اقبال ظفر


مدّوجزر اسلام جسے عرفِ عام میں مسدّس حالی  کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، خواجہ الطاف حسین حالی [۱۸۳۷ء-۱۹۱۴ء]کی وہ طویل نظم ہے، جس کا پہلا حصہ ۱۸۷۹ء اور دوسرا ۱۸۸۶ء میں شائع ہوا تھا۔ اس میں مسدس کے ساڑھے چار سو سے زائد بند ہیں۔ یہ طویل نظم خواجہ صاحب کی صلاحیتِ شعرگوئی کی شہادت بھی ہے، ان کے دل کی دھڑکنوں کا نغمہ بھی ہے، اور اس کے توسط سے مسلمانوں کی عظمت و شوکت کا قصیدہ بھی ہے، اور مسلمانوں کی پستی و ضلالت کا مرثیہ بھی، اور ان تغیرات کی طرف واضح اشارہ بھی۔ نظم میں شاعرانہ تکلفات سے قطعاً کام نہیں لیا گیا۔

جنابِ حالی نے نظیر اکبرآبادی [م:اگست ۱۸۳۰ء]کے سے ہلکے پھلکے، رواں دواں انداز میں حالات کو جوں کا توں بیان کردیا ہے۔ نہ فلسفہ ہے نہ تصوف، نہ وصال کی پیش دستی، نہ ہجر کی رقت اور زبان سادہ و عام فہم ہے۔ اندازِ شعر ہرقسم کے مصنوعی پن سے پاک ہے۔ کہیں کہیں الفاظ، بندش کی سُستی اور غیرضروری تعقید سے بوجھل بھی ہیں۔ کئی جگہ اجنبی الفاظ کے استعمال سے لہجے کی روانی ٹوٹ جاتی ہے، مگر جب خیال کے جوہر اپنی چمک دکھانے لگتے ہیں تو ہرآواز میں بازگشت کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

یہ نظم کا خاکہ ہے، اصل نہیں۔ مسدّس کی روح تک پہنچنے کے لیے اس سوال کا جواب ڈھونڈنا پڑے گا کہ ’’آخر حالی نے یہ نظم کیوں لکھی؟ بزمِ سخن میں موہوم دھڑکنوں کی نغمہ سرائی کرتے کرتے اچانک ان کو ٹوٹے ہوئے دلوں کی دھڑکنوں کا حساب کرنے کا خیال کیسے آیا؟ وقت کے کینوس پر وہ کون سی تصویریں تھیں ، جن کے خط وخال تلاش کرتے ہوئے حالی مسدّس لکھ بیٹھے؟‘‘ اس کے لیے جناب الطاف کے عہد کے مروجہ رجحانات اور اس پر چوٹ کرنے والے عناصر کی نشان دہی کرتے ہوئے، مصنف کے ذہن پر اُن اثرات کی پرچھائیاں تلاش کرنی ہوں گی، جو اس نظم کو وجود میں لانے کا باعث ہوئے کہ اس کے بغیر نہ حالی کو سمجھا جاسکتا ہے، نہ ان کی اس عظیم الشان نظم کو!

درّئہ خیبر سے بحرعرب کے ساحل تک کسی ایمان والے کے پہلے قدم سے آج تک، ہندستان کی سرزمین پر گزرنے والے واقعات کی بازگشت اگر سنی جاسکے تو یہ زمین انقلابات کی آماج گاہ کہلائے گی۔ تاریخ کے اس وسیع و عریض کینوس پر لحظہ بہ لحظہ بدلتی ہوئی زندگی، اور اس کی قدروں کے درمیان، انقلابات کے باوجود، توازن کی حالت قائم رہی۔ جب تک ملّت کے افراد میں قوتِ احتساب اور حرکت باقی رہی ،ہرتغیر، کم نقصانات کےساتھ زیادہ فائدے دے گیا۔

تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں: علاء الدین خلجی [م:جنوری ۱۳۱۶ء] کے عزائم نے بہکنا چاہا تو اس کی فکر کی جولانیوں کو نئے میدان دیے گئے اور زمین کا پہلازرعی بندوبست ہوا۔ ایک نئی زبان ایجاد ہوئی، تیز رفتاری سے خبررسانی کا کام لیا گیا۔ سلطان محمد بن تغلق [م: مارچ ۱۳۵۱ء]نے دلّی کی آبادی کو دولت آباد منتقل کیا تو دکن کی سنگلاخ چٹانیں علم و فن کی گلکاریوں سے سرسبز ہوئیں۔ ظہیرالدین بابر [م: دسمبر ۱۵۳۰ء] مَے کے خم لنڈھاتا ہوا آیا اور اسے توبہ کرنی پڑی۔ اکبر [م: اکتوبر۱۶۰۵ء]نے ’دین الٰہی‘ کے نام سے فکر اسلامی کے سامنے ایک چیلنج پیش کیا، تو شیخ احمد سرہندی [م:دسمبر۱۶۲۴ء]کا ردعمل اتنا فوری اور اتنا متوازن تھا کہ اکبر کی سانسیں ابھی باقی ہی تھیں کہ ’دین الٰہی‘ کا خاتمہ ہوگیا، یہاں تک کہ خود اکبر بھی اس سے تائب ہوا۔

یہ سب نتیجہ تھا زندگی کے تحریکی شعور سے وابستگی کا، جس نے علم و عمل میں حرکت کو مقدم رکھا تھا۔ لیکن اٹھارھویں صدی کی آمد سے اورنگزیب عالم گیر [م:مارچ ۱۷۰۷ء]کی وفات کےساتھ انتشار کا جو دور شروع ہوا تھا، اس نے بڑھتے بڑھتے جمود کی شکل اختیار کرلی۔ تاہم، احمد شاہ ابدالی [م: اکتوبر ۱۷۷۳ء] کی بروقت مدد، سیّداحمد شہید بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید دہلوی [م:مئی ۱۸۳۱ء] کی تحریک احیائے اسلام اپنی تمام قوت، خلوص اور جانفشانی کے باوجود ہند کے وسیع کینوس پر بہتری کی کوئی شکل و صورت نہ پیدا کرسکی۔

اٹھارھویں صدی کی آمد جس زوال کی ابتدا تھی، ۱۸۵۷ء کا انقلاب اس کی انتہا ثابت ہوا۔ وقت کی پیشانی پر لکھی ہوئی وہ سب عبارتیں اگر پڑھی جاسکیں، تو ان میں وہ تمام معرکے درج ہیں، جن کی ابتدا آزادی کے متوالوں کی سرفروشی سے شروع ہوکر بہادرشاہ ظفر [م:نومبر۱۸۶۲ء] کی گرفتاری و جلاوطنی، اور اس کی انتہا ذہن و دل کے تمام دروازوں پر کڑی پہرے داری اور فکرو تہذیب، زبان و ادب کے تمام مندرجات پر سوالیہ نشان لگانے سے ہوئی۔ یہ حملہ اچانک نہ تھا، نہ اس میں بہکے ہوئے قدموں کی کوئی آہٹ تھی اور نہ فکروعمل میں کوئی اُلجھائو۔ یہ انتہائی منظم، دھیمی لیکن بے حد گہری سازش کا نتیجہ تھا کہ ردعمل کو عمل کے لیے زمین تلاش کرنے اور پھر اپنی راہ نکالنے میں خاصا وقت لگا کہ جذبوں کے لیے ذہن و دل کے سوا اور کہیں جائے پناہ نہ تھی۔ کسی صف میں کہیں کوئی صورت شناسا نہ تھی۔ چہرے، لباس، زبان، حتیٰ کہ گالیاں تک اجنبی تھیں۔

لیکن ۱۸۵۷ء کا یہی اُفق اسلامی زندگی کا وہ عجیب نقطۂ اتصال ہے، جہاں خواب و بیداری ایک ساتھ ملتے ہیں۔ یہ غفلت کی انتہا بھی ہے اور ہوش کی ابتدا بھی، جہاں زندگی اپنی جدلیاتی قوتوں کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے خود اپنے تضادات سے لوازمہ حاصل کرتی ہے۔ زندگی کی نامیاتی قوت ایک جہت کی کمی کو دوسری بہت سی جہتوں میں پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہی اسلامی نشاتِ ثانیہ کی وہ ابتدا ہے، جس کی رفتار سُست اور راہیں گردِ کاررواں سے محروم ہی سہی، لیکن دھیمے دھیمے قدموں کی چاپ سے یقینا محروم نہیں تھیں۔ قدموں کو رفتار کے لیے سمت کی تلاش تھی، اور سمت ابھی موہوم تھی، دلوں میں خوف بھی تھا اور تذبذب بھی۔ جن آنکھوں نے اپنوں کو بیگانہ بنتے دیکھا تھا، وہ ہراپنے کو چھلاوہ سمجھنے پر مصر تھیں۔

 جاگیردارانہ نظام کے شیدائی، دہلی مرحوم کا مرثیہ پڑھتے ہوئے نئی انگریزی حکومت کی عطا کردہ رعایتوں کی ریت میں سر چھپا چکے تھے۔ دل زخمی تھے لیکن سر بچ جانے کا شکر ادا کرتے ہوئے مال گزاری، طوائف، شطرنج، پرندوں کے شکار، مرغوں اور بٹیروں کی لڑائیوں، غرض کسی نہ کسی گوشۂ فرار میں پناہ لےچکے تھے۔ اہلِ علم اپنے محدود علم پرتکیہ کیے مابعد الطبیعاتی فلسفوں کی بحثوں میں اُلجھے اسی کو علم و دانش کی انتہا سمجھ بیٹھے تھے۔ خانقاہیں مجاوروں کا اکھاڑہ تھیں۔ شاعر اپنے تصوراتی عشق کی قافیہ پیمائیوں سے کچھ ذرا مہلت پاتے تو تصوف کی نکتہ دانیوں کے طول و عرض کی پیمایش میں مصروف ہوجاتے۔ گویا زندگی سے فرار ہی جینے کا واحد سہارا تھا۔

 لیکن وہ لوگ جنھوں نے بدلے ہوئے حالات کو سمجھنے کی کوشش کی تھی، وہ اپنی فردوس گم شدہ کی تلاش میں نئے راستوں کے متلاشی تھے۔ حکومت ختم ہوچکی تھی اور اس کی واپسی کی سردست کوئی صورت نہ تھی۔ نئی راہیں کھولنی تھیں یا ان راہوں کو پھر ڈھونڈنا تھا، جو نقش پا سے محروم ہوتے ہوئے اپنا سراغ کھو چکی تھیں۔

اس کش مکش نے تلاش و جستجو کے جذبے کو نئی زندگی دی کہ ’’محکومیت میں عزّت و وقار کس طور پر ممکن ہے؟‘‘ یہ وہ سوال تھا جس کی گونج ہرذہن میں تھی اور اس کا جواب ضروری تھا، ورنہ بے یقینی کی یہ کیفیت بے دلی اور بے حوصلگی میں مزید اضافہ کرسکتی تھی۔ قوم جبلّی سطح پر توجیتی رہتی، لیکن انسانی اور جذباتی سطح پر جینے سے بہت جلد محروم ہوجاتی۔ خیال پیدا ہوجائے تو اسے متحرک ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ دارالعلوم دیوبند[۱۸۶۶ء]،علی گڑھ تحریک[۱۸۷۵ء]، ’آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس‘ [۱۸۸۶ء]،  انجمن حمایت اسلام لاہور [۱۸۸۴ء]، دارالعلوم ندوۃ العلما [۱۸۹۸ء]، غرض مختلف عنوانوں سے اصلاح کا کام شروع ہوا۔ سرسیّد احمد خاں [م:مارچ ۱۸۹۸ء] نے انگریزی تعلیم کا بگل بجایا۔ شبلی نعمانی [م: نومبر۱۹۱۴ء]نے ’محکومیت میں زندگی کیوں کر بسر ہو؟‘ غیرقوموں کی مشابہت جیسے عنوانات پر مضامین لکھے۔ مسجدوں میں تقریریں ہوئیں، مدرسوں کی بنیاد ڈالی گئی۔ اُٹھتے ہوئے قدموں کو سمت ملی تو زندگی نے اپنی رفتار تیز کردی۔

خواجہ الطاف حسین اسی پُرآشوب دور میں ۱۸۳۷ء میں پیدا ہوئے۔ جب ان کی آنکھوں نے دیکھنا سیکھا تو ان کے سامنے کھلتی ہوئی کلیوں کی شبنمی پنکھڑیاں نہ تھیں، گزرتی ہوئی بہاروں کا غبار تھا۔ ان کے دامن سے جس حالی نے جنم لیا، اس کے خمیر میں سعدی کا سرور نہیں غالب کی فکر، شیفتہ کی سادگی و سلاست، آزاد کی جدت اور علم کا شوق شامل ہوا۔ اس مرکب نے جب سرسیّد کی تحریک سے جلاپائی تو ملّت کو ایک ہمدرد اور اُردو کو وہ قیمتی ہیرا مل گیا، جس کے ذکرکے بغیر نہ سوانح نگاری کی تاریخ مکمل ہوسکتی ہے، نہ اُردو تنقید کی۔

میرزا اسداللہ خاں غالب [م: ۱۸۶۹ء] نے ان کے متعلق کہا تھا: ’’اگر تم شعر نہ کہو گے تو اپنے آپ پر ظلم کرو گے‘‘۔ اگر حالی شعر نہ کہتے تو اُردو پر بھی ظلم ہوتا۔ غالب نے ذہن رسا پایا تھا، وہ ۱۸۵۷ء کے انقلاب سے پہلے اس کی دستک سن چکے تھے، لیکن ان کےسامنے کوئی مشن نہ تھا۔ انھوں نے اپنی شاعری اور خطوط کے ذریعے زندگی کے مروجہ رجحانات اور اس کی بدلتی ہوئی قدروں سے متعلق اشارے کیے تھے اور سوال اُٹھائے تھے، مگر حالی کے سامنے ایک مشن تھا۔ انھوں نے غالب کے اشاروں کو سمجھا اور ان کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ انھوں نے تاریخ سے سند لی اور ان عوامل کی تشریح کی، جو گذشتہ عظمتوں کا باعث ہوئے تھے۔ اُن خامیوں کو اُجاگر کیا، جو موجودہ تنزل کا سبب تھیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اُن راہوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی، جو کھو چکی تھیں۔ حالی، قدیم و جدید کے درمیان کی انتہائی اہم کڑی ہیں۔ یہ کہنے کی جسارت کی جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ اگر حالی نہ ہوتے تو اقبال کو اقبال بننا محال ہوتا اور اُردو والوں کی غالب شناسی کے پہلے محرک حالی ہیں اور اقبال فکری عظمت کا ہمالہ ۔

حالی بیس برس کی عمر سے شعر کہہ رہے تھے، لیکن اپنی شاعری سے مطمئن نہ تھے۔ اسی عالم میں سرسیّد نے قوم کو بیدارکرنے کے لیے نظم کی فرمایش کی، تو حالی کی فکر کو مقصد مل گیا۔ مسدس کے پیرائے میں لفظوں کا ایک آئینہ بنایا اور ملّت کو ترغیب دی کہ اس میں اپنی تصویر دیکھو، اور آپ اپنا محاسبہ کرو کہ اس کے بغیر نہ عیبوں پر نظر جائے گی، نہ درستی کی خواہش پیدا ہوگی۔

مسدّس کا موضوع بارہ صدیوں پر محیط وہ داستان ہے، جو اپنے آپ میں سادہ بھی ہے، رنگین بھی اور اتنی دلچسپ بھی کہ زیب داستاں کے لیے لفظوں میں تراشے ہوئے کسی طلسم کی ضرورت نہیں۔ یہ بُت گری نہیں، بُت شکنی کے حوصلوں کی کہانی ہے، جسے حالی نے جوں کا توں بیان کردیا ہے۔

مسدّس کو انھوں نے عوام کے خوابیدہ شعور کو جگا کر ہوشیار کرنے کا ذریعہ بنایا۔ ماضی کی طرف حسرت بھری نظریں، حالی کی اپنی کڑھن اور ان زنجیروں سے نکل بھاگنے کا جذبۂ بے اختیار___ غرض اُمیدوبیم کی وہ تمام کیفیات جو اگر اصلاح کی طرف نہیں تو کم از کم خود احتسابی کی طرف ضرور مائل کریں۔ ماضی کا قصیدہ ہو یا حال کا مرثیہ، اس کا دردوکرب اور ان کا شوق ہرہرلفظ میں مجسم ہوجاتا ہے۔ جہاں آورد ہے تو وہ بھی ان کے قول کی صداقت کو مجروح نہیں کرتی۔ وہ اسلام کے تحریکی شعور سے آشنا تھے اور اسی کے داعی بھی۔ اس سے الگ جو بھی ہے، وہ مسدّس کا موضوع نہیں۔

  • مسدّس__ ایک نظر میں:نظم کی ابتدا اس تمہید کے ساتھ ہوتی ہے کہ مرض لاعلاج نہیں ہوتا، اگر اس کی تشخیص اور علاج میں لاپروائی نہ برتی جائے۔ یہ ایک اشارہ ہے ملّت کے لیے کہ موجودہ امراض کا علاج بھی ممکن ہے اگر اس کی کوشش کی جائے۔ پھر ایامِ جاہلیت میں عربوں کی زندگی کا خاکہ ہے، جس میں ان کی جغرافیائی حالت، علم اور تمدن سے ان کی دُوری، دلوں کی شقاوت اور وحشت، حد سے بڑھے ہوئے فخروغرور کے باعث مسلسل اور بے وجہ خانہ جنگیاں، بیٹیوں کا قتل اور بدقماشی، غرض ان عیوب کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو کسی قوم کے نیکی سے دُور اور بدی سے قریب ہونے کا پیمانہ ہوتے ہیں:

چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہراِک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ

فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ

وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے

اس عالم میں غیرتِ حق جوش میں آئی اور  ؎

ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دُعائے خلیل اور نویدِ مسیحا

اسی کے ساتھ رحمتوں کا نزول شروع ہوگیا۔ بعثت ِ نبوی کے ساتھ حالت بدلنے لگی۔ یہاں حالی کا قلم ان کے قلب سے تحریک پاتا ہے، کہیں آورد نہیں ہے، آمد ہی آمد ہے:

وہ نبیوںؑ میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بَر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی ، غلاموں کا مولیٰ

ان تمام نعمتوں کا ذکرہے جو اسلام کی برکتوں کا نتیجہ تھیں۔ ایمان، امانت، صداقت، اخوت، بندگی، غیراللہ کا انکار، بندگانِ خدا سے محبت و شفقت، معیشت و معاشرت کے آداب، علم و تمدن سے رغبت، اور ان تمام نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کے بعد عرب کے وہی صحرا نشین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں سرگرم ہوئے تو:

لیے علم و فن اُن سے نصرانیوں نے
کیا کسبِ اخلاق روحانیوں نے

ادب اُن سے سیکھا صفا ہانیوں نے
کہا بڑھ کے لبیک یزدانیوں نے

ہراِک دل سے رشتہ جہالت کا توڑا
کوئی گھر نہ دُنیا میں تاریک چھوڑا

مسدّس کے صفحات میں سیاسی عروج و زوال کو اہمیت حاصل نہیں ہے، بلکہ وہ ان اسباب و عوامل کا ذکر کرتے ہیں، جو قلعوں اور شہروں کی تسخیر کے بجائے ان کی فضا کو مسخر کرتے ہیں۔ افراد کی بہتری ان کے اخلاق کی رہینِ منّت ہے۔ مساوات، اخلاق کا پیمانہ ہے۔ علم تمام خزانوں کی کنجی اور مشقت زندگی کا رخت ِ سفرہے۔ بنائو کا ذکر ہو یا بگاڑ کا تذکرہ، یہی ان کی فکر کا محور ہے۔

جب تک ملّت کے افراد اللہ تعالیٰ کے حکم اور رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین پر عمل پیرا رہ کر اپنے ایمان، اخلاق اور علم کو بڑھانے میں سرگرم رہے، جب تک خدا کے لیے مٹنے کا دم بھرتے رہے، زندگی ان کی چوکھٹ پر پہرے دیتی رہی۔ ہرگزرنے والی رات نے ان کی شانِ اطاعت کی گواہی دی، اور ہر روز طلوع ہونے والا سورج ان کی عظمتوں کی روشنی پھیلاتا رہا۔ ان کی حکومت، عادلانہ حکمرانی کا سبق تھی۔ لیکن جب صدق و صفا کا یہ چشمہ گدلا ہوا اور دین سے ان کا رشتہ کمزور ہونے لگا:

ہوئے علم و فن ان سے ایک ایک رخصت
مٹیں خوبیاں ساری نوبت بہ نوبت

کیے پے سپر جس نے ساتوں سمندر
وہ ڈوبا دہانے میں گنگا کے آکر

اور یہیں سے وہ ملّتِ بیمار کا مرثیہ شروع کرتے ہیں:

چکور اور شہباز سب اوج پر ہیں
مگر ایک ہم ہیں کہ بے بال و پَر ہیں

تمام نعمتیں ایک ایک کرکے رخصت ہونے لگیں۔ جستجو کی جگہ سہل پسندی نے لے لی، قناعت کی جگہ ہوس دَر آئی۔ فراغت کے بجائے افلاس اُمڈ آیا۔ غرور نے انکسار کی مسند سنبھالی۔ کج بحثی نے علم کے شوق پر گہن لگایا۔ سرفروشی کی جگہ سرچھپانے میں عافیت نظر آئی۔ حکومت گئی تو سب کچھ چلا گیا، گویا یہ سب طلسمات ہی کا ایک کارخانہ تھا۔طلسم ٹوٹا تو نہ زمین اپنی تھی نہ آسماں اپنا، اب حاصل کریں تو کیسے، مانگیں تو کس سے؟ نہ لینے کا ہنر آتا ہے اور نہ مانگنے کی ادا یاد ہے۔ زندگی کیا، بس چلتی ہوئی سانسوں کا ایک سلسلہ ہے، نہ مقصد کی خبرہے، نہ منزل کا پتہ:

جہاں آگ کا کام کرتا ہے باراں
جہاں آ کے کرتا ہے رو اَبرِ نیساں

تردّد سے جو اور ہوتا ہے ویراں
نہیں راس جس کو خزاں اور بہاراں

یہ آواز پیہم وہاں آرہی ہے
کہ اسلام کا باغِ ویراں یہی ہے

غرض حالی نے ملّت کی ہر رگ کو جھنجھوڑا ہے، زخموں کو اتنی بے رحمی سے چھیڑا کہ قلم چلتے چلتے رُک گیا، غم اُٹھانے کی تاب نہ تھی، یا آہ کا اثر دیکھنا چاہتے تھے۔ پھر ان کی آہ نے اثر دکھایا۔   چھے سات برس میں کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ کسی نے سراہا اور نقد ِ جاں بنایا۔ واعظوں نے زورِ بیان کے لیے استعمال کیا، شاعروں نے اسی انداز کی نظمیں لکھیں۔ کسی نے طنز کے تیر چھوڑے، کسی نے اسے بیماری کا نتیجہ سمجھا اور کسی نے مزید بیماری۔ غرض اس کی گونج ہراس گوشے تک پہنچی، جہاں شبلی کے مقالے، سرسیّد کے مضامین اور ارباب علی گڑھ کی تقریریں نہ پہنچی تھیں۔ اس پذیرائی نے حالی پر بھی اثر کیا اور قلم کی چپ ٹوٹی، کرب کی جگہ تحریک نے لی اور وہ اُمید کا دامن تھامے ایک بار پھرصدا دینے نکل پڑے۔ اب ان کو احساس ہوچکا تھا کہ بھیڑ میں کچھ اہلِ نظر بھی ہیں۔ ضرورت ہے فکر کو بیدار کرنے کی، جو حرکت کو جنم دے کر جمود کو دُور کردے۔ اس نمی کی جو مٹی کے ساتھ مل کر بیج کی قوتِ نمو کو تقویت دیتی ہے اور زندگی کی نئی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں:

تمھی اپنی مشکل کو آساں کرو گے
تمھی درد کا اپنے درماں کرو گے

تمھی اپنی منزل کا ساماں کرو گے
کرو گے تمھی کچھ اگر یاں کرو گے

چھپا دستِ ہمت میں زورِ قضا ہے
مثل ہے کہ ہمت کا حامی خدا ہے

یہاں پہنچ کر حالی کی آواز خود اپنی بازگشت بن جاتی ہے، جس کی تکرار ان کے عہد سے آج تک جاری ہے۔ حالی اپنے عہد میں بھی جدید تھے، آج بھی ہیں، اور ہمیشہ رہیں گے۔ مسدّس کے وسیلے سے انھوں نے اپنے آپ کو زمانے کی گرفت سے محفوظ کرلیا۔ مسدّس  کے بند ہرشکست خوردہ کےلیے آئینہ بھی ہیں، مشعلِ راہ بھی کہ کوئی شکست مقدر نہیں بن سکتی اگر سپر نہ ڈال دی جائے!