زیربحث سوال سے منسلک مختصر تحریر میں جہاں عالمی سطح پر مسلمانوں کی محکومیت اور بے چارگی کا رونا رویا گیا ہے،وہاں دوسری جانب خود مسلمانوں میں فکری تضادات اور انتشار کے بحران کا ذکر کیا ہے۔ ہماری رائے میں یہ انداز عصر رواں میں عمومی طور پر پائے جانے والی ثقافت کا مظہر ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ دنیا’دارِ تکلیف‘ ہے۔ ہمیں اس دنیا کی زندگی کے حوالے سے جواب دہ ٹھیرایا گیا ہے۔ دین کے احکام پر حتی المقدور عمل کے حوالے سے ہم سے آخرت میں باز پُرس ہو گی۔
اسلامی تاریخ کے آغاز ہی سے ہمارے دینی اسلاف، حق کے ساتھ تعلق اور عمل کی اہمیت اُجاگر کرتے رہے ہیں۔ خلق قرآن کے مسئلہ پر جب امام احمد بن حنبل [م:۸۵۵ء] کو تفتیش و تعذیب‘ (inquisition) کے دوران سخت ترین حکومتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو کچھ مسلمانوں نے افسوس کے ساتھ امام سے کہا کہ أو لا تری الحق کیف ظھر علیہ الباطل (کیا آپ دیکھتے نہیں باطل کیسے حق پر غالب آ گیا؟)۔ اس موقعے پر امام احمد بن حنبلؒ کا یہ جواب سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے:
کلا، ان ظھور الباطل علی الحق ان تنتقل القلوب من الھدی الی الضلالۃ، وقلوبنا بعد لازمۃ للحق،باطل کا حق پر غلبہ اور تسلط تب ہوتا ہے جب قلوب و اذہان ہدایت سے گمراہی کی جانب منتقل ہو جائیں۔ (درآں حالیکہ) ہمارے دل اب بھی حق کے ساتھ چمٹے اور جڑے ہوئے ہیں۔
چنانچہ اصل تشویش ناک صورت حال وہ ہے کہ جس میں حق، انسان کے قلب میں مغلوب، ایمان متزلزل اور اعتزاز بالدین برائےنام رہ جائے۔ اس ضمن میں یہ اَز حد ہمت افزا قول ملتا ہے:
دولۃ الباطل ساعۃ، دولۃ الحق الیٰ قیام الساعۃ، باطل کی قیادت و غلبہ تھوڑے وقت کے لیے ہے، جب کہ حق کی سربلندی اور فرماں روائی قیامت تک کے لیے ہے۔
اسی مفہوم کو شاہ عبدالقادر محدث دہلویؒ[م:۱۸۱۴ء]نے سورۃ الفتح آیت ۲۸ میں ’اظہارِ دین‘ کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’اسلام کا غلبہ ظاہر میں بھی ایک مدّت تک رہا اور یہ دلیل سے ہمیشہ غالب ہے‘‘۔ جدید تہذیب، آزادی کے نشے میں ایسی چُور ہوئی ہے کہ اجتماعی زندگی کے دائمی اصول اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ انسان کی آزادیاں اس کی مصیبت کا سبب بن گئیں، کیوں کہ وہ فطری حدود سے متجاوز ہو گئیں۔ انفرادیت پسندی کے ڈانڈے عمرانی اور سیاسی نقطۂ نظر سے ’نراج‘ (Anarchy) اور عدم اقدار (Nihilism) سے جا کر مل جاتے ہیں۔ چنانچہ نٹشے [م:۱۹۰۰ء]کا فلسفہ خود پسندی، عدل و مساوات کی اخلاقی اقدار اور مملکت و معاشرت کی ذمہ داریوں کو ڈھکوسلا قرار دیتا ہے۔
جدید مغربی فلسفہ وفکر کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں اخلاق و تہذیبی اقدار کی مابعد الطبیعی بنیاد کا اب کوئی تصور نہیں رہا ہے۔ پولینڈ کے فلسفی زگمنٹ بائومین [م:۲۰۱۷ء] کی کتاب Life in Fragments (ٹکڑوں میں بٹی زندگی) میں درج ہے کہ یورپ اور امریکا میں پڑھے لکھے لوگ ذہنی طور پر ایک خلا (void) اور انکارِ کُل (Nihilism) میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ راگ رنگ اور جنسیت زدگی کے مقبولِ عام کلچر نے عوام و خواص کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ یونانی و رومی تہذیبی فکر اور عیسائیت کے وجود اور کائنات کے حوالے سے بنیادی روحانی تعبیر ترک کرنے کے فکری و سماجی اسلوب نے ہستی اور بین الانسانی تعلق خاطر کی بنیادوں کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔
حقیقت میں اب وہاں خود انسان کا وجود خطرے میں ہے۔ بہت سے مقالے اور کتابیں Post Human Scenario [مابعد انسانیت]سے متعلق شائع ہو رہی ہیں۔ جرمن فلسفی ہائیڈیگر، ناسا کا چیف سائمن رامو، ادموند ہوسرل، امریکی نفسیات دان ایرک فروم، ہربرٹ مارکوزے، اڈرنو اوریاک ہائمر کی کتاب The Dialectic of Enlightenment مغرب کے فلسفۂ روشن خیالی کو خرافات قرار دیتی ہے۔ مطلقیت اور آفاقیت بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ امریکی فلسفی ایڈم کرش کی کتاب The Revolt Against Humanity: Imagining a Future Without Us کے مباحث اس حوالے سے چشم کشا اور مایوس کن ہیں۔فرانسیسی دانش ور مثل فوکو کا خیال ہے: ’’ انسان ڈیڑھ دو سو سال میں اس کرئہ ارضی سے غائب (erase) ہو جائے گا‘‘۔
ان مغربی مفکرین کے خیال میں: ’’چونکہ انسان نے گذشتہ تاریخی ادوار میں فطرت اور حیوانی انواع کے ساتھ منفی رویہ اختیار کیے رکھا ہے، اس لیے اب اس کا یہاں سے ہٹ جانا ہی بہتر ہے۔ یہ پوزیشن Anthropocene Anti-humanism ہے۔ چنانچہ ’انسانیت‘ کے تصور اور تعین کو بدلنا ازحد ضروری ہے۔ یعنی ’انسان‘ کے اس پورے تصور کو ملیامیٹ کر دینا ہو گا جو وحی، ادیان اور عرفانی لٹریچر میں مذکور ہے۔آزادی، ڈویلپمنٹ اور لامتناہی سائنسی یا ٹکنالوجیکل ترقی کے ساتھ اب دعویٰ موت کو شکست دینے کا بھی ہے۔ (اگرچہ اس میں یہ یقیناً کامیاب نہیں ہو سکیں گے)۔
بہرحال، دوسری جانب مغرب ہی میں بعض ایسے سنجیدہ فکر اور علمی تجزیہ و تحلیل کے علَم بردار مفکرین بھی ہیں،جن کی تصانیف میں مغرب کی ٹکنالوجیکل اور ڈیجیٹل ترقی پر نہ صرف سخت تنقید ہے بلکہ اسے ’’انسانیت کے لیے انتہائی منفی قرار دیا ہے‘‘۔ تہذیب حاضر کے انھی نقاد مصنّفین کے ساتھ کارل آر ٹرومین اور جان گرے کی تحریریں مغربی تہذیب وکلچر سے وہم کے ازالے (Disillusionment) کا کھل کر اظہار کرتی ہیں۔ اور ساتھ ہی ’ہیومن کنڈیشن‘کی کلچرل اور نفسیاتی ناہمواریوں کے بارے میں سخت ذہنی کرب اور تشویش کے ساتھ بنیادی سوالات اٹھاتی ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ اب مغرب میں ’اکیڈیمیا‘ کے کچھ اعلیٰ حلقوں میں بنیادی علمی سوالات کو وجودی اور روحانی تناظر میں دیکھنے کا رجحان بھی پیدا ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں یورپ اور امریکا کے مقامی اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات و خواتین کا بالخصوص حلقہ بگوشِ اسلام ہونا اور انتہائی محنت سے مسلم ممالک میںطویل عرصہ قیام پذیر رہ کر دینی علوم کو حاصل کرنا اور پھر اسلام کی حقانیت کو نہ صرف اپنے آبائی خطوں بلکہ بین الاقوامی سطح پر پیش کرناہے۔ حقیقت یہ ہےکہ وطن عزیز پاکستان بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم، قرآن و سُنّت کی تعلیمات کو اعلیٰ علمی سطح پر پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بانی انجمن خدام القرآن ڈاکٹر اسرار احمدؒ[م: ۲۰۱۰ء]نے قرآن و سنت کی تعلیمات اپنے فہم کے مطابق نصف صدی سے زیادہ عرصہ دُنیا کے طول و عرض میں انتہائی پُرجوش اور انقلاب آفریں انداز میں پھیلائیں۔ دوسری جانب بعض اسلامی دعوتی و سیاسی جماعتیں ’ترقی‘ اور’ اقتصادی فلاح‘ کو مذہبی اصطلاحات سے ملا کر آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ تاہم، اس نوع کی پیوندکاری سے اب کام نہیں چلے گا۔ سطحی باتوں سے باہر نکل کر دینِ متین کی تعلیمات اور احکام کو ٹھیٹھ انداز میں اس طرح پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مفہومات سے اوپر اُٹھ کر وجودی و ایمانی احوال کے طو رپر محسوس ہوں۔
عصری سماجیات پر گہری نظر رکھنے والے جناب حامد کمال الدین کتاب انسان دیوتا کے حق میں پاپ میں رقم طراز ہیں:
نظام سے تو شریعت خداوندی یہاں بہت پہلے فارغ کرائی جا چکی۔ اب تو وہ ذہنوں سے کھرچ دی جانے لگی ہے ۔’معاشرے‘ سے بے دخل ٹھیرائی جانے لگی ہے۔ ’نظام‘ کی بحثیں اٹھانے والے خدارا معاملے کی صحیح پوزیشن کو سمجھیں۔ اس جنگ کا محاذ فی الوقع ’سماج‘ ہے نظام نہیں ہے، یعنی صحیح معنوں میں ایک غربت اسلام جو ہمیں درپیش ہے۔ یہاں آپ کو ’تعلیم عقیدہ‘ کی سطح پر آنا اور جاہلیت کے ساتھ ایک گہرا اختلاف اٹھانا ہو گا۔ ایک ’سماجی محاذ‘ اٹھانے تک جانا ہو گا۔ اسے ’ملتوں‘ اور تہذیبوں کی آویزش بنانا ہو گا۔ مسئلے کو ’شرک اور توحید‘ کی بنیاد پر لینا ہو گا: کیونکہ ’ہیومن ازم‘ کے ساتھ فی الواقع ہمارا اسی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اس سے کم سطح کا کوئی بھی علاج مرض کو اور بھی تقویت دے گا۔
مراد یہ ہے کہ ہمارے اسلامی سیکٹر کو ایکٹوازم کے غیر مؤثر افعال کو کم کر کے، مؤثر مشاغل کی طرف جانا چاہیے۔ معاملے کو کسی ایک ’سیاسی سکیم‘ یا برسوں پر محیط ’تعلیمی و تربیتی پروگرام‘ میں محصور جاننا نتائج کے اعتبار سے نتیجہ خیز نہیں رہا ہے۔ ہمیں سیکولرزم، ہیومن ازم اور جدیدیت یا بالفاظِ دیگر ’ایمان بمقابلہ کفر‘ کے مباحث کو فرد سے افراد اور سماج تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی ایکٹوازم اور دعوتی و علمی و تعلیمی فعالیت میں جوہری تنوع ہے۔ پُرجوش تقاریر کےبجائے علمی واصلاحی مجالس اور حلقات کا اہتمام اُمّت کی روایت اور افراد میں پائیدار ذہنی تبدیلی لانے اور معاشرے میں دین اور دینی شعائر کے لیے ایک عروج پیدا کرنےکا کارگر منہج رہا ہے۔
کورین دانش ور اور سماجی نظریۂ ساز بیان چل ہان (Byung Chull Han) عہدحاضر میں نیو لبرل ازم، کیپٹل ازم اور ڈیجیٹل ٹکنالوجیز کے نتیجے میں پیدا شدہ نظاماتی تبدیلیوں اور انسانی صورت حال میں رُونما تغیرات پر گہری نظر رکھتا ہے ۔ ہان کا مضمون Why Revolution is Impossible Today? ? اسلامی احیاء کا کام کرنے والوں کے مطالعے میں آنا چاہیے۔ پچھلی صدی میں جتنی بھی انقلابی تحریکات اٹھیں، دینی ہوں یا لادینی، وہ جس نظام کو بدلنے کی خواہش مند ہیں، وہ سسٹم یا نظام کیا ہے جیسے سوال کا کوئی نہ کوئی جواب اپنے تصورات میں ایک پوشیدہ مفروضے کے طور پر رکھتی ہیں۔ انھی بیانات یا مفروضوں پر آج تک جدوجہد جا ری ہے، مگر سسٹم کی بنیادوں کو چیلنج نہیں کیا جاسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ انقلاب کا ذوقِ ندرت فکر و عمل کا طالب ہوتا ہے۔
بیان چل ہان، جدید ڈیجیٹل ماحول میں زندگی بسر کرنے والے کو Homo Digitalis قرار دیتا ہے۔ ہر سسٹم اپنے Devotional Objects پیدا کرتا ہے۔ ڈیجیٹل عہد کا معروض ’سمارٹ فون‘ ہے، جس نے فرد کو اندر باہر ہر دو طرح سے بدل دیا ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ’سمارٹ فون‘ کی سکرین پر ہر وقت مادیت اور نفس پرستی پر مبنی تصاویر اور شیطانی کلچر کو فروغ دیاجا رہا ہے۔ مادہ پرستی اور فحش مظاہر اور مناظر لوگوں کے مزاج کا حصہ بن گئے ہیں۔ ان مناظر سے بے شمار نفسیاتی بیماریاں اور خانگی زندگی میں تلخیاں پیدا ہو رہی ہیں۔حقیقت میں ہم ایک ایسے عہد میں جیتے ہیں، جو اپنی تشکیلی ساخت میں متعدد عناصر و عوامل کا ماحصل اور مرہونِ منت ہے۔ کچھ عوامل و عناصر تاریخی ہیں اور ماضی بعید سے تعلق رکھتے ہیں، اور کچھ عناصر کو ظہور پذیر ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔
تاریخی عناصر میں روم و یونان کا کردار، قرونِ وسطیٰ میں پائے جانے والے باطل عقائد اور پُرتشدد عمل، احیائے علوم، روشن خیالی، عقلیت اور اصلاح مذہب کی تحاریک، سائنسی انڈسٹریل انقلاب، ’انقلاب فرانس‘ وغیرہ ہیں، جو تمام جغرافیائی طور پر یورپ سے اُبھرے ہیں۔ ان تمام عناصر کے مجموعی نتائج کو ہم ’جدیدیت‘ کے لفظ سے بیان کرتے ہیں، جس کی علمیت، مابعد الطبیعیات اور اقدار ماضی کی اکثر روایتوں سے تضاد کی نسبت رکھتی ہیں۔اسی کے نتیجے میں ’جدید انسان‘ نے جنم لیا، جو اپنے تئیں خود آگاہ، مگر حقیقت میں خود اور خدافراموش‘ اور ماضی سے قطعی مختلف شعور کا حامل تھا۔ جو’آفاق‘ کا حِس کی شرط اور اساس پر اور ’انفس‘ کا جبلت (Instinct)کی بنا پر ادراک کرتا تھا۔ اس جدید انسان اور اس کے نظریات و تصورات کی یورپ سے ہمارے ہاں آمد استعمار (colonialism)کے ذریعے سے ہوئی۔
عہد حاضر کی تشکیلی ساخت میں وہ عناصر جو حالیہ چند عشروں سے معرضِ وجود میںآئے ہیں، وہ انفارمیشن اور ڈیجیٹل ٹکنالوجیز، سائبر سپیس اور اب ’مصنوعی ذہانت‘ (AI) ہیں۔ ان کی آمد اپنے اثرات کی دُنیا میں سب سےوسیع اور نفوذ و تاثیر میں بہت گہرا واقعہ ہے۔ یہ جدیدیت کا سب سے جدید مظہر ہے۔ ’جدیدیت‘ نے جس طاقت اور معیشت کے نظام کو جنم دیا تھا، اس کو ’سائبر سپیس‘ کی صورت میں گھر میسر آ گیا ہے ۔ علم اور تعلق کا مطلب اور درو بست تبدیل ہو گیا ہے۔ جدید معاشروں میں دینی اور روایتی زندگی کے اگر کوئی امکانات تھے تووہ اور بھی زیادہ کم ہوتے جا رہے ہیں۔
انسانی علوم، تعلقات، تہذیبی و ثقافتی مظاہر میں اعلیٰ و ادنیٰ، بلندی وپستی، معیاری و غیرمعیاری، اخلاقی و غیر اخلاقی کی تقسیم کو محفوظ رکھنے والے خطوط و معیارات اب دھندلاتے جارہے ہیں۔ اس کو بعض فلسفی ’مابعد جدیدیت‘ قرار دیتے ہیں،لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ ’جدیدیت‘ ہی کا تسلسل ہے اور انسانی زندگی پر اس کے انتہائی نتائج ہیں۔حقیقت میں یہ ایسی مسلسل تغیر پذیر صورت حال ہے، جس سے ہم سب دوچار ہیں اور ایک جال ہے جس کا ہم شکار ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا حاضر و موجود صورتِ حال کی معرفت اور جدیدیت کے کچھ نسبتاً تازہ مظاہر کو تفہیم و تجزیہ کی بنیاد قرار دیے بغیر حالات کی درست تفہیم اور صائب نظاماتی تجزیہ (systemic analysis) ممکن ہے؟ المیہ یہ ہے کہ جدیدیت کی ایک نسبتاً پرانی تفہیم پر کلی نظاماتی تحلیل و تجزیہ کی بنیاد اُٹھائی جاتی ہے۔ نظام کی سطح پر تبدیلی کو انقلاب قرار دینا ایک خاص تاریخی صورت حال کا نتیجہ ہے۔ بجائے انقلاب اور تبدیلی کے ان تصورات، جو اپنا ایک خاص تاریخی سیاق و سباق رکھتے ہیں، ان کا استنادی مقام و مرتبہ یا جواز مذہبی متون میں تلاش کیا جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انھیں اپنے عہد میں ہونے والے تغیرات سے متعلق رکھا جائے۔ سسٹم کی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں، انسانی نفس پر ہونے والی تاثیرات او ر طاقت و معیشت کے تصورات میں ہونے والے تحولات کا ادراک کیا جائے، اور ایسا زندہ تناظر دریافت کیا جائے، جو حاضرو موجود اسلوب حیات سے متعلق ہو۔ دوسرے لفظوں میں باطل کی نئی صورتوں اور ہئیتوں کو زیر بحث لایا جائے جسے علامہ اقبالؒ نے یوں نمایاں کیا ہے ؎
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
ہمارے ’جدیدیت گزیدہ‘ اور مغرب پرست خواتین و حضرات کے علمی و ذہنی افق پر نظر ڈالیں تو ان میں کثیر تعداد متداول علوم ،سائنسی و سماجی علوم،پڑھے ہوئے ہیں،لیکن سماجی علوم وہی ہیں جن کی ترتیب و تسوید مغربی ممالک کے دانشوروں نےکی ہے۔ چنانچہ تہذیب و تمدن کے تمام مباحث میں لادینیت والحاد ان کے ذہنوں کو آلودہ کر گیا۔ وہ نظریات اور ’گمانوں کے لشکر‘اور محدود فکری پیراڈائم کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں اور ’یقین کا ثبات‘ انھیں حاصل نہیں ہے۔ کاش! انھوں نے کبھی کچھ وقت اور صلاحیت اپنے دین کے مطالعے میں بھی صرف کی ہوتی، تو انھیں معلوم ہوتا کہ مسلمان کی بنیادی شناخت مخلوق، عبد اور تابع فرمان وجود سے منسوب ہے جس کے ہرقول ، عمل اور نیت کا آخرت میں حساب لیا جائے گا۔ کتاب اللہ، (قرآن کریم) اور سنت رسولؐ ہمارے لیے ہدایت کی دو انتہائی روشن قندیلیں ہیں اور ہم ایمان و یقین اور اعمال صالح اور عبودیت کے ساتھ زندگی بسر کر کے آخرت کے دائمی انعام و اکرام سے نوازے جا سکتے ہیں۔
برسراقتدار حلقوں کی ترجیحات اور مجبوریاں اپنی جگہ، مگر داعیانِ اسلام کو بہرحال اپنے حصے کا کام بھرپور انداز میں کرنا ہے اور دورِ جدید کے فتنوں، کفر ، الحاد اور تشکیک کو گہرائی میں سمجھ کر ابطال کرنا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ اور جذبۂ اسلامی کے حامل افراد کے لیے قدیم ’علم الکلام، کے اصول، منہج اور مباحث سے تعارف حاصل کرنا ازبس ضروری ہے۔ اسلام کی تہذیبی اور کلچرل شناخت و قوت جہاں ایک درجہ مظاہر (وضع قطع، لباس وآداب مجلس) میں بھی ہے،مگر اس کی اصل روح ایک جاندار عقیدے (ایمان بالغیب) میں ہے اور وہ ایسا واضح، ثابت اور محکم عقیدہ ہے، جس کا اثبات ہمیں قرآن کریم کے ہر صفحے پر ملتا ہے۔
پھر اس کی پشت پر ایک کامل شریعت اور اُسوئہ رسولؐ ہے، جس کا بیان معلوم و ثابت مراجع رکھتا ہے۔ ایمانیات کے اسی بیانیے کو ہمارے سلف صالحین اور اَساطین اُمّت نے بصیرت افروز قالب عطا کر کے تجدیدی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ ہمارا یہی تُراثِ علمی، مغربی ڈسکورس کے غلبے اور ذہنوں کی غلامی اور ماتحتی کے اس دور میں تریاق کا کام کر سکتا ہے۔ داعیوں کی اعلیٰ علمی حیثیت و صلاحیت ہی ’سیکولر گلوبلائزیشن‘ اور ہمارے ملک میں اس کے پھیلائو اور اثرات کا توڑ کر سکتی ہے۔
اس کام کی انجام دہی کسی بڑی جماعت یا ہیئت ِ اجتماعی کے بجائے حلقات، سلسلۂ درس و تدریس یا اکیڈمی اور چھوٹی چھوٹی اجتماعیتوں کی شکل میں ممکن ہے، جن میں لمبا چوڑا اور اداراتی نظام اور دفتری پن نہ ہو،بلکہ ایسا سیٹ اپ ہو جس میں طلبہ، طالبانِ حق اور تشنگانِ علوم اسلامیہ مستفید ہوں اور اپنے قلوب و اذہان کو ایمان و یقین کے نور سے منور کر رہے ہوں۔ساتھ ہی یہ ایمان و عقیدہ ان کے وجودی احوال میں محقق ہو کر ان کے اخلاق و اعمال کو نہ صرف قرآن و سنت کے قالب میں ڈھال دیں بلکہ وہ دینی تعلیمات و اقدار کے داعی بھی بن جائیں۔ اور اس طرح تہذیب اور معاشرے کی سطح پر حقیقی اور دیرپا اسلامی تبدیلی کا باعث بنیں: اللّٰهُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَهُ، وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَهُ۔