ٹارا میک کیلوی


جینا ہیسپل ماضی میں پُرتشدد ہتھکنڈے استعمال کرنے کی تردید کر کے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی نئی سربراہ مقرر ہو گئی ہے۔ لیکن عراق کے قیدخانے ابوغریب میں رقم کی گئی ظلم کی داستانوں نے امریکی تاریخ پر جو بدنما داغ چھوڑے ہیں، وہ مٹ نہیں سکتے۔

ایک شخص اس تشدد کا چشم دید گواہ ہے۔امریکی ریاست پنسلوینیا کے علاقے مارٹن برگ میں پیزا کی دکان کی پارکنگ میں ایک دیو قامت سفیدفام شخص جیرمی سیوٹس میرے برابر میں  آن کھڑا ہوا۔ ہم باہر کھلے آسمان تلے اس لیے آ کر محوِ گفتگو ہوئے تاکہ ماضی کے ان مظالم پر اس طرح بات کر سکیں کہ کوئی ہماری آواز نہ سن لے۔

جیرمی سیوٹس کو قیدیوں کی تصاویر بنانے کے جرم میں ایک سال سزا سنائی گئی تھی۔ کارپارک میں ہونے والی گفتگو کے دوران شور سے بچنے کے لیے مجبوراً ہم قریبی ریستوران کے ایک خاموش گوشے میں بیٹھ گئے۔

عراق میں ابوغریب جیل میں مظالم کی تفصیلات ۲۸؍اپریل ۲۰۰۴ء کو سامنے آئی تھیں۔ سیوٹس اور دوسرے فوجیوں کی جانب سے بنائی گئی قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز رویے اور تشدد پر مبنی تصاویر امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس پر نشر ہوئیں تو عالمی انسانی ضمیر پر بوجھ بن گئیں۔

ایک تصویر برہنہ قیدیوں کے ڈھیر کی تھی، جنھیں اس صورت میں ایک دوسرے کے اُوپر ڈال کر قبیح جنسی حرکات کرنے اور مختلف غیر انسانی اور غیرفطری انداز اختیار کرنے کے لیے جبری طور پر مجبور کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک تصویر تو طویل عرصے تک لوگوں کے ذہن پر نقش ہو کر رہی گئی تھی۔  یہ تصویر امریکی فوجی خاتون لینڈی اینگلند کی تھی، جو ایک قیدی کے گلے میں پٹا ڈال کر گھسیٹ رہی تھی۔ ایک اور تصویر جو اس اسکینڈل کی سنگینی کو ظاہر کرتی تھی، وہ ایک ایسے قیدی کی تھی، جسے ایک بکسے پر کھڑا کیا گیا تھا اور بجلی کے ’جھٹکے برداشت کرنے کے لیے‘ اسے بجلی کی تاریں تھمائی ہوئی تھیں۔

ابوغریب میں تعینات بہت سے دوسرے امریکی فوجیوں کی طرح جو اس سکینڈل میں ملوث پائے گئے، سیوٹس کا تعلق بھی ایک دیہی علاقے سے تھا۔ سیوٹس،پنسلوینیا کے علاقے ہنڈمین میں پلا بڑھا تھا۔ اس کی والدہ فریڈا ایک سٹور میں ملازم ہے اور والد ڈینیل ویتنام میں تعینات   رہ چکا تھا۔ ڈینیل کا گذشتہ برس انتقال ہو گیا۔ خاندان کے افراد نے تعزیت پر آنے والوں سے کہا کہ: ’’آپ پھول خرید کر لانے کے بجاے ان کی بیوہ کو نقد رقم دے دیں، تاکہ وہ اپنے شوہر کی تدفین کے اخراجات پورے کر سکے‘‘۔

اس انفرادی گفتگو کے بعد جب میں سیوٹس کے گھر گئی ، تو اس کے ایک پڑوسی کلایٹس نے بتایا: ’’یہ بڑا مہذب بچہ تھا۔ اگر سیوٹس سے کوئی کچھ مدد کے لیے کہتا تھا تو یہ نتائج کی پروا کیے بغیر فوراً تیار ہو جاتا‘‘۔کوریائی جنگ میں شرکت کرنے والے ۸۶سالہ ہرمن رالنگ نے کہا کہ:’’سیوٹس، عراق میں یقیناً احکامات پر عمل کر رہا ہو گا، اس لیے اس کو سزا دینا ناانصافی تھی۔ اگر تم اس کی جگہ ہوتے تو تم بھی وہی کچھ کرتے، جو حکم دیا جاتا۔ بہرحال جنگ ایک عذاب ہوتا ہے‘‘۔

۳۸سالہ سیوٹس نے بتایا کہ: ’’میں بچپن ہی سے اپنے والد کی طرح فوجی بننا چاہتا تھا۔ ۱۸ برس کی عمر میں فوج میں شامل ہوا تو شروع سے مہم جوئی کے راستے پر چل نکلا۔ آٹھویں ملٹری بریگیڈ میں شامل ہوا تو ۲۰۰۳ء میں عراق بھیج دیا گیا۔ عراق پہنچنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد مجھے بغداد کے قیدخانے ابوغریب میں تعینات کر دیا گیا، جہاں مکینک اور ڈرائیور کے طور پر کام کرنے لگا۔ تب اس قیدخانے میں دوہزار کے قریب مرد، خواتین اور بچے قید تھے۔ جن میں بہت سے بےگناہ تھے اور ان کا کسی نوعیت کی مسلح جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ سب حادثاتی طور پر پکڑے گئے تھے۔ انھی دنوں امریکی حکومت نے فوج کے زیرِ انتظام قید خانوں میں سخت تفتیشی طریقوں کے استعمال کی اجازت دے دی تھی۔ اس وقت کے نائب صدر ڈک چینی نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد کہا تھا:’’ امریکا کے لیے ہر تاریک حربہ اپنانا جائز ہے‘‘۔

سیوٹس نے بتایا: ’’واشنگٹن میں حکام نے اسی سوچ کے ساتھ قوانین میں تبدیلیاں کیں، تاکہ تفتیش کے ان حربوں کو استعمال کیا جا سکے، جنھیں تشدد قرار دیا چکا تھا اور یہی طریقے ابوغریب کے قید خانے میں بھی آزمائے جانے لگے۔ قیدیوں کو بہیمانہ تشدد اور عذاب کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ بہت سے قیدی یہ خوفناک تشدد برداشت نہ کر سکے اور ہلاک ہو گئے۔ ایک تصویر ابوغریب کے قیدی منادل الجمادی کی پلاسٹک بیگ میں لپٹی لاش کی تھی، جو امریکی سی آئی اے کی قید میں تھے‘‘۔

سیوٹس نے قیدخانے میں آنکھوں دیکھے واقعات کی تفصیل بتائی: ’’نومبر۲۰۰۳ءکی ایک سرد شام کو مجھے چند انتہائی خطرناک قیدیوں کی جیل کے مخصوص حصے میں منتقلی میں مدد کی غرض سے طلب کیا گیا۔جب مَیں وہاں پہنچا تو راہداری میں مکمل طور پر برہنہ قیدیوں کو ایک دوسرے کے اوپر لیٹا ہوا دیکھا۔ چارلس گارنر، لینڈی اینگلند اور کچھ دوسرے فوجی ان  بے بس قیدیوں کے اردگرد کھڑے بھرپور قہقہے لگا رہے تھے۔ مَیں جن قیدیوں کو ساتھ لایا تھا، انھیں بھی اسی طرح پہلے سے موجود قیدیوں کے ڈھیر پر ڈال دیا گیا‘‘۔

سیوٹس نے کہا: ’’وہاں موجود ہر [امریکی] ان سے یہ کہہ رہا تھا تم یہ [شرم ناک حرکت] کیوں نہیں کر سکتے اور تم وہ [غلیظ حرکت]کیوں نہیں کر سکتے؟ قیدیوں کی کراہوں اور چیخوں کے اس ہنگام میں مَیں نے دیکھا کہ فوجی ہتھکڑیوں کی وجہ سے ایک قیدی کے ہاتھ نیلے پڑنے لگے ہیں۔ مَیں نے چارلس گارنر سے کہا:اس قیدی کے تو ہاتھ کاٹنے پڑجائیں گے۔ گارنر نے اُس قیدی کی ہتھکڑیاں ڈھیلی کر دیں، جس سے اس کی تکلیف کچھ کم ہوئی اور ہاتھ میں خون کی روانی بحال ہو گئی‘‘۔

سیوٹس کے بقول: ’’گارنر نے مجھ کو ایک کیمرہ تھما دیا اور نارنجی لباس میں ایک قیدی،  جس کے چہرے پر نقاب پڑا ہوا تھا، میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ گارنر نے ایک ہاتھ سے اس کا   سر پکڑ لیا اور پوز بناتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے مکّا بنا لیا۔دراصل اس قیدی کا سر ایک جگہ ٹک نہیں رہا تھا۔ گارنر اس کا سر پکڑ کر تصویر کے لیے پوز بنا رہا تھا اور مَیں نے تصویر بنا لی۔ پھر پتہ نہیں کیوں اس قیدی کو گارنر نے ایک مکّا رسید کیا، اور بھرپور قہقہہ لگایا۔میں نے صرف ایک ہی تصویر بنائی تھی‘‘۔ سیوٹس نے یہ تفصیل کچھ اس طرح بیان کی، جیسے وہ کسی اور کی کہانی سنا رہا ہو۔

ابوغریب جیل کی یہ تصاویر جب ٹیلی ویژن پر نشر ہوئیں تو اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کہا کہ: ’’تمام حقائق معلوم کیے جائیں گے اور جو بھی اس میں ملوث پایا گیا، اسے اپنے عمل کا جواب دینا ہو گا‘‘۔سیوٹس اور دس دوسرے فوجیوں کو اس ضمن میں سزا سنائی گئی۔ گارنر کو ۱۰سال قید، فریڈریکا کو آٹھ اور لینڈی اینگلند کو تین سال کی سزا سنائی گئی۔{ FR 644 }

اس اسکینڈل کے سامنے آنے پر عراق جنگ میں شریک ہونے والے بہت سے فوجیوں کے خیال میں امریکا نے اپنی اخلاقی ساکھ کھو دی تھی۔ ریٹائرڈ امریکی جرنیل سٹینلے میک کرسٹل کے مطابق:’’ ۲۰۰۴ءکے بعد ابوغریب میں ہونے والے مظالم کی تصویروں سے پیدا ہونے والے غصے کی وجہ سے بھی عراقی، امریکی فوج پر حملے کرتے تھے‘‘۔

اس قید خانے کو ۲۰۰۶ءمیں [امریکی کٹھ پتلی]عراقی حکام کے حوالے کر دیا گیا اور   آٹھ سال بعد اسے بند کر دیا گیا۔ قید کاٹنے کے بعد جیرمی سیوٹس، پنسلوینیا واپس پہنچ گیا۔ اس نے بتایا: ’’ شروع شروع میں مجھے اپنے آپ سے نفرت محسوس ہوتی تھی۔ یہاں آیا تو مجھے مکینک کے طور پر بھی نوکری نہیں مل رہی تھی۔ تب سے مَیں نے منشیات اور شراب کے عادی افراد کی نفسیاتی معاونت شروع کر دی۔ میں ان لوگوں سے جنگ کے دوران اپنی غلطیوں کے بارے میں بات کرتا تھا، جس پر مجھے بہت افسوس تھا۔ جو کچھ قید خانے میں ہمارے ہاتھوں ہوا، وہ ہولناک تھا، مگر ہم لوگوں نے اس سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔تاہم، بہت سے لوگ اب ان زخموں کا درد محسوس کرتے ہیں۔ ابوغریب کے قیدی علی القیسی نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ: ’’اس تشدد نے ہماری شخصیت کو کچل دیا ہے‘‘۔

سیوٹس کا کہنا ہے کہ: ’’ابوغریب نے ملک کو کچھ حد تک بدل دیا ہے۔ ۲۰۰۹ءمیں صدراوباما نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد اس نوعیت کے تشدد پر پابندی عائد کر دی تھی اور نئے قوانین وضع کیے، جن کے تحت تشدد کرنے والوں کو، چاہے وہ حکومت یا ٹھیکے پر فوج کے کام کر رہے ہوں، انھیں جواب دہ بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم، انسانی حقوق کے علَم بردار یہ کہتے ہیں کہ قوانین اور حکومتی پالیسیوں میں تبدیلی کے بعد بھی لوگ قیدیوں پر پہلے سے زیادہ تشدد کے حق میں ہیں‘‘۔

ابوغریب کی دہلا دینے والی تصاویر شرم ناک تھیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ دھندلی پڑ گئی ہیں۔ ان تصاویر کی وسیع پیمانے پر مذمت کے باوجود، حکومتی پالیسیوں پر نظر رکھنے والی تنظیم ’پراجیکٹ گورنمنٹ‘ اور ’سائٹ‘ کی اہل کار کیتھرین ہاکنز کا کہنا ہے کہ: ’’تفتیش کے لیے پُرتشدد حربوں کے بارے میں لوگوں سے سوال پوچھا گیا تو اکثریت نے ان کے حق میں راے دی‘‘۔اسی طرح تازہ ترین راے عامہ کے جائزے کے مطابق: ’’دو تہائی امریکی، ایسے تشدد کو درست (justified) سمجھتے ہیں‘‘۔ صدر بش کی حکومت میں بحریہ کے جنرل کونسل کے عہدے پر رہنے والے ایل برٹو مورا کا کہنا ہے: ’’تشدد کو آپ تاریخ میں دفن نہیں کر سکتے، اس کی گونج باقی رہتی ہے‘‘۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ۲۰۱۶ءمیں اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ :’’اگر مَیں  صدر منتخب ہوگیا تو ’واٹر بورڈنگ‘ ' جیسے تفتیشی حربوں پر سے پابندی اٹھا لوں گا اور ایسے طریقوں کی اجازت دے دوں گا، جو ’واٹر بورڈنگ‘ { FR 645 } سے کہیں زیادہ ہولناک ہیں‘‘۔ تاہم، انتخابات میں کامیابی کے بعد ٹرمپ نے اپنا موقف تبدیل کیا اور کہا: ’’میں یہ فیصلہ اپنے وزیر دفاع جیمز میٹس پر چھوڑتا ہوں، جس کے خیال میں تشدد کرنا کوئی اچھی بات نہیں‘‘۔

امریکی قومی سلامتی کے نئے مشیر جان بولٹن نے حال ہی میں یہ اعلان کیا ہے کہ: ’’امریکیوں کو تشدد کے تمام طریقے استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور کسی قیدی سے معلومات حاصل کرنے کے لیے میں '’واٹر بورڈنگ‘ ' کو دوبارہ رائج کرنے کے خیال پر غور کر سکتا ہوں‘‘۔

سی آئی اے کی نئی ڈائریکٹر جینا ہیسپل ایسے ہی ایک تشدد آمیز حراستی مرکز کی نگران رہ چکی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا خیال تھا کہ وہ بش حکومت کے دور میں تفتیش کے لیے پُرتشدد طریقے استعمال کرنے کے پروگرام میں شامل رہنے کی وجہ سے سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے عہدے کے لیے موزوں امیدوار نہیں۔مگر صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پیغام میں کہا: ’’اس خطرناک دُور میں ہمیں ایک موزوں ترین شخصیت میسر ہے۔ یہ ایک عورت، جسے ڈیموکریٹ نہیں چاہتے‘‘۔ جیناہیسپل نے اپنی نامزدگی کی سماعت میں وعدہ کیا ہے: ’’میں پُرتشدد طریقوں کو شروع نہیں کروں گی کہ یہ غلط طریقہ تھا‘‘۔

ابوغریب جیل اسکینڈل کے سامنے آنے کے تقریباً ۱۵سال بعد ایل برٹومورا کا کہنا ہے کہ: ’’سیوٹس کے خیال کے برعکس میرے خیال میں امریکا میں لوگوں کے دلوں میں کوئی نرم دلی پیدا نہیں ہوئی‘‘۔ایل برٹو مورا نے امریکی صدر اور کئی دوسرے سیاست دانوں کے اُن بیانات کی طرف اشارہ کیا، جن میں اُنھوں نے تشدد کے حق میں بات کی تھی۔ اگرچہ ابھی تشدد کے خلاف قانون موجود ہے، لیکن ایل برٹو مورا کا خیال ہے کہ: ’’اگر امریکا عراق کی جنگ کی طرح کسی اور جنگ میں اُلجھ گیا، تو وہ دوبارہ پُرتشدد طریقوں پر اتر آئے گا۔ ابوغریب سے یہی اُجاگر ہوتا ہے۔ ابوغریب اگر غلطی سرزد ہونے کی ایک مثال تھی، تو پھر اس ظلم (cruelty)کو دُہرائے جانے کی بھی بنیاد ہے‘‘۔[ماخذ: بی بی سی، امریکا /کینیڈا، ۱۶مئی ۲۰۱۸ء۔ اُردو ترجمہ: ادارہ]