امریکی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی صومالوی نژاد مسلم رکن کانگرس الہان عمر (Ilhan Omer) نے چند روز قبل اپنے ٹویٹ میں لکھا:’ہم نے امریکا، حماس، اسرائیل، افغانستان اور طالبان کی جانب سے ناقابلِ تصور ظلم و سفاکیت دیکھی ہے۔ ہمارے پاس انسانیت کے خلاف جرائم کے تمام متاثرین کے لیے احتساب اور انصاف کا یکساں نظام ہونا چاہیے‘۔
اس ٹویٹ کے ساتھ انھوں نے جو ویڈیو عوامی سطح پر پھیلائی، وہ امریکی ایوان نمایندگان کی ایک کمیٹی کی سماعت کے دوران سیکر ٹری خارجہ انتھونی بلنکن سے ہونے والی ان کی گفتگو پر مبنی ہے۔ اس گفتگو میں انھوں نے انتھونی بلنکن کو چیلنج کرتے ہوئے سوالات کیے اور انسانیت کے خلاف جنگی جرائم میں افغان حکومت، افغان طالبان، حماس اور اسرائیلی سیکورٹی فورسز کومورد الزام ٹھیرایا۔ الہان عمر نے ان جرائم میں امریکا کے ملوث ہونے پر دانستہ کوئی بات نہیں کی، لیکن بعد ازاں ٹویٹ کرتے ہوئے اس میں امریکا کا نام بھی شامل کر لیا تاکہ عوام کے سامنے اپنی سیاسی ساکھ بچائی جاسکے۔
الہان عمر نے جب انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کے حوالے سے انتھونی بلنکن سےسوالات کیے تو وہ سمجھ رہی تھیں کہ انھوں نے فلسطینیوں کے حق میں بات کی ہے اور حماس کے بارے میں اسرائیلی موقف دُہرایا کہ ’’حماس، متشدد مزاحمتی تحریک ہے‘‘۔ دوسری طرف انتھونی بلنکن نے لبرل طبقے کی نمایندگی کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فلسطینیوں کو اسرائیل میں عدل و انصاف مہیا ہوسکتا ہے‘‘۔ اس طرح اپنی منافقت اور بے ایمانی عیاں کردی۔
الہان عمر نے اپنی انتخابی مہم کے لیے درکار خطیر رقم فلسطین کی حمایت کے وعدوں پر اکٹھی کی تھی لیکن الیکشن جیتنے کے بعد وہ فلسطینی حق خود ارادیت کے لیے کی جانے والی مزاحمت اور دفاع کو’انسانیت کے خلاف جرائم‘ اور اسرائیلی جارحیت کو سامراجی تشدد قرار دے رہی ہیں۔ یہ طرزِبیان منافقانہ غیر جانب داری ظاہر کرنے کا ایک سستا،نسخہ ہے، جسے الہان عمر نے ان سینئر امریکی سیاست دانوں سے سیکھا ہے، جنھوں نےاسے مقامی امریکی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا کی نمایندگی کے لیے میدان میں اتارا ہے۔ { FR 665 }
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تحریک، بین الاقوامی سطح پر اپنے تسلیم شدہ حق مزاحمت استعمال کرتے ہوئے معمولی ذرائع و اسباب کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہے۔ اس کے مقابل اسرائیلی سامراجی اور ایٹمی قوت جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر لوگوں کو ناحق قتل اور غلام بنانے کے لیے تشدد کا ہر حربہ استعمال کر رہی ہے۔ اسرائیلی مظالم اور فلسطینی مزاحمت کے درمیان اخلاقی طور پر کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی لیکن مسلم آبادی سے آگے بڑھائی جانے والی لیڈر الہان عمر کو یہ سکھایا گیا ہے کہ ’’اصل حقیقت کو زبان پر لانے سےسیاسی مفادات حاصل نہیں کیے جا سکتے‘‘۔
حماس کی دفاعی اور مزاحمتی کارروائیوں کا اسرائیلی جارحیت کے ساتھ تعداد اور سیاق و سباق کے لحاظ سےموازنہ کرنا ہی ایک مضحکہ خیز حرکت ہے، لیکن اس سے زیادہ کج فہمی کی بات یہ ہے کہ امریکا فلسطین کی نمایندگی کے نام پر مسلم سیاستدانوں کو اپنی سیاسی کمپنی میں بھرتی کرکے ان سے فلسطین کے خلاف بیان دلوا رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم یعنی ۱۹۴۵ء کے بعد سے امریکا نے دنیا بھر میں ہلاکتوں اور تباہی و بربادی کی ایک نئی داستان رقم کی۔ جنوب مشرقی ایشیا سے لے کر افغانستان، عراق، لیبیا،گوئٹے مالا، نکاراگوا، ویت نام، کمبوڈیا، چلّی تک امریکا نے جنگی مہم جوئی، بغاوتوں اور مداخلتوں کے ذریعے لاکھوں افراد کو ہلاک کیا، لیکن الہان عمر جیسی مصنوعی اور غلام قیادتوں کے ذریعے، دانستہ طورپر امریکا کا نام گول کرکے صرف حماس اور طالبان کو مورد الزام ٹھیرایا گیا۔
لبرل سیاستدانوں کی طرف سےاکثر کہا جاتا ہے کہ ’’حماس عام شہریوں کو نشانہ بنانے کا قصور وار ہے، کیونکہ اس نے اسرائیلی شہروں کی طرف اندھا دھند ہزاروں راکٹ فائر کیے‘‘۔ مگر حقائق پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسرائیل کو غزہ اور یروشلم میں فلسطینیوں پر حملوں اور ان کی نسل کشی سے باز رکھنے اور ان اقدامات کی قیمت چکانے کے لیے یہ راکٹ فائر کیے گئے۔ ان راکٹوں کی شکل میں جوابی حملے اس لیے بھی کیے گئے تاکہ غزہ کو فلسطین سے الگ کرنے، فلسطین کے مزید ٹکڑے کرکے کمزور کرنے، زمینوں پر زبردستی قبضے جمانے اور یہودی آبادکاری کے مزید منصوبوں پر عمل کرنے سے اسرائیل کو باز رکھا جاسکے‘‘۔
اس حوالے سے غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار (Yahya Sinwar) نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ’’فلسطینیوں کی طرف سے میزائلوں کا استعمال خوشی سے نہیں کیا جاتا۔ جب اسرائیل نے اپنے جدید اسلحہ، ہوائی جہازوں، ٹینکوں، توپوں اور میزائل سے یہ واضح کردیا کہ اس کا مقصد ہمارے بچوں، خواتین، بوڑھوں اور مریضوں کو جان بوجھ کر قتل کرنا ہے، تو ہمارے پاس ان راکٹوں کے استعمال کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ اگر ہمارے پاس اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں اور تنصیبات کو درست طریقے سے نشانہ بنانے کی صلاحیت موجود ہوتی، تو ہم ان مقامی ساخت کے راکٹوں کا اندھا دھند استعمال کبھی نہ کرتے‘‘۔
انھوں نے مزید کہا: ’’ہمارے دفاعی اقدامات کا اسرائیل کے ان جارحانہ اقدامات سے موازنہ کرنا درست عمل نہیں ہے، جو ہر قسم کی صلاحیت رکھنے کے باجود عام شہریوں کو نشانہ بناتا رہا۔ جب اسرائیل نے ہمیں دیوار سے لگاکر مجبور کیا کہ ہم دفاع کی آخری حد تک جائیں تو ہمارے پاس جو کچھ موجود تھا، ہم نے اسے استعمال کیا۔ اگر انھیں فلسطین کے معمولی قسم کے، نشانوں پر فٹ نہ بیٹھنے والے راکٹوں سے مسئلہ ہے تو یہ امریکا اور یورپی یونین سے کیوں نہیں کہتے کہ جس طرح انھوں نے اسرائیل کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا ہے، اسی طرح فلسطین کو بھی کم ازکم ایسے ہتھیاروں سے تولیس کریں جو فوجی تنصیبات کو درست طریقے سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوں‘‘۔
بلاشبہہ معمولی قسم کے راکٹ فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے بجائے عام شہری آبادیوں پر بھی گر سکتے ہیں اور حماس کے راکٹوں سے اسرائیل میں ۱۱؍ افراد ہلاک ہوئے اور انٹی ٹینک بم داغنے سے ٹینک تباہ ہونےکے بجائے ایک اسرائیلی فوجی ہلاک ہوا۔ لیکن ہلاکتوں کی یہ کم تعداد ظاہر کرتی ہے کہ حماس نے نہ اپنی پوری صلاحیت کا استعمال کیا اور نہ اس کے اقدامات اسرائیل میں کسی بڑی تباہی یا ہلاکتوں کا باعث بنے۔ یہ محض دفاعی مقصد کے حصول کے لیے کم سے کم طاقت کا استعمال تھا۔ مگر اس کے برعکس اسرائیل نے مزاحمتی تحریک کو بے دردی سے کچلنے کے لیے کئی دنوں تک رات، دن مسلسل بمباری کی اور یہ بھی نہیں دیکھا کہ بم کسی فوجی ٹھکانے پر گر رہا ہے یا کسی رہایشی عمارت، دفتر، ہسپتال، میڈیا سنٹر، اخباری دفتر یا کارروباری عمارت پر۔ صرف چند دنوں میں ۲۵۰سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو ہلاک کیا گیا، جن میں ستّر کے قریب بچے بھی شامل تھے۔ ہر انسانی زندگی قیمتی ہوتی ہے لیکن الہان عمر کی طرف سے اسرائیلی نوآبادیاتی تشدد اور فلسطینی مزاحمت کو برابر اور یکساں قرار دینا حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔
یاد رہے ۱۹۸۰ء کے عشرے میں فلسطینیوں نے اسرائیلی قبضے اور مظالم سے تنگ آکر ہرقسم کی بیرونی امداد سے مایوسی کے عالم میں آخری رد عمل کے طورپر خودکش فدائی حملوں کا راستہ اختیار کیا تھا مگر حالات قدرے بہتر ہوتے ہی فلسطینی تنظیموں نے خود ہی اس راستے کو ترک کردیا۔ تاہم، استعماری جارحیت کے خلاف ہونے والی ہر جدوجہد میں ردعمل لازمی عنصر ہوتا ہے۔ جب مقامی مزاحمت کارروں کےپاس نوآبادیاتی طاقت کو روکنے کا کوئی سامان نہیں ہوتا تو وہ آخری حربہ کے طورپر اسی طرح کے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا جسے مغرب نے فلسطینیوں کے قتل عام پر اسرائیلی حمایت کرنے کے صلے میں بزرگ سیاسی رہنما کے طور پر قبول کر لیا تھا، انھوں نے بھی اپنی خودنوشت The Long Walk to Freedom میں ایسے اقدامات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے:
’مظلوم اپنی خواہش سے کوئی اقدامات نہیں اٹھاتے بلکہ یہ ظالم ہوتا ہے جو جدوجہد کی کسی مخصوص شکل کو اپنائے جانے کے حالات پیدا کرتا ہے۔ جب ظالم قوت، طاقت کا بے دریغ استعمال کرتی ہے تو مظلوم کے پاس پُرتشدد ردعمل کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہوتا اور یہ آخری حربہ کے طور پر جائز عمل ہوتا ہے۔ اگر فرض کریں یہ ایک ناجائز حربہ ہے، توپہلے ظالم کو وحشیانہ تشدد سے دست بردار ہونا چاہیے۔ ظالم کے پاس تو ہر طرح کے ذرائع استعمال کرنے کے انتخاب کی آزادی ہوتی ہے، جب کہ مظلوم کے پاس انتخاب کی آزادی نہیں ہوتی۔ اسے جو میسر آئے وہ وہی استعمال کرتا ہے‘۔
’مسلح جدوجہد کے ابتدائی مراحل میں افریقی نیشنل کانگرس بھی ایسے اقدامات کرتی تھی، جس سے زیادہ لوگوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ نہ ہو۔ لیکن جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ان اقدامات سے سامراجی طاقت کو کوئی بڑانقصان نہیں پہنچ رہا، تو ہم اگلے مرحلے یعنی گوریلا جنگ اور دہشت گردی میں داخل ہونے کے لیے تیار ہوگئے‘۔
فلسطین میں رہایشی عمارتوں، بازاروں، ہوٹلوں، ہسپتالوں اور کارروباری مراکز پر اسرائیل نے بمباری اس لیے نہیں کی ہے کہ اسرائیل کو فلسطینی جارحیت سے خطرہ تھا بلکہ یہ اسرائیلی استعماری ہتھکنڈہ تھا، جسے صیہونی ریاست کی توسیع کے لیے استعمال کیاجاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ فلسطینیو ں پر جنگ مسلط کرکے انھیں دہشت گردی کا نشانہ بنایا جائے اورحق خودارادیت سے روکا جائے۔ اگر فلسطینیوں نے اسرائیلی مظالم سے تنگ آکر ۱۹۹۰ء کے عشرے میں یا ۲۰۰۰ء کے عشرے کے اوائل میں خودکش دھماکے کیے تو وہ کوئی ایسے اقدامات نہیں تھے، جن کو الہان عمر مظالم کے نام سے پیش کرے۔ اگرچہ اس حکمت عملی کو اب ترک کر دیا گیا، اور پھر یہ بھی ہے کہ دھماکے صرف حماس نے نہیں کیے تھے بلکہ اس میں محمود عباس کی الفتح پارٹی اور فلسطینی اتھارٹی بھی شامل تھی، جس کے ساتھ گرم جوشی کے تعلقات قائم کرنے کے لیے بلنکن بے چین ہے۔
اس حوالے سے تیسری اہم بات یہ ہے کہ ان دھماکوں کی مخالف قوت اسرائیل کسی بے بسی کا شکار نہیں تھی کہ دنیا میں اس کی بات نہ سنی جائے یا ان کارروائیوں کا انتقام لینے کے لیے اس کے ہاتھ پائوں بندھے ہوں۔ اسرائیل نے ان کارروائیوں کے جواب میں بے شمار لوگوں کو ماورائے عدالت اور غیر قانونی طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا۔ ان میں حماس کے بانی لیڈرشیخ احمد یاسین بھی شامل تھے، جو بچپن سے نابینا ہونے کی وجہ سے وہیل چئیر پر تھے۔ انھیں مارنے سے قبل اسرائیل نے انتقامی کارروائیاں کرتے ہوئے مشتبہ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ہرآنے جانے والے کو بھی ہلاک کیا۔ امریکا نے آج تک اسرائیل کی کسی ایسی کارروائی کو دہشت گردی قرار نہیں دیا۔
اسرائیل نے ۲۰۰۲ء کے بعد الفتح رہنما مروان بار گھوتی کو جیل بھیجتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ’’وہ دوسری انتفاضہ میں اسرائیل کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کی رہنمائی کرتا تھا‘‘۔ اپنے خلاف مقدمے کی کارروائی میں واضح طورپر جانب داری نظر آنے پر مروان گھوتی نے اپنے دفاع سے انکار کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود اسے پانچ بار عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ سزائیں دینے والے ججوں نے ان عدالتی فیصلوں کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی، جن میں کئی جرائم میں عدم ثبوت کے باعث مروان گھوتی کو بری کر دیا گیا تھا۔ اس دوران امریکا نے ایسے متعدد قوانین پاس کیے، جن میں انسداد دہشت گردی کے نام پر امریکی عدالتوں میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے خلاف حماس سے ملتے جلتے الزامات لگا کر انھیں سزائیں دی گئیں۔ لیکن دوسری طرف امریکا نے فلسطینیوں کو اسرائیلی ظلم و ستم سے بچانے کے لیے کبھی کوئی قانون پاس نہیں کیا۔
سچ بات یہ ہے کہ الہان عمر نے جو کچھ کہا ہے وہ امریکی انتظامیہ کے دل کی ہی آواز ہے۔ امریکی دبائو میں نام نہاد عالمی برادری کی طرف سے ہر قسم کی فلسطینی مزاحمت خواہ وہ مسلح ہو یا غیر مسلح اسے دہشت گردی سے جوڑ کر اس کی مذمت کی جاتی ہے۔
لبرل سیاستدان، جارح کی مذمت کے بجائے جارحیت کے شکار متاثرین کوخوش اخلاقی کی تلقین کیوں کرتے ہیں؟
کئی مزاحمتی فلسطینی گروپوں کے درمیان صرف حماس کو جنگلی، مذہبی جنونی، اپنی موت کو دعوت اور تباہی کو آواز دینے والے، اور یہود کے بدترین دشمن قرار دینا، مغرب کے لبرل سیاست دانوں کا سب سے آسان سیاسی فارمولا ہے۔ مغربیوں کی پشت پناہی میں اسرائیل کا یہ سالہا سال سے پھیلایا ہوا پروپیگنڈا ہے کہ ’فلسطینی دہشت گرد‘ ہیں۔ اور ایسے آزاد خیال اس پروپیگنڈے کو پھیلانے کا ارادی یا غیرارادی طور پر ذریعہ ہیں۔
گذشتہ دو عشروں سے حماس، فلسطینی قومی سیاست کے مرکزی دھارے کی طرف مڑنے والی تنظیم ہے، جس نے اخوان المسلمون سے الگ راستہ اختیار کرکے ۱۹۶۷ء کی سرحد کو فلسطینی ریاست کی اساس کے طورپر قبول کیا تھا۔ اس نے ۲۰۱۷ء میں اپنے رہنما اصولوں کا جو خاکہ پیش کیا، وہ اس کی بدلی ہوئی پالیسی کا واضح دستاویزی ثبوت ہے۔ اس دستاویز میں کہا گیا:’’حماس تنظیم اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اس کا تنازعہ صیہونی منصوبے سے ہے نہ کہ یہودیوں کے ساتھ کسی مذہبی دشمنی کی وجہ سے۔ حماس، یہودیوں کے خلاف محض ان کے یہودی ہونے کی وجہ سے کوئی جدوجہد نہیں کر رہی بلکہ یہ جدوجہد صرف اس لیے ہے کہ اسرائیل فلسطین پر ناجائز طورپر قابض ہے۔ یہ جدوجہد ان صیہونی غاصبوں کے خلاف ہے، جو یہودیوں کو فلسطینیوں کی زمینوں پر ناجائز طور پر بسا رہے ہیں اور غیر قانونی نوآبادیاتی منصوبے کو توسیع دے رہے ہیں‘‘۔
اس دستاویز میں اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مسلح مزاحمت کی توثیق کی گئی ہے، لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’فوجی کارروائی، قومی و سیاسی اہداف کےحصول کا ذریعہ ہے نہ کہ بذاتِ خود کوئی مقصد یا ترجیحی اقدام‘‘۔ حماس کے رہنما یحییٰ سنوار نے اس کی وضاحت اپنے انٹرویو میں اس طرح کی کہ ‘ہم جنگ یا لڑائی نہیں چاہتے کیونکہ اس کی قیمت انسانی جانوں کی شکل میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہم امن چاہتے ہیں اور ایک طویل عرصے سے عوامی اور سیاسی مزاحمت کر رہے ہیں، لیکن افسوس کہ عالمی برادری اسرائیل کے جرائم اور قتل عام کو عملی طور پر روکنے کے بجائے صرف تماشا دیکھ رہی ہے اور اسرائیلی جنگی مشینیں ہمارے نوجوانوں کو قتل کیے جارہی ہیں۔ کیا دنیا ہم سے یہ توقع رکھتی ہے کہ ہمارے پیارے مرتے رہیں اور ہم رونے دھونے کے ساتھ صرف انھیں دفنانے پر توجہ مرکوز رکھیں؟ کیا خوش اخلاق شکار (victim) ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ ذبح ہوتے وقت خاموشی سے درد سہا جائے اور تڑپنے کا شور بھی نہ مچایا جائے؟ حماس پر دہشت گرد ی، خونخواری، بچوں اور عورتوں کو ڈھال کے طورپر استعمال کرنےیا یہود دشمنی کے الزامات لگانا اسرائیلی پروپیگنڈے کا حصہ ہے، کیونکہ حماس کی پالیسی اسرائیلی کے نسل پرستانہ نظریات کے خلاف اور توسیعی کارروائیوں سے متصادم ہے‘‘۔
حماس کی قومی، عسکری و سیاسی حکمت عملی دیگر سامراج مخالف حریت پسند تحریکوں مثلاً سن فین (Sinn Fein) یا آئرش ری پبلکن آرمی کی طرح سیاسی انداز سے آگے بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ کی طرف سے طویل عرصے تک آئرش گروپوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دیا جاتا رہا، لیکن پھر انھیں ان مذکرات کا حصہ بھی بنایا گیا، جو ۱۹۹۸ء کے ’بیلفاسٹ معاہدے‘ کے سلسلے میں ہوئے اور بالآخر آئرلینڈ کے شمالی علاقوں میں کئی عشروں کے بعد تشدد کا خاتمہ ہوا۔ اگر حماس اور دیگر فلسطینی دھڑوں نے فوجی مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل اور اس کے امریکی و یورپی سرپرستوں نے فلسطینیوں کی طرف سے کی گئی تمام فراخ دلانہ پیش کشوں کو ہمیشہ مسترد کیا ہے۔ حماس نے تو پیچھے ہٹ کر نام نہاد دو ریاستی حل سے بھی اتفاق کر لیا تھا، جس میں فلسطینیوں کو اپنے ہی ملک کے صرف ۲۲فی صد حصے پر فلسطینی ریاست تک محدود کر دیا گیا۔ اسرائیل اس پر بھی خوش نہیں، اس کا اصرار ہے کہ اسے دریائے اردن اور بحیرہ روم کے درمیان تمام زمین پر مستقل قبضہ اور بالادستی چاہیے۔
امریکا، حماس کو سخت بے رحمی سے مسترد کرتا ہے اور اس سے بات چیت کے لیے تیار نہیں، حالانکہ وہ طالبان مزاحمت کارروں سے تو براہ راست مذاکرات کے لیے تیار ہے جن کے ساتھ افغانستان میں بیس سال سے جنگ ہو رہی ہے۔ حماس نے آج تک امریکا سے براہ راست کوئی جنگ نہیں کی، لیکن اس کے باوجود امریکا ان سے بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ گذشتہ برس امریکی ایما پر اسرائیل اور خلیجی عرب حکومتوں کے درمیان تعلقات کی بحالی اور معاہدات ہی نے اسرائیل کو موقع فراہم کیا کہ وہ یروشلم میں مزید علاقوں پر قبضے کرکے یہودی آبادیاں بسائے۔ اسی سفاکیت نے فلسطینی مزاحمتی گروپوں کو یروشلم میں فلسطینیوں کے دفاع کے سلسلے میں ایک بار پھر عسکری کارروائیاں کرنے پر مجبور کیا۔
حماس کے خلاف لبرل سیاستدانوں کا یہ عمل بالکل ویسے ہی تعصب پر مبنی ہے، جیسے امریکا میں سیاہ فام لوگ جب اپنے حقوق کے لیے نعرہ لگاتے ہیں کہ ‘ہر جان برابر کی اہمیت رکھتی ہے’ تو ریاستی ادارے نسل پرستانہ پالیسی پر عمل پیرا ہو کر ان پر ہر قسم کا جبر اور تشدد مسلط کرتے ہیں۔ یہ بات تو تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ’ہر انسانی جان برابر کی اہمیت رکھتی ہے‘ لیکن کیسا سنگین مذاق ہے کہ انسانی جان لینے والے ریاستی تشدد اور مظلوموں کی مزاحمت پر برابر کی ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی۔ جرم کی نوعیت، واضح تشخیص اور تاریخی پس منظر جانے بغیر دونوں فریقوں پر یکساں ذمہ داری ڈالنا امن کی طرف بڑھتا ہوا قدم نہیں بلکہ ظلم اور جنگ کے شعلوں کو مزید ہوا دینے کے مترادف ہے۔ فلسطین میں ہر قسم کےتشدد کی اصل وجہ صیہونی نوآبادیاتی توسیع پسندانہ منصوبہ ہے اور اس کا راستہ روکے بغیر عدل، انصاف اور امن کی کوئی امید پوری نہیں ہو سکتی۔