عبد الحمید صدیقی


دُنیا پرستوں کی طرف سے یوں تو ہر زمانے میں مذہب کے خلاف ایک جذبۂ نفرت موجود رہا ہے، مگر دورِ جدید میں لبرلزم، کیپٹل ازم، سیکولرزم اور سوشلزم کے فروغ کے ساتھ اس جذبے میں غیرمعمولی شدت پیدا ہوئی ہے۔ بعض لوگ جذبۂ نفرت کے مختلف پہلوئوں اور اس کے منطقی نتائج پر غور کیے بغیر یہ کہنے لگے ہیں کہ ’’آخر انسان مذہب کے اثرات سے آزاد ہوکر کیوں بہتر اور شاد کام زندگی بسر نہیں کرسکتا؟‘‘

جن لوگوں نے کبھی کسی مسئلے پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا، وہ تو خیر اسی راہ پر گامزن رہیں گے، اور اُس وقت تک اپنے دل میں مذہب کے خلاف نفرت کے جذبات پالتے رہیں گے، جب تک کہ لادینیت اور مادہ پرستی اپنی ساری ہولناکیوں کے ساتھ دُنیا پر مسلط ہوکر انسانی زندگی کو پوری طرح جہنّم نہ بنادے۔ لیکن وہ حضرات جو وقتی نعروں سےفوراً اثر قبول کرنے کے عادی نہیں ہیں، اور آنے والے حالات و واقعا ت پرغوروفکر کرنے کے خوگر ہیں، اُنھیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا مذہب کے بغیر انسانیت زندہ رہ بھی سکتی ہے؟ اور اگر مذہب دُنیا سے رخصت ہوجائے تو پھر انسانیت ناگزیر طور پر کس خوف ناک انجام سے دوچار ہوگی؟

اس مسئلے پر بحث سے پیش تر چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے:

       ۱-    ہمیں مذہب کی بگڑی ہوئی صورتوں سے کوئی سروکار نہیں۔ اگر بعض چالاک اور عیّار لوگوں نے دُنیوی مفادات کی خاطر مذاہب کا حلیہ بگاڑا ہے، تو یہ اُن کی عیاریاں ہیں۔ مذہب کو اس سلسلے میں کسی طر ح بھی موردِ الزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔

       ۲-    دُنیا کے مذاہب نے اپنی اپنی جگہ فکروعمل کا جو نظام دیا ہے، یہاں ہم اس کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتے۔ ہمیں نفسِ مذہب کی ناگزیرضرورت اور اس کی غیرمعمولی افادیت سے بحث کرنا ہے کہ اگر دُنیا سے مذہبی افکار و احساسات بالکل ختم ہوجائیں، تو پھرانسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کیا نقشہ اور انداز ہوگا، اور کیا اُس نقشے اور انداز کو متمدن اور تہذیب یافتہ زندگی کہا جاسکے گا؟

مادیت اور دھن دولت کے پرستاروں نے مذہب کو بے وزن اور بے کار ثابت کرنے کے لیے جس انداز سے اس کے ارتقا کی داستان مرتب کی ہے، وہ بڑی غلط ہے۔ اُن کا چونکہ سارا زور اس بات پر ہے: ’’اصل چیز مادہ ہے اور خدا بھی چونکہ مادے کی اس خارجی دُنیا کا انسان کے ذہن میں عکس ہے، اس لیے خدا کے بارے میں انسانی تصورات خارجی حالات کی تبدیلی سے بدلتے رہتے ہیں۔ آغاز میں جب انسان کے علم اور مشاہدے کا دائرۂ محدود تھا تو وہ لاتعداد مظاہر قدرت کو خدا مان کر اُن کی پرستش کیا کرتا تھا۔ اس کے بعدجب اُس کے علم کا دائرہ وسیع ہوا اور اُس کے اندر مظاہر کائنات کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوئی تو خدائوں کی تعداد گھٹتی چلی گئی اور پھر ایک خدا کا تصور باقی رہا اور اب اس خیالی پیکر سے بھی انسان کو نجات ملنی چاہیے، کیونکہ یہ بھی محض واہمہ ہی ہے‘‘۔

خدا کے بارے میں اس من گھڑت فلسفے کا حقیقت سے کوئی دُور کا بھی تعلق نہیں۔ خدا کا وجود خارجی حالات کا عکس نہیں بلکہ وہ ایک ایسی زندہ اور ناقابلِ انکار حقیقت ہے، جسے تسلیم کیے بغیر اس کائنات میں انسانی زندگی بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ انسان کی فطرت اور اس کے قلب و دماغ میں خدا کے وجود کا احساس اسی وقت ودیعت کردیا گیا تھا، جس وقت ابوالبشرکی تخلیق کی گئی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ذات کے شعور و احساس کی بنا پر ہی اس کے اندر اخلاقی احساس پیدا ہوتا ہے، جو اُسے دوسرے جان داروں سے ممیز اور ممتاز کرتا ہے۔ ’توحید‘ کا تصور ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے انسان کے قلب و دماغ میں پیدا نہیں ہوا بلکہ وہ اوّل روز ہی سے موجود ہے۔ یہی تصور صحیح اور برحق ہے، اور اسی تصور سے انسان کے اندر صحیح اخلاقی شعور جنم لیتا ہے۔ لہٰذا، یہ بات کہ ’’انسان نے مدت دراز کے بعد توحید کے تصور کو اپنایا‘‘، بالکل غلط مفروضہ ہے۔

  • قدیم قبائل میں تصورِ توحید:عہد ِ حاضر میں علمِ بشریات کے ماہرین نے بعض قدیم قبائل کے افکار و اعمال کا جائزہ لیا ہے اور اس جائزے کے لیے ایسے قبائل کو منتخب کیا گیا ہے، جو آج کی متمدن دُنیا سے بالکل الگ تھلگ ہیں، جن کا اندازِ زیست پتھر اور لوہے کے اَدوار سے ملتا جلتا ہے، لیکن وہ ہرمظاہر قدرت کی پرستش کے بجائے خالص توحید کے قائل اور ایک خدا کے پرستار ہیں۔ اس سلسلے میں یوں تو بہت سے محققین نے اپنی تحقیقات پیش کی ہیں، مگر ۱۹۳۱ء میں ویلہلم شمیٹ (Schmidt) اور ایچ جے روز (Rose) دو جرمن اہلِ قلم کی تصریحات قابلِ غور ہیں۔ اُنھوں نے افریقہ اور آسٹریلیا کے متعدد قدیم قبائل کے حالات کا بڑی گہری نظر سے جائزہ لیا، اور پھر اپنی تحقیقات کو ایک کتاب The Origin and Growth of Religion: Facts & Theories [مذہب کا آغاز اور اُس کا نشوونما] کی صورت میں مدوّن کیا ہے۔ اُنھوں نے صاف طور پر یہ کہا ہے:

قدیم تمدن میں سب سے اعلیٰ اور ارفع ذات خدائے واحد کی ہے، اور جو مذہب ایک خدا کو تسلیم کرتا ہے، وہ ’توحیدی مذہب‘ کہلاتا ہے۔ اس موقف پر بہت سے مصنّفین نے اعتراضات کیے ہیں۔ ان کے جواب میں مَیں یہ کہتا ہوں کہ بہت سے قبائل ایسے ہیں، جن کے ہاں ایک ارفع و اعلیٰ ذات پر ایمان اُن کے توحیدی مزاج کی واضح علامت ہے۔ یہ حقیقت بہت سے پگمی قبائل (Pygmy)، قدیم بُش من (Bushmen)، کرنائے (Kurnai)، کیولن (Kulin) اور جنوب مشرق کے یون قبیلے کے متعلق وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے۔(ص ۲۶۲)

ان نیم متمدن قبائل کے ہاں، جنھیں علم کی ہوا تک بھی نہیں لگی، توحید کا تصور اُس حقیقت پر شاہد ہے، جسے قرآن مجید نے پیش کیا ہے، کہ انسان کی فطرت کو صحیح مذہب پربنایا گیااور پھر اوّل روز ہی سے اُس کے لیے ہدایتِ الٰہی کا سامان کیا گیا۔ لہٰذا، وہ ابتدائے آفرینش ہی سے خدا، وحی، حشرونشر، اور رسالت کے بارے میں صحیح قسم کے احساسات رکھتا ہے۔ اگر وہ اس فطری حالت سے الگ ہوکر کوئی دوسری روش اختیار کرتا ہے تو یہ گمراہی کی راہ ہے، جسے اُس نے خود اختیار کیا ہے۔

مذہب کے مطالعے سے اصل صورتِ حال یہ سامنے آتی ہے کہ قادرِ مطلق نے جب انسان کو مادّی اور روحانی احتیاجات کے ساتھ اس کرئہ ارضی پر اُتارا، تو ان دونوں قسم کی احتیاجات کی تسکین کا سامان بھی فراہم کیا۔ جس طرح اُس نے انسان کی بھوک، پیاس اور صنفی خواہش کو پورا کرنے کے لیے خوراک، پانی اور اُس کے لیے جوڑے کا انتظام کیا۔ بالکل اسی طرح انسان کی روحانی اور اخلاقی تمنائوں اور آرزوئوں کی تکمیل کے لیے اُسے ایک واضح نظامِ ہدایت بھی عطا فرمایا، تاکہ اس کی روح تشنہ نہ رہے۔

مثال کے طور پر ہرانسان میں جبلّی طور پر یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ یہ جانے کہ ’’اس عالمِ محسوسات سے ماورا کیا ہے؟‘‘ اس کا جواب اسے یہ دیا گیا کہ ’’اس عالمِ محسوسات سے ماورا ایک ارفع و اعلیٰ روحانی نظام موجود ہے، جو برابر انسان پر اثرانداز ہوکر اُس کے اندر اخلاقی احساسات پیدا کرتا ہے‘‘۔ پھر انسان اپنے متعلق یہ جاننے کے لیے بھی آرزو مند رہتا ہے کہ ’’وہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا؟‘‘ اس کا جواب بھی اُسے یہ دیا گیا کہ ’’اُس کا آغاز بھی اُس قادرِ مطلق ذات نے کیا ہے اور انجامِ کار بھی وہ اُس کے حضور میں حاضر ہوگا‘‘۔ پھردُنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے اندر  ؎

دیکھے بھالے، بن سوجھے
جانے پہچانے ، بن بوجھے

وجود کا احساس موجود نہ ہو۔ ہرفرد، کائنات کی اس بنیادی حقیقت کے بارے میں سوچتا ہے اور اس کی فطرت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اس کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کرلے۔ دُنیا میں کوئی فرد ایسا نہیں، جو اس احساس سے خالی ہو۔ یہ احساس انسان کے اندر اسی طرح ایک گہری خلش پیدا کرتا ہے، جس طرح کہ بھوک اور پیاس یا دوسری جبلّی خواہشات خلش پیدا کرتی ہیں۔ یہ احساس وقتی طور پر دب تو سکتا ہے مگر مٹ نہیں سکتا اور ہلکی سی لَے کی طرح ہروقت موجود رہتا ہے۔

انسان اس حقیقت سے تو بہرحال واقف ہے کہ اس کی شعوری اور جذباتی کیفیت کے لیے ایک معروض (objective) کا ہونا ضروری ہے۔ اگر غصہ آجائے تو کسی بات یا شخص پر ہوگا۔ خوشی پید ا ہوگی مگر کسی چیز یا خیال سے پیدا ہوگی۔ اب اگر دوسری نفسی کیفیات کے لیے معروض کا وجود ضروری ہے،تو انسان کی اس سب سے بڑی اہم کیفیت کے لیے معروض کیوں نہ ہو؟ اس کا جواب بھی مذہب نے یہ دیا ہے کہ ’’یہ کیفیت انسان کی روحانی اور اخلاقی اساس ہے اور اس کا معروض دُنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے، جو خارجی دُنیا میں سورج سے زیادہ روشن اور داخلی طور پر اس کی اپنی زندگی، یعنی شاہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:

 قَالَتْ رُسُلُہُمْ اَفِي اللہِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ (ابراہیم۱۴:۱۰) رسولوںؑ نے کہا: ’’کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟‘‘

یہ سارے احساسات جن کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے، انسانی نفس کے بنیادی احساسات ہیں، جن سے کسی صورت میں مفر نہیں۔ پھر ان کی نوعیت ایسی ہے کہ کوئی انسان محض مادّی زندگی کے شواہد اور حقائق سے ان کی تسکین نہیں کرسکتا۔ آخر سوچیے کہ اس عالمِ محسوسات سے ماورا حقیقت ِ کبریٰ (Ultimate Reality) کو جاننے اور اس کے ساتھ اپنی زندگی کو ہم آہنگ کرنے کی آرزو کو یہ کہہ کر کس طرح پوراکیا جاسکتا ہے کہ ’’یہ محض وہم ہے؟‘‘

یہ سارے احساسات تو کسی گہری روحانی اور وجدانی کیفیت کے ترجمان ہیں، جن کی تسکین روحانی وسیلے ہی سے ممکن ہے۔ اگر ہم ان کی نفی کردیں تو یہ احساسات مٹ تو نہیں سکتے، یہ اپنی تسکین کے لیے کوئی اور راستہ اختیار کرلیں گے۔ ہم یہاں اس راستے کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس پر گامزن قافلۂ انسانیت کے مصائب اور دشواریوں کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ مذہب کے دشمن جھٹ سے یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ ’’مذہب انسانوں کے لیے افیون اور سامراج کے ہاتھ میں ظلم کا ہتھیار ہے، مگر اُنھوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ مذہب کے بغیر انسانیت کی کس طرح مٹی پلید ہوتی ہے؟

بعض سادہ لوگ اس فریب میں بھی مبتلا ہوتے ہیں کہ ’’دُنیا کی بعض قوموں نے مذہب کو تیاگ کر بھی ایک اجتماعی زندگی کی بنیاد رکھی ہے، اور یہ اس بات کی شہادت ہے کہ مذہب کے بغیر بھی زندگی بسر کی جاسکتی ہے‘‘۔

یہ صورتِ حال کا بالکل سطحی مطالعہ ہے۔ مذہب سے انسان چونکہ ہزاروں سال سے مانوس چلا آرہا ہے، اس لیے اس کے لاشعور میں بھی ابھی تک اخلاقی احساسات موجود ہیں، اور اِن کی وجہ سے وہ ابھی تک بعض ایسی بنیادی انسانی صفات سے یکسر محروم نہیں ہوا، جن کے ناپید ہونے سے اُس کی زندگی پوری طرح درندگی کا نمونہ بن جائے۔ انسان کا حشر اُس وقت دیکھنے کے قابل ہوگا، جب وہ ان اخلاقی احساسات سے یکسر تہی دامن ہوجائے گا۔

دوسرے یہ کہ ابھی تک یہ قومیں دورِ تعمیر سے گزر رہی ہیں، اس لیے ان کے سامنے لادینیت کے منطقی نتائج اُبھر کر سامنے نہیں آئے۔ پھر دوسری قوموں کے خلاف ان کے دل میں جو بے پناہ جذبۂ نفرت و حقارت پیدا کر دیا گیا ہے، اس سے بھی ان کے اندر ایک مصنوعی قوتِ عمل پیدا ہوئی ہے، جس نے ان کے اخلاقی شعور کو وقتی طور پر اس حد تک مفلوج کردیا ہے کہ ان کے اندر احساسِ زیاں باقی نہیں رہا، مگر انسانوں کے اخلاقی شعور یا دوسرے لفظوں میں ان کی انسانیت کو دیر تک اس حالت میں نہیں رکھا جاسکتا۔ وہ ترقی کے اس طلسم کے ٹوٹتے ہی بیدارہوگی اور اس وقت اسے یہ احساس ہوگا کہ اُسے ان احساسات سے محروم کرکے اس کے ساتھ شرمناک کھیل کھیلا گیا ہے۔ اس بناپر مذہب دشمن قوتوں کی موجودہ صورتِ حال کو لادینیت کے حق میں وجۂ جواز نہیں ٹھیرایاجاسکتا، کیونکہ اس صورتِ حال کے نتائج ابھی کھل کر سامنے نہیں آئے۔ مذہب کے بغیر انسانیت کا حلیہ کس طرح بگڑے گا؟ موجودہ حالات کے پیش نظر اس کا ایک ہلکا سا ادراک کیا جاسکتا ہے۔

  • انکارِ خدا کی حقیقت:اس سلسلے میں ہم سب سے پہلے انکارِ خدا ہی کو لیتے ہیں:

خدا کی ہستی کا شعور و ادراک ، جیساکہ ہم پہلے گزارش کرچکے ہیں، انسانی فطرت کا بنیادی تقاضا ہے۔ انسان اس احساس سے ایک لمحے کے لیے بھی دست کش نہیں ہوسکتا۔ اگر وہ اس احساس کی تسکین کے لیے صحیح راہ نہیں پاتا، تو وہ نہ صرف انسانیت کے سب سے شیریں عنصر سے محروم رہتا ہے بلکہ بڑی غلط راہوں پر چل نکلتا ہے۔

چنانچہ، دیکھیے کہ جن قوموں نے خدا کا انکار کیا اُنھوں نے قومیّت، نسل پرستی، یا ریاست جیسے جھوٹے خدائوں کی پرستش اختیار کی اور اپنے جذبۂ روحانی کی تسکین کے لیے ان کے ساتھ اس طرح کا والہانہ جذبۂ عقیدت استوار کیا، جس طرح کہ ایک خدا پرست انسان، اپنے سچے خالق اور مالک کے ساتھ کرتا ہے۔ایک فلسفی نے کس قدر صحیح کہا ہے کہ ’’خدا کے ساتھ روحانی تعلق انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔وہ اگر اس تعلق کے لیے خدا کو نہیں پہچانتا تو پھر شیطان کے ساتھ رشتۂ عبودیت استوار کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے‘‘۔

قوم، وطن یا مملکت کی پرستش کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس ایک معبود کے سامنے دوسرے معبودوں کا انکار کیا جائے۔ اس احساس کے تحت جارحانہ قوم پرستی کا نظریہ پیدا ہوا، جس کی رُو سے دُنیا کی ہرقوم، دوسری قوموں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے پر تُل گئی۔ پھر اپنے گھر کے اندر قوم کے سارے افراد نے اُسے خدا سمجھ کر اس کے ہر جائز و ناجائز مطالبے کو پورا کرنے کی کوشش کی اور اسی کو زندگی کا کمال خیال کیا۔

ظاہر بات ہے کہ قومی مطالبے قوم اور وطن کے سربراہوں کی زبان ہی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سربراہوں کو معاشرے میں اسی بلند مقام پر فائز کردیا گیا، جس مقام پر کہ مذہب میں خدا کے پیغمبر ؑ فائز کیے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ انسان اپنے روحانی احساسات کی تسکین کے لیے جو مادی مذہب اختیار کرنے پر مجبور ہوا ہے، اور اس میں خدا کی جگہ قوم کی پرستش اور رسول کی غیرمشروط اور خوش دلانہ اطاعت کی جگہ اربابِ اختیار کی بے چون و چرا اطاعت موجود ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس اندازِ فکر اور طرزِعمل سے انسان کی روح کوتسکین حاصل ہوسکتی ہے؟‘‘

قوم اور وطن دونوں ’اُلوہیت‘ کے اس لطیف اور شیریں عنصر سے عاری ہیں، جو انسان حق تعالیٰ کی بلندو بالا اور ارفع ذات میں پاتا ہے۔انسان فطری طور پر عالمِ محسوسات سے ماورا کسی اعلیٰ و ارفع ذات سے رشتۂ عبودیت استوار کرنے کا آرزو مند ہوتا ہے، اور اسے جب کسی پیکر ِ محسوس کی پرستش پر آمادہ کیا جائے تو وہ لازمی طور پر اپنی زندگی میں ایک خوف ناک خلا محسوس کرتا ہے۔ پھر اس کے قلب و دماغ کو یہ دیکھ کر بھی شدید اذیت ہوتی ہے کہ جن لوگوں کو وہ اس جھوٹے خدا کے ترجمان اور اس کے احکام کے شارح قرار دے کر اُن کی غیرمشروط اطاعت کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہا ہے، وہ بھی اپنے اندر کوئی ایسی روحانی اور اخلاقی کشش نہیں رکھتے جس سے انسان کی روح تسکین حاصل کرے، اور اسے یہ محسوس ہو کہ ان مقدس ہستیوں کی پیروی سے وہ اپنے آپ کو ایک روحانی نظامِ اخلاق سے ہم آہنگ کر رہا ہے۔

جارحانہ قوم پرستی کے ان رہنمائوں کی اطاعت سے انسانوں کی رُوحیں مجروح ہوتی ہیں، کیونکہ اُنھیں ہرقدم پر یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ جبرواستبداد ، مکروفریب، خودغرضی اور دُنیا پرستی کی راہ پر گامزن ہیں، اور ان کی زندگی لطیف احساسات سے یکسر تہی دامن ہوتی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ قوم یا مملکت کی خدائی کا نقش دلوں پر مستقل طورپر قائم رکھنے کے لیے اور عوام کو اربابِ اختیار کا پرستار بنانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی حمدوثنا میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جائیں۔ اُنھیں ایسی غیرمعمولی اور مافوق البشر صفات کا مظہر قرار دیا جائے، جن کی بنا پر ان کے اندر اُلوہیّت کی شان پیدا ہو۔ اس احمقانہ اور خطرناک رجحان نے پوری دُنیا کی اخلاقی حالت کو جس طرح متاثر کیا ہے، وہ سب کے سامنے ہے اور اس سے جو مزید فتنے پیدا ہونے کا امکان ہے، ان کا تصور بھی کچھ مشکل نہیں۔

  • مذہب سے محرومی کے نتائج:مذہبی احساسات سے محروم ہوکر انسان اپنی انسانیت کو بھی برقرار نہ رکھ سکےگا۔ آپ غور کریں کہ انسان اگر حیوان سے ممیز و ممتاز ہے، تو اس کی وجہ یہی تو ہے کہ وہ اخلاقی احساسات رکھنے کی بناپر اپنی حسّی اور مادی خواہشات کو اخلاقی حدود کے اندر رہ کر پورا کرتا ہے، اور ان احساسات کی وجہ ہی سے وہ مادی سود و زیاں سے بلند تر ہوکر اچھے اور پاکیزہ مقاصد کے حصول کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ اگر انسان کا اخلاقی شعور، جو مذہبی احساس کی وجہ سے قائم ہے، ختم ہوجائے تو پھر انسان کے اندر حسّی لذات اور مادّی مفادات سے بلندتر ہوکر سوچنے اور اعلیٰ اخلاقی مقاصد کے حصول کی خاطر زندہ رہنے کی کوئی تمنّا باقی نہیں رہتی ، اور انسان زندگی کا وہی نہج اختیار کرلیتا ہے جو حیوانوں کا ہے۔

اخلاقی احساس کی عدم موجودگی میں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ ’انسانی عمل کا محرک کیا ہے؟‘

اس کا ایک ہی جواب ممکن ہے کہ ’’جب روحانی اور اخلاقی احساس موجود نہ رہے تو پھر حسّی لذت کی تسکین، مادّی منفعت کی چاٹ اور نفع کی اُمید ہی کو عمل کا سب سے بڑا محرک قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر انسان کے اندر کسی بلند روحانی نصب العین کے حصول کی خواہش نہ ہوتو لامحالہ وہ حسّی خواہشات کی تکمیل ہی کے لیے سرگرمِ عمل ہوگا۔ انسان کے لاشعور میں مذہب کے بچے کھچے اثرات موجود ہونے کی وجہ سے وہ ابھی تک درندگی کی اُس سطح پر نہیں اُترا، اندریں حالات جس پر اُسے فی الواقع اُتر جانا چاہیے تھا۔ لیکن اگر مذہب کے خلاف نفرت کا یہی جذبہ پرورش پاتا رہا، تو پھر دُنیا کی کوئی قوت اسے اس پست سطح پر اُترنے سے نہیں بچاسکتی۔

وہ لوگ انسانی فطرت کے بارے میں شدید غلط فہمی میں مبتلا ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ ’’وہ انسان کو مذہب کے بغیر بھی انسانیت کے وسیع تر مفادات کے لیے ایثار و قربانی پر اُبھار سکتے ہیں‘‘۔

یہ لوگ غلطی سے سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ ایک مخصوص قسم کے نظامِ تعلیم و تربیت کے ذریعے عوام کے اندر اجتماعی مفادات کی محبت پیدا کرکے اُنھیں غیرمعمولی ایثار پر آمادہ کرسکیں گے، مگر یہ لوگ شاید ایثار کی نفسانی کیفیت سے یکسر ناواقف ہیں۔ اگر کوئی انسان اپنے ذاتی مفادات کو وسیع تر مفادات کی خاطر قربان کرتا ہے، تو وہ یہ عظیم قربانی بھی روحانی احساس کے تحت کرتا ہے۔ ورنہ حسّی لذات اور مادّی خواہشات تو انسان کے اندر خود غرضی اور نفس پرستی کے جذبات پیدا کرتی ہیں۔

انسان کے اندر اجتماعی زندگی کی تشکیل کے لیے ایثار، بنی نوع انسان سے بے لوث محبت، دوسروں کے دُکھ درد میں ان سے تعاون، مصیبت کے وقت ان کی معاونت اور دستگیری، کمزوروں  اور بے بسوں پر رحم، یہ سب روحانی احساسات کے مختلف مظاہرہیں۔ اگر یہ احساسات مٹ جائیں تو پھر انسان خود غرضی اور شقاوتِ قلبی کا پیکر بن جاتا ہے، اور اپنے طرزِ عمل میں درندوں سے بھی زیادہ خونخوار ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں کیا کسی تہذیب کا نام و نشان باقی رہ سکتا ہے؟

اگر اخلاقی حس ناپید ہے توپھر انسان کو اس بات کی آخر کیا ضرورت ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو قربان کر کے دوسروں کو آرام اور سکون فراہم کرنے کا التزام کرے، اور کمز وروں اور بے بسوں کو دُنیا سے مٹا کر اپنے وسائل میں وسعت پیدا کرنے کے بجائے اُن سے تعاون کرے، اور اُنھیں زندہ رکھ کر ان وسائل میںا ُنھیں شریک ٹھیرائے؟

سوچیے کہ آخروہ کون سا جذبہ ہے، جس کے تحت نوجوان اپنے بوڑھے والدین کا ہنسی خوشی بوجھ اُٹھاتے ہیں، حالانکہ ان سے نفع کی کوئی اُمید باقی نہیں ہوتی۔ مادّی نقطۂ نظر سے تو یہ لوگ خاندان اور معاشرے پر بار ہوتے ہیں اور ان کا سب سے اچھا مصرف یہی ہے کہ ان کے نحیف اور بیکار وجود سے دُنیا کو پاک کیا جائے۔

ایک نہیں، بہت سے ایسے قواعد و ضوابط جن کی پابندی لادینی عناصر اور معاشرے بھی کرتے ہیں، ان کی تہ میں دراصل مذہب کے پیدا کردہ اخلاقی احساسات ہی کارفرما ہوتے ہیں۔ ماں، بہن اور بیٹی سے نکاح کو جو سخت ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو اس کی وجہ بھی مذہبی احساس ہی ہے، ورنہ خالص مادّی نقطۂ نظر سے تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ ان رشتوں میں ایک خاص نوعیّت کی جو تقدیس پائی جاتی ہے، وہ صرف مذہب کی رہینِ منت ہے۔ انسان خواہ زبان سے مذہب کا مخالف اور دشمن ہو، مگر اس کے لاشعور میں بہن اور بیوی کے درمیان یا بیوی اور ماں کے درمیان جو ایک واضح امتیاز ہوتا ہے، وہ مذہب کا پیدا کردہ ہے۔ خالص حیوانی نقطۂ نظر سے اس تفریق اور امتیاز کا کوئی جواز نہیں۔

  • مذہب کی افادیت انسانی زندگی میں:آپ غورکریں کہ اگر انسان اپنے حسّی محرکات کے تحت ہی زندگی بسر کرسکتا تھا تو انسان کی ہدایت کے لیے آخر اتنے لاتعداد انبیاؑ کیوں بھیجے گئے؟

کائنات کی ان مقدّس ہستیوں کی جدوجہد کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اُن کا کام اگرچہ دُنیا کا سب سے سخت ترین اور صبر آزما کام ہے، مگر انسانوں کے کرنے کا یہی کام ہے، کیونکہ انسانیت کا حقیقی جوہر اسی کام کے ذریعے کھلتا ہے، اور اُس جوہر کی بدولت انسان نہ صرف حیوانوں کی سطح سے بلند ہوتاہے بلکہ اخلاقی اور روحانی رفعتوں میں فرشتوں کو بھی پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ فرشتوں میں تو حیوانیت کا کوئی عنصر سرے سے ہوتا ہی نہیں، اس لیے وہ حسّی خواہشات کی لذت سے یکسر محروم ہوتے ہیں ، اور اس بناپر یہ خواہشات ان کے عمل کا کسی صورت بھی محرک نہیں بن سکتیں۔

انسان کی اصل انسانیت بلکہ اس کی حقیقی عظمت کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ وہ حسّی خواہشات اور مادّی تمنائوں کی قوت کو اپنے اندر محسوس کرنے کے باوجود اُنھیں اپنے آپ پر غالب نہ ہونے دے بلکہ اُنھیں اخلاقی احساسات کا پابند بنا کر تعمیروترقی کی راہ پر لگائے۔ انسانیت درحقیقت انسان کی اپنی حیوانیت پر اس کی اخلاقی حس اور اس کی رُوح کی فتح کا دوسرا نام ہے اور یہ فتح و کامرانی مذہبی تعلیمات ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

مذہب نے اخلاقی احساس کو نہ صرف پیدا کیا ہے بلکہ اس کی پرورش کا بھی انتظام کیا ہے۔ اس احساس کے تحت انسان خاکی ہونے کے باوجود وطن کا پرستار نہیں بنتا بلکہ انسانیت کی وسیع تر برادری سے رشتۂ اخوت استوار کرتا ہے۔ اسی احساس کی بدولت وہ مادی سود و زیاں سے بے پروا ہوکر زندگی کے بیش تر معاملات اخلاقی بنیادوں پر طے کرتا ہے۔ وہ اسی احساس کے تحت والدین کی عزّت و تکریم کرتا ہے۔ کمزوروں اور ناداروں پر دست ِ شفقت رکھتا ہے۔ بے سہارا لوگوں کو سہارا دیتا ہے، حالانکہ مادّی نقطۂ نظر سے یہ سراسر گھاٹے کے سودے ہیں۔

اسی احساس سے اس کے اندر استغناء، تحمل، بُردباری، ایثار جیسی بلندواعلیٰ صفات پرورش پاتی ہیں۔ پھر یہی احساس اس کے اندر اخلاص اور بے لوثی کی ایسی متاعِ عظیم پیدا کرتا ہے، جس کی رُو سے وہ اپنی ساری خدمات اور قربانیوں کے بدلے میں کسی دُنیوی فائدے یا شہرت یا عزّت کا طلب گار نہیں ہوتا بلکہ وہ یہ سارے کام خدا کی رضاجوئی کے مقدس جذبے سے کرتا ہے۔ خدا کی رضا کے لیے جینے اور مرنے کا عزم انسان کی پوری زندگی کو خداترسی کا نمونہ بناتا ہے اور انسان زندگی کے ہر چھوٹے بڑے کام کو بڑے اخلاص کے ساتھ سرانجام دیتا ہے۔ اس مقدس جذبے کی موجودگی انسان کے اندر دو رنگی اور منافقت ختم کردیتی ہے، اور انسان سراپا اخلاص بن جاتا ہے۔

مذہب،مذہبی احساسات و معتقدات انسان کی سب سے زیادہ قیمتی متاع ہیں۔ مگر افسوس کہ انسان ان کی اصل قدروقیمت سے ناآشنا ہوتا جارہا ہے۔ چونکہ مادّی ذرائع ووسائل کی فراوانی نے اس کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا ہے، اس لیے وہ اُس متاعِ عزیز سے غافل ہوگیا ہے، جس سے اس کی انسانیت وابستہ ہے۔

ہوا اور روشنی ہماری مادّی زندگی کے لیے جس قدر ضروری ہیں، اس سے سب واقف ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم ان کی پوری طرح قدر نہیں کرتے کیونکہ یہ ہمیں بغیر کسی تکلیف اور محنت کے میسر آجاتی ہیں۔ اسی طرح مذہب جو انسانیت کا سب سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہے، اور جس پر اس کی اخلاقی اور روحانی زندگی کا سارا انحصار ہے، ہم اس کی غیرمعمولی اہمیت پہچاننے سے قاصر ہیں۔ جس طرح ہوا اور روشنی کی اصل قدر اس وقت معلوم ہوتی ہے، جب انسان اس سے محروم ہوجائے۔ اسی طرح مذہب کی حقیقی قدروقیمت کا انسانیت کو اس وقت اندازہ ہوگا، جب انسان اس گنجِ گراں مایہ سے بالکل تہی دست ہوجائے گا۔ اس وقت اُسے معلوم ہوگا کہ اس محرومی سے وہ درندگی کے کس پست مقام پر پہنچ چکا ہے۔

حیوانوں میں تو بعض ایسی جبلّتیں موجود ہیں، جن کی وجہ سے وہ مل کر زندگی بسر کرلیتے ہیں، مگر انسان میں یہ جبلّتیں بڑی کمزور ہیں اور ان کے مقابلے میں خود غرضی کے جذبات زیادہ طاقتور ہیں۔ اس لیے اس کے اندر اگر اخلاقی اور مذہبی احساسات باقی نہ رہے، تو وہ درندوں سے بھی زیادہ خونخوار ہوگا۔ خدا وہ دن نہ دکھائے کہ انسان مذہب کے شیریں اور حیات آفریں عنصر سے محروم ہوکر درندہ بن جائے، کیونکہ اگر اس مقام پر پہنچ گیا تو پھر دُنیا میں خیروبھلائی کا نام و نشان نہ رہے گا۔