رسائل ومسائل


سوال : آپ فرقہ پرستی کے مخالف ہیں مگر اس کی ابتدا تو ایک حدیث سے ہوتی ہے کہ ’’عنقریب میری اُمت ۷۲ فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے صرف ایک ناجی ہوگا، جو میری اور میرے اصحاب کی پیروی کرے گا‘‘ (بلکہ شیعہ حضرات تو ’اصحاب‘ کی جگہ ’اہل بیت‘ کو لیتے ہیں)۔اب غور فرمایئے کہ جتنے فرقے موجود ہیں، سب اپنے آپ کو ناجی سمجھتے ہیں اوردوسروں کو گمراہ۔ پھر ان کو ایک پلیٹ فارم پر کیسے جمع کیا جاسکتا ہے؟ جب ایسا ممکن نہیں تو ظاہر ہے کہ یہ حدیث حاکمیت غیراللہ کی بقا کی گارنٹی ہے۔ بہت سے لوگ اسی وجہ سے فرقہ بندی کو مٹانے کے خلاف ہیں کہ اس سے حدیث نبویؐ کا ابطال ہوتا ہے۔

جواب :جس قسم کاسوال آپ نے کیا ہےاس پر اگر آپ خود اپنی جگہ غور کرلیتے تو آپ کو آسانی سے اس کا جواب مل سکتا تھا۔ احادیث میں مسلمانوں کے اندر بہت سے فتنے پیدا ہونے کی خبردی گئی ہے ، جس سے مقصود اہل ایمان کو فتنوں پر متنبہ کرنا اور ان سے بچنے کے لیے تاکید کرنا تھا، لیکن وہ شخص کس قدر گمراہ ہوگا جو صرف اس لیے فتنہ برپا کرنا یا فتنوں میں مبتلا رہنا ضروری سمجھے کہ احادیث میں جو خبر دی گئی ہے اس کا مصداق بننا ضروری ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے قرآن میں کہا گیا ہے کہ بہت سے انسان جہنمی ہیں، تو کیا اب کچھ لوگ جان بوجھ کر اپنے آپ کو جہنم کا مستحق بنائیں تاکہ یہ خبر ان کے حق میں سچی نکلے؟(ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۴۶ء)

سوال: سورۂ بقرہ کی آیت ۱۹۶ میں میقات سے باہر رہنے والوںکو عمرہ اورحج ایک ہی سفر میںکرنے کی اجازت ہے ۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسجد حرام کے قریب رہنے والے حج کے موسم یعنی شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کی ۱۲،۱۳ تاریخ تک عمرہ نہیں کرسکتےاورنہیں کرنا چاہیے؟جوکوئی قریب رہنے والا موسم حج میں نیکی سمجھ کر عمرہ کرے گا غلطی کرے گا، اسی لیے آخر میں ہے :وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۱۹۶ (البقرہ۲:۱۹۶)’’اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ سخت سز ا دینے والا ہے ‘‘۔

مقامی لوگ حج ختم ہونے کے بعدآخرِ رمضان تک جب چاہیں عمرہ کرسکتے ہیں ، لیکن جیسے ہی شوال شروع ہو وہ عمرہ نہیں کرسکتے، وہ صرف باہر کے افراد ہی کریں گے۔ اگر کوئی مقامی فرد ایامِ حج میں عمرہ کرے تو اس نے غلطی کی ،چاہے وہ حج کرے یا نہ کرے۔ اگروہ حج کرے گا تو دم دینے والی رائے زیادہ قوی لگتی ہے ۔ یہ دم جنایت ہوگا، جب کہ باہر سے آنے والے عمرہ اورحج کرنے پر جوقربانی کرتے ہیں وہ دم شکر گردانا جائےگا؟

جواب : سورۂ بقرہ کی آیت ۱۹۶ میں فرمایا گیا ہے :’’ جوشخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اُٹھائے وہ حسب مقدور قربانی کرے اور اگرقربانی میسر نہ ہوتو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر ، اس طرح پورے دس روزے رکھ لے‘‘۔ اس کے بعد آیت کا ٹکڑا ہے : ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْـحَرَامِ۝۰ۭ  ’’یہ رعایت ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھربار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں‘‘۔

اس آیت میںبتایا گیا ہے کہ باہر سے آنے والے ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کرسکتے ہیں۔ بس انھیںقربانی کرنی ہوگی، یا دس روزے رکھنے ہوں گے۔ اس کے ذریعے دراصل عرب جاہلیت کے اس خیالِ خام کا رَد کیا گیا ہے جوسمجھتے تھے کہ عمرہ اور حج کے لیے الگ الگ سفر کرنا ضروری ہے۔ ایک ہی سفر میں دونوں کی انجام دہی گناہ ہے ۔ اس سہولت سے ان لوگوں کو مستثنیٰ کردیا گیا ہے جومکہ کے آس پاس میقاتوں کی حدود میںرہتے ہوں ، اس لیے کہ ان کے لیے عمرہ اورحج دونوں کے لیے الگ الگ سفر کرنا کچھ مشکل نہیں ۔

اس سے یہ استنباط کرنا صحیح نہیں ہے کہ میقات کے اندر رہنے والوں کے لیے ایامِ حج (شوال، ذی قعدہ اورذی الحجہ کے ابتدائی ۱۲،۱۳ دن ) میں عمرہ کرنا درست نہیں ۔ وہ بھی ان ایام میںعمرہ کرسکتے ہیں: علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے:اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِیْمَنْ اعْتَمَرَ فِی أَشْہُرِ الْحَجِّ، ثُمَّ رَجَعَ اِلٰی بَلَدِہٖ وَمَنْـزِلِہٖ، ثُمَّ حَـجَّ مِنْ عَامِہٖ  فَقَالَ الْجُمْہُوْرُ مِنَ الْعُلَمَاءِ : لَیْسَ بِمْتَمَتِّعٍ ، وَلَا ہَدْیَ عَلَیْہِ وَلَا صِیَامَ   (الجامع لاحکا م القرآن،ج۳،ص ۳۰۷) ’’جو شخص حج کے مہینوں میں عمرہ کرے ، پھر اپنے علاقے اورگھر کی طرف لوٹ جائے ، پھراسی سال حج کرےتو جمہور علما کہتے ہیں کہ وہ متمتع ( حج تمتع کرنے والا) نہیںہوگا۔ نہ اس پر قربانی واجب ہوگی، نہ اس کے ذمے روزے لازم ہوں گے‘‘۔

البتہ یہ بات صحیح ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک حجِ تمتع اور حجِ قِرَان کی سہولت صرف میقات سے باہر رہنے والوں کے لیے ہے ۔ میقات کے اند ررہنے والے صرف حجِ افراد کریں گے، اگروہ حجِ تمتع یا حجِ قِرَان  کریں تو وہ بھی دم دیں گے (یعنی قربانی کریں گے) ، لیکن وہ دم تمتع کا نہ ہوگا بلکہ جنایت کا ہوگا، چنانچہ خودان کے لیے اس کا گوشت کھانا جائز نہ ہوگا۔جب کہ امام شافعیؒ کے نزدیک وہ بھی حجِ تمتع اور حجِ قِرَان  کرسکتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ آیت میں اشارہ ھَدْی (قربانی) اورصیام (روزہ) کی طرف ہے کہ اس کا حکم صرف میقات کے باہر رہنےوالوں کے لیے ہے۔ (تفسیر قرطبی،ج۳،ص ۳۱۸)

آیت کے آخر میں وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۱۹۶  عمومی بیان ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواحکام دیے گئےہیں ان پر عمل کرو، ورنہ اس کی سزا سے نہیں بچ سکتے۔(مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)

رسولؐ اللہ کی رکعاتِ نماز کی تعداد

سوال : کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی روزانہ پانچ نمازیں بجا لاتے تھے اور اتنی ہی رکعتیں پڑھتے تھے جتنی ہم پڑھتے ہیں؟ اس سوال کی قدرے میں نے تحقیق کی لیکن کوئی مستند حوالہ فی الحال ایسا نہیں ملا کہ اس سوال کا جواب ہوتا۔ بخلاف اس کے بخاری شریف میں یہ حدیث نظر آئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں پڑھیں۔ اسی طرح مؤطا، کتاب الصلوٰۃ میں یہ لکھا دیکھا کہ رات دن کی نماز دو دو رکعت ہے۔ یہ دونوں حدیثیں دو دو رکعت نماز ثابت کرتی ہیں۔ ان خیالات و شکوک نے ذہن کو پراگندہ کررکھا ہے اور اکثر مجھے یقین سا ہونے لگتا ہے کہ ہماری موجودہ  نماز وہ نہیں جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہوگی۔ خدارا میری اُلجھن کو دُور فرمایئے اور مجھے گمراہ ہونے سے بچایئے۔ مجھے نماز چھوٹ جانے کا خطرہ ہے۔

جواب :جن احادیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ ابتدائی دور کی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل، جب کہ نماز کے احکام بتدریج مکمل ہوچکے تھے، یہی تھا کہ آپؐ پانچوں وقت وہی رکعتیں پڑھتے تھے جو اب تمام مسلمانوں میں رائج ہیں۔ یہ چیز دوسری متعدد احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ حضرت عمرؓ کا جو قول آپ نے نقل کیا ہے وہ نوافل سے متعلق ہے۔ (فروری ۱۹۶۱ء)

صحابۂ کرامؓ اور تزکیۂ نفس

سوال : کیا صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آج کل کے صوفیہ کی طرح تزکیۂ نفس کیا کرتے تھے اور انھیں عالم بالا کے مشاہدات ہوتے رہتے تھے؟

جواب :صحابۂ کرامؓ نے تو عالمِ بالا کے معاملے میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر غیب کی ساری حقیقتوں کو مان لیا تھا، اس لیے مشاہدے کی نہ ان کو طلب تھی اور نہ اس کے لیے انھوں نے کوئی سعی کی۔ وہ بجائے اس کے کہ پردئہ غیب کے پیچھے جھانکنے کی کوشش کرتے، اپنی ساری قوتیں اس جدوجہد میں صرف کرتے تھے کہ پہلے اپنے آپ کو اور پھر ساری دُنیا کو خدائے واحد کا مطیع بنائیں اور دُنیا میں عملاً وہ نظامِ حق قائم کردیں، جو بُرائیوں کو دبانے اور بھلائیوں کو نشوونما دینے والا ہو۔( جولائی-اگست ۱۹۴۵ء)

تفسیرِقرآن کے اختلافات

سوال : قرآن پاک کی مختلف تفسیریں کیوں ہیں؟ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تفسیر بیان کی ہے، وہ ہوبہو کیوں نہ لکھ لی گئی؟ کیا ضرورت ہے کہ لوگ اپنے اپنے علم کے اعتبار سے مختلف تفسیریں بیان کریں اور باہمی اختلافات کا ہنگامہ برپا رہے؟

جواب :قرآن پاک کا جو فہم، دین کے حقائق اور اس کے احکام جاننے کے لیے ضروری تھا، اس کی حد تک تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ارشادات اور اپنے عمل سے اس کی تفسیر فرما گئے ہیں۔ لیکن ایک حصہ لوگوں کے غوروخوض اور فکروفہم کے لیے بھی چھوڑا گیا ہے تاکہ وہ خود بھی تدبر کریں۔ اس حصے میں اختلافات کا واقع ہونا ایک فطری امر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا منشا اگر یہ ہوتا کہ دُنیا میں سرے سے کوئی اختلاف ہو ہی نہیں تو وہ تمام انسانوں کو خودہی یکساں فہم عطا فرماتا، بلکہ عقل و فہم اور اختیار کی قوتیں عطا کرنے کی ضرورت نہ تھی، اور اس صورت میں آدمی کے لیے نہ کوشش کا کوئی میدان ہوتا، اور نہ ترقی و تنزل کا کوئی امکان۔(اگست۱۹۵۹ء)

سیکولرزم یا دہریت کا ترقی میں کردار

سوال : کیا انسان کو سیکولرزم یا دہریت روحانی ما دّی ترقی کی معراج نصیب کراسکتی ہے؟

جواب :سیکولرزم یا دہریت درحقیقت نہ کسی روحانی ترقی میں مددگار ہیں اور نہ مادی ترقی میں۔ معراج نصیب کرنے کا ذکر ہی کیا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانے کے اہل مغرب نے جو ترقی مادی حیثیت سے کی ہے ، وہ سیکولرزم یا مادہ پرستی یا دہریت کے ذریعے سے نہیں کی، بلکہ اس کے باوجود کی ہے۔ مختصراً میری اس رائے کی دلیل یہ ہے کہ انسان کوئی ترقی اس کے بغیر نہیں کرسکتا کہ وہ کسی بلند مقصد کے لیے اپنی جان و مال کی، اپنے اوقات اور محنتوں کی اور اپنے ذاتی مفاد کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو۔ لیکن سیکولرزم اور دہریت ایسی کوئی بنیاد فراہم کرنے سے قاصر ہیں جس کی بناپر انسان یہ قربانی دینے کو تیار ہوسکے۔ اسی طرح کوئی انسانی ترقی اجتماعی کوشش کے بغیر نہیں ہوسکتی، اور اجتماعی کوشش لازماً انسانوں کے درمیان ایسی رفاقت چاہتی ہے، جس میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور ایثار ہو۔ لیکن سیکولرزم اور دہریت میں محبت و ایثار کے لیے کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اب یہ ساری چیزیں مغربی قوموں نے مسیحیت سے بغاوت کرنے کے باوجود ان مسیحی اخلاقیات ہی سے لی ہیں، جو ان کی سوسائٹی میں روایتاً باقی رہ گئی تھیں۔ ان چیزوں کو سیکولرزم یا دہریت کے حساب میں درج کرنا غلط ہے۔ سیکولرزم اور دہریت نے جو کام کیا ہے، وہ یہ کہ مغربی قوموں کو خدا اور آخرت سے بے فکر کرکے خالص مادہ پرستی کا عاشق اور مادی لذائذ و فوائد کا طالب بنادیا ہے۔ مگر ان قوموں نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جن اخلاقی اوصاف سے کام لیا ، وہ ان کو سیکولرزم یا دہریت سے نہیں ملے بلکہ اس مذہب ہی سے ملے جس سے وہ بغاوت پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اس لیے یہ خیال کرنا سرے سے غلط ہے کہ سیکولرزم یا دہریت ترقی کی موجب ہیں۔ وہ تو اس کے برعکس انسان کے اندر خودغرضی، ایک دوسرے کے خلاف کش مکش اور جرائم پیشگی کے اوصاف پیدا کرتی ہیں،جو انسان کی ترقی میں مددگار نہیں بلکہ مانع ہیں۔ (اکتوبر ۱۹۶۱ء)

نماز کے آخر میں سلام کے مخاطب

سوال : نماز کے آخر میں جو سلام ہم پھیرتے ہیں، اس کا مقصداورمخاطب کون ہے؟

جواب :کسی عمل کو ختم کرنے کے لیے آخر اس کی کوئی صورت ہونی چاہیے۔ نماز ختم کرنے کی صورت یہ ہے کہ آپ جو قبلہ رو بیٹھ کر عبادت کر رہے تھے، اب دونوں طرف منہ پھیرکر اس عمل کو ختم کردیں۔ اب منہ پھیرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ چپکے سے منہ پھیر دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ خدا سے تمام خلق کے لیے سلامتی کی دُعا کرتے ہوئے منہ پھیریں۔ آپ کو ان میں سے کون سی صورت پسند ہے؟(فروری ۱۹۶۱ء)