سوال: بعض حضرات ایسی انگوٹھی استعمال کرتے ہیں، جس میں بہ طور نگینہ کوئی پتھر لگاہوتا ہے۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہوتا ہے کہ اس پتھر کے انسانی جسم پر اثرات پڑتے ہیں اور مختلف بیماریوں میں افاقہ ہوتاہے۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں کہ کیا ایسی انگوٹھی کااستعمال درست ہے؟ اور کیا ایسا عقیدہ رکھنا جائز ہے؟
جواب: انگوٹھی کا استعمال زمانۂ قدیم سے ہوتارہا ہے۔ سونے، چاندی اور دیگر دھاتوں کی انگوٹھیاں بنائی اور پہنی جاتی رہی ہیں۔ شرعی طور سے انگوٹھی پہننا مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے جائز ہے۔ ہاں، سونا (Gold)اُمتِ محمدیہؐ کے مردوں کے لیے حرام ہے۔ اس لیے سونے کی انگوٹھی پہننا ان کے لیے جائز نہیں۔ حضرت ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اُحِلَّ الذَّھَبُ وَالْحَرِیْرُ ِلِانَاثِ اُمّٰتِی وَحُرِّمَ عَلَی ذُکُوْرِھَا (نسائی: ۵۱۴۸﴾)سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لیے حلال اور مردوں کے لیے حرام ہے۔
بعض احادیث میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت سے مردوں کو سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع کیاہے۔ (بخاری: ۵۸۶۳، ۵۸۶۴،مسلم:۲۰۶۶﴾)
احادیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی تھی، جس سے آپ ؐمہر کاکام لیاکرتے تھے۔ اس پر ’محمدرسول اللہ‘ کندہ تھا۔یہ انگوٹھی آپ ؐکے وصال کے بعد خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرؓ ، پھر خلیفہ دوم حضرت عمرؓ، پھر خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ کے پاس رہی اور یہ حضرات اسے پہنتے رہے۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں کہیں غائب ہوگئی۔ (بخاری: ۵۸۶۶،مسلم: ۲۰۹۱﴾)
انگوٹھی کانگینہ اسی دھات سے بھی ہوسکتاہے۔ مثلاً چاندی کی انگوٹھی کا نگینہ بھی چاندی کا ہو، اور دوسری دھات کا بھی ہوسکتاہے۔ چنانچہ عقیق، یاقوت اور دیگر قیمتی حجریات بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو انگوٹھی بنوائی تھی، صحیح بخاری میں مذکورہے کہ اس کا نگینہ بھی چاندنی کاتھا (۵۸۷۰﴾) لیکن صحیح مسلم میں روایت کے الفاظ یہ ہیں: کَانَ خَاتَمُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مِنْ وَرَقٍ وَکَانَ فَصُّہ‘ حَبْشِیًّا ﴿(۲۰۹۴﴾) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ حبشہ کا بناہواتھا‘‘۔ اس سے اشارۃً معلوم ہوتاہے کہ وہ چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کا تھا۔
جہاں تک حجریات کی تاثیر کا معاملہ ہے تو طب کی کتابوں میں اس کا تذکرہ ملتاہے۔ مختلف حجریات کے بارے میں بتایاگیاہے کہ انھیں اپنے پاس رکھنے، گردن میں لٹکانے یا کسی اور طرح سے اس کے خارجی استعمال سے انسانی جسم پر فلاں فلاں اثرات پڑتے ہیں۔ اس کا تعلق عقیدہ سے نہیں، بلکہ تجربے سے ہے۔ اگر کسی پتھر کا خارجی استعمال طبّی اعتبار سے فائدہ مند ثابت ہو تو اسے انگوٹھی کا نگینہ بنالینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
قرآن کریم پر اعتراضات کا سلسلہ اس کے زمانۂ نزول ہی سے شروع ہوگیا تھا ۔ مشرکینِ مکہ نے، جو اسلام دشمنی میں پیش پیش تھے، اس پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے۔ کبھی اسے گھڑی ہوئی کہانیاں(اساطیر) قرار دیا تو کبھی شعر، کہانت یا جادو کہا۔ اور پھر ہجرتِ مدینہ کے بعد یہود کی جانب سے بھی برملا، قرآن پر مختلف اعتراضات کیے جانے لگے۔ قرآن نے ان تمام اعتراضات کا مدلّل جواب دیا۔ بعد کے زمانوں میں بھی قرآن پر اعتراضات و الزامات کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ مراد یہ کہ ہردور میں دشمنانِ اسلام نے قرآن کو نشانہ بنایا۔ اس سلسلے میں خصوصیت سے مستشرقین (Orientalists) پیش پیش رہے ہیں اگرچہ انھوں نے قرآنیات کے میدان میں اہم تحقیقی اُمور انجام دیے، لیکن ان کے پس پردہ ، اسلام دشمنی کارفرما رہی ہے۔ انھوں نے قرآن کی حقیقی تعلیمات کو مسخ کرنے اور اس کی جانب بے بنیاد باتیں منسوب کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔
مثال کے طور پرچند برس قبل ہندو انتہاپسند تنظیم ’اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا‘ نے ’دیش میں دنگے کیوں ہوتے ہیں؟‘ کے عنوان سے ایک پمفلٹ شائع کیا تھا، جس میں قرآن کی ۲۴ آیتوں کے اجزا نقل کرکے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی تھی: ’قرآن، مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے لوگوں سے جھگڑا کرنے کا حکم دیتا ہے‘۔ اور کہا گیا تھا:’ جب تک ان آیات کو قرآن سے نکالا نہیں جاتا یہاں کے جھگڑوں کو نہیں روکا جاسکتا‘۔ انھی الزامات کے تحت کلکتہ ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا تھا اور قرآن پر پابندی عائد کروانے کی کوشش کی گئی تھی، مگر فاضل ججوں نے موقف سننے کے بعد مقدمہ خارج کردیا تھا۔افسوس کہ اب یہی بات ایک ایسے شخص کی جانب سے کہی گئی ہے جس کا نام مسلمانوں جیسا ہے۔اس نے بھارتی سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی ہے کہ’’ ان آیات کو قرآن مجید سے خارج کردیا جائے‘‘۔
آیندہ سطور میں مذکورہ بالا اعتراضات کا تذکرہ کرکے ان کا جائزہ پیش کیا جائے گا:
ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ ’’قرآن نے اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیے لفظ ’کافر‘ استعمال کیا ہے۔ ان میں ’ہندو‘ بھی شامل ہیں۔ اس لفظ میں نفرت اور حقارت کا مفہوم شامل ہے۔ کافروں کے بارے میں قرآن میں جو باتیں کہی گئی ہیں، ان سے دنیا میں جس طرح کا معاملہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے او رمرنے کے بعد دوسری دنیا میں ان کے ساتھ جیسا معاملہ کیے جانے کی خبر دی گئی ہے، انھیں پڑھ کر مسلمانوں کے دلوں میں ان سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور ان سے دُور رہنے اور ہر طرح کا تعلق منقطع رکھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے‘‘۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لفظ ’کافر‘ کا یہی مفہوم ہے؟عربی زبان میں لفظ’ کفر‘ کے اصل معنٰی چھپانے اور ڈھانکنے کے ہیں۔ عربوں کے کلام میں اس مادہ سے جتنے الفاظ آئے ہیں، سب میں یہ معانی کسی نہ کسی شکل میں ضرور پائے جاتے ہیں۔ ماہر لغت ابن درید الازدی نے لکھا ہے:
وَأَصْلُ الْکُفْرِ التَّغْطِیَۃُ عَلَی الشَّيْءِ (جمہرۃ اللغۃ، ج۱،ص ۴۳۵)کفر کی اصل ہے کسی چیز کو ڈھانک لینا۔
اسی لیے اہلِ عرب لفظ ’کافر‘ کا اطلاق ہر اس چیز پر کرتے ہیں، جو کسی چیز کو ڈھانپ لے۔ مثال کے طور پر ان کے کلام میں درج ذیل چیزوں کے لیے اس لفظ کا استعمال ملتا ہے:
اسی طرح عربی زبان میں ’کفر‘ ناشکری کے معانی میں بھی آتا ہے۔ اس میں بھی اس کے اصلی معانی پائے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ جو شخص کسی کی ناشکری کرتا ہے، وہ گویا اپنے محسن کے احسان کو چھپا دیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ جمہرۃ اللغۃ میں ہے:
وَکَفَرَ فُلَانٌ النِّعْمَۃَ اِذَا لَمْ یَشْکُرْہَا (جمہرۃ اللغۃ، ابن درید، ج۱،ص ۴۳۵) (فلاں نے نعمت کا کفر کیا، یعنی اس پر شکریہ ادا نہیں کیا)
البتہ عربی زبان میں لفظ ’کفر‘ کا غالب استعمال، اسلام وایمان کے بالمقابل ایک اصطلاح کے طور پر ہوتا ہے۔ ماہرینِ لغت میں ازدی نے لکھا ہے: اَلْکُفْرُ ضِدُّ الْاِسْلَامِ (کفر اسلام کی ضد ہے ) ۔ جوہری اور فیروزآبادی کہتے ہیں: اَلْکُفْرُ ضِدُّ الْاِیْمَانَ(کفر ایمان کی ضد ہے)۔
قرآن کریم میں لفظ ’کفر‘ کااستعمال مختلف لغوی معانی کے لیے بھی ہوا ہے، اورایمان کے بالمقابل اصطلاح کے طور پر بھی۔ ایک مقام پر وہ اصل لغوی معانی ’چھپانے‘ میں آیا ہے۔ دنیاوی زندگی کو لہو و لعب قرار دیتے ہوئے اس کی یہ مثال بیان کی گئی ہے:
کَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْـجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہٗ(الحدید۵۷:۲۰)اس کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے۔
اس آیت میں کسانوں کے لیے لفظ ’کفّار‘ لایا گیا ہے۔ کسان کو ’کافر‘ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کھیتی کے دوران بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے۔بعض مقامات پر اس کا استعمال شکر کے بالمقابل ناشکری کے معنوں میں ہوا ہے:
فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ۱۵۲ۧ (البقرہ ۲:۱۵۲) لہٰذا، تم مجھے یاد رکھو، میں تمھیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو، ناشکری نہ کرو۔
اِنَّـا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا۳ (الدھر۷۶:۳)ہم نے اسے راستہ دکھادیا، اب خواہ وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔
اور چوں کہ ناشکری نعمت کے انکار کو مستلزم ہے،اس لیے بعض مقامات پر یہ انکار اور برأت کے معانی میں آیاہے:
اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اَوْثَانًا۰ۙ مَّوَدَّۃَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۚ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا۰ۡ (العنکبوت۲۹:۲۵)تم نے دنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنے درمیان محبت کا ذریعہ بنالیا ہے، مگر قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار اور ایک دوسرے پر لعنت کروگے۔
اس مضمون کی بہت سی آیات ہیں۔ یہاں دو آیات مثال کے طور پر درج کی جاتی ہیں:
وَمَنْ يَّتَـبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ۱۰۸ (البقرہ۲: ۱۰۸)جس شخص نے ایمان کی روش کو کفر کی روش سے بدل لیا وہ راہ ِراست سے بھٹک گیا۔
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ۰ۚ (البقرہ۲: ۸۵)کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟
مفسرین اور ماہرین ِ لغت نے صراحت کی ہے کہ لفظ ’کافر‘ میں وہ تمام معانی پائے جاتے ہیں، جن کے لیے اس کا عربی زبان میں استعمال ہوتا ہے:
علامہ ابن جوزیؒ نے لکھا ہے: ’’لغت میں کفر کے معنٰی چھپانے کے ہیں۔ کافر کو کافر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ حق پر پردہ ڈال دیتا ہے‘‘۔(زادالمیسر: ج۱،ص۲۷۲)
جوہری فرماتے ہیں:’’کافر کو کافر اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کے احسانات کا انکار کرتا ہے اور اس کی نعمتوں کو چھپا لیتاہے‘‘۔(تاج اللغۃ: ج۱،ص۳۹۵)
بعض مسلمانوں کی جانب سے ایک خیال یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ’’ایسے ہر شخص کو جو اسلام کی اساسیات پر ایمان نہ رکھتا ہو، کافر نہیں کہا جاسکتا، یہ لفظ ’غیر مسلم‘ کے مترادف نہیں ہے۔ کافر اسی شخص کو کہا جاسکتا ہے، جس تک اسلام کی دعوت پہنچائی جائے اور اس پر اتمام ِحجت کردی جائے، اس کے باوجود وہ اسلام قبول نہ کرے۔ اتمامِ حجت کے بعد بھی متعین طور پر کسی کو کافر نہیں کہا جاسکتا‘‘۔ لیکن یہ صحیح بات نہیں ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ لفظ ’کافر‘ کااستعمال ’ایمان‘ اور ’اسلام‘ کے بالمقابل ہوا ہے۔ جو شخص بھی اللہ کے دین کو نہ مانے اور اسلامی عقائد کو تسلیم نہ کرے، وہ کافر ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات کریمہ میں لفظ کفر کی نسبت یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی طرف کی گئی ہے۔
اسلام اصولی طور پر دینِ حق کو ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے درمیان فرق کرتا ہے ، تاکہ اس کے احکام کے نفاذ کے معاملے میں دونوں کے ساتھ الگ الگ برتاؤ کیا جاسکے۔ دین ِ حق کے ماننے والوں کو ان احکام کا پابند بنایا جاسکے اور نہ ماننے والوں کو ان کی پابندی سے مستثنیٰ رکھا جاسکے۔ جہاں تک لغوی معانی کا تعلق ہے، اس لفظ کے ذریعے نہ غیر مسلموں سے نفرت کا اظہارکیا گیا ہے اور نہ اس میں لغوی طور پر بُغض، نفرت، حقارت اور ذلّت کے معانی پائے جاتے ہیں۔
ہندواور مغربی معترضین کی جانب سے ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ’’ قرآن میں جہنم کے عذاب کاتذکرہ تفصیل سے کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اسلام قبول نہیں کریں گے، انھیں جہنّم کا عذاب دیا جائے گا‘‘۔ مثال کے طور پر وہ ان آیات کا حوالہ دیتے ہیں:
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِيْہِمْ نَارًا۰ۭ كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَيْرَھَا لِيَذُوْقُوا الْعَذَابَ۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَزِيْزًا حَكِــيْمًا۵۶ (النساء۴:۶ ۵) جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کردیا ہے، انھیں بالیقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے، تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور اپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت خوب جانتا ہے۔
فَلَنُذِيْقَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَذَابًا شَدِيْدًا۰ۙ وَّلَنَجْزِيَنَّہُمْ اَسْوَاَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۲۷ ذٰلِكَ جَزَاۗءُ اَعْدَاۗءِ اللہِ النَّارُ۰ۚ لَہُمْ فِيْہَا دَارُ الْخُلْدِ۰ۭ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْحَدُوْنَ۲۸ (حٰم السجدۃ ۴۱ :۷ ۲-۲۸) ان کافروں کو ہم سخت عذاب کا مزہ چکھا کر رہیں گے اور جو بدترین حرکات یہ کرتے رہے ہیں ان کا پورا پورا بدلہ دیں گے۔ وہ دوزخ ہے جو اللہ کے دشمنوں کو بدلے میں ملے گی۔ اسی میں ہمیشہ کے لیے ان کا گھر ہوگا۔ یہ ہے سزا اس جرم کی کہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے رہے۔
کافروں کو آخرت میں دی جانے والی جو سزائیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں، وہ غیرمسلموں سے نفرت پیدا کرنے کے لیے نہیں، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے قانونِ عدل و انصاف کے عین مطابق ہیں۔ یہ سزائیں اہلِ ایمان کے دلوں میں کافروں سے نفرت و حقارت نہیں، بلکہ ہم دردی پیدا کرتی ہیں اور انھیں آمادہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے ان بھائیوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی جدو جہد کریں۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس دنیا میں پیدا کیا اور انھیں بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ ان کاتقاضا ہے کہ وہ اس پر ایمان لائیں اور اس کے ا حکام بجالائیں۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے، وہ حقیقت میں بڑے ناشکرے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَتِ اللہِ ہُمْ يَكْفُرُوْنَ۷۲ۙ (النحل۱۶:۷۲) پھر کیا یہ لوگ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں۔
جو لوگ اللہ کو چھوڑکر یا اس کے ساتھ دیوی دیوتاؤں کو پوجتے ہیں،جو حقیقت میں نہ انھیں کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، وہ اللہ کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا رویّہ بغاوت کے مترادف ہے۔ ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا، جو باغیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں اور اس کے احکام سے روگردانی کرتے ہیں۔ یہ اللہ کی نگاہ میں مجرم ہیں۔ اس نے ان کے لیے آخرت میں ایسی ہی سزائیں تجویز کر رکھی ہیں، جن کے وہ مستحق ہیں:
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِہٖ۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ۱۷ (یونس۱۰:۱۷) پھر اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا، جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے، یا اللہ کی واقعی آیات کو جھوٹا قرار دے۔ یقیناً مجرم کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔
یہ دنیا ’دارالامتحان‘ ہے اور آخرت ’دارالجزا‘۔ یہاں انسان جیسے کام کرے گا، اس کا بدلہ آخرت میں پائے گا۔ جو لوگ دنیا میں اللہ کے باغی اور مجرم بن کر رہیں اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کریں، انھیں آخرت میں سخت سزائیں دی جائیں گی۔ فرماں بردار اور نافرمان، اطاعت گزار اور سرکش، نیک اور مجرم ،دونوں کے انجام میں فرق کرنا عین تقاضائے انصاف ہے، لیکن یہ فرق آخرت میں ہوگا اور اللہ تعالیٰ کرے گا۔ اس سے دنیا میں غیر مسلموں کے انسانی حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
کہا جاتا ہے کہ قرآن میں ہندوؤں کو ناپاک اور گندا کہا گیا ہے۔ اس تعبیر سے ان کے خلاف نفرت اور حقارت کا اظہار ہوتا ہے۔ معترضین کا اشارہ اس آیت کی طرف ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا۰ۚ (التوبۃ۹:۲۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! مشرکین نجس ہیں، لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں۔
اس آیت میں نجاست سے مراد جسمانی اور مادّی گندگی نہیں ہے، بلکہ عقیدہ کی خرابی اور شرک کی آلودگی ہے۔ اس پر مفسّرین اور علما کا اتفاق ہے۔
امام نوویؒ کے مطابق: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، مشرکین نجس ہیں۔ اس سے مراد عقیدے کی نجاست اور گندگی ہے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ پیشاب پاخانہ جیسی چیزوں کی طرح نجس ہیں‘‘۔
اسلام عقیدے کے معاملے میں کوئی مداہنت اور رورعایت نہیں برتتا۔ وہ توحید کا علَم بردار اور شرک کے سخت خلاف ہے۔ اس کے نزدیک شرک ایسی گندگی ہے، جس سے اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے والے کا ذہن آلودہ ہوجاتا ہے۔ وہ اس گندگی سے انسانوں کو پاک صاف رکھنا چاہتا ہے۔ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام توحید کے علَم بردار تھے۔ انھوں نے اللہ واحد کی عبادت کے لیے خانۂ کعبہ کی تعمیر کی تھی، لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ان کے پیرو شرک میں مبتلا ہوگئے تھے۔ وہ اللہ کی عبادت کے ساتھ متعدددیوی دیوتاؤں کی پوجا کرنے لگے تھے۔ خانۂ کعبہ کی دیواروں میں انھوں نے مورتیاں نصب کررکھی تھیں اور مسجد حرام میں ۳۶۰ بت رکھ دیے تھے۔ ۸ ہجری میں فتح مکہ کے بعد جب وہاں کا اقتدار توحید کے قائلین کے ہاتھ میں آیا، تو یہ امر فطری تھا کہ وہ توحید کے مرکز کو شرک کے ان مظاہر سے پاک کردیں۔ چنانچہ فتح مکہ کے اگلے سال حج کے موقعے پر اعلانِ عام کردیا گیا کہ ’’خانۂ کعبہ اللہ کا گھر ہے اور مسجد ِحرام کو مقدّس مقام کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے شرک کی آلودگیوں میں مبتلا لوگوں کو آیندہ یہاں داخلے کی اجازت نہیں ہے‘‘۔
جہاں تک کافروں اور مشرکوں کے ظاہر کا تعلق ہے ،اسلام نہ تو انھیں گندا قرار دیتا ہے اور نہ محض اس بنیاد پر ان سے الگ تھلگ یا دُور رہنے کا حکم دیتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب کفار و مشرکین کے درمیان رہتے تھے۔ ان سے آپ کا ملنا جلنا رہتا تھا، وہ مسجد میں آتے تھے، آپؐ اور آپؐ کے اصحاب ان کے برتنوں سے پیتے اور وضو کرنے کے لیے پانی لیتے، ان کا بنایا ہوا کھانا کھالیتے اور ان کے تیار کیے ہوئے کپڑے پہن لیتے تھے۔ ایسا نہیں ہواکہ جن چیزوں پر ان کا ہاتھ لگتا ہو، یا جو چیزیں ان کے بدن کے کسی حصے سے مَس ہوتی ہوں، انھیں دھوئے جانے کا آپؐ نے حکم دیا ہو۔
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بیان فرماتے ہیں کہ قبیلۂ ثقیف کا وفد آیا تو اسے مسجد ِنبوی میں ٹھیرایا گیا۔ بعض صحابہ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! یہ لوگ تو مشرک ہیں‘‘ (شاید ان کی مراد یہ تھی کہ ان کی وجہ سے مسجد ناپاک ہوجائے گی)۔ آپؐ نے فرمایا:
اِنَّ الْاَرْضَ لَا یُنَجِّسُہَا شَيْءٌ (مصنف عبدالرزاق، کتاب الصلوٰۃ، باب المشرک یدخل المسجد، حدیث: ۱۵۵۸)زمین اس جیسی کسی چیز سے ناپاک نہیں ہوتی۔
حضرت عمران بن حصینؓ ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کا حال بیان کرتے ہیں کہ راستے میں ایک پڑاؤ پر پانی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کچھ صحابہ تلاش کے لیے نکلے۔ ایک غیر مسلم عورت پانی کے دو مشکیزوں کے ساتھ ملی۔ وہ اسے آںحضرتؐ کے پاس لے آئے۔ آپؐ نے اور تمام صحابہ نے اس سے پانی لے کر اپنی پیاس بجھائی۔ (صحیح البخاری: ۳۵۷۱،مسلم: ۶۸۲)
حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ ہم جنگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔ غیرمسلموں کے کھانے پینے کے جو برتن ہمارے ہاتھ لگتے تھے، انھیں ہم استعمال کرتے تھے۔ اس پر آپ ہماری کچھ نکیر نہیں کرتے تھے۔ (ابوداؤد:۸۳۸ ۳)
حضرت ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیرمسلموں کے ان برتنوں کے بارے میں دریافت کیا، جن کے متعلق امکان ہوکہ ان میں وہ خنزیر کا گوشت پکاتے اور شراب پیتے رہے ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر دوسرے برتن موجود ہوں تو ان مشتبہ برتنوں کو نہ استعمال کرو، [اور وہ] موجود نہ ہوں تو انھی کو اچھی طرح دھوکر استعمال کرسکتے ہو۔ (بخاری:۵۴۹۶، مسلم:۱۹۳۰)
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ مشرکین کی نجاست سے مراد عقیدے کی خرابی ہے، نہ کہ ظاہری گندگی۔جہاں تک انسانی تعلقات اور زندگی کے عام معاملات کا سوال ہے، ان میں مشرکین کے ساتھ کوئی بھیدبھاؤ نہیں رکھاگیا ہے اور کسی حال میں ایسا رویہ نہیں اختیار کیا گیا ہے، جس سے ان کے سلسلے میں نفرت اور حقارت کا اظہار ہو۔
معترضین کی جانب سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ’’قرآن میں مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے سے منع کیا گیا ہے اور انھیں دشمن کہا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ دشمنوں کے بارے میں نفرت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور انھیں نقصان پہنچانے کی تدبیریں کی جاتی ہیں‘‘۔ اس اعتراض پر بہ طور دلیل اس طرح کی آیات پیش کی جاتی ہیں:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ۰ۭ (النساء۴: ۱۴۴) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مومنوں کو چھوڑکر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۗءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَاۗءَكُمْ مِّنَ الْحَـقِّ۰ۚ (الممتحنۃ۶۰:۱) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالاںکہ جو حق تمھارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کرچکے ہیں۔
ان آیات پر ان کے صحیح تناظر میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اہلِ ایمان سے کہا گیا ہے کہ وہ کافروں کو ’اولیاء‘ نہ بنائیں۔ ’اولیاء‘ ولی کی جمع ہے۔ اس کا مصدر ’ولاء‘ ہے۔ ’ولاء‘ کا مفہوم یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد چیزیں اس طرح یکجا ہوں کہ ان کے درمیان کوئی ایسی چیز نہ ہو، جو ان سے متصادم ہو۔ اسی سے استعارۃً یہ لفظ’ قربت‘ کے معانی میں استعمال ہونے لگا، خواہ یہ قربت جگہ ، تعلق کی، یا مذہب، دوستی اور عقیدے کی ہو۔ جس شخص سے مذکورہ نوعیتوں میں سے کسی نوعیت کاتعلق ہو، اس کے لیے ’ولی‘ اور ’مولیٰ‘ دونوں الفاظ مستعمل ہیں۔
لفظ ’مولیٰ‘ کا اطلاق عربی زبان میں بہت سے لوگوں پر ہوتا ہے۔مثلاً ربّ، مالک، آقا، محسن، غلام آزاد کرنے والا، مددگار، محبت کرنے والا، تابع داری کرنے والا، پڑوسی، چچازاد بھائی، حلیف، جس سے عہد وپیمان ہو، قرابت دار (داماد)، غلام، آزاد کردہ غلام، جس پر احسان کیا جائے۔
علامہ ابن اثیرؒ فرماتے ہیں:اس لفظ کا استعمال حدیث میں ان میں سے بیش ترمعانی میں ہوا ہے۔ ہرجگہ سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کن معنوں میں آیا ہے۔ (النہایۃ: ۴/۱۳۲)
مذکورہ بالا آیتوں اوران جیسی دیگر آیتوں میں لفظ ’اولیاء‘ انتہائی قربت کے معنٰی میں آیا ہے۔ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:
اَوْلِیَاءَ: أَیْ لَا تَجْعَلُوْا خَاصَّتَکُمْ وَبِطَانَتَکُمْ مِنْہُمْ (تفسیرقرطبی: ج۵، ص۵۲۴) کافروں کو اپنا ولی، یعنی بہت قریبی اور رازدار نہ بناؤ۔
علامہ زمخشریؒ اس کایہ مفہوم بتاتے ہیں:
لَا تَتَّخِذُوْہُمْ أَوْلِیَاءَ تَنْصُرُوْنَہُمْ وَتَسْتَنْصِرُوْنَہُمْ وَتُؤَاخُوْنَہُمْ وَ تُصَافُوْنَہُمْ وَتُعَاشِرُوْنَہُمْ مُعَاشَرَۃَ الْمُؤْمِنِیْنَ (کشاف:ج۱، ص۶۴۲) کافروں کو اولیاء نہ بناؤ، یعنی ان سے تمھارا معاملہ ایسا نہ ہو کہ تم ان کی مدد کرو، ان سے مدد چاہو، ان سے بھائی چارہ اور خلوص و محبت کے تعلقات رکھو اور ان کے ساتھ اس طرح گھل مل کر رہو، جس طرح اہل ایمان باہم رہتے ہیں۔
ان حالات کو بھی نگاہ میں رکھنا ضروری ہے، جن میں مسلمانوں کو کافروں سے قربت کا تعلق رکھنے سے منع کیا گیا تھا۔ مسلمان سخت حالات سے گزر رہے تھے۔ ان کے خلاف ان کے دشمنوں نے جنگ برپا کررکھی تھی اور انھیں بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے تھے۔ یہود و نصاریٰ کا رویّہ کھلی دشمنی پر مبنی تھا۔ وہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کا ساتھ دے رہے تھے۔
تیسرا گروہ ’منافقین‘ کا تھا جو ظاہر میں اسلام کا دم بھرتے تھے اور انھوں نے خود کو مسلمانوں میں شامل کررکھا تھا، لیکن حقیقت میں وہ کافروں کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کو کوئی کامیابی ملتی تو ان کے سینوں پر سانپ لوٹتے تھے اور انھیں کچھ نقصان پہنچتا تو خوشیاں مناتے تھے۔ یہ سارے لوگ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی پر متحد تھے۔ ایسے حالات میں اپنے دشمنوں سے قریبی تعلق رکھنا مسلمانوں کے لیے انتہائی خطرناک تھا۔ یہ چیز دینی حیثیت سے بھی ضرر رساں تھی اور سیاسی اعتبار سے بھی۔ اسی لیے قرآن نے الگ الگ ہر گروہ کے بارے میں وضاحت سے مسلمانوں کو تاکید کی کہ ان سے ’ولایت‘ کا تعلق نہ رکھیں۔ کفّار کے بارے میں کہا:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ۰ۭ (النساء ۴:۱۴۴) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔
یہود و نصاریٰ سے تعلقات کے بارے میں بھی یہی حکم دیا:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ۰ۘؔ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۰ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ۰ۭ (المائدہ۵:۵۱)اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے۔
منافقین کے بارے میں فرمایا:
وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَـمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَاۗءً فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِيَاۗءَ (النساء۴: ۸۹) وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہوجاؤ، تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہوجائیں۔ لہٰذا، ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ۔
اس معاملے میں قرآن نے اس حد تک تاکید کی کہ جن لوگوں کے باپ اور بھائی دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوئے ہیں اور انھوں نے ایمان پر کفر کو ترجیح دی ہے، ان سے بھی قربت کا ویسا تعلق نہ رکھا جائے، جیسا کہ اہل ایمان کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ مبادا ان کے واسطے مسلمانوں کے راز کفار تک پہنچ جائیں:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَاۗءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِيَاۗءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَي الْاِيْمَانِ۰ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۲۳ (التوبۃ۹:۳ ۲) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ، اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔
قرآن کریم کی بعض آیات میں ان اسباب کی وضاحت کردی گئی ہے، جن کی بناپر مسلمانوں کے علاوہ دوسروں سے قربت کا تعلق رکھنے سے منع کیا گیا ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَكُمْ ہُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ اَوْلِيَاۗءَ۰ۚ (المائدہ۵:۷ ۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمھارے پیش رَو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمھارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنالیا ہے، انھیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۗءَ (الممتحنہ۶۰: ۱) اے لوگو جوایمان لائے ہو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔
اسی سورت میں آگے ہے:
اِنَّمَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَاَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَظٰہَرُوْا عَلٰٓي اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ۰ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۹ (الممتحنہ ۶۰: ۹) وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو، جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔
پہلی آیت میں بتایا گیا کہ ان لوگوں نے تمھارے دین کو مذاق اور کھیل بنارکھا ہے، اس کے سلسلے میں وہ سنجیدگی سے کام نہیں لے رہے ہیں۔ دوسری آیت میں کہا گیا کہ وہ تمھارے دشمن ہیں، اور تیسری آیت میں یہ وضاحت کی گئی کہ وہ محض دین کی وجہ سے تم سے جنگ کررہے ہیں، تمھیں تمھارے وطن سے نکالا ہے یا اس میں مدد کی ہے۔ یہ اسباب بجا طور پر اس بات کے متقاضی تھے کہ ان سے قریبی تعلق نہ رکھا جائے۔
یہی مضمون آل عمران میں یوں مذکور ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْ لُوْنَكُمْ خَبَالًا۰ۭ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ۰ۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاۗءُ مِنْ اَفْوَاہِھِمْ۰ۚۖ وَمَا تُخْفِيْ صُدُوْرُھُمْ اَكْبَرُ۰ۭ (آل عمران۳:۱۸ ۱) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ۔ وہ تمھاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکتے۔ تمھیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے۔ ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے۔
اس آیت میں لفظ بطانۃ کے استعمال میں بڑی بلاغت پائی جاتی ہے۔’ بطانۃ‘ کپڑے کے اندرونی حصے کو کہتے ہیں، جو جسم سے متصل ہوتا ہے۔ بہ طور استعارہ اس کا اطلاق اس شخص پر کیا جاتا ہے، جسے آدمی اپنا گہرا دوست ، ہم دم اورہم راز بنالے۔
اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے علاوہ دوسروں سے اتنا قریبی تعلق استوار نہ کرلو کہ ان پر اپنے راز منکشف کردو۔ اس لیے کہ وہ لوگ تمھارے بہی خواہ نہیں ہیں، تمھیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور تم سے دشمنی اور نفرت ان کے رویّے سے عیاں ہے۔
قریبی تعلق سے ممانعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو عام غیر مسلموں کے ساتھ انسانی تعلقات رکھنے سے بھی منع کیا گیا ہے، بلکہ ممانعت صرف ایسا تعلق رکھنے کی ہے، جس سے اسلامی ریاست کے سیاسی و عسکری راز دشمنوں پر افشا ہوجائیں اور مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ ہوجائے۔ یہ ممانعت صرف ان لوگوں سے ہے جو مسلمانوں کے ساتھ برسر جنگ ہوں یا ان کے دشمنوں کے مددگار بنے ہوئے ہوں۔ رہے وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کے ساتھ مصروفِ جنگ نہ ہوں اور نہ ان کا طرزِ عمل عداوت اور ظلم و ستم پر مبنی ہو، ان کے ساتھ عدل و انصاف کرنے، اچھے تعلقات رکھنے اور بھلا برتاؤکرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْہِمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۸(الممتحنۃ۶۰: ۸) اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
غیر مسلموں سے تعلقات کے سلسلے میں یہ ایک بہت بنیادی آیت ہے۔ اس میں دو الفاظ آئے ہیں: أَنْ تَبَرُّوْہُمْ اور تُقْسِطُوْا اِلَیْہِمْ۔’ برّ‘ سے مراد ہے حسن سلوک اور صلہ رحمی کرنا۔ اس میں زیادہ حسن سلوک کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے (البرّ: التوسّع في الاحسان الیہ) [راغب اصفہانی] تُقْسِطُوْا اِلَیْہِمْ کے معنٰی بعض مفسرین نے یہ بیان کیے ہیں کہ ان کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کرو، جب کہ بعض دیگر مفسرین اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ صلہ رحمی کے طور پر اپنے مال کا کچھ حصہ انھیں دو: أَنْ تُعْطُوْہُمْ قِسْطًا مِنْ أَمْوَالِکُمْ عَلٰی وَجْہِ الصِّلَۃِ۔ [ابن العربی، ماوردی، قرطبی]
امام قرطبیؒ نے لکھا ہے:
ہٰذِہِ الآیَۃٌ رُخْصَۃُ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی فِيْ صِلَۃِ الَّذِیْنَ لَمْ یُعَادُوْا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلَمْ یُقَاتِلُوْہُمْ (تفسیر قرطبی:ج۱۸، ص۵۹) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان غیرمسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی اجازت دی ہے جنھوں نے مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہیں کی اور ان سے جنگ نہیں کی۔
امام رازیؒ فرماتے ہیں:
قَالَ أَہْلُ التَّأْوِیْلِ: ہٰذِہِ الآیَۃُ تَدُلُّ عَلٰی جَوَازِ الْبِرِّ بَیْنَ الْمُشْـرِکِیْنَ وَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاِنْ کَانَتِ الْمُوَالَاۃُ مُنْقَطِعَۃً (تفسیر کبیر:ج۲۹،ص۵۲۱) مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان نیکی اور حُسن سلوک کا معاملہ جائز ہے، اگرچہ ان کے درمیان موالات (یعنی قریبی تعلق رکھنا) ممنوع ہے۔
اس سے واضح ہوا کہ غیر مسلموں سے ہر طرح کے تعلق سے منع نہیں کیا گیا ہے، بلکہ ممانعت صرف ’ولایت‘ یعنی مخصوص قسم کے قریبی تعلق کی ہے۔ جہاں تک عام انسانی اور سماجی تعلقات رکھنے کی بات ہے وہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہے۔
علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:
اَلْاِحْسَانُ وَالْہِبَۃُ مُسْتَثْنَاۃٌ مِنَ الْوِلَایَۃِ (تفسیرقرطبی:ج۸،ص۹۴) غیرمسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور انھیں کچھ دینا ’ولایت‘ میں شامل نہیں ہے۔
امام رازیؒ نے لکھا ہے:’’مومن کے کافر کو ’ولی‘ بنانے کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:
۱- وہ اس کے کفر کو پسند کرتا ہو، اس کے باوجود اس سے دوستانہ تعلقات رکھتا ہو۔
۲- اس کو برسر باطل سمجھنے کے باوجود رشتہ داری یا قلبی تعلق کے سبب اس کی طرف مائل ہو، اس سے تعاون، حمایت اور نصرت کرتا ہو۔
۳- دنیاوی معاملات میں اچھے تعلقات کا اظہار کرتا ہو۔
اوّل الذکر دو صورتیں ممنوع ہیں، تیسری صورت ممنوع نہیں ہے‘‘۔ (تفسیرکبیر: ج۲،ص۴۵۰)
معترضین کی جانب سے قرآن پر ایک بڑا، بلکہ شاید سب سے بڑا اعتراض اس کے تصوّرِ جہاد پر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’قرآن میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کافروں اور مشرکوں سے جنگ کریں، ان کے ساتھ سختی سے پیش آئیں، ان کے لیے گھات لگائیں اور انھیں جہاں پائیں قتل کریں‘‘۔ بہ طور دلیل یہ آیات پیش کی جاتی ہیں:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَۃً۰ۭ (التوبۃ۹:۲۳ ۱) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جنگ کرو ان کافروں سے جو تمھارے پاس ہیں اور چاہیے کہ وہ تمھارے اندر سختی پائیں۔
فَاقْتُلُوا الْمُشْـرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ۰ۚ (التوبۃ۹: ۵) تو مشرکوں کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انھیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ جَاہِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْہِمْ۰ۭ وَمَاْوٰىہُمْ جَہَنَّمُ۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۹ (التحریم۶۶: ۹) اے نبیؐ! کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔
قَاتِلُوْہُمْ يُعَذِّبْہُمُ اللہُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِہِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْہِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ۱۴(التوبۃ ۹: ۱۴) ان سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے گا اور انھیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلے میں تمھاری مدد کرے گا اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا۔
قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَۃَ عَنْ يَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ۲۹ (التوبۃ۹: ۲۹) جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔
اس طرح آیاتِ مقدسہ پیش کرکے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ’’جب تک یہ آیات موجود ہیں، اس وقت تک مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان بقائے باہم ممکن نہیں‘‘۔
یہ غلط فہمی، درحقیقت جنگ کے بارے میں قرآن کے احکام و تعلیمات کو صحیح تناظر میں نہ دیکھنے اور متعلقہ آیات کو ان کے سیاق و سباق سے ہٹاکر پڑھنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ اس موضوع پر متعدد پہلوؤں سے غور کرنے کی ضرورت ہے:
اِنَّا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا۳ (الدھر۷۶: ۳) ہم نے اسے راستہ دکھادیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۰ۙ (الکہف ۱۸: ۲۹) صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے ربّ کی طرف سے۔ اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے۔
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا۰ۭ وَاِنَّ اللہَ عَلٰي نَصْرِہِمْ لَقَدِيْرُۨ۳۹ۙ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ۰ۭ (الحج ۲۲: ۳۹-۴۰) اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیوںکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے، صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے: ہمارا ربّ اللہ ہے۔
اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ جنگ کا آغاز مسلمانوں نے نہیں کیا تھا، بلکہ جنگ ان پر تھوپی گئی تھی۔ دشمنوں کا منصوبہ تھا کہ مسلمانوں کو ، جو ابھی کم زور ہیں، ابتدائی مرحلے ہی میں کچل دیں اور اسلام کی شمع کو اپنی پھونکوں سے گُل کردیں۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ان کا منہ توڑ جواب دیں اور ان کے منصوبوں کو خاک میں ملادیں، لیکن اس وقت بھی انھیں تاکید کی گئی کہ ان کے ساتھ جتنی زیادتی کی گئی ہے اتنا ہی بدلہ لیں، حد سے تجاوز نہ کریں:
وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۱۹۰ (البقرہ۲: ۱۹۰)اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
أَمْرُ الْـجِہَادِ مَوْکُوْلٌ اِلَی الْاِمَامِ وَاجْتِہَادِہٖ، وَیَلْزَمُ الرَّعِیَّۃَ طَاعَتُہٗ فِیـْمَا یَرَاہُ مِنْ ذٰلِکَ (المغنی:ج۹،ص۲۰۲)’’جہاد کا معاملہ سربراہِ ریاست کے ذمّے ہے۔ وہی اس کا فیصلہ کرے گا اور رعایا پر اس کے فیصلے کو تسلیم کرنا لازم ہے۔
اسی طرح جس قوم سے جنگ ہورہی ہو، اس کے صرف ان افراد کو قتل کرنے کی اجازت دی گئی ہے جو جنگ میں عملاً حصہ لے رہے ہوں، یا اس کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ غیر متعلق لوگوں سے تعرّض کرنے اور انھیں نشانہ بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وَلَا تَقْتُلُوْا شَیْخاً فَانِیًا وَلَا طِفْلًا وَلَا صَغِیْرًا وَلَا امْرَاَۃً (ابوداؤد:کتاب الجہاد، باب فی دعاء المشرکین، حدیث:۲۲۶۱) اور نہ قتل کرو کسی بوڑھے کھوسٹ کو، کسی بچے کو، کسی کم سن کو اور کسی عورت کو۔
قرآن کریم پر کیے جانے والے جملہ اعتراضات جذباتی نوعیت کے ہیں۔ ان کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف غیرمسلموں کے جذبات بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے لیے قرآن کے مختلف مقامات سے کچھ آیات منتخب کرلی جاتی ہیں اور انھیں سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور ان کے من مانے مفہوم بیان کیے جاتے ہیں۔ اگر ان آیات کا مطالعہ ان کے سیاق میں کیا جائے اور ان حالات کو بھی پیش نظر رکھا جائے، جن میں وہ نازل ہوئی تھیں تو کوئی اعتراض وارد نہیں ہوگا، بلکہ پڑھنے والے پر قرآن مجید کی سچائی اور معقولیت آشکارا ہوگی۔
موجودہ دور میں ایک سماجی مسئلہ، جس نے ملکی اور عالمی دونوں سطحوں پر گمبھیر صورت اختیار کرلی ہے، خواتین کی عزت و آبرو کی پامالی اور عصمت دری ہے۔ وہ اپنوں اور پرایوں دونوں کی جانب سے زیادتی اور دست درازی کا شکار ہیں۔ کوئی جگہ ان کے لیے محفوظ نہیں ہے۔ گھر ہو یا دفتر، پارک ہو یا بازار، ٹرین ہو یا بس، ہر جگہ ان کی عصمت پر حملے ہو رہے ہیں اور انھیں بے آبرو کیا جا رہا ہے۔ کبھی معاملہ عصمت دری پر رُک جاتا ہے، تو کبھی ظلم کی شکار خاتون کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ ایک گھناونی صورت اجتماعی آبروریزی کی ہے، جس میں کئی نوجوان مل کر کسی معصوم لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں، پھر بڑے درد ناک طریقے سے اسے قتل کردیتے ہیں۔
اس طرح کے واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں۔ کسی دن کا اخبار اٹھاکر دیکھ لیجیے، عصمت دری کی بہت سی خبریں اس میں مل جائیں گی۔ ان میں سے کچھ ہی معاملے عدالتوں تک پہنچ پاتے ہیں۔اور جو پہنچتے ہیں، ان میں بھی عدالتی پیچیدگیوں کی وجہ سے فیصلہ آنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور بہت کم مقدمات میں مجرموں کو سزا مل پاتی ہے۔
یہ واقعات اب اتنی کثرت سے پیش آنے لگے ہیں کہ ان کی سنگینی کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن انھی کے درمیان کبھی کوئی درد ناک واقعہ رونما ہوتا ہے تو عوام بیدار ہوجاتے اور اس کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ اس موقعے پر ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے مختلف تجاویز سامنے آتی ہیں، مثلاً مجرموں کو سرِ عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیاجاتا ہے، سخت سے سخت قوانین بنانے کی بات کی جاتی ہے، کڑی نگرانی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے اور مضبوط سیکورٹی فراہم کرنے پر زور دیا جاتا ہے، لڑکیوں کو جوڈو کراٹے سیکھنے اور خود حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں بعض اطراف سے ایک آواز یہ بھی سنائی دیتی ہے کہ زنا کی وہ سزا نافذ کی جائے جو اسلام نے تجویز کی ہے۔ اسی بات کو بعض لوگ ان الفاظ میں کہتے ہیں کہ سزاے زنا کے لیے عرب ملکوں جیسا قانون بنایا جائے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ مطالبے ان لوگوں کی طرف سے بھی ہوتے ہیں، جو اسلام کے شدید مخالف ہیں، جو اسلام پر اعتراضات کرنے اور مسلمانوں کو برا بھلا کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، لیکن چوں کہ انھوں نے کہیں سے سن رکھا ہے کہ اسلام زنا کرنے والے کو پتھر مار مار کر ہلاک کرنے کا حکم دیتا ہے، اور جرم کی سنگینی کی بنا پر یہ سزا ان کے دل کی آواز ہوتی ہے، اس لیے ان کے اندرون میں چھپی خواہش ان کی زبان پر آجاتی ہے اور وہ خواہی نہ خواہی اسلام کا نام لینے لگتے ہیں۔
آبرو ریزی کے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت سے سخت قانون بنانے کی بات کی جائے، یا اسلامی سزاے زنا کو نافذ کرنے کی تجویز رکھی جائے، دونوں مطالبے جذباتیت کے مظہر اور سنجیدگی سے محروم ہیں۔ کتنا ہی سخت قانون بنا لیا جائے، اس سے جرائم کا بالکلیہ خاتمہ ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے معاشرے کو پاکیزہ بنانے کی تدابیر اختیار کی جائیں اور جو چیزیں افراد کو غلط کاموں پر ابھارتی اور جرائم کے ارتکاب کی جانب مائل کرتی ہیں، ان پر پابندی عائد کی جائے۔ قانون جرائم کو روکنے میں معاون تو ہوسکتا ہے، لیکن محض قانون سے ان کا سدِّ باب ناممکن ہے۔ اگر جرائم کے تمام محرکات اور ترغیبات کو علی حالہٖ باقی رکھا جائے اور محض کوئی سخت تر قانون منظور کرلیا جائے تو جرائم میں تو کوئی کمی نہیں آئے گی، البتہ قانون کے غلط انطباق اور استعمال کے اندیشے بڑھ جائیں گے۔ عدالتوںکے بھاری مصارف کی بنا پر اس کا خدشہ رہے گا کہ غریب اور اپنے دفاع سے عاجز سزاپاجائیں اور مال دار اور طاقت ور اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے سزا سے بچ جائیں۔
اسی طرح اسلام کے کسی ایک حکم کا مطالبہ اور دیگر احکام سے صرفِ نظر درست رویّہ نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے اسلامی نظام کو ایک کُل کی حیثیت سے قبول کرنا ہوگا۔ اسلامی تعلیمات کے اثرات کا مشاہدہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پورے کے پورے اسلام کو نافذ کیا جائے۔ جس طرح کوئی مشین اسی وقت صحیح طریقے سے کام کرے گی، جب اس کے تمام پرزے اپنی اپنی جگہ نصب ہوں۔ اگر اس میں سے کوئی ایک پرزہ نکال لیا جائے تو نہ مشین صحیح ڈھنگ سے وہ کام کرے گی جس کے لیے اسے بنایا گیا ہے اور نہ اس نکالے گئے پرزے سے وہ کام لیا جاسکتا ہے جو پوری مشین کے کرنے کا تھا۔ اسی طرح اسلام کے کسی ایک قانون کو نافذ کردیا جائے اور اس کے دیگر احکام پر عمل نہ کیا جائے، تو اس سے بھی مطلوبہ فوائد حاصل نہیں ہوسکتے۔
ہر انسان میں بنیادی طور پر تین طرح کی خواہشات پائی جاتی ہیں: کھانے کی خواہش، پینے کی خواہش اور جنسی خواہش۔ کوئی بھی انسان ہو، چاہے وہ دہریہ ہو یا سیکولر، یا اس کا کسی مذہب سے تعلق ہو، بہ حیثیت انسان اس کے اندر ان فطری خواہشات کا پایا جانا لازمی ہے۔ جنس کے تعلق سے مختلف رویّے اختیار کیے گئے ہیں۔
کچھ لوگوں نے جنسی خواہش کو دبانے اور کچلنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے یہ تصور پیش کیا کہ جنسی خواہش کو دبا کر ہی انسان کی نجات ممکن ہے، تبھی اسے نروان [نجات] حاصل ہوسکتا ہے اور وہ کامیابی کے مدارج طے کرسکتا ہے۔ یہ تصور عیسائیت میں راہبوں اور ہندو مت میں جوگیوں کے یہاں ملتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے جنسی تعلق کو ایک قابل نفرت چیز سمجھا اور شادی بیاہ کے بکھیڑوں میں پڑنے سے گریز کیا۔ انھوں نے جنگلوں اور بیابانوں کی راہ لی اور وہاں کٹیا بنا کر تنہائی کی زندگی گزارنے لگے۔ اسی طرح ان مذاہب میں ان لوگوں کو عظمت کی نگاہ سے دیکھا گیا جو غیرشادی شدہ رہتے ہوئے پوری زندگی گزار دیں، چنانچہ انھیں گرجوں اور مندروں میں اعلیٰ مناصب سے سے نوازا گیا۔ لیکن انسانی فطرت کو دبا کر اور اس سے جنگ کرکے زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ چرچ سے وابستہ پادری اور مندروں کے پجاری بارہا بدکاری میں ملوث پائے گئے ہیں اور روحانیت اور پوجا پاٹ کے ان مراکز کی پاکیزگی پامال ہوئی ہے۔
اس کے بالمقابل کچھ لوگوں نے جنس کے معاملے میں ہر طرح کی آزادی کی وکالت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے، اس لیے اس کو یہ حق حاصل ہے کہ جس طرح چاہے اپنی جنسی خواہش پوری کرلے، خواہ اس کے لیے وہ کتنا ہی غیرفطری طریقہ کیوں نہ اختیار کرے۔ چنانچہ ہم جنسی (Homosexuality)کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا اور مرد کو مرد کے ذریعے اور عورت کو عورت کے ذریعے جنسی تسکین حاصل کرنے کا حق دیا گیا۔ جن لوگوں نے یہ غیر فطری طریقہ اختیار نہیںکیا انھوں نے بھی نکاح کرنے اور خاندان تشکیل دینے کو فرسودہ قرار دیا اور بہتری اس میں سمجھی کہ کوئی مرد اور عورت جب تک چاہیں ساتھ رہیں اور جب چاہیں الگ ہوکر اپنی اپنی راہ لیں۔ کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ وہ باہم رضا مندی سے جب چاہیں جنسی تعلق قائم کرلیں۔صرف زور زبردستی کو قانوناً جرم قرار دیا گیا۔ یہ تصو ّر پیش کیا گیا کہ ہر انسان اپنے جسم کا مالک ہے، وہ اپنے جس عضو کو چاہے چھپائے اور جس کو چاہے کھلا رکھے۔ اسی طرح اس کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ اپنے اعضا سے جیسا چاہے کام لے۔ چنانچہ عورتوں کے رحم (uterus)کرایے پر ملنے لگے کہ کوئی بھی مرد اس میں اپنا نطفہ داخل کروا کے بچہ حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح مردوں کے نطفے (sperm) کی بھی تجارت ہونے لگی اور اس کے بنک قائم ہوگئے۔ ان چیزوں نے بہت بڑی صنعت کی صورت اختیار کرلی، جس میں کروڑوں اربوں روپے کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔
اس بے مہار آزادی نے انسانی معاشرے کو جانوروں کے باڑے میں تبدیل کردیا۔ اس کے نتیجے میں انارکی، انتشار، فتنہ و فساد او رقتل و غارت گری کو خوب فروغ ملا۔ زنا بالجبر کے واقعات کثرت سے پیش آنے لگے، جنسی بیماریاں: آتشک، سوزاک، امراض رحم، اسقاط وغیرہ عام ہوئیں۔ یہاں تک کہ فطرت سے بغاوت کی سزا ایڈز کی صورت میں ملی، جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اربوں کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود اب تک اس پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والے سروے رپورٹوں سے ظاہر ہے کہ ایڈز کے متاثرین میں ۸۰ فی صد سے زائد افراد کو یہ مرض جنسی آوارگی کے نتیجے میں لاحق ہوا ہے۔
جنس کے بارے میں تیسرا نقطۂ نظر وہ ہے جو اسلام پیش کرتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر افراط اور تفریط کے درمیان ہے۔ اسلام نہ تو جنسی جذبے کو دبانے اور کچلنے کی ترغیب دیتا ہے اور نہ انسان کو کھلی چھوٹ دے دیتا ہے کہ جس طرح اور جہاں چاہے اس کی تسکین کرلے۔ وہ ہر انسان کو اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کا حق دیتا ہے، لیکن ساتھ ہی اسے کنٹرول کرنے کی راہ دکھاتا ہے۔
اسلام نے جنسی خواہش کی تکمیل کو نکاح کا پابند بنایا ہے اور اس سے ماورا کسی طرح کا تعلق رکھنے کو حرام قرار دیا ہے۔ اس نے مردوں اور عورتوں دونوں پر سخت پابندی عائد کی ہے کہ وہ نکاح کے علاوہ باہم کسی طرح کا جنسی تعلق نہ رکھیں۔ قرآن میں ہے:
اس طرح کہ تم (مرد) ان (عورتوں) سے باقاعدہ نکاح کرو، یہ نہیں کہ علانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بدکاری کرو۔(المائدہ۵:۵)
وہ (عورتیں) پاک دامن ہوں، نہ کہ علانیہ بدکاری کرنے والیاں، نہ خفیہ آشنائی کرنے والیاں۔(النساء۴:۲۵)
ان آیات میں مردوں اور عورتوں دونوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے نکاح کریں۔ اس طرح وہ شیطان کے حملوں سے محفوظ ہوجائیںگے۔ نکاح سے ماورا کسی طرح کا تعلق نہ علانیہ قائم کریں نہ چوری چھپے۔
اسلام نے زنا کو ایک سنگین سماجی جرم قرار دیا ہے اور اسے گھناونااور برا فعل کہتے ہوئے اس سے دُور رہنے کی ہدایت کی ہے:’’اور زنا کے قریب نہ پھٹکو۔ بلاشبہہ وہ بڑی بے شرمی کا کام اور بڑا ہی بُرا راستہ ہے‘‘(بنی اسرائیل۱۷: ۳۲)۔اس نے کامیاب انسانوں کا ایک وصف یہ قرار دیا ہے کہ:’’وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں بجز اپنی بیویوں اور لونڈیوں کی حد تک سو اس بارے میں ان کو کوئی ملامت نہیں‘‘۔(المومنون۲۳:۵-۶)
اسلام کی نظر میں جتنا سنگین جرم زنا بالجبر ہے، اتنا ہی سنگین جرم زنا بالرضا بھی ہے۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جس طرح ایک مرد کسی عورت پر جبر کرکے اس کی عصمت کو داغ دار کرتا اور اس کی پرسکون زندگی میں زہر گھولتا ہے، اسی طرح دو مرد و عورت باہم رضا مندی سے جنسی تعلق قائم کرکے معاشرے کی پاکیزگی کو ختم کرتے اور اجتماعی امن و سکون پر ڈاکا ڈالتے ہیں، اس لیے دونوں برابر کے مجرم ہیں۔
اسلام چاہتا ہے کہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد کوئی بھی لڑکا یا لڑکی بغیر نکاح کے نہ رہیں، بلکہ جلد از جلد نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں۔ چنانچہ وہ ان کے سر پرستوں کو اس کی طرف متوجہ کرتا اور ان کا نکاح کرادینے کی تلقین کرتا ہے۔ زمانۂ نزولِ قرآن میں غلامی کا رواج تھا، مردوں اور عورتوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔ قرآن نے حکم دیا کہ نہ صرف اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کے نکاح کی فکر کرو، بلکہ اپنے غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کرادو:’’تم میں سے جو لوگ مجر ّد ہوں اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کردو‘‘۔(النور۲۴:۲ ۳)
اسلام نہیں چاہتا کہ کوئی نوجوان مرد بغیر بیوی کے اور کوئی نوجوان عورت بغیر شوہر کے رہے۔ اللہ کے رسولؐ نے اپنے متعدد ارشادات میں نکاح کی ترغیب دی ہے اور اس سے غفلت کے بُرے نتائج سے ڈرایا ہے۔ ایک مرتبہ آپؐ نے نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا:’’اے نوجوانوںکے گروہ! تم میں سے جو بھی شادی کی استطاعت رکھتا ہو اسے شادی کرلینی چاہیے، اس لیے کہ یہ نگاہ کو نیچی رکھنے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے کا زیادہ کارگر طریقہ ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
ایک موقعے پر آپؐ نے سخت الفاظ میں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:’’جو شخص نکاح کرنے پر قادر ہو، پھر بھی نکاح نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ (دارمی)
آپؐ نے لڑکیوں کے سرپرستوں کو مخاطب کرکے انھیں نصیحت کی کہ اگر کوئی اچھا رشتہ آجائے تو نکاح کرنے میں بالکل تاخیر نہ کریں:’’جب تمھارے پاس کسی ایسے شخص کی طرف سے پیغام آئے جس کی دین داری اور اخلاق تمھارے نزدیک پسندیدہ ہوں تو اس سے نکاح کرادو۔ اگر ایسا نہیں کروگے تو روے زمین پر فتنہ اوروسیع فساد برپا ہوجائے گا‘‘۔ (ترمذی)
رسولؐ اللہ نے نکاح کی صرف ترغیب ہی نہیں دی، بلکہ اسے آسان بنانے کے صریح احکام دیے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:’’سب سے بہتر نکاح وہ ہے جو بہت سہولت سے انجام پا جائے‘‘۔ (ابوداؤد)
اسلام میں نکاح کے انعقاد کا طریقہ بھی بہت آسان ہے۔ دو گواہوں کی موجودگی میں لڑکا اور لڑکی میں سے کوئی نکاح کی پیش کش کرے اور دوسرا اسے قبول کرلے، بس نکاح ہوگیا۔ نکاح کے وقت دعوت لڑکی والوں کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ نکاح کی خوشی میں لڑکے کو ولیمہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
آج کل مختلف اسباب سے نکاح میں تاخیر کی جاتی ہے۔ ان میں سے ایک سبب بڑے پیمانے پر جہیز کا لین دین ہے۔ اسلام میں جہیز کا کوئی تصور نہیں ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کو جہیز دیا تھا، لیکن یہ سراسر غلط ہے۔ آپؐ نے جب حضرت فاطمہؓ کا نکاح اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ بن ابی طالب سے (جو بچپن ہی سے آپؐ کی سرپرستی میں آپؐ کے ساتھ رہتے تھے) کرنا چاہا تو ان سے دریافت کیا: تمھارے پاس کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ایک زرہ۔ آپؐ نے اسے فروخت کروایا اور اس کی رقم سے شادی کے بعد کام آنے والا کچھ سامان خریدنے کا حکم دیا۔ گویااس موقعے پر جو بھی سامان آیا اس کے مصارف خود حضرت علیؓ نے برداشت کیے تھے۔ حضرت فاطمہؓ کے علاوہ آپؐ نے اپنی تین اور صاحب زادیوں کا نکاح کیا۔ کسی موقع پر بہ طور جہیز کچھ دینے کا تذکرہ روایات میں نہیں ملتا ہے۔
عہد نبویؐ میں نکاح کو آسان بنانے کے واقعات حدیث کی کتابوں میں اتنی کثرت سے ملتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ایک خاتون خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئی اور آپؐ سے اپنا نکاح کرا دینے کی خواہش کی۔ اس مجلس میں موجود ایک نوجوان آمادہ ہوگیا۔ آپؐ نے اس سے دریافت کیا: تمھارے پاس کچھ ہے؟ اس نے جواب دیا: کچھ بھی نہیں۔ آپؐ نے پھر سوال کیا: کیا تمھارے پاس لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا: وہ بھی نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تمھیں کچھ قرآن یاد ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں، فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ آپؐ نے اسی پر دونوں کا نکاح کرادیا۔ (بخاری، مسلم)
ایک نوجوان، جو قبیلۂ بنوبیاضہ کے آزاد کردہ غلاموں میں سے تھا، پچھنے لگانے کا کام کیا کرتا تھا۔ اس پیشے سے وابستہ لوگوں کو کم تر درجے کا سمجھا جاتا تھا۔ آپؐ نے قبیلے والوں کو حکم دیا کہ اس نوجوان کی شادی کی فکر کریں اور قبیلے کی کسی لڑکی سے اس کا رشتہ کردیں۔ (ابوداؤد)
اسلام نے مرد کو ایک سے زیادہ (چار تک) عورتوں کو بہ یک وقت اپنے نکاح میں رکھنے کی اجازت دی ہے۔ قرآن میں ہے:’’اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کرسکوگے تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو ، لیکن اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکوگے تو پھر ایک ہی بیوی کرو‘‘۔(النساء۴: ۳)
اسلام کی اس تعلیم کو بھی اعتراضات کا نشانہ بنایا جاتا ہے، حالاں کہ غور کرنا چاہیے کہ اسلام نے اس کا حکم نہیں دیا ہے کہ لازماً ہر مرد ایک سے زائد شادیاں کرے، بلکہ اس کی صرف اجازت دی ہے۔ جب یہ حکم نازل ہوا تھا، تب ہنگامی حالات تھے، جنگیں ہو رہی تھیں، مرد مارے جا رہے تھے اور شادی شدہ عورتیں بیوہ ہو رہی تھیں۔ اس وقت ان کے نکاح کی یہ صورت نکالی گئی۔ بعد میں بھی اس حکم کو عام رکھا گیا، اس لیے کہ کسی شخص کے حالات ایسے ہوسکتے ہیں کہ اسے ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی ضرورت پیش آجائے، مثلاً پہلی بیوی کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوجائے کہ وہ جنسی تعلق کے قابل ہی نہ رہے۔ پھر کیا مرد دوسری عورت سے نکاح کرنے کے لیے اسے طلاق دے دے؟
بعض معاشروں میں مرد کو صرف ایک عورت سے نکاح کرنے کا پابند کیا گیا ہے، لیکن اسے کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ ناجائز طریقے سے جتنی عورتوں سے چاہے جنسی تعلق رکھے۔ اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی ہے۔ اس کی تعلیم یہ ہے کہ اگر ضرورت ہو تو آدمی ایک سے زائد چار عورتوں تک سے نکاح کرسکتا ہے، لیکن اس صورت میں اس پر لازم ہوگا کہ وہ ان سب کو تمام قانونی حقوق دے اور ان کے ساتھ برابری کا معاملہ کرے۔
اسلام اس چیز کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اگر کسی مرد کی بیوی یا کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے یا کسی شادی شدہ جوڑے کے درمیان علیحدگی ہوجائے، تو ان میں سے ہر ایک اپنی بقیہ زندگی تجّرد کی حالت میں گزار دے، کیوں کہ اسلام نہیں چاہتا کہ معاشرے میں کوئی مرد بغیر بیوی کے اور کوئی عورت بغیر شوہر کے رہے۔ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں اس کی بڑی روشن مثالیں ملتی ہیں۔
حضرت عاتکہؓ بنت زید مشہور صحابیہ ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے صاحب زادے عبد اللہؓ سے ان کا نکاح ہوا۔ وہ شہید ہوگئے تو حضرت زید بن خطابؓ نے ان سے نکاح کرلیا۔ ان کی شہادت کے بعد وہ حضرت عمر بن الخطابؓ کی زوجیت میں آگئیں۔ وہ بھی شہید ہوگئے تو حضرت زبیر بن العوامؓ سے ان کا نکاح ہوگیا۔ آخر میں وہ حضرت حسن بن علیؓ کی زوجیت میں آئیں۔ اسی بنا پر ان کا نام ہی زوجۃ الشھداء (شہید ہونے والوں کی بیوی) پڑ گیا تھا۔ (اسدالغابۃ، ابن الاثیر)
حضرت اسما بنت عمیسؓ کی شادی حضرت جعفر بن ابی طالبؓ سے ہوئی۔ ان کی شہادت کے بعد وہ حضرت ابوبکرؓ کی زوجیت میں آئیں، پھر جب ان کا انتقال ہوگیا تو حضرت علیؓ نے ان سے نکاح کرلیا۔ (اسد الغابۃ)
حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی۔ عدت پوری ہوتے ہی ان کے پاس نکاح کے پیغامات آنے لگے۔ انھوں نے اللہ کے رسولؐ سے مشورہ کیا۔ آپؐ نے ایک اچھے رشتے کی نشان دہی فرمادی۔ (مسلم)
اسلام کے بنیادی عقائد انسان کی بھرپور تربیت کرتے ہیں اور اسے زندگی کے کسی معاملے میں بہکنے سے بچاتے ہیں۔ ان عقائد پر ایمان سے آدمی کی زندگی سنورتی ہے اور اس میں پاکیزگی آتی ہے۔ خاص طور پر دو عقائد کا کردار اس معاملے میں بہت نمایاں ہے:
اسلام یہ تصور دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرجگہ موجود ہے اورہر انسان کو دیکھ رہا ہے۔ وہ کوئی کام چاہے علانیہ کرے یا چھپ کر، کسی کھلی جگہ کرے یا بند کمرے میں یا کسی تہہ خانے میں، کوئی بات زور سے کہے یا کسی کے ساتھ سرگوشی کرے، کسی غلط کام کا ارتکاب روے زمین پر کرے یا سمندر کی تہوں میں جاکر، کوئی لفظ زبان پر لائے یاکوئی خیال اس کے دل میں آئے یا محض آنکھوں سے اشارہ بازی کرے، اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کی خبر ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ وہ کائنات کے ذرّے ذرّے پر نظر رکھتا ہے، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے۔ اس مضمون کی چند آیات کا ترجمہ درج ذیل ہے:
اس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے۔ وہ تمھارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو۔(الحدید۵۷:۴)
خشکی اور سمندر میں جو کچھ ہے، سب سے وہ واقف ہے، درخت سے گرنے والا کوئی پتّہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو۔(الانعام۶: ۵۹)
وہی اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی، تمھارے کھلے اور چھپے سب حال جانتا ہے اور جو برائی یا بھلائی تم کماتے ہو اس سے خوب واقف ہے‘‘۔(الانعام ۶:۳)
کیا تم کو خبر نہیں ہے کہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا اللہ کو علم ہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوںمیں کوئی سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو، یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے اندر چھٹا اللہ نہ ہو۔ خفیہ بات کرنے والے خواہ اس سے کم ہوں یا زیادہ، جہاں کہیں بھی وہ ہوں، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔(المجادلہ ۵۸:۷)
’’اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور وہ راز تک جانتا ہے جو سینوں نے چھپا رکھے ہیں‘‘۔(المومن ۴۰:۱۹)
جس شخص کے دل میں اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ موجود ہونے اور ہر چیز سے باخبر رہنے کا عقیدہ راسخ ہوگا وہ اس جگہ بھی، جہاں کوئی آنکھ اسے دیکھ نہ رہی ہو، کسی برائی کے ارتکاب سے بچے گا۔ حتیٰ کہ اگر کوئی عورت تنہائی کا فائدہ اٹھا کر اسے معصیت کی دعوت دے گی تو بھی وہ اس کی دعوت کو ٹھکرا دے گا اور فوراً پکار اٹھے گا کہ مجھے اللہ کا خوف ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سات افراد عرشِ الٰہی کے سایے میں ہوں گے۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہوگا جس کو کوئی خوب صورت اور جاہ و منصب والی عورت بدکاری کے لیے بلائے، لیکن وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (بخاری، مسلم)
دوسرا اسلامی عقیدہ، جو انسان کو دنیا میں محتاط زندگی گزارنے پر آمادہ کرتا ہے، آخرت کا عقیدہ ہے۔ اس کے مطابق یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہ دنیا فنا ہوجائے گی اور دوسری دنیا برپا ہوگی۔ اس میں تمام انسان دوبارہ پیدا کیے جائیں گے اور ان سے اس دنیا میں کیے گئے ان کے تمام اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ جن لوگوں نے یہاں اچھے کام کیے ہوں گے انھیں جنت عطا کی جائے گی، جس میں طرح طرح کی نعمتیں ہوں گی اور جن لوگوں نے یہاں بُرے کام کیے ہوں گے انھیں جہنم میں جھونک دیا جائے گا، جس میں تکلیف و اذیت کا ہر سامان موجود ہوگا۔ اِس دنیا میں کیا گیا کوئی عمل خواہ اچھا ہو یا برا، وہاں نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوسکے گا۔ قرآن میں ہے:’پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا‘‘۔(الزلزال:۷-۸)
یہاں اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں، جو ان کی تمام حرکات و سکنات کو نوٹ کر رہے ہیں۔ روزِ قیامت ہر انسان کا پورا نامۂ اعمال اس کے سامنے ہوگا اور وہ دنیا میں کیے گئے کسی عمل کا انکار نہ کرسکے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’بلکہ تم لوگ جزا و سزا کو جھٹلاتے ہو، حالاں کہ تم پر نگراں مقرر ہیں، ایسے معزّز کاتب جو تمھارے ہر فعل کو جانتے ہیں‘‘۔(الانفطار۸۲:۹-۱۲)
اسلام نے ہر فرد کے اندر حیا کا جذبہ ابھارا ہے۔یہ جذبہ اسے بے حیائی کے کاموں سے روکتا ہے۔ اگر کسی کے اندر حیا نہ ہو تو وہ غلط سے غلط کام کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا:’’سابقہ زمانوں کی ایک پیغمبرانہ بات یہ ہے کہ اگر تم میں حیا نہ ہو توجو جی میں آئے کر بیٹھوگے (سخت گھناؤنے کام سے بھی نہیں ہچکچاؤگے)‘‘۔ (بخاری)
حیا کے جذبے ہی سے انسان اپنے اعضاے ستر کو دوسروں کے سامنے کھولنے سے باز رہتا ہے۔ ایک موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی سے فرمایا: اپنے اعضاے ستر اپنی بیوی کے علاوہ اور کسی کے سامنے نہ کھولو۔ انھوں نے سوال کیا: اے اللہ کے نبیؐ، اگر کوئی شخص کسی جگہ تنہا ہو اور وہاں دوسرا کوئی نہ ہو تو کیا تب بھی وہ اپنے اعضاے ستر کو چھپائے رہے؟ آپؐ نے جواب دیا: انسانوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے حیا کی جائے‘‘۔ (ابوداؤد)
اسلام نے افراد کے لیے جنسی آسودگی فراہم کرنے کے ساتھ معاشرے کی پاکیزگی قائم رکھنے کے لیے مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں۔ یہ تدابیر افراد کو جرائم کا ارتکاب کرنے سے باز رکھتی ہیں اور جنسی جرائم کے تمام ممکنہ چور دروازوں کو بند کرتی ہیں۔ یہ تدابیر درج ذیل ہیں:
اسلام نے مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم دیا ہے کہ وہ بدنگاہی سے بچیں اور آبرو کی حفاظت کریں۔ قرآن میں ہے:
اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔(النور۲۴:۳۰)
اور اے نبی، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔(النور۲۴:۱ ۳)
ان آیات میں دو باتیں (نظریں بچانا اور شرم گاہ کی حفاظت کرنا) ساتھ ساتھ کہی گئی ہیں۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ دونوں کا خاص تعلق ہے۔ اگر کوئی شخص، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اپنی نگاہوں کو قابو میں نہیں رکھے گا تو اس کے بدکاری کی کھائی میں جاگرنے کا اندیشہ رہے گا۔
ایک مرتبہ اللہ کے رسولؐ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ کو، جو آپ کے داماد بھی تھے، نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے علیؓ، اگر کسی اجنبی عورت پر تمھاری نظر پڑ جائے تو فوراً اپنی نظر پھیر لو اور دوبارہ اسے نہ دیکھو، اس لیے کہ پہلی نظر تو قابل مواخذہ نہیں، لیکن دوبارہ اسے دیکھنے کا تمھیں حق نہیں ہے‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی)
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کوئی مرد یا عورت کسی نامحرم کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے۔ اس کی بہت سخت الفاظ میں ممانعت آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:’’کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں ہرگز نہ رہے،کیوں کہ اس صورت میں ان کے ساتھ تیسرا لازماً شیطان ہوگا‘‘۔ (ترمذی)
ایک مرتبہ آپؐ نے صحابہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’جب عورتیں تنہا ہوں تو ان کے پاس ہرگز نہ جاؤ‘‘۔ اس پر ایک شخص نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول، کیا عورت کا سسرالی رشتہ دار (دیور یا جیٹھ وغیرہ) بھی نہیں جاسکتا؟ فرمایا: وہ تو موت ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
اسلام مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط پسند نہیںکرتا۔ وہ چاہتا ہے کہ مرد اور عورتیں گھل مل کر نہ رہیں،اس لیے کہ مخلوط طور پر رہنے سے ان میں صنفی جذبات ابھرنے کا امکان رہتا ہے اور یہ چیز بسا اوقات بدکاری تک پہنچا سکتی ہے۔
ایک مرتبہ اللہ کے رسولؐ نے دیکھا کہ کچھ عورتیں سڑک کے درمیان مردوں کے ساتھ گھل مل کر چل رہی ہیں۔ آپؐ نے انھیں ٹوکا اور فرمایا: ’’پیچھے ہٹ جاؤ، تمھارا راستے کے درمیان میں چلنا مناسب نہیں۔ کنارے ہوکر چلا کرو‘‘۔ (ابوداؤد)
اُم المومنین حضرت عائشہؓ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گواہی دی ہے کہ آپؐ نے کبھی کسی اجنبی عورت کو ہاتھ نہیں لگایا۔ (بخاری، مسلم)
اسلام کی ایک ہدایت یہ ہے کہ کوئی عورت اپنے شوہر یا محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ عورتیں جہاں رہتی ہیں وہاں تو وہ اپنی ضروریات کے لیے تنہا نکل سکتی ہیں، لیکن دور کی مسافت پر تنہا جانا ان کے لیے روا نہیں ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا ہے:’’کوئی عورت، جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتی ہے، اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ بغیر محرم کے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کا سفر کرے‘‘۔(بخاری، مسلم)
اسلام کی اس تعلیم پر اعتراض کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس نے عورت کی آزادی کو محدود کردیا ہے اور اسے گھر کی چار دیواری میں مقید کردیا ہے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کو گھر سے باہر نکلنے سے نہیں روکا ہے، لیکن وہ اس کی عزت و عصمت کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ اس لیے وہ چاہتا ہے کہ جب عورت دور کی مسافت کے لیے نکلے تو اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم ہو، تاکہ کوئی آوارہ اور بدچلن شخص اس کے ساتھ چھیڑ خانی کی جراء ت نہ کرسکے۔
اسلام نے حکم دیا ہے کہ کوئی عورت سج دھج کر گھر سے باہر نہ نکلے اور نہ باہر نکلتے وقت خوشبو لگائے۔ اس لیے کہ اگر وہ ایسا کرے گی تو اجنبی مردوں کی نگاہیں اس کی جانب اٹھیں گی اور ان کے صنفی جذبات مشتعل ہوں گے، اس وجہ سے اس پر دست درازی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ یہاں تک تاکید کی ہے کہ جب عورتیں گھر سے باہر نکلیں تو اپنے عام لباس کے اوپر ایک اور بڑا کپڑا (چادر وغیرہ) اوڑھ لیں، جس سے ان کا بدن خوب اچھی طرح ڈھک جائے اور ان کا کوئی عضو نمایاں نظر نہ آئے۔
قرآن میں ہے:’’اے نبی، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلّو لٹکا لیا کریں‘‘(الاحزاب ۳۳:۵۹)۔ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:’’عورت جب خوشبو لگا کر کسی ایسی جگہ سے گزرتی ہے جہاں بہت سے مرد ہوں تو وہ ایسی اور ایسی ہے، (یعنی وہ بدکار ہے)‘‘۔ (ترمذی)
اسلام کا ایک حکم یہ ہے کہ عورتیں ایسا لباس پہنیں جو ان کے پورے جسم کو (سوائے چہرہ اور ہاتھ کے) چھپانے والا ہو۔ نہ ان کا سر کھلا ہو، نہ گریبان چاک ہو اور نہ لباس اتنا شفاف ہو کہ ان کا بدن جھلکتا ہو۔ قرآن میں ہے:’’عورتیں اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں‘‘(النور۲۴:۳۱)۔ایک مرتبہ اللہ کے رسول ؐ کی زوجۂ محترمہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی بڑی بہن حضرت اسماءؓ آپؐ کے گھر آئیں۔ اس وقت وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ ان پر آپؐ کی نظر پڑی تو آپؐ نے اپنا چہرہ پھیر لیا اور فرمایا:’’اے اسماء،لڑکی جب بالغ ہوجائے تو اس کے چہرے اور ہاتھ کے علاوہ جسم کا کوئی حصہ کھلا نہیں رہنا چاہیے‘‘۔ (ابوداؤد)
ایک مرتبہ آپؐ نے بہت سخت الفاظ میں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:’’بہت سی عورتیں ایسی ہیں جو لباس پہنے ہونے کے باوجود عریاں ہوتی ہیں۔ وہ دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اوردوسروں کی طرف خود مائل ہونے والی ہوتی ہیں، ان کے سر بختی اونٹوں کے کوہان کی طرح اُٹھے ہوتے ہیں۔ وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہ پائیں گی، حالاں کہ اس کی خوشبو کافی فاصلے سے محسوس ہوگی‘‘۔ (مسلم)
ایک حدیث میں ہے کہ ’’آپؐ نے ایسے مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی)
عورتوں کو ایک خصوصی حکم یہ بھی دیا گیا ہے کہ وہ غیرمردوں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں، بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے‘‘(النور۲۴:۳۱)۔اس آیت میں صرف اس زینت کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے، جو خود بہ خود ظاہر ہوجائے، اور جس کے چھپانے پر عورت کا اختیار نہ ہو۔ ’’اس سے صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو خود اس کا اظہار اور اس کی نمایش نہیں کرنی چاہیے، البتہ جو آپ سے آپ ظاہر ہوجائے.... حکمِ حجاب میں منہ کا پردہ شامل [ہے]‘‘ (تفہیم القرآن، سوم، ص ۳۸۵-۳۸۶)۔ بعض علما کا خیال ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ (گٹے تک) ہیں کہ انھیں عورت کھلا رکھ سکتی ہے، باقی پورے بدن کو چھپانا ضروری ہے۔ علما یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر فتنے کا اندیشہ ہو تو عورت کا اپنے چہرے کو چھپانا بہتر ہے۔
درج بالا احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ اسلام نے ان چیزوں پر بھی پابندی عائد کی ہے جو بدکاری پر ابھارنے والی اور مردوں اور عورتوں میں صنفی جذبات برانگیختہ کرنے والی ہیں۔
موجودہ دور میں معاشرے میں فحاشی، بے حیائی اور عریانی پھیلانے والی بہت سی چیزیں رواج پا گئی ہیں، مثلاً گندی فلمیں، عریاں پوسٹر اور اشتہارات، بے حیائی کا پرچار کرنے والے رسائل، انٹرنیٹ پربے شمار عریاں سائٹس وغیرہ۔ معاشرے کے لیے ان چیزوں کا ضرر رساں ہونا کھلی حقیقت ہے، لیکن چوں کہ انھوں نے صنعت کی شکل اختیار کرلی ہے اور ان سے حکومت اور سربر آوردہ طبقے کو خطیر رقمیں حاصل ہوتی ہیں، اس لیے ان کی خطرناکی کو نظر انداز کرکے انھیں خوب بڑھا وا دیا جا رہا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ تمام چیزیں معاشرے کے لیے سمِّ قاتل ہیں، اس لیے ان میں سے کسی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
ان تمام تعلیمات اور ہدایات کے بعد، جو فرد اور معاشرے کی تربیت سے متعلق ہیں، آخر میں اسلامی قانون اپنا کام کرتا ہے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود معاشرے میں کچھ ایسے بدخصلت افراد ہوسکتے ہیں جو بدکاری میں ملو ّث ہوجائیں۔ ایسے لوگوں کے لیے اسلام درد ناک سزا تجویز کرتا ہے۔ وہ قانون یہ ہے:’’زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو ۱۰۰ کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو، اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز ِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ اور ان کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کا ایک گروہ موجود رہے‘‘۔(النور۲۴:۲)
اس آیت سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
اس آیت میں زنا کی سزا ۱۰۰ کوڑے بیان کی گئی ہے۔ یہ سزا غیر شادی شدہ افراد کے لیے ہے۔ احادیث اور عہد نبویؐ میں نافذ کی جانے والی سزاؤں کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ زنا کا ارتکاب کرنے والے شادی شدہ افراد کی سزا یہ ہے کہ انھیں پتھر مار مار کر ہلاک [رجم]کردیا جائے۔
غیر شادی شدہ اور شادی شدہ افراد کی سزاؤں میں فرق کی حکمت علما نے یہ بیان کی ہے کہ شادی شدہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو جنسی آسودگی حاصل ہوچکی ہے، اس کے باوجود اس نے اس گھناونے فعل کا ارتکاب کیا ہے، اس لیے وہ سخت ترین سزا کا مستحق ہے۔
اسلام نے زنا کی سزا جتنی سخت رکھی ہے، اس کے ثبوت کے لیے اتنی ہی کڑی شرائط بھی عائد کی ہیں۔ یا تو کوئی شخص اپنے ضمیر کی آواز پر اعتراف کرلے کہ اس سے یہ غلط کام سرزد ہوگیا ہے، تب اس پر یہ سزا نافذ کی جائے گی، یا چار مرد یہ گواہی دیں کہ انھوں نے اپنی کھلی آنکھوں سے کسی مرد اور عورت کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ قطعی ثبوت فراہم ہونے کے بعد ہی کسی کو یہ سزا دی جائے۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ اسلام نے ہر شخص کے ضمیر کو بیدار کیا ہے اور اس کے اندر گناہ سے بچنے اور اگر اس کا ارتکاب ہوجائے تو اس سے پاکی حاصل کرنے کا جذبہ پیدا کیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عہد ِ نبویؐ میں ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں آیا، جس میں چار مردوں نے یہ گواہی دی ہو کہ انھوں نے کسی مرد اور عورت کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھا ہے اور اس گواہی کے نتیجے میں ان پر سزا کا نفاذ ہوا ہو۔ سزاے زنا کے جو اِکّا دکّا واقعات اس دور میں پیش آئے ان سب میں زنا کرنے والوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر خود آکر اعتراف کیاتھا۔
معاشرے کو پاکیزہ رکھنے کے لیے اسلام کی یہ تعلیمات محض نظری نہیں ہیں، بلکہ ان پر عمل ہوچکا ہے اور دنیا نے ان کے اثرات کا اپنی کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ عرب کا معاشرہ فسق و فجور کے دلدل میں غرق تھا، برائی کو برائی نہیں سمجھا جاتا تھا، عصمت و عفّت کے کوئی معنیٰ نہیں تھے، شراب ان کی گھٹّی میں پڑی تھی۔ اسلام کی ان تعلیمات کے نتیجے میں ان کی زندگیاں پاکیزہ ہوگئیں، اخلاقی قدروں کو ان کے درمیان فروغ ملااور عورت کو عزت و توقیر حاصل ہوئی۔ بعد کے ادوار میں جہاں جہاں ان تعلیمات پر عمل کیا گیا اور ان احکام کو نافذ کیا گیا وہاں وہاں معاشرے پر ان کے خوش گوار اثرات مرتب ہوئے۔ آج بھی جو لوگ معاشرے میں برائیوں کو پنپتا دیکھ کر فکرمند ہیں اور آبروریزی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے اسلامی سزا کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور اسے نافذ کیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اگر وہ سنجیدہ ہیں تو انھیں پورے اسلامی نظامِ معاشرت کو قبول کرنا اور اسلام کی تمام تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا، تبھی مطلوبہ فائدے حاصل ہوسکتے ہیں، برائیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے اور معاشرے کی پاکیزگی قائم رکھی جاسکتی ہے۔
مقالہ نگار مجلہ تحقیقاتِ اسلامی، علی گڑھ کے معاون مدیر ہیں۔