حج دینِ اسلام کا پانچواں رکن ہے اور ہر صاحبِ استطاعت پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ یہ ۹ ہجری میں فرض ہوا۔ جو اس کا انکار کرے وہ کافر ومرتد ہے، اور جو استطاعت کے باوجود ادا نہ کرے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہود و نصاریٰ سے تشبیہ دی ہے۔ حج در اصل نفس کی ہرقسم کی برائی کا خاتمہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے نیکیوں کے حصول کی جانب ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان(گناہوں)کا کفارہ ہے،جو ان دونوں کے درمیان ہوئے ہوں، اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔ (صحیح بخاری ، حدیث:۱۷۷۳، صحیح مسلم، حدیث :۱۳۴۹)
حجِ مبرور سے مراد ایسا حج ہے جس کے دوران کسی گناہ کا ارتکاب نہ ہوا ہو، جس میں کوئی ریا اور شہرت کا دخل نہ ہو اور جس میں کوئی فسق و فجور نہ ہو، جس سے لوٹنے کے بعدگناہ کی تکرار نہ ہو اور نیکی کا رجحان بڑھ جائے، جس کے بعد آدمی دنیا سے بے رغبت اور آخرت کا شدت سے طلب گار ہوجائے ۔ اور سب سے بڑھ کر ایسا حج جو اللہ کے یہاں مقبول ہو۔
جب مسلمان حج کرنے جاتا ہے تو گویا اُسے اللہ تعالیٰ اپنے گھر اپنا مہمان بنا کربلاتا ہے اور اپنے مہمان کی تواضع اُس کی دُعائیں قبول کرکے اور اُس کی بخشش کا پروانہ جاری کرکے کرتا ہے۔ جب حاجی اُس کے گھر سے رخصت ہو رہا ہوتا ہے تو چلتے وقت تحفتاً جنت اُس کےلیے واجب کردیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو انھیں بخش دیتا ہے‘‘۔ (ابن ماجه، السنن، ۲: ۹، رقم: ۲۸۹۲)
ایک حدیث میں آتا ہے جسے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب تم حاجی سے ملو تو اسے سلام اور مصافحہ کرو اور اس سے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنی بخشش کی دعا کی درخواست کرو کہ وہ بخشا ہوا ہے۔‘‘ (احمد بن حنبل، المسند، ۲: ۶۹، رقم:۵۳۷۱)
جب انسان کے گھر کوئی بچہ پیدا ہوتا ہےتو وہ دینِ فطرت پر ہوتا ہے یعنی معصوم ہوتا ہے اور آگے چل کر وہ اپنے آباو اجداد کے دین کا انتخاب کرتا ہے اِلا یہ کہ حق کو پانے کی تڑپ دل میں رکھتے ہوئے جدوجہد کرے۔ ایک حاجی کا اجر امت کو بتانے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اور پھر فحش گوئی کی نہ بدکار ہوا ، تو وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک و صاف ہو گیا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا‘‘۔ (صحیح بخاری ۱۵۲۱ و صحیح مسلم ۱۳۵۰)
حاجی کا محبت سے اپنے ربّ کو لبیک اللھم لبیک (حاضر ہوں، اے میرے اللہ میں حاضر ہوں) پکارنا اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کو اتنا بھلا لگتا ہے کہ جس مخلوق تک اُس حاجی کی لبیک کی آواز پہنچتی ہے وہ وجد میں آجاتی ہے اور اُس حاجی کی آواز میں آواز ملا کر فرطِ محبت سے خود بھی لبیک اللھم لبیک کی گردان شروع کردیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کوئی مسلمان تلبیہ کہتا ہے، اس کے دائیں بائیں تمام پتھر، درخت، ڈھیلے تلبیہ کہتے ہیں، یہاں تک کہ زمین اِدھر اُدھر (مشرق و مغرب) سے پوری ہو جاتی ہے‘‘۔ (ترمذی، السنن، ۳: ۱۸۹، رقم: ۸۲۸، راوی حضرت سہلؓ بن سعد)
امیر المومنین حضرت عمر ؓ بن خطاب اپنے دورِ امارت میں ایک روز فرماتے ہیں کہ ’’میں نے پختہ ارادہ کیا کہ اپنے لوگوں کو شہروں میں بھیجوں تاکہ وہ اس بات کی تحقیق کریں کہ جن لوگوں کو حج کی استطاعت ہے پھر بھی وہ حج نہیں کرتے تو اُن پر جزیہ مقرر کردوں۔ ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں، ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں‘‘۔ (جزیہ اسلامی ریاست میں غیر مسلمین پر ایک ٹیکس ہے جس کے بدلے اسلامی ریاست اُس کے جان، مال ، عزت و آبرو کی حفاظت کی ضامن ہوتی ہے اور ہر وہ سہولت اُسے فراہم کرنے کی پابند ہوتی ہے جو کسی مسلمان کو فراہم کرے گی۔ یاد رہے یہ ٹیکس غیرمسلمین پر اس لیے عائد ہوتا ہے کہ اُن پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے،جب کہ ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر مختلف حالتوں میں سالانہ زکوٰۃ، عشر و خمس فرض ہے) ۔
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے دوسری مخلوقات کی طرح انسان کو بھی جوڑے کی شکل میں پیدا کیا ہے۔ ان میں ایک جنس مرد، جب کہ دوسری جنس عورت ہوتی ہے۔ ان دونوں کی جسمانی ساخت، قوتِ برداشت ، کام کرنے کی صلاحیتیں، سوچنے سمجھنے، موسمی اثرات کا مقابلہ کرنے وغیرہ جیسی صفات مختلف رکھی ہیں تاکہ یہ دونوں ایک ساتھ مل کر معاشرہ تشکیل دیں۔ لہٰذا سارا دن محنت مزدوری کرکے بال بچوں کے لیے ضروریاتِ زندگی یعنی خوراک، لباس اور رہائش کا بندوبست کرنا مرد کے ذمہ لگایا ہے،جب کہ اپنے شوہر کے مال ، عزت و آبرو کی حفاظت کرنا، اپنے بچوں کی بہتر تربیت کرنا، خانگی معاملات کا انتظام کرنا عورت کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اگر کبھی دشمن سے مڈبھیڑ ہوجائے تو میدانِ جہاد میں دشمن سے اپنے گھر، بیوی، بچوں اور مستضعفین کی جان، مال، عزّت و آبرو کی حفاظت کے لیے لڑنا مرد کی ذمہ داری لگائی ہے اور عورت کو اس سے مبرّا رکھا ہے۔ اس سلسلے میں اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کی اجازت چاہی تو آپؐ نے فرمایا: جِهَادُكُنَّ الحَجُّ ’’یعنی تمھارا جہاد حج ہے‘‘۔(صحیح بخاری: ۲۸۷۵)
حج کے پوشیدہ راز
توحید باری تعالٰی کا عملی مظاہرہ:عقیدۂ توحید اسلام کا پہلا عقیدہ ہے اور اس کا تعلق دل سے ہے اور دل چیر کر کسی کو دکھایا نہیں جاسکتا کہ اس میں کیا کچھ موجود ہے، لیکن اگر اس عقیدہ کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو حج کے موقع پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک حاجی دُور دراز کے سفر کی مشقتیں برداشت کرتا ہے اور وہ مال جو اُسے اپنی زندگی سے بھی زیادہ پیارا ہوتا ہے، جس کے لیے بھائی بھائی کا گلا کاٹنےپر آمادہ ہوجاتا ہے، حقِ وراثت دبانے کے لیے بھائی بہنوں کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ لیکن ایک حاجی اسی مال کو اللہ کی خوشنودی کی خاطر حج کی ادائیگی کےلیے خوشی خوشی خرچ کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے، تاکہ اُس کا ربّ اُس سے راضی ہوجائے۔ لہٰذا حج میں سب سے پہلا چھپا راز یہی ہے کہ اس میں توحیدِ باری تعالیٰ کا عملی مظاہرہ نظر آتا ہے۔
درسِ اجتماعیت:یوں تو اراکینِ اسلام کلمۂ توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج درسِ اجتماعیت سے خالی نہیں ہوتے، بلکہ یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ اجتماعیت کی تربیت دینا بھی ان کا ایک مقصد ہے۔ لیکن حج میں پائی جانے والی اجتماعیت اُمت کو وہ بھولا ہوا سبق یاد دلاتی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو سکھایا ہے جس کے راوی حضرت نعمانؓ بن بشیر ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مومنوں کی آپس میں ایک دوسرے سے محبت و مودّت اور باہمی ہمدردی کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے، تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے، بایں طور کہ نیند اُڑ جاتی ہے اور پورا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘۔ (متفق علیہ، صحيح مسلم ۲۵۸۶)
افسوس صد افسوس! اسلام کے بتائے ہوئے دیگر اسباق کی طرح حج کے موقع پر مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع اپنی روح سے خالی نظر آتا ہے اور خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے مسلمان تتر بتر ہیں، باہمی اختلافات میں الجھے ہوئے ہیں اور کیفیت نفسا نفسی کی ہے۔ یہی و جہ ہے کہ ماضی قریب اور عصر حاضر میں بوسنیا، چیچنیا، شام، لیبیا، عراق، افغانستان، برما، کشمیر اور فلسطین کی تباہی ہمارے سامنے ہے۔ لہٰذا حج کے چھپے رازوں میں سے ایک راز یہ ہے کہ اُمت متحد ہو ، ان کے دل ایک دوسرے کے لیے دھڑکیں اور یہ ایک قوت نظر آئیں۔
احرام :احرام حج کا پہلا فرض ہے ، جس کے بغیر حج ہو ہی نہیں سکتا۔ احرام کا باندھنا دراصل انسان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خطبہ حجۃ الوداع میں کی گئی وہ نصیحت یاد دلاتا ہے کہ کسی امیر کو غریب پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر برتری حاصل نہیں سوائے تقویٰ کے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بادشاہ ہو کہ فقیر، عربی ہو یا عجمی، بڑے سے بڑے حسب نسب والا ہو یا عام سا انسان، سب کا لباس ایک ہی ہوتا ہے، کوئی کسی میں تمیز نہیں کرسکتا۔ پھر دوسری طرف یہی احرام انسان کو اُس کی اوقات یاد دلاتا ہے کہ جب وہ اس دنیا میں آیا تھا تو وہ خالی ہاتھ اور خالی لباس تھا اور جب اس دنیا سے جائے گا تو خالی ہاتھ ہی جائے گا اور اُس کو مل سکیں تو لٹھے کی دو چادریں ملیں گی جن میں لپٹ کر وہ مٹی کے گڑھے میں جا لیٹے گا۔ یہ لٹھے کی چادریں بھی اس لیے کہ اللہ سبحان اللہ تعالیٰ حیاء دار ہے۔ اُس کی حیاء کا تقاضا ہے کہ جو انسان زندگی بھر اپنے جسم کی برہنگی کو چھپاتا پھرا، موت کے بعد اُس کے ربّ کو بھی اُس کی برہنگی گوارا نہیں۔
طواف کعبہ:بیت اللہ کے طواف پر اکثر کفّار پرچار کرتے ہیں کہ مسلمان بھی بُت پرستوں کی طرح ایک پتھر ہی کو پوجتے ہیں۔ لیکن ایک حاجی جب بیت اللہ کے گرد چکر لگا رہا ہوتا ہے تو وہ کسی پتھر کی پوجا نہیں کررہا ہوتا بلکہ اپنے ربّ کے بتائے ہوئے حکم کی پیروی کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ حکم اُس کے ربّ نے اُسے دیا ہوتا ہے۔ اور یہ حکم اُس کے ربّ نے کیوں دیا تاکہ اُمت ایک مرکز پرجمع ہوسکے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّۃَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ۹۶(الِ عمرٰن۳: ۹۶)’’بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی ہے اور تمام جہان والوں کے لیے مرکز ِہدایت بنایا گیا‘‘۔ لہٰذا مشرق سے یا مغرب سے، شمال سے یا جنوب سے جہاں سے بھی کوئی حاجی عمرہ یا حج کی نیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوگا تو وہ ایک مرکز پر جمع ہو کر ایک ہی طریقہ سے خانہ کعبہ کے گرد گھومے گا، اور مرکزیت برقرار رکھنے کے لیے اس کے گرد سات چکر لگائے گا۔ ان چکروں کو کم یا زیادہ کرنے کا بھی اُس کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔
زمزم کا پینا :ایک حاجی طواف سے فارغ ہو کر دو رکعت نفل کی ادائیگی کرتے ہوئے اپنے ربّ کا ایک مرکزیت پر اکٹھا ہونے کا شکر ادا کرتا ہے ، بعد ازاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق زم زم کے پانی سے اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ اِس زمزم کے پینے میں ایک راز پوشیدہ ہے اور وہ ہے اللہ پر توکّل کرنا۔ کہ کس طرح ایک ننھی سی جان بے آب و گیاہ وادی میں پیاس سے بلبلا رہی تھی اور اُس پیاس کی شدت سے اپنی ایڑیاں زمین پر رگڑ رہی تھی، اُس ننھی سے جان کی ماں کی مامتا جوش مارتی ہے، اس کے باوجود کہ وہ جانتی ہے کہ ان سنگلاخ پہاڑوں میں دُور دُور تک پانی کا نام ونشان نہیں ہے۔ وہ اپنے ربّ سے دُعا کرتی ہے کہ وہ اس کے بچے کےلیے پانی عطا فرمادے۔ یہ توکّل علی اللہ کی اعلیٰ مثال تھی۔ لہٰذا زمزم کا پینا ایک حاجی کو توکّل علی اللہ کا درس دیتا ہے۔
صفا و مروہ کی سعی: حضرت اسماعیل علیہ السلام کا پیاس کی شدت سے زمین پر ایڑیاں رگڑنا اور ممتا کی ماری ماں حضرت ہاجرہؑ کا ربّ سے دُعا کرنا، یقیناً اللہ پر توکّل کی اعلیٰ مثال ہے جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔ لیکن حضرت ہاجرہؑ نے صرف دُعا ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انھوں نے اس دُعا کے ساتھ ہی اسباب کی تلاش شروع کردی ، چنانچہ انھوں نے صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا کی جانب دوڑنا شروع کردیا اور جیسے ہی وہ نشیب میں پہنچتیں تو انھیں سامنے حضرت اسماعیل ؑ جان کنی کی حالت میں ایڑیاں زمین پر رگڑتے ہوئے نظر آتے اور وہ اُس جگہ سے تیزی سے دوڑنا شروع کردیتیں، جس کی پیروی میں آج حاجی بھی ہری بتیوں کے دوران دوڑتے ہیں۔ لہٰذا صفا و مروہ کی سعی میں یہ راز پنہاں ہے کہ ایک مسلمان کو اپنے اُمور و حاجتوں کے لیے اللہ سے دعائیں کرکے سکون سے بیٹھ جانا نہیں چاہیے۔
منٰی میں قیام :گو کہ ایک مسلمان اللہ، اس کے رسولوںؑ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے لیکن انسان ہوتے ہوئے یہ ایک فطری تقاضا ہے کہ وہ مشاہدہ کرنا چاہتا ہے کہ اس دنیا کی حقیقت اپنے مشاہدے سے جانے۔ اس کی حقیقت کو سمجھانے کےلیے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے حج کے افعال میں منٰی کا قیام رکھ دیا ہے کہ انسان دیکھے کہ منیٰ کی وادی حج سے پہلے ایک بنجر میدان اور چھوٹی بڑی چٹانوں کا مجموعہ نظر آتی ہے۔
جس طرح منٰی کی شان و شوکت اور رنگینی عارضی ہے بالکل اسی طرح اس دنیا کی ساری شان و شوکت اور رنگینیاں بس ایک صُور پھونکے جانے کی محتاج ہیں۔ یہ وہ راز ہے جسے سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ حاجیوں کو ۸ ذو الحجہ سے ۱۲ ذوالحجہ تک منیٰ میں قیام کروا کر تجربہ کراتا ہے اور دنیا میں بسنے والے دیگر انسان اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
وقوفِ عرفہ:مسلم اُمہّ کے ایمان کا حصہ ہے کہ وہ روزِ حشر اللہ کے حضور اکٹھے ہوکر اپنے اعمال کا حساب کتاب دینے پر یقین رکھیں۔ عرفات کے قیام میں ایک حاجی کو ایسے عمل سے گزارا جاتا ہے کہ سب حجاج رنگ و نسل سے ماورا، معاشرتی طبقات کو پسِ پشت ڈال کر، جغرافیائی حدود کے فرق کو مٹا کر، ایک میدان میں جمع ہوں اور اپنے ربّ کے آگے اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوتے ہوئے گڑ گڑا کر معافی طلب کریں اور آیندہ گناہوں سے بچنے کا عہد کریں۔ اُس میدان میں انھیں صرف ایک ہی کلمہ یاد رہتا ہے اور وہ ہے: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ، یعنی انھیں اُس میدان میں ہرطرف اللہ نظر آرہا ہوتا ہے، اس کی جلالت نظر آرہی ہوتی ہے۔ اسی لیے ہر حاجی اس کے سامنے حاضر ہونے کے تصور کو زندہ کرتا ہے اور اُس کی کبریائی بیان کرتا ہے۔
مزدلفہ میں قیام :وقوفِ عرفہ کی تکمیل پر حجاج جب منیٰ واپس لوٹتے ہیں تو اُن کا رات کا قیام راستے میں آنے والے مقام مزدلفہ میں کھلے آسمان کے نیچے ہوتا ہے۔ مزدلفہ وہ مقام ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے کچھ ہی عرصہ پہلے خانہ کعبہ کو ڈھانے کےلیے یمن سے ہاتھیوں پر آنے والے متکبر بادشاہ ابرہہ کے لشکر کو اللہ کے حکم سے چھوٹی چھوٹی ابابیلوں نے کنکرنما میزائیلوں سے حملہ کرکے زمین بوس کر دیا تھا۔ جس کی شہادت قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دیتے ہوئے فرمایا ہے: اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ۱ۭ اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَہُمْ فِيْ تَضْلِيْلٍ۲ۙ وَّاَرْسَلَ عَلَيْہِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ۳ۙ تَرْمِيْہِمْ بِحِـجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ۴۠ۙ فَجَــعَلَہُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ۵ۧ (الفیل۱۰۵:۱ تا۵) ’’تم نے دیکھا نہیں کہ تمھارے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا اُس نے اُن کی تدبیر کو اکارت نہیں کر دیا؟ اور اُن پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے جو اُن کے اُوپر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے، پھر اُن کا یہ حال کر دیا جیسے (جانوروں کا) کھایا ہوا بھوسا‘‘۔
لہٰذا حاجیوں کو مزدلفہ میں کھلے آسمان کے نیچے قیام اس لیے کرایا جاتا ہے کہ وہ آٹھ ذو الحجہ سے جس کلمہ کو چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، تنہائیوں میں اور مجمعوں میں بلند کررہے ہیں، اُس کی حقیقت کو پہچانیں کہ وہی تمام بڑائیوں کا مالک ہے، وہی رات اور دن پیدا کرتا ہے، وہی موسم کو سرد اور گرم کرتا ہے، وہی زمین سے اپنی مخلوق کے لیے رزق نکالتا ہے، وہی ہے جو پوری کائنات کا خالق ہے، وہ جس کام کا ارادہ کرلیتا ہے بس اُس کےلیے ہوجا (کُن) کہہ دیتا ہے اور پھروہ ہوجاتا ہے (فیکون) ۔ لہٰذا جب ساری قوتوں کا مالک وہی ہے، سب کچھ کرنا ہی اُس نے ہے تو پھر حضرتِ انسان کون ہوتا ہے جو اُس کی زمین پر اپنی من مانی کرے۔
رمی جمرات:مزدلفہ میں رات گزارنے کے بعد صبح فجر کی ادائیگی کرکے حجاج مزدلفہ سے منیٰ کی جانب روانہ ہوتے ہیں، جہاں اُنھوں نے سنتِ ابراہیمیؑ کی پیروی کرتے ہوئے جمرات پر رمی کرنی ہے یعنی علامتی شیطان کو کنکریاں مارنی ہیں۔ یہ کنکریاں مارنا اُس واقعہ کی یاد دلاتی ہیں کہ جب حضرت ابراہیمؑ اپنے ربّ کے حکم کی ادائیگی کےلیے اپنے بیٹے اسماعیلؑ کو قربان گاہ لے جارہے تھے تو شیطان حضرت اسماعیل ؑ کو بہکانے آدھمکا تھا، جس پر انھوں نے اپنے بابا ابراہیمؑ کو بتایا تو انھوں کنکریاں اُٹھا کر اللہ اکبر کے نعرہ کے ساتھ اُسے وہیں زمین بوس کردیا تھا۔ حج کے دوران اس سنت پر عمل ہمیں زندگی بھر، شیطان کی پیروی سے نجات کا درس دیتا ہے۔
قربانی: رمی سے فراغت کے بعد حجِ قِران و حجِ تمتع کرنے والے حجاج کو قربانی کرنی ہوتی ہے۔ یہ قربانی دراصل حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کے ساتھ حضرت ہاجرہؑ کی قربانی کی یاد دلاتی ہے۔ کیونکہ حضرت ابراہیم ؑ کو بڑھاپے کی انتہا پر ایک بانجھ بیوی کے ساتھ بیٹا (اسماعیلؑ) عطا کیا گیا اور جب وہ بڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے خواب میں حضرت ابراہیمؑ کو دکھایا کہ وہ اپنے اس لختِ جگر کو اللہ کی راہ میں ذبح کر رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے اور اُس کی ماں حضرت ہاجرہؑ سے اپنا خواب بیان کرکے ان کی رضا حاصل کی اور اسے اللہ کا حکم سمجھ کر بلا چون و چرا اپنے لخت جگر کے گلے پر چھری چلا دی ، لیکن رحمتِ الٰہی جوش میں آئی اور اللہ نے اسماعیلؑ کی جگہ ایک مینڈھے کی قربانی بھیج کر اُنھیں اس سخت ترین آزمائش سے نکالا (الصّٰفّٰت ۳۷: ۱۰۲-۱۰۷)۔ لہٰذا ہر قربانی کرنے والے حاجی کو یہ قربانی اُس کی رُوح کے مطابق کرنی لازم ہے، جس میں وہ اپنے اللہ سے عہد کرے کہ اپنی باقی ماندہ زندگی میں جہاں ضرورت پڑی وہ اللہ کی راہ میں کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرے گا۔ اب یہ قربانی اُس کے مال کی ہو، اُس کے وقت کی ہو، اُس کی صلاحیتوں کی ہو، اللہ کے حکم کے آگے آڑے آنے پر اُس کی رائے کی ہو، رسم و رواج کی ہو، یا اُس کی انانیت کی ہو، سب کچھ اللہ کے حکم کے آگے ڈھیر کردے گا۔
بال ترشوانا یا سر منڈوانا :قدیم زمانے میں انسانوں کی خرید و فروخت عام تھی اور جب کوئی انسان کسی انسان کی غلامی سے کسی بھی طرح آزاد ہوتا تھا تو وہ علامتی طور پر اپنے سر کے بال منڈوالیتا تھا۔ حج کے افعال میں سے ایک فعل سر کے بال کٹوانا یا منڈوانا بھی ہے۔ عمرہ یا حج کے اعمال کے طور پر سر کے بال منڈوانے والے کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار رحمت کی دُعا کی۔ لہٰذا حج کے دوران بال منڈوانا اس بات کی علامت ہے کہ ایک حاجی اعلان کر رہا ہے کہ اب وہ اس دنیا میں اللہ کے سوا ہر کسی کی غلامی سے آزاد ہوگیا ہے۔ اب نہ تو وہ اللہ کے آگے معاشرے کے رسم و رواج کی غلامی کرے گا، نہ اپنی خواہشاتِ نفسانی کی غلامی کرے گا، نہ مال کی غلامی میں مبتلا ہوگا۔
دوسرے احرام کی حالت میں پراگندہ اور غبار آلود رہ کر بارگاہِ عالی میں حاضر ہونے کا حکم تھا، اور احرام کے بعد صاف ستھرا رہنا پسندیدہ ہے، تو بالوں کو کاٹنے میں ان پراگندہ بالوں سے مکمل صفائی اور ایک حالت سے دوسری حالت کی تبدیلی بدرجہ اتم موجود ہے۔
تیسرے یہ کہ احرام کی حالت میں بال توڑنے پر پابندی تھی اب ان تمام یا بیش تر بالوں کو کاٹ کر اس حد بندی کے خاتمہ کی تعلیم خود پابندی لگانے والی شریعت ہی نے دے دی کہ عمرہ اور حج کے اعمال سے فارغ ہونے سے پہلے احرام کی حالت میں بال رکھنا، عبادت اور عمرہ اور حج کے اعمال سے فارغ ہونے کے بعد اب ان کاکاٹنا عبادت ہے۔
لہٰذا اس عمل میں پوشیدہ سبق یہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی جائز کام سے رُکنے کا کہیں تو فوری رُک جانا چاہیے اور جب وہ کسی کام کو کرنے کا حکم دیں تو بے چون و چرا اُن کے حکم کو بجا لانا چاہیے۔ اگر ایک حاجی حج کے بعد والی زندگی میں ایسا نہ کرے تو اُس نے حج کی شکل ضرور بنا لی لیکن اُس کی حقیقی روح کو نہ پا سکا۔
احرام کا اتارنا :احرام کا اُتارنا اس بات کی علامت ہے کہ اے حاجی! تیری تربیت کا عمل اب مکمل ہوا چاہتا ہے اور اب ایک بار پھر تو نے دنیا کی طرف لوٹنا ہے اور اس دنیا میں اس پورے حج کے دوران ہونے والے ایک ایک عمل میں چھپے رازوں کا علم ہوجانے کے بعد اپنے ربّ کے احکامات کی مکمل بجا آوری کرنی ہے، اور بالکل اسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں اُسوۂ نبوی ؐ کو مقدم رکھنا ہے جیسے حج کے ایک ایک عمل میں سنت نبوی ؐکے مطابق عمل کرتا رہا۔ اگر تو ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو تجھے حجِ مبرور مبارک ہو، اجر کے طور پر اس کے صلے میں ملنے والے تمام انعامات و اکرامات تیرے منتظر ہیں خاص طور پر اللہ کی رضا!