تلخیص وترجمہ:اویس احمد


امریکادنیا بھر میں قانون کی حکمرانی اورانسانی حقوق کی پاس داری کے سلسلے میں عالمی کوتوال کا کردار اداکرتا رہا ہے لیکن اس کا اپنا دامن اُن تمام جرائم کے ارتکاب سے داغ دار ہے جن کے بارے میں  وہ دوسروں کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بناتا ہے، بلکہ تادیبی اقدامات کا ہدف بنانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ قول اور فعل میں تضاد امریکا کے کردار کا ایک ناقابلِ انکار اور بہت شرم ناک پہلو ہے۔ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے افسوس ناک واقعے کے ردعمل کے طور پر، لیکن دراصل اپنے عالمی عزائم کی تکمیل کے لیے،   اس نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا آغاز کیا جو ۱۲سال سے جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں   بین الاقوامی قانون کا ہر اصول اور ہرضابطہ پامال ہورہا ہے اور انسانی حقوق کا جس بے دردی سے  خون کیا جا رہا ہے وہ انسانی تاریخ کا ایک شرم ناک باب ہے۔ پھر اس سلسلے کے حقائق پر پردہ ڈالنا بھی آزادیِ اظہار اور آزادیِ صحافت کے تمام دعوئوں کے باوجود سرکاری پالیسی کا حصہ رہا ہے۔ نیز آزادیِ صحافت کے دعوے دار میڈیا نے بھی اس سلسلے میں امریکی حکمرانوں کے طفیلی کا کردار ادا کیا ہے۔ اب حالات کچھ بدل رہے ہیں اور مختلف ذرائع سے جن میں وکی لیکس شامل ہے، سرکاری حقائق سامنے آرہے ہیں۔ ان کی روشنی میں دنیا اور اس کے عوام امریکی جمہوریت کا اصل چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک بڑی اہم رپورٹ وہ ہے جو امریکا کی کانگریس اور آزاد اداروں کی ایک نمایندہ ٹاسک فورس کی جانب سے حال ہی میں شائع ہوئی۔اس رپورٹ میں بہت سے ان حقائق سے پردہ اُٹھایا گیا ہے جو اَب تک آنکھوں سے اوجھل تھے اور اصلاحِ احوال کے لیے اس نے کچھ سفارشات بھی پیش کی ہیں۔ یہ رپورٹ دو سال کی تحقیق و تفتیش کے بعد پیش کی گئی ہے اور اس کی اشاعت کے بعد کسی بھی حلقے سے اس میں دیے ہوئے حقائق کے بارے میں کسی شک و شبہے کا اظہار نہیں کیا گیا۔ یہ امریکی جمہوریت کا وہ اصل چہرہ ہے جسے دنیا بھر کے انسانوں اور خصوصیت سے مسلم دنیا کے لوگوں کو ایک مدت سے سابقہ ہے اور امریکا سے بے زاری کے بنیادی اسباب میں امریکی حکمرانوں کی یہی روش ہے۔ امریکا کی قیادت کو خود اپنی ایک آئینی کمیٹی کی اس رپورٹ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور دنیابھر میں امریکا بے زاری کی لہر پر دوسروں کو دوش دینے کے بجاے اپنی پالیسیوں اور اپنے رویوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔  ٹاسک فورس نے اس رپورٹ کی تیاری کے لیے افغانستان، عراق کے دورے کیے، گوانتاناموبے گئے، دوسرے کئی ممالک میں امریکا کے زیرانتظام جیل خانوں کا معائنہ کیا۔سرکاری غیرسرکاری ہرطرح کے ذرائع سے شواہد اور معلومات جمع کیں جو ۶۰ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا خلاصہ ۶ہزار صفحات میں تیار ہوا۔ اس کی بنیاد پر سفارشارت تیار کی گئیں ۔ انگریزی متن سے ترجمہ کرتے ہوئے  بھی تلخیص کی گئی۔ یہ عالمی ترجمان القرآن کے قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔  اصل رپورٹ انٹرنیٹ (www.constitutionproject.org)پر دستیاب ہے۔ (مدیر)

امریکا میں قیدیوں سے روا رکھنے جانے والے سلوک کے بارے میں آئینی پراجیکٹ (Constitution Project) نامی ادارے کی ٹاسک فورس کی یہ رپورٹ دو برس کے عمیق مطالعے، تحقیقات اور غور و خوض کا نتیجہ ہے۔ اس منصوبے کے پیچھے یہ سوچ کارفرما تھی کہ دہشت گردی کے عالمی خطرے کے خلاف امریکی افواج نے جن لوگوں کو گرفتار اور قید کیا،ان کے ساتھ امریکی سلوک کے بارے میں درست اور مستندراے حاصل کی جائے۔ یہ طویل رپورٹ ایک ایسے ادارے کی تیار کردہ ہے جو مختلف آئینی مسائل کے حل کے لیے متفقہ رپورٹیں اور سفارشات مرتب کرتا ہے۔ اسے دونوںامریکی پارٹیوں کی نمایندہ اور خودمختارکمیٹیوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ تاہم ضروری نہیں کہ آئینی پراجیکٹ کی ان رپورٹوں میں پیش کی گئی آرا، اخذ کیے گئے نتائج، بیانات اور دوسر ے لوازمے سے بورڈ آف ڈائریکٹرز یا بورڈ آف ایڈوائزرز کو اتفاق بھی ہو۔

’آئینی پراجیکٹ‘نامی اس تنظیم نے حکومتی کارروائی کی غیر موجودگی میںغیر جماعتی انداز اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں پر کاربندہو کرمفادِ عامہ کے پیش نظر اس کام کا بیڑا اٹھا یا۔ اس مقصد کے لیے ایک ٹاسک فورس جمع کی گئی جس میں عدلیہ، کانگرس، سفارتی محاذ، قانون نافذ کرنے والے اداروں، فوج اور انتظامیہ کے اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے کا تجربہ رکھنے والے سابقہ اہل کار شامل تھے۔ اس ٹاسک فورس کو قانون ، طب اور اخلاقیات کے شعبوں میں تسلیم شدہ ماہرین کا تعاون بھی حاصل تھا، تاکہ حراستی پالیسیوں کا سنجیدہ اور منصفانہ جائزہ لیا جا سکے کہ ان کی تشکیل اور نفاذ کیسے ہوا۔ٹاسک فورس میں قدامت پسند ڈیموکریٹ اور روشن خیال گردانے جانے والے ری پبلکنز شامل تھے، ایسے افراد جو قومی سلامتی کے معاملات کا تجربہ رکھتے اور اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور وہ جو یہ جانتے ہیں کہ حکومت کی پہنچ اور اتھارٹی کس مناسب حد تک قانون اور روایات کی پابند ہے۔اس کے ساتھ ٹاسک فورس کے اراکین میں مجموعی طور پر یہ آگاہی بہت گہرائی کے ساتھ موجود تھی کہ حکومتی فیصلے کیسے کیے جاتے ہیں۔

اگرچہ رپورٹ میں درج کارروائیاں صدر کلنٹن سے باراک اوباما تک تین مختلف حکومتی ادوار پر محیط ہیں، لیکن ٹاسک فورس کے زیر مطالعہ اکثر سرگرمیاں صدر بش کے دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ ناگزیر بھی تھا کیوں کہ بش انتطامیہ کے دور میں۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکی سرزمین پر خوفناک حملے ہوئے اور اسے فوری اور فیصلہ کن ردعمل کا بوجھ سہارنا پڑا۔

فلپ ڈی۔ زیلیکو جو ورجینیا یونیورسٹی کے تاریخ دان ہیں، بش انتظامیہ کے دور میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مشیر اور نائن الیون کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائرکٹررہے ہیں، کہتے ہیں کہ مجموعی قومی صدمے کے بعد، ’’سرکاری اہل کاروں نے وہ سب کچھ کیا جس کے بارے میں وہ سوچ سکتے تھے، بے وقوفوں کی طرح ہاتھ پائوں مارے، کئی غلطیاں کیںاورکچھ چیزیں درست کر لیں‘‘۔

اس بات پر کسی کو اختلاف نہیں کہ امریکا ظلم وتشدد کے واقعات میں ملوث رہا ہے اور شاید یہ اس پینل کی سب سے اہم دریافت ہے جس کے بارے میں پینل کو کوئی تحفظ ہے نہ اس نے کوئی تاثراتی سوچ ہی قائم کی ہے۔ ٹاسک فورس کے کسی بھی رکن نے اس بنیاد پر نتائج اخذ نہیں کیے کہ (قیدیوں سے سلوک)کا یہ طریقہ ’’مجھے تشددجیسا لگا‘‘ یا ’’میں اسے تشدد سمجھتا ہوں‘‘، بلکہ تفصیلی اور عمیق تجزیے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ سلوک مختلف پہلوئوں، خصوصاً تاریخی اور قانونی تناظر میں تشدد ہی تھا ۔ٹاسک فورس نے متعددعدالتی مقدموں کا تجزیہ کیا جن میں یہ خیال تھا کہ ملک کے اند اور باہر قیدیوں پر تشدد ہوا ہے اورجن واقعات پر خود امریکا نے دوسری حکومتوں پر تشدد کے الزامات عائد کیے تھے۔ امریکا کے لیے یہ مناسب نہ تھاکہ وہ دوسری قوموں پر تشدد میں ملوث ہونے کا الزام لگائے اور خود کو اس سے بری الذمہ قرار دے لے، حالانکہ اس کے ہاں بھی قیدیوں سے اس جیسا نہ سہی، اس سے ملتا جلتا سلوک روا رکھا گیا ....

اعلیٰ ترین امریکی افسران بھی کسی حد تک تشدد کی اجازت دینے اور اس کے پھیلائو کے ذمہ دار ہیں، جو ہمارے خیال میں اس ٹاسک فورس کی دوسری اہم دریافت ہے اور اس کے ثبوت اور حوالے ہماری رپورٹ میں جا بجا ملیں گے۔ اس حوالے سے سب سے اہم شاید یہ اعلان تھا کہ جنگ کے زمانے میں انسانی حقوق کے تحفظ کے ضامن جنیوا کنونشن کا اطلاق افغانستان اور گوانتاناموبے میں موجود القاعدہ اور طالبان قیدیوں پر نہیں ہوتا اور حکومت نے یہ بتانے کی زحمت بھی نہیں کی کہ اس کے بجاے ان پر کون سے قوانین لاگو ہوں گے۔

ایک اور اہم پہلو صدر بش کی جانب سے سی آئی اے کے لیے چنیدہ قیدیوں پر سفاکانہ تکنیک کے استعمال کا اجازت نامہ تھا۔ سی آئی اے نے افغانستان میں کئی ایک مقامات پر اپنے ذاتی حراستی اور تفتیشی مراکز بھی قائم کیے ہوئے تھے، بلکہ تھائی لینڈ، پولینڈ، رومانیہ اور لتھوانیہ میں ’بلیک سائیٹس‘ کے نام سے خفیہ مراکز بھی قائم کر رکھے تھے، جہاں اہم ترین قیدیوں سے تفتیش کی جاتی تھی۔ ان سرکاری اقدامات اور بیانات کے نتائج اب واضح ہو چکے ہیں۔ بہت سارے نچلے درجے کے فوجیوںنے بتایا کہ انھوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ زیر حراست قیدیوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے پابندیاںباقی نہیں رہیں۔ ۲۰۰۲ء کے اختتام تک افغانستان کے بگرام ائر بیس پر قیدیوں کو  نیند سے محروم کرنے کے لیے بیڑیاں ڈال کر چھت سے لٹکانا تفتیش کاروں کا معمول بن چکا تھا۔ بعد میں سیکریٹری دفاع ڈونالڈرمزفیلڈ نے گوانتاناموبے میں بھی ان تفتیشی حربوں کی اجازت دے دی جن میں قیدیوں کو نیند سے محروم کیا جانا، تکلیف دہ آسن میں رکھنا، عریانی، حسی محرومی اور قیدیوں کو کتوں کے ذریعے دھمکانے جیسی تکنیکیں شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر حربے بعد میں عراق میں بھی استعمال کیے گئے۔

ہماری تحقیق وسیع معلومات، جائزوں اور واقعات پر مبنی ہے، جغرافیائی اعتبار سے زیادہ تر واقعات تین مقامات پر پیش آئے جو براعظم امریکا سے باہر تھے اور ان میں دو مقامات جنگی علاقے تھے۔ ٹاسک فورس کے کارکنان نے خودتینوں مقامات پر جا کر براہ راست حقائق معلوم کیے۔ ان مقامات میں افغانستان، عراق اور گوانتاناموبے( کیوبا) شامل ہیں۔ ٹاسک فورس کے ممبران معلومات کے حصول کے عمل میں براہ راست شامل رہے۔ وہ خودبیرون ملک گئے اور قیدیوں کو تفتیش کے لیے دوسرے ممالک میں رکھنے کے غیر معمولی امریکی پروگرام (US Extraordinary Rendition Programme)کے حوالے سے سابق قیدیوں اور غیر ملکی اہل کاروں سے ملاقات اور تفصیلی بات چیت کی۔ ایک غیر سرکاری تنظیم ہونے کے ناتے ٹاسک فورس کوگواہی طلب کرنے کا اختیار (Subpoena) اور خفیہ سرکاری معلومات (Classified Information)تک رسائی جیسی سہولیات حاصل نہیں تھیں، تاہم اس حوالے سے بے تحاشا معلومات پہلے سے منظر عام پر آچکی تھیں۔ ٹاسک فورس نے گذشتہ چند ماہ کے دوران درجنوں افراد کے انٹرویو لیے۔ ان میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ واقعات کے بارے میں زیادہ کھل کر بولنے لگے ہیں۔ ہم نے اس موضوع پر بڑی تعداد میں ایسی حکومتی، اخباری میڈیا، خودمختار ادیبوں اور غیر سرکاری تنظیموں کی رپورٹوں کا جائزہ بھی لیا جو دوسروں سے زیادہ  قابلِ اعتماد تھیں۔ ٹاسک فورس نے بہیمانہ تشدد کے الزامات کے مبنی بر حق ہونے کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن حد تک تحقیق و تفتیش کی کوشش کی ہے۔ حراستی اور تفتیشی نظام کے بانیوں نے اس سلسلے میں طب اور قانون کے شعبوں سے مدد طلب کی جو انھیں دی گئی۔

 محکمہ انصاف کے وکلا جو قانونی رہنمائی فراہم کرتے ہیں، نائن الیون کے حملوں کے بعد قیدیوں سے بد سلوکی رواکرنے میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ اس نے تشدد کی شکل اختیار کرلی۔ ان وکلا نے تشدد کی روک تھام کے قوانین اور معاہدوں کی من مانی تشریحات کیں اور اس میں ایسے کرتب دکھائے کہ قیدیوں سے بدسلوکی کو قانونی تحفظ حاصل ہو گیا۔ یہ وہ ابتدائی قانونی یادداشتیں تھیں جہاں سے قیدیوں پر تشدد کو راہ ملی، لیکن جب یہ عوام کے سامنے آئیں تو شدید تنقید کا ایک سیلاب امڈ آیا اور ان وکلا کے جانشینوں کو ان قانونی یادداشتوں کو تبدیل کرنا پڑا۔ چاہے ان ابتدائی یادداشتوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا، لیکن وہ زبان، جس میں تشدد صرف کسی انسانی عضو کے بے کار ہو جانے کوٹھیرا یا گیا، امریکی تشخص پر ایک دھبے کے سوا کچھ نہیں۔ مزید برآں مستقبل میں یہ یادداشتیںجابر حکومتوں کے لیے اپنے ظالمانہ اقدامات کی منظوری کاجواز بھی بن سکتی ہیں....

ابتدائی برسوں میں حکومت کے دوسرے محکمے بش انتظامیہ کی بنائی گئی پالیسیوں پر بہت کم اثرانداز ہوئے۔ عدلیہ کی ساخت ایسی ہے کہ کسی بھی معاملے میں اس کی مداخلت بہت سوچی سمجھی ہوتی ہے۔ آئینی طور پر عدالت کسی بھی پالیسی پر اس وقت تک کوئی فیصلہ نہیںدے سکتی جب تک اس سے متعلق کوئی ’مقدمہ یا تنازعہ ‘ اس کے سامنے نہ لایا جائے اور تب وہ اس پر کوئی فیصلہ دے کر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ لہٰذا پہلے چند برسوں کے دوران انتظامیہ کے قیدیوں سے سلوک کے حوالے سے اقدامات پر عملی طور پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ صورت حال اس وقت تبدیل ہوئی جب امریکی حراستی پالیسیوں سے متعلق مقدمات عدالتوں میں پہنچنے شروع ہوئے۔ مٹھی بھر ججوں نے انتظامیہ کے اقدامات کے خلاف مزاحمت شروع کر دی اور آخر کار سپریم کورٹ کے فیصلے نے انتظامیہ کی حراستی پالیسیوں کے بنیادی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا۔ حکام نے عدلیہ کو کسی ممکنہ فیصلے سے روکنے کے لیے یہ دلیل دی کہ گوانتاناموبے امریکی قانونی حدود سے باہر ہے اور یہ کہ وہاں موجود قیدی عدالت کے سامنے پیشی کا حق (Habeas Corpus)نہیں رکھتے۔ سپریم کورٹ نے دونوں مفروضوں کو تسلیم نہ کیا، تاہم عدلیہ کے اختیارات کی حدود کے حوالے سے بہت جلدتنازعات سامنے آگئے۔

ایک اور واضح رجحان یہ ہے کہ بش انتظامیہ کی حراستی پالیسیوں کو کسی حد تک ہم دو ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ابتدائی برسوں کی پیش قدمی کرنے کی جارحانہ سوچ۰۶۔۲۰۰۵ء میں تبدیل ہوئی۔ اس کی کئی ایک وجوہ ہیں، جن میں ممکنہ طور پرایک وجہ عدلیہ کی جانب سے ایک محدود سا ردعمل بھی ہے.... ۲۰۰۴ء میں عراق کی ابو غریب جیل میں قیدیوں پر ڈھائے گئے مظالم کا افشا اور اس کے نتیجے میں ملک کے اندر اور بیرون ملک اس کی مذمت اور امریکیوں میں پیدا ہونے والا احساس شرمندگی بھی اس کا ایک اہم پہلو تھا۔

اس تحقیق کے دوران یہ واضح تر ہوتا چلا گیا کہ ابو غریب کے بارے میں انکشافات کا پالیسی سازی پر بہت گہرا اثر ہوا۔ ان انکشافات کے حوالے سے عوامی نفرت کے اظہار نے کئی محاذوں پرکام کی سمت ہی تبدیل کرڈالی۔

ٹاسک فورس کے خیال میں پالیسیوں میں تبدیلی کا ایک اور موقع اس وقت ضائع کر دیا گیا جب عالمی ریڈ کراس کمیٹی میں ایک اعلیٰ سطحی مباحثے کی ابتدا ہوئی کہ جنیوا میں قائم اس ادارے کا امریکی پالیسی سازوں کے خلاف کس قدر جارحانہ رویہ اپنانامناسب ہو گا۔ روایتی طور پر ریڈکراس قیدیوں کی حالت زارکے بارے میںدست یاب معلومات سامنے نہیں لایا کرتا، تاہم اس ادارے کے کچھ افسران گوانتاناموبے میں قیدیوں کی حالت زارسے اس قدر متاثر ہوئے تھے کہ انھوں نے مطالبہ کر دیا کہ ریڈ کراس امریکی محکمہ دفاع کے خلا ف مزیدشدت سے مزاحمت کرے۔ اس رپورٹ میں پہلی بار ریڈ کراس کے اس اندرونی مباحثے کی کچھ تفصیلات پیش کی جا رہی ہیں۔ تاہم ریڈ کراس کی اعلیٰ قیادت کو بالآخر یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا کہ وہ مزاحمت نہیں کریں گے، یوں ایک قیمتی موقع ضائع کر دیا گیا۔

ہمارے مشاہدے میں یہ بھی آیا کہ صدر اوباما نے بھی جلد ہی جان لیا کہ حراستی نظام میں وسیع اصلاحات کا وعدہ آسانی سے پورا ہونے والا نہیں۔ اس کی بڑی وجہ کانگرس کی جانب سے مزاحمت تھی، بلکہ جب گوانتاناموبے قیدخانے کو بند کرنے اور کچھ قیدیوں کو امریکی سرزمین پر لاکر مقدمات کی سماعت کی سفارش سامنے آئی تو دونوں پارٹیوں کی جانب سے صدر اوباما کے ارادوں کی مخالفت شروع ہو گئی۔

اس رپورٹ کاایک جزوی مقصدیہ بھی ہے کہ اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل میں حراستی اور تفتیشی پالیسیوں کو بہتربنایا جائے۔ وقت تحریر بھی خطرناک سمجھے جانے والے کچھ افراد امریکی قید میں ہیں، لیکن کچھ جگہوں پر ’انتہائی اہم دشمنوں‘ سے روا رکھے جانے والے سلوک میں بھی واضح تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ اسی قدر اہم بات یہ ہے کہ تفتیشی اور حراستی نظام کی جگہ ٹکنالوجی نے لے لی ہے اور اب اس کی جگہ ڈرون کا ستعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر مبینہ دشمن رہنما، جنھیں ’ہائی ویلیو‘ اہداف کہا جاتا ہے، ڈرون حملوں میں مارے جائیں تو ان کی حراست اور تفتیش کے عمل جیسے جھنجٹ سے چھٹکارا حاصل ہو جائے گا۔

تاہم امریکا کی جانب سے ڈرون کے استعمال کی مناسبت پر سوالیہ نشان باقی رہے گا اور یہ بحث کا ایک اہم موضوع بھی بنا رہے گا۔ ۲۰۱۲ء کا اختتام ہو چکا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ آج بھی افغانستان میں موجود امریکی فوج ہر ماہ ایک سو کے قریب افراد کو بگرام (افغانستان)کے قیدخانے میںلے کر آتی ہے اور ان میں اکثر افراد ملک کے طول و عرض سے شبانہ چھاپوں کے دوران گرفتار ہوتے ہیں۔

کہانی شاید یہاں بھی مکمل نہ ہو، لیکن ٹاسک فورس نے اس رپورٹ میں کچھ سفارشات مرتب کی ہیں تاکہ قومی سلامتی کے معاملے پر لوگوں کی گرفتاری کے کاروبار میں تبدیلی لائی جا سکے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری انتظامیہ اور عدلیہ ان پر ہمدردانہ غور کریں گی۔

انکشافات اورسفارشات

عمومی دریافت اور سفارشات

۱- امریکی افواج نے کئی مواقع پر ایسے تفتیشی حربے استعمال کیے جو دراصل تشدد تھا۔ جن امریکی اہل کاروں کو تحقیق و تفتیشی کا یہ کام دیا گیا انھوں نے اس تفتیش کو ظالمانہ، غیر انسانی اور  توہین آمیز سلوک میں بدل ڈالا۔ تحقیق و تفتیش کی یہ دونوں قسمیں خود امریکی قوانین کی خلاف ورزی اور عالمی معاہدات کی نفی کرتی تھیں۔ اس طرح کا سلوک براہ راست ہمارے آئین اور قومی اقدار سے متصادم تھا....

۲- قوم کے اعلیٰ ترین حکام کے اقدامات اور ناکامیوں نے ۱۱ستمبرکے حملوں کے بعد کے مہینوں اور برسوں میں غیر قانونی اور نامناسب تفتیشی طریقوں کی اجازت دی اور ان کے پھیلائو میں تعاون کیا، جو بعد میں امریکی اہل کاروں نے مختلف مقامات پر قیدیوں پر استعمال کیے۔ دوسرے حکومتی افسران اور کچھ فوجی رہنما بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔

  •  سفارشات: ا- اس ملک کے تمام سیاسی رہنما سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر یہ تسلیم کریں کہ ۱۱ ستمبر کے بعد تشدد اور ظلم کی اجازت دینا ایک سنگین غلطی تھی اور ایسے اقدامات کریں کہ آیندہ یہ غلطی نہ دہرائی جا سکے۔ تشدد اور ’’ظالمانہ، غیر انسانی، یا توہین آمیز سلوک‘‘ نہ صرف امریکی قانون سے مطابقت نہیں رکھتے، بلکہ اس ملک کے قیام کی بنیادی اقدار کے منافی ہیں۔ کسی بھی حکومت کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ قیدیوں پر مظالم ڈھائے۔

ب- امریکی انٹیلی جنس اور فوجی اہل کاروں کو قیدیوں سے سلوک کے بارے میں واضح ہدایات دی جانی چاہیں اور انھیں کم از کم جنیوا کنونشنز کی دفعہ ۳ کی پاسداری کرنے کا پابند کیا جانا چاہیے۔ سول اور فوجی لیڈر یقینی بنائیں کہ ان کے ماتحت افراد جنگی قوانین کی پابندی و پاس داری کرتے ہیں۔

ج- کانگرس اور صدر کو چاہیے کہ وہ تشدد، ظالمانہ، غیر انسانی، یا توہین آمیز سلوک کے خلاف موجود قوانین کو سخت تر بنائیں۔

۳- اس کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں کہ امریکی اہل کاروں کی جانب سے سخت تفتیشی حربوں کے استعمال سے کوئی اہم اور کارآمد معلومات حاصل ہوئی ہوں۔ البتہ اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ ان حربوں سے حاصل ہونے والی معلومات عموماً غیر اہم یا نا قابل اعتبار ہوتی تھیں۔

ٹاسک فورس تشدد کے موثر ہونے کے حوالے سے کوئی واضح پوزیشن نہیں لے سکتی کیوں کہ اسے خفیہ دستاویزات اور معلومات تک رسائی حاصل نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کہنا کہ ’تشدد غیر مؤثر ہوتا ہے‘ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس سے کبھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، عین ممکن ہے کہ تشدد سے کوئی شخص بہتر طور پر اہم معلومات ظاہر کر دے۔ تفتیشی طریقہ کار کے طور پر تشدد کے غیر مؤثر ہونے کی دلیل کی بنیاد کچھ دوسرے عوامل ہیں۔ ان میں سے ایک یہ خیال ہے کہ اس سے غلط معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں اور یہ تفتیش کاروں اور تجزیہ کاروں کے لیے ایک مشکل اور طویل عمل ہے کہ وہ درست اور قابل استعمال معلومات کو غلط اور گمراہ کن معلومات سے الگ شناخت کر سکیں۔

تشدد کے غیر مؤثر ہونے کی دلیل کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تفتیش کے اس سے بہتر طریقے موجود ہیں جن کے ذریعے قیدی سے مفید معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، خصوصاً قیدیوں سے تعلقات بڑھانے کے طریقوں (Rapport-Building Techniques) سے، کیوںکہ بہت سارے لوگ ان کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ تشدد سے درست معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، ایسے ہی جیسے یہ کہنا ممکن نہیں کہ تشدد سے ہمیشہ غلط معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ تشدد کی صدیوں پرانی تاریخ میں دونوں مثالیں موجود ہیں، ایسا بھی ہواکہ تشدد کا شکار قیدی موت کو توگلے لگا لیتا ہے لیکن معلومات فراہم نہیں کرتا۔ ۲۰۰۱ء کے بعد امریکی تجربے میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔

  •  سفارشات: ا- چونکہ اس حوالے سے اکثر معلومات دس برس پرانی ہو چکی ہیں، صدرکو چاہیے کہ سی آئی اے کو ایسی تمام معلومات اور شواہد ظاہر کر دینے کا حکم دے جن سے امریکی عوام کو ان دعووں کی تصدیق میں مدد مل سکے۔ چونکہ ان طریقوں کا موثر ہونا ایک اہم معاملہ ہے، یہ ضروری ہے کہ اس قدرے امن کے دور میں اس بارے میں ہر ممکن تحقیق و تفتیش کر لی جائے، اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا بڑا واقعہ یہ مسائل دوبارہ کھڑے کر دے۔

ب- اگر ایسی معلومات موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہوں کہ سخت تفتیشی طریقے واقعی مفید تھے، لیکن ان کا افشا قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہو تو ٹاسک فورس کے خیال میں یہ معلومات کسی سرکاری فورم یا تنظیم کے حوالے کی جائیں جو قابل اعتبار ہو اور اس دعوے کا غیر جانبدار جائزہ لینے کی اہلیت رکھتی بھی ہو اور ان معلومات اور ذرائع کی حساس نوعیت کاخیال بھی رکھ سکے۔ ان شرائط کو پورا کرنے کے لیے ٹاسک فورس ایک ایسے سرکاری سٹڈی گروپ یا کمیشن کی تشکیل کا حامی ہے جسے اعلیٰ سطحی اعتماد حاصل ہو اور اس کا معاشرے میںنام ہو تاکہ وہ اس سوال کے بارے میں حتمی فیصلہ دے سکے۔

ج- اگر سینیٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے ممبران یہ سمجھتے ہیں کہ اس موضوع پر ان کے پاس موجود معلومات قومی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں، تو انھیں چاہیے کہ وہ انھیں ظاہر کر دیں۔

۴- گوانتاناموبے میں بہت سارے قیدیوں کی مسلسل اور نہ ختم ہونے والی قید کے مسئلے کو حل کیا جائے۔

  •  سفارشات:ٹاسک فورس ممبران کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ لا متناہی قید کی صورتِ حال ناقابلِ قبول بلکہ ناقابل برداشت ہے اور سفارش کرتی ہے کہ:

ا- انتظامیہ اپنے موجودہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے جلد از جلد گوانتاناموبے میں موجود ان قیدیوںکو فوراً رہا کردے یا دوسرے ممالک کو منتقل کردے جن کی رہائی یا منتقلی کا فیصلہ ہوچکا ہے۔

ب- گوانتاناموبے میں موجود باقی قیدیوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کانگرس ان کے امریکی سرزمین پر لائے جانے پر عائد پابندی اٹھا لے۔ ٹاسک فورس کو پختہ یقین ہے کہ امریکی انتظامیہ انھیں بحفاظت اپنی حراست میں رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

۳- گوانتاناموبے سے قیدیوں کی رہائی یا منتقلی کے بعد بچ جانے والے قیدیوں کو:

۱- جہاں کہیں بھی ممکن ہوان پر دفعہ ۳ کے تحت قائم عدالتوں میں ترجیحی بنیادوں پر مقدمے چلائے جائیں۔ اگر کانگرس ان کے امریکی سرزمین پر لائے جانے کی اجازت نہیں دیتی تو امریکی ضلعی عدالت گوانتاناموبے میں بٹھائی جائے تاکہ ان قیدیوں کے مقدمات کو جلد از جلد نمٹایا جا سکے۔

۲- اگر درج بالا طریقے ناکام ہو جائیں یا بقیہ قیدیوں کے مقدمات کو نمٹانے کے لیے ناکافی ہوں تو باقی مقدموں کی سماعت کے لیے ایک فوجی کمیشن قائم کیا جائے جو، چاہے وہ دفعہ ۳ کے معیارات پر مکمل عمل پیرا نہ بھی ہو، ان سے مطابقت ضرور رکھتا ہو۔

۳- ایسے قیدی جنھیں امریکی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے اور ان پر درج بالا طریقوں سے مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا، کیوں کہ ان کے خلاف موجود شہادتیں ناکافی ہیں یا ان پر امریکا میں مقدمہ چلانے کے لیے کوئی قانونی بنیادمو جود نہیں تو ان کے مقدمے درج ذیل طریقوں سے نمٹائے جائیں:

ا- امریکی حکام ان قیدیوں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے کوئی دوسرا ملک تلاش کریں جو انھیں (ٹاسک فورس کی مناسب سفارشات کے مطابق) یقین دہانی فراہم کر سکے کہ ان قیدیوں کے خلاف تشدد، ظالمانہ، غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک روا نہیں رکھا ئے گا۔

ب- اگر ایسا کوئی ملک نہیں مل سکتا، تو قیدیوں کو کسی ایسے ملک کے حوالے کر دیا جائے جوانھیں لینے کے لیے راضی ہو اور امریکا کو (ٹاسک فورس کی مناسب سفارشات کی روشنی میں) یقین دہانی فراہم کرے کہ ان پر مقدمے چلائے بغیر تشدد یا قید نہیں کیا جائے گا۔ ضروری ہے کہ یہ ملک انھیں آزادانہ زندگی فراہم کرے اور بغیر مقدمہ چلائے ماضی کے کسی مصدقہ یاغیر مصدقہ عمل کی پاداشت میں ان پر گرفتاری کا خطرہ مسلط نہ کیا جائے جب تک کہ ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت حاصل نہیں ہو جاتا۔

ج- اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ایسے قیدیوں کو ان کے ممالک میں واپس بھیج دیا جائے اور (ٹاسک فورس کی مناسب سفارشات کی روشنی میں) ان ممالک سے یقین دہانی حاصل کی جائے کہ انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا نہ مقدمہ چلائے بغیر قید ہی کیا جائے گا۔

د- اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ایسے قیدیوں کو امریکی سرزمین پر لایا جائے اور مناسب امیگریشن سٹیٹس اور قوانین کے تحت محکمہ ہوم لینڈ سیکورٹی کی حراست میں رکھا جائے تاآں کہ ان کے امریکا سے اخراج کے لیے کوئی مناسب جگہ مل جائے۔ ان قیدیوں کے مقدموںکا سال میں دو مرتبہ جائزہ لیا جائے اور اس کے معیار اور حالات کا فیصلہ انتظامیہ کے اختیار میں ہو۔

امریکا ۲۰۱۴ء کے اختتام تک افغانستان کے حوالے سے جاری جنگ کے خاتمے کا اعلان کرے۔ اگر سرکاری اعلان نہ بھی کیا جائے تب بھی عدلیہ اس صورت حال کو ویسی ہی تصور کرے جیسی۲۰۱۱ء میں عراق سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد عدلیہ نے وہاں کی صورت حال کو جنگ کے خاتمے کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔

و- جنگ کے خاتمے اور گوانتاناموبے سے قیدیوں کی صفائی کے بعد اس قید خانے کو ہر صورت میں ۲۰۱۴ء سے قبل ختم کر دیا جائے۔

۵- امریکا نے نائن الیون کمیشن کی اس سفارش ’’اپنے دوستوں کے تعاون سے گرفتار شدہ دہشت گردوں کی حراست اور ان سے انسانی سلوک کے لیے کوئی مشترکہ ضابطہ بنایا جائے‘‘ پر مناسب طور پر عمل نہیں کیا۔ نائن الیون کمیشن رپورٹ کے جاری ہونے کے بعد کے ساڑھے آٹھ برسوں میں امریکا مشتبہ دہشت گروں کی حراست اور ان سے انسانی سلوک کے لیے مشترکہ ضابطے کی تیاری کے لیے بامعنی اور مستقل قدم نہیں اٹھا سکا۔

  •  سفارشات:ٹاسک فورس نائن الیون کمیشن کی مشتبہ دہشت گروں کی حراست اور ان سے انسانی سلوک کے لیے مشترکہ ضابطے کی تیاری کی سفارش کی بھرپور حمایت کرتی ہے کیوں کہ یہ قانون کی بالادستی اور ہماری اقدار سے مطابقت رکھتی ہے۔

قانونی دریافتیں اور سفارشات

۶- محکمہ انصاف کی قانونی کونسل (Office of Legal Council- OLC )کے وکلا نے بار ہا ایسی سرگرمیوں کی غلط منظوری دی جو تشدد، ظلم اور غیر انسانی سلوک کے مترادف تھیں۔

۷- ۱۱ ستمبر کے بعد محکمہ انصاف کی قانونی کونسل (OLC) نے بعض اوقات محکمہ دفاع،  ایف بی آئی اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے کئی ایسے اہل کاروں کی راے کو اہمیت نہیں دی جوقیدیوں سے سلوک کے حوالے سے قانونی معاملات میں ماہر تھے۔

  •  سفارشات: او ایل سی ایسے تمام اداروںاور ان اداروں کے معاملات کے ماہرین  کو مشورہ دے اور ان سے مشورہ لے جن اداروں کی کارکردگی کونسل کے قانونی مشورے سے متاثر ہو سکتی ہے۔ قانونی مشورہ دیتے وقت ادارے کے ماہرین کی راے کے برعکس، کونسل کو چاہیے کہ وہ اپنے مشورے میں اختلافی قانونی راے، قانونی امداد (اگر ضرورت ہو) اور اختلافی راے کی وجوہ کی وضاحت کرے اور یہ بھی بتائے کہ کونسل نے اس راے کو کیوں نہیں اپنایا۔

۸- کارٹر انتظامیہ کے زمانے سے او ایل سی نے کچھ آرا کو شائع کرنے کا سلسلہ شروع   کیا تھا جو آج بھی جاری ہے۔ شفافیت کسی بھی جمہوریت کی مؤثر کارکردگی کے لیے ناگزیر ہے۔ اسی طرح یہ بھی ناگزیر ہے کہ صدر اپنے دور صدارت میں قابل اعتماد قانونی راے پر انحصار کرنے کے قابل ہو۔

  •  سفارشات: ا- صدر کے لیے قابل اعتماد قانونی راے کی ضرورت اور اس میں شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے ایسی خفیہ آرا کے اجرا کے بارے میں امریکی عوام کو مطلع کیا جائے ۔ او ایل سی کو چاہیے کہ وقفے وقفے سے سابقہ خفیہ آرا کا جائزہ لے تاکہ ان کے عوام میں ظاہر کیے جانے کے امکان کا تعین کیا جا سکے۔ اگر او ایل سی کے جاری کردہ قانونی مشوروں کا کبھی نہ کبھی  عوام کے سامنے آنے کا امکان موجود رہے گا تو اس سے کونسل کے وکلا اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں زیادہ محتاط رہیں گے، انھیں غیر جانب دارانہ انداز میں ادا کریں گے اور ان کی آرا کے آگے  چل کر گمراہ کن ثابت ہونے کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے۔

ب- کانگرس کو چاہیے کہ 28 U.S.C. 530D میں درج اٹارنی جنرل کی کانگرس کومطلع کرنے کے فرائض میں ترمیم کرے اور اس کا دائرہ کار ان مقدمات تک بڑھائے جہاں انتظامیہ یہ تسلیم کرتی ہے کہ وہ کسی مخصوص قانون پر عمل درآمد نہیں کر رہی۔ اختیارات کی تقسیم پر خصوصی قانون سازی کی ضرورت ہے۔

قیدیوں کودوسرے ممالک کی تحویل میں دینے کے بارے میں معلومات اور سفارشات

۹- ٹاسک فورس کی راے میں امریکا نے مشتبہ دہشت گردوں کو لاپتا کر کے اور انھیں ملک سے باہر خفیہ جیلوں میں من مرضی سے قید کر کے اپنی عالمی قانونی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد زیرِ حراست قیدیوں کودوسرے ممالک کی تحویل میں دینے کے پروگرام (Extraordinary Rendition Program) کے تحت افراد کو ایک ملک سے گرفتارکر کے ماوراے عدالت دوسری جگہ منتقل کیا  جانے لگا، تاکہ ان سے تفتیش کی جا سکے نہ کہ ان کے خلاف عدالتی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اس میں ملوث امریکی اہل کاروں نے گرفتار شدگان کے خاندانوں کونہ تو ان ٹھکانے کے بارے میں بتایا نہ قیدیوں کو سی آئی اے کی قائم کردہ ’بلیک سائیٹس‘ یا پراکسی حراست کے دوران کسی قسم کی قانونی امداد ہی فراہم کی گئی۔ امریکا اس سول اور سیاسی حقوق (International Covenant on Civil and Political Rights)  کے عالمی معاہدے میں شریک ہے، جس کا آرٹیکل (۱)۹ کہتا ہے: ’’ہر ایک کو شخصی آزادی اور تحفظ کا حق حاصل ہے۔ کسی کو من مانے طور پر گرفتار یا قید نہیں کیا جا ئے گا۔ کسی کو بھی اس کی آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا، مگر ان وجوہ اور طریقوں سے جن کی قانون اجازت دیتا ہے‘‘۔ اس کے علاوہ پہلے اور چوتھے جنیوا کنونشن کے مطابق عالمی یا غیر عالمی جنگ کے دوران کسی کو لاپتا کر دینا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ امریکا تمام انسانوں کو لاپتا کیے جانے کے خلاف تحفظ کے عالمی کنونشن (International Convention for the Protection of  All Persons Against  Enforced Disappearances) کا حصہ نہیں، جو قرار دیتا ہے کہ ’’لوگوں کو منظم انداز میں اور بڑے پیمانے پر لاپتا کر دینا انسانیت کے خلاف جرم ہے‘‘۔

  •  سفارشات: ا- ٹاسک فورس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، محکمہ دفاع اور سی آئی اے سے درخواست کرتی ہے کہ وہ ملک سے باہر قائم پراکسی قید خانوں کے بارے میں (جو امریکی حکام نے قائم کیے یا ان کی درخواست پر قائم ہوئے) معلومات جلد از جلد جاری کر دیں۔ ٹاسک فورس یہ بھی سفارش کرتی ہے کہ یہ تینوں محکمے اس امر کو یقینی بنائیں کہ وہ تمام قیدی جو ان حالات میں قید ہیں، عالمی قانون کے مطابق عالمی ریڈ کراس کو ان تک رسائی حاصل ہو۔

ب- امریکی قید میں موجود افراد کے ساتھ یکساں سلوک اور ان کے حقوق کی ضمانت کے لیے امریکی حکومت کو چاہیے کہ وہ تشدد کے خلاف کنونشن (Convention Against Torture) کی دفعہ ۳ اور سول اور سیاسی حقوق کے عالمی معاہدے (International Covennt on Civil and Political Rights) کے آرٹیکل (۱)۲ کی تشریح کرتے ہوئے یہ بتائے کہ اس کے تحت آنے والے افراد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو امریکی سرزمین پر موجود ہیں اور وہ لوگ بھی وہ جو امریکی سرزمین سے باہر امریکی اختیار میں ہیں۔ یہ وضاحت امریکی اہل کاروں کو امریکی سرزمین سے باہر من مانی گرفتاریوں اور حراست سے باز رکھے گی۔

۱۰-  ٹاسک فورس کے علم میں آیا ہے کہ قیدیوں کی تفتیش کے لیے دوسرے ممالک کو  حوالگی کے وقت جو’سفارتی یقین دہانیاں‘حاصل کی جاتی ہیں کہ ان قیدیوں پر تشدد نہیں کیا جائے گا، تاہم کئی اہم مقدموں میں یہ ناقابل بھروسا ثابت ہوئیں، البتہ ان سفارتی یقین دہانیوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل نہیں ہو سکیں۔ ٹاسک فورس کے خیال میں اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ ان قیدیوں کوتحویل میں لینے والے ممالک میں عملی طور پر جو کچھ ہوتا ہے اس سے زیادہ تر امکان یہی ہے کہ ان قیدیوں پر تشدد ہوا ہو گا۔

  •  سفارشات:ٹاسک فورس سفارش کرتی ہے کہ قیدیوں کی دوسرے ممالک کو حوالگی کے لیے محض سفارتی یقین دہانیاں سی اے ٹی کی دفعہ (۱)۳ کے تحت امریکی ذمہ داریوں کی تکمیل کے لیے کفایت نہیں کرتیں، اس لیے کہ یہ کنونشن کہتا ہے: ’’کوئی بھی ریاست کسی فرد کو کسی دوسری ریاست کی طرف واپس، بے دخل یا خارج نہیں کر سکتی اگر اس بات کا واضح امکان موجود ہو کہ اسے وہاں پر تشدد کا خطرہ ہے‘‘ بلکہ اس حوالے سے قانون سازی کی جائے، تاکہ حراست میںلینے اورسفارتی یقین دہانیاں کرانے والے ملک سے تشدد کا امکان  باقی نہ رہنے دے۔ دوسرے ملک کی یقین دہانی کوصرف ایک پہلو قرار دیتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ انسانی حقوق کے حوالے سے رپورٹس کو اس حوالے سے مرکزی اہمیت دے۔ سفارتی یقین دہانیوں کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضمانت بھی طلب کی جائے کہ امریکا قیدیوںکی صورت حال مانیٹر کرسکے گا، انھیں انٹرویو کرسکے گا اور اگر یہ سمجھا جائے کہ منتقل کیے گئے قیدی تشدد، ظلم، غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک کا نشانہ بنائے گئے ہیں تو انھیں واپس لینے کا حق بھی اسے حاصل ہو گا۔ اگرمنتقل کیا جانے والا فرد کسی تیسری ریاست کا شہری یا مکین ہو تو ایسی صورت میں جہاں ممکن ہو سکے، امریکا اس تیسری ریاست سے مندرجہ بالا ضمانتوں کے حوالے سے مشترکہ مفادات پر مشورہ لے گا۔

۱۱- ٹاسک فورس کے علم میں آیا ہے کہ ’بلیک سائیٹس‘ میں رکھے گئے قیدیوں سے تفتیش کرنے والے امریکی افسران قیدیوں پر تشدد، ظلم،غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے سی آئی اے کے انسپکٹر جنرل کی انسداد دہشت گردی، حراست اور تفتیشی کارروائیوں پر رپورٹ اور سابق قیدیوں کی گواہیوں میںمضبوط شہادتیںموجود ہیں۔ تشدد، ظلم،غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک کو بہت پہلے سے جنگی جرائم اور روایتی عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جا چکا ہے۔ تشدد کے خلاف کنونشن بھی اس کی ممانعت کرتا ہے اور جب بھی کوئی ریاست ایسی کارروائیوں کا ارتکاب کرتی ہے تو امریکا اس کی مذمت کرتا ہے۔

  •  سفارش: سی آئی اے اور امریکی حکام نے پوری ذمے داری سے کہاہے کہ تفتیش کے لیے قیدیوں کی دوسرے ممالک کو حوالگی پروگرام اور اور خفیہ جیلوں کے نیٹ ورک کے دونوں پروگرام اب ختم کر دیے گئے ہیں۔ ٹاسک فورس یہ سفارش کرتی ہے کہ امریکا تشدد کے خلاف کنونشن کے حوالے سے اپنی قانونی ذمہ داریوں کو بھرپور طریقے سے پورا کرے اور ملک کے اندر اور باہر زیر التوا تفتیشی معاملات اور دیگر مقدموں میں تعاون کرے۔

طبی معلومات اور سفارشات

۱۲- ۱۱ ستمبر کے بعد امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے وابستہ ماہرین نفسیات نے قیدیوں سے سوالات کے لیے تفتیشی طریقوں کی تخلیق میں تعاون کیا۔ محکمہ انصاف کے ادارے او ایل سی نے ان طریقوں کو قانونی قرار دیا، لیکن ٹاسک فورس کے علم میں آیاہے کہ ان میں سے اکثر طریقے تشدد، ظلم، غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک پر مبنی تھے۔

۱۳- طبی ماہرین، جن میں ڈاکٹر اور نفسیات دان دونوں شامل تھے، محکمہ دفاع اور ایجنسی کی پالیسیوں کے مطابق مختلف طریقوں سے تفتیشی عمل میں حصہ لیتے رہے، جس میں تفتیشی عمل کی نگرانی اور تفتیشی افسران کو قیدیوں کی صحت کے بارے میں معلومات کی فراہمی شامل ہیں، لیکن اس سارے عمل کے دوران انھوں نے قیدیوں سے بدسلوکی کے بارے میں حکام بالا کو کوئی رپورٹ نہیںدی۔

۱۴- ۱۱ ستمبر حملوں سے قبل امریکی ڈاکٹروں کو جنگی قیدیوں کے حوالے سے اس ضابطۂ اخلاق کا پابند بنایا گیا تھاکہ وہ نہ تو تشدد میں ملوث ہوں گے، نہ اس عمل کی نگرانی کریں گے، نہ ایسی کارروائی کے دوران موجود رہیں گے اور نہ تشدد میں تعاون کے لیے طبی امداد ہی فراہم کریں گے۔ ۲۰۰۶ ء سے ۲۰۰۸ء کے بعد جب قیدیوں سے سلوک کے بارے میں معلومات عام ہوئیں تو شعبہ طب کے حوالے سے اضافی ضابطۂ اخلاق وضع کیا گیا جس میں انھیں پابند کیا گیا کہ وہ قیدیوں سے بدسلوکی کی رپورٹ اعلیٰ حکام کو دیںگے، نہ خود تفتیش کریں گے، نہ اس میں شامل ہوں گے اور نہ اس دوران موجود ہی رہیں گے اور نہ تفتیشی افسران کو قیدیوں کے بارے میں طبی معلومات ہی فراہم کریں گے۔

۱۵- ۱۱ ستمبرکے حملوں کے بعد فوجی ماہرین نفسیات اور ڈاکٹروں کو ہدایت جاری کی گئی کہ انھیں غیر فوجی ضابطۂ اخلاق کی پابندی سے آزاد کر دیا گیا ہے، اور کچھ مقدموں میں تو ان کے فوجی کردار کی تشکیل نوکی گئی اور انھیں پیشہ ور جنگ جو قرار دے دیا گیا۔ ضابطے، قوانین اور طریقہ کار تبدیل کیے گئے تاکہ ڈاکٹروں کو حراست اور تفتیش کے عمل میں شامل کیا جا سکے۔ ان کو طبی ضابطۂ اخلاق سے مستثنا قرار دے دیا گیا، یعنی انھیںقیدیوں کی صحت کے بارے میں تفتیشی افسران کو معلومات کی فراہمی کی اجازت مل گئی، تفتیشی عمل کی نگرانی کرنے یا اس دوران موجود رہنے، بھوک ہڑتال ختم کرانے کے لیے طبی اور اخلاقی طور پر غلط طریقوں کے استعمال اور قیدیوں سے بدسلوکی کی اجازت مل گئی، نیز ان کے فرائض میں تفتیشی افسروں کی رپورٹ نہ دینا بھی شامل ہو گیا۔

  •  سفارشات:ا- محکمہ دفاع اور سی آئی اے کو چاہیے کہ طبی ماہرین کے ضابطۂ اخلاق کا احترام کریں اور اسی ضابطۂ اخلاق کے مطابق ان کے کام کے معیارات مقرر کریںجو ڈاکٹروں کو تفتیش کرنے، تفتیش کے دوران موجود رہنے، اس عمل کی نگرانی یا پھر اس میں حصہ لینے سے منع کرتاہے جس میں تفتیشی حکمت عملی مرتب کرنا یااس کا جائزہ لینا اور تفتیش کاروں کو طبی معلومات فراہم کرنا بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹروں کو پابند کیا جائے کہ وہ بدسلوکی کے واقعات کے بارے میں اعلیٰ حکام کوآگاہ کریں۔ محکمہ دفاع طبی ماہرین کی پیشہ ور جنگ جوکے طور پر درجہ بندی کو ختم کرے۔ محکمہ دفاع کو قیدیوں کی طبی اور نفسیاتی حالت کو خفیہ رکھنے کے حوالے سے بھی معیار مقرر کرنا چاہیے، کیوں کہ طبی شعبے کا ضابطۂ اخلاق قیدیوں کی طبی یا نفسیاتی صورت حال کے بارے میں معلومات(چاہے جیسے بھی حاصل کی گئی ہوں) کے استعمال اور اس کی تفتیش کاروں کو فراہمی کی  سختی سے ممانعت کرتا ہے۔

۱۶- قیدیوں کی بھوک ہڑتال ختم کرانے کے لیے محکمہ دفاع نے ایسے طریقوں کی اجازت دے دی تھی جن میں طبی ماہرین کو ایسے کام کرنے پڑتے تھے جو طبی اور پیشہ ورانہ ضابطۂ اخلاق کی صریح خلاف روزی تھے۔ ان میں بھوک ہڑتال کی ابتدا میں نامناسب اور تشدد آمیز طریقے سے قیدیوں کو زبردستی کھانا کھلایا جاتا اور جب اس پر مزاحمت کی جاتی تو انھیں مکمل طور پر جکڑ کر نالی کے ذریعے زبردستی خوراک دی جاتی تھی۔

  •  سفارشات:ا- قیدیوں کو زبردستی کھانا کھلانا بدسلوکی کی ایک شکل ہے، اسے فوراً ختم کر دیا جانا چاہیے۔

ب- امریکا کو بھوک ہڑتالی قیدیوں کی دیکھ بھال کے لیے معیار، پالیسی اور طریقہ کار وضع کرنا چاہیے جومیڈیکل شعبے کے بھوک ہڑتالی قیدیوں کی دیکھ بھال کے اس ضابطۂ اخلاق سے مطابقت رکھتے ہوں جو ۱۹۹۱ء میں عالمی میڈیکل ایسوسی ایشن کے بھوک ہڑتال پر مالٹا ڈیکلریشن (نظر ثانی ۱۹۹۲ء اور ۲۰۰۶ء) میں وضع کیا گیا تھا۔ امریکا کو تصدیق کرنا چاہیے کہ زبردستی کھانا کھلانا ممنوع ہے اور یہ ڈاکٹر کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ ایسے قیدی کی صور ت حال کا جائزہ لے، اس کی دیکھ بھال کرے اور اسے مشورہ دے۔

جرائم کی طرف واپسی کا رجحان اور سفارشات

۱۷- ٹاسک فورس نے حکومتی اداروں کی طرف سے شائع کیے گئے جرائم کی طرف واپسی کے رجحان (Recidivism) کے اعداد و شمار میں وسیع تضادات پائے ہیں، جیسے دفاع کی انٹیلی جنس ایجنسی اور افواج کی نگرانی اور تحقیقات کی ہائوس کمیٹی اور مختلف غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز)، مثلاً نیو امریکن فائونڈیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار۔ ٹاسک فورس یہ تسلیم کرتی ہے کہ اس امر کے درست اعداد و شمار حاصل کرنا مشکل ہے کہ کوئی فرد دوبارہ (یا پہلی بار) دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہوا ہے، جب تک اس حوالے سے تفصیلی اور منظم معلومات موجود نہ ہو کہ کوئی فرد ’مصدقہ‘ طور پر ایسی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے یا محض ’مشتبہ‘ ہے۔

  •  سفارش: ٹاسک فورس سفارش کرتی ہے کہ دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی (Defense Intelligence Agency)وہ طریقہ کارظاہر کرے جس کے تحت کسی فرد کو ’مصدقہ‘ یا ’مشتبہ‘ کے زمرے میں ڈالا گیا ہے اور ساتھ ساتھ وہ تمام قواعد بھی فراہم کرے جن کی مدد سے ’مصدقہ‘ اور ’مشتبہ‘ کی درجہ بندی کی گئی ہے۔

اوباما انتظامیہ کے حوالے سے معلومات اور سفارشات

۱۸- ۱۱ ستمبر کے بعد قیدیوں کی دوسرے ممالک کو حوالگی اور تشدد پر قومی سلامتی کے نام پر جاری اعلیٰ سطحی رازداری کا اب کوئی جواز باقی نہیں۔ ’بلیک سائیٹس‘ اب بظاہر ختم ہو چکی ہیں اور ’افزوں شدہ تفتیشی طریقے‘ بھی ختم ہو چکے ہیں۔ ’افزوںشدہ‘ طریقوں کی اجازت کا معاملہ بھی عوام کے سامنے لایا جا چکا ہے اور سی آئی اے نے اپنے سابق ملازمین کی جانب سے ذاتی تفتیشوں پر مبنی تفصیلی بیانات کی تصدیق کر دی ہے۔ قیدیوں سے غیر قانونی اور اضافی بدسلوکی کی بے شمار تفصیلات اخبارات اور انسانی حقوق کے اداروں نے ظاہر کر دی ہیں۔ ان تفتیشی کارروائیوں کا ابھی تک خفیہ رکھا جانا صرف اور صرف غلط کاریوں کے ثبوت چھپانے کا مقصد پوراکر رہا ہے اور  ان کے دوبارہ استعمال کے امکان کو زندہ رکھنے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ سوچ بھی موجود ہے کہ گوانتاناموبے میں قائم فوجی کمیشن کی موجودگی پہلی ترمیم (First Amendment)کے تحت عوام کو حاصل عدالتی کارروائی تک رسائی اورقانونی مشیر کے حصول کے حقوق، قیدیوں کو حاصل قانونی مشیر کے حصول کے حقوق کو خطرے میں ڈالنے کا باعث بن رہے ہیں۔

  •  سفارشات:ا- انتظامیہ کوکچھ مخصوص لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے اور سفارتی معاہدوں کی پاسداری سے ہٹ کر چاہیے کہ سی آئی اے اور فوج کی جانب سے قیدیوں پر تشدد اور بدسلوکی کے شواہد عوام کے سامنے لائے۔

۱۹- تشدد کے خلاف کنونشن (سی اے ٹی) تشدد کی تمام کارروائیوں کو منع کرنے کے علاوہ تمام ریاستوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ اپنے نظام قانونی میں تشدد کے شکار فرد کی اصلاح کو یقینی بنائیںاور یہ کہ معاوضے کا حصول اس کا ناقابل تردید حق ہے‘‘۔ امریکا نے اس مطالبے پر ابھی تک عمل نہیں کیا۔

۲۰- تشدد کے خلاف کنونشن ہر ممبر ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ ’’تشدد کے ہر عمل، اس کی کوشش، اس میں حصہ لینے اور ملوث ہونے کوجرم قرار دے‘‘ اور ’’اس بات کے کافی شواہد ہوں کہ اس کی ریاستی حدود میں کہیں بھی تشدد ہوا ہے تو ریاست فوری اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائے‘‘۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امریکا نے اس پابندی پر عمل درآمد کیا ہے۔

سی آئی اے کے کسی بھی اہل کار کو ادارے کی حراست میں ہونے والی تشدد کی لاتعداد کارروائیوں پر سزا نہیں ہوئی، بلکہ آج تک کسی بھی اہل کار پر فردِ جرم بھی عائد نہیں کی گئی، اس میں وہ مقدمے بھی شامل ہیں جہاں تفتیش کار رواکی گئی حدودسے بھی آگے بڑھ گئے اور وہ مقدمہ بھی جہاں تشدد سے قیدی کی موت واقع ہو گئی۔ افواج کے ہاتھوں غیر قانونی تشدد کے بہت سارے واقعات میں بھی غیر مناسب تفتیش اور عدالتی کارروائی عمل میں لائی گئی۔

۲۱- حاصل شدہ شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ نے عالمی ریڈ کراس کمیٹی کو قیدیوں کے بارے میں معلومات کی فراہمی اور ان تک رسائی کی صورت حال کو ڈرامائی حد تک بہتر بنایا ہے۔ یہ یقینی بنانا کہ اب قیدیوں کو ’غائب‘ نہیںکیا جا سکتا، انھیں تشدد اور ظالمانہ سلوک سے بچانے کی کوششوں کا بہت اہم حصہ ہے۔ تاہم یہ تبدیلیاں اخبارات کو ایک نامعلوم ذرائع سے پہنچی ہیں، اس لیے یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا یہ آیندہ صدور کی انتظامیہ کو بھی اس کا پابند رکھیںگی کہ نہیں۔

  •  سفارشات:ا- انتظامیہ ریڈ کراس کمیٹی کو معلومات کی فراہمی کے حوالے سے پابندیوں اور رسائی کا سرکاری اعلان کرے۔

ب- اگر پہلے سے ایسا نہیں کیا جا چکا، تو امریکا سرکاری طور پر ریڈ کراس کو معلومات کی فراہمی اور قیدیوں تک رسائی کے حوالے سے قواعد و ضوابط کو سرکاری طور پر تسلیم کرے۔

ج- امریکا تمام لوگوں کو لاپتا کر دیے جانے کے خلاف تحفظ کے عالمی کنونشن پردستخط کرے اور اسے تسلیم کرے۔(تلخیص در تلخیص: امجد عباسی)