مولانا غلام محمد منصوری


رمضان المبارک اہلِ ایمان کے لیے نیکیوں کا موسمِ بہار ہے۔ اس مہینہ میں دل کی زمین تقویٰ کے بیج کو قبول کرنے کے لیے عام دنوں کی بہ نسبت زیادہ مستعد اور سازگارہوتی ہے، اور نیکیوں کی نشوونما کے لیے روحانی فضا زیادہ موافق ہوتی ہے۔ایک طرف خدا کے اَنوار اور اس کی رحمت کا نزول دلوں کی مُردہ زمینوں میں نئی جان ڈالتاہے اور اس میں ایمان کا نُور اور نیکی کا شوق پیدا کردیتا ہے اور دوسری طرف ایک ایسا ماحول پیدا ہوجاتا ہے جس میں خدا کی اطاعت و بندگی کا جذبہ اُبھرتا ہے۔ دلوں میں نیکی کے لیے محبت اور بُرائی کے لیے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ بڑی تعداد میں مسلمان نیکی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

رمضان المبارک کی آمد پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرامؓ کوجمع کرکے ایک خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے تاکہ وہ اس مبارک مہینہ کا شایانِ شان استقبال کریں۔ روزے اور نوافل کے اہتمام کا عزم کریں اور نیکی ا ور تقویٰ کا زیادہ سے زیادہ زادِ راہ فراہم کریں۔ آیئے آج ہم بھی اس خطبہ کو سنیں اور یہ سمجھ کر سنیں کہ اس کے مخاطب ہم ہیں اور اس میں جو ہدایات دی جارہی ہیں کسی اور کے لیے نہیں بلکہ ہمارے لیے ہیں۔ آپؐ فرماتے:

اے لوگو! تم پر ایک عظمت ا ور برکت والا مہینہ سایۂ فگن ہورہا ہے۔ اس مہینہ میں ایک رات ایسی ہے جو فضیلت و برکت کے لحاظ سے ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینہ کے روزے اللہ تعالیٰ نے تم پرفرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں قیام کو نفل کے درجہ میں رکھا ہے۔ اس مہینہ میں جو شخص خدا کا قرب حاصل کرنے کے لیے نیکی کا کوئی ایسا کام کرے گا جس کی حیثیت نفل کی ہے تو اس کو اس کا اجروثواب فرض کے برابر ملے گا اور جو فرض ادا کرےگا اس کو اس کا ثواب عام دنوں کےستّر فرضوں کے برابر ملے گا۔

یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا صلہ جنّت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں مومن بندوں کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو اس مہینہ میں کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرائے گا اس کے گناہ معاف ہوجائیں گے۔اس کو آتش دوزخ سے نجات ملے گی اور اس کو اس عمل کا اجروثواب روزے دار کے برابر ملے گا اور خود روزے دار کے اجر میں بھی کوئی کمی نہ کی جائےگی۔

آپؐ سے عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! ہم میں سے ہر ایک کے پاس تو سامان افطار نہیں ہوتا۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہ اجروثواب اس آدمی کو بھی دےگا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی اور پانی کے ایک گھونٹ پر کسی روزے دار کو روزہ افطار کرا دے۔جو شخص کسی روزے دار کو پیٹ بھر کھانا کھلا دے، اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (حوضِ کوثر) سے پانی پلائے گا۔ پھر اسے پیاس نہ لگے گی۔ یہاں تک کہ وہ جنّت میں داخل ہوجائے گا۔

’’اس مہینہ کا پہلا حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ دوزخ کی آگ سے نجات ہے۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کردے گا اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دےگا۔ اور دوزخ کی آگ سے نجات بخشےگا‘‘۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ کے آغاز میں یہ خوشخبری دی کہ ’’ماہِ رمضان میں ایک رات ایسی ہے جو اپنی فضیلت وعظمت میں ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ ایمان کو جو تقویت، دل کو جو جذبۂ اخلاص و عمل اور زندگی کو جو طہارت و پاکیزگی اس ایک رات کی عبادت سے حاصل ہوتی ہے، وہ ہزار مہینوں کی اطاعت و عبادت سے بھی نصیب نہیں ہوسکتی اور قربِ الٰہی کی جو منزلین بندہ اس ایک رات میں طے کرلیتا ہے وہ ہزار مہینوں میں بھی طے نہیں ہوسکتیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بابرکت رات ماہِ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق تاریخوں میں ہے، یعنی ۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷ اور ۲۹۔ اس رات کو مخفی رکھنے میں یہ حکمت ہے کہ اہلِ ایمان رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کثرت سے اللہ کی عبادت کریں اور باقی مہینوں کے لیے تقویٰ کا زادِ راہ جمع کریں۔

دوسری بات آپ ؐنے یہ ارشاد فرمائی کہ جو شخص اس مہینہ میں کوئی ایسی نیکی کرے گا جو نفل کا درجہ رکھتی ہے تو اسے اجروثواب فرض کے برابر ملےگا اور ایک فرض کے اجر کو ستّرگنا کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک میں یہ اجروثواب اس لیے بڑھا دیا ہے کہ بندے اس مہینہ میں نیک کاموں میں زیادہ سے زیادہ دل چسپی لیں۔ان کے دلوں میں خدااور رسولؐ کی اطاعت کا جذبہ پیدا ہو۔ وہ اس ایک مہینہ میں نیکی اور تقویٰ کی اتنی تربیت حاصل کرلیں کہ اس کے اثرات سال کے باقی گیارہ مہینوںتک باقی رہیں، اور اس طرح سال بہ سال اہلِ ایمان ایک ماہ کی تربیت گاہ میں اسلامی زندگی کی تربیت حاصل کرتے رہیں۔ اس تربیت گاہ میں وہ اپنے ایمان کو زندہ اور تازہ کریںاور زندگی کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالیں۔

بعض لوگ فرض سے مراد فرض نمازیں اور نفل سے مراد نفل نمازیں لیتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ حضور اکرم ؐنے اپنے خطبہ میں اہلِ ایمان کو تمام فرائض ادا کرنے پر اُبھارا ہے۔ علم حاصل کرنا فرض ہے۔ دعوت وتبلیغ اور جہاد فرض ہے۔ نیکی کا حکم دینا اور بدی سے روکنا فرض ہے۔ عدل و انصاف اور امن و امان کاقیام فرض ہے۔ عہدوپیمان کو پورا کرنا فرض ہے۔ ماں ، باپ، اولاد، رشتہ دار،  یتیم ومسکین اور تمام مخلوقِ خداکے حقوق ادا کرنا فرض ہے۔ نماز، روزہ،زکوٰۃ اور حج بھی فرض ہے۔

اسی طرح نفل سے مراد محض نفلی نمازیں نہیں ہیں بلکہ اس میں وہ تمام اسلامی اعمال داخل ہیں جن کا درجہ فرض کانہیں بلکہ نفل کا ہے۔ راستے میں پڑے ہوئے پتھر اور شیشہ کو ہٹادینا تاکہ کوئی ٹھوکر کھا کر گرنہ جائے اورکسی کا پائوں زخمی نہ ہوجائے۔ اپنے فرائض منصبی کو بحسن وخوبی انجام دینے کے لیے اصل ڈیوٹی سے زیادہ وقت دینا، ملازم اور مزدور کو اس کی محنت سے زیادہ معاوضہ دینا،  کم منافع پر اشیاء فروخت کرنا،ڈاکٹر و حکیم کا غریب مریضوں کو مفت دوا دینا، دعوت و تبلیغ اور جہاد میں جان و مال اور وقت کی فرض سے زیادہ قربانی دینا، علم سیکھنے اور سکھانے کے لیے اپنے آرام وراحت اور دل چسپیوںکو چھوڑنا، زیادتی کرنے والے سے انتقام لینے کے بجائے معاف کر دینا، حق دار کو اس کے حق سے زیادہ دینا، خود بھوکے رہ کر دوسرے کو کھلانا، اور اس قسم کےدوسرے کام بھی نفل عبادت ہیں۔ اس لیے رمضان میں صرف فرض نمازوں اور روزوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ تمام فرائض کو ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح نفل نمازوں اورروزوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ تمام فرائض کو ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح نفلی خیرات و صدقات اور اذکاراور اَوراد کو کافی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ دوسرے نفلی کاموں اور نیکیوں کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔ اسی صورت میں روزوں سے وہ ہمہ گیر تقویٰ پیدا ہوگا جو زندگی کے تمام معاملات کو خدا کی شریعت کا پابند بنا دےگا۔ اوراگر صرف چند فرائض و نوافل کا اہتمام کیا تو ممکن ہے کہ زندگی کے بعض گوشے تو نُورِ تقویٰ سے خوب جگمگا اُٹھیںلیکن دوسرے شعبوں میں یا تو اس کی روشنی نہایت مدھم ہوگی یا پھر وہ بالکل تاریکی میں ڈوب جائیں گے۔

ایسے ناقص تقویٰ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک شخص ایک طرف تو تہجدگزار اور اشراق و اوّابین کا سخت پابند ہوگا اور دوسری طرف امربالمعروف اور نہی عن المنکر کےفریضہ سے بالکل غافل ہوگا، بلکہ امکان اس بات کا ہےکہ وہ معروف کی راہ میں رکاوٹ اور منکر کا محافظ و پاسبان بن کررہے۔ ایسا ناقص متقی ممکن ہے اپنی زبان کو ہروقت ذکر و وِرد اور تسبیح و تہلیل سے تر رکھتا ہو لیکن ساتھ ہی اس کی زبان کے شر سےنہ اس کے رشتہ دار اور پاس پڑوس والے محفوظ ہوں گے اور نہ دوسرے ملنے جلنے والے۔ ظاہر ہے ایسے آدمی کو متقی نہیں کہاجاسکتا بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ وہ جہنّمی ہے۔ اس لیے رمضان میں تمام فرائض اور نوافل کی پابندی مقدور بھر کرنی چاہیے، تاکہ پوری زندگی تقویٰ کے رنگ میں رنگ جائے اور زندگی کا ہرشعبہ نُورِ تقویٰ سے منور ہوجائے۔

اس خطبہ میں حضوؐر نے فرمایا کہ یہ صبر کا مہینہ ہے۔ صبر کے معنی ہیں: خدا کی اطاعت و بندگی کے لیے اپنی خواہشات پر کنٹرول کرنا اور ان کو خدا کی مرضی کےتابع کردینا ہے۔ ناموافق حالات میں دین پر قائم رہنا، اس کو قائم کرنے کےلیے جانی اور مالی قربانیاں دینا اور مصائب اور مشکلات برداشت کرنا۔ ظاہرہے روزہ اسی صبروتحمل کی تربیت دیتاہے۔ سحری کے وقت نیند کا غلبہ ہوتا ہے۔ لیکن ایک مسلمان میٹھی نیند سے اُٹھ کر سحری کرتا ہے۔ دن کے وقت بھوک پیاس لگتی ہے لیکن وہ  صبر کرتاہے اور کھانےپینے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا۔ وہ خواہشِ نفس سے مغلوب ہونے کےبجائے اس کو اپنے قابو میں لے لیتاہے۔ اسی طرح فکروخیال، آنکھ،کان،زبان اورہاتھ پائوں حرام کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں لیکن وہ ان کو روک دیتا ہے۔ اس طرح جو شخص پورے ایک ماہ تک صبروتحمل کی مشق کرلے اس کے لیے سال کے باقی گیارہ مہینوں میں بھی خدا کی اطاعت و بندگی کے لیے خواہشات کو قربان کرنا آسان ہوجاتا ہے اوروہ خدا کی رضا اور اس کے دین کی سربلندی اور غلبے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کا حوصلہ اور عزم اپنے اندر پیداکرلیتا ہے۔

پھر فرمایا کہ یہ مہینہ ہمدردی اورغم خواری کا ہے۔ ہر روزہ دار کو روزہ رکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھوک کتنی تکلیف دہ چیز ہے۔ اس سے اس کے دل میںغریبوں، مسکینوں اور فاقہ کشوں کے لیے ہمدردی اورمدد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ ان کی ہرممکن مالی مددکے لیے مستعد و مضطرب رہنے لگتا ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ اس ماہ میں مومن کا رزق بڑھا دیاجاتا ہے۔ یہ ہرشخص کاتجربہ ہے کہ اس مبارک مہینہ میں عام دنوں کی بہ نسبت مالی حالات بہتر ہوتے ہیں اور وہ نعمتیں بھی مل جاتی ہیں جو عام دنوں میں میسر نہیں آتیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں روزے داروں کو روزہ افطارکرانے کی ترغیب دی ہے تاکہ مومن صرف شکم پروری کا اسیر ہوکر نہ رہ جائے بلکہ اس کے دل میں دوسروں کو کھلانے پلانے کا جذبہ بھی اُبھرے اور اس طرح غریبوں کا بھی بھلا ہو۔ یہ اجروثواب جس کی  خوش خبری حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، ان افطاریوں کے لیے ہے جو محض خدا کی رضا اور اجروثواب حاصل کرنے کی نیت سے کروائی جائیں۔ یہ اجروثواب ان افطاریوں پر نہیں جو اپنی دولت مندی اور شان و شوکت کے مظاہرے اور کاروباری یا سیاسی مقاصد کے لیے کرائی جاتی ہیں۔

آخر میں فرمایا کہ اس کا پہلا حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ دوزخ کی آگ سے نجات کاہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس مہینہ میں نیک لوگوں کے لیے درجات کی بلندی ہے، اور گنہگار چاہے ان کے گناہ زمین کے ذرّوں اور آسمانوں کے تاروںکے برابر ہی کیوں نہ ہوں، اگروہ گناہوں سے توبہ کرکے نیک اور صالح بن جائیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دےگا اور دوزخ کے عذاب سے بچالے گا۔ پس عزم کیجیے کہ اس مبارک مہینہ میں خدا کے دامنِ رحمت سے چمٹ جائیں گے۔ رو رو کر اپنے گناہ معاف کرائیں گے اور نیک بن کر اس کے عذاب سے بچنے اور اس کی نعمتوں بھری جنّت میں داخل ہونے کی امکان بھر کوشش کریں گے۔