مضامین کی فہرست


مئی ۲۰۲۰

ایک طرف دنیا بھر میں ’کورونا وائرس‘کی تباہ کاریوں نے ہرانسان کو دہلاکر رکھ دیا ہے، لیکن دوسری جانب بھارت کی سفاک حکومت اور فوج جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں میں کوئی کمی لانے کو تیار نہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس موقعے کو غنیمت جان کر، جموں و کشمیر کی سماجی و سیاسی اور قومی صورتِ حال کو تبدیل کرنے کے لیے پے درپے بڑےجارحانہ اقدامات بھی کیے جارہے ہیں۔ اس پس منظر میں دنیا بھر کے منصف مزاج لوگوں کو کشمیر کے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھنی چاہیے، اور ظالم کا ہاتھ روکنے کے لیے ہرممکن کوشش و کاوش کرنی چاہیے۔

پچھلے ۷۰سال سے میں تحریک آزادی کشمیر کو ہرپہلو سے دیکھ رہاہوں۔ اس کی تاریخ، اور حق خود ارادیت (self determination)کی تحریک کے اُتارچڑھاؤ پر مسلسل غور کرتا آیا ہوں اور ۶۰برس سے اس موضوع پر لکھ بھی رہا ہوں۔ میرا دل یہ گواہی دیتا ہے کہ ۲۰۱۶ءکے بعد اس تحریک کا جو دور شروع ہوا ہے اور خصوصی طور پر ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد جو صورتِ حال رونماہوئی ہے، اس سے یہ تحریک بڑی حدتک اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ البتہ یہ فیصلہ کن دور کتنا طویل یا مختصر ہوگا،فوری طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ آثاروشواہد یہ بتا رہے ہیں کہ ان شا ء اللہ یہ فیصلہ کن دور ہے اور اس کےلیے ہم سب کو بہت سوچ سمجھ کر اور مؤثر اور مربوط انداز سے طرزِفکر اور طرزِعمل اختیار کرنا ہوگا۔

اجتماعی زندگی کی جدوجہد میں ہم بہ حیثیت قوم کچھ معاملاتِ زندگی کو مؤخر کرسکتے ہیں، کچھ چیزوں کو حکمت یا مصلحت کی بنیاد پر نظرانداز بھی کرسکتے ہیں،لیکن مسلمان اور پاکستانی کی حیثیت سے کشمیر کونہ نظرانداز کرسکتے ہیں اور نہ ثانوی حیثیت دے سکتے ہیں۔ اسے ہرحال میں مرکزی حیثیت حاصل رہنی چاہیے۔ اس معاملے پر جتنا پاکستانی قوم کو بیدار کریں گے، جتنا سیاسی جماعتوں پر اور پھر حکومت پر یاددہانی کے لیے دباؤ بڑھائیں گے، اتنا ہی اس مقصد کے لیے مفید ہوگا۔ نیز پاکستانی حکومت، عوام اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ عالمی سطح پر اس مسئلے کو مؤثر انداز میں اُٹھانے اور بھارت پر عالمی دباؤ ڈلوانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیں۔ یہ مقصد محض بیانات اور ٹویٹر پیغامات سے حاصل نہیں ہوسکتا۔اس سلسلے میں بنیادی اور مؤثر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی فکر کریں گے، تو ان شاء اللہ اس کے مثبت اثرات رُونماہوں گے۔

تحریکِ کشمیر کا موجودہ مرحلہ

تحریک ِ کشمیر کا موجودہ اُبھار ایک مؤثر اور فیصلہ کن مرحلے کی بنیاد ہے۔ اس کی دونوں سطحیں بہت ٹھوس اور مثبت ہیں: یعنی اس میں مقدار (quantitative) کے اعتبار سے بھی مثبت تبدیلی ہے اور معیار (qualitative) کے لحاظ سے بھی جوہری فرق واقع ہوا ہے۔ معیاری تبدیلی کی نسبت سے مقبوضہ کشمیر کے اندر قابض بھارتی فوجوں اور دہلی کے حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کا جذبہ جس درجے میں بیدار ہے اور موت کا خوف جس سطح پر ختم ہوا ہے، یہ چیز اس تحریک آزادی کی بڑی نمایاں اور نہایت قابلِ قدر خوبی ہے۔ پھر اسی دوران میں وہاں بھارت نواز مسلم لیڈرشپ جس انداز سے بے نقاب ہوئی ہے، اس نے بھارتی فریم ورک میں کشمیرکے وجود کے بے معنی استدلال کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔ بلاشبہہ یہ آکاس بیل پوری طرح ختم نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ بنیاد فریب خوردہ لوگوں کی نظروں میں غیر مؤثر ہوئی ہے۔ اپنی جگہ یہ ایک بڑی اہم پیش رفت ہے۔

اسی طرح یہ بھی ایک اہم پیش رفت ہے کہ بھارت کے مختلف حلقوں، دانش وروں، میڈیا اور سیاسی گروہوں کی طرف سے بھی کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال اور کشمیر کے سٹیٹس کی تبدیلی پر اظہار خیال ہورہا ہے،جو اس سے پہلے نہیں نظر آتا تھا۔ الحمدللہ، یہ ایک بڑی مثبت تبدیلی ہے۔ یہ پہلو اپنے اندر بے پناہ امکانات رکھتا ہے۔

پھر ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بھارت کے سیاسی مقام، جغرافیائی کردار اور مختلف ممالک کے تجارتی مفادات کے باوجود، بین الاقوامی محاذ پر تنقید و احتساب کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں، اگرچہ بظاہر وہ کمزور اور غیرمؤثر ہیں، لیکن بہرحال بلند ہونے لگی ہیں۔ یہ پہلو بتا رہے ہیں کہ ہم ایک فیصلہ کن دور کی طرف بڑھ رہے ہیں یا اس دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ان امکانات کو کس طرح مؤثر انداز سے، مثبت رُخ کی جانب موڑ سکیں؟

کشمیری قیادت کا فرض

سب سے اہم میدان خود مقبوضہ کشمیر کے اندر ہے۔اس وقت تک محترم سیّد علی گیلانی صاحب نے بڑی بصیرت، بڑی ہمت، بڑی قوت اور کمال درجے کی ثابت قدمی کے ساتھ اس تحریک کو درست رُخ پر فعال اور متحرک رکھا ہے۔ لیکن اِن دنوں اُن کی صحت زیادہ ہی مخدوش ہے۔ ان کے لیے خلوصِ دل سے دُعاے صحت کی جائے۔ خرابی صحت اور تمام پابندیوں کے باوجود محترم گیلانی صاحب کو جو معمولی سےمعمولی مواقع ملتے ہیں، ان کو قوم کی رہنمائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اب اس بات کی اشدضرورت ہے کہ گیلانی صاحب کی معاون قیادت اس طرح اُبھرے کہ وہ تحریکی سوچ اور صحیح فکر رکھنے والے افراد پر مشتمل ہو۔ وہ قیادت گیلانی صاحب کی طرح ایمان کی پختگی ، تاریخ کے گہرے شعور، بے پناہ جرأت اور حکمت و تدبر کی حامل ہو۔ جذباتی ردعمل سے بچ کر چلنے والی دُوراندیش قیادت ہو۔ ان حالات میں وہاں پر نچلی سطح تک ایسی تحریک کو منظم اور مؤثر ہونا چاہیے، جو عوامی ہو، جمہوری ہو، مربوط ہو اور منزل و مقصد کا صحیح فہم رکھتی ہو۔ اُن کی آواز میں آواز ملانے کے لیے، دنیابھر میں اُن کے حلیف اور ہم آواز حلقوں کو پوری تندہی سے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے کہ عالمی منظرنامے پر اُن کی تائید و تحسین اُنھیں قوت فراہم کرسکے۔

اس وقت بھارت یہ کوشش کر رہا ہے کہ مختلف سیاسی محاذوں پر مقامی طور پر ایسی قیادت کو اُبھارے کہ جو بظاہر آزادی کی حامی ہو یا خودمختاری کے گمراہ کن نعروں کو بلندکرے، حالانکہ بھارت کے حالیہ اقدام کا ہدف کشمیر پر اپنے جبری قبضے (occupation) کو مستقل انضمام (annexation) میں بدلنا، کشمیر کی شناخت (identity)کو ختم کرنا اور آبادی کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہے، جو سامراجیت کی بدترین مثال ہے۔ ’خودمختاری‘ کی بات ایک فریب اور دوسری دفاعی لائن ہے، جس کی حقیقت کو سمجھنا اور دُنیا کو سمجھانا ضروری ہے۔ بڑی ہوش مندی سے سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اصطلاح بنیادی طور پر بھارتی مقاصد کو پورا کرنے کی ایک چال ہے۔ اس ضمن میں اگرچہ انھیں ابھی تک کامیابی نہیں ہوسکی ہے، تاہم ان کی پوری کوشش ہے کہ نقب لگائی جائے۔

انسانی حقوق کی پامالی اور حق راے دہی کا مطالبہ

مسئلہ کشمیر میں انسانی حقوق کا پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کو بہت اہم مقام حاصل رہنا چاہیے کہ یہ بات لوگوں اور اداروں کی سمجھ میں آسانی سے آسکتی ہے۔ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کو بے دردی سے پامال کررہا ہے اور وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی رُو سے انسان کشی (Genocides)اور جنگی جرائم (War Crimes) کا مرتکب ہورہا ہے۔ اس پہلو کو ساری دنیا میں اور خصوصیت سے بین الاقوامی اداروں بشمول اقوام متحدہ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اور یورپین ہیومن رائٹس کمیشن پر اُٹھانا ازبس ضروری ہے۔لیکن اس کے ساتھ یہ بات اوربھی زیادہ ضروری ہے کہ اصل ایشو بھارتی غاصبانہ قبضہ ہے اور عالمی سطح پر اس مسئلے کا طے شدہ ہدف صرف اور صرف حق خود ارادیت دلانے کے لیے استصواب راے (Plebiscite) ہے۔ یہی ایشو مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

بھارت چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو لوگ بھول جائیں، بھارت کے وعدوں کو بھی لوگ بھول جائیں، سلامتی کونسل کی قراردادوں کے برعکس کسی نام نہاد ثالثی (Arbitration) سے بٹوارا کرکے معاملے کو رفت گزشت کر دیا جائے۔لیکن نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ حق خود ارادیت کے مرکزی ایشو ہی کو ہرسطح پر اُٹھایا جائے اور ہرسطح پر اس کو مرکزیت حاصل ہونی چاہیے۔ نیز ثالثی کے جال (Trap)سے بچنا ازبس ضروری ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھارت پردباؤ ڈلوانا اورمسئلے کے حل کے عمل کومتحرک اور مؤثر بنانا ضروری ہے۔کشمیر کے مستقبل کا مستقل فیصلہ جموں و کشمیر کے عوام اپنی آزاد مرضی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بھارت اور پاکستان کی قیادت کے عہدواقرار کے مطابق ہی انجام دے سکتے ہیں۔

ہم پوری وضاحت اور نہایت واشگاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کا مسئلہ ایک عالمی مسئلہ تھا، عالمی مسئلہ ہے اور جب تک حل نہ ہوجائے عالمی مسئلہ رہے گا۔ اسے بھارت خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا۔ پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے وعدہ کیا کہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق اسے طے کیا جائے گا۔ یہ کبھی بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں تھا۔ اس کے بنیادی فریق بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام ہیں اور اقوامِ متحدہ/ عالمی برادری بھی اس میں برابر کی شریک اور حل کروانے کے لیے ذمہ دار ہے۔ اس نکتے کو ہمارے عالمی اقدام (Diplomatic Offences) کا حصہ ہوناچاہیے۔ عالمی سیاست میں مفادات کے کھیل کی روشنی میں جہاں ازبس ضروری ہے کہ بھارت پر عالمی دباؤ کو مؤثر بنانا چاہیے جس کے لیے عالمی برادری کی سہولت کاری (Facilitation)، مداخلت (Intervention) اور دباؤ (Pressure) ضروری ہوگا،وہیں دوسری جانب ثالثی کے فریب میں پھنسنا مہلک ہوگا، جس سے ہرصورت میں بچنا لازمی ہے۔ حل ایک ہی ہے وہ یہ کہ کشمیر کے عوام کی راے دہی اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں قراردادوں کے مطابق استصواب راے۔

بلاشبہہ ہماری خارجی سیاست میں بھارت کے فسطائی نظام اور بھارت میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں سے جو بدسلوکی اور امتیازی رویہ (discrimination  ) روز افزوں ہے، اسے ایکسپوز کرنا بھی چاہیے اور اس کے لیے الگ سے حکمت عملی اور نظامِ کار بناناضروری ہے۔ لیکن کشمیر کے مسئلے کی خصوصی نوعیت کی بناپر اس مسئلے کو اس کے اپنی حرکیات (dynamics ) کی وجہ سے الگ اور مرکزی مسئلے کے طور پر پیش کرنا ہماری حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے۔ بھارتی مسلمانوں اور وہاں کی اقلیتوں کے حقوق کی بات بھی ضروری ہے لیکن اسے مسئلہ کشمیر سے گڈمڈ کرنے سے احتراز برتنا لازم ہوگا۔

حق خود ارادیت اور مزاحمت

یہ معاملہ بھی پوری منطقی ترتیب کے ساتھ مدِنظر رہنا چاہیے کہ جہاں ناجائز قبضہ (occupation) ہوگا، وہاں مزاحمت (resistance) ہوگی۔ غاصبوں سے آزادی حاصل کرنے کا حق (right to liberation) ایک بنیادی انسانی حق ہے، جسے اقوام متحدہ کا چارٹر بھی تسلیم کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ۲۰۰ ممبر ممالک میں سے ۱۵۰سے زیادہ ملک اسی حق خود ارادیت کی بناپر آزاد ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور یہ حق اقوامِ متحدہ نے تسلیم کیا ہے کہ: حق خودارادیت جمہوری طریقے سےنہ ملے اور اس حق کو قوت سے ختم کرنے کی کوشش کی جائے توآپ کو اپنے تحفظ کے لیے مزاحمت کا بنیادی حق حاصل ہے، جسے کوئی نہیں چھین سکتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حق کے استعمال کو دہشت گردی سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ لیکن نائن الیون کے بعد بھارت نے کشمیری حُریت پسندوں کی تحریک کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی۔یہ تو تازہ ترین واقعہ ہے کہ طاقت ور ملکوں کی دھونس، دھاندلی اور ظلم و جبر کو مسترد کرنے والے افغان طالبان کل تک ’دہشت گرد‘ قرار دیے جاتے تھے، لیکن آج ان سے گفتگو اور معاہدہ کرکے مسئلے کو حل کیا جارہا ہے۔

’کشمیر کمیٹی‘ کی ذمہ داری

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی ’کشمیرکمیٹی‘ گذشتہ ۱۵،۲۰ سال سے اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ موجودہ حکومت کے پہلے آٹھ مہینےمیں اس کمیٹی کا کوئی سربراہ نہ تھا، اور جب سربراہ مقرر ہوا تو ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابرہے۔ غالباً یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کشمیرکمیٹی کا سربراہ کابینہ کی نشستوں میں شریک تو ہوا، لیکن خود کشمیر کمیٹی کی کارکردگی کا کہیں کوئی وجود تک نہ تھا۔ اب پھر یہ نشست خالی ہوگئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعتی مصالح سے بالاتر ہوکر ’کشمیر کمیٹی‘ کو حقیقی معنی میں قومی کمیٹی بنایا جائے اور ایک لائق اور متحرک شخص کو اس کا سربراہ مقررکیا جائے، جو پوری یکسوئی کےساتھ کشمیر کے کاز کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پیش کرے۔ اس سلسلے میں اعلیٰ سفارتی تجربہ رکھنے والے کسی شخص کو کشمیر کے سلسلہ میں اسپیشل ایڈوائزر بنانے کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ ’کشمیر کمیٹی‘ اور اس کے سربراہ کو بالکل اس جذبے سے اپنا فرض منصبی ادا کرنا اور کمیٹی کو چلانا چاہیے کہ جس طرح غزوئہ اُحدمیں خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد پہاڑ کی ایک پوزیشن پر تیرانداز ٹیم کو کھڑا کرکے فرمایا تھا کہ: ’کچھ بھی ہو آپ نے یہ پوزیشن نہیں چھوڑنی‘۔ مگر اُن کے پوزیشن چھوڑ دینے پر ریاست مدینہ کو شدید نقصان اُٹھانا پڑا تھا۔

آزادکشمیر حکومت کا ہدف

اس کے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ آزادکشمیر کی حکومت کشمیرکاز کے فروغ کے لیے جموں و کشمیر اور عالمی سطح پر ایک نیا اور مؤثر کردار ادا کرے۔ اس کے لیے اسے پہل قدمی(initiative) کرکے لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے۔ وہاں اس وقت صدر اوروزیراعظم دونوں دردِ دل رکھنے والے سمجھ دار رہنما ہیں۔ ان سے بات کرکے آزادکشمیر میں سرکاری سطح پر کمیٹی بنائی جائے، جس میں سابقہ وزراے خارجہ اور خاص طورپرلائق سابق سفارت کاروں سے معاونت لی جائے اور ان کے اشتراک سے ایک ٹیم بنائی جائے۔

یورپ، مشرق بعید، امریکا اور عرب دنیا میں جو لوگ موجود ہیں، انھیں کردار ادا کرنے کی دعوت دی جائے۔ بھارت کے معاشی اور سیاسی بائیکاٹ کی مہم پر بھی غور ہونا چاہیے۔ جنوبی افریقہ کی آزادی کی تحریک میں اس چیز کا کلیدی کردار تھا۔ فلسطین کی آزادی کی موجودہ تحریک اس سلسلے میں مؤثر اقدام کر رہی ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادوں، عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹوں، جنرل اسمبلی کی قراردادوں وغیرہ کی بنیاد پر یہ کوشش کی جائے کہ قانونی طور پر بھی کشمیر کا مقدمہ عالمی اداروں اور عالمی عدالت انصاف میں پیش کیا جائے۔

سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر ا نٹر نیشنل کانفرنس کی اپنی افادیت ہے لیکن اس سے بھی اہم یہ ہے کہ مختلف ملکوں کے پارلیمنٹیرینز سے براہِ راست ملاقات ہو اور پارلیمنٹس میں کشمیر پر قرارداد لانے کی کوشش ہو ۔ ہیومن رائٹس آرگنائزیشنز سےرابطے ہوں، ان سے قراردادیں منظور کرانے کی کوشش ہو۔

آزاد کشمیر میں اتفاق راے اور پاکستانی سیاست

یہاں پر ایک بار رُک کر یہ بات بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ آزادکشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں ،اپنی پاکستانی سیاسی پارٹیوں سے سیاسی وابستگی کو ختم کرکے ایک قومی حکومت بنائیں ؟ یا الگ الگ وجود رکھنے اور اپوزیشن کے باوجود ایک چھت تلے بیٹھ کر یہ طے کریں کہ ہم صرف اور صرف کشمیر کی آزادی، اور کشمیر میں بہترین حکومت سازی اور ڈسپلن کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور پاکستانی سیاست کو آزادکشمیر کی سیاست میں نہیں لائیں گے۔ یاد رہے کہ ۱۹۷۲ء تک پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا یہی موقف تھا۔ لیکن پاکستانی سیاسی پارٹیوں کو کشمیر کی سیاست میں دھکیلنے کی ابتدا ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے کی تھی۔ تاہم،۴۸برس کے اس تجربے سے اندازہ ہوا ہے کہ پاکستانی سیاست کے آزاد کشمیر میں عمل دخل نے جدوجہد کو بُری طرح نقصان پہنچایا ہے۔اس لیے اتفاق راے سے تمام پاکستانی سیاسی پارٹیاں ۱۹۷۲ء سے پہلے کی پوزیشن اختیار کرلیں۔یہاں پر مَیں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگرچہ ۱۹۷۴ء سے آزادکشمیر میں جماعت اسلامی بھی قائم ہے، لیکن جماعت اسلامی پاکستان نے کسی درجے میں اس کی پالیسیوں اور معاملات میں کبھی کوئی دخل اندازی نہیں کی، نام اگرچہ ایک ہے لیکن ہرسطح پر اور ہردرجے میں وہ الگ تنظیم ہے اور پاکستان کی جماعت کی شاخ نہیں ہے۔

آزاد کشمیر پیراملٹری فورس کی ضرورت

 ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ آزادکشمیر فوج تو نہ بنائے لیکن پیراملٹری فورس کے بارے میں ضرور اقدام کرے، تاکہ جب ڈی ملٹرائزیشن کی بات کی جائے گی اور پاکستان کی طرف سے فوج کو نکالا جائے گا تو فطری طورپر آزادکشمیر کی اپنی سیکورٹی فورس ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنا دفاع کرسکے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب پولیس کے ساتھ ساتھ نیشنل ڈیفنس فورس کی طرح سے ایک پیراملٹری فورس موجود ہو۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اقوام متحدہ کمیشن کی دستاویزات میں اس کا ذکر آیا ہے ۔

کشمیر ریسرچ گروپ کا قیام

اگرچہ پہلے سے متعدد ادارے موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود ایک ’کشمیر ریسرچ گروپ‘ قائم کیا جائے، جو حکومت پاکستان کی کشمیر کمیٹی اور آل پارٹیز کشمیر کانفرنس کو مسئلہ کشمیر پر باخبراور تازہ دم رکھنے کے لیے مسلسل کام کرے۔ وہ کشمیر پر مثبت منفی تحریروں اور بیانات کو جمع کرے، تجزیہ کرے اور درست موقف کو پیش کرے۔ ساتھ ہی مذکورہ بالا اداروں کو متوجہ کرے۔ اس وقت خود بھارت میں بہت سی کتب اور مقالات شائع ہورہے ہیں، جن میں مسئلہ کشمیر کی حقیقی صورتِ حال کو جاننے اور اسے حل کرنے کا احساس نمایاں ہے۔ ا ن کتب میں زور دیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں ایسی انسانیت کشی کیوں کر رہی ہے؟ ان چیزوں کو نمایاں طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

مسئلہ کشمیر سے آگہی کے لیے اقدامات

اس بات کی ضرور ت ہے کہ بہت ہی دوٹوک طور پر مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور تحریک پر تحقیق ہو، سوشل میڈیا پربھی ہر بڑی زبان میں معاملے کی نزاکت کو مؤثر دلائل سے بیان کیا جائے۔ کوشش کی جائے کہ کشمیر پر دستاویزی فلمیں بنوائی جائیں۔ محض تقریری اور سماجی کانفرنسیں نہیں بلکہ عملی اور اقدامی کانفرنسیں منعقد کی جائیں، جن میں اہداف طے ہوں اور حکمت عملی کا تعین ہو۔ پھر معاملہ فہمی (لابنگ) کا محاذ ہے۔اہم سیاسی اور میڈیا کے فورم تک پہنچ کر انھیں ہم آواز (involve) بنانا ہے، انھیں اُبھارنا اور متحرک (motivate) کرنا ہے، انھیں سہولت فراہم (facilitate) کرنی ہے۔ تحقیق اور تحقیق کے نتیجے میں مختلف سطح پر ان چیزوں کی تیاری ، میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا تک پروجیکشن کرنا اور پہنچا ناایک بڑا ہی اہم کام ہے۔ یہ کام پاکستان اور دُنیابھر میں پھیلے کشمیری بھائیوں کے کرنے کا ہے۔یہ کام مقبوضہ کشمیر کے اندر سے کرنا مشکل ہے، لیکن اس کے لیے بیرونِ کشمیر سے منصوبہ بندی اور باقاعدگی (systematically) سے کام کیا جانا چاہیے۔

بھارت نواز قیادت کا مستقبل

 بھارتی حکومت کا ساتھ دینے والے کشمیری مسلمانوں نے بہت کھل کر اعتراف کیا ہے کہ ’’بھارت نے ہمیں دھوکا دیا ہے اور ہم اُس پر اعتماد کرنے کی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں‘‘۔ لیکن اس کے باوجود ان لوگوں کو پھر جھانسہ دینے کے لیے بھارتی پالیسی ساز ادارے رابطے قائم کر رہے ہیں، تاکہ انھیں اگلی مرتبہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکیں۔ اس ضمن میں اگر بھارتی عناصر کامیاب ہوجاتے ہیں، تو یہ بہت نقصان دہ عمل ہوگا۔ اس پس منظر میں بھارتی جارحیت کے مدمقابل قوتوں کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر ان لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں ، انھیں تحفظ دیں، ساتھ چلائیں، ممکن حد تک اتفاق راے کے نکات پر اپنا ساتھی بنائیں اور اگر یہ ساتھ نہیں چلتے تو کم از کم یہ دوبارہ بھارتی سیاسی حکمت عملی کا حصہ نہ بنیں۔ یہ حکمتِ کار بھی ایک مفید عمل ہوگا۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت بھارت بڑی مکاری سے کوشش کر رہا ہے کہ ایک نئی ’بھارت نواز کشمیری قیادت‘ اُبھارے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے وہ کئی افراد میدان میں لاچکا ہے لیکن ابھی تک اسے کامیابی نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس یہ کوشش کی جائے کہ جو شخص ایسی کوشش کرے اسے بے نقاب کیا جائے۔ اس کے تعلقات اور پس منظر کو نمایاں کیا جائے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ان نئے لوگوں سے بھی رابطہ کاری اور مکالمے کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے۔

دینی و سیاسی قیادت کی ذمہ داری

کشمیر میں املاک کی خریدوفروخت پر محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا ایک فتویٰ ترجمان القرآن (اپریل ۲۰۲۰ء) میں شائع کیا گیا ہے،اسی طرح مسلم اور عرب دنیا کے علما سے فتوے حاصل کیے جائیں ۔مراد یہ ہے کہ بھارت، کشمیر کے مسلمانوں کی زمینوںکو حاصل کرنےاور اس طرح ان کی شناخت کو ختم کرنے کے لیے جو کام کررہا ہے اور جس طرح وہ اپنے غاصبانہ قبضے کو ایک قبول عام شکل میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کا مقابلہ سیاسی اور دینی قیادتوں کو مل کر کرنا ہے۔ اس کے لیے سیاسی میدان میں اوردینی دائرے میںبھی راےعامہ بنانا نہایت اہم کام ہے۔

حکومت پاکستان کو محض تنقید کا نشانہ بنانے کے بجاے، حکومت کو آمادہ ، تیار اور مجبور کیا جائے کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر فعال، مربوط اور مؤثر کام کرے۔ ان کاموں میں حکومت کے ساتھ تعاون کیا جانا چاہیے۔ توجہ دلانے کے لیے ملاقاتوں اور مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے اور کشمیر کے مسئلے پر پارٹی سیاست کی محدود اور گروہی سطح سے بلندہوکر کام کرنا چاہیے۔

’عالمی کشمیر ریلیف فنڈ‘ کا قیام

مقبوضہ کشمیر کے لیے ایک ’عالمی کشمیر ریلیف فنڈ‘ کا قیام بھی نہایت ضروری ہے۔ خاص طور پر کورونا کی وجہ سے اور اس سے قبل دس مہینوں کے ’جبری کشمیری لاک ڈاؤن‘ میں مکمل کاروبار کی بندش کی وجہ سےکشمیر کے تاجروں اور عام شہریوں کا بے پناہ معاشی نقصان ہوا ہے، بلکہ معاشی تباہی ہوئی ہے۔ وہ چاروں طرف سے ۹لاکھ فوجیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں، علاج معالجے کی صورتِ حال حددرجہ ابتر ہے۔ ا ن کی سماجی بحالی اور زندگی و صحت کے لیے عالمی سطح پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے ممالک میں موجود اہلِ خیر کو اس خدمت کے لیے متوجہ کیا جائے۔ وسائل جمع کرکے ان تک پہنچائے جائیں۔ یہ کام بھی فوری توجہ چاہتا ہے۔

مجھے توقع ہے کہ جس مرحلے میں یہ تحریک داخل ہوئی ہے اس سے ان شاء اللہ قدم آگے بڑھیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ تحریک کامیاب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں موقع دے کہ ہم اپنی آنکھوں سے اس کامیابی کو دیکھ سکیں۔

۱۹ دسمبر ۲۰۱۹ء کو چین کے شہرووہان میں’ کورونا وائرس‘ کی وبا پھوٹنے کی خبریں آئیں، جس نے اب تک تقریباً پوری دنیا کی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ ’کورونا وائرس‘ کو عالمی وبا قرار دیا جاچکا ہے، مگر بہت سے لوگ اب بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ ان میں اچھے خاصے دین دار مسلمان شامل ہیں۔ بعض حضرات احتیاطی تدابیر کو توکّل کے منافی سمجھتے ہیں۔ نیز ان کا خیال ہے کہ بیماری کا علاج کرنے سے مسلمان دائرہ متوکل سے نکل جاتا ہے۔ آئیے دیکھیں کہ اسلام کی نظروں میں ہمارے اس طرز عمل کی حیثیت کیا ہے؟ قرآن حکیم کی آیات کی روشنی میں طوفان ،آندھی، زلزلہ اور وبا جیسی آفات عذابِ الٰہی کی مختلف صورتیں ہیں، جو انسان کی سرکشی کا بدلہ ہوتی ہیں، یعنی یہ سزا انسان کے ہاتھ کی کمائی ہوتی ہے۔ عذاب یا آزمایش کا مقصد انسان کو رجوع الی اللہ کی طرف مائل کرنا ہوتا ہے، تاکہ وہ اپنے گناہوں پر نادم ہوکر توبہ کرے اور اپنے ربّ سے رجوع کرے۔ جیساکہ قرآن حکیم میں آیا ہے:

تاکہ خدا ان کو ان کے بعض عملوں کا مزہ چکھائے، عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں۔ (الروم، ۳۰: ۴۱)

اور ہم ان کو (قیامت کے) بڑے عذاب کے سوا بھی دنیا کے عذاب کا مزہ چکھائیںگے شاید وہ باز آئیں۔ (السجدہ ۳۲:۳۱)

ہم نے ان کو عذاب میں پکڑ لیا تاکہ وہ باز آئیں۔ (الزخرف ۴۳: ۴۸)

وبا کے بارے میں اسلام کی تعلیمات بہت واضح اور روشن ہیں۔ اگر آج ’کورونا وائرس‘ کے پھوٹتے ہی ان احکام پر عمل کیا جاتاتو دنیا کتنی پریشانی سے بچ جاتی۔

۱۸ ھ میں شام میں وبا پھوٹی جو’ طاعون عمواس‘ کہلاتی ہے۔ اس وقت حضرت عمر ؓ شام کے سفر پر تھے۔ تبوک کے نزدیک’ سرغ‘ نام کے مقام پر پہنچے تو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ ، حضرت یزید بن ابی سفیان ؓ ، حضرت شرحبیل ؓ بن حسنہ جیسے کبار صحابہ حاضر ہوئے۔ انھوں نے حضرت عمرؓ سے عرض کی کہ ’’شام میں وبا پھوٹ پڑی ہے‘‘۔ حضرت عمرؓ مخمصے میں پڑگئے کہ اب کیا کیا جائے؟ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو حکم دیا کہ ’’مہاجرین اولین کو بلایا جائے‘‘۔ جب وہ حضرت عمر ؓ کے پاس آئے تو انھوں نے ان سے مشورہ کیا۔ انھوں نے الگ الگ رائیں دیں اور کسی ایک راے پر متفق نہ ہوسکے۔ ان میں سے بعض کی راے تھی کہ سفر جاری رکھا جائے اور بعض واپس لوٹ جانے کے حق میں تھے۔ حضرت عمر ؓ نے انھیں رخصت کیا اور انصار کو طلب کیا۔ انصار نے بھی الگ الگ رائیں دیں اور کسی راے پر متفق نہ ہوسکے۔ حضرت عمر ؓ نے انھیں بھی رخصت کیا اورحکم دیا کہ فتح مکہ میں جو مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے انھیں بلایا جائے۔ جب وہ آئے تو انھوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا بلکہ عرض کی کہ ’’بہتر ہے کہ آپ واپس لوٹ جائیں اور ان کو خطرے میں نہ ڈالیں‘‘۔

ان کی راے سن کر حضرت عمر ؓ نے اعلان کیا کہ ہم کل صبح واپس جارہے ہیں۔ صبح لوگ جمع ہوئے تو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ آئے اور حضرت عمر ؓسے کہا کہ’’ امیرالمومنین آپ تقدیر الٰہی سے بھاگ رہے ہیں ؟ـ‘‘جس کے جواب میں حضرت عمر ؓ نے کہا کہ’ ہاں، ہم اللہ کی ایک تقدیر سے اللہ کی دوسری تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں‘۔ حضرت عمر ؓ نے ایک مثال دی کہ ’’لوگ اپنے اونٹوں کو لے کر ایک وادی میں اُترتے ہیں، جس کا ایک کنارہ سر سبز و شاداب اور دوسرا خشک ہے۔ جو گروہ اپنے اونٹوں کو سر سبز شاداب حصے میں چرائے تو یہ تقدیر الٰہی سے ہے اور جو خشک و بنجر میں چرائے تو اس کا چرانا بھی تقدیر اِلٰہی ہی سے ہے؟ اسی اثنا میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ تشریف لائے، جو کہیں گئے ہوئے تھے اور اس موقعے پر موجو د نہ تھے۔ انھوں نے یہ ماجرا دیکھ کر کہا کہ ’’اس بارے میں میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح حکم موجود ہے۔ میں نے آپؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کسی علاقے میں وبا پھیلی ہو اور تم وہاں موجود ہو تو وہاں سے بھاگ کر نہ نکلو اور جب تم سنو کہ وبا پھیلی ہے تو اس علاقے میں مت جاؤ‘‘۔یہ حدیث سن کر حضرت عمر ؓ کو خوشی ہوئی اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ چلو۔

حضرت عمر ؓ مدینہ واپس آئے تو حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کو خط لکھا کہ ’’آپ سے ضروری کام ہے، مدینہ واپس آئیں‘‘۔مگر حضرت ابو عبیدہ ؓ بھانپ گئے کہ حضرت عمر ؓ انھیں شام سے نکالنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے فوجیوں کا ساتھ نہ چھوڑنے کا عذر پیش کرتے ہوئے اس حکم کی تعمیل نہیں کی اور لکھا کہ ’’میں ان حالات میں فوجیوں کو چھوڑ کر نہیں آسکتا معذور سمجھیں‘‘۔ حضرت عمرؓ نے دوسرا خط ارسال کیا کہ ’’آپ نشیبی علاقے میں ہیں۔ فوج کو پہاڑوں پر لے جائیں‘‘۔ حضرت ابو عبیدہؓ حکم کی تعمیل کرنے ہی جارہے تھے کہ ان پر وبا کا حملہ ہوا اور وہ جاں بحق ہوگئے۔ انھوں نے وفات سے پہلے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو اپنا جانشین بنایا مگر طاعون نے پہلے حضرت معاذ بن جبل ؓ کے فرزند اور پھر انھیں بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ دونوںاللہ کو پیارے ہوگئے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے حضرت عمر و بن عاصؓ کو اپنا قائم مقام نامزد کیا۔ انھوں نے امیر ہوتے ہی مسلمانوں کے سامنے تقریر کی اور کہا کہ ’’وبا جب پھوٹتی ہے تو آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ تم لوگ الگ الگ ہوکر پہاڑوں میں چھپ جاؤ اور جانیں بچاؤ‘‘۔ یہ سن کر لوگ بھاگ بھاگ کر پہاڑوں میں جاکر چھپ گئے۔ چنانچہ بیماری کا زور کم پڑا اور کچھ دنوں کے اندر بالکل ختم ہوگیا۔

’طاعون عمواس ‘کی وبا مہینوں پھیلتی رہی۔ اکابرین صحابہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ حضرت معاذ بن جبل ؓ ، حضرت یزید بن ابی سفیان ؓ، حضرت حارث بن ہشامؓ ، حضرت سہیل بن عمروؓ، حضرت عتبہ بن سہیلؓ سمیت سیکڑوں اعیان واشراف وبا میں انتقال کرگئے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کی اولاد میں سے ۴۰؍ افراد جاں بحق ہوگئے۔ حارث بن ہشامؓ کے خاندان کے ستّر افراد میں سے صرف چار زندہ بچ گئے۔ مؤرخین کے مطابق اس وبا میں ۲۵ ہزار مسلمان شہید ہوگئے۔

 حضرت عمروبن عاصؓ کی طرف سے لوگوں کو منتشر ہونے کا حکم دینا،طبی لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی چیز کو ہم آجIsolation  یا  Social Distancing کہتے ہیں۔

ارشاد نبویؐ ہے کہ جہاں وبا ہو وہاں سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ اس میں ایک حکمت یہ ہے کہ وبا والے علاقے سے اگر لوگ باہر جائیں تو ایک تو علاقے میں افراتفری مچ جائے گی۔ تندرست لوگ وبا سے متاثر لوگوں کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے اور ان کی خبرگیری نہیں ہوگی۔ دوسرے یہ کہ وبا کے مقام سے بھاگنے والے لوگوں میں متاثرین بھی ہوں گے، جن کی وجہ سے دوسرے علاقوں کے لوگ بھی وبا کی گرفت میں آئیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’کوئی بیمار کسی تندرست شخص کے پاس ہرگز نہ جائے‘۔ نیز آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’ممرض (مرض پیدا کرنے والا مریض) تندرست کے پاس واردنہ ہو‘ ۔ ایک اور حدیث میں وباوالے علاقے سے نکلنے والے شخص کے بھاگنے کو میدان جہاد سے فرار قرار دیا گیا ہے۔ اما م غزالی ؒکے بیان کے مطابق: ’’وبا والے شہر کی متعفن ہوا سانس کے ذریعے جسم میں جاتی ہے اور دل، پھیپھڑوں اور اندورنی جسم کے پردوں پر مضر اثرات ڈالتی ہے۔ اس لیے وبا والے شہر سے نکلنے والے شخص کے بارے میں احتمال یہ ہے کہ وہ اندرونی طور پر بیماری سے متاثرہو‘‘۔ اس لیے طاعون زدہ شہر کے لوگوں کو حدیث میں تاکید کی گئی ہے کہ وہ اللہ پر توکل کرکے اسی شہر میں قیام کریں۔ اگر وہ وبا کی زد میں آکر فوت ہوجائیں تو انھیں شہید کا درجہ ملے گا۔

متعدی بیماری کے مریض سے دور رہنے میں بھی اسوہ رسولؐ موجود ہے۔ قبیلہ ثقیف کے وفد میں ایک شخص جذامی تھا ،جو بیعت کرنے کے لیے آرہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں سنا تو کہلا بھیجا کہ ’’تم وہیں سے واپس لوٹ جاؤ، ہم نے تمھاری بیعت قبول کرلی‘‘۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: ’’مجذوم سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو‘‘۔ ایک مرتبہ آپؐ نے ایک جذامی سے گفتگو فرمائی تو جذامی اور آپؐ کے درمیان ایک یا دونیزے کا فاصلہ تھا۔ ارشادات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل کا ثمرہ تھا کہ قرون وسطیٰ کے دوران مسلمانوں نے عالم اسلام کے مختلف شہروں میں جذامیوں کے لیے نہ صرف علیحدہ ہسپتال قائم کیے تھے بلکہ انھیں شہر سے باہر علیحدہ بستیوں میں بسایا جاتا تھا ۔ ان بستیوں کو ’الحارہ‘ کہاجاتا تھا۔ ان میں بنیادی اور ضروری سہولیات میسر ہوتی تھیں۔

حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ ’’جس علاقے میں وبا پھوٹی ہو وہاں مت جاؤ‘‘۔ ایک مرفوع روایت میں آیا ہے کہ ’’وبا میں گھسے رہنا ہلاکت ہے‘‘۔ امام غزالی ؒ کا بیان ہے کہ ’’جو لوگ ابھی شہر میں داخل نہیں ہوئے ہیں، ان کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ باہر رہیں، کیوں کہ ابھی تک متعفن اور زہریلی ہوا ان پر اثر انداز نہیں ہوئی ہے‘‘۔ اما م موصوف یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’اگر شہر میں مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی نہ ہو، تو مریضوں کی اعانت کے لیے کچھ لوگوں کا شہر میں جانا مستحب قرار پاسکتا ہے‘‘۔ اس سے طبی عملے اور ان کے معاونین کی کارکردگی کا لائق تحسین ہونا معلوم ہوتا ہے۔

آفات و آلام اور بیماری سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا لازمی اور مستحسن ہے۔ قرآن حکیم نے مسلمانوں کو اپنا بچاؤکرنے کا حکم دیا ہے ، نمازِ خوف میں ہتھیاروں سے لیس رہنے کی تاکید کی ہے۔ دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لیے ہتھیار درست اور گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مریض اور مسافر کے لیے یا پانی نہ ملنے کی صورت تیمم کی اجازت دی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو دشمنوں کی تعاقب سے بچنے کے لیے حکم دیا کہ ’’میرے بندوں کو رات میں لے کر چل‘‘۔ اس حکم میں ایک مصلحت یہ تھی کہ دشمن کو پتا نہ لگے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کی نظروں سے بچنے کے لیے غار ثور میں پناہ لی تھی۔

اسباب کو کلی طور پر ترک کرنا تو کل نہیں ہے۔ آپ ؐ سے ایک شخص نے اونٹ کھلا چھوڑنے اور اللہ پر توکل کرنے کے بارے میں پوچھا۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’اونٹ کے پاؤں میں دونا لگاؤ اور توکل کرو‘‘۔

بیماری اور علاج کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ڈاکٹروں اور معالجوں کے لیے وافر ذخیرہ موجود ہے۔ چنانچہ ’الطب النبوی ‘  کے عنوانات سے علماے اسلام نے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ امام ابن قیم نے سیرت کی مشہور کتاب زادالمعاد  میں طب نبویؐ پر شان دار مواد جمع کیا ہے، جس میں کم و بیش ایسی دواؤں کا تذکرہ ہے۔ عہد رسالت میں حارث بن کلدہ عربوں کے مشہور طبیب تھے۔ انھوں نے’ خبدی شاپور ‘کے مدرسے میں طب کا علم حاصل کیا تھا۔ حضرت سعد بن وقاصؓ بیمار ہوئے تو آپ ؐ نے حارث بن کلدہ کو طلب فرمایا۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کی شفانہ ہو‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہ سے فرمایا کرتے تھے کہ ’’حارث سے علاج کراؤ‘‘۔ آپؐ نے حضرت سعد بن معاذ کی فصدکھلوائی۔ حضرت سعد بن زرارہ کو داغ لگوایا۔ حضرت علی ؓ آشوبِ چشم میں مبتلا تھے تو ان سے فرمایا کہ ’’کھجوریں نہ کھاؤ‘‘۔

آپؐ ہر شب سرمہ لگایا کرتے تھے۔ ہر ماہ پچھنے لگواتے تھے اور ہر سال سنا کاجلاب لیا کرتے تھے۔ زخم پر مٹی لگاتے تھے۔ پھنسی یا پھوڑے پر مہندی لگاتے تھے۔ سردرد میں آپؐ نے مہندی کالیپ کرایا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں حفظان صحت کے بہترین اصول و آداب موجود ہیں۔ آپؐ نے گھروں اور صحنوں کو صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا۔ راستوں سے تکلیف دہ اور گندی چیزوں کے ہٹانے کی تاکید کی ۔ آپؐ ہمیشہ مسواک کیا کرتے تھے۔ امّت کو بھی مسواک کا حکم دیا ہے۔ ایک حدیث میں ہاتھوں کی صفائی کا حکم آیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی چھینک آتی تو آپ اپنے ہاتھ یا کپڑے سے منہ ڈھانک لیتے اور آواز دھیمی کرلیتے‘‘۔

آج پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ بتارہے ہیں کہ ہاتھوں کو صابن سے دھویا کریں اور چھینکتے وقت کہنی یا کپڑے سے منہ کو ڈھکیں۔ ایک حالیہ تجزیے میں آیا ہے کہ چھینکتے وقت جو چھوٹے قطرات منہ سے نکلتے ہیں وہ آٹھ میٹر کی دوری تک دوسرے شخص کو متاثر کرسکتے ہیں۔ سنت رسولؐ  میں دنیا کے لیے کتنی بہترین رہنمائی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جیسی اہم عبادت میں بھی احوال و ظروف کا خیال فرمایا ہے۔ آپؐ کافرمان ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو اس کو ہلکی نماز پڑھانی چاہیے، کیوںکہ ان میں کمزور ، ناتواں ، بیمار اور کام والے ہوتے ہیں۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’میں نماز شروع کرتا ہوں اور میرا ارادہ ہوتا ہے کہ اسے طویل کردوں ۔ پھر بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز میں تخفیف کردیتا ہوں کیونکہ مجھے وہ صدمہ معلوم ہے جو بچے کی ماں کو اس کے رونے سے ہوگا‘‘۔ آپؐ جب آسمان کے افق پر ابر دیکھتے تو کام چھوڑ دیتے اور اگر نماز میں ہوتے تو نماز کو مختصر پڑھ لیتے اور پھر دعا کرتے: ’اے اللہ، میں اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘۔

 سفر میں تاریک یا بارش والی رات مؤذن کو یہ منادی کرنے کا حکم دیتے کہ تم لوگ اپنی رہایش گاہ ہی میں نماز پڑھ لو۔ آپؐ نے مرض یا خوف کو نماز جمعہ کے لیے نہ آنے کا عذر قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ایک دن، جب بارش ہورہی تھی، مؤذن کو حکم دیا کہ اذان میں اشھد اَن محمد الرّسول اللہ کہنے کے بعدیہ کہو: صلوافی بیوتکم (اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو)۔ لوگوں کو اس سے تعجب ہوا تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: ’’ایسا ہی اس ذات مقدس نے فرمایا ہے جو مجھ سے بہتر تھی(یعنی نبیؐ)۔ جمعہ فرض ہے اور مجھے یہ بات پسند نہ آئی کہ تمھیں گھروں سے بلالوںاور تم کیچڑ اور پھسلنے کی جگہوں سے گزر کر مسجد پہنچو‘‘۔

وباؤں کے بارے میں مؤرخین نے جو تفصیلات اپنی تواریخ میں درج کی ہیں، ان سے بھی بہت کچھ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ بعض علما نے طاعون کے موضوع پر مستقل کتابیں اور رسالے تحریر کیے ہیں۔ ایک تصنیف شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے تحریر کی ہے، جس میں انھوں نے اس ’طاعون ‘کے بارے میں جو مصر میں ۷۴۹ ھ میں پھوٹا تھا اور پھر ۸۳۳ ھ میں بھی نمودار ہوا تھا، لکھا ہے کہ قاہرہ میں جب وبا پھوٹی تو ۴۰ سے کم افراد فوت ہوئے۔ پھر لوگوں نے اجتماعی دعا اور تین دن روزہ رکھنے کا اِرادہ کیا۔ چنانچہ وہ صحرا کی طرف نکلے اور اجتماعی دعا کی۔ اجتماعی دعا کرنے کے بعد جب لوگ شہر کی طرف واپس آئے تو ہلاکتوں میں اضافہ ہوگیا اور روزانہ ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے بڑھ گئی۔ اضافہ کی وجہ یہ تھی کہ اجتماعی دعا میں جب لوگ جمع ہوئے تو تندرست اور بیمار لوگوں کا اختلاط ہوا، جس سے بیماری دوسرے لوگوں کو بھی لگ گئی تھی۔ مصر کی وبا کا تذکرہ ابن کثیرؒ نے بھی کیا ہے۔

اُوپر جس طاعون کا ذکر کیا گیا، وہی طاعون ہے جو یورپ میں ۱۳۴۸ ء میں بھی پھوٹا تھا اور جس نے نہ صرف پورے یورپ کو بلکہ مشرق وسطیٰ کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ مؤرخین کے بیان کے مطابق یورپ کی نصف آبادی اسی طاعون میں ہلاک ہوئی تھی اور۰ ۱۳۵ ء یعنی دوسال تک وبا کا زور رہا ۔ یورپ میں اسے Black Death کا نام دیا گیا ۔ مشرق وسطیٰ میں اس کے پھوٹنے کا تذکرہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒاور دوسرے مؤرخین نے کیا ہے۔ دمشق میں اس کی ہولناکیوں کے بارے میں حافظ ابن کثیر نے تفصیل دی ہے۔ یورپ کی ’کالی وبا‘ نے مشرق وسطیٰ میں جو تباہی مچائی تھی، اس کا ذکر ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامہ میں کیا ہے۔ ان کا بیان ہے کہ ’’اس وبا سے دمشق میں روزانہ دو ہزار لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے تھے اور قاہرہ اور مصر میں روزانہ ۲۴،۲۴ ہزار لوگ دنیا سے رخصت ہوتے تھے‘‘۔

کالی وبا کے زمانے ۱۳۴۸ء-۱۳۵۰ ء میں طاعون کے موضوع پر یورپ میں جو کچھ لکھا گیا ہے، اس میں دو بہترین شاہکار مسلمان حکمانے تحریر کیے ہیں۔ اہل یونان نے طاعون کو بالکل نظر انداز کردیا تھا مگر حکماے اسلام نے چیچک ، خسرہ اور طاعون کے بارے میں اپنی نادر اختراعات اور گراں قدر خیالات سے بنی نوع انسان کی رہنمائی کا کارنامہ انجام دیا۔ شیخ الرئیس حکیم بو علی سینا کو پہلی دفعہ سوجھا کہ بعض بیماریاں ایک بیمار سے دوسرے شخص کو لگتی ہیں۔ انھوں نے اس کے لیے  ایک تجربہ کیا اور ایک شخص کو چالیس دنوں کے لیے دوسرے لوگوں سے علیحدہ (Isolation)  رکھا۔ یہ تجربہ کامیاب رہا۔ بیماری قابو میں رہی۔ اسے انھوں نے ’اربعینہ ‘  کا نام دیا۔ بعد میں یہ طریقہ مسلمانوں میں عام ہوگیا۔ اٹلی کے وینس سے کچھ تاجر جب مسلمان ملکوں میں آئے، تو وہ ’اربعینہ‘ سے واقف ہوگئے۔ انھوں نے متعدی بیماری کو قابو کرنے کے لیے یہی اربعینہ (چالیس) اپنے ملک میں آزمایا اور اسے ’قرنطینہ‘ کا نام دیا، جو اربعینہ کا ترجمہ ہے ۔ شیخ الرئیس کا یہی اربعینہ آج ’قرنطینہ ‘کے نام سے پوری دنیا میں معروف اور رائج ہے۔

اوپر جن دو مسلمان حکما کے شاہکاروں کا ذکر آیا تھا، ان میں غرناطہ کے نامور حکیم اور مؤرخ لسان الدین ابن الخطیب (م: ۷۷۶ھ /۱۳۷۴ء) ہیں۔ جنھوں نے ان لوگوں کو جویہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ بیماریاں اڑکر لگتی ہیں: جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ وبائی امراض کے تعدیہ کا وجود تجربے ، مطالعہ، حواسِ خمسہ کی شہادتوںاور معتبر اطلاعات سے ثابت ہے۔ وبا کی حقیقت اس وقت واضح ہوجاتی ہے جب کوئی محقق یہ دیکھتا ہے کہ مریض کو چھونے والا خود بھی اسی مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے،جب کہ دُور رہنے والا شخص اس سے محفوظ رہتا ہے۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ یہ مرض بیماروں کے کپڑوں ، برتنوں اور زیوروں، کان کے آویزوں کے استعمال اور ایک گھر کے آدمیوں سے دوسرے لوگوں کو لگ گیا۔ مزید برآں طاعون زدہ علاقے سے آئے لوگ جب غیر متاثرہ بندرگاہ پر پہنچے تو وہاں بھی یہ بیماری پھیل گئی‘‘۔

وبا کے بارے میں دوسری اہم تحریر اسپین کے ابن خائمہ (م: ۷۷۱ھ ؍۱۳۶۹ء) کی ہے۔ انھوں نے طاعون کے موضوع پر ایک رسالہ لکھا ہے، جسے میکس میر ہوف (۱۸۷۴ء-۱۹۴۵ء) نے ان تمام رسالوں سے حددرجہ فائق قرار دیا ہے، جو چودھویں اور سولھویں صدی کے درمیان یورپ میں تحریر کیے گئے۔ ابن خائمہؔ نے رسالے میں لکھا ہے کہ ’’میرے طویل تجربے کا نتیجہ ہے کہ اگر کوئی کسی طاعون زدہ مریض کے ساتھ ربط رکھتا ہے، تو اسے فوراً طاعون لاحق ہوجاتا ہے اور اس میں بھی وہی علامات ظاہر ہوتی ہیں، جو پہلے مریض میں ہیں۔ اگر پہلے مریض کے تھوک میں خون آتا ہے تو دوسرے کو بھی تھوک میں خون آئے گا۔ اگر پہلے مریض کو پھوڑے نکل آئے ہوں، تو دوسرے مریض کو بھی انھی جگہوں پر پھوڑے نکل آئیں گے۔ اگر پہلے مریض کو ناسور نکل آیا ہے، تو دوسرے مریض کو بھی ناسور ہوگا اور اسی طرح دوسرا مریض بھی اس بیماری کو دوسروں تک منتقل کرے گا‘‘۔

مضمون کے خاتمے پر ۱۱۷ سالہ پرانا واقعہ سامنے آیا ہے۔ ۱۹۰۳ ء میں ڈوگرہ راج کے دوران ایک شخص راولپنڈی سے کوہالہ اور اوڑی میں تعینات اہلکاروں کو چکمہ دے کر وادیِ کشمیر میں داخل ہوا۔ یہ شخص بیماری سے متاثر تھا۔ اس کے ورود سے یہ بیماری وادیِ کشمیر میں بھی پھیل گئی۔

خلاصۂ تحریرہے کہ ’کورونا وائرس‘ کی وبا کے بارے میں آج جو احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں، وہ اسلام ہی کی دین ہیں۔ طہارت و نظافت ، بدن کی صفائی ، چھینکتے وقت منہ کو کپڑے یا ہاتھ سے ڈھکنا، ہاتھوں کو بار بار دھونا، ملاقاتی سے کم از کم ایک میٹر دور رہنا، متاثرہ افراد سے بے تکلف ربط نہ رکھنا، دوسرے لوگوں سے سماجی دوری بنائے رکھنا ، قرنطینہ سازی ، میل جول کم کرکے گھروں میں رہنا، متاثر افراد کا دوسری جگہوں پر نہ جانا اور لوگوں سے نہ ملنا، گھروں میں توبہ و استغفار اور ذکر و اذکار اور عبادات میں مشغول رہنا: یہ سب اسلام ہی کی تعلیمات ہیں، جن پر عمل کرکے پوری انسانیت اس بیماری سے نجات پاسکتی ہے۔

اسلام دین فطرت ہے۔ اس پر عمل کرنے اور اس کے حدود و قیود کی پابندی کرنے سے انسان ترقی کر کے اس منزل کو پا سکتا ہے، جو فرشتوں کے مقام و مرتبہ سے بھی بلند و بالا ہے۔ انسانیت کی معراج کا حصول محبت و اطاعت الٰہی اور اتباع سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی ہے۔

فرائض و عبادات میں رمضان المبارک کی اہمیت ایک خاص شان رکھتی ہے۔ مسلمانوں کا معاشرہ اس مہینے میں ایک روحانی موسم لیے ہوتا ہے۔ ہر مریض اور توانا اس بات کا خواہش مند ہوتا ہے کہ اس ماہِ مبارک کی برکتوں سے پوری طرح فیض یاب ہو سکے۔رمضان سے متعلق تمام احکامات اصلاً تو ایسے لوگوں کے لیے ہیں جو صحت مند ہوں،کیونکہ مریضوں کو ایک حد تک رخصت دی گئی ہے۔ تاہم، مرض کی نوعیت اور روزے کی وجہ سے مرض اور اس کے جسم پر مرتب ہونے والے ممکنہ اثرات وہ بنیادی عوامل ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے مریض اور ڈاکٹر باہمی مشورے سے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ البتہ اگر صورتِ حال ایسی ہو کہ تکلیف سے جسم کے کسی عضو کو شدید نقصان پہنچنے یا موت واقع ہو جانے کا اندیشہ ہو، تو ایسی ناگزیر ضرورت میں نہ صرف مریض کے لیے لازم ہے کہ روزہ نہ رکھے بلکہ ڈاکٹر کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ مریض کو صورت حال سے مکمل طور پر آگاہ کر کے روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے۔

اس ضمن میں روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے لیے درج ذیل صورتوں کو پیش نظر رکھا جانا چاہیے:

    l    ایسی معمولی بیماری کی صورت میں، جس سے مریض کو کوئی خطرہ لاحق ہو، نہ اس کو بہت زیادہ تکلیف ہو ،اسے روزہ رکھنا چاہیے۔

    l    ایسی بیماری جس میں روزہ رکھنے سے جسم کے کسی ایسےعضوکےخراب یا ضائع ہونے کا اندیشہ ہو، جو بقاے حیات (Vital organ) کے لیے ضروری ہو، مثلاً گردہ، دل، دماغ یا پھیپھڑے وغیرہ، تو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔

    l    اگر مریض کسی عارضی بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو بعد میں قضاروزے ضرور رکھے۔ بعض اوقات دائمی بیماریوں سے بھی مریض صحت یاب ہو جاتا ہے، ایسی صورت میں بھی قضا روزے رکھ لینا ضروری ہیں، اگرچہ فدیہ بھی دے چکا ہو۔

    l    اگر مرض ایسا ہے جس میں دوالینے کے اوقات تبدیل کرکے، دوا صبح و شام (سحری اور افطاری کے وقت) دی جاسکتی ہو اور اس سے مریض پر برے اثرات بھی مرتب نہ ہوتے ہوں تو ایسی صورت میں روزہ رکھا جاسکتا ہے۔

    l    وہ بیمار جو رُوبصحت ہوں لیکن اگر وہ روزہ رکھیں تو صحت دوبارہ خراب ہونے کا قوی امکان ہو تو ایسے بیمار روزہ نہ رکھیں اور مکمل صحت یاب ہونے کے بعد قضا روزے رکھیں۔

    l    بیماری یا سفر کی وجہ سے کوئی شخص اگر روزہ نہ رکھ سکتا ہو تو اس کے لیے رمضان کے تقدس کو ملحوظ رکھنا لازم ہے۔ اسے چاہیے کہ کھلے عام کھانے پینے سے اجتناب کرے۔

    l    درد کی شدّت میں بھی روزہ چھوڑاجاسکتاہے،لیکن اس شدت کی برداشت کاتعین مریض خودکرے گا۔

روزہ داروں کے چند عمومی مسائل اور طبی فقہی رہنمائی

کورونا کی وبا اور موجودہ حالات کے پیش نظر سب سے پہلے اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس وقت تک دنیا میں کورونا کی وبا سےتقریباً ۲۵ لاکھ افراد متاثرہوچکے ہیں اور اموات کی تعداد بھی دولاکھ تک پہنچ چکی ہے۔کورونا کا کوئی تیر بہدف علاج نہیں ہے اور بیماری سے بچاؤہی وہ واحد ذریعہ ہے، جس سے ہم اللہ کے فضل اورکرم سے اس بیماری پر قابو پا سکتے ہیں۔ شوگر کے بیمار، عمررسیدہ افراد، دل کی بیماریوں اور قوت مدافعت کی کمی والے دوسرے بیماروں کو بیماری لگنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ مسلسل جسمانی تھکاوٹ اور ذہنی دباؤبھی قوت مدافعت میں کمی کا سبب بن سکتا ہے۔

کورونا وبا کے دوران رمضان میں مریضوں کے لیے شریعت مطہرہ کے پس منظر میں عمومی ہدایات کا خلاصہ ذیل میں دیا جاتا ہے:

    ۱-  جن افراد کی قوت مدافعت کم ہواور اپنے گھروں میں رہیں تو وہ پچھلے برسوں کی طرح روزہ رکھ سکتے ہیں ۔ البتہ اگر ان کو کسی اور وجہ سے کورونا وائرس سے بیماری کا خطرہ ہو تو وہ روزہ  نہ رکھیں ، اپنی قوت مدافعت بڑھانے پر توجہ دیں اور بعد میں قضا روزے رکھ لیں۔

    ۲-  اگر ڈاکٹر کی راے یہ ہو کہ کسی مریض کو کسی مخصوص وجہ سے کورونا بیماری لگنے کا غالب امکان ہے اور روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے تو مریض کو ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے۔

    ۳-  جن افراد کو سخت کھانسی اوربخار ہو تو وہ اپنی حالت کی شدّت کے مطابق روزہ چھوڑ سکتے ہیں اور بعد میں قضا کر لیں۔ البتہ جن لوگوں کو یہ علامات کورونا بیماری کی وجہ سے ہوں (یعنی ٹیسٹ مثبت ہو) تو ایسے مریض کو سختی سے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے۔

    ۴-  رمضان میں باجماعت تراویح پڑھنا ایک نہایت مستحسن امر اور اسلامی عبادات کا اہم حصّہ ہے لیکن فرض نہیں ہے۔وبا کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر تراویح گھروں میں پڑھی جائے۔

عید کے موقعے پر لوگوں سے ملنا ایک مباح عمل اور اسلامی ثقافت کا حصّہ ہے، لیکن وبا کی موجودگی میں رشتہ داروں اوردوستوں کے گھروں میں جانے ، ملاقاتوں، ہاتھ ملانے اور اور گلے ملنے سے اجتناب کیا جائے۔

m  روزہ دار کا آنکھ، ناک یا کان میں دوا ڈالنا:آنکھ میں دوا ڈالنے کے بارے میں فقہاکی عمومی راے یہ ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ ناک میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ کان کے اندرونی پردے (Tympanic membrane) کے صحیح اور سالم ہونے کا سوفی صد یقین ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔البتہ شک کی صورت میں بہتر یہی ہے کہ ماہرڈاکٹر سے تصدیق کر لی جائے۔ پردہ پھٹا ہو یا اس میں سوراخ ہو تو دوائی ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جائےگا۔

m روزے دار کا دانت نکلوانا:دانت نکلوانے کے لیے عام طور پہ (Local Anesthesia) کا استعمال کیاجاتا ہے، اس دوران پانی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ اس بات کا قوی امکان موجود ہوتا ہے کہ پانی، دوا، خون اور مسوڑھوں کے گوشت کے اجزا وغیرہ میں سے کوئی چیز حلق سے نیچے اتر جائے اور اس طرح روزہ ٹوٹ جائے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ صرف اشد ضرورت میں ہی افطار سے پہلے دانت نکلوایا جائے اور اگر ممکن ہو تو افطار کے بعد دانت نکلوایا جائے۔ دانت کی filling اور Scaling میں بھی اس کا خیال رکھا جائے۔

m انجکشن اور روزہ :انجکشن چاہے جِلد، گوشت یا رگ میں لگایا جائے، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ روزہ ٹوٹنے کے لیے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ کوئی چیز بدن میں معتاد (Natural Orifices) راستے سے بدن میں داخل ہو۔ مثلاً منہ، ناک یا مقعد کے ذریعے۔ غیر معتاد راستے سے کسی چیز کے بدن میں داخل ہونے سے اصولاً روزہ نہیں ٹوٹتا ۔

یہاںاس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ انجکشن کی نوعیت اور مقصد کا تعین انتہائی اہم ہے کہ انجکشن کا استعمال طاقت کے لیے ہے ( مثلاً وٹامن کے انجکشن یا ڈرپ وغیرہ )یا بخاراور درد وغیرہ کے لیے؟ اگر کوئی مریض پیاس بجھانے کے لیے یا بھوک مٹانے کے لیے روزے میں انجکشن (ڈرپ) کا استعمال کرتا ہے تو یہ روزے کی روح کے خلاف ہے اور اس مقصد یا اس نیت سے انجکشن کا استعمال انتہائی نامناسب حرکت ہے۔ لیکن اگر یہ درد یا بخار کا زور توڑنے کے لیے استعمال کیا جائے، تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ کسی خصوصی صورت حال مثلاً درد وغیرہ میں انجکشن کا استعمال کرنا یا نہ کرنا مریض کے اپنے تقویٰ پر بھی موقوف ہے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ درد کو افطاری تک برداشت کرسکتا ہے اور اجازت کے باوجود انجکشن نہیں لگواتا اور تکلیف برداشت کرتا ہے تو اجر پائے گا۔

m آپریشن(Surgery) اور روزہ :آپریشن دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جن کو فوری طور پر(Emergency)کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسے آپریشن روزے کے دوران فوری طور پر کر لیے جائیں مثلاً Appendicitis یاحادثے کی صورت میں ہڈی کا ٹوٹ جانا وغیرہ۔ دوسرے وہ جو کسی بھی مناسب وقت پر طے کر کے کیے جائیں۔ ان کوElective Surgery / Cold Operation بھی کہتے ہیں۔ یعنی ایسے آپریشن جن کو جلدی میں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔اس صورت میں مریض کو سمجھا دیا جائے کہ آپریشن کو رمضان کے بعد تک بہ آسانی موخر کیا جاسکتا ہے اور ایسا کرنے سے اسے کوئی خطرہ بھی نہیں ہوگا۔ اس طرح اسے رمضان کے بابرکت مہینے کے روزے رکھنے کی سعادت بھی حاصل ہو جائے گی۔

ایسے آپریشنز جن میں(Local Anesthesia) کا استعمال ہوتا ہو، مثلاً آنکھ کے آپریشن یا جسم پر معمولی زخم یا پھوڑے وغیرہ کا آپریشن ، یہ روزے کے دوران بھی کیے جاسکتے ہیں اور اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔یہاں یہ بات بھی بیان کردینا ضروری ہے کہ اگر کوئی مریض یا ڈاکٹر آپریشن کو رمضان تک صرف اس لیے موخر کرتے ہیں کہ اس طرح روزوں سے بھی جان چھوٹ جائے گی تو یہ انتہائی نامناسب ہے کیونکہ یہ روزے جیسی اہم عبادت کے بارے میں ایک بہت غیر محتاط اور ناروا رویہ ہوگا۔

m حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین: اگر حاملہ عورت روزہ رکھنے سے تکلیف کی شدت محسوس کرتی ہو یا وہ خود تو حمل کی وجہ سے اپنی کسی موجودہ بیماری سے واقف نہ ہو یا روزہ کی وجہ سے دوران حمل پیدا ہونے والے متوقع مضراثرات سے لا علم ہو، لیکن ڈاکٹر کو یہ علم ہو کہ اس وقت حمل اور روزے کے جمع ہونے کی وجہ سے حاملہ عورت ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہوسکتی ہے کہ اگر وہ روزہ رکھتی ہے، تو آیندہ اسے کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہے، جو خود اسے یا اس کے ہونے والے بچے کے لیے باعث تکلیف ہوگی، تو ڈاکٹر اسے روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے سکتا ہے۔ عورت خود اپنے تجربے کی بنیاد پر بھی روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔

اسی طرح بچے کو اپنا دودھ پلانے والی عورت اگر تجربے کی بنیاد پر قوی امکان محسوس کرے کہ روزہ رکھنے سے اسے خود یا بچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے یا معالج ڈاکٹر محسوس کرے کہ اگر یہ عورت روزہ رکھ کر بچے کو دودھ پلاتی رہے تو اسے یا اس کے بچے کو نقصان پہنچنے کا امکان ہے، تو وہ روزہ نہ رکھنے کا فیصلہ کرسکتی ہے اور ڈاکٹر بھی اسے روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے سکتا ہے۔ان دونوں صورتوں میں جتنے روزے نہیں رکھے گئے، بعد میں قضا روزے رکھ کر تعداد پوری کرنا فرض ہوگا۔

m دمہ (Asthma) :دمہ کے ایسے مریض جنھیں سانس کی تکلیف کبھی کبھار ہوتی ہو، جو وقتی طور پر دوا کے استعمال سے ٹھیک ہو جاتے ہوں اور پھر کئی کئی دن یا ہفتے دوائی کی ضرورت پیش نہیں آتی، انھیں روزہ رکھنا چاہیے۔ البتہ دمہ کے وہ مریض روزہ نہ رکھیں، جنھیں روزانہ دوائی کی ضرورت ہوتی ہے اور گولیاں اور Inhalers دونوں استعمال کرنا ضروری ہوتا ہو۔ ایسے مریض رمضان کے بعد جب دن چھوٹے ہوں یا ان کی بیماری میں کمی ہو جائے تو روزے پورے کرلیں۔ اگر بیماری کے بہتر ہونے کا امکان کم ہو کہ وہ روزے رکھ سکیں تو بہتر ہے کہ بروقت فدیہ ادا کردیں۔ ایسے مریض جنھیں سینے کی تکلیف اتنی زیادہ ہو کہ سانس مسلسل خراب رہتا ہو اور دواؤں کے بغیر گزارہ نہ ہوتا ہو ، ان کے لیے روزے نہ رکھنا بہتر ہے۔

انہیلر (Inhaler) کے ذریعے بالعموم دوا کا زیادہ حصہ سانس کی نالی کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہو جاتا ہے، لیکن کچھ دوا حلق میں بھی چلی جاتی ہے، جو معدے میں پہنچ جاتی ہے۔ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہی صورتِ حال Spacer یا Nebulizer  (جو انہیلر کے نعم البدل کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہے) کے ذریعے دوا کے استعمال کی بھی ہے۔ ان سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔البتہ بعض علما کی راے روزہ نہ ٹوٹنے کی بھی ہے۔اگر مرض اتنا شدید ہو کہ روزے کے دوران بھی انہیلر کا استعمال ناگزیر ہو تو بہتر یہی ہے روزہ نہ رکھے اور بعد میں قضا روزے مکمل کر لے یا دائمی صورت میں فدیہ ادا کردے۔

m گردے کی پتھری (Kidney stones) : رمضان میں پانی کے کم استعمال سے گردے کی پتھری کے مریضوں کو درد شروع ہو سکتا ہے، خاص کر گرمیوں کے روزوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اگرچہ کچھ مریضوں میں روزوں کے باوجود درد کی شکایت نہیں ہوتی۔ اگر مریض کو یہ تجربہ ہو چکا ہے کہ روزہ رکھنے سے اسے شدید درد شروع ہو جاتا ہے تو ایسے مریضوں کو سال کے دوسرے مہینوں میں جب موسم سرد ہو اور دن چھوٹے ہوں ، قضا روزے رکھنے چاہییں۔

m یرقان (Hepatitis): یرقان/ہپاٹائٹس اے ، بی، سی ، ای یا دوائیوں کے مضر اثرات (Side effects)، دونوں صورتوں میں شروع کے چند دن یا ہفتے روزہ نہ رکھنے کی گنجایش موجود ہوگی، کیونکہ عام طور پر ان دنوں میں مریضوں کو کھانے میں میٹھی چیزوں (گلوکوز وغیرہ) کا استعمال زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مریض اگر زیادہ دیر تک کھانے کا استعمال نہ کریں تو خون میں شوگر کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔

دائمی یرقان یعنی ہپاٹائٹس بی اور سی کے وہ مریض کہ جن کو کوئی پیچیدگی درپیش نہ ہو، روزہ رکھ سکتے ہیں۔ یرقان کے ایسے مریض جن کا وزن زیادہ ہو توانھیں روزے سے فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔ مریضوں کو یہ بات بھی بتا دینی چاہیے کہ اگر ان کا علاج رمضان کے بعد تک مؤخر کیا جائے توان کی بیماری بڑھنے کا کوئی امکان نہیں اور چونکہ اللہ نے ان کو رمضان کے روزے رکھنے کا موقع دیا ہے، اس لیے ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ اس موقعے کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔

البتہ یرقان کے وہ مریض، جنھیں کسی پیچیدگی کا سامنا نہ ہو، مثلاً پیٹ میں پانی کا جمع ہوجانا (Ascites) یا جگر کی بیماری کی وجہ سے نیم بے ہوشی کی صورت حال پیدا ہوگئی ہو  (Hepatic Encephalopathy) تو ان کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور فدیہ دینا ہی زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ بعد میں بھی روزے رکھنے سے تکلیف کے بڑھنے کا احتمال ہوتا ہے اور مکمل صحت یا بی کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

m شوگر کی بیماری: شوگر کے کنٹرول کے لیے کچھ مریضوں کو انسولین کے انجکشن مسلسل استعمال کرنے پڑتے ہیں اور اس کے بغیر شوگر بہتر طریقے سے کنٹرول نہیں ہو سکتی۔ ان مریضوں میں بعض اوقات انجکشن کے استعمال سے خون میں شوگر کی مقدار میں کمی واقع ہو سکتی ہے اور یہ امکان ان مریضوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے جو شوگر کے لیے گولیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے وہ مریض جو انسولین استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے عمومی طور پر روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہوتا ہے اور ان کو فدیہ دینا چاہیے۔ کیونکہ اس بات کا امکان کم ہوتا ہے کہ مریض اتنا ٹھیک ہو جائے کہ اس کو انسولین کی ضرورت بھی نہ رہے اور روزہ رکھنے کے قابل بھی ہو جائے۔البتہ وہ مریض جن کی شوگر افطاری میں ایک انجکشن لگانے سے کنٹرول ہو سکتی ہو تو ایسے مریض اپنے تجربے کی بنیاد پر روزہ رکھ سکتے ہیں، البتہ ان کو شوگر کی کمی کی علامات پوری طرح معلوم ہونی چاہییں ۔

شوگر کے وہ مریض جو گولیوں کا استعمال کرتے ہیں، ان میںگولیاں عمومی طور پر دو گروپس کی ہوتی ہیں۔ ایک گروپ(Biguanides) کہلاتا ہے، جو بازار میں Glucophage اور دوسرے ناموں سے دستیاب ہیں۔ اگر مریض صرف ان کا استعمال کررہا ہے تو یہ مریض عام طور پر روزے رکھ سکتا ہے۔ دوسرا گروپSulphonylurea کہلاتا ہے اور بازار میں یہ Daonil اور دوسرے ناموں سے دستیاب ہے۔ یہ مریض بھی روزے رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر ان میں شوگر کے کم ہونے کی پرانی تاریخ موجود ہے تو ڈاکٹر کو چاہیے کہ اس صورت میں مریض کو مکمل طور پر دوا کے اثرات سے بھی آگاہ کرے اور باہمی تبادلہ خیال کے بعد روزے رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کریں۔

عام طور پر دوا کا استعمال صبح اور شام کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حضرات دوا کی مقدارمیں ضروری تبدیلی کرکے سحری میں کم اور شام میں زیادہ کرسکتے ہیں، تاکہ دن میں روزے کے دوران خون میں شوگر کی کمی کا امکان کم سے کم ہو جائے۔

m شوگر کی علامات:  دل کی دھڑکن کا تیز ہو جانا، ہلکے ٹھنڈے پسینے آنا، زیادہ بھوک لگنا اور میٹھی چیز کھانے کی فوری خواہش پیدا ہونا، ذہنی حالت کا متغیر ہونا(Disorientation) یا بے ہوشی طاری ہونا۔ آخرالذکر دو علامات مریض خود نہیں بلکہ دوسرے لوگ ہی دیکھ کر بتاسکتے ہیں اور اس صورت میں آس پاس موجود لوگ اس مریض کو روزے کی حالت میں ہی کوئی میٹھی چیز فوراً کھلا کر نزدیکی ڈاکٹر کے پاس یا ہسپتال لے جائیں۔ یہ روزہ بعد میں قضارکھا جا سکتا ہے۔

شوگر کے تمام مریضوں کو عموماً اور رمضان کے دوران خصوصاً اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی میٹھی چیز، مثلاً چینی، ٹافیاں وغیرہ ضرور رکھنی چاہییں، تاکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ان کا استعمال کیا جاسکے۔ نیز شوگر کے مریض ہمیشہ اپنے ساتھ ایک کارڈ رکھیں، جس میں نشاندہی کی گئی ہو کہ وہ شوگر کا مریض ہے، تاکہ بے ہوشی کی صورت میں اسے ابتدائی طبی امداد مہیا کی جاسکے۔

یاد رکھیے، شوگر کے نیم بیہوش مریض کے خون میں شوگر کم یا زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن اصول یہ ہے کہ اگر کمی یا زیادتی کا فیصلہ کرنے میں شک ہو، تو انتظار کیے بغیر مریض کو روزے کی حالت میں ہی فوری طور پر چینی دی جائے، کیونکہ ایسا نہ کرنے سے مریض کو زیادہ خطرہ ہوگا اور اگر مریض کی شوگر کم ہے تو یہ مریض کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن اگر مریض کی شوگر زیادہ ہے اور آپ اس کو کچھ مزید بھی دے دیں، تو وقتی طور پر شوگر کی زیادتی زندگی کے لیے خطرے کا سبب نہ بنے گی۔

m معدے کی بیماریاں (السر یا زخم معدہ) اور تیزابیت :معدے کی تیزابیت کم کرنے اور السر کے علاج کے لیے اس وقت بہت سی ادویات دستیاب ہیں اور ان کا اثر چند گھنٹوں سے لے کر ایک یا دودن (۲۴ سے ۴۸ گھنٹے) تک ہوتا ہے۔ اس لیے دوا کے استعمال کے بعد اب اس بات کا امکان بہت کم ہوتا ہے کہ مریض کو کوئی خطرہ مثلاً تیزابیت کے بڑھنے یا Perforationکا خطرہ لا حق ہو۔ اگر مریض سحری میں زیادہ اثر والی اور زیادہ دیر تک اثر رکھنے والی(Long Acting) دوا استعمال کریں، تو بغیر کسی تکلیف کے روزہ رکھ سکتے ہیں۔ بہت کم مریض ایسے ہوتے ہیں جو دوا کے کم استعمال کی وجہ سے تکلیف میں ہو سکتے ہیں، انھیں روزہ نہ رکھنے کی رعایت دی جاسکتی ہے۔

کچھ خصوصی حالات جن میں معدے کی تیزابیت اور زخم بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ مثلاً (Zolinger Ellison Syndrome)تو ان میں روزہ رکھنے سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔ یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ معدے کی کئی دوسری بیماریاں مثلاً بدہضمی(Dyspepsia) وغیرہ روزے میں بہتر ہو جاتی ہیں بشرطیکہ سحری اور افطاری میں احتیاط برتی جائے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ رمضان میں افطاری کے بعد چٹ پٹے اور چٹخارے دار پکوانوں سے اجتناب کرنے سے نظام ہضم ٹھیک رہتا ہے۔

m دل کی بیماریاں:خون کے انجماد (کلاٹ)کی بنا پر دل کا دورہ ایک ایسی بیماری ہے ،جس میں دل اپنی پوری قوت سے خون کو پمپ نہیں کرسکتا اور دل کا سائز بڑھ جاتا ہے جس کے نتیجے میں مریض کو سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے اور سانس جلد پھول جاتی ہے ساتھ ہی ساتھ پاؤں میں سوجن بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ بیماری کم ہوتی ہے اور صبح شام دوائی استعمال کرنے سے مریض ٹھیک رہتا ہے اور اس کو سانس کی تکلیف یا پاؤں کی سوجن وغیرہ نہیں ہوتی، ایسے مریض روزہ رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ محسوس کریں کہ سانس کی تکلیف ہے تو پھر روزہ رکھنے سے اجتنا ب کرنا چاہیے۔ یہ بیماری جب زیادہ ہو جائے تو نہ صرف یہ کہ معمولی کام کرنے سے بلکہ بعض اوقات تو بیٹھے بیٹھے یا لیٹنے سے بھی سانس کی تکلیف ہوتی ہے۔ ایسے مریضوں کو دوسری دواؤں کے ساتھ ساتھ اکثر پیشاب آور دوائیں بھی استعمال کرنا پڑتی ہیں، جس کی وجہ سے پیاس بھی زیادہ لگتی ہے۔ ایسے مریض جن کو بیماری زیادہ ہو، ان کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے، اور بعد میں جب حالت بہتر ہوجائے تو قضا روزے رکھے جاسکتے ہیں۔

چند صورتیں ایسی بھی ہیں جن میں مکمل صحت یا بی کا امکان نسبتاً کم ہوتا ہے مثلاً Cardiomyopathy  وغیرہ کے مریضوں کو فدیہ دینا ہی بہتر ہے۔

دل کی ایک اور بیماری جسے انجائنا (Angina) کہتے ہیں۔ اس میں مریض کو سینے یا ہاتھ میں درد کی شکایت ہوتی ہے۔ درد اگر صبح شام دوا کے استعمال سے کنٹرول ہو سکے تو روزہ رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر درد کنٹرول کرنے کے لیے دن میں بھی دوا استعمال کرنی پڑرہی ہو تو روزہ نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ درد زیادہ وقت رہے تو دل کی تکلیف خطرناک صورت بھی اختیار کرسکتی ہے۔ ایسے مریضوں کو اکثر اوقات دواؤں کے استعمال سے افاقہ ہو جاتا ہے اور یہ بعد میں قضاروزے رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ بصورت دیگر فدیہ ادا کرسکتے ہیں۔

m  گھبراہٹ / اداسی کی بیماری (Depression/ Anxiety)   :ان بیماریوں کے شدید دور کے گزر جانے کے بعد مریض، ڈاکٹر کے مشورے سے، ہر۲۴گھنٹے میں Antidepressants Benzodiazepines کی بالعموم ایک یا دو خوراکوں کے استعمال سے اپنی صحت کو برقرار رکھتے ہوئے روزے رکھ سکتا ہے۔ یہ خوراک حسب ہدایت افطارکے بعد یا سحری کے وقت لی جاسکتی ہے۔

m مرگی (Epilepsy):اس بیماری میں استعمال ہونے والی وہ دوائیں جو دو وقت دی جاتی ہیں، وہ بہ آسانی سحر و افطار میں دی جاسکتی ہیں، تاہم کچھ دوائیں دن میں تین مرتبہ بھی تجویز کی جاتی ہیں جنھیں سحر و افطار اور بعد از تراویح لیا جا سکتا ہے۔ کچھ صورتوں میں دوائی کی مقدار بڑھاکر اسے دو وقت (سحر و افطار) بھی دیا جاسکتا ہے۔یہاں یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ خون میں شکر کی مقدار کی کمی اور نیند کی بے قاعدگی سے دورے آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر مریض اپنے تجربے سے یہ بات جانتا ہے کہ روزہ رکھنے سے اسے دورہ پڑتا ہے تو روزہ نہ رکھے۔

 مریضوں کو یہ مشورہ دیا جانا چاہیے کہ سحری میں اچھی خوراک لیں اور افطاری میں دیر نہ کریں۔ جہاں تک نیند کی بے قاعدگی کا تعلق ہے، مریضوں کو رمضان میں سونے کے لیے نئے معمول پر چلنے کی ہدایت کی جاسکتی ہے، جیسے تراویح کے فوراً بعد سوجانا اور سحری کے بعد نہ سونا، اس ہدایت پر عمل کرنے سے عبادت کے لیے بھی اچھا خاصا وقت مل سکتا ہے۔

ان بیماریوں میں مبتلا اکثر مریض بغیر کسی مسئلے کے روزہ رکھنے کے قابل ہوتے ہیں، تاہم دوائیوں کی مقدار اور دوائی لینے کے اوقات کا خیال رکھنا اور اگر ضرورت پڑے تو اَزسر نو انھیں متعین کرنا ضروری ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ کچھ مریض اپنی بیماری یا علاج کی ضرورت کی وجہ سے روزہ رکھنے پر قادر نہیں ہوتے۔ البتہ جہاں تک ممکن ہو، روزہ رکھنے کی خواہش کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کیونکہ روزہ انھیں اپنے روزمرہ معمولات پر دسترس اور اپنے دینی فرائض کی ادایگی کے قابل ہونے کی وجہ سے ایک عظیم مسلم امہّ کا حصہ ہونے کا احساس دلائے گا، جو ان کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کے لیے بھی بہت فائدہ مند ثابت ہوگا، ان شاءاللہ۔

وسطی چین میں واقع ووہان (صوبہ ہوٗبے کا صدر مقام) کے چار باشندے ۲۶دسمبر ۲۰۱۹ء کو بخار، کھانسی، اور سانس لینے میں تکلیف کی شکایت لے کر ڈاکٹر ژینگ جکسیان کے پاس پہنچے۔ ڈاکٹر ژینگ نے ان مریضوں میں ایک پُراسرار قسم کے نمونیہ کی دریافت کی۔ انھی دنوں ووہان سینٹرل ہاسپٹل کے ڈاکٹر لی وینلیانگ نے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو ایک نئے وائرس سے خبردار کیا۔لیکن اگر ڈاکٹر لی وینلیانگ کو ہراساں کرنے کے بجاے ان کی تنبیہہ پر کان دھرا جاتا تو کیا حالات بہتر ہوتے؟ اس سوال کا جواب فی الحال حتمی طور پر نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن اس کے بعد سے جو ہورہا ہے، وہ ہمارے لیے خبر اور آنے والی نسلوں کے لیے تاریخ بنتا جارہا ہے۔

ووہان شہر میں نئے وائرس سے متاثر مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ زیادہ تر متاثرین کا تعلق سمندری غذاؤں کے ایک بازار سے تھا، جہاں مچھلیوں و دیگر بحری جان داروں کے گوشت کے ساتھ ساتھ مختلف اقسام کے بھالو، چوہے، بندر، سانپ، گلہری، چمگادڑ، مگرمچھ، کتے، گدھے، لومڑی، خنزیر، کچھوے اور بھیڑیے وغیرہ کا گوشت بھی ملتا تھا۔ چند ہی روز بعد چین نے بازار بند کرکے کئی مؤثر قدم اٹھائے۔ لیکن یہ وائرس بلائے جان بن کر دنیا پر ٹوٹ پڑا۔ مشرق سے لے کر مغرب تک شاید ہی کوئی ملک ہو جو اس کی زد سے محفوظ ہو۔۲۹؍اپریل تک کے اعداد و شمار کے مطابق کورونا وائرس کا انفیکشن ۱۹۸ممالک میں پھیل چکا ہے۔ اب تک تقریباً ۲۸ لاکھ افراد اس مرض سے(جسے COVID-19  کا نام دیا گیا) متاثر ہوئے ہیں۔ دنیا کے ہر خطے میں ان متاثرین میں سے ایک لاکھ ۹۰ہزار سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں اور ان اعداد و شمار میں ہر آن اضافہ ہورہا ہے۔

اس مضمون کا مقصد اس بیماری کے تعلق سے کوئی نیا انکشاف نہیں ہے۔ یہاںاس وبا سے پیداشدہ حالات پر چند خیالات کو یک جا کیا جارہا ہے۔ مضمون کے پہلے حصے میں، تحدیث نعمت کے طور پر، اس بات کا مختصر ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو جو دفاعی نظام عطا کیا ہے، وہ کیسے کیسے دشمنوں سے کس کس طرح ہماری حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ انسان اپنی ساخت پر غور کرے تو اس کے دل میں اللہ کے شکر کا جذبہ پیدا ہو۔ ساتھ ہی کورونا وائرس کے ذریعے پیدا شدہ بیماری کے تعلق سے چند بنیادی باتوں کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ دوسرے حصے میں، زور اس بات پر ہے کہ ان پریشان کن حالات کا سامنا مومنانہ کردار اور مثبت طرز فکر کے ساتھ کیسے کیا جائے؟

جسم کی مستعد اور طاقت ور فوج

اُس ملک میں امن و امان اور خوش حالی کا ڈیرا نہیں ہوسکتا ،جہاں اندرونی و بیرونی دشمن اپنی ریشہ دوانیوں کے لیے آزاد ہوں۔ ملک کی بقا اور سالمیت کے لیے ضروری ہے کہ اندرونی دشمن سے نبٹنے کے لیے پولیس اور بیرونی دشمنوں کے قلع قمع کے لیے فوج مستعد ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ پولیس اور فوج، دشمن اور دوست میں تمیز کرنا جانتے ہوں۔ کیونکہ پولیس اگر چور، ڈاکو اور قاتلوں کو چھوڑ کر شہریوں کی دشمن بن جائے اور فوج دہشت گردوں اور دشمن افواج کو چھوڑ کر ملکی سیاست میں دخل اندازی کا راستہ اختیار کرے، تو ایسے ملک کی خیر نہیں۔ انسانی جسم کی بھی یہی صورتِ حال ہے۔ اندرونی و بیرونی حملوں سے حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو جو صلاحیت دی ہے، اسے قوتِ مدافعت (Immune System)کہتے ہیں۔ آئیے اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں:

ہمارے جسم میں کوئی بن بلایا بیرونی عنصر داخل ہونا چاہے تو ہماری جلد اسے اس کی اجازت نہیں دیتی۔ ناک کے راستے دھول یا کوئی ذرہ داخل ہوجائے تو وہ بلغم اور چپچپے مادے میں اُلجھ کر رہ جاتا ہے، اندر داخل ہوکر نقصان نہیں پہنچا پاتا، بعد ازاں اسے چھینک کے زور سے دھکے مار کر باہر نکال دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے ذرات آنکھوں میں پڑ جائیں، تو بھی انھیں تباہی مچانے کی اجازت نہیں ملتی، کچھ ہی دیر میں آنسو انھیں گرفتار کرلیتے ہیں اور اپنی سرحدوں سے باہر دھکیل دیتے ہیں۔ کھاتے وقت ہم فائدہ مند چیزوں کے ساتھ ساتھ بہت سی مضر اشیا بھی کھالیتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کو توڑ پھوڑ کر کام کی چیزوں کو الگ کرنے اور فضول چیزوں کو جسم سے خارج کردینے کا ایک پورا نظام پیٹ میں موجود ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا ہوگا کہ مچھر وغیرہ کے کاٹنے پر وہ جگہ تھوڑی سی سوج جاتی ہے، اور سرخ نشان پڑجاتا ہے۔یہ مچھر کی جانب سے داخل کیے گئے کیمیائی مادے پر جسم کے مدافعتی نظام کا ردعمل ہے۔ جسم کے خلوی سپاہی جب تک مرمت کے اس کام سے فارغ نہیں ہوجاتے چین سے نہیں بیٹھتے۔ کوئی زخم ہوجائے اور خون بہنے لگے، تو بھی یہ نظام حرکت میں آتا ہے اور زخم کے مقام پر خون جم جاتا ہے، تاکہ زیادہ مقدار میں خون کے نکل جانے سے جسم کو کوئی خطرہ نہ لاحق ہو۔

مثال کے طور پر اگر کوئی وائرس جسم میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتا ہے، تو بہت دیر تک وہ رنگ رلیاں نہیں منا پاتا۔ جسم کا مدافعتی نظام فوراً حرکت میں آتا ہے اور ایمرجنسی کا اعلان کردیتا ہے۔ اس چیز کو آپ بخار، نزلہ و زکام کہتے ہیں۔ جسم کا درجۂ حرارت زیادہ ہو تو وائرسس کو اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں میں پریشانی ہوتی ہے اور جسم کے سپاہیوں کو انھیں ڈھونڈ کر ٹھکانے لگادینے میں آسانی ہوتی ہے۔ یہی صورت نزلہ و زکام کی بھی ہے؛ بہتی ناک دراصل اس جنگ کا نتیجہ ہے، جو جسم کی افواج کی نقصان دہ جرثوموں سے ہوتی ہے۔

بس اتنا ہی نہیں، جسم کے اس مدافعتی نظام کی ایک بہترین خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے پرانے دشمنوں کو یاد رکھتا ہے۔ چنانچہ جب وہی دشمن دوبارہ حملہ کرتے ہیں تو بڑی آسانی سے انھیں کھدیڑ دیا جاتا ہے اور کسی نئی خونیں جنگ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ وہ اصول ہے جسے سائنس دانوں نے بہت سی خطرناک بیماریوں کے ٹیکے بنانے میں استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر چیچک کی وبا جب پھیلتی تھی تو پہلے پہل ہزاروں لاکھوں لوگ اس کا شکار ہوجاتے تھے، لیکن اب اس کا ٹیکہ لگادیا جاتا ہے۔ اس کا ٹیکہ گائے میں پائی جانے والی (نسبتاً کم خطرناک) چیچک کے پس سے بنایا جاتا ہے۔ جب اسے متعین مقدار میں انسان کے جسم میں پہنچایا جاتا ہے تو جسم کا مدافعتی نظام بڑی آسانی سے اس کا مقابلہ کرلیتا ہے اور پھر یہ نظام(یا متعین الفاظ میں Memory Cells ) اس ’حملے‘ کو یاد کرلیتے ہیں اور آیندہ اگر کبھی چیچک کے وائرس کا حملہ ہوتا بھی ہے، تو جسم بڑی آسانی سے اسے شکست دے دیتا ہے۔

انسانی جسم کے ننھے دشمن

جسم کا یہ مدافعتی نظام لگاتار کام کرتا ہے۔ اس کے خاص دشمن جن کا تذکرہ یہاں مقصود ہے چھوٹے، بہت چھوٹے بلکہ بہت ہی زیادہ چھوٹے ہوتے ہیں۔ اتنے چھوٹے کہ وہ انسانی آنکھوں سے نظر بھی نہیں آتے۔ جسامت کی بات کریں تو ’بیکٹیریا‘ (Bacteria) کی جسامت (مختلف قسموں کے اعتبار سے) 3.0 سے لے کر 5 مائکرومیٹر تک ہوتی ہے۔ خیال رہے کہ ایک میٹر میں ۱۰ لاکھ مائکرومیٹر ہوتے ہیں۔ یہ اتنی چھوٹی جسامت ہے کہ مٹی کے ایک گرام میں عام طور پر ۴کروڑ بیکٹیریا ہوتے ہیں۔ وائرس کو ناپنے کے لیے مائکرو میٹر کی یہ چھوٹی اکائی بھی بہت بڑی ہے۔ چنانچہ انھیں نینو میٹر میں ناپا جاتا ہے۔ ایک میٹر میں ایک ارب (یعنی ایک کے بعد نو صفر) نینو میٹر ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں نے ایسے وائرسس کا پتا بھی لگایا ہے، جن کی جسامت صرف ۱۷ نینو میٹر ہوتی ہے۔ ’سارس‘ کے وائرس کی جسامت، جو کورونا وائرس سے کافی مماثل ہے، ۱۲۰ نینو میٹر ہوتی ہے۔ یہ اتنی چھوٹی جسامت ہے کہ اگر بیکٹیریا کی آنکھ ہوتی تو بھی اسے وائرس نظر نہیں آتے۔ اس چھوٹی سی جسامت کا تصور کرنے کے لیے اپنے ناخنوں پر ایک نظر ڈالیے۔ آپ کے ناخن ہرسیکنڈ میں تقریباً ایک نینومیٹر بڑھ جاتے ہیں۔

’وائرس‘ دراصل ایک متعدی عامل (infectious agent) ہے، جس میں کسی زندہ وجود میں داخل ہوکر افزایش کی حیرت انگیز صلاحیت ہوتی ہے۔ روس کے عالمِ نباتیات دمتری ایوانووسکی (Dmitri Ivanovsky) نے ۱۸۹۲ء میں تمباکو کے پودوں کی ایک بیماری کا مطالعہ کرتے ہوئے بتایاکہ اس بیماری کا سبب بیکٹیریا سے بھی چھوٹے جراثیم ہیں۔ بعد میں انھی کو وائرس کا نام دیا گیا۔

 وائرس بذات خود زندہ ہے یا کسی زندہ مخلوق میں داخل ہونے پر اس میں جان پڑجاتی ہے؟ اس سوال پر سائنس دانوں کے درمیان اختلاف ہے۔ احتیاط کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وائرس میں زندگی کی واضح علامات اس وقت دکھائی پڑتی ہیں، جب وہ کسی جان دار میں داخل ہوکر اپنی افزایش شروع کرتا ہے۔ وہ اتنی کثیر تعداد میں بڑھتا ہے کہ اگر اس کی روک تھام نہ کی جائے تو اس جان دار کی زندگی کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے جس کے تمام وسائل پر دھیرے دھیرے یہ طفیلی وائرس قبضہ کرتا چلا جاتا ہے۔ وائرس انسان اور جانوروں کے علاوہ نباتات، حتیٰ کہ جراثیموں جیسی انسانی آنکھوں سے نظر نہ آنے والی مخلوقات پر بھی تسلط حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

کورونا وائرس سے متعلق چند باتیں

جس وبا سے پوری دنیا پریشان ہے اسے Corona VIrus Disease 2019 (COVID-19) کا نام دیا گیا ہے۔ جو وائرس اس وبا کے لیے ذمہ دار ہے اسے، ’سارس‘ کے وائرس سے مماثلت کی مناسبت سے، Severe Acute Respiratory Syndrome Corona Virus 2  (SARS-CoV-2) کا نام دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں معلومات کا خلاصہ درج ذیل ہے:

سب سے پہلے اس وائرس کا پتا چین کے ووہان شہر میں چلا۔ سائنس دانوں کی ابتدائی تحقیق کے مطابق یہ وائرس چمگادڑوں اور سانپوں سے انسانوں میں آئے ہیں۔ انسانوں سے انسانوں میں یہ وائرس کھانسی یا چھینک میں خارج ہونے والے تنفسی قطروں (Respiratory Droplets) کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں۔ یہ وائرس پلاسٹک یا اسٹیل پر تین دن، کاغذ پر ایک دن، اور تانبے پر چار گھنٹوں تک ’زندہ‘ رہ سکتا ہے۔ تیز بخار کے ساتھ سوکھی کھانسی اور سانس لینے میں تکلیف کچھ واضح علامات ہیں، جو ’کورونا وائرس‘ کے انفیکشن کو ظاہر کرتی ہیں۔ پاکیزگی و صفائی کا خیال رکھا جائے تو وائرس کے انفیکشن سے بچا جاسکتا ہے۔ انسانی جلد پر وائرس ہو تو بھی وہ اپنے افزایشی عمل کو شروع نہیں کرسکتا۔ لیکن انسان جب اپنے ہاتھ کو آنکھ، ناک، یا منہ تک لے جاتا ہے تو وائرس کو جسم میں داخلے کی راہ مل جاتی ہے۔ اس لیے ہاتھوں کی صفائی پر خصوصی توجہ دلائی جارہی ہے۔ اسی طرح کھانستے اور چھینکتے وقت بھی اگر اسلامی آداب کا خیال رکھا جائے تو انفیکشن کے پھیلنے پر بڑی حد تک روک لگائی جاسکتی ہے۔

موجودہ اعداد و شمار کے مطابق ۸۴ فی صد لوگ جو کورونا وائرس کے انفیکشن کا شکار ہوئے تھے، صحت یاب ہوچکے ہیں۔ جنھیں اس وقت انفیکشن ہے، ان میں سے صرف ۴ فی صد کی حالت تشویش ناک بتائی جارہی ہے۔

یہ تمام اعداد و شمار آپ  www.worldometers.info/coronavirus پر دیکھ سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس وائرس سے ہونے والی اموات کی شرح دو سے چار فی صد ہے۔ بری خبر البتہ یہ ہے کہ کورونا وائرس بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک بہت بڑی تعداد کا دو سے چار فی صد بھی بڑی تعداد ہوتی ہے، لہٰذا اس معاملے کو ہلکا نہیں لیا جاسکتا۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگر کورونا وائرس تیزی سے پھیل جائے تو دنیا کے کئی ممالک کا طبی و شفائی نظام اس بوجھ کو برداشت نہیں کرسکے گا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے فرض کیجیے کہ ایک شہر میں صرف دس اسپتال اور ہر اسپتال میں اوسطاً پچاس مریضوں کو داخل کرنے کی گنجایش ہے۔ اس شہر میں اچانک ۳ہزار لوگ بیمار ہوجائیںتو شہر میں اسپتال، بستر، ڈاکٹر، نرس سے لے کر دواؤں تک کا قحط پڑ جائے گا، کیونکہ اس شہر کا طبی نظام بیک وقت صرف پانچ سو مریضوں کی نگہداشت اور علاج کی حیثیت و صلاحیت رکھتا ہے۔ اب یہ اضافی مریض، چاہے کسی عام سے مرض میں ہی کیوں نہ مبتلا ہوں، مگر علاج نہ ملنے کی صورت میں (یا کماحقہٗ  نہ ملنے کی صورت میں) بڑا نقصان اٹھائیں گے۔ لیکن یہی تین ہزار مریض اگر ایک ہی دن بیمار ہونے کے بجاے ایک مہینے کے نسبتاً طویل عرصے میں بیمار ہوئے ہوتے تو سبھی کو علاج میسر آتا اور معاشرے کو مجموعی طور پر ہونے والا نقصان بہت کم ہوتا۔ اسے اصطلاحی زبان میں flattening of the curve کہا جاتا ہے۔ انسانوں کے بڑے پیمانے پر اکٹھا ہونے اور سفر کرنے پر جو پابندیاں لگائی جارہی ہیں، اس کا ایک بنیادی مقصد یہی ہے کہ وائرس کو تیزی کے ساتھ پھیلنے سے روکا جاسکے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بیک وقت ملک کے طبی نظام پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ پڑے۔

ہمارے کرنے کا کام

l  اللہ کی نشانیوں پر غور کریں۔ ساری کائنات اللہ کی نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ایک مومن ان نشانیوں پر غور کرتا ہے اور سبق حاصل کرتا ہے۔ جب ہم قرآن میں پڑھتے ہیں کہ ابابیلوں کے ایک جھنڈ نے ہاتھیوں کے ایک عظیم لشکر کا صفایا کردیا تو اس واقعے میں ہمیں اللہ کی نشانی نظر آتی ہے۔ جب واعظ ہمیں مچھر کے ذریعے نمرود کی شکست کا قصہ سناتا ہے، تو ہمیں اس میں اللہ کی نشانی نظر آتی ہے۔ آج دنیا بھر کے انسان، وقت کی سوپر پاورز سمیت، جس طرح اس چھوٹے سے وائرس سے پریشان ہیں، کیا اس میں ہمارے لیے کوئی نشانی نہیں ہے؟ یہ ’حقیر‘ وائرس ہمیں اللہ کی قوتِ تخلیق پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ سائنس کی تمام تر ترقیوں کے باوجود خالقِ کائنات کی مشیت کے سامنے انسان کی بے بسی پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے، اور انسان کا سر بے اختیار احکم الحاکمین کے سامنے عجز ونیاز سے جھک جاتا ہے اور بقول غالب:
دیکھو  مجھے  جو  دیدۂ  عبرت  نگاہ  ہو

 جو انسان دوسرے انسانوں کو اس آفت سے بچانے کے لیے دن رات لگے ہوئے ہیں، ان کے کردار کی عظمت پر بھی غور کیجیے۔ جو انسانی ذہن اس وائرس سے لڑنے کی تدبیریں کررہے ہیں، تجربات کررہے ہیں، ان کے ذہن و صلاحیت پر رشک کیجیے۔ ان تمام لوگوں کے لیے ہدایت و مغفرت کی دعائیں کیجیے۔ یہ رجوع الی اللہ کا وقت ہے۔ انسانوں پر آنے والی یہ مصیبتیں انسانوں ہی کی اپنی کمائی ہیں۔ اللہ تو بہت سے گناہ یونہی معاف فرمادیتا ہے، لیکن کبھی کبھی انھیں ان کے اعمال کا مزا بھی چکھادیتا ہے (ملاحظہ فرمائیے: سورئہ روم: ۴۱، سورۂ شوریٰ: ۳۰)۔ توبہ کیجیے، استغفار کیجیے، خالق کے سامنے گڑگڑائیے۔ اللہ کی ان نشانیوں کو اپنے ایمان میں اضافے کا سبب بنالیجیے۔ ہمارے دل کا حال اس چٹان کا سا نہ ہو، جس پر بارش کا کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ اس زرخیز زمین کا ساہو، جس پر بارش ہو تو فصلیں لہلہا اٹھتی ہیں۔

l  اعتدال کا دامن تھامیں۔ ایسے واقعات جب رونما ہوتے ہیں، تو بہت سے لوگ دو قسم کی انتہا پسندی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ’’موت برحق ہے اور ہم اللہ سے ڈرتے ہیں، کسی وائرس سے نہیں‘‘۔ اور پھر ان بذاتِ خود صحیح باتوں سے احتیاط نہ کرنے کا غلط جواز برآمد کرلیتے ہیں۔ موت بالکل برحق ہے، لیکن سڑک پر جب کوئی گاڑی آپ کی طرف آتی ہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟ جی ہاں!ہٹ جاتے ہیں۔ آپ کا یہ ہٹنا ایمان کے منافی نہیں ہے۔ قرآن کی تعلیم ہے کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو (سورۂ بقرہ: ۱۹۵)۔ رزق اللہ دیتا ہے، اور اس بات پر ہمارا ایمان ہے، مگر کون بے وقوف ہے، جو حصولِ رزق کے لیے کوشش نہیں کرتا؟ رزق کے لیے کوشش کرنا، اللہ کے رازق ہونے پر ایمان کے منافی تو نہیں ہے۔

اس کے برخلاف کچھ دوسرے لوگ ہیں، جو حواس باختہ ہوجاتے ہیں۔ گھبرا کر عجیب و غریب فیصلے لینے لگتے ہیں۔ خود ڈرتے ہیں اور دوسروں میں بھی خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ احتیاطی تدابیر یوں بھی کچھ احتیاط کے ساتھ بتائی جاتی ہیں، لیکن یہ اس ’احتیاط‘ میں بھی ’اجتہاد‘ کرکے دس درجہ زیادہ محتاط ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ سڑکوں اور بازاروں میں جانے کی ممانعت ہو تو  یہ کمرے سے باتھ روم کا سفر اختیار کرنے میں بھی دائیں بائیں دیکھ کر ماسک وغیرہ صحیح کرلیتے ہیں۔ بوڑھے اور بیماروں کو مسجد آنے سے منع کیا جائے تو تندرست و توانا ہوکر بھی باجماعت نماز نہیں پڑھتے۔

پہلے گروہ کی غلطی یہ ہے کہ وہ مسبب الاسباب پر ایمان لاکر یہ بھول جاتا ہے کہ اسی خدا نے اسباب پیدا بھی کیے ہیں، دنیا کو دارالاسباب بھی بنایا ہے، اور انسان کو اسباب اختیار کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ چنانچہ غزوۂ بدر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بغیر فوج اور ہتھیاروں کے آکر کھڑے نہیں ہوگئے تھے کہ آج پھونکوں سے معرکہ سر ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ سارے اسباب اختیار کیے گئے، جو کیے جاسکتے تھے ۔ دوسرے گروہ کی غلطی یہ ہے کہ وہ سبب کچھ اس طرح اختیار کرتا ہے کہ وہ سبب ہی پر ایمان لایا ہوا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ سبب کو پیدا کرنے والا مسبب الاسباب بھی ہے، جو چاہے تو آگ گرمی اور جلانے کا نہیں بلکہ ٹھنڈی ہوجائےاور سلامتی کا سبب بن جائے (سورۂ انبیاء۲۱: ۶۹)۔

 چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ غزوۂ بدر میں اللہ کے رسولؐ نے سارے اسباب اختیار کیے، لیکن بھروسا اللہ پر کیا، دعائیں اور مناجات اللہ سے کیں، اور فتح بھی یوں حاصل ہوئی کہ مومنین کو اللہ کی تائید اور اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتوں کی حمایت حاصل تھی۔ یہ اعتدال کی روش ہے۔ ہمارا ایمان اور یقین اللہ پر ہو، اس کی بنائی ہوئی تقدیر پر ہو، اس بات پر ہو کہ مصیبت اللہ کی مرضی ہی سے آتی ہے (سورۂ تغابن: ۶۴، سورۂ حدید: ۲۲)۔ لیکن یہ ایمان ہمیں تدبیر اور عمل سے غافل نہ کرے بلکہ اس کے لیے مہمیز ثابت ہو۔ یقین اس بات پر بھی ہو کہ مصیبت کو دور کرنے والا بھی اللہ ہی ہے، وہی علیم و خبیر ہے، اور ایمان والوں کے دلوں کو مصیبت میں سکون و طمانیت اور ہدایت بھی اسی سے حاصل ہوتی ہے (سورۂ فتح: ۴،سورۂ تغابن:۶۴ )۔ یعنی رسولؐ اللہ کے ارشاد کے مطابق ہم اونٹ باندھ کر اللہ پر توکل کریں۔ اسلام کا فلسفۂ توکل یہ نہیں ہے کہ اللہ پر توکل کرنے کے بجاے رسی پر توکّل کیا جائے، بلکہ یہ بات بھی ہے کہ اونٹ کو باندھے بغیر سمجھا جائے کہ اللہ پر توکّل کیا جارہا ہے۔

l  لایعنی، لاحاصل اورفضول باتوں سے بچیں۔ انسانوں میں ایک گروہ ایسا ہے، جسے باتیں بگھارنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ بات جتنی بیکار ہو، بے سر پیر کی ہو، بے مقصد ہو، اس میں انھیں اتنا ہی لطف آتا ہے۔ چنانچہ ’کورونا وائرس‘ کے حوالے سے ہم سنتے ہیں کہ یہ ’یہودی سازش‘ ہے۔ ’یہ چین کی سازش ہے‘۔ ’یہ چین کے خلاف امریکا کی سازش ہے‘ وغیرہ۔ ہم کو اس سے انکار نہیں ہے کہ اخلاق و کردار سے عاری حکمراں اور پالیسی ساز، اپنے قومی مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں لیکن بات مستند بھی تو ہو۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کون سا ذریعۂ علم آپ کے پاس ہے، جس کے ذریعے حکمت کے یہ موتی چائے کی چسکیوں کے ساتھ بکھیرے جارہے ہیں؟ اگر ایسا کوئی مستند ذریعۂ علم ہے، جو کسی اور کے پاس نہیں تو مہربانی کرکے ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیجیے تاکہ ان حقائق سے پردہ اٹھ سکے۔ لیکن اگر ایسا کوئی مستند ذریعۂ علم نہیں ہے، تو خود بتائیے محض وہم و گمان اور ’وٹس ایپ‘ کے فارورڈز کی بنیاد پر ہونے والی ان خوش گپیوں کی کیا حیثیت ہے؟ آئیے، اس بات پر ایک دوسرے طریقے سے غور کریں۔ آپ کے کہنے سے وہ تین چار لوگ، جن سے آپ گفتگو فرمارہے ہیں، وہ مان بھی گئے کہ یہ امریکی (یا یہودی یا چینی) سازش ہے، تو آپ کو اور ان کو کیا حاصل ہوگیا؟ یہ لاحاصل گفتگو وقت کا ضیاع نہیں تو اور کیا ہے؟

اسی طرح کچھ لوگ (جب تک ان کے شہر یا ملک پر آفت نہ آجائے) حکم صادر کردیتے ہیں کہ ’یہ اللہ کا عذاب ہے‘۔ میرے بھائی! آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ منہ سے نکلی ہوئی باتوں کا قیامت میں حساب دینا ہوگا؟ سامری اور ابولہب کو جو بیماری لاحق ہوئی وہ اللہ کے غیض و غضب کی ایک شکل تھی۔ حضرت ایوبؑ کو جو بیماری لاحق ہوئی وہ اللہ کی ایک آزمایش تھی، جس سے وہ سرخرو نکلے۔ آج یہ باتیں ہم یقین سے اس لیے کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنے رسولؐ کے واسطے سے یہ باتیں ہمیں بتائی ہیں۔ لیکن آج کوئی بیماری، کوئی وبا، کوئی حادثہ: عذاب ہے یا آزمایش، ہم کیسے کہہ سکتے ہیں؟ یہ کسی کے لیے عذاب بھی ہوسکتا ہے؛ کسی کی آزمایش بھی ہوسکتی ہے؛ کسی کو غوروفکر پر آمادہ کرنے کا ایک ذریعہ ہوسکتا ہے؛ کسی کے لیے تنبیہ ہوسکتی ہے؛ کسی کے گناہوں کے جھڑنے کا اور کسی کے درجات کی بلندی کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔ لاحاصل بحثوں میں پڑے بغیر ہماری توجہ اس بات پر کیوں نہیں ہوتی کہ جن حالات سے بھی ہمیں سابقہ ہے، ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ذاتی طور پر میری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اسلام مجھ سے کیا چاہتا ہے؟ میں ایسا کیا کروں کہ رضاے الٰہی کے نصب العین سے کچھ اور قریب ہوسکوں؟ وغیرہ وغیرہ۔

l  فراغت کے ان لمحات سے بھرپور استفادہ کریں۔ ہم میں سے ہر ایک کو ہروقت مصروف رہنے کا ملال رہتا ہے۔ ایسے میں حکومتوں کی جانب سے احتیاطاً کیے گئے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ہمیں جو فرصت کے لمحات ملے ہیں، وہ نعمت غیر مترقبہ ہیں۔ جس طرح ہر نعمت کا خدا کو حساب دینا ہے، اسی طرح فرصت و فراغت کے ان لمحات کا حساب بھی دینا ہوگا۔ خدارا، ان قیمتی لمحات کو موبائل میں ویڈیوز دیکھنے میں اور پوسٹ لائیک شیئر، کھیلنے میں ضائع نہ کیجیے گا۔ ہر ایک نے کبھی نہ کبھی یہ منصوبہ بنایا ہے کہ فرصت ہوتی تو فلاں تفسیر کا مطالعہ کرلیتا، فلاں سیرت کی کتاب پڑھ لیتا، فلاں حدیث کی کتاب پڑھتا، مگر کالج کی پڑھائی سے یا آفس کی ہنگامہ آرائی سے فرصت ہی نہیں ملتی تھی۔ کبھی چھٹی ہوتی بھی تھی تو اس کے الگ منصوبے ہوتے تھے۔ اب یہ جو فرصت و فراغت کے لمحات بالکل غیرمنصوبہ بند طریقے پر میسر آئے ہیں، انھیں غنیمت جانیے، مطالعہ کیجیے اور اپنے علم میں اضافہ کیجیے۔ کیا پتا ان چند دنوں کے مطالعے سے آپ کی شخصیت میں کوئی بہتر تبدیلی آجائے۔ قرآن و حدیث کے لگاتار مطالعے کا جذبہ اور توفیق میسر آجائے۔ پھر دینی کتب سے فیض حاصل کرنے کا یہ سلسلہ عام دنوں تک بھی دراز ہوجائے۔

l   اسی طرح نوافل کا اہتمام کیجیے۔ تسبیح و تہلیل کا اہتمام کیجیے۔ اگر ہم سے کوئی ایسا بدنصیب ہے، جو روزمرہ کی مصروفیات کے دوران پنج وقتہ نمازوں کی پابندی نہیں کرپاتا، تو وہ فرصت کے ان لمحات میں اپنے نفس سے جہاد کرے اور نمازوں پر اپنے دل کو آمادہ کرے۔ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں اگر مسجد جانا ممکن نہ ہو، تو گھروں میں باجماعت نماز کا اہتمام کریں۔ عورتوں کو اور بچوں کو بھی شریک کریں۔ نمازیں پڑھنے والے کوشش کریں کہ وہ اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع پیدا کریں، نئی سورتیں یاد کریں، قرآن پر غور و فکر کریں، لمبی نمازیں پڑھیں اور اس بات پر غور کریں کہ اپنے خدا سے کیا کہہ رہے ہیں۔ قیام اللیل کا خیال عام طور پر جب آتا ہے تو شیطان صبح کی مصروفیات کے حوالے سے بہکاتا ہے، اب شیطان کے کسی نئے حربے کا شکار بننے کے بجاے جی کڑا کرکے قیام اللیل کا اہتمام کریں۔ رمضان المبارک کی اپنی نعمتیں ہیں۔ نفل روزوں کا اہتمام بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر اس طرح سے ہم نے اپنی ذہنی کیفیات پر، اپنے علم پر، اپنی عبادات اور نمازوں پر سنجیدگی سے کام کیا تو ان شاء اللہ اپنی شخصیت میں دوررس مثبت تبدیلیوں کو پیدا ہوتا دیکھیں گے۔

l اسی طرح گھروالوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ بچوں کی تربیت کے لیے انھیں انبیا و صحابہ کے قصے سنائیں۔ دسترخوان پر انھیں ساتھ کھلائیں۔ مختلف دعائیں یاد کرائیں۔ موقع غنیمت جان کر بڑوں کی خدمت کریں اور ان کی دعائیں لیں۔

l مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے اخلاق میں بلندی پیدا کریں۔ شیطان کے بہکاوے میں آکر بہت سے لوگ مشکلات و مصائب میں خود غرضی اور کمینگی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں اپنے ازلی دشمن ابلیس لعین کے جھانسے میں نہیں آنا ہے۔ اس وبا کے دوران دنیا بھر میں انسانوں نے جہاں بلند اخلاقی کے نمونے پیش کیے، وہیں پست اخلاقی کے شرمسار کردینے والے نمونے بھی سامنے آئے۔ لوگوں نے آنے والی پریشانی کی بو سونگھتے ہی جس طرح روزمرہ کی ضروری اشیا کا ذخیرہ کرنا شروع کردیا، اس سے کئی مقامات پر نہ صرف یہ کہ اشیاے ضروریہ کی قلت محسوس کی گئی، بلکہ خوف و ہراس کا ماحول بھی پیدا ہوا۔ کئی لوگ افواہوں کی آگ پر تیل ڈالنے کا کام کرتے رہے۔ بہت تو ایسے تھے، جنھوں نے اپنے بھائیوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر اپنی جیبیں بھرنے کی اسکیمیں سوچیں۔ چنانچہ ہمارے درمیان ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے ماسکس اور سینی ٹائزر کا ذخیرہ کرکے ان کی قیمتیں آسمان پر پہنچادیں، اور لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاکر ان اشیا کی اصل سے کئی گنا زیادہ قیمتوں پر انھیں فروخت کیا۔ اخلاق کی ایسی پستی اشرف المخلوقات کے شایانِ شان نہیں ہے۔

ہمیں چاہیے کہ مصیبت کے اس وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کے کام آئیں۔ حتی المقدور انفاق فی سبیل اللہ کریں۔ ماتحت کام کرنے والوں کو کام نہ کرپانے کے باوجود تنخواہیں دیں۔ کسی کو نقد رقم کی یا قرض کی ضرورت ہو تو اس کی ضرورت پوری کریں۔ اپنے آس پاس رہنے والے ان لوگوں کا خاص خیال رکھیں ،جو یومیہ کماتے تھے اور اب ان حالات نے ان کی روزی روٹی کو متاثر کردیا ہے۔ اسی طرح ان طلبہ اور نوکری پیشہ افراد کے کھانے و دیگر ضروریات کا خیال رکھیں، جو اپنے گھروالوں سے دور رہتے ہیں۔ اگر وہ فاقہ کریں گے اور آپ پیٹ بھر کر کھائیں گے تو قیامت کے روز اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے؟ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ لوگوں نے اپنی ضروریات سے زائد ذخیرہ کررکھا ہے، لیکن تب بھی دوسروں کو نہیں پوچھتے ،حالانکہ ایک مومن کی شان یہ ہے کہ وہ ’’اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں ، خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں‘‘ (سورۃ الحشر: ۹)۔ ہمیں جانچنا ہوگا کہ اخلاقی بلندی کے اس قرآنی معیار پر ہم کہاں تک پورے اترتے ہیں؟

l  طہارت و نظافت کا خیال رکھیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پاکی و صفائی پر اتنا زور دیا کہ اسے نصف ایمان قرار دیا، لیکن ان کی امت آج گندا رہنے کے لیے مشہور ہے۔ خدارا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کا پاس و لحاظ رکھیں، پاک و صاف رہیں، ہروقت باوضو رہنے کی کوشش کریں، دوسروں کو بھی اس طرف متوجہ کریں۔ طہارت کے اسلامی آداب کا تفصیلی مطالعہ کریں اور اپنی زندگی میں ان آداب کی مکمل پاسداری کی کوشش کریں۔ گھروالوں کو بھی ان پر کاربند کریں۔ اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو ان باتوں کی طرف متوجہ کریں۔ گھروں اور محلوں میں بھی ستھرائی اور صفائی کا خیال رکھیں، صرف اس ہنگامی موقعے پر نہیں، ہمیشہ رکھیں۔ اس سلسلے میں مل جل کر کوشش کریں۔ جسم اور ماحول کی صفائی، روحانی پاکیزگی کی پہلی سیڑھی ہے اور بیماریوں سے محفوظ رہنے کا آزمودہ نسخہ بھی۔

l دعوت کا کام کریں۔ انبیا ؑکا اسوہ ہمیں بتاتا ہے کہ ایک مومن ہر حال میں دعوتِ دین کا کام کرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام جیل میں ہوتے ہوئے بھی فریضۂ دعوت سے غافل نہیں ہوئے۔ ہمیں بھی اس فریضے سے غافل نہیں ہونا ہے۔ موبائل اور مختلف سوشل میڈیا ایپس سے بہت سے بے وقوف صبح و شام صرف گناہ بٹورتے ہیں، سنی سنائی اور بے سروپا ’خبریں‘ اور معلومات، بلاتحقیق آگے پھیلاتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے برعکس عقل مند جانتے ہیں کہ ان کا ڈھنگ سے استعمال کیا جائے تو بہترین انداز میں دعوت و اصلاح کا کام انجام دیا جاسکتا ہے۔

’کورونا وائرس‘ کے پھیلنے، بلکہ اس طرح کے تمام تر واقعات کے نتیجے میں لوگ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ تازیانے لوگوں کو ان کی روزمرہ کی بے فکری کی زندگی سے نکال کر، کچھ سنجیدہ سوالات پر غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ عام دنوں کی بہ نسبت ان اوقات میں ہدایت پر غور کرنے اور اسے قبول کرنے کا داعیہ کچھ بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ موت کا خیال اور خدا کی یاد دلوں کو نرم کردیتی ہے۔ اسلام زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی بہترین رہنمائی کرتا ہے۔ موقع و محل کی مناسبت سے اسلامی تعلیمات کا تعارف کرایا جائے، تو بہت سے ذہن متاثر ہوسکتے ہیں، اور بہت سی سعید روحوں کو ان شاء اللہ ہدایت قبول کرنے کی توفیق مل سکتی ہے۔

l  مثال کے طور پر، یہ بات دیدۂ بینا رکھنے والے بہت سے شریف النفس لوگوں کو اپیل کرے گی کہ اللہ نے پاک چیزوں کو حلال کیا ہے اور ناپاک چیزوں کو حرام فرمایا ہے(سورۂ مائدہ: ۵، سورۂ اعراف:۱۵۷)۔ جب انسان ان ناپاک چیزوں کو استعمال کرتا ہے تو اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ کبھی وہ چمگادڑ اور سانپوں کے ذریعے کورونا وائرس کا شکار بنتا ہے؛ کبھی چوہوں کے ذریعے  ’ہنٹا وائرس‘ کا، کبھی خنزیر کے ذریعے سوائن انفلوئنزا وائرس کا؛ اور کبھی اپنی حرام کاریوں کی وجہ سے ایچ آئی وی وائرس کا۔ اسی طرح طہارت و نظافت کے تعلق سے اسلامی تعلیمات، جو اس وقت دی گئیں، جب انسانیت ’بیکٹیریا‘ اور وائرسوں کے وجود سے انجان تھی، بہت متاثر کن ہیں۔ استنجا، وضو، غسل، اور تیمم وغیرہ کی ان تعلیمات کو معمولی نہ سمجھیے۔ ان کی حکمتوں پر غور کیجیے۔ انسان اگر ان تعلیمات پر صحیح انداز سے عمل کرے، تو بہت سی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔ وباؤں اور متعدی امراض کے تعلق سے حدیث نبویؐ میں نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تعلیمات ملتی ہیں وہ بھی انبیائی حکمت پر مبنی ہیں۔ ایک انسان اگر کھلے ذہن سے ان باتوں پر غور کرے تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ہم میں سے جو لوگ سوشل میڈیا پر اپنی تخلیقات کے لیے جانے جاتے ہیں، اگر وہ ان موضوعات پر ویڈیوز بنائیں یا شان دار ڈیزائن کے ساتھ کچھ پوسٹر بنائیں تو شاید یہ باتیں بہت زیادہ لوگوں تک پہنچیں۔

l اپنے جسم کی قوتِ مدافعت کو مضبوط کریں۔ جس طرح پیروں کو کنکر سے بچانے کے لیے ساری دنیا سے کنکر ختم کردینا نہ ممکن ہے اور نہ مطلوب، بلکہ چپل پہن لینے میں عقل مندی ہے۔ بالکل اسی طرح پوری دنیا سے سارے بیکٹیریا اور وائرسس کو ختم کردینا نہ ممکن ہے اور نہ مطلوب۔ عقل مندی یہ ہے کہ ہم اپنے جسم کو اتنا قوی بنائیں کہ ضرررساں جراثیم اگر حملہ آور ہوں، تو جسم اپنا دفاع آپ کرسکے۔ اپنے جسم کے دفاعی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ صحت مندانہ طرز زندگی اختیار کیا جائے۔

l  ہمیں چاہیے کہ اچھی اور صحت مند غذا کھائیں۔ ایسی متوازن غذاؤں کا استعمال کریں کہ جسم میں کسی وٹامن کی کمی نہ ہو۔ وقت پر کھانا کھائیں اور بہت زیادہ نہ کھائیں۔ یوں کھانے کے اسلامی آداب اور دعائیں جو ہم نے بچپن میں سیکھی تھیں، ان پر عمل پیرا ہوں۔ اسی طرح ورزش کریں اور روزانہ کریں۔ اگر ورزش کی عادت نہیں ہے تو ہلکی پھلکی ورزشوں سے شروعات کریں۔ اس ضمن میں صبح کی چہل قدمی پر خصوصی دھیان دیں، تاکہ سورج سے وٹامن ڈی بھی وافر مقدار میں حاصل ہو۔ عمارتوں اور کانکریٹ کے جنگلوں میں شہری زندگی گزارنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہے جس کے جسم کی قوت مدافعت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اچھے نظامِ مدافعت کے لیے بہترین نیند شرطِ لازم ہے، لہٰذا جلد سونے اور جلد اٹھنے کی عادت ڈالیں۔ نامکمل نیند جسم کی قوت مدافعت کو کمزور کردیتی ہے۔ جلدی سونے کے لیے ضروری ہے کہ سونے سے ایک دو گھنٹے قبل سے موبائل کا استعمال نہ کریں۔ بستر پر لیٹنے سے پہلے آدھا گھنٹہ کسی دینی کتاب کے مطالعے کی کوشش کریں۔

l  کسی مسلمان سے امید نہیں کی جاتی کہ وہ پنج وقتہ نمازیں نہ پڑھتا ہو، لیکن اگر کوئی ان فرائض سے غافل ہے تو ان کے اہتمام کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے۔ اسی طرح کسی مسلمان سے اس بات کی توقع بھی نہیں کی جاتی کہ وہ شراب، نشے وغیرہ کی لت میں گرفتار ہوگا، لیکن کوئی اگر شیطان کے نرغے میں ہے، تو اللہ کے غضب، آخرت کی پکڑ، اور دنیا میں اپنی صحت و کامیابی کا خیال کرے اور ان ضرررساں چیزوں سے مکمل پرہیز کرے۔ اسی طرح ایک مسلمان سے اس بات کی توقع بھی نہیں کی جاتی کہ وہ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ (Stress)جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو۔ کیونکہ مومن تو اللہ پر ایمان رکھتا ہے، اپنی کوششیں کرتا ہے، نتائج اللہ پر چھوڑتا ہے۔ نتیجہ اچھا نکلے تو شکرگزار ہوتا ہے؛ بُرا نتیجہ نکلے تو صبر اور نماز سے مدد لیتا ہے، اپنا احتساب کرتا ہے، اور پھر کوشش کرتا ہے۔ یوں مومن ہر حال میں راضی بہ رضا رہتا ہے، کبھی مایوس نہیں ہوتا اور صبرو شکر کا دامن نہیں چھوڑتا۔ اس مومنانہ طرز فکر کو اپنائیں بھی اور فروغ بھی دیں۔ جسم کی قوت مدافعت پر ٹینشن کا غیر معمولی اثر ہوتا ہے، لہٰذا اس سے بچاؤ ضروری ہے۔ نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی، مسکراتے رہنے کی، اور چیزوں کے مثبت پہلو پر توجہ دینے کی عادت ڈالیں۔ یہ خوشیوں بھری زندگی کی شاہ کلید ہے۔

l نظام طب و صحت کا احتساب کریں۔ یہ حالات دعوت دیتے ہیں کہ ہم اجتماعی طور پر اپنے طبی نظام کا جائزہ لیں۔ اس طرح کی ناگہانی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے ملک کا نظام طب و صحت کس حد تک تیار ہے، اس کا احتساب کریں۔ ہمارے ہاں ہسپتالوں اور بستروں کی تعداد زیادہ ہوتی اور دیگر طبی سہولیات بھی خاطر خواہ ہوتیں تو ہمارے لیے flattening of the curve والا عمل (جس کا ذکر پیچھے گزرا ہے) نسبتاً آسان ہوتا۔

 ٹی کے ارون زور دیتے ہیں کہ’’ ہمیں مستقبل کے وبائی حملوں کے لیے تیار رہنا ہوگا‘‘۔ اس ’تیار رہنے‘ کا مطلب ہے کہ ہمارے نظام صحت میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ دسیوں لاکھ مریضوں کا بیک وقت علاج کرنے کے قابل ہوں۔ اسپتالوں میں یہ انتظام بھی ہونا چاہیے کہ ہنگامی حالات میں نارمل وارڈز کو انتہائی نگہداشت یونٹس (Intensive Care Units) میں تبدیل کیا جاسکے۔ اسی طرح پبلک ہیلتھ انجینیرنگ کی بھی ضرورت ہے تاکہ صحت کے حوالے سے لوگوں میں بیداری پیدا ہو۔ متوازن اور مقوی غذا، صاف پانی،صحت کے لیے نقصان دہ عادتوں سے اجتناب اور صحت مند طرز زندگی اختیار کرکے ان کی قوت مدافعت میں اضافہ کیا جائے۔

جرمنی، جنوبی کوریا، کیوبا اور بالخصوص تائیوان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ حکمراں اگر بیدار اور دوراندیش ہوں تو آفات کا سامنا کیسے کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جیسن وانگ (ڈائرکٹر، سینٹر فار پالیسی آؤٹکمس اینڈ پریوینشن، اسٹنفرڈ یونی ورسٹی) کے مطابق تائیوان نے دسمبر کے مہینے ہی سے اس آنے والی بلا سے لڑنے کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ موجودہ صدی کے اوائل میں جب ’سارس‘ کی وبا پھیلی، تو بہت سے ممالک کی طرح تائیوان میں بھی ایک نیشنل ہیلتھ کمانڈ سینٹر بنایا گیا تھا۔ ’کورونا وائرس‘ کے خلاف بھی اسی سینٹر کی خدمات حاصل کی گئیں، جس کے ذریعے ملک کی مختلف ایجنسیوں کے درمیان تعاون میں آسانیاں پیدا ہوئیں۔ تائیوان میں ووہان سے آنے والے مسافروں کی ہوائی جہازوں سے اترنے سے پہلے ہی جانچ کی جانے لگی، تاکہ ان میں سے کوئی وائرس سے متاثر ہو تو وہ انفیکشن پھیلا نہ سکے۔ ڈاکٹروں میں اتنی بیداری پیدا کی گئی کہ جب وہ کسی مریض کی عام سی شکایت کا علاج بھی کرتے، تو اس سے اس کے سفر اور روابط وغیرہ کے تعلق سے دریافت کرتے؛ اگر پتا چلتا کہ مریض نے ووہان کا سفر کیا ہے یا وہاں سے حالیہ دنوں میں پلٹ آنے والے کسی فرد سے ملاقات کی ہے، تو اس کے عام بخار کو بھی بہت سنجیدگی سے لیتے اور پوری جانچ پڑتال کرتے؛ ٹیسٹ مثبت ہونے پر اس کے متعلقین کی جانچ بھی کرتے۔

ڈاکٹر وانگ مزید کہتے ہیں کہ تائیوان میں جن لوگوں کو قرنطینہ (Quarantine) کے عمل سے گزرنا تھا، ان کی موبائل فون لوکیشن ڈیٹا کے ذریعے نگرانی کی گئی۔ افسرانِ صحت انھیں دن میں دو تین مرتبہ فون کرکے مرض کی علامات (symptoms)میں مثبت و منفی تبدیلی کے بارے میں پوچھتے۔ اگر کوئی منفی تبدیلی آتی تو انھیں معالجین تک پہنچانے کا نظم کیا جاتا۔ بصورت دیگر وہ گھر ہی میں رہتے اور وہیں ان کے لیے کھانا پہنچایا جاتا۔ اگر وہ قرنطینہ کے خلاف ورزی کرتے تو ان پر بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا۔ اتنا ہی نہیں، بعد میں حکومت نے قرنطینہ کے عمل سے گزرنے والوں کو وظیفہ دینا بھی شروع کیا۔

 حکومت نے لوگوں کو گھر بیٹھنے کے لیے پیسے دیے تاکہ وہ خاندان کی غذائی ضرورتوں یا مکان کے کرایے وغیرہ کے لیے پریشان نہ ہوں۔ حکومت نے شہریوں کو ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے اہم قدم اٹھائے ،حتیٰ کہ ماسک بنانے اور تقسیم کرنے کی ذمہ داری بھی اپنے سر لی، تاکہ کسی قسم کی حقیقی یا مصنوعی قلت نہ پیدا ہو۔ جن مریضوں کے تعلق سے وائرس انفیکشن کا خدشہ ہوا، ان کے ٹیسٹ اور علاج کے لیے بالکل علیحدہ انتظامات کیے گئے، تاکہ انفیکشن نہ پھیل سکے۔ عوامی مقامات پر ایسے اسکینر لگائے گئے، جو آنے والوں کے جسمانی درجۂ حرارت کو ناپ لیتے۔ بخار میں مبتلا کسی فرد کو عمارتوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

ڈاکٹر وانگ کے الفاظ میں: ’’صحت عامہ کے حوالے سے مستعدی کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں صحت عامہ کا ایسا ڈھانچا (Infrastructure) ہو کہ اس کے ذریعے آپ کسی بھی بحران کا سامنا کرسکیں‘‘۔ یہ صحت عامہ کے حوالے سے ایک بیدار مغز حکومت کے اقدامات تھے، جس کی وجہ سے چین کے بالکل پڑوس میں واقع  تائیوان نے اس وبا پر قابو پالیا۔ چین میں ہونے والی ۳ہزار سے زائد اموات کے بالمقابل تائیوان میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد صرف دو ہے۔

ہمارے ملک کے لیڈر اب تک نفرت کی بنیادوں پر بانٹ کر ووٹ لیتے آئے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان کا احتساب کیا جائے اور صرف ایسے سیاستدانوں کو حکومت میں آنے کا موقع ملے جو مفاد عامہ میں کام کریں۔اس کے لیے برادران وطن میں بڑے پیمانے پر بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وائرس کے انفیکشن سے لڑنے کے لیے ہمیں پورے ملک کو بند کرنا پڑ رہا ہے اور ایک لاک ڈاؤن کے ختم ہونے سے پہلے ہی دوسرے لاک ڈاؤن کا اعلان ہورہا ہے۔

عوام میں یہ بیداری کیوں نہیں ہے کہ وہ یہ پوچھیں کہ کیوں ہمارا نظام صحت اتنا ناکارہ ہے کہ ہمارے سامنے ایک طرف انسانی جان اور دوسری طرف انسان کے نقل و حمل، سماجی تعلقات، اداروں کے کام کاج، معاشی سرگرمیوںاور روزمرہ زندگی کے دیگر لوازم میں سے ایک کو چننے کی نوبت آگئی ہے؟ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی پر ماہرین نے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اس بیماری کا Asymptomatic transmission بہت کم ہے۔ یعنی زیادہ تر وائرس منتقل کرنے کا کام وہی لوگ کرتے ہیں، جن میں مرض کی علامات ظاہر ہوجاتی ہیں۔ یہ خدشہ بہت کم ہے کہ بظاہر صحت مند لوگ وائرس منتقل کرتے رہیں۔ ایسے میں بیمار لوگوں کی ٹیسٹنگ اور انھیں قرنطینہ کے عمل سے گزارنا صحیح حکمت عملی ہے، نہ کہ پورا ملک بند کردینا۔ مائیکل اوسٹرہوم (ریجینٹس پروفیسر و ڈائرکٹر، سینٹر فار انفیکشیس ڈیزیز ریسرچ اینڈ پالیسی، یونی ورسٹی  آف مینی سوٹا) کہتے ہیں کہ’’ اس طرح کے مکمل لاک ڈاؤن کے معاشی نتائج بہت بھیانک ہوں گے۔ یہ خام خیالی ہے کہ تمام لوگ گھروں میں بیٹھے بھی رہیں اور لوگوں کی بنیادی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں۔ایسے میں کیا ہمارا ملک فانشنل ایمرجنسی کی طرف جارہا ہے؟ کیا ہماری حکومت اپنی معاشی ناکامیوں کے ساتھ کورونا وائرس کے پیچھے چھپنا چاہتی ہے؟ لاک ڈاؤن کے بدلے بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ اور قرنطینہ کی حکمت علمی کو کیوں اختیار نہیں کیا جارہا ہے؟ اگر اس حکمت عملی کو اختیار کرنے کے لیے درکار وسائل ہمارے ملک میں نہیں ہیں تو اس کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ ایسے سوالات کو پوچھنا ضروری ہے، اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے!

آفتوں سے محفوظ رہنے کے لیے کثرت سے ذکر کریں، مسنون دعاؤں کا بھی اہتمام کریں:

l   بِسْمِ اللہِ الَّذی لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ شَیْئٌ فی الْأَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَائِ وَ ھُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیْمُ’’ اللہ کے نام سے کہ جس کے نام سے زمین یا آسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں دے سکتی، اور وہ خوب سنتا اور جانتا ہے‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی)

l  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبَرَصِ وَالْجُنُوْنِ وَالْجُذَامِ وَ مِنْ سَیِّیِٔ الأَسْقَامِ ’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں برص سے، جنون سے، کوڑھ سے اور ہر قسم کی بُری بیماریوں سے‘‘۔ (ابوداؤد)

گذشتہ شمارے میں ’مقبوضہ جموں و کشمیر میں املاک کی فروخت‘ کے بارے میں محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا فتویٰ شائع ہوا تھا، جس پر سری نگر سے موصولہ برقی خط اور اس کا جواب مطالعے کے لیے دیا جارہا ہے۔(ادارہ)

حضرت مفتی منیب الرحمٰن صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ و بر کاتہ!

آپ نے ماہ نامہ عالمی ترجمان القرآن  ( اپریل ۲۰۲۰ء) میں ایک مظلوم اور محکوم کشمیری بھائی کے استفسار پر، محکم دینی دلائل ، آثار اور شواہد کے ساتھ اسلامیان جموں و کشمیر کو بڑےایمان افروز الفاظ میں توجہ دلائی ہے کہ: وہ خرید وفروخت کا حق رکھنے کے باوجود ، راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ(RSS) کی سفاک حکومت کے فسطائی اقدامات اور اندھی بہری یلغار کو ناکام بنانے کے لیے، اپنی املاک، جایدادیں اور زمینیں، جارح بھارتیوں اور کافروں کو فروخت نہ کریں۔ آپ کی اس دردمندانہ توجہ پر اہل کشمیر آپ کی ایمان پروری کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں۔

 تاہم، اسی پس منظر میں چند امور آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کیونکہ ’استفتاء‘ میں یہاں کی زمینی صورت حال کی پیچیدگی پوری طرح واضح نہیں ہو رہی۔ یہ چیزیں ہمیں شدید اضطراب ، ناقابل بیان دکھ اور منڈلاتے گھمبیر خطرات و خدشات سے دوچار کیے ہوئے ہیں۔ ان مصائب و آلام سے چھٹکارے کے لیے ،جن جن مسلم قوتوں پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ان کے لیے آپ دین اسلام اور شعائر اسلام کی روشنی میں کیا لائحہ عمل تجویز فرماتے ہیں؟ اس ضمن میں حسب ذیل نکات پیش خدمت ہیں، جو پیش نظر رہنے چاہییں:

۱- کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے پشتینی باشندے ( پنڈت،ڈوگرہ اور سکھ)رہتے ہیں۔جن کی تعداد ۱۹۴۷ء کے بعد کافی حد تک بڑھا دی گئی ہے۔مگر اس کے باوجود ہماری تمام دینی اور سیاسی قیادت یہ برملا مطالبہ کرتی ہے کہ ’’نقل مکانی کرنے والے پنڈت جموںو کشمیر میں واپس آجائیں‘‘۔

۲-صورت حال یہ ہے کہ یہاں کی سرکاری مشینری میں کام کرنے والے افراد کی فی الحال اکثریت انھی لوگوں پر مشتمل ہے ، جو روزی روٹی کماتے ہیں اور مختلف مراعات حاصل کرتے ہیں ۔ بھارتی تسلط سے بے زاری تو ان مقامی لوگوں کے اندر بھی کم و بیش اسی شدت سے موجود ہے ،لیکن  نہ چاہنے کے باوجود وہ کام تو بھارتی مشینری ہی کے اہداف کی تکمیل اور تقویت کے لیے کرتے ہیں۔

۳- جس طرح سوئی کی مثال دے کر آپ نے ضمیروں کو جھنجوڑا ہے، اور بھارتی مقتدرہ قوتوں سے کسی بھی سطح کی معاونت کی نفی اور حوصلہ شکنی فرمائی ہے، وہ حد درجہ لائق تحسین ہے ۔لیکن سوئی تو دُور کی بات ہے، یہاں پر اس وقت ہربرادری کے لوگوں کی ایک مخصوص تعداد فوج، نیم فوج اور مقامی پولیس میں کام کر رہی ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو بھارت کے سیاسی اور صحافتی خاکوں میں رنگ بھر رہے ہیں۔ اگر اس پہلو سے ان کی پوزیشن کا بھی بکمال و تمام فتوے میں تذکرہ آجائے تو کم سے کم دینی مسئلے کے طور پر ایک مکالمہ شروع ہوجائے۔

۴-زمین نہ بیچنے کا مطلب تو ایک طرح سے سول نافرمانی ہے۔ اس صورتِ حال میں پسی، کچلی اور بے بس آبادی کی طرف سے سول نافرمانی کس طرح نتیجہ خیز ہو سکے گی؟ جب کہ  ہمیں چاروں طرف سے مقید کیا گیا ہے اور ہمارے تمام وسائل کو بھارت اپنی وحشیانہ قوت سے اُوپر تلے روندے چلے جا رہا ہے، اور دوسری طرف عظیم الشان مسلم ریاستوں کے عیش پرست اور آخرت کی جواب دہی سے بے نیاز حکمران ،ان سفاک قاتلوں اور وحشیوں کی ناز برداریاں کر رہے ہیں۔

۵-یہاں مقبوضہ کشمیر میں تو ہزاروں ایکڑ زمینیں، جنگلات، آبی وسائل اور پہاڑ وغیرہ  انھی برہمن نسل پرست حاکموں کے قاہرانہ قبضے میں ہیں ،جن کو وہ کسی بھی بزنس مین اور نام نہاد کارپوریشنوں کے نام منتقل کر سکتے ہیں۔ سابقہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے ریاستی اسمبلی میں بیان کے مطابق: اس وقت تک ۴لاکھ۳۰ ہزار ۹ سو۲۷ کنال زمین تو پہلے ہی سے دہلی کے قابض حکمرانوں نے سراسر غیرقانونی طور پر، اپنے فوجیوں، نیم فوجیوں اور سرکاری اہل کاروں کے حوالے کر دی ہے۔ یہ زمین یہاں کی کسی کٹھ پتلی حکومت نے نہیں دی بلکہ دہلی حکومت نے زور زبردستی سے غیر مقامیوں کو دی ہے۔اس وسیع پیمانے کی بندر بانٹ اور لُوٹ مار کے مقابلے میں میرا اور چند کنال رکھنے والے معمولی معاشی حیثیت کے مالک کسی مقامی مسلمان کا زمین یا جایداد غیر مقامیوں کو فروخت نہ کر نا ، فتوے میں بیان کردہ غرض و غایت کے تقاضوں کو کہاں تک برقرار رکھ سکتا ہے؟

۶- پھر اگر دہلی کی فاشسٹ حکومت ، مسلمانوں کی املاک کو ضبط کر لے ، جیسا کہ عملی طور کیا جارہا ہے تو اس صورت میں ہم کیا کریں؟

۷- یہاں پر’ہندوؤں کو زمین نہ فروخت کرنے‘ کا مطلب بہت سادہ الفاظ میں نہیں لیا جائے گا، اس کے اثرات بھارت میں مسلمانوں پر بھی پڑسکتے ہیں۔ اس لیے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کی بھارتی نو آبادیاتی بدمعاشی کو بھانپتے ہوئے، بزرگ حُریت قائد سیّد علی شاہ گیلانی صاحب نے جموں و کشمیر میں رہنے والوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ’’غیر مقامیوں اور ریاست کے باہر سے آنے والوں کو اپنی جایدادیں فروخت نہ کریں‘‘۔ یہ جملہ معاملے کی نزاکت ظاہر کرتا ہے۔

۸- درحقیقت میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ بھارتی سامراجیوں کی ان سفاکیوں، دھاندلیوں اور انسانیت سوز خباثتوں کے خلاف پنجہ آزمائی کے کہیں زیادہ مؤثر میدان اب وادیِ کشمیر یا سری نگر کے بجاے دنیا بھر کے دارالحکومت ہیں، سوشل میڈیا کی نظر نہ آنے والی شاہراہیں اور عالمی اداروں و ذرائع ابلاغ کے ایوان ہیں۔ وہاں پر یہ جنگ ، ہم اکیلے پسے، کچلے، مجبور، تباہ حال اور قیدی نہیں لڑ سکتے (تاہم، جو اور جس قدر لڑ رہے ہیں، اس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی)۔ اس مقابلے کی ذمہ داری دنیا بھر کی مسلم حکومتوں، تنظیموں اور انفرادی طور پر مسلمانوں پر آتی ہے۔ خدا کے لیے ان ضمیروں کو بھی جھنجوڑئیے۔ ہماری التجا ہے کہ پاکستان کے سفارت خانوں اور حکومتوں کوتازیانے مارئیے کہ یہاں برہمنی نسل پرستی سیلاب کی طرح امڈی چلی آرہی ہے___ ہے کوئی بندباندھنے والا؟

۹-جو مسلمان تنظیمیں،مسلمان حکومتیں، ادارے اور موثر افراد اس تناظر میں خاموشی سے ہمارے کچلے جانے کا تماشا دیکھنے میں مگن ہیں، براہ کرم ان کی غیرتِ ایمانی اور مقامِ مسلمانی کو جھنجھوڑنے کے لیے قرآن و سنت کے احکامات یاد دلائیے۔

محترم مفتی صاحب، مسلم امت جسد واحد ہے، ہمارے اس دکھ درد کی گہری ٹیسیں کب اور کس طرح عصر حاضر کےمسلمان کی روحوں کو تڑپائیں گی اور انھیں عمل پر اُبھاریں گی؟

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبر کاتہ

ظفر خالد،سری نگر

m

محترم جناب ظفر خالد صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میں نے مقبوضہ کشمیر میں موجود افراد واشخاص کے حوالے سے فتویٰ دیا تھاکہ وہ لالچ میں آکر اپنی زمینیں ہندوؤں کے ہاتھ فروخت نہ کریں۔یہ دو اشخاص کے درمیان بیع وشراء کے معاملات سے متعلق تھا۔آپ نے مقبوضہ کشمیر کا پورا منظرنامہ (Scenario) پیش کیا ہے، یہ ایک پیچیدہ اور گھمبیر مسئلہ ہے۔یہی مسئلہ تحریکِ آزادیِ فلسطین ’ الفتح‘کو درپیش تھا۔ ان کا موقف بھی یہی تھاکہ بلا امتیازِ مذہب، خواہ وہ مسلمان ہوں ،یہود ہوں یا مسیحی، فلسطین اُس کے اصل باشندوں کا وطن ہے۔ اس طرح یہ آزادیِ وطن کی ایک سیکولر تحریک بن جاتی ہے ،اگرچہ اصل اہلِ فلسطین میں بھی تناسب کے اعتبار سے مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے اورپورے جموں وکشمیر میں حتیٰ کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھی تاحال مسلمانوں کی آبادی غالب ترین ہے اور ظاہر ہے کہ اگر اللہ کی تقدیراور غیبی مدد سے استصوابِ راے (Plebiscite)کی منزل آجائے، تو یہ حق پورے جموں وکشمیر کے باشندوں کو دیا جائے گا،اور اس کے نتیجے کے بارے میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔

آپ کا یہ بیان درست ہے کہ جموں وکشمیر میں مسلمان اکثریت کے ساتھ ساتھ ہندو پنڈت، ڈوگرہ اور سکھ باشندے بھی تھے، جن میں سے بعض پنڈت ترکِ وطن کر کے ہندستان چلے گئے۔لیکن یہ حقیقت آپ کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ جب استصوابِ راے کی منزل آئے گی تو استصوابِ راے مقبوضہ اور آزادجموں وکشمیر میں ایک ساتھ کرایا جائے گااور آرایس ایس اور  مودی سرکار کی تمام تر ریشہ دوانیوں کے باوجود ان شاء اللہ مسلمانوں کو واضح اکثریت حاصل رہے گی۔

مکالمے میں تمام امکانات ،جن میں سے بعض ہماری نظر میں ناپسندیدہ قرار پاسکتے ہیں، لیکن دشمن پر اپنے موقف کی معقولیت اور حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے اُن کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے ،کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ جموں وکشمیر پر حکمرانی اور اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق اُس کے اصل باشندوں کو حاصل ہے،اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متفقہ قراردادوں کی روشنی میں بھارت سمیت پوری دنیا اس میثاق کی پابند ہے، تو اپنے موقف کو قوت بخشنے کے لیے یہ کہاجاتا ہوگا کہ اصل کشمیری باشندے اگر کسی بھی وجہ سے ترکِ وطن کر کے چلے گئے ہیں، تو اُن کے حق کو ہم تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آئیں! جموں وکشمیر میں رہایش اختیار کریں اور پھر وہ ووٹ دینے کے حق دار ہوں گے، البتہ بھارت میں رہتے ہوئے اُن کا یہ استحقاق نہیں بنتا۔

بھارتی حکومت اور اُن کی مسلّح افواج کی حیثیت ناجائز قابضین کی ہے، لہٰذا اگر انھوں نے جبراً بعض زمینوں پر قبضہ کیا ہے ، تو یہ ایک بالفعل (De facto)عارضی پوزیشن ہے۔یہ کسی بھی صورت میں بالحق، یعنی دستوری اورقانونی (De jure)طور پرتسلیم نہیں کی جاسکتی،کیونکہ جابرانہ اور غاصبانہ قبضہ کسی چیز کی حقیقی حیثیت کو تبدیل نہیں کرسکتا۔

’زمین نہ بیچنے‘ کا مطلب کسی بھی صورت میں سول نافرمانی نہیں ہے، کیونکہ اپنی ملکیتی چیز کو اپنی آزادانہ مرضی سے فروخت کرنا یا نہ کرنا، یہ ہر فرد کا دستوری اور آئینی حق ہے، اور قانونِ بین الاقوام بھی اسے تسلیم کرتا ہے ،لہٰذا ہمیں اپنے حق پر ہمیشہ اصرار کرتے رہنا چاہیے۔

آزادیِ وطن کے لیے ہم مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی طویل جِدّوجُہد، عزیمت اور استقامت کو سلام کرتے ہیں کہ وہ ایک طاقت ور ظالم وجابر طاقت کے سامنے کوہِ استقامت بن کر کھڑے ہیںاور اپنے فطری ،دستوری ،شرعی اور قانونی حق کو نہ ترک کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ اُس پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اورتقریباً ستاون مسلم ممالک کے حکمرانوں کی بے حسی اور ملّی بے حمیّتی کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً انھیں جھنجھوڑ تے رہتے ہیں کہ شاید کبھی اُن کی دینی وملّی حمیّت کا جذبہ بیدار ہوجائے، اور وہ مقبوضہ جموں وکشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کے لیے نتیجہ خیز سیاسی ،سفارتی اور اقتصادی اقدامات کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُھَا۝۰ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا۝۰ۚۙ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا۝۷۵ۭ  (النسآء:۷۵)اور(اے مسلمانو!)تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کی راہ میں قتال نہیں کرتے، حالانکہ بعض (بے بس اور)کمزورمرد ،عورتیں اور بچے دعا کررہے ہیں :اے ہمارے پروردگار! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنی جانب سے کوئی کارساز بنادے اورکسی کو ہمارے لیے اپنے پاس سے ہمارا مددگار بنا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: 

(۱) تَرَى المُؤْمِنِينَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، كَمَثَلِ الجَسَدِ، إِذَا اشْتَكٰی عُضْوًا تَدَاعٰى لَهٗ سَائِرُ جَسَدِهٖ بِالسَّهَرِ وَالحُمّٰى (صحیح بخاری:۶۰۱۱)تُو مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحم کرنے ،باہم محبت کرنے اورایک دوسرے کے ساتھ شفقت سے پیش آنے میں ایک جسم کی مانند پائے گا کہ جب جسم کا کوئی عضو تکلیف میں ہو تو سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

(۲) اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيْهٖ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهٖ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً، فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ القِيَامَةِ‘‘(صحیح بخاری:۲۴۴۲)

مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ،نہ وہ خود اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ دشمن کے رحم وکرم پر چھوڑتا ہےاورجو اپنے بھائی کی حاجت روائی کرے ،اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو کسی مسلمان سے تکلیف کو دور کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی تکلیفوں میں سے کسی تکلیف کو دور فرمائے گا اور جو مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ج (البقرہ:۲۸۶) ’’اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا‘‘۔

 سو ،فرد ہویا جماعت ، وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس بات کے مکلَّف ہیں کہ اپنی بساط کے مطابق باطل کا مقابلہ کریں۔صحابۂ کرام رضوان اللہ اجمعین کی عزیمت کی بعض مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں، لیکن ہرایک اپنی ہمت کے مطابق باطل کا مقابلہ کرنے کا پابند اور جواب دہ ہے۔

میں قارئین سے التجا کرتا ہوں کہ وہ سورۂ بقرہ کی آخری آیت :  لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۝۰ۭ لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْہَا مَااكْتَسَبَتْ۝۰ۭ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا۝۰ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا كَـمَا حَمَلْتَہٗ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا۝۰ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ۝۰ۚ وَاعْفُ عَنَّا۝۰۪ وَاغْفِرْ لَنَا۝۰۪ وَارْحَمْنَا۝۰۪ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۝۲۸۶ۧ کو ہمیشہ اس کی پوری معنویت کے ساتھ اپنے قلب وذہن میں جذب کر کے دعا کرتے رہا کریں،یقیناً   اللہ تعالیٰ کی نصرت شاملِ حال ہوگی۔

مسلم حکومتوں سے توقعات باندھنا خوش فہمی کہی جاسکتی ہے۔جوکام عالمی سطح پر کیا جاسکتا ہے ،وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایسی تنظیمیں جن کا نیٹ ورک مغربی دنیا اور عالَمِ عرب میں ہے، وہ ایک فنڈ قائم کریں اورپھر مغربی ممالک میں انسانی حقوق کی تنظیموں تک رسائی حاصل کریں ، وہاں سیمی نار منعقد کریں ،مقبوضہ جموں وکشمیر کے احوال کے بارے میں ایک مختصر اور مؤثر دستاویزی فلم بنائیں، جس کے ذریعے بریفنگ دی جاسکے اور وہ دیکھنے والوں کو حقیقت کے قریب تر محسوس ہو، صرف مبالغہ آرائی پر مبنی باتیں نہ ہوں۔ انسانی حقوق کے پہلوؤں کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کیا جائے۔ امریکا میں انتخابی سال ہے، وہاں کانگریس کے اراکین کے ساتھ اور انٹرنیشنل میڈیا کے ساتھ سیمی نار منعقد کریں، اور یہ بھی کوشش کریں کہ حقائق کو معلوم کرنے والا ایک آزاد( Facts-finding mission) مقبوضہ کشمیر بھیجا جائے ، نیز Doctors Beyond Bordersاور Journalists Beyond Bordersتنظیموں کو متحرک کریں اور ان کے وفود کو مقبوضہ کشمیر جانے کے لیے اسپانسرکریں۔اس طرح یہ مسئلہ زندہ رہے گا، نیز مغرب کےاُن مذہبی رہنماؤں کے ساتھ جواپنے حلقوں میں مستند ومعتبر اور قابلِ احترام مانے جاتے ہوں، تعامُل (Interaction)کے راستے نکالیں،اس طرح اس مسئلے میں انسانی بنیادوں پرجان پڑسکتی ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ!

    ۱۵؍اپریل۲۰۲۰ء مفتی منیب الرحمٰن

        رئیس دارالافتاء جامعہ نعیمیہ کراچی

دنیا بھر کے ملکوں اور معاشروں پر اس وقت ’کورونا وائرس‘ کے شدید منفی اور جان لیوا اثرات مسلط ہیں: کاروبارِ زندگی مفلوج ہوچکا ہے، سواے فون اور انٹرنیٹ کے، تمام ذرائع مواصلات کم و بیش معطل ہیں۔ ہسپتالوں میں علاج معالجہ شدید بحران سے دوچار ہے اور صنعت و حرفت کا پہیہ رُک سا گیا ہے۔ ا س صورتِ حال میں مسلم معاشرت اور نظامِ عبادات بھی ہمہ پہلو چیلنج سے دوچار ہیں۔ ان اُمور پر، ہرجگہ علماے کرام قدم قدم پر اُمت کی رہنمائی فرما رہے ہیں، اور بحث ومباحثہ جاری ہے۔

اسی پس منظر میں عالمی سطح پر علماے کرام کی ایک مجلس (تاسیس: ۱۹۹۷ء) یورپین کونسل فار فتویٰ اینڈ ریسرچ (ECFR) نے ۲۳واں اجلاس ۲۵-۲۸ مارچ ۲۰۲۰ء کو منعقد کیا۔ اس اجلاس میں جو علما براہِ راست شریک نہ ہوسکے، وہ انٹرنیٹ کانفرنس کے ذریعے مشورے میں شامل رہے۔ مغربی ممالک برطانیہ، کینیڈا، ہالینڈ، فرانس، سوئٹزرلینڈ، جرمنی، آئرلینڈ، ناروے، بیلجیم، اسپین اور بوسنیا کے علما نے وسیع تر مباحث میں مسلم دنیا سے سوڈان، قطر، تیونس، مصر، کویت، لبنان، موریطانیہ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے علما سے معاونت لی۔ اس طرح ۲۰ممالک سے ۳۴جیدعلما نے، چار چوٹی کے ڈاکٹروں کی مشاورت کے بعد، اجتہادی بصیرت سے ۲۱ فیصلوں پر مشتمل یہ دستاویز جاری کی۔یہ مجلس علامہ یوسف القرضاوی کی رہنمائی میں کام کر رہی ہے۔

اس دستاویز کو محترم مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے اُردو میں ترجمہ و تلخیص کرکے ماہ نامہ عالمی ترجمان القرآن کو اشاعت کا موقع عطا کیا ہے، جس پر ہم ان کے نہایت شکرگزار ہیں۔ ان فیصلوں کی اشاعت کا مقصد، دنیا میں دینی و فقہی اُمور پر غوروفکر کے عمل اور نتائج سے واقف ہونا ہے۔  ترجمان   میں اشاعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دستاویز ادارہ کی پالیسی ہے۔ تاہم، ان فیصلوں یا فتاویٰ سے رہنمائی کے بہت سے قیمتی اُفق ضرور روشن ہوئے ہیں۔ (ادارہ )

تمہید: وبا کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر

اسلامی نقطۂ نظر ان الٰہی سنتوں پر مبنی ہوتا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے عالمِ طبیعی اور عالمِ بشری میں ودیعت کیے ہیں۔ اس کا ارشاد ہے: فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝۰ۥۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَحْوِيْلًا۝۴۳  (فاطر۳۵: ۴۳) ’’تم اللہ کے طریقے میں ہر گز کوئی تبدیلی نہ پاؤگے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے‘‘۔اس کے بر خلاف دیگر فلسفے صرف مادی اسباب و نتائج کو جانتے ہیں، جن کا اندازہ ریاضیاتی طور پراور لیبارٹری کے ذریعے لگایا جاتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے بعض اسباب مادّی اور بلا واسطہ ہوتے ہیں اور بعض معنوی، جن کا تعلق غیب سے ہوتا ہے۔ مظاہر کی منطقی تشریح کا تعلق ان متعین مقاصد سے ہوتا ہے، جن کے لیے پورا نظامِ کائنات سرگرم عمل ہے۔ یہ عالمِ بالا کے ان قوانین کے تابع ہوتا ہے، جن کی تشکیل اس کے لیے کی گئی ہے تاکہ نظامِ کائنات چلتا رہے۔ یہ مقاصد اور بالائی قوانین ہی الٰہی سنتیں ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ نے نظامِ کائنات تسلسل اور نظم کے ساتھ چلانے کے لیے وضع کیا ہے۔

ان الٰہی سنتوں میں سے کچھ آزمایش اور تکلیف سے متعلق ہیں، تاکہ ان کے ذریعے انسانوں کی سرکشی اور زمین میں فساد کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۴۱ (الروم۳۰ : ۴۱)خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے ،لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے، تاکہ اللہ مزہ چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آجائیں۔

 کچھ الٰہی سنتوں کا تعلق خوش حالی اور آسمان و زمین کی برکتوں کے حصول سے ہے۔ اس لیے زمین کی اصلاح کے بارے میں ہدایت ِ ربّانی پر عمل کیا جاتا ہے، تقویٰ کی روش اختیار کی جاتی ہے اور غلطیوں اور لغزشوں پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْہِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ (الاعراف ۷: ۹۶) اگر بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔

کورونا (COVID-19) کی وبا کا تعلق آزمایش کی سنت ِالٰہی سے ہے۔ اس کے اسباب یہ ہیں کہ ماحول اور طبیعیاتی سرچشموں کے ساتھ تعامل میں فساد پیدا ہوگیا ہے، مختلف سطحوں پر ظلم جاری و ساری ہے، ایمان، اخلاق اور اقدار کا استخفاف کیا جا رہا ہے، یہاں تک کہ کائنات کا عام توازن بگڑ گیا ہے، جیسا کہ ہم گذشتہ چند عشروں اور برسوں میں دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی سنتیں کسی کی جانب داری نہیں کرتیں۔ آخر میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نجات دیتا ہے، جو دوسروں کو برائی سے روکنے کی ذمے داری پوری کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِہٖٓ اَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ يَنْہَوْنَ عَنِ السُّوْۗءِ وَاَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍؚ بَىِٕيْــسٍؚ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ۝۱۶۵ (الاعراف۷: ۱۶۵) آخر کار جب وہ ان ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انھیں یاد کرائی گئی تھیں، تو ہم نے ان لوگوں کو بچالیا جو برائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو، جوظالم تھے، ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا۔

سننِ الٰہی کے مطابق حالات کا صحیح شعور حاصل کرنے کے بعد ہماری ذمے داری ہے کہ ہم حالات کو تمام اعتبارات سے بدلنے اور بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ جہاں تک وائرس کا تعلق ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ ان شاء اللہ اس کا خاتمہ ہوجائے گا، جیسا کہ تاریخ میں متعدد مرتبہ طاعون کی بیماری کا خاتمہ ہواہے ۔اور عبرتیں اور نصیحتیں رہ جائیں گی، ان لوگوں کے لیے جو ان سے فائدہ اٹھانا چاہیںگے۔

۱-کیا وائرس اور وبا عقوبتِ الٰہی ہے؟

سوال: کیا وائرس اور وبا لوگوں کے لیے اللہ کی طرف سے سزا ہے؟

جواب: آزمایشیں اور آفات، جن سے لوگ دوچار ہوتے ہیں، زندگی کی سنتوں میں سے ہیں۔ ان سے لوگ بچ نہیں سکتے۔ فرق ِ مراتب کے باوجود وہ انفرادی طور پر بھی ان کا شکار ہوں گے اور اجتماعی طور پر بھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۝۰ۭ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَۃً۝۰ۭ وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ۝۳۵  (الانبیاء ۲۱: ۳۵)ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمایش کر رہے ہیں۔ آخر کار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔

اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ تقدیر کاہے کہ جو کچھ ہوتا ہے ، اللہ کے اذن سے ہوتا ہے، خواہ ہمیں اس کی حکمت معلوم ہو یا نہ معلوم ہو۔ لیکن تقدیر پر یہ راسخ ایمان مسلمان کو غور و فکر کرنے اور عبرت و نصیحت حاصل کرنے سے نہیں روکتا۔ قدرتی آفات کا شکار نیک و بد سب لوگ ہوتے ہیں۔ اس سے تمام انسانوں کو یہ یاد دہانی ہوتی ہے کہ وہ مادّی اور سائنسی میدانوں میں چاہے جتنی ترقی کرلیں، لیکن روحانی اور اخلاقی پہلوؤں کو انھیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اپنے خالق سے رابطہ مضبوط کرنا چاہیے اور بنیادی قدروں، مثلاً عدلِ اجتماعی، پُر امن بقاے باہم، انسانی جان و مال کی حُرمت اور نیکی و بھلائی کے کاموں میں باہمی تعاون کو مضبوطی سے تھامے رہنا چاہیے۔

اس معنٰی میں آزمایش، انتقامِ الٰہی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ آزمایش کے متعدد مقاصد ہوتے ہیں:

    m    لوگ جب اللہ تعالیٰ کی بعض نعمتوں سے محروم ہوتے ہیں، تب انھیں ان کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ صحت کی قدر صحیح معنیٰ میں وہی شخص کر ے گا جو کسی مرض میں مبتلا ہوگیا ہو۔ امن کی نعمت کو وہی شخص پہچان سکتا ہے جو کچھ عرصہ خوف میں زندگی گزارے۔ انسان اکثر ان بہت سی ظاہری و باطنی نعمتوں سے غافل ہوجاتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے اسے نوازا ہے۔ اسے جب اللہ کی نعمتوں کا احساس ہوتا ہے تو اس کی شکر گزاری بڑھ جاتی ہے اور جو کچھ اسے حاصل ہے اس پر قانع ہوجاتا ہے۔

    m  اس کے ذریعے بندے کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ ہمیشہ اللہ کی پناہ میں جائے اور اسی سے تحفظ اور مدد طلب کرے۔ انسان جب مصیبتوں اور تکلیفوں میں مبتلا ہوتا ہے، تو اسے تلاش کرتا ہے جو اس کی مدد کرے اور نجات دے۔ جب اسے احساس ہوگا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں صرف اللہ ہی اس کامددگار اور کارساز ہے، تو اسے اطمینان و سکون حاصل ہوگا۔

    m  مصیبتیں اور آزمایشیں اس لیے بھی آتی ہیں کہ بندوں کو معاصی اور گناہوں میں پڑنے سے بچائیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ وہ انھیں متنبّہ،خبردار اور ہوشیار کرتا ہے، تاکہ وہ غلط کاموں سے بچیں، جن کا ضرر خود ان کی ذات کو اور معاشرے کو پہنچتا ہے۔ یہ تنبیہ مومن اور غیر مومن، نیکوکار اور گنہگار سب کے لیے ہوتی ہے۔

 یہاں اس جانب بھی توجہ دلانا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جو آزمایش لوگوں کو معاصی سے بچانے کے لیے آتی ہے، وہ ہر اس عمل کے ذریعے ہوتی ہے کہ جس میں انسان صحیح راہ سے ہٹ جاتا ہے، خواہ اس کا اپنے ربّ سے تعلق کا معاملہ ہو، یا دوسرے انسانوں سے ، یا کائنات سے۔ یہ بات کسی پر مخفی نہ ہوگی کہ ان تمام میدانوں میں انسان غلط راہوں پر جا پڑے ہیں۔ ’کورونا وائرس‘ کی وبا عام ہونے کے بعد دنیا کے دانش وروں کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ: ’’انسانوں نے زندگی کے تمام پہلوؤں میں جو غلط طرزِ عمل اختیار کر رکھا ہے اس پر نظر ثانی کریں‘‘۔ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ’’انسانیت کی معاصر تاریخ میں کورونا کے بعد کی زندگی، کورونا سے قبل کی زندگی سے مختلف ہوگی‘‘۔ اقدار اور اخلاق میں پیدا ہونے والا انحراف، انسانوں کے درمیان عدل اور دولت کی مساویانہ تقسیم کی خلاف ورزی، ماحول سے عدم ِ مطابقت، فضائی آلودگی، جنگوں کی آگ بھڑکانا، یہ سب وہ گناہ ہیں، جن سے انسانیت کو توبہ کرنی چاہیے۔ ان سے ہوشیار کرنے کے لیے آزمایش ہوتی ہے، تاکہ ظلم اور سرکشی جاری رکھنے کے انجام سے باخبر کر دیا جائے۔

۲- کورونا وائرس کے پھیلاو ٔ  کو کیسے روکا جائے؟

 ]: ’کورونا وائرس‘ کے پھیلاؤ کو کیسے روکیں؟اسلام اس سلسلے میںکیا ہدایات دیتا ہے؟

r : ’کورونا وائرس‘ پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے تمام ممالک جی جان سے لگے ہوئے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام مادّی اور معنوی صلاحیتیں وقف کر دینی ہوں گی۔ ’کورونا وائرس‘ جیسی آفات کے خطرے کا مقابلہ کرنے اور اس سے حفاظت کے لیے اسلام درج ذیل ہدایات دیتا ہے:

    m اسلام انسان کو ایمانی طاقت فراہم کرتا ہے، جس کے ذریعے وہ پوری شجاعت اور پامردی کے ساتھ سختیوں کو برداشت کرتا ہے۔ امراض کا مقابلہ کرنے کے لیے انسان کو ضرورت ہوتی ہے کہ اس کی جسمانی اور نفسیاتی بنیاد قوی ہو۔ یہی اطباء اور ماہرین یہ بات بھی کہتے ہیں کہ مریض جس قدر سکون و اطمینان کی حالت میں ہوگا، اتنا ہی وہ مرض کا مقابلہ کرنے پر قادر ہوگا۔ ساتھ ہی احتیاط اور علاج کے اسباب اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ اسبابِ مناعت میں سے یہ بھی ہے کہ زندگی میں نظامِ صحت: غذا، حرکت اور احتیاط وغیرہ پر توجہ دی جائے۔ اسلام نے ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کی دعوت دی ہے اور اس پر ابھارا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ چیزیں کھانے اور ناپاک چیزوں سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ (الاعراف۷: ۱۵۷)

    m  اسلام نے صفائی ستھرائی کا تاکیدی حکم دیا ہے۔ اسلامی فقہ کا پہلا باب طہارت پر ہوتا ہے، جو عبادت کے لیے شرط ہے۔ اس کے لیے غسل کے احکام بیان کیے گئے ہیں۔ نماز کے لیے وضو لازم کیا گیا ہے کہ جسم کے ظاہری اعضا دھوئے جائیں۔ کھانا کھانے سے قبل اور اس کے بعد دونوں ہاتھ دھونے پر ابھارا گیا ہے۔مسواک کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ احادیث میں خصال ِ فطرت کو اختیار کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ کھانے کو خراب اور آلودہ ہونے سے بچانے کی تاکید کی گئی ہے۔ حفظانِ صحت سے متعلق ان ہدایات کا مقصد یہ ہے کہ نظافت انسان کی زندگی میں اس کے معمولات میں شامل ہو جائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

أَوْکُوْا الْأَسْقِیَۃَ ، وَ خَـمِّرُوا الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ (بخاری: ۵۶۲۴، مسلم: ۲۰۱۱) مشکیزوں کو باندھ کر رکھو اور کھانے اور پانی کو ڈھکے رہو۔

اس میں شک نہیں کہ حفظانِ صحت سے متعلق یہ ہدایات امراض سے تحفظ فراہم کرنے کے سلسلے میں بہت مؤثر ہیں۔ طبی ادارے بھی انھی چیزوں کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ ایک مومن جب ان ہدایات پر عمل کرے گا، تو وہ بہ یک وقت حفظان ِ صحت کے اصولوں پر عمل کرنے والا ہوگا اور خالص عبادتی عمل بھی انجام دے رہا ہوگا۔

lکوئی وبا پھیلی ہوئی ہو تو اسلام نے ان صحتی تدابیر کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، جو تعدیہ (Infection)کو پھیلنے سے روکنے والی ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

اِذَا سَمِعْتُمُ بِالطَّاعُوْنِ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوْھَا، وَاِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِھَا فَلَا تَخْرُجُوْا مِنْھَا (بخاری: ۵۷۲۸، مسلم: ۲۲۱۹)جب تم سنو کہ کہیں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر اس وقت وہاں موجود ہو تو وہاں سے باہر نہ نکلو۔

وبا کی صورت میں یہ ہدایت ِ نبویؐ مومن کو یہ ذمہ داری سکھاتی ہے کہ وہ خود بھی ضرر سے بچنے کی کوشش کرے اور دوسروں کو بھی ضرر نہ پہنچائے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد نبویؐ کو احکامِ شریعت میں ایک قاعدہ ٔکلیہ کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے: لَا ضَرَرَ وَ لَا ضِرَارَ (موطا امام مالک) ’’نہ خود نقصان اٹھاؤ، نہ دوسرے کو نقصان پہنچاؤ‘‘۔

lکورونا کی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اہلِ ایمان حفظانِ صحت کی ان ہدایات کی پابندی کریں، جو سرکاری محکموں کی جانب سے جاری کی جاتی ہیں، تاکہ وہ خود بھی محفوظ رہیں اور دوسروں کی بھی حفاظت ہو۔ اجتماعی ذمے داری کا یہ مفہوم اس حدیث ِ نبویؐ سے مستنبط ہوتا ہے، جس میں ایک دو منزلہ کشتی کی مثال دی گئی ہے، جس کی نچلی منزل میں رہنے والوں نے ارادہ کیا کہ وہ نیچے سوراخ کرکے پانی حاصل کرلیا کریں۔ اگر انھیں سوراخ کرنے دیا گیا تو سب ہلاک ہوجائیں گے اور اگر ان کا ہاتھ پکڑ لیا گیا تو سب محفوظ رہیں گے۔ (بخاری: ۲۴۹۳)

اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ وہ جو کچھ کر سکتا ہے اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملہ کو چاہیے کہ مریضوں کا علاج کریں۔ محققین کو چاہیے کہ اس کی دوائیں اور ویکسین تیار کریں۔ اصحابِ ثروت کو چاہیے کہ سائنسی تحقیقات، علاج معالجے اور لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنا مال پیش کریں۔ معذوروں اور بوڑھوں کی مدد کرنے کے لیے ہر شخص آگے آئے۔ ہر انسان کے ذہن میں یہ بات مستحضر رہنی چاہیے کہ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوڑ بھاگ کرنا، تقرّبِ الٰہی کے عظیم کاموں میں سے ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: لوگوں میں کون سا شخص اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہو‘‘۔ (ابن ابی الدنیا، طبرانی)

۳- کورونا وائرس کے سبب مسجدوں میں نماز موقوف کر دینے کی مشروعیت

 ]: کیا شریعت میں کوئی ایسی نص ہے جو عبادات کی ادایگی پر جسمانی صحت کو مقدم قرار دیتی ہو؟ کیا قرآن کریم اور سنت ِنبوی میں کوئی ایسی دلیل ہے جو ان حالات میں مسجدوں میں نماز کو موقوف کردینے کو جائز ٹھیراتی ہو؟

r : اسلامی تعلیمات انسانی زندگی کی حفاظت کرنے اور اسے ہر طرح کی اذیت سے بچانے کی تلقین کرتی ہیں۔ اس کا شمار ان اعلیٰ اقدار میں ہوتا ہے، جنھیں اسلام نے استحکام بخشا ہے۔ انسانی زندگی کی حفاظت کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ جبر و کراہ کی صورت میں مسلمان کو کلمۂ کفر زبان پر لانے کی اجازت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِلَّا مَنْ اُكْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِيْمَانِ  (النحل۱۶: ۱۰۶)سوائے اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔

 اسلام نے مریض اور مسافر کو رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہے، تاکہ وہ شدید مشقت اور ضرر سے بچا رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۝۰ۭ (البقرہ۲: ۱۸۴) اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے۔

ان چیزوں کی اجازت اس کے باوجود دی گئی ہے کہ ان میں عزیمت اور افضل عمل کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ اس بنا پر بہ درجۂ اولیٰ یہ بات کہی گئی ہے کہ کورونا وائرس کے ’تعدیہ‘ سے لوگوں کو بچانے کے مقصد سے مساجد میں نمازیں موقوف کردی جائیں اور گھروں میں ادا کی جائیں۔

شریعت کے کچھ متفق علیہ قواعد ہیں: مثلاً لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ (ضرر کو دور کیا جائے گا)۔ الضَّرُوْرَاتُ تُبِیْحَ الْمَحْظُوْرَاتِ (ناگزیر صورتِ حال میں ناجائز چیزیں جائز ہوجاتی ہیں)۔ الْمَشَقَّۃُ تَجْلِبُ التَّیْسِیْرَ (مشقت کی صورت میں آسانی کا حکم دیا جاتا ہے)۔ موجودہ حالات میں مساجد میں شعائر کی انجام دہی کو موقوف کردینے کے جواز پر مذکورہ بالا قواعد کے ساتھ درج ذیل احادیث سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے:

۱- حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَا یُورِدَنَّ مُمرِضٌ عَلٰی مُصِحٍّ (بخاری: ۵۷۷۱، مسلم: ۲۲۲۰)’’مریض صحت مند کے پاس ہر گز نہ جائے‘‘۔

ڈاکٹروں نے یہ بات قطعیت کے ساتھ کہی ہے کہ کورونا وائرس کے حامل شخص پر مرض کی علامات بسا اوقات طویل مدت تک ظاہر نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے وہ ہراس شخص تک، جس سے ملاقات کرے گا، وائرس منتقل کر سکتا ہے۔ مساجد میں لوگوں کے آنے جانے، صفوں میں مل کر کھڑے ہونے اور ایک ہی جگہ مختلف لوگوں کے سجدہ کرنے سے یہ امکان بڑھ جاتا ہے ۔

۲- حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم سنو کہ کہیں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں نہ جاؤ، اور پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے نہ نکلو۔(بخاری: ۵۷۲۸، مسلم: ۲۲۹۱)

اگر یہ چیز ممالک، علاقوں اور شہروں میں آنے جانے کے سلسلے میں ملحوظ رکھنے کی ہے تو کم بھیڑ بھاڑ کے مقامات، مثلاً مسجدوں میں بہ درجۂ اولیٰ اس کا لحاظ کیا جائے گا۔ تمام لوگوں کو بچانے کے مقصد سے عارضی طور پر مسجدوں کو بالکلیہ بھی بند کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر اس صورت میں جب جمعہ اور جماعت کے سلسلے میں دیگر شرعی منصوص بدل موجود ہوں۔

۳- مسجدوں میں حاضری سے رخصت کو اس رخصت پر قیاس کیا جاسکتا ہے، جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کی صورت میں دی تھی۔ حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ بارش کے دن حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے مؤذّن سے فرمایا:جب تم أَشْھَدُ أَنَّ محمّداً رَّسولُ اللّٰہِ کہہ چکو تو حیّ عَلَی الصلوٰۃ نہ کہنا، بلکہ اس کے بجاے یہ کہنا: صَلُّوْا فِيْ بُیُوْتِکُمْ (اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو)۔مؤذّن نے ایسا ہی کیا۔ یہ سن کر لوگوں کو عجیب لگا۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا: ’’تمھیں اس پر تعجب ہوتا ہے۔ اسے اُس شخص نے کیا تھا جو مجھ سے بہتر ہے (یعنی اللہ کے رسولؐ)۔ (بخاری: ۹۰۱، مسلم: ۶۹۹)

اس میں شک نہیں کہ وائرس کا خطرہ اور اس سے پہنچنے والی مشقت بارش میں نماز کے لیے مسجد جانے کی مشقت سے بڑھ کر ہے۔

۴- ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جو شخص اذان سنے اور بغیر کسی عذر کے نماز کے لیے مسجد نہ جائے اس کی(گھر پر پڑھی جانے والی) نماز مقبول نہ ہوگی‘‘۔ لوگوں نے سوال کیا: عذر سے کیا مراد ہے؟ فرمایا:’’خوف یا مرض‘‘۔ (ابوداؤد: ۵۵۱، ابن ماجہ: ۷۹۳)

اس حدیث سے فقہا نے استدلال کیا ہے کہ اپنے یا گھر والوں کے بارے میں کسی خوف کا شمار ایسے عذرات میں ہوتا ہے جن کی بنا پر جمعہ یاجماعت ترک کرنے کی اجازت ہے۔ مسجد میں جانے سے وائرس کا خود شکار ہوجانے اور اپنے گھروالوں میں اسے منتقل کر دینے کا اندیشہ ہے، اس لیے جمعہ یا جماعت میں شریک نہ ہونے والا اس معاملے میں معذور ہے۔

۴- مائک کے ذریعہ مسجد کے امام کی اقتدا میں گھروں میں نمازِ جمعہ

]: کیا دُور سے نماز جمعہ ادا کرنا جائز ہے؟ اس کی صورت یہ ہو کہ امام ،مسجد کے لاؤڈاسپیکر سے خطبہ دے، اس کے ساتھ ایک دو افراد ہوں۔ بقیہ لوگ اپنے گھروں میں رہتے ہوئے خطبہ سنیں، پھر اس کی اقتدا میں نماز جمعہ پڑھیں اور اس کے بعد نمازِ ظہر نہ ادا کریں۔

r : گھروں میں نماز ِجمعہ ریڈیو یا ٹیلی ویژن یا لاؤڈ اسپیکر یا کسی دیگر مواصلاتی ذریعہ سے جائز نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے نمازِ جمعہ ادا نہیں ہوگی اور جو اس طریقہ سے ادا کرے گا، اس سے نمازِ ظہر ساقط نہیں ہوگی۔ موجودہ دور کے فتویٰ صادر کرنے والے اداروں اور انجمنوں کا یہی فیصلہ ہے۔ اس موقعے پر اور کئی عشرے قبل تمام معاصرفقہا نے یہی فتویٰ دیا ہے۔ اس لیے کہ نمازِ جمعہ توفیقی اور تعبّدی عبادت ہے۔ اس کی ادایگی ایک مخصوص شرعی طریقے سے ہوتی ہے، جس کے بغیر وہ درست نہ ہوگی۔ اس طریقے پر اور انھی شرائط و ارکان کے ساتھ اس کی فرضیت کے وقت سے وفات ِ نبویؐ تک اس کی ادایگی کی گئی ہے اور اسی طریقے پر بغیر کسی تبدیلی کے، عہد ِ نبویؐ سے لے کر اب تک تواتر کے ساتھ ادا کی جاتی رہی ہے۔ گھروں میں اس کی ادایگی نبوی طریقے کے بر عکس ہے اور اس کے لیے نئی صورت اختیار کرنا نبوی ہدایت کی خلاف ورزی ہے، جس کی بنا پر نماز باطل ہوجائے گی۔

کسی مواصلاتی ذریعے سے گھروں میں خطبۂ جمعہ سننا اور نماز ادا کرنا متعدد وجوہ سے درست نہیں ہے:

۱-اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ (الجمعۃ ۶۲: ۹)اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو۔

اس آیت میں جمعہ کے لیے ’دوڑ کر جانے‘ کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بنا پر علما نے جمعہ کے لیے مسجد جانے کو واجب قرار دیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص جمعہ کے دن خوب اچھی طرح غسل کرے، جمعہ کی نماز کے لیے جلد گھر سے نکلے، سواری سے جانے کے بجاے پیدل جائے، مسجد میں امام سے قریب بیٹھے، خوب غور سے خطبہ سنے اور کوئی لغو کام نہ کرے، تو گھر سے مسجد تک ہر قدم پر اسے ایک سال کے قیام و صیام کا اجر ملے گا‘‘۔ (ترمذی: ۴۹۶، دارمی: ۱۵۸۸، مسند احمد: ۶۹۵۴)

گھر میں جمعہ کی نماز پڑھنے سے قرآن و سنت کی ان ہدایات پر عمل ممکن نہ ہوسکے گا۔

۲- جمعہ کی فرضیت مخصوص طریقہ پر اور متعین مقاصد کے لیے ہے۔ اگر چہ اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جمعہ کے دن نمازِ جمعہ فرض ہے یا نمازِ ظہر، لیکن ان کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ کون سی نماز اصل ہے اور کون سی اس کا بدل؟ راجح قول یہ ہے کہ ظہر اصل اور جمعہ بدل ہے، اس لیے کہ ظہر کی فرضیت اسراء کے موقع ہوگئی تھی اور جمعہ بعد میں فرض ہوا۔ اس لیے اگر کسی عذر کی بنا پر جمعہ قائم نہ کیا جا سکے، تو اصل یعنی ظہر کی جانب لوٹا جائے گا۔ بہت سے مسلم شہروں اور علاقوں میں مسلمان جمعہ کی مسجدوں اور پنج وقتہ نمازوں کی مسجدوں میں فرق کرتے ہیں۔چنانچہ وہ جمعہ کی نماز صرف بڑی مسجدوں میں ادا کرتے ہیں، چھوٹی مسجدوں میں ادا نہیں کرتے۔ اگر ریڈیو، مائک یا کسی اور مواصلاتی ذریعے سے گھروں میں جمعہ کی نماز کو درست قرار دیا جائے تو یہ فائدہ حاصل نہ ہوگا۔

۳- مسجد کے مائک کی آواز پرگھروں میں جمعہ کی نماز پڑھنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نمازِ جمعہ کے شعار کی اہمیت ختم ہوجائے گی اور انجامِ کار، بعد میں بھی جمعہ اور پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام نہیں کیا جائے گا۔ اگر اس صورت میں جمعہ کی نماز درست ہے تو پھر پنچ وقتہ نمازیں بھی بدرجۂ اولیٰ درست قرار پائیں گی۔ اس طرح مسجدیں تعمیر کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ ہر شہر میں صرف ایک چھوٹی سی مسجد بنا لی جائے گی، جس میں امام کے علاوہ دو تین لوگوں کی گنجایش ہو، بقیہ لوگ مسجد کے مائک پر اپنے گھروں اور کام کی جگہوں میں رہتے ہوئے نماز پڑھ لیں گے۔ اس سے زیادہ تعجب خیز صورت یہ ہوگی کہ اگر مسجد حرام اور ان کے یہاں نماز کا وقت ایک ہو تو وہ اپنے گھروں میں رہتے ہوئے ٹیلی ویژن میں دیکھ کرامامِ حرم کے پیچھے نماز ادا کرنے لگیں گے۔

۴- نماز میں اقتدا کی صحت کے لیے فقہا نے یہ شرط لگائی ہے کہ امام اور مقتدی ایک ہی جگہ ہوں اور مقتدی کو امام کی حرکات و سکنات کا اس طرح علم ہوتا ر ہے کہ شبہ کی کوئی گنجایش نہ ہو اور مقتدی امام کے حال سے ناواقف نہ رہے۔ اگر وہ ناواقف ہوگا تو اس کی نماز درست نہ ہوگی۔ اسی طرح فقہا نے یہ شرط بھی عائد کی ہے کہ امام اور مقتدی کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہو، مثلاً کوئی دیوار حائل نہ ہو، یا ایسی نہر نہ ہو جس میں کشتیاں چلتی ہوں ،یا کوئی ایسی رکاوٹ نہ ہو، جو مقتدی کو امام تک پہنچنے سے (اگر وہ اس تک جانا چاہے) روکنے والی ہو۔گھروں میں رہتے ہوئے مائک یا کسی مواصلاتی ذریعہ سے مسجد کے امام کی اقتدا کرنے سے یہ شرائط پوری نہ ہوں گی۔ اس لیے جمہور فقہا کے نزدیک ایسی نماز درست نہ ہوگی۔ ان کا استدلال اس حدیث نبویؐ سے ہے:

اِنَّمَا جُعِلَ الْاِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہٖ (بخاری: ۳۷، مسلم: ۴۱۱)امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔

۵- گھروں میں الگ سے نماز جمعہ کی ادایگی

 ]: موجودہ حالات میں، جب کہ مساجد میں نماز نہیں ہورہی ہے، کیا گھروں یا کام کی جگہوں میں تین چار آدمی اکٹھا ہوکر جمعہ کی نماز پڑھ سکتے ہیں، اس طور پر کہ ان میں سے ایک شخص خطبہ دے اور وہ لوگ اس کی ا قتدا میں دو رکعت جمعہ کی نماز پڑھ لیں؟

r : مذکورہ طریقے پر گھروں میں یا کام کی جگہوں پر جمعہ کی نماز شرعاً جائز نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے جمعہ کا فرض ساقط نہ ہوگا، بلکہ ضروری ہے کہ ان حالات میں گھروں پر ہی رہا جائے اور ظہر کی نماز ادا کی جائے، خواہ ایسا کرتے ہوئے کتنا ہی عرصہ کیوں نہ گزر جائے۔ عالم اسلام میں فتویٰ کے اداروںاور معاصر فقہا کی اکثریت کی یہی راے ہے۔

گھروں میں نمازِ جمعہ درست نہ ہونے کے اسباب درج ذیل ہیں:

۱- نمازِ جمعہ میں اصل اس کا تعبّدی اور توقیفی ہونا ہے، یعنی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ادا کیا، اسی طرح ادا کی جائے۔ آپؐ نے کبھی جمعہ کی نماز گھر میں ادا نہیں کی، نہ صحابہ کرامؓ اور نہ ان کے بعد کے لوگوں نے۔

۲- جمعہ اسلام کے شعائر میں سے ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اس کا اعلان کیا جائے اور ایسی جگہ پر ادا کیا جائے، جہاں تمام مسلمان آسانی سے پہنچ سکیں۔ اسی لیے جن لوگوں کے نزدیک جمعہ کے لیے مسجد ہونا شرط نہیں ہے، وہ بھی کہتے ہیں کہ اس کی ادایگی ایسی جگہ ہونی چاہیے جو تمام مسلمانوں کے لیے عام ہو۔ گھروں میں نمازِ جمعہ قائم کرنے کی صورت میں یہ شرط پوری نہیں ہوگی۔

۳-جمعہ کے لیے احناف کے نزدیک اذن ِ عام کی شرط ہے، یعنی تمام لوگوں کو معلوم ہو کہ جمعہ کی نماز کہاں ہورہی ہے؟ اور ان کے اس میں شریک ہونے کے لیے دروازے کھلے ہوئے ہوں۔ گھروں میں نمازِ جمعہ کی صورت میں یہ شرط پوری نہیں ہوگی۔

۴- اسلامی تاریخ میں کبھی نمازِ جمعہ گھروں میں نہیں پڑھی گئی۔ متعدد مرتبہ وبائیں پھوٹیں، حتّٰی کہ مسجدوں میں جمعہ اور پنج وقتہ نمازیں موقوف ہو گئیں، لیکن گھروں میں نمازِجمعہ ادانھیں کی گئی۔

۵- قدیم فقہا نے تو ایک شہر کی کئی مساجد میں نمازِ جمعہ سے منع کیا ہے اوراسے ایک بڑی مسجد میں ادا کرنے کو کہا ہے۔ اس کا مقصد مسلمانوں کی اجتماعیت کا اظہار تھا۔ پھر ان کے قول کے مطابق گھروں میں تین چار افراد کامل کر جمعہ پڑھنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے؟

۶- جس شہر میں کورونا کا مریض نہ ہو وہاں مسجد میں نماز ادا کرنے کا  حکم

]: میرے شہر میں اب تک کورونا کے ایک بھی مریض کا پتا نہیں چلا ہے اور مسجد کو بندکیے جانے کا کوئی سرکاری حکم نہیں آیا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ایسے اشخاص ہوسکتے ہیں جو کورونا کے حامل (Carrier) ہوں، لیکن ہمیں معلوم نہ ہو، اس لیے کہ ان پر ابھی اس مرض کی علامتیں ظاہر نہیں ہوئی ہیں۔ تو کیا اس حالت میں مسجد میں نماز نہ پڑھی جائے؟

r : اس معاملے میں اصل یہ ہے کہ شہر کی انتظامیہ کے احکام اور محکمہ ہاے صحت کی ہدایات کی پابندی کی جائے۔ اگر شہر میں معمول کی زندگی جاری و ساری ہو ،کورونا کا کوئی کیس سامنے نہ آیا ہو اور سماجی فاصلہ (Social Distance)کی ہدایت جاری نہ ہوئی ہو، تو مسجد میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ شہر کے محکمہ ہاے صحت کی ہدایات پر نظر رکھی جائے۔ جب کہیں جمع ہونے سے روک دیا جائے تو گھروں میں رہا جائے اور وہیں گھر والوں کے ساتھ پنچ وقتہ نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جائیں اور جمعہ کی نماز کے بجاے ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جائے۔ لوگوں کی جانوں کی حفاظت کے مقصد سے مسجدوں میں نمازیں موقوف کر دی جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ ۝۰ۚۖۛ (البقرۃ۲: ۱۹۵) اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔

۷-  نمازیوں کے درمیان ایک میٹر کے فاصلے سے نمازِ باجماعت

]:جب سے کورونا وائرس پھیلا ہے، بعض مساجد میں نمازِ باجماعت کی یہ صورت اختیار کی جارہی ہے کہ نمازی تعدیہ سے بچنے کے لیے صف میں ایک دوسرے سے ایک میٹر کے فاصلے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ نماز کے اس طریقے کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟

r : ان حالات میں بہتر یہ ہے کہ مساجد میں نمازیں موقوف کر دی جائیں اور گھروں میں انھیں ادا کیا جائے۔ نمازِ باجماعت سنّت ِ مؤکّدہ ہے اور انسانوں کی جانوں کی حفاظت واجب ہے۔ اس طور پر سنت کو واجب پر مقدّم کرنا درست نہیں ہے۔ مذکورہ طریقے پر نماز کی ادایگی میں تکلّف ہے، اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے آسان بنایا ہے اسے پیچیدہ کرکے ادا کرنا ہے۔ یہ چیز نمازِباجماعت کی روح کے بھی منافی ہے۔ اس لیے کہ نصوص میں نمازیوں کو صف میں قریب قریب کھڑا ہونے کا حکم دیا گیا ہے اور صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس طریقے سے بھی مسجدوں میں نماز ادا کرنے سے لوگ تعدیہ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ اس لیے کہ مسجدوں میں آنے جانے سے ان کا اختلاط ہوگا، مختلف افرادایک ہی جگہ الگ الگ اوقات میں سجدہ کریں گے، مسجد کا دروازہ کھولیں گے تو ان پران کے ہاتھ لگیں گے۔ اس لیے بہتر ہے کہ مسجدوں میں اس طریقے سے نماز نہ ادا کی جائے۔

۸- دفعِ بلا کے لیے متعیّن اوقات میں اجتماعی نماز

]: سوشل میڈیا پر ایسے اعلانات سامنے آئے ہیں، جن میں دفع ِ بلا کے لیے عبادت کے اوقات متعین کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک مخصوص دن تمام لوگ روزہ رکھیں، ایک مخصوص رات تمام لوگ اجتماعی نماز ادا کریں، یا متعین اوقات میں اجتماعی طور پر استغفار کریں۔ کیا یہ جائز ہے؟ یا اسے بدعت قرار دے کر اس سے روکا جائے گا؟

r : مسلمان جب کسی پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے، یا کسی مصیبت کا شکار ہوتا ہے، تو وہ نماز، دعا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے گریہ و زاری کی طرف بھاگتا ہے۔ عہد نبویؐ میں سورج گرہن ہوا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اللہ کی نشانی قرار دیا اور اپنے اصحاب کو مخاطب کرکے فرمایا:

فَاِذَا رَأَیْتُمْ ذٰلِکَ فَادْعُوا اللّٰہَ وَکَبِّرُوْا وَصَلُّوْا وَتَصَدِّقُوْا(بخاری: ۱۰۴۴، مسلم: ۹۰۱)جب تم ایسا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو، اس کی کبریائی بیان کرو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔

جس طرح سورج گرہن اور چاند گرہن اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں، جو اس کی قدرت پر دلالت کرتی ہیں، اسی طرح وبا اور تمام امراض اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ جس طرح سورج گرہن اور چاند گرہن کے موقعے پر نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح وبا وغیرہ کے موقعے پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ان مصیبتوں کے مواقع پر مسلمانوں کو نماز اور دعا و استغفار کی طرف دعوت دینا مشروع ہے۔ قرآن میں اس کا حکم دیا گیا ہے:

وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۝۰ۭ وَاِنَّہَا لَكَبِيْرَۃٌ اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَ۝۴۵ۙ (البقرہ ۲: ۴۵) صبر اور نماز سے مدد لو۔ بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگر فرماں برداروں کے لیے( مشکل نہیں ہے۔)

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۳ (البقرہ ۲: ۱۵۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر اور نماز سے مدد لو۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

کوئی ایسی نص موجود نہیں ہے، جس میں دفعِ بلا کی نیت سے عبادت کا کوئی وقت متعین کرکے اس کا اعلان کرنے اور اس میں عبادت کی ترغیب دینے سے روکا گیا ہو۔

علماے اصول و فقہ نے بیان کیا ہے کہ مطلق عبادات، مثلاً قیامِ لیل، ذکر اور دعا وغیرہ کے لیے کوئی وقت متعین کرنا مشروع ہے، اگر یہ اعتقاد نہ رکھا جائے کہ اس صورت میں عبادت کی کوئی خاص فضیلت ہے۔

حنفی فقیہ ملا علی قاریؒ [م: ۱۶۰۶ء]لکھتے ہیں: ’’ رات میں اچانک تیز روشنی ہوجائے، ستارے بکھر جائیں، دن میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھاجائے، تیز آندھی چلنے لگے، زلزلہ آجائے، بجلی کڑکے، مسلسل اولے گریں، موسلا دھار بارش ہو، وبائی امراض پھیل جائیں یا دشمن کا خوف ہو تو لوگ تنہا تنہا نماز پڑھیں گے‘‘۔ (فتح باب العنایۃ: ۱؍ ۳۴۸) مؤرخ شمس الدین دمشقی [م:۱۳۷۸ء] نے لکھا ہے: ’’۷۶۴ھ [۱۳۶۳ء]میں بڑے پیمانے پر طاعون پھیلا تو لوگ رات میں عبادت کرتے تھے، دن میں روزہ رکھتے تھے، خوب صدقہ و خیرات کرتے تھے اور توبہ و استغفار میں مصروف رہتے تھے‘‘۔ (شفاء القلب المحزون)

۹- زکوٰۃ جلدی نکالنا

]: کیا کورونا کے نتیجے میں لوگوں کی شدید ضرورت کے پیش نظر زکوٰۃ جلدی نکالی جاسکتی ہے؟

r : کسی شخص کے پاس مال نصاب کو پہنچ جائے، لیکن اس پر ابھی سال نہ گزرا ہو، تب بھی لوگوں کی شدید ضرورت کے پیش نظر ایک سال یا اس سے زائد مدت کی زکوٰۃ پیشگی نکالی جاسکتی ہے۔ کسی معتبر مصلحت کے پیش نظر سال گزرنے سے قبل پیشگی زکوٰۃ نکالنا جمہو رفقہا اور بیش تر اہلِ علم کے نزدیک درست ہے۔انھوں نے حضرت علی بن ابی طالبؓ سے مروی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عباسؓ نے رسولؐ اللہ سے دریافت کیا:’’کیا سال گزرنے سے قبل زکوٰۃ نکالی جا سکتی ہے؟‘‘ آپؐ نے انھیں اس کی اجازت دے دی۔ (ترمذی: ۶۷۸)

زکوٰۃ مالی حق ہے۔ اس کی ادایگی کے لیے مدّت کا تعیین زکوٰۃ نکالنے والے کی آسانی کے لیے کیا گیا ہے۔ اسے وقت سے پہلا نکالا جا سکتا ہے۔ جس طرح کوئی شخص کسی سے ایک متعین مدّت کے لیے قرض لے تو مدت پوری ہونے سے پہلے بھی وہ قرض واپس کر سکتا ہے۔

۱۰-   غیر مسلموں کو شفا کی دعا دینا

]: کیا غیر مسلموں کو شفا کی دعا دی جا سکتی ہے؟

r : بعض مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ غلط تصور بیٹھا ہوا ہے کہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات کا تعلق صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات سے ہے۔ یہ اسلام کے صحیح فہم کے خلاف ہے۔ اسلامی اخلاق کا مظاہرہ تمام انسانوں کے ساتھ کیا جائے گا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: خَالقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ (ترمذی: ۱۹۸۷) ’’لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ‘‘۔

غیرمسلمانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، مثلاً ان کے لیے دعا کرنا، ان کے ساتھ ہم دردی سے پیش آنا اور مختلف طریقوں سے ان کی مدد کرنا مشروع ہے، بلکہ ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر کا مستحق ہوگا۔ کسی کو دعا دینا ایک اچھا کام ہے۔ کتاب و سنت میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غیر مسلموں کو بدنی صحت اور امراض سے شفا کی دعا دینا جائز ہے۔

 حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ ( بخاری:۱۳، مسلم:۴۵)’’ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔

’بھائی‘ کے لفظ میں مسلم اور غیر مسلم سب شامل ہیں ۔ ایک مسلمان جس طرح اپنے لیے صحت اور شفا چاہتا ہے، اسی طرح اسے دوسرے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے بھی اس کی خواہش رکھنی چاہیے۔ اس حدیث کی تشریح میں علامہ محمد بن علان البکری الصدیقی [م: ۱۶۴۷ء] نے لکھا ہے:’’ بہتر یہ ہے کہ اس حدیث کے عموم میں غیر مسلم کو بھی شامل کیا جائے اور لفظ ’ بھائی‘ کا اطلاق اس پر بھی کیا جائے‘‘۔(دلیل الفالحین لطرق ریاض الصالحین)

 ۱۱- کورونا میں مبتلا مریضوں سے نفرت کرنا

]: بعض لوگ کورونا میں مبتلا ہوجانے والے مریضوں اور ان کے گھر والوں سے تنگی اور انقباض محسوس کرتے ہیں، گویا کہ ان سے نفرت کرتے ہیں۔ کیا یہ رویّہ درست ہے؟

r : جو شخص کورونا میں مبتلا ہوگیا ہو، یا کسی اور وبا کا شکار ہو گیا ہو، اس سے انقباض محسوس کرنا ،یا اس سے نفرت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ کوئی شخص کسی کو پریشان حال، مصیبت کا مارا یا کسی مرض کا شکار دیکھے، تو اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے مجھے محفوظ رکھا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ کوئی شخص کسی کو کسی پریشانی میں مبتلا دیکھے، تو یہ کہے: ’اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس پریشانی سے محفوظ رکھا اور مجھے اپنی بہت سی مخلوقات سے بہتر بنایا‘۔ اللہ تعالیٰ اسے اس پریشانی سے محفوظ رکھے گا‘‘( ترمذی: ۳۴۳۱، ۳۴۳۲، ابن ماجہ:۳۸۹۲)۔

اس کا عین امکان ہے کہ جو شخص کسی پریشانی میں مبتلا ہو، اس کا درجہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس شخص سے زیادہ بلند ہو، جو اس پریشانی سے محفوظ ہو۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے کو بلند مرتبے پر فائز کرنا چاہتا ہے ، جس تک وہ اپنے اعمال سے نہیں پہنچ سکتا تھا، تو اس کے جسم یا مال یا اولاد کے معاملے میں اسے کسی پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے۔ اس پر وہ بندہ صبر کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ اس کا درجہ بلند کردیتا ہے‘‘۔( ابوداؤد:۳۰۹۰، مسند احمد:۲۲۳۳۸)

جو شخص کسی پریشان حال کی مدد کرسکے، کسی مریض کے مرض کی شدّت کو کم کرسکے، کسی بزرگ سے تعاون کر سکے، اسے اس کام سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’انسانوں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے، جو دوسرے انسانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچائے‘‘۔( طبرانی)

کسی وبا کی صورت میں لوگوں سے ملنے جلنے سے احتیاط کرنا اور وبا زدہ کسی شخص کے بارے میں رویّہ نفرت و حقارت کی شکل میں بدل لینا، دونوں میں فرق ہے۔ جو ڈاکٹر ایسے کسی مریض کا علاج کرتا ہے، وہ جانچ اور علاج کے لیے ایسے مریض سے قریب ہوتے وقت تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرتا ہے، لیکن اس سے انقباض محسوس نہیں کرتا اور اس سے متنفّر نہیں ہوتا۔ یہی رویّہ دوسرے انسانوں کا بھی ایسے مریضوں کے سلسلے میں ہونا چاہیے۔ اگر وہ ان کی کچھ مدد نہیں کرسکتے، تو کم از کم ان کے لیے شفا کی دعا کریں، انھیں نرمی اور احترام سے مخاطب کریںاور ان سے ملاقات کے وقت خندہ پیشانی اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کریں۔

۱۲- وبا کا روحانی علاج

]: وبائی امراض کے علاج کے لیے بعض لوگ اوراد و وظائف اور روحانی علاج بتاتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟

r : وبائی امراض کے علاج کے لیے اوراد و وظائف اور روحانی علاج کی جو صورتیں بعض لوگ اپنی جانب سے تجویز کرتے ہیں ان میں سے بیش تر شرعی اعتبار سے درست نہیں ہیں، بلکہ وہ مقاصدِ شریعت سے ٹکراتی ہیں۔ لوگوں کو ان سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے اور جھاڑ پھونک کرنے اور وظیفے پڑھنے والے ایسے لوگوں کے پاس جانے سے بچنا چاہیے، جنھوں نے دین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور کم زور اعتقاد رکھنے والوں کا بری طرح استحصال کیا ہے۔

امراض کی صورت میں اور خاص طور پر وبا کے موقع پر صحیح طریقہ یہ ہے کہ ماہر ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کیا جائے۔ مسلمانوں اور دیگر تمام لوگوں کو چاہیے کہ وہ صحت کے ماہرین کی ہدایات اور حکومت کی ایڈوائزری کی سختی سے پابندی کریں۔ روحانی علاج کا جائز طریقہ صرف یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ سے صحت اور شفا کی دعا کرے۔ نیز پریشانی اور غم دُور کرنے کے لیے مسنون دُعاؤں اور اذکار کا اہتمام کرے۔

۱۳-  لاک ڈاون کے موقع پر گھر سے باہر نکلنا

]: لاک ڈاؤن کے موقعے پر بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے کا کیا حکم ہے؟

r : یہ بات کسی پر مخفی نہیں ہے کہ کورونا کی وبا لوگوں کے ملنے جلنے سے پھیلتی ہے۔ اسی بنا پر لوگوں کی بڑی تعداد اس مرض میں مبتلا ہو گئی ہے اور ان میں سے بہت سے وفات پا گئے ہیں یا شدید طور پر بیماری میں مبتلا ہوگئے ہیں، اور بادی النظر میں بیماری پھیلانے کا ذریعہ بنے ہیں۔ اس لیے جو شخص جان بوجھ کر یہ حرکت کرے گا وہ خطا کار، بلکہ گناہ گار ہوگا۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے گھروں میں ٹِک کر رہیں، شدید ضروریات کے بغیر باہر نہ نکلیں اور دوسروں سے ملنے جلنے سے لازماً پرہیز کریں۔ جو شخص ان اقدامات اور پابندیوں کی خلاف ورزی کرے گا اور اس کے نتیجے میں وہ اس وبائی مرض کا شکار ہوجائے گا اور اس کے ذریعے یہ مرض دوسروں میں منتقل ہوگا، تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کا یہ عمل’ قتل شبہ عمد‘ کے درجے میں ہوگا۔

۱۴- وبائی علاقوں کا یا وہاں سے نکل کر دوسرے مقامات کا سفر کرنا

]:جن علاقوں میں وبا پھیلی ہوئی ہو، وہاں کا سفر کرنے، یا وہاں سے نکل کر دوسرے مقامات پر جانے کا کیا حکم ہے؟

r : کورونا وائرس ، ایسا مہلک وائرس ہے جو لوگوں کے باہم میل جول سے پھیلتا ہے۔ کسی شخص کو یہ مرض لاحق ہو اور دوسرا اس سے ہاتھ ملائے یا اس کی کوئی چیز چھو لے، تو اسے بھی یہ لاحق ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ اس کی موت بھی ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ ۝۰ۚۖۛ (البقرہ ۲: ۱۹۵)اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔

وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا۝۲۹ ( النساء۴:۲۹) اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین مانو کہ اللہ تمھارے اوپر مہربان ہے۔

حدیث نبویؐ میں حکم دیا گیا ہے کہ جس جگہ طاعون پھیلا ہوا ہو وہاں کوئی شخص نہ جائے اور وہاں موجود ہو تو وہاں سے نہ نکلنے۔( بخاری:۵۷۲۸، مسلم: ۲۲۱۹)

ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ جن مقامات پر کوئی وبا پھیلی ہوئی ہو، وہاں جانا یا وہاں سے نکلنا جائز نہیں ہے۔ اس کا سبب جان کی حفاظت ہے، جس کا شمار مقاصدِ شریعت میں ہوتا ہے۔ مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے شہر کے حکم رانوں اور صحتی محکموں کی ہدایات کی پابندی کرے اور بلاضرورت اپنے گھر سے باہر نہ نکلے۔ اگر کسی شدید ضرورت سے نکلنا پڑے تو تمام احتیاطی ضوابط پر عمل کرے اور تحفّظ و سلامتی کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھے۔ صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وباؤں کے زمانے میں گھروں میں ٹِک کر رہنا واجب ہے۔

اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ نے ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں دریافت کیا، تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:’’ یہ ایک عذاب تھا، جسے اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا تھا، بھیجتا تھا۔ اسے اس نے اہل ِ ایمان کے حق میں رحمت بنا دیا ہے۔ جو شخص طاعون کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد صبر کرکے اپنے گھر میں بیٹھا رہے، اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھے اور اس کا یہ اعتقاد ہو کہ اللہ نے جو کچھ لکھ رکھا ہے وہ ہو کر رہے گا، اس کی اگر اس مرض میں موت ہوگئی تو اسے شہید کے برابر اجر ملے گا ‘‘۔( مسند احمد:۲۶۱۳۹)

۱۵- وباؤں کے زمانے میں  مصافحہ اور معانقہ کرنا

]: وباؤں کے زمانے میں اگر مصافحہ اور معانقہ کرنے سے تعدیہ(Infection)کا اندیشہ ہو، تو ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟

r :ایک مسلمان کا اپنے بھائی سے ملاقات کے وقت اس سے مصافحہ کرنا مسنون ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

اِنَّ الْمُسْلِمَ اِذَا صَافَـحَ أَخَاہُ تَحَاتَتْ خَطَایَاھُمَا کَمَا یَتَحَاتُّ وَرَقُ الشَّجَرِ (البزار) ایک مسلمان جب اپنے بھائی سے مصافحہ کرتا ہے تو دونوں کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جیسے درخت سے پتّے۔

اگر مصافحہ اور معانقہ تعدیہ کا سبب بن رہا ہو ، جیسا کہ ڈاکٹروں اور ماہرین نے صراحت کی ہے، تو اس صورت میں مصافحہ اور معانقہ کرنا حرام ہوگا۔ شرعی قاعدہ ہے: لَا ضَرَرَ وَ لَا ضِرَارَ ( نہ خود نقصان اٹھاؤ اور نہ دوسرے کو نقصان پہنچاؤ)۔ مَا لَا یَتِمُّ الْوَاجِبُ اِلَّا بِہٖ  فَھُوَ وَاجِبٌ ( جس کام کے بغیر کسی واجب پر عمل ممکن نہ ہو ، وہ بھی واجب ہو جاتا ہے)۔

حدیث میں ہے کہ قبیلۂ ثقیف کا ایک وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ اس میں ایک شخص کو جذام تھا۔آپؐ نے اس سے بیعت نہیں کی اور فرمایا:’’ تم واپس جاؤ۔ یہ سمجھو کہ میں نے تم سے بیعت کرلی‘‘۔( نسائی:۴۱۸۲)

 اس میں شک نہیں کہ وائرس کا تعدیہ (انفیکشن)،جذام کے تعدیہ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔

۱۶-  تعدیہ (Infection) کے سبب کسی شخص کی موت کی ذمے داری

]: اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ’مجھے کورونا کا مرض تھا اور میرے ذریعے وہ کسی دوسرے شخص کو منتقل ہوا ہے‘ تو کیا اس کا شمار قتل یا قتل ِخطا میں ہوگا ؟ شرعی طور سے مجھ پر کیا ذمے داری ہوگی؟

r : انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسی تما م تدابیر اختیار کرے جن کا اختیار کرنا، اس کی اپنی جان اور دوسرے انسانوں کی جانوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ اسے کورونا کا مرض ہے، تو ضروری ہے کہ وہ دوسروں سے دور رہے، ورنہ گناہ گار اور بارگاہِ الٰہی میں جواب دہ ہوگا۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’ جب تم سنو کہ کسی جگہ طاعون پھیلا ہوا ہے، تو وہاں نہ جاؤ اور اگر اس جگہ موجود ہو تو وہاں سے نہ نکلو‘‘ (بخاری:۵۷۲۸، مسلم:۲۲۱۹)۔ یہ حکم ہے اور مطلق حکم وجوب کا فائدہ دیتا ہے۔ بعض فقہاے احناف نے فتویٰ دیا ہے کہ اگر کوئی شخص طاعون میں مبتلا ہو، اس کی اسے خود بھی خبر ہو، پھر بھی وہ سفر کرے، جس سے یہ مرض دوسرے شخص کو لاحق ہوجائے اور وہ مر جائے، تو اسے قتل بالسبب قرار دیا جائے گا اور اس پر ’دیت‘ (Blood Money) لازم ہوگی۔ لیکن اگر وہ تمام لازمی طبّی احتیاطی تدابیر اختیار کرے، اس کے باوجود اس کا تعدیہ دوسرے شخص کو ہوجائے اور اس میں اس کی موت ہوجائے تو وہ قصور وار نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ۝۰ۙ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ۝۰ۭ (الاحزاب۳۳:۵) نادانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے، لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے، جس کا تم دل سے ارادہ کرو۔

۱۷- ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں کا بڑھانا

]: وبا کے موقعے پر بعض حضرات غذائی اشیا کا ضرورت سے زیادہ ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ اسی طرح تاجر حضرات ایسے مواقع پر غذائی اشیا کو مہنگے داموں میں فروخت کرتے ہیں۔ اس کا کیا حکم ہے؟

r : اصل یہ ہے کہ مسلمان صرف اپنی معمول کی ضروری چیزیں خریدے اور حتی الامکان میانہ روی اختیار کرے، خاص طور پر بحرانوں اور وباؤں کے موقع پر۔ ضرورت سے زیادہ غذائی اشیا کا ذخیرہ کرنے میں مبالغہ سے کام لینا دوسروں کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔ لوگ غذائی کمی کے خوف کا شکار ہوجاتے ہیں اور اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ کسی مسلمان تاجر کے لیے جائز نہیں کہ وہ قیمتیں بڑھا کر یا قیمتیں بڑھنے کے انتظار میں ذخیرہ اندوزی کرکے لوگوں کا استحصال کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذخیرہ اندوزی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:

لَایَحْتَکِرُ اِلَّا خَاطِیءٌ ( مسلم:۱۶۰۵) کوئی غلط کار ہی ذخیرہ اندوزی کرے گا۔

بحرانوں کے زمانے میں ضروری ہے کہ مسلمان خود غرضی کے بجاے ایثار اورانانیت کے بجاے رحم و کرم کا نمونہ بن جائے۔

۱۸- بہت سے مریض ہوں تو علاج میں کس کو مقدّم رکھا جائے؟

]: اگر بہت سے مریض موجود ہوں اور مصنوعی تنفس کی مشینیں (وینٹی لیٹر) کم پڑجائیں، تو مسلمان ڈاکٹر کیا کرے؟مثال کے طور پر اگر ڈاکٹر کے سامنے دو مریض ہوں: ایک کا علاج کرنے سے اسے شفا ملنے کی امید ہو اور دوسرے کی گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر اس کے شفا پانے کی اُمید بہت کم ہو تو اس موقعے پر ڈاکٹر کیا کرے ؟

r : یہ بہت نازک مسئلہ ہے، لیکن بہرحال ہسپتال میں ڈاکٹر کو پیش آسکتا ہے۔ مسلمان ڈاکٹروں کو چاہیے کہ وہ جن اسپتالوں میں کام کر رہے ہوں، ان کے قواعد و ضوابط کی پابندی کریں ۔ اگر وہ بااختیارہوں تو طبی ، اخلاقی اور انسانی قدروں کی رعایت کریں۔ مثلاً کسی مریض کا علاج ہو رہا ہو تو اس سے طبی آلات اور مشینوں کو ہٹا کر بعد میں آنے والے کسی مریض کو لگا دینا جائز نہیں ہے ۔ اگر کسی ڈاکٹر کے سامنے دو مریض ہوں اور اس کے پاس کسی ایک ہی مریض کا علاج کرنے کا موقع ہو، تو وہ اس کا علاج کرے جو پہلے آیا ہو ، اِلّا یہ کہ اس کے شفا پانے سے مایوسی ہو۔ جس کا علاج کچھ تاخیر سے کیا جا سکتا ہو اس پر اس مریض کو ترجیح دے جسے فوری فرسٹ ایڈ (طبی امداد)کی ضرورت ہو۔ جس مریض کے شفا پانے کی امید نہ ہو اس پر اس مریض کو ترجیح دے جس کے شفا پانے کی امید ہو۔ یہ فیصلہ غالب گمان اور طبی جانچوںکے بعد کیا جا سکتا ہے۔

۱۹-کورونا کے تناظر میں جنازہ کے احکام

]: کسی شخص کا کورونا کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد انتقال ہوجائے، تو اسے غسل دینے، کفن پہنانے ، نماز جنازہ پڑھنے اور دفن کرنے کے سلسلے میں کیا احکام ہیں؟

r : زمان و مکان اور حالات بدلنے سے فتویٰ میں بھی تبدیلی آجاتی ہے۔ فقہ اسلامی میں متعدد ایسے قواعد بیان کیے گئے ہیں، جن میں استثنائی صورتوں اور ناگزیر حالات کی رعایت کی گئی ہے۔ نعشوں کو دفن کرنے کے سلسلے میں ممالک کے قوانین اور متعلقہ محکموں کی ہدایات کی پابندی ضروری ہے۔ ان کی روشنی میں کورونا کے مرض میں ہلاک ہونے والے شخص کے جنازے کے احکام درج ذیل نکات میں بیان کیے جائیں گے:

۱-  جہاں تک کورونا کے مرض میں وفات پانے والے شخص کا معاملہ ہے، تو اس سلسلے میں طویل بحثوں اوروبائی علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں سے معلومات حاصل کرنے کے بعد کونسل براے فتویٰ و تحقیق اس راے تک پہنچی ہے کہ میّت کو اسی بیگ اور تابوت میں ، جس میں اسے اسپتال سے نکالا گیا ہے، بغیر غسل یا تیمم کے ( چاہے قانونی طور پر اس کی اجازت ہو) دفن کرنا بہتر ہے۔

l  مسلمان میّت کے غسل کا کیا حکم ہے؟ اس سلسلے میں فقہا کا اختلاف ہے۔ جمہور اسے واجب قرار دیتے ہیں۔ مالکیہ اور احناف کے ایک قول کے مطابق یہ سنّت ہے۔ یہ اختلاف معتبر ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ غسل قول سے نہیں ، بلکہ عمل سے منقول ہے اور عمل کا کوئی ایسا صیغہ نہیں ہوتا جس سے وجوب کا پتا چلتا ہو۔ راجح یہ ہے کہ میّت کو غسل دینا واجب ہے ، لیکن یہ حکم عام حالات کے لیے ہے۔ استثنائی حالات میں ، مثلاً وباؤں کے موقع پر میّت کو غسل دینے یا تیمّم کرانے کو ترک کرنا جائز ہے۔

l  صحتی حلقوں میں آج کل یہ معروف بات ہے کہ میّت کو غسل دینے یا تیمّم کرانے والے اگرتمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کریں ، اس کے باوجود تعدیہ کا خطرہ باقی رہتا ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں غسل دینے والے کو احتیاطی تدابیر کے سلسلے میں ٹریننگ اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، جس کا اب موقع نہیں ہے۔ جب طبی عملہ ٹریننگ اور انتہائی احتیاط کے باوجود تعدیہ کا شکار ہو رہا ہے تو غسل دینے والے ، جنھیں اس کی مہارت نہیں ہوتی ہے اور جو میّت کے براہِ راست رابطے میں رہتے ہیں ، وہ بھلا کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟

l  فقہی قواعد اور شرعی نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ زندہ صحت مند شخص کی زندگی کی حفاظت کو میّت کے حق میں سنّت یا واجب پر عمل کے مقابلے میں ترجیح دی جائے گی۔ احکام کے سلسلے میں غسل دینے والوں کے تعدیہ کا شکار ہوجانے اور ان سے دوسرے لوگوں کو تعدیہ ہوجانے کے  ظنّ غالب کا اعتبار کیا جائے گا۔

کونسل اس جانب بھی متوجہ کرنا چاہتی ہے کہ اس وبا میں وفات پا جانے والے شخص کو اگر بغیر غسل دیے اور کفن پہنائے دفن کر دیا جائے گا، تو اس کے اجر میں کچھ کمی نہیں آئے گی اور اس کے اہل خانہ اور مسلمان اس کے غسل و تکفین سے بری الذمہ ہوں گے۔ نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص بارگاہِ الٰہی میں شہید کے درجے میں ہوگا( بخاری:۵۷۳۴)۔

۲- جمہور کے نزدیک نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے۔ اگر بعض لوگ اسے انجام دے لیں تو تمام لوگوں سے اس کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ کفایت کرے گا کہ قانون جتنے لوگوں کو اجازت دے اتنے لوگ نماز جنازہ پڑھ لیں، خواہ ان کی تعداد صرف تین ہو۔ البتہ جو مسلمان چاہیں وہ غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھ سکتے ہیں، چاہے تنہا پڑھیں۔ بعض شوافع اور حنابلہ غائبانہ نماز جنازہ کے جواز کے قائل ہیں۔

۳- جہاں تک دفن کا معاملہ ہے ، اس سلسلے میں اصل یہ ہے کہ مسلمان کو وہیں دفن کیا جائے گا جہاں اس کا انتقال ہو ۔ صحابۂ کرامؓ کو وہیں دفن کیا گیا جہاں ان کا انتقال ہوا۔ اسی طرح اصل یہ ہے کہ مسلمان کی تدفین مسلمانوں کے لیے مخصوص قبرستان میں ہو۔اگر اس میں کوئی دشواری ہو تو جہاں ممکن ہو، وہاں اس کی تدفین کردینی چاہیے، چاہے غیر مسلموں کے قبرستان میں اسے دفن کرنا پڑے۔ آخرت میں انسان کا عمل اس کے کام آئے گا، اس کی تدفین کہاں ہوئی ہے ؟اس سے اس کو کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کا قول ہے: ’’کوئی زمین کسی کو مقدّس نہیں بناتی، بلکہ اس کا عمل اس کو مقدّس بناتا ہے‘‘(موطا امام مالک:۲۲۳۲)۔

۲۰-وبا میں مرنے والے کی نعش کو جلانا

]: جن لوگوں کا انتقال کورونا کے مرض میں ہوگیا ہو ، کیاان کی نعشوں کو جلایا جا سکتا ہے، اگر متعلقہ محکمے اس کا حکم دیں؟

r : مُردوں کو قبروں میں دفن کرنا انسان کی عظمت و حرمت کے مطابق ہے۔ کتاب اللہ میں اس کا تذکرہ ہے:

اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ كِفَاتًا۝۲۵ۙ  اَحْيَاۗءً ‎وَّاَمْوَاتًا۝۲۶  ( المرسلٰت:۲۵-۲۶) کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا، زندوں کے لیے بھی اور مُردوں کے لیے بھی ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک مسلمانوں کے تمام علاقوں اور ان کے معاشروں میں اسی پر عمل ہورہا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو اپنے مُردوں کے حق میں اسی سنّتِ محمدی کو اختیار کرنے پر اصرار کرنا چاہیے۔

مسلمانوں کی دینی تنظیموں کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ مسلمانوں کے نزدیک مُردوں کو دفن کرنے کے عمل کو کتنی اہمیت حاصل ہے؟ اور ان کی نعشوں کو جلانے کی صورت میں ان میں کتنا اضطراب پیدا ہوگا؟ اس کی وضاحت کریں اور متعلقہ محکموں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ نعشوں کو جلائے جانے کا فیصلہ نہ کریں۔

۲۱- دفن کی وصیت پر عمل کرنے سے معذوری

]: میری والدہ کا کورونا کے مرض میں انتقال ہوگیا۔ انھوں نے وصیت کی تھی کہ انھیں ان کے وطنِ اصلی میں دفن کیا جائے۔ آمد و رفت کے ذرائع پر پابندی کی وجہ سے ان کی نعش کو ان کے وطنِ اصلی لے جانا ممکن نہیں ہے۔ پھر کیا جہاں ان کا نتقال ہوا، وہیں انھیں دفن کرنے سے ہم گناہ گار ہوں گے؟

r : اصل یہ ہے کہ انسان کا جہاں انتقال ہو وہیں اسے دفن کیا جائے۔ سنّت یہ ہے کہ حتی الامکان تدفین میں جلدی کی جائے۔ یہ حکم عام حالات میں ہے۔ پھر استثنائی حالات میں، جب کہ نعش کو کہیں دوسری جگہ لے جانا اور وصیت کو پوری کرنا ممکن نہ ہو ، بہ درجۂ اولیٰ یہی حکم ہوگا۔ اس لیے وبائی حالات میں جس شخص کا جہاں انتقال ہو وہیں اسے دفن کردینا چاہیے۔ بعض صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جس شخص کا انتقال اپنے وطن سے دور کسی اور جگہ ہو، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنا خاص فضل فرمائے گا۔ایک شخص ، جو مدینہ کا رہنے والا تھا، وہیں اس کا انتقال ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی، پھر فرمایا:’’ کاش اس کا انتقال وطن سے باہر کہیں اور ہوتا‘‘۔ لوگوں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیوں؟

آپؐ نے فرمایا:’’ کسی شخص کا انتقال وطن سے باہر کہیں اور ہوتو جنّت میں اسے اتنی جگہ دی جائے گی، جتنا فاصلہ اس کے وطن اور اس کے مقام ِ وفات کے درمیان ہوگا‘‘( نسائی:۱۸۳۲، ابن ماجہ:۱۶۱۴)۔

ایک حدیثِ قدسی میں ہے : اللہ تعالیٰ روزِ قیامت بندے سے فرمائے گا : میں بیمار تھا ، لیکن تو نے میری دیکھ بھال نہیں کی تھی ۔ بندہ عرض کرے گا : اے میرے رب ! میں کیسے تیری دیکھ بھال کرتا ، تو تو سارے جہاں کا نگہبان ہے؟

اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تجھے نہیں معلوم کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا _؟ کیا تجھے نہیں معلوم کہ اگر تو نے اس کی دیکھ بھال کی ہوتی تو مجھے اس کے پاس پاتا ؟

(پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا) میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا ، مگر تو نے مجھے نہیں کھلایا تھا۔ _ بندہ کہے گا : اے میرے رب ! میں تجھے کیسے کھلاتا، تو تو سارے جہاں کا پالن ہار ہے؟

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تجھے نہیں معلوم کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا ، مگر تو نے اسے نہیں کھلایا تھا؟ کیا تجھے نہیں معلوم کہ اگر تو اسے کھلاتا تو اسے میرے پاس پاتا؟

(پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا) میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا ، مگر تو نے مجھے نہیں پلایا تھا ۔ بندہ کہے گا : اے میرے رب ! میں تجھے کیسے پلاتا، تو تو سارے جہاں کا پالن ہار ہے؟

_ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا ، مگر تو نے اسے نہیں پلایا تھا۔ کیا تجھے نہیں معلوم کہ اگر تو اسے پلاتا تو اسے میرے پاس پاتا؟ ( مسلم :۲۵۶۹)

 اس حدیث پاک سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام میں خدمتِ خلق کو کتنا عظیم مقام دیا گیا ہے۔ _ ایک انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی مدد کرتا ہے ۔وہ بھوکے ہوں تو ان کے لیے راشن یا کھانے کا نظم کرتا ہے۔ پیاسے ہوں تو ان کے لیے پانی کا انتظام کرتا ہے۔ بیمار ہوں تو ان کے علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا کرنے والے فرد نے انسانوں کی مدد نہیں کی ، بلکہ خود اللہ کی مدد کی ہے۔ اس نے انسانوں کا علاج نہیں کیا ، بلکہ خود اللہ کا علاج کیا ہے۔ اس نے انسانوں کو کھانا نہیں کھلایا، بلکہ خود اللہ کو کھلایا ہے۔ اس نے انسانوں کو پانی نہیں پلایا ، بلکہ خود اللہ کو پلایا _ ہے۔

 اس تصوّر کو قرآن و حدیث میں بہت نمایاں کرکے پیش کیا گیا ہے کہ یہ _ مال و دولت اور آسودگی، اللہ کا دیا ہوا انعام ہے۔ لیکن جب ایک بندۂ مومن اسے انسانوں کی ضروریات پر خرچ کرتا ہے، تو اللہ اسے اپنے ذمے قرض کی حیثیت دیتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ وہ روزِ قیامت اسے خوب بڑھا چڑھا کر خرچ کرنے والے کو واپس کرے گا۔ _ قرآن کریم میں ہے :

 کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسن دے ، تاکہ اللہ اُسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟ (البقرہ۲ :۲۴۵)

اسی طرح ایک حدیث میں ہے : جب انسان اپنی پاکیزہ کمائی میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے اور اسے خوب اہتمام سے پروان چڑھاتا ہے ، جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے پالتو جانور کے بچے کی نگہ داشت اور پرورش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس نے ایک کھجور کا صدقہ کیا ہو تو وہ اللہ کی نگرانی میں بڑھتے بڑھتے پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے (بخاری:۱۴۱۰، مسلم: ۱۰۱۴)۔

’ کورونا‘ نامی وبائی مرض کے پھیلاؤ کے موقعے پر جو لوگ خدمتِ خلق کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں، وہ انتہائی عظیم مشن کے خوش نصیب راہی ہیں:

    l    اس مرض کی خطرناکی سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود جو لوگ علاج معالجے کی خدمت انجام دے رہے ہیں، ان کا کام بلامبالغہ '’جہاد‘ کے مثل ہے _۔

    l      جو لوگ اس کام میں اپنی زندگی ہار بیٹھیں، وہ بلاشبہہ ’شہادت‘ کے منصب پر فائز ہوں گے۔ _

    l    جو لوگ اس موقعے پر خوب بڑھ چڑھ کر خیرات و صدقات دے رہے ہیں، وہ درحقیقت اللہ کو قرض دے رہے ہیں۔ جسے خوب بڑھا چڑھا کر واپس کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اور اللہ کا وعدہ پورا ہونا یقینی ہے۔ _

      جو لوگ اس موقعے پر غذائی اشیا ضرورت مندوں تک پہنچانے کی خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ حقیقت میں اللہ کی مدد کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ قیامت کے دن اپنے کاموں کا بھر پور بدلہ پائیں گے _۔

بھوکوں کو کھانا کھلانا، ایک عظیم خدمت

ہمارے ملک میں آج کل لاک ڈاؤن سے جو صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے وہ خون کے آنسو رُلانے والی ہے۔ _ اپنے گھر سے باہر نکلیے یا فون پر کسی عزیز سے بات کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ  ہرطرف قدم قدم پر ایسے مرد، عورت ، بوڑھے ، جوان ، لڑکے ، لڑکیاں، بچیاں اور بچے نظر آتے ہیں جو فاقوں سے دوچار ہیں _۔ ان کے مُرجھائے ہوئے چہرے ان کی بے چارگی کی گواہی دیتے  ہیں۔ انھیں دیکھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد یاد آجاتا ہے :

 سب سے افضل صدقہ یہ ہے کہ تم کسی بھوکے کو کھانا کھلادو ( بیہقی، فی شعب الایمان: ۳۳۶۷، الترغیب والترہیب: ۲/۹۲)۔

 امن کی حالت اور شکم سیری اللہ تعالیٰ کی دو بہت بڑی نعمتیں ہیں (قریش ۱۰۶ :۴)۔ ان کے مقابلے میں خوف اور بھوک اللہ کی نعمتوں پر ناشکری کی سزا بھی ہے، جس سے اللہ انسانوں کو دوچار کرتا ہے (النحل۱۶ :۱۱۲) اور اس کی طرف سے کی جانے والی آزمایشیں بھی ہیں ، جو انسانوں کو لاحق ہوتی ہیں _ (البقرۃ۲:۱۵۵)۔

 انسان اپنی دیگر ضروریات کو ٹال سکتا ہے ، اس کے پاس روپیہ پیسہ نہ ہو تو کچھ صبر کرسکتا ہے ، مکان نہ ہو تو کھلے آسمان کے نیچے گزارا کرسکتا ہے ، لیکن بھوک کو زیادہ وقت تک ٹالنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ بچوں کا معاملہ تو اور بھی دگرگوں ہوتا ہے کہ وہ بھوک برداشت نہیں کرپاتے۔ چنانچہ رونے پیٹنے اور واویلا کرنے لگتے ہیں اور انھیں دیکھ کر والدین کا کلیجہ پھٹنے لگتا ہے___ _ رفاہی کاموں کی بے شمار صورتیں ہیں ، لیکن آج کل بھوکوں کو کھانا کھلانا ایک انتہائی اہم اور ضروری کام ہے، جس کی طرف اصحابِ خیر کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے _۔

یہ غور طلب بات ہے، جس میں اجمالی طور پر کہا جاسکتا تھا: ’’اللہ کی راہ میں خرچ کرو، غریبوں اور محتاجوں کی ضروریات پوری کرو ، ان کے کام آؤ‘‘۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب کیوں دی؟ اور اس کے آخری رسول (محمد صلی اللہ علیہ و سلم) نے کھانا کھلانے کو عظیم صدقہ کیوں قرار دیا؟

 قرآن مجید میں مسکینوں کو کھانا کھلانے کی مختلف صورتوں کا بیان ہے۔ _جو شخص روزہ نہ رکھ سکے، اس کا فدیہ مسکین کو کھانا کھلانا ہے _(البقرہ۲:۱۸۴ )۔ قسم کا کفّارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے _(المائدہ۵:۸۹)۔ حرم میں کوئی شخص شکار کرے تو اس کا کفّارہ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے _(المائدہ ۵:۹۵)۔ ظِہار (بیوی کو ماں کہہ دینے) کا کفّارہ ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے _(المجادلۃ  ۵۸:۴)۔ پریشانی کے دن یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کو عظیم عمل کہا گیا ہے _(البلد۹۰: ۱۴-۱۶)۔ اہلِ جنت کا ایک وصف یہ بیان کیا گیا کہ وہ دنیا میں اللہ کو خوش کرنے کے لیے مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے تھے _(الدھر۷۶:۸)۔ اسی طرح جہنم کا ایندھن بننے والوں کا ایک جرم یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ نہ خود مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے اور نہ دوسروں کو اس نیک کام پر ابھارتے تھے _(الفجر۸۹:۱۸، الماعون۱۰۷:۳) ۔

 اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاداتِ گرامی ہیں:

    l    بھوکے کو کھانا کھلاؤ _ ( بخاری :۳۰۴۶) ۔

    l    کھانا کھلانے والے جنت میں جائیں گے(مسند احمد :۸۲۹۵) ۔

    l    جو شخص کسی بھوکے کو کھانا کھلائے گا ، اللہ تعالیٰ اسے جنّت کے پھلوں میں سے کھلائے گا  (المجموع للنووی :۶/۲۳۵)-

    l    صدقے کی ایک صورت یہ ہے کہ تم بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور پیاسے کو پانی پلاؤ (سیر اعلام النبلاء،الذھبی۱۶/۴۵۹)۔

    l    وہ شخص مومن نہیں جو خود تو آسودہ ہو ، لیکن اس کا پڑوسی بھوکا ہو (الترغيب و الترھیب ۳/۳۲۳)۔

 ان آیات اور احادیث میں خاص طور پر کھانا کھلانے کا تذکرہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے وجوہِ خیر میں اس عمل کو بارگاہ الٰہی میں بہت زیادہ پسندیدگی سے دیکھا گیا ہے _۔

ان اطلاعات سے بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ پورے ملک میں بہت سے اصحابِ خیر نے بھوکوں کو کھانا کھلانے کے خصوصی انتظامات کیے ہیں اور بلا تفریق مذہب و ملّت وہ سب کو فیض یاب کررہے ہیں۔ بعض علاقوں میں جماعت اسلامی کی جانب سے کھانے کے پیکٹس کی تقسیم کا نظم دیکھنے کا موقع ملا تو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ جماعت کے علاوہ بھی بہت سے لوگ اس کارِ خیر کو انجام دے رہے ہیں۔ یہ سب اپنی گاڑیوں میں پکے ہوئے کھانے کے پیکٹس بھر کر لاتے ہیں اور مسافروں ، راستہ چلتے ہوئے لوگوں اور جھگیوں جھونپڑیوں کے مکینوں میں تقسیم کرتے ہیں _۔

 حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اس وقت کی بہت بڑی ضرورت پوری کررہے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو خوش کررہے ہیں اور جو کچھ کررہے ہیں اس کا بدلہ صرف جنّت ہے _۔

سفید پوشوں کی خبر لیجیے

 لاک ڈاؤن کے نتیجے میں عوام جس بھوک اور افلاس کا شکار ہیں، اس کے تدارک کے لیے اصحابِ خیر کا جذبۂ انفاق ماشاء اللہ جوش میں ہے۔ _ وہ بڑے پیمانے پر کھانا پکاکر بھی تقسیم کررہے ہیں اور راشن کے پیکٹ اور پیکج تیار کرکے بھی مستحقین تک پہنچا رہے ہیں۔ _ ان کی یہ جدّوجہد بڑی قابلِ مبارک باد اور لائقِ تحسین ہے۔ _ اس موقعے پر ایک اور اہم پہلو کی طرف توجہ دلانی مقصود ہے کہ کہیں وہ نظر سے اوجھل نہ رہ جائے۔ _ وہ ہے ان لوگوں کی طرف دستِ تعاون بڑھانا، جو اپنی ضرورت مندی کا اظہار اپنی زبان سے نہیں کرسکتے۔ جن کی سفید پوشی ان کے منہ پر تالے ڈال دیتی ہے ، جو فاقوں پر فاقے تو کرسکتے ہیں ، لیکن اپنے فقر کی بھنک اپنے قریبی لوگوں کو بھی دینا گوارا نہیں کرتے۔

 قرآن مجید میں دو مقامات پر اہل ایمان کے کچھ اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ _ ان میں سے ایک وصف یہ ہے :

وَالَّذِيْنَ فِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ۝۲۴۠ۙ  لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۝۲۵ (المعارج۷۰: ۲۴-۲۵) اور جن کے مالوں میں ایک حق مقرر ہے ، سائل (مانگنے والے) کا بھی اور محروم کا بھی _۔

 _ یہی مضمون ایک لفظ (معلوم) کی کمی کے ساتھ سورئہ ذاريات(آیت۱۹) میں بھی آیا ہے۔ _

 ان آیات میں دو الفاظ خصوصی توجہ کے مستحق ہیں : ایک ’حق‘ اور دوسرا ’محروم _ کا حق‘۔ مطلب یہ ہے کہ ’اہل ایمان جب اپنی کمائی میں سے کسی کو کچھ دیتے ہیں، تو یہ نہیں سوچتے کہ وہ اس پر احسان کر رہے ہیں ، بلکہ ان کے ذہن میں یہ بات روزِ روشن کی طرح صاف دکھائی دے رہی ہوتی ہے کہ ’’ان کے مال میں یہ ان کا حق ہے۔ _ اس طرح انھیں دے کر وہ ان کے حق سے سبک دوش ہو رہے ہیں ۔ ان آیات میں ’محروم‘ کا لفظ '’سائل‘(مانگنے والا) کے مقابلے میں آیا ہے۔ جس سے اس کے معنیٰ متعین ہوتے ہیں۔ _ اس کا مطلب ہے وہ شخص جو ضرورت مند ہونے کے باوجود مانگنے کی ہمّت نہ کرسکے اور ہاتھ نہ پھیلائے _۔

 ہمارے ارد گرد معاشرے میں بہت سے سفید پوش ہوسکتے ہیں، جن میں: ہمارے رشتے دار، ہمارے دوست احباب ، ہمارے دفتروں میں کام کرنے والے ملازمین ، محلوں میں پھیری لگاکر روزمرّہ کا سامان بیچنے والے اور خوانچا فروش ، وغیرہ۔ _ ہم اپنے دماغ پر تھوڑا سا زور دیں تو ایسے متعدد سفید پوشوں کی تصویریں ہمارے سامنے آجائیں گی۔ _ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم ان کی غیرت اور خود داری کو مجروح نہ ہونے دیں، اور اس موقعے پر ان سے اس طرح تعاون کریں کہ انھیں شرمندگی کا ذرا بھی احساس نہ ہو ۔ ہم عام صدقات و خیرات کے علاوہ زکوٰۃ سے بھی ان کی مدد کرسکتے ہیں ۔ دینے والی کی نیت ہونی چاہیے کہ وہ ’زکوٰۃ‘ ادا کررہا ہے۔ _ جس کو زکوٰۃ کی رقم دی جارہی ہے اس کا جاننا ضروری نہیں کہ اس کو دی جانے والی رقم زکوٰۃ ہے _۔

 شریعت میں مستحق کو مدد دیتے وقت انفاق کے معاملے میں پوشیدگی کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ _ روزِ قیامت جو لوگ اس وقت عرش الٰہی کے سایے میں ہوں گے ، جب اس کے سایے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ان میں ایک وہ شخص بھی ہوگا، جو اس طرح خرچ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہونےپائے کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے _ ( بخاری :۶۶۰، مسلم:۱۰۳۱)۔

 موجودہ بحران میں بہت سے لوگ دل کھول کر اپنا مال لُٹا رہے ہیں _۔ انھوں نے بڑے بڑے لنگر کھول رکھے ہیں ، جن کے ذریعے بلا تفریق مذہب و ملّت انسانوں کی بھوک مٹا رہے ہیں۔ _ ایسے میں وہ لوگ بارگاہِ الٰہی میں خصوصی اجر کے مستحق ہوں گے جو بہت خاموشی سے معاشرے کے ایسے سفید پوشوں کی مدد کررہے ہیں، جن کی خودداری انھیں ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتی اور جن پر عموماً اصحابِ خیر کی نظر نہیں پڑتی _۔

صدقےکی ہزار صورتیں

ایک مرتبہ غریب صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا : مال دار لوگ ہم سے بازی لے گئے: _ وہ نماز پڑھتے ہیں ، ہم بھی پڑھتے ہیں۔ _ وہ روزہ رکھتے ہیں ، ہم بھی رکھتے ہیں۔ _ وہ صدقہ کرتے ہیں ، لیکن ہمارے پاس مال نہیں ہے کہ صدقہ کرسکیں _۔

رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اللہ نے تمھارے لیے صدقہ کی بہت سی صورتیں بتائی ہیں ۔

ایک اور حدیث میں ہے ،کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ابن آدم کے ہر جوڑ، ہڈی، پور کے حساب سے روزانہ اس پر صدقہ کرنا لازم ہے۔ _ صحابہ نے عرض کیا : ہم اتنا صدقہ کیسے کرسکتے ہیں؟ اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  بہت سے اعمال کا تذکرہ کیا اور انھیں صدقہ قرار دیا _۔یہ احادیث بہت سی کتبِ حدیث میں مروی ہیں _ (چند حوالے ملاحظہ ہوں : بخاری  ۲۷۰۷،۲۸۹۱،۲۹۸۹،مسلم: ،۷۲۰،۱۰۰۹،۱۵۵۲، ابوداؤد :۱۲۸۵،۱۵۶۷،۵۲۴۳ ، ترمذی: ۱۹۵۶ ، نسائی : ۲۵۳۸ ،ابن ماجہ :۲۴۱۸، احمد :۲۱۴۷۵، ۲۱۴۸۲وغیرہ)۔

ان احادیث میں صدقے کی جو صورتیں بیان کی گئی ہیں، وہ درج ذیل ہیں :

l  اللہ کی پاکی بیان کرنا (سبحان اللہ کہنا) صدقہ ہے _ l  _ اللہ کی کبریائی بیان کرنا صدقہ ہے _l   _ لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے _ l  اللہ کی حمد بیان کرنا (الحمد للہ کہنا) صدقہ ہے _ l  نماز پڑھنا صدقہ ہے _ l  دو رکعت چاشت کی نماز پڑھنا صدقہ ہے _ l  روزہ رکھنا صدقہ ہے _ l حج کرنا صدقہ ہے _ lجنازہ کے پیچھے چلنا صدقہ ہے _ l  _ مریض کی عیادت کرنا صدقہ ہے _ lکسی کو راستہ بتا دینا صدقہ ہے _ l  _راستے سے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹا دینا صدقہ ہے _ l  _راستے سے ہڈّی ، پتھر ، کانٹا ہٹا دینا صدقہ ہے _ l  _ ملنے والے کو سلام کرنا صدقہ ہے _ l  _ اچھی بات کی تلقین کرنا صدقہ ہے _ lکسی غلط کام سے روکنا صدقہ ہے _ l  _ میاںبیوی کا صنفی تعلق صدقہ ہے _ l  _ تنگ دست مقروض کو مہلت دینا صدقہ ہے _ lکسی کم زور کی مدد کرنا صدقہ ہے _ l  _کوئی آدمی اونچا سنتا ہو ، زور سے بول کر اسے کوئی بات سنا دینا صدقہ ہے _ lکسی شخص کی بینائی کم زور ہو ، اس کی کوئی ضرورت پوری کردینا صدقہ ہے _ l کوئی شخص کمزور، لاچار ہو ، اپنی طاقت سے اس کا کوئی کام کردینا صدقہ ہے _ l _کوئی شخص اپنی بات صحیح طریقے سے نہ رکھ سکتا ہو ، اپنی قوتِ بیانی سے اس کی بات صحیح طریقے سے پیش کردینا صدقہ ہے _ lکسی کا لباس بوسیدہ ہوگیا ہو ، اسے لباس فراہم کردینا صدقہ ہے _ lکسی ننگے کو کپڑا پہنا دینا صدقہ ہے _ lکسی نابینا کو صحیح راستے پر پہنچادینا صدقہ ہے _ l  _ _ اپنے بھائی سے مسکرا کر بات کرنا صدقہ ہے _ lاپنے برتن سے اپنے بھائی کے برتن میں پانی ڈال دینا صدقہ ہے _ l  _کوئی شخص بھٹک گیا ہو تو اسے صحیح راستہ بتادینا صدقہ ہے _ l  _ _ لڑائی جھگڑا کرنے والے دو افراد کے درمیان انصاف سے فیصلہ کردینا صدقہ ہے _ lکسی شخص کو سواری پر بیٹھنے میں مدد دینا صدقہ ہے _ l  _ _ سواری پر بیٹھے ہوئے کسی شخص کا سامان اٹھاکر اسے دے دینا صدقہ ہے _ l  _ _ اچھی بات صدقہ ہے _ l  _ _ نماز کے لیے مسجد کی طرف اٹھنے والا ہر قدم صدقہ ہے _ lکسی کو راستہ نہ معلوم ہو ، اسے راستہ بتا دینا صدقہ ہے _ lکسی کے درخت / کھیتی سے کوئی شخص کچھ کھا لے ، یہ اس کی طرف سے صدقہ ہے _ _ lکسی کے درخت / کھیتی سے کوئی جانور یا پرندہ کچھ کھا لے ، یہ اس کا صدقہ ہے _  lکسی مسافر کی راہ نمائی کردینا صدقہ ہے _ lکسی کاری گر کو اس کے کاروبار میں مدد کرنا صدقہ ہے _ lکسی کو پانی پلادینا صدقہ ہے _ lکسی کام میں اپنے بھائی کی مدد کردینا صدقہ ہے _ l_آدمی جو خود کھائے (حلال روزی) وہ صدقہ ہے _ l  _ آدمی جو اپنے بچوں کو کھلائے ، وہ صدقہ ہے _ _ l آدمی جو اپنے خادم کو کھلائے وہ صدقہ ہے _ l کوئی پریشان حال مدد کا طالب ہو ، اس کے ساتھ جاکر اس کی پریشانی دور کردینا صدقہ ہے _ l  _ اپنی جان اور عزّت و آبرو کی حفاظت کرنے کی جدّوجہد کرنا صدقہ ہے _ lکسی کو اپنی ذات سے نقصان نہ پہنچانا بھی صدقہ ہے _۔

صدقہ کی ان تمام صورتوں کا تذکرہ احادیث میں آیا ہے۔ _ ان پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے صرف چند ہی حقوق اللہ سے متعلق ہیں ، زیادہ تر کا تعلق انسانوں کے حقوق سے ہے، _ جن میں اہل خانہ ، رشتے دار ، عام مسلمان ، غیر مسلم ، حتی کہ حیوانات بھی شامل ہیں۔

ان احادیث کی رو سے کورونا کی وبا کی وجہ سے پوری دنیا میں جو افراتفری برپا ہے ، اس میں کسی بھی حیثیت سے کسی انسان کی مدد کردینا صدقہ ہے _۔

ایک بندہ مومن کے لیے رمضان المبارک ، اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا احسان اور عظیم تحفہ ہے۔ جو شخص اس مہینے میں کوئی نیک اور بھلا کام کرتا ہے تو اس کو ایسا ثواب ہوتا ہے، جیسے اورمہینوں میں فرض کا ثواب، اور جو کوئی اس مہینے میں ایک فرض بجا لائے تو اس کو ستّر فرضوں کا ثواب ملتا ہے۔

اس مہینے کی ابتدا میں رحمت ہے اور اس کے درمیانی دنوں میں مغفرت وبخشش ہے، اور اس کے آخری حصے میں دوزخ سے آزادی ہے۔ اس مہینے میں کثرت سے کلمۂ شہادت و استغفار پڑھنا، اللہ تعالیٰ سے جنت کی دُعا کرنا اور دوزخ سے پناہ مانگنا ایک بندئہ مومن کا وظیفۂ حیات ہے۔

اللہ ربّ العزت کا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں دین کا صحیح فہم نصیب کیا، اور ایک دین دار نظم سے منسلک ہو کر اجتماعی زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا۔ اس گئے گزرے دور میں ہرطرف پھیلی ہوئی تاریکی اور جہالت کو دیکھیے۔ دین سے دُوری اور گریز کی اَن گنت راہوں کو دیکھیے۔ پھر اپنی خوش بختی کا اندازہ کیجیے کہ اس مالک و خالق نے اپنے دین کی سربلندی کے لیے ہمیں منتخب کیا ہے۔ کیسی خوش نصیبی ہمارے حصے میں آئی ہے کہ اس نے اپنا محبوب بندہ بننے، عبادالرحمٰن میں اپنا نام لکھوانے، اور اپنی خوش نودی کے نصب العین کے تحت جدوجہد کرنے والوں میں ہمیں شامل کیا ہے۔

لیکن یہی خوش بختی ایک گراں بار ذمہ داری اور نازک فریضہ بھی ہے… اس سے پہلو تہی کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے کم نہیں۔ اس کام میں تھوڑی سی سستی اور تساہل بھی سخت پکڑ اور کڑی باز پرس سے ہمکنار کرنے والی ہے۔ اس فانی دنیا کے مقابلے میں ہمیشہ قائم و باقی رہنے والی زندگی کے لیے قیمتی اثاثہ اور متاع بے بہا جمع کرنے کا یہ بڑا نادر موقع ہے۔اپنے ربّ سے تعلق مضبوط کرنے اور اس کی قربت حاصل کرنے کا یہ بہترین زمانہ ہے۔  ایمان کا بڑھنا، اس میں روزافزوں اضافہ اور ترقی، انسان کی فلاح، اس کی کامرانی اور اس کی کامیابی کے لیے اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں سرخروئی اور مغفرت کا یہ پیشگی پروانہ ہے۔

ہم پر اللہ ربّ العزت کے اَن گنت احسانات اور نوازشیں تقاضا کرتی ہیں کہ ہم ہرلمحہ اس کا شکر ادا کریں۔ شکر کی بہترین شکل اللہ کے سامنے جواب دہی کا زندہ احساس ، رجوع الی اللہ کی اُمنگ اور انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ ذکر کی مکمل ترین اورمؤثر ترین صورت نماز ہے۔ اللہ کی رضا کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دینے کے بعد اس کے تمام تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنا مسلسل جہاد ہے۔

رمضان المبارک ایک بار پھر رحمت و کرم کی بارش کا وسیلہ کر بن رہا ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ اس مبارک ماہ کی ویسی ہی قدر کریں جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ فریضہ اقامت دین کی جدوجہد کے ایک کارکن کی نظر سے دیکھیں تو یہ مہینہ اپنے آپ کو علم دین سے لیس کرنے، خوب اجر سمیٹنے، چھوٹی بڑی نیکیاں اپنا شعار بنا لینے، اپنے نفس پر قابو پانے، ایک مجاہد کا سا مضبوط ایمان پیدا کرنے، مردِمومن کی سی دُور رس نگاہ پیدا کرنے کا مہینہ ہے۔ مختصر یہ کہ اپنے مالک حقیقی سے قرب حاصل کرنے، اور اپنے آپ کو اس کے انعامات اور فضل کا مستحق قرار دینے کا مہینہ ہے۔ اگر ہم ان نعمتوں کی قدر کرنے اور اللہ کا شکر ادا کرنے کا ارادہ کریں گے، تو وہ ہمیں اپنی عائد کردہ ذمہ داریوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کے قابل بنائے گا اور بحیثیت مجموعی دین کا اچھا کارکن اور اپنی راہ کا زیادہ مستعد سپاہی بننے کا حوصلہ عطا کرے گا اور ہرآن ہماری مدد بھی فرمائے گا۔

ضروری ہے کہ ان دنوں اپنے معمولات کو دوسرے دنوں کے مقابلے میں بالکل تبدیل کردیجیے۔ اپنا زیادہ وقت تلاوت قرآن کریم، نماز اور مطالعے میں گزاریے۔ اٹھتے بیٹھتے مسنون اذکار کا سہارا لیجیے۔ جب بات کیجیے تو نیکی کی بات کیجیے۔ اپنے رب ّسے دُعائیں کیجیے، گناہوں پر معافی مانگیے، اُسی مالک حقیقی کے سامنے گریہ و زاری کیجیے اورمغفرت طلب کیجیے۔

تحریک اسلامی کے دشوار اور کٹھن راستوں کو ہم اس وقت تک طے نہیں کر سکتے، جب تک کہ ہماری سیرت پختہ اور ایمان مضبوط بنیادوں پر استوار نہ ہو، اور ہم میں بے پناہ صبر اور خدا خوفی کا داعیہ موجود نہ ہو۔ زندگی کی آسایشوں اور دنیا کی چمک دمک میں اُلجھ کر ہم اکثر اپنے مقصدِ حیات ہی کو بھول جاتے ہیں۔ ہم اس وقت تک ثابت قدمی اورمستقل مزاجی کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتے، باطل کے مقابلے میں چٹان ثابت نہیںہو سکتے، جب تک کہ ہماری ذاتی اور اجتماعی زندگی، ربّ کی بندگی کے مفہوم سے پوری طرح آشنا نہ ہو اور خواہشات نفس کی غلامی سے نکلنے کی ہم نے مشق نہ بہم پہنچائی ہو۔

ہمیں نہ صرف خود حق کے راستے پر چلنا ہے بلکہ دوسروں کو بھی چلنے کی دعوت دینا ہے۔ ہمیں نہ صرف اپنی زندگیوں میں دین کو قائم کرنا ہے بلکہ اپنے ماحول ، معاشرے اورپورے ملک میں دین کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔ اس کام کے لیے ہمیںخلوص کی وافر مقدار، مضبوط ایمان کی دولت اور صبرو حکمت کا سرمایہ درکار ہے۔ اسی طرح انتہائی پختہ سیرت و کردار، عزم و ارادے اور اللہ کی معیت، نصرت، توفیق اور اس کی رضا کی ضرورت ہے۔

رمضان المبارک ہمارے لیے ایک بیش بہا نعمت ہے۔ ایک گراںقدر نقد سرمایہ ہے، لیکن افسوس کہ کم ہی لوگ اس سے کماحقہٗ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سچ بات ہے کہ بیش تر کے حصے میںتو سواے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں آتا۔ماہ رمضان کے سلسلے میں چند باتیں خصوصی توجہ چاہتی ہیں:

 اس ماہ کے دوران ہر روز دو نوافل خصوصی طور پر پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دُعا کیجیے کہ وہ آپ کے ارادے و عزم کو پختہ کرے۔ وہ اپنی حفاظت میں رکھے اور ان قیمتی لمحات کو غیر شعوری طور پر بے عملی، تساہل، اور فضول باتوں میں ضائع ہونے سے بچائے۔

پھر مہینہ بھر ایک پروگرام ترتیب دے کر اس پر عمل کیجیے، روزانہ اس پروگرام کی پابندی کو اپنے اوپر بالکل لازم کر لیجیے، اپنا احتساب کیجیے اور خود کو ہرگز کوئی رعایت نہ دیجیے۔ اگر کبھی آپ کے اپنے بنائے ہوئے پروگرام میںکوئی کمی رہ جائے تو اسے پورا کیے بغیرچین سے نہ بیٹھیے۔

اس بات کو اپنی نظروں سے کبھی اوجھل نہ ہونے دیں کہ ہماری ساری کوششوں کا مقصد اپنے ربّ کی رضا کا حصول ہے۔ یہ رضا اس خالق و رازق سے مضبوط تعلق پیدا کیے بغیرممکن نہیں ہے۔ تعلق باللہ ہی سعادت کا وہ سرچشمہ ہے، جہاں سے ہم زندگی کے ہر گوشے میں اللہ کے دین کی اقامت کا جذبہ اور لگن پاسکتے ہیں۔ جتنا ہم اس راہ میں شوق و ذوق سے پیش پیش ہوں گے، اتنا ہی اپنے نصب العین سے قریب تر ہوں گے اور جس قدر اس میدان میں پیچھے رہتے جائیں گے، اتنا ہی اپنے نصب العین سے دُور ہوتے جائیں گے۔ اس امر کی خصوصی کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارے خیالات اور اعمال اپنے ربّ کے لیے خالص ہوں۔

اس منصوبہ بندی اور پروگرام میں جن امور کا خیال رکھنا اور جن باتوں پر اپنا احتساب و جائزہ لیتے رہنا ہے، ان میں یہ امور بھی پیش نظر رہیں:

نماز: فرض نمازوں کو پورے اہتمام سے ادا کیجیے۔ اس کے لیے شعوری کوشش اورتیاری کی ضرورت ہے۔ نماز میں الفاظ کی ادایگی شعوری طور پر کیجیے۔ قرآن کے نئے حصے یاد کرکے تلاوت کیجیے۔ رکوع و سجود جن کیفیات و جذبات کا مظہر ہیں، ان کو دل و دماغ میں تازہ کریں۔ خاص اہتمام کیجیے کہ کوئی نماز بلا جماعت نہ ہو۔

اس ماہ نوافل کا بھی زیادہ سے زیادہ اہتمام کیجیے، کچھ تو اپنے اوپر خود ہی لازم کر لیجیے، اورپورے ماہ پابندی سے ان کو ادا کیجیے۔ نماز تہجد کے لیے جو آسانی اس ماہ میسر آتی ہے، اس سے بھرپور فائدہ اٹھایئے۔ کوشش کیجیے کہ کسی رات نمازِ تہجد کا ناغہ نہ ہو… اس کا انحصار آپ کی اپنی شعوری کوشش دل کی حضوری پرہے۔

قرآن: یہ مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اس ماہ قرآن پاک سے خصوصی تعلق استوار کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ سہل پسندی کی نذر ہونے سے بچیے، بلکہ اہتمام کرکے پورا قرآن سماعت کیجیے۔ بہتر یہ ہے کہ پڑھے جانے والے رکوعات کو پہلے ہی ترجمہ کے ساتھ پڑھ لیا جائے تاکہ رمضان میں پورے قرآن کی تلاوت ہوجائے۔ وقت کی پابندی ضرور کیجیے اور اس کے لیے ایک مناسب وقت اختتام سحری سے طلوع آفتاب تک کا ہے۔ یا جو وقت بھی آپ نے مقرر کیا ہے، اس کے علاوہ بھی زیادہ سے زیادہ وقت تلاوت قرآن میں صرف کیجیے… باقاعدہ مطالعے کے لیے قرآن کا کوئی حصہ منتخب کر لیجیے (مثلاً آخری منزل)، اور اسے زیادہ گہری نظر سے تفہیم القرآن یاکسی اور تفسیر کی مدد سے پڑھنے کی کوشش کیجیے۔ بعض حصوں، خصوصاً آخری پاروں اور منتخب رکوعات کے حفظ کا اہتمام بھی کیا جاناچاہیے۔

مطالعہ: اس میں اصل چیز باقاعدگی ہے۔ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت ضرور نکالیے۔ جوکتابیں آپ چاہیں منتخب کر سکتے ہیں۔ کچھ بطور مشورہ تجویز بھی کی جا رہی ہیں:

حدیث… راہ عمل، زاد راہ

لٹریچر…  سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعے کو اوّلیت دیجیے اور اس کے ساتھ ، دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات  مسلمان کے روزو شب، ہدایات، خاصانِ خدا کی نمازیں، اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، اساس دین کی تعمیر، حقیقتِ نفاق،  اسوہ صحابہ، ماثورات وغیرہ۔

انفاق:اس ماہ سعید میں انفاق فی سبیل اللہ اپنے اوپر لازم کر لیجیے، خواہ کتنی ہی چھوٹی مقدار اور قلیل رقم کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اس قربانی اور جذبے کو دیکھتا ہے، جو اس کا بندہ اس کی راہ میںکرتا ہے۔ اپنے ربّ سے دُعا بھی کیجیے کہ وہ اپنی راہ میں آپ کے انفاق کو قبول کرلے۔ مزید کی توفیق بھی طلب کیجیے اور دیے ہوئے مال پرستّر گنا اجر کایقین رکھیے۔

کفّارہ:گناہ ہر حال میں گناہ ہے۔ لیکن اس وقت، جب کہ انسان، اللہ کی خاطر روزے کی حالت میں ہو، یہ گناہ کہیں زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔ گناہوں سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کیجیے اور جو گناہ پھر بھی ہو جائیں، ان پر ایک مقررہ رقم بطور کفّارہ اللہ کی راہ میں خرچ کر دیجیے۔ اس طرح خود کو گناہوں سے باز رکھنے میں آسانی ہوگی اور نیکی کی راہ پر آگے بڑھ سکیں گے۔

اعتکاف:ممکن ہو تو آخری عشرے میں اعتکاف کی سعادت حاصل کیجیے۔ دس دن کے اس مجاہدے کو آپ ذاتی احتساب، تزکیہ نفس اور آیندہ زندگی، رضاے الٰہی کی طلب میں گزارنے کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے اکسیر پائیں گے۔

دعوت الٰی اللہ :عوام کے دل بھی اس ماہ نسبتاً زیادہ اپنے ربّ کی طرف راغب ہوتے ہیں۔دعوتِ دین کے کام کے لیے یہ موسم بہار ہے۔ ہر طرف نیکی کا چرچا ہوتا ہے۔ ہماری تھوڑی سی کوشش بھی لوگوں کے دل دعوت الی اللہ کے لیے مسخر کر سکتی ہے۔ خصوصیت کے ساتھ اپنے محلے اور قرب و جوار میں جو بااثر، رسوخ والے اور باصلاحیت افراد ہوں، ان کو ہدف بنا کر کام کیجیے۔ ان کے لیے اللہ سے خصوصی دعائیں کرنا، دعوت کے اس کام کو آسان کر دے گا۔ اپنی بہترین کوششیں اس امر پر مرکوز کیجیے کہ عوام صرف نماز، روزہ پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ ان عبادات کے تقاضوں کو سمجھ کر، ان کی ادایگی کی خاطر ہمارے ساتھ آملیں۔ اجتماعی سرگرمیوں میں اور دیگر اس طرح کے موقعوں پر، عبادات کی غرض پر روشنی ڈالیے تاکہ رمضان المبارک زیادہ سے زیادہ لوگوں کو دین کا حقیقی اور وسیع مفہوم سمجھانے کا مبارک ذریعہ ثابت ہو۔

دُعائیں:دُعا مومن کا ہتھیار ہے۔ ذہن نشین کر لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی بار گاہ سے اپنی دُعاؤں کو شرف قبولیت دلانے کا اس سے اچھا موقع پھر نہیں مل سکتا۔ ہمیشہ اس اعتماد کے ساتھ اللہ سے مانگیں کہ خلوص دل سے طلب کی ہوئی کوئی اچھی چیز اللہ تعالیٰ رَدّ نہ فرمائے گا… افطارسے قبل دُعا کی قبولیت احادیث سے ثابت ہے۔ ان لمحات کو ہرگز ضائع نہ ہونے دیجیے۔

سونے، جاگنے، مسجد میں داخل ہونے، باہر نکلنے، افطار و سحری کرنے، شکریہ ادا کرنے اور نیا کپڑا پہننے وغیرہ کے موقعے پر جو دُعائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، انھیں یاد کیجیے اوراہتمام سے بار گاہ ربّ العزت میں پیش کیجیے۔ اپنے لیے، اپنے والدین کے لیے، دعوتِ دین میں مصروف افراد کے لیے اور تحریک کے رفقا کے لیے بالعموم اور جن سے آپ قریبی تعلق محسوس کرتے ہیں ان کے لیے بالخصوص دُعائیں کیجیے۔ جن لوگوں سے آپ روابط قائم کیے ہوئے ہیں اور انھیں دعوتِ دین پہنچا رہے ہیں، ان کے دلوں کو دعوتِ حق کی طرف پھیردینے کے لیے اللہ سے نصرت مانگیے۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان، برما، شام، عراق، مصر، بنگلہ دیش، چیچنیا، سنکیانگ اور بھارت میں آزمایشوں سے دوچار مسلمانوں کی مشکلات کے خاتمے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگیے۔

اسی طرح رمضان کا یہ مہینہ اسلامی اور قومی تاریخ کے اہم واقعات کی یاد دہانی لے کر آتا ہے۔ غزوۂ بدر اور فتح مکہ دو ایسے سنگ میل ہیں، جو تحریک احیاے اسلامی کے مستقبل کے لیے روشنی فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح سندھ میں دعوتِ دین کی آمد کی یاد میں یوم باب الاسلام اور  رمضان میں قیامِ پاکستان وغیرہ تاریخ ساز واقعات ہیں۔ ان تاریخی مواقع کی یاد تشکر اور احتساب کے جذبے سے منانے کا اہتمام کیجیے۔ عوام میں ملّی و قومی جذبات کی آبیاری کے لیے تدابیر اختیار کیجیے۔

اللہ کریم سے دُعا ہے کہ وہ ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرمائے، ہماری سعی و جہد کو اپنے لیے خالص کر لیے اور ہم سے وہ کام لے ، جس سے وہ راضی ہو جائے۔ آمین!

قرآنِ مجید میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اہلِ ایمان کے سلسلے میں ہدایت دی گئی کہ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ۝۸۸ (الحجر۱۵:۸۸)(تم ان [مومنین] کے لیے اپنی شفقت کے بازو پھیلا دو)۔ اور آپؐ کے بارے میں یہ گواہی دی گئی کہ لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۱۲۸  (التوبہ ۹:۱۲۹) (تمھارے پاس ایک ایسا رسول آیا ہے، جس کو تمھاری ہرتکلیف بہت گراں معلوم ہوتی ہے، جسے تمھاری بھلائی کی دھن لگی ہوئی ہے، جو مومنوں کے لیے انتہائی شفیق اور نہایت مہربان ہے)۔ صحابہ کرامؓ نے آپؐ کے بارے میں یہ گواہی دی کہ کوئی مصافحہ کرتا تو آپؐ اُس کا ہاتھ نہیں چھوڑتے تھے، جب تک وہ الگ نہ کرلے۔ جس سے گفتگو فرماتے پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوتے۔ کوئی آپؐ سے بات کرتا ،تو پوری توجہ سے سماعت فرماتے تھے اور ہرفرد یہی تصور کرتا کہ آپؐ مجھ کو ہی سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔

۲؍اپریل سہ پہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسا پیرو اس دنیاے فانی سے رخصت ہوا، جس کے بارے میں اس وقت بلامبالغہ ہزاروں لوگ یہ محسوس کر رہے ہوں گے کہ وہ سب سے زیادہ مجھے چاہتا تھا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ اسوے کی پیروی کا بہترین عملی نمونہ، اپنی معاصر شخصیات میں، ہم نے سابق امیرجماعت اسلامی ہند مولانا محمد سراج الحسن  رحمۃ اللہ علیہ میں دیکھا ہے۔

گرم جوش محبت اور بے لوث رفاقت، مولانا مرحومؒ کی دل نواز شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو تھا۔ ان کے وجود کی گرمی اور شخصیت کی مٹھاس کو ہرملنے والا ملاقات کی پہلی ساعت ہی میں محسوس کرلیتا۔ آنے والے کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے وہ استقبال کے لیے کھڑے ہوجاتے، نظرپڑتے ہی گرم جوشی سے گلے لگا لیتے۔ دیر تک سینے سے لگا کر انتہائی اپنائیت سے گفتگو کا آغاز فرماتے۔ ان کے کشادہ سینے اور اس سے کہیں زیادہ وسیع قلب کی گہرائیوں میں شکوے، شکایتیں اور مسائل و اُلجھنیں، آنِ واحد میں تحلیل ہوکر غائب ہوجاتیں۔ خوے دل نوازی اور جانِ پُرسوز کس طرح قائدین کی سب سے بڑی طاقت بن جاتی ہے، اس کا عملی مشاہدہ مولانا سراج الحسن کی سحرانگیز شخصیت میں کیا جاسکتا تھا۔

مرحوم قائدؒ نہ کوئی بڑے عالم دین تھے، نہ شعلہ نوا مقرر، اور نہ نام وَر دانش ور، نہ ان کے پاس اُونچی ڈگریاں تھیں اورنہ تحقیقی یا دل چسپ تصنیفات کا ذخیرہ۔ لیکن ذہانت ، معاملہ فہمی، دُوراندیشی، فکری توازن وغیرہ کے ساتھ اُن کا اصل اثاثہ ان کی انسان نوازی، اخلاقی بلندی اور تعلقات کی گرم جوشی تھا۔ ان اوصاف نے ان کی شخصیت میں غیرمعمولی کشش اور جاذبیت پیدا کردی تھی۔ اس اثاثے کو اللہ کے دین کی اشاعت اور جدوجہد کے لیے انھوں نے بہت شان دار طریقے سے استعمال کیا۔ تحریکی کارکن، ان سے مل کر لوٹتے تو نئی توانائی اور جوشِ عمل سے سرشار ہوتے۔ عام و خاص مسلمان ملتے تو تحریک کا اچھا اثر قبول کرتے،دُوریاں ختم ہوتیں اور تحریک کااثر بڑھتا۔ غیرمسلم ملتے تو اسلام، اس کی دعوت اور اس کے پیغام کے بارے میں ان کی راے بہترہوجاتی۔ ان سب نتائج کے اثرات پورے ملک میں بکھرے ہوئے ہیں اوربرسوں بعد آج بھی لوگ ان کو یاد کرتے ہیں۔ اللہ غریق رحمت فرمائے اور جو محبتیں انھوں نے اللہ کے بے شماربندوں پر اور اس کے دین کے مخلص کارکنوں پر لٹائی ہیں، اس کا عظیم صلہ اللہ تعالیٰ اپنی بے پایاں رحمتوں کے نزول کے ذریعے عطا فرمائے، آمین!

محمد سراج الحسن صاحب ، ملک کی آزادی سے پندرہ سال پہلے، ریاست حیدرآباد دکن کے ایک دُورافتادہ قصبے میں ، ایک متمول زمیندارگھرانے میں جناب ابوالحسن کے ہاں ۳مارچ ۱۹۳۳ء کو پیدا ہوئے۔ ’جوالاگیرہ ‘(Jawalagera)نامی یہ قصبہ اب کرناٹک کے ضلع رائچور کے تعلقہ سندھنور میں واقع ہے۔ بچپن میں کسی بااثر راجا سے خاندانی تنازعے کی وجہ سے انھیں برسوں چھپ کر رہنا پڑا، جس کی وجہ سے ان کی باقاعدہ تعلیم منقطع ہوگئی۔ اسی دوران اسلامی لٹریچر کے گہرے مطالعے کا موقع ملا اور تحریک اسلامی سے تعارف حاصل ہوا۔ نظربندی کی طویل مدت سے آزاد ہوئے تو اللہ کے دین کی خاطر جدوجہد کا سودا سر میں سماچکا تھا۔ کم عمری میں رکن جماعت بنے اور ۲۶ سال کی عمر میں کرناٹک کے امیرحلقہ بنائے گئے۔ اس کے بعد پوری زندگی اللہ کے دین کی خاطر جدوجہد اور قربانیوں میں گزار دی۔ گھر کے آرام اور پُرتعیش طرزِ زندگی کو چھوڑ کر، ریاست کرناٹک کے دُوردراز کے علاقوں کے پُرمشقت دورے شروع کردیے۔ سیکڑوں خاندانوں کو متاثر کیا۔ بے شمار کارکن تیار کیے، اَن گنت لوگوں کے دلوں میں تحریک کی شناسائی، ہمدردی اور تعلق خاطر کے بیج بوئے۔ خود انتہائی سادہ زندگی گزاری۔ اپنی دولت اس راہ میں کھپاکر اور متاعِ زندگی خدا کی راہ میں لٹاکر بے نیازی اور استغنا کی قابلِ رشک شان کے ساتھ، فانی دنیا سے رخصت ہوگئے۔

اس وقت ذہن کے اسکرین پر بہت سی تصویریں چل رہی ہیں۔ عجیب و غریب ، حیرت انگیز لیکن نہایت حسین اور دل نواز۔ میری ان سے پہلی ملاقات، ایک اجتماع میں اس وقت ہوئی جب میں ۱۸سال کی عمر کا ’اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن‘ (SIO)میں ایک گمنام کارکن تھا۔ اس ملاقات کے بعد وہ کبھی میرا نام نہیں بھولے۔ پھر جگہ جگہ ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ایس آئی او کا کُل ہند صدر بنا تو کئی سال ان کے سایۂ شفقت میں مرکز کے قریب رہنے کا موقع ملا۔ اُس وقت مرکز کے جن ذمہ داروں سے ملنے اور بے تکلف بات کرنے میں ہم ایس آئی او کے کارکنوں کو کبھی کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی تھی، ان میں ایک نمایاں نام خود امیرجماعت سراج الحسن صاحب کا تھا۔ ہم وقت لیے بغیر پہنچ جاتے، بے تکلف بات کرتے۔ کبھی اپنے دفتر ایس آئی او میں بھی دعوت دینے کی جسارت کرتے۔ ہلکی پھلکی تنقید اور تیکھے سوالات بھی کرڈالتے۔ کبھی مولانا کی باتوں سے متفق ہوتے، کبھی نہیں ہوتے، لیکن ان کے پاس سے کبھی مایوس یا دل شکستہ نہ لوٹتے۔ مولانا تحریک کے اُمور پر بھی بات کرتے، علمی و فکری مسائل پر بھی گفتگو ہوتی، لیکن ساتھ ہی بڑے غیرمحسوس انداز میں ہماری ذاتی زندگیوں کے بہت سے اُمور بھی زیربحث لے آتے۔ تعلیم کے بارے میں پوچھتے۔ والدین کے بارے میں سوال کرتے اور خاص بات یہ ہے کہ جو کچھ ہم ان سے کہتے، انھیں یاد بھی رکھتے تھے۔

یہ بات ہمارے نوجوان رفقا کے لیے انتہائی تعجب کا باعث ہوتی تھی کہ امیرجماعت کو ایک عام کارکن کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ اس کا باپ بیمار ہے یا اس کا پورا خاندان اس کے بہن کے رشتے کے حوالے سے متفکر ہے، یا اسے انجینیرنگ کے دو فلاں فلاں پرچے پاس کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے، یا وہ کئی دنوں سے نوکری کی تلاش میں پریشان ہے۔ وہ صرف سوالات ہی نہیں کرتے تھے، بلکہ اُس کے ذاتی مسائل کو حل کرنے میں ممکنہ تعاون بھی کرتے۔ میری اس وقت تک شادی نہیں ہوئی تھی۔ کئی رشتوں کی نشان دہی کی۔ ایک آدھ رشتے کے بارے میں والد صاحب مرحوم سے بھی بات کی۔ مولانا مرحوم کی شخصیت، خوے دل نوازی کی ایسی بے شمار اداؤں کا مرقع تھی۔

مولانا سراج الحسن صاحب کو معلوم ہوتا کہ ہمیں کوئی سفر درپیش ہے تو ٹکٹ کے بارے میں پوچھتے۔ ریزرویشن کے کنفرمیشن کے بارے میں معلوم کرتے۔ اپنے تجربات کی روشنی میں ہدایات دیتے: ’’فلاں اسٹیشن سے فلاں اسٹیشن کےدرمیان چوریاں بہت ہوتی ہیں، دھیان رکھنا۔ فلاں ٹرین میں کھانا اچھا نہیں ملتا، ساتھ میں ٹفن لے لینا، فلاں روٹ پر دن میں عام مسافر بھی ریزرو ڈبوں میں چڑھ جاتے ہیں۔ رات ہی میں نیند اچھی مکمل کرلینا، وغیرہ‘‘۔

ملک بھر میں پھیلے ہوئے سیکڑوں لوگوں سے وہ پوسٹ کارڈوں کے ذریعے ربط میں رہتے۔ سفروحضر میں ہروقت ان کے پاس پوسٹ کارڈوں کا ایک بنڈل ساتھ ساتھ ہوتا۔ روزانہ کا کچھ حصہ خطوط لکھنے میں صرف ہوتا۔ جہاں جاتے دفتر یا ہوٹل کے بجاے اپنے رفقا کے گھروں میں قیام کو پسند فرماتے۔ ٹرین سے طویل سفر پر نکلتے تو راستے میں آنے والے اسٹیشنوں کے رفقا کو خبر کردیتے۔ وہ خوشی و مسرت کے ساتھ ملاقات کے لیے آتے۔ بعض اوقات آدھی رات کو بھی اُٹھ کر، اسٹیشن پر آنےوالے رفقا سے ملاقاتیں کرتے۔ کھانے پینے کی پسند بہت سادہ تھی۔ مرچی کے پکوڑے، جوار کی روٹی، اس جیسی سادی چیزوں کو اپنی مرغوب ترین چیزیں کہتے۔ رفقا ان سادی چیزوں کو لاکر اور کھلاکر بے حد خوشی محسوس کرتے۔یہ سب بھی تعلقات کے استحکام کے انوکھے انداز تھے، جنھیں بہت خوب صورتی سے برتتے تھے۔

غالباً ۲۰۰۲ء کی بات ہے، ایس آئی او کی کوئی کُل ہند مہم چل رہی تھی۔ میرے مسلسل دورے ہورہے تھے۔ ایک دفعہ بھوپال میں رات کا پروگرام کرکے مجھے اگلے دن میرٹھ میں ایک بڑے پروگرام کی صدارت کے لیے جانا تھا۔ رات بھوپال اسٹیشن پہنچے تو معلوم ہوا کہ میرٹھ کے لیے جس ٹرین کا ریزرویشن تھا، اس کی روانگی منسوخ ہوگئی ہے۔ کسی طرح دلی کا ٹکٹ بنایا گیا۔ وقت تنگ تھا۔ دلی سے میرٹھ، پروگرام کے وقت پر، اسی صورت میں پہنچ سکتے تھے، جب ٹرین وقت پر چلے۔ اسٹیشن پر فوری طور پر کار مل جائے اور دلی سے میرٹھ کا سفر تیزی سے مکمل ہوجائے لیکن کار اس وقت ہمارے پاس نہیں تھی۔ دلی میں موجود رفقا نے مرکز جماعت پہنچ کر درخواست کی اور یہ واقعات امیرجماعت کے علم میں آگئے۔ اس کے بعد مولانا کی بے چینی کا جو عالم تھا، وہ مَیں کبھی نہیں بھول سکتا۔ فون کرکے معلوم کیا کہ برتھ کنفرم ہوئی ہے یا نہیں؟ پھر دلی پہنچنے کے بعد فون آیا کہ کیا مرکز کی گاڑی وقت پر آگئی تھی؟ پھر میرٹھ پہنچنے کی اطلاع، پھر پروگرام میں بروقت پہنچ جانے کی اور پروگرام کے بخیروخوبی مکمل ہونے کی اطلاع، یہ سب اطلاعات وہ حاصل کرتے رہے۔ اور واپس آتے ہی حاضر ہونے کی ہدایت فرمائی اور تفصیل سے سفر کی رُودادسنی۔ شفقت، اپنائیت اور دل بستگی کا یہ انداز اللہ اللہ!

اسی طرح کا ایک واقعہ چند سال پہلے اس وقت پیش آیا، جب مولانا کو امارت سے فارغ ہوئے کافی عرصہ گزرچکا تھا۔ میرے ایک عزیز کا ایک پیچیدہ آپریشن ہونا تھا اور مَیں انھیں لے کر ، حیدرآباد سے مولانا کی خدمت میں دعا کے لیے حاضر ہوا تھا۔ ہمارے گھر کی بعض خواتین بھی ساتھ تھیں۔ شام میں دُعا سے فارغ ہونے کے بعد، مولانا نے پہلے رات میں آرام کرکے صبح جانے کے لیے کہا۔ہم نے مصروفیات کی وجہ سے معذرت کی تو فرمایا کہ ’’رات رُک نہیں سکتے تو پھر اب فوری نکل جاؤ، خواتین کے ساتھ دیر رات کا سفر مناسب نہیں‘‘۔ فوری طور پر ناشتے کا سامان منگوایا اور بغیر کسی تکلف کے، خود عجلت کرکے رخصت کردیا۔ یہ بھی مولانا کا مخصوص انداز تھا۔

انھیں روایتوں کی پاس داری سے زیادہ اپنے رفقا کے آرام اور ان کی بھلائی کی فکر رہتی اور اس معاملے میں کبھی تکلف سے کام نہیں لیتے تھے۔ مہمان کی مرضی کے خلاف اس کی پلیٹ میں باصرار کھانا ڈالنا اور اس کے کاموں میں حرج کرکے اس کو اپنے یہاں روکنا وغیرہ، ان کے نزدیک سخت ناپسندیدہ اور ناشائستہ حرکتیں تھیں۔ اس زمانے میں یہ بات مشہور تھی کہ مولانا کی یادداشت کافی متاثر ہوگئی ہے۔ اس کے باوجود یہ عالم تھا کہ حیدرآباد پہنچتے ہی مولانا کا فون آگیا کہ ’’کیسے پہنچے؟‘‘ اپنے عزیز کے آپریشن کی جو تاریخ اور وقت بتایا تھا، اس وقت فون، پھر آپریشن مکمل ہوتے ہی فون اور پھر ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کی تاریخ کو فون۔ عام کارکنوں سے یہ تعلق کسی مصنوعی کوشش کے ذریعے پیدا نہیں ہوسکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا عظیم انعام ہے، جو رؤف و رحیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکاروں کو وہ عطا کرتا ہے۔

ایک قائد تحریک کو بنیادی طور پر تین کام کرنے پڑتے ہیں: تحریک کے وژن اور سمت کا تعین، اس کے لیے افراد کار کی تربیت، اور اس کے حصول کے لیے مؤثر تنظیمی ماڈل___ سراج الحسن صاحب نے ان تینوں محاذوں پر بہت سے نئے تجربات کیے۔ان تجربات کا گہرا اور سنجیدہ مطالعہ ہونا چاہیے۔ ان کے وژن میں دعوتِ دین کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اپنی تقریروں کے ذریعے انھوں نے پوری جماعت میں اس کا شعور بیدار کیا۔ غیرمسلموں سے تعلقات و روابط کے نمونے خود بھی قائم کیے اور جماعت کو بھی اس کے لیے آمادہ کیا ۔ اس کے لیے کئی ادارے وجود میں لائے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان، ماضی پر فخر، بادشاہوں کے کارناموں کے تذکروں اور اپنے آپ میں رہنے کے بجاے، ا س وقت کی اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دیں اور دعوتِ دین کے کام پر تمام توجہات کو مرکوز کردیں۔ دعوت کے کام کے لیے جس اخلاص، بے لوثی، قومی یا فرقہ وارانہ اور تاریخی عصبیتوں سے بالاتری وغیرہ درکار تھی، مولانا کی ذات، خود بھی اس کا نمونہ تھی اور وہ اپنی تقریروں سے ان صفات کو اپنے رفقا میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔

محترم سراج الحسن صاحب کا تنظیمی ماڈل کئی امتیازی خصوصیات کا حامل تھا۔ زیادہ سے زیادہ مشاورت اس ماڈل کی اہم خصوصیت تھی۔ کثرتِ مشورہ سے بعض لوگ پریشان بھی ہوجاتے، اور معترض بھی ہوتے لیکن مولانا نے ہمیشہ مشاورت کو بہت اہمیت دی۔ اسی طرح ان کے ماڈل کی ایک خصوصیت اختیارات کی تقسیم کارتھی۔ اپنے بہت سے کام اور اختیارات انھوں نے اپنے معاونین کو ڈیلی گیٹ (تفویض)کیے اور کام کے بھرپور مواقع ان کو فراہم کیے۔

وہ جانتے تھے کہ ہر کام وہ خود بھی نہیں کرسکتے۔ چنانچہ علمی و فکری رہنمائی کے لیے انھوں نے مولانا سیّد جلال الدین عمری، ڈاکٹر فضل الرحمان فریدیؒ اور ڈاکٹر عبدالحق انصاریؒ جیسی بلندپایہ علمی شخصیتوں کو آگے بڑھایا۔ تنظیمی اُمور میں محمد شفیع مونس صاحب اور محمد جعفر صاحب پر بھرپور اعتماد کیا۔ ملّی و سیاسی اُمور میں شفیع مونسؒ صاحب، سیّد محمد یوسفؒ صاحب، عبدالقیوم ؒ صاحب جیسے لوگوں کو کام کے بھرپور مواقع فراہم کیے۔ اس طرح اجتماعی قیادت کی ایک پوری کہکشاں مرکز جماعت میں روشن کر دی۔

نوجوانوں اور نئے لوگوں کو آگے لانا اور ان کو ذمہ داریاں دینا، اس تنظیمی ماڈل کی تیسری اہم خصوصیت تھی۔ اپنی پہلی اور دوسری میقات میں جو امراے حلقہ انھوں نے مقرر کیے، یہ سارے تقررات ان کے بڑے جرأت مندانہ فیصلے تھے۔ اکثر امراے حلقہ، اپنے اپنے حلقوں میں نہایت جونیئر تھے۔ لیکن ان کو آگے بڑھا کر انھوں نے جماعت کو تازہ دم کیا اور نئی توانائی اور قوت فراہم کی۔

نوجوانوں کی تربیت کے لیے ان کا انداز بھی نرالا تھا۔ ایک انوکھی روایت، دوروں میں نوجوان امراے حلقہ کو ساتھ رکھنے کی تھی۔ وہ کثرت سے دورے کرتے اور ریاستوں کے دُور دراز مقامات اور دیہات میں بھی تشریف لے جاتے۔ اس موقعے پر نوجوان امراے حلقہ کو ضرور ساتھ رکھتے۔ اس کے ذریعے امراے حلقہ کو ملک کے مختلف مقامات پر ہورہے اچھے تجربات سے روشناس کراتے۔ اپنے ساتھ رکھ کر اپنی صحبت سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرتے اور تنظیمی مسائل اور تحریکی کاموں کے آداب اور طورطریقوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھنے اور سیکھنے کے موقعے بھی فراہم کرتے۔

بحیثیت صدر ایس آئی او مجھے بھی بعض دوروں میں ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ دوروں کے علاوہ دہلی میں جب سرکردہ شخصیتوں سے ملاقات یا اہم اجلاسوں میں شرکت کے لیے تشریف لے جاتے تو اس وقت بھی مجھے طلب فرماتے۔ بعض اہم اور حساس اجلاسوں میں بھی ان کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا۔ اجلاسوں میں پوری طرح اہمیت دیتے۔ دیگر بڑی شخصیتوں سے تعارف کراتے۔ کئی دفعہ بات کرنے کا بھی موقع فراہم کرتے۔ اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ نوجوانی کے اس دور میں تنظیمی اور قیادتی تربیت کے عمل میں ان صحبتوں سے غیرمعمولی فائدہ ہوا ہے۔

۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۱ء کی ایک میقات میں مجھے ان کے ساتھ مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن رہنے اور ساتھ میں اجلاسوں میں شرکت کرنے کا بھی موقع ملا۔ وہ میری پیدایش سے پہلے سے مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن چلے آرہے تھے۔ میری تحریکی و تنظیمی تربیت انھی کے بلکہ ان کے بعض شاگردوں کے زیرسایہ ہوئی تھی۔ لیکن کبھی شوریٰ کے مباحث کے دوران ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ان قدآور بزرگوں کی موجودگی میں ہم کو بات کرنے میں کوئی تکلف یا دشواری درپیش ہے۔ ہم آزادانہ بات کرتے اور تجویزیں پیش کرتے رہتے۔ اُن کی اور دیگر بزرگوں کی باتوں سے اختلاف بھی کرتے۔ بعض وقت گرما گرم بحثیں بھی کرتے اور وہ بڑی خوش دلی سے سنتے، سراہتے یا بڑی نرم دلی سے وضاحت کرکے اختلاف کو دُور کر دیتے۔یہ صالح شورائی روایات تحریک ِ اسلامی کے کلچر کی بہت بڑی خصوصیت ہے، جو مولاناؒ جیسے وسیع الظرف بزرگوں ہی کی روایت اور صدقۂ جاریہ ہے۔

اللہ سے گہرے تعلق اور اس کے بندوں سے گہرے روابط کے درمیان ایک خاص رشتہ ہے۔ اللہ کی محبت ہی انسانوں کے اندر سچی انسان نوازی پیدا کرتی ہے۔ مولانا مرحومؒ کے تعبدی پہلو کو دوروں اور اسفار کے موقعوں پر قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ تہجد کے وقت اُٹھنے کی عادت انھوں نے مصروف سے مصروف دنوں میں بھی نہیں چھوڑی۔ صبح کاذب سے پہلے اُٹھ کر ٹھنڈے پانی سے غسل اور نماز اور باقاعدہ تلاوت سے اُن کے دن کی شروعات ہوتی۔ ذکر و اذکار کے معمول کی بھی سختی سے پابندی کرتے۔ اللہ نے بعض مخصوص بیماریوں کی شفا ان کے دم اور دُعا میں رکھی تھی۔ بواسیر، آدھے سر کا درد اور اس جیسے بعض امراض کے مریض ان کی دُعاؤں سے فوری شفایاب ہوجاتے۔ وہ جہاں بھی جاتے، ایسے مریض ضرور ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ہرجگہ پرانے سے پرانے امراض کی شفایابی کی حیرت ناک داستانیں سننے کو ملتیں۔

اللہ تعالیٰ سے گہرا تعلق ، اس کے بندوں سے بے پناہ محبت، تمام انسانوں کی ہدایت اور فلاح و کامرانی کی حرص، زندگی کا اعلیٰ و ارفع مقصد اور اس کی خاطر جان نچھاور کرنے اور اپنا سب کچھ لگا دینے اور لٹا دینے کا حوصلہ و جذبہ ___ یہی مومنانہ اوصاف شخصیتوں کو بلندی عطا کرتے ہیں۔ مولانا سراج الحسن مرحوم و مغفور اس حوالے سے یقینا بہت اُونچے اور بہت بلندوبالا کردار کے مالک تھے۔

دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ ان کی عظیم قربانیوں اور محنت و جدوجہد کو قبول فرمائے، اور تحریک اسلامی کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، آمین!