ڈاکٹر سمیریونس


ترجمہ: محمد ظہیرالدین بھٹی

میں اپنے ایک دوست کے والد کی بیمار پُرسی کے لیے ہسپتال گیا۔ مریض کی عمر ۶۰برس سے زائد تھی۔ اس کا رنگ اُڑا ہوا تھا، خون کی کمی تھی اور پورا جسم اس بات کا ثبوت تھا کہ مریض کی تکلیف شدید ہے اور بیماری انتہائی دردناک۔ چنانچہ میں نے اللہ سے دعا کی کہ وہ اسے صبروثابت قدمی دے، ایمان و عافیت اور شفا دے۔ پھرمیں نے پوچھا: حاجی صاحب، آپ کیسے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: بیٹا، الحمدللہ! مجھے بہت نعمتیں ملی ہیں۔ اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے ان نعمتوں پر شکر کرنے کی توفیق دے۔ مریض نے جب یہ جواب دیا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی اور رضا جھلک رہی تھی۔ میں نے پوچھا: آپ کب سے یہاں ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: میرے بیٹے، ایک ماہ سے۔ میں نے مریض کے کمرے سے باہر نکل کر اپنے دوست سے پوچھا: آپ کے والد کو کیا کیا تکالیف ہیں؟ دوست نے مجھے اپنے والد کی تمام بیماریاں گن کر بتائیں تو میں سوچنے لگا کہ اگر یہ بیماری کسی اُونٹ کو لگ جائے تو وہ بھی اسے برداشت نہ کرسکے۔

میں عیادت کر کے باہر آیا تو مجھے محسوس ہوا کہ مجھ پر میرے رب کی بے شمار نعمتیں ہیں۔ مجھے اپنی اس شدید کوتاہی کے احساس نے بے تاب کردیا جو میں نے ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے میں کی تھی۔ یہ آدمی کئی تکلیفوں میں مبتلا تھا۔ اس کے باوجود سچی رضا کے ساتھ اپنے پروردگار کا شکر ادا کر رہا تھا۔ اب مجھے احساس ہوا کہ اپنے ایمان کو بڑھانے کے لیے مجھے مزید عبرت حاصل کرنا چاہیے۔ چنانچہ میں نے یہ طے کیا کہ میں مریضوں کی عیادت کے لیے اس ہسپتال میں گھوموں گا تاکہ عبرت و نصیحت حاصل کرکے اپنے ایمان میں اضافہ کروں اور اپنے جذبۂ ہمدردی و غم خواری کو بڑھائوں۔

میں ایک اور مریض سے ملا، بیماری نے اسے نڈھال کردیا تھا۔میں نے پہلے تو مریض کی صحت یابی کے لیے دعا کی، پھر اس کے تیماردار سے پوچھا کہ مریض کو کیا بیماری درپیش ہے؟ اس نے بتایا کہ اس کی آنتوں میں بندش ہے۔ مریض چونکہ ۷۰برس سے تجاوز کرچکاہے نیز اسے ایسی بیماریاں بھی لاحق ہیں کہ آپریشن اس کے لیے خطرناک ہے۔ اس لیے ڈاکٹروں نے کوشش کی کہ آپریشن کے بغیر ہی وہ تندرست ہوجائے مگر بالآخر وہ آپریشن کرنے پر مجبور ہوگئے۔

میں تیسرے مریض کے پاس سے گزرا، اس کے دونوں ہاتھ اور پنڈلیاں شَل ہوچکی تھیں۔ وہ قضاے حاجت کے لیے واش روم جانا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے خدمت گزاروں سے مدد طلب کی۔ سب نے اُسے اُٹھا کر کرسی پر رکھا، پھر اس کی بیوی اسے لیے واش روم میں چلی گئی۔ میں نے اسے دیکھا تو رو پڑا، اس کے لیے دعا کی اور اپنی اس کوتاہی پر نادم ہوا کہ جو میں نے اپنے پروردگار کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے میں کی۔ میں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ اس آدمی کو ہربار قضاے حاجت کے وقت، یا وضو و غسل کرنے کے لیے کس قدر زحمت اُٹھانا پڑتی ہے۔ پھر میں نے اس نعمت پر غور کیا جو ہاتھوں اور پنڈلیوں کی صورت میں مجھے میسر ہے۔ ہاتھ پائوں کی قدروقیمت کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب انسان ان سے محروم ہوجائے یا ان کے نہ ہونے کا تصور کرے۔

مجھے ایک دوست نے بتایا کہ وہ ایک ایسے مریض سے ملا جو مکمل طور پر اپاہج تھا اور صرف اپنے سر کو ہلاسکتا تھا۔ جب اِس نے اُسے دیکھا تو بہت ترس آیا، پوچھا: آپ کی تمنا کیا ہے؟ وہ بولا: میری عمر ۵۰برس سے زیادہ ہوچکی ہے۔ میں گذشتہ پانچ برسوں سے بسترعلالت پر ہوں۔ میری تمنا یہ نہیں ہے کہ میں چلوں پھروں، اپنے بچوں کو دیکھوں اور عام انسانوں کی طرح زندگی گزاروں۔ میری صرف یہ تمنا ہے کہ میں اس قابل ہوجائوں کہ اللہ کے حضور رکوع و سجود کرسکوں۔

ایک ڈاکٹر بیان کرتا ہے کہ میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ایک مریض کے پاس پہنچا جو بہت زیادہ بوڑھا تھا۔ مریض کے چہرے پر نُور پھیلا ہوا تھا۔ اس کے دل کا آپریشن ہوا تھا۔ اس دوران خون بہنے کی وجہ سے دماغ کے کچھ حصوں میں خون رُک گیا تھا، لہٰذا مریض مکمل طور پر بے ہوش ہوگیا۔ اسے مصنوعی تنفس سے سانس دیا جارہا تھا۔ مریض کے بیٹے سے میں نے پوچھا کہ اس کے والد کا پیشہ کیا تھا؟ اس نے بتایا کہ وہ ایک مسجد میں مؤذن تھے ۔ میں مریض کے نزدیک ہوا، اس کے ہاتھ اور سر کو حرکت دینے کی کوشش کی، اس سے بات کی مگر اس نے جواب نہ دیا۔ اس کے بیٹے نے اپنے باپ کو اہلِ خانہ کے حوالے سے خوش کن خبریں سنانا شروع کیں مگر اس کے والد نے حرکت نہ کی۔

اب بیٹا بولا: اباجی، مسجد آپ کی منتظر ہے۔ لوگ آپ کے بارے میں پوچھتے ہیں، وہ نمازوں کے لیے آپ کی اذان کی آواز سننے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس مسجد میں اب کوئی شخص باقاعدہ اذان نہیں دیتا، بلکہ مسجد میں موجود کوئی بھی آدمی اذان دے دیتا ہے۔ یہ لوگ اذان دینے میں غلطیاں بھی کرتے ہیں۔ بیٹے نے جب مسجد اور اذان کا تذکرہ کیا تو اب اس کی سانس بہتر ہونے لگی۔ اس کے بعد بیٹے نے اپنے باپ کو کچھ ایسی خوش کن اطلاعات سنانا شروع کیں جن کا تعلق دنیوی معاملات سے تھا تو سانسوں کی رفتار کم ہونے لگی۔ اب اس نے ایک بار پھر مسجد اور اذان کا تذکرہ کیا تو مصنوعی تنفس کی مشین پر سانس کی رفتار بہتر ہوگئی۔ ڈاکٹر کہتا ہے، میں نے جب یہ دیکھا تو بڑے میاں کے کان کے قریب پہنچ کر میں نے اذان دی۔ اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ… میں نے اذان مکمل کی اور پھر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اذان کے ساتھ ساتھ سانسوں کی تعداد بڑھتی رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: یہ لوگ بیمارنہیں ہیں، بیمار تو ہم ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں تو رب العزت فرماتا ہے: ’’یہ لوگ ان گھروں میں پائے جاتے ہیں جنھیں بلند کرنے کا، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے۔ ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں جنھیں تجارت اور خریدوفروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت ِ نماز و اداے زکوٰۃ سے غافل نہیں کردیتی۔ وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل اُلٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آجائے گی، (اور وہ یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں) تاکہ اللہ اُن کے بہترین اعمال کی جزا ان کو دے اور مزید اپنے فضل سے نوازے۔ اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے‘‘۔(النور۲۴: ۳۶-۳۸)

ڈاکٹر صاحب نے درست کہا کہ واقعی ہم لوگ بیمار ہیں، حالانکہ ہمارے بدن تندرست ہیں۔ ہمارے دلوں کو علاج کی ضرورت ہے۔ہم لوگ جو مرضوں اور روگوں سے محفوظ ہیں، اپنے خالق، پروردگاراور رازق کی نعمتوں کے مزے اُڑا رہے ہیں، مگر ہمارا مرض یہ ہے کہ ہمیں ان نعمتوں کا شعور نہیں اور نہ ہم ان نعمتوں پر اپنے رب کا شکر ہی  ادا کرتے ہیں جیساکہ شکر ادا کرنے کا حق ہے، بلکہ افسوس کہ ہم اُلٹا ان نعمتوں کے عطا کرنے والے کی نافرمانی کرتے ہیں۔

کیا آپ کو یہ احساس نہیں کہ کل آپ نے اپنے پروردگار کے حضور کھڑا ہونا ہے۔ پھر وہ آپ سے ان نعمتوں کی بابت دریافت فرمائے گا اور آپ کی نافرمانی اور گناہوں میں بڑھتے چلے جانے کا سبب پوچھے گا۔ اے اپنے پروردگار کی نعمتوں کے مزے لوٹنے والے! تمھیں یہ خوف نہیں آتا کہ تمھارے گناہ تمھیں ہلاک کردیں گے؟ کیا تم بھی کبھی نوحؑ، عاد ؑ، ثمود ؑ، لوطؑ اور شعیب ؑکی قوموں کے انجام کے بارے میں نہیں سوچا؟ کیا تم نے کبھی فرعون اور اس کی قوم کے انجام اور دیگر تباہ ہونے والوں کے انجام پر غور نہیں کیا؟ اپنے گناہوں کے بارے میں سوچو، پھر فیصلہ کرلو۔ دُوراندیشی کے ساتھ کہ تم گناہوں اور نافرمانیوں کو ترک کردو گے۔ اپنے پروردگار کی فرماں برداری کرو گے اور اس کی نعمتوں پر اس کا شکر بجا لائو گے۔ آپ اس بارے میں اللہ کے نبیوں کی پیروی کیجیے کہ ان پر مصائب و آلام بھی سب سے بڑھ کر آئے۔ پھر بھی وہ سب سے بڑھ کر شکرگزار تھے۔ دیکھیے سیدنا ابراہیم ؑکس قدر شکرگزار تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس خوبی کی گواہی دیتا ہے: ’’واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم ؑاپنی ذات سے ایک پوری اُمت تھا، اللہ کا مطیع فرمان اور یک سُو۔ وہ کبھی مشرک نہ تھا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا۔ اللہ نے اس کو منتخب کرلیا اور سیدھا راستہ دکھایا‘‘۔(النحل ۱۶:۱۲۰-۱۲۱)

اللہ نے شکر اور نعمتوں کے باقی رہنے اور زیادہ ہونے کو باہم مربوط کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ’’ہماری طرف سے ایک نعمت۔ یہ جزا دیتے ہیں ہم ہر اس شخص کو جو شکرگزار ہوتا ہے‘‘ (القمر ۵۴:۳۵)۔ نیز فرمایا: ’’اور یاد رکھو، تمھارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا‘‘ (ابراھیم ۱۴:۷)۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کے بہت سے مقامات پر یہ واضح فرما دیا ہے کہ اس کے بندوں میں سے شکر کرنے والے تھوڑے ہیں۔ لہٰذا ہمیں محتاط رہنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی ناشکروں کی اکثریت میں شامل نہ ہوجائیں۔

بیماری کے دوران شکرو رضا کی نعمت خاص طور پر عظیم ہے۔ اس سے شکرگزار کو اطمینان، سکون اور نفسیاتی راحت نصیب ہوتی ہے، جس کا کوئی نعمت مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس سے جسم کو  قوتِ مدافعت نصیب ہوتی ہے، جس سے مریض کی شفایابی میں مدد ملتی ہے۔ شکرگزاری کا سب سے بڑا پھل اللہ کی رضامندی ہے۔ اس سے انسان مطمئن زندگی گزارتا ہے اور آخرت میں اپنے پروردگار کی طرف سے اس شکر ورضا پر اجروثواب کا حق دار ٹھیرتا ہے۔(المجتمع، کویت، جولائی ۲۰۱۲ء)