ڈاکٹر محمد محب الحق


ارون دھتی راے نے خبردار کیا ہے کہ :Fascism,s firm footprint has appeared in India. Let us mark the date spring 2002 [ہندستان میں فسطائیت کا مضبوط نقشِ قدم ظاہر ہو چکا ہے جس کی تاریخ [بھارتی] گجرات میں ۲۰۰۲ء میں ہونے والی مسلمانوں کی نسل کشی سے طے کی جانی چاہیے۔]

اگر ہم دنیا کے مختلف ممالک میں فسطائیت کے عروج کی تاریخ پر نظر ڈالنے کے بعد، ہندستان میں فسطائیت کو پروان چڑھانے کے لیے پورے ماحول کو دیکھیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تقریباً چھے سو سالہ مسلمانوں کی حکومت ، ڈیڑھ سو سالہ انگریزی سامراجیت (جسے بھارتی فسطائی طاقتیں ، عیسائی حکومت بنا کر پیش کرتی ہیں )،۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے دوران نسلی فسادات کا ایک طویل سلسلہ، بھارت اور پاکستان کا ایک نیو کلیر طاقت کی حیثیت سے موجود ہونا اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ وجدل اور دشمنی ، ہندستان میں تقریباً ۲۰کروڑ مسلمانوں پر اپنی آبادی میں اضافے (Population explosion) کا الزام، عیسائیوں کی تقریباً ڈھائی کروڑ کی آبادی پر مذہب تبدیل کرانے کا الزام، مسئلہ کشمیر جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں پر ایک تحریک کا وجود القاعدہ اور داعش، جیسی خوف ناک تنظیموں کا خطرہ اور سب سے بڑھ کر عالمی سطح پر’ اسلام فوبیا‘ کی موجودگی___ یہ ایسے اسباب وعوامل ہیں، جو اس ملک میں فسطائیت کی پرورش کے لیے معاون قرار دیے جارہے ہیں، اور جن کا استعمال ’ہندوتوا‘ پر مبنی جماعتیں اپنے مقاصد وعزائم کی تکمیل کے لیے کر رہی ہیں۔

خطرناک صورتِ حال یہ ہے کہ ہندستان میں نسل پرست فسطائی طاقتوں اور خوش حال اور درمیانی کاروباری گھرانوں میں زبردست تال میل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ لہٰذا ، ذرائع ابلاغ جن پر کاروباری گھرانوں کو تقریباً مکمل کنٹرول حاصل ہے، وہ فسطائی نظریات کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ نتیجے کے طور پر پورے ہندستان میں ایک خوف ناک دشمنی کا ماحول پیدا ہورہا ہے۔ ایک خاص قسم کا ’قومی ضمیر ‘ (National Conscience )تیار ہو چکا ہے۔ جس میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں پر زیادتیوں کے لیے ایک قسم کی ’عمومی قبولیت‘ (Mass approval ) نظر آتی ہے۔ دادری میں گائے کا گوشت کھانے کے صریحاً جھوٹے الزام میں جس طرح محمد اخلاق کا بے رحمی سے قتل کیا گیا اور ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوںمیں گوشت کا کاروبار کرنے والوں اور مویشی سپلائی کرنے والوں پر جس طرح زیاتیاں کی جا رہی ہیں، وہ اس ہسٹیریائی ماحول کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔

دوسری طرف عیسائیوں کے اداروں اور ان کے اہل کاروں پر حملے تیز تر ہو گئے ہیں۔ محروم طبقات، مثلاً دَلت، قبائلی لوگوں اور عورتوں پر بھی فسطائی نظریات کے تحت ظلم وزیادتی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ۲۰۱۶ء کے اوائل میں حیدر آباد سینٹرل یونی ورسٹی میں ایک دَلت طالب علم روہیت ویمولا کی خود کشی بھی اس امر کا ثبوت ہے۔ یہ تمام باتیں اشارہ کرتی ہیںکہ ہندستان میں فسطائیت کا خطرہ حقیقی ہے جس کی دستک اور لہر تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔

فسطائیت کے عروج کے عوامل:

آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ فسطائیت کے عروج کے عوامل بھارت میں کس حد تک موجود ہیں اور فسطائی تحریک کا منطقی انجام کیا ہو سکتا ہے؟ اس حقیقت کو جاننے کے لیے چند اہم نکات پر نظر ضروری ہے، جو درج ذیل ہیں:

پروپیگنڈا فسطائیت کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔ لہٰذا فسطائی طاقتوں کو پروپیگنڈا کرنے میں مہارت حاصل کرنی پڑتی ہے۔ ان کے پاس ایسے منظم کارکنان ہونے چاہییں، جو کسی بھی جھوٹ یا ادھوری سچائی کو لوگوں میں سچ بنا کر پیش کریں اور سراسیمگی، خوف وہراس کا ماحول پیدا کریں۔ نازی جرمنی میں وزیر براے پروپیگنڈا جوذف گویبلز (Joseph Goebbls) کہا کرتا تھا: If you repeat a lie often enough, it becomes the truth (اگر تم کسی جھوٹ کو بار بار بولو تو وہ سچ بن جاتا ہے)۔

ہندستان میں راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ کے پاس ایسے بے شمار کارکنان موجود ہیں، جو اقلیتوں، محروم طبقات، مسلم دینی اور سوشلسٹ سیکولر جماعتوں ، امن پسند ہندوئوں کے خلاف پروپیگنڈا میں مہارت رکھتے ہیں اور ذرائع ابلاغ میں گہرے اثرونفوذ کے باعث جو پوری طرح چھا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ: ’’یہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مجرم ہیں، کیوں کہ یہ مسلمان ’ہم پانچ ہمارے پچیس ‘ پر یقین رکھتے ہیں‘‘___یہ پروپیگنڈا سراسر جھوٹ پر مبنی ہے مگر اس پر ملک کی ایک بڑی آبادی یقین رکھتی ہے۔ یعنی یہ کہ ایک مسلمان چارشادیاں کرتا ہے اور ایک بیوی سے اس کے گن کر پانچ بچے پیدا ہوتے ہیں، لہٰذا ایک مسلمان مرد کی فیملی ۲۵؍ افراد پر مشتمل ہوتی ہے ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ: ’’مسلمانوں کی آبادی اسی طرح بڑھتی رہی تو بہت جلد وہ ہندستان میں اکثریت میں آجائیں گے‘‘۔

حالاں کہ اس پروپیگنڈے کو عام عقلی بنیادوں (common sense ) پر ہی مسترد کیا جاسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر مسلمانوں میں عورتوں اور مردوں کی شرح برابر بھی مان لی جائے تو ایک مرد کو شادی کے لیے ایک عورت اپنی قوم سے مل جائے گی، لیکن بقیہ تین عورتیں دوسری قوموں سے حاصل کرنی پڑیں گی۔ تاہم، مردم شماری بتاتی ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں تشویش ناک حد تک کم ہے۔ ایسی صورت میں دوسری قوموں کے کم از کم ۵۰ فی صد لوگ غیرشادی شدہ رہ جائیں گے۔ افسوس کی بات ہے کہ یہ سامنے کے حقائق بھی ذرائع ابلاغ یا دانش ور پیش نہیں کرتے اور مسلمانوں کو ’لَو جہاد‘ کے الزام میں زیادتیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کی ’گھر واپسی‘[یعنی دوبارہ ہندو بنانے] کی کوشش کی جاتی ہے۔

بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی ۔ معروف مؤرخ ڈاکٹر تنیکا سرکار صاحبہ نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے، ۲۰۰۲ء میں گجرات نسل کشی کے دوران میں عورتوں اور بچوں پر ہونے والے مظالم کا تجزیہ کیا ہے۔ تنیکا سرکار کے مطابق : ’’مسلمان مردوں میں بھرپور جنسی توانائی اور مسلمان عورتوں کی زرخیزی سے متعلق ایک گہرا افسانوی نوعیت کا جنسی جنون (obsession)پیدا کیا اور پھیلایا گیا ہے، جو مسلمانوں کی آبادی سے متعلق خوف وہراس اور   ردِعمل میں انتقام اور خونخواہی [revenge] کے جذبے کو جنم دیتا ہے ۔ گجرات نسل کشی کے دوران عورتوں پر ہونے والے ایک ہی نوعیت کے وحشیانہ مظالم (pattern of cruelty)کو  پیش کرتے ہوئے تنیکا سرکار کہتی ہیںکہ: ’’فسادات میں انتہاپسند ہندو بلوائیوں کا شکار ہونے والی مظلوم مسلمان عورتوں کے جسم جنسی تشدد کے لامحدود نشانات کی آماج گاہ تھے، جس پر نت نئی قسم کی اذیتوں کے گھائو دیکھے جاسکتے تھے۔ ان عورتوں کے جملہ جنسی اعضا خاص قسم کی وحشت کے ساتھ نشانہ بنائے گئے اور ان کے مولود یا نومولود بچوں نے ان درد ناک اذیتوں کو اپنی مائوں کے ساتھ جھیلا ۔ ان کی مائوں کو ان کے سامنے مارا گیا اور بچوں کو مائوں کے سامنے اذیتوں اور سفاکیوں کا نشانہ بناکر قتل کیا گیا۔

پروفیسر تینکا سرکار کہتی ہیں کہ: ’’اجتماعی تشدد کے تجزیے میں زنا بالجبر کو کسی قوم کی اجتماعی رسوائی اور بے عزتی سمجھا جاتا ہے۔ گجرات پریس نے ۸۰ ہندو عورتوں کے قتل کی یہ ایک من گھڑت کہانی پھیلائی کہ ’سامبر متی ایکسپریس‘ میں قتل سے پہلے ان ہندو عورتوں کی آبروریزی کی گئی۔ یہ ایک ایسا بے معنی پروپیگنڈا تھا، جس نے مسلمان عورتوں کے خلاف ظلم کی شدت کو بڑھاوا دیا ۔ طوفان گزرجانے کے بعد اس کہانی کو خود گجرات پولیس نے بھی سرے سے من گھڑت اور جعلی قرار دیا‘‘۔ (مگر اب اس کا کیا فائدہ تھا؟)

رابرٹ اوپیکسٹن نے لکھا ہے کہ فسطائی طاقتوں کو ایک ’وحشت ناک دشمن‘ (Demonized  Enemy) کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے خلاف اپنے کارکنان اور مقلدین کو منظم ہونے کے لیے آمادہ کیا جا سکے۔ لیکن یقینا دشمن کا یہودی ہونا ضروری نہیں ہے۔ ہر کلچر   اپنے اپنے قومی دشمن خود طے کرتا ہے۔ 

پیکسٹن کے مندرجہ بالا تجزیے کی روشنی میں گولوا لکر کے نزدیک ’اندرونی دشمن‘ (مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹ ) کا ہوّا کھڑا کرنے کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ان دنوں خاص طور پر سوشل میڈیا پہ    خود بھارت کے قومی رہنمائوں گاندھی، نہرو وغیرہ کو ہدف ملامت بنایا جارہا ہے اور اس کے مقابلے میں صبر اور عدل کی بات کرنے والے بھلے لوگوں کو بھارتی اکثریتی عوام کا مخالف بلکہ دشمن بنا کر پیش کیا جارہا ہے، اور یہ سب ایک سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ ہے۔

جہاں تک تخیلاتی ’وحشت ناک دشمن‘ کا تعلق ہے، تو مسلمانوں، عیسائیوں اور کمیونسٹوں کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا جاری ہے۔ سنگھ پریوار جس میں آر ایس ایس، وشواہندو پریشد، بجرنگ دل ، درگا واہنی، اور اس طرح کی تقریباً ساٹھ جماعتیں شامل ہیں، وہ سب اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف زبر دست پروپیگنڈا میں مصروف ہیں۔ وشوا ہندو پریشد نے احمدآباد اور مضافات میں مسلمانوں کے خلاف معاشی بائیکاٹ کا اشتہار جاری کیا ہے، جو اس طرح کے مضمون پر مشتمل ہے:

وشواہندو پریشد، ستیم شیوم سندرم

جاگو! اٹھو! سوچو!ملک بچائو! مذہب بچائو!

معاشی بائیکاٹ ہی واحد مؤثر ذریعہ ہے۔ ملک دشمن عناصر، ہندوئوں سے کمائی ہوئی دولت کا استعمال ہمیں برباد کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ وہ ہتھیار خریدتے ہیں اور ہماری عورتوں اور بچیوں کی عصمتیں لوٹتے ہیں۔ ان کی اقتصادی ریڑھ کی ہڈی توڑنے کا طریقہ ہے، ایک معاشی عدمِ تعاون کی تحریک ۔

آئو عہد کرو:

  1. آج کے بعد میں کسی مسلمان کی دکان سے کچھ نہیں خریدوں گا اور نہ انھیں کچھ بیچوں گا۔
  2. ان ملک دشمن لوگوں کے ہوٹلوں اور گیراجوں کا استعمال نہیں کروں گا۔
  3. اپنی گاڑیاں صرف ہندو گیراجوں میں دوںگا، ایک سوئی سے سونا تک۔
  4. میں مسلمانوں کے ذریعے بنائی ہوئی اشیا نہیں خریدوں گا اور نہ اپنی بنائی ہوئی چیزیں انھیں بیچوں گا۔
  5. ان فلموں کا بائیکاٹ کرو، جن میں مسلمان ہیرو اور ہیروین کام کرتے ہیں۔
  6. مسلمانو ں کے دفاتر میں کام مت کرو اور نہ انھیں اپنے یہاں کام دو۔
  7. اپنے تجارتی مراکز میں نہ انھیں جگہ خریدنے دو اور نہ اپنی رہایشی کالونیوں میں انھیں جگہ دو۔
  8. ووٹ ضرور دو ،لیکن صرف اسے جو ہندو راشٹر کی حفاظت کرے۔
  9. ہوشیار رہو! اسکولوں ، کالجوں اور ملازمت گاہوں پر ہماری بہنیں اور بیٹیاں مسلمانوں کی محبت کے جال سے محفوظ رہیں۔
  10. میں کسی مسلمان استاد سے کوئی تعلیم کبھی نہیں لوں گا۔

اس طرح کا معاشی بائیکاٹ ان عناسر پر عرصۂ حیات تنگ کر دے گا۔ یہ ان کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دے گا۔ اس کے بعد ان کے لیے اس ملک کے کسی بھی کونے میں رہنا دشوار ہو جائے گا۔ دوستو! اس معاشی بائیکاٹ کو آج ہی سے شروع کر دو۔ اس کے بعد کوئی مسلمان ہمارے سامنے سر نہیں اُٹھائے گا۔ کیا آپ نے یہ اشتہار پڑھا ہے؟ اس کی دس کاپیاں بنا کر ہمارے بھائیوں میں تقسیم کرو۔ جو لوگ اسے نافذ اور تقسیم نہ کریں ان پر ہنومان جی کا قہر اور رام چندر جی کا عتاب نازل ہو۔

جئے شری شری رام، ایک سچا ہندو وطن پرست 

عیسائی رفاہی اور تعلیمی اداروں کے خلاف یہ تنظیمیں زبردست پروپیگنڈے کا جال بچھاتی ہیں۔ نتیجے کے طور پر عیسائیوں کے ادارے اور ان کے مشنری کارکنان، سنگھ کے نشانے پر رہتے ہیں۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں عیسائی مشنری کارکنان کو اپنے مشنری کاموں میں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

۱۹۹۹ ء میں اڑیسہ کے منوہر پور گائوں (ضلع کیونجھر Keonjhar) میں آسٹریلیا کے عیسائی مشنری گراہم اسٹینسن کو، جوکوڑھ کے مریضوں کے درمیان خصوصی طور پر کام کرتے تھے اور جو اڑیسہ کے قبائلی علاقوں میں کافی مقبول تھے، انھیں ان کے دوبچوں کے ساتھ بجرنگ دل کے ورکرز نے داراسنگھ کی قیادت میں زندہ جلا دیا۔ ۲۰۰۸ء میں اڑیسہ کے ہی کندھمال میں عیسائیوں پر اکثریت نواز ہندوئوں نے قہر برپا کیا اور کئی عیسائیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ عیسائی عورتوں کی بے دریغ آبروریزی، چرچوں کو جلانے وغیرہ جیسے روح فرسا مناظر دیکھنے میں آئے۔ 

’مفروضہ اندرونی دشمن‘ کے خلاف پروپیگنڈا کے ذریعے ایک جارحانہ اکثریت پسند قوم پرستی کو پروان چڑھانا اور پھر ایک ایسا معاشرہ پیدا کرنا جس میں ’مفروضہ اندرونی دشمن‘ کے خلاف زیادتیوں اور مظالم کے لیے عوامی تائید (Mass approval )حاصل ہو جائے، فسطائی طاقتوں کا اہم مقصد ہوتا ہے۔

تشویش کی بات یہ ہے کہ ہندستانی معاشرہ ایک خاص قسم کا شعور رکھنے والے گروہ کو بھی جنم دے رہا ہے۔ یہ ایک ایسا گروہ ہے جس کی تعداد شروع میں بہت کم تھی، لیکن آہستہ آہستہ یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ گروہ اقلیتوں پر مظالم کو بڑھاوا دیتا ہے اور ایسے وحشیانہ مظالم ڈھانے والوں کو تحفظ دے کر ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ گجرات نسل کشی ۲۰۰۲ء میں مسلمانوں پر جو زیادتیاں ہوئیں اس کی مثال مہذب دنیامیں بہت کم ملتی ہے۔ مثال کے طور پر وشوا ہندو پریشد کا اشتہار جس پر اس تنظیم کے گجرات کے جنرل سکریٹری چینو بھائی پٹیل کے دستخط ہیں، کھلے عام تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس اشتہار میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ ’’ہم مسلمانوں کی اسی طرح ختم کر دیں گے جس طرح بابری مسجد کو ‘‘۔ اس کے بعد ایک انتہا درجے کی فحش (vulgar)نظم درج ہے۔

’دہشت گردی‘ کا نام لے کر مسلمانوں کی گرفتاریاں، اسلام اور تشدد کو مترادف کے طور پر استعمال کرنا، اور یہ کہنا کہ: ’اگر سارے مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں تو سارے دہشت گرد مسلمان ضرور ہیں‘۔ زعفرانی دہشت گردی کو مسلم دہشت گردی کا ردعمل بتانا وغیرہ بھی فسطائی طاقتوں کی سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ ہے۔ چوں کہ فسطائی طاقتوں کو ہرلمحے ایک دشمن کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے اگر کوئی حقیقی دشمن نہیں ہے تو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ایک دشمن ایجاد کر لینا ضروری ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس ، مالیگائوں بم دھماکوں، مکہ مسجد اور اجمیر شریف بم دھماکوں میں زعفرانی دہشت گردوں کی شمولیت اور گرفتاریاں ثابت کر چکی ہیں کہ ان تمام بم دھماکوں میں معصوم مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا، اور ان معصوم نوجوانوں کی گرفتاریوں کے بارے میںملک کی خفیہ ایجنسیاں اور ریاستی پولیس من گھڑت کہانیاں بنا کر ایک پوری قوم کے خلاف شکوک وشبہات پیدا کر رہی تھیں۔

عجیب با ت یہ ہے کہ ناندیر اور کانپور میں بجرنگ دل کے پارٹی دفاتر اور لیڈروں کے گھروں سے خودکار آتشیں اسلحہ جات اور دھماکہ خیز مواد کا ذخیرہ پکڑا گیا۔ وہاں ٹوپیاں اور نقلی داڑھیاں بھی پائی گئیں، لیکن ذرائع ابلاغ نے ا س پر کوئی زیادہ توجہ نہیں دی۔ اگر ہیمنت کرکرے جیسا قابل اور ایمان دار افسر نہ ہوتا تو شاید زعفرانی دہشت گردی بدستور مسلمانوں کے سر ہی منڈھی جاتی رہتی۔

اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت کے داخلہ سکریڑی جی کے پیلانی نے کہا تھاکہ: ’’زعفرانی دہشت گردی ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن ملک میں اس کا دائرہ محدود ہے‘‘۔وزیر داخلہ پی چدمبرم نے دہلی میں ہونے والی ریاستی پولیس سربراہان ، خفیہ ایجنسیوں وغیرہ کی میٹنگ میں زعفرانی دہشت گردی سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی۔ چدمبرم کے بعد وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز سنیل کمار شنڈے نے کہا کہ جے پی اور آر ایس ایس اپنے ٹریننگ کیمپوں میں ’ہندو دہشت گردی‘ کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔

فسطائی طاقتیں تعلیمی اداروں اور ذرائع ابلاغ پراپنا مکمل کنٹرول رکھنا چاہتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سماجی علوم اور بطور خاص تاریخ کے نصاب پر زبردست توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ ہندستان میں جاری Saffronisation of Education (تعلیم کی زعفرانیت، یعنی ہندو انتہاپسندانہ تعلیم) کا منصوبہ اس لیے بہت ہی اہم ہے۔ نومبر ۲۰۰۱ء میں سینئر لیڈر اور وزیر براے فروغ انسانی وسائل ارجن سنگھ نے راجیہ سبھا میں بی جے پی کی قیادت میں چلنے والی نصابی کتابوں میں تبدیلی کی تحریک کو ’طالبانی تعلیم‘ کہا تھا۔ جس پر بی جے پی نے واویلا کھڑا کیا اور ارجن سنگھ سے الفاظ واپس لینے کو کہا۔ لیکن بھارتی صدر پرنب مکھرجی نے دفاع کرتے ہوئے کہا کہ دوسری طرف (راجیہ سبھا میں ) بیٹھے ہوئے ممبران فسطائی بھی ہیں اور طالبانی بھی۔

ہندستان میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی اپنی مذہبی اور تہذیبی شناخت کے ساتھ رہتی ہے۔ چوں کہ پاکستان ایک ہمسایہ مسلم ملک ہے، اس لیے فسطائی طاقتوں کو ہندستانی مسلمانوں کا رشتہ پاکستان سے جوڑ کر اکثریت کی نگاہوں میں ملک کے ساتھ ان کی وفاداری مشکوک بنانے میں آسانی ہوتی ہے۔ رہی سہی کسر مسلمانوں کے بعض غیر ذمہ دار لیڈر اور ٹیلی ویژن پر بلائے جانے والے کم عقل دانش ور پوری کر دیتے ہیں۔

فسطائی طاقتوں کو اس دن پوری کامیابی حاصل ہو جاتی ہے، جب وہ اکثریت میں اقلیت کا خوف بٹھا کر اسے خود اقلیت کی طرح سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہ تشویش کی بات ہے کہ میڈیا کنٹرول کے ذریعے اور مختلف دوسرے ذرائع ابلاغ کی مدد سے سنگھ پر یوار نے ہندو اکثریت کے ایک بڑے طبقے کو اس حد تک متاثر کر دیا ہے کہ وہ اقلیتوں کی طرح سوچنے لگے ہیںاور انھیں مسلمانوں اور عیسائوں سے اس ملک میں ’ہندومت کو خطرہ ‘ درپیش لگنے لگا ہے۔ زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ اس پروپیگنڈ ا سے صرف عام لوگ متاثر نہیں ہیں بلکہ نیوز روم میں بیٹھے ہوئے افراد ، یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھانے والے اساتذہ اور سرکاری افسران ، عدالتوں میں بیٹھے جج اور وزراے حکومت، بہت سارے لوگ اس منفی نظریے پر یقین کرنے لگے ہیں۔ تاہم، اس پروپیگنڈا کو چیلنج کرنے والے لوگ بھی مختلف اداروں اور معاشرے میں موجود ہیں۔

ان تمام باتوں کی روشنی میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ہندستان میں فسطائیت نے دستک دے دی ہے۔ ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں مدمقابل جماعتوں کی شکست اور ووٹوں کا انتشار ایک تشویش ناک صورتِ حال سامنے لایا۔ حکومت میں ایسے افراد کا شامل ہونا جن کے اوپر نسل پرستی اور اقلیتوں کے قتلِ عام کا الزام ہے، وزراے حکومت کے بیانات جو خوف ناک حد تک غیرذمہ دارانہ ہیں۔ مسلم مکُت ’بھارت ‘کی تحریک کا اعلان کرنا اور عدالتی فعالیت کا خاموش رہنا، گئورکھشا آندولن کے نعروں کے جلو میں بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرنا، سیاسی سطح پر حزبِ اختلاف کا کمزور ہونا لمحۂ فکریہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ خطرے کی گھنٹی بھی۔ اس لیے ضروری ہے کہ جرمنی اور اٹلی میں فسطائی طاقتوں کے عروج کا تاریخی شعور رکھتے ہوئے اور ان ممالک کے انجام کو دیکھتے ہوئے بھارت کے دانش ور اور لیڈرحضرات، عوام کو فسطائی طاقتوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے آگاہ کر کے ہوشیار اور بیدار کریں۔

ان تمام باتوں کے باوجود اُمید کی کرن نظر آتی ہے۔ ہندستان کا معاشرہ ایک تکثیری معاشرے کی تاریخ رکھتا ہے۔ جہاں مختلف مذاہب ، زبان، ثقافت اور ذاتوںکے لوگ رہتے چلے آئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہندو اکثریت میں ایک بہت بڑا طبقہ قتل اور خون کی سیاست کی نہ صرف مذمت کرتا ہے بلکہ اس کا مقابلہ بھی کرتا ہے۔ اعزازات کی واپسی کی تحریک اس بات کا ثبوت ہے ۔ پھر دلتوں، آدی واسیوں، پس ماندہ طبقات، جیسی سماجی تحریکیں فسطائی طاقتوں کو قدم قدم پر روکتی رہتی ہیں۔ عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ نے بھی حفاظتی اقدامات کے لیے کئی صورتوں میں اہم کردار اداکیا ہے۔ اس لیے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہندستان میں فسطائی طاقتیں بہت آسانی سے ملک اور سماج پر پوری طرح حاوی نہیں ہو سکتیں۔ دوسری جانب اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کو ان طاقتوں کے عروج کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔ لیکن اگر اقلیتیں دوسرے محروم طبقات، مثلاً دَلت، پس ماندہ، اور قبائل کے ساتھ مل کر پُرامن مگر منظم جدوجہد کریں، تو فسطائیت کے اس طوفان کو روک سکتی ہیں۔ (مکمل)

جھوٹ، مکروفریب اور نفرت و عداوت پر مبنی جارحانہ اکثریتی قوم پرستی کی آڑ میں سیاسی اقتدارپر قابض ہونے والے نظریے کو ’فسطائیت‘ (Fascism)کہتے ہیں ۔ تاریخی حقائق کو    توڑ مروڑ کر پیش کرکے ایک خاص قسم کا تاریخی و تہذیبی شعور پیدا کرنا، مفروضہ اور اندرونی و بیرونی خطرات کے تعلق سے خوف و ہراس کی نفسیات پیدا کر کے اکثریت کے جذبات کو برانگیختہ کرنا،  اعلیٰ اخلاقی و جمہوری اقدار کے تئیں نفرت و بے گانگی کا اظہار کرنا، اور خصوصی طور پر اقلیتوں کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنا فسطائی نظریے کی اہم خصوصیات ہیں۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ فسطائیت کا مقصد صرف سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنا نہیں ہوتا، بلکہ سیاسی طاقت کا استعمال بڑے اہم اغراض و مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ دراصل فسطائی طاقتیں سیاسی اقتدار کے ذریعے مملکت اور معاشرت پر پوری طرح قابض ہوکر مملکت کی تمام طاقت (پولیس، فوج، خفیہ ایجنسیاں، مقنّنہ، انتظامیہ، عدلیہ وغیرہ) کا استعمال اندرونی اور بیرونی مفروضہ یا حقیقی دشمنی کے خلاف کرتی ہیں۔ لہٰذا قتلِ عام (genocide)، نسل کشی (brutal war) اور جنگ و جدل (ethnic cleansing) فی الحقیقت فسطائیت کی روح اور بنیاد میں شامل ہیں۔

۲۰ویں صدی میں فسطائیت کی خوف ناک شکل جرمنی (۱۹۳۷ء-۱۹۴۵ء) اور اٹلی (۱۹۲۲ء-۱۹۴۳ء) میں دیکھنے کو ملی، جو بالآخر دوسری جنگ ِ عظیم (۱۹۳۹ء-۱۹۴۵ء)کا سبب بنی۔ لیکن یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ فسطائیت مذکورہ دو ممالک ہی میں محدود رہی ہے اور دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد اس نظریے کا خاتمہ ہوگیا۔ ایسا نہیں ہوا بلکہ فسطائیت اپنی مختلف گھنائونی اور بدترین شکلوں میں دنیا کے کئی اور ممالک میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ آبادی کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ بھارت میں اس کی دستک روز بروز تیز تر ہوتی جارہی ہے۔

فسطائیت، جمہوریت کی سیڑھی سے، یا استحصال کرکے بیلٹ بکسوں کے راستے، یا پھر مسلح طاقت کے استعمال کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوتی ہے۔ لہٰذا، جمہوریت کو فسطائیت کے سیلاب کے سامنے بند باندھنے کا وسیلہ سمجھ بیٹھنا خام خیالی ہوگی۔ دراصل جمہوریت کا استحصال کر کے اکثریتی قوم پرستی کے نقاب میں چھپ کر آنے والی فسطائیت زیادہ بااثر ، زیادہ طاقت ور اور زیادہ خوف ناک ہوتی ہے،{جیساکہ جرمنی کے تجربے سے ثابت ہوچکا ہے۔

ہندو فسطائیت کی آمد: تاریخی پس منظر

۲۰ویں صدی کے آغاز سے ہی بھارت میں ’اکثریت پسند قوم پرستی‘ کی بنیاد ڈالنے کی کوشش شروع ہوگئی تھی، اور ’بھارتی قوم پرستی‘ کو ’ہندو قوم پرستی‘ کا لبادہ پہنانے کی سعی ہونے لگی تھی۔ ۱۹۱۴ء-۱۹۱۵ء میں ’ہندو مہاسبھا‘ کا قیام اور ۱۹۲۵ء میں آر ایس ایس (راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ) کی بنیاد دراصل اس کوشش کا نتیجہ ہے۔

یوں تو جرمن نسل پرست ہٹلر اور اطالوی نسل پرست مسولینی کی حکمرانی کے زمانے سے ہی بھارت کی اکثریت پسند تنظیموں نے فسطائی نظریات سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوششیں تیز کر دی تھیں اور فسطائیت کے علَم برداروں سے براہِ راست تعلق پیدا کرنے کی سعی بھی کی، جس کی تفصیل اطالوی دانش ور مارزیا کیسولاری (Marzia Casolari) کی عالمانہ تحقیق The Fascist Heritage and Foreign Connections of RSS Archival Evidence میں درج ہے۔ لیکن عالمی سطح پر فسطائیت کی شکست ِ فاش اور قومی سطح پر کانگریس کی قیادت میں جاری تحریک ِآزادی نے ’ہندوتوا‘ پر مبنی جارحانہ قوم پرستی کو ناقابلِ قبول بنا دیا تھا۔ فسطائیت کی بنیاد ہیرو پرستی (Hero Worship) پر بھی ہوتی ہے۔ اتفاق سے آزادی کے وقت بھارت کے قومی سیاسی دھارے میں اعتدال پسند لیڈروں کی مؤثر تعداد موجود تھی۔ ان لیڈروں کے مقابلے میں     قومی سیاسی دھارے میں ’ہندوتوا‘ کے علَم برداروں کے پاس کوئی ایسا لیڈر موجود نہیں تھا جو ہیرو کے طور پر عوام میں مقبولیت حاصل کرپاتا۔ اس لیے ہندو مہاسبھا اور اس کی معاون تنظیمیں انڈین نیشنل کانگریس [تاسیس: ۲۸دسمبر ۱۸۸۵ء]سے سیاسی انتخابات میں پے درپے شکست کھاتی رہیں۔

فسطائیت کی سب سے بڑی طاقت جارحانہ اور اکثریت پسند قوم پرستی ہوتی ہے۔ چوں کہ قوم پرستی کے لبادے میں احیاپرستی کو چھپا کر فسطائیت ایک عرصے تک لوگوں کو مغالطے میں رکھنے میں کامیاب رہتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ تاریخ کے گہرے مطالعے کی روشنی میں ہندستان میں فسطائی تحریک اور اس کے معاون کلچر کو سمجھا جائے۔ بعض اوقات فسطائیت ابتدا میں ہی اپنی  شدت پسندی کی وجہ سے بے نقاب ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر ۳۰جنوری ۱۹۴۸ء کو گاندھی جی کے قتل نے بھارت میں ’ہندوتوا‘ پر مبنی جارحانہ قوم پرستی کے نظریے کو پوری طرح بے نقاب کر دیا تھا، جس کی وجہ سے ’ہندو فسطائیت‘ یہاں کمزور ہوگئی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس وقت کی سیاسی قیادت نے اسے ملک کے لیے زیادہ بڑا خطرہ نہیں سمجھا اور اس خطرناک نظریے کو ملک میں دوبارہ قدم جمانے کا موقع مل گیا۔

بھارت میں فسطائیت کے خطرے سے متعلق سیاسی مبصرین اور اہلِ نقد و نظر نے حکومت اور عوام کو مسلسل ہوشیار کرنے کی کوشش کی اور اس کے خوف ناک نتائج سے آگاہ بھی کیا۔ چیتنیا کرشنا نے اپنی مرتب کردہ کتاب Fascism in India: Faces, Fangs and Facts  میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بھارت کو فسطائیت کا حقیقی خطرہ لاحق ہے۔ چیتنیا کرشنا نے یہ تسلیم کیا ہے کہ بھارت میں فسطائیت اپنی آمد کا اعلان کرچکی ہے۔{ معروف ادبی تخلیق کار اور سماجی کارکن ارُون دھتی راے [پ: ۲۴ نومبر ۱۹۶۱ء]نے گجرات میں فروری، مارچ ۲۰۰۲ء میں ہونے والی مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد ملک میں فسطائیت کے جمتے ہوئے قدموں کو خطرناک قرار دیا ہے۔ بھارت کے مشہور سیاسی تجزیہ کار اور مفکر رجنی کوتھاری [م:۱۹ جنوری ۲۰۱۵ء] نے گجرات نسل کشی ۲۰۰۲ء کے بعد ’ہندوتوا‘ کے بڑھتے ہوئے اثرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔{  اور ’ہندوتوا‘ کو ہندستانی تہذیب کے لیے سب سے بڑا خطرہ بتایا ہے۔ نوبل انعام یافتہ دانش ور اور ماہر معاشیات امرتیاکار سین [پ:۳نومبر ۱۹۳۳ء] نے بھی بارہا ’ہندو توا‘ پر مبنی ثقافتی قوم پرستی کو ملک کے لیے تباہ کن بتایا ہے۔

۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کی زبردست کامیابی کے بعد وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر نریندرا مودی کا فائز ہونا دانش وروں کو خدشات میں مبتلا کرچکا ہے۔  اس کی وجہ سے دانش وروں کا ایک بڑا طبقہ ملکی سیاست اور معاشرت کو ایک خاص سمت میں جاتا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ملک میں رُونما ہونے والے واقعات دانش وروں کے خدشات کو صحیح ثابت کر رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کے بعد جس طرح ’ہندو توا‘ پر مبنی جارح قوم پرستی ایک سماجی طاقت بن کر اُبھر رہی ہے اور زبردست جذباتی لاوا (lava) پیدا کررہی ہے، وہ   آنے والے دنوں میں ایک ہولناک شکل اختیار کرسکتی ہے۔

’لوّجہاد‘ ، ’گھرواپسی‘،’گئورکھشا آندولن‘، ’بھارت ماتا کی جے‘ ،’سوریہ نمسکار‘ ،’یوگا‘،   کیرانہ سے ہندوئوں کی نقل مکانی، کشمیر میں پنڈتوں اور فوجیوں کے لیے علیحدہ کالونی، آسام اور شمال مشرقی ریاستوں میں بنگلہ دیشی دَراندازی کا مسئلہ کھڑا کرنا، تاریخی حقائق کو ایک خاص انداز سے پیش کرنا، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کو مشکوک اور متنازع بنانا، وغیرہ تمام واقعات ایک خاص قسم کا سماجی شعور پیدا کرنے کی کوشش کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن ان تمام واقعات کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے بھارت میں فسطائیت کی تاریخ اور اس کی نظریاتی اساس کو سمجھنا ہوگا۔

ہندو فسطائیت کی نظریاتی اساس

بیسویں صدی کے اوائل میں بھارت میں دو رجحانات اور نظریات پروان چڑھتے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف متحدہ طور پر تحریک ِ آزادی تھی اور دوسری جانب فرقہ وارانہ اور متعصب قوم پرستی کا آغاز ہوا ہے۔ ۱۸۵۷ء کی شورش کے بعد ہی برطانوی حکومت کی ’تقسیم اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کے نتیجے میں ’ہندو فرقہ واریت‘ کی ابتدا ہوگئی تھی۔ مغلیہ دورِحکومت میں رائج فارسی اور اُردو زبان کےخلاف باضابطہ تحریکیں شروع ہوگئیں۔ انگریزی حکومت کو عرضداشتیں دی جانے لگی تھیں کہ: ’ہندی کو سرکاری کام کاج کی زبان بنایا جائے‘۔

ہندو نسل پرستی کو تقویت بخشنے کے لیے ۱۰؍اپریل ۱۸۷۵ء کو ’آریہ سماج‘ کا قیام بھی عمل میں آیا، جس کے تحت ’شدھی تحریک‘ چلائی گئی اور بہت سارے علاقوں میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنانے کی کوشش کی گئی۔ دراصل ’آریہ سماج‘ نے یہ نظریہ پھیلانا شروع کیا کہ: ’’مسلم حکمرانوں کے زیراثر اور عیسائی مشنریوں کے بہکاوے میں آکر بہت سارے ہندو مسلمان یا عیسائی ہوگئے ہیں، اس لیے انھیں دوبارہ ہندو بناکر ’شدھ‘ یا پاک کیا جانا ضروری ہے‘‘۔ یہاں پر یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہی وہ حالات تھے جن کے تحت بانی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سرسیّداحمد خان [م:۱۸۹۸ء] کے افکار و خیالات میں ہندستان کی مشترکہ تہذیب کے حوالے سے زبردست تبدیلی آئی اور انھوں نے اُردو، فارسی کی بقا و تحفظ کی تحریک چلائی۔ ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کی سیاسی نمایندگی کی بھرپور وکالت کی۔ سیاسی مبصرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ۳۰دسمبر۱۹۰۶ء کو ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام بھی انھی مخصوص حالات اور مسلم تشخص کے بقا کی وجہ سے ہوا۔ ازاں بعد مسلم لیگ کی سیاست کو حوالہ بناکر ہندواحیا پرستی کی تحریک نے پیش رفت میں سہولت محسوس کی۔

بھارت میں فسطائیت کی نظریاتی بنیاد رکھنے والوں میں ونایک دامو ورساورکر  ڈاکٹر کیشوبلی رام ہیڈگیوار مادھو سدا شیو گولوالکر  کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ جیساکہ بتایا گیا ہے ساورکر نے اپنی کتاب Hindutva: Who is Hindu? میں ’ہندوتوا‘ کے نظریے کو سب سے پہلے مربوط طریقے سے پیش کیا تھا۔ ساورکر نے بھارت کو ہندوئوں کا ملک بتایا اور اس بات پر زور دیا کہ: ’’یہ ہندوئوں کی ’پوترا بھومی‘ اور ’پونیا بھومی‘ دونوں ہے ،کیوں کہ ہندوئوں کو ہی اس ملک کی تہذیب وراثت میں ملی ہے۔ وہ ہندستان کی تہذیب کے وارث اور محافظ ہیں ۔ ان کے ہیرو، ان کی تاریخ ، ان کا ادب، آرٹ اوررسم و رواج، سب اس تہذیب کی ترجمانی کرتے ہیں‘‘۔

ساورکر کے نزدیک: ’’مسلمانوں اور عیسائیوں کو بھی اس ملک میں مشترک ’پدریت‘ (fatherhood ) میں حصے داری ملی، لیکن چوں کہ ان کے مقاماتِ مقدسہ، ان کے ہیرو اور ثقافت کا تعلق یہاں سے نہیں ہے، لہٰذا انھیں اس مشترک تہذیب میں حصے داری نہیں مل سکتی، جس پر صرف اور صرف ہندوئوں کا حق ہے‘‘۔ اس طرح سے ساورکر نے بھارتی قوم پرستی کی بنیاد ’ہندوتوا‘ پر ڈالی اور باقی قوموں کو اس قوم پرستی سے اس بنیاد پر علیحدہ کیا کہ ان کے مقاماتِ مقدسہ عربیہ یا فارسی وغیرہ میں ہیں۔ مختصر یہ کہ ساورکر نے ہی دراصل ’’ہندی، ہندو، ہندستان‘‘ جو کہ آج سنگھ پریوار  کا خاص نعرہ ہے اور جو سنگھ کی سیاست کی اساس ہے، کی اس ملک میں بنیاد ڈالی۔ بعد میں ہیڈگیوار اور گولوالکر نے ہندستانی قومیت سے مسلمانوں اور عیسائیوں کو دست بردار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ: ’’اُنھیں دوبارہ ہندو بنایا جائے تاکہ اس ملک میں ایک متحدہ قومیت پنپ پائے‘‘۔

درحقیقت بھارتیہ جنتاپارٹی، آر ایس ایس وغیرہ جب یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو ’مکھ دھارے‘ میں شامل ہونا چاہیے تو ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس ملک کی تہذیب و ثقافت سے جوڑ کر دیکھیں اور طارق، خالد، علی، حسین، محمد، فاطمہ، عائشہ، زینب وغیرہ جیسے نام رکھ کر بیرونی کرداروں سے خود کی شناخت نہ کرائیں۔ عیسائی اپنے آپ کو ڈیوڈ، جوزف، میری وغیرہ کی جگہ رام، سیتا، ہنومان، کرشنا وغیرہ سے جوڑیں، اور اس کا اظہار مسلمانوں اور عیسائیوں کے ناموں اور ان کے اداروں سے ہونا چاہیے۔ یہاں تک کہ مساجد اور چرچوں کی عمارتیں بھی ہندستانی تہذیب کی عکاسی کریں۔ لہٰذا،مینار و گنبد اور چرچوں کی تعمیر کا طریقہ ہندستان کی تہذیب کے خلاف ہے۔

مادھو سارشو گولوالکرسے منسوب کتاب Bunch of Thoughts [گل دستۂ افکار] (۱۹۶۶ء) میں ’ہندوتوا‘پر مبنی بھارت میں فسطائیت کی نظریاتی اساس کی اصل جھلک ملتی ہے۔ چوں کہ گولوالکر نے ۱۹۴۰ء سے لے کر ۱۹۷۳ء تک آر ایس ایس کی قیادت کی، اس لیے گولوالکر کے افکار و خیالات آر ایس ایس کے کام کاج کے طریقوں پر آج تک حاوی ہیں۔ آج جو کچھ بھی   سنگھ پریوار کرتا یا کہتا ہے، اس کی جڑیں گولوالکر کے افکار میں ہی ملتی ہیں۔ اس کتاب کے تعارف میں ایم اے وینکٹ رقم طراز ہے کہ: جس طرح مسلمانوں سے پہلے کے حملہ آوروں کو قومی معاشرت میں ضم کرنے میں ہندستانی سماج نے کامیابی حاصل کی تھی، مگر مسلمانوں کے معاملے میں وہ ناکام رہا ہے۔ یہ ایک کڑوی سچائی ہے جسے قومی آزادی کے رہنمائوں نے یکسرنظرانداز کیا۔ انھوں نے یہ سوچ کر بہت بڑی غلطی کی کہ اکثریت کی قیمت پر مسلمانوں کو مراعات دے کر انھیں جیتا جاسکتا ہے۔رعایتیں حاصل کرنے والوں کے اندر جب تک نظریاتی تبدیلی نہیں آتی، اس وقت تک مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا‘‘۔{

گولوالکر کے مطابق: ’’مسلمانوں کا انضمام ممکن بھی ہے اور ضروری بھی، لیکن اس کے لیے صحیح فلسفے، صحیح نفسیات اور صحیح حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ لیکن ہندستانی لیڈر ایسی کوئی بھی تکنیک وضع کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ اپنی زبردست غلطیوں پر مسلسل گامزن رہے، حتیٰ کہ مادرِ وطن کو تقسیم کرنا پڑا۔ افسوس وہ آج بھی انھی غلطیوں پر قائم ہیں اور اس طرح وہ ایک اور پاکستان کو بڑھاوا دے رہے ہیں‘‘۔

قابلِ غور ہے کہ گولوالکر نے جہاں حملہ آوروں کا ذکر کیا ہے، وہاں مسلمانوں کے علاوہ شکاس(Shakas)، ستھیانس (Sythians) اور ہُنز (Huns ) کا ذکر کیا ہے لیکن دانستہ طور پر آریائی حملے کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ حالاں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہےجو مختلف تحقیقات سے ثابت ہوچکی ہے کہ آریائی نسل کے لوگوں کا تعلق ہندستان سے نہیں بلکہ یورپ اور وسطی ایشیا سے ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ آریائی نسل کے لوگوں کی آمد سے قبل ہندستان میں ایک شان دار تہذیب موجود تھی، جسے ’وادیِ سندھ کی تہذیب‘ کہتے ہیں اور بہت سارے مؤرخین اور محققین کا تسلیم کرنا ہے کہ یہ تہذیب آریائی حملے میں تباہ ہوئی۔ اس لیے آریائی نسل کے لوگ بھی اس ملک میں اسی طرح باہر سے آئے، جیسے شکاس، ستھیانس اور ہُنز اور مسلمان آئے تھے۔ تمام غیر جانب دار دانش ور اور محقق اس بات کو نہایت ہی شدومد کے ساتھ اُٹھاتے ہیں۔

مزید یہ کہ ’ہندوتوا‘ کے علَم برداروں کے نزدیک ہندستان کی تہذیب دراصل ’ویدک تہذیب‘ یا ’آریائی تہذیب‘ ہی ہے اور تمام لوگ جو ہندستان کی تہذیب میں اپنی حصہ داری یا نمایندگی چاہتے ہیں انھیں اسی ’ویدک تہذیب‘ سے خود کو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ لہٰذا، تمام مذاہب کے ماننے والوں، مثلاً بدھ مت، جین مت، سکھ مت، مسلمان، عیسائی وغیرہ خود کو اس تہذیب، یعنی ’ہندوتوا‘ میں ضم کرنا ہوگا۔ اپنی علیحدہ شناخت کو ختم کر کے ’ہندوتوا‘ کے رنگ میں رنگنا ہوگا۔

Bunch of Thoughts  میں تین اندرونی خطرات‘ کی نشان دہی کی گئی ہے، اور سب سے پہلا خطرہ مسلمانوں کو بتایا گیا ہے، دوسرا عیسائیوں کو اور تیسرا کمیونسٹوں کو۔{مسلمانوں کے متعلق کہا گیا ہے کہ ’’ہمارے لیے یہ سوچنا خودکشی کے مترادف ہوگا کہ پاکستان بننے کے بعد (ہندستانی) مسلمان راتوں رات وطن پرست ہوگئے ہیں بلکہ مسلم خطرناکی، پاکستان کے قیام کے بعد سو گنا بڑھ گئی ہے، کیوں کہ پاکستان مستقبل میں ہندستان کے خلاف مسلم جارحیت کا مرکز ہوگا‘‘۔

اسی کتاب میں مشرقی پاکستان، یعنی بنگلہ دیش میں ہندوئوں کی نقل مکانی کا ذکر ہے اور بنگال، بہار، اترپردیش اور دہلی میں ہونے والے ’ہندو مسلم فسادات‘ میں آر ایس ایس کے ممبران کی گرفتاریوں کا تذکرہ ہے۔ گولوالکر کا دعویٰ ہے کہ اس نے اس وقت کے ملک کے اہم لیڈر ولبھ بھائی پٹیل [م:دسمبر۱۹۵۰ء]سے ملاقات کی اور انھیں ہندستان میں مسلمانوں سے درپیش خطرات کا ذکر کیا، جس پر سردار پٹیل نے کہا کہ: ’’تمھاری بات میں سچائی ہے اور آر ایس ایس کے تمام کارکنان کو چھوڑ دیا گیا‘‘۔(ایضاً، ص۱۸۱)

اس کتاب میں ’ٹائم بم‘ کے نام سے ایک ضمنی عنوان ہے، جس میں مغربی اترپردیش میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ دہلی سے لے کر    رام پور اور لکھنؤ تک دھماکا خیزحالات پیدا ہورہے ہیں، اور اس موہوم امکانی صورتِ حال کا ۱۹۴۶ء-۱۹۴۷ء کے حالات سے موازنہ کیا گیا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ یہ بے معنی اور خلافِ واقعہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ’’متذکرہ علاقوں میں مسلمان ہتھیار جمع کر رہے ہیں اور اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ جب پاکستان ، ہندستان پر حملے کرےگا تو وہ اندرونی طور پر ملک کے خلاف بغاوت کردیں گے اور مسلح جدوجہد شروع کردیں گے‘‘۔(ایضاً)

گولوالکر اور ساورکر اور اس کے بعد دین دیال اوپادھیائے جیسے لیڈران کو ’سَنگھ پریوار‘ [یعنی: ہندو قوم پرست ’تنظیموں کا خاندان‘]میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ دراصل یہ تمام لیڈر ’سنگھ پریوار‘ کی نظریاتی اساس بچھانے والوں میں شامل ہیں۔ آج ’سنگھ‘ کی سیاسی شاخ ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اور جو کچھ ہوسکتا ہے، وہ ان لیڈروں کی تحریروں اور تقریروں سے پتا چل سکتا ہے۔[جاری]