اکتوبر ۲۰۱۴

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | اکتوبر ۲۰۱۴ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت ابوالدرداؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی رات کے وقت اپنے بستر پر لیٹے اس حال میں کہ نیت رکھتا ہو کہ رات کو اُٹھ کر نماز پڑھے گا لیکن اس پر نیند کا غلبہ ہوگیا اور وہ نماز کے لیے نہ اُٹھ سکا۔ اس نے نماز کی جو نیت کی وہ اس کے لیے لکھ دی جاتی ہے اور نیند اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صدقہ بن جاتی ہے۔ (نسائی، ابن ماجہ)

رات کو اُٹھ کر تہجد پڑھنا بڑی فضیلت کا کام ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اسے اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دیا،فرمایا: وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ق عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo(بنی اسرائیل ۱۷:۷۹) ’’اور اے نبیؐ، رات کو اُٹھ کر تہجد پڑھیں یہ آپؐ کے لیے انعام ہے۔ اُمید ہے کہ آپؐ کا رب آپؐ  کو مقامِ محمود پر فائز کرے گا‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مقامِ محمود پر اللہ تعالیٰ فائز فرمائیں گے۔ اگر ایک اُمتی آپؐ کی پیروی میں تہجد پڑھے گا تو اسے بھی بڑا مقام ملے گا۔ اس لیے تہجد کو معمول بنانا ہمیشہ سے نیک لوگوںکی عادت رہی ہے۔ ہمیں بھی نیک لوگوں کی صف میں شامل ہونا چاہیے۔ اگر کبھی تہجد رہ گئی نیند کے غلبے یا بیماری یا تھکاوٹ کے سبب نہ اُٹھ سکے تو بھی اللہ تعالیٰ تہجد کا اجر عنایت فرما دیں گے۔ اس حدیث میں تہجد کے لیے بڑی ترغیب ہے۔ تہجدکے بعد جو دعا کی جائے اس دعا کی قبولیت کی بھی زیادہ اُمید ہے۔ اپنی پریشانیوں اور حاجات کے حل کے لیے بھی اس گھڑی کی برکات سے فائدہ اُٹھایا جائے خصوصاً وہ لوگ جو دعوت الی اللہ کا کام کر رہے ہیں اور ماحول کی ناسازگاری سے انھیں طرح طرح کی مشکلات اور مصائب درپیش ہوتے ہیں۔ قیدوبند کی آزمایش سے بھی دوچار ہو جاتے ہیں۔ ان کے لیے تہجد کی گھڑی سنہری موقع ہے۔ وہ اپنے رب سے، جس کے ہاتھ میں کائنات کی باگ ڈور ہے اور وہ    اپنی مخلوق کے بارے میں فیصلے فرماتا ہے، اس گھڑی میں رجوع کریں۔ اُس سے لَو لگائیں جس نے فیصلہ فرمانا ہے، اس سے اپنے حق میں فیصلہ کرانے کے لیے آہ و زاری کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ   علیہ وسلم نے فرمایا: رب تبارک و تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمانِ دنیا پر اُترتے ہیں اور فرماتے ہیں: کون ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا کو قبول کروں گا۔ کون ہے جو مجھ سے بخشش مانگے کہ میں اس کی مغفرت کروں۔

٭

حضرت ابی کبشہ اعاریؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس اُمت کا حال چار آدمیوں کے حال کی طرح ہے۔ ایک وہ آدمی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے علم بھی دیا ہے اور مال بھی دیا ہے۔ وہ اپنے مال میں اپنے علم کے مطابق تصرف کرتا ہے۔ دوسرا وہ آدمی ہے جسے   اللہ تعالیٰ نے علم تو دیا ہے لیکن مال نہیں دیا ۔ وہ یہ جذبہ رکھتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے مال دیا ہوتا تو وہ بھی اسی بھائی کی طرح اپنے مال میں تصرف کرتا۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: یہ دونوں آدمی اجر میں برابر ہیں۔ تیسرا وہ شخص ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے علم نہیں دیا لیکن مال دیا ہے۔ وہ اپنے مال میں ناجائز تصرف کرتا ہے۔ اور چوتھا آدمی وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے علم بھی نہیں دیا اور مال بھی نہیں دیا۔      وہ یہ جذبہ رکھتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی اس آدمی کی طرح اس مال کو اڑاتا۔    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں آدمی گناہ میں برابر ہیں۔ (ترمذی، احمد، ابن ماجہ )

مال اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، اسے جائز طریقے سے کمانا اور جائز کاموں میں صرف کرنا چاہیے۔ ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ مال دے دے تو وہ اسے صرف دنیا بنانے کے لیے استعمال نہ کرے بلکہ اس کے ذریعے اپنی آخرت بھی سنوارے۔ ایسا آدمی خوش قسمت ہے۔ اسی طرح وہ آدمی بھی خوش قسمت ہے جسے مال تو نہیں ملا لیکن اس کی نیت، عزم اور جذبہ یہ ہے کہ اسے مال ملتا تو وہ بھی اسے جائز کاموں میں صرف کر کے آخرت میں بلند مرتبہ حاصل کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ شخص بھی اجرعظیم کا مستحق ہے۔ یہ بھی نیت اور جذبے سے اپنی آخرت بنارہا ہے۔ لیکن جو مال ناجائز کاموں میں خرچ کرتاہے وہ گنہ گار ہے، اور اسی کی طرح ناجائز کاموں میں مال صرف کرنے کا جذبہ رکھنے والا بھی گنہ گار ہے۔ فقرااور مساکین کے لیے اللہ تعالیٰ کا کتنا کرم ہے کہ وہ انھیں ان کے اچھے اور پاک جذبات کی بناپر نیک کاموں میں مال صرف کرنے والے امرا کے برابر ثواب عطا فرماتے ہیں۔ مال کمانے میں ناکامی کے باوجود آخرت کا اجر کمانے سے محروم نہیں ہیں۔ آج بے شمار لوگ ایسے ہیں جو فقیر اور مسکین ہونے کے باوجود اپنی آخرت بنا سکتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ نبی ؐ کے اس ارشاد کی روشنی میں اپنے دل و دماغ میں نیک جذبات کو پروان چڑھا کر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنا دامن بھر لیں۔

٭

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رزقِ حلال کھایا اور سنت پر عمل کیا اور لوگ اس کی طرف سے آفتوں سے محفوظ رہے وہ جنت میں داخل ہوگا۔(مستدرک حاکم)

تین باتوں پر مشتمل جامع نسخہ ہے۔ سارے دین کا خلاصہ بھی ہے۔ جب لوگ دوسرے کے مال پر حملہ آور ہوتے ہیں تو تصادم ہوتا ہے۔ آج افراد اور حکومتیں اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ اس بیماری کا علاج یہی ہے کہ ہر آدمی اپنے مال پر قناعت کرے اور دوسرے کے مال پر دست درازی نہ کرے۔ اس طرح جن چیزوں کے استعمال کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دے دیا ہے ان سے بچے، مثلاً شراب، جوا، رشوت اورسود وغیرہ۔ حرام ذرائع بھی انسانوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ پھر دوسری چیز یہ ہے کہ انسان کی عملی زندگی سیدھے راستے پر ہو اور اس کا کوئی عمل بھی راہِ راست سے ہٹا ہوا نہ ہو۔ اس کے لیے سنت ِ رسولؐ کا نسخۂ کیمیا موجود ہے، اور تیسرا یہ کہ لوگوں کو نقصان پہنچانے ، حقوق العبادکو تلف کرنے سے احتراز کیا جائے۔ انسانوں کا تمسخر اُڑانا، انھیںبُرے ناموں سے پکارنا، ان کی غیبت کرنا، ان پر بہتان لگانا، ان پر بے جا بدگمانی کرنا، فتنہ و فساد کا ذریعہ ہے۔ ان بُرائیوں کا انسداد ہو، آدمی ان میں ملوث نہ ہو تو پھر دخولِ جنت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔

٭

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھے آدمی ایسے ہیں کہ میں نے ان پر لعنت کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر لعنت کی ہے اور ہر نبی کی دعا قبول کی جاتی ہے۔ پہلاآدمی وہ ہے جو اللہ کی کتاب میں اضافہ کرتا ہے۔ دوسرا وہ جو اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی تقدیر کو جھٹلاتا ہے۔ تیسرا وہ جومیری اُمت پر جبر سے مسلط ہوتا ہے، تاکہ ان کو ذلیل کرے جن کو اللہ تعالیٰ نے عزت دی ہے اور ان کو عزت دے جن کو اللہ تعالیٰ نے ذلیل کیا ہے۔چوتھا آدمی وہ ہے جو   اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرے، اور پانچواں وہ جو میری عترت (میری آل اور میرے پیروکاروں) کی عزت کو پامال کرے، اور چھٹا وہ جو سنت کا تارک ہو۔ (طبرانی)

اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اضافے اور کمی کی ناپاک کوششیں دشمنانِ اسلام نے ہر دور میں کی ہیں ، حتیٰ کہ آج کے دور میں قرآنِ پاک کا ایک نسخہ بھی شائع کیا، جس میں سے بہت سی سورتیں خارج کی گئیں لیکن یہ دشمنانِ اسلام اللہ اور اس کے رسولؐ کی لعنت کے مستحق ہوکر ناکام و نامراد ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے۔ فرمایا: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ o (الحجر ۱۵:۹)’’ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔ چنانچہ اس میں آج تک زیروزَبر اور نقطے کا بھی فرق نہیں ہے۔ جہاں تک تقدیر کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے کائنات کو ایک نقشے کے مطابق بنایا ہے۔ اپنے آغاز سے لے کر انتہا تک ہر چیز طے شدہ ہے۔ اس نقشے میں یہ بھی طے شدہ ہے کہ انسان اپنے ارادے اور اختیار کا مالک ہے اور اپنی مرضی سے نیکی اوربدی کرے گا۔ چنانچہ انسان اپنی مرضی سے اسلام بھی لارہے ہیں اور کفر بھی کر رہے ہیں اور اپنے لیے جنت اور دوزخ خرید رہے ہیں۔ جابر حکمران ہر دور میں رہے ہیں اور آج بھی ہیں اور جبروظلم کرکے، نیک لوگوں کو ستاکر، اور بُرے لوگوں کو نواز کر اللہ تعالیٰ کی لعنت کو اپنے اُوپر مسلط کر رہے ہیں۔ نیز  اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے والے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آل و اصحاب اور پیروکاروں کو ذلیل کرنے والے اور سنت رسولؐکے تارک بھی بڑے پیمانے پر سرگرمِ عمل ہیں۔ یہ سب لعنت کے مستحق ہیں اور اس وجہ سے اپنے تمام وسائل و ذرائع کے باوجود اُمت مسلمہ کو مٹانے اور اس کے مستقبل کو تاریک کرنے میں ناکام ہیں۔ اُمت مسلمہ میں اللہ تعالیٰ کے دین کے علَم بردار، مشکلات کے باوجود میدانِ عمل میں موجود ہیں اور کامیابی سے لادینیت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

٭

حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کے بارے میں اللہ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں، اسے دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں۔(بخاری)

دین کی سمجھ کی علامت یہ ہے کہ آدمی نیک ہو اور نیک لوگوں کا ساتھی ہو۔ بُرائی سے اجتناب کرے اور بُروں کا ساتھ نہ دے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ نئی نسل کو یہ بات بچپن ہی سے سمجھا دی جائے اور ان کے ذہن میں اسے راسخ کردیا جائے تاکہ وہ دین کے قدردان بن کراپنی دنیا و آخرت کا بہترین سامان کرسکیں۔ نیز اچھی صحبت اپنائیں اور بُرے لوگوں اور بُری صحبت سے اجتناب کریں۔