شیخ تجمل الاسلام


اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی بہت سی قراردادیں بھارت اور پاکستان کو اس بات کی پابند بناتی ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کی حتمی حیثیت کا تعین عوام کی مرضی اور ایک آزادانہ اور غیر جانب دار استصواب راے (ریفرنڈم) کے ذریعے ہوگا، جو اقوامِ متحدہ کے زیرنگرانی منعقدہوگا۔بھارت کا کشمیریوں کے حق راے دہی سے انکار ان متفقہ عالمی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ 
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور اپنی افواج کے ذریعے نہتے بے گناہ کشمیری عوام پر بہیمانہ تشدد، قتل وغارت گری، زخمی کر کے لوگوں کو معذور بنا دینے کا جرم تو اپنی جگہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے، لیکن اب اس کے ساتھ کسی ملامت کے خو ف کے بغیر لوگوں کو اندھا کرنے جیسا وحشیانہ عمل، اقوامِ متحدہ کی مجرمانہ خاموشی کے حوالے سے بہت سے سنجیدہ سوال اُٹھاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی قراردادو ں اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو ناکام بنانے کے لیے بھارت نے مختلف حربوں کو اختیار کیا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو کم کرنے کے لیے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا اس حوالے سے ایک بڑا حربہ ہے۔ یہ وہی بات ہے جو سیمون پیریز نے جو اس وقت اسرائیل کا وزیرخارجہ تھا، ۲۸مئی ۱۹۹۳ء کو اپنے دورے کے موقعے پر بھارت کو مشورہ دیتے ہوئے کہی تھی: ’’بھارت کو کشمیر میں بھارت بھر سے لوگوں کو لاکر آباد کرنے سے گھبرانا یا جھجھکنا نہیں چاہیے۔ کشمیر میں صرف آبادی کے تناسب میں تبدیلی ہی بھارت کو اس پر دعویٰ کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ ایک مسلم اکثریتی ریاست کا ایک ہندو اکثریتی قوم کے ساتھ پُرامن طریقے سے رہنا ایک احمقانہ تصور ہے اور یہ تصور ایک قابلِ نفرت شے کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘۔
۱۹۴۷ء میں جب برعظیم پاک و ہند دو خودمختار ریاستوں، یعنی پاکستان اور بھارت میں تقسیم ہوگیا، تب جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی۔ مسلمان اس وقت آبادی کے ۷۲ء۴۰ فی صد پر مشتمل تھے اور ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق ان کی آبادی ۶۲ء۲۷ فی صد ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی کُل آبادی اس وقت ایک کروڑ ۲۵لاکھ ۴۸ہزار ۹سو ۲۶ ہے۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر ایک جغرافیائی وحدت کے طور پر تین خطوں پر مشتمل ہے: کشمیر، جموں اور لداخ۔ آبادی کے تناسب میں پہلی بار تبدیلی اگست سے نومبر ۱۹۴۷ء میں کی گئی جب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت، جو اس وقت جموں و کشمیر کے ڈوگرہ راجا اور بھارتی نیشنل کانگریس کی ملی بھگت سے تیار کیا گیا تھا، جموں کے مسلمانوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام کیا گیا اور جموں میں ان پر زندگی تنگ کر دی گئی۔ اس کے مصدقہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، تاہم برٹش پریس کی شائع شدہ رپورٹیں اور ہورس الیگزینڈر کا ۱۶جنوری ۱۹۴۸ءکو سپیکٹرم میں شائع ہونے والا مضمون ایک معتبر حوالہ ہے۔ ہورس کے مطابق ۲لاکھ افراد کو ہلاک کیا گیا تھا۔ دوسری رپورٹ میں آئن اسٹیفن کا دعویٰ ہے کہ ۵لاکھ افراد کو مارا گیا، جب کہ دیگر ۲ لاکھ افراد لاپتا ہوگئے۔ یہ نسل کشی کا اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ایک واضح مقدمہ تھا، لیکن عالمی برادری خاموش تماشائی بنی رہی۔ یوں مسلمانوں کے اس قتلِ عام اور بڑے پیمانے پر آبادی کی منتقلی سے جموں میں مسلمانوں کی آبادی ۶۱ فی صد اکثریتی آبادی سے کم ہوکر ۳۰فی صد اقلیت میں تبدیل ہوگئی۔
جموں کی آبادی کا تناسب ایک مرتبہ پھر تبدیل کیا گیا، جب Agrarian Reform Act 1976 کو قانون سازی کے ذریعے نافذ کیا گیا۔ اس ایکٹ نے کاشت کاروں کو ملکیتی حقو ق دے دیے۔ پھر ہزاروں غیرکشمیریوں کو ریکارڈ میں جعل سازی کے ذریعے کاشت کار ظاہر کیا گیا اور انھیں ملکیتی حقوق دے دیے گئے۔
ایک اور سازش ۲۰۰۱ء-۲۰۱۱ء کے دوران میں دیکھنے میں آئی، جب لداخ کے اضلاع لیہہ اور کارگل میں ہندو آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ لداخ میں مجموعی طور پر ہندو آبادی ۲۰۰۱ء کی ۶ء۲ فی صد تعداد سے بڑھ کر ۲۰۱۱ء میں ۱۲ء۱ فی صد ہوگئی۔ ماہرین کا خیال ہے اس بڑے پیمانے پر لداخ میں ہندو آبادی میں ۱۰۰ فی صد اضافہ صرف دس سال کی مدت میں ناقابلِ تصور ہے۔
جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے نریندر مودی کی قیادت میں ۲۰۱۴ء میں نئی دہلی میں اقتدار سنبھالا ہے، بھارت کے جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے منصوبوں نے شدت پکڑ لی ہے، تاکہ مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلا جاسکے۔ اپنے منشور اور سرکاری بیانات میں ، بی جے پی نے کھلے عام اعلان کر رکھا ہے کہ: کشمیر کا بھارتی آئین کے تحت آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اےکے تحت اور اس کے ساتھ ساتھ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے آئین کے آرٹیکل۶ کے تحت خصوصی استحقاق ختم کر دیا جائے گا‘‘۔ بی جے پی کے علی الرغم مختلف دستوری اور قانونی دھوکے بازیوں کے ذریعے، بھارت پہلے ہی کشمیر کے الگ تشخص کو محض دکھاوے کی حیثیت دے چکا ہے۔
’پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی آن ہوم آفیرز‘ بھارت، نے ۲۰۱۴ء میں سفارش کی تھی کہ: ’’مغربی پاکستان کے مہاجرین (غیرمسلم) کو جو جموں کے خطے میں رہ رہے ہیں، مستقل رہایشی سرٹیفکیٹ اور جموں و کشمیر میں ریاستی انتخابات میں انھیں راے دہی کا حق بھی دیا جانا چاہیے‘‘۔
یہ مہاجرین جنھوں نے ۱۹۴۷ء میں تقسیم برعظیم پاک و ہند کے موقعے پر پاکستان سے بھارت نقل مکانی کی تھی اور جموں کے خطے میں آباد ہوگئے تھے، مستقل رہایشی نہیں ہیں جیساکہ جموں و کشمیر کے آئین کے آرٹیکل ۶ میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ اسی طرح بھارت کے آئین کے آرٹیکل ۳۵-اے کے تحت بھی مقبوضہ کشمیر میں ا ن کی آبادکاری غیر آئینی ہے۔ یہ غیرکشمیری ہندو جو مہاجر کہلاتے ہیں،ان کی تعداد ۶لاکھ بتائی جاتی ہے، جب کہ کچھ دیگر ذرائع کے مطابق ان کی تعداد ۱۰لاکھ سے زائد ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی اتھارٹیز نے ان مہاجرین کو رہایشی سرٹیفکیٹ (ڈومیسائل) دینا شروع کردیے ہیں اور بھارتی ہوم منسٹر راج ناتھ سنگھ کی مقبوضہ کشمیر کی اتھارٹیز کو واضح ہدایت ہے کہ: ’’ریاستی آئین میں ضروری قانونی تبدیلیاں کرلی جائیں تاکہ یہ مہاجرین نہ صرف مستقل ریاستی رہایشی سرٹیفکیٹ (State Subject Certificate) حاصل کرسکیں، بلکہ جموں کے خطے میں  آٹھ انتخابی حلقوں کو بھی تشکیل دے سکیں‘‘۔
سوال یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں ان مہاجرین کو جموں میں کیوں منتقل کیا گیا، بھارت کے کسی اور علاقے میں کیوں نہیں بھیجا گیا؟نتیجے کے طور پر سامنے آنے والے واقعات نے اس بات کو واضح کردیا کہ اس کا مقصد خطے کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا تھا۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ جموں ڈسٹرکٹ میں مسلمانوں کی آبادی آج بمشکل ۵ فی صد ہے، جب کہ ۱۹۴۷ء میں یہاں مسلمانوں کی آبادی ۳۹ فی صد تھی۔ اسی طرح ضلع کٹھوعہ میں مسلمانوں کی آبادی ۳۰ فی صد سے کم ہوکر اب صرف ۸ فی صد رہ گئی ہے۔
ایک اور حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں ہزاروں کی تعداد میں کشمیری مسلمان پاکستان اور آزاد کشمیر ہجرت کر گئے اور اپنے پیچھے اربوں روپے کی جایداد چھوڑ گئے تھے۔ مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی نے اپریل ۱۹۸۲ء میں ری اسٹیبلشمنٹ بل دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا کہ  ان مہاجرین کو واپس آنے کی اجازت دی جائے، لیکن ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسے سپریم کورٹ آف انڈیا لے جایا گیا، جہاں یہ فائل فیصلے کے انتظار میں عشروں سے گرد کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس پر عمل درآمد روکنے کے لیے stay کا حکم دے دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (RSS)، بھارت کی ایک نسل پرست ہندو جماعت نے دھوکا اور دغابازی کے ذریعے ہزاروں بہاریوں، پنجابیوں اور بھارت کی دوسری ریاستوں کے ہزاروں شہریوں کے لیے اسٹیٹ سبجیکٹ سرٹیفکیٹ کے حصول کا پہلے ہی سے انتظام کرلیا ہے تاکہ انھیں جموں میں آباد کیا جاسکے۔ جون ۱۹۸۴ء میں، پنجاب میں سکھوں کے خلاف آپریشن بلیوسٹار کے نتیجے میں ہندوئوں کو جموں میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی۔ انھیں شہریت کے حقوق بھی دیے گئے۔ ان مہاجروں کو شہریت کے حقوق عطا کرنے سے بلاشبہہ کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل ہوجائے گا۔ جموں و کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعد میں آنے والی بھارتی حکومتیں طوطے کی طرح رٹنے کے باوجود کہ یہ ہمارا ’اٹوٹ انگ‘ ہے، حالات کے دبائو کے تحت ایک روز استصواب راے کے انعقاد پر مجبور ہوجائیں۔ یقینا ان مہاجروں کا ووٹ نتیجے کو فطری طور پر بھارت کے حق میں موڑ دے گا۔ 
جموں و کشمیر کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے دیگر منصوبوں پر بھی عمل درآمد جاری ہے، بالخصوص وادیِ کشمیر میں جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۹۷ فی صد ہے۔ اس مقصد کے لیے غیر کشمیری ریٹائرڈ بھارتی آرمی افسروں کے لیے کالونیوں کی تعمیر کی جارہی ہے، جب کہ کشمیری ہندوئوں کے لیے بستیاں بھی بسائی جارہی ہیں۔ اسرائیل کی یہودی بستیوں کی تعمیر کی طرح یہاں بھارت غیرکشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کررہا ہے۔
۲۰۱۶ء- ۲۰۲۶ء صنعتی پالیسی کے تحت ایک غیر ریاستی شخص مقبوضہ کشمیر میں ۴۰سال کے لیے زمین ٹھیکے (lease) پر حاصل کرسکتا ہے۔ پھر اسے زیادہ سے زیادہ ۹۰ سال تک توسیع دی جاسکتی ہے۔ یہ کاروباری مقتدرہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہوبہو نقل ہے، جیساکہ اس سے پہلے اس نے برصغیر ہند پر قبضہ کیا تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں کشمیر کی جایداد پر زبردستی قبضے اور اسے غیر ریاستی شہریوں کو منتقل کرنے کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد جن کو قبضہ دیا جائے گا، ان سب کے بارے میں توقع ہے کہ وہ غیرمسلم ہوں گے۔
بھارتی حکومت کا ان دنوں سب سے زیادہ زور جس بات پر ہے، وہ یہ ہے کہ اپنی عدلیہ کے ذریعے بھارتی آئین کے آرٹیکل ۳۵-اے کو کالعدم کرائے۔ اس سلسلے میں آر ایس ایس سے وابستہ تنظیموں اور افراد کے ذریعے بھارتی سپریم کورٹ میں عرضداشتیں داخل کی گئی ہیں۔ اگر آرٹیکل ۳۵-اے ختم ہوگیا، تو مقبوضہ کشمیر کے آئین کی ان دفعات کا جواز بھی ختم ہوگا جن کی رُو سے کوئی غیر ریاستی باشندہ کشمیر میں جایداد نہیں خرید سکتا ہے۔ نتیجتاً بھارت میں رہنے والے ہندو  مقبوضہ جموں و کشمیر میں زمین اور جایداد خرید کر آباد ہوجائیں گے اور آبادی کا تناسب بگاڑ دیں گے۔
اقوامِ متحدہ کی ۳۰مارچ ۱۹۵۱ء کی منظورکردہ قرارداد کے مطابق کوئی دستور ساز یا قانون ساز اسمبلی قانون سازی سے ایسی تبدیلیاں نہیں کرسکتے، جو استصواب راے کے نتائج کو متاثر کرسکیں۔ لہٰذا، وہ تمام اقدامات جو بھارتی حکومت نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ خطے کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے اُٹھائے ہیں، اقوامِ متحدہ کی قرارداد کی واضح خلاف ورزی ہے۔
کشمیر کے لوگ بھارت کے تمام غیرقانونی اور غیراخلاقی اقدامات اور منصوبوں کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں اور اپنا خون دے کر اس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی یہ قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھے اور بھارت کو جموں و کشمیر کی اُس حیثیت کو تبدیل کرنے سے روک دے، جو ۱۹۴۷ء میں تقسیم برعظیم پاک و ہند کے وقت تھی۔