عمر فاروق کور کماز


یہ ۱۹۸۲ء کی بات ہے جب مَیں لڑکپن میں تھا تو یہ سنا کہ لاہور میں ایک اسلامی انسٹی ٹیوٹ ہے جس کا نام ’سیّد مودودی انسٹی ٹیوٹ‘ ہے۔ اسی سال کے اواخر میں، پاکستان آیا اور یہاں داخلہ لے کر پڑھنے لگا۔بعد میں پتہ چلا کہ یہاں اسلام آباد میں ایک بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی بھی ہے۔ اس یونی ورسٹی کی اصول الدین فیکلٹی میں بی اے اور ایم اے کے لیے پڑھتا رہا۔ میرا یہ تعلیمی پس منظر بہت قیمتی حوالہ رکھتا ہے۔ جب میں سیّد مودودی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ، لاہور میں پڑھ رہا تھا، اس دوران میں نے جماعت اسلامی کے تجربے سے بہت کچھ سیکھا، اور جب ہم جماعت اسلامی کے تجربہ کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد سیّد مودودی رحمہ اللہ کا تجربہ ہے۔ ہم نے یہاں رہتے ہوئے جماعت اسلامی کی قیادت سے واقفیت حاصل کی جن میں میاں طفیل محمد صاحب، قاضی حسین احمد صاحب، خلیل احمد حامدی صاحب اور دیگر فکری و سیاسی قائدین شامل ہیں، جب کہ سیّد مودودی رحمہ اللہ کی تقریباً ساری کتب میں نے پڑھ ڈالیں۔یہ اس دور کی بات جب مَیں فکری اور نظریاتی انتشار کا شکار تھا۔

یاد رہے سیّد مودودی رحمہ اللہ کی تقریباًساری کتب،دیگر بہت سی زبانوں کی طرح، ترکی میں بھی ترجمہ ہوچکی ہیں۔ ہمارے ہاں ترجمہ کی تحریک بہت تیز ہے۔یہ ذکر کرتے ہوئے ہمیں بہت فخر ہے کہ برصغیر پاک و ہند کی فکری قیادت، جس میں سیّد مودودی، علامہ محمد اقبال اور سیّدابوالحسن علی ندوی رحمہم اللہ علیہ شامل ہیں، ان سے ترکی کی معاصر اسلامی فکرنے بہت استفادہ کیا۔ ان کی فکر سے استفادہ کرنے کے ساتھ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم یہاں آپ کے پاس پاکستان آئے اور تعلیم حاصل کی اور یہاں کے بہت سے علما و مفکرین اور سیاست دانوں سے ملاقاتیں کیں اور پاکستان کے مختلف تجربات سے خوب استفادہ کیا۔

استاذ المودودی کے مسلمان نوجوانوں پر بڑے احسانات ہیں،خصوصاً ساٹھ اور ستّر کی دہائی کے نوجوانوں پر۔اس وقت صورتِ حال یہ تھی کہ کمیونسٹ نظریات نوجوانوں کی ہر تحریک کو بُری طرح سے متاثر کررہے تھے۔ اشتراکی افکار اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کو بُری طرح اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے اور ان افکار و نظریات کے مقابل کوئی طاقت ور اسلامی لہر موجود نہیں تھی۔اگر تھے تو صرف اور صرف استاد مودودی،سیّد قطب، ابوالحسن علی ندوی،مالک بن نبی اور بڑی حد تک علامہ محمداقبال کے افکار و نظریات۔ اس کے بعد بڑی تعداد میں ایسے مفکرین سامنے آئے جنھوں نے کتب تالیف کیں،اور احیائے اسلام میں سرگرم کردار ادا کیا اور ان عظیم شخصیات کی شاگردی و پیروی اختیار کی۔

فی الحقیقت سیّد مودودوی کا یہ تجربہ کوئی خلا میں نہیں تھا بلکہ اس کی جڑیں تہذیب، معاشرے اور تاریخ میں پیوست تھیں۔ انھوں نے اسلام کے بنیادی مآخذ سے استفادہ کیا، اور پھر تجدید ِ دین کی اس روایت میں گراں قدر اضافہ کیا، جو امام شاطبی، امام طاہر بن عاشور، امام عزبن عبدالسلام، مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ دہلو ی نے قائم کی تھی۔ فکر اسلامی کی تجدید کی اسی روایت کو اقبال ، حسن البنا ، سیّد قطب اور سیّد مودودی نے عصرحاضر میں ایک جان دار رُخ دیا۔ سیّدمودودی نے اس کے ساتھ ساتھ یہ عظیم کارنامہ بھی انجام دیا کہ فکر کی تشکیلِ نو کے ساتھ عملاً ایک تحریک برپا کردی۔

سیّد مودودی رحمہ اللہ کی کتب عرب ممالک میں ترجمہ ہوکر پہنچیں تو عرب نوجوانوں نے ان سے بھرپور استفادہ کیا، خصوصاً ان کی کتاب قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں عرب حلقوں میں بہت معروف ہے،جس سے سیّد قطب شہید نے بھی استفادہ کیا تھا۔ جب انھوں نے تفسیر فی ظلال القرآن اور پھر معالم فی الطریق تالیف کی تو ان کی یہ تحریریں بڑی حد تک مولانا مودودی کی اسی کتاب 'قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں سے متاثر ہوکر لکھی گئی تھیں۔ مجھے جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے بہت سے افراد سے ملنے کا موقع ملا۔ان نوجوانوں سے جو سیّد مودودی رحمہ اللہ کی کتب سے مستفید ہوچکے تھے، لیکن مجھے ان میں سے کوئی ایک فرد بھی تکفیری سوچ کا حامل اور انتہا پسند نہیں ملا۔

دو ہفتہ قبل الجزائر کی ایک کانفرنس میں مَیں بھی شریک تھا، جس کا انعقاد المعھد العالی للامن القومی الوطنی نے کیا تھا۔ اکثر مقررین مولانا کی کتاب 'قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں  کا تذکرہ کررہے تھے کہ یہ کتاب تحریک اسلامی کے بنیادی لٹریچر میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔مگر اس کے باوجودعالمِ عرب میں اس کتاب کے خلاف فضا بھی قائم کی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کتاب کو انتہاپسندی سے کیوں جوڑا جارہا ہے؟ حالانکہ پاکستان میں اس کتاب کا براہِ راست اُردو میں مطالعہ کرنے والوں میں تو ایسی کوئی سوچ پیدا نہیں ہورہی۔ درحقیقت استعماری قوتیں اپنے کارندوں کے ذریعے ایسا منفی پروپیگنڈا کررہی ہیں۔

 سیّد مودودی رحمہ اللہ نے اپنی کتب،اپنے افکار اور اپنے اس تجربے سے گذشتہ صدی کی معاصر اسلامی فکر کو بڑے مثبت اور تعمیری انداز میں متاثر کیا ہے۔آج بھی سیّد مودودی کی کتب دُنیابھر میں،ترکی اور عالم عرب میں یہ خدمت انجام دے رہی ہیں۔ اگرچہ بعض ممالک میں ان کتب پر پابندی بھی لگائی گئی ہے، تاہم ترکی میں یہ کتب آج بھی نوجوانوں میں مقبول ہیں۔ مفکرین کی ایک نئی نسل نے ان افکار سے استفادہ کیا ہے اور اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے نئی کتب تالیف کی ہیں۔

مختصراً یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ترکی ہو یا دیگر ممالک، سیّد مودودی رحمہ اللہ کو ہرجگہ اسلامی فکر و عمل کے میدان میں قیادت اور فکری رہنمائی کا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ جب میں اسلامی یونی ورسٹی سے ایم اے کررہا تھا تو ہم نے چند مفکرین جیسے سیّد مودودی اور مالک بن نبی، سیّدقطب اورابولحسن علی ندوی کے درمیان تقابلی مطالعہ کیا تھا۔بعدازاں میں نے تقابلی مطالعہ کے اس تجربے کو دیگر مفکرین کے فکر و فلسفہ تک وسعت دی۔ اس دوران دیکھا کہ حسن البنا، سیّدمودودی،ڈاکٹر حسن الترابی اور نجم الدین اربکان کے درمیان ایک اور قدر مشترک بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ یہ چاروں مفکرین مضبوط اسلامی فکر و فلسفہ بھی رکھتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ میدان عمل کے شہ سوار بھی تھے۔ اگر میں انگریزی میں کہوں تو یہ چاروںMen of Theory  بھی تھے اور ساتھ ساتھ Men of Action  بھی۔ وہ اسلامی فکر و فلسفہ کے شہ سوار بھی تھے اور میدانِ عمل کے رہوار بھی۔یہ بڑی نادر مثال ہے۔ ان کے علاوہ دیگر مفکرین اپنی فکر کے ساتھ عمل کو اکٹھا نہیں کرپائے۔ ان کے پاس فکرو فلسفہ تو ہے لیکن ان کی کوئی تنظیم اور تحریک نہیں تھی۔اسی طرح محمداقبال اور سیّد قطب رحمہم اللہ کی الگ سے کوئی تحریک نہیں تھی بلکہ وہ خود ایک تحریک کا حصہ تھے۔ استاد اربکان نے ساٹھ کے عشرے میں جب اپنی تحریک کا آغاز کیا، تو ابتداً یہ ایک اسلامی فکری تحریک تھی۔ انھوں نے اس موضوع پر بہت سے شہروں میں لیکچر دیئے تاکہ نوجوانوں کو مطمئن کیا جاسکے کہ اسلام ہی مسلمان کے لیے تمام علوم کی اساس و بنیاد ہے۔ اسی طرح ہم نے اسلامی یونی ورسٹی میں پڑھتے ہوئے ایک اور مضمون ’الدستور الاسلامی‘ سیّد مودودی کی کتاب  Islamic Law and Constitution  [اسلامی ریاست] سے پڑھا۔ اس مطالعے نے اسلام کے دستوری قانون کے ساتھ ساتھ اس کے سیاسی اور ریاستی تصورات کو روزِ روشن کی طرح ذہن میں راسخ کردیا۔ ان معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ سیّد مودودی کا فکری میدان میں مسلمان نسلِ نو پر بڑا احسان ہے۔

ہمارے عقیدہ اور ہماری اسلامی فکر میں ہے کہ کوئی فرد معصوم عن الخطا  نہیں ہے۔ ہرفرد خطا بھی کرتا ہے اور ٹھیک نتیجۂ فکر تک بھی پہنچ سکتا ہے۔لہٰذا ہم سبھی سے اخذ و استفادہ بھی کرسکتے ہیں اور ان کی رائے کو ترک بھی کرسکتے ہیں،خواہ یہ فرد اقبال، حسن البنا، نجم الدین اربکان ہوں یا حسن الترابی اور سیّدمودودی۔ تاہم، اگر ہم ان سے کسی معاملے میں اختلاف کرنا بھی چاہیں تو ضروری ہے کہ ہم عدل و انصاف سے کام لے لیں۔ اسی قاعدہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم انھیں معصوم تو نہیں کہتے لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ انھیں گذشتہ اور اس صدی کے نوجوانوں کو درست سمت میں گامزن کرنے اور رکھنے کے معاملے میں فضیلت و برتری کا مقام حاصل ہے۔ہم اس فکری قیادت کے احسان مند اور قرض دار ہیں جنھوں نے جدید اسلامی فکر کی ترقی و ارتقا میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے نوجوانوں کے دل و دماغ کو روشن تر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔

بلاشبہہ ہم ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ہم سب مسلمان ہی ہیں،ہم سب بشر ہیں،ہم سب خطا بھی کرتے ہیں اور صحیح فیصلہ تک بھی پہنچ سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ ہم جن اُمور پر متفق ہوں ان میں باہم تعاون کریں تاکہ ہم مشترکہ طور پر جہان کی تعمیرنو کرسکیں۔ ایک ایسا جہان جو سب کا ہو، سب کے لیے ہو۔