ابو سلیم محمد عبدالحی


عَن النَّبِیِّ  صَلَّی اللہ عَلَیہِ وَسَلَّم اٰمُرُکُمْ  بِخَمْسٍ  ، اَلْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ  وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ  وَالْجِھَاد  فِیْ  سَبِیْلِ  اللہِ (بخاری: ۲۸۳۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تمھیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں: جماعت کے ساتھ رہنا، بات سننا، اطاعت کرنا، ہجرت کرنا اور جہادفی سبیل اللہ کرنا۔
اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو صاف صاف یہ حکم دیا ہے کہ وہ اجتماعی زندگی بسر کریں۔ اجتماعی زندگی کے لیے بنیادی چیز یہ ہے کہ اُن کے اندر ایک ہستی ایسی ضرورہونا چاہیے، جو اُن کی زندگی کے بارے میں ہدایات جاری کرے اور لوگ اس کی اطاعت کریں۔ ایسی زندگی جس میں حکم دینے اور اطاعت کرنے کا کوئی انتظام نہ ہو، آںحضور صلی اللہ  علیہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں اسلامی زندگی نہیں ہے۔ آپؐ نے اپنی اُمت کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ہرگز منتشر زندگی نہ گزاریں۔آپؐ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ مسلمانوں کا اپنا کوئی اجتماعی نظم نہ ہو۔
 اجتماعیت: پہلی چیز جس کی ہدایت دی گئی وہ جماعت ہے اور جماعت افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ لیکن ایسا مجموعہ نہیں کہ جسے ہم بھیڑ کہتے ہیں۔ اگر یوں ہی کسی جگہ لوگ اکٹھے ہوجائیں تو انھیں ہم جماعت نہیں کہتے۔ جماعت لوگوں کے ایک ایسے مجموعے کو کہتے ہیں، جس کے اندر کسی ایک مقصد پر اتحاد ہوگیا ہو۔اگراُن کی زندگی کے کاموں میں انتشار ہے اور وہ کسی ایک مقصد پر متحد نہیں ہیں تو اُنھیں جماعت نہیں کہہ سکتے۔
دوسری ضروری چیز جو جماعت بننے کے لیے مقصد ِاتحاد سے بھی زیادہ ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ لوگوں میں ایک دوسرے کے ساتھ وابستگی ہو، محبت اور رواداری ہو اور صاف طور پر یہ محسوس ہو کہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اُن کی راہیں ایک ہیں، اور یہ مل جل کر ایک ہی منزل کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ ’جماعت‘ کے ایک لفظ میں وہ پوری تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے، جس شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پوری اُمت کو دیکھنا چاہتے تھے۔
  سمع و طاعت: جماعت کا تصور سامنے آتے ہی یہ ضرورت خود بخود سامنے آجاتی ہے کہ کوئی اس جماعت کا سربراہ ہو، جو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور رسولؐ اللہ کے ارشادات کی روشنی میں اُمت کی رہنمائی کرے اور اُمت کے افراد اس کی بات سنیں اور اطاعت کریں۔ اسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظوں میں ’سمع اور طاعت‘ کہا گیا ہے، یعنی ’سننا اورکہنا ماننا‘۔ یہ سمع اور طاعت اسلامی زندگی کی جان ہے۔ سمع اور طاعت کے بغیر جماعت کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا اور یہی وہ الفاظ ہیں، جن سے واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اُمت مسلمہ اپنے مزاج اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس بات کی محتاج ہے کہ اس میں حکم اور طاعت کا نظام ہو۔ ایسا نظام جو کسی دوسرے نظام کے تابع نہ ہو، کسی کے زیراثر نہ ہو اور اپنے حدود اوراختیارات میں بالکل آزادہو۔
سمع و طاعت کے الفاظ احادیث میں کثرت سے استعمال ہوئے ہیں اور اگر ان سب کو سامنےرکھا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ ایک ایسے نظام کو قائم کرنا اُمت مسلمہ کی ایک لازمی اور فطری ذمہ داری ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ امروطاعت کا کوئی نظام نہ کبھی آپ سے آپ قائم ہوا ہے اور نہ قائم ہوسکتا ہے۔ اس کے قائم کرنے کے لیے بھی کوشش شرط ہے اور اس کے قائم رکھنے کے لیے بھی کچھ کرنا پڑتاہے۔ یہ ہمیشہ انسانی گروہ کی کوششوں سے ہی قائم ہوا کرتا ہے۔
 اس لیے رسولؐ اللہ کے ارشادات کے مطابق یہ نظام بھی اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا، جب تک اُمت مسلمہ خود اس ذمہ داری کو محسوس نہ کرے اور اس کے لیے ضروری کوششیں انجام نہ دے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ اس نظام کی ’اطاعت‘ صرف ’معروف‘ میں ہے، معصیت میں نہیں، یعنی صرف ان باتوں میں اطاعت فرض ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اسلامی شریعت کے خلاف نہ ہوں۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اطاعت صحیح نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں جماعت، سمع اورطاعت کے الفاظ سے جونقشہ ہمارے سامنے آتا ہے، اس کا خلاصہ اُوپر جو پیش کیا ہے، یہ چیز ایسی نہیں ہے کہ صرف خواہشوں سے حاصل ہوجائے یا بار بار اس کا تذکرہ کرنے سے کام بن جائے۔ دُنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کوئی نظام چاہے ، وہ حق ہو یا باطل، اس وقت تک قائم ہی نہیں ہوا، جب تک اس کے لیے کوششیںنہیں کی گئیں۔
 اسلام جس قسم کی سمع و طاعت کا نظام قائم کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے بھی کوشش شرط ہے اور اس کوشش کے بھی دو عنوانات ہیں: ایک ہجرت اور دوسرا اللہ کی راہ میں ’جہاد‘۔ افسوس یہ ہے کہ ان دونوں الفاظ کا صحیح مفہوم ہمارے سامنے نہیں آیا۔ پھر غیروں نے اِن الفاظ میں جو رنگ بھر دیا ہے، اس سے تصویر اور بھی غلط ہوگئی ہے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو آج دُنیا کی کوئی تمدنی ترقی ان دو لفظو ں کی حقیقت سے خالی نہیں ہے۔ ہرنظام جو آج قائم ہے یا جسے قائم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں، لازماً اپنے خیرخواہوں سے وہی مطالبہ کرتا ہے، جو اسلام ہجرت اور جہاد کی صورت میں اپنے پیرووں کے سامنے رکھتا ہے۔
  ہجرت: ’ہجرت‘ کا مقصد یہ ہے کہ انسان اعلیٰ مقاصد کی خاطر کم ترفوائدکو قربان کردے اور اس کی راہ میں جو چیزیں بھی حائل ہوں اُنھیں چھوڑدے: آرام و راحت، مال و دولت، ملک وو طن، اہل و عیال سب اس میں شامل ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ دُنیا کے تمام نظام جب اپنے پیروکاروں سے ’ہجرت‘ کا مطالبہ کرتے ہیں، تو اُن کے سامنے جو بھی اعلیٰ سے اعلیٰ مقصد رہتا ہے، جس کی خاطر وہ قربانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں، اُس کا تعلق صرف اسی زندگی سے ہوتا ہے۔ وہ اگر چاہتے ہیں کہ لوگ آج اپنے آرام و آسایش کو چھوڑ دیں یا اپنا مال و دولت قربان کردیں، تو صرف اس لیے کہ کل انھیں اوراگر انھیں نہیں تو اُن کے بعد آنے والی نسلوں کو بہت زیادہ آرام وراحت اور مال و دولت ملنے کی اُمید ہو۔
لیکن اسلام جس ’ہجرت‘ کا مطالبہ کرتا ہے، اس کے بدلے کے طور پر وہ اُس زندگی کی نعمتوں کو رکھتا ہے، جو اس زندگی کے بعد یقینا آنے والی ہے اور جو ہمیشہ رہے گی۔ یہاں اس تفصیل کا موقع نہیں کہ اس فرق کی وضاحت کی جائے، جو نقطۂ نظر کے اس اختلاف سے اسلام کی خاطر جدوجہد کرنے والے اس گروہ اور دوسرے نظاموں کی خاطر جان کھپانے والے لوگوں میں فطری طور پر واقع ہوجاتا ہے۔ لیکن آپ یقین رکھیے کہ اسلام کا اپنے مقصد کے لیے ہجرت کا مطالبہ نہ کوئی انوکھا مطالبہ ہے اور نہ کسی پچھلے ’غیرترقی یافتہ‘ دور کی یادگار۔ یہ ایک منطقی، جائز اور فطری مطالبہ ہے اورایک لازمی شرط۔ بشرطیکہ اُمت مسلمہ اس زندگی کو اپنانے کا فیصلہ کرے، جو اللہ کے رسولؐ نے پسند فرمائی ہے اور جس کا نقشہ قرآن کے ایک ایک صفحے پر ہمارے سامنے ہے۔
جہاد: اب دوسری چیز ’جہاد‘ کو لیجیے۔ اس کا نقشہ تو غیروں ہی نہیں بہت سے اپنوں کی نظروں تک میں اور بھی بھیانک ہے۔ ’جہاد‘ کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ انسان جس مقصد کو عزیز رکھتا ہے، اس کو حاصل کرنے اور اسے اس کے دشمنوں سے بچانے کے لیے اپنی جان اور مال سے انتہائی درجے کی کوشش کرے اور اس کی خاطر اپنا سب کچھ لگا دے۔ ذرا غور کیجیے کہ کیا دُنیا میں کوئی قوم، کوئی ملک، کوئی جماعت، کوئی قبیلہ، کوئی گھر، انتہا یہ کہ کوئی وجود کیا اس کوشش کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟
 اگر آپ اپنے دشمنوں کو دفع کرنا جرم سمجھ لیں، اگرآپ اپنے وجود کو باقی رکھنے کی کوششوں کو غلط سمجھنے لگیں، تو کیا اس زمین کے اُوپر کوئی ایسی قوت ہے، جو آپ کے وجود کو برقرار رکھ سکے؟ یہ کام تو ہرقوم کر رہی ہے اور کرتی رہتی ہے۔ بس فرق صرف ایک ہے۔ یہ کہ اگر کوئی قوم اپنے وجود کو برقرار رکھنا چاہتی ہے یا اپنے دشمنوں کے ہاتھوں مٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتی تو اس کے سامنے سوائے اپنی قومی برتری کے اور کوئی جذبہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح ملکوں کا حال ہے، اور یہی روح جماعتوں، قبیلوں اور افراد سب میں کام کر رہی ہے۔
البتہ اسلام جس جہاد کے لیے ہمیں تیار کرتا ہے، اس کی ایک لازمی شرط ’فی سبیل اللہ‘ قرار دیتا ہے۔ اس شرط کے سامنے آتے ہی کیفیت بالکل بدل جاتی ہے۔ اب نہ کسی قوم کو دوسری قوم پر غالب کرنے کا سوال باقی رہتا ہے اور نہ کسی ملک کی حدود کو بڑھانے یا اس کا لوہا منوانے کی خواہش سامنے آتی ہے اور نہ کسی جماعت یا کسی قبیلے پر دوسری جماعتوں اور دوسرے قبیلوں کی بالادستی قائم کرنے کا کوئی خیال دل میں باقی رہتا ہے، بلکہ اس کے برخلاف جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال کھپا کر کمال درجے کی سعی و محنت کرنے کے لیے اُٹھتے ہیں، ان کے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے۔ وہ اپنے لیے کچھ نہیں چاہتے، وہ انسانیت کے دُکھوں کو دُور کرنا چاہتے ہیں، بھٹکے ہوئے انسانوں کو صحیح راستہ دکھانا چاہتے ہیں اور جن لوگوں کی نظریں صرف اِسی دُنیا میں اُلجھ کر رہ گئی ہیں، انھیں اس ہمیشہ رہنے والی زندگی میں کامیاب کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ جب وہ اپنے لیے کچھ نہیں چاہتے تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ اپنی جان اور مال کو کھپا کر کمال درجے کی سعی و محنت کرنا قبول کرلیں؟ لیکن جب وہ اپنے لیے کچھ نہیں چاہتے تو اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ وہ اِس دُنیا میں ملنے والے کسی نفع یا کسی بدلے کی خاطر یہ پاپڑ نہیں بیلتے۔ ان کے دلوں میں یہ حقیقت بہت اچھی طرح بیٹھ جاتی ہے کہ اصل معاملہ اُس زندگی کا ہے ،جو موت کے بعدشروع ہوتی ہے اور جو کبھی ختم نہ ہوگی۔ وہ جو کچھ چاہتے ہیں، اُسی زندگی میں چاہتے ہیں اور جو کچھ کرتے ہیں، اُسی زندگی کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں۔
نقطۂ نظر کی یہ تبدیلی دونوں قسم کے جہادوں میں، یعنی ’جہاد فی سبیل اللہ‘ میں اور ’جہاد فی سبیل غیراللہ‘ میں زمین و آسمان کا فرق پیدا کردیتی ہے۔ ایک میں خلوص، محبت، ہمدردی اور اصلاح کے جذبات کام کرتے ہیں، اور دوسرے کی بنیاد مفاد پرستی، نفرت اور ذاتی، قومی اور ملکی برتری کے سوا کچھ نہیں۔
یہ تو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک حدیث ہے۔ آپؑ جانتے ہیں کہ احادیث میں یہ مضمون بار بار آیا ہے اور قرآن کی دعوت کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ ’’ہم وہی زندگی گزاریں جو اسلام نے ہمارے لیے پسند کی ہے اور جس کے نتیجے میں ہماری ہمیشہ رہنے والی زندگی سُدھر سکتی ہے‘‘۔ اس بات کی ضرورت نہیں کہ ان احکامات کے مقابلے میں اُمت مسلمہ کی موجودہ حالت تفصیل سے آپ کے سامنے پیش کی جائے ۔ ہم اور آپ سب جانتے ہیں کہ ہم اس منزل سے دُور ہی نہیں ہیں بلکہ اب تو شاید ہم نے اس منزل کو بھلا ہی دیا ہے ، یہی سب سے بڑی بدنصیبی ہے۔
 یقین جانیے کہ اُمت مسلمہ پر فرض تو نہیں کیا گیا ہے کہ وہ اگر کبھی غیراسلامی زندگی کا شکار ہوجائیں تو وہ اسے آناً فاناً بدل کر ہی رکھ دیں، لیکن یہ یقینا ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے صحیح مقام کو ہمیشہ نظروں کے سامنے رکھیں اور اس کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہیں۔
ان کوششوں کی ابتدا ’جماعت‘ اور’ سمع و طاعت‘ ہے، اور آخری منزل ’ہجرت‘ اور ’جہاد‘۔

قرآن کریم ایک دعوت کی کتاب ہے اور ایک دعوت اور تحریک کے ساتھ ساتھ نازل کی گئی ہے۔ پورے ۲۳برس کی مدت میں اسلامی دعوت کو جن جن مرحلوں سے ہوکر گزرنا پڑا، ان تمام مرحلوں میں اس کتاب نے بروقت رہنمائی کی ہے۔ ہرموقع پر ضرورت کے لحاظ سے اس کے مختلف حصے نازل ہوتے رہے ہیں۔ ضرورت کے تقاضوں کے تحت، انداز بدل بدل کر ایک بات کو بار بار دُہرایا گیا ہے اور ہر موقع پر کسی ضروری پہلو کو زیادہ اُبھارا گیا ہے۔

ایسی کتاب کو اگر آپ دوسری کتابوں کی طرح پڑھیں گے تو ظاہر ہے کہ آپ پورا فائدہ نہیں اُٹھا سکیں گے۔ جو باتیں کسی خاص موقع اور کسی خاص محل پر کہی جاتی ہیں، اگر آپ انھیں موقع اور محل کے تصور سے الگ کرکے دیکھیں تو ان میں نہ اثر باقی رہتا ہے اور نہ سننے والے اس سے وہ لطف محسوس کرسکتے ہیں۔ آپ نے خود تجربہ کیا ہوگا۔ کبھی کسی نازک موقع پر خاص حالات کے تحت کسی شاعر کا ایک مصرع یا کسی شخص کا کوئی مقولہ سننے والوں کو تڑپا دیتا ہے۔ لیکن وہی مصرع اور وہی مقولہ اگر ان حالات سے الگ ہوکر دہرایا جائے تو اس میں کوئی خاص بات معلوم نہیں ہوتی۔

قرآن ایک دعوت کی کتاب ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ قرآن آپ کی آنکھوں کو پُرنم اور آپ کی قوتوں کو متحرک کرے، تو آپ پہلے اس دعوت کو اپنائیں، جو قرآن کریم پیش کرتا ہے۔ آپ اس دعوت کو عملاً دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ اگر آپ سچ مچ اسلامی دعوت کو لے کر اُٹھیں گے تو آپ محسوس کریں گے کہ آپ کو قدم قدم پر رہنمائی کی ضرورت ہے، اور جب آپ کے حسب ِ ضرورت وہ رہنمائی براہِ راست مالکِ کائنات کے الفاظ میں آپ کے سامنے آئے گی تو ممکن نہیں کہ آپ کے جذبات میں اُبھار پیدا نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کی آنکھیں پُرنم ہوجائیں، اور آپ اپنے اندر ایسی قوت محسوس کرنے لگیں کہ آپ کو دنیا کی ساری قوتیں ہیچ نظر آئیں۔

ایک ایسا شخص جو پیاسا نہ ہو اور جسے پانی کی ضرورت بھی نہ ہو، وہ پانی کے اوصاف بہت کچھ بیان کرسکتا ہے۔ وہ اچھی طرح بتا سکتا ہے کہ پانی کس کس گیس سے مل کر بنا ہے، کیا خاصیتیں رکھتا ہے، کتنے درجے گرمی پاکر اُبلتا ہے، کس درجے پر جم جاتا ہے، غرض یہ کہ آپ اُس کی باتیں سن کر محسوس کریں گے کہ وہ پانی کا مکمل عالم ہے اور پانی کے بارے میں اُس کی معلومات انتہائی قابلِ قدر ہیں۔لیکن اگر پانی کی صحیح قدروقیمت کا اندازہ کرنا ہو تو آپ اُس پیاسے سے پوچھیے جو کسی ریگستان میں کئی دن تک پانی کی تلاش میں گھوم چکا ہو، اور آخر میں کہیں سے ایک پیالہ بھر پانی پاجائے۔

اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے لیے غور کیجیے کہ قرآن پاک کے ابتدائی دور میں اللہ تعالیٰ نے داعیِحق (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کچھ ایسی ہدایات دی ہیں جن میں انھیں اس مشکل کام کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے کی تاکید ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس اُونچے کام کے لیے آپؐ کو منتخب فرمایا تھا، اس کے لیے ضروری صلاحیتیں آپؐ میں پہلے ہی پیدا ہوچکی تھیں۔ آپؐ دنیا کے تمام انسانوں میں بہتر انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ کی خاص مدد آپؐ کو حاصل تھی لہٰذا اپنے آپ کو تیار کرنے والی ہدایات کی ضرورت آپؐ کو اتنی نہ تھی جتنی کہ آپؐ کے بعد آنے والے ان لوگوں کو تھی جو آپؐ کی ہدایات کے تحت اللہ کے دین کو قائم کرنے کا کام کرنے والے تھے۔ اب ظاہر ہے کہ آپؐ کی اُمت میں سے قیامت تک جو لوگ دعوتِ اسلامی کا کام کرنے کے لیے تیار ہوں گے، اللہ کے دین کو دنیا میں قائم کرنے کا ارادہ کریں گے اور اس راہ میں کوئی قدم بڑھائیں گے، وہ کتنی سخت ضرورت محسوس کریں گے کہ دنیا کے اس سب سے دشوار کام کے لیے انھیں کچھ ہدایات ملیں اور ان کی بروقت رہنمائی ہو۔ ایسے لوگوں کے سامنے جب اس دور کا نازل شدہ قرآن آئے گا تو انھیں وہی چیز ملے گی جس کو ان کے دل ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ سورئہ مزمل جس میں نماز، ذکر اور تہجد سے قوت حاصل کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایات دی گئی ہیں، ایک جملہ یہ بھی ہے کہ: اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا، (مزمل۷۳:۷)، ’’بلاشبہہ تمھیں دن میں بہت لمبا (دعوتِ اسلامی کا کام)کام کرنا پڑتا ہے‘‘ ۔ اس لمبے کام کے لیے قوت کی ضرورت ہے۔ اس خدمت کے لیے تیاری لازمی ہے اور اس قوت اور اس تیاری کے لیے یہ نسخہ موجود ہے۔ بات بالکل کھلی ہوئی ہے۔ جسے کوئی لمبا کام کرنا ہی نہ ہو، اس کے لیے ان ہدایات میں کیا رکھا ہے۔ نسخہ اور دوا تو بیمار کو عزیز ہوتا ہے۔

اس طرح آگے بڑھیے۔ مکی دور کے پورے قرآن میں کفارِ مکہ کی وہ کش مکش جس نے اہلِ ایمان کا جینا دوبھر کر دیا تھا، بطور پسِ منظر کے موجود ہے۔ اللہ کا نام لینا جرم ہے۔ اپنے پرائے ہوتے جارہے ہیں۔ دوست دشمنی کا برتائو کر رہے ہیں۔ اوچھے اور کمیں لوگ، بااخلاق اور شریف لوگوں پر قسم قسم کی بے ہودہ گندگیاں اُچھال رہے ہیں۔ پھر اہلِ ایمان جو کچھ کہہ رہے ہیں اور جو کچھ کررہے ہیں، ان میں کوئی مادی غرض چھپی ہوئی نہیں ہے۔ وہ خود سیدھی راہ پر چلنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو خود انھی کے بھلے کے لیے سیدھی راہ پر چلانا چاہتے ہیں۔ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بڑی سیدھی اور سچی بات ہے۔ پھر اُسے زبردستی منوانا نہیں چاہتے، مان لینے کے لیے پیش کررہے ہیں۔ سوچنے اور سمجھنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ مگر مخالفین ضد اور ہٹ دھرمی پر اَڑے ہوئے ہیں۔ ہربات کو سنی اَن سنی کردیتے ہیں۔ کسی بات کو معقولیت کے ساتھ سنتے ہی نہیں، غور اور فکر کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔

اب ذرا سوچیے اگر کوئی گروہ یا کوئی شخص حق کی دعوت لے کر اُٹھے، اپنی حد تک دنیا میں اللہ کے دین کا پیغام دوسروں تک پہنچائے ، اور اللہ کے دین کو قائم رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ کوشش شروع کردے اور اس کے نتیجے میں اُسے بھی کچھ ایسے ہی حالات پیش آنے لگیں جن کا کچھ مختصر ذکر اُوپر ہوا ہے، وہ بھی مخالفتوں کا نشانہ بن جائے، اسے اپنے بھی پرایا سمجھنے لگیں، اس کے لیے بھی صرف ایک اللہ کا اپنا حاکم و مالک مان لینا جرم ہوجائے، اس کی بات کو بھی لوگ سننے اور اس پر   غور کرنے کے بجاے یوں ہی ہوا میں اُڑانے لگیں، تو ایسے شخص کو ان نازک حالات میں مناسب اور بروقت ہدایت کی کیسی سخت ضرورت محسوس ہوگی۔

جس اللہ نے اُمت ِ مسلمہ پر قیامت تک کے لیے اقامت ِ دین کا فرض عائد کیا ہے اس کا بڑا احسان ہے کہ اس نے یہ مشکل خدمت انجام دینے کے لیے ہدایات بھی دے دی ہیں۔ ان ہدایات کی صحیح قدروقیمت تب ہی محسوس ہوسکتی ہے جب اس خدمت اور فرض کو ادا کرنے کے لیے عملاً میدان میں اُترا جائے جس کے سلسلے میں یہ ہدایات دی گئی ہیں۔

اسی انداز پر آپ ان مضامین پر غور کرتے جایئے اور پھر فیصلہ کیجیے کہ جب تک واقعی کوئی متحرک دعوتی کام لوگوں کے سامنے نہ ہوں، ان کے لیے اس سرمایے میں سے کتنا تھوڑا حصہ آسکتا ہے۔

  • صبر کی تلقین تو اسی شخص کے لیے موزوں ہے جو مخالفتوں کا شکار ہورہا ہو اور مشکل حالات میں گھرا ہوا ہو۔
  • دنیا کو مقصود نہ بنانے کی نصیحت تو اسی کو کی جاسکتی ہے جو دنیا کو جیتنے اور حاصل کرنے کے لیے نکلا ہو۔ توحید و آخرت کی دلیلیں تو اسی شخص کو وجد میں لاسکتی ہیں جو یا تو خود منکرِ توحید و آخرت رہا ہو یا جس میں منکرینِ توحید و آخرت کو بات پہنچانے کی تڑپ ہو۔
  • شرک کے خلاف قرآن کی پیش کردہ مہم تو اسی کے لیے سبق بن سکتی ہے جو شرک اور توحید کے فرق کو سمجھنے کا اور سمجھانے کا ارادہ رکھتا ہو۔
  • اسلام کے خلاف قسم قسم کے شبہات کا جواب اور مخالفین کی ڈالی ہوئی اُلجھنوں کی صفائی کا لطف تو وہی اُٹھا سکتا ہے جس نے ان شبہات کو دُور کرنے اور ان الجھنوں کو صاف کرنے کا دردِسر اپنے ذمے لیا ہو۔
  • کسی صالح جماعت کے بننے کی ضرورت اور اس کے اصولوں کا ذکر تو اسی شخص کے لیے مفید ہو سکتا ہے جو اسلام کو بحیثیت ایک اجتماعی دین کے خود تسلیم کرچکا ہو، اور دوسروں پر اس کی اس حیثیت کو واضح کرنا چاہتا ہو۔
  • اسلامی ریاست کی تعمیر کے لیے بنیادی اصول تو اسی شخص کی دل چسپی کا موجب ہوسکتے ہیں جس کے سامنے کسی اسلامی نظام کو واقعی برپا کرنے کا سوال ہو۔
  • اسلامی تمدن اور اسلامی رہن سہن کے اصول و ضوابط کو سمجھنے کی کوشش تو وہ کرے جسے واقعی کوئی اسلامی معاشرہ تیار کرنا ہو اور ایسے معاشرے کو دنیا کے سامنے ایک جیتے جاگتے اسلامی نمونے کی حیثیت سے پیش کرنا ہو۔
  • زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلامی رہنمائی کا علم تو اس کے لیے ضروری ہے جس نے اپنی زندگی کے لیے یہ فیصلہ کرلیا ہو کہ اُسے بہرحال اسلامی اصولوں پر قائم رہنا ہے اور دنیا کے تمام دوسرے اصولوں پر ان اصولوں کی برتری کو اپنے قول اور اپنے عمل سے ثابت کرنا ہے۔
  • منافقوں کے ذکر میں تو اسی کے لیے نصیحت ہے جو ہر آن اس بات سے ڈرتا ہو کہ کہیں کوئی منافقوں جیسی بات اس میں پیدا نہ ہوجائے، اور جو اس بات کا درد رکھتا ہو کہ اپنی حد تک اُمت مسلمہ سے اس روگ کو دُور کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔
  • جنگ کی ہدایات، جنگ کے اخلاق اور جنگ کی پاندیوں کا تذکرہ تو اسی کے لیے مفید ہوسکتا ہے جس نے کسی ایسے کام کی ابتدا کی ہو جس کے نتیجے میں کبھی ایسا خطرناک وقت آنے کا بھی کوئی امکان ہو، لیکن جن لوگوں نے خوب سوچ سمجھ کر اپنے خیال میں بے ضرر راستے اختیار کرلیے ہوں اور جو ہر قدم کو نہ صرف پھونک پھونک کر رکھتے ہوں بلکہ ہر دم اس بات کے لیے  تیار ہوں کہ جب اور جیسی ضرورت پڑے قدم فوراً واپس ہٹا لیا جائے تو ان کے لیے یہ ساری باتیں پچھلے واقعات سے زیادہ کیا اہمیت رکھ سکتی ہیں۔

غرض یہ کہ پورے قرآن پر نظرڈالی جائے۔ اس کا ہر مضمون مطالبہ کرتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی منظم تحریک، کسی مستقل دعوت کا پروگرام اور کسی عملی جدوجہد کا نمونہ ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر یہ سارے مضامین تقریباً بے روح ہوتے ہیں اور اس بات کا سب سے بڑا زندہ ثبوت خود  آج اُمت ِ مسلمہ ہے۔

اب بھی مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ان کی بگڑی ہوئی حالت کا صحیح علاج صرف قرآن مجید ہے لیکن یہ علاج ان ہی لوگوں کے لیے کارگر ہوسکتا ہے جو یہ طے کرلیں کہ وہ اس پروگرام کو لے کر اُٹھیں گے جو قرآن پیش کرتا ہے اور اس دعوت کو عملاً پیش کرنے کی جدوجہد کریں گے جن کی ہدایات قرآن کے ہرصفحے پر مل سکتی ہیں۔ سب سے پہلے مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ اس خدائی ہدایت کو سچے معنوںمیں قبول کریں اور اس دنیا کے سامنے پیش کریں لیکن اگر خدانخواستہ انھوں نے اس خدمت کو انجام نہ دیا تو اللہ کا یہ نور ہدایت تو پھیل کر رہے گا۔

اللہ تعالیٰ کچھ اور لوگوں کو اُٹھائے گا اور وہ اُن کی طرح ناکارہ نہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ    ہم سب کو محرومی سے بچائے اور اپنے دین کو قائم کرنے کی ہمیں سعادت نصیب فرمائے۔ یہی   اس زندگی کی سب سے بڑی کمائی ہے۔