رضوان احمد فلاحی


ربع صدی پہلے میاں طفیل محمد اور نعیم صدیقی صاحبان نے (اللہ دونوں کی قبر منوررکھے) والد مرحوم مولانا صدر الدین اصلاحی صاحب کی خدمت میں چند کتابوں کا تحفہ روانہ کیا۔ ان میں ایک کتاب مولانا ابوالکلام آزاد، سیّدابوالاعلیٰ مودودی اور مستری صاحب تھی، جو مستری محمد صدیق صاحب کے صاحبزادے جناب رحمان صدیقی نے مرتب کرکے جون۱۹۹۱ء میں شائع کی تھی۔ یہ کتاب بنیادی طور پر مستری صاحب پر لکھے ہوئے مختلف مضامین کا مجموعہ تھی۔


مستری صاحب ان پانچ افراد میں سے ایک تھے، جنھوں نے پٹھان کوٹ میں ۱۹۳۸ء کے دوران جماعت اسلامی کے نقش اوّل، ادارہ دارالاسلام کی داغ بیل ڈالی تھی۔ نیز جماعت اسلامی کی تشکیل میں بھی شریک تھے۔ مستری صاحب کی پیدایش ۱۸۷۵ء میں ڈیرہ اسماعیل خاں میں ہوئی، تاہم پرورش پنجاب ہی کی ایک بستی سلطان پور لودھی (کپورتھلہ)میں ہوئی۔ کچھ عرصہ انھوں نے الٰہ آباد میں بھی گزارا تھا، جہاں ان کی ملاقات مولانا حمیدالدین فراہی سے رہی۔ ان کے احباب میں نمایاں ترین ہستی مولانا ابوالکلام آزاد تھے۔ مستری صاحب عابد و زاہد، بہت سادہ مزاج اور طبعاً جذباتی شخص تھے۔ مرحوم کو مولانا مودودی کا پیش کردہ اسلامی انقلاب کا نقشہ طویل مدت پر پھیلا اور اپنے جذبوں سے کم تر محسوس ہوا تو ۱۹۴۳ء میں جماعت اسلامی سے علاحدگی اختیار کرلی۔


ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نےمذکورہ بالا کتاب کے دیباچے میں لکھا: ’’جب مولانا مودودی کے اصل داخلی رجحانات بروئے کار آئے، تومستری صاحب ان سے مایوس اور بددل ہوگئے، اور انھوں نے اپنی ’کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد‘ والی دُھن لیے اوّلاً ریاست کپورتھلہ [اب مشرقی پنجاب] میں ایک ویران مقام پر ڈیرہ ڈال کر اور بعد از تقسیم ہند،سکیسر کی پہاڑیوں میں پناہ گزین ہوکر تسکین کا سامان کیا‘‘(ص۱۴)۔


جب والد مرحوم کے سامنے یہ عبارت آئی تو انھوں نے اسے ایک سراسر غلط بیانی سے تعبیر کیا کہ وہ مولانا مودودی سے مایوس ہوگئے تھے اورکہا کہ ’’مستری صاحب جماعت سے نکل جانے کے بعد دوبارہ اس میں شامل ہونا چاہتے تھے، اور اس بات کا مَیں تنہا شاہد ہوں۔ کیونکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر مولانا مودودی کے پاس دوبارہ شمولیت کی خواہش لے کر گئے تھے۔ اب نہ مولانا بقیدِحیات ہیں اور نہ مستری صاحب۔تنہا میں ہی اس واقعہ کا عینی شاہد ہوں۔ نیز جماعت سے نکلنے کی وجہ بھی وہ نہیں ہے جو ڈاکٹر اسرار صاحب نے لکھی ہے، ورنہ وہ دوبارہ شامل ہونے کی بات کیوں کرتے؟‘‘ پھر انھوں نے واقعے کی پوری تفصیل بھی بیان کی، جو آیندہ سطور میں درج کی جارہی ہے۔


اس ضمن میں والد ِ محترم نے میاں طفیل محمد صاحب کے نام جو خط تحریر کیا،وہ آیندہ سطور میں نقل کیا جارہا ہے۔ میرا خیال تھا کہ اسے شاید ترجمان القرآن میں شائع کردیا جائے گا تاکہ ایک تاریخی واقعہ اپنی صحیح تفصیل کے ساتھ ریکارڈ پر آجائے۔ ان دنوں خرم مراد صاحب مرحوم ترجمان کے مدیر تھے۔ان سے ملاقات میں مَیں نے اس خط کا ذکر کیا تو انھوں نے اسے ترجمان  میں شائع کرنے کا عندیہ دیا۔ لیکن شاید خط کی نقل کہیں اِدھراُدھر ہوگئی اورخط منظرعام پر نہ آسکا۔
۲۵برس کا عرصہ گزر جانے کے بعد، غیرمتوقع طور پر ایک بار پھر یہ خط میرے سامنے آیا، تو اسے پیش کر رہا ہوں۔ مقصود کسی پرانی بحث کو زندہ کرنا نہیں بلکہ ایک تاریخی واقعے کو ریکارڈ پر لانا ہے۔
باسمہٖ تعالیٰ

پھول پور، ضلع اعظم گڑھ
محترمی و مکرمی جناب میاں صاحب،السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
اِن دنوں محترم مستری صدیق صاحب مرحوم و مغفور سے متعلق بعض ایسی تحریریں میری نظر سے گزریں، جن میں جماعت اسلامی سے ان کی وابستگی کا بھی تذکرہ ہے اور پھر اس وابستگی کے انقطاع کا بھی اظہارو بیان ہے۔ مگر اس ضمن کی جو ایک تیسری بات بھی ہے اس کا کوئی ذکر مجھے [کہیں] نظر نہیں آسکا۔ اور اب مجھے کچھ ایسا گمان ہورہا ہے کہ شاید یہ بات ماضی کے پردے میں مستور ہوکر رہ گئی ہے، اور کچھ بعید نہیں کہ خود آپ کےعلم میں بھی نہ آسکی ہو۔ اگرچہ مجھے اس طرح کی جزئیات اور تفصیلات کی کوئی خاص اہمیت محسوس نہیں ہوتی، مگر مذکورہ بالا تحریروں میں جو اندازِ کلام اور لب و لہجہ اختیار کیا گیا ہے، اور مرحوم کی جماعت سے علیحدگی کے واقعے کو جس طرح تحریک و جماعت کے خلاف ایک اور ’دلیل قاطع‘ کے طور پراستعمال کیا گیا ہے، اسے دیکھتے ہوئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس تیسری بات کو بھی منظرعام پر لے آؤں۔
یہ تیسری بات آج سے ۴۸برس قبل کی ہے۔ مستری صاحب مرحوم و مغفور نے جماعت سے علیحدگی ۱۹۴۳ء میں اختیار کی تھی۔ ۱۹۴۵ء میں دارالاسلام پٹھان کوٹ میں جماعت اسلامی کا جو کُل ہند اجتماع ہوا تھا، اس میں شرکت کے لیے وہ بھی تشریف لائےتھے۔ جب اجتماع ختم ہوگیا اور شرکاء اجتماع اپنے مقامات پر واپس چلے گئے، اس کے بعد بھی موصوف دارالاسلام میں بدستور ٹھیرے رہے۔
ایک روز عصر بعد میں حسب معمول قریب کی نہر کے کنارے ٹہلنے گیا۔ اس موقعے پر صرف مستری صاحب میرے ہمراہ یا ہم سیر تھے۔ ٹہلتے ٹہلتے انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ ’’تم مولانا مودودی سے میری ملاقات کرا دو‘‘۔میں نے عرض کیا: ’’مستری صاحب! یہ آپ کیا فرما رہے ہیں؟ مولانا سے ملاقات کے لیے کسی توسط اور کسی اجازت طلبی کی کیا ضرورت ہے؟ اور وہ بھی آپ جیسی شخصیت کے لیے‘‘۔ لیکن ان کا اصراررہا کہ ’’نہیں، پہلے مولاناسے مل کر اجازت حاصل کرلو‘‘۔ میں نے کہا: ’’اچھی بات ہے‘‘۔ اب مغرب کا وقت قریب آچکا تھا۔ ہم دونوں نہر کے کنارے سے دارالاسلام واپس لوٹے۔ مسجد میں نماز پڑھی۔ جب مولانا [مودودی] مسجد سے نکل کر اپنے کمر ےکی طرف جانے لگے، تو میں نے ان سے مل کر مستری صاحب کی خواہش سے مطلع کر دیا۔ مولانا نے فرمایا: انھیں ابھی بلا لیں، مل لیں‘‘۔ میں پلٹ کر مستری صاحب کے پاس آیا اور مولانا کی بات ان تک پہنچا دی۔ اس کے بعد مَیں اور مستری صاحب دونوں ہی مولانا کے کمرے میں جاداخل ہوئے۔ سلام و کلام کے بعد مستری صاحب نے مولانا سے کہا کہ ’’مولانا، میں جماعت میں پھر شامل ہونا چاہتا ہوں۔ مجھے رکن بنا لیا جائے‘‘۔ مولانا نے جواب میں فرمایا کہ ’’خوشی کی بات ہے، آپ تحریک کا کام شروع کردیجیے۔ رہا رکنیت کا سوال تو وہ ایک رسمی اور ضابطے کی کارروائی ہے، اپنے وقت پر وہ بھی انجام پاجائے گی۔ تحریک اور دعوت کا کام کرنے کے لیے اس کی چنداں ضرورت نہیں ہے‘‘۔
گفتگو ختم ہوئی، مستری صاحب اُٹھ کر اپنی قیام گاہ پر چلے گئے۔ میں چند منٹ رُکا بیٹھا رہا۔ مستری صاحب کے تشریف لے جانے کے بعد مولانا نے مجھ سے فرمایا کہ’’جو شخص جماعت میں شامل ہوکر اس سے نکل جائے، اسے جماعت میں دوبارہ داخل کرتے وقت بڑی احتیاط سے کام لیناچاہیے‘‘۔
یہ ہے اس واقعے یا معاملے کی پوری تفصیل۔
صدرالدین اصلاحی
۱۹دسمبر ۱۹۹۳ء


مستری صاحب کے بارے میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے دست ِ راست میاں طفیل محمد صاحب نے لکھاہے: ’’میرے کرم فرما مستری محمد صدیق مرحوم نے مجھے مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی صاحب کی تحریروں اور ان کی ذات سے متعارف کرایا تھا۔ وہ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کے نہایت قریبی معتمد اور فداکار ساتھیوں میں سے تھے۔ لیکن جب مولانا آزاد مرحوم ، متحدہ قومیت اور کانگریس میں جذب ہوگئے تو یہ مولانا مودودی کی تحریروںاور کردار سے متاثر ہوکر ان سے آملے۔ مستری صاحب نے میرے ذہن کو روشن اور مجھے بالکل یکسو کردیا، اور چند دن کے اندر میں سب کچھ چھوڑ چھاڑکر مولانا مودودی کی خدمت میں، جماعت اسلامی کے مرکز اسلامیہ پارک، چوبرجی، لاہور،  پہنچ گیا‘‘۔ (ہفت روزہ، چٹان، لاہور،مدیر: شورش کاشمیری، ۱۲؍اپریل ۱۹۷۱ء)
اس پیکر ِ صدق و صفا نے ۵؍اگست ۱۹۵۲ء کو سون سکیسر [خوشاب، پنجاب]کی پہاڑیوں میں واقع اپنی جھونپڑی میں بے سروسامانی کی حالت میں وفات پائی اور خوشاب میں آسودئہ خاک ہوئے۔