ڈاکٹر حسن ممتاز


ہرمعمار کے لیے ضروری ہے کہ جس زمین پراسے عمارت بنانی ہے، سب سے پہلے اس کا معائنہ کرے اور اسے خاروخس سے پاک کرے۔ اس کی سطح ہموار بنائے اور اس پر اپنے نقشے کے مطابق عمارت کی بنیاد رکھے۔

ڈاکٹر محمد اقبال کے فکری کارنامے کے دو پہلو ہیں: سب سے پہلے انھوں نے اپنے ماحول کا جائزہ لیا اور اس میں ان عناصر کی نشان دہی کی، جو اس برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی ذہنی غلامی کا سبب تھے۔ اس کے بعد انھوں نے اسی جائزے کی روشنی میں آزادی اور ترقی کی راہ متعین کی۔ ان کا اپنا ذہن اور پس منظر اسلامی تھا اور انھوں نے اسی نقطۂ نگاہ سے سارے مسائل کا مطالعہ کیا۔ اس مطالعے کے دوران اقبال نے دیکھا کہ مسلمانوں میں ذہنی نشوونما ختم ہوچکی ہے یا ٹھٹھر کر رہ گئی ہے۔ انھوں نے جو نتائج اخذ کیے، وہ ایک عمومی اہمیت رکھتے ہیں۔ جن کے مطابق وہ تقلید کے بندے بن چکے ہیں۔ علم و حکمت کا وہ خزانہ جو انھیں ورثے میں ملا تھا، وہ اُسے دوسری قوموں کے حوالے کرچکے ہیں۔ تجربے اور مشاہدے سے جو علم حاصل ہوتا ہے، اس سے بے تعلق ہیں۔

منطقِ استقرائی کہ جس کے مسلمان خودموجد اور مفسر تھے، ان کے لیے ایک اجنبی چیز بن چکی ہے۔ سائنسی علوم اور تکنیکی فنون سے بے بہرہ ہیں حتیٰ کہ ان میں یہ مسئلہ بھی زیربحث ہے کہ ’’سائنس کا مطالعہ جائز بھی ہے کہ نہیں‘‘۔ ان کے دماغ میں بادشاہت اور آمریت کے تصورات اور خیالات کے نتیجے میں فساد اور پیری مریدی کے توہمات جاگزیں ہیں۔ زندگی کی عملی قوتیں سلب ہوچکی ہیں۔  حق و باطل میں امتیاز کرنے اور باطل قوتوں کے خلاف جہاد کی صلاحیت تقریباً فنا ہوچکی ہے۔ اقبال نے دیکھا کہ ایک طرف مسلمانوں کے ہاتھوں، دین اسلام چھوٹے چھوٹے متنازعہ فیہ مسائل اور دور ازکار تاویلات کا مجموعہ بن کررہ گیا ہے، اور دوسری طرف نئے نئے افکاراور تصورات جو انگریزی حکومت کے ہمراہ اس برصغیر کی سرزمین میں داخل ہوئے تھے، مسلمان اُنھیں اپنے لیے چراغِ راہ سمجھنے لگے۔

واقعہ یہ ہے کہ انگریزوں نے رنگ، نسل اور جغرافیائی قومیت کے تصورات کو اس طرح پیش کیا کہ جیسے وہ کوئی الہامی چیز ہوں۔ مسلمانوں کی نئی نسل نے اس نئی تعلیم کو آمنّا وصدقنا کہا۔ مغرب کی ہرچیز انھیں اچھی نظر آنے لگی اور وہ دو گروہوں میں بٹ گئے: ایک تو وہ گروہ جو شدت سے پرانی روایات کا پابند تھا اور مغرب کے خیالات کی طرف سے آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔ یہ گروہ مشرق کی کورانہ تقلید کا حامی تھا۔ دوسرا گروہ جو اپنی ہرچیز کو بُرا اور باہرسے آئی ہوئی ہرچیز کو اچھا سمجھتا تھا۔ یہ طبقہ مغرب کی کورانہ پرستش کی نمایندگی کرتا تھا۔

اکبرالٰہ آبادی نے ان دوطبقوں پر ’شیخ‘ اور’ مسٹر‘ کے لیبل لگائے۔ انھیں ’شیخ‘ سے ہمدردی تھی اور ’مسٹر‘ سے بے زاری۔ البتہ انھوں نے ہمدردی اور بے زاری کا اظہاراپنے مخصوص استہزا کےرنگ میں کیا۔ اکبر اس سے آگے نہ بڑھ سکے کیونکہ ان کے سامنے پرانی روایات کو قائم رکھنے اور ان پر کاربند رہنے کے سوا کوئی اور چیز نہ تھی۔ سیّداحمد خاں نے کوشش کی کہ پرانی روایات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ نئے خیالات اورنئی تعلیمات سے بھی فائدہ اُٹھایا جائے، مگر ان کی طبیعت میں بھی اپنی قوم کی ذلّت اور خواری اور انگریزوں کےعروج کا تاثر اتنا گہرا تھا کہ ان کے ہاں بھی ایک حد تک مغربی تہذیب کی طرف جھکاؤ نظر آتا ہے۔ یہی حال سیّداحمد خاں کے رفقا اور معاصرین کا تھا۔ مرزا اسداللہ خاں غالب، سیّداحمد خاں سے بھی آگے تھے ۔وہ صاحبانِ انگریز کے نظامِ حکومت اورحُسنِ انتظام کے اس قدر معترف تھے کہ جب سیّداحمد خاں نے آئین اکبری کو تصحیح کرکے چھپوایا اور غالب کے پاس تقریظ کے لیے بھیجا تو غالب نے اسے کوئی وقعت نہیں دی، بلکہ یہاں تک فرمایا کہ  ع

مردہ پروردن مبارک کار نیست

سرسیّد احمد خاں کے بعد کی نسل میں جو اقبال اور ان کے معاصرین پرمشتمل تھی، یہ احساس اور بھی شدت اختیار کرچکا تھا۔ یہ تھی اس برصغیر کے مسلمانوں کی ذہنی، اخلاقی اورروحانی کیفیت۔

فکری جدوجہد:  جب اقبال نے اپنے فکری جہاد کا آغاز کیا۔اقبال کے نزدیک فکری تعمیر سے پہلے تطہیر فکر لازم تھی۔ انھوں نے سب سے پہلے کورانہ روایت پرستی اور اندھادھند تقلید کے خلاف آواز اُٹھائی۔ انھیں یہ تسلیم تھا کہ زمانۂ انحطاط میں تقلید، اجتہاد سے بہتر ہوا کرتی ہے، مگروہ انحطاط کے دور سے پرے اُفق پر ایک نئی زندگی کی کرن دیکھ رہے تھے، اس لیے ان کی نگاہ میں محض تقلید اب کارآمد نہیں ہوسکتی تھی:

اگر تقلید بودے شیوئہ خوب

پیمبرؐ ہم رہِ اجداد رفتے

[اگر تقلید ِ [محض] قابلِ تعریف چیز ہوتی تو آں حضوؐر بھی اپنے آباواجداد کا راستہ اپنا لیتے]۔ (پیامِ مشرق، ص۲۲۲)

اقبال نے اسلامی فقہ کے مقلدانہ جمود کو توڑنا چاہا اور اجتہاد کو لازم قرار دیا۔ وہ اجتہاد مطلق کے قائل تھے اور دورِ حاضر کے مسائل اور ضروریات کے پیش نظر اسلام کے لازوال اصولوں کی بنیاد پراسلامی فقہ کی ایک نئی تشکیل چاہتے تھے۔ انھوں نے پرانے اور نئے دونوں مسائل پر نظر ڈالی اور ان دونوں میں سے جو بہتر، صحت بخش اور حیات پرور نظر آیا، اسے انھوں نے اختیار کیا اور دنیا کے سامنے رکھا۔

انھوں نے دیکھا کہ بادشاہت، سلطانی اور تصوف نے مسلمانوں کو افکار اور کردار کی آزادی سے محروم کر دیا ہے۔ وہ اس کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری میں ایک نئی زندگی پیدا کرنا چاہتے تھے۔ ان کا کلام ان تصورات کے خلاف ایک مستقل جہاد ہے۔ تصوف کی عجمی تحریکوں میں سب سے بڑی تعلیم نفیِ خودی ہے، یعنی: انسان کو اپنی خودی کی پرورش اور انضباط کے بجاے اسے  فناکردینا چاہیے اور زندگی کی جنگ میں ایک سپاہی کی طرح لڑنے کے بجاے ایک کونے میں جابیٹھے اور اسی گوشۂ عافیت کو اپنی معراج سمجھے‘۔ اقبال نے اس غیراسلامی نظریے کے خلاف جو بودھ مت کے نروان کے تخیل سے ماخوذ ہے، مسلسل اور مستقل جہاد کیا ہے۔ ان کی تعلیم سے انسان کو سکون و راحت کے بجاے مستقل جستجو اور جدوجہد کے ذریعے اپنی شخصیت کو توانا اورمتحرک رکھنا چاہیے۔ حرکت اور کوشش پیہمِ زندگی ہے اور سکون و آرام، موت۔ زندگی کی پرورش انھی مقاصد سے ہوتی ہے،جنھیں انسان اپنا نصب العین بنا لے۔

مغربی تہذیب پر  بـے لاگ تنقید : سب سے بڑا مقصد نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود کی کوشش ہے اور یہ کوشش اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب دنیا کے سب سے بڑے انسان کی مثالی زندگی انسان کے پیش نظر ہو۔ اقبال کو جوعقیدت جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، اس کی بنیاد انسانی فطرت پرہے۔

مشرق پر تنقید کے ساتھ اقبال نے مغرب پر بھی تنقید کی ہے۔ اس تنقید کو آج جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں نہ صرف اقبال کی بصیرت غیرمعمولی نظر آتی ہے بلکہ ان کی دیانت داری اور بے باکی و حق گوئی حیرت انگیز دکھائی دیتی ہے۔ انھوں نے مشرقی اقوام کو تنقید ِ مغرب کا سبق دیا  ع

باید ایں اقوام را تنقیدِ غرب

     (جاوید نامہ، ص ۱۷۸)

نسل اور وطنیت کے تصورات کے خلاف انھوں نے احتجاج کیا۔ وطنیت کے نئے تصور کو انھوں نے انسانی وحدت کا دشمن سمجھا اور اسے نوعِ انسانی کے بہترین مفاد کے خلاف پایا:

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سےوطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے

قومیتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

(بانگ ِ درا،ص ۱۷۱)

جو کرےگا امتیازِ رنگ و خوں، مٹ جائے گا

’ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہُر

نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی

اُڑ گیا دنیا سے تُو مانندِ خاکِ رہگزر

(ایضاً، ص ۲۷۹)

مغربی تہذیب نے انسانی معاشرے کو مختلف متضاد طبقوں میں جو تقسیم کیا ہے، اس کا انجام بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے:

تمیز بندہ و آقا فسادِ آدمیت ہے

حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

(ایضاً، ص ۲۸۶)

اقتصادی لحاظ سے مغربی معاشرہ کہاں تک کامیاب ہے:

کیا یہی ہے معاشرت کا کمال

مرد بے کار و زن تہی آغوش

(ضربِ کلیم، ص۹۰)

اقبال نے جدید مملکت کے غیراخلاقی میکانیکی تخیل کی مذمت کی ہے  ع

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

مغربی تہذیب کی عقلیت پرستی کو وہ ایک مکمل نظامِ حیات کا رُتبہ دینے کو ہرگز تیار نہیں ہیں۔ عقل بہت مفیداور کارآمد چیز ہے مگر انسان کے بلند ترین مقاصد محض عقل کی پیروی سے حاصل نہیں ہوتے ،اسے ایک جذباتی اور روحانی وابستگی کی ضرورت ہے    ؎

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

عقل ہے محوِ تماشاے لبِ بام ابھی

(بانگِ درا، ص ۲۹۴)

وہ عقلی جدوجہد کے مخالف نہیں ہیں ، بلکہ علمی میدان میں اس کے کارناموں کے مداح ہیں۔ مغربی تہذیب کا سب سے اہم اور روشن پہلو علمی تحقیقات ہیں، جن کا نتیجہ سائنس کے کرشمے ہیں۔ یہی مغرب کی ترقی کا رازہے:

علمِ اشیا علّم الاسماستے

ہم عصا و ہم یدِبیضاستے

علمِ اشیا داد مغرب را فروغ

حکمتِ او ماست می بنددزدوغ

دشنہ زن در پیکرِ ایں کائنات

در شکم دارد گہر چوں سومنات

(پیامِ مشرق، ص ۱۹)

اقبال ’مغربی عقل‘ اور’ مشرقی عشق‘ کا ایک کامل امتزاج پیش کرتے ہیں  ؎

خرد افزود مرا درسِ حکیمانِ فرنگ

سینہ افروخت مرا صحبتِ صاحب نظراں

(ایضاً، ص ۱۴۵)

اور عقل و عشق کا مقام انسانی شخصیت میں اقبال نے یوں معین کیا ہے   ؎

من بندئہ آزادم ،عشق است امامِ من

عشق است امامِ من، عقل است غلامِ من

(زبورِ عجم، ص ۱۹۷)

مغرب اور مشرق کے بہترین عناصر کا امتزاج اقبال کے نزدیک اسلام کی روح کا حقیقی مظہر ہے۔ اقبال نے اسلام کی ابدی اقدار کو، جن کی بنیاد توحید باری ، وحدتِ انسانی، تسخیر فطرت، مسلسل جدوجہد، تعمیر خودی اور مستقل رجائیت پر مبنی ہے، انھیں موجودہ زمانے کےفلسفیانہ تصورات کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ وہ ملوکیت اور اشتراکیت دونوں کو انسانیت کے لیے ایک لعنت سمجھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ دنیا کی مشکلات کا حل اگرکہیں ہے تو وہ اسلام میں ہے۔ وہ مسلمانوں کی کوتاہیوں سے آگاہ ہیں، مگر اسلام کے مستقبل سے کسی طرح نااُمید نہیں ہیں بلکہ ان کا ایمان ہے کہ  ؎

شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے

یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے

(بانگِ درا، ص ۲۱۶)

 راہِ نجات اور نظریہ پاکستان : آج کی دنیا جوہری بم کی دہشت اور تباہی سے  لرزہ براندام ہے، مگر وہ اقبال کے پیغام و تعلیم میں دوامی امن و سکون کی راہ ڈھونڈ سکتی ہے۔ اقبال نے اُمید کا جو پیغام دیا ہے، وہ پوری انسانیت کے لیے ہے اور یہ پیغام قلب ِ اسلام سے ہی اُبھرا ہے۔

اقبال نے ’قومیت‘ کا محدود دائرہ توڑ کر ان اعلیٰ و ارفع اقدارِ حیات کی ترجمانی کی ہے، جو اسلام کا ہمہ گیر منشور ہے اور جو متضاد، ایک دوسرے سے اُلجھتے ہوئے نظریات کے مابین ، ایک سلجھی ہوئی معتدل سلامتی کی راہ دکھاتا اور چلنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔ یہ راہِ راست اسلام ہی دکھاتا ہے اور اس کی روح اقبال جیسے شارحینِ اسلام کے پیغام میں نظرآتی ہے۔

مَیں اس خیال کی بھی تردید کرتا ہوں کہ نظریۂ پاکستان کو معین شکل دینے کا کام اقبال کے سوا کسی اور نے بھی انجام دیا تھا۔ اقبال کا مشہور خطبۂ صدارت (الٰہ آباد) قائداعظم محمدعلی جناحؒ اور دوسرے اکابرین ملت سے ان کی خط کتابت اور خود ان کی زندگی اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ نظریۂ پاکستان کے وہی خالق تھے۔ اقبال شروع ہی سے انگریز کے وضع کردہ آئینی تحفظات کو بے کار خیال کرتے تھے اور ان کی نگاہ مستقبل پر جمی ہوئی تھی۔ انھیں بہت جلد یہ احساس ہوگیا تھا کہ اگر ہندستان متحدہ طور پر آزاد ہوا تو ہندو اکثریت موجود رہے گی اور اس وقت یہ آئینی تحفظات مسلمانوں کے کچھ بھی کام نہ آئیں گے۔ اکثریت اپنے بل پر من مانی کرسکے گی اور مسلمانوں کے مفادات کو کوئی نہ پوچھے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے شمال مغربی خطے کی آزاد و خودمختار مسلم مملکت کا تصور پیش کرنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد مسلمانانِ بنگال کو بھی اس مجوزہ مملکت کے دائرے میں شامل کرلیا۔

اقبال ایک علاحدہ مسلم مملکت کا تصور پیش کرچکے تھے اور اس ’جرم‘ کی پاداش میں وہ نہ صرف اغیار بلکہ خود اپنوں کی طرف سے بھی موردِ سبّ و شتم بنائے گئے۔ اس وقت کوئی نہ اُٹھا اور نہ اس سبّ و شتم کو برداشت کرنے کے لیے شریک بنا، مگر اب، جب کہ پاکستان بن چکا ہے، اس نظریے کی ملکیت کے حصے بخرے کیے جارہے ہیں مگر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔

یاد کیجیے، اقبال نے ۱۹۰۹ء ہی میں غلام قادر صاحب فرخ امرتسری کے نام ایک خط میں یہ بات کھل کر کہی تھی کہ’’ آزاد ہندستان میں ’یک قومی‘ تصور، خواہ ویسے کتنا ہی دل کش کیوں نہ ہو مگر قابلِ عمل ہرگز نہیں ہے‘‘۔ اقبال نے پوری قوت سے جداگانہ انتخابات کا بھی مطالبہ کیا تھا اور دوسرے مسلم رہنماؤں کو اپنے نظریے کی صحت کا قائل کیا بھی تھا۔ خود قائداعظم بھی یہ تسلیم فرماتے ہیں کہ مسئلہ پاکستان پر طویل بحث و تمحیص کے بعد ہی انھوں نے نظریاتِ اقبال سے اتفاق کیا تھا۔

 نشاتِ ثانیہ کے لیے مساعی: اقبال نے مسلمانِ برصغیر کی نشاتِ ثانیہ کے لیے جو عظیم کام کیا ہے، اس کو شاید کسی بھی پیمانے سے پوری طرح نہیں ناپا جاسکتا۔ اقبال نے مسلمانوں کے معاشری، اخلاقی، سیاسی، تعلیمی اور اقتصادی شعور میں ایک انقلاب آفریں اضافہ کیا۔ انھوں نے ہی اسلام کے پیغام کو اس عہد کے سیاق و سباق میں دیکھا اور سمجھایا۔ ایک صدی کے روندے ہوئے مسلمانوں کو اس پیغام کی روح،دوبارہ پانے کی راہ اقبال نے ہی سجھائی اور ان کے فکروعمل کو نئی صلاحیتیں عطا کیں۔ اقبال نے ہمیں حقائق سے آنکھ ملانے کی سکت بخشی اور انھیں سمجھنے کی بصیرت دی۔ اس ضمن میں اقبال کو مسلمانوں کی اقتصادی پستی کا بڑی شدت سے احساس تھا، اور وہ دل سے چاہتے تھے کہ ملت آزاد، خوش حال اور سربلند ہو۔

اقبال پہلے مفکر تھے، جنھوں نے مغربی تہذیب کا مطالعہ تنقیدی نظر سے کیا، اور پھر اس کے مضر پہلوؤں کو رد اور مفید پہلوؤں کو قبول کیا۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے قیام کے بعد مسلمانوں میں قدامت پسندی اور جدت طرازی کے غیرمتوازی فکری گروہ پیدا ہوگئے تھے اور اقبال اس سارے رجحان کو دیکھ رہے تھے۔ اسی لیے انھوں نے تجزیے کے ساتھ مسلمانوں کو صحیح راہ دکھائی۔ وہ کسی ایک نظریے کے ساتھ چمٹے رہنے کے عادی نہ تھے۔ وہ تو زندگی کو ایک رواں دواں عمرانی عمل سمجھتے تھے۔ انھوں نے مغربی سامراج ، مادہ پرستی اور سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کی سخت مخالفت کی اور سماجی عدل، اقتصادی مساوات اور بقاے باہمی کی اسلامی قدروں کی قندیل ایک بار پھر ہمارے دلوں میں روشن کی۔

بعض اقتصادی نظریات جو آج مقبولِ عام بنے ہوئے ہیں، انھیں فکر ِ اقبال پہلے ہی پیش کرچکی تھی۔ اقبال کا ایک رسالہ علم الاقتصاد پر موجود ہے۔یہ جدید معاشیات پر اُردو کی اوّلین کتاب ہے اور ان نظریات کی حامل، جن کا ذکرابھی ہوا۔ یہ زمانہ وہ تھا جب تعلیم بس ایک معاشری تعیش کے طور پر موجود تھی، مگر اقبال نے اقتصادی ترقی کے ضمن میں تعلیم کی اہمیت پر پوری طرح زور دیا۔ ہندو اقتصادی طور پر مسلمانوں پر فوقیت رکھتے تھے اور یہ چیز اقبال کے احساس میں بڑی شدت پیدا کر رہی تھی اور اس کا اظہاراُن کے ایک مقالے ’ملّتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘ میں بہت زیادہ وضاحت سے ملتا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی سیاسی جماعت، ان کے معاشی حالات بہتر بنانے کی طرف پوری پوری توجہ دے۔

اقبال کی بصیرت برصغیر میں کیا کیا دیکھ رہی تھی، اس کا مختصر ذکر بھی یہاں ضروری ہے:

اب یہ دور آچکا تھا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اپنی اپنی ثقافت کے احیا کا احساس جاگا اور اس بات نے ہی دونوں کو الگ الگ راہوں پر ڈال دیا۔ ہندی، اُردو سے الگ ہوگئی۔ ہندو سیاست دانوں اورادیبوں نے اپنی قومی خصوصیات کے اظہار کے لیے ہندی کو ہی ذریعۂ اظہار بنانا شروع کیا۔ پھر تاریخِ ہند کو دونوں قوموں نے اپنے اپنے ثقافتی رجحان کےآئینے میں دیکھنا شروع کیا۔ انگریزی حکومت کےسایے میں ہندو اکثریت نے حکمرانوں کا قرب حاصل کرلیا مگر مسلمان عتاب ہی میں رہے اور ان کی اقتصادی حالت دگرگوں ہوتی چلی گئی۔ اکثریت اور اقلیت کا یہ فرق بڑھتا ہی چلا گیا اور باہمی تصادم کے لیے یہ بھی ایک بڑا سبب بنا۔ جب سیاسی اختیار و حقوق کی منتقلی کا چرچا ہونے لگا، تو دونوں نے شدت سے اپنے اپنے موقف کا احساس و اظہار کیا۔

یہ حالات و کوائف تھے کہ فکر ِ اقبال نے مسئلہ ہند کا قابلِ عمل حل پیش کیا۔ اقبال آزادی کی تڑپ لے کر پیدا ہوئے تھے اور ذہانت بھی بلا کی پائی تھی۔ انھیں انسانیت کا وسیع تر تصور عزیز تھا۔ انھوں نے احساسِ ذات اور اظہارِ ذات پر ہی سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ وہ دوسروں پر تکیہ و انحصار کرنے کو خودی کی موت قرار دیتے ہیں۔ اقوامِ مغرب کی قوم پرستی کا تجزیہ کرنے کے بعد وہ اس موقف پر بار بار زوردیتے رہے کہ اسلام ہی زندگی کی اَقدار کا سب سے بلند، سب سے ارفع اور بہترین نظام پیش کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ حکیم اُلامت علامہ محمد اقبال کا پیغام اسلام کی اعلیٰ و ہمہ گیر اقدار کی بہترین شرح ہے، اور اس پر عمل ہمارا کام۔