ڈاکٹر محمد خان


جموں و کشمیر کا تنازعہ، جموں و کشمیر کے لوگوں کی اُمنگوں پر مبنی سیاسی حل کا مطالبہ کرتا ہے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی دو قراردادوں۱۳؍ اگست ۱۹۴۸ء اور ۵ جنوری ۱۹۴۹ء میں واضح طور پر جموں و کشمیر کے لوگوں کو حقِ خودارادیت اور ریاست میں رائے شماری کے انعقاد کا حق دیا گیا ہے۔ حقِ خود ارادیت اقوام متحدہ کے چارٹر میں انسان کے بنیادی حق کی حیثیت رکھتا ہے، جس کا تقاضا ہے کہ ہر قوم اور برادری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ بغیر کسی تفریق، پابندی اور رکاوٹ کے اپنے عوام کی خواہشات کے مطابق کرے۔ اگر یہ حق پوری عالمی برادری پر لاگو ہوتا ہے تو کشمیریوں کو، انڈیا اور پاکستان کی جانب سے تسلیم کیے جانے کے بعد اس سے مستثنیٰ نہیں کیا جاسکتا اور نہ انھیں غیر معینہ مدت تک غیر ملکی قبضے کے ذریعے محکوم بناکر رکھا جاسکتا ہے۔ بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو تسلیم تو کیا ہے، لیکن سات عشروں سے اس پر عمل درآمد سے انکار ی ہے۔

تنازعہ کشمیر کے سیاسی حل سے مسلسل بھارتی انکار نے جموں و کشمیر کے لوگوں میں مایوسی اور بے چینی پیدا کی۔ کشمیریوں کی مایوسی برسوں کے بھارتی قبضے، اپنی ہی ریاست میں کشمیریوں کے ساتھ امتیازی اور ناروا سلوک اور ریاست کی داخلی خودمختاری سے انکار کا نتیجہ تھا۔ نتیجتاً، مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں نے ۱۹۹۰ء میں غیر قانونی انڈین حکمرانی اور اس کی مسلسل استحصالی پالیسیوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ اس تحریک کا مقبول نعرہ ’آزادی اور حقِ خودارادیت‘ کشمیری عوام کا واحد مطالبہ تھا۔

بھارت نے وحشیانہ ردعمل کے ذریعے پورے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر فوج اور نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کردی اور مختلف غیر انسانی حکمت عملیوں کے ذریعے کشمیریوں پر ظلم و ستم شروع کر دیا۔ ۱۹۹۰ء کے آغاز سے ہی پُرامن کشمیریوں کے مظاہروں پر بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، حراستی مراکز میں تشدد، زیرحراست قتل اور اندھا دھند فائرنگ روز کا معمول بن گیا۔ ۱۹۹۰ء کی اس تحریک میں مختلف غیرجانب دار ذرائع کے مطابق، بھارتی سفاک سیکورٹی فورسز نے ایک لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔ کشمیری قیادت کو اکثر یا تو براہ راست حملے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے، یا پھر بھارتی سکیورٹی فورسز کے زیر حراست اور گھر میں نظربند رہتے ہوئے مارا گیا ہے۔ عظیم کشمیری رہنما سیّد علی شاہ گیلانی، کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کے بانی، یکم ستمبر ۲۰۲۱ءمیں پانچ سال سے زائد عرصے تک گھر میں نظر بند رہنے کے دوران انتقال کر گئے۔

مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق۱۲ہزار سے زیادہ کشمیری خواتین کو ہراساں کیا گیا، عصمت دری کا نشانہ بنایا گیا، جن میں اجتماعی عصمت دری اور عصمت دری کے بعد قتل کرنا بھی  شامل ہے۔ ہندوستانی ریاست نے مختلف قوانین جیسے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA)، پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) کے ذریعے ان غیر انسانی کارروائیوں کو قانونی تحفظ بھی فراہم کیا ہے۔ ان امتیازی قوانین نے بھارتی فوج اور اس کے نیم فوجی دستوں کو کشمیریوں کی گرفتاری، غیر قانونی حراست، تشدد اور قتل کے لیے خصوصی دفعات فراہم کیں۔ اس طرح کے قوانین اور وحشیانہ طاقت کے استعمال کے ذریعے کشمیریوں کے ساتھ ناروا سلوک بین الاقوامی قوانین، انسانی قوانین، معاہدوں اور درجنوں بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے، جسے عالمی سطح پر چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

دوسری طرف بھارت نے اپنی ۹لاکھ سے زیادہ سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کے ذریعے  مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو جاری رکھا۔ اس نے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ءکو اس کے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو منسوخ کرکے غیر قانونی اور یکطرفہ طور پر ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا۔ اس کے علاوہ، اس نے ہندوستانی یونین کے تحت دو مرکز کے زیر انتظام علاقے (جموں و کشمیر اور لداخ) بنا کر ریاست کی ریاستی حیثیت کو بھی ختم کردیا۔ ریاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے، نئی دہلی نے اپریل ۲۰۲۰ء میں جموں و کشمیر کے لیے نئے ڈومیسائل قوانین متعارف کروائے۔

ان قوانین کے تحت انڈین حکومت نے بھارت کے مختلف حصوں سے غیر کشمیری ہندوؤں کو لاکھوں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے ہیں جو چوتھے جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس کنونشن کا آرٹیکل ۴۹ (۶)قابض طاقتوں کو اپنی آبادی کو مقبوضہ علاقے میں منتقل کرنے سے منع کرتا ہے۔ درحقیقت یہ انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔

۱۸ جنوری ۲۰۲۲ء کو، برطانیہ کی ایک قانونی فرم نے لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کو اس وقت کے بھارتی آرمی چیف جنرل منوج اور بھارتی وزیر داخلہ امیت شا کی مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گرفتار کرنے کے لیے اپیل دائر کی۔ ہندوستانی حکومت کے دو اعلیٰ عہدیداروں کی گرفتاری کے لیے یہ قانونی اپیل ’عالمی دائرہ اختیار‘ کے تحت درج کی گئی تھی۔

۹ لاکھ سے زیادہ ہندوستانی افواج کی تعیناتی کے ساتھ، مقبوضہ کشمیر ایک جنگی علاقہ بن گیا ہے۔ لہٰذا، تنازعہ کے سیاسی حل کے علاوہ، بین الاقوامی انسانی قانون (IHL)تنازعہ کو انسانی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ٹھوس بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ IHL درحقیقت قوانین کا ایک مجموعہ ہے جو مقبوضہ کشمیر جیسے جنگی علاقے میں مسلح تصادم کے اثرات کو محدود کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے علاوہ، ’بین الاقوامی انسانی قانون‘ مقامی آبادی کو تمام جہتوں سے بچانے کے لیے ریاستوں کی ذمہ داریوں کا تعین کرتا ہے: ان کے بنیادی شہری حقوق، ان کی آزادی اور تحفظ اور سب سے بڑھ کر ان کا حقِ خود ارادیت۔ مسئلہ کشمیر کو قانون کی بنیاد پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو بھارت کو مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کو روکنے پر مجبور کرنے کے لیے اہل دانش اور سفارت کاروں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ آبادی کے تناسب میں جبری تبدیلیوں کو روکنا اور انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کو بھی نمایاں کرنا چاہیے، جن کے نتیجے میں انسانی المیہ ایک دہکتے الائو کی طرف بڑھتا نظر آرہا ہے۔