ہم بنگلہ دیش کی معاشی خوش حالی، قومی آزادی اور سیاسی خودمختاری کے حامی ہیں اور دعاگو ہیں۔ لیکن عوامی لیگ کی غیرقانونی اور غیرنمایندہ حکومت کے تحت بنگلہ دیش میں آج کل بخار کی سی جو کیفیت پائی جاتی ہے جس میں یہ آوازیں بلند ہورہی ہیں: ’’یہ پاکستان کا ایجنٹ ہے۔ اس کی کتاب جھوٹ کا پلندہ ہے۔ اس نے ایجنسیوں سے پیسے لے کر کتاب لکھی ہے۔ ملکی آزادی اور اقتدارِ اعلیٰ کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ تاریخ کی حفاظت کے لیے اس پر پابندی لگائی اور شائع شدہ کتاب کو ضبط کرلیا جائے۔ مصنف پر غداری کا مقدمہ چلایا اور سخت سزا دی جائے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ واویلا ہے بنگلہ دیش کے ایئروائس مارشل (سابق) عبدالکریم خوندکر کی کتاب بیٹوری بیرے: ۱۹۷۱ء [۱۹۷۱ء، اندر اور باہر کی کہانی] میں شائع ہونے والے ایک جملے کے خلاف۔
ذرا آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ اصولی طور پر چند پہلو سامنے رکھ لیے جائیں اور تاریخ کے دوچار ورق بھی پلٹ لیے جائیں۔ جھوٹ تو ویسے بھی ایک ایسی لعنت ہے کہ جسے شرک کا دستاویزی ثبوت سمجھنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو لسانی، علاقائی یانسلی قوم پرستی کا سب سے بڑا ہتھیار بھی یہی جھوٹ ہوتا ہے۔ نفرت کی آگ بھڑکانے کے لیے اعداد و شمار کا جھوٹ، معاملات فہمی کی جڑ کاٹنے کے لیے جھوٹ کی کاری ضرب اور پروپیگنڈا کا الائو بھڑکانے کے لیے جھوٹ کے پٹرول کا مسلسل چھڑکائو۔ گویا کہ اس طرح نفرت کے دیو کو بے قابو کرکے دین، اخلاق،کردار، انسانیت اور شائستگی کے قتلِ عام کا گھنائونا کھیل کھیلنا نسلی قوم پرستی کا وتیرا ہے۔ بنگلہ دیش کی تشکیل اور پاکستان کی تخریب کا یہ کھیل ہماری آنکھوں کے سامنے کھیلا گیا۔ اس پس منظر میں جزوی معاملات کو جھوٹ کے رنگ میں یوں رنگا گیا کہ ہنستی بستی زندگی خون آلود ہوگئی۔ معمولی درجے کی پھنسیاں جھوٹ کے بل بوتے پرسرطان کے رستے ناسور دکھائی دینے لگے۔ معاشی اعداد و شمار کو مبالغہ آرائی کے لباس میں یوں بناسنوار کر پیش کیا جاتا رہا کہ حقائق کے ٹیلے، ہمالہ کی چوٹیاں دکھائی دینے لگیں۔ بلاشبہہ جہاں انسان بستے ہیں، معاملات میںا فراط و تفریط ہوتی ہے، جنھیں احسن طریقے سے حل کیا جاتا ہے اور حل کیا جانا چاہیے۔ مگر ایسا شاید ہی ہوا ہو کہ اس بدمستی میں اپنوں کو دشمن اور دشمنوں کو اپنا سمجھ لیا گیا ہو۔ مگربنگلہ دیش کی تشکیل کے وقت ایسا ہی ہوا تھا۔ یوں جھوٹ کی بنیاد پر شروع کیا جانے والا سفر ۴۳برس گزرنے کے بعد بھی جھوٹ کا سہارا مانگتا ہے اور سچائی کو قتل کرنے کے لیے متحرک رہتا ہے۔
۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو بنگلہ دیش بننے سے چار سال قبل کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنوری ۱۹۶۸ء میں مشرقی بھارت کے صوبے ’تری پورہ‘ کے شہر ’اگرتلہ‘ میں، خفیہ طور پر عوامی لیگ کی قیادت اور بھارتی انٹیلی جنس بیورو نے مل کر ایک سازش تیار کی۔ عوامی لیگ کے نمایندے شیخ مجیب کے ایما پر یہاں پہنچے تھے۔ ان خفیہ اجلاسوں میں طے پایا کہ: ’’مشرقی پاکستان کو پاکستان سے کاٹ کر الگ کر لیا جائے گا اور اس ضمن میں بھارت، سازشیوں کی مدد کرے گا۔ حکومت پاکستان کو اس سازش کا علم ہوا تو اس نے عوامی لیگ کے ۳۵ افراد کو گرفتار کرکے سازش کی تفصیلات قوم کے سامنے پیش کردیں۔ مگر اگلے ہی لمحے بنگالی قوم پرست، نام نہاد ترقی پسند اور آزاد خیال اخبارات نے پاکستان بھر میں شور مچا دیا کہ: ’’ایسی کوئی سازش تیار نہیں کی گئی، یہ مغربی پاکستانی حکمرانوں کا جھوٹا الزام ہے اور انسانی بنیادی حقوق کا قتلِ عام ہے‘‘۔
تاہم، صدر ایوب خاں حکومت کو اپنے موقف کی سچائی پر یقین تھا، جنھوں نے پاکستان کے نیک نام سابق چیف جسٹس ایس اے رحمن (۱۹۰۳ء-۱۹۹۰ء) کی سربراہی میں خصوصی تحقیقاتی ٹربیونل قائم کردیا۔ لیکن ڈھاکہ میں جوں ہی اس خصوصی عدالت نے کارروائی شروع کی تو قوم پرستانہ فاشزم حرکت میں آیا، تاکہ سچائی کا گلا گھونٹا جاسکے، اور عوامی لیگی مسلح غنڈوں نے حملہ کرکے نہ صرف ریکارڈ کو نقصان پہنچایا، بلکہ جسٹس ایس اے رحمن کو مشکل سے جان بچانا پڑی۔ پھر پاکستان مسلم لیگ کے صدر ممتاز محمد خاں دولتانہ کے بے پناہ اصرار پر فروری ۱۹۶۹ء میں ان مقدمات پر کارروائی معطل کرکے مجیب کو رہا کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ اس پورے عرصے کے دوران ’روشن خیال‘ صحافی، مجیب کی ’بے گناہی‘ کا ماتم کرتے رہے۔ لیکن جوں ہی بھارتی فوج کی مدد سے مشرقی پاکستان کو کاٹ کر بنگلہ دیش بنادیا گیاتھا تو مجیب الرحمن نے اعتراف کیا: ’’ہم اس علیحدگی کے لیے برسوں سے بھارت کے ساتھ رابطے میں تھے‘‘۔ اسی بات کا چند برس پہلے حسینہ واجد نے بھی اعتراف کیا اور پھر ۲۲فروری ۲۰۱۱ء کو عوامی لیگی ڈپٹی اسپیکر پارلیمنٹ شوکت علی (جو اگر تلہ سازش کے ملزموں میں شامل تھا) نے اعترافِ عام کیا کہ: ’’ہمارے خلاف اگر تلہ سازش کے حوالے سے حکومت نے درست مقدمہ بنایا تھا، ہم نے شیخ مجیب کی قیادت و رہنمائی میں ’سنگرام پریشد‘ بناکر علیحدگی کے لیے عملی پروگرام بنایا تھا‘‘۔
۱۹۷۰ء کے پورے سال انتخابی مہم میں ایک جانب تو عوامی لیگ نے اپنے مدمقابل جماعتوں: جماعت اسلامی، پاکستان جمہوری پارٹی اور مسلم لیگ کو جلسے تک نہ کرنے دیے، اور دوسری جانب اپنے منشور میں اور جلسوں کی تقاریر میں باربار یہ کہا کہ ہمارا پروگرام ’پاکستان کو مضبوط بنائے گا، ہم وحدت پاکستان پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔ لیکن جوں ہی انتخابی نتائج سامنے آئے جو یک طرفہ تھے، کیونکہ انتخابات کے روز، پولنگ اسٹیشنوں پر عوامی لیگ کے مسلح لوگوں کا قبضہ تھا اور انتظامیہ بے بس تماشائی تھی۔ نتیجہ یہ کہ جن دو تین حلقوں پر وہ یوں ظالمانہ قبضہ نہ کرسکے، وہاں سے راجہ تری دیوراے اور نورالامین قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ یہاں ایک اور قابلِ غور بات دیکھیے کہ ویسے تو صدر جنرل یحییٰ خاں کو ساری قوم کے ساتھ یہ بقلم خود ’روشن خیال طبقے‘ بھی بُرا کہتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ برملا یہ فتویٰ بھی دیتے ہیں: ’’پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ شفاف اور غیرجانب دارانہ انتخابات ۱۹۷۰ء میں جنرل یحییٰ خاں کے زیرقیادت ہی میں منعقد ہوئے تھے‘‘۔کیا وہ شفاف انتخابات تھے یا روشن دن میں کھلے عام ڈاکازنی تھی؟
یکم مارچ ۱۹۷۱ء کو جب صدر جنرل یحییٰ خاں نے دستور ساز اسمبلی کا اجلاس، ذوالفقار علی بھٹو کے دبائو میں چند روز کے لیے ملتوی کیا تو شیخ مجیب نے چشم زدن میں مشرقی پاکستان میں ’سول نافرمانی‘ کی تحریک شروع کرکے ایسا غنڈا راج قائم کردیا جس میں ہم وطن غیربنگالی پاکستانیوں (اُردو بولنے والوں، پنجابیوں، پٹھانوں) کی خواتین، اجتماعی عصمت دری اور قتل و غارت گری کی خاطر بنگالی قوم پرست مسلح جتھوں کے لیے ’حلال‘ قرار پائیں۔ مردوں اور بچوں کا قتلِ عام شروع ہوا۔ لُوٹ مار سکہ رائج الوقت ہوگیا۔اسی فضا میں ۷مارچ ۱۹۷۱ء کو ریس کورس گرائونڈ ڈھاکہ میں ایک بڑے جلسے سے فسطائی سیاست کے دیوتا مجیب الرحمن نے خطاب کیا۔ اس مضمون کے شروع میں جس الزامی بارش کا تذکرہ کیا گیا ہے اس کا نشانہ عبدالکریم خوندکر ہیں، اور ان کا جرم یہی جلسہ عام ہے۔
ایئروائس مارشل (سابق) اے کے [عبدالکریم] خوندکر، جو ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۵ء تک بنگلہ دیش فضائیہ کے چیف آف ایئرسٹاف رہے، یہ صاحب ۱۹۷۱ء کے دوران علیحدگی کی تحریک میں ڈپٹی چیف آف اسٹاف تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ۱۹۷۶ء سے ۱۹۸۲ء تک آسٹریلیا میں اور ۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۶ء تک ہندستان میں بنگلہ دیش کے سفیر رہے۔ ۱۹۸۶ء میں پارلیمنٹ کا الیکشن جیتا اور عوامی لیگ حکومت میں قومی منصوبہ سازی کے دو مرتبہ وزیر رہے۔ موجودہ ستمبر میں انھوں نے اپنی کتاب’ بیٹوری بیرے ۱۹۷۱ء‘ میں لکھا ہے کہ: ’’۷مارچ ۱۹۷۱ء کو ڈھاکہ میں بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن نے آزادی کا اعلان نہیں کیا تھا بلکہ تقریر کے اختتام پر ’جئے پاکستان‘ (پاکستان زندہ باد) کا نعرہ بلند کیا تھا‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس واقعے کے لاکھوں گواہ موجود ہیں، مگر بُرا ہو قوم پرستانہ دروغ گوئی کا، کہ وہ سچائی کی روشنی میں آنا نہیں چاہتی۔ اسی لیے ستمبر کی دوتاریخ کو مذکورہ کتاب کے شائع ہوتے ہی بنگلہ دیش میں عوامی لیگ اور ہندو اسٹیبلشمنٹ نے خوف ناک طوفان برپا کردیا۔ یہاں اُس کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں:
مسئلہ دراصل یہ ہے کہ بھارتی پشت پناہی سے تقویت حاصل کرنے کی رسیا عوامی لیگ کے کارندے اپنے لیڈر مجیب کو شیر کی کھال پہنانا چاہتے ہیں، مگر بدقسمتی سے وہ مجیب کے وجود پر پوری نہیں آتی۔ اس لیے وہ ہر اُس فرد پر چڑھ دوڑتے ہیں جو کہتا ہے کہ: ’’یہ شیر نہیں ، شیر کی کھال ہے‘‘۔ آج عوامی لیگی تڑپ رہے ہیں کہ ۷مارچ ۱۹۷۱ء کی تقریر کے آخر سے، مجیب کے کہے جانے والے الفاظ ’پاکستان زندہ باد‘ کو اگر درست تسلیم کرلیا جائے تو اُن کے لیے اس تقریر کی بطور ’اعلانِ آزادی‘ حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ حالانکہ مجیب نے ’پاکستان زندہ باد‘ ہی پر تقریر کا اختتام کیا تھا اور اُس کا یہ کہنا ایک درجے میں بزدلی یا منافقت کا شاہکار تھا۔
وجہ صاف ظاہر ہے کہ مجیب نے ۱۹۷۲ء کے بعد یہ بات بار بار ریکارڈ پر لانے کی کوشش کی ہے کہ: ’’میں بہت مدت سے علیحدگی کے لیے کام کر رہا تھا‘‘۔ مگر ۷مارچ ۱۹۷۱ء کو یہی شیربنگال، بھیگی بلی بن کر، ان الفاظ کو منہ سے نکالنے کی ہمت نہ کرسکا۔صرف یہ نہیں بلکہ جب اگست ۱۹۷۱ء میں، یعنی مارچ ۱۹۷۱ء کے چھے ماہ بعد مجیب کو خصوصی عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تو ان کے وکیل اے کے بروہی مرحوم کے بقول: ’’مجیب نے جو حلفیہ بیان عدالت میں جمع کرایا، اس کے مطابق مجیب نے ثبوتوں، گواہوں اور اپنے دستخطوں کے ساتھ یہ تسلیم کیا کہ مَیں مشرقی پاکستان کو علیحدہ نہیں کرنا چاہتا، پاکستان کے وفاق کو مضبوط کرنے اور صوبائی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کر رہا ہوں، اور ایک پاکستان کا حلفیہ لیڈر اور شہری ہوں‘‘۔ یہ دستاویز آج تک ہمارے حقیقی حکمران طبقے کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ گویا کہ عوامی لیگ کی طرف سے دعویٰ کردہ نام نہاد اعلانِ آزادی کے چھے ماہ بعد اور بھارتی حملے کے بل پر علیحدگی حاصل کرنے سے چار ماہ پہلے تک’عظیم بنگالی لیڈر‘ مجیب الرحمن نے باربار جھوٹ کہا تھا کہ میں پاکستان قائم رکھنا چاہتا تھا۔ مراد یہ ہے کہ یہ کیسا لیڈر ہے جو موت کو سامنے دیکھ کر سراسر جھوٹ بولنے لگتا ہے اور وہ بھی بار بار۔ یہی پے درپے غلط بیانی عوامی لیگ کی علیحدگی کی تاریخ کی بنیاد تھا۔ اسی افسانہ طرازی کی بنیاد پر عوامی لیگ، بنگلہ دیش کی نئی نسل کو گمراہ کر کے پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے کی آج تک کوشش کررہی ہے۔ اسی بے جا اور بے بنیاد اساس پر مجیب کو ’عظیم لیڈر‘ قرار دلوانے کے لیے تاریخ کا قتل کرنے پر تلی ہوئی ہے،اور ہر اس شخص کی زبان گدی سے کھینچ دینے کے لیے آمادہ جنگ رہتی ہے، جو سچائی کی ذرا سی خوشبو بھی پھیلانے کی کوشش کرے، اور عوامی لیگی جھوٹ کی نشان دہی کرے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے چند ہفتوں بعد مجیب الرحمن نے بے سوچے سمجھے ۳۰لاکھ بنگالیوں کے قتل کا الزام پاکستانی افواج پر تھوپ دیا،اور جب خود مجیب کی مقرر کردہ تحقیقاتی ٹیم نے کہا کہ:’’ تمام مقتولین کی تعداد اس پورے عرصے میں ۵۰ ہزار کے لگ بھگ تھی (جن میں خود عوامی لیگی مکتی باہنی کے ہاتھوں غیربنگالی مقتولین بھی شامل تھے)‘‘، تو اُس رپورٹ کو مجیب نے فرش پر دے مارتے ہوئے کہا: ’’میں نے ۳۰ لاکھ کہا ہے، اس لیے ۳۰ لاکھ ہی لکھو اور کہو‘‘۔ اسی طرح ۳لاکھ بنگالی خواتین کی بے حُرمتی کا افسانہ۔ لیکن جب ڈاکٹر شرمیلابوس نے طویل تحقیقی جدوجہد کے بعد اپنی کتاب Dead Reckoning میں دلائل و شواہد کے ساتھ ثابت کیا کہ: ’’یہ ۳۰ لاکھ اور ۳لاکھ کے اعداد و شمار بے ہودہ پروپیگنڈے سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتے‘‘، تو اُس ہندو اور بھارتی خاتون کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا اور اس کی کتاب پر بنگلہ دیش میں پابندی لگادی۔ حیرت کی بات ہے کہ آزادی راے اور مجیب کا دم بھرنے والے ’روشن خیال‘ صحافی اور دانش ور اس ظلم پر بالکل چپ سادھے بیٹھے ہیں۔
یہاں پر اس کو بھی ریکارڈ پر لاناضروری ہے کہ وہی شیخ مجیب جو متحدہ پاکستان میں کالے قوانین کی منسوخی، انسانی بنیادی حقوق کے تحفظ اور جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کا سب سے بڑا لیڈر تصور کیا جاتا تھا، وہی صاحب جب خوابوں کی جنت بنگلہ دیش کا کرتا دھرتا بنا تو اسے حکمرانی کا کچھ مزا نہ آیا۔ اسی لیے شیخ مجیب نے چوتھی ترمیم کے ذریعے ۲۵ جنوری ۱۹۷۵ء کو تمام سیاسی پارٹیوں کو قانونی طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دستوری ترمیم کے ذریعے ملک میں پارلیمانی کے بجاے صدارتی نظام رائج کیا۔ اعلیٰ عدلیہ کی آزادی سلب کی اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دائرہ سماعت و اختیار کو محدود تر کرایا۔ یہی نہیں بلکہ خود پارلیمنٹ کے اختیارات میں بھی کمی کردی۔ ۲جون ۱۹۷۵ء کو اپنی عوامی لیگ کے نام میں دو لفظوں کا اضافہ کر کے واحد حکمران پارٹی قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس پارٹی کا نام تھا: ’بنگلہ دیش مزدور کسان عوامی لیگ‘ (BKSAL: بنگلہ دیش کرشک سرامک عوامی لیگ)۔ جمہوریت کے اس قتل عام اور فسطائیت کے تحفظ کے لیے چوتھی ترمیم کو مجیب نے ’دوسراانقلاب‘ بھی قرار دیا۔ پھر اپنی اس سیاسی پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی میں حاضر ملازمت فوجی جرنیلوں کو رکن مقرر کیا، جن میں ایک ایئروائس مارشل عبدالکریم خوندکر بھی تھے۔ بہرحال اس انتہا کا انجام صرف ڈھائی ماہ بعد اس وقت ہوا، جب ۱۵؍اگست ۱۹۷۵ء کو فوجی انقلاب نے مجیب کے پورے خاندان کو گولیوں سے بھون ڈالا، اور حسینہ واجد اس لیے بچ رہی کہ ملک سے باہر تھی۔ہمارے ’انقلابی‘ اور ’ترقی پسند‘ اپنے محبوب مجیب کی اس بدترین عہدشکنی اور آمریت کے تذکرے کو بھی گول کرجاتے ہیں۔
۲۰۰۹ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد عوامی لیگی حکومت نے نام نہاد جنگی جرائم کی خصوصی عدالتیں (ICT) قائم کیں، جہاں جماعت اسلامی کے بزرگ رہنمائوں اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے لیڈروں کو سزاے موت دلوانے کے لیے جعلی مقدمے شروع کیے گئے اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ اپنے وطن پاکستان کے دفاع کرنے کے جرمِ بے گناہی میں ملوث کیے جانے والے ان ملزموں کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے نہ متعلقہ ریکارڈ تک رسائی دی گئی ہے، نہ گواہوں کو پیش کرنے دیا گیا ہے اور نہ وکلا کی پوری طرح مددلینے دی گئی ہے۔ پھر ان نام نہاد عدالتوں میں بیٹھے قصابوں کے ہاتھوں دھڑادھڑ موت کی سزائیں سنانے کا عمل شروع کرایا گیا۔ سچائی کی قاتل عوامی لیگ نے اپنے مسلح غنڈوں کو ریاستی پشت پناہی کے ساتھ ’شاہ باغ مورچہ‘ لگانے کے لیے ڈھاکہ میں موقع فراہم کیا، تاکہ کنگرو عدالت اگر غلطی سے بھی صفائی کی کسی دلیل کو سن کر متاثر ہونے لگے تواُسے بیرونی دبائو میں لایا جائے۔ اس فسطائی غنڈا گردی کی بدترین مثال شہید عبدالقادر مُلا کی سزا ہے، جنھیں خصوصی عدالت نے عمرقیدسنائی، مگر اس غنڈا مورچے کے دبائو کے تحت پہلے تو حسینہ واجد نے مؤثر بہ ماضی آرڈی ننس جاری کر کے بدترین دھاندلی کی ، اور پھر سپریم کورٹ نے سزاے موت سنادی اور چند گھنٹوں بعد اُس سزا پر عمل کرکے عبدالقادر کو پھانسی دے دی گئی۔
اسی طرح خود بنگلہ دیش میں عوامی لیگی حکومت نے گذشتہ چار برسوں میں دو مرتبہ مولانا مودودی کی کتابوں مع تفہیم القرآن، سرکاری تعلیمی اداروں اور مسجدوں کی لائبریریوں میں ترسیل و مطالعے پر پابندی عائد کی ہے۔ ہندو آقائوں کو خوش کرنے اور بے دینی کو فروغ دینے کی علَم بردار عوامی لیگ سے اس کے سوا کیا اُمید کی جاسکتی ہے۔ مگر ہمارا سوال خود پاکستان کی اس ’روشن خیال‘ ، ’انسانی حقوق کی علَم بردار‘ اور ’کشادہ دل‘ اشرافیہ سے ہے، جو اسلامیانِ پاکستان کی زبان کاٹنے اور یادداشت سے ہر مثبت چیز کھرچنے کے لیے ہر آن متحرک رہتی ہے۔ جس کے نزدیک عوامی لیگ، روشن خیالی، حقوق کی ’کامیاب‘ جنگ جیتنے کی علامت ہے، لیکن یہ کیا ماجرا ہے کہ وہ اپنی محبوب حکومت کی جانب سے کتابوں پر پابندیوں، تحقیق کاروں پر دائرۂ حیات تنگ کرنے اور ہاتھ پائوں باندھ کر مقدمے چلاچلا کر ذبح کرنے جیسے گھنائونے افعال پر خاموش ہیں؟ کیا ان کے بارے میں یہ تصور کرنا درست نہیں کہ، یہ ہیں پورس کے ہاتھی اور تاریخ کے قاتل! مہذب اصطلاحوں کے پردے میں دشمن کی ہاں میں ہاں ملانا ان کا مذہب ِ عشق ہے اور اپنوں کے خون اور جذبات کی ہولی کھیلنا ان کا من بھاتا کھاجا ہے۔ یہ ہے ہماری ’روشن خیال تعلیم یافتہ‘ اشرافیہ، جس کی موجودگی میں بیرونی دشمنوں کو کچھ زیادہ تگ ودو کی ضرورت نہیں۔