دورِحاضر میں بہت سے معاملات ہیں جن میں قمار، یا قمار کی آمیزش پائی جاتی ہے اور اس لیے وہ ناجائز ہیں۔ ان معاملات کا ہمارے اکابرعلما و اربابِ افتا نے اپنی کتب فقہ و فتاویٰ وغیرہ میں ذکر کیا ہے، انھیں پیش کیا جا رہا ہے۔
کچھ عرصے سے بہت سی کمپنیاں اپنے ناقص سامان کو زیادہ سے زیادہ فروخت کرنے کے لیے مختلف اسکیمیں بنا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اپنی مصنوعات کے ہرپیکٹ میں ایک سے پانچ یا سات تک کوئی ایک نمبر ہوتا ہے، لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ یہ نمبر پورے جمع کرلیں تو انھیں ایک عدد گھڑی، گانوں کی کوئی کیسٹ یا کوئی اور قیمتی چیز بطور انعام دی جائے گی۔ انعام حاصل کرنے کے لالچ میں لوگ بلاسوچے سمجھے ناقص اور صحت کے لیے نقصان دہ چیزیں خریدتے جاتے ہیں۔ اس طرح ایک طرف تو یہ اپنی محنت کا پیسہ برباد کرتے ہیں اور دوسری طرف بعض اوقات اپنی صحت کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
یہ انعامی اسکیم غریب و نادار لوگوں کے ساتھ ظلم ہے ، کیوں کہ یہ انھیں بے جا فضول خرچی اور غیرضروری خریداری کی طرف صرف انعام کے لالچ میں راغب کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں ایک عام آدمی کے محدود مالی وسائل نہ صرف متاثر ہوتے ہیں، بلکہ اس کے لیے مالی مشکلات اور ذہنی پریشانیوں کا باعث بھی بنتے ہیں۔ ان انعامی اسکیموں کے جاری کرنے والے مفادپرست عناصر نے کمال ہوشیاری کے ساتھ ایسے حربے اپنائے ہیں کہ اول تو انعام نکلتا ہی نہیں اور اگر نکلتا ہے تو بھی لاکھوں خریداروں میں سے صرف ایک آدھ کا، نتیجہ ظاہر ہے کہ مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
اس اسکیم کو کمپنی کی طرف سے انعامی کوپن کا بڑا دل کش نام دیا جاتا ہے، لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ کمپنی انعام کے نام پر اپنی چیزیں فروخت کرتی ہے اور خریداروں میں سے ہرخریدار گویا اس امید پر ہی چیزیں خریدتا ہے کہ اس سے انعام ملے گا۔ گویا اس اسکیم و کاروبار کا خلاصہ خرید و فروخت بشرطِ انعام ہے اور شرعاً ایسی خریدوفروخت ناجائز و باطل ہے، جس میں کوئی ایسی خارجی شرط لگائی جائے جس میں فریقین میں سے کسی ایک کا نفع ہو۔ حضورِاقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی خریدوفروخت سے منع فرمایا ہے، جس میں شرط لگائی جائے۔ اور اگر شرط کے ساتھ خریدفروخت کی ہے تو امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک بیع اور شرط دونوں فاسد ہیں (ایضاح النوادر، ۱/۱۲۳-۱۲۵)۔ دوسری طرف اس میں اکثر انعام ملتا ہی نہیں۔ یہ ’غرر کثیر‘ اور دھوکا دہی ہے اور غرر قمار کی اقسام میں سے ہے۔ اس لیے انعامی اسکیم کا یہ طریقہ شرعاً ناجائز و حرام ہے۔ (نصب الرایۃ، ۴؍۱۷)
بازاروں اور نمایشوں میں مختلف مالیت کے بند ڈبے فروخت کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کسی میں ایک پیسے کا بھی مال نہیں ہوتا ہے اور کسی میںزیادہ مال ہوتا ہے۔ لوگ اس کو قسمت آزمائی سمجھ کر اختیار کرتے ہیں۔ یہ بھی کھلی ہوئی قماربازی اور جوا ہے، اس لیے یہ ناجائز و حرام ہے۔ (نصب الرایۃ، ۴؍۱۷)
دورِحاضر میں سود اور قمار کے نت نئے طریقے ایجاد ہوچکے ہیں۔ ان میں بعض تو ظاہر و باطن ہر دو اعتبار سے قمار ہیں، جب کہ بعض میں صرف اس کا شائبہ پایا جاتا ہے، نیز کچھ معاملات ایسے بھی ہیں جن میں نہ تو سود ہے اور نہ قمار، البتہ اس کے اندر قمار کا جذبہ کارفرما ہے۔
ان ہی میں سے وہ رواج ہے جو آج کل چل پڑا ہے کہ جب مارکیٹ میں سامان پہنچ جاتا ہے تو جس سامان کی قیمت، مثلاً ۱۰۰ روپے سے اُوپر ہوتی ہے، اس میں خریدار کو اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہے وہ سامان کی قیمت ۱۰ فی صد سے کم ادا کرے یا پوری قیمت ادا کرکے انعامی کارڈ لے لے۔ انعامی کارڈ لینے کی صورت میں جو چیز کوپن سے نکل آتی ہے وہ چیز اسے فوراً مل جاتی ہے اور انعام میں کوئی نہ کوئی سامان ہوتا ہے۔
خریداری کی اس صورت میں چوں کہ بیع اور ثمن دونوں متعین کردہ ضابطے کے مطابق انعام میں دیتے ہیں ، اس لیے یہ صورت جائز اور درست ہوگی۔ یہ تو مسئلے کا ظاہری پہلو ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کاروبار کے اس طریقے کے پیچھے قمار ہی کا ذہن کارفرما ہے۔ اس لیے ایسے معاملے کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس میں کراہت کا پہلو ضرور ہے۔ یہی راے استادِ مکرم حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی بھی ہے۔ (دیکھیے: آپ کے مسائل اور ان کا حل، ۶/۲۷۵- ۲۷۷)
انعامی کمیٹی کا طریقہ یہ ہے کہ ایک آدمی یا چند آدمی کسی نام سے ایک کمیٹی قائم کرتے ہیں اور اس میں، مثلاً ۱۰ ہزار ممبر بناتے ہیں اور ہرممبر سے ۱۰ روپے فیس لی جاتی ہے۔ یوں کُل رقم ایک لاکھ ہوجاتی ہے، اور اس رقم سے وہ اپنا کاروبار چلانا شروع کرتے ہیں اور ممبران کو ان کی اصل رقم (۱۰ روپے) اس طریقے سے واپس کرتے ہیں کہ ہر ماہ ۵۰۰ روپے کے انعامات دیے جاتے ہیں۔ آٹھ انعامات ۲۵، ۲۵ روپے کے اور ایک انعام ۳۰۰ روپے کا اور ان انعامات کو بذریعہ قرعہ اندازی نامزد کیا جاتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ تمام ممبران کے ناموں کو الگ الگ پرچیوں پر لکھ کر اسے ایک ڈبے میں ڈالا جاتا ہے۔ پھر اس میں سے نو پرچیاں ہرماہ نکالی جاتی ہیں۔ جس ممبر کا نام قرعہ میں نکل آتا ہے،اس کو پرچی پر لکھی ہوئی رقم کے مطابق رقم دی جاتی ہے۔ اسی طرح یہ سلسلہ پانچ سال تک چلتا رہتا ہے۔ ہر ماہ پرچیاں نکالتے رہتے ہیں۔ اور پرچی پر لکھی ہوئی رقم کے مطابق ہرممبر کو رقم ملتی رہتی ہے، اور جس ممبر کو رقم مل جاتی ہے اسے دوبارہ قرعہ میں شامل نہیں کیا جاتا ہے۔ پانچ سال بعد بقیہ ۹ہزار۴سو ۶۰ ممبران کے لیے کمیٹی نے جو بونس (نفع) شروع میں مقرر کیا ہے، وہ مع اصل رقم کے واپس کردیتی ہے۔ (جواہر الفقہ، ۲/۳۴۴)
کمیٹی قائم کرکے ممبر بنانے کا یہ طریقہ درست نہیں ہے، کیوں کہ اس میں قمار اور سود دونوں شامل ہیں۔ سود اس لیے کہ جو بونس اخیر میں ممبروں کو دیا جا رہا ہے، وہ اس کمیٹی میں شریک ہوتے وقت ہی متعین کردیا جاتا ہے اور اسی کو سود کہتے ہیں۔ پھر قرعہ اندازی کے ذریعے جو ہر ماہ بعض کو ۳۰۰ اور بعض کو ۲۵ روپے ملتے ہیں، یہ بلامحنت کے صرف بخت و اتفاق سے ملتے ہیں۔ اسی کا نام شریعت میں قمار ہے۔ اس لیے ایسے ادارے میں ممبر بننا جائز نہیں ہے، بلکہ یہ معصیت اور گناہ میں تعاون ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے: وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدہ ۵:۲)
آج کل نمایشوں میں یہ طریقہ بھی مروج ہے کہ نمایش گاہ کے اندر جانے کے لیے ٹکٹ متعین ہوتا ہے۔ نمایش کے منتظمین کی طرف سے یہ سہولت ملتی ہے کہ جو شخص مثلاً ۱۰ ٹکٹ یک مشت خرید لے گا، اسے ایک ٹکٹ مزید دیا جائے گا، جس کی وجہ سے ۱۰ ٹکٹ خریدنے والا شخص بھی نمایش گاہ میں داخل ہونے کا مستحق ہوسکے گا، بلکہ یک مشت ٹکٹ خریدنے والے کے لیے انعام بھی مقرر ہوتا ہے، جس کی ادایگی قرعہ اندازی کے ذریعے کی جاتی ہے۔
یہ صورت اگرچہ صریح قمار کی نہیں ہے کیوں کہ ٹکٹ کے ۱۰ خریدار مہیا کرنے پر اس نے جو محنت کی تھی، اس کا معاوضہ اسے بطور داخلہ نمایش گاہ میں ملتا ہے، جو حقیقت میں اُجرت ہے اور شرعاً اُجرت لینا درست ہے، البتہ اگر اس شخص کی نیت ہی موہوم انعام حاصل کرنا ہو تو وہ ایک گونہ ’قمار‘ کا ارتکاب کر رہا ہے، اس لیے اس سے بچنا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی شخص صرف نمایش دیکھنے کی غرض سے گیا اور اسے ۱۰ اور نمایش گاہ دیکھنے والے مل گئے اور ان سب کا پیسہ اکٹھا کر کے اس نے سب کے لیے یک مشت ٹکٹ خریدا اور پھر اسے مفت ایک اور ٹکٹ یا انعام مل گیا، تو وہ قواعد کی رُو سے ’قمار‘ کا مرتکب نہیں کہلائے گا۔ (اسلام اور جدید معاشی مسائل، ص ۲۷۵)
بعض لوگ برابر رقم لگاکر کاروبار میں شرکت کرتے ہیں۔ شروع سے یہ بات طے ہوتی ہے کہ ہر ماہ قرعہ اندازی میں جس کا نام نکل آئے گا، وہی نفع و نقصان کا ذمہ دار ہوگا، خواہ ہر ماہ ایک ہی آدمی کے نام قرعہ نکلتا ہو۔ اس سلسلے میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ فرماتے ہیں: یہ طریقہ مکمل طور پر قمار، یعنی جوا ہے، اس لیے شرکت کا یہ طریقہ ناجائز و حرام ہے۔ (احسن الفتاویٰ، ۸/۲۰۸)
تجارت کے مروّجہ طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ قسطوں پر روپیہ جمع کر کے سامان حاصل کرے اور اس کے ساتھ قرعہ اندازی میں نام نکل آنے پر کوئی زائد چیز بطور انعام بھی دی جاتی ہے۔ اس کی یہ صورت ہوتی ہے کہ کوئی تاجر یا کمپنی، سائیکل یا سلائی مشین وغیرہ کے سلسلے میں ۲۰ماہ کے لیے خریداروں کو ممبر بناتی ہے۔ ہر خریدار کو خریداری نمبر دیتی ہے اور ہرخریدار، مثلاً ۱۲روپے ۲۰ ماہ تک جمع کرتا رہتا ہے۔ اس طرح ہر خریدار ۲۰ ماہ میں کُل رقم مبلغ ۲۴۰روپے جمع کردیتا ہے، تو شے خریدار کو دی جاتی ہے اور ان ممبروں کی ترغیب و تحریض کے لیے تاجر یا کمپنی ہر ماہ قرعہ اندازی بھی کرتی ہے اور جس کا نام قرعہ اندازی میں نکل آتا ہے، اسے اختیار ملتا ہے کہ اب چاہے تو قسطیں بند کردے اور یہ سائیکل لے لے یا دوسری سائیکل قسطوں کے اختتام پر حاصل کرلے۔ کیا اس شکل کو بیع سلم مانا جائے گا یا نہیں؟ اور یہ جائز ہے یا نہیں؟
اس سلسلے میں حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہیؒ (متوفی ۱۹۹۶ئ) کا فتویٰ ملاحظہ فرمایئے: ’’بیع سلم کے لیے مجلس عقد میں (راس المال) ثمن پر مسلم الیہ کا قبضہ ضروری ہے۔ وہ یہاں مفقود ہے۔ اگر ثمن کا کچھ حصہ دے دیا جائے اور کچھ حصہ مسلم الیہ کی طرف بطور دَین کے ذمے میں پہلے سے تھا تومقدارِ دَین میں بیع سلم باطل ہوجائے گی اور صرف مقدار مخصوص میں صحیح رہے گی (جواہر الفقہ، ۲/۳۴۵)۔ اور صورتِ مذکورہ میں بائع کے ذمے مقدار بائع کو دی جائے اور پھر اس قرض کے عوض سائیکل خریدی جائے تو یہ بیع مداینہ کے قبیل سے ہوجائے گی۔ ہرماہ ایک سائیکل انعام میں دینا لالچ دے کر خریداروں کو بڑھانا ہے کہ خریدار بلاضرورت مبلغ ۱۲روپے ماہانہ جمع کرا دیا کریں، پھر ایک سائیکل تو بہرحال ملے گی ہی، ممکن ہے کہ انعام بھی نکل آئے۔ اگر اس انعام کی صورت میں خریدار کا روپیہ ضائع ہونے کی صورت نہیں، جیساکہ صورتِ مذکورہ سے ظاہر ہوتا ہے اور قیمت بھی پوری دیتا ہے، یہ نہیں کہ قیمت پوری ہونے سے پہلے (خواہ ایک ہی قسط پر سہی) اگر نام نکل آئے تو سائیکل مل جائے اور بقیہ قیمت ساقط ہوجائے، تب تو یہ صورت جائز معلوم ہوتی ہے، ورنہ تو یہ جوئے کی شکل میں ہوکر ناجائز ہوجائے گی۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل، ۶/۸۹)
بعض لوگ ایسی اسکیم چلاتے ہیں، جس میں چند ممبران اور ایک نگرانِ اعلیٰ ہوتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس میں ۲۵۰ ممبران ۵۰ ماہ کے لیے بنائے جاتے ہیں اور نگرانِ اعلیٰ بعض ممبر سے ماہانہ ۱۰۰ روپے اور بعض سے ۲۰۰ روپے وصول کرتا ہے اور ہر ماہ قرعہ اندازی کرتے ہیں۔ قرعہ میں اگر ۱۰۰ روپے والے کا نام نکل آتا ہے تواس کو ۵ہزار روپے اور اگر ۲۰۰ والے کا نام نکل آتا ہے تو اس کو ۱۰ ہزار روپے دیتے ہیں، اور اخیر ماہ میں بقیہ تمام ممبران کو اپنی جمع کردہ رقوم واپس مل جاتی ہیں۔ ایک بار قرعہ اندازی میں جن لوگوں کا نام نکل آیا، دوبارہ نہ تو اس کا نام قرعہ اندازی میں شامل کیا جاتا ہے اور نہ ان سے بقیہ اقساط ہی وصول کی جاتی ہیں، بلکہ ان کی بقایا اقساط کی ادایگی کی ذمہ داری نگرانِ اعلیٰ پر ہوتی ہے کہ ہر ماہ قرعہ میں نام نکلنے والے ممبر کو رقم ادا کرنے کے بعد جو رقم بچتی ہے، اس کے لیے ممبران نے اسے یہ حق دیا ہے کہ ان کی اس رقم سے نگرانِ اعلیٰ ۵۰ماہ تک جو چاہیں کاروبار کریں، لیکن ۵۰ ماہ کی مدت کے بعد باقی تمام ممبران کو مقررہ وقت پر ان کی تمام جمع شدہ رقم بغیر کسی نفع یا نقصان کے واپس کرنی ہوگی۔ اس لیے نگرانِ اعلیٰ اپنا نقصان کو پورا کرنے کے لیے ان کی جمع کی ہوئی رقوم سے کاروبار کرتے ہیں۔
مذکورہ اسکیم واضح طور پر قمار اورسود ہے، کیوں کہ اس اسکیم میں اہم شرط یہ ہے کہ جس ممبر کا نام بھی قرعہ میں نکل آیا، اس سے بقیہ اقساط نہیں لی جائیں گی اور نام نکل آنے پر اسے مقررہ رقم دی جاتی ہے۔ دوسری طرف یہ کہ رقم جمع کرانے کا مقصد زیادہ رقم حاصل کرنا ہوتا ہے اور اسکیم جاری کرنے والے کی تحریک بھی یہی ہوتی ہے کہ ہرممبر قرعہ اندازی میں حصہ لے کر نام نکلنے پر زائد رقم حاصل کرے۔ اس وجہ سے اس میں جوا اور سود دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں جو کہ حرام و ناجائز ہیں۔ لہٰذا اس اسکیم میں شرکت اور تعاون کرنا حرام ہے۔ اس اسکیم کے تحت اگر کسی شخص کو ۱۰۰ روپے کے بدلے ۵ہزار روپے اور ۲۰۰ روپے کے بدلے ۱۰ ہزار روپے ملتے ہیں، وہ زائد رقم اس کے لیے جائز نہیں، لہٰذا بلانیت ثواب غربا پر خرچ کردے۔ (درمختار مع شامی، ۴؍۲۰۹)
ایک موٹر سائیکل جو نقد لینے سے ۵ہزار روپے میں ملتی ہے اور قسط وار لینے سے ۵۵۰۰ روپے میں ملتی ہے تو کیا ایسی چیز کو قسط وار لینا جائز ہے؟
اس سلسلے میں مولانا مفتی محمودحسن صاحبؒ ایک سوال کے جواب میں رقم طراز ہیں: ’’نقد اور ادھار کی قیمت میں فرق ہونا منع نہیں، مگر قسطیں متعین ہوجائیں اور پھر یہ نہ ہو کہ کسی قسط کے وقت متعین پر وصول نہ ہونے سے مزید اضافہ قیمت میں کیا جائے، وصول شدہ رقوم ہی ضبط ہوجائے اور موٹر سائیکل بھی ہاتھ سے چلی جائے۔ ایسی صورت میں تو شرعاً یہ معاملہ درست نہیں، بلکہ اس میں سود اور جوا ہوگا۔ ان دونوں کی ممانعت نصوص میں مذکور ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ، ۱۳؍۳۵۶، نیز دیکھیے: آپ کے مسائل اور ان کا حل، ۶/۲۶۹)
آج کل یہ بھی رائج ہے کہ لوگ غریبوں کی آسانی کے نام پر ان کے خون پسینے کی کمائی کو چوستے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ معمولی قیمت کی چیز کوقسط وار روپے وصول کرنے کی اسکیم کے تحت زیادہ قیمت میں فروخت کیا جائے۔ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ نقد اور اُدھار میں قیمت کے اعتبار سے فرق ہونا شرعاً ممنوع نہیں ہے ،لیکن اس کے پیچھے جو شرائط ہوتی ہیں، ان کی وجہ سے معاملہ عموماً صحیح نہیں ہوپاتا ہے۔
زمین کے قسط وار بیچنے کی ایک صورت یہ ہے کہ، مثلاً ۲۰۰ گز زمین کی قیمت ۶۰ہزار روپے متعین کی جاتی ہے اور خریدار کو پابند کیا جاتا ہے کہ اس میں ۵ہزار روپے نقد ادا کرے اور بقیہ رقم ماہانہ ۵۰۰ روپے کے حساب سے ۱۱۰ ماہ تک مسلسل ادا کرے۔ اگر معاملہ صرف اتنا ہی ہو تو غریبوں کو واقعتا آسانی ہوگی اور ان حضرات کا یہ عمل قابلِ ستایش ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض دفعہ اس میں ایک اور شرط لگا دیتے ہیں کہ قسط وار خریدنے والے شخص نے اگر ہر ماہ ۵۰۰روپے کی ادایگی میں کسی وجہ سے تاخیر کی، تو اس کے جرمانہ میں وہ کچھ زائد رقم ادا کرے گا، مثلاً ایک مہینے تک کوئی خریدار قسط جمع کرنے میں ناغہ کردے تو۵۰۰ روپے کے بجاے ۵۲۰ روپے اگلے ماہ میں جمع کرانا ہوںگے۔ یہ ۲۰ روپے ظاہر ہے کہ سود ہے جو کسی طرح درست نہیں ہے۔ اگر کسی شخص نے مزید تاخیر کی اور مسلسل چھے ماہ تک اپنی قسط جمع نہ کرسکا، تو سود کی شرح مزید بڑھا دی جاتی ہے۔ بعض دفعہ یہ شرط بھی شامل ہوتی ہے کہ اگر خریدار مسلسل ایک یا دو سال (حسبِ ضابطہ) تک اپنی قسط جمع نہ کرسکا، تو اس کے پہلے کی جمع شدہ رقم ضبط ہوجائے گی۔ ظاہر ہے، یہ بھی سود ہے، جس کی وجہ سے معاملہ باطل قرار پاتا ہے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل، ۶/۲۶۶-۲۶۸)
اس دور میں سود و قمار کے علاوہ ایک خرابی یہ ہے کہ جب تک خریدار مکمل قسط ادا نہیں کرتا، اس وقت تک اس کو خریدی ہوئی زمین قانونی طور پر سپرد نہیں کی جاتی ہے، یعنی اس زمین کے متعلق کاغذات میں اس کا نام شامل نہیں کیا جاتا، بلکہ بیچنے والے ہی کے قبضے میں رہتی ہے، حالانکہ خریدار کو بیع کی سپردگی ایک لازمی شرط ہے۔
آج کل بعض نوجوانوں میں قرعہ ڈالنے کا یہ طریقہ بھی رواج پا رہا ہے کہ چند لوگ روزانہ ایک ہوٹل میں جمع ہوجاتے ہیں اور آپس میں قرعہ اندازی کرتے ہیں، جس کا نام نکلتا ہے وہی کھلاتا ہے۔ اس میں اکثر ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کسی آدمی کا نام ہفتے میں چار مرتبہ آیا، کسی کا دومرتبہ اور کسی کا ایک مرتبہ بھی نہیں آیا، اور بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ کبھی کبھار ہوٹل میں ملاقات ہوجاتی ہے تو آپس میں قرعہ اندازی کرتے ہیں اور پھر جس کا نام نکل آتا ہے، وہ آج کے تمام اخراجات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ قرعہ اندازی کے ذریعے کھلانے پلانے کا یہ طریقہ صریح قمار ہے اور بالکل جائز نہیں ہے۔ البتہ پہلی صورت میں اس طرح ہو کہ جس کا نام ایک بار قرعہ میں نکل آئے، آئندہ اس کا نام قرعہ اندازی میں شامل نہ کیا جائے، یہاں تک کہ تمام رفقا کی باری پوری ہوجائے، تو جائز ہے۔ دوسری صورت میں تو کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ اس لیے اس طریقے سے کھانا پینا نہیں چاہیے۔(فتاویٰ محمودیہ، ۱۳/۳۵)
آج کل ایسے ادارے بھی ہیں جو ممبر در ممبر اسکیم کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ادارہ ایک آدمی کو ممبر بناتا ہے اور اس سے ۵۰۰ روپے فیس لیتا ہے اور اس کے ذمے یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ مزید پانچ ممبر ادارے کے لیے بنائے۔ جب وہ ایک آدمی کو ادارے کا ممبر بنادیتا ہے تو اس شخص کو ۲۰۰ روپے ملتے ہیں اور جب پانچ ممبر کی تعداد مکمل کردیتا ہے تو اسے مزید ۸۰۰روپے ملتے ہیں۔ اس طرح اسے ایک ہزار روپے مل جاتے ہیں۔ ادارہ ہر نئے ممبر سے ۵۰۰روپے ممبری فیس وصول کرتا ہے اور اس پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ ادارے کے لیے پانچ ممبر بنائے اور اس طرح ممبر بنانے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جب بھی ادارے میں نئے ممبر کا اضافہ ہوتا ہے تو ادارے کو بلامحنت و مشقت مفت میں ۳۰۰ روپے کا فائدہ ہوجاتا ہے اور ممبر کو بلاعوض ۲۰۰ روپے کا فائدہ ہوتا ہے۔ یہ اسکیم کھلی ہوئی قماربازی ہے اور اس میں سود بھی پیدا ہوجاتا ہے، اس لیے یہ صورت ناجائز و حرام ہے۔
انعامی بانڈز کے نام سے بنک جب کوئی سیریز (series) نکالتا ہے تو اس بانڈ کو لوگ خریدتے ہیں۔ اس سیریز کے ذریعے جو رقم عوام سے بنک وصول کرتا ہے، اسے بنک عموماً سودی قرضے پر لگا دیتا ہے۔ پھر بنک سود وصول کر کے اس میں سے کچھ اپنے لیے رکھتا ہے اور کچھ قرعہ اندازی کے ذریعے ان لوگوں میں تقسیم کردیتا ہے، جنھوں نے انعامی بانڈ خریدے تھے۔
انعامی بانڈ میں ملنے والی رقم ناجائز و حرام ہے، کیوں کہ قرعہ اندازی کی جو رقم عوام کو ملتی ہے وہ اصل میں سود ہی کی رقم ہوتی ہے۔ اگر یہ شکل ہو کہ بنک اس رقم کو سودی قرض پر نہ دے، بلکہ اس کو کسی اور جائز کاروبار میں لگا دے اور اس کاروبار سے جو نفع ہو، وہ نفع قرعہ اندازی کے ذریعے بانڈ خریدنے والوں کو تقسیم کردے، پھر بھی انعامی بانڈ پر ملنے والی یہ رقم جائز نہیں ہوگی۔ اس کے ناجائز ہونے کی کئی وجوہ ہیں:
۱- پارٹنرشپ کے بزنس میں نفع و نقصان دونوں کا احتمال ہوا کرتا ہے، جب کہ یہاں بنک کی طرف سے نقصان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
۲- شرعی اُصول کے مطابق پارٹنرشپ کے کاروبار میں جب نفع ہوتا ہے، تواس میں نفع میں سے شریک پارٹنر کو حصّۂ رسدی کے اعتبار سے نفع ملنا چاہیے۔ شرکا کے درمیان نفع کی تقسیم قرعہ اندازی کے ذریعے کرنا کھلا ہوا قمار ہے، کیونکہ اس میں کچھ کوتو نفع ملتا ہے، جب کہ بعض کو بالکل نہیں ملتا۔ بنک والے اگرچہ اسے انعام کا نام دیتے ہیں، لیکن زہر کو اگر کوئی تریاق کہے تووہ تریاق نہیں بنتا، بلکہ زہر اپنی جگہ زہر ہی رہتا ہے۔ اس لیے یہ انعام نہیں حقیقت میں قمار اور سود ہے، جو شرعاً درست نہیں۔ (نصب الرایۃ، ۴؍۱۷)
آج کل دکان داروں کے یہاں چٹھی ڈالنے کا رواج عام ہے۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ چند آدمی آپس میں مل کر قرعہ اندازی کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے ایک صدر منتخب کرتے ہیں۔جملہ حضرات اس کے پاس یومیہ روپیہ جمع کرتے ہیں اور ہر ماہ قرعہ اندازی کے ذریعے کسی ایک کو اس پوری رقم کا مستحق قرار دیتے ہیں، مثلاً ۲۰ افراد پر مشتمل کمیٹی بنائی جاتی ہے اور ہرشخص یومیہ ۱۰۰ روپے صدر کمیٹی کے پاس جمع کرتا ہے۔ تمام افراد کا روپیہ مل کر ایک ماہ ۶۰ہزار روپے ہوجاتا ہے۔ اس رقم کو پہلے ماہ میں صدرکمیٹی کو بلاقرعہ اندازی کے دے دیتا ہے۔ دوسرے ماہ سے باقی ۱۹ افراد کے نام قرعہ اندازی کی جاتی ہے، جس شخص کا نام قرعہ میں نکل آتا ہے اس کو ایک ماہ کی جملہ رقم ۶۰ ہزار روپے دے دی جاتی ہے۔ اسی کو بعض علاقوں میں بیسی ڈالنا بھی کہتے ہیں۔
اس میں ہرشخص کو اپنی جمع کی ہوئی رقم مکمل طور پر مل جاتی ہے، نہ اس میں زیادہ ملتی ہے نہ کم، البتہ اس میں اتنی بات ضرور ہے کہ ہر آدمی کو تقدیم و تاخیر سے رقم ملتی ہے۔ چٹھی ڈالنے کی یہ صورت شرعاً جائز ہے، جب کہ باری باری سب کو ان کی رقم واپس مل جائے گی۔ یہ ایک دوسرے سے تعاون اور قرضِ حسنہ کی صورت ہے، اس لیے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ (دیکھیے: آپ کے مسائل اور اُن کا حل، ۶/۲۶۲)
چٹھی ڈالنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک کمیٹی کل ۱۰۰ ممبر۱۵ ماہ کے لیے بناتی ہے۔ ہر ممبر سے یومیہ ۱۰۰روپے وصول کرتی ہے اور ہر ماہ قرعہ اندازی کرتی ہے اور جس ممبر کا نام قرعے میں نکل آتا ہے وہ ۱۵ ماہ میں جتنی رقم جمع کرنا پڑے گی، اتنی رقم اسی وقت لے لیتا ہے اور بقیہ مہینوں میں اسے کوئی رقم کمیٹی والوں کو ادا نہیں کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح ۱۵ ماہ سے پہلے ہر مہینے کے اختتام پر قرعہ اندازی میں جس کا نام نکل آتا ہے، اسے ۱۵ ماہ میں جتنی رقم جمع کرنی ہوتی ہے، اتنی ہی رقم دے دی جاتی ہے اور اس کا تعلق کمیٹی سے بالکل ختم ہوجاتا ہے۔۱۵ ماہ مکمل ہونے پر بقیہ ممبروں کو بیک وقت ۴۵، ۴۵ ہزار روپے دے دیے جاتے ہیں۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیے کہ پہلی مرتبہ جس کا نام قرعہ اندازی میں نکل آئے گا، وہ صرف ۳ہزار روپے دے کر ۴۵ہزار روپے حاصل کرے گا، اور جس کا نام دوسرے ماہ میں نکلے گا، وہ ۶ ہزار روپے جمع کرکے ۴۵ ہزار روپے لے لے گا۔ ایسا ہی تیسرے اور چوتھے ماہ وغیرہ کا حال ہے۔ غرض جن جن ممبروں کورقم ملتی رہے گی ان کا تعلق کمیٹی سے ختم ہوتا رہے گا۔ ۱۵ ماہ پورے ہونے پر باقی ۵۰ ممبران کو بھی ۴۵، ۴۵ ہزار روپے ادا کردیا جاتا ہے۔
اب صورت حال کچھ اس طرح بنتی ہے کہ ۱۰۰ ممبران کی پہلی ماہ میں کمیٹی کے پاس ۳لاکھ روپے جمع ہوتے ہیں اور اس میں وہ قرعے میں نام نکلنے والے شخص کو ۴۵ ہزار روپے ادا کردیتی ہے تو اس کے پس ۲لاکھ ۵۵ ہزار روپے بچتے ہیں۔ اسی طرح ۱۵ ماہ کے اندر جس ایک آدمی کا نام قرعے میں نکلتا ہے تو ۴۵ ہزار ادا کرنے کے بعد کمیٹی کے پاس ایک معتدبہ رقم بچتی رہتی ہے۔ جب ۱۵ ماہ مکمل ہوجاتے ہیں تو پھر ہر ممبر کو ۴۵ ہزار روپے کمیٹی کو ادا کرنا پڑتے ہیں۔ اس طرح کمیٹی کو اپنی طرف سے مزید ۳ لاکھ ۱۵ ہزار روپے ادا کرنا پڑتا ہے، جو اس کا نقصان ہے،مگر اس نقصان کو پورا کرنے اور خود اپنا فائدہ نکالنے کے لیے وہ سیونگ بنک میں ہر روز اس رقم کو جمع کرتی ہے یا اس رقم سے اس طرح بزنس کرتی ہے کہ جب کوئی چیز مارکیٹ میں سستی ملتی ہے اس کا ذخیرہ کرلیتی ہے، اور جب مارکیٹ میں مال ختم ہوجاتا ہے یا مہنگاہوجاتا ہے تو اسے زیادہ قیمت میں فروخت کرتی ہے، یا پھر انعامی بانڈ زیادہ تعداد میں خرید لیتی ہے، جس سے اس کے نقصان کی تلافی ہوجاتی ہے اور اسے نفع بھی حاصل ہوتا ہے۔ چٹھی ڈالنے کی یہ صورت کھلا ہوا قمار اور سود کا مجموعہ ہے۔ اس لیے اس کے حرام اور باطل ہونے میں کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں ہے۔(احسن الفتاوٰی، ۷؍۲۶۔ آپ کے مسائل اور ان کا حل، ۶/۲۷۲)
سرکاری ملازمین اور کمپنی وغیرہ کے ملازمین کے درمیان یہ معاملہ بھی رائج ہے کہ ’امدادِ باہمی‘ کا عنوان دے کر ۲۰، ۲۵ ملازمین آپس میں اپنی تنخواہ سے ہر ماہ کی ایک مخصوص رقم جمع کرلیتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہے کہ ۲۰ ملازمین آپس میں اپنی تنخواہ سے ہر ماہ ۱۰۰ روپے جمع کرتے ہیں۔ پھر ان روپوں کو انھی ممبران میں کم قیمت پر فروخت کردیتے ہیں، یعنی جس ملازم ممبر کو دوسرے ضرورت مند ملازم کے مقابلے میں زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہ ۲ہزار کی رقم ہزار یا ۱۲۰۰ میں لے لیتا ہے اور جو رقم بچ جاتی ہے، باقی ۱۹ ممبران حصّۂ رسدی کے اعتبار سے آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ تمام ممبران ختم ہوجاتے ہیں، یعنی تمام ممبران باری باری اس طرح رقم لیتے رہتے ہیں۔یہ نظام شرعی نقطۂ نظر سے ناجائز و حرام اور غلط ہے، کیوں کہ اس میں ناجائز ہونے کی کئی وجوہ ہیں:
۱- تنخواہ کا یہ جزو نقد ہوتا ہے اور نقد کی خریدوفروخت کمی بیشی کے ساتھ جائز نہیں ہے۔ حدیث شریف میں، مثلاً: بمثل یدًا بیدٍ (جدید فقہی مسائل، ۱/۲۷۱، آپ کے مسائل اور ان کا حل، ۶/۲۷۰) برابر سرابر ہونے کو ضروری قرار دیاگیا ہے۔ شرعی اصطلاح میں اس معاملے کو ’بیع صرف‘ کہا جاتا ہے اور اس میں جو زیادتی ہوگی وہ سود ہوگی، والفضل ربوا اور سود شرعاً درست نہیں ہے۔
۲- اس معاملے میں سود کے ساتھ ساتھ قمار اور جوا بھی ہے۔ قمار کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اس بات کا امکان ہے کہ جس نے پہلی قسط لے لی، وہ مزید ۱۹ قسطیں جمع کرنے سے پہلے ہی انتقال کرجائے، تو اس صورت میں حسب ِ حصہ بقیہ تمام ممبروں کا حصہ ضائع ہوا۔ اسی طرح اگر کسی نے ابھی تک کوئی قسط نہیں لی اور اس دوران اس کا انتقال ہوجائے، تو اس کی جمع کی ہوئی رقم ضائع ہوجاتی ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ ۲۰ قسطوں کی ادایگی تک ہر شخص کا زندہ رہنا ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا اس طرح کی اسکیم میں شامل ہونا گویا مال کو موضوع ’خطر‘ میں ڈالنا ہے، جو درست نہیں ہے اور اسی کو فقہا ’قمار‘ کہتے ہیں: اس لیے یہ معاملہ ’قمار‘ میں داخل ہونے کی وجہ سے درست نہ ہوگا۔
۳- یہ معاملہ مفضی الی النزاع بھی ہے، یعنی اس میں نزاع و اختلاف کا بھی اندیشہ ہے۔ اس لیے کہ جو ممبر چند قسطیں دینے اور ۲ہزار وصول کرنے کے بعد درمیان سے نکل جانا چاہے تو بقیہ ممبران اس کو نکلنے نہیں دیں گے، جبر کریں گے یا دی ہوئی رقم کی واپسی کا مطالبہ کریں گے اور ظاہر ہے کہ اس میں نزاع پیدا ہوگی۔
اسی طرح اگر کوئی چند قسطیں دینے کے بعد ۲ہزار کی رقم وصول کرنے سے پہلے الگ ہونا چاہے اور اپنے دیے ہوئے روپوں کی واپسی کا مطالبہ کرے تو اس میں بھی نزاع کا اندیشہ ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے جو معاملہ اس طرح کا ہو، وہ ’غرر کثیر‘ میں شامل ہونے کی وجہ سے فاسد و ممنوع قرار پائے گا۔
بعض اداروں میں امدادِ باہمی کے نام سے یہ طریقہ جاری ہے کہ ایک ہی ادارے کے ملازمین اپنی تنخواہ سے ایک یا دو روپے فی کس کے حساب سے اس وقت جمع کرتے ہیں، جب کسی ملازم کی ملازمت کے دوران کسی حادثے میں مالی یا جانی نقصان ہوجائے، یا وہ حسنِ خدمت سے سبک دوش ہوجائے تو یہ روپیہ اسے یا اس کے ورثہ کو دے دیتے ہیں، تاکہ انھیں اسے لاحق ہونے والے حادثے میں کچھ مدد مل سکے۔ اس میں نہ تو قرعہ اندازی ہوتی ہے اور نہ واپسی کا مطالبہ ہوتا ہے اور نہ مفضی الی النزاع ہونے کا ہی امکان ہے۔ اس لیے یہ طریقہ شرعاً جائز و درست ہے، بلکہ حقیقی معنوں میں امدادِ باہمی ہے۔
جن اداروں سے اخبارات و رسائل اور بعض ماہنامے جاری ہیں، وہ اپنے ممبروں سے سالانہ چندہ وصول کرتے ہیں۔ ان میں ایک صورت لائف ممبری کی بھی ہوتی ہے، یعنی سالانہ چندہ وصول کرنے کے بجاے ان سے یک مشت رقم کچھ زیادہ مقدار میں لے لی جاتی ہے اور ادارہ اسے اطمینان دلاتا ہے کہ جب تک یہ ادارہ ہے آپ اس کے مستقبل ممبر اور رکن ہیں، اور جب تک یہ رسالہ یا اخبار جاری رہے گا، آپ کی خدمت میں یہ رسالہ پابندی سے پہنچتا رہے گا۔ بعض ادارے ایسے ممبروں کو محسن، مربی، معاون خصوصی وغیرہ کا نام بھی دیتے ہیں۔ لائف ممبری کے واسطے جو رقم دی جاتی ہے، وہ عموماً عطیہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اگر کسی وجہ سے رسالہ بند ہوجاتا ہے تو لائف ممبر ادارے سے واپسی رقم کا مطالبہ نہیں کرتا۔ بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ لائف ممبر بننا سود اور قمار میں داخل ہے۔ اس لیے یہاں اس کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔
لائف ممبری درحقیقت ایک اعزازی رکن ہوتا ہے اور جو رقم وہ دیتا ہے اس سے اس کا مقصود ادارے کو عطیہ اور اعانت و امداد کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ صورت جائز ہے اور جو پرچہ یا رسالہ ان کے پاس پابندی سے پہنچتا رہتا ہے، وہ بھی اعزازی طریقے پر ہی ہدیہ ہوتا ہے۔ یہ بیع و شراء نہیں ہے کہ بیع و ثمن کو کسی درجہ مجہول مان کر اسے ناجائز قرار دیا جائے۔ پس لائف ممبر بننا شرعاً جائز و درست ہے (آپ کے مسائل اور ان کا حل، ۶/۲۷۱-۲۷۲)۔ البتہ حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ نے اس کو قمار کی شکل قرار دے کر ناجائز قرار دیا ہے۔(بخاری، حدیث ۲۱۷۷، ۲۱۳۴، ۲۱۷۴۔ مسلم، باب الربا، حدیث ۱۹۸۴، باب الصرف و بیع الذہب بالورق فقدا، حدیث ۱۵۸۷، سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، باب فی الصرف، حدیث ۳۳۴۹)
’حل معما‘ کے عنوان سے بہت سے اخباروں اور ماہوار رسالوں میں ایک مخصوص کالم ہوتا ہے۔ آج کل یہ کاروباری شکل اختیار کرگیا ہے۔ معمے کی مختلف صورتیں لکھ کر اشتہار دیا جاتا ہے کہ جو شخص اس کا صحیح حل بھیجے اور اس کے ساتھ اتنی فیس، مثلاً ایک روپیہ بھیجے گا تو جن لوگوں کے حل صحیح ہوں گے، ان میں سے انعام اس شخص کو دیا جائے گا، جس کا نام قرعہ اندازی میں نکل آئے۔ اس میں بعض ادارے بڑے بڑے انعامات بھی مقرر کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عام غریب طبقے کے لوگ یہ سمجھ کر کہ فیس معمولی ہے، ایک روپیہ ضائع ہی ہوگیا تو کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا، اور انعام نکل آنے کی صورت میں دو تین لاکھ مل جائے گا۔ اس طمع میں قوم کے ہزاروں، لاکھوں افراد معموں کا حل اور ان کے ساتھ ایک ایک روپیہ بھیج دیا کرتے ہیں۔ یہ کھلا ہوا قمار اور جوا ہے، کیوں کہ اس میں ہرشخص ایک روپیہ اس اُمید پر روانہ کرتا ہے کہ مجھے ہزاروں روپے ملیں گے، اور اگر نہ مل سکے تو زیادہ سے زیادہ میرا صرف ایک روپیہ ضائع ہوگا۔ اسی کانام اسلام میں قمار ہے۔ بعض رسالوں میں یہ کاروبار کروڑوں کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ اس میں اگر وہ بے ایمانی نہ بھی کریں، بلکہ وعدے کے مطابق انعامات تقسیم کردیں، تب بھی ان حضرات کو لاکھوں کروڑوں کا فائدہ ہوتا ہے، جو حقیقت میں غریبوں کی کمائی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام غریب سے غریب ہوتے چلے جاتے ہیں اور وہ لوگ ان کا خون چوس کر کروڑپتی بنتے جاتے ہیں۔
اس شکل کے حرام اور ناجائز ہونے کی ایک یہی وجہ کافی ہے: کیوں کہ اسلام کے اقتصادی نظام میں اصولی طور پر شدت کے ساتھ اس کا انسداد کیا گیا ہے کہ دولت عوام کے ہاتھوں سے سمٹ کر چند افراد کے ہاتھوں میں چلی جائے۔ (فتاویٰ رحیمیہ، ۲/۴۲۳)
حل معما کا رواج اس وجہ سے اور بھی زیادہ سخت اور ہزاروں گناہوں کا مجموعہ ہوجاتا ہے کہ اِس میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے کے لیے علی الاعلان عوام کو دعوت دی جاتی ہے۔ ہر ایک آدمی جو اس میں حصہ لیتا ہے قرآن کے کھلے ہوئے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے، اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس طرح اِس کاروبار کے چلانے والوں پر ان سب کے گناہوں کا وبال ہوتا ہے اور جو لوگ اس کاروبار کی کسی طرح سے کسی درجے میں اعانت کرتے ہیں، وہ بھی شریکِ گناہ ہوتے ہیں۔ اس طرح بیک وقت لاکھوں، کروڑوں مسلمان علانیہ طور پر اللہ اور اس کے رسولؐ کے صریح حکم کے خلاف ورزی کرتے ہیں، جس میں دین دار مسلمان بھی شریک ہوجاتے ہیں۔ اس لیے اس سے پورے طور پر آدمی کو بچتے رہنا چاہیے۔
اسی طرح معما بازی کا ایک طریقہ ایسا بھی ہے کہ جس میں فیس تو جمع نہیں کرنی پڑتی، لیکن یہ ضروری ہے کہ معما کے حل کے ساتھ کوپن نمبر بھیجے۔ ادارے یہ اعلان کر دیتے ہیں کہ جو کوئی بھی معما حل بھیجیں گے، تو کوپن نمبر بھی ضرور بھیجیں، جن لوگوں کا حل صحیح ہوگا، ان میں سے قرعہ اندازی میں جس کا نام نکل آئے گا اس کو انعام دیا جائے گا۔
یہ صورت بھی لوگوں کو سبز باغ دیکھا کر پھنسانا ہے۔ کیوں کہ اس میں معمے کا حل بھیجنے کے لیے کوپن نمبر ضروری ہے اور کوپن نمبر کے لیے رسالہ یا اخبار کا خریدنا ضروری ہوگیا۔ اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ ایک رسالہ یا اخبار میں ایک ہی کوپن ہوتا ہے، اس کوپن کو کاٹ کر حل معما کے ساتھ بھیجنا پڑتا ہے۔ یہ طریقہ بھی ایک طریقے سے فیس ہی کی شکل ہے۔ اس لیے یہ بھی قمار ہے اور اس کے ناجائز ہونے میں کوئی تردد نہیں ہے۔
البتہ اگر کسی نے کوئی رسالہ یا اخبار پڑھنے کے لیے دیا ہے اور وہ اس سہولت پر بھی عمل کرلیتا ہے، تو کیا یہ بھی اسی صورت میں شامل ہے اور جائز ہے؟ اس میں ظاہری اعتبار سے تو کوئی قباحت نہیں، کیوں کہ اس نے اپنی طرف سے کوئی فیس کسی طریقے سے بھی ادا نہیں کی، بلکہ مفت میں کوپن مل جانے پر حلِ معما میں حصہ لیا۔ اگر اس کا نام قرعہ میں نکل آئے تو اس کو جو انعام ادارے کی طرف سے دیا جائے گا، کیا وہ اپنی طرف سے دے گا؟ ظاہر ہے اپنی طرف سے الگ سے رقم تو نہیں دے گا، بلکہ اس کو بھی اسی رقم سے انعام دے گا، جو دیگر افراد نے اپنی فیس کے طور پر جمع کی ہے۔ اس لیے اس طرح کے معما جات سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ (فتاویٰ محمودیہ، ۱۶/۴۴۸)
معما حل کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں نہ تو فیس ادا کرنی پڑتی ہے اور نہ کوئی کوپن ہی بھیجنا پڑتا ہے، بلکہ اس میں صرف معما کا حل بھیجا جاتا ہے۔ پھرجن لوگوں کا صحیح حل نکل آتا ہے، ان سب کے درمیان قرعہ اندازی کی جاتی ہے، جس کا نام قرعہ اندازی میں نکل آتا ہے اس کو انعام دیا جاتا ہے۔ اس صورت میں ظاہری اعتبار سے کوئی قباحت نظر نہیں آتی ہے۔ اس لیے معما حل کرنے کی یہ صورت شرعاً جائز و درست معلوم ہوتی ہے اور ایسا معما حل کرنے میں کئی لوگوں کے اندر علم کا شوق بڑھتا ہے اور انعام کو اس کے لیے ترغیب کا ذریعہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس لیے معما حل کرنے کی یہ صورت صحیح و درست ہے۔ (دیکھیے: جواہرالفقہ ۲/۳۴۴، فتاویٰ محمودیہ ۱۲/۳۵۸، اسلامی فقہ ۲/۲۵۶، ایضاح النوادر ۱/۱۳۳، حلال و حرام ۳۸۰ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)
مروجہ طریقوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض صنعتی و تجارتی اداروں کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے کہ ان کی مصنوعات کے سلسلے میں جو متعینہ ٹکٹ ادارے سے خرید کرکے فروخت کردے گا، ادارہ اس کو فلاں چیز (شئی مخصوص) بطور انعام دے گا۔ اس طریقے سے جو چیز حاصل کی جائے گی، وہ ناجائز و حرام ہوگی۔ اس کے ناجائز ہونے کی چند وجہیں ہیں: ایک تو اس میں یہ شرط چھپی ہوئی ہے کہ اگر متعینہ ٹکٹ نہ فروخت ہوسکا تو روپیہ ضبط ہوجائے گا۔ گویا اس کی منفعت بخت و اتفاق پر مبنی ہے اور اسی کو قمار کہتے ہیں۔ اسی طرح اس ’عقدِ بیع‘ میں یہ شرط لگانا کہ تم اتنے (متعین) ٹکٹ بیچ کر دوسرے خریدار مہیا کردو، تو فلاں شے دی جائے گی، شرط فاسد ہے۔ لہٰذا ان وجوہات کی بنا پر ٹکٹ بیچنے کا یہ طریقۂ کار بھی ناجائز و حرام اور باطل قرار پایا۔ (المجموع شرح المہذب، ۱۵/۱۵۰)
ہلال احمر (ریڈ کراس) خدمتِ خلق کے کاموں میں مشہور ہے اور اس کی خدمات نمایاں و قابلِ تحسین ہیں۔ مگر اس میں روپیہ جمع کرنے کا ایک طریقہ ایسا ہے جس میں قمار کی آمیزش پائی جاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ پانچ روپے اور تین روپے کی ٹکٹیں فروخت کی جاتی ہیں اور حاصل شدہ رقم میں سے ہر ماہ قرعہ اندازی کی جاتی ہے، جن لوگوں کے نام قرعہ میں نکل آتے ہیں ان کو ۳لاکھ اور ڈیڑھ لاکھ روپے انعام کے نام پر دیے جاتے ہیںاور جن لوگوں کا نام قرعہ میں نہیں نکلتا، ان کی رقم واپس نہیں ہوتی ہے، بلکہ وہ رقم سوخت (ضبط) ہوجاتی ہے اور بچ جانے والی رقم کو عطیہ خون، ایمبولینس، شفاخانوں، ایکسرے، لیبارٹری اور بیماروں کی تیمارداری وغیرہ میں خرچ کیا جاتا ہے، نیز ادارہ ناگہانی آفات سے متاثرہ ہونے والوں کی بھی امداد کرتا ہے۔ یہ سود اور جوئے کا مجموعہ ہے، اس لیے حرام ہے۔
اسی طرح میانمار (برما) میں خود حکومت کی طرف سے یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ وہ پانچ روپے سے لے کر ۵۰۰ روپے تک کے مختلف ٹکٹیں بیچتی ہے۔ ان میں چھے نمبر ہوتے ہیں اور حاصل شدہ رقم سے ہر ماہ ان نمبروں کے ذریعے قرعہ اندازی کی جاتی ہے۔ جن لوگوں کے ٹکٹ کا نمبر قرعہ میں نکل آتا ہے ان کو ۲ ہزار سے ۵ کروڑ تک جو مقرر ہے، وہ رقم انعام کے نام سے دی جاتی ہے، اور جن لوگوں کا نمبر نہیں نکلتا، ان کی رقم سوخت (ضبط) ہوجاتی ہے، اور بقیہ رقم رفاہی کاموں پر خرچ کرتی ہے اور فوجیوں کی تنخواہ وغیرہ دیتی ہے۔ نیز اس رقم سے اسلحہ وغیرہ بھی خریدا جاتا ہے اور دیگر ملازمین کی تنخواہ وغیرہ بھی دی جاتی ہے۔ ہر ماہ جن جن لوگوں کا نام قرعہ میں نکل آتا ہے، ان کو سرکار نے یہ سہولت بھی دے رکھی ہے کہ وہ اس رقم سے جو بھی کاروبار کرے گا، اس پر سرکاری ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا، خواہ یہ کاروبار نسل در نسل ہی کیوں نہ چلے۔
اسی طرح تھائی لینڈ حکومت کی طرف سے بھی چھے نمبر کی ٹکٹیں فروخت کی جاتی ہیں۔ اس کے فروخت کرنے کا یہ طریقہ ہوتا ہے کہ چھے نمبر میں سے کوئی ایک چُن کر اس پر جتنے روپے خریدار ادا کرسکتا ہے، ادا کرے، حتیٰ کہ پانچ روپے سے لے کر ۵ لاکھ اور ۵ کروڑ تک ایک ٹکٹ میں لگایا جاسکتا ہے، اور ہر ماہ قرعہ اندازی کرکے صرف ایک ہی نمبر نکالے جاتے ہیں، مثلاً: قرعہ میں ۵۷۹۶۴۳، یہ چھے نمبر نکل آئے، تو اب جن جن لوگوں کے پاس یہ مکمل نمبر ہوتے ہیں، ان کو ایک روپیہ کے بدلے پانچ سو (۵۰۰) روپے دیے جاتے ہیں، اور جن جن لوگوں کے پاس اخیر کا پانچ نمبر ۵۷۹۶۴ یا شروع کا پانچ نمبر ۷۹۶۴۳ موجود ہوتا ہے، ان کو ایک روپے کے عوض ۴۰۰ روپے، اور جس کے پاس اخیر کے چار نمبر ۵۷۹۶ یا شروع کے چار نمبر ۹۶۴۳ ہے اس کو ایک روپے کے بدلے ۳۰۰ روپے، اور جس کے پاس آخری تین نمبر ۵۷۹ یا شروع کا تین نمبر ۶۴۳ ہے، اس کو ایک روپے بدلے ۲۰۰ روپے کے حساب سے انعام دیا جاتا ہے اور جن کا ترتیب مذکور کے لحاظ سے نمبر نہیں ہوتا، ان کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ حتیٰ کہ ان کی رقم بھی واپس نہیں کی جاتی ہے بلکہ سوخت (ضبط) ہوجاتی ہے اور رقم کو حکومت رفاہی کاموں میں خرچ کرتی ہے۔ ان دونوں ممالک میں ٹکٹ بیچنے کا یہ طریقہ کھلا ہوا قمار اور جوا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس کا نام انعام رکھ دینے سے وہ انعام نہیں ہوجاتا کہ زہر کو تریاق کہنے سے وہ تریاق نہیں ہوجاتا۔
آج کل بازاروں میں لاٹری کی سیکڑوں صورتیں رائج ہیں، جن میں سے چند مشہور صورتوں کا تذکرہ گذشتہ سطور میں آچکا ہے۔ لاٹری کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ بازاروں میں مخصوص جگہ پر لاٹری کی ٹکٹیں مختلف قیمتوں کی ہوتی ہیں۔ خریدار وہاں پہنچتے ہیں اور اپنے لحاظ سے کسی ایک قیمت یا مختلف قیمتوں کے مختلف ٹکٹیں خرید لیتے ہیں۔ پھر اسے متعینہ رقم ملتی ہے، جو اکثر اوقات روپے ہی کی صورت میں ہوتی ہے، حالانکہ عقد معاوضہ میں ایک طرف سے کم اور دوسری طرف سے زیادہ رقم ہونے کی صورت میں سود ہوجاتا ہے، جو شرعاً درست نہیں ہے اور لاٹری نکلنے کی صورت میں یہی ہوتا ہے، نیز اس میں نفع و نقصان مبہم اور خطرے میں رہتا ہے کہ اگر نام نکل آیا تو نفع ہوگا اور اگر نہ نکلا تو اصل پونجی بھی ڈوب جائے گی۔ پھر یہ نفع ٹکٹ خریدنے والوں کی محنت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض بخت و اتفاق پر مبنی ہے کہ اسی کا نام نکل آیا۔ ایسے ہی مبہم اور پُرخطر نفع و نقصان کو ’قمار‘ کہتے ہیں، جیساکہ علامہ نوویؒ (۶۳۱-۶۷۶ھ) لکھتے ہیں: ’’قمار کا معاملہ ایسا ہے کہ اس میں کبھی دینا بھی پڑتا ہے اور کبھی مل بھی جاتا ہے‘‘(المجموع شرح المذہب، ۱۵/۱۵۰)۔ اسی طرح علامہ شامیؒ نے لکھا ہے: ’’قمار میں کبھی بڑھ جاتا ہے اور کبھی گھٹ جاتا ہے‘‘۔(رد المختار علی الدر المختار، باب الحظر والاباحۃ ، ۹/۵۷۷)
معلوم ہوا کہ لاٹری کی تمام صورتوں میں سود اور قمار دونوں پایا جاتا ہے، اس لیے وہ ناجائز و حرام ہیں،چنانچہ اکثر علماے اکابر نے بھی لاٹری کو حرام و ناجائز قرار دیا ہے۔(حلال و حرام، ۳۸۰، نیز دیکھیے: جواہرالفقہ ۲/۳۴۴، فتاویٰ محمودیہ ۱۲/۳۵۸، اسلامی فقہ ۲/۲۵۶، ایضاح النوادر ۱/۱۳۳)۔ (بہ شکریہ فقہ اسلامی، کراچی، جنوری ۲۰۱۰ئ)
آج کل بڑی بڑی کمپنیوں سے لے کر چھوٹے چھوٹے صنعت کار تک اپنے سامان کو لوگوں کے لیے پُرکشش بنانے کی غرض سے طرح طرح کی اسکیمیں بناتے رہتے ہیں۔ انھی میں سے ایک اسکیم ’قرعہ اندازی‘ کی ہے، جو اس وقت کثرت سے رائج ہے۔
عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ تاجر یا کمپنی وغیرہ ممبرسازی کے ذریعے سائیکل، موٹرسائیکل، ٹی وی، وڈیو وغیرہ فروخت کرتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی چیز کی اصل قیمت بازار میں مثلاً ۵ہزار روپے ہے تو وہ لوگ پوری رقم یک مشت لینے کے بجاے ۱۰۰ روپے ماہانہ ادا کرنے والے ۱۰۰ممبر ۴۵ ماہ کے لیے بناتے ہیں اور ہر ماہ پابندی کے ساتھ قرعہ اندازی کی جاتی ہے۔ اگر پہلے ماہ ہی کسی ممبر کا نام قرعہ اندازی میں آتا ہے تو اس کو وہ چیز صرف ۱۰۰ روپے میں مل جاتی ہے۔ اسی طرح ہر ماہ قرعہ اندازی میں نام نکلنے والے کو وہ چیز جمع شدہ رقم کے عوض ملتی رہے گی۔ اب ۴۵ماہ میں جتنے ممبر باقی رہیں گے، سبھی کو وہ چیز دے دی جائے گی۔
اس میں اسکیم چلانے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کو پہلے ماہ میں ۳۰ ہزار روپے مل جاتے ہیں، جس میں صرف ۵ہزار روپے کی چیز اسے دینی پڑتی ہے اور باقی ۲۵ ہزار روپے اپنی تجارت میں لگالیتا ہے، یا کسی دوسری ضرورت میں اسے صرف کرتا ہے۔ اس طرح اسکیم چلانے والے کو ۴۴ ماہ تک کچھ نہ کچھ رقم بچتی رہتی ہے اور صرف ۵ہزار کی چیز دینی پڑتی ہے۔
ممبروں کا فائدہ اس میں یہ ہے کہ پہلے ماہ کی قرعہ اندازی میں نام نکلنے والے کو ۱۰۰ روپے میں، دوسرے ماہ میں نام نکلنے والے کو۲۰۰ روپے میں اور تیسرے ماہ میں نام نکلنے والے کو ۳۰۰روپے میں ۵ہزار کی مقررہ چیز مل جاتی ہے، اور جس کا نام قرعہ میں نکل آتا ہے پھر اس کو بقیہ رقم بھرنی نہیں پڑتی، نہ اس کا نام دوبارہ قرعہ میں ڈالا جاتا ہے اور یہ معاملہ فریقین کی رضامندی سے طے ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمود حسنؒ رقم طراز ہیں: ’’یہ معاملہ شرعاً درست نہیں۔ وقتِ عقد ثمن بیع متعین ہونا چاہیے۔ وہ یہاں متعین نہیں، بلکہ مجہول میں کمی زیادتی ظاہر ہے۔ جتنی رقم دی ہے اس پر زیادتی کون سے عقد کی بنا پر ہے، اس کو قمار بھی کہا جاسکتا ہے اور ربا بھی‘‘۔ (شعبۂ تخصص فی الفقہ المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد کے سندھی مقالہ کا ایک حصہ)
مفتی شبیراحمد قاسمی (مراد آباد) لکھتے ہیں: ’’قرعہ اندازی اور اسکیم کا یہ معاملہ شرعی طور پر اور قمار دونوں کے دائرے میں داخل ہے۔ اس لیے اس طرح کی اسکیم میں حصہ لینا اور قرعہ اندازی سے طے شدہ اشیا حاصل کرنا ناجائز و حرام ہے۔ (شعبۂ تحقیق المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد)
غرض کہ یہ اسکیم شرعی طور پر سود اور قمار دونوں کو شامل ہے، کیوں کہ اس میں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ پہلے ماہ کی قرعہ اندازی میں کس کا نام نکلے گا، یا دوسری قرعہ اندازی میں کس کا نام آئے گا؟ یہ محض بخت و اتفاق پر مبنی ہوتا ہے۔ فقہا کے نزدیک اسی کو قمار کہتے ہیں، لہٰذا اس طرح کی اسکیم چلانا اور اس میں حصہ لینا اور قرعہ اندازی سے طے شدہ اشیا کا حاصل کرنے شرعاً ناجائز ہے اور اس سے اجتناب و احتراز ضروری ہے۔