وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْم بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ ج کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْ بَعْدِم مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ ج (البقرہ ۲:۱۰۹) اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیںکہ کسی طرح تمھیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں۔ اگرچہ حق اِن پر ظاہر ہو چکا ہے، مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمھارے لیے ان کی یہ خواہش ہے۔
ان اہلِ کتاب کے دلوں میں حسد اللہ نے پیدا نہیں کیا تھا اور بلکہ وہ ذاتی ارادے سے حسد کر رہے تھے۔ یہاں مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ (اُن کی اپنی طرف سے) کے الفاظ ہیں جو ارادہ و نیت میں دخلِ الٰہی کی نفی کرتے ہیں۔
اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغٰوِیْنَ o (الحجر ۱۵:۴۲)بے شک جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا۔ تیرا بس تو صرف اُن بہکے ہوئے لوگوں پر ہی چلے گا جو تیری پیروی کریں گے۔
شیطان انسان کے دل میں داخل نہیں ہو سکتا، مگر جب انسان اپنی مرضی اور اختیار سے اس کے لیے دل کا دروازہ کھول دے تو وہ داخل ہو جاتا ہے اور پھر انسان راہِ راست سے بھٹک جاتا ہے۔ شیطان زورزبردستی سے انسان کے دل میں گھسنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان دل کی حفاظت کا بندوبست کر رکھا ہے۔ خیر یاشرکے کسی لشکر کو اس کے اُوپر زور زبردستی کی اجازت نہیں دی۔ ہاں، جب اس کا مالک خود اپنے اختیار سے کسی کو اپنامہمان بنانا چاہے تو اللہ اُسے یہاں داخل ہونے سے نہیں روکتا۔گویا ہم بالفعل ایک مقدس اور محترم حرم کے سامنے کھڑے ہیں جس کے اردگرد دیواریں قائم ہیں، اس میں کوئی جبر، اِکراہ اور تسلط داخل نہیں ہوتا۔
ہماری اس دنیا میں بھی یہ ممکن نہیں کہ یہ جبرواِکراہ ہمارے ضمیروں، ارادوں اور نیتوں کے اندر داخل ہو جائے۔ یہ ممکن ہے کہ آپ قوت کے بل پر مجھ سے ہاتھ کھڑے کرا لیں، مجھے بے دست وپا بنا کر کھڑا کر لیں، اور میں آپ کے نعرے بھی لگا دوں، مگر یہ کبھی ممکن نہیں کہ آپ مجھے مجبور کر سکیں کہ میں آپ سے محبت کروں۔
ادیانِ عالم اس چیز کی رخصت نہیں دیتے کہ ہم قیامت کے روز وقتِ حساب یہ کہہ سکیں کہ ہمیں تو فلاں شخص نے اُکسایا تھا، یا مجبور کیا تھا۔ اس طرح ہم اپنا گناہ دوسرے پر نہیں ڈال سکتے۔ اللہ نے ضمیر اور سریرہ کی گہرائیوں میں ایک ایسا قابل حرمت دائرہ بنا رکھا ہے، جہاں کوئی جابر اپنی جبریت کے ساتھ داخل نہیں ہو سکتا۔
قرآنِ مجید انسان کو ہمیشہ آزاد اور جواب دہ ٹھیراتا ہے، خواہ ظالمانہ حالات نے ہی اُس کو گھیر رکھا ہو۔ ان حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا ط (النساء ۴:۹۷) کیاخدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟
جب آپ کسی چیز کے اختیار کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ بذاتِ خود اس چیز کو اختیار کرتے ہیں:
اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًاo (الدھر۷۶:۳)ہم نے اُسے راستہ دکھا دیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰہَا o فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا o (الشمس۹۱:۷-۸) اور نفسِ انسان کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا، پھر اُس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اُس پر الہام کر دی۔
یعنی ’شر‘ اور ’خیر‘ کے راستے اُس کے سامنے کھول دیے اور اُس کو ان دونوں راستوں کے سامنے رکھ دیا کہ جس پر چلنا چاہے اُس کا انتخاب کر لے۔ یہ دونوں راستے بیک وقت کھلے رکھے گئے ہیںتاکہ نفس کو اختیار حاصل رہے اور وہ صرف ایک ہی راستے پر چلنے کے لیے مجبور نہ ہو۔ فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَاo (الشمس۹۱: ۹-۱۰) یقینا فلاح پاگیا وہ شخص جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا۔
مراد یہ ہے کہ کامیابی اور ناکامی نفس کا اپنا اختیار ہے۔ ایک اور آیت میں اس معاملے کو مزید کھول کر بیان کیا گیا ہے: وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِo(البلد۹۰:۱۰) ’’اور کیا (نیکی اور بدی کے) دونوں راستے اُسے نہیں دکھا دیے؟‘‘یعنی دونوں راستوں کے فرق و امتیاز کا شعور انسان کو عطا کردیا تاکہ جس کو چاہے پسند کر لے۔
ہم میں سے ہر ایک کو فعل کی آزادی حاصل ہے۔ انسانی اعمال و افعال میں جبریت کے قائلین کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ایک آدمی جس ہاتھ کو اپنی مرضی سے حرکت دیتا ہے اور جو چاہے لکھتا ہے، لیکن یہی آدمی اپنے اسی ہاتھ سے اُس وقت نہ کچھ لکھ سکتا ہے اور نہ اُسے اپنی مرضی سے ہلا سکتا ہے جب بخار کی شدت نے اسے لاچار اور بے بس کر رکھا ہو۔ کیا ان دونوں کیفیتوں اور حالتوں میں کوئی فرق نہیں؟ یہاں دونوں حالتیں واضح ہیں، یعنی حالتِ صحت میں حریت و آزادی اور حالت ِ مرض میں جبریت و مجبوری۔ اگر جبریت کی بات درست ہے تو پھر ممکن نہیں کہ ان دونوں حالتوں میں تمیز و تفریق کی جا سکے۔ اور یہ بھی ممکن نہیں کہ ان دونوں حالتوں کی اصلیت ایک ہو۔
فعل کی آزادی بھی حقیقت ہے اور اس کا پابند ہونا بھی حقیقت ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ ہم ان دونوں یک جا حالتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس معاملے کو ہم آیاتِ قرآنی سے واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَائِ اٰیَۃً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُہُمْ لَہَا خٰضِعِیْنَ o (الشعراء۲۶:۴)ہم چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کر سکتے ہیں کہ ان کی گردنیں اُس کے آگے جھک جائیں۔
اگر اللہ چاہتا تو ایسا کر لیتا مگر اللہ نے ایسا نہیں کیا کیونکہ اُس نے نہیں چاہا کہ وہ لوگوں کو ایمان پر مجبور کرے، کیوں کہ اس طرح وہ حریتِ اختیار سلب ہو جاتی جس کو اُس نے ہمارے وجود کا جوہر بنایا ہے۔ اللہ نے ہمیں آزاد ہی رکھا کہ ہم چاہیں تو ایمان لے آئیں اور چاہیں تو انکار کر دیں۔
اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ط خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍo (صٓ۳۸:۷۶) میں اُس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے۔
ابلیس نے آدمؑ کے مقابلے میں اپنے لیے غرور و تکبر کو اختیار کیا، تو اللہ نے بھی اُس کو اختیار دے دیا کہ وہ لوگوں کو بھی دھوکا فریب دے۔
اللہ نے اپنی حتمی اور فیصلہ کن تجلی کے ذریعے ہمیں لگام ڈالنے کا ارادہ نہیں کیا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو ہمیں ایمان لانے پر مجبور کرتا۔ لہٰذا، اُس نے تورات، انجیل اور قرآن کی صورت میں کتب نازل فرما دیں، جن کے اوپر ایمان لانا، یا نہ لانا ہمارے بس میں ہے۔ قرآنِ مجید کے بارے میں فرمایا:
یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا لا وَّیَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا ط وَمَا یُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَo (البقرہ ۲:۲۶) اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے۔ اور اُس سے گمراہی میں انھی کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں۔
قرآن کی آیات میں براہین (نشانیاں) موجود ہیں مگر کبھی ان براہین کو ایسا لازم نہیں بنایا کہ وہ ہماری شہ رَگ کو پکڑ لیں اور دماغ کو جکڑ لیں۔ اُس نے تو اپنی مرضی سے ہمیں کھلا چھوڑ رکھا ہے کہ ہم ہمیشہ ایک شے کو دوسری کے اوپر ترجیح دیں اور اُس کو اختیار کرنے کا خود فیصلہ کریں اور کسی بیرونی اثروتاثیر کے بغیر جو چاہیں بولیں اور اپنے دل کی آواز پر لبیک کہیں۔
قرآنِ مجید ایک آیت میں تقدیر الٰہی اور آزادیِ فرد کی تشریح کرتا ہے اور ان کے درمیان تناقض کو رفع کرتا ہے۔ یہ وہ آیت ہے جس میں منافقین مدینہ کا رسولؐ اللہ کی نصرت میں سُستی دکھانے اور آپؐ کے ساتھ غزوہ میں شرکت کے لیے نہ جانے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے:
وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃً وَّلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ انْبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ وَقِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ لَوْ خَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّا زَادُوْکُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّلَا o اَوْضَعُوْا خِلٰلَکُمْ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ ج وَفِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَہُمْ ج وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِالظّٰلِـمِیْنَo (التوبۃ۹:۴۶-۴۷) اگر واقعی ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے۔ لیکن اللہ کو اُن کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا۔ اس لیے اس نے انھیں سُست کر دیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ۔ اگر وہ تمھارے ساتھ نکلتے تو تمھارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے۔ وہ تمھارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے، اور تمھارے گروہ کا حال یہ ہے کہ ابھی ان میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی باتیں کان لگا کر سنتے ہیں، اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
یہ دل کے منافق تھے، وہ ارادتاً رسولؐ اللہ کی مدد و نصرت نہیں کرنا چاہتے تھے، لہٰذا اللہ نے ان کی نیت اور ارادے کو نافذ ہونے دیا۔ جب خود انھوں نے ایک کام کو اپنے لیے نہیں چاہا تو اللہ نے بھی اُن کے لیے ایسا نہیں چاہا۔ لہٰذا اُن کو گھروں میں بٹھائے رکھا، باہر نکلنا اُن کے لیے ناپسند بنا دیا، بالکل اُسی طرح جس طرح وہ خود چاہتے تھے۔
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْٓ اَیْدِیْکُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓی لا اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ خَیْرًا یُّؤْتِکُمْ خَیْرًا مِّمَّآ اُخِذَ مِنْکُمْ(الانفال۸:۷۰) اے نبیؐ!تم لوگوں کے قبضہ میں جو قیدی ہیں اِن سے کہو اگر اللہ کو معلوم ہوا کہ تمھارے دلوں میں کچھ خیر ہے تو وہ تمھیں اُس سے بڑھ چڑھ کر دے گا جو تم سے لیا گیا ہے۔
امر اللہ اور اِختیارِ انسان کیسے متماثل ہوتا ہے اور کیسے ان کے درمیان تناقض کی نفی ہوتی ہے، یہاں یہ سب واضح ہو گیا۔ تناقض ان کے درمیان نہیں بلکہ ہمارے عدم فہم کی بنا پر پیدا ہونے والے ہمارے وہم میں ہے۔ اب بظاہر دومتضاد آیتوں کو سمجھنا ہمارے لیے آسان ہو گیا۔ یعنی:
فَمَنْ شَآئَ فَلْیُوْمِنْ وَّ مَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ لا(الکہف۱۸:۲۹)اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔
وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ ط (الدھر۷۶:۳۰)اور تمھارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ نہ چاہے۔
پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے آزاد انسانی ارادے کو بیان کیا ہے، اور دوسری آیت میں ارادۂ الٰہی، یعنی قضا و قدر پر بات کی ہے۔ ان دونوں آیتوں کے درمیان جو ٹکرائو نظر آتا ہے، وہ صرف ظاہری ہے۔ ہم یہ بات تو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ اللہ انسان کے لیے کوئی ارادہ نہیں کرتا سوائے اُس کے جو انسان خود اپنے لیے ارادہ کرتا ہے۔ فرمایا:
وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَیَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَط وَسَاء َتْ مَصِیْرًا(النساء ۴: ۱۱۵) جو شخص رسولؐ کی مخالفت پر کمربستہ ہو اور اہل ایمان کی رَوِّش کے سوا کسی اور رَوِّش پر چلے، درآں حالیکہ اس پر راہِ راست واضح ہو چکی ہو، تو اُس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اُسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جاے قرار ہے۔
کوئی شخص بُری راہ اختیار کر لے اور اللہ اُس کی نیت میں اصرار دیکھے تو اللہ اُس شخص کو خیر پر مجبور نہیں کرتا، بلکہ اللہ بھی اُس کے لیے وہ اختیار کرتا ہے جو اُس شخص نے خود اختیار کیا ہے۔ اللہ اُس کی سرکشی اور بغاوت میں اُس کو آگے بڑھنے دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ ارادہ اور نیت باہر آ جاتی ہے جس کو انسان نے چھپارکھاہو۔ اور بالآخر نیت فعل کا لبادہ اُوڑھ لیتی ہے اور انسان عذاب کا مستحق ہو جاتا ہے۔
نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَ سَآء َت مَصِیْرًا ،اُس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اُسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے۔
یہ جبر عین اختیار ہے کوئی تناقض نہیں کیونکہ ارادۂ انسان ہی ارادۂ رب ہے۔ یہاں ثنویت اور دوئی کی نفی ہو گئی۔ کیونکہ:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ط(الرعد۱۳:۱۱)اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
اللہ وہ تبدیلی نہیں لاتا جس کا وہ انسان کے ساتھ ارادہ رکھتا ہے، جب تک کہ انسان وہ تبدیلی نہ لائے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے۔ یہاں مطابقت واضح ہے۔
انسان چاہتا اور ارادہ کرتا ہے مگر اختیار و ارادہ کی یہ قدرت اللہ تعالیٰ کی عطااور اس کی مشیّت ہے۔ انسانی آزادی بذاتِ خود الٰہی عطا، عطیہ اور مشیت ہے۔ لہٰذا وَمَا تَشَآء ُ وْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰہُ ’’اور اللہ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے کھول کر رکھ دے گا‘‘۔ ایک حقیقت کا بیان ہے کوئی متضاد و متناقض بات نہیں ہے۔ یہ بیان بتاتا ہے کہ انسان آزاد ہے مگر اس کی آزادی عطا کردہ کی عطا، بخشش اور عنایت ہے۔
وَ اللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ(البقرہ۲:۷۲)اور اللہ اُسے کھول کر رکھ دے گا جسے تم چھپاتے ہو۔
نیت میں جو کچھ ہے اور دل کی گہرائیوں میں جو کچھ مخفی ہے اللہ اس کو نکال باہر کرتا ہے، تاکہ ہر شخص کی نیت کو بالکل اُسی شکل اور صورت میں جیسا کہ وہ ہے کسی جبر واِکراہ کے بغیر ریکارڈ پرلے آئے۔ اللہ تو صرف اُس کو فاش کرتا اور اُس کی حالت پر اُس کو باہر نکالتا ہے تاکہ ہر انسان کی قسمت کا کارڈ اُس کے اپنے گلے میں لٹکا ہو۔
وَاعْـلَـمُـوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَــحُوْلُ بَـیْنَ الْمَرْئِ وَقَـلْـبِـہٖ وَاَنَّہٗٓ اِلَیْہِ تُحْشَــرُوْنَ (الانفال ۸:۲۴) جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اُس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اُسی کی طرف تم سمیٹے جائو گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ قلب کو آزاد چھوڑ دیتا ہے تاکہ ہر انسان اپنے دلی ارادے میں آزاد ہو، مگر انسان اور اُس کے دل کے مابین اللہ اپنی حکمرانی چلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ، انسان اور اُس کے دل کے درمیان یوں حائل ہوتا ہے کہ اُس کو اپنی رحمت اور مہربانی کی بنا پر اچھے اعمال میں مدد اور سہارا دیتا ہے یا اُس کے برے افعال کو ضائع کر دیتا ہے، تاکہ وہ اپنے پسندیدہ بندوں کو برائیوں سے بچاکر رکھے اور ہر شخص کو اُس کی نیت و ضمیر اور قلبی و نفسی میلانات و رجحانات کے مطابق، آسانیاں اور سہولتیں فراہم کرے، خواہ وہ آسانیاں کسی وسعت کے لیے ہوں یا کسی تنگی و تکلیف کے لیے۔
انسان اور اُس کے دل کے درمیان خفی اور لطیف ارادئہ الٰہی کی ایک اور بلیغ مثال دیکھیے۔ غزوۂ بدر میں ۳۱۳ مسلمان، اسلحے میں ڈوبے دشمن کے ایک ہزار جنگجوئوں کا سامنا کر رہے تھے۔ تعداد و تیاری کے تقابل کی روشنی میں دونوں کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں ہوسکتا تھا ،مگر اللہ چاہتا تھا کہ وہ مسلمانوں کو میدانِ معرکہ میں دھکیل دے، لیکن وہ کسی جبرواِکراہ کے بغیر، اپنی مرضی اور اختیار سے جائیں.....تو اللہ نے اپنے رسولؐ کو ایک خواب دکھایا جس میں دشمن کی تعداد بہت تھوڑی دکھائی دی جس سے کوئی خطرہ نہیں ہو سکتاتھا۔ پھر دورانِ معرکہ بھی کفار کی کثرت مسلمانوں کو بہت قلیل دکھائی دی۔ مقصد یہ تھا کہ دشمن کی ہیبت قائم نہ ہو سکے، بلکہ اُنھیں معمولی سمجھا جائے۔ اسی طرح مسلمانوں کا حال کفار کی نظروں میں معمولی کرکے دکھایا گیا۔ یوں فریقین میں سے ہر ایک کو بتدریج معرکہ میں پہنچا دیا تاکہ اُس معاملے کا فیصلہ کر دیا جائے جو اللہ کے علم میں تو پہلے سے کیا جاچکا تھا:
اِذْ یُرِیْکَہُمُ اللّٰہُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلًاط وَلَوْ اَرٰیکَہُمْ کَثِیْرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ ط اِنَّہ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ o وَاِذْ یُرِیْکُمُوْہُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْٓ اَعْیُنِکُمْ قَلِیْلًا وَّیُقَلِّلُکُمْ فِیْٓ اَعْیُنِہِمْ لِیَقْضِیَ اللّٰہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلًا ط وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ(انفال۸:۴۳-۴۴) اور یاد کرو وہ وقت جب کہ اے نبیؐ، خدا اُن کو تمھارے خواب میں تھوڑا دکھا رہا تھا اگر کہیں وہ تمھیں اُن کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو ضرور تم لوگ ہمت ہار جاتے اور لڑائی کے معاملہ میں جھگڑا شروع کردیتے، لیکن اللہ ہی نے اس سے تمھیں بچایا، یقینا وہ سینوں کا حال تک جانتا ہے۔ اور یاد کرو جب کہ مقابلے کے وقت خدا نے تم لوگوں کی نگاہوں میں دشمنوں کو تھوڑا دکھایا اور اُن کی نگاہوں میں تمھیں کم کرکے پیش کیا، تاکہ جو بات ہونی تھی اسے اللہ ظہور میں لے آئے، اور آخر کار سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔
یہ وہ تیسیر ہے جس کے ذریعے اللہ اسباب کو حرکت دیتا اور آگے بڑھاتا ہے، لیکن انسان کو ودیعت شدہ ناموسِ حریت میں دخل نہیں دیتا۔ اللہ نے ہم سب کو قلب و ضمیر کے اعتبار سے آزاد تخلیق کیا اور اسی آزادی کے متعلق ہم سے جواب دہی ہو گی۔(مصنف کی کتاب القرآن: محاولہ لفہم عصری میں شامل ایک مقالہ)
انسانی حُریت اور آزادی وہ حقیقت ہے جو بعض اوقات انسان کی گمراہی کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ حُریت فکر اور آزادی کی آڑ میں ہی ملحدین مختلف اعتراضات مدلل انداز میں اُٹھاتے ہیں تاکہ دین کے خلاف دلیل اور حجت قائم کر سکیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ:
جب اللہ نے میرے افعال کو میرا اُوپر مقدر طے کر دیا ہے تو پھر وہ حساب کیوںکر لے سکتا ہے؟
جب دنیا میں ہر چیز اللہ کی مشیت سے چل رہی ہے تو پھر میرا قصور کیا ہے؟
عملاً تو یہ سوال ایک گتھی کو سامنے لا رکھتا ہے۔ اسی لیے تو نبی کریمؐ نے اپنے صحابہؓ کو تلقین فرمائی تھی کہ اس بحث میں نہ پڑیں۔ فرمایا:’’جب تقدیر کا ذکر آ جائے تو اُس پر بات کرنے سے رک جائو‘‘۔چونکہ یہ ایسا فلسفیانہ عقدہ تھا جس کی بنا پر انسان بے یقینی اور بے ایمانی کے گڑھے میں لڑھک سکتا تھا، لہٰذا آپؐ نے عمیق عقلی دلائل پر قلبی ایمان کو فوقیت اور ترجیح دی۔
کائنات کے اندر ارض و سماوات اور ستاروں پر نظر ڈالیں تو دکھائی دیتا ہے کہ یہ سب ایک مضبوط و محکم سلسلے میں بندھے ہوئے ہیں۔ کائنات کی ہر شے ایک محکم نظام کے تحت چل رہی ہے۔ سورج کا طلوع و غروب ہی بطورِ مثال ملاحظہ کر لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ ایک قانون کے مطابق حرکت کرتا ہے۔ اسی طرح دیگر اشیاے کائنات بھی ایک قانون اور ضابطے کے مطابق چلتی ہیں۔ صرف واحد انسان ہے جو اپنی طبیعت اور حالات و ظروف کے مطابق آزادی، جذبات اور خواہشات کا مالک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کائنات سے متصادم رہتا ہے۔ لیکن یہ ناممکن ہے کہ کسی لمحے کوئی انسان اس بات سے آگاہ ہو سکے کہ اُس کا انجام کب اور کیا ہے؟
اپنے ماحول کی رکاوٹیں اور مزاحمتوں کے باوجود انسان کی حریت ایک حقیقت ہے، کوئی وہم نہیں۔ انسان اپنے دائرۂ ضمیر میں مطلقاً آزاد ہے۔ البتہ اس کے نفاذ و اطلاق میں، یعنی دائرۂ فعل و عمل میں اس کی آزادی مطلق نہیں بلکہ منسوب ہے۔ یہ اس کے ماحول کے حدود و مزاحمتوں کے مطابق ہوتی ہے۔
اب رہی بات اللہ اور انسان کے مابین تعلق کے حوالے سے اس ازلی راز کی، یعنی مطلق ارادۂ الٰہیہ کے ساتھ انسان کی آزادی کے معاملے کی بات۔
قرآن کہتا ہے کہ انسان کی آزادی اللہ کی مشیت، رغبت اور مراد کے ساتھ وابستہ ہے۔ انسانی آزادی نہ خالق کی طرف سے جبری ہے اور نہ مخلوق کی طرف سے۔ قرآنِ کریم بڑی وضاحت سے کہتا ہے:
وَ لَوْشَآئَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعًا ط اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ o (یونس۱۰:۹۹) اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تُو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟۔
اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرنے سے انکار کیا ہے، حالانکہ یہ اُس کے بس میں تھا، مگر اُس نے انسان کو خودمختار رکھنے کا فیصلہ کیا :
وَ قُلِ الْـحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ قف فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ لا (الکھف ۱۸:۲۹) صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے رب کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔
لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ لا قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج (البقرہ۲:۲۵۶) دین کے معاملے میں کوئی زورزبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔
وَ لَوْشِئْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ ھُدٰھَا (السجدۃ۳۲:۱۳) اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہرنفس کو اس کی ہدایت دے دیتے۔
وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنٰہُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰی عَلَی الْہُدٰی (حٰمٓ السجدہ۴۱:۱۷) رہے ثمود، تو اُن کے سامنے ہم نے راہِ راست پیش کی مگر انھوں نے راستہ دیکھنے کے بجاے اندھا بنارہنا ہی پسند کیا۔
اگر ہم ہدایت کے مقابلے میں اندھا پن (گمراہی) اختیار کرنا چاہیں تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی آزادی دے رکھی ہے۔ اس کی مشیت اسی طریقے سے تو پوری ہوتی ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اللہ نے اس سے بھی زیادہ آزادی اور اختیار دے رکھا ہے۔ یعنی ان دونوں راستوں میں سے کسی ایک راستے کے انتخاب کا اختیار دے رکھا ہے۔ اللہ نے یہ امانت جو کہ حریت بھی ہے اور مسئولیت بھی، ہمارے اوپر پیش کی تاکہ ہم اس امانت کو قبول کریں یا اُس کو اٹھانے سے انکار کردیں۔ یہ ہمارا اختیار اور مرضی تھی اور اسی امانت کو اٹھانے سے آسمان و زمین اور پہاڑوں نے انکار کر دیا تھا مگر انسان نے اُس امانت کو اٹھا لیا۔ اس لیے کہ انسان جاہل بھی ہے اور اپنے اُوپر ظلم کرنے والا بھی۔ اس بارِامانت کا تذکرہ یوں ہوا ہے:
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ ط اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا o (احزاب ۳۳:۷۲) ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اُس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اُسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔
انسان اس امانت (ذمہ داری) کے بوجھ اور اس کی ہولناکیوں سے ناآشنا تھا۔ اُسے اس ذمہ داری کو اٹھانے کے بعد جن آزمایشوں کا سامنا کرنا تھا وہ اُن سے آگاہ نہیں تھا۔ اُسے معلوم نہیں تھا کہ یہ ذمہ داری اٹھا کر وہ اپنے اور دوسروں کے ساتھ کیا کیا ظلم و ستم کرے گا، مگر اللہ کو اس بہت بڑی آزمایش کی ہر چیز معلوم تھی ___اُسے معلوم تھا کہ یہی آزمایش، امتحان اور تجربہ انسان کا تزکیہ و تربیت اور تطہیر کرے گا۔ اسی لیے تو فرشتوں سے فرمایا تھا کہ میں جو جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔
اس آزادی کی بنا پر جس کو انسان نے اپنے اختیار و ارادے سے قبول کیا تھا، انسان کے اوپر جواب دہی اور محاسبہ بھی عائد ہو گیا۔ اسی لیے قرآنِ مجید نے حتمی و قطعی انداز میں اشارہ کیا ہے:
کُلُّ امْرِی ءٍ م بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌo (الطور ۵۲:۲۱)ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے۔
وَ کُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ ط (بنی اسرائیل ۱۷:۱۳)ہر انسان کا شگون ہم نے اس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے۔
قُلْ لَّا تُسْئَلُوْنَ عَمَّآ اَجْرَمْنَا وَ لَا نُسْئَلُ عَمَّا تَعْمَلُوْنَo (السبا۳۴:۲۵) اِن سے کہو، ’’جو قصور ہم نے کیا ہو اس کی کوئی بازپرس تم سے نہ ہو گی اور جو کچھ تم کررہے ہو اس کی کوئی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی‘‘۔
وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ط (بنی اسرائیل ۱۷:۱۵) کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔
گویا کوئی شخص کسی دوسرے کا خمیازہ نہیں بھگت سکتا، یا اُس کا گناہ اپنے سر نہیں لے سکتا۔ ہر شخص کا عمل اُس کے اپنے لیے ہے اور اُس کا بار بھی اُسی کے اُوپر ہے۔
اس حریت کے تقاضے کے طور پر اللہ تعالیٰ نے انسان کے ضمیر، اس کی نیت، اور اُس کے دل کی پوشیدہ بات کو ایک قابل احترام اور مقدس دائرہ قرار دے دیا کہ اُس کے اندر جبر اور قہر (مجبوری اور زبردستی) داخل نہیں ہو سکتی۔ اللہ نے تو اپنے آپ سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ انسانی ضمیر کا یہ دائرہ قابلِ حُرمت رہے گا، اُس میں اللہ کا لشکر داخل نہیں ہو گا۔
گویا نیت اپنے آغاز اور ابتدا ہی سے مکمل آزاد ہے۔ ہم میں سے ہر شخص جو چاہے اپنے من میں نیت کر سکتا ہے، مضمر رکھ سکتا ہے، مخفی رکھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا دخل تو اُس لمحے شروع ہوتا ہے جب نیت و ارادہ فعل کے دائرے میں آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ہر انسان کو اُس کی نیت کی رُو سے، اُس کے ضمیر کی رُو سے اور اُس کے دل اور من کی چاہت اور مرضی کی رُو سے اُس کے لیے آسانیاں اور سہولتیں دیتا ہے۔ اور یہ عین عدل ہے۔ اسی طرح تو کسی فاعل کا فعل اُس کا اپنا قرار پاسکتا ہے:
فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی o وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی o فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی o وَاَمَّا مَنْم بَخِلَ وَاسْتَغْنٰیo وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی o فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی o (اللیل ۹۲:۵-۱۰) تو جس نے (راہِ خدا میں) مال دیا اور (خدا کی نافرمانی سے) پرہیز کیا، اور بھلائی کو سچ مانا، اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔ اور جس نے بخل کیا اور (اپنے خدا سے) بے نیازی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا، اس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں گے ۔
یہاں اللہ تعالیٰ کا ایک وعدہ یہ بھی ہے کہ وہ دلوں کے ارادوں کے مطابق افعال کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا، لہٰذا بَد اور بُرا شخص اپنی برائی کے لیے آسانیاں پائے گا اور نیک و صالح اپنی خیر اور بھلائی کے لیے آسانیاں پائے گا۔_اللہ تعالیٰ جس انسان کے اندر ہدایت کی طلب دیکھتا ہے اُسے ہدایت عطا فرما دیتا ہے، اور جس کے اندر اُسے ضلالت کا علم ہوتا ہے اُس کو شیطانوں کے لیے چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اُس کو گمراہ کرتے رہیں:
فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاo (الفتح ۴۸:۱۸) ان کے دلوںکا حال اُس کو معلوم تھا، اس لیے اُس نے ان پر سکینت نازل فرمائی، ان کو انعام میں قریبی فتح بخشی۔
وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْھِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَھُمْ ط (انفال۸:۲۳) اگر اللہ کو معلوم ہوتا کہ اِن میں کچھ بھی بھلائی ہے تو وہ ضرور اِنھیں سننے کی توفیق دیتا۔
فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ ط (الصف۶۱:۵) پھر جب انھوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے بھی اُن کے دل ٹیڑھے کر دیے۔
چونکہ اللہ تعالیٰ ہر شے کا علم پہلے ہی سے رکھتا ہے، اور اُس نے ہر شے کو اپنے علم میں گھیر رکھا ہے، اسی لیے ہم دیکھتے ہیںکہ جن کا انجام بُرا ہوا اُن کے بارے میں اللہ فرماتا ہے:
حَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ (حٰم سجدہ۴۱:۲۵)آخر اُن پر بھی فیصلہ عذاب چسپاں ہو کر رہا۔
وَ مِنْھُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَۃُ ط (النحل۱۶:۳۶) اور ان میں سے کسی پر ضلالت مسلط ہو گئی۔
حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّیْ لَاَمْلَئَــنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَo (السجدہ ۳۲:۱۳) مگر میری وہ بات پوری ہو گئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں، سب سے بھر دوںگا۔
اللہ کو انسان کے بارے میں علم تھا کہ یہ زمین میں فساد برپا کرے گا، اپنے اُوپر بھی ظلم ڈھائے گا اور دوسروں پر بھی ستم توڑے گا، اسی بناپر مختلف درجات کی سزا کا مستحق ٹھیرے گا۔
یہ سب کچھ اللہ کے علمِ سابق میں تھا اور ہے۔ لہٰذا جو کچھ انسان کے ساتھ ہو گا وہ کوئی جبر اور زبردستی نہیں۔ اس بات کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک باپ اپنے کسی بیٹے کے اندر علم اور تحصیل علم سے محبت کی علامات دیکھتا ہے تو وہ اُس کو سہولیات اور وسائل فراہم کرتا ہے۔ اگر اُسے اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک بھی جانا پڑے تو اُس کے لیے وسائل کا بندوبست کرتا ہے۔ اس کے برعکس ایک بیٹے کو دنگافساد، بدچلنی اور بری مجلسوں کا رِسیا دیکھتا ہے تو اُس کے لیے اندرونِ ملک بھی محدودتعلیم پر اکتفا کرتا ہے۔ اب اگر باپ ان دونوں کے ساتھ الٹ کرے تو وہ یقیناً ظالم ہو گا اور یوں وہ ان کی رغبت اور مزاج کے خلاف اُن کو مجبور کرے گا۔
اسی طرح ان ظاہری علامات میں جبرواِکراہ کا کوئی دخل نہیں۔ یہ تو پہلے سے حاصل شدہ علم ہے۔ جیسے باپ اپنے فسادی طبع بیٹے کے بارے میں پہلے سے جانتا تھا کہ وہ کھیل کود اور تضیع اوقات کی طرف مائل ہو جائے گا۔ اب بیٹے کا کھیل کود کی طرف مائل ہو جانا اور کتب کو نظرانداز کر دینا باپ کی طرف سے مسلط کردہ زبردستی نہیں ہے، بلکہ یہ تو بیٹے کی طبع اور مزاج تھا جس کا پہلے سے باپ کو علم تھا۔ اور جب تجربہ کیا جاتا ہے تو دل کا حال کھل کرسامنے آ جاتا ہے۔
اسی بنا پر قیامت کے روز عدل و صدق کے ساتھ سزا عائد ہوگی۔ پھر انسان کو اپنے دل کی وہ باتیں معلوم ہو جائیں گی جن کو وہ نہیں جانتا تھا:
عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْo (الانفطار۸۲:۵)اُس وقت ہر شخص کو اس کا اگلا پچھلا سب کیا دھرا معلوم ہو جائے گا۔
خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط (الملک۶۷:۲) اُس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔
یعنی کوئی شخص اپنے اعمال و افعال کا کوئی عذر پیش کرنے کے قابل نہ رہے کہ وہ حساب کے وقت کہتا پھرے کہ میں نے تو تربیت، سوسائٹی، ماحول اور رسوم و رواج وغیرہ کی تاثیر کے تحت ایساکیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس موضوع پر قرآنِ مجید میں دوٹوک فرمایا ہے:
لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللہُ بِاللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ ط (البقرہ۲:۲۲۵) جو بے معنی قسمیں تم بلا ارادہ کھا لیا کرتے ہو، اُن پر اللہ گرفت نہیں کرتا، مگر جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو، اُن کی بازپرس وہ ضرور کرے گا۔
وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ لا وَلٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ ط (الاحزاب۳۳:۵)نادانستہ جو بات تم کہو اُس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے، لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرو۔
اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں کلام کیا ہے جو ایمان لانے کے بعد دوبارہ کفر کی طرف پلٹ گئے، انھیں شدید ترین عذاب کی دھمکی سنائی ہے اور ساتھ ہی اُن لوگوں کو اِن میں سے مستثنا کر لیا ہے جو:
اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ (النحل۱۶:۱۰۶) مگر وہ شخص (عذاب سے بچ گیا)جس کو کفر پر مجبور تو کیا گیا مگر اُس کا دل مطمئن رہا۔
یعنی وہ شخص جس نے تعذیب و تشدد کے تحت زبان سے کفر کا اظہار کر دیا مگر اُس کا دل بدستور مومن رہا۔ مطلب یہ ہوا کہ دل میں قرار پکڑنے والی کیفیت محاسبے کا درجۂ اوّل میں موضوع ہے۔ وہ چیز قابلِ محاسبہ نہیں جو فعل کے سٹیج پر آ گئی ہے، بلکہ دل میں مخفی اور پوشیدہ کیفیت محلِ ابتلا اور محلِ محاسبہ ہے:
یَوْمَ تُبْلَی السَّرَآئِرُo (الطارق۸۶:۹) جس روز پوشیدہ اَسرار کی جانچ پڑتال ہو گی۔
سریرہ حالات و ظروف اور معاشرہ و ماحول اور تربیت سے آگے کا سربستہ راز ہے۔ یہی ابتداے مطلق ہے۔ وہ ابتدا، جسے اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی حدود و قیود سے آزادی دے رکھی ہے۔
یہی انسان کی رو ح ہے، اور یہ انسان کی حقیقت کو بعینہٖ اسی طرح منکشف کرتی ہے جس طرح انسان کی انگلیوں کے نشانات اُس کی انفرادیت کو واضح کرتے ہیں۔ انسان کی روح میں اللہ کی طرف سے حریت رکھی گئی ہے کیونکہ یہ اللہ کا نفخہ (پھونک) ہے:
فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَo (الحجر ۱۵:۲۹) جب میں اُسے پورابناچکوں اور اس میں اپنی رُوح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔
چونکہ یہ انسان کے اندر اللہ کے نور کا ایک قبس (چنگاری) ہے اور اللہ نے انسان کو ارادے کی آزادی سے بھی عزت بخش رکھی ہے، لہٰذا وہ اس آزادی پر قابلِ محاسبہ ہے۔ اور یہ عطاے الٰہی کی بھی انتہا ہے اور عدل کی بھی۔
یہاں گہرے مفہوم والی آیات کی روشنی میں اللہ اور روح کے درمیان امتزاج سامنے آتا ہے:
فَلَمْ تَقْتُلُوْھُمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَھُمْ ص وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ج (الانفال۸:۱۷) پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انھیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور اے نبیؐ، تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا ۔
یعنی جب آپؐ کے ہاتھ سے آپؐ کو نصرت مل رہی تھی عین اُسی وقت اللہ کے ہاتھ سے نصرت عطا ہو رہی تھی۔ لہٰذا لمحۂ نصرت میں آپؐ کا دست مبارک اللہ ہی کا دست قدرت تھا، آپؐ کا پھینکنا اللہ ہی کا پھینکنا تھا، آپؐ کی مشیت اللہ ہی کی مشیت تھی۔
یہاں یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ پھر نیت ایک دوسری مقدرت (قدرت)کیوں نہیں ہے؟
اس کا جواب بھی قرآن کے اندر ہی سے ملتا ہے:
فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ لا فَزَادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ج (البقرہ۲:۱۰) ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا۔
کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ ہُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُ o (المؤمن۴۰:۳۴) اسی طرح اللہ اُن سب لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیتا ہے جو حد سے گزرنے والے اور شکی ہوتے ہیں۔
وَالَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًی (محمد۴۷:۱۷)وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ اُن کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے۔
فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ ط(الصف ۶۱:۵)پھر جب انھوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کر دیے۔
سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰــتِیَ الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّط (اعراف ۷:۱۴۶) میں اپنی نشانیوں سے اُن لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گا جو بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ نیت اور ارادے کی ابتدا اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ سے انسان کے لیے چھوڑ رکھی ہے۔ اللہ کی قضا اور قدر اس کے بعدآتی ہے اور پھر انسان کے دل میں مرض ہو تو اُسے بڑھا دیتی ہے اور اگر اُس کے دل کی گہرائیوں میں ہدایت کے لیے میلان و رجحان ہو تو ہدایت سے انسان بہرہ مند ہو جاتا ہے۔ اگر تکبر وغرور اُس کے اندر پیدا ہو جائے تو ہدایت سے پلٹ کر ضلالت کی طرف چلا جاتا ہے۔
ضمیر کا علاقہ و دائرہ ہمیشہ انسان کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ جو چاہے جی میں لے آئے اور قضاے الٰہی اس کے بعد نازل ہوتی اور اپنافیصلہ نافذ کرتی ہے۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان پر برائی اور ظلم کا ارادہ و نیت ٹھونس دے:
وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْہَآ اٰبَآئَ نَا وَاللّٰہُ اَمَرَنَا بِہَا ط قُلْ اِنَّ اللّٰہَ لَایَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ ط اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo (اعراف۷:۲۸) یہ لوگ جب کوئی شرم ناک کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اِسی طریقے پر پایا ہے اور اللہ ہی نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ان سے کہو، اللہ بے حیائی کا حکم کبھی نہیں دیا کرتا۔ کیا تم اللہ کا نام لے کر وہ باتیں کہتے ہو جن کے متعلق تمھیں علم نہیں ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں؟ ۔
یہ بات اس چیز کی دلیل ہے کہ خلقِ اول کا قانون یہ ہے کہ روح ہمیشہ ایک مقدس و محترم حرم رہے گا جس میں زبردستی کا دخل نہیں ہو گا، نہ اللہ تعالیٰ ہی اور نہ اُس کے لشکر اور انبیا و رسل ہی اس حرم پر کوئی زبردستی کریں گے۔