’عہد نامہ جدید‘ ۱ کے مختلف حصوں کی تاریخِ تصنیف کا تعین، بائیبل کے علوم کے ماہرین کے لیے غیرمعمولی دل چسپی کا حامل رہا ہے، اور اسے ہر دور کے جدید عیسائی علما اور محققین نے تحقیق و توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ بے یقینی کے اس میدان میں دوہزار سال کی کوشش بھی کوئی حتمی جواب نہیں پیش کرسکی۔ ایک نئے قاری کو جب اس سوال سے سابقہ پڑتا ہے تو وہ اختلاف آراء اور ظن و تخمین کے اس حیرت کدے میں قدم رکھتے ہی وحشت زدہ ہوکر رہ جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب امریکی ہفت روزہ ٹائم (Time) کے شمارے (۲۳ جنوری ۱۹۹۵ء) میں جرمن ماہر آثارِ قدیمہ کارسٹن پیٹر تھائیڈی (Carston Peter Thiede، م:۲۰۰۴ء) کی اس تحقیق کا تعارف شائع ہوا، جس میں اس نے ’انجیلِ متی‘ (The Gospel of Matthews) کی تصنیف کا سال ۷۰ء کو قرار دیا ہے، تو اسے محض ایک رائے سمجھ کر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ۔ اس محقق کا دعویٰ ہے کہ ’’متی کے سنِ تصنیف کے بارے میں مشہور قول، جو اسے ۸۰ء کی تصنیف قرار دیتا ہے، نظرثانی کا محتاج ہے‘‘۔ اس کے خیال میں ’اسے ۷۰ء کی تصنیف سمجھنا زیادہ قرین قیاس ہے‘۔
’انجیلِ متی‘ کے یونانی نسخے کے تین پُرزے، جنھیں ریورنڈ چارلس بوسفیلڈ ہولیٹ [م:۱۹۰۸ء] نے ۱۹۰۱ءمیں مصر کے قدیمی شہر کوپٹس سے دریافت کیا اور۱۹۵۳ء میں شائع ہوئے۔ یہ اس انجیل کے وہ قدیم ترین باقیات ہیں، جو ہمارے پاس موجود ہیں۔ یہ پُرزے اوکسفرڈ کے مگدلین کالج میں محفوظ ہیں۔ اور ’مگدلینی پرزے‘ (Papyrus Magdalen) کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ بمشکل چند مربع انچ کے برابر ہیں۔ ان پر متی کے باب ۲۶ کی کچھ آیات کے اجزا اب بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔ تھائیڈی نے ان کے رسم الخط کو پہلی صدی عیسوی کے رسم الخط سے مماثل پاکر یہ استدلال کیا ہے کہ ’’یہ وہ رسم الخط ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے عہد ہی میں متروک ہونا شروع ہوگیا تھا۔ لہٰذا، اسے ۸۰ء کی تصنیف بتانا درست نہیں ہے، کیونکہ اگر یہ انجیل ۸۰ء میں لکھی گئی تو یہ ممکن نہیں ہے کہ اس قدر جلد اس کا اتنا ابتدائی نسخہ مصر جاپہنچا ہو۔ لہٰذا، یہ بات زیادہ قرین قیاس ہوگی کہ یہ انجیل اس سے کم از کم دس برس پہلے لکھی گئی ہو‘‘۔ تھائیڈی کی اس تحقیق کے نتائج اس لیے اہم ہیں کہ ان کے درست ہونے کی صورت میں یہ امر ثابت ہوجائے گا کہ متی کی تصنیف کے وقت حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی کے کئی چشم دید گواہ موجود تھے،اوران کے اصحاب کی زندگی میں شائع و رائج ہونے والی انجیل ظاہرہے کہ بڑی حد تک ثقہ ہوگی اور وہ سنی سنائی اور بے بنیاد روایت نہیں ہوسکتی، جیساکہ اب اکثر خیال کیا جاتا ہے۔
تھائیڈی کا استدلال ان نسخوں کے مخصوص یونانی رسم الخط کی جانچ پرکھ پر منحصر ہے۔ وہ خود بھی اعتراف کرتا ہے کہ ’’قدیم مخطوطات (Manuscripts)کی تاریخِ تصنیف متعین کرنے کا یہ طریقہ خطرات سے بھرپور ہے۔ تاریخ تصنیف طے کرنے کی غرض سے قدیم نسخوں کے تجزیئے (Dating Analysis) کے لیے اب کیمیائی عمل کے نت نئے طریقوں سے مدد لی جاتی ہے، جو اپنی سائنسی خوبیوں کے باوجود حتمی نہیں ہوتے۔ رسم الخط کے راستے سے تاریخ تک پہنچنے کا تو ذکر ہی کیا، کیونکہ یہ تو کسی اعتبار سے بھی ایک معروضی تکنیک نہیں ہے۔ اب تک جن قدیم نسخوں کی کسی حد تک درست تاریخ متعین کی جاسکی ہے اس میں ریڈیو کاربن (Radio Carbon Dating) اور پوٹاشیم آرگون (Potassium Argon Dating) کے ذرائع کا بڑاہاتھ ہے۔۲ انھی طریقوں سے کسی قطعیت کے ساتھ ’مگدلینی پاروں‘ کی قدامت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا تھا، لیکن تھائیڈی نے اعتراف کیا ہے کہ ’’یہ مخطوطات اس قدر خستہ حالت میں ہیں کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی کیمیائی عمل کامتحمل نہیں ہوسکتا اور ان مخطوطات کے ضائع ہوجانے کا خطرہ ہے۔ لہٰذا، یہ سائنسی طریقے بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں ہماری کوئی مدد نہیں کرسکتے‘‘۔ اس لیے ان کی تاریخ تصنیف کے بارے میں یہ نئی رائے بھی ظن و تخمین کے درجے سے آگے نہیں بڑھتی۔
دراصل بائیبل کی کسی بھی تحریر کے بارے میں، خواہ وہ ’پرانے عہدنامے‘ کی ہو یا نئے کی، بنیادی سوال یہ نہیں ہے کہ اس کا سنِ تحریر کیا ہے، بلکہ بنیادی اہمیت ان سوالات کی ہے کہ:
۱- کتاب کا مصنف کون ہے؟ (کیونکہ تحریر کی ثقاہت کا انحصار اس پر ہے)۔
۲- کیا مصنف اپنی آنکھوں دیکھے واقعات بیان کر رہا ہے اور الہام کا مدعی ہے؟
۳- اگر وہ کسی اور کی شہادت پر انحصار کر رہا ہے، تو اس صورت میں اس راوی کا حال اور اس کا عینی شاہد ہونا معلوم ہے یا نہیں؟
۴- واقعے کے بیان کا انحصار ایک شخص پر ہے یا اس کی تائید کے لیے اضافی مواد موجود ہے؟
۵- یہ سوالات تو تحریر کے بارے میں خارجی شہادت کو سامنے لاتے ہیں، جب کہ اس کے بعد یہ بھی دیکھا جائے گا کہ خود تحریر کا متن اس میں کیا دعویٰ کرتا ہے؟ (یعنی داخلی شہادت)۔
اگر ان سوالات کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو ’انجیلِ متی‘ ، یکسر ناقابلِ اعتبار ٹھیرتی ہے۔ نہ تو اس کے مصنف کا نام معلوم ہے، نہ اس کے حالات (یعنی اس کا ثقہ یا غیرثقہ ہونا)، نہ وہ الہام کا دعویٰ کرتا ہے، نہ چشم دید واقعات بیان کرنے کا مدعی ہے ، اور نہ وہ کسی چشم دید راوی کا حوالہ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ان تمام واقعات کی صحت کا انحصار انھی دوچار انجیلوں پر ہے، جو ہرباب اور ہرآیت پر ایک دوسرے سے کثرتِ اختلاف کی وجہ سے پکار پکار کرکہتی ہیں کہ یہ محض سنی سنائی باتیں ہیں۔
اور جب ہم اس کے متن پر غور کرتے ہیں تو تاریخی اغلاط، تضادات، غلط حوالوں اور خیال آرائیوں کی ایک دُنیا آباد پاتے ہیں۔ یہ جملہ معترضہ ضروری تھا تاکہ واضح ہوجائے کہ ’انجیل متی‘ کی صحت و اصلیت اور مبنی بروحی ہونے کا معاملہ یہاں زیرغور نہیں ہے، اور نہ وہ تھائیڈی کے دعوے کی صداقت پر منحصر ہے۔ بلکہ یہاں تو فقط ’متی‘ کی اس انجیل کا سنِ تصنیف زیربحث ہے، جو ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ بہ فرضِ محال اگر یہ ثابت ہوبھی جائے کہ یہ انجیل، عہد ِ مسیح میں یا اس کے معاً بعدلکھی گئی، تو بھی اس انجیل کا الہامی اور مستند ہونا ثابت نہیں ہوگا۔
’انجیل متی‘ کے لکھے جانے کی درست تاریخ معلوم کرنے سے پہلے یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ یہ انجیل ، اصلاً کس زبان میں لکھی گئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ آرامی زبان بولتے تھے، جو عبرانی (Hebrew) کی ایک شکل تھی۔ جب کہ متی کی انجیل کا قدیم ترین نسخہ، جو اَب موجود ہے، یونانی زبان میں ہے۔ اس کی دو ہی ممکن توجیہات ہوسکتی ہیں:
پہلی یہ ہے کہ یہ انجیل، اصلاً، یونانی (Greek) زبان میں لکھی گئی۔
دوسری یہ کہ اصلاً، یہ آرامی (Aramaic) زبان میں تھی، لیکن بعد میں اس کا ترجمہ یونانی میں کیا گیا اور اب اصل آرامی نسخہ معدوم ہوجانے کے بعد اس کا انحصار فقط یونانی ترجمے ہی پر رہ گیا۔
پہلی توجیہ ماننے کی صورت میں بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں:
اس سے متن کی ثقاہت مزید مشکوک ہوجاتی ہے اور اس میں منقول حضرت عیسٰی ؑ کی تعلیمات کی روایت باللفظ کے بجائے روایت بالمعنٰی قرار پاتی ہے۔ یہ طے کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ مصنف نے کہاں تک نفسِ مضمون کی حفاظت کی ہے، خاص طور پر زیرغور معاملے میں تو یہ شک اور بھی قوی ہوجاتا ہے ، کیونکہ یہاں نہ تو مصنف کا نام معلوم ہے، جو حضرت مسیحؑ کے آرامی زبان میں ادا کیے گئے اقوال کو یونانی میں منتقل کر رہا ہے اور نہ تاریخی معلومات میسر ہیں، جن سے اس کی قابلیت کا اندازہ لگایا جاسکے ۔ جس ’متی نامی‘ شخص کا خود متی کی انجیل میں ذکر ہے، اس کے حالات پڑھنے سے تو یہ امر تقریباً ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ اس قسم کی ادبی تصنیف کا اہل نہیں۔ ۳
دوسرے یہ کہ جس یہودی تہذیب کی کوکھ سے یہ نیا مسلک جنم لے رہا تھا، اس میں مذہبی صحیفوں کو عام طور پر عبرانی زبان میں محفوظ کیا جاتا تھا۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم انجیل متی کے بارے میں فرض کریں کہ وہ اس روایت کے علی الرغم ، یونانی میں لکھی گئی ہوگی، بالخصوص جب کہ پہلی صدی کے مسیحی مبلغوں کے مخاطب صرف آرامی بولنے والے اسرائیلی ہی تھے، اور انھیں غیرقوموں کو دعوت دینے سے صراحت کے ساتھ روکا گیا تھا۔
تیسرے یہ کہ قدیم عیسائی بزرگ پیپیاس(Papias) ۴کا جو قول مؤرخ یوسی بیس (Eusebius) نے نقل کیا ہے ، اس کا انکار لازم آتا ہے حالانکہ یہ اس ضمن کی قدیم ترین خارجی شہادت ہے:
"Matthew compiled the Sayings in Aramaic language, and everyone translated them as well as he could. (Eusablus The History of the Church, Penguin Classics 1965, p339).
متی نے اقوال کو آرامی زبان میں جمع کیا اور ہرکسی نے اپنی استعداد کے مطابق بہترانداز میں اس کے تراجم کیے۔
عیسائی رہنما ارینیوس (Irenaeus) اور اوریگن (Origen) کی بھی یہی رائے ہے۔ معلوم نہیں ہوتا کہ اقوال سے پیپیاس کی کیا مراد ہے؟ لیکن غالب گمان یہی ہے کہ اس سے حضرت مسیح علیہ السلام کے اقوال مراد ہیں، جنھیں بعد میں ’اناجیل اربعہ‘ (جن میں انجیل متی بھی شامل ہے) کے مصنّفین نے اپنے رسائل میں موقع بہ موقع استعمال کیا ہے۔ لگتا ہے کہ اصل میں یہی وہ انجیل ہے، جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے اور جو حضرت مسیح علیہ السلام کے ان اقوال کا مجموعہ تھی، جو مبنی بروحی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ تحریرہم تک نہیں پہنچ سکی، لیکن اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اوّل اوّل انجیل آرامی زبان ہی میں لکھی گئی۔ جس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ انجیل، جو یونانی میں ہے اور اس میں حضرت مسیح علیہ السلام کے اقوال کے علاوہ بھی بہت کچھ اضافے ہوچکے ہیں۔ یہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بہت بعدوجود میں آئی اور یہ ان کی تعلیمات کو جاننے کا اوّلین ماخذ نہیں ہے ، بلکہ زیادہ سے زیادہ اس کو ایک ثانوی ماخذ کے طور پر ہی قبول کیا جاسکتا ہے۔
اس صورت میں یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ اگر یہ انجیل،اصلاً ، آرامی زبان میں تحریر ہوئی تو اس کا یونانی ترجمہ، جسے تھائیڈی ۷۰ء سے متعلق بیان کرتا ہے، ہرگز ۷۰ء کا تصنیف کردہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ قدیم مذہبی کتب اور صحائف کے بارے میں ان کے ماننے والوں کے رویے ہمارے سامنے ہیں۔ بالعموم ان کو دوسری زبانوں میں منتقل کرنے کی شدید مخالفت ہوتی رہی ہے۔ بالخصوص ابتدائی دور میں تو اس طرح کی کسی بھی کوشش کو ہرممکن طریقے سے دبایا گیا ہے۔ یہودیوں نے صدیوں کے بعد جب سکندریہ میں ’عہدنامہ عتیق‘ کا پہلایونانی ترجمہ کیا ، جو ’نسخہ سبعینہ‘ ۵ (Septuagint) کے نام سے مشہور ہے، تو قدامت پسندوں نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ بعض یہودی ربی کہتے تھے کہ ’’جب یہ ترجمہ کیا گیا تو تین دن تک زمین پر اس کی نحوست کی وجہ سے اندھیرا چھایا رہا‘‘۔ دوسروں نے کہا کہ ’’یہ دن بنی اسرائیل کی زندگی میں ایسا ہی افسوس ناک تھا، جیسا وہ دن کہ جب انھوں نے موسٰی کی غیرموجودگی میں بچھڑے کی عبادت کی تھی‘‘۔ (میکنزی، قاموس، بائیبل، ص ۷۸۸)۔ اس ردعمل کی روشنی میں یہ امر خاصا مستعبد ہے کہ متی کی انجیل کا ترجمہ اتنے ابتدائی دو ر میں یونانی زبان میں کردیا گیا ہو۔
’انجیل متی‘ میں موجود داخلی شہادت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مروج نسخہ یروشلم کی تباہی کے بعد لکھا گیا، جو ۷۰ء کا واقعہ ہے۔ عیسائی علما کا اس بات پر تقریباً اجماع ہے کہ ’انجیل متی‘، ’انجیل مرقس‘ کے بعد لکھی گئی اور یہ کہ ’انجیل مرقس‘ ۶۵ء سے ۷۰ء کے درمیان کسی وقت لکھی گئی۔اس وجہ سے بھی یہ کہنا درست ہے کہ ’انجیل متی‘ کا سنِ تصنیف ۷۰ء سے پہلے نہیں ہوسکتا۔ دوسرے الفاظ میں یہ انجیل حضرت مسیحؑ کےانتقال کے کم از کم چالیس برس بعد ضبط ِ تحریر میں آئی ہوگی۔
اس سے یہ تاثر نہ پیدا ہو کہ مسیحی علما کو کسی درجے یقین کے ساتھ یہ تاریخ معلوم ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ محض اٹکل کی بنیاد پر قائم ہے اور عیسائی مؤرخوں میں مختلف آراء متداوّل رہی ہیں جن میں سے بعض انجیل کو۱۰۰ء کی تصنیف قراردیتے ہیں ۔ یہاں پر یہ اضافہ بھی کر دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس نوعیت کے اختلافات ’انجیل متی‘ کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ ’عہدنامہ جدید‘ کی تمام کتابوں کا یہی حال ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کتب کی تاریخی صحت کا کوئی تقابل قرآنِ مجید، سنت یا حدیث سے نہیں ہوسکتا۔ اگر قواعد ِ روایت کی روشنی میں بغور دیکھا جائے تو ’تورات‘ اور ’انجیل‘ کی حیثیت ایک ضعیف روایت سے زیادہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحی محققین کسی ایسی دریافت کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہتے، جس سے ان مذہبی صحیفوں کی تاریخِ تصنیف دوچار سال پیچھے لے جائی جاسکے۔ ان صحیفوں کا یہی کمزور تاریخی پہلو اور ان کے مندرجات کا ناقابلِ اعتبار ہونا، اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ اللہ بندوں پر، اپنی مرضی ظاہر کرنے کے لیے، ہدایت کا ایک اور راستہ کھولتا اور اس کو ہرقسم کی تبدیلی، تحریف اور تغیر سے محفوظ رکھتا۔ مسیحی علما کو قرآن پر اس نقطۂ نظر سے تدبر کرنا چاہیے، لیکن افسوس ہے کہ انھوں نے ، محض تعصب کی وجہ سے، اپنے آپ کو ہدایت کے لیے ایسے بیش قیمت خزانے سے محروم رکھا ہے۔
۱- عہد نامہ جدید (New Testament) جسے اسلامی لٹریچر میں، ’انجیل‘ کہا جاتا ہے، دراصل اس الہامی کتاب کی موجودہ شکل کا نام ہے، جو قرآن کے بیان کے مطابق حضرت عیسٰیؑ پر نازل ہوئی۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی ؒ کے بقول:’ انجیل‘ دراصل نام ہے ان الہامی خطبات اور اقوال کا، جو مسیح علیہ السلام نے اپنی زندگی کے آخری ڈھائی تین برس میں بحیثیت ِ نبی ، ارشاد فرمائے۔ وہ کلماتِ طیبہ آپؑ کی زندگی میں لکھے اور مرتب کیے گئے تھے یا نہیں؟ اس کے متعلق اب ہمارے پاس کوئی ذریعۂ معلومات نہیں ہے۔ ممکن ہے بعض لوگوں نے انھیں نوٹ کرلیا ہو، اور ممکن ہے کہ سننے والے معتقدین نے ان کو زبانی یاد کر رکھا ہو۔ بہرحال، ایک مدت کے بعد جب آنجناب علیہ السلام کی سیرت پاک پر مختلف رسالے لکھے گئے تو ان میں تاریخی بیان کے ساتھ ساتھ، وہ خطبات اور ارشادات بھی جگہ جگہ حسب ِ موقع درج کر دیئے گئے ، جو ان رسالوں کے مصنّفین تک زبانی روایات اور تحریری یادداشتوں کے ذریعے سے پہنچے تھے۔ آج متی، مرقس، لوقا اور یوحنا کی جن کتابوں کو اناجیل کہا جاتا ہے ، دراصل انجیل وہ نہیں ہیں بلکہ انجیل حضرت مسیحؑ کے وہ ارشادات ہیں، جو ان کے اندر درج ہیں۔ ہمارے پاس ان کو پہچاننے اور مصنّفین سیرت کے اپنے کلام سے ان کو ممیز کرنے کا اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ جہاں سیرت کا مصنف کہتا ہے کہ مسیحؑ نےیہ فرمایا، یا لوگوں کو یہ تعلیم دی، صرف وہی مقامات اصل انجیل کے اجزاء ہیں۔ قرآن انھی اجزاء کے مجموعے کو ’انجیل‘ کہتا ہے اور انھی کی وہ تصدیق کرتا ہے۔ آج کوئی شخص ان بکھرے ہوئے اجزاء کو مرتب کرکے قرآن سے ان کا مقابلہ کرکے دیکھے، تو وہ دونوں میں بہت ہی کم فرق پائے گا، اور جو تھوڑا بہت فرق محسوس ہوگا، وہ بھی غیرمتعصبانہ غوروتامل کے بعد بآسانی حل کیا جاسکے گا۔ (تفہیم القرآن، جلداوّل، ص۲۳۲-۲۳۳)
۲- Radio Carbon Dating نامیاتی مادوں میں تابکاری عناصر کے تناسب کو ناپنے سے، قدیم نسخوں اور دیگر اشیاء کی تاریخ متعین کرنے میں بہت مدد ملی ہے۔ آثارِ قدیمہ کے میدان میں کاربن (۱۴) کے ذریعے سے بڑی حد تک درست تاریخیں معلوم کی گئی ہیں۔ اس طریقے کو Carbon Dating کہتے ہیں۔ تمام نامیاتی مادوں (یعنی جانوروں اور درختوں) میں کاربن کی دو شکلیں ایک متعین تناسب کے ساتھ موجود ہوتی ہیں، ایک کاربن (۱۲) تابکاری نوعیت کا مادہ ہے، اوروقت کے ساتھ نامیاتی انحطاط (Decay) کے عمل کی وجہ سے اس کی مقدار میں کمی ہوجاتی ہے۔ ہمیں اس کے نامیاتی انحطاط کے عمل کی رفتار معلوم ہے۔ چنانچہ اگر ہم کسی قدیم شے میں کاربن (۱۲) اور کاربن (۱۴) کی مقدار کا تناسب معلوم کرلیں تو اس شے کی قدامت کا بڑی حد تک درست اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
۳- متی کی علمی قابلیت کا جو شخص انجیل متی کا مصنف سمجھا جاتا ہے، اس کا ذکر ’عہد نامہ جدید‘ میں پہلی دفعہ اس طرح کیا گیا ہے: ’’یسوع نے وہاں سے آگے بڑھ کر متی نام کے ایک شخص کو محصول کی چوکی پر بیٹھے دیکھا اور اس سے کہا: میرے پیچھے ہولے، وہ اُٹھ کر اس کے پیچھے ہولیا (متی، باب ۹، آیت ۹)۔
مفسرین نے اس پر بحث کی ہے کہ ’محصول لینے والا یہ متی ‘، عبرانی زبان کی ایسی استعداد اور تورات و صحف ِ انبیاءؑ کے فہم کے فن کی ایسی مہارت کا حامل نہیں ہوسکتا، جو ایک ادبی و علمی تصنیف کے لیے درکار ہے۔
۴- پیپیاس (Papias of Hierapolis) قدیم ترین مسیحی مصنّفین میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ ایشیائے کوچک [اناطولیہ، ترکی کا ایشیائی علاقہ] میں مقیم رہا اور ۱۳۰ء میں اس نے اپنی مشہور کتاب’شرح اقوالِ مسیح‘ تالیف کی، جس کے اجزاء آج بھی موجود ہیں۔ عیسائی مؤرخین کے مطابق اس نے حضرت مسیحؑ کے حواری اور ایک انجیل کے مصنف یوحنا سے تعلیم و تربیت حاصل کی تھی۔ پیپیاس قدیم مسیحی بزرگوں کی اس جماعت سے تعلق رکھتا ہے، جن کی تحریریں ایک زمانے تک ’عہدنامہ جدید‘ کی الہامی تحریروں میں شامل کی جاتی تھیں۔ ان میں پیپیاس کے علاوہ اوریگن (Origen)، کلیمنٹ (Ciement)، ہرمس (Hermas)، اگنیشیس (Ignatius)، پولیکارپ (Polycarp) اور دوسرے بزرگ شامل ہیں۔ ان تمام کے بارے میں خیال ہے کہ انھوں نے حضرت مسیحؑ کے کسی نہ کسی حواری کی صحبت پائی۔ مغربی مسیحی اصطلاح میں انھیں Apostolic Fathers کہا جاتا ہے۔ یہ گویا مسیحی تاریخ کے ’تابعین‘ ہیں۔
۵- نسخہ سبعینہ (Septuagint) ’عہد نامہ قدیم‘ کا یونانی زبان میں پہلا ترجمہ ہے، جو سکندریہ کے یہودیوں نے ۲۵۰ ق م سے ۱۰۰ ق م کے دور میں عبرانی نسخے سے کیا۔ اس کی وجۂ تسمیہ یہ روایت ہے کہ اس کام میں ۷۰علماء نے حصہ لیا۔ یہودیوں کے نزدیک یہ مستند ترین تراجم میں سے ہے۔