۱۵جولائی ۲۰۱۳ء کو انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے کراچی کے امن وامان پر اپنی رپورٹ شائع کرتے ہوئے کہا کہ سال رواں کے ابتدائی چھے ماہ میں کراچی میں ۱۷۲۶؍ افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔یہ تعداد سال ۲۰۱۲ء میں ۱۲۱۵تھی۔گویا اس سال کے ابتدائی چھے ماہ کراچی کی تاریخ کے بد ترین بد امنی کے چھے ماہ قرار پائے۔
کراچی کی تشویش ناک صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم میاں نواز شریف ستمبر کے ابتدائی دنوں میں کراچی تشریف لائے۔گورنر ہائوس میں تمام سیاسی جماعتوں، تاجروں، صحافیوں اور سوسائٹی کے دیگر افراد کو جمع کیا اور ان سے تفصیلی تبادلۂ خیال کیا۔ اس موقع پر کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف متعین اہداف کے ساتھ اقدام شروع کیا جائے گا۔
کراچی کی بدامنی اور تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال پر عوامی دبائو کے پیش نظر تمام سیاسی جماعتوں نے اس اعلان کو قبول کر لیا لیکن سیاسی فضا ابھی تک خدشات سے مکدّر ہے۔ دوپولیس والوں کے قتل کے الزام میں جب پولیس نے ایم کیو ایم کے ایک رہنما کو گرفتار کیا تو ایم کیو ایم نے فوری طور پر شہر بند کروا کر اس کا جواب دینے کی کوشش کی ۔کراچی میں امن کی بیش تر کوششوں کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ شہر کئی حصوں میں بٹا ہوا ہے ا ور عموماًیہ اقدامات سیاسی دل چسپی سے خالی نہ ہونے کے سبب کبھی ایک اور کبھی دوسرے کو نشانہ بنانے کے مترادف ہوتے ہیںاور اکثر مجرم سرخرو ہوجاتے ہیں اور کوئی ایک طبقہ نشانہ بن جاتا ہے۔ایسے اقدامات ابتدا ہی میں سیاسی دبائو میں آجاتے ہیں۔گویہ وقت ہی بتائے گا کہ یہ اقدام کراچی میں امن کی بحالی کتنی ممکن بنائے گا لیکن اقدام کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں واضح کمی نظر آرہی ہے۔ بڑے بڑے مجرم بیرون ملک یا بیرون شہر منتقل ہوگئے ہیں اور ستمبر کے ابتدائی ۲۰دنوں میں ٹارگٹ کلنگ کی تعداد ۱۰۰ تک نہیں پہنچی، جب کہ ۲۰۱۳ء کے پچھلے آٹھ مہینوں میں یہ تعداد ہمیشہ ۲۰۰ماہانہ سے زیادہ رہی تھی۔
صحافتی ذرائع کے مطابق ۱۵ستمبر تک ابتدائی ۱۰ دنوں میں رینجرز نے ۳۰۰؍ افراد گرفتار کیے ہیں۔پولیس نے ۹۷۵ چھاپوں میں ۱۲۳۲ مجرموں کو گرفتار کیا ہے۔ ان دنوںمیں ۳۵ٹارگٹ کلرز اور ۵۰مشتبہ بھتہ خور بھی گرفتار ہوئے ہیں۔ ۱۲۳۲گرفتار شدگان میں سے چند ہی کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات لگی ہیں، جب کہ ۲۲۴ناجائز اسلحے ،۲۲۸منشیات ،۳۱ ڈکیتی اور ۲۳۱پچھلے مقدمات میں مفرور ہیں۔آپریشن سے پہلے ایجنسیوں نے وزیر اعظم کو ۴۵۰؍انتہائی مطلوب ملزمان کی فہرست فراہم کی تھی لیکن اس فہرست کے۵ فی صد لوگ بھی گرفتار نہیں ہوئے۔ اقدام کا اصل سبب بننے والے ٹارگٹ کلنگ ،دہشت گردی، بھتہ خوری جیسے جرائم میں ملوث افراد بہت کم قانون کے شکنجے میں آئے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے چند ملزمان مری اور لاہور سے بھی گرفتار ہوئے ۔
اگلے دنوں میں اقدام کی کامیابی کو جانچنے کے چار اہم پیمانے ہوں گے :
۱- نوگو ایریا زکا خاتمہ:پورے شہر میں نوگو ایریاز بنے ہوئے ہیں جن میں ایک طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کا داخلہ ممکن نہیںہے تو دوسری طرف عام شہری کو داخل ہونے سے پہلے پرائیویٹ لوگوں کی تفتیش سے گزرنا پڑتا ہے ۔ان نوگو ایریاز میں آمدورفت مختلف سیاسی جماعتوں اور مافیائوں کے زیر اثر ہے۔کامیاب اقدام نوگو ایریاز کے خاتمے کا باعث ہوگا۔
۲- ناجائز اسلحے کی بازیابی:۲۹؍ اگست کو سپریم کورٹ میں کراچی بد امنی کیس کے موقع پر ڈی جی رینجرز نے کراچی میں قبائلی علاقہ جات سے آنیوالے ناجائز اسلحے پر بات کی۔ انھوں نے ۱۹ہزار ناٹو کنٹینرز کی گمشدگی کا حوالہ دیتے ہوئے پورٹ اور شپنگ کے سابق وزیر کی جانب اشارہ کیا اوربتایا کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں اس کی تحقیقات کررہی ہیں (ایکسپریس ٹربیون، ۳۰؍اگست ۲۰۱۳ء)۔۱۹ستمبر کو سپریم کورٹ نے کراچی بد امنی کیس کے موقع پر اس ناجائز اسلحے کی برآمدگی کے لیے کرفیو لگا کر کارروائی کرنے کا مشورہ دیا۔ (روزنامہ جنگ، ۲۰ستمبر ۲۰۱۳ء)
کراچی ناجائز اسلحے سے بھرا پڑا ہے ۔متحارب گروہوں کے درمیان لڑائیوں میں دستی بم اور راکٹ لانچرز کا استعمال اب کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔گذشتہ ۱۰ برسوں میں جس بڑے پیمانے پر جدید اسلحہ یہاں آیا ہے اس کی کوئی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسلحے کی صفائی کے بغیر کراچی میں پایدار امن کی جانب پیش قدمی ممکن نہیں۔
۳- قربانی کی کہالیں: پورے ملک میں عید الاضحی اور رمضان المبارک مذہبی عقیدت کے ساتھ منائی جاتی ہے لیکن کراچی کے شہری اس موقع پر خاص اذیت سے دو چار ہوتے ہیں۔ عیدالاضحی کے موقع پر انھیں قربانی کی کھال اپنی مرضی سے دینے کی آزادی سے محروم کیا جاتا ہے تو رمضان المبارک کے موقعے پر فطرانہ اور زکوٰۃ زبردستی وصول کر لیے جاتے ہیں جس کا ’نصاب‘ بھی دہشت گرد متعین کرتے ہیں۔ماہ اکتوبر میں عید الاضحی کے موقع پر کراچی کے شہری اگر اپنی مرضی سے کھال دینے کے قابل ہوگئے اور دہشت گرد گروہ انھیں دبائومیں نہ لے سکے تو یہ جاری اقدام کی بہت بڑی کامیابی ہوگی اور اس کے نتیجے میں حکومتی رٹبحال ہو گی۔
۴- بلدیاتی انتخابات : ۲۴ستمبر ۲۰۱۳ء کے اخبارات میں ۱۱مئی کے انتخابات کے بارے میں چھپنے والی رپورٹ نے انتخابات کی شفافیت کا پردہ چاک کر دیا ہے ۔نادرا نے این اے-۲۵۸ کے فنگر پرنٹس کا جائزہ لیا ۔جانچ کے لیے بھیجے جانے والے ۳۲ہزار ۸سو۶۵ ووٹوں میں سے صرف ۲۴۷۵ ہی جانچ کے بعد جائز قرار پائے۔ اس میں سے ۴ہزار ۸سو ۶۰ پر ایسے شناختی کارڈ نمبر کا اندراج تھا جو نادرا نے آج تک جاری ہی نہیں کیے۔ ۴۳۵شناختی کارڈ کسی دوسرے حلقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ۶۵۸ ووٹروں نے دو پولنگ اسٹیشنوں میں ۱۴۰۴ ڈپلی کیٹ ووٹ ڈالے۔ ایک فرد نے آٹھ ووٹ ڈالے۔ اسی طرح ایک دوسرے شناختی کارڈ پر ۱۱ووٹ ڈالے گئے۔ کائونٹر فائل ۳۸۶ پر انگوٹھے کا نشان تھا ہی نہیں (روزنامہ ڈان، ۲۴ستمبر ۲۰۱۳ء)، جب کہ این اے -۲۵۸ سے کہیں زیادہ دھاندلی کا عمل دوسرے حلقہ جات میں ہوا ہے۔ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ جعلی ٹھپہ مینڈیٹ ہے۔ انتخابات میں عوام ووٹ ڈالنے کی آزادی سے محروم رہتے ہیں اور جعل ساز اصل عوامی خواہش کو ٹنوں ٹھپوں کے نیچے دفن کردیتے ہیں۔ امکان ہے کہ دسمبر /جنوری تک بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔یہ سوال ہر ذہن میں گردش کر رہا ہے کہ آیا جاری اقدام عوامی خواہش اور جمہوری راے کو سامنے آنے کا موقع دے گا ؟
کراچی میںامن کے حصول کے لیے اہلِ کراچی کے اصل مسائل کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یوں تو پورے ملک کی طرح یہاں بھی بے روزگاری اور مہنگائی جرائم کے پنپنے کا باعث ہے اور جرائم پیشہ گروہ بے روزگار نوجوانوں کی باقاعدہ بھرتی کرتے ہیں۔چونکہ بدامنی کی وجہ سے صنعتیں منتقل ہو رہی ہیں، اس لیے بے روزگاری میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ایک طویل عرصے تک امن سمیت کراچی کے دیگر مسائل کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے مرض انتہائی سنگین ہو گیا ہے ۔کراچی کا پڑھا لکھا طبقہ جہاں کرپٹ نظام سے بے زار نظر آتا ہے، وہیں وہ اپنے دائرے میں ایک واضح شناخت کے ساتھ ملکی ترقی میں اپنا کردار بھی ادا کرنا چاہتا ہے۔لیکن معاشرے میںجاری قتل وغارت اور دبائو اسے آزادی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس لیے سرمایہ اور صلاحیت بڑی تیزی سے بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں ۔حکومت میںموجود گروہوں کی نظر میں کراچی سونے کا انڈا دینے والی وہ مرغی ہے جس سے اپنے مفادات جلد از جلد حاصل کرنے کے لیے ذبح کرنے کی تیاری جاری رہتی ہے۔
اس ساری صورت حال میں میڈیا اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔جیو سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی ولی خان بابر کے قاتل تو کیا گرفتار ہوتے ایک کے سوا تمام گواہان اور تفتیش کر نے والے تمام پولیس افسران قتل ہو چکے ہیں۔سما ٹیلی ویثرن کی اینکرپرسن جاسمین منظور نے اپنے بلاگ میں ۱۳؍ اگست۲۰۱۳ء کو ’’میری خاموشی کے پیچھے سچ‘‘ تحریر کیا ۔ ایم کیو ایم کی جانب سے جاسمین منظور کو ملنے والی دھمکیاں منظر عام پر آئیں۔انھوں نے عجلت میں اپنے اہل خانہ کو کراچی سے باہر منتقل کیا اور سما ٹیلی ویژن پر ان کا پروگرام بھی جاری نہ رہ سکا۔(Jasmine 2013 blogspot.com) ان کی تحریر اہل حل و عقد کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
کراچی میں جرم طاقت ور ہے، جب کہ قانون خوف زدہ نظر آتا ہے۔ گذشتہ ۱۰ برسوں میں سیکڑوں پولیس افسران کا قتل ہوا ہے، جب کہ مجرم گرفتار نہیں ہوئے ۔سپریم کورٹ میں کراچی بدامنی کیس میں ڈی آئی جی سائوتھ ڈاکٹر امیر شیخ نے کہا کہ ۱۹۹۲ء کے آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسران کو چُن چُن کر قتل کر دیا گیا،جب کہ ایک اور سماعت کے موقع پر کراچی میں ۳۳ہزار سے زائد مفرور ملزمان کی موجودگی کا اعتراف بھی قانون نافذ کرنے والے اداروںکی جانب سے کیا گیا۔ مشرف دور میں سندھ کے وزیر داخلہ نے، جن کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا،انتہائی مہلک جرائم میں ملوث ۳۵ملزمان کو پیرول پر رہا کردیا تھا۔جس کے بارے میںسپریم کورٹ کے حکم پر ابھی تک تحقیقات جاری ہیں ۔(دی فرنٹیر پوسٹ، ۳نومبر ۲۰۱۲ء)
کراچی میں قانون کی بالادستی ختم ہو چکی ہے اور عام آدمی کی جان، مال، عزت اور آبرو کی حفاظت سے ریاست لاتعلق بنی ہوئی ہے۔یہاں جزا وسزا کا وہ نظام جو کسی بھی معاشرے میں حکومتی رٹ کے ذریعے قائم ہوتا ہے، آج ریاستی طور پر ناپید ہو چکا ہے اور مافیا کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ ان مافیائوں کے حکم سے انکار موت کو دعوت دینا ہے، جب کہ ریاست مفلوج ہو چکی ہے۔ SCPS (Sindh Criminal Prosecution Service) کے اعداد شمار کے مطابق پاکستان میں مجرموں کو سزا ملنے کی شرح ۶۶ء۱۱ فی صد ہے لیکن کراچی میں یہ شرح ۲ فی صد سے بھی کم ہے ۔
یہ شرح برطانیہ میں ۹۰ فی صد ،آسٹریلیا میں ۸۵ فی صد ،امریکا میں ۸۵ فی صد اور جاپان میں ۹ء۹۹ فی صد ہے۔گویا کراچی میں پکڑے جانے والے مجرم کے لیے رہائی کے ۹۸ فی صدسے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔۲۰۰قتل کامجرم اجمل پہاڑی بھی عدالتوں سے صاف ستھرا ہو کر رہا ہوجاتا ہے۔شیرشاہ قتل کے واقعے میں تمام ملزمان نے خود گرفتاری پیش کی لیکن ان کے خلاف کوئی گوا ہ آنے کوتیار نہ ہوا اورنتیجتاًسب باعزت بری ہو گئے۔SCPSکے اعدادو شمار کے مطابق صوبہ سندھ میں ۶۶ہزارمعلق مقدمات میں سے ۲۹ ہزارسے زائد صرف کراچی کے مختلف اضلاع میں ہیں۔ سندھ اسمبلی میں پاس ہونے والا گواہوں کے تحفظ کا بل (Witness Protection Bill ) ایک اچھی کوشش ہے لیکن یہ بھی عام آدمی کے اعتماد کو بحال کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے گا۔پہلے مرحلے میںپولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کے مطابق پولیس میں مجرموں کے مخبر بیٹھے ہوئے ہیں۔ بار بار کی سیاسی بھرتیوں نے پولیس کے ادارے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔قومی اسمبلی میں دہشت گردی کے خلاف قانون سازی پر گفتگو جاری ہے ۔اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ حقوق انسانی اور پُرامن شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ دہشت گردوں کا راستہ بند کر نے کے لیے مؤثر قوانین بنائے جائیں۔
اس وقت بھی پولیس دیانت دار اور اہل افسران سے یکسر خالی نہیں ہے جنھیں میرٹ پر کام کرنے کا موقع دیا جائے تو جرائم پیشہ افراد کو پیچھے دھکیلنے کی خوب صلاحیت رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی پولیس کی استعداد اور اسلحے کو بھی مؤثر کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن سب سے اہم بات مستحکم حکومتی عزم اور ارادے کی ضرورت ہے کہ جرائم کی سر کوبی کے لیے کوئی سیاسی دبائو قبول نہ کریں ۔
وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے اعلان کردہ نگران کمیٹیوں میں سے ابھی تک سول سوسائٹی پر مشتمل نگران کمیٹی نہیں بن سکی۔اس میں جہاں پی پی پی کے تحفظات ہیں، وہیں کراچی کے مخصوص حالات میں سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے بھی آگے بڑھنے پر آمادہ نہیں نظرآتے۔
کراچی امن کا متلاشی ہے ۔اگلے تین ماہ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ طے شدہ اہداف حاصل کرنے کے لیے آپریشن جرائم میں وقفہ ہے، یا جرائم کی بیخ کنی کے لیے فیصلہ کن قدم؟ کراچی آپریشن کے ذریعے کتنا پُرامن ہوگا؟ آپریشن کی سمت ،رفتار اور نتائج اس بات کو واضح کردیں گے۔