عربی لغت میں’ ترجمہ‘ کا لفظ دو معانی کے لیے بولا جاتا ہے: کلام کو ایک زبان سے دوسری زبان میں اس کے معنی کی وضاحت کے بغیر نقل کرنا، یا ایک کلام کا مطلوب و مقصود دوسری زبان میں پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر دینا(پروفیسر غلام احمد حریری: تاریخ تفسیر و مفسرین، فلک سنز فیصل آباد،۱۹۷۸ئء ص ۲۱)۔ گویا ترجمے کا بنیادی مقصد ایک زبان کے معنی و مفہوم کو دوسری زبان میں اس طرح بیان کرنا ہے کہ معنی و مفہوم بھی درست ہو، ابلاغ کامل ہو اور کہیں ابہام نہ رہے۔
ترجمہ کرنا مشکل کام ہے اس لیے کہ تخلیق میں تو فکر آزاد ہوتی ہے لیکن ترجمے کی صورت میں اسے اصل کے ساتھ رشتہ استوار رکھنا پڑتا ہے، بلکہ اصل کا پابند ہونا پڑتا ہے اور اگر معاملہ قرآن پاک کے ترجمے کا ہو تو یہ معیار اور بھی سخت ہو جاتا ہے۔ اس کا ایک سبب تویہ ہے کہ قرآن پاک عربی زبان میں نازل ہوا ہے جس کی فصاحت و بلاغت اور فکر و معانی کی بلندی و ثروت کی تاب وہ عربی شعرا بھی نہ لا سکے جنھیں اپنی زبان دانی پر بڑاناز تھا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ قرآن کا ہر لفظ اپنے سیاق و سباق میں خاص فکری معنویت رکھتا ہے اور مترجم کی ذرا سی لغزش پورے مفہوم کو متزلزل کرسکتی ہے۔ اس لیے ڈاکٹر سید حمید شطاری لکھتے ہیں: ’’ترجمے میں ایسے الفاظ کے انتخاب کی ضرورت ہے جو عقائد اور احکام کی پوری پوری ترجمانی کرتے ہوں اور ان الفاظ کا مفہوم منشاے قرآن و متن کی صحت کے ساتھ وضاحت کرتا ہو‘‘۔(قرآن مجید کے اُردو تراجم و تفاسیر کا تنقیدی مطالعہ، حیدرآباد ،س ۔ن، ص ۳۰)
ترجمہ قرآن اس لیے بھی نازک ترین فن ہے کہ کلام الٰہی کو کسی انسانی زبان میں اس انداز میں ڈھالنا کہ مفہوم ترجمے میں پورا منتقل ہو اور زبان بھی قرآن کے معیار کے مطابق ہو، بظاہر مشکل امر ہے۔ سید مودودی کہتے ہیں:’’کلام الٰہی کے الفاظ میں اس قدر وسیع معانی پوشیدہ ہیں جن پر کوئی انسانی کلام حاوی نہیں ہو سکتا۔ انسان خواہ کتنے ہی علم و فضل اور بصیرت کے ساتھ اس کا ترجمہ کرے، وہ ایسے الفاظ بہم نہیں پہنچا سکتا جو الفاظ قرآن کے تمام مفہومات کو ادا کرنے والے ہوں‘‘۔ (پروفیسر خورشید احمد، (مرتبہ) ادبیات مودودی،اسلامک پبلی کیشنز ،لاہور،۱۹۸۵ء، ص۳۷۵)۔ مترجم قرآن ڈپٹی نذیر احمدیہ کہتے تھے: ’’میرے مذہب میں قرآن کا ترجمہ گناہ ہے۔ کیونکہ ترجمے میں معجز بیانی نہیں آ سکتی‘‘۔(افتخار احمد صدیقی: مولوی نذیر احمد دہلوی، احوال و آثار، مجلس ترقی ادب لاہور ،۱۹۷۱ء، ص۲۶۴)
ترجمہ قرآن کی ان مشکلات کے سبب، ایک مدت تک قرآنی تعلیمات سے استفادہ کرنے کی خواہش کے باوجود، قرآن پاک کا فارسی یا اردو زبان میں ترجمہ نہیں کیا گیا۔ بنگال میں اسے تقدس و احترام کے منافی اور پشتون علاقے میں تحریف تصور کیا جاتا رہا۔ بالآخر شاہ ولی اللہ نے قرآن پاک کا فارسی ترجمہ کر کے صدیوں کی جھجک اور گومگو کی کیفیت کو ختم کیا۔ شاہ ولی اللہ کے بعد ان کے صاحب زادوں شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین نے اردو زبان میں قرآن پاک کے تراجم کیے۔ شاہ عبد القادر کا ترجمہ قرآن صرف دینی خدمت ہی نہ تھی بلکہ اردو نثر کی بھی ایک عظیم الشان خدمت تھی۔ انھوں نے، ’’عوامی زبان و محاورہ کو قرآن جیسی کتاب کے ترجمے کے لیے استعمال کرکے ایک نئی رفعت دی۔ ترجمے سے ایک طرف دینی مقاصد کو تقویت پہنچی تو دوسری طرف اردو زبان میں اظہار کی غیر معمولی قوت پیدا ہوئی‘‘۔(ڈاکٹر جمیل جالبی: تاریخ ادب اردو، ۲،مجلس ترقی ادب لاہور ، ص۱۰۵۵)
شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین کے تراجم کے بعد قابل ذکر ترجمہ قرآن ڈپٹی نذیر احمد کا ہے لیکن شان الحق حقی کہتے ہیں ’’نذیر احمد نے اپنے ترجمہ قرآن میں ایسے محاورات کو راہ دی ہے جو علمی تحریر سے میل نہیں کھاتے‘‘۔(ادبی ترجمہ کے مسائل ،مرتب: اعجاز راہی،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ،۱۹۸۶ء، ص۲۲۱)
قرآن پاک کے اردو تراجم میں مولانا محمود حسن اور مولانا اشرف علی تھانوی کے ترجمے قابل ذکر ہیں لیکن وہ اظہار بیان کی قدامت کے مظہر ہیں۔ حافظ فتح محمد جالندھری کا ترجمہ بامحاورہ اور رواں تو ضرور ہے لیکن بہ کثرت قوسین قاری کو آگے نہیں بڑھنے دیتیں۔ عبد الماجد دریابادی کے ہاں قدیم اسالیب اور فکر خاص کی الجھنیں مفہوم و مدعا کے ابلاغ میں رکاوٹ ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا ترجمہ بہتر اور بامحاورہ تو ہے مگر مکمل نہیں۔ الغرض قرآن کریم کے تراجم کی ۲۰۰سالہ مشق اور بہترین علما و ادبا کی صلاحیتیں ’’ایسا ترجمہ نہ کر سکیں جس سے اصل کے زور بیان فصاحت و بلاغت او روحانی عظمت کا صحیح اندازہ ہو سکے‘‘۔( شیخ محمد اکرام ، رودِ کوثر،ادارہ ثقافت ِ اسلامیہ لاہور، ۱۹۹۱ء، ص۵۵۳)
یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ ہر عہد میں قرآن کریم کے تراجم کے باوجود، آخر بار بار ترجمہ قرآن کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے اور قرآن کے پہلے سے کیے گئے تراجم میں ہر آنے والی نسل کی دلچسپی قدر ے کم کیوں ہو جاتی ہے؟ اس سوال کا جواب ڈاکٹر صالحہ عبد الحکیم شرف الدین کے خیال میں یہ ہے کہ ارتقاے لسانی کے اعتبار سے چالیس پچاس برس بعد ترجمہ قرآن کی زبان کی چاشنی کم ہو جاتی ہے اور پھر الفاظ و اصطلاحات کے معنی بھی بدل جاتے ہیں۔ دوسری طرف ہر عہد کے علما کی کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے عہد کے خیالات، افکارو فلسفہ کے پیش نظر قرآن کا عصری تناظر میں ترجمہ کریں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ہر عہد کا انسان اپنے خیالات کا اظہار اپنے مخصوص انداز میں کرنا چاہتا ہے۔(قرآن حکیم کے اُردو تراجم،قدیمی کتب خانہ کراچی،س۔ن، ص۶۷-۶۸)
گویا ہم کہہ سکتے ہیں ترجمہ قرآن کی ضرورت تو ہر عہد میں رہے گی لیکن اردو زبان میں قرآن کی ترجمانی بہترین انداز میں وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنے عہد کی لسانی تبدیلیوں اور فکری میلانات سے آگاہ ہونے کے ساتھ اردو زبان کی معنوی وسعت، لسانی اکائیوں اور الفاظ و معنی کی ساری پر توں کے استعمال پر قدرت بھی رکھتا ہو۔
۱۹۴۲ء میں سید مودودی نے قرآن کی الوہیت، انداز خطابت، اور فکرو خیال کو قرآن کے بتائے گئے مفاہیم کی حدود میں رہتے ہوئے اردو زبان میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔ ان کی زیر ادارت چھپنے والے رسالے ترجمان القرآن میں قرآن پاک کا یہ ترجمہ مع تفسیر مسلسل ۳۰ سال تک شائع ہوتا رہا، قرآن کے اردو ترجمے کی اس انداز میںاشاعت اس لحاظ سے واحد مثال تھی کہ اسے اہل علم و ادب کے سامنے باقاعدگی سے پیش کیا جاتا رہا۔ یہی ترجمہ و تفسیر بعد ازاں تفہیم القرآن کے نام سے چھے مختلف جلدوں میں شائع ہوا البتہ ترجمہ قرآن کوترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی کے نام سے نظر ثانی و ترمیم کے بعد جولائی ۱۹۷۶ء میں الگ سے شائع کیا گیا۔(ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: تصانیف مودودی ایک اشاعتی اور کتابیاتی مطالعہ،مشمولہ تذکرہ سید مودودی- سوم،ادارہ معارف اسلامی لاہور،۱۹۹۸ء، ص۶۲۹)
ہندستان میں مسلمان آیت آیت اور لفظ لفظ کا ترجمہ الگ الگ پڑھنے کے عادی تھے، لیکن سید مودودی نے لفظی ترجمہ کے بجاے آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کیا، حالانکہ یہ مشکل کام تھا۔ سید باقر حسین لکھتے ہیں: ’’الفاظ کا ترجمہ کرنا پھر بھی نسبتاً آسان کام ہے لیکن عبارت کا ترجمہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ مترجم کو دو متضاد تقاضوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایک طرف تو خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ترجمہ تحت اللفظ ہو دوسری طرف ترجمے کی زبان کا محاورہ ہاتھ سے نہ جائے‘‘۔(ترجمے کے اصول، مشمولہ ترجمہ روایت اور فن ، مرتب: نثار احمد قریشی،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ،۱۹۸۵ء، ص ۶۰)
سید مودودی نے لفظی ترجمے کے بجاے قرآن کی ترجمانی کرتے ہوئے قرآنی عبارت کے مفہوم کو اُردو زبان میں ادبی شان کے ساتھ منتقل کر دیا اور جوتاثیر قرآن کو پڑھ کر ان کے دل میں پیدا ہوئی اسے حتیٰ الامکان عربی مبین سے اُردوے مبین میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔ سید مودودی نے آزاد ترجمانی کا طریقہ اس لیے اختیار کیا تاکہ قاری ترجمہ قرآن پڑھتے ہوئے قرآن کے مفہوم و مدعا کو سمجھ کر وہی اثر قبول کرے جو قرآن اس پر ڈالنا چاہتا ہے۔ اس سے قبل اردو میں ترجمہ قرآن کی جو روایت چلی آ رہی تھی، اس میں ترجمہ لفظی ہوتا تھا اور لفظی ترجمے میں قرآن کی ہرسطر کے نیچے بے جان عبارت قاری کو پڑھنے کے لیے ملتی تھی، جس سے نہ قاری کی روح وجد میں آتی ، نہ اس کے رونگٹے کھڑے ہوتے تھے، نہ اس کے جذبات میں کوئی طوفان برپا ہوتا۔ لفظی ترجمے کی تاثیر میں ادب کی اس تیز و تند اسپرٹ کا فقدان تھاجو قرآن کی اصل عبارت میں بھری ہوئی ہے۔(ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی،سیّد مودودی، ادارہ ترجمان القرآن لاہور،۲۰۰۱ء، ص۵)
پھر قرآن کا طرز بیان تحریری کے بجاے تقریری ہے اور کوئی ترجمہ قرآن اس وقت تک گہرا تاثر نہیں چھوڑ سکتا، جب تک تحریر کی زبان کو مربوط تقریری زبان میں تبدیل نہ کیا جائے۔ یوں بھی قرآن کی زبان بہت بامحاورہ ہے اور بامحاورہ تراجم میں ابلاغ کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس لیے سید مودودی نے بامحاورہ ترجمے اور تقریری اسلوب کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا کرتے ہوئے : ’’میں اپنے با محاورہ ترجمے میں نہ تو قرآن کے الفاظ کی حرفاً حرفاً پابندی کرتا ہوں اور نہ ہی اسے بہت زیادہ آزاد بناتا ہوں بلکہ متنِ قرآن کے مفہوم کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں‘‘۔ (ابو طارق: مولانا مودودی کے انٹرویو، دوم،اسلامک پبلی کیشنز لاہور،۱۹۹۱ء، ص۵۲)
سید مودودی نے ترجمے میں ’ترجمانی‘ کرتے ہوئے بھی آزادی نہیں برتی اور کلام اللہ کو اس کے پس منظر اور حالات نزول کے ساتھ جوڑتے ہوئے با معنی بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر صالحہ عبد الحکیم شرف الدین رقم طراز ہیں: ’’مولانا نے آزاد ترجمے کی اجازت لے کر بھی حدود کا ہمیشہ خیال رکھا، کلام الٰہی کی عظمت اور صحت کو قائم رکھ کر اس کی ترجمانی کرنا ان کا مقصد رہا‘‘۔ (قرآن حکیم کے اردو تراجم، ص ۳۵۸)
یہ درست ہے کہ قرآن پاک کے تراجم میں موضوع کی یکسانیت کے باوجود مترجمین کے ذوق، رجحان اور انداز فکر کے سبب تازگی کا احساس ملتا ہے۔ سید مودودی بھی یہ چاہتے تھے کہ قرآن کو ایسی زبان میں پیش کریں، جس سے جدید ذہن کو قرآن فہمی حاصل ہو اور قرآن کا انقلاب آفرین پیغام ان کی روحوں میں سرایت کرجائے، لیکن ساتھ ساتھ قرآن کی ادبیت بھی انھیں مسحور کرے اور ان کے جذبوں کو مہمیز کرے، وہ قرآن کے استدلال سے تو ضرور آگاہ ہوں لیکن مطالعہ قرآن میں دوسری زبان کی اجنبیت کو اپنے لیے رکاوٹ نہ سمجھیں۔ سید مودودی اس کوشش میں بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبد المغنی کے بقول: ’’ایسا جامع، واضح، مستند، سلیس، جان دار اور زور دار ترجمہ جس میں ساری توجہ اداے مفہوم پر مرکوز کی گئی ہو، اپنی مثال آپ ہے‘‘۔(مولانا مودودی کی ادبی خدمات،فاران نشریات لاہور،۱۹۹۲ء، ص ۴۳ )
سید مودودی کا یہ ترجمہ فصاحت و بلاغت کی بھی مثال ہے۔ یہ اسی فصاحت و بلاغت کا کمال ہے کہ قرآن کی جادوئی تاثیر بھی اردو زبان میں منتقل ہو گئی ہے، اور اردو نثر کا بھی ایک طاقت ور اسلوب قرآن کی ترجمانی کے لیے وجود میں آ گیا ہے۔ ’’سید مودودی اگر اپنے عہد کی بہترین زبان استعمال نہ کرتے تو آسمانی کتاب کا زورِ بلاغت اور حسن فصاحت کبھی اردو زبان میں منتقل نہ ہوسکتا‘‘۔(الطاف حسن قریشی، اردو ڈائجسٹ ،لاہور،اکتوبر۱۹۷۹ء، ص۲۳)
سید مودودی سے ما قبل تراجم قرآن میں جہاں زبان کی اجنبیت کا احساس ہوتا ہے، وہاں تاثیر، فصاحت، بلاغت اور روح قرآن کی کمی بھی کھٹکتی ہے۔ یہ تراجم عقل کو اپیل نہیں کرتے اور نہ قرآن کی معجزاتی زبان کو اس کی الہامی قوت کے ساتھ قاری تک منتقل کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کو اس کے حسن و انشا، لسانی و ادبی بانکپن، لفظی طمطراق اور اس کی تاثیر کے ساتھ اگر کسی عالم نے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے تو وہ سید مودودی ہیں۔ ( افضال حسین نقوی، جسارت، کراچی، سید مودودی نمبر، ص۳۰)
ترجمہ قرآن کے سلسلے میں سید مودودی کا اہم کارنامہ، ترجمے کی پیراگراف بندی ہے۔ یہ ایک انقلابی قدم ہے جس کی مدد سے نہ صرف قرآن کے مطالب کی تفہیم آسان ہو گئی ہے بلکہ قاری کو قرآن کے تقریری اسلوب سے یہ اندازہ بھی ہو جاتا ہے کہ تقریر کا ایک جزو دوسرے جزو سے کیا تعلق رکھتا ہے اور تحریک اسلامی کن کن مراحل سے گزرتی رہی ہے۔ پروفیسر خورشید احمد لکھتے ہیں: ’’قرآن کے قاری کو یہ رہنمائی فراہم کرنا کہ ایک بات کہاں ختم اور دوسری کہاں شروع ہوتی ہے، اس کے لیے پیراگراف بندی کی ضرورت تھی اور یہ کام اگر متن میں ہوتا تو حد ادب سے تجاوز تھا‘‘۔ (پروفیسر خورشید احمد،’دینی ادب‘ مشمولہ تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، دسویں جلد،پنجاب یونی ورسٹی لاہور،۱۹۷۲ء، ص۳۳۰)
سید مودودی کے مجتہدانہ ذہن نے یہ کام کر کے قاری کے لیے بہت آسانی پیدا کر دی ہے اور’’قرآن فہمی کی کنجی اپنے قاری کے ہاتھ میں دے دی ہے‘‘۔ (سید اسعد گیلانی، آئین،لاہور، تفہیم القرآن نمبر، ص ۱۷۳)
پیراگراف کے بعد قرآن کا یہ ترجمہ اس اعتبار سے بھی منفرد ہے کہ اگر صرف ترجمہ پڑھا جائے تو بھی مفہوم سمجھ میں آتا اور مطالب کا پورا اظہار ہوتا ہے۔ سید مودودی کے اس ’’الہامی ترجمے‘‘ (راشد شاذ، سیارہ لاہور، سالنامہ، ۲۰۰۱ء، ص۱۰۲) کی سلاست، فصاحت و بلاغت، ادبیت اور محاورہ بندی کے لیے دوسرے مترجمین کے تراجم سے ایک تقابلی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے، اس مقصد کے لیے ’’سورۃ الضحیٰ‘‘ کا ترجمہ منتخب کیا گیا ہے۔
’’قسم ہے، دن کی روشنی کی اور رات کی جب کہ وہ قرار پکڑے۔(آگے جواب قسم ہے) کہ آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا اور نہ (آپ سے) دشمنی کی اور آخرت آپ کے لیے دنیا سے بدر جہا بہتر ہے (پس وہاں آپ کو اس سے زیادہ نعمتیں ملیں گی) اور عنقریب اللہ تعالیٰ آپ کو (آخرت میں بکثرت نعمتیں) دے گا۔ سو آپ خوش ہو جاؤ گے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر آپ کو ٹھکانا دیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو (شریعت سے)بے خبر پایا سو (آپ کو) شریعت کا رستہ بتلا دیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو نادار پایا سو مال دار بنا دیا۔ تو آپ (اس کے شکریے میں) یتیم پر سختی نہ کیجیے اور سائل کو مت جھڑکیے۔ (یہ تو شکر فعلی ہے) اور اپنے رب کے انعامات (مذکور) کا تذکرہ کرتے رہا کیجیے۔ (یعنی زبان سے قولی شکر بھی کیجیے)‘‘۔ (بیان القرآن،مولانا اشرف علی تھانویؒ، تاج کمپنی لمیٹڈلاہور،س۔ن، ص ۵۴۴-۵۴۵)
’’قسم دھوپ چڑھتے وقت کی اور رات کی جب چھا جائے۔ نہ رخصت کر دیا تجھ کو تیرے رب نے اور نہ بے زار ہوا اور البتہ پچھلی بہتر ہے تجھ کو پہلی سے اور آگے دے گا تجھ کو تیرا رب پھر تو راضی ہو گا۔ بھلا نہیں پایا تجھ کو یتیم، پھر جگہ دی اور پایا تجھ کو بھٹکتاپھر راہ سمجھائی۔ اور پایا تجھ کو مفلس، پھر بے پرواہ کر دیا۔ سو جو یتیم ہو، اس کو مت دبا اور جو مانگتا ہو، اس کو مت جھڑک۔ اور جو احسان ہے تیرے رب کا اس کو بیان کر‘‘۔ (مفتی محمد شفیع، معارف القرآن،ہشتم ، ادارۃالمعارف، کراچی، ۱۹۹۹ء، ص ۷۶۴)
’’آفتاب کی روشنی کی قسم، اور رات (کی تاریکی) کی جب چھا جائے کہ (اے محمدؐ) تمھارے پروردگار نے نہ تو تم کو چھوڑا، اور نہ (تم سے ) ناراض ہوا۔ اور آخرت تمھارے لیے پہلی (حالت یعنی دنیا) سے کہیں بہتر ہے۔ اور تمھیں پروردگار عنقریب وہ کچھ عطا فرمائے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے۔ بھلا اس نے تمھیں یتیم پا کر جگہ نہیں دی۔ (بے شک دی) اور رستے سے نا واقف دیکھا، تو سید ھارستہ دکھایا۔ اور تنگ دست پایا تو غنی کر دیا، تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرنا اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دینا اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہنا‘‘۔(القرآن الحکیمہ،تاج کمپنی لاہور، ص ۸۵۱)
’’قسم ہے دن کی روشنی کی، اور رات کی جب کہ وہ قرار پکڑے اور آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ آپ سے بے زار ہوا ہے۔ اور آخرت آپ کے لیے دنیا سے (بدر جہا) بہتر ہے۔ عنقریب آپ کا پروردگار آپ کو اتنا عطا کرے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔ کیا اللہ نے آپ کو یتیم نہیں پایا، پھر (آپ کو) ٹھکانہ دیا۔ اور آپ کو بے خبر پایا، سو راستہ بتا دیا۔ اور آپ کو نادار پایا تو مال دار بنا دیا۔ تو آپ بھی یتیم پر سختی نہ کیجیے اور سائل کو مت جھڑکیے۔ اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بھی تذکرہ کرتے رہا کیجیے‘‘۔(القرآن الحکیمہ مع ترجمہ و تفسیر،عبدالماجد دریابادی، ص ۱۱۹۹-۱۲۰۰)
’’قسم ہے روزِ روشن کی، اور رات کی، جب کہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہو جائے۔ (اے نبیؐ) تمھارے رب نے تم کو ہرگز نہیں چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا۔ اور یقینا تمھارے لیے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے۔ اور عن قریب تمھارا رب تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے۔ کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟ اور تمھیں ناواقف راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی۔ اور تمھیں نادار پایا اور پھر مالدار کر دیا۔ لہٰذا یتیم پر سختی نہ کرو اور سائل کو نہ جھڑکو اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو‘‘۔(ترجمہ قرآن مع مختصر حواشی، ص ۱۵۴۹-۱۵۵۱)
سید مودودی کے علاوہ باقی تراجم پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان تراجم سے اُردو ترجمے کی روایت تو ضرور آگے بڑھی ہے، لیکن ترجمے میں وہ سلاست، روانی، اور ادبیت نہیں، جو قرآن کا اعجاز ہے۔ اول الذکر تراجم سے وہ تاثر قائم نہیں ہوسکا جو قرآن کا مقصود ہے۔ ان تراجم میں اللہ کی ’نبی سے دشمنی‘ ہونا یا ’بے زار ہونا‘ مناسب حال ترجمہ نہیں۔ اسی طرح رات کی تاریکی کا چھا جانا رات کی معنویت میں وہ فصاحت پیدا نہیں کرتا جو رات کے سکون کے ساتھ طاری ہونے کے مفہوم میں پنہاں ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کے ترجمے میں طوالت ہے اور بار بار قوسین کا استعمال، عبارت کے تسلسل اور بہاؤ کو توڑتا ہے۔ پھر ترجمے میں پرا نا پن موجود ہے۔ اس طرح ترجمہ ابلاغ کی خوبی سے بھی محروم ہے۔ مفتی محمد شفیع کے ترجمے سے قرآن کی معنویت پوری طرح قاری پر آشکار نہیں ہوتی۔ مولانا فتح محمد جالندھری کے ہاں با محاورہ ترجمے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن یہاں بھی قوسین کا استعمال قاری کی توجہ منتشر کر دیتا ہے۔ مولانا عبد الماجد دریا بادی کے ہاں مولانا اشرف علی تھانوی کے ترجمے کی ہی تقلید کی گئی ہے، البتہ انھوں نے قوسین کم کر دیے ہیں، تاہم وہ اپنے ترجمے کو فصاحت، بلاغت اور ادبیت نہ دے سکے۔
سید مودودی کے ترجمے میں تسلسل، بہاؤ، روانی اور ربط ہے۔ ترجمہ پڑھتے ہوئے قاری کی توجہ ایک بار بھی نہیں ہٹتی۔ سید مودودی نے قرآن کے استفہامیہ لہجے کو ترجمے میں منتقل کرتے ہوئے ایجاز و اختصار سے کام لے کر قرآن کے مفہوم کو ترجمے میں ڈھال دیا ہے۔ بلاغت کا یہ عالم ہے کہ چھوٹے چھوٹے جملے زبان پر رواں ہو جاتے ہیں، ترجمہ با محاورہ، سلیس رواں اور سبک ہے۔ بات نہ صرف قوسین کے بغیر سمجھ آتی ہے بلکہ کسی لفظ کی وضاحت کے لیے حواشی کی ضرورت بھی نہیں پڑتی، نہ ترجمے میں کسی لفظ کا اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ دن کی روشنی یا آفتاب کی روشنی یا دھوپ چڑھتے وقت سے کہیں زیادہ سبک ترکیب روز روشن کی ہے جس میں فصاحت اور ادبیت ہے۔
تقابلی مطالعے کے سلسلے میں ایک اور نمونہ سورۃ الحجر کی آیت نمبر ۷۲ کا ترجمہ ہے ۔ اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کے گھر فرشتے خوب رو لڑکوں کی شکل میں عذاب کی خبر لے کر آتے ہیں تو قوم لوط ان کے گھر پر چڑھ دوڑتی ہے۔ قرآن قوم لوط کی اس کیفیت کو بیان کرتا ہے۔ مترجمین نے یہ کیفیت ترجمے میں کیسے منتقل کی ہے؟ اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
آپؐ کی جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مدہوش تھے ۔(بیان القرآن، مولانا اشرف علی تھانوی، ص۲۳۹)
اے محبوب ا! تمھاری جان کی قسم بے شک وہ اپنے نشے میں بھٹک رہے تھے۔( کنز الایمان، مولانا احمد رضا خاں بریلوی،تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور، ص ۳۴۴)
آپؐکی جان کی قسم وہ اپنی مدہوشی میں بالکل بہکے ہوئے تھے۔(القرآن الحکیمہ، مولانا عبد الماجد دریا بادی، ص ۵۴۵)
(اے محمدؐ) تمھاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مدہوش (ہو رہے ) تھے۔ (القرآن الحکیمہ،مولانا فتح محمد جالندھری، ص ۳۵۵)
تیری جان کی قسم اے نبیؐ اس وقت ان پر ایک نشہ سا چڑھا ہوا تھا جس میں وہ آپے سے باہر ہوئے جاتے تھے‘‘۔(ترجمہ قرآن مع مختصر حواشی، سید مودودی ، ص۶۷۷)
قرآن نے یہاں نشہ کا لفظ استعارتاً استعمال کیا ہے، مگر دیگر مترجمین نے اسے پھر حقیقت میں بدل دیاہے۔ نشے میں مدہوش ہونا، بھٹک جانا، بہک جانا، وہ کیفیات ہیں، جس میں فرد عمل کی قوت سے محروم ہو جاتاہے۔ لیکن سید مودودی نے لفظ نشے کے ساتھ آپے سے باہر ہونے کا محاورہ لاکر قومِ لوطؑ کی بداطواری اور بدمستی کی عملی کیفیت بیان کر دی ہے اور یہی سید مودودی کے اس ترجمے کی جدت ہے۔ پھر ’’تیری جان کی قسم اے نبیؐ ‘‘میں کتنی بے ساختگی، اخلاص، محبت، وارفتگی اور چاہت ہے۔
سید مودودی کو الفاظ کے استعمال پر کچھ ایسی قدرت حاصل ہے کہ وہ لفظ کو اس کے سیاق و سباق میں برتنے کے فن میں طاق نظر آتے ہیں۔ اس لیے سید مودودی نے سورۂ رحمن کی آیت فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ کا ترجمہ بھی آیت کے سیاق و سباق میں ہر بار مختلف کیا ہے، یعنی تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں، عجائب قدرت، کرشموں، کمالات، احسانات، صفات، اور اوصافِ حمیدہ کو جھٹلاؤ گے۔ سید مودودی نے قرآن میں استعمال ہونے والے الفاظ ’و‘ اور ’ف‘ کا ترجمہ بھی ’اور‘ اور ’پس‘ کے معنوں تک محدود نہیں رکھا۔ اورکہیں کہیں قرآن کے لہجے و تاثیر کو ہو بہو ترجمے میں منتقل کر دیا ہے۔ ’’اُف، تنگ کر دیا تم نے، کیا تم مجھے خوف دلاتے ہو کہ میں مرنے کے بعد قبر سے نکالا جاؤں گا‘‘۔(ایضاً، ص ۱۲۷۷)
ترجمہ میں بیسیوں مقامات پر زبان کی روانی، صوتی بہاؤ، سلاست، اور ادبیت کا دل نشین انداز نظر آتا ہے:
اے لوگو، جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈر و اور اس کی جناب میں بازیابی کا ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جدوجہد کروشاید کہ تمھیں کامیابی نصیب ہو جائے۔(ایضاً، ص ۲۹۷)
عربی اور اردو زبانیں اپنی لسانی ترکیب‘ لوچ‘ رچاؤاور تہذیبی پس منظر میں مختلف زبانیں ہیں، اس لیے عربی تراکیب کو اردو میں ترجمے کے ذریعے منتقل کرنا مشکل امر ہے، لیکن قرآن کے لہجے اور مفہوم کی مکمل منتقلی اس کے بغیر ممکن نہیںہے۔ سید مودودی نے قرآن کے لہجے اور تاثیر کو اردو میں منتقل کرنے کے لیے بہترین تراکیب اور موثر ترین الفاظ کا چناؤ کیا ہے جس سے بہت ساری نئی تراکیب وضع ہو گئی ہیں۔ چند تراکیب دیکھیے: فرستدگان الٰہی، گردش ایام، دیدہ بینا، گرم چراغ، دلیل روشن، پردہ شب، تیز گامی، لب گور، شعلہ زن، عقل سلیم، ملک یمین، اعیان سلطنت، کلمہ خبیثہ، کٹے کافر، کج بحثی، نیش زنی، پراگندہ خواب، پیروان ابلیس، فجر مشہود، خواہش نفس، تھڑدلا۔ سید مودودی نے بعض عربی تراکیب کو ویسے ہی لکھ دیا ہے کیونکہ اگر ان کا ترجمہ کیا جاتا تو یقینا وہ فصاحت اور بلاغت پیدا نہ ہوتی جو ان عربی تراکیب سے ہوئی ہے۔ جیسے: عادِ اولیٰ، عذاب الیم، عاد ارم، سواء السبیل، مہاجرین و انصار، شیطان رجیم، ملاء اعلیٰ، کتاب مبین، احسن الخالقین وغیرہ۔
اس ترجمے میں بہت سارے مرکب عطفی ترجمے میں زور، روانی اور جدت پیدا کرتے نظر آتے ہیں: حکیم و علیم، حکیم وحمید، ذلیل و حقیر، بے کم و کاست، دست و پابستہ، فریاد و فغاں، ملجا و ماویٰ، نیک و بد، صبح و شام، اطلس و دیبا، گمراہی و بد عملی، روسیاہی و ذلت۔
سید مودودی نے قرآن کی ترجمانی کے لیے با محاورہ ترجمہ کیا ہے۔ اس لیے بہت سارے محاورے بے کھٹکے چلے آئے ہیں، جو مفہوم میں بلاغت، فصاحت، دل کشی اور روانی پیدا کرتے ہیں لیکن قرآنی مضامین کے تقدس اور احترام سے بھی پوری طرح ہم آہنگ ہیں، اس لیے کہ سید مودودی کو ڈپٹی نذیر احمد کی طرح محاورے جڑنے کا شوق نہیں بلکہ محاورہ خود بخود آن کھڑا ہوتا ہے۔ چند محاورے یہ ہیں: ٹوٹ پڑنا، پیٹھ پھیر کر بھاگنا، عقل ماری جانا، ڈنڈی مارنا، الٹے پاؤں پھرنا، پھٹکار پڑنا، کانوں کا کچا ہونا، دل ٹھنڈا کرنا، افترا باندھنا، دل تنگ ہونا، آنکھیں سفید پڑنا، دل اڑنا، آپے سے باہرہونا، کلونس چھا جانا، خوشی سے کھل اٹھنا، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جانا وغیرہ۔
سید مودودی کے ترجمے میں ایک ہی طرح کے املا والے الفاظ پر اعراب کا اہتمام بھی ملتا ہے۔ تشبیہ و استعارہ بھی رنگ جماتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سید مودودی کا یہ ترجمہ نہ صرف ترجمہ کی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ ادبی معیارات پر بھی پورا اُترتا ہے۔ عطش درانی کے مطابق: ’’یہ ترجمہ قرآن با محاورہ ترجمے کی عمدہ مثال ہے‘‘۔ ( ادبی جائزے،نذر سنز لاہور، ۱۹۸۷ء، ص۱۲۳)
سید مودودی کے ترجمے میں ادبیت، علمیت، تاثیر، روانی، فصاحت وبلاغت کا بڑا سبب یہ ہے کہ سید مودودی نے قرآن کے اصطلاحی اور لغوی مفہوم کو اچھی طرح سمجھ کر بہترین الفاظ میں ترجمہ کیا ہے۔ سید مودودی اس بات کے قائل تھے کہ قرآن کے الفاظ سے مجازی اور ظاہری مفہوم اخذ کرنے کا فیصلہ اندھا دھند نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے قرآن کا سیاق و سباق اور زیر بحث مسئلہ ہی معیار قرار دیا جا سکتا ہے۔ (عاصم نعمانی (مرتب) مکاتیب سید ابوالاعلٰی مودودی، دوم، اسلامک پبلی کیشنز لاہور،۱۹۹۱ء، ص۳۱۵)
سید مودودی کے ایک قریبی رفیق حکیم خواجہ اقبال ندوی لکھتے ہیں: ’’سید مودودی قرآن کے ایک لفظ کا مفہوم متعین کرنے کے لیے کبھی کبھی دس دس بارہ بارہ دن کلام عرب، لغت، تفاسیر اور احادیث کا مطالعہ کرتے رہتے‘‘۔ (جمیل احمد رانا، سلیم منصور خالد (مرتبین) تذکرہ سید مودودی، سوم، ص۸۳۳)
سید مودودی کے ہاں قرآنی الفاظ کو اس کے خاص سیاق و سباق میں ترجمہ کرنے کے سبب ان کے ترجمے میں تنوع، دل چسپی، اسلوب کی تازگی اور معنوی تسلسل ہے۔ ملک حسن اختر کے بقول: ’’یہ ترجمہ اردو نثر میں بلند مقام کا حامل ہے‘‘( ڈاکٹر جمیل جالبی،تاریخ ادب اردو، دوم ص۱۲۱۰)۔ تاہم، اس ترجمے میں بعض مقامات پر حفظ مراتب کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ ایسے مقامات پر ترجمے میں ادبیت کا وہ رنگ نہیں جو اس کی مجموعی فضا پر چھایا ہوا ہے۔ مثلاً: ’’ان سے کہو میں کوئی نرالا رسول تو نہیں ہوں‘‘۔(ترجمہ قرآن مع مختصر حواشیسید مودودی: ص ۱۲۷۵)
’’اے نبیؐ ! ان سے رخ پھیر لو، پھر تم پر کچھ ملامت نہیں‘‘(ایضاً، ص۱۳۳۱)۔ سید مودودی کی اس آزاد ترجمانی کو مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی اختیار کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ترجمے کی سلاست، روانی، ادبی چاشنی، اور ابلاغ کی خوبی ان کے ہاں اس درجہ پیدا نہ ہو سکی۔ عمر خالد رقم طراز ہیں: ’’مولانا مودودی کا ضخیم ترجمہ قرآن اور تفسیر بلاشبہہ اردو ادب کا ایک شاہکار ہے۔ اُردو نثر میں مولانا کا زور دار انداز روایتی مذہبی دنیاے علم میں بے نظیر ہے۔(Islamic Studies، جلد۴۱، بہار،۲۰۰۲ء، ص ۳۵)
سید مودودی کے اس ترجمے نے اردو نثر کے امکانات کو وسعت دی ہے، اس لیے کہ یہ ترجمہ جہاں عوام کی دینی ضرورت پوری کرے گا وہاں سید مودودی کی اُردوے مبین ترجمہ پڑھنے والوں کے ادبی ذوق کی تسکین بھی کرتی رہے گی۔