سعید نورسی


بدیع الزماں سعید نورسی مشرقی ترکی میں ۱۸۷۷ء میں پید اہوئے ، اسلام کے لیے قربانی اور   مثالی جدوجہد سے بھر پور زندگی گزارنے کے بعد ۸۳سال کی عمر میں ۱۹۶۰ ء میں انتقال فرماگئے۔ وہ اعلیٰ پائے کے عالم تھے، جنھوں نے نہ صرف روایتی مذہبی علوم کامطالعہ کیا بلکہ جدید سائنسی علوم پر بھی دسترس رکھتے تھے اور جوانی ہی میں اپنی غیرمعمولی صلاحیت اور علم کے بل بوتے پرانھوں نے بدیع الزماں کا لقب پایا۔ ’عمررسیدہ افراد کے نام‘ ان کی ترکی زبان میں لکھی گئی کتاب کا اُردو ترجمہ  عبدالخالق ہمدرد نے کیا ہے۔ اس کی تلخیص پیش ہے۔ (ادارہ)

جب میں نے بڑھاپے کی منزل میں قدم رکھا اور جاڑے کے ایک دن عصرکے وقت دنیا پرایک اونچے پہاڑ کی چوٹی سے نظر ڈالی تو اچانک ایک انتہائی تاریک اور غم ناک کیفیت میری   رگ رگ میں سرایت کر گئی۔میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں پیرفرتوت [بہت بوڑھا] ہوچکا ہوں، دن بوڑھا ہو گیا ہے، سال کو پیرانہ سالی نے آلیا ہے اور پوری دنیا نے بڑھاپے میں قدم رکھ دیا ہے۔ہرشے پر چھا جانے والے اس بڑھاپے نے مجھے بری طرح جھنجھوڑ ڈالا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دنیاسے فراق کا وقت قریب آلگا ہے اور احباب سے فراق کی گھڑ ی بس سر پر کھڑی ہے۔پھر جس وقت میں مایوسی اور غم کی کیفیت سے دوچار تھا، اچانک رحمت الٰہیہ میرے سامنے اس طرح کھل گئی کہ اس نے اس دردناک غم اور دلی مسرت میں اور احباب کے اس قدر دردناک فراق کو ایسی تسلی میں بدل دیا، جس سے میرے نفس کا ایک ایک گوشہ روشن ہوگیا۔

اے میرے بوڑھے بھائیو اور بہنو!

اللہ سبحانہ وتعالیٰ جو اپنی ذات کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور قرآن کریم میں ۱۰۰ سے زائد مقامات پر اپنا تعارف الرحمنٰ و الرحیم کی صفات کے ساتھ کرتا ہے،جو جان داروں میں سے اس کی رحمت طلب کرنے والوں کی مدد اور کمک کے لیے ہمیشہ روے زمین پر اپنی رحمت کے دریا بہا دیتا ہے، جو عالم غیب سے تحفے بھیجتا ہے اور ہرسال بہار کو بے شمار نعمتوں سے بھردیتا ہے ۔ وہ یہ نعمتیں ہم  جیسے رز ق کے محتاجوں کے لیے بھیجتا ہے۔ اس سے وہ پوری وضاحت کے ساتھ اپنی گہری رحمت کی تجلیات کو ہمارے اندر پوشیدہ کمزوری اور عاجزی کے درجات کے مطابق ظاہر کرتا ہے۔ اس لیے ہمارے رحیم خالق کی رحمت سب سے بڑی امید اور اس پیرانہ سالی میں سب سے بڑا بلکہ سب سے روشن نور اورسہارا ہے۔

میرا وہ جسم جو میری روح کا ٹھکانہ ہے ، کمزور ہو کر مرورزمانہ کے ساتھ ایک ایک پتھر کرکے گرنے لگااور میری وہ امیدیں جو پوری طاقت سے مجھے دنیا سے جوڑتی تھیں، ان کی رسیاں بھی بوسیدہ ہو کر ٹوٹنے لگی ہیں۔ جس سے میرے دل میں بے شمار دوست واحباب کے فراق کے وقت کے قرب کا احساس پیدا ہوا اور میں اس گہرے روحانی گھائو کے لیے مرہم تلاش کرنے لگا، جس کے لیے کسی تریاق کے ملنے کی بظاہر کوئی اُمید نہیں ۔ 

جب میرے پائوں بڑھاپے کی دہلیز پر پڑے تو میری وہ جسمانی صحت جو غفلت کی مہار کو ڈھیلا چھوڑتی تھی ، کمزور اوربیما رپڑ چکی تھی ۔ چنانچہ بیماری اور پیرانہ سالی ایک ساتھ مل کر مجھ پر حملہ آور ہو ئیں اور میرے سر پر مسلسل ضربیں لگاتی رہیں، یہاں تک کہ انھوں نے میری غفلت کی نیند کو اُڑاکر رکھ دیا ۔ چونکہ میرے پاس کو ئی مال ، اولاداور ان جیسی کوئی اور چیز نہ تھی جو مجھے دنیا سے جوڑتی، اس لیے میں نے دیکھا کہ میں نے اپنی عمر کا وہ حصہ جو شباب کی غفلت میں ضائع کیا،   اس میں گنا ہوں اور خطاو ں کے سوا کچھ نہیں ۔

اچانک معجز بیان قرآن حکیم میری مدد اور تسلی کو آتا ہے اور میرے سامنے امید کا ایک عظیم دروازہ کھول کر امیدو رجا کا ایک ایسا روشن نور عطا کرتا ہے ، جو میری اس مایوسی سے کئی گنا بڑی مایوسی کو ہٹا کر میرے ارد گرد چھا ئے گھٹا ٹوپ اندھیروں کو نیست ونابود کر دیتا ہے ۔

اس لیے ا س بات میں کوئی شک نہیں کہ ا س نے جو کتابیں نازل فرمائی ہیں ان میں  کامل ترین کتاب قرآن مجید ہے ، جو معجز بیان ہے ، جس کی تلاوت کروڑ وںزبانوں پر ہر لمحے جاری رہتی ہے، جو روشنی پھیلاتا اور سیدھا راستہ دکھاتاہے ، جس کے ہر ہر حرف پر دس دس نیکیاں اور کم سے کم دس گنا اجر ہے۔ کبھی اس پر ۱۰ ہزار نیکیاں ، بلکہ ۳۰ہزار نیکیاں بھی ہوجاتی ہیں جیسے کہ    لیلۃ القدر میں ہوتاہے ۔ اس طرح یہ کتاب جنت کے وہ پھل اور برزخ کا وہ نور عطا کرتی ہے ، جو اللہ تعالیٰ نے بندۂ مومن کے لیے مقدرکر دیا ہے۔ کیا پوری کائنات میں کوئی ایسی کتاب ہے جو  اس کامقابلہ کرسکے ؟ کیا کسی کے لیے یہ دعویٰ کرنا ممکن ہے ؟

پس جب ہمارے سامنے موجود قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کا ہم تک پہنچایا گیا حکم اور اللہ کی اس رحمت کا منبع ہے ، جو ہر شے پر محیط ہے اور وہ خالق ارض و سما جل و علا سے اس کی ربوبیت مطلقہ ، ا س کی الوہیت کی عظمت اور اس کی ہر شے پر محیط رحمت کے رخ سے صادر ہواہے، تو پھر اس سے چمٹ جااور اسے مضبوطی سے پکڑ لے کہ اس میں ہر بیماری کی دوا ، ہر اندھیرے کی روشنی اور ہر مایوسی کے لیے، اُمید ہے جب کہ اس ابدی ضرورت کی کنجی ایمان اور تسلیم ورضا ہے۔ اسے سننے، اس کے حکم کو بجا لانے اور اس کی تلاوت سے لطف اندوز ہونے کے سوا کچھ نہیں ۔

بڑھاپے کے آغاز میں جب میری خواہش تھی کہ لوگوں سے کنارہ کشی کرلوں ، میر ی روح نے ’خلیج باسفورس‘ کے اوپر واقع ’یوشع‘کی پہاڑی پر عزلت اور گوشہ نشینی کی راحت کو تلاش کیا ۔ پھر  ایک دن  جب میں اس اُونچی پہاڑی سے آفاق کی طرف دیکھ رہا تھا، تو میں نے بڑھاپے کی علالت کی وجہ سے زوال کی ایسی تصویر دیکھی ، جس سے حز ن و غم ٹپک رہا تھا۔ کیونکہ میں نے اپنی عمر کے درخت کی چوٹی، یعنی پینتالیسویں شاخ پر نظر ڈالی اور نیچے اتر تے اترتے اپنی زندگی کی سب سے نچلی منزل تک جاپہنچا، تو میں نے دیکھا کہ ہر سال کی شاخ میں میرے احباب اور دوستوں اور میرے متعلقین کے بے شمار جنازے ہیں۔

ان گہری حسرتوں میں میں نے امید کے کسی دروازے اور نور کے کسی روزن کو تلاش کرنا شروع کیا جس سے میں اپنے آپ کو تسلی دے سکوں ۔ چنانچہ آخرت پر ایمان کے نور نے میری دستگیری کی اور مجھے ایک زبر دست روشنی عطا کی۔اس نے مجھے ایسی روشنی دی جو کبھی نہیں بجھتی اور ایسی اُمید بخشی جو کبھی نااُمید ی میں نہیں بدل سکتی ۔

اے میرے بوڑھے بھائیو اور بہنو!

جب آخرت موجود ہے اور وہ دائمی ہے ، دنیا سے زیادہ خوب صورت ہے اور جس ذات نے ہمیں پید اکیا ہے وہ حکیم اور رحیم ہے، تو پھر ہم پر لازم ہے کہ ہم بڑھاپے کا شکوہ کریں اور نہ اس سے تنگ ہوں۔ کیونکہ ایمان اور عبادت سے بھر پور بڑھاپا جو آدمی کو عمرِ کمال تک پہنچاتاہے زندگی کے کاموں اور ذمہ داریوں کے ختم ہونے کی علامت اور عالم رحمت کی جانب آرام کی خاطر منتقل ہونے کا اشارہ ہے۔ اس لیے اس پر خوب اچھی طرح راضی رہنا چاہیے۔

جی ہاں! ایک لاکھ ۲۴ ہزار انبیاے کرام علیہم الصلوات والسلام میں سے بعض نے مشاہدے اور بعض نے حق الیقین کے ساتھ اجماع اور تو اتر سے دار آخرت کے وجود کی خبر دی، اور سب نے بالا تفاق اعلان فرمایا کہ لوگوں کو اس کی جانب لے جایا جائے گا اور حق سجانہ و تعالیٰ یقینا اس دن کو لائے گا ، جس کا اس نے قطعی وعدہ فرمایا ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی حکمت جس میں کسی قسم کی کمی بیشی کا امکان نہیں، جو درختوں کی بے جان لاشوں اور ڈھانچوں میں جان ڈالتاہے، جو ہر سال کی بہار میں سطح زمین پر بے شمار درختوں کو ’کن‘ کے امرسے زندہ کرکے ان کو بعث بعد الموت کی علامت بناتاہے ، جس سے ۳لاکھ قسم کے حیوانات اور نباتات کو زندگی ملتی ہے۔ بے شک اس کی یہ قدرت حشر اور نشور کے سیکڑوں نمونے اور آخرت کے وجود کے دلائل کو ظاہر کرتی ہے ۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کی وہ وسیع رحمت جو رزق کے محتاج جان داروں کی زندگی کو دوام بخشتی ہے اور کمال شفقت سے ان کو غیر معمولی انداز میں زندہ رکھتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کا وہ دائمی لطف وکرم جو ہر بہار کی مختصر سی مدت میں لاتعدا د طریقوں سے خوب صورتی اور حُسن وجمال کے مظاہر دکھاتا ہے ، بلاشبہہ بدیہی طور پر آخرت کے وجود کاتقاضا کرتاہے ۔

اسی طرح کائنات کے کامل ترین پھل، یعنی انسان کی فطرت میں بقا کاعشق اور ابدیت اور سرمدیت کا شوق اس طرح پنہاں ہے کہ وہ کبھی اس سے جدا نہیں ہوتا ، جب کہ انسان اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین مخلوق اور ساری کائنات سے زیادہ اس سے تعلق رکھنے والا ہے ۔ اس لیے یہ انسان بھی بدیہی طور پر اس عالم فانی کے بعد ایک عالم باقی اور عالم آخرت اور دار سعادت کے وجودکی  جانب اشارہ کرتا ہے ۔ 

قرآن کریم کا سب سے اہم سبق آخرت پر ایمان ہے اور یہ درس انتہائی مضبوط اور قوی ہے۔ اس ایمان میں ایسا زبردست نور اور عظیم تسلی ہے کہ اگر ایک شخص میں سو بڑھا پے بھی جمع ہوجائیں تو یہ ان کو کافی ہوجائے ، کیونکہ یہ اُمید اور تسلی اسی ایمان سے حاصل ہوتی ہے ۔ اس لیے ہم بوڑھوں پر لازم ہے کہ ہم خوشیاں منائیں اور یہ کہیں کہ ایمان کے کمال پر اللہ کا شکر ہے ۔

اے عمر رسیدہ مردو! اور اے عمر رسیدہ عورتو! جب ہمارا خالق رحیم ہے تو پھر ہم کبھی بھی اجنبیت کا شکار نہیں ہو سکتے ۔ جب حق تعالیٰ شانہ موجود ہے تو ہر شے ہمارے لیے موجود ہے ، جب اللہ تعالیٰ موجود ہے اور اس کے فرشتے بھی موجود ہیں، تو یہ دنیا مونس وغم خوار سے خالی نہیں، اور یہ خالی پہاڑ اور وہ چٹیل ریگستان ، سب کے سب اللہ تعالیٰ کی برگزیدہ مخلوق یعنی فرشتوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ یہ سب چیزیں ہمارے خالق رحیم وکریم، ہمارے صانع اور حامی کی جانب رہنمائی کرتی ہیں، جب کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عاجزی اور کمزوری اس اُونچے اور اعلیٰ دروازے پر سب سے بڑے سفارشی ہیں۔ اور سب جانتے ہیں کہ بڑھاپے کا زمانہ عاجزی اور کمزوری کا وقت ہوتا ہے۔ اس لیے ہم اس سے منہ نہ موڑیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دربار عالی میں ہمارا شفیع ہے۔

اے میرے بوڑھے بھائیو! اے میری عمر رسیدہ بہنو! 

اور وہ لوگو جو میری طرح بڑھاپے کی تھکن سے چُور چُور ہو! جب ہم اللہ کے فضل سے اہل ایمان ہیں، جب کہ ایمان کے نتیجے میں اس حد تک میٹھے ، روشن ، لذیذاور محبوب پھل ہیں اور بڑھاپا ہمیں ان خزانوں کی طرف زیادہ تیزی سے دھکیل رہا ہے، تو ہمیں بڑھاپے کی شکایت نہیں کرنی چاہیے ، بلکہ ضروری ہے کہ ہم اللہ عزوجل کا ہزار بار شکر ادا کریں اور ایمان سے منور اپنے بڑھاپے پر اس کی حمدو ثنا کریں ۔

میرے سرمیں چاندی اُتر آئی، جو بڑھاپے کی علامت ہے ۔ مجھے حضرت زکریاؑ کی پکار یاد آگئی، جب انھوں نے اپنے رب کو پکارا:

کٓھٰیٰعٓصٓ o ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہٗ زَکَرِیَّا o اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآئً خَفِیًّا o قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَ ھَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَ اشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَّ لَمْ اَکُنْم بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا o (مریم ۱۹:۱-۴)  یہ ذکر ہے اُس رحمت کا جو تیرے رب نے اپنے بندے زکریاؑ پر کی تھی، جب کہ اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا۔اس نے عرض کیا:’’اے پروردگار! میری ہڈیاں تک گُھل گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک  اُٹھا ہے۔ اے پروردگار، میں کبھی تجھ سے دعا مانگ کر نامراد نہیں رہا۔

ان سفید بالوں کے ظاہر ہونے اور ان کی نصیحت کی وجہ سے حقیقت مجھ پر واضح ہوئی۔ کیونکہ میں نے دیکھاکہ وہ شباب جس پر مجھے گھمنڈتھا ، بلکہ جس کی لذتوں پر میں  فدا تھا ، مجھے الوداع کہہ رہا ہے اور دنیا کی وہ زندگی جس کی محبت سے میں جڑا ہوا تھا ، رفتہ رفتہ بجھنے لگی اور وہ دنیا جس سے میں چمٹا ہو اتھا ، جس کا میں مشتاق اور خوگر تھا ، اسے میں نے دیکھا کہ مجھے الوداع کہہ کر یہ احساس دلارہی ہے کہ میں اس سراے سے کوچ کروں گا اور عنقریب اسے چھوڑ دوں گا۔ میں نے دنیا کو دیکھا کہ وہ خود الوداع کہتے ہوئے، رخت ِسفر باندھ رہی ہے ۔ اس آیت کریمہ کل نفس ذائقۃ الموت کی کلیت اور عموم سے درج ذیل معانی دل میں آئے :

ساری انسانیت ایک نفس کی طرح ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ وہ دوبارہ زندہ کیے جانے کی خاطر موت کو گلے لگائے ۔ اس طرح کرۂ ارض بھی ایک نفس ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ وہ بھی مرجائے اور تباہی کا شکار ہو تاکہ اسے بقا اور خلود کی شکل مل سکے ۔ اسی طرح دنیا بھی ایک نفس ہے جو مرکر ختم ہو جائے گی تاکہ آخرت کی صورت اختیار کر سکے ۔

میں نے اپنی حالت پر غور کیا تو معلوم ہو ا کہ جوانی جو لذتوں اور قوتوں کا مدار ہے زوال کی طرف بڑھ رہی ہے اور اپنی جگہ بڑھاپے کو چھوڑ ے جارہی ہے ، جو غموں کا منبع ہے اور ظاہری روشن زندگی پا بہ رکاب ہے، جب کہ اندھیرے اور خوف ناک موت اس کی جگہ لینے کے لیے تیا ر کھڑے ہیں۔

میں نے اپنی غفلت سے ایک بار پھر جاگنے اور اس سے مکمل طور پر بیدار ہونے کے لیے قرآن سننا شروع کر دیا تاکہ قرآن کے آسمانی دروس سے مستفید ہو سکوں۔ چنانچہ اس وقت میں نے درج ذیل آیت میں موجود مقدس خدائی اوامر کے ذریعے اس آسمانی راہنما ئی کی خوش خبریاں سنیں:

وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ط کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا لا قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ لا وَ اُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِھًا ط وَ لَھُمْ فِیْھَآ اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ ق وَّ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ  (البقرہ ۲:۲۵) اور اے پیغمبر،جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور (اس کے مطابق) اپنے عمل درست کرلیں، انھیں خوش خبری دے دو کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اُن باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ جب کوئی پھل اُنھیں کھانے کو دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے۔ ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔

چنانچہ میں نے اس چہرے پر نظر ڈالی جو سب کو ڈراتا ہے اور یہ وہم ہوتا ہے کہ وہ انتہائی خوف ناک ہے، یعنی موت کا چہرہ، تو میں نے قرآن کریم کے نور سے دیکھا کہ مومن کے لیے موت کا حقیقی چہرہ خوب صورت اور روشن ہے ، حالانکہ اس کا حجاب تاریک ہے اور اسے چھپانے والے پردے پر خوف ناک سیاہی چھائی ہوتی ہے۔

موت آخری قتل ہے نہ ابدی فراق ہی ، بلکہ یہ ابدی زندگی کا مقدمہ اور اس کی تمہید ہے ۔ موت زندگی کے کاموں اور ذمہ داریوں کا خاتمہ اور ان سے رخصت اور سبکدوشی ہے۔ یہ ایک جگہ کی دوسری سے تبدیلی ہے اور ان احباب کے قافلے سے وصال اور ملاقات ہے، جو عالم برزخ کی طرف کوچ کر چکے ہیں۔

اس کے بعد میں نے زمانۂ شباب پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا زوال سب کو غمگین کرتا ہے اور سبھی اس کے مشتاق اور دلدادہ ہوتے ہیں، جب کہ یہی شباب غفلت اور گناہوں میں بیت جاتا ہے ۔ میرا شباب بھی اسی طرح گزرا ہے، چنانچہ میں نے دیکھا کہ جوانی پر پڑی خوب صورت اور کھلی خلعت کے نیچے ایک انتہائی بدصور ت ،بدمست اور عبرت ناک چہرہ چھپا ہوا ہے۔ اگر میں اس کی حقیقت نہ جانتا تو وہ مجھے ساری زندگی رُلاتا اور غم زدہ کرتا رہتا، اگر چہ مستی اور ہنسی میں گزرنے والے چند برسوں کے مقابلے میں میر ی عمر سو سال ہی کیوں نہ ہو جاتی جسے زمانہ شباب پر انتہائی حسرت سے رونے والے شاعر نے کہا ہے    ؎

جوانی پلٹ کر جو آتی کبھی

بڑھاپے کی سختی بتاتا اسے

جی ہاں! جن بوڑھوں کو جوانی کا راز اور اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی وہ اس شاعر کی طرح اپنا بڑھاپا جوانی پر رونے اور افسوس کرنے میں گزار دیتے ہیں، جب کہ سمجھ دار اور پُرسکون مومن کی زندگی میں جب شباب کی قوت اور خوب صورتی آتی ہے اور اگر وہ شباب کی اس طاقت اور قوت کو عبادت، اعمالِ صالحہ اور اُخروی تجارت میں استعمال کرتا ہے، تو وہ خیر کی سب بے بڑی قوت، تجارت کا سب سے افضل ذریعہ اور خوب صورت ترین بلکہ لذیز ترین نیکیوں کا وسیلہ بن جاتی ہے۔

جی ہاں !عہدشباب سچ مچ نہایت نفیس اور بہت قیمتی متاع ہے ۔ یہ بہت بڑی خدائی نعمت ہے اور جو شخص اپنے اسلامی فرائض کو جانے اور اسے غلط استعمال نہ کرے اس کے لیے وہ ایک لذیذ نشہ ہے ۔ اس کے مقابلے میں اگر جوانی میں استقامت ، عفت اور تقویٰ نہ ہو تو پھر ہلاکت اور تباہی ہے۔ کیونکہ ایسے میں جوانی کے جذبات اور طیش آدمی کی ابدی خوشی ، اخروی زندگی اور ممکنہ طور پر دنیا کی زندگی کو بھی تباہ کر دیتا ہے، اور چند برسوں کی لذتوں اور مزوں کے بدلے اسے بڑھاپے میں طرح طرح کی مصیبتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

چونکہ اکثر لوگوں کے ہاں زمانہ شباب نقصان سے خالی نہیں ہوتا، اس لیے ہم بوڑھوں پر لازم ہے کہ اس بات پر اللہ کا شکر کریں کہ اس نے ہمیں شباب کی تباہیوں اور نقصان سے نجات دی ہے۔ اس شباب کی لذتیں بھی دوسری تمام چیزوں کی طرح لامحالہ ختم ہونے والی ہیں۔ اس لیے اگر عہد شباب کو عبادت، بھلائی اور نیکی میں لگایا جائے تو قیامت میں اس کے دائمی اور سدارہنے والے ثمرات ہوں گے، اور یہ جوانی ابدی زندگی میں ہمیشہ کی جوانی اور کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ ہوگی۔

یہ کہتے ہوئے میں نے غور کیا کہ بے شک میری بھی ایک خاص دنیا ہے جو کسی بھی دوسرے شخص کی دنیا کی طرح منہدم ہو رہی ہے، تو پھر میری اس مختصر سی عمر میں اس مخصوص دنیا کا کیا فائدہ ہے؟ چنانچہ میں نے قرآن کریم کے نور سے دیکھا کہ یہ دنیا میرے اور دیگر لوگوں کے لیے  ایک عارضی مکان کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ایک مہمان سراے ہے جو روز بھرتی اور خالی ہوتی رہتی ہے۔ یہ آنے جانے والوں کے لیے سڑک کے کنارے لگایا جانے والا ایک بازار ہے۔ یہ خالق کائنات کی کھلی کتاب ہے ، جس میں وہ اپنی حکمت کے مطابق جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور جو چاہتا ہے مٹادیتا ہے۔ اس دنیا کی ہر بہار ایک سنہری خط اور ہر موسم ایک خوب صورت قصیدہ ہے ، جو اللہ تعالیٰ کے اسماے حسنیٰ کی تجلیات کو ظاہر کرتے ہوئے بار بار آتا ہے۔ یہی دنیا آخرت کی فصل کی کھیتی اور اس کا باغ ہے۔ یہ رحمت الٰہیہ کا گلدان اور ان ابدی اور خدائی شاہکاروں کو تیار کرنے کا عارضی کارخانہ ہے، جو عالم بقاوخلود میں ظاہر ہوں گے ۔ چنانچہ میں نے دنیا کو اس شکل میں پیدا کرنے پر خالق ذوالجلال کا انتہائی شکر ادا کیا، لیکن جس انسان کو اسماے حسنیٰ اور آخرت سے تعلق والے دنیا کے دو حقیقی اور خوب صورت چہرے عطا ہوئے ہیں، اگر وہ اس محبت کو غلط جگہ استعمال کرتا ہے تو وہ اپنے ہدف سے ہٹ کر غلطی میں پڑ جاتا ہے۔ کیونکہ اس نے اس محبت کو دنیا کے فانی، قبیح اور غفلت اور نقصان والے چہرے کی طرف موڑ دیا ، یہاں تک کہ اس پر یہ حدیث صادق آتی ہے:  ’’دنیا کی محبت ہر خطا کی جڑ ہے‘‘۔

اے بوڑھے مردو! اور بوڑھی عورتو!

میں نے یہ حقیقت قرآن کریم کے نور، اپنے بڑھاپے کی نصیحت اور ایمان کے نور کے ذریعے دیکھ لی ہے اور اس کو کئی رسائل میں قطعی دلائل سے ثابت کر دیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ یہ حقیقت میرے لیے حقیقی تسلی، قوی اُمید اور کھلی روشنی ہے۔ چنانچہ میں اپنے بڑھاپے پر راضی اور شباب کے جانے پر خوش ہوا۔

اس لیے میرے بوڑھے بھائیو! تم بھی غم نہ کھائو اور اپنے بڑھاپے پر آنسو مت بہائو،بلکہ اللہ کا شکر اور اس کی تعریف کرو۔ جب تمھارے پاس ایمان کی دولت ہے تو پھر غافلوں کو رونے دو اور گمراہوں کو غم میں گھلنے اور آنسو بہانے دو۔

اے سن رسیدہ خواتین وحضرات!

یہ بات اچھی طرح جان لوکہ بڑھاپے کی عاجزی اور کمزوری اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے کرم کو متوجہ کرنے کے ذریعے کے سواکچھ نہیں۔کیونکہ میں اپنی زندگی کے کئی واقعات کی روشنی میں اس بات کا گواہ ہوں۔ اسی طرح روے زمین پر رحمت کی تجلی کا ظہور بھی بڑے واضح انداز میں ہو رہا ہے۔ حیوانات کے بچے سب سے کمزور اور ناتواں ہوتے ہیں، جب کہ رحمت کے لطیف ترین ، لذیز ترین اور خوب صورت ترین حالات کی تجلی    انھی میں نظر آتی ہے۔ کیونکہ کسی گھنے پیڑ پر آشیانے میں پڑے چوزے کی عاجزی ، اس کی ماں کو رحمت کی تجلی کے ذریعے یوں استعمال کرتی ہے جیسے وہ حکم کی منتظر ایک سپاہی ہے ۔ چنانچہ وہ سرسبز و شاداب کھیتوں کے گرد گھوم کر اپنے چوزے کے لیے وافر مقدار میں رزق لاتی ہے۔ لیکن جوں ہی وہ چوزہ پَر نکلنے اور بڑا ہونے کے بعد اپنی کمزوری کو فراموش کرتا ہے تو اس کی ماں اس سے کہہ دیتی ہے کہ اب اپنا رزق خود تلاش کرو اور اس کے بعد وہ اس کی آواز پر کوئی توجہ نہیں دیتی۔

پس جس طرح رحمت کا راز اس شکل میں چھوٹوں کے لیے جاری وساری ہے اسی طرح ضعف اور عاجزی کی وجہ سے بوڑھوں کے لیے بھی ہے، کیونکہ وہ بھی بچوں کی مانند ہو جاتے ہیں۔

مجھے اپنے ذاتی تجربات سے اس بات کا یقینِ کامل حاصل ہو گیا ہے کہ جس طرح کمزوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت چھوٹے بچوں کا رزق غیر معمولی انداز میں ماں کے سینے سے چشمے جاری کرکے بھیجتی ہے، اسی طرح گناہوں سے بچنے والے ایمان دار بوڑھوں کا رزق بھی رحمت الٰہیہ کی جانب سے برکت بن کر آتا ہے، جب کہ ہر گھر کی برکت کا مدار اور محور اس گھر کے بوڑھے ہی ہوتے ہیں۔ یہ بات ایک حد یث سے پوری طرح ثابت ہوتی ہے جس میں وارد ہوا ہے۔

اگر خمیدہ پشت بوڑھے نہ ہوتے تو تمھارے اوپر مصیبتوں کے انبار لگ جاتے۔ اس طرح چونکہ بڑھاپا، عاجزی اور کمزوری اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کو متوجہ کرنے کا سبب بنتی ہے اور قرآن کریم ان آیات میں:

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا ٓ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ط اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْ کِلٰھُمَا فَـلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّ لَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا o وَ اخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا o  (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳-۲۴) اگر ان میں  سے ایک یا دونوں تمھارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا۔ اور عجز ونیا ز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کر و کہ ’’اے پروردگار جیسا انھوں نے بچپن میں مجھے شفقت سے پالا تھا ، تو بھی ان کے حال پر رحم فرما ‘‘۔

انتہائی معجزانہ اسلوب کے ساتھ پانچ مراتب میں والدین کے ساتھ احترام اور نرمی سے پیش آنے کی دعوت دیتا ہے اور انسانی فطرت تقاضا کرتی ہے کہ بوڑھوں کے ساتھ احترام اور رحمت کا سلوک کیا جائے۔ توپھر بوڑھوں پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے اس بڑھاپے کو بچپن کے سو زمانوں سے بھی نہ بدلیں، کیونکہ اس بڑھاپے میں بہت سی روحانی لذتیں ہیں، وہ اس میں اللہ تعالیٰ کے لطف وکرم سے پھوٹنے والی رحمت اور انسانیت کی فطرت سے جنم لینے والے احترام سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

پس اے وہ شخص جو میری طرح بڑھاپے کی طرف رواں دواں ہے! اے شخص جو بڑھاپے کی علامتوں کی وجہ سے موت کو یاد کر رہا ہے! اس پر لازم ہے کہ بڑھاپے کی علامتوں کی وجہ سے موت اور بیماری کو دل سے قبول کرلیں اور قرآن کریم کے لائے ہوئے ایمان کے نور کے ذریعے اسے ایک نعمت سمجھیں، بلکہ ہم پر لازم ہے کہ ہم ایک رخ سے اس سے محبت کریں۔ کیونکہ جب ہمارے پاس ایمان کی نعمت موجود ہے تو پھر بڑھاپا اچھا ہے، بیماری اچھی ہے اور موت بھی اچھی ہے۔

میراوجدان کہتاہے کہ میراایک ایسا پالنے والا خالق ہونا چاہیے ، جو میرے دل کے  لطیف خیالات اورپوشیدہ ترین امید اور دعا کو جانتا اور سنتا  ہو اور اس کی قدرت مطلق ہو ، تاکہ وہ میری روح کی خفیہ ترین ضروریات کو بھی پورا کر ے اور اس عظیم دنیا کو بھی ایک اور دنیا سے بدل دے، تاکہ مجھے دائمی سعادت حاصل ہو جائے اور اس دنیا کو ختم کر نے کے بعد آخرت برپا کر دے۔  وہ ایسا خالق ہو کہ جس طرح وہ مکھی کو پیدا کرتا ہے ، اسی طرح آسمانوں کو بھی وجود میں لائے۔ پھر جس طرح اس نے آسمان کے چہرے کو سورج سے خوب صورتی بخشی ہے اسی طرح اس کے ایک ذرے کو میر ی آنکھ کی پتلی میں لگادیا ہے ، ورنہ جو ذات مکھی پیدا نہیں کرسکتی وہ میرے دل کے خیالات میں مداخلت کر سکتی ہے اور نہ میری روح کی عاجزی کو ہی سن سکتی ہے، اور جو ذات آسمانوں کو پیدا نہیں کرسکتی وہ مجھے ابدی سعادت بھی نہیں دے سکتی ۔ اس لیے میرا رب وہ ہے جو میرے  دل کے خیالات کو سنتا اور ان کی اصلاح کرتا ہے ۔ پس جس طرح وہ ایک لمحے میں فضا کو بادلوں سے بھرتا اور پھر خالی کردیتا ہے ، اسی طرح وہ اس دنیا کو بدل کر آخرت بھی لے آئے گا اور جنت کو آباد کرے گا، اور یہ فرماتے ہوئے اس کے دروازے کھول دے گا کہ چلو اندر داخل ہو جائو۔

اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر اور احسان ہے کہ اس نے مجھے دنیا کی ان بے حقیقت اور بے لطف لذتوں کے بجاے جن کے انجام میں بھی کوئی خیر نہیں ، ان حقیقی ، ایمانی اور دائمی لذتوں کو لا الٰہ الااللہ اور تو حید کے نور میں پانے کی توفیق بخشی ۔ میں اس کا شکر اد اکرتا ہوں کہ اس نے مجھے توفیق دی کہ بڑھاپے کو ہلکا سمجھوں،اس کی گرمی اور روشنی سے لطف اٹھاوں اور غافلوں کی طرح اس میں سردی اور بوجھ محسو س نہ کروں ۔

اے میرے بھائیو!

جب تمھارے پاس وہ نماز اور دعا ہے جو ایمان کو روشن کرتی ہے، بلکہ اس میں اضافہ کرتی اور اسے صیقل کرتی ہے، تو تم اپنے بڑھاپے کو ایک دائمی جوانی کی طرح دیکھ  سکتے ہو۔ کیونکہ اس کے ذریعے تم دارالخلود میں جوانی حاصل کر سکتے ہو، جہاں حقیقی ٹھنڈاپانی اور  بے حدوحساب عنایات ہوں گی۔انتہائی بوجھل اور بڑا بلکہ تاریک اور درد ناک بڑھاپا گمراہوں کا بڑھاپا ہوگا، بلکہ ہو سکتا ہے کہ ان کی جوانی کا بھی یہی حال ہو۔ اس لیے وہ روئیں گے، پیٹیں گے اور کہیں گے: افسوس … صد افسوس!

اے محترم مومن بوڑھو!ان کے مقابلے میں تم پر لازم ہے کہ پوری خوشی اور سرور کے ساتھ یہ کہتے ہوئے اپنے رب کا شکر ادا کرو: ہر حال پر اللہ کا شکر ہے۔

اے میرے بوڑھے بھائیو اور بہنو!

اور وہ لوگو جو میری طرح بڑھاپے میں اپنے  عزیز ترین بچے کھو چکے ہو۔ یا ان کا کوئی عزیز داغ مفارقت دے گیا ہو! اور اے وہ لوگو جن کے کاندھے بڑھاپے کا بوجھ اٹھانے سے عاجز ہیں، جب کہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے سر پر فراق سے پیدا ہونے والے زبردست غم بھی ہیں۔ اس بات میں ذرا بھی شک نہیں کہ قرآن کے مقدس دواخانے میں تمھاری ہر بیماری اور سُقم کا علاج موجود ہے۔ اس لیے اگر تم ایمان کے ذریعے دواخانے سے رجوع کر سکو اور عبادت کے ذریعے ان کا علاج کرو تو یقینا تمھارے کاندھوں پر پڑے بڑھاپے اور سر پر اٹھائے غموں کے بوجھ کا وزن اور زور کم ہو جائے گا۔

مطلب یہ ہے کہ انسان کو ہلاک اور تباہ کرنے والی سب سے بڑی چیزاحباب کا بچھڑنا ہے۔ جس وقت میری روح کسی سہارے اور مدد کو تلاش اور لا محدود فراق، جدائیوں اور تباہ کاریوں اور عظیم اموات سے پیدا ہونے والے غموں اور دکھوں سے نجات کے لیے کسی تسلی کی منتظر تھی، اچانک قرآن معجز بیان کی اس آیت نے میرے لیے اطمینانِ قلب کا سامان کر دیا: سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُo لَـہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ج  وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o (حدید۵۷:۱-۲) ’’اللہ کی تسبیح کی ہے ہراُس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے،اور وہی زبردست اور دانا ہے۔ زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک وہی ہے، زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے، اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔

دنیا ویران اور غیر آباد ہے اور نہ کوئی تباہ شدہ شہر، جیسا کہ میں غلطی سے سمجھتا تھا، بلکہ  مالکِ حقیقی اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق انسان کی بنائی ہوئی عارضی تصویروں کو دوسری تصویروں سے بدل کر اپنے پیغامات کی تجدید کرتا ہے ۔ اس لیے جس طرح درخت پر ایک پھل کٹنے کے بعد نیا پھل لگتا ہے، اسی طرح بشریت میں فراق اور زوال بھی تجدید اور تجدد کے لیے ہے۔ اس کی وجہ سے تکلیف دہ غم پیدا نہیں ہوتا، بلکہ ایمان کے رخ سے ایک لذیذ غم ملتا ہے، جس کا سرچشمہ وہ فراق ہوتا ہے جس کا اختتام وصال کی پُرکیف لذت پرہوتاہے۔

اے میرے بوڑھے بھائیو اور میری سن رسیدہ بہنو!

اور اے وہ لوگو جو بڑھاپے کی وجہ سے میری مانند بہت سے احباب کے فراق کا درد واَلم گھونٹ گھونٹ کر کے پی رہے ہو!میں روحانی طور پر اپنے آپ کو تم سے زیادہ بوڑھا سمجھتا ہوں اگر چہ تم میں ایسے لوگ ہیں جو عمر میں مجھ سے بڑے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی تکلیف کے علاوہ میں اپنے ہزاروں بھائیوں کی تکلیف بھی محسوس کرتا ہوں، کیونکہ میری فطرت میں اپنے ابناے جنس کے لیے بڑی نرمی اور شفقت پائی جاتی ہے۔ اس وجہ سے مجھے یوں تکلیف ہوتی ہے جیسے میں سیکڑوں سال کا پیر فرتوت ہوں۔ اس کے مقابلے میں تمھیں فراق کا جتنا بھی درد ہو، تمھیں میری تکالیف اور مصیبتوں کا سامنا ہی نہیں ہوا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا کوئی بیٹا نہیں کہ میں اس کی فکر کروں ، مگر میں اپنی فطرت میں پوشیدہ شفقت کی وجہ سے ہزاروں فرزندانِ اسلام کی تکالیف اور مصائب کو بلکہ جنگلی جانوروںتک کی تکلیف کو بھی محسوس کرتا ہوں۔ علاوہ ازیں میں اپنے آپ کو اس ملک بلکہ پوری اسلامی دنیا سے جڑا ہوا سمجھتا ہوں۔ اس ملک اور اسلامی دنیا سے میرا تعلق ایسا ہے جیسے اپنے گھر سے ہوتا ہے، حالانکہ میرا اپنا کوئی ذاتی گھر نہیں کہ میرے ذہن کا تعلق اس سے ہو۔ اس لیے میں اس ملک اور اسلامی دنیا کے تمام مسلمانوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کے فراق پر غمگین ہوتا ہوں۔

جب ایمان کا نور میرے لیے پوری طرح کافی ہو گیا اور اس نے میرے بڑھاپے اور جدائی کی تکالیف سے پیدا ہونے والے تمام اثرات کا خاتمہ کر دیا، اور مجھے مایوس نہ ہونے والی اُمید، نہ ختم ہونے والی آس، نہ بجھنے والی روشنی اور نہ ختم ہونے والی تسلی دے دی ہے، تو پھر ضروری ہے کہ ایمان تمھارے لیے بھی بڑھاپے سے پیدا ہونے والے اندھیروں اور اس کی غفلت اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات اور درد واَلم کے مقابلے میں بھی کافی ہو جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ سیاہ بڑھاپا اہل ضلالت اور بے وقوفوں کا ہے، اور سب سے زیادہ تکلیف دہ جدائی اور درد بھی انھی کا ہے۔

جی ہاں، وہ ایمان جو اُمید پیدا کرتا ہے ، جو نور پھیلاتا اور تسلی دیتا ہے، اس تسلی اور لذت کا احساس شعوری طور پر اس بندگی کو بجا لانے سے ہوتا ہے جو بڑھاپے کے مناسب اور اسلام کے موافق ہو۔ یہ احساس بڑھاپے کو بھلانے اور نوجوانوں سے مشابہت اختیار کرنے کی کوششوں اور ان کی نشہ آور غفلت میں گھسنے سے نہیں ہوتا۔ ہمیشہ اس حدیث پر غور وفکر کرو کہ تمھارے سب سے اچھے نوجوان وہ ہیں جو بوڑھوں سے مشابہت اختیار کریں اور سب سے بُرے بوڑھے وہ ہیں جو تمھارے نوجوانوں سے مشابہت اختیار کریں۔مطلب یہ ہے کہ سب سے اچھے نوجوان وہ ہیں جو تحمل ، متانت اور بے وقوفی سے بچنے میں بوڑھوں سے مشابہت اختیار کریں، اور سب سے بُرا بوڑھا وہ ہے ، جو بے وقوفی اور غفلت میں نوجوانوں سے مشابہت اختیار کرے۔

میرے بوڑھے بھائیو اور بوڑھی بہنو!

ایک حدیث کا مفہوم ہے: اللہ کی رحمت کو  اس بات سے حیا آتی ہے کہ کسی بوڑھے مومن مرد یا عورت کے دعا کے لیے اٹھے ہاتھ کو خالی لوٹا دے ۔ پس جب اللہ کی رحمت تمھارا احترام کرتی ہے تو تم بھی اللہ کی بندگی کر کے اس کا احترام اورتعظیم کرو۔ ہم اُس عالم کی جانب رواں دواں ہیں جہاں نبی کریمؐ تشریف لے گئے ہیں۔    اسی عالم کی طرف جارہے ہیں جو اس سراجِ منیر کے نور اور اس کے گرد ہالہ کیے ہوئے بے شمار  اصفیا واولیا کے ستاروں سے روشن ہے ۔ نبی کریم ؐکی سنت کی پیروی ہی آدمی کو آپؐ کی شفاعت کے جھنڈے تلے کھڑے ہونے، آپؐ کے انوار سے روشنی لینے، اور برزخ کے اندھیروں سے نجات کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔