احمد جاوید


چند برس پہلے کی بات ہے، سات آٹھ افراد کے ہمراہ مجھے ایک دعوت پر سرکاری وفد کے ساتھ ہندستان جانے کا اتفاق ہوا۔ جب ہم دلی ایئرپورٹ پراُترے تو وہاں بہت زیادہ ہجوم تھا۔ تاہم، پاکستانیوں کے لیے ایک ہال مخصوص تھا، لیکن وہاں پہنچنے کے بعد ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ اب آگے کہاں جانا ہے؟ ایک خالی کائونٹر نظر آیا ، تو مَیں وہاں جاکر کھڑا ہوگیا۔ سامنے ایک صاحب ماتھے پر تلک لگائے بیٹھے تھے۔ تلک اُن کی مذہبی پہچان کرا رہا تھا۔ وہ چھوٹتے ہی بولے: ’’یہاں کہاں کھڑے ہو؟‘‘ میں نے کہا کہ ’’میں سمجھا کہ ہمیں یہاں کھڑے ہونا ہے‘‘۔ تو موصوف نے عجیب زہریلے لہجے میں کہا :’’آپ کے سمجھنے سے کیا ہوتا ہے؟‘‘ یہ بات سن کر مجھے غصہ سا آگیا اور پلٹ کر اُس سے کہا: ’’بھائی، آٹھ سو برس تک تو ہمارے سمجھنے سے ہی سب کچھ ہوتاتھا۔ اب کوئی سو ڈیڑھ سو برس ہوئے ہیں کہ آپ کے سمجھنے سے بھی کچھ کچھ ہونے لگا ہے‘‘۔ اس پر وہ صاحب تلملا کر رہ گئے اور جواب نہ بن پڑا تو بلندآواز میں کہنے لگے: ’’ہاں، دیکھ لیں گے‘‘۔ اور اُن کے کہنے کا انداز بھی بازاری سا تھا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ واپس بھیج دیں گے تو کیا؟ مجھے بھی وہاں جانے کا کوئی شوق نہ تھا۔ بالکل بے فکر ہوکر میں یہ سب تماشا دیکھتا رہا۔

اتنے میں وہاں پر ایئرپورٹ مینیجر آگیا، جو ایک سکھ تھا۔ اس نے شورشرابا کرنے والے اس مہاشے کو ڈانٹ کر کائونٹر سے ہٹا دیا اور بڑے احترام سے مجھے کہا کہ ’’آپ اِدھر آجایئے۔ آپ کو کچھ فارم بھرنے ہیں، وہ ذرا پُر کر لیجیے‘‘۔ اس فارم میں کچھ معلومات تھیں کہ آپ کون ہیں؟ آپ کو کس نے بلایا ہے اور کہاں جانا ہے ؟ وغیرہ۔ ہم لوگ فارم پکڑے پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں ایک نوجوان لڑکا ہمارے پاس آکر پوچھنے لگا کہ’’ آپ کو کیا پریشانی ہے؟‘‘ ہم نے کہا کہ ’’سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس فارم کو کیسے پُر کریں؟‘‘ اس نے کہا کہ ’’کوئی بات نہیں۔ لایئے میں پُر کردیتا ہوں‘‘۔ وہ ہم سات آٹھ افراد کو ایک کونے میں لے گیا اور بڑی احتیاط اور نرمی سے پوچھ پوچھ کر، ایک ایک کا فارم پُر کردیا۔ ظاہر ہے کہ اس میں اُس کا کچھ وقت بھی لگا۔ میں نے اس کی خدمت میں کچھ پیسے نذر کرنا چاہے۔ اس نے ایک نظر پیسے دیکھے اور پھر میری طرف دیکھا تو اس کے چہرے سے یوں عیاں ہوا کہ جیسے اسے دھچکا لگا ہو کہ اس کے اخلاص کی قدر نہیں کی گئی۔ میں گھبرا گیا اور اسے کہا کہ آپ کی بڑی مہربانی اور پھر وہ چلا گیا۔

میرے دل میں ایک سوال پیدا ہوا کہ ’’کیا یہ کوئی مسلمان تھا؟‘‘ میں نے اس کے پلٹتے ہی وہاں کھڑے سامان اُٹھانے والے سے پوچھا کہ ’’ان صاحب کا نام کیا تھا؟‘‘ اُس نے جو نام بتایا وہ واضح طور پر ہندووانہ نام تھا۔ یہ سنتے ہی میرے ذہن کے اندر کچھ نئے تناظرات پیدا ہونے لگے اور آنِ واحد میں کچھ پرانے تناظر ٹوٹ گئے۔ وہ تناظر یہ تھاکہ ہم انسان کی قدر نہیں کرتے۔ اللہ نے اس کو احترام اور فضیلت کی سند دی ہے۔ سب سے پہلے وہ صرف بنی آدم ہے، اور پھر کوئی دوسرا حوالہ!

احترامِ آدمیت کی بنیاد

ہر انسان،اللہ کی تخلیق کا شاہکار ہے۔ ہم انسان کو اس نظر سے نہیں دیکھتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو بھی غیرمسلم ہے وہ گویا ہمارے ساتھ حالت ِ جنگ میں ہے۔ ہمارا ذہن اس طرح کا بن گیا ہے، حالانکہ ہماری فقہ میں ہے کہ محارب سے جنگ کرو، لیکن غیرمحاربین کو نقصان پہنچانے سے منع کیا گیا ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اس کے لیے واضح طور پر ہدایات دی تھیں۔ ہمارے ہاں چیزوں کو دیکھنے کا انسانی حوالہ الا ماشاءاللہ ختم ہوچکا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارا ایک داعی جو غیرمسلموں میں تبلیغ کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اس میں بنیادی خیرخواہی کی کمی ہوتی ہے۔ حالانکہ آپ کی محبت اس تک پہنچے گی تو جبھی وہ آپ کی دلیل تک پہنچے گا۔ اگر وہ بنیادی انسانی قدر، یعنی خیرخواہی سے کٹ کر محض دلیل ہی پر آجائے تو آپ کیسے اس کو قائل(convince) کریں گے؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے ذہن میں منطق اور ابلاغ کی یلغار غالب آچکی ہے، اور یہ جدید ذہن سمجھتا ہے کہ اب لوگ صحیح یا غلط کی جس عالم گیر منطق پر چیزوں کو قبول یا رَد کرتے ہیں اور ہم بھی اسی منطق پر استوار دماغ کے مالک بن گئے ہیں۔ یہ دین کی تبلیغ اور اسلام کی دعوت پیش کرنے کا کوئی مناسب طریقہ نہیں ہے۔

اسوۂ صحابہ کرامؓ

صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے مکالمہ یا مناظرہ کرکے دین نہیں پہنچایا بلکہ وہ خود مجسم اور متحرک، حق کی کنونسنگ دلیل بن گئے تھے۔ انھوں نے اپنے مفتوحین کو یہ تاثر دینے کی کبھی کوشش نہیں کی کہ ہم نے تمھیں شکست دی ہے اور تم پر فتح پالی ہے، اس لیے تم غلام اور ہم آقا ہیں۔ نہیں، انھوں نے اس سے بڑھ کر جو اگلا قدم اُٹھایا وہ یہ تھا کہ ’’ہم تمھارے خیرخواہ ہیں اور تمھارے ساتھ برابری کی سطح پر رہنا چاہتے ہیں اور ہم تمھیں اپنے سے کم تر نہیں سمجھتے، یعنی تم ایک فرد اور ہم ایک فرد۔ تم اسلام نہیں لائے اور ہم مسلمان ہیں۔ اللہ کی طرف سے جو احترامِ آدمیت تفویض کیا گیا ہے، ہم اس کی بنیاد پر تمھیں مساوات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ مساوات، مواخات میں بدل جائے اور تمھارا سماجی مرتبہ ہم سے بھی بڑھ جائے‘‘۔ بجا طور پر اس جذبے پہ اعتبار دلوا دینے کے نتیجے میں اسلام پھیلا ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو بالاتر سمجھیں اور دوسروں کو حقیر سمجھ کر انھیں تبلیغ کریں تو یہ مؤثر نہ ہوگی۔ لوگوں میں حق پہنچانے کا سارا کام جذبۂ خیر اور حکمت سے ہوتا ہے نہ کہ احساسِ برتری کے تحت۔

فرض کیجیے کہ اگر یہودی طاقت پکڑلیں اور ان کا ایک فرقہ جو تبلیغ کو مانتا ہے، حالانکہ کلاسیکل یہودیت میں تبلیغ کا تصور موجود نہیں ہے، وہ فرقہ ہمیں کہے کہ تم ایمان لے آئو، ورنہ ہم تمھیں بھنگی بنادیں گے تو کیا ہم مانیں گے؟ انھیں ایک نسلی تیقن ہے کہ ہم نبیوں کی اولاد ہیں،اور مسلمانوں نے بھی اور قرآنِ کریم نے اُن کے اس مریضانہ نسلی تفاخر کی تصدیق کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم دھونس پر مبنی ان کی اس بات کو نہیں مانیں گے۔

بلاامتیازِ مذہب احترامِ آدمیت

اس پس منظر میں لوگوں کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ انسان ایسی مخلوق ہے کہ جس کے وجود میں اللہ تعالیٰ نے اپنی روح پھونکی ہے۔ مطلب یہ کہ بنی آدم کی صورت میں اللہ نے ایک مخلوق بنائی اور اس میں کوئی ایسی چیز پھونک دی جو اپنی کسی اور مخلوق میں نہیں پھونکی۔ لہٰذا ہر آدمی جو روح اللہ کا مظہر ہے، اس کا احترا م کرنا چاہیے۔

غیرمسلموں کے عقائد یقینا غلط ہیں۔ جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر نہیں ہے، وہ یقینا خسارے اور گھاٹے کے راستے پر ہے،اور اس بات میںہمیں کوئی شبہہ نہیں ہے۔ پھر  یہ دین ہی واحد دینِ الٰہی ہے اور قیامت تک یہی شرطِ نجات ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی بخشے جائیں گے وہ مشیت ِ حق کی بنا پر بخشیں جائیں گے، کسی استحقاق کی بنیاد پر نہیں۔استحقاقِ مغفرت یا استحقاقِ جنّت وغیرہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے سے نسبت رکھتا ہے اور یہی حقیقت ہے۔ ہم اسی عقیدے کے ماننے والے ہیں۔ ہرمسلمان اس پر متفق ہے۔

 لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہرمسلمان باقی عالمِ انسانیت سے تعلق کے مسنون ادب اور مخصوص تقاضے پورے نہیں کررہا۔ مسنون ادب یہ ہے کہ اسوئہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اگر غیرمسلموں نے کوئی خدمت انجام دی ہے، یا اچھا کام کیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تحسین فرمائی ہے۔ حلف الفضول کے واقعے کی آپؐ نے تحسین فرمائی ہے اور فرمایا: اب بھی مجھے کوئی ایسا موقع ملے تو ایسے معاہدے کے لیے تیار ہوں۔ اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں کہ جن میں اچھائی کرنے والا مرتے دم تک مسلمان نہیں ہوا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی اس کا تذکرہ فرماتے تھے تو بھلائی اور ممنونیت سے ذکر فرماتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کی بھلائی کو یاد رکھا اور اس کی بھلائی کو اپنے ساتھ اختلاف پر ترجیح دی۔ حاتم طائی کی بیٹی آئی تو اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر اپنی چادر بچھائی۔اس وقت جب آپؐ اس کی تعظیم کر رہے تھے تو وہ مسلمان نہیں ہوئی تھی۔

انسان دوستی کا تقاضا

یہ بات کہتے ہوئے دُکھ محسوس کرتا ہوں کہ عمومی طور پر ہم لوگ، انسان دوست نہیں ہیں۔ اگر اس حقیقت کو زبردستی جھٹلائیں تو اور بات ہے۔ خاص طور پر پچھلی دو صدیوں میں ہم کوئی نمایاں کارنامہ انجام نہیں دے سکے۔ یہ کہ مسلمانوں نے سب انسانوں کی سہولت کے لیے کوئی چیز ایجاد کی ہو، یا زندگی میں آسانی پیدا کرنے والا کوئی طریقہ ایجاد کیا ہو۔ بدلتے ہوئے معاشی ڈھانچے میں کوئی معاشی نظریہ ایجاد کرکے واقعی دُنیا کے سامنے پیش کیا ہو، جو سب کے کام آئے۔ اس سے پہلے کی صدیوں میں بلاشبہہ مسلمانوں نے بہت سے کارنامے انجام دیئے ہیں جو انسانیت کی میراث ہیں، لیکن پچھلے دو سو برسوں کی تاریخ میں کوئی نمایاں کارنامہ نہیں نظر آتا۔ ہم مواقع سے فائدہ تو اُٹھاتے ہیں، مگر ساتھ ہی احسان فراموشی کرتے ہیں، اور خطرناک بات یہ ہے کہ اس احسان فراموشی کو دینی حمیت کا نام بھی دیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ ’’گنگارام [۱۸۵۱ء-۱۹۲۷ء] ایک مشرک اور بُت پرست ہی تو تھا، وغیرہ۔ یہ گویا ایک خاص اسلوب اور تحقیر میں اس کے سارے احسان پر پانی پھیر دینا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہاں کے لوگوں پر گنگارام کا احسان ہے۔ اگر اس ہسپتال کا نام بدل کر بوعلی سینا [۹۸۰ء-۱۰۳۷ء]ہسپتال رکھ دیا جائے تو کیا یہ اسلام کا تقاضا ہوگا؟ ہرگز نہیںاور اگر پنجاب کا مسلمان سرگنگارام کی خدمات کا اعتراف نہیں کرتا، تو یہ عمل اِتباعِ سنت کے منافی ہے۔ اسی طرح اگر کراچی میں پارسیوں کی خدمات کو وہاں کے شہری تسلیم نہیں کرتے تو وہ متبعِ سنت نہیں بلکہ احسان فراموش ہیں۔ احسان فراموشی کی روش، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی مزاجی نسبت نہیں پیدا ہونے دیتی۔

ہندستان کے سفر کے دوران صرف اس ایک واقعہ نے ، بغیر بحث مباحثہ کے مجھے ایک بہت ہی بنیادی کمزوری اور ہلاکت سے نکال دیا۔ وہ ہندو لڑکا اور ایک دوسرا فرد مجھے روز احسان مندی کے ساتھ یاد آتے ہیں۔ محسن کا حق دوست سے زیادہ ہوتاہے۔ اس نے چونکہ احسان کیا ہے، لہٰذا اس کو دوستوں سے بلند درجہ دینا ضروری ہے۔ دوستوں میں بھی اصل خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ ہمارے محسن ہوتے ہیں۔ دوستی میں بھی اصل وجۂ فضیلت احسان ہی ہے۔

ایک ناقابلِ فراموش واقعہ

اس سفرِہند میں ہمیں دہلی سے حیدرآباد دکن بھی جانا تھا۔ جب ہم حیدرآباد پہنچے تو رات ہوگئی تھی۔ ہمیں جس ہوٹل میں ٹھیرایا گیا، وہ ایک مسلمان کی ملکیت تھا اور اس کا سارا عملہ بھی مسلمانوں پر مشتمل تھا۔ استقبالی کائونٹر پر کلمہ لکھا ہوا تھا۔ کائونٹر پر کھڑے لڑکے سے میں نے پوچھا کہ ’’بھئی، یہاں مسجد کہاں ہے؟‘‘ مجھے مسجد دیکھنے کا شوق ہوا اور یہ بھی کہ وہاں جماعت سے نماز پڑھوں، حالانکہ میں ایک مسافر تھا، کمرے میں بھی نماز پڑھ سکتا تھا اور باقی ساتھیوں کے ساتھ وہیں جماعت کے ساتھ بھی نماز پڑھ سکتا تھا۔ جس طرح سیاحوں کا ایک جذبہ ہوتا ہے کہ مسجد دیکھی جائے، یہی شوق میرے اندر پیدا ہوگیا۔ اس نوجوان نے کہا کہ میں بھی آپ کے ساتھ نماز کے لیے چلوں گا۔

سردیوں کا موسم تھا۔ جب نمازِ فجر سے کچھ پہلے اُٹھا تو رات کے وقت یہ پوچھنا بھول گیا کہ فجرکی نماز کا وقت کیا ہے؟ خیر، جب نماز کے لیے اُٹھا تو دیکھا کہ وہی لڑکا کائونٹر پر سر رکھ کر گہری نیند سو رہا تھا۔ یہ سوچ کر کہ اسے اب کیا اُٹھائوں؟ اکیلا خود ہی نکل پڑا۔ ابھی فجر کا وقت نہیں ہوا تھا، تہجد کا وقت تھا۔ قریب ہی سڑک پر بس اسٹینڈ تھا، وہاں ایک صاحب داڑھی اور لمبے لمبے بالوں والے کھڑے نظر آئے۔ میں نے انھیں السلام علیکم کہا اور انھوں نے بھی وعلیکم السلام کہا۔ میرے لاشعور میں یہی تھا کہ یہ مسلمان ہی ہوگا۔ میں نے پوچھا کہ ’یہاں مسجد کہاں ہے؟‘ اس نے کہا کہ ’مسجد تھوڑی دُور ہے اور اگر میں راستہ بتائوں تو تم وہاں پہنچ نہیں سکو گے۔ کیا تم یہاں نئے ہو؟‘ میں نے کہا: ’جی ہاں‘۔ پھر وہ شخص مجھے لے کر گلیوں میں اِدھر اُدھر گھومتے ہوئے مسجد کی طرف لے چلا۔ اندازہ ہے ایک ڈیڑھ کلومیٹر ضرور فاصلہ طے کیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے پوچھا: ’کیا آپ واپسی پر بھی ساتھ ہوں گے؟‘اس نے کہا: ’نہیں، البتہ میں واپسی کا راستہ بتا دیتا ہوں، وہ سیدھا ہے‘۔ جب ہم مسجد کے قریب پہنچے تو فجر کی اذان ہوئی۔ میں نے ان سے کہا: ’آپ کی بڑی مہربانی، آپ اپنا نام تو بتا دیجیے‘۔ اس نے اپنا نام رام داس بتایا۔ جیسے ہی میں نے یہ نام سنا تو مجھے یوں لگا جیسے ڈھیروں پانی پڑگیا ہو۔ میں نے سوچا کہ یہ تو بس کے انتظار میں کھڑا تھا اور یہاں آنے میں کم از کم ۴۰منٹ لگے اور کچھ وقت اسے واپسی میں بھی لگے گا، اس پر میں حیران رہ گیا۔ پھر اس شخص نے مجھ سے صرف یہ کہا کہ’آپ میرے لیے دُعا کرنا‘ اور یہ کہہ کر اور واپسی کا راستہ سمجھا کر وہ چلا گیا۔

اسوۂ رسولؐ کا ایک پہلو

جب کبھی میرے اندر ان دونوں افراد کی یاد اُٹھتی ہے، تو وہ یاد احسان مندی کے جذبے کے ساتھ ہی اُٹھتی ہے، حالانکہ میں ان کے ساتھ آشنا بھی نہیں تھا اور یہ تعلق محض انسانی تعلق کے جذبے کا نتیجہ تھا۔ بالکل یوں محسوس ہوتا ہےکہ مجھے رسولؐ اللہ کی اِتباع کا راستہ مزاجاً مل گیا ہو، وہ بھی بغیر کسی کوشش اور کسی مجاہدے کے۔ لہٰذا، اس پر مجھے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس طرح اسوئہ رسولؐ اللہ کا ایک اسوہ مل گیا ہے اور اللہ نے اس سے ایک مناسبت پیدا کردی ہے۔

یہ چیزیں ہم کو احساس تو دلاتی ہیں کہ ہم نے اس دین سے نسبت تو پیدا کرلی ہے، لیکن اس دین کی راہ میں رکاوٹ بھی ہم خود ہی ہیں۔ ہمارے دین میں بظاہر جو بھی ضعف پیدا ہوتا دکھائی دے رہا ہے، وہ دین میں نہیں بلکہ وہ ہماری معاشرت میں، علم میں، مذہبیت میں ہے۔ ہم نے ان کو رسولؐ اللہ کے ’مزکی‘ پیدا ہونے کے پہلو سے اپنایا ہی نہیں، نبیؐ سے مزاجی مناسبت کو کوئی اہمیت نہیں دی اور آپؑ کی ان سنتوں سے جو رحمۃ للعالمینی سے اظہار پاتی ہیں، ان کو سیکھا سکھایا، اپنایا ہی نہیں۔

جذبۂ خیرخواہی کا تقاضا

اس لیے یہی درخواست کرتا ہوں کہ انسان کی قدر کرو کہ انسان کی ناقدری کرکے اللہ کی تعظیم نہیں کی جاسکتی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک عجیب طرح کا activism، اور جارحانہ مزاج، ایک عجیب طرح کی لاتعلقی یا غیرمسلموں کےساتھ ایک تحقیری رویہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں گہری جڑپکڑ چکا ہے۔

اب دیکھیے، کیا کبھی رمضان کے دوران میں یہ خیال آیا کہ جو عیسائی ہمارے ہاں کام کرتے ہیں ان کی کچھ خبرگیری بھی ہو؟ ان کو یہ احساس دلایا جائے کہ رمضان بہت بابرکت ہوتا ہے۔ اپنے حُسنِ سلوک سے ان سے یہ تو کہلوا دیں کہ مسلمانوں کا رمضان، صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ سب انسانوں کے لیے بھی بابرکت ہوتا ہے۔ اگر زکوٰۃ انھیں نہیں دے سکتے، مگر انفاق کا حکم تو زیادہ بڑا ہے۔ انفاق میں تو کوئی قید نہیں ہے۔ نبیؐ غیرمسلموں کی مدد بھی فرماتے تھے اور  ان سے قرض بھی لیتے تھے۔ معاشرت میں مساوات کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ میں آپ سے قرض لوں کیونکہ قرض لینے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ میں نے آپ کو مساوی سمجھا ہے۔ اس طرح صحابۂ کرامؓ نے بھی غیرمسلموں سے قرض لیا اور ان کی مدد بھی کرتے تھے۔

رمضان کی برکت سے ہمارے اندر رقّت قلبی پیدا ہوجائے کہ ہمارا دوسرے سے تعلق خیرخواہی کی بنیاد پر استوار ہو۔گویا دوسرے کی خیرخواہی ایک جوہرِاخلاق ہے، وہ ہمارے اندر پیدا ہوجائے۔ اُس فرد کو باطل پر سمجھتے ہوئے اور اسے گمراہی پر مانتے ہوئے بھی یہ تعلق انسانیت اور ہمدردی کا عنصر رکھتا ہو۔ یہ خیرخواہی اس طرح کی نہیں ہے کہ ’’تم بھی ٹھیک ہو، اور ہم بھی ٹھیک ہیں‘‘۔ یہ کہنے کا ہمیں کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن یہ کہنا لازم ہے کہ اگرتمھیں ضرورت ہے تو میں اپنی ضرورت چھوڑ کر تمھاری ضرورت پوری کردوں گا۔ یہ رویہ اگر مسلمانوں کا ہوتا تو آج دُنیا میں اکثریت مسلمانوں کی ہوتی۔

عیسائی مشنریوں کا جذبۂ خدمت اور ہمارا رویہ

عیسائی مشنریوں نے اپنا مذہب پھیلانے کے لیے جیسی قربانی دی ہے، ہم اُس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ان کی خدمت خلق کی وجہ سے، ان کی شفقت کی وجہ سے اور اُسی سطح کی زندگی  اختیار کرنے کی وجہ سے، جس سطح پر بسنے والوں کو وہ اپنا دین منوانے آئے تھے، ساری ساری زندگی افریقہ کے غیرشہری لوگوں اور افریقہ و ایشیا کے مرطوب علاقوں میں گزار دی۔ایک جرمن نژاد خاتون ڈاکٹر روتھ فائو [۱۹۲۹ء-۲۰۱۷ء] جنھوں نے شادی بھی نہیں کی اور ۴۰سال سے وہ پاکستان میں جذام کا علاج کرتی رہی تھیں اور ۱۹۹۵ء میں جذام کو پاکستان سے ختم کرنا ان کا بڑا احسان ہے۔ جذامیوں کے لیے بنائے گئے ہسپتال کے ایک کمرے میں انھوں نے ۴۰ سال گزارے اور کہا کہ میں جرمنی واپس نہیں جائوں گی۔یہیں فوت اور یہیں دفن ہوئیں۔

مدر ٹریسا [۱۹۱۰ء-۱۹۹۷ء] کی سماجی خدمات دیکھیں تو ہند میں گاندھی [م:۱۹۴۸ء] کے اتنے سماجی اثرات نہیں، جتنے مدر ٹریسا کے ہیں۔ وہ ایک آشرم میں رہتی تھیں۔کبھی کوڑھیوں کو نہلا رہی ہوتیں، اور خدمت خلق کے عجیب عجیب کام کرتیں۔ ظاہر ہے کہ میں ان کے مذہب کو حق نہیںسمجھتا، لیکن اس دُنیا میں رہنے کے لیے جو خوبیاں درکار ہیں اور اس دُنیا میں جس نظامِ مراتب کے تحت لوگ کسی کو بڑا سمجھتے ہیں اور کسی کو چھوٹا، وہ ایک آفاقی اور اخلاقی نظام کے خدوخال پر قائم ہے۔ اس نظام کے تحت مدر ٹریسا جیسی مثالیں اپنی طرف سے فی زمانہ پیش کرنے میں خاصی دِقّت محسوس ہوتی ہے۔

یہ باتیں صرف اس وجہ سے ہیں کہ ہم اپنے دین کی بنیادی انسانی، آفاقی اور اخلاقی قدروں سے وفاداری کا ثبوت نہیں دے رہے۔ ہم رسولؐ اللہ کے متبع بننے کی کوشش نہیں کر رہے۔ ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ایک حتمی، قطعی اور ابدی فضیلت کو اہمیت نہیں دیں گے تو پھر یہی کچھ ہوگا۔ ذرا سی کوئی بات کرو تو سوال اُٹھا دیتے ہیں کہ یہ جنّت میں جائے گا، اور یہ نہیں؟ جنّت کا اصول اور فیصلہ تو خالق حقیقی نے کرنا ہے، میرے فتوے نے نہیں کرنا۔ ہمیں اسلام اور شریعت کے قانونِ جنّت کے ساتھ خود جنّت جانے اور دوسروں کو جنّت میں لے جانے اور دُنیا کو جنّت بنانے کے لیے ذمہ داری ادا کرنی چاہیے کہ یہی چیز اسلام کے قانونِ دعوت کی بنیاد ہے۔

مولانا مودودیؒ پر گفتگو کرتے ہوئے،ان کے لیے ’انشا پرداز‘ کا لفظ استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔انشا پردازی کا لازمہ ہے مبالغہ، یعنی دیکھے ہوئے کو زیادہ دکھانا۔ جب اس لفظ کے تحت بات کریں گے تو ہم اس دائرے میں محدود رہیں گے کہ ’ان کی انشا میں کیا امتیازات ہیں؟‘

مولانا جس زمانے میں لکھنا شروع کر رہے تھے، اس زمانے میں مذہبی علوم اپنے اظہار کے سبک اسالیب پیدا کر رہے تھے۔ تاہم، فضا میں گردش کرتا مشہور فقرہ یہ تھا کہ ’’مولوی کو لکھنا کیا آئے؟‘‘ یا ’’مولوی کو زبان نہیں آتی‘‘۔ کچھ لوگوں نے اس صحیح اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کمی کا ازالہ کیا۔

مثال کے طور پر شبلی نعمانی [م: ۱۹۱۴ء] نے دین کے ساتھ ذہنی تعلق کے جتنے اسالیب اور جتنے بھی راستے ہوسکتے ہیں، ان سب کو ایک معروضی انداز کی نثر میں لکھنا شروع کیا۔ اس میدان میں وہ خود ایک دبستان ہیں۔ اس سب کے باوجود ان کی تحریروں سے آدمی کے اندر مذہبی نمو کے آثار نہیں پیدا ہوتے تھے۔ وہ سیرت بھی لکھتے تو اس طرح لکھتے کہ اس سے معلومات میں کچھ اضافہ ہوگیا یا جو روایات غلط تھیں، ان کو اپنی حد تک انھوں نے صحیح کر دیا، لیکن اس کارِ تصنیف سے صاحب ِ سیرتؐ کے ساتھ وہ ربط و تعلق محسوس نہیں ہوتا جو درکار ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کی نثر میں کمی تھی۔ معاملہ دراصل یہ تھا کہ انھوں نے اپنے آپ کو محقق بنانا قبول کیا تھا، اس لیے ان کی نثر محققین کی طرح کی تھی اور اس زمانے میں رائج مغربی تصور کے اثرات کے تحت تھی کہ چیزوں کو detachment  [ناوابستگی] اور objectivity [واقعیت] کے ساتھ بیان کیا جائے۔ مطلب یہ کہ اس میں جذبے یا اپنے تعلق یا کسی درجے کی احساساتی کمیونی کیشن نہ کی جائے۔ ہمارے ہاں اس اسلوب کی سب سے بڑی مثال شبلی ہیں۔

اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد [م: ۱۹۵۸ء] ایک بڑے آدمی تھے۔ انھوں نے ایک طرح سے ادب کو مذہب پر غالب کر دیا تھا۔ اُنھوں نے ادب اور نثر کی خطیبانہ قسم کو مذہبی مضامین پر حاوی کردیا تھا۔ ان کی خطابت کا زور شور اتنا ہے کہ آدمی کو بے دست و پا اور مبہوت کردیتا ہے، لیکن کچھ سمجھاتا نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ جو علمی اضافہ ایک قاری اور متلاشی کو درکار ہے، ایک سادہ دلیل کے ذریعے، وہ ان کے یہاں نہیں ہے۔ بہرحال وہ نثر میں ایک بلندآہنگ خطیبانہ اسلوب کے بانی ہیں۔ اس لیے اگر ہم دینی لٹریچر میں نثر کے ممتاز اسلوب کے آغاز کا سوال اُٹھائیں، تو اس کا جواب ہے: وہ ابوالکلام ہیں۔

پھر عبدالماجد دریابادی صاحب [م:۱۹۷۷ء]نے اچھی نثر لکھی۔ سیّد مناظر احسن گیلانی صاحب [م: ۱۹۵۶ء]کا ذکر یہاں خاص طور پر کرنا چاہوں گا۔ شبلی نعمانی، ابوالکلام آزاد یا عبدالماجد دریابادی کی نثر میں ایک کسر رہ گئی تھی اور بہت بنیادی کمی تھی، وہ یہ کہ وہ خیال کو passion  [اشتیاق]نہیں بناتے تھے۔ دینی کام ہو ہی نہیں سکتا، چاہے وہ علمی ہو، کلامی ہو یا قانونی ہو، جب تک وہ ایک شدید احساس بن کے قاری میں منتقل نہ ہو۔ یعنی ایک صحیح خیال اور اس صحیح خیال کی حرارت دل میں اور روشنی ذہن میں اُتر جائے۔ یہ ہمارے سلف کا طریقہ تھا۔ ہمارے اسلاف کی تحریریں اگر  آپ دیکھیں، جس کی بظاہر اُمید کم ہے، لیکن بہرحال جب پڑھیں گے تو آپ کو احساس ہوجائے گا کہ یہ تحریریں میری شخصیت میں چند قیمتی عناصر کا اضافہ کررہی ہیں۔

آپ ابواسحاق شاطبی [م: ۱۳۸۸ء] کو پڑھ لیجیے۔ ان کی اصولِ فقہ پر کتاب الموافقات فی اصول الشریعۃ ہے۔ اس کو پڑھیں تو وجد آنے لگتا ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ افلاطون کو پڑھ رہے ہیں۔ کبھی کچھ لگتا ہے اور کبھی کچھ لگتا ہے۔ یعنی شعور کی تربیت اور وجود کی تراش خراش کرنے والی تمام قوتیں ان کی تحریر میں جمع ملتی ہیں۔ وہ اگر بات کر رہے ہیں تو پیش نظر چیز کا بالکل درست علم فراہم کرتے ہوئے، اس چیز کے وجود کے احوال کو اس کی بنیادی معلومات کے فہم کے ساتھ آپ کے خیال کی دُنیا میں داخل کردیتے ہیں۔ یہ بات نئے لوگوں میں نہیں ہے۔ سلف کا جو اسلوبِ ابلاغ ہے اور ان کے ہاں جو جذبۂ اظہار ہوتا تھا، وہ مناظر احسن گیلانی تک پہنچ کر ختم ہوگیا۔  النبی الخاتم کو پڑھ کر بہت سے لوگ مسلمان ہوئے ہیں۔ اسی طرح اور بہت سے لوگ ہیں جو سادہ نثر لکھ رہے تھے۔ انھوں نے اپنا مقصود یہ بنایا تھا کہ دین اور اس کی ضروریات کو اور دین کو مانتے ہوئے اس کے ضروری استدلال کو ایک متوسط درجے کے قاری تک پہنچا دیں۔

میں ذاتی طور پر مولانا اشرف علی تھانویؒ کو اپنا مربی مانتا ہوں۔ یہ اس لیے بتا رہا ہوں کہ یہ جو یبوست اور گھٹن طاری ہے کہ لوگ اختلاف کو انقطاع کا سبب بناتے ہیں، یہ کسی بھی طرح کم ہو۔

مولانا مودودی نے اپنا مقصود یہ بنایا کہ تحریر سے قاری کے ذہن کی صفائی ہوتی رہے اور ارادے کو تحریک ملتی رہے۔ انھوں نے ارادے کا محرک بننے والی نثر لکھی۔ ایسی نثر لکھی جو ارادے کو مضبوط کرتی ہے، دماغ کو اس منزل کی طرف یکسو کرتی ہے، جسے عمل سے حاصل کیا جائے گا۔ انھوں نے دین کا قابلِ عمل ہونا بہت ہی کامیابی سے  بیان کیا۔

دوسری چیز جو ان کے زمانے میں کہیں نہیں تھی، وہ یہ سوال ہے کہ دین اسلام کے ماننے والوں کی اجتماعیت کن اصولوں پر تشکیل پاتی ہے؟

ہم ابھی تک یہ بات سننے کے عادی تھے کہ فرد کے لیے دین کیا تقاضا رکھتا ہے؟ فرد کے لیے دین سے مستفید ہونے کے کیا کیا ذرائع ہیں؟ اور ’تزکیہ‘ کا مفہوم صرف ’تزکیۂ افراد‘ تھا۔ مولانا کی یہ بہت بڑی عطا (contribution )ہے کہ انھوں نے ’تزکیہ‘ کے اس تصور میں چھپی ہوئی محدودیت کو کھول دیا اور تنگی کو توڑ دیا۔ اس پوسٹ کلونیل دور میں دین کی حفاظت اور مضمحل ہوجانے والی مسلم نفسیات کو دوبارہ سے زندہ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ افراد پر توجہ کے بجائے اس قوم کو اُمت کا ایک فعال حصہ بنایا جائے۔ وقت کی اس ضرورت کو مولانا نے خوبی سے پورا کیا۔

تیسری بات یہ ہے کہ انھیں پڑھتے ہوئے خیال پر ذہن مطمئن اور تاثّر پر قلب شانت [مطمئن] ہوجاتا ہے۔ مولانا کے ہاں یہ چیز اس طرح سے ہے کہ یہ آپ کے ارادے کو اللہ کی مراد کے مطابق ڈھالنے کے لیے، اور اس ارادے کی حرکت کے نتیجے میں جو مفاد مطلوب ہے، اسے اجتماعی اثاثے اور اجتماعی جذبے کی شکل میں پیش کرتی ہے۔ وہ ارادہ، محض فرد کے کسی اُخروی تزکیے والے مفاد سے نہیں پورا ہوسکتا۔ انھوں نے اس تزکیے کے عمل کو اجتماعی ضرورت بنایا اور تزکیے کے اجتماعی رول کو بالکل علمی انداز میں ثابت کرکے دکھا دیا کہ اجتماعی تزکیے کے بغیر انفرادی تزکیہ نہیں ہوسکتا۔

آپ آج کے حالات دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں صرف یہی چیز بچاسکتی ہے کہ اگر ہم نے اسلام کو اپنے مرکزی اور ثانوی تمام تشخص کا واحد منبع اگر نہ بنایا تو    ع

’تمھاری‘ داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

یہ بنیادی اصول مولانا نے سکھایا۔ مسلمانوں کی اجتماعی دینی حمیت اور مسلم نفسیات پر چھائی ہوئی غلامی کے نتیجے میں افسردگی کو انھوں نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور دینی لٹریچر میں اس غلامانہ ذہنیت کا سانچا  توڑ کر دکھا دیا۔ یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔

انقلاب کسے کہتے ہیں؟ انقلاب کا مطلب ہے موجودہ اقدار اوراس کے مظاہر کا بالکل بدل جانا، یعنی باطن بھی بدل جائے اور ظاہر بھی بدل جائے۔مولانا مودودی نے اس ضرورت کو جس عمدگی، جس جامعیت اور جس consistency  کے ساتھ پورا کیا ہے، اور دین کے فہم، دین کے احکام اور دین کے عقائد کو، عمل کی ڈوری میں پرونے کا کامیاب مشن انجام دیا، اس کی افادیت اب پتا چلے گی کہ جب اجتماعیت کو نظرانداز کرنے کے نتیجے میں ہرایئرپورٹ پر واپس کیے جائوگے، تب اس بات کا احساس ہوگا کہ اگر ہم ایک اجتماع میں ڈھل چکے ہوتے، ہم اپنی مثبت سوچ کے ساتھ اپنی اجتماعی تشکیل اور اس اجتماعی تشکیل کی برکات دُنیا کو دکھا چکے ہوتے، تو آج اس طرح ذلیل نہ ہورہے ہوتے۔

آج سماجی اور ریاستی سطح پر وہ ماحول ہے کہ نظام بدلے بغیر فرد کا ’تزکیہ‘ ناممکن ہے۔ سیاسی نظام، حکومت، ریاست ان سب کا امتزاج (Synthesis) نہ ہوا، تو اب فرد کا ’تزکیہ‘ بھی ناممکن ہوکر رہ گیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انکارِ دین کے اتنے مظاہر پیدا ہوچکے ہیں ، اور دین کو چھوڑنے کے اتنے وسیلے پھیل چکے ہیں کہ آدمی اپنے آپ کو اس بہائو میں بہنے سے روک نہیں سکتا۔ اس بہائو کے سامنے روک لگاکر دوسرے چشمے سے ہمیں پانی جاری کروانا ہے۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں ہے کہ ریاستوں کی یکجائی، یکسوئی اور مکمل شمولیت اور نظام کے اسلامی ہوئے بغیر یہ ہوسکے۔

مولانا مودودی کی منطق آج سمجھ میں آتی ہے۔ مولانا کا جو یہ پیغام ہے یا ان کی دینی فکر کا یہ خلاصہ ہے کہ ’’انسان پر اثرانداز ہونے والے آرڈر (نظام)کو بدلو۔ وہ آرڈر اگر ٹھیک ہوگا تو آدمی بھی ٹھیک ہوگا‘‘۔ وہ آرڈر اگر بے حیائی وغیرہ کو مسلط کیے رکھے گا، تو میں کب تک دوسری نظر ڈالنے سے بچ سکوں گا۔ میں کہتا ہوں کہ آج ہم نہیں بچ سکتے۔ مطلب یہ کہ سوسائٹی اسلامی ہو ہی نہیں سکتی، جہاں ڈھیلے ڈھالے معنی میں دوسری نظر سے مرد کا روکنا آسان نہ ہو۔ دوسری نظر سے مراد وہ حدیث ہے کہ پہلی نظر مباح ہے اور دوسری نظر کا وبال ہے۔ اب آپ اس سے کہاں تک بچیں؟

دین کی تمام اقدار، تمام نفسیاتی اصول اور اخلاق کی تعمیر کرنے والے تمام احکام، روزانہ قدم قدم پر سامنے آنے والی معذوری کی نذر ہورہے ہیں۔ ہمارا پورا دین معذوری کی نذر ہو رہا ہے اور اس پر تجدد کے حلقوں میں جیسے خوشی کی لہر دوڑی ہوئی ہے کہ وہ دین کے دائرۂ اثر اور دائرۂ کار کو محدود سے محدود تر کرتے جائیں اور سکیڑتے چلے جائیں اور وہ یہ کر رہے ہیں۔ ایمانی حرارت اور روح کے مطابق اس احساس کی اہمیت کو اُجاگر کرنا، دین کے ہر دعوے دار پر لازم ہے۔  مولانا مودودی کا اُمت پر ایک بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے اس فکرمندی کو پروان چڑھایا۔

بلاشبہہ میں مولانا کی فکر کے کئی بنیادی اجزا سے اختلاف رکھتا ہوں، لیکن اس کے باوجود ان کا یہ احسان سمجھتا ہوں کہ انھوں نے ہماری دین داری کے پورے اسٹرکچر [ڈھانچے اور ہیکل] کو اس نالائق قوم میں تعمیر کرکے تو دکھا دیا۔ اب چاہے اس سائبان میں کوئی رہنے آئے یا نہ آئے، وہ ان کا کام نہیں ہے۔ اس لیے ایک تو یہ کہ دین کی کلیت اور اس کے حصول کے عملی اور فکری راستے مولانا کے علاوہ کہیں نہیں ملیں گے، پورے اسلامی لٹریچر میں نہیں ملیں گے۔

اپنی دانست میں آپ کے سامنے مولانا مودودی کی نثر پہ بات کر رہا ہوں۔ ان کے ہرمضمون کی روح اور مرکزی خیال دعوتِ انقلاب ہے۔ ان کی ہربات کے پیچھے mother meaning یہ ہے کہ ’خود کو مکمل طور پہ بدلو اور دُنیا کو مکمل طور پہ بدلو‘۔ اب یہ فکر اپنے آپ کو ادبی خرابیوں سے بچاتے، اخلاقی نقائص سے محفوظ رکھتے ہوئے اور اپنے مخاطب کی تحقیر کیے بغیر بھی کس طرح کی نثر میں بیان ہوسکتی ہے؟ دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ انقلابی بنیادی طور پر سخت دل اور بہت اُجڈ ہوتا ہے، وہ چاہے کوئی ہو۔ وہ مخاطب کو بے قیمت، کم فہم اور فکرودانش سے عاری مخلوق کی طرح سمجھتا ہے۔ مگر معروف انقلابیوں کی یہ مسلّمہ بیماری، مولانا مودودی کے نثری اسلوب اور ان کے دلائل میں کہیں نظر نہیں آتی۔

پھر یہ کہ ہرانقلابی کی سب سے بڑی دلیل وہ خود ہوتا ہے، یعنی خود کو بنا کر پیش کرتا ہے۔ مولانا کے ہاں یہ ’خود‘ غائب ہے۔ مولانا کی تحریر میں، ان کی گفتگوئوں میں، ان کی نشستوں میں وہ موضوعِ گفتگو بننے سے مکمل گریز کرتے تھے۔ میں نے کم لوگ دیکھے ہیں جو اپنی تعریف برداشت نہ کرتے ہوں اور غیبت کو اپنی مجلس میں دَر آنے کی اجازت نہ دیتے۔ مگر مولانا کا یہ کرامت کے درجے کو پہنچا ہوا مزاج تھا۔ برصغیر کی تاریخ میں سرسیّد کے بعد مولانا کو بدترین مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور اس میں بہتان، اتہام کی انتہائوں کو دیکھنا پڑا۔ یہ تو ہمارا مذہبی اور سیاسی کلچر ہے کہ مخالف کو متہم کرو، اس پر کوئی بھی بدترین بہتان لگائو۔ مولانا پر کیا کیا بہتان نہیں لگائے گئے؟ لیکن انھوں نے کسی کا نوٹس نہیں لیا اور پھر یہ کہ بہتان لگانے والے کا ذکر اگر ان کی محفل میں آجاتا تھا تو کہتے تھے کہ چھوڑیں! کوئی اور بات کریں۔ جو لوگ مولانا سے ملے ہیں وہ یہ بات جانتے ہیں۔ وہ کبھی کسی کے بارے میں کوئی ہلکی بات نہیں کہتے تھے۔ کبھی کسی غائب آدمی کے بارے میں ذاتی شکایت کی بات نہیں سنتے تھے۔کوئی ان کے سامنے یہ بات کَہْ ہی نہیں سکتا تھا اور اپنا فقرہ مکمل نہیں کرسکتا تھا۔

یہ وہ انقلابی ہے جو وارثِ انبیاؑ ہوتا ہے۔ انبیاؑ اپنے آپ کو عاجز بندے کی طرح مرکزِ ایمان بناتے ہیں۔ اس سے آپ انبیاؑ کی مشکل کا اندازہ کیجیے۔اپنے آپ کو غیرمشروط طور پر منوانے کا جو انداز ہے، وہ انبیاے کرامؑ عاجزی کے ساتھ اختیار کرتے ہیں۔ ان کے اس اتباع کا جو بڑا نمونہ ہمارے ہاں پایا جاتا ہے، وہ مولانا مودودی ہیں۔

مولانا بنیادی طور پر خطیب نہیں تھے، ان کی دعوت کا بہت کم حصہ تقریری ہے، دراصل  وہ تحریر کے آدمی تھے۔ ان کی تحریر میں سب سے بڑا ادبی وصف یہ ہے کہ یہ ایک طرح سے ’سہل ممتنع‘ میں لکھی گئی نثر ہے۔ ’سہل ممتنع‘ شاعری کی اصطلاح ہے، لیکن اگر یہ اصطلاح کسی کی نثرپر وارد کی جاسکتی ہے تو وہ مودودی صاحب کی نثر ہے۔

’سہل ممتنع‘ کسے کہتے ہیں؟ اسے یوں سمجھیے کہ اگر آپ کسی کو یہ کہیں کہ ’کھانا تناول فرما لیجیے‘ تو وہ کہے گا کہ یہ جملہ بڑا مشکل ہے۔ لیکن ’سہل ممتنع‘ اسے کہتے ہیں کہ سنتے اور لکھتے اور پڑھتے وقت کوئی قول یا کوئی شعر یا کوئی بیان ایسا لگے کہ اس کے پیچھے جھانکنے کی ضرورت ہی نہ محسوس ہو۔ پہلے ہی تاثّر میں فرد کَہْ دے کہ ’یہ تو مَیں بھی کہہ سکتا ہوں‘، لیکن آپ لکھنے یا کہنے بیٹھیں گے تو آپ کو یوں لگے گا کہ آپ کو عمرنوح بھی مل جائے تو نہیں کَہْ سکتے۔ اسے ’سہل ممتنع‘ کہتے ہیں۔

مولانا کی نثر پر یہ اصول وارد کرکے دیکھیے تو ان کی ایک کتاب: اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی کے علاوہ مولانا کے ہاں نثر کا اصطلاحی انداز نہیں ہے۔ یہ تھوڑی مشکل کتاب ہے۔ اور باقی ہرجگہ پڑھنے والے کو لگتا ہے کہ میں پوری بات سمجھ گیا ہوں اور یہ کہ مجھے اس فقرے یا پیراگراف کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اپنے احساس میں صحیح ہوتا ہے کیونکہ مولانا کو پڑھنے والا ان کی بات کو سمجھنے کا اعتماد پیدا کرلیتا ہے اور اسے متن پر دوسری نظر ڈالنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔ تاہم، دیکھیں تو آج کل جماعت اسلامی کے اکثر لوگ مولانا کی تحریروں پر پہلی نظر ڈالنے سے بھی دُور دکھائی دیتے ہیں۔ بات ہورہی تھی کہ انھیں پہلی بار ہی پڑھتے ہوئے پتاچل جائے گا کہ جو مفہوم میں نے سمجھا ہے وہ صحیح ہے، کامل نہیں ہے۔ یہ نثر کا کمال ہوتا ہے کہ آپ غلط مفہوم اخذ نہیں کریں گے لیکن جو مفہوم بھی آپ اخذ کریں گے، وہ صحیح اور آپ کے لیے کافی ہونے کے باوجود مکمل نہیں ہوسکتا ہے۔ میں ایک مثال عرض کرتا ہوں۔

مولانا کا ایک مضمون نیاز فتح پوری [م: ۱۹۶۶ء]کے رَد میں ہے اور ان کے دورِ جوانی کا لکھا ہے۔ اس کا عنوان ہے: ’تجدد کا پائے چوبیں‘۔ اس لفظ کو لغت میں دیکھنے کی ضرورت ہوگی تو وہاں سے دیکھ لوں گا۔ لیکن اگر یہ لفظ کہیں سکول میں سیکھا اور پڑھا ہوا ہے تو میں اس عنوان کو پڑھ کر ٹھٹھک نہیں جائوں گا اور یہ عنوان کسی چیلنج کی طرح نہیں لگے گا، بلکہ بے ساختہ داد دوں گا کہ واہ! کیا عنوان ہے لیکن یہ تب ہوگا، جب آپ کو ’پائے چوبیں‘ کی بنیاد اور اصل کا پتا ہے، اگر آپ یہ جانتے ہیں کہ مولانا نے یہ لفظ کہاں سے لیا ہے؟ اور پھر وہ تجدد کو اس سے کیوں نسبت دے رہے ہیں؟ مگر افسوس کہ آج عام صلاحیت کا آدمی یہ نہیں دریافت کرسکتا، اگرچہ یہ ہے ’سہل ممتنع‘۔

اسی طرح ان کے کچھ مشہور فقرے ہیں، جیسے ’آج کل کے الیکشن شکاری کتوں کی دوڑ ہیں‘،یا ’یہ انتخابی نظام ایسا ہی ہے کہ زہریلے دودھ کو بلو کر جو مکھن آپ نکالتے ہیں، یہ پارلیمنٹ اس زہریلے دودھ کا مکھن ہے‘۔ آپ اس جملے سے خوش بھی ہوگئے اور آپ کو یہ بھی لگا کہ اس پہ شعر کی طرح واہ واہ کہنی چاہیے۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں آپ کو ایک گہری علمی رمز کے ساتھ ساتھ مزاح کی چاشنی بھی محسوس ہوگی۔ ’مزاح‘ اس چیز کو کہتے ہیں کہ بڑی سے بڑی بات کو ہنستے کھیلتے بیان کر دینا۔ مولانا کے ہاں یہ خوبی بھی موجود ہے۔ بہرحال، اگر آپ شاعری کی روایت کو تھوڑا سا جانتے ہیں تو یہ دیکھیں کہ مولانا جلال الدین رومیؒ [م: ۱۲۷۳ء]نے فرمایا تھا:

پائے استدلالیاں چوبیں بود
پائے چوبیں سخت بے تمکیں بود

یعنی یہ جو دین کو فلسفہ بنانا چاہتے ہیں، ہربات پر استدلال کروانا چاہتے ہیں، یہ جس جگہ کھڑے ہیں اور جس پائوں پہ کھڑے ہیں، وہ لکڑی کا ہے، اور لکڑی کا بنا ہوا پائوں زیادہ دیر تک تمھارا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا، وہ اس رفتار سے چل نہیں سکتا۔ اب اس فہم کے ساتھ یہ عنوان جیسے جگمگانے لگتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہماری مذہبی نفسیات کے منفی پن کا ازالہ بھی کرسکتا ہے۔ مولانا رومی اور مولانا مودودی دونوں بالکل الگ شخصیتیں ہیں۔ مگر یہاں ان دو انتہائی مختلف شخصیتوں میں ایک زندہ اور پسندیدہ ربط آپ کو اپنے اندرمحسوس ہوگا۔

مولانا مودودی کی نثر کے ایک اور وصف کا ذکر کرتا ہوں:

اچھی نثر کی یہ خوب صورتی ہے کہ لکھنے والا اپنی شخصیت کا پورا اظہار کردے۔ جیسے شاعری کا یہ عیب ہے کہ آدمی اپنی شخصیت کے گرد گھومتا رہے، لیکن نثر میں یہ خوبی ہے کہ آپ اپنی شخصیت کا پورا اظہار کرنے کے لائق ہوجائیں، اور آپ کی نثر صیغۂ واحد متکلم کو استعمال کیے بغیر آپ کا پورا تعارف کروا دے۔ مولانا کی نثر اس معیار پہ پوری اُترتی ہے۔

رومن فلاسفر کیسیس لونجاینس [م: ۲۷۳ء] نے لکھا تھا کہ ہومر [م: اندازاً ۶۰۰ ق م] کے یہاں اگرچہ لفظ ’میں‘ نہیں ہے، لیکن اس کی ہر تحریر کا منبع وہ خود ہے۔ ہومر وہ شخصیت ہے کہ جس کا نام آدمی بہت احترام کے بغیر لے نہیں سکتا، خواہ وہ شیکسپیئر [م: ۱۶۱۶ء] ہی کیوں نہ ہو۔ لونجاینس کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا کام دراصل اس کا نام آئے بغیر اس کا کامل اظہار ہے۔ وہ اپنے تحریری کام میں کہیں موجود نہیں ہے۔ اس کے کام میں کبھی ’مَیں‘ کا صیغہ استعمال نہیں ہوا۔ ’مَیں‘ جب بھی استعمال ہوا ہے، وہ کسی کردار کا حصہ ہے، لیکن اس کا سارے کا سارا کام خود ہومر کا اظہار ہے۔ وہ ہومر کہ جس کی شخصیت نے یونانی تہذیب کا سنگ ِ بنیاد رکھا ہے۔

نثر کی اس تعریف کو اگر ذہن میں رکھ کر مولانا کی نثر کا تجزیہ کیا جائے، تو مولانا اپنی علمی تحریروں میں جہاں کہیں بھی صیغۂ واحد متکلم استعمال کرتے ہیں، وہ ایک واقعاتی پس منظر میں ہوتا ہے۔ فلاں نے مجھ سے یہ پوچھا یا فلاں کو میں نے یہ جواب دیا۔ یہ سب ایک واقعاتی یا ایک معمول کی شخصیت کا ’میں‘ ہوتا ہے۔ وہ جہاں جہاں بھی بڑی باتیں کرتے ہیں، وہاں وہ خود کو مکمل طور پہ اس سے  علیحدہ رکھتے ہیں، مطلب یہ کہ متن کا حصہ نہیں بنتے۔ متکلم اگر اپنے متن سے باہر نکلا رہے تو اس سے بڑا نہ کوئی آدمی ہوتا ہے، اور نہ اس سے بڑا کوئی کرافٹ مین [استاد کار اور ہنرشناس] ہوتا ہے۔

مولانا مودودی کی نثر ان کی شخصیت کو سمجھنے اور جاننے میں معاون ہے۔ خیالات تو چھوٹے لوگوں کا تعارف ہوتے ہیں۔ اپنی ذات سے مکمل بے نیازی اور لاتعلقی ان کی اتنی سچی تھی، اتنی استقامت کے ساتھ تھی کہ یہی بے نفسی اور یہی بے خودی ان کے اسلوبِ تحریر سے چھلکتی ہے۔ دراصل مولانا نے خود کو چھپا کر اپنے آپ کو ظاہر کیا ہے اور جو آدمی اپنے چھپائو کے ساتھ اظہار کی قوت پاجائے، اس سے زیادہ ظاہر کوئی نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر مولانا کے Major Themes یا برتر اور بنیادی مضامین اور ان کی فکر کے بنیادی اجزا کا بیان ان کے قلم سے پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ مولانا سوچ کر نہیں لکھ رہے۔ وہ اپنے خیال کو بحث و مباحثہ کرلینے کے بعد اس کا اظہار نہیں کررہے، بلکہ وہ کسی divine trance [ربّانی تفکر] میں لکھ رہے ہیں۔ مولانا کی اس نثر کابہائو ایسا ہے کہ وہ عمومی اظہارِ خیال کا بہائو ہو ہی نہیں سکتا۔ایسا بہائو کہ جو ادراک میں نہیں ہوسکتا۔ وہ بہائو جب ادراک میں نہیں ہوسکتا تو پھر اظہار کے پیکر میں کیسے آسکتا ہے؟ ذہن میں رہے کہ آدمی نقطوں میں سوچتا ہے اور پھر جب کچھ نقطوں کو جوڑنے میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے تو ان کو بیان کردیتا ہے۔ لیکن یہ بہائو ایک لکیر کی طرح، ایک رودِآب کی طرح کہیں سے بھی رخنہ ڈالے بغیر چلتا چلا آرہا ہے۔ دراصل یہ چیز اللہ سے تعلق کے بغیر، اللہ پر خود کو نثار کیے بغیر، اللہ کی کتاب کو اپنے لیے کتابِ وجود بنائے بغیر ممکن نہیں ہے۔

گویا متکلم ہی کلام ہے۔ مولانا کی فکر، تکلم اور اظہار میں آکر ان کے اس مرتبے پر زیادہ شہادت دیتی ہے کہ یہ شخص روایتی اصطلاح میں فنا فی اللہ ہے۔ فنا فی اللہ کا مطلب یہ ہے کہ فرد کی انتہائی جبری خواہشات بھی اللہ کے لیے پسندیدہ بن جائیں۔ بہت چھوٹی چھوٹی خواہشات بھی اللہ کی خوش نودی کی اطمینان بخش ضمانت بن جائیں۔ ایسا شخص فنا فی اللہ ہوتا ہے۔ جیسے ہم سب نے دیکھا ہے کہ مولانا کی یکسوئی، ان کی consistency  [ثابت قدمی] اور دُنیا سے بے رغبتی درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ بڑی واضح سی بات ہے کہ دین آپ کو اپنا جزوی یا چھوٹا یا بڑا ترجمان بنا ہی نہیں سکتا۔ وہ آپ کو ترجمانی کے منصب پر بیٹھنے بھی نہیں دے گا چاہے وہ جمعہ کا وعظ کہنے کے لیے ہو، جب تک کہ آپ کا دل دُنیا سے بے رغبت نہیں ہوتا۔ دُنیا سے بے رغبتی شرطِ دین ہے۔ دُنیا سے بے رغبت ہوئے بغیر اسے بدلا نہیں جاسکتا۔ یہ مولانا کی زندگی، ان کی تحریر اور اس تحریر میں ان کی اپنی طرف سے چھپائی ہوئی شخصیت کا اللہ کے فضل سے اظہار ہے، اور یہ بہت بڑی بات ہے۔

ایک سادہ سا قاعدہ ، ادب پڑھنے والوں کو معلوم ہے۔ اچھی نثر کی چھے قسمیں یا جہتیں ہوتی ہیں ، یا چھے طرح کے نثری اسالیب ہوتے ہیں۔ انھی میں ایک اسلوب ہے: ’نثرِ مرسل‘۔ ’نثرِ مرسل‘ کسی ایسی نثر کو کہتے ہیں، جس کو کسی آرایش کی ضرورت نہ ہو، جس کو کسی رُموز اوقاف کی حاجت نہ ہو، جسے متکلم اس اعتماد کے ساتھ لکھے اور کہے کہ میں نے اپنا مُدعا پورا بیان کر دیا ہے اور یہ پورا مُدعا بغیر کسی تفریق کے میرے تمام قارئین تک منتقل ہوگیا ہے۔ ارسال اور ترسیل کرنا، یہ ’نثرِ مرسل‘ ہے۔

درحقیقت اُردو کی  ’نثرِ مرسل‘ کا بہترین نمونہ، مولانا مودودی کی نثر ہے۔ یہ کیوں بہترین نمونہ ہے؟ ایک تو ’نثر مرسل‘ یہ ہے کہ میں آپ کو لکھ کر دے دوں کہ آپ فلاں جگہ آجایئے۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو فلاں جگہ کا پتا ہے لیکن ایک آدمی کہتا ہے کہ ’آجائو فلاح کی طرف‘۔ اس میں اظہارِ مُدعا پورا ہے۔ اس کا فہم منحصر ہے آپ کے فہم فلاح پر۔ مولانا مودودی کی ’نثر مرسل‘ اس دوسری نوع کی ’نثرمرسل‘ ہے، جہاں وہ پورے اعتماد سے بات کرتے ہیں کہ انھوں نے پوری بات کَہ دی ہے، اور ان کے قریب والے جو اس زمانے میں ان کے مخاطب تھے، وہ ان کے اس اعتماد کو تقویت پہنچاتے تھے۔

یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ قاری نے کیا سمجھا ہے؟ اس کی کوئی ضمانت نہیں۔ یہ بات میں ایک خاص وجہ سے عرض کر رہا ہوں۔ جس تہذیب میں لفظ اور کمیونی کیشن کرپٹ ہوجائے، Vulgar [ذلیل] ہوجائے، Profane [بے ہودہ اور ناپاک] ہوجائے، اس تہذیب کے زندہ رہنے سے، اس تہذیب کا مرنا اچھا ہے۔ جہاں آدمی کا تعلق لفظ کے ساتھ صرف بازار سے سودا خریدنے کی صلاحیت تک محدود ہوکر رہ جائے، تو اسے خود کو آدمی کہلانے کا حق نہیں ہے۔ آدمی وہی ہے، جو لفظ کو اپنی تہذیبی تعمیر کی بنیاد بنانے پر قادر ہو۔جو لفظ میں موجود معنوی امکانات کو تجربے میں ڈھالنے کے لائق ہو۔ جو لفظ میں حاضر و موجود معنویت کو سمجھ کر، اس معنویت میں اپنے تخیل یا عمل وغیرہ سے اضافہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہ سب کہاں ہے؟

جماعت اسلامی کے وابستگان میں آج کتنے لوگ ہیں جو مولانا مودودی کی فکر سمجھتے یا ان پر وارد ہونے والے اعتراضات کا دفاع کرسکتے ہوں؟ ایک ایسے آدمی کی فکر کا دفاع کہ جس نے دُنیا میں موجود کسی بھی بڑے فکری،علمی، عملی اور تہذیبی تھیم کو نظرانداز نہیں کیا تھا۔ دُنیا پر اثرانداز ہوسکنے والے کسی بھی نظریے کے چیلنج کو انھوں نے قبول کیا اور اس کا جواب حددرجہ متانت اور مسکت دلائل سے دیا۔ بڑھیں ہانک کر یا نعرے لگا کر نہیں، بلکہ متانت سے جواب لکھا اور جواب ایسا ہے کہ جو خود اس نظریے کے قائل کئی لوگوں کی اصلاح بھی کردیتا تھامگر اب وہ معاملہ نہیں رہا۔

میرے مشاہدے میں ہے کہ مولانا پر بہت سے اعتراضات چاہے، وہ معاندانہ اعتراضات ہوں اور چاہے وہ مخلصانہ اور محققانہ اعتراضات ہوں، ان کا جواب نہیں آرہا، اور اس کا جواب اس لیے نہیں آرہا کہ اب جیسے یقین کرلیا گیا ہے کہ انقلاب وغیرہ کو چھوڑو، بس تھوڑا بہت نظام میں اختیار حاصل کرلو تو یہی کافی ہے۔ میں موجودہ جماعت اسلامی کے وابستگان سے اس بات کی شکایت رکھتا ہوں کہ انھوں نے مولانا کی علمی وراثت کو بہت ثانوی اور نچلے درجے پر رکھ دیا ہے۔ کوئی علمی سرگرمی نظر نہیں آتی۔ علمی وراثت نہ نبھا سکے کہ وہ صلاحیت کی بات ہے، وہ چلو مان لیا۔ لیکن ان کی کرداری وراثت کے تسلسل میں بھی موجودگی نہ ہو تو پھر وجود کے جواز کا سوال پیدا ہوجاتا ہے۔ اگر اپنے بانی کے کرداری تسلسل کو افراد محفوظ نہیں رکھے ہوئے ہیں تو پھر بہت خوف ناک بات ہے۔

مولانا مودودی سے ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ ’’آپ اتنی بڑی بڑی باتیں بہت آسانی سے کس طرح لکھ لیتے ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’خیالات اپنے اظہار کا سانچا خود لے کر آتے ہیں، یعنی خیالات جن الفاظ سے مناسبت رکھتے ہیں وہ خیالات انھی الفاظ میں آتے ہیں، اور انھی کو لکھ دیتا ہوں‘‘۔ بظاہر یہ سادہ سی بات ہے، لیکن ایک بہت بڑے لسانیاتی قانون کی بنیاد ہے۔

یہ وہ سطح ہے، جہاں معانی اور لفظ، essence [جوہر] اور form [شکل] اپنی دوئی کو   ختم کرکے ایک زیادہ برتر وحدت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جیسے لفظ الگ ہے اور معنی الگ ہے۔ یہ اللہ کی عطا ہے کہ ایک آدمی ایسی صلاحیت ِادراک اور ایسی قدرتِ اظہار کے ساتھ آتا ہے کہ وہ لفظ اور معنی کی دوئی کو ختم کرکے انھیں اللہ کی طرف سے بنائی گئی ایک وحدتِ حقیقی کا حصہ بنادیتا ہے۔ جو اس دوئی کو ختم کردے، وہ زبان کا احسان مند نہیں ہے بلکہ زبان کا محسن ہے، اور جو اس دوئی کو ختم کردے، وہ ذہن کا محتاج نہیں ہے بلکہ ذہن کا مربی ہے۔ اور مولانا مودودی، لفظ، زبان، خیال اور اظہار کی وحدت پر قادر تھے۔