عائشہ نصرت


عائشہ نصرت کا تعلق دہلی سے ہے۔ وہ ۲۳ سال کی ہیں۔ انھوں نے انسانی حقوق میں ایم اے اور نفسیات میں گریجویشن کیا ہے۔ عائشہ نے اپنی آزاد مرضی سے پردہ کرنا شروع کردیا۔ ان کا یہ مضمون ۱۳ جولائی ۲۰۱۲ء کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا۔ ۴ستمبر ’عالمی یومِ حجاب‘ کے موقع پر پیش کیا جارہا ہے۔(ادارہ)

دو ماہ سے زائد ہوگئے ہیں کہ میں نے پردہ کرنے اور مناسب لباس پہننے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے کہ آپ مجھ پر جلدی سے دنیا بھر کی مظلوم خواتین کی نمایندہ اشتہاری خاتون کا لیبل لگا دیں، میں ایک عورت کی حیثیت سے یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ پردہ میرے لیے سب سے زیادہ  آزادی دلانے کا تجربہ ثابت ہوا ہے۔

پردہ شروع کرنے سے پہلے میں نے اپنے آپ سے کبھی یہ توقع نہ کی تھی کہ میں یہ راستہ اختیار کروں گی۔ اگرچہ میں جانتی تھی کہ میرے ایمان اور تہذیب میں حیا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، میں نے کبھی اس کی ضرورت محسوس نہ کی اور نہ اس کے اسباب معلوم کرنے کا موقع ملا۔

ٹونی بلیئر فیتھ فائونڈیشن میں بطور فیتھزایکٹ فیلو کام کرنے اور سماجی سرگرمیوں کے لیے مختلف مذاہب کے افراد سے معاملہ کرنے سے مختلف مذاہب کے بارے میں میرے فہم میں اضافہ ہوا۔ مختلف بین المذاہب سرگرمیوں میں حصہ لینے سے میرے اپنے مذہب کے ذاتی فہم میں اضافہ ہوا۔ اس حوالے سے جو سوال اور چیلنج میرے سامنے آئے اس سے میرے اندر اسلام کے مختلف بنیادی پہلوئوں کے بارے میں تجسس اور کوشش میں اضافہ ہوا۔ اس طرح میں ’سلطنتِ حجاب‘ میں داخل ہوئی۔

میں بہت اچھی طرح جانتی تھی کہ عورت کے سر کو ڈھانکنے والے چند گز کپڑے، یعنی حجاب کو ہم کس طرح تشویش اور تنازعات کا موضوع بنا کر اُسے عورتوں کی تعلیم، تحفظ، انسانی حقوق،  حتیٰ کہ ان کے مذہب کو عالمی خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔ مجھے یہ معلوم تھا کہ دنیا بھر میں میڈیا      پردہ کرنے والی خواتین کو مظلوم اور مجبور بناکر پیش کرنے کو ترجیح دیتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ   پردہ ان خواتین پرزن بیزار مُلّائوں اور رشتہ دار مردوں کی طرف سے مسلط کیا گیا ہے جو انھیں گرمی سے بے حال کرنے والے کپڑوں میں زبردستی قید کردیتے ہیں۔

 بہرحال میں سمجھتی ہوں کہ میرے حجاب نے مجھے آزادی (liberate) دی ہے۔ میں ایسے بہت سوں کو جانتی ہوں جو حجاب کو زبردستی کی خاموشی یا بنیاد پرست حکومتوں کا اشتہار سمجھتے ہیں لیکن ذاتی طور پر میں نے ان میں سے کوئی بات بھی نہ پائی۔ ایک ایسی خاتون کی حیثیت سے جس نے انسانی حقوق کا بہت شوق سے مطالعہ کیا ہو اور ان کے لیے خصوصاً خواتین کے اختیارات (empowerment) کے لیے کام کر رہی ہو، میں نے محسوس کیا کہ ان مقاصد کے لیے حجاب کرتے ہوئے کام کرنے سے یہ غلط تاثر ختم ہوگا کہ مسلم خواتین خود اپنی اصلاح اور اپنے حقوق کے حصول اور ان کے لیے کام کا جذبہ، حوصلہ اور احساس نہیں رکھتی ہیں۔ یہ احساس وہ آخری دھکا تھا جس کی مجھے ضرورت تھی، تاکہ میں دنیا کے سامنے اس سال اپنی سالگرہ پر اعلان کردوں کہ آج کے بعد میں ’پردہ دار خاتون‘ یا ’حجابی‘ ہوں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں بے پردہ رہنا پسند کیا جاتا ہو، وہاں اگر میں حجاب اختیار کرتی ہوں تو اسے کیوں ظالمانہ و جابرانہ قرار دیا جاتا ہے؟ میں تو حجاب کو ’میرا جسم، میرا مسئلہ‘ قرار دینے کی آزادی سمجھتی ہوں اور ایک ایسی دنیا میں جہاں عورت کو ایک شے بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اسے اپنی ذاتی آزادی کے تحفظ کا ذریعہ سمجھتی ہوں۔

میں کسی عورت کی اہمیت کو اس کے ظاہری حُسن اور پہنے جانے والے کپڑوں سے ناپے جانے کو مسترد کرتی ہوں۔ مجھے مکمل یقین ہے کہ عورت کی مساوات کا بگڑا ہوا تصور کہ اسے مجمعِ عام میں چھاتیاں عریاں کرنے کا حق حاصل ہے، خود آپ ہمیں ایک شے تصور کرنے میں حصہ ادا کرتا ہے۔ میں ایک ایسے نئے دن کے انتظار میں ہوں جب عورتوں کو حقیقی مساوات حاصل ہوگی، اور انھیں اس کی ضرورت نہ ہوگی کہ توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنی نمایش کریں، نہ اس کی ضرورت ہوگی کہ اپنے جسم کو اپنے جسم تک رکھنے کے فیصلے کا دفاع کریں۔ ایک ایسی دنیا جس میں عورت کی آزادی، جسم کی نمایش اور اس کی جنس نے ہوش اُڑا رکھے ہوں، عورت کا حجاب اختیار کرنا عورت کی جانب سے اس کی منفرد نسائیت اور حقوق کا جارحانہ اظہار ہے۔ میرا حجاب دراصل یہ پیغام دیتا ہے کہ ’’تم کیا دیکھو گے، اس پر میرا کنٹرول ہے، کیا یہ عورت کو اختیار دینا نہیں؟‘‘ یہ اظہار بہت زیادہ اتھارٹی کے ساتھ ہوتا ہے جس کا سرچشمہ یہ دعویٰ ہے کہ ’’میرا جسم، میرا مسئلہ ہے‘‘۔

میں یقین رکھتی ہوں کہ میرا حجاب مجھ کو یہ حق دیتا ہے کہ اپنے جسم، اپنی نسائیت، اور روحانیت پر جو صرف میری ہے اور میری اتھارٹی میں ہے اس پر زور دوں۔ میں جانتی ہوں کہ بہت سے مجھ سے اتفاق کریں گے جب میں یہ کہتی ہوں کہ حجاب بنیادی طور پر روحانیت کا اظہار ہے اور اپنے خالق سے ایک ذاتی تعلق ہے ، ایک ایسی محسوس کی جانے والی مذہبی علامت جو روزمرہ زندگی میں رہنمائی کرتی ہے۔

حجاب میری ذاتی و اجتماعی زندگی میں دکھائی دینے والی واضح علامت ہے جس سے کسی بھی اجتماع اور ہجوم میں کوئی بھی ایک الگ وجود کی حیثیت سے مجھے پہچان سکتا ہے، ایک خاص مذہب سے وابستگی اور نمایندگی کے ساتھ۔ یہ اصل وجہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں ’حجابی‘ بن جانا ایک ایسی طاقت بن جاتا ہے جو ان کاموں میں مجھے آگے بڑھاتا ہے جن کے ذریعے میں ان تعصبات اور رکاوٹوں کو دُور کرسکوں جن سے میرے مذہب اسلام کو مسلسل لیکن غیرمعقول انداز سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ حجاب دراصل میری شخصیت کی توسیع اور شناخت ہے، اور یہ مجھے اُبھارتا ہے کہ اس     غلط تصور کو چیلنج کروں کہ مسلمان عورت میں اُس بہادری، دانش اور استقامت کی کمی ہے جو اتھارٹی کو چیلنج کرے اور اپنے حقوق کے لیے لڑے۔

میں جب آئینے میں اپنا عکس دیکھتی ہوں تو ایک ایسی عورت کو دیکھتی ہوں جس نے حقوق کے لیے سرگرمِ عمل ہونے کا انتخاب کیا، جو اتفاقاً مسلمان ہے اور ضمناً اپنے سر کو ڈھانکتی ہے۔ میرا عکس مجھے یاد دلاتا ہے کہ میں نے کیا عہد کیے تھے جن کی وجہ سے حجاب اختیار کرنے کا سوچا؟ ایک ایسی دنیا کے لیے کام کروں جہاں عورت کے بارے میں فیصلہ اس بنیاد پر نہیں کیا جاتا کہ وہ کیسی دِکھتی ہے؟ کیا پہنتی ہے؟ایک ایسی دنیا جس میں اُسے اپنے جسم کے بارے میں فیصلہ کرنے کے حق کی لڑائی نہیں لڑنا پڑتی، جس میں وہ کچھ ہوسکے جو وہ چاہتی ہے، جہاں اُسے اپنے مذہب اور حقوق کے درمیان انتخاب نہ کرنا پڑے۔ (ترجمہ: عمران ظہور غازی)