تین سال قبل لیبیا میں شروع ہونے والے انتفاضہ کے نتیجے میں قذافی حکومت کا خاتمہ ہوا اور دیگر عرب ممالک کی طرح یہاں بھی عبوری حکومت قائم ہوئی جس نے پُرامن انتقالِ اقتدار کا وعدہ پورا کیا، مگر بدقسمتی سے نئی حکومت کے قیام سے لے کر اب تک لیبیا میں انتشار و انارکی اور ہلاکت و تباہی کا دور دورہ ہے۔ اب تو صورت حال سنگین تر ہوگئی ہے۔ داخلی جنگ نے ملک کو تخریب سے دوچار کر رکھا ہے۔ کئی ناموں سے تنظیمیں موجود ہیں جو مسلح کارروائیوں میں شریک ہیں۔ قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ عبوری حکومت بھی اور منتخب حکومت بھی دونوں ملک کو اس صورت حال سے باہر نکالنے میں ناکام رہی ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ حکومت اور حکمرانی نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ مسلح کارکن اور جماعتیں سمجھتی ہیں کہ انقلاب برپا کرنے والے صرف ہم ہیں۔ قذافی حکومت کا خاتمہ ہمارا کارنامہ ہے۔ لہٰذا اُس کی جگہ حکمرانی کا حق ہم ہی رکھتے ہیں۔ بہت سی مسلح تنظیموں کے قائدین ہتھیار چھوڑنے کے قائل نہیں ہیں۔ اسلحہ اُٹھانا اور اسے استعمال میں لانااُن کی عادت اور مزاج بن گیا ہے جس نے ملک کو ہلاکت و تباہی میں ڈال رکھا ہے۔
انقلاب کے ایک سال بعد ۲۰۱۲ء کے انتخابات کے نتیجے میں علی زیدان محمد نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی۔ ستمبر ۲۰۱۲ء سے لے کر مارچ ۲۰۱۴ء تک علی زیدان اس منصب پر متمکن رہے مگر اس دوران وہ کوئی بھی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کرپائے۔ ان کے انتخاب کے موقعے پر ہی عالمی ذرائع ابلاغ کے تبصروں میں یہ بات موجود تھی کہ وہ ایک کمزور وزیراعظم ہوں گے۔ واقعتا ان کا دورِحکومت اس بات کا شاہد رہا۔ مارچ ۲۰۱۴ء میں تو ان کے اغوا کا حادثہ بھی سامنے آیا اور پھر وہ حکومت سے دستبردار ہوگئے۔ ان کے بعد عبداللہ الثنی نے وزارتِ عظمیٰ کا قلم دان سنبھالا۔ یہی انتخابات کا بھی زمانہ تھا۔ نئی حکومت کی تشکیل کے لیے انتخابات ہوئے مگر ان کو انتخابات کہنا بھی مذاق ہے۔ پانچ چھے فی صد کی شرح جن انتخابات میں رہی ہو اُس کے نتیجے میں کیسی حکومت تشکیل پائے گی اور اس کی قانونی حیثیت کیا ہوگی۔ خود اس حکومت کی طاقت اور اختیار کا عالم کیا ہوگا، اس کا اندازہ مشکل نہیں۔ بہرحال ان انتخابات میں عوام کی لاتعلقی اور عدم دل چسپی کااظہار بہت واضح رہا ، حتیٰ کہ نومنتخب ارکانِ اسمبلی کو بھی اسمبلی کے اجلاس اور تشکیل حکومت کے عمل سے خاص دل چسپی دکھائی نہیں دی۔ ۲۰۰کے ایوان میں ۹۳،۹۴ ممبران اسمبلی تشکیل حکومت کے لیے منعقدہ اجلاس میں شریک ہوئے۔ وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار احمد معیتیق کو حاضر افراد میں سے ۸۳ کا ووٹ ملا۔ احمد معیتیق ارکانِ اسمبلی میں سب سے کم عمر ممبر تھے۔ ان کی کابینہ کی تشکیل کے چند ہی گھنٹے بعد ان کے گھر کا بھی محاصرہ کرلیا گیا اور فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص مارا گیا اور کچھ زخمی ہوئے۔ معیتیق محفوظ رہے۔ ادھر عبوری وزیراعظم عبداللہ الثنی نے چارج دینے سے انکار کر دیا اور دونوں افراد کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوگئی۔ معیتیق نوعمر اور نوتجربہ کار ہونے کے باعث انتہائی کمزور وزیراعظم تھے۔ غالباً فوج نے بھی عبداللہ الثنی کی حمایت کی جس کی بناپر وہ وزارتِ عظمیٰ چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بالآخر عدالت ِ عظمیٰ کو مداخلت کرنا پڑی اور عدالت نے عبداللہ الثنی کو برقرار رکھتے ہوئے ایک مصالحتی کونسل کی تشکیل کا اعلان کیا جس کا مقصد حالات کو درست کرنا تھا۔ ستمبر میں عبداللہ الثنی کو بھی کابینہ کی تشکیل کا ہدف دیا گیا تو اس کے لیے پارلیمان کا اجلاس ہوا مگر وزارتوں پر ارکانِ اسمبلی کے اختلافات کے باعث اجلاس برخاست کردیا گیا۔ ارکانِ اسمبلی کا مطالبہ تھا کہ بحرانی حالات کے پیش نظر کابینہ کو مختصر سے مختصر رکھا جائے مگر وزیراعظم کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔
۲۲ستمبر کی شام کو طبرق شہر میں ہونے والے اجلاس میں عبداللہ الثنی کی حکومت کو اعتماد کا ووٹ مل گیا ۔ نوتشکیل شدہ حکومت کو اجلاس میں حاضر ۱۱۲؍ارکانِ اسمبلی میں سے ۱۱۰ نے ووٹ دیا۔ وزارتِ دفاع سمیت ۱۰ وزرا پر مشتمل کابینہ وجود میں آئی۔ وزارتِ دفاع کا قلم دان وزیراعظم الثنی نے اپنے پاس رکھا ہے اور تین ارکان بھی وزیراعظم کے مشیران کی حیثیت سے اُن کے ساتھ ہوں گے۔ وزیرخارجہ محمد الدایری ہیں اور وزارتِ داخلہ عمر السکنی کے حوالے کی گئی ہے۔
دوسری طرف المؤتمر الوطن (عبوری کونسل) نے بھی عمرالحاسی کی صدارت میں ’نگران حکومت‘ تشکیل دے رکھی ہے۔ الثنی اور الحاشی کے درمیان اس وقت نزاع موجود ہے۔ عبوری کونسل کے اجلاس طرابلس میں اور منتخب اسمبلی کے طبرق میں ہو رہے ہیں۔ الثنی کے طرف داروں کا کہنا ہے کہ عبوری کونسل اپنی میعاد پوری کرچکی ہے، جب کہ عبوری کونسل کا بیان ہے کہ نومنتخب ارکان کی اسمبلی نے جون میں اجلاس منعقد کر کے دستوری اعلان کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس بناپر انتقالِ اقتدار کا عمل اس اعلان کے مطابق انجام نہیں پاسکتا۔ عدالت نے اس دستوری نزاع پر اکتوبر کے شروع میں فیصلہ دینے کا کہا ہے۔
قذافی حکومت کے خاتمے (۲۰۱۱ء) سے لے کر اب تک لیبیا سیاسی اعتبار سے دو گروپوں میں تقسیم ہے، اور نیا ایوان بھی اسی چیز کی نمایندگی کرتا ہے جو جون کے انتخابات کے بعد بنا۔ الثنی کی حکومت لبرل گروپ کی نمایندہ ہے، جب کہ دوسرا گروپ اسلام پسندوں پر مشتمل ہے۔ انقلاب کے بعد سے اب تک عبوری اور منتخب حکومت میں سے کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوسکا کہ وہ عملاً حکومت کرسکیں۔ زیدان حکومت کی بے بسی کے بعد اب عبداللہ الثنی کی بے چارگی کا عالم یہ ہے کہ دارالحکومت طرابلس میں اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوسکا۔ اُنھیں یہ اجلاس طبرق شہر میں بلانا پڑا۔ نومنتخب حکومت پر لبرل افراد کا غلبہ ہے اور دارالحکومت اسلام پسندوں کے قبضے میں ہے۔ایوانِ حکومت طرابلس پر صدرمملکت عمرالحاسی اور اس کے حامیوں کا تسلط ہے۔
۲۰۱۱ء میں قذافی حکومت کے خاتمے پر قائم ہونے والی عبوری حکومت اور پھر منتخب حکومتوں میں سے ہر حکومت اس قدر کمزور رہی کہ نہ ایوانِ حکومت مسلح تنظیموں کے حملوں سے محفوظ رہا نہ وزیراعظم کو تحفظ حاصل رہا۔ دومنتخب وزیراعظم علی زیدان اور احمد معیتیق کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ، ان حکومتوں کی طاقت اور اختیار کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اسلحہ ملک کے اندر جس قدر عام ہوچکا ہے اور مسلح تنظیمیں جس بڑی تعداد میں تشکیل پاچکی ہیں، اُن کی موجودگی میں ایسی کمزور حکومتوں اور نام نہاد انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں۔ ملک کے اہم اور مرکزی ہوائی اڈے ان مسلح تنظیموں کے قبضے میں ہیں۔ دارالحکومت طرابلس پر ان کا تسلط ہے۔ اس وقت تین بڑے گروہ باہمی اور داخلی جنگ میں مصروف ہیں اور چوتھا مناسب وقت کے انتظار میں ہے۔ ان میں اسلام پسندوں کا گروہ ۲۰ سے زائد مسلح دستوں اور ملیشیائوں پر مشتمل ہے۔ ملکی اور غیرملکی تنظیمات کے قائدین ان گروپوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ القاعدہ اور اخوان پر ان کی قیادت کا الزام ہے۔ دارالحکومت کے مشرق میں واقع مصراتہ شہر ان کی قوت کا مرکز ہے۔ دارالحکومت پر بھی ان کا گہرا رسوخ قائم ہے۔ یہ اسلامی گروپ سابق بَری فوج کے سربراہ خلیفہ حفتر کی افواج سے بھی جنگ آزما ہیں۔ اسلام پسندوں کا یہ اتحاد طرابلس میں ’دروع‘ کے نام سے اور بن غازی و درنہ شہروں میں ’انصارالشریعہ‘ کے ناموں سے مسلح سرگرمیوں میں مصروف ہے۔
دوسرا اتحاد لبرل طاقتوں کا ہے۔ اس گروپ کا حکومت سے بھی رابطہ ہے اور یہ قعقاع اور الصواعق دستوں کے ناموں سے دارالحکومت طرابلس کے جنوب مغرب میں واقع شہر زنتان میں مصروف ہے۔ النصر دستہ بھی اسی اتحاد کا حصہ ہے۔
تیسرا مجموعہ ’الجیش الوطنی‘ ہے جس کی قیادت جنرل حفترکر رہا ہے۔ اس کا مرکز بن غازی کا جنوب مشرق ہے۔ یہ فضائیہ سے بھی کام لیتا ہے اور زمینی حملوں سے بھی ’متشدد اسلام پسندوں‘ کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہے۔ اس گروپ کا ظہور اسی سال عین اس وقت ہوا جب مصری افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے مصر کی منتخب حکومت کو ختم کرنے کے ٹھیک ایک سال بعد نام نہاد صدارتی انتخابات کا ڈراما رچایا۔لیبیا کے سیاسی منظرنامے پر اچانک لیبیا کا سابق فوجی سربراہ خلیفہ حفتر نمودار ہوا اور اس نے اعلان کیا کہ ہم لیبیا کو متشدد اسلام پسند قوتوں اور اخوان المسلمون سے پاک کردیں گے۔حفترنے ملکی افواج کے ہزاروں سپاہیوں اور افسروں کو یک جا کیا اور رضاکاروں کو بھی ساتھ ملا لیا لیکن وہ اپنے مزعومہ مقاصد میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکا اور کامیاب ہونا ممکن بھی نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ سارا ڈراما مصری جنرل سیسی کو سہارا دینے کے لیے رچایا گیا تھا۔
چوتھا گروپ قبائلی طاقتوں کا ہے۔ یہ ورفلہ اور مقارحہ وغیرہ قبائل پر مشتمل ہے۔ یہ نہ اسلامی طاقتوں کے ہم نوا ہے اور نہ حکومت کے حمایتی۔ یہ آغاز ہی سے غیر جانب دار چلے آرہے ہیں۔ البتہ وہ اپنے خلاف ہونے والی مسلح کارروائیوں سے بہت نقصان اُٹھا چکے ہیں۔ دراصل یہ قبائل قذافی حکومت نواز تھے۔
اس وقت مسلح جدوجہد اور کارروائیوں میں مصروف اثرانگیز طاقتیں دروع، الصواعق و القعقاع، انصارالشریعۃ، دستہ ۱۷فروری، دستہ راف اللہ سحاتی، الجیش الوطنی اور قبائلی ملیشیا ہیں۔ الجزیرہ اور العرب کے تجزیہ نگار یاسرالزعاترہ کے مطابق لیبیا ایسا ملک ہے جہاں ہتھیار ڈالنے کی روایت کم ہے بلکہ ایسی جماعتیں موجود ہیں جو آسانی سے اپنے سر کسی جلاد کو پیش نہیں کرسکتیں۔ وہ آخری سانس تک لڑیں گے۔ رہی بات انتشار اور تشدد کی تو اس کا سب اقرار کرتے ہیں۔ لیکن مسلح کارروائیوں کے بعد متوقع کیفیت یہی ہونا تھی کہ تیل کی دولت سے مالا مال ملک کے بڑے قبائل اور خاندان خلیفہ حفتر کے ہم نوا بن جائیں اور وہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کریں جو وہ بیلٹ بکس کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتے۔ مختصر یہ کہ کسی بھی طاقت کو منظر سے ہٹاکر جمہوریت کا عمل جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ ملکی قوتوں کے مقابلے میں امریکا سے آنے والے خلیفہ حفتر کے پیش نظر کوئی بڑی سیاسی قوت تشکیل دینا نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ بیرونی منصوبے ہیں جن کی تشکیل اور تکمیل کا فریضہ حفتر جیسے لوگ انجام دیتے ہیں۔ بیرونی قوتوں نے عرب بہار کو سبوتاژ کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر صرف اس لیے خرچ کیے ہیں کہ یہ انقلاب کی چنگاری ان تک نہ پہنچ جائے۔
خلیفہ حفتر نے اعلان کیا تھا کہ لیبیا کو اسلام پسندوں خصوصاً اخوان المسلمون سے پاک کردیںگے۔ اس پر اخوان المسلمون لیبیا کے مراقب عام بشیرالکبتی نے کہا کہ ہم لیبیا قوم کا حصہ ہیں اور حفتر ایسی جماعت کے بارے میں بات کر رہے ہیں خود جس کے اپنے اُوپر تشدد اور دہشت گردی روا رکھی گئی۔ اخوان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایسی کارروائیوں میں ملوث ہو۔ لیبیا کے بحران کا حل ہمارے نزدیک تمام قوتوں کا مذاکرات اور مکالمے کی میز پر بیٹھنے میں مضمر ہے۔ جس قدر جلدی ہوسکے مذاکرات کا عمل شروع ہو۔ عبداللہ الثنی کی حکومت نے بھی اپنے ایک بیان میں یہی مطالبہ کیا کہ تمام قوتیں گفتگو کی میز پر آجائیں اور سیاسی مسائل کو اسلحے کی زبان سے حل کرنا چھوڑدیں۔ قانون اور عدالت کی طرف رجوع کریں۔
اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور ۱۳ممالک نے ۲۲ستمبر کو ایک اجلاس میں مطالبہ کیا کہ لیبیا کے اندر قتل و خونریزی کا سلسلہ بند کیا جائے اور کسی بھی غیرملکی مداخلت کی کوشش نہ کی جائے۔ اجلاس میں شریک ۱۳ممالک میں الجزائر، مصر، قطر، سعودی عرب،تیونس، امارات، ترکی، فرانس، جرمنی، اٹلی، ہسپانیہ، برطانیہ اور امریکا ہیں۔اجلاس کے اختتام پر جاری کیے گئے اعلامیے میں تمام جماعتوں اور طاقتوں کو تعمیری فکر کے ساتھ پُرامن سیاسی مذاکرات میں شرکت کے لیے کہا گیا۔ کسی بھی ایسے عمل سے باز رہنے کی تاکید کی گئی جس سے خطرے کی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔ عالمی اور علاقائی سطح پر مسئلے کے حل کے لیے کاوشوں کو سراہا گیا۔ الجزائر ملک کے اندر جاری نزاع کے دونوں فریقوں کو گفتگو کی ضرورت پر زور دے گا اور اقوام متحدہ کا مشن ابتدائی بات چیت کو ستمبر کے آخر تک ممکن بنانے کی کوشش کرے گا۔
لیبیا کی اندرونی صورتِ حال کو معمول پر لانے کی غرض سے لیبیا میں موجود اقوامِ متحدہ کے مشن نے اپنی ویب سائٹ پر ۲۹ستمبر کو ہونے والے مذاکرات کے بارے میں کہا: ان مذاکرات کی بنیاد ان اُمور پر ہوگی کہ منتخب اداروں کی قانونی حیثیت کو مانا جائے، دستوری اعلان کا احترام کیا جائے، انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کا لحاظ رکھا جائے اور دہشت گردی کو پوری قوت سے رد کیا جائے۔ نومنتخب اسمبلی حکومت سے متعلقہ اُمور پر اتفاق راے پیدا کرے، اہم اُمور پر کوئی فیصلہ کرنے کے لیے اسمبلی ارکان کی دوتہائی اکثریت کی راے لی جائے۔ عبوری کونسل اور منتخب اسمبلی کے درمیان انتقالِ اقتدار کے عمل کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے تاریخ، مقام اور اقتدار کے انتقال کا طریق کار طے کیا جائے۔
اقوام متحدہ نے اہلِ لیبیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی اگست میں پاس کی گئی قرارداد پر عمل کو یقینی بنائیں اور فوری اور مستقل جنگ بندی پر عمل کریں۔ اس بیان میں مسلح جماعتوں کے بڑے شہروں اور ہوائی اڈوں اور عام کارخانوں وغیرہ سے انخلا کا لائحہ عمل بھی طے کیا جائے گا۔ خدمت ِ انسانیت کی کاوشوں کا آغاز ممکن بنایا جائے گا۔کاش! اقوامِ متحدہ کے اس خیرخواہانہ بیان پر عمل ہوجائے اور لیبیا کے طول و عرض میں پھیلی مایوسی بدامنی اور خوف و ہراس کے سایے چھٹ جائیں۔
الشرق الاوسط کے مطابق لیبیا میں شروع ہونے والے انتفاضے کو پونے تین سال ہونے کو ہیں۔ اس انتفاضے کو نتیجہ خیز بنانے میں ’ناٹو‘ کا کردار کلیدی رہا۔ اگر یہ نہ ہوتا تو مظاہرین کے لیے قذافی حکومت کا خاتمہ ممکن نہ ہوسکتا۔ لیکن ناٹو نے اس وقت اس عمل میں حصہ کیوں لیا؟ اس لیے کہ یہ آگ پورے خطے میں نہ پھیل جائے، مگر اب ناٹو خاموش تماشائی ہے۔ پہلے کی طرح اب بھی ضروری ہے کہ ناٹو ملک کے اندر امن و امان اور مستحکم حکومت کے قیام میں اپنا کردار ادا کرے۔