.....آدمی کو باربار اپنی پوزیشن کے بارے میں دھوکا ہوتا ہے۔ وہ بار بار اس غلط فہمی کا شکار ہوتا رہا ہے کہ اس کائنات میں وہی وہ مختار ہے، اس سے اُوپر کوئی اور نہیں۔اس کی یہی وہ غلط فہمی ہے جس کا ازالہ کرنے کے لیے اور اس کی یہی وہ عظمت ہے جس کا پردہ چاک کرنے کے لیے کائنات کی اصل فرماں رواطاقت ہوائوں اور گھٹائوں، بجلیوں اور پانیوں، طوفانوں اور زلزلوں کی پولیس اور فوج کو حرکت میں لاتی رہتی ہے اور حادثات کے کوڑوں کی ضرب لگا کر تادیب کرتی ہے۔ یہی ہوا جس پر زندگی کا دارومدار ہے جب حکمِ الٰہی کے تحت بپھر جاتی ہے تو بستیوں کی بستیاں تلپٹ ہوجاتی ہیں۔ یہی گھٹائیں جن کو دعائیں کرکر کے بلایا جاتا ہے جب غضب ِ خداوندی کی بجلیاں چمکاتی اور قہر کے اولے برساتی ٹوٹ پڑتی ہیں تو نباتات اور حیوانات اور انسانوں پر قیامت گزر جاتی ہے۔ یہی دریا اور ندی نالے جن کے پانیوں سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں جب اُوپر سے اشارہ پاکر منہ میں جھاگ لائے اُمڈتے ہیں تو پانی سروں سے گزر جاتا ہے۔
مادّہ پرست غیرمعمولی طبعی حادثات کی توجیہ کرے گا تو کہے گا کہ آتش فشاں پہاڑ کی تہ میں لاوا بھرا پڑا تھا، وہ اُمڈ پڑااور بھونچال آگیا۔ مون سون ہوائوں نے پانی کی زیادہ مقدار بادلوں کی شکل میں کندھوں پر لاد کر کسی علاقے میں آ انڈیلی اور تباہی آگئی۔ پہاڑوں کی برف زیادہ مقدار میں پگھل بہی اور سیلاب آگیا۔ بارش نہ ہوئی اور قحط کی مصیبت آوارد ہوئی.... مادّہ پرستی میں گھِری ہوئی عقلِ انسانی حوادث کے پسِ پردہ کام کرنے والے عذابِ الٰہی کے قانون کو نہیں پاسکتی۔ یہ حقیقت اس کی نگاہ سے ہمیشہ اوجھل رہتی ہے کہ انسانی معاشروں کے لیے کوئی اخلاقی ضابطہ بھی ہے جو خیروشر کے تمام طبعی و معاشرتی مظاہر کے پیچھے برسرِعمل ہے۔ بھوک، بیماری، قحط، معاشی بے اطمینانی، تفرقہ ، غلامی، جنگ، زلزلے، بجلیاں، سیلاب ، طوفان،اولے اور نہ جانے کیسے کیسے مہیب عساکر اُس گورنمنٹ کے اشاروں پر حرکت کرتے ہیں جو کائنات اور عالمِ انسانی پر اپنا تسلط رکھتی ہے۔ یہ عساکر کبھی سرکشوں کی تادیب و تنبیہہ کے لیے دھاوا بولتے ہیں، کبھی باغی اور مفسد سلطنتوں اور قوموں کو قطعی طور پر ملیامیٹ کرنے کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں، اور کبھی ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک قوم میں خشیت، لینت، احساسِ عجز، دردمندی، رِقّت اور رجوع الی الحق کے جذبات کو پیدا کرکے قبولِ ہدایت کی موزوں ذہنی فضا کی تخلیق فرماتا ہے۔ (’اشارات‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۴۳، عدد۱، محرم ۱۳۷۴ھ ، اکتوبر ۱۹۵۴ء، ص۵-۶)