتی ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کا عاجز اور فقیر بندہ ہے‘ لہٰذا مناسب نہیں کہ وہ اﷲ تعالیٰ کو سجدہ کرے اور پھر اپنی آنکھوں اور ہاتھوں سے اللہ کی نافرمانی کرے یا قدموں کے ساتھ منکرات کی طرف چل کر جائے۔اسی طرح اس کے لیے یہ بھی مناسب نہیں کہ شہوات اور لذات کے سامنے سرنگوں ہو جائے ۔ یہ معنی ہیں سجدے کے ‘ اس شخص کے لیے جو اسے سمجھنے کے لیے اس پر غوروفکر کرتا ہے اور یہ کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی بندگی و فرمانبرداری کا زیادہ سے زیادہ حریص ہو اوراس کی نافرمانی سے زیادہ سے زیادہ بچنے والا ہو۔ یہ بندے کے لیے اس کے رب اور مولا سے قرب کے اسباب ہیں۔
m معراجِ بندگی:چھٹا نکتہ یہ ہے کہ سجدہ انسان اور شیطان کے درمیان تفریق کرتا ہے ۔ وہ شیطان کے لیے محرومی اور دوری کا سبب ہے‘ اس لیے کہ اس کو سجدے کا حکم دیا گیا مگر اس نے انکار کر دیا ۔ چنانچہ وہ انکاراس پر تاقیام قیامت لعنت کا سبب بن گیا۔ پھر آخرت میں اس کے لیے عذاب ہے۔ لیکن جو جھکتا ہے اور اﷲ کے حکم کی تعمیل میں سجدہ کرتا ہے‘ وہ اپنی عبودیت کا ثبوت دیتا ہے اور شیطان سے دشمنی کا اعلان کرتا ہے۔ شیطان کو سجدے سے انکار پر دھتکارا گیا اور اﷲ کی رحمت سے دور کر دیا گیا۔ لیکن تیرا معاملہ اس کے برعکس ہے‘ تو سجدہ کرتا ہے تو اﷲ کے قرب اور اس کی رحمت کے سایے میں ہوتا ہے ۔
سجدے کے ساتھ جہاں انسان دنیا اور اس کے فتنے ‘ لوگوں کی طرف مائل ہونے اور ان پر بھروسا کرنے سے بے نیازہو جاتا ہے وہیں اس کے اعضا اور ان کے اعمال کو اﷲ کی رضا وخوشنودی کے خلاف استعمال ہونے سے آزادی مل جاتی ہے۔ وہ شیطان کی گمراہ کن راہوں اور اس کی دھوکا دہ چالوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس کے اور شیطان لعین کے مابین دوریاں اور فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ اس نے اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے انکار کیا مگر یہ اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا اعلان کرتا ہے ۔ چنانچہ اس طرح اسے فلاح کے کتنے اسباب میسر ہو گئے اور ایمان میں اضافے اور اﷲ کی رضا کے کتنے ہی اسباب ہاتھ آگئے۔بے شک ہم نے اس حقیقت کو پالیا کہ سجدہ بندے کا سب سے اونچا مقام اور قرب الٰہی کی بلیغ ترین صورت ہے۔
m آخرت کی یاد: ساتواں نکتہ دنیا اورآخرت کے سجدے کی یاددہانی ہے اور وہ سجدے کرنے والے مومن اور انکار کرنے والے کافر کے درمیان فرق ہے۔ بندہء مومن کو دنیا میں سجدے کے لیے بلایا گیا تواس نے سجدہ کیا اور کافروں کو بلایا گیا تو انھوں نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔چنانچہ وہ قیامت کے دن سجدہ کرنے کی تمنا کریں گے مگر وہ اس سے روک دیے جائیں گے‘سجدہ کرنے کے ارادے اور اس کی رغبت کے باوجود ایسا نہ کر سکیں گے۔ ان کی پیٹھیں تختہ ہو جائیں گی اور ان میں سے ایک بھی اس قابل نہ ہوگا کہ اپنی کمر کو خم کرکے سجدہ کر لے۔مفسرین نے اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد سے یہی معنی لیے ہیں: یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَـلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ (القلم ۶۸:۴۲) ’’جس روز سخت وقت آپڑے گا اور لوگوں کو سجدہ کرنے کے لیے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کر سکیں گے‘‘،یعنی ان کے اور ان کے ارادے کے مابین رکاوٹ پیدا کر دی جائے گی۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب حقیقت کو منکشف فرمائے گا تو سب مومن مرد اور عورتیں سجدے میں گرجائیں گے لیکن جو کہ دنیا میں دکھاوے اور شہرت کے لیے سجدہ کرتا تھا ‘ وہ باقی رہ جائے گا۔ وہ چاہے گاکہ سجدہ کرے مگر اس کی پیٹھ ایک ہی طبق بن جائے گی۔بندہ مومن کو جب اس مقام کا خیال آتا ہے تو سجدے کی طرف مسابقت اسے اُس سخت مقام اور ہولناک موقع سے نجات و خلاصی دکھائی دیتی ہے اور وہ اسے رب عظیم کے تقرب اور دردناک عذاب سے بچاؤ کی ایک صورت دکھائی دیتی ہے۔اس لیے سجدہ کرنے والا اﷲ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ سجدہ جو دنیا میں سب سے بڑی عبادت اور قرب ِالٰہی کا باعث ہے وہ ان لوگوں کے لیے‘ جنھوں نے دنیا میں سجدہ کرنے سے پہلوتہی کی ‘ بڑے بنے رہے‘ سجدہ نہیں کیا اور اﷲ کے حضور میں نہیں جھکے‘ قیامت کے روز حسرت وندامت کے ساتھ مصیبت زدہ ‘ جھکی ہوئی گردنوں اور ذلیل چہروں کے ساتھ ہوں گے اور یہ رسوائی کے ساتھ عذاب کی ایک بہت بڑی صورت ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے ابلیس اوراس کے ساتھیوں کے عذاب کی کیفیت کے سیاق میں ارشاد فرمایا: فَکُبْکِبُوْا فِیْھَا ھُمْ وَالْغَاو‘نَ (الشعرائ: ۲۶:۹۴) ’’پھر وہ معبود اور یہ بہکے ہوئے لوگ اور ابلیس کے لشکر سب کے سب اس(جہنم) میں اوپر تلے دھکیل دیے جائیں گے‘‘۔اور ایسا ہی اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا قول ہے: فَکُبَّتْ وَجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ (النمل ۲۷:۹۰ )’’ایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں پھینکے جائیں گے‘‘۔اور ایسا ہی حضرت ـمعاذؓ کی حدیث سے مترشح ہوتا ہے۔ جب نبیؐ نے ان سے کہا:یعنی اے معاذ ‘ تمھاری ماں تجھے گم کرے ‘کیا لوگ اپنی زبانوں کے غلط استعمال کے نتائج کے علاوہ بھی کسی وجہ سے جہنم میں اوندھے منہ گرائے جائیں گے؟(سنن الترمذی کتاب الایمان)
عذاب کی شدید ترین صورت مشقت اور اہانت کے لحاظ سے یہ ہے کہ منکر کو منہ کے بل آگ میں پھینکا جائے ‘ اس لیے کہ اس نے بندگی سے انکار کیا تھا۔ لیکن سجدہ کرنے والا جس نے دنیا کے اندر اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں اس کی عظمت کے اعتراف کے ساتھ ‘ اس سے خیر کا سوال کرتے ہوئے اوراس کے عذاب سے بچنے کے لیے عاجزی اور انکساری اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو منہ کے بل گرایا تھا وہ اس عذاب سے نجات پا جائے گا۔سجدے کی اس حقیقت کے استحضار کے ساتھ مسلمان کو یہ ادراک حاصل ہو جاتا ہے کہ سجدہ نجات اور بچاؤ کا سبب ہے اور بندے کے لیے رفعت اور اﷲ تعالیٰ سے قرب کا ذریعہ۔
لہٰذا سجدہ (جو مقام قرب ہے ) پر غور کرنے والے شخص کو چاہیے کہ اس حقیقت کو فراموش نہ کرے۔ ان جملہ معانی کو جب بندہ مومن اپنے دل میں اپنے رب کی تسبیح کے ساتھ تازہ رکھتا ہے تووہ خالص عبودیت کی معراج پر ہوتا ہے۔ بلاشبہہ وہ نماز کے دوران دعا کے لیے سب سے بڑا موقع ہوتا ہے کیوں کہ وہ مقام قرب ہے۔اور یہ تو ایک حقیقت ہے کہ جب تم سربسجود ہو کر اﷲ کے قریب ہوتے ہوتواس کے حضور میں عجز و انکساری کے ساتھ اپنا سوال پیش کرنے کے اہل ہوتے ہو۔ تم اپنے اوپراﷲ کے فضل کو یاد کر رہے ہوتے ہو اور تمھیں اپنی فنا اور انتہا یاد آ رہی ہوتی ہے‘ اس حال میں کہ دنیا تمھاری نظروں سے اوجھل ہوتی ہے اور تم لوگوں سے بے تعلق ہوتے ہو اور تمھارے اعضا و حواس صرف اﷲ کی بندگی کے لیے مخصوص ہوتے ہیں اور تمھارا راستہ شیطان کی راہ سے الگ ہوتا ہے۔ پھر تمھاری نظر اﷲ کی جزاوسزاکی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔
سجدے میں دعا کی کثرت مستحب ہے جیسا کہ ہم نے قرب کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اس کا ذکرکیا ہے اور یہ کہ نبیؐ کی نماز میں دعا زیادہ تر سجدے کی حالت میں بیان ہوئی ہے۔ ابن قیم ؒ نے کہا ہے:’’نماز میں دعا کے سات مواقع ہیں اور ان میں سے اہم ترین سجدے کامقام ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی کثرت سجدے میں ہوتی۔(زاد المعاد ۱/۲۵۶)
سجدہ دعا کے لیے مختص ہے جس کے ساتھ وہ نماز میں دیگر مواقع اور شکلوں سے ممیز ہے اور اسی بارے میں صحیح حدیث میں وارد ہے :اے لوگو‘ مبشرات نبوت میں سے صرف سچا خواب باقی ہے جسے کوئی مسلمان دیکھے یا اس کے لیے دِکھایا جائے۔ سنو ‘ مجھے رکوع وسجود کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ رکوع میں اپنے رب تعالیٰ کی عظمت بیان کرو اور سجدے میں خوب دعا کرو او ر وہ اس لائق ہے کہ اسے قبول کیا جائے(مسلم)‘ یعنی سجدہ قبولیت دعا کا اہم ذریعہ ہے۔
سجدے میں گریہ وزاری‘ تاثر اور انفعال کی کمال صورتوں میں سے ہے۔ نماز میں مسلمان کا رونا زیادہ تر دو مقامات پر ہوتا ہے :قیام میں اور سجدے میں۔
قیام میں جب وہ قرآن کریم کی آیات پڑھتا یا سنتا ہے جس میں وعدہ ہوتا ہے‘وعید ہوتی ہے‘ جنت اور جہنم کا ذکر ہوتا ہے توا ﷲ کے جلال سے اس کا دل مرعوب ہو جاتا ہے اور اس کی آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں اور سجدے کا موقع اسے یاد دلاتا ہے کہ وہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور میں گرا پڑا ہے ‘ نیز وہ اسے اس کے ضعف اور رب ذوالجلال کی جناب میں اپنی تقصیر کو یاد دلاتا ہے۔ اسی لیے رونے کا ذکر سجدے کے ساتھ آیا ہے: اِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُکِیًّا (مریم۱۹:۵۸)’’ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمن کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے‘‘۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَیَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُوْنَ وَیَزِیْدُھُمْ خُشُوْعًا (بنی اسرائیل ۱۷:۱۰۹)’’ اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے‘‘۔
پھر ان کی زبان اﷲ کی عظمت اور اس کے وعدہ کی سچائی کے ساتھ ہلنے لگ جاتی ہیں۔ وہ پکار اٹھتے ہیں: سُبْحَانَ رَبِّنَآ اِنْ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا’’پاک ہے ہمارا رب ‘ اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا‘‘ اوراس کے ساتھ ان کے سینوں میں جو جذبات ابھرتے ہیں الفاظ ان کی تصویرکشی کرنے سے قاصر ہیں۔ اور آنسواس ناقابل بیان مخفی تاثیر کی تعبیر بن کر ان کی آنکھوں سے ٹپکنے لگتے ہیں۔ پس سجدے میں خشوع کامل کی تعریف یہ ہے کہ اس میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور میں عجز و انکساری اور گریہ و زاری بتمام و کمال جمع ہو جاتی ہیں۔
کمال سجدہ کے لوازم میں سے ہے کہ بندہ خوف و رجا کے درمیان متغیر رہتا ہے جب وہ اﷲ کے حکم کی تعمیل میں سجدہ کرتا ہے اور ابلیس کی مشابہت کی مخالفت کرتا ہے جس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا‘ اور وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہوتا جو سجدہ کرنے سے مجتنب رہتے ہیں۔ لہٰذا وہ امید رکھتا ہے کہ اس کا سجدہ اﷲ کی رضا کے حصول اوراس کی دعا کی قبولیت کا باعث بن جائے گا۔ لیکن جس وقت اسے ابلیس کے لیے لعنت یاد آتی ہے اور اسے وہ موقع یاد آ جاتا ہے جب آخرت میں کافروں کو سجدہ کرنے کی قدرت حاصل نہ ہوگی۔ نیزاسے ابلیس اوراس کے پیروکار بلکہ اور بھی بعض گناہگاروں کے اوندھے منہ جہنم میں پھینکے جانے کا خیال آتا ہے تو وہ اپنے رب کے غضب سے کانپ اٹھتا ہے ا ور اس کے عذاب سے خوف زدہ ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ ہمیں آیات قرآنی میں سجدے اور امید و بیم کے درمیان یہ ربط نظر آتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِھَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَ ھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ (السجدۃ۳۲:۱۵) ’’ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنھیں یہ آیات سنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ ایمان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں‘ اپنے رب کو خوف اور طمع سے پکارتے ہیں‘اور رحمن کے بندوں کی تعریف ہی یہ کی گئی ہے کہ وہ اپنے رب کے حضورسجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں‘ جو دعائیں کرتے ہیں: اے ہمارے رب‘ جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے ‘ اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے۔
یہ سب مفاہیم اہلِ ایمان کو اﷲ تعالیٰ کے پسندیدہ مقام تک رسائی دلاتے ہیں اور وہ اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کے سزاوار ہو جاتے ہو۔اسی لیے تو اﷲ سبحانہ وتعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ اس کے بندے زیادہ سے زیادہ اس کی بندگی کریں‘اس کے حضور میں اپنی عاجزی‘ زاری و انکساری کا اظہار کریں‘ اپنی احتیاج کو پیش کریں اور اپنے دست سوال کو اس کے حضور میں پھیلائے رکھیں۔ یہی قربِ الٰہی ہے‘ یہی معراج بندگی ہے اور یہی حقیقتِ سجدہ ہے!