۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ کے خلاف جاری جنگ عالمی رائے عامہ کی تشکیلِ نو کے باب میں تبدیلی کا ایک اہم موڑ بن گئی ہے۔ نہ صرف فلسطینی مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی بلکہ اس سے عالمی نظام کی ہیئت و ساخت اور اس کے اخلاقی وجود،معیار اور مفہوم پر بھی سوالات پیدا ہوچکے ہیں۔
غزہ میں جاری اہل فلسطین کا ’ہولوکاسٹ‘ اور اس کے براہِ راست مشاہدے نے صہیونی بیانیے کی کمزوری اور کھوکھلے پن کو پوری دنیا پر آشکارا کردیا ہے ، ساتھ ہی ساتھ اس نےمغرب کے دوہرے معیار کا پردہ بھی چاک کردیا ہے۔ بڑی عالمی طاقتیں اُس ادنیٰ ترین اخلاقی توازن کو قائم رکھنے میں بھی بُری طرح ناکام رہی ہیں، جس کا وہ دعویٰ کرتی چلی آئی ہیں ۔
اس کے برعکس، فلسطین اور اس کا مسئلہ ایک ایسے اخلاقی پیمانے کی حیثیت سے اُبھر کر عالم انسانیت کے سامنے آیا ہے جو خواص اور عوام کے موقف کو یکساں طور پر، روایتی سیاسی صف بندیوں سے بلند ہوکر اَزسر نو مرتب کررہا ہے۔ غزہ نے اپنے آپ کو ایک ایسے محرک اور عامل کی حیثیت سے منوایا ہے، جو پوری انسانیت کو بین البر اعظمی اور عالمی، ہر دو سطح پر نئی صف بندی پر مجبور کررہا ہے،تا کہ قومی اور سماجی سطح پر ایک ایسا بندوبست تشکیل پائے، جس سے ممکنہ طور پر نئی اسٹرے ٹیجک تبدیلیوں کا دروازہ کھل سکے ،اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کی گمراہ کن راہیں مسدود ہوں، عرب حکومتوں پر دباؤ بڑھے اور اسرائیلی قبضہ گیروں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کے لیے ضروری قانونی چارہ جوئی کی کوششوں میں وسعت آئے ۔غزہ میں جاری معرکہ ہر گز ایک علاقائی ایشو اور محض فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عالم گیر قضیہ ہے جوموجودہ عالمی نظام کے لیے ایک اخلاقی امتحان کی حیثیت رکھتا ہے ۔
حال ہی میں خطے نے براہِ راست تصادم کو بھی دیکھا ہے۔ ایران اور ’صہیونی- امریکی محور‘ کے درمیان ہونے والے اس تصادم نے ایرانی فضائی دفاعی نظام کی کمزوری کو تو آشکارا کیا ہی، تاہم ساتھ ہی ساتھ ایران کی یہ صلاحیت بھی نمایاں تر ہوکر سامنے آئی ہے کہ وہ صہیونی ریاست ِ اسرائیل کے اندر دُور تک، اور اس کے جدید ترین فوجی اڈوں اور دیگر دفاعی اور حساس تنصیبات کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کی قدرت رکھتا ہے۔
۱۲ روزہ جنگ کا یہ زمانہ محض ایک عارضی اوروقتی تصادم نہ تھا، بلکہ خطے میں جاری کش مکش میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے، جس نے دونوں برسرپیکار طاقتوں کے درمیان قائم توازن اور اس میں موجود خامیوں کو بھی آشکارا کردیا ۔ تصادم کا غیر فیصلہ کن ہونا اشارہ کررہا ہے کہ ٹکراؤ کے آئندہ مرحلے خطرناک اور شدید تر ہوسکتے ہیں اور کوئی غلط اندازہ یا کسی فریق کی طرف سے غیر مدبرانہ فیصلہ امکانی طور پر کش مکش اور تصادم کے دائرے کو وسیع تر بھی کرسکتا ہے۔
اگرچہ بظاہر اب مشرق وسطیٰ کے منظرنامے پر ایک خاموشی چھائی ہوئی ہے، مگر ہر فریق اپنی اپنی تلواریں تیز کر رہا ہے۔اسلامی جمہوریہ ایران، عوامی جمہوریہ چین کی حمایت اور اس کی بے مثال اقتصادی پشت پناہی سے انتہائی خاموشی کے ساتھ اپنی اسٹرے ٹیجک پوزیشن کو پھر سے ترتیب دے رہا ہے، اور اس کے اتحادی لبنان، یمن اور عراق بھی متحرک ہیں۔ اسی تناظر میں واشنگٹن حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے اور مداخلت کے لیے ہمہ دم تیار بیٹھا ہے کہ دباؤ کے کسی لمحے میں مداخلت کر ڈالے۔ اس صورتِ حال میں اسرائیل میں وہ سیاسی و عدالتی دھماکے رُونما ہو رہے ہیں، جو نیتن یاہو حکومت پر شدید دبائو کا باعث ہیں۔
سبھی فریق محتاط تیاری کی حالت میں ہیں، گویا ایک دھماکا ہے جو عنقریب ہوکر رہے گا۔ آئندہ ہونے والا معرکہ محض گولہ باری اور سپرسانک میزائل باری کا تبادلہ نہیں ہوگا، بلکہ یہ ایک اسٹرے ٹیجک، ابلاغی، اور قانونی تصادم بھی ہوگا۔
ایران اور ’صہیونی - امریکی محور‘ کے درمیان جنگ بندی کا عالمی سطح پر محتاط خیرمقدم ہوا ہے، جب کہ حالات کی نزاکت اور قائدین کے متضاد بیانات نے اصل صورتِ حال کو مبہم بنا دیا ہے۔ ایک طرف امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا، تو دوسری جانب نیتن یاہو نے 'ایرانی جوہری پروگرام کی تباہی کا اعلان کیا، حالانکہ انٹیلی جنس رپورٹیں اس دعوے کی تردید کرتی ہیں۔
مغربی ذرائع ابلاغ — جیسے نیویارک ٹائمز اور دی اکانومسٹ وغیرہ — نے اس جنگ بندی کو غزہ میں تنازع کے خاتمے کی ممکنہ صورت قرار دیا تھا۔ تاہم، دیگر تجزیہ نگاروں نے بجا طور پر خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے مسئلہ فلسطین کے حقیقی حل سے گریز کیا تو خطہ میں تشدد کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
فناشنل ٹائمز نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے کہ موجودہ جنگ بندی محض ایک ناپائیدار عبوری مرحلہ ہے، جب کہ اصل فیصلے کا اس بات پر انحصار ہے کہ کیا اسرائیل ایک منصفانہ تصفیے میں شامل ہونے پر آمادہ ہے، جو بالآخر ایک مکمل خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام پر منتج ہو، —یا اس کا مقصد صرف تنازع کے دوران بگڑتی ہوئی صورت حال کو سنبھالا دینا ہے؟
اس سارے منظرنامے کے بیچوں بیچ گریٹر اسرائیل ' کا مذموم منصوبہ ایک نمایاں خطرے کے طور پر موجود ہے،اور اب [نیتن یاہو کے بیان کے بعد] بالکل واضح اور حقیقی خطرے کے طور پر اُبھر کر سامنے بھی آچکا ہے ۔ تل ابیب ، نیل سے فرات تک مکمل بالادستی قائم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ گویا —اسرائیل اپنی تاخت و تاراج کو فلسطینی سرزمین تک محدود نہیں رکھنا چاہتا، بلکہ عرب ممالک کی خودمختاری کو روندتے ہوئے انھیں تابع مہمل باج گزار ریاستوں میں تبدیل کرنے کے اپنے عزائم آشکارا کرچکا ہے۔
مشرق وسطیٰ پر بالادستی کا اسرائیلی منصوبہ، عالم عرب پر اس کے عسکری غلبے تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا دائرہ معیشت، سلامتی کے امور، ثقافتی تعلقات، نارملائزیشن، اور عرب ممالک کے حکومتی اداروں میں خفیہ اثر و رسوخ کا جال بچھانےتک وسیع ہے۔
اگرچہ ’صہیونی-امریکی محور‘ کو خفیہ معلومات کاری اور عسکری میدان میں بظاہر کامیابیاں حاصل ہورہی ہیں، تاہم 'نئے مشرقِ وسطیٰ کی قیادت سنبھالنے کے اس کے خواب کو متعدد رکاوٹوں کا سامنا ہے: عرب اقوام کی طرف سے انکار، مزاحمتی قوتوں کا باہم اتحاد، اسرائیل کے داخلی بحرانوں کی شدت، اور ایک جامع علاقائی پروگرام کی عدم موجودگی جس پر سبھی متفق ہوں۔یہ وہ عوامل ہیں جو دیرپا تسلط کی اسرائیلی و امریکی خواہش اور صلاحیت کو کمزور کرتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ پر غلبہ پانے کے اسرائیلی منصوبے کا مکمل طور پر امریکی مدد پر انحصار بھی اسے ایک اسٹرے ٹیجک مخمصے میں ڈال رہاہے، بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب واشنگٹن کا اپنا اثر و رسوخ اندرونی بحرانوں اور یوکرین و چین کے دُہرے دباؤ کے باعث زوال پذیر ہے —اور خطے کے معاملات پر اس کی یک طرفہ گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔
بظاہر یہ جغرافیائی،سیاسی خلا اب بتدریج چین اور روس کے ذریعے پُر ہو رہا ہے، جو نئی اقتصادی و عسکری حکمتِ عملیوں کے ذریعے ایک کثیرقطبی عالمی نظام کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ —ایسا نظام جو واحد امریکی بالادستی کے دور کا اختتام ثابت ہو سکتا ہے۔
خلیجی ممالک چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود قومی سلامتی کی ایسی شراکتوں کے نفاذ کی کوششیں ان کی خود مختارانہ فیصلہ سازی کی صلاحیت اور آزادی کو متاثر کررہی ہیں۔ عراق، شام، لبنان اور اُردن میں ’صہیونی-امریکی محور‘، ایک ایسا نفسیاتی اور فضائی غلبہ قائم کرنے کی کوشش کررہا ہے جو ان کے خودمختار کردار کو بحالی اور اختیار سے محروم رکھ سکے۔
دوسری طرف ایران کا کردار ایک ایسے مزاحمتی محور کے طور پر نمایاں ہوا ہے، جو غزہ سے صنعا تک پھیلی اسٹرے ٹیجک وسعت کا حامل ہے، اور آزادی کے اس مفہوم پر مشتمل موقف کی تشکیل کررہا ہے، کہ امت کی بقا فلسطین کی آزادی سے جڑی ہوئی ہے۔
مزاحمتی جماعتیں، جن میں سرِفہرست حماس ہے، اب محض دباؤ کا پریشر گروپ نہیں رہی، بلکہ ایسی مؤثر قوت بن چکی ہے، جو عسکری، ابلاغی، اور سیاسی سطح پر خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
غزہ، مسلسل محاصرے ،فوج کشی اور تباہی کے باوجود، ایک ایسے اخلاقی مرکزومحور میں تبدیل ہوچکا ہے، جو مزاحمت کے قانونی و اخلاقی جوازکی تشکیلِ نو کر رہا ہے، اور عالمی رائے عامہ کے سامنے، ’صہیونی-امریکی محور‘ کے چہرے پر پڑا باقی ماندہ اخلاقی پردہ بے نقاب کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ مشرقِ وسطیٰ پر غلبے کی اس کش مکش میں روایتی جنگی ذرائع اب فیصلہ کن حیثیت نہیں رکھتے، بلکہ شعور اور فہم کا محاذ بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔
مزاحمتی ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا، تعلیم، دین، ثقافت، معیشت، اور مصنوعی ذہانت، —یہ سب آزادی کی جنگ کے مرکزی میدان بن گئے ہیں، جو اقوام عالم کے شعورو ادراک کی اَزسرِنو تشکیل کررہے ہیں، اور اسرائیلی قبضہ گیروں کے مسلط کردہ جھوٹے موقف کی اجارہ داری کو توڑ کر مزاحمت و انصاف کے بیانیے کو تقویت دے رہے ہیں۔
ان ذرائع کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور فیصلہ کن حیثیت نے فلسطین کی آزادی کے منصوبے کو نہ صرف نفسیاتی، ثقافتی اور اقتصادی وسعت فراہم کی ہے،بلکہ اسے محدود فوجی مزاحمت کے عمل سے نکال کر ایک ایسے جامع تہذیبی احیائی منصوبے میں بھی تبدیل کیا ہے جو زور زبردستی کے موجودہ مسلط شدہ نظام کو متاثر کر رہا ہے، اور خطے میں طاقت کے توازن کو نہ صرف فوجی نقطۂ نظر سے بلکہ علمی،شعوری اور اخلاقی زاویے سے بھی دوبارہ متعین کر رہا ہے۔
ہماری دانست میں اصل معرکہ، جو خطے کی حتمی سمت کا تعین کرے گا، سیاست یا جغرافیہ کے میدانوں میں نہیں، بلکہ شعور اور جواز کے میدان میں ہوگا۔ مشرقِ وسطیٰ کا آئندہ قائد وہی ہوگا، جو گہری تہذیبی بصیرت رکھتا ہو، اور آزادی و قیادت کے حقیقی تصور پر مبنی توازن قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ —ایسا توازن جو اُمت کو اس کی خودمختاری واپس دلائے، اور اس خطہ کی اقوام کو نئے عالمی نظام میں آزادی اور وقار عطا کرے۔کیونکہ مشرقِ وسطیٰ کسی نئے استعمار کا منتظر نہیں، بلکہ ایک انقلابی رہنما کا خواہاں ہے جو قیادت کے مفہوم کو اَزسرِنو تشکیل دے اور صفوں کو متحد کرے۔