شیخ فرخندہ


فلسطین کے ممتاز مزاحمتی شاعر محمود درویش [۱۹۴۱ء- ۲۰۰۸ء] نے اپنے اردگرد پھیلے رنج و اَلم کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا:

جنگ ختم ہو جائے گی اور رہنما ہاتھ ملائیں گے، لیکن وہ بوڑھی عورت اپنے شہید بیٹے کا انتظار کرتی رہے گی، وہ لڑکی اپنے محبوب شوہر کا انتظار کرے گی، اور وہ بچے اپنے بہادر باپ کا انتظار کرتے رہیں گے۔ مجھے نہیں معلوم کس نے وطن بیچا، لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ قیمت کس نے چکائی۔

غزہ میں جنگ ر ک سکتی ہے، لیکن اس کے چھوڑے گئے زخم نسلوں تک رستے رہیں گے۔ جنگ بندی، ایک ایسا لفظ ہے جو زخموں کے لیے مرہم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ ان گہرے زخموں کو بھرنے کے لیے ناکافی ہے جن کا تصور بھی مشکل ہے۔ یہ جنگ بندی رحم کا عمل نہیں بلکہ بڑھتے ہوئے عالمی غصے کے دباؤ کو کم کرنے کی ایک مجبوری ہے۔ مہینوں کی بے رحمانہ بمباری کے بعد، جب غزہ کو راکھ اور ملبے میں تبدیل کر دیا گیا۔ ہزاروں افراد، بشمول بچوں کا خون اس کی ریت اور منوں وزنی عمارتی ملبے میں شامل ہوگیا، سوال یہ ہے: اس درندگی کا حساب کون دے گا؟

نیتن یاہو، وہ شخص جس کا نام تاریخ میں ایک ہولناک جنگی مجرم کے طور پر لکھا جائے گا، اسرائیل کی جنگی مشین کا سرغنہ ہے۔ یہ کوئی بے بس جنگی مجرم نہیں، بلکہ ایک ایسا شخص ہے جس نے جنگ کو سیاسی آلے اور اپنی ڈگمگاتی قیادت اور کرپشن اسکینڈلز سے توجہ ہٹانے کے لیے ہنرمندی سے استعمال کیا ہے۔ اس نے اپنے عوام کے خوف اور دنیا کی بے حسی کو ہتھیار بنا کر جدید دور کی سب سے سفاکانہ فوجی مہمات میں سے ایک کو انجام دیا۔

غزہ کی تباہی محض ’ضمنی نقصان‘ نہیں تھی بلکہ یہ جان بوجھ کر کی گئی تھی۔ خاص طور پر ہسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا، پناہ گزین کیمپوں کو مٹی میں ملا دیا گیا، اور پورے خاندانوں کو موت کی نیند سُلا دیا گیا۔ اسرائیل نے ’درست نشانے‘ کا دعویٰ کیا، لیکن پیچھے بے انتہا تباہی چھوڑی۔ شہریوں کو نشانہ بنانا، بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا، اور محاصرہ، جس نے غزہ کو کھلی جیل میں تبدیل کر دیا، یہ سب منظم جنگی جرائم ہیں۔ نیتن یاہو کی حکومت، اپنے انتہا پسندانہ نظریات کو بین الاقوامی قوانین کی بے حُرمتی کے ساتھ، واضح کر چکی ہے کہ کوئی فلسطینی زندگی محفوظ نہیں، چاہے وہ کتنی ہی کم عمر یا معصوم کیوں نہ ہو۔

لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ نیتن یاہو نے اکیلے یہ سب نہیں کیا۔ اس کے بموں پر Made in USA کی مہر تھی۔ وہ ایف-۱۶طیارے جو غزہ کے محلوں کو زمین بوس کر گئے، امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے فراہم کیے گئے۔ امریکا، جو سفارت کاری کا بہانہ کرتا ہے، عشروں سے اسرائیل کو سزا سے بچانے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ امریکی حکومت نے غزہ میں ہونے والے مظالم پر آنکھیں بند کر لیں، اور بار بار اسرائیل کے ’دفاع کے حق‘ کا راگ الاپتی رہی۔

غزہ کے زندہ رہنے کے حق کو چھین لیا گیا۔ ان ہزاروں فلسطینی بچوں کا کیا جرم ہے کہ جو کبھی بڑے نہیں ہو سکیں گے، جن کے خاندانوں کی زندگیاں امریکی بموں نے ختم کر دیں؟ اسرائیل کے لیے امریکا کی خفیہ اور علانیہ حمایت ایک زبردست اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔ بین الاقوامی فورمز پر اسرائیل کو جواب دہی سے بچانے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ویٹو کرنے کے ذریعے، امریکا نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انصاف اور انسانیت سے اسے کچھ علاقہ نہیں۔

یہ جنگ صرف اسرائیل کی بے رحمی یا امریکا کی شراکت داری کو ظاہر نہیں کرتی، بلکہ اس نے پورے عالمی نظام کے دیوالیہ پن کو بھی بے نقاب کیا۔ نام نہاد بین الاقوامی ادارے، جو انصاف کے محافظ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، غزہ کے راکھ میں تبدیل ہونے پر محض تماشائی بنے رہے۔ اقوام متحدہ، جو امن کی محافظ ہونے پر فخر کرتی ہے، ’تشویش‘ کے بیانات جاری کرنے تک محدود رہی۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت، جو بظاہر جواب دہی کی علامت ہے، فیصلہ کن کارروائی نہ کرسکی۔

اور پھر وہ ممالک جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کے علم بردار کے طور پر پیش کرتے ہیں، غزہ کی تکالیف دیکھ کر خاموش رہے، یا دوسرے لفظوں میں بدتر، شریکِ جرم بنے۔ ان کی منافقت تاریخ اور انسانیت کے سامنے بے نقاب ہو گئی ہے۔

لیکن شاید سب سے بڑی غداری مسلم حکمران طبقوں کی جانب سے ہوئی۔ وہ جو اپنے آپ کو اسلام کا محافظ سمجھتے ہیں اور امت کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں، سب سے بڑے منافق ثابت ہوئے۔ خلیجی راجواڑوں سے لے کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی دوڑ میں ہلکان حکمرانوں تک، جو خانگی اقتدار کی بھیک کے لیے غزہ پر حملے کو خاموشی سے سراہتے رہے۔ ان کے اقدامات فلسطینیوں ہی نہیں بلکہ ان تمام اصولوں سے سنگین بے وفائی ہے جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کی منافقانہ خاموشی، ان کی مجرمانہ شراکت، ان کی بزدلی کو فراموش نہیں کیا جائے گا۔

اس سب کچھ کے باوجود آج غزہ کے کھنڈرات میں اُمید کی چمک موجود ہے۔ یہ فلسطینی عوام کے عزم اور ان کے ناقابلِ یقین حوصلے میں ہے، جسے انھوں نے بدترین اور انسانیت سوز مظالم کے باوجود برقرار رکھا ہے۔ یہ ان عام لوگوں کی آوازوں میں ایک طاقت ور ترین آواز ہے جنھوں نے دنیا بھر میں رنگ و نسل اور مذہب و طبقہ کی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یک جہتی کے لیے مارچ کیا اور غزہ کی تکالیف کو بھلانے سے انکار کیا۔

جب ہتھیار خاموش ہو جائیں، تو ہماری اُمید کا مرکز یہ ہدف ہے کہ جنگ بندی مزید تباہی سے پہلے کا ایک وقفہ نہیں، بلکہ ایک طویل عرصے سے واجب احتساب کا آغاز ہو۔ احتساب جنگی مجرموں جیسے نیتن یاہو کا، سہولت کاروں جیسے بائیڈن کا، اور ہر اس ادارے اور رہنما کا، جنھوں نے غزہ سے منہ موڑ لیا۔

ہم اس خطے میں دائمی امن کے لیے دُعاگو ہیں، لیکن امن قبروں اور راکھ پر تعمیر نہیں ہوسکتا۔ یہ انصاف پر مبنی ہونا چاہیے۔ ان لوگوں کی عزت بحال کرنی چاہیے جنھیں طویل عرصے سے محروم رکھا گیا، اور ان لوگوں کو جواب دہ ٹھیرانا چاہیے جنھوں نے اس ڈراؤنے خواب کو تقویت دی۔ غزہ کے قبرستان اس قیمت کی خوفناک یاد دہانی کے لیے پکارتے، جھنجوڑتے رہیں گے، جو دُنیا میں دھن، دھونس اور اقتدار کے بھوکوں نے فلسطین کو چکانے دی۔