اکتوبر ۲۰۱۴

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| اکتوبر ۲۰۱۴ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

حافظ محمد ارشد ، لاہور

عالمی ترجمان القرآن دینی، تحریکی، تربیتی اور عالمی و ملّی اُمور و مسائل پر بہترین آگاہی فراہم کرتا ہے۔ ستمبر ۲۰۱۴ء کا ترجمان اس ضرورت کو بہ احسن پوری کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ’اشارات‘ میں ڈاکٹر انیس احمد نے روداری اور برداشت کے تحت اہم اُمور کی طرف توجہ دلائی ہے جو موجودہ سیاسی بحران کے تناظر میں قابلِ غور ہیں۔ ’فہم قرآن‘ کے تحت ’اہلِ خانہ کے ساتھ جنت میں! ‘ایک ایسے موضوع پر قلم اُٹھایا گیا ہے جس کی طرف توجہ  کم جاتی ہے۔ تزکیہ و تربیت میں ’حج کا پیغام‘ خرم مرادؒ کی تحریر شاید کسی خاص روحانی کیفیت کا ثمر ہے کہ حج کے پیغام کے جملہ اُمورکو تربیتی رنگ میں ایسے بیان کیا ہے کہ پڑھنے والا اثر لیے بغیر نہیں رہتا۔ اسے ستمبر کے ترجمان کا حاصل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ’آزمایشیں‘ استقامت و عزیمت کے تصور کو نکھارتی اور تحریکی و دینی زندگی کو توانائی فراہم کرتی ہے۔ زندگی نو، دہلی کے مدیر ڈاکٹر محمد رفعت کی تحریر نے اسلامی تحریک کی جدوجہد اور درپیش چیلنج کا جس خوبی اور جامعیت کے ساتھ تجزیہ کیا اور رہنمائی فراہم کی ہے، تحریک کے ہر کارکن اور قیادت کو اس کا مطالعہ ضرور کرناچاہیے۔ بنگلہ دیش میں ظلم کی سیاہ رات بظاہر طویل ہوتی جارہی ہے۔ سلیم منصور خالد وقتاً فوقتاً آگاہی دیتے رہتے ہیں۔ اس پر جامع تجزیے کی ضرورت ہے۔


احمد علی محمودی ،حاصل پور

’’رواداری، برداشت اور معاشرتی اصلاح‘‘ (ستمبر ۲۰۱۴ء) میں اصلاحِ معاشرہ کے حوالے سے اہم نکات زیربحث آئے ہیں۔ باہمی تعلقات، اصلاحِ نفس و اصلاحِ معاشرہ کے حوالے سے یہ تحریر ایک آئینہ ہے۔ معاشرتی خرابیوں کا آغاز ایک فرد کی خرابی سے ہوتا ہے۔ اگر فرد کی اصلاح پر عدم توجہی برتی جائے تو یہ مرض   بتدریج معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، جس کے نتیجے میں پورا معاشرہ انتشار و بدامنی کا شکار ہوجاتا ہے۔اصلاحِ احوال کے لیے قرآن وسنت کی تعلیمات کو اپنانے، عام کرنے اور نظامِ عدل کے قیام کی ضرورت ہے۔


بینا حسین خالدی ،صادق آباد

سمیہ رمضان کی تحریر ’’قرآن پر عمل__ ایک منفرد تجربہ‘‘ (اگست ۲۰۱۴ء) بے حد پسند آئی۔ اس لادینی دور میں، جب کہ اسلام کے بارے میں پاکستان میں بعض حلقے یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ دین اسلام معاملات و مسائل کا عملی حل پیش نہیں کرتا، یاہم مسائل کا عملی حل دین میں ڈھونڈنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ایسی تحریروں کی اشد ضرورت ہے۔