جواب :نسل اور رنگ کے مسئلے کے پیدا ہونے کا اصل سبب یہ ہے کہ آدمی محض اپنی جہالت اور تنگ نظری کی بنا پر یہ سمجھتا ہے، کہ جو شخص کسی خاص نسل یا ملک یا قوم میں پیدا ہوگیا ہے، وہ کسی دوسرے شخص کے مقابلے میں زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ حالانکہ جو کسی دوسری نسل یا قوم یا کسی دوسرے ملک میں پیدا ہوا ہے، اس کی پیدائش ایک اتفاقی امر ہے، یہ اس کے اپنے انتخاب کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس لیے اسلام ایسے تمام تعصبات کو جاہلیت قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تمام انسان ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا ہوئے ہیں، اور انسان اور انسان کے درمیان فرق کی بنیاد اس کی پیدائش نہیں بلکہ اس کے اخلاق ہیں۔ اگر ایک انسان اعلیٰ درجے کے اخلاق رکھتا ہے، تو خواہ وہ کالا ہو یا گورا، خواہ وہ افریقا میں پیدا ہوا ہو یا امریکا میں، یا ایشیا میں، بہرحال وہ ایک قابلِ قدر انسان ہے۔ اور اگر ایک انسان اخلاق کے اعتبار سے ایک بُرا آدمی ہے، تو خواہ وہ کسی جگہ پیدا ہوا ہے اور اس کا رنگ خواہ کچھ ہی ہو اور اس کا تعلق خواہ کسی نسل سے ہو، وہ ایک بُرا انسان ہے۔
اسی بات کو ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے، فضیلت اگر ہے تو وہ تقویٰ کی بنا پر ہے۔ جو شخص خدا کی صحیح صحیح بندگی کرتا ہے اور خدا کے قانون کی صحیح صحیح پیروی کرتا ہے، خواہ وہ گورا ہویا کالا، بہرحال وہ اس شخص سے افضل ہے جو خدا ترسی اور نیکی سے خالی ہو۔ اسلام نے اسی بنیاد پر تمام نسلی اور قومی امتیازات کو مٹایا ہے۔ وہ پوری نوعِ انسانی کو ایک قرار دیتا ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے سب کو برابر کے حقوق دیتا ہے۔
قرآن وہ پہلی کتاب ہے جس نے انسان کے بنیادی حقوق کو واضح طور پر بیان کیا ہے، اور اسلام وہ پہلا دین ہے جس نے تمام انسانوں کو جو کسی مملکت میں شامل ہوں، ایک جیسے بنیادی حقوق عطا کیے ہیں۔ فرق اگر ہے تو یہ ہے کہ اسلامی ریاست چونکہ ایک نظریے اور اصول (Ideology) پر قائم ہوتی ہے، اس لیے اس نظریے کو جو لوگ مانتے ہوں، اسلامی ریاست کو چلانے کا کام انھی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ کیونکہ جو لوگ اسے مانتے اور سمجھتے ہیں وہی لوگ اس پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔ لیکن انسان ہونے کی حیثیت سے اسلام تمام ان لوگوں کو یکساں تمدنی حقوق عطا کرتا ہے، جو کسی اسلامی ریاست میں رہتے ہوں۔ اسی بنیاد پر اسلام نے ایک عالمگیر اُمت (World Community) بنائی ہے، جس میں ساری دُنیا کے انسان برابر کے حقوق کے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں۔حج کے موقعے پر ہرشخص دیکھ سکتا ہے کہ ایشیا، افریقہ، امریکا، یورپ اور مختلف ملکوں کے لاکھوں مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور ان کے درمیان کسی قسم کا امتیاز نہیں پایا جاتا۔ ان کو دیکھنے والا ایک ہی نظر میں یہ محسوس کرلیتا ہے کہ یہ سب ایک اُمت ہیں اور ان کے درمیان کوئی معاشرتی امتیاز نہیں ہے۔ اگر اس اصول کو تسلیم کرلیا جائے تو دُنیا میں رنگ و نسل کی تفریق کی بناپر آج جو ظلم و ستم ہورہا ہے اس کا یک لخت خاتمہ ہوسکتا ہے۔(لندن، ۱۹۶۸ء)
جواب: یہ صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب دنیا اسلام کی صداقتوں کو قبول کرلے۔ ایک خدا، ایک کتاب اور ایک لیڈر (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو تسلیم کرلے۔اس طرح خود بخود وہ عالمگیر قوت (Universal Nationality) وجود میں آجائے گی۔ تمام دُنیا کے لوگ اخوت کی ایک رسّی میں منسلک ہوجائیں گے۔ یہ سارے لڑائی جھگڑے خودبخود ختم ہوجائیں گے اور امن و آشتی کا اُجالا چاردانگ عالم کو منور کردے گا۔ (لاہور، ۱۹۷۱ء)
جواب :اس اعتراض کے جواب میں، مَیں دو چیزوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں: یہ ’ترقی یافتہ‘ اور ’ضروریات‘ کے الفاظ ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ’ترقی‘ کا مفہوم کیا ہے؟ لفظ ’ترقی‘ کا تجزیہ کرنے کے بعد ہم یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ کوئی خاص غایت (goal) ہمارے پیش نظر ہو، جس تک ہم پہنچنا چاہتے ہوں، تو اس گول کی طرف بڑھنے کا نام ’ترقی‘ ہے اور اس سے مخالفت سمت کو جانا ’رجعت‘ اور ترقی سے محرومی ہے۔ اب اگر ہم اپنے لیے کوئی ایسا گو ل مقرر کرلیں، جو باطل ہو تو اس کی طرف پیش قدمی کرنا ترقی نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں انسان کا جو گول مقرر کیا گیا ہے، کیا انسانی زندگی کا حقیقی مقصد اور غایت اُولیٰ وہی ہے جو جدید تہذیب نے قرار دی ہے؟ ظاہر بات ہے کہ کوئی شخص اس کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ خود مغرب میں اس وقت کثیرتعداد ایسے مفکرین کی موجود ہے، جنھیں اب اس بات کا یقین نہیں ہے کہ اس تہذیب نے انسان کا جو گول مقرر کیا تھا ، وہ صحیح ہے۔ اب وہ بھی اس پر متفق ہیں کہ اس غلط گول کی طرف پیش قدمی ہی اس دور کے سب مصائب اور مسائل کی اصل جڑ ہے۔
اس کے برعکس اسلام نے جو گول (goal) انسان کے لیے مقرر کیا ہے، ہم اسی کو برحق سمجھتے ہیں اور اسی کی طرف بڑھنا ہمارے نزدیک ’ترقی‘ ہے اور اس ’ترقی‘ کے لیے اسلامی قانون ہی برحق اور ضروریات کے مطابق ہے۔ اس دور میں جو ’ترقی‘ ہوئی ہے، مَیں اس کو ایک مثال کے ذریعے سمجھاتا ہوں۔ مثلاً انسان کو شیر پر قیاس کیجیے اور دیکھیے کہ شیر پہلے اپنے پنجوں سے شکار مارتا تھا۔ پھر اس نے بندوق بنانا سیکھ لی تو وہ بندوق سے شکار کرنے لگا۔ اس کے بعد اسے توپ کا استعمال آگیا، اور آج اس نے ایٹم بم جیسے مہلک ہتھیار بنا لیے ہیں اور اسے بیک وقت ہزاروں لاکھوں جانوں کو ختم کرنے کی قدرت حاصل ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سے انسانیت کی کیا ترقی ہوگی؟
اب اس اعتراض کے دوسرے پہلو کی طرف آیئے ۔ جب ہمارے نزدیک موجودہ زمانے کی ترقی کا گول ہی غلط ہے تو پھر اس کی ضروریات بھی اسی طرح غلط ہیں۔ اس صورت میں ہم اس زمانے کی ضروریات کو حقیقی ضروریات کیوں کر سمجھ سکتے ہیں۔ اس زمانے کی ’ضرورت‘ تو مثال کے طور پر بدکاری بھی ہے اور بدکاری بھی ایسی کہ عورت گناہ تو کرے، لیکن اسے حمل کا خطرہ نہ ہو۔ ظاہر ہے اسلام اس ’ضرورت‘ کو ضرورت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ چنانچہ پہلے آپ اس دور کی وہ حقیقی یعنی genuineضروریات بتایئے، جو واقعی ضروریات ہیں تو پھر مَیں آپ کو بتائوں گا کہ اسلام ان کے لیے کیا قانون دیتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس وقت موجودہ تہذیب کی بدولت دُنیا کی تباہی اور خرابی کا واحد سبب یہ ہے کہ اس نے اپنے لیے بہت سی ایسی چیزوں کو ’ضروریات‘ ٹھیرا لیا ہے، جو حقیقت میں اس کی ضروریات نہیں، اور یہ نتیجہ ہے انسان کے لیے ایک غلط گول مقرر کرنے اور ترقی کے نام پر اسے ہلاکت و تباہی کے جہنم کی طرف دھکیلنے کا۔(ہفت روزہ آئین، لاہور، ۲۲نومبر ۱۹۶۷ء)
سوال : (مجلس میں ایک صاحب کہنے لگے) مولانا! اسلام کے پاس بے شک ایک ’تھیوری‘ (نظریہ) تو موجود ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس پر Practice (عمل درآمد) بھی ہوسکتی ہے؟
جواب :جناب، آپ مطالعہ فرمایئے تو آپ کی نظر سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں رہے گی کہ اسلام کے پاس جو Theory(نظریۂ حیات) ہے، اس سے زیادہ قابلِ عمل نظریہ آج تک دنیا نے نہیں دیکھا۔ جو نظریہ Practicable (قابلِ عمل) نہ ہو وہ تو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دینے کے قابل ہوتا ہے۔ کروڑوں انسان اسے چودہ سو سال تک سینوں سے لگائے نہیں رکھ سکتے۔ اگر اسلام کو کوئی قابلِ عمل نہیں سمجھتا تو یہ اس کی آنکھوں کا قصور ہے، جو بصیرت کے نُور سے خالی ہیں۔ فرد کی اس کمزوری سے اس نظریئے کی ابدی صداقتوں پر کوئی حرف نہیں آتا۔
’قرآن و سنت کا مطالعہ ڈوب کر کیجیے۔ اس مطالعے اور غوروفکر سے آپ کو اسلام کی روح دکھائی دینے لگے گی۔ قرآن کی آیات پہ غور کیجیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ کا مطالعہ فرمایئے اور اسلام کے اوّلین معاشرے میں صحابہ کرامؓ کی پاک باز زندگیوں کا مطالعہ کیجیے۔ آپ خود بخود اعتراف کرنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ اسلام کے پاس اس کا اپنا ضابطۂ اخلاق ہے، جو بے مثال ہے۔ ایک بے نظیر سیاسی نظام ہے اور ایک لاجواب معاشی نظام ہے۔ اس کے دامن میں ہرزمانے کے ہرمسئلے کا بہترین حل موجود ہے۔ اسلام نے جو کچھ پیش کیا، حضور علیہ السلام نے سب سے پہلے خود اس پر عمل فرمایا۔ پھر آپؐ نے ایک بہترین اور مثالی معاشرہ انھی نظریات پر تعمیر فرماکر اس بات کا عملی ثبوت مہیا فرما دیا کہ اسلام محض نظریاتی نہیں بلکہ انتہائی درجے کا عملی دین ہے۔
اسلام کی عالم گیر اور ابدی صداقتوں کی مثال سمجھنا چاہیں تو اس کے لیے جب باجماعت نماز ادا کی جارہی ہو، اسے دیکھیے۔ اخوت، اتحاد اور یگانگت کا کیسا شان دار مظاہرہ ہوتا ہے۔ خدا آپ کو حج پر جانے کی توفیق بخشے تو وہاں پہ دیکھیے، جہاں مسلمانوں کی ’کل عالمی برادری‘ کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ کتنے مختلف ملکوں کے انسان وہاں یکجا ہوتے ہیں۔ کتنے مختلف رنگ ہیں، کتنی مختلف زبانیں ہیں مگر نہ زبان و نسل کا کوئی تنازعہ ہے، نہ قامت و رنگ کا کوئی امتیاز…سب ایک ہی جذبۂ توحید سے سرشار ہیں۔ شاہ و گدا ایک ہی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں۔ کیا نسلی امتیاز کے خلاف اس سے بہتر ضابطہ دُنیا کا کوئی اور نظام پیش کرسکتا ہے؟
سوال : مسلم ممالک میں لیڈرشپ کو تیار کرنے کے لیے کس شعبے میں اصلاح درکار ہے؟
جواب :لیڈرشپ کسی ایک شعبے میں نہیں اُبھرا کرتی، اس کو زندگی کے ہرشعبے میں ظاہر اور نمایاں ہونا چاہیے۔ اگر مسلم ممالک میں جمہوری نظام کو نشوونما پانے کا موقع مل جائے تو اس طرح فطری ارتقا کے نتیجے میں مسلم ممالک میں اسلامی لیڈرشپ اُبھر آئے گی۔ مغرب زدہ طبقہ ہرمسلم ملک میں ایک بڑی ہی محدود اقلیت رکھتا ہے۔ لیکن مغربی استعماری قوتوں کی پشت پناہی اور مسلسل سرپرستی کی بدولت، یہ اقلیت اقتدار کی وارث بن گئی ہے۔ یہ قابض طبقہ اس بات کو جانتا ہے کہ اگر ان ملکوں میں جمہوریت کو کام کرنے کا موقع ملا تو آخرکار اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ اس لیے یہ طبقہ سازشوں کے ذریعے ہرملک میں آمریت قائم کر رہا ہے اور جمہوریت کو اُبھرنے کا موقع نہیں دے رہا ہے۔ (ہفت روزہ آئین، اور ایشیا
سوال : بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب ہم کسی کام میں جماعت اسلامی کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو اس کا سارا کریڈٹ جماعت اسلامی کو ملتا ہے۔ جماعت کو چاہیے کہ وہ دوسرے لوگوں کو بھی مطمئن رکھے؟
جواب :اگرکوئی شخص دین کا کام کرتا ہے اور خدا کی رضا کے حصول کے لیے کرتا ہے، تو اس کا ایسے سوالات اُٹھانا غلط ہے۔ نیکی، اللہ سے اجر پانے کی اُمید پر کرنی چاہیے نہ کہ کسی کریڈٹ کے لیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کوئی کام دُنیاوی اغراض کے لیے نہیں بلکہ اپنا دینی فریضہ سمجھ کے کرتی ہے۔جماعت کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں اگر کوئی شخص کریڈٹ کا سوال اُٹھاتا ہے تو وہ گویا ہماری پوزیشن یہ بناتا ہے کہ ایک فریق تو کریڈٹ دینے والا ہے اور دوسرا کریڈٹ پانے والا۔ حالانکہ جماعت ہرگز اس بات کی مدعی نہیں ہے کہ اس کے کسی کو کریڈٹ دینے سے اسے کریڈٹ حاصل ہوگا اور نہ دینے سے نہیں ہوگا۔
مزیدبرآں اگر کوئی شخص کسی دینی فریضے کی ادائیگی میں ملک کی کسی دوسری تنظیم کے ساتھ تعاون کرتا ہے، تو اسے بجا طور پر یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کا اجر خدا کے ہاں محفوظ ہے۔ یہ خدا ہی ہے جو جانتا ہے کہ کون یہاں کس نیت سے کام کر رہا ہے اور وہی صحیح اجر دینے والا ہے۔ (آئین، ۲۹مئی ۱۹۷۰ء)
جواب :انسان کے اندر چھچھورا پن تو کم و بیش موجود ہوتا ہے۔ یہ منجملہ انھی اوصاف کے ہے جو اس کی فطرت میں ودیعت کیے گئے ہیں۔ انسان سے انھی عادات و خصائل کا اظہار ہوتا ہے، جو اس کی فطرت میں پوشیدہ ہیں۔
اب انسان کی آزمایش دراصل اس بات میں ہے کہ وہ اپنے فطری اوصاف میں سے کن اوصاف کو اُبھارے اور کن اوصاف کی حوصلہ شکنی کرے۔ اپنے اندر بھلائیاں پرورش کرنے کا جو طریقہ اللہ کی شریعت نے بتایا ہے، اگر اس کے مطابق انسان چلتا رہے تو اس کے نفس کی خرابیاں کم ہوتی جائیں گی اور اس کے اندر اعلیٰ صفات تقویت پکڑ لیں گی۔
انسان کو بنانے اور بگاڑنے میں ماحول مؤثر کردارادا کرتا ہے۔ اگر خدا شناس اور پاکیزہ ماحول اسے میسر آجائے تو ہلکی سی جدوجہد بھی اس کے اندر بہترین اوصاف کو پرورش دینے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ لیکن اگر خدا نا شناس اور غیراخلاقی ماحول اسے ملے تو بُرے اوصاف کے پھلنے پھولنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی اور اعلیٰ صفات کو پرورش کرنے میں اسے سخت جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جواب :شرک سے اگر کوئی شخص باز نہ آئے تو اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے___ اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ بے بس ہے بلکہ اس لیے کہ خود اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرما دیا ہے کہ ’میں سارے گناہوں کو بخش دوں گا، لیکن شرک کو نہیں بخشوں گا‘۔ یہ گناہ ایسا ہے جو خاص اللہ تعالیٰ کی ذات سے وابستہ ہے۔ رہے دوسرے گناہ تو ظاہر ہے کہ ان کی کوئی فہرست نہیں دی گئی ہے کہ یہ یہ گناہ معاف کیے جائیں گے اور یہ یہ گناہ معاف نہ ہوسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جب بلاتخصیص یہ اعلان فرمایا ہے کہ سوائے شرک کے تمام گناہ معاف ہوسکتے ہیں، تو کسی کو کیا اختیار ہے کہ ان میں درجہ بندی کرتا پھرے۔
جواب :دراصل جاننے اور ماننے میں ایک لطیف فرق ہے۔ مثلاً آپ دیکھیں گےکہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کا منکر ہے، لیکن جب آپ اس سے بات کریں گے، تو معلوم ہوگا کہ وہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کا منکر نہیں ہے، وہ ایک ایسی ہستی کو تسلیم کرتا ہے، جو اس کائنات کا خالق ہے۔ لیکن وہ اسے صاحب ِ ارادہ، صاحب ِ تدبیر و تنظیم اور صاحب ِ قانون و شریعت تسلیم نہیں کرتا۔ وہ خدا کی اس حیثیت کو ماننے سے انکار کردیتا ہے، کہ وہی اس کی قسمت کا بنانے اور بگاڑنے والا اور وہی اسے راہِ ہدایت دکھانے والا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ وہ شخص یہ بات تو جانتا ہے کہ خدا ہی اس کائنات کا خالق ہے، لیکن حقیقت میں وہ اسے مانتا نہیں ہے۔ بس جاننے اور ماننے میں یہی بنیادی فرق ہے۔(۱۹۶۸ء، درس قرآن کے بعد)
سوال: کیا حج کے موقع پر پردہ ضروری نہیں ہے؟
جواب: دراصل احرام کی حالت میں چہرے کو اس طرح نہیں ڈھانپنا چاہیے کہ کپڑا جِلد کو چھوتا رہے۔ بہت سی خواتین نے اس کا یہ حل نکالا ہے کہ وہ چہرے کے آگے پنکھا رکھ لیتی ہیں کہ چہرہ چھپ جاتا ہے۔ بعض گھونگھٹ اس طرح نکال لیتی ہیں کہ چہرہ چھپ جائے اور کپڑا منہ سے نہ لگے۔ خود اَزواجِ مطہراتؓ جب حج کو جاتی تھیں، تو جہاں مرد نہیں ہوتے تھے وہ چہرہ کھول دیتی تھیں، جہاں مرد ہوتے وہاں چہرہ ڈھانپ لیتیں۔ مزیدبرآں بعض موقعے ایسے بھی ہوتے ہیں جب یہ اہتمام نہیں کیا جاتا، مثلاً طواف کے دوران اگر منہ کھلا رہے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ وہاں مہلت نہیں ملتی کہ لوگ عورتوں کو دیکھتے رہیں۔
سوال: کیا شرعاً اس دلیل میں وزن ہے کہ دونوں جنسوں(Genders) کے مل کر پڑھنے سے مسابقت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور معیارِ تعلیم بلند ہوتا ہے؟
جواب: مخلوط تعلیم سے دونوں جنسوں میں تعلیمی مسابقت کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ غیرتعلیمی اور غیراخلاقی موانست و ملامست کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، جوعلم و اخلاق کے لیے سمِ قاتل ہے۔
سوال: چونکہ مسلم خواتین نے قرنِ اوّل میں مردوں کے ساتھ جنگوں میں حصہ لیا ہے، تو کیا اس سے مخلوط جدوجہد کا جواز ثابت نہیں ہوتا ہے؟ اس لیے کیا تعلیم بالخصوص فنی تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم دی جاسکتی ہے؟
جواب: یہ بات غلط ہے کہ مسلمان خواتین نے قرنِ اوّل میں مردوں کے ساتھ جنگوں میں حصہ لیا ہے۔ کچھ عورتیں بعض اوقات ساتھ ہوجاتی تھیں اور اپنے محرم مردوں کی مرہم پٹی اور تیمارداری کرتی تھیں۔ ان میں سے بعض نے ناگزیر حالات میں حرب و ضرب میں بھی حصہ لیا ہے، مگر یہ سب استثنائی صورتیں ہیں اور حالاتِ جنگ پر، عام شہری زندگی کے دوران میں تعلیمی مشاغل کو قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔(تصریحات)
سوال: ایمان بالغیب کے حوالے سے عام انسان اور رسول میں کیا فرق ہے؟
جواب: ایمان بالغیب کے لحاظ سے عام انسان اور رسول میں یہ فرق ہے کہ عام انسانوں کو اللہ تعالیٰ وہ علم نہیں دیتا جو رسول کو دیتا ہے۔ اس وجہ سے عام انسانوں سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ رسول پر ایمان لائیں، اور جو علم رسول انھیں دیتا ہے اسے تسلیم کریں، اور اس کی پیروی کریں۔ ایمان بالغیب عام انسانوں کے لیے اور رسولوں کے لیے علم بالشہادۃ ہوتا ہے۔(آئین، ۲۱؍اپریل ۱۹۷۶ء)
سوال: بوڑھی والدہ کی خدمت کے خیال سے اگر شادی نہ کی جائے تو شریعہ کا کیا حکم ہے؟
جواب: شادی کرنا فرض تو نہیں ہے، ہاں سنت ہے، اور ایک بڑی اہم سنت ہے۔ اگر شادی نہ کی جائے تو اس سے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے کئی دائروں میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ والدہ ضعیف ہیں تو ان کی خدمت کرنا آپ کا فرض ہے۔ لیکن محض اس بنیاد پر شادی نہ کرنا درست نہیں ہے، بلکہ شادی کرنے کے بعد آپ اپنی والدہ کی خدمت اور زیادہ بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔
سوال: ایک ملازم روزہ رکھتا ہے، مگر اس کا مسلمان مالک بلاعُذر شرعی روزہ نہیں رکھتا۔ کیا ملازم کا اپنے مالک کے لیے کھانا پکانا اور کھلانا درست ہے؟
جواب: ملازم اس صورت میں گنہگار نہیں ہوگا۔ روزہ ترک کرنے اور ملازم سے کھانا پکوانے کا گناہ مالک کے ذمے ہے۔افسوس کہ ایسے مسلمان آقائوں اور مشرکین و کفّار آقائوں کے درمیان کوئی زیادہ فاصلہ نہیں رہا۔ البتہ ملازم ایسے آقا کو توجہ ضرور دلائے کہ وہ روزہ رکھے۔
سوال: بعض لوگ روزہ تو رکھتے ہیں، لیکن نماز نہیں پڑھتے۔ کیا ایسی صورت میں روزے کا اجر انھیں مل جائے گا؟
جواب: میرے علم میں ایسے آدمی کے روزے کا کوئی اجر نہیں ہے، جو نماز ترک کردے اور روزے رکھے۔
سوال: ’انذار‘ اور’خشیت‘ میں کیا فرق ہے؟
جواب: ’انذار‘ کے معنی ہیں ڈرانا اور ’خشیت‘ کے معنی ڈرنا۔ لیکن ڈرانا، دہشت زدہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ تنبیہ [وارننگ] کے لیے ہے۔ ’خشیت الٰہی‘ کا یہی مطلب ہے کہ خدا کی عظمت و جلال سے متاثر اور مرعوب ہوکر اس کی رضا طلب کی جائے۔
سوال : برادری کے نام پر ووٹ طلب کرنا اسلامی نقطۂ نظر سے کیسا ہے؟قطع نظر اس کے کہ اُمیدوار بھلا ہو یا بُرا؟
جواب:اسلامی نقطۂ نگاہ سے اگر برادری کے نام پر ووٹ دینا یا لینا جائز ہوتا تو ظاہر بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قریش کے جو لوگ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے، وہ آپؐ کے رشتے دار ہی تو تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے برادری کے نام پر تعاون کی اپیل کرسکتے تھے۔ لیکن ووٹ لینے کا کیا سوال، آپؐ نے ان کے خلاف تلوارکھینچنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
جماعت اسلامی سے قطع نظر، ووٹ دینے والے کا کام یہ ہے کہ وہ دیکھے کہ جسے وہ ووٹ دے رہا ہے وہ اسلام کے اصولوں کا پابند بھی ہے یا نہیں؟ اور وہ کامیاب ہونے کے بعد خدا کے دین کی خدمت کرےگا یا اپنے نفس کی خدمت میں لگ جائے گا؟ کیا اس کی ظاہری زندگی اس کے دعوئوں کی شہادت دے رہی ہے؟ جو آدمی اس کا اہل نظر آئے، ووٹ دینے والے کو چاہیے کہ وہ اس کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرے، اور جو آدمی اس کا اہل نہ ہو تو خواہ وہ ووٹر کا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو، اسلام اس کے حق میں رائے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
اسلام، دوستی اور برادری کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کرتا بلکہ حق اور باطل کی بنیاد پر دوٹوک فیصلہ دیتا ہے۔(سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ہفت روزہ ایشیا، لاہور، ۵؍اکتوبر ۱۹۷۰ء)
سوال: بعض حضرات ایسی انگوٹھی استعمال کرتے ہیں، جس میں بہ طور نگینہ کوئی پتھر لگاہوتا ہے۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہوتا ہے کہ اس پتھر کے انسانی جسم پر اثرات پڑتے ہیں اور مختلف بیماریوں میں افاقہ ہوتاہے۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں کہ کیا ایسی انگوٹھی کااستعمال درست ہے؟ اور کیا ایسا عقیدہ رکھنا جائز ہے؟
جواب: انگوٹھی کا استعمال زمانۂ قدیم سے ہوتارہا ہے۔ سونے، چاندی اور دیگر دھاتوں کی انگوٹھیاں بنائی اور پہنی جاتی رہی ہیں۔ شرعی طور سے انگوٹھی پہننا مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے جائز ہے۔ ہاں، سونا (Gold)اُمتِ محمدیہؐ کے مردوں کے لیے حرام ہے۔ اس لیے سونے کی انگوٹھی پہننا ان کے لیے جائز نہیں۔ حضرت ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اُحِلَّ الذَّھَبُ وَالْحَرِیْرُ ِلِانَاثِ اُمّٰتِی وَحُرِّمَ عَلَی ذُکُوْرِھَا (نسائی: ۵۱۴۸﴾)سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لیے حلال اور مردوں کے لیے حرام ہے۔
بعض احادیث میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت سے مردوں کو سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع کیاہے۔ (بخاری: ۵۸۶۳، ۵۸۶۴،مسلم:۲۰۶۶﴾)
احادیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی تھی، جس سے آپ ؐمہر کاکام لیاکرتے تھے۔ اس پر ’محمدرسول اللہ‘ کندہ تھا۔یہ انگوٹھی آپ ؐکے وصال کے بعد خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرؓ ، پھر خلیفہ دوم حضرت عمرؓ، پھر خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ کے پاس رہی اور یہ حضرات اسے پہنتے رہے۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں کہیں غائب ہوگئی۔ (بخاری: ۵۸۶۶،مسلم: ۲۰۹۱﴾)
انگوٹھی کانگینہ اسی دھات سے بھی ہوسکتاہے۔ مثلاً چاندی کی انگوٹھی کا نگینہ بھی چاندی کا ہو، اور دوسری دھات کا بھی ہوسکتاہے۔ چنانچہ عقیق، یاقوت اور دیگر قیمتی حجریات بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو انگوٹھی بنوائی تھی، صحیح بخاری میں مذکورہے کہ اس کا نگینہ بھی چاندنی کاتھا (۵۸۷۰﴾) لیکن صحیح مسلم میں روایت کے الفاظ یہ ہیں: کَانَ خَاتَمُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مِنْ وَرَقٍ وَکَانَ فَصُّہ‘ حَبْشِیًّا ﴿(۲۰۹۴﴾) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ حبشہ کا بناہواتھا‘‘۔ اس سے اشارۃً معلوم ہوتاہے کہ وہ چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کا تھا۔
جہاں تک حجریات کی تاثیر کا معاملہ ہے تو طب کی کتابوں میں اس کا تذکرہ ملتاہے۔ مختلف حجریات کے بارے میں بتایاگیاہے کہ انھیں اپنے پاس رکھنے، گردن میں لٹکانے یا کسی اور طرح سے اس کے خارجی استعمال سے انسانی جسم پر فلاں فلاں اثرات پڑتے ہیں۔ اس کا تعلق عقیدہ سے نہیں، بلکہ تجربے سے ہے۔ اگر کسی پتھر کا خارجی استعمال طبّی اعتبار سے فائدہ مند ثابت ہو تو اسے انگوٹھی کا نگینہ بنالینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: دین اسلام اور مسلم معاشرے میں اقامت دین کی کیا اہمیت ہے؟
جواب: قرآن و سنت کے دلائل سے لوگ یہ بات ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اللہ کی کتاب اس لیے آئی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے، اس کو قائم کیا جائے اور اس کے سارے احکام نافذ ہونے چاہییں۔ لیکن اگر آپ صرف عبادات پر رُک گئے اور پھر پوری زندگی کے لیے شریعت کے باقی جو احکام ہیں وہ کس طرح قائم ہوں گے؟
اس فریضۂ اقامتِ دین سے جان چھڑانے کے لیے ہمارے بہت سے دین دار مسلمانوں نے پانچ فلسفے گھڑ رکھے ہیں، جن کا مولانا صدرالدین اصلاحی صاحب نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے:
مولانا صدرالدین اصلاحی نے اس صورتِ حال کا یہ جواب دیا ہے اور یہ عقل کی بات ہے کہ مَا لَا یَتِمُّ الْوَاجِبُ اِلَّا بِہٖ فَھُوَ وَاجِبٌ ، جب کوئی ضروری حکم کسی دوسری چیز کے بغیر پورا نہیں ہوسکتا، تو پھر اس دوسری چیز کو حاصل کرنا بھی لازم ہوجاتا ہے، جیسے پانی کے بغیر وضو نہیں ہوسکتا اور نماز نہیں ہوسکتی۔ اس لیے پانی کی تلاش لازم ہوجاتی ہے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ پانی نہیں ہے، لہٰذا نماز سے جان چھوٹ گئی، تو ایسا نہیں ہے۔ جو چیز دین میں فرض ہے، اس کی ادائیگی کا اہتمام ضروری ہے۔ پھر عقل یہ بھی کہتی ہے کہ اس پر عمل اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب یہ انتظام ہو۔ اس سے یہ پتا چلا کہ اسلامی حکومت قائم کرنا مسلمانوں کے لیے سب سے پہلا فرض ہے۔ اسلامی حکومت ہوگی تو مسلمان ان تمام فرائض پر عمل کریں گے۔ جتنے بھی احکام ہیں یہ سب مسلمانوں پر فرض ہیں، صرف حکمران ہی اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ لیکن اس کا طریقہ یہی ہے کہ حکومت ان پر عمل درآمد کرے۔ اگر سب مسلمان اپنے اپنے طورپر اس پر عمل شروع کردیں تو اس سے انارکی پھیل جائے گی۔اس لیے ان احکام پر عمل کرنے کے لیے خلیفہ یا اسلامی حکومت قائم کرنا فرض ہوگا۔ اس کے بغیر ان احکام پر عمل نہیں ہوسکتا اور قرآن معطل ہوکر رہ جائے گا۔
اس پس منظر میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حکومت کے بغیر چارہ نہیں جیساکہ حضرت علیؓ ابن ابی طالب فرماتے ہیں: امام تو ہوگا چاہے وہ بد ہو یا فاجر۔ دُنیا جب سے چلی ہے اس میں حکمران ہونا ہی ہے۔ اس کے بغیر کوئی معاشرہ نہیں۔ نیک ہو یا بد، کوئی نہ کوئی تو حکومت کرے گا۔ نیک ہوگا تو اس کے زیرسایہ لوگ امن سے رہیں گے، سُکھ کا سانس لیں گے، راستے پُرامن ہوں گے اور عزّتیں محفوظ ہوں گی۔ اگر حکمران بد ہوگا تو لوگ بُرا انجام دیکھیں گے۔
یاد رہے، حکومت کا دائرۂ اثر صرف دفتروں تک محدود نہیں رہتا۔ اس کے پاس نشرواشاعت اور تعلیم و تربیت کے قانون، معیشت، عدل اور امن وامان قائم کرنے کے لیے ایسے ذرائع ہوتے ہیں کہ ان کے ذریعے آہستہ آہستہ عبادات کا دائرہ بھی تنگ ہوجاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے لکھا ہے کہ انگریزوں یا کافروں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ مسلمانوں کی بچیاں ڈانس کریں، سروں سے کپڑا اُتار دیں یا بے نماز ہوجائیں۔ لیکن باطل حکومت آنکھیں بند کرکے نہیں بیٹھی رہتی بلکہ اپنے مطلب کے آدمی تیار کرتی ہے اور ان کے ذریعے اپنے احکامات نافذ کرتی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ نتیجہ یہ ہے کہ تھوڑی ہی صدیاں گزرنے کے بعد ہم نے دیکھا ہے کہ جن گھروں میں دادیاں تہجد پڑھ رہی ہیں، وہاں صبح پوتیاں ڈانس کر رہی ہیں۔ باطل حکومت کا بُرا اثر اپنے آپ آجاتا ہے اور اگر نیک حکومت ہو تو وہ بھی اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔
تاریخ میں اس کی بڑی عمدہ مثال بیان ہوئی ہے۔ جب ولید بن عبدالملک خلیفہ ہوا، تو ہرجگہ عمارتوں کی باتیں ہوتی تھیں۔ لوگ جہاں بیٹھتے تھے ان ہی باتوں کا تذکرہ کرتے تھے۔ اس لیے کہ وہ قلعے بنواتا تھا، عمارتیں بنواتا تھا اور مسجدیں تعمیر کرواتا تھا۔ ہرجگہ حکمرانوں کے مزاج کے مطابق عوام کا مزاج ہوتا ہے۔ جب سلیمان بن عبدالملک حکمران بنا تو وہ چونکہ عاشق مزاج تھا، لہٰذا ہرجگہ حُسن و عشق کی باتیں ہوتی تھیں ۔اور پھر جب انھی میں عمر بن عبدالعزیز برسرِ اقتدار آئے تو ان کے دوسالہ دورِحکمرانی میں ہرجگہ قَالَ اللہُ وَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ کی صدائیں بلند ہونے لگیں اوراللہ اور اُس کے رسولؐ کی باتیں ہونے لگیں۔ گویا حکمران کسی جزیرے میں الگ سے بیٹھا حکومت نہیں کررہا ہوتا۔ وہ پورے ملک پر اثراندازہوتا ہے۔
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں بڑی پیاری مثال دے کر واضح کیا ہے کہ حکمران ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں گاڑی کوچلانا ہوتا ہے۔ وہ جدھر گاڑی کو لے جانا چاہے گا ادھر لوگوں کو جانا پڑے گا۔ بے شک وہ روئیں، دُعائیں کریں، اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ وہ گاڑی کو گنگا کو لے جارہا ہے تو وہ مکہ نہیں پہنچے گی۔اگر مکہ جانا ہے تو اُس آدمی کو اسٹیرنگ پر بٹھائو جو گاڑی کو مکہ کی طرف لے جانے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اس لیے اگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو چھیڑے بغیر ہی دین پر عمل ہوجائے گا تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ آہستہ آہستہ نمازیں بھی چھوٹ جائیں گی۔ اب دیکھیے جمعہ کی چھٹی ختم ہوجانے کی وجہ سے لوگ خطبہ نہیں سن سکتے اور بمشکل جمعہ پڑھ پاتے ہیں۔ غیرمسلم ملکوں میں لوگ کہتے ہیں کہ کمپنیاں ہمیں نماز پڑھنے کے لیے چھٹی نہیں دیتی ہیں۔ اس لیے ظالم حکومت کو برداشت کرنا آہستہ آہستہ سارے دین کو ختم کردینے کے مترادف ہے۔
کنزالعمال میں علامہ علاء الدین علی متقی بن حسام الدین نے ایک بہت پیاری روایت درج کی ہے، جو اس مسئلے کو حل کرتی ہے۔ اگر دین بچانا ہے اور چاہتے ہو کہ کلمہ رہ جائے تو اس پر عمل کرنا ہوگا:الْاِسْلَامُ وَالسُّلْطَانُ اَخَوَانِ تَوْأَمَانِ لَا یَصْلُحُ وَاحِدٌ مِّنْھُمَا اِلَّا بِصَاحِبِہٖ ، فَالْاِسْلَامُ أُسٌّ وَالسُّلْطَانُ حَارِثٌ وَمَا لَا أُسَّ لَہٗ یُھْدَمُ وَمَا لَا حَارِثَ لَہٗ ضَائِعٌ (کنزالاعمال، حدیث:۱۴۶۱۳)،اسلام اور حکومت جڑواں بھائی ہیں۔ ان میں سے کوئی صحیح کام نہیں کرسکے گا جب تک کہ اس کا دوسرا ساتھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ اسلام کو ایسے سمجھو جیسے بنیاد ہے۔ جس عمارت کی بنیاد نہیں ہوتی وہ گرجاتی ہے۔ اگر عمارت ہے تو سلطان اس کا چوکیدار ہے۔ جس عمارت کا کوئی محافظ نہیں ہوتا وہ برباد ہوجاتی ہے ۔ اس لیے خلیفہ حکومت کو چلاتا ہے اور اسلام اس کو صحیح راستے پر رکھتا ہے۔ تب بات ٹھیک ہوتی ہے۔
جب سے اُمت کے اہلِ حل و عقد اور دینی رہنمائی پر فائز حضرات کی بڑی تعداد نے مداہنت کا رویہ اختیار کیا ہے اور یہ موڑ مڑا ہے کہ ’’حکومت کا رشتہ کیوں قرآن سے جڑے؟‘‘، تو اُس نے یہ فضا پیدا کی ہے۔ نتیجہ یہ کہ حکمران نمازیں بھی پڑھتے رہے، حج بھی کرواتے رہے لیکن حکومت کے معاملے میں حکمرانوں نے قرآن سے تعلق توڑ لیا کہ جہاں ہماری مرضی ہوگی ہم اس کا اہتمام کریں گے، اورجہاں ہماری مرضی نہیں ہوگی ہم اس پر عمل نہیں کریں گے، تو اس سے ساراکام خراب ہوگیا۔ اب کہاجاتا ہے کہ دین کیسے نافذ ہو؟ اصل مسئلہ یہی ہے کہ جو دین کو نافذ کرنے والے تھے اورجن کے ذمّے تھا کہ پوری اُمت کو راہِ راست پر چلائیں، وہی بگڑ گئے تو دین کیسے نافذ ہو؟(مولانا محمداسحاق مدنیؒ)
سوال : بعض مولوی حضرات تسخیرِ ماہتاب یعنی چاند کی تسخیر کی مہم کو اللہ تعالیٰ کے نظام میں مداخلت قرار دیتے ہیں، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب : جو لوگ تسخیر ماہتاب کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ بالکل ایک غلط بات کہتے ہیں۔ آخر ڈھائی گھنٹے تک چاند پر ٹھیرنے سے چاندکی تسخیر کیسے ہوگئی؟ انسان کروڑہا برس سے زمین پر رہ رہا ہے، لیکن ابھی تک وہ اسے تو تسخیر نہیں کرسکا۔ جب زمین ذرا سا ہلتی ہے تو اسے خدا یاد آجاتا ہے۔ قرآن میں سخرلکم کے جو الفاظ آئے ہیں، ان کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی یہ چیزیں تمھارے لیے نافع بنادی گئی ہیں۔ مثلاً زمین کو انسان کے لیے مسخر کردیا گیا ہے، ان معنوں میں کہ وہ انسان کے لیے نافع ہے۔ سورج کو مسخر کردیا گیا ہے، اس معنی میں کہ وہ انسان کے فائدے کے لیے ایک ضابطے کے تحت کام کر رہا ہے۔ بالکل اسی طرح دوسرے مظاہرِ کائنات کو تسخیر کرنے کا مفہوم بھی یہی ہے۔
رہی یہ بات کہ ’’بعض مولوی حضرات خلائی مہم کو خدائی نظام میں مداخلت قرار دیتے ہیں‘‘ تو وہ بھی بے سوچے سمجھے بات کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان شب و روز اس نظام میں مداخلت کر رہا ہے۔ یعنی جب وہ زمین پر ہل چلاتا ہے اور بیج بوتا ہے تو اس نظام میں ’مداخلت‘ ہی تو کرتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو زمین کو سپاٹ بنایا ہے۔ اس لیے قوانین فطرت کے مطابق اس دنیا میں تلاش و جستجو کے لیے قدم اُٹھانا، اللہ تعالیٰ کے نظام میں مداخلت کی تعریف میں نہیں آتا۔(سیّدابوالاعلٰی مودودیؒ)
سوال : کہتے ہیں، فتح مکہ کے موقعے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت علیؓ نے عرض کیا: ’’آپ میرے کندھوں پر سوار ہوں‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم نبوت کا بوجھ نہ اُٹھا سکو گے‘‘۔ اس واقعہ کی کیا حقیقت ہے؟
جواب : یہ ایک بالکل مہمل اور من گھڑت بات ہے۔ نبوت کوئی غلّے کا تھیلا نہیں ہے کہ اسے کوئی کمزور آدمی اُٹھا نہ سکے۔ یہ واقعہ سب لوگ جانتے ہیں کہ ہجرت کی رات ، جب حضرت ابوبکرؓ غارِ ثور کے قریب پہنچے، تو انھوں نے آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا تھا، تاکہ آپؐ کے نقوشِ پا کا سراغ نہ رہے۔ اسی طرح رسولؐ اللہ گھوڑوں کی سواری کرتے تھے اور اُونٹوں پر سوار ہوتے تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ نبوت کا بوجھ اُٹھا سکتے تھے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیوں نہ اُٹھالیتے؟ دراصل لوگوں نے بے معنی روایتیں گھڑ رکھی ہیں۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ نبوت کا بوجھ کوئی مادی چیز نہیں ہے، یہ تو فرائضِ نبوت کا بارگراں ہے، جسے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہی اُٹھا سکتے تھے ، اور کسی دوسرے کے بس کی بات نہ تھی۔(ایضاً)
سوال : حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص امام سے پہلے سجدے سے سر اُٹھاتا ہے ، وہ کیا اس بات سے نہیں ڈرتا کہ قیامت کے روز اس کا سر گدھے کا ہوجائے؟___ ایک واعظ صاحب نے اس حدیث کے تعلق سے یہ واقعہ بیان کیا کہ’’ایک محدث نے اس حدیث کی تضحیک کی تھی تو اس کا سر گدھے کا بن گیا تھا ، اور پھر وہ سر کو چادر سے ڈھانپ کر حدیث کا درس دیا کرتا تھا۔ اس واقعے کی کیا حقیقت ہے؟
جواب : یہ کوئی امرِواقعہ نہیں ہے بلکہ اصل میں یہ ایک واعظانہ ہتھکنڈا ہے۔ واعظ لوگ مسئلے سمجھانے کے لیے من گھڑت قصّے بیان کرلیا کرتے ہیں، اور اپنے اس عمل کو ترغیب و ترہیب کے لیے جائزسمجھتے ہیں۔ چنانچہ واعظ صاحب نے اس حدیث کا مسئلہ سمجھانے کے لیے ایک واقعہ گھڑ کر بیان کردیا۔ حالانکہ خود حدیث کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص امام سے پہلے سجدے سے سراُٹھائے گا تو اِسی دُنیا میں اس کا سر گدھے کا بن جائے گا، بلکہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ ’یہ رویّہ سخت احمقانہ ہے‘۔ مقتدی کو امام پر سبقت نہیں کرنی چاہیے۔ مگر واعظوں نے قصّہ گھڑلیا کہ ایک محدث کا سر گدھے کا بن گیا۔(ایضاً)
سوال : کیا ’صدقہ‘ اور ’خیرات‘ میں کوئی فرق ہے، یا یہ ایک ہی خرچ کے دو نام ہیں؟
جواب : یہ ایک ہی خرچ کے دو نام ہیں۔ کہیں اسے ’خیر‘ کہا گیا ہے، کہیں ’نفقہ‘ اور کہیں ’صدقہ‘۔ صدقے میں اصل چیز صدق و اخلاص ہے۔ ہر وہ خرچ ’صدقہ‘ ہے، جو سچے دل سے، اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا جائے، اور اس میں کسی دوسرے جذبے کی آمیزش نہ ہو۔(ایضاً)
سوال : موجودہ قانون میں کورٹ میں اپیل کے بعد بھی اگر قاتل کو پھانسی کی سزا تجویز ہوجائے تو پھر صدر حکومت یا گورنر جنرل کے سامنے رحم کی اپیل ہوتی ہے، جس میں سزا کے تغیر کا امکان رہتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ صورت کس حد تک جائز ہے؟
جواب :یہ بات اسلامی تصورِ عدل کے خلاف ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد کسی کو سزا کے معاف کرنے یا بدلنے کا اختیار حاصل ہو۔ عدالت اگر قانون کے مطابق فیصلہ کرنے میں غلطی کرے، تو امیر یا صدرِ حکومت کی مدد کے لیے پریوی کونسل کی طرز کی ایک آخری عدالت مرافعہ قائم کی جاسکتی ہے، جس کے مشورے سے وہ ان بے انصافیوں کا تدارک کرسکے، جو نیچے کی عدالتوں کے فیصلوں میں پائی جاتی ہوں۔ مگر مجرد ’رحم‘کی بناپر عدالت کے فیصلوں میں رد و بدل کرنا اسلامی نقطۂ نظر سے بالکل غلط ہے۔ یہ ان بادشاہوں کی نقالی ہے جو اپنے اندر کچھ شانِ خدائی رکھنے کے مدعی تھے یا دوسروں پر اس کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔(ترجمان القرآن، جون و جولائی ۱۹۵۲ء)
سوال : پاکستان کے بقا و استحکام کے لیے اسلامی نظامِ تعلیم کی ضرورت و اہمیت کیا ہے؟
جواب : پاکستان کے بقا و استحکام کے لیے اسلامی نظامِ تعلیم کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ اس حقیقت کو ذہن نشین کرلینے سے ہوسکتا ہے کہ ملک و قوم کی قیادت ہمیشہ تعلیم یافتہ طبقے ہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اَن پڑھ یا نیم خواندہ طبقے اپنے قائدین ہی کے پیچھے چلتے ہیں۔ تعلیم یافتہ طبقے کے بنائو اور بگاڑ میں نظامِ تعلیم کو جو مقام حاصل ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔(ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۷۷ء)