موجودہ دور میں ایک سماجی مسئلہ، جس نے ملکی اور عالمی دونوں سطحوں پر گمبھیر صورت اختیار کرلی ہے، خواتین کی عزت و آبرو کی پامالی اور عصمت دری ہے۔ وہ اپنوں اور پرایوں دونوں کی جانب سے زیادتی اور دست درازی کا شکار ہیں۔ کوئی جگہ ان کے لیے محفوظ نہیں ہے۔ گھر ہو یا دفتر، پارک ہو یا بازار، ٹرین ہو یا بس، ہر جگہ ان کی عصمت پر حملے ہو رہے ہیں اور انھیں بے آبرو کیا جا رہا ہے۔ کبھی معاملہ عصمت دری پر رُک جاتا ہے، تو کبھی ظلم کی شکار خاتون کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ ایک گھناونی صورت اجتماعی آبروریزی کی ہے، جس میں کئی نوجوان مل کر کسی معصوم لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں، پھر بڑے درد ناک طریقے سے اسے قتل کردیتے ہیں۔
اس طرح کے واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں۔ کسی دن کا اخبار اٹھاکر دیکھ لیجیے، عصمت دری کی بہت سی خبریں اس میں مل جائیں گی۔ ان میں سے کچھ ہی معاملے عدالتوں تک پہنچ پاتے ہیں۔اور جو پہنچتے ہیں، ان میں بھی عدالتی پیچیدگیوں کی وجہ سے فیصلہ آنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور بہت کم مقدمات میں مجرموں کو سزا مل پاتی ہے۔
یہ واقعات اب اتنی کثرت سے پیش آنے لگے ہیں کہ ان کی سنگینی کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن انھی کے درمیان کبھی کوئی درد ناک واقعہ رونما ہوتا ہے تو عوام بیدار ہوجاتے اور اس کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ اس موقعے پر ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے مختلف تجاویز سامنے آتی ہیں، مثلاً مجرموں کو سرِ عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیاجاتا ہے، سخت سے سخت قوانین بنانے کی بات کی جاتی ہے، کڑی نگرانی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے اور مضبوط سیکورٹی فراہم کرنے پر زور دیا جاتا ہے، لڑکیوں کو جوڈو کراٹے سیکھنے اور خود حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں بعض اطراف سے ایک آواز یہ بھی سنائی دیتی ہے کہ زنا کی وہ سزا نافذ کی جائے جو اسلام نے تجویز کی ہے۔ اسی بات کو بعض لوگ ان الفاظ میں کہتے ہیں کہ سزاے زنا کے لیے عرب ملکوں جیسا قانون بنایا جائے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ مطالبے ان لوگوں کی طرف سے بھی ہوتے ہیں، جو اسلام کے شدید مخالف ہیں، جو اسلام پر اعتراضات کرنے اور مسلمانوں کو برا بھلا کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، لیکن چوں کہ انھوں نے کہیں سے سن رکھا ہے کہ اسلام زنا کرنے والے کو پتھر مار مار کر ہلاک کرنے کا حکم دیتا ہے، اور جرم کی سنگینی کی بنا پر یہ سزا ان کے دل کی آواز ہوتی ہے، اس لیے ان کے اندرون میں چھپی خواہش ان کی زبان پر آجاتی ہے اور وہ خواہی نہ خواہی اسلام کا نام لینے لگتے ہیں۔
آبرو ریزی کے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت سے سخت قانون بنانے کی بات کی جائے، یا اسلامی سزاے زنا کو نافذ کرنے کی تجویز رکھی جائے، دونوں مطالبے جذباتیت کے مظہر اور سنجیدگی سے محروم ہیں۔ کتنا ہی سخت قانون بنا لیا جائے، اس سے جرائم کا بالکلیہ خاتمہ ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے معاشرے کو پاکیزہ بنانے کی تدابیر اختیار کی جائیں اور جو چیزیں افراد کو غلط کاموں پر ابھارتی اور جرائم کے ارتکاب کی جانب مائل کرتی ہیں، ان پر پابندی عائد کی جائے۔ قانون جرائم کو روکنے میں معاون تو ہوسکتا ہے، لیکن محض قانون سے ان کا سدِّ باب ناممکن ہے۔ اگر جرائم کے تمام محرکات اور ترغیبات کو علی حالہٖ باقی رکھا جائے اور محض کوئی سخت تر قانون منظور کرلیا جائے تو جرائم میں تو کوئی کمی نہیں آئے گی، البتہ قانون کے غلط انطباق اور استعمال کے اندیشے بڑھ جائیں گے۔ عدالتوںکے بھاری مصارف کی بنا پر اس کا خدشہ رہے گا کہ غریب اور اپنے دفاع سے عاجز سزاپاجائیں اور مال دار اور طاقت ور اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے سزا سے بچ جائیں۔
اسی طرح اسلام کے کسی ایک حکم کا مطالبہ اور دیگر احکام سے صرفِ نظر درست رویّہ نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے اسلامی نظام کو ایک کُل کی حیثیت سے قبول کرنا ہوگا۔ اسلامی تعلیمات کے اثرات کا مشاہدہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پورے کے پورے اسلام کو نافذ کیا جائے۔ جس طرح کوئی مشین اسی وقت صحیح طریقے سے کام کرے گی، جب اس کے تمام پرزے اپنی اپنی جگہ نصب ہوں۔ اگر اس میں سے کوئی ایک پرزہ نکال لیا جائے تو نہ مشین صحیح ڈھنگ سے وہ کام کرے گی جس کے لیے اسے بنایا گیا ہے اور نہ اس نکالے گئے پرزے سے وہ کام لیا جاسکتا ہے جو پوری مشین کے کرنے کا تھا۔ اسی طرح اسلام کے کسی ایک قانون کو نافذ کردیا جائے اور اس کے دیگر احکام پر عمل نہ کیا جائے، تو اس سے بھی مطلوبہ فوائد حاصل نہیں ہوسکتے۔
ہر انسان میں بنیادی طور پر تین طرح کی خواہشات پائی جاتی ہیں: کھانے کی خواہش، پینے کی خواہش اور جنسی خواہش۔ کوئی بھی انسان ہو، چاہے وہ دہریہ ہو یا سیکولر، یا اس کا کسی مذہب سے تعلق ہو، بہ حیثیت انسان اس کے اندر ان فطری خواہشات کا پایا جانا لازمی ہے۔ جنس کے تعلق سے مختلف رویّے اختیار کیے گئے ہیں۔
کچھ لوگوں نے جنسی خواہش کو دبانے اور کچلنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے یہ تصور پیش کیا کہ جنسی خواہش کو دبا کر ہی انسان کی نجات ممکن ہے، تبھی اسے نروان [نجات] حاصل ہوسکتا ہے اور وہ کامیابی کے مدارج طے کرسکتا ہے۔ یہ تصور عیسائیت میں راہبوں اور ہندو مت میں جوگیوں کے یہاں ملتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے جنسی تعلق کو ایک قابل نفرت چیز سمجھا اور شادی بیاہ کے بکھیڑوں میں پڑنے سے گریز کیا۔ انھوں نے جنگلوں اور بیابانوں کی راہ لی اور وہاں کٹیا بنا کر تنہائی کی زندگی گزارنے لگے۔ اسی طرح ان مذاہب میں ان لوگوں کو عظمت کی نگاہ سے دیکھا گیا جو غیرشادی شدہ رہتے ہوئے پوری زندگی گزار دیں، چنانچہ انھیں گرجوں اور مندروں میں اعلیٰ مناصب سے سے نوازا گیا۔ لیکن انسانی فطرت کو دبا کر اور اس سے جنگ کرکے زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ چرچ سے وابستہ پادری اور مندروں کے پجاری بارہا بدکاری میں ملوث پائے گئے ہیں اور روحانیت اور پوجا پاٹ کے ان مراکز کی پاکیزگی پامال ہوئی ہے۔
اس کے بالمقابل کچھ لوگوں نے جنس کے معاملے میں ہر طرح کی آزادی کی وکالت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے، اس لیے اس کو یہ حق حاصل ہے کہ جس طرح چاہے اپنی جنسی خواہش پوری کرلے، خواہ اس کے لیے وہ کتنا ہی غیرفطری طریقہ کیوں نہ اختیار کرے۔ چنانچہ ہم جنسی (Homosexuality)کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا اور مرد کو مرد کے ذریعے اور عورت کو عورت کے ذریعے جنسی تسکین حاصل کرنے کا حق دیا گیا۔ جن لوگوں نے یہ غیر فطری طریقہ اختیار نہیںکیا انھوں نے بھی نکاح کرنے اور خاندان تشکیل دینے کو فرسودہ قرار دیا اور بہتری اس میں سمجھی کہ کوئی مرد اور عورت جب تک چاہیں ساتھ رہیں اور جب چاہیں الگ ہوکر اپنی اپنی راہ لیں۔ کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ وہ باہم رضا مندی سے جب چاہیں جنسی تعلق قائم کرلیں۔صرف زور زبردستی کو قانوناً جرم قرار دیا گیا۔ یہ تصو ّر پیش کیا گیا کہ ہر انسان اپنے جسم کا مالک ہے، وہ اپنے جس عضو کو چاہے چھپائے اور جس کو چاہے کھلا رکھے۔ اسی طرح اس کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ اپنے اعضا سے جیسا چاہے کام لے۔ چنانچہ عورتوں کے رحم (uterus)کرایے پر ملنے لگے کہ کوئی بھی مرد اس میں اپنا نطفہ داخل کروا کے بچہ حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح مردوں کے نطفے (sperm) کی بھی تجارت ہونے لگی اور اس کے بنک قائم ہوگئے۔ ان چیزوں نے بہت بڑی صنعت کی صورت اختیار کرلی، جس میں کروڑوں اربوں روپے کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔
اس بے مہار آزادی نے انسانی معاشرے کو جانوروں کے باڑے میں تبدیل کردیا۔ اس کے نتیجے میں انارکی، انتشار، فتنہ و فساد او رقتل و غارت گری کو خوب فروغ ملا۔ زنا بالجبر کے واقعات کثرت سے پیش آنے لگے، جنسی بیماریاں: آتشک، سوزاک، امراض رحم، اسقاط وغیرہ عام ہوئیں۔ یہاں تک کہ فطرت سے بغاوت کی سزا ایڈز کی صورت میں ملی، جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اربوں کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود اب تک اس پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والے سروے رپورٹوں سے ظاہر ہے کہ ایڈز کے متاثرین میں ۸۰ فی صد سے زائد افراد کو یہ مرض جنسی آوارگی کے نتیجے میں لاحق ہوا ہے۔
جنس کے بارے میں تیسرا نقطۂ نظر وہ ہے جو اسلام پیش کرتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر افراط اور تفریط کے درمیان ہے۔ اسلام نہ تو جنسی جذبے کو دبانے اور کچلنے کی ترغیب دیتا ہے اور نہ انسان کو کھلی چھوٹ دے دیتا ہے کہ جس طرح اور جہاں چاہے اس کی تسکین کرلے۔ وہ ہر انسان کو اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کا حق دیتا ہے، لیکن ساتھ ہی اسے کنٹرول کرنے کی راہ دکھاتا ہے۔
اسلام نے جنسی خواہش کی تکمیل کو نکاح کا پابند بنایا ہے اور اس سے ماورا کسی طرح کا تعلق رکھنے کو حرام قرار دیا ہے۔ اس نے مردوں اور عورتوں دونوں پر سخت پابندی عائد کی ہے کہ وہ نکاح کے علاوہ باہم کسی طرح کا جنسی تعلق نہ رکھیں۔ قرآن میں ہے:
اس طرح کہ تم (مرد) ان (عورتوں) سے باقاعدہ نکاح کرو، یہ نہیں کہ علانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بدکاری کرو۔(المائدہ۵:۵)
وہ (عورتیں) پاک دامن ہوں، نہ کہ علانیہ بدکاری کرنے والیاں، نہ خفیہ آشنائی کرنے والیاں۔(النساء۴:۲۵)
ان آیات میں مردوں اور عورتوں دونوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے نکاح کریں۔ اس طرح وہ شیطان کے حملوں سے محفوظ ہوجائیںگے۔ نکاح سے ماورا کسی طرح کا تعلق نہ علانیہ قائم کریں نہ چوری چھپے۔
اسلام نے زنا کو ایک سنگین سماجی جرم قرار دیا ہے اور اسے گھناونااور برا فعل کہتے ہوئے اس سے دُور رہنے کی ہدایت کی ہے:’’اور زنا کے قریب نہ پھٹکو۔ بلاشبہہ وہ بڑی بے شرمی کا کام اور بڑا ہی بُرا راستہ ہے‘‘(بنی اسرائیل۱۷: ۳۲)۔اس نے کامیاب انسانوں کا ایک وصف یہ قرار دیا ہے کہ:’’وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں بجز اپنی بیویوں اور لونڈیوں کی حد تک سو اس بارے میں ان کو کوئی ملامت نہیں‘‘۔(المومنون۲۳:۵-۶)
اسلام کی نظر میں جتنا سنگین جرم زنا بالجبر ہے، اتنا ہی سنگین جرم زنا بالرضا بھی ہے۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جس طرح ایک مرد کسی عورت پر جبر کرکے اس کی عصمت کو داغ دار کرتا اور اس کی پرسکون زندگی میں زہر گھولتا ہے، اسی طرح دو مرد و عورت باہم رضا مندی سے جنسی تعلق قائم کرکے معاشرے کی پاکیزگی کو ختم کرتے اور اجتماعی امن و سکون پر ڈاکا ڈالتے ہیں، اس لیے دونوں برابر کے مجرم ہیں۔
اسلام چاہتا ہے کہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد کوئی بھی لڑکا یا لڑکی بغیر نکاح کے نہ رہیں، بلکہ جلد از جلد نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں۔ چنانچہ وہ ان کے سر پرستوں کو اس کی طرف متوجہ کرتا اور ان کا نکاح کرادینے کی تلقین کرتا ہے۔ زمانۂ نزولِ قرآن میں غلامی کا رواج تھا، مردوں اور عورتوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔ قرآن نے حکم دیا کہ نہ صرف اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کے نکاح کی فکر کرو، بلکہ اپنے غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کرادو:’’تم میں سے جو لوگ مجر ّد ہوں اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کردو‘‘۔(النور۲۴:۲ ۳)
اسلام نہیں چاہتا کہ کوئی نوجوان مرد بغیر بیوی کے اور کوئی نوجوان عورت بغیر شوہر کے رہے۔ اللہ کے رسولؐ نے اپنے متعدد ارشادات میں نکاح کی ترغیب دی ہے اور اس سے غفلت کے بُرے نتائج سے ڈرایا ہے۔ ایک مرتبہ آپؐ نے نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا:’’اے نوجوانوںکے گروہ! تم میں سے جو بھی شادی کی استطاعت رکھتا ہو اسے شادی کرلینی چاہیے، اس لیے کہ یہ نگاہ کو نیچی رکھنے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے کا زیادہ کارگر طریقہ ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
ایک موقعے پر آپؐ نے سخت الفاظ میں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:’’جو شخص نکاح کرنے پر قادر ہو، پھر بھی نکاح نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ (دارمی)
آپؐ نے لڑکیوں کے سرپرستوں کو مخاطب کرکے انھیں نصیحت کی کہ اگر کوئی اچھا رشتہ آجائے تو نکاح کرنے میں بالکل تاخیر نہ کریں:’’جب تمھارے پاس کسی ایسے شخص کی طرف سے پیغام آئے جس کی دین داری اور اخلاق تمھارے نزدیک پسندیدہ ہوں تو اس سے نکاح کرادو۔ اگر ایسا نہیں کروگے تو روے زمین پر فتنہ اوروسیع فساد برپا ہوجائے گا‘‘۔ (ترمذی)
رسولؐ اللہ نے نکاح کی صرف ترغیب ہی نہیں دی، بلکہ اسے آسان بنانے کے صریح احکام دیے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:’’سب سے بہتر نکاح وہ ہے جو بہت سہولت سے انجام پا جائے‘‘۔ (ابوداؤد)
اسلام میں نکاح کے انعقاد کا طریقہ بھی بہت آسان ہے۔ دو گواہوں کی موجودگی میں لڑکا اور لڑکی میں سے کوئی نکاح کی پیش کش کرے اور دوسرا اسے قبول کرلے، بس نکاح ہوگیا۔ نکاح کے وقت دعوت لڑکی والوں کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ نکاح کی خوشی میں لڑکے کو ولیمہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
آج کل مختلف اسباب سے نکاح میں تاخیر کی جاتی ہے۔ ان میں سے ایک سبب بڑے پیمانے پر جہیز کا لین دین ہے۔ اسلام میں جہیز کا کوئی تصور نہیں ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کو جہیز دیا تھا، لیکن یہ سراسر غلط ہے۔ آپؐ نے جب حضرت فاطمہؓ کا نکاح اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ بن ابی طالب سے (جو بچپن ہی سے آپؐ کی سرپرستی میں آپؐ کے ساتھ رہتے تھے) کرنا چاہا تو ان سے دریافت کیا: تمھارے پاس کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ایک زرہ۔ آپؐ نے اسے فروخت کروایا اور اس کی رقم سے شادی کے بعد کام آنے والا کچھ سامان خریدنے کا حکم دیا۔ گویااس موقعے پر جو بھی سامان آیا اس کے مصارف خود حضرت علیؓ نے برداشت کیے تھے۔ حضرت فاطمہؓ کے علاوہ آپؐ نے اپنی تین اور صاحب زادیوں کا نکاح کیا۔ کسی موقع پر بہ طور جہیز کچھ دینے کا تذکرہ روایات میں نہیں ملتا ہے۔
عہد نبویؐ میں نکاح کو آسان بنانے کے واقعات حدیث کی کتابوں میں اتنی کثرت سے ملتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ایک خاتون خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئی اور آپؐ سے اپنا نکاح کرا دینے کی خواہش کی۔ اس مجلس میں موجود ایک نوجوان آمادہ ہوگیا۔ آپؐ نے اس سے دریافت کیا: تمھارے پاس کچھ ہے؟ اس نے جواب دیا: کچھ بھی نہیں۔ آپؐ نے پھر سوال کیا: کیا تمھارے پاس لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا: وہ بھی نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تمھیں کچھ قرآن یاد ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں، فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ آپؐ نے اسی پر دونوں کا نکاح کرادیا۔ (بخاری، مسلم)
ایک نوجوان، جو قبیلۂ بنوبیاضہ کے آزاد کردہ غلاموں میں سے تھا، پچھنے لگانے کا کام کیا کرتا تھا۔ اس پیشے سے وابستہ لوگوں کو کم تر درجے کا سمجھا جاتا تھا۔ آپؐ نے قبیلے والوں کو حکم دیا کہ اس نوجوان کی شادی کی فکر کریں اور قبیلے کی کسی لڑکی سے اس کا رشتہ کردیں۔ (ابوداؤد)
اسلام نے مرد کو ایک سے زیادہ (چار تک) عورتوں کو بہ یک وقت اپنے نکاح میں رکھنے کی اجازت دی ہے۔ قرآن میں ہے:’’اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کرسکوگے تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو ، لیکن اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکوگے تو پھر ایک ہی بیوی کرو‘‘۔(النساء۴: ۳)
اسلام کی اس تعلیم کو بھی اعتراضات کا نشانہ بنایا جاتا ہے، حالاں کہ غور کرنا چاہیے کہ اسلام نے اس کا حکم نہیں دیا ہے کہ لازماً ہر مرد ایک سے زائد شادیاں کرے، بلکہ اس کی صرف اجازت دی ہے۔ جب یہ حکم نازل ہوا تھا، تب ہنگامی حالات تھے، جنگیں ہو رہی تھیں، مرد مارے جا رہے تھے اور شادی شدہ عورتیں بیوہ ہو رہی تھیں۔ اس وقت ان کے نکاح کی یہ صورت نکالی گئی۔ بعد میں بھی اس حکم کو عام رکھا گیا، اس لیے کہ کسی شخص کے حالات ایسے ہوسکتے ہیں کہ اسے ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی ضرورت پیش آجائے، مثلاً پہلی بیوی کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوجائے کہ وہ جنسی تعلق کے قابل ہی نہ رہے۔ پھر کیا مرد دوسری عورت سے نکاح کرنے کے لیے اسے طلاق دے دے؟
بعض معاشروں میں مرد کو صرف ایک عورت سے نکاح کرنے کا پابند کیا گیا ہے، لیکن اسے کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ ناجائز طریقے سے جتنی عورتوں سے چاہے جنسی تعلق رکھے۔ اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی ہے۔ اس کی تعلیم یہ ہے کہ اگر ضرورت ہو تو آدمی ایک سے زائد چار عورتوں تک سے نکاح کرسکتا ہے، لیکن اس صورت میں اس پر لازم ہوگا کہ وہ ان سب کو تمام قانونی حقوق دے اور ان کے ساتھ برابری کا معاملہ کرے۔
اسلام اس چیز کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اگر کسی مرد کی بیوی یا کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے یا کسی شادی شدہ جوڑے کے درمیان علیحدگی ہوجائے، تو ان میں سے ہر ایک اپنی بقیہ زندگی تجّرد کی حالت میں گزار دے، کیوں کہ اسلام نہیں چاہتا کہ معاشرے میں کوئی مرد بغیر بیوی کے اور کوئی عورت بغیر شوہر کے رہے۔ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں اس کی بڑی روشن مثالیں ملتی ہیں۔
حضرت عاتکہؓ بنت زید مشہور صحابیہ ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے صاحب زادے عبد اللہؓ سے ان کا نکاح ہوا۔ وہ شہید ہوگئے تو حضرت زید بن خطابؓ نے ان سے نکاح کرلیا۔ ان کی شہادت کے بعد وہ حضرت عمر بن الخطابؓ کی زوجیت میں آگئیں۔ وہ بھی شہید ہوگئے تو حضرت زبیر بن العوامؓ سے ان کا نکاح ہوگیا۔ آخر میں وہ حضرت حسن بن علیؓ کی زوجیت میں آئیں۔ اسی بنا پر ان کا نام ہی زوجۃ الشھداء (شہید ہونے والوں کی بیوی) پڑ گیا تھا۔ (اسدالغابۃ، ابن الاثیر)
حضرت اسما بنت عمیسؓ کی شادی حضرت جعفر بن ابی طالبؓ سے ہوئی۔ ان کی شہادت کے بعد وہ حضرت ابوبکرؓ کی زوجیت میں آئیں، پھر جب ان کا انتقال ہوگیا تو حضرت علیؓ نے ان سے نکاح کرلیا۔ (اسد الغابۃ)
حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی۔ عدت پوری ہوتے ہی ان کے پاس نکاح کے پیغامات آنے لگے۔ انھوں نے اللہ کے رسولؐ سے مشورہ کیا۔ آپؐ نے ایک اچھے رشتے کی نشان دہی فرمادی۔ (مسلم)
اسلام کے بنیادی عقائد انسان کی بھرپور تربیت کرتے ہیں اور اسے زندگی کے کسی معاملے میں بہکنے سے بچاتے ہیں۔ ان عقائد پر ایمان سے آدمی کی زندگی سنورتی ہے اور اس میں پاکیزگی آتی ہے۔ خاص طور پر دو عقائد کا کردار اس معاملے میں بہت نمایاں ہے:
اسلام یہ تصور دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرجگہ موجود ہے اورہر انسان کو دیکھ رہا ہے۔ وہ کوئی کام چاہے علانیہ کرے یا چھپ کر، کسی کھلی جگہ کرے یا بند کمرے میں یا کسی تہہ خانے میں، کوئی بات زور سے کہے یا کسی کے ساتھ سرگوشی کرے، کسی غلط کام کا ارتکاب روے زمین پر کرے یا سمندر کی تہوں میں جاکر، کوئی لفظ زبان پر لائے یاکوئی خیال اس کے دل میں آئے یا محض آنکھوں سے اشارہ بازی کرے، اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کی خبر ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ وہ کائنات کے ذرّے ذرّے پر نظر رکھتا ہے، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے۔ اس مضمون کی چند آیات کا ترجمہ درج ذیل ہے:
اس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے۔ وہ تمھارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو۔(الحدید۵۷:۴)
خشکی اور سمندر میں جو کچھ ہے، سب سے وہ واقف ہے، درخت سے گرنے والا کوئی پتّہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو۔(الانعام۶: ۵۹)
وہی اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی، تمھارے کھلے اور چھپے سب حال جانتا ہے اور جو برائی یا بھلائی تم کماتے ہو اس سے خوب واقف ہے‘‘۔(الانعام ۶:۳)
کیا تم کو خبر نہیں ہے کہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا اللہ کو علم ہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوںمیں کوئی سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو، یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے اندر چھٹا اللہ نہ ہو۔ خفیہ بات کرنے والے خواہ اس سے کم ہوں یا زیادہ، جہاں کہیں بھی وہ ہوں، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔(المجادلہ ۵۸:۷)
’’اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور وہ راز تک جانتا ہے جو سینوں نے چھپا رکھے ہیں‘‘۔(المومن ۴۰:۱۹)
جس شخص کے دل میں اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ موجود ہونے اور ہر چیز سے باخبر رہنے کا عقیدہ راسخ ہوگا وہ اس جگہ بھی، جہاں کوئی آنکھ اسے دیکھ نہ رہی ہو، کسی برائی کے ارتکاب سے بچے گا۔ حتیٰ کہ اگر کوئی عورت تنہائی کا فائدہ اٹھا کر اسے معصیت کی دعوت دے گی تو بھی وہ اس کی دعوت کو ٹھکرا دے گا اور فوراً پکار اٹھے گا کہ مجھے اللہ کا خوف ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سات افراد عرشِ الٰہی کے سایے میں ہوں گے۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہوگا جس کو کوئی خوب صورت اور جاہ و منصب والی عورت بدکاری کے لیے بلائے، لیکن وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (بخاری، مسلم)
دوسرا اسلامی عقیدہ، جو انسان کو دنیا میں محتاط زندگی گزارنے پر آمادہ کرتا ہے، آخرت کا عقیدہ ہے۔ اس کے مطابق یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہ دنیا فنا ہوجائے گی اور دوسری دنیا برپا ہوگی۔ اس میں تمام انسان دوبارہ پیدا کیے جائیں گے اور ان سے اس دنیا میں کیے گئے ان کے تمام اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ جن لوگوں نے یہاں اچھے کام کیے ہوں گے انھیں جنت عطا کی جائے گی، جس میں طرح طرح کی نعمتیں ہوں گی اور جن لوگوں نے یہاں بُرے کام کیے ہوں گے انھیں جہنم میں جھونک دیا جائے گا، جس میں تکلیف و اذیت کا ہر سامان موجود ہوگا۔ اِس دنیا میں کیا گیا کوئی عمل خواہ اچھا ہو یا برا، وہاں نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوسکے گا۔ قرآن میں ہے:’پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا‘‘۔(الزلزال:۷-۸)
یہاں اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں، جو ان کی تمام حرکات و سکنات کو نوٹ کر رہے ہیں۔ روزِ قیامت ہر انسان کا پورا نامۂ اعمال اس کے سامنے ہوگا اور وہ دنیا میں کیے گئے کسی عمل کا انکار نہ کرسکے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’بلکہ تم لوگ جزا و سزا کو جھٹلاتے ہو، حالاں کہ تم پر نگراں مقرر ہیں، ایسے معزّز کاتب جو تمھارے ہر فعل کو جانتے ہیں‘‘۔(الانفطار۸۲:۹-۱۲)
اسلام نے ہر فرد کے اندر حیا کا جذبہ ابھارا ہے۔یہ جذبہ اسے بے حیائی کے کاموں سے روکتا ہے۔ اگر کسی کے اندر حیا نہ ہو تو وہ غلط سے غلط کام کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا:’’سابقہ زمانوں کی ایک پیغمبرانہ بات یہ ہے کہ اگر تم میں حیا نہ ہو توجو جی میں آئے کر بیٹھوگے (سخت گھناؤنے کام سے بھی نہیں ہچکچاؤگے)‘‘۔ (بخاری)
حیا کے جذبے ہی سے انسان اپنے اعضاے ستر کو دوسروں کے سامنے کھولنے سے باز رہتا ہے۔ ایک موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی سے فرمایا: اپنے اعضاے ستر اپنی بیوی کے علاوہ اور کسی کے سامنے نہ کھولو۔ انھوں نے سوال کیا: اے اللہ کے نبیؐ، اگر کوئی شخص کسی جگہ تنہا ہو اور وہاں دوسرا کوئی نہ ہو تو کیا تب بھی وہ اپنے اعضاے ستر کو چھپائے رہے؟ آپؐ نے جواب دیا: انسانوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے حیا کی جائے‘‘۔ (ابوداؤد)
اسلام نے افراد کے لیے جنسی آسودگی فراہم کرنے کے ساتھ معاشرے کی پاکیزگی قائم رکھنے کے لیے مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں۔ یہ تدابیر افراد کو جرائم کا ارتکاب کرنے سے باز رکھتی ہیں اور جنسی جرائم کے تمام ممکنہ چور دروازوں کو بند کرتی ہیں۔ یہ تدابیر درج ذیل ہیں:
اسلام نے مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم دیا ہے کہ وہ بدنگاہی سے بچیں اور آبرو کی حفاظت کریں۔ قرآن میں ہے:
اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔(النور۲۴:۳۰)
اور اے نبی، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔(النور۲۴:۱ ۳)
ان آیات میں دو باتیں (نظریں بچانا اور شرم گاہ کی حفاظت کرنا) ساتھ ساتھ کہی گئی ہیں۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ دونوں کا خاص تعلق ہے۔ اگر کوئی شخص، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اپنی نگاہوں کو قابو میں نہیں رکھے گا تو اس کے بدکاری کی کھائی میں جاگرنے کا اندیشہ رہے گا۔
ایک مرتبہ اللہ کے رسولؐ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ کو، جو آپ کے داماد بھی تھے، نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے علیؓ، اگر کسی اجنبی عورت پر تمھاری نظر پڑ جائے تو فوراً اپنی نظر پھیر لو اور دوبارہ اسے نہ دیکھو، اس لیے کہ پہلی نظر تو قابل مواخذہ نہیں، لیکن دوبارہ اسے دیکھنے کا تمھیں حق نہیں ہے‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی)
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کوئی مرد یا عورت کسی نامحرم کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے۔ اس کی بہت سخت الفاظ میں ممانعت آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:’’کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں ہرگز نہ رہے،کیوں کہ اس صورت میں ان کے ساتھ تیسرا لازماً شیطان ہوگا‘‘۔ (ترمذی)
ایک مرتبہ آپؐ نے صحابہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’جب عورتیں تنہا ہوں تو ان کے پاس ہرگز نہ جاؤ‘‘۔ اس پر ایک شخص نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول، کیا عورت کا سسرالی رشتہ دار (دیور یا جیٹھ وغیرہ) بھی نہیں جاسکتا؟ فرمایا: وہ تو موت ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
اسلام مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط پسند نہیںکرتا۔ وہ چاہتا ہے کہ مرد اور عورتیں گھل مل کر نہ رہیں،اس لیے کہ مخلوط طور پر رہنے سے ان میں صنفی جذبات ابھرنے کا امکان رہتا ہے اور یہ چیز بسا اوقات بدکاری تک پہنچا سکتی ہے۔
ایک مرتبہ اللہ کے رسولؐ نے دیکھا کہ کچھ عورتیں سڑک کے درمیان مردوں کے ساتھ گھل مل کر چل رہی ہیں۔ آپؐ نے انھیں ٹوکا اور فرمایا: ’’پیچھے ہٹ جاؤ، تمھارا راستے کے درمیان میں چلنا مناسب نہیں۔ کنارے ہوکر چلا کرو‘‘۔ (ابوداؤد)
اُم المومنین حضرت عائشہؓ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گواہی دی ہے کہ آپؐ نے کبھی کسی اجنبی عورت کو ہاتھ نہیں لگایا۔ (بخاری، مسلم)
اسلام کی ایک ہدایت یہ ہے کہ کوئی عورت اپنے شوہر یا محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ عورتیں جہاں رہتی ہیں وہاں تو وہ اپنی ضروریات کے لیے تنہا نکل سکتی ہیں، لیکن دور کی مسافت پر تنہا جانا ان کے لیے روا نہیں ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا ہے:’’کوئی عورت، جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتی ہے، اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ بغیر محرم کے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کا سفر کرے‘‘۔(بخاری، مسلم)
اسلام کی اس تعلیم پر اعتراض کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس نے عورت کی آزادی کو محدود کردیا ہے اور اسے گھر کی چار دیواری میں مقید کردیا ہے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کو گھر سے باہر نکلنے سے نہیں روکا ہے، لیکن وہ اس کی عزت و عصمت کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ اس لیے وہ چاہتا ہے کہ جب عورت دور کی مسافت کے لیے نکلے تو اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم ہو، تاکہ کوئی آوارہ اور بدچلن شخص اس کے ساتھ چھیڑ خانی کی جراء ت نہ کرسکے۔
اسلام نے حکم دیا ہے کہ کوئی عورت سج دھج کر گھر سے باہر نہ نکلے اور نہ باہر نکلتے وقت خوشبو لگائے۔ اس لیے کہ اگر وہ ایسا کرے گی تو اجنبی مردوں کی نگاہیں اس کی جانب اٹھیں گی اور ان کے صنفی جذبات مشتعل ہوں گے، اس وجہ سے اس پر دست درازی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ یہاں تک تاکید کی ہے کہ جب عورتیں گھر سے باہر نکلیں تو اپنے عام لباس کے اوپر ایک اور بڑا کپڑا (چادر وغیرہ) اوڑھ لیں، جس سے ان کا بدن خوب اچھی طرح ڈھک جائے اور ان کا کوئی عضو نمایاں نظر نہ آئے۔
قرآن میں ہے:’’اے نبی، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلّو لٹکا لیا کریں‘‘(الاحزاب ۳۳:۵۹)۔ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:’’عورت جب خوشبو لگا کر کسی ایسی جگہ سے گزرتی ہے جہاں بہت سے مرد ہوں تو وہ ایسی اور ایسی ہے، (یعنی وہ بدکار ہے)‘‘۔ (ترمذی)
اسلام کا ایک حکم یہ ہے کہ عورتیں ایسا لباس پہنیں جو ان کے پورے جسم کو (سوائے چہرہ اور ہاتھ کے) چھپانے والا ہو۔ نہ ان کا سر کھلا ہو، نہ گریبان چاک ہو اور نہ لباس اتنا شفاف ہو کہ ان کا بدن جھلکتا ہو۔ قرآن میں ہے:’’عورتیں اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں‘‘(النور۲۴:۳۱)۔ایک مرتبہ اللہ کے رسول ؐ کی زوجۂ محترمہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی بڑی بہن حضرت اسماءؓ آپؐ کے گھر آئیں۔ اس وقت وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ ان پر آپؐ کی نظر پڑی تو آپؐ نے اپنا چہرہ پھیر لیا اور فرمایا:’’اے اسماء،لڑکی جب بالغ ہوجائے تو اس کے چہرے اور ہاتھ کے علاوہ جسم کا کوئی حصہ کھلا نہیں رہنا چاہیے‘‘۔ (ابوداؤد)
ایک مرتبہ آپؐ نے بہت سخت الفاظ میں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:’’بہت سی عورتیں ایسی ہیں جو لباس پہنے ہونے کے باوجود عریاں ہوتی ہیں۔ وہ دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اوردوسروں کی طرف خود مائل ہونے والی ہوتی ہیں، ان کے سر بختی اونٹوں کے کوہان کی طرح اُٹھے ہوتے ہیں۔ وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہ پائیں گی، حالاں کہ اس کی خوشبو کافی فاصلے سے محسوس ہوگی‘‘۔ (مسلم)
ایک حدیث میں ہے کہ ’’آپؐ نے ایسے مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی)
عورتوں کو ایک خصوصی حکم یہ بھی دیا گیا ہے کہ وہ غیرمردوں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں، بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے‘‘(النور۲۴:۳۱)۔اس آیت میں صرف اس زینت کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے، جو خود بہ خود ظاہر ہوجائے، اور جس کے چھپانے پر عورت کا اختیار نہ ہو۔ ’’اس سے صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو خود اس کا اظہار اور اس کی نمایش نہیں کرنی چاہیے، البتہ جو آپ سے آپ ظاہر ہوجائے.... حکمِ حجاب میں منہ کا پردہ شامل [ہے]‘‘ (تفہیم القرآن، سوم، ص ۳۸۵-۳۸۶)۔ بعض علما کا خیال ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ (گٹے تک) ہیں کہ انھیں عورت کھلا رکھ سکتی ہے، باقی پورے بدن کو چھپانا ضروری ہے۔ علما یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر فتنے کا اندیشہ ہو تو عورت کا اپنے چہرے کو چھپانا بہتر ہے۔
درج بالا احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ اسلام نے ان چیزوں پر بھی پابندی عائد کی ہے جو بدکاری پر ابھارنے والی اور مردوں اور عورتوں میں صنفی جذبات برانگیختہ کرنے والی ہیں۔
موجودہ دور میں معاشرے میں فحاشی، بے حیائی اور عریانی پھیلانے والی بہت سی چیزیں رواج پا گئی ہیں، مثلاً گندی فلمیں، عریاں پوسٹر اور اشتہارات، بے حیائی کا پرچار کرنے والے رسائل، انٹرنیٹ پربے شمار عریاں سائٹس وغیرہ۔ معاشرے کے لیے ان چیزوں کا ضرر رساں ہونا کھلی حقیقت ہے، لیکن چوں کہ انھوں نے صنعت کی شکل اختیار کرلی ہے اور ان سے حکومت اور سربر آوردہ طبقے کو خطیر رقمیں حاصل ہوتی ہیں، اس لیے ان کی خطرناکی کو نظر انداز کرکے انھیں خوب بڑھا وا دیا جا رہا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ تمام چیزیں معاشرے کے لیے سمِّ قاتل ہیں، اس لیے ان میں سے کسی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
ان تمام تعلیمات اور ہدایات کے بعد، جو فرد اور معاشرے کی تربیت سے متعلق ہیں، آخر میں اسلامی قانون اپنا کام کرتا ہے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود معاشرے میں کچھ ایسے بدخصلت افراد ہوسکتے ہیں جو بدکاری میں ملو ّث ہوجائیں۔ ایسے لوگوں کے لیے اسلام درد ناک سزا تجویز کرتا ہے۔ وہ قانون یہ ہے:’’زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو ۱۰۰ کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو، اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز ِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ اور ان کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کا ایک گروہ موجود رہے‘‘۔(النور۲۴:۲)
اس آیت سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
اس آیت میں زنا کی سزا ۱۰۰ کوڑے بیان کی گئی ہے۔ یہ سزا غیر شادی شدہ افراد کے لیے ہے۔ احادیث اور عہد نبویؐ میں نافذ کی جانے والی سزاؤں کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ زنا کا ارتکاب کرنے والے شادی شدہ افراد کی سزا یہ ہے کہ انھیں پتھر مار مار کر ہلاک [رجم]کردیا جائے۔
غیر شادی شدہ اور شادی شدہ افراد کی سزاؤں میں فرق کی حکمت علما نے یہ بیان کی ہے کہ شادی شدہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو جنسی آسودگی حاصل ہوچکی ہے، اس کے باوجود اس نے اس گھناونے فعل کا ارتکاب کیا ہے، اس لیے وہ سخت ترین سزا کا مستحق ہے۔
اسلام نے زنا کی سزا جتنی سخت رکھی ہے، اس کے ثبوت کے لیے اتنی ہی کڑی شرائط بھی عائد کی ہیں۔ یا تو کوئی شخص اپنے ضمیر کی آواز پر اعتراف کرلے کہ اس سے یہ غلط کام سرزد ہوگیا ہے، تب اس پر یہ سزا نافذ کی جائے گی، یا چار مرد یہ گواہی دیں کہ انھوں نے اپنی کھلی آنکھوں سے کسی مرد اور عورت کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ قطعی ثبوت فراہم ہونے کے بعد ہی کسی کو یہ سزا دی جائے۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ اسلام نے ہر شخص کے ضمیر کو بیدار کیا ہے اور اس کے اندر گناہ سے بچنے اور اگر اس کا ارتکاب ہوجائے تو اس سے پاکی حاصل کرنے کا جذبہ پیدا کیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عہد ِ نبویؐ میں ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں آیا، جس میں چار مردوں نے یہ گواہی دی ہو کہ انھوں نے کسی مرد اور عورت کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھا ہے اور اس گواہی کے نتیجے میں ان پر سزا کا نفاذ ہوا ہو۔ سزاے زنا کے جو اِکّا دکّا واقعات اس دور میں پیش آئے ان سب میں زنا کرنے والوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر خود آکر اعتراف کیاتھا۔
معاشرے کو پاکیزہ رکھنے کے لیے اسلام کی یہ تعلیمات محض نظری نہیں ہیں، بلکہ ان پر عمل ہوچکا ہے اور دنیا نے ان کے اثرات کا اپنی کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ عرب کا معاشرہ فسق و فجور کے دلدل میں غرق تھا، برائی کو برائی نہیں سمجھا جاتا تھا، عصمت و عفّت کے کوئی معنیٰ نہیں تھے، شراب ان کی گھٹّی میں پڑی تھی۔ اسلام کی ان تعلیمات کے نتیجے میں ان کی زندگیاں پاکیزہ ہوگئیں، اخلاقی قدروں کو ان کے درمیان فروغ ملااور عورت کو عزت و توقیر حاصل ہوئی۔ بعد کے ادوار میں جہاں جہاں ان تعلیمات پر عمل کیا گیا اور ان احکام کو نافذ کیا گیا وہاں وہاں معاشرے پر ان کے خوش گوار اثرات مرتب ہوئے۔ آج بھی جو لوگ معاشرے میں برائیوں کو پنپتا دیکھ کر فکرمند ہیں اور آبروریزی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے اسلامی سزا کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور اسے نافذ کیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اگر وہ سنجیدہ ہیں تو انھیں پورے اسلامی نظامِ معاشرت کو قبول کرنا اور اسلام کی تمام تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا، تبھی مطلوبہ فائدے حاصل ہوسکتے ہیں، برائیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے اور معاشرے کی پاکیزگی قائم رکھی جاسکتی ہے۔
مقالہ نگار مجلہ تحقیقاتِ اسلامی، علی گڑھ کے معاون مدیر ہیں۔