جون ۲۰۲۵

فہرست مضامین

حضرت ابراہیم ؑ کی صفات

محمد معاذ | جون ۲۰۲۵ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

قرآنِ حکیم نے انسانی تاریخ کی چند ایسی شخصیات کا ذکر کیا ہے، جو رہتی دنیا تک قابلِ تقلید نمونہ ہیں۔ یہ ہیں وہ سعید روحیں جن کے نقشِ قدم پر چل کر اولادِ آدم دونوں جہاں میں کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔ ایسی ہی نمایاں شخصیات میں ایک مرکزی نام ابوالانبیا حضرت ابراہیم ؑ ہیں جن کا ذکر قرآنِ حکیم میں باربار ہوا ہے۔قرآنِ حکیم حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی اور ان کے طریقے کی اِتباع کا حکم ان الفاظ میں دیتا ہے: ’’اے نبیؐ! کہو ،میرے ربّ نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیم ؑ کا طریقہ جسے یک سُو ہوکر اس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا‘‘۔(الانعام ۶:۱۶۱) 

قرآنِ حکیم نے حضرت ابراہیم ؑ کی چند نمایاں خوبیوں کا ذکر کیا ہے، تاکہ اُمت مسلمہ کے افراد ان اوصاف کو اپنے اندر پروان چڑھا سکیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کے اوصافِ عالیہ کا ذکر ذیل کی سطور میں کیا جا رہا ہے: 

۱- صدیق (راست باز): سورئہ مریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اس کتاب میں ابراہیم ؑ کا قصہ بیان کرو، بے شک وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی ؑ تھا‘‘۔ (مریم۱۹:۴۱) 

مولانا محمد جونا گڑھیؒ نے ’صدیق‘ کا ترجمہ ’بڑی سچائی والا‘ کیا ہے۔ اس آیت ِ مبارکہ کی تفسیر مولانا صلاح الدین یوسف نے ان الفاظ میں کی ہے: ’’صدیق، صدق (سچائی) سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ بہت راست باز، یعنی جس کے قول و فعل میں مطابقت اور راست بازی اس کا شعار ہو۔ صدیقیت کا یہ مقام نبوت کے بعد سب سے اعلیٰ ہے۔ ہرنبی اور رسول بھی اپنے وقت کا سب سے بڑا راست باز اور صداقت شعار ہوتا ہے، اس لیے وہ صدیق بھی ہوتا ہے‘‘۔ (احسن البیان، ص ۷۳۵) 

اس آیت ِ کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ ایسے خیرالبشر کا تذکرہ کرتے رہو، جس کی ساری زندگی حق کی گواہی میں گزری، جس کا ہرلمحہ اللہ کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہوئے گزرا۔ ذکر کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اُن اوصاف ِ عالیہ کو اپنے اندر پروان چڑھایا جائے جو حضرت ابراہیم ؑ کے اندر تھے، اور جن میں نمایاں وصف ’صدیق‘ ہے۔ رحمٰن کے بندوں کی یہی خوبی سورۃ الفرقان میں اس طرح بیان کی گئی ہے: ’’(اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے‘‘ (الفرقان۲۵:۷۲)۔ جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے سے مراد یہ ہے کہ نہ تو وہ کسی غلط کام میں حصہ لیتے ہیں اور نہ کسی غلط اور لایعنی مشغلے کی حوصلہ افزائی ہی کرتے ہیں، بلکہ ان کا پورا کردار صداقت و دیانت سے عبارت ہوتا ہے۔ 

۲- منیب (پلٹنے والا):بندئہ مومن کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ باربار اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہے اور اپنے ربّ کے سامنے روتا اور گڑگڑاتا ہے تاکہ اس کا مالکِ حقیقی اس سے راضی رہے۔ سورئہ ہود میں حضرت ابراہیم ؑ کی یہ صفت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: ’’حقیقت میں ابراہیم ؑ، بڑا حلیم اور نرم دل آدمی تھا اور ہرحال میں ہماری طرف رجوع کرتا تھا‘‘۔ (ھود ۱۱:۷۵) 

آیت میں اصل لفظ ’منیب‘ آیا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا رضی الاسلام ندوی لکھتے ہیں کہ ’ منیب‘ نوب سے مشتق ہے۔ اس کےمعنی ہیں: کسی چیز کا بار بار پلٹنا۔ شہد کی مکھی کے لیے عربی زبان میں ایک لفظ نوب بھی آتا ہے۔ اس کی وجۂ تسمیہ یہ ہے کہ وہ باربار اپنے چھتے کی طرف پلٹ کر آتی ہے۔ اللہ کی طرف انابت کا مطلب ہے توبہ و استغفار کے ذریعے اس کی طرف رجوع ہونا اور اخلاص کے ساتھ اس کے حکموں کو بجا لانا۔ (امام انسانیت، ص۱۵۳) 

دراصل توبہ اور ’انابت‘ مومنین کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو ہے، کیونکہ ان کی ہرسرگرمی کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہوتا ہے۔ سورئہ توبہ میں جن لوگوں کو بشارت دی گئی ہے، ان کی نمایاں خوبیاں یہ بتائی گئی ہیں: ’’اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے، اس کی بندگی بجالانے والے، اس کی تعریف کے گُن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے، اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے، اور اے نبیؐ، ان مومنوں کو خوش خبری دے دو‘‘۔(التوبہ ۹:۱۱۲) 

گویا مومنین کا معاملہ اس پروانے کا سا ہوتا ہے، جس کی زندگی شمع کا طواف کرتے کرتے ختم ہوجاتی ہے۔ جو ایک لمحہ بھی شمع کے نُور سے اپنے آپ کو جدا نہیں کرسکتا۔ 

۳- مسلم (فرماں بردار):حضرت ابراہیم ؑ کی نمایاں ترین صفت یہ تھی کہ وہ اپنے ربّ کی اطاعت میں کمربستہ رہتے تھے۔ ربِ کائنات کے ہرحکم کو بجا لانے کی فکر ان کی زندگی کی اصل فکر تھی۔ قرآن گواہی دیتا ہے کہ: ’’اس (ابراہیم ؑ) کا یہ حال تھا کہ جب اس کے ربّ نے اس سے کہا: ’’مسلم ہوجا‘‘ تو اس نے فوراً کہا: ’’میں مالکِ کائنات کا ’مسلم‘ ہوگیا‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۳۱) 

لفظ مسلم کی وضاحت مولانا صدرالدین اصلاحیؒ نے اس طرح کی ہے: ’’مسلم کے معنٰی ہیں اسلام والا۔’اسلام‘ کے معنی ہیں گردنِ اطاعت جھکا دینا۔ پس مسلم وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو بلاقید و شرط اللہ کی بندگی اور رضا کے حوالے کردے۔ اپنے جذبات پر، اپنے اعمال پر، اپنے افکار و نظریات پر اور اپنے ترک و اختیار پر اللہ تعالیٰ کے احکام و مرضیات کی بالادستی تسلیم کرلے‘‘۔(تیسیرالقرآن، ص ۱۶۹) 

واقعہ یہ ہے کہ اس کائنات کی ہرشے اللہ کے حکم کی تابع ہے۔ انسان کی خیر اسی میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو کائنات کی اس فطرت سے ہم آہنگ کرلے، تاکہ اسے فلاح نصیب ہو۔ قرآن اس حقیقت کا ادراک ان الفاظ میں کراتا ہے کہ: ’’پس یک سُو ہوکر اپنا رُخ اِس دین کی سمت میں جمادو، قائم ہوجائو، اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے‘‘۔ (الروم۳۰:۳۰) 

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’تمام انسان اس فطرت پر پیدا کیے گئے ہیں کہ ان کا کوئی خالق اور کوئی ربّ اور کوئی معبود اور کوئی حقیقی مطاع، ایک اللہ کے سوا نہیں ہے۔ اسی فطرت پر تم کو قائم ہوجانا چاہیے۔ اگر خودمختاری کا رویہ اختیار کرو گے تب بھی فطرت کے خلاف چلو گے، اور اگر بندگیِ غیرکا طوق اپنے گلے میں ڈالو گے تب بھی اپنی فطرت کے خلاف کام کرو گے‘‘۔ (تفہیم القرآن، سوم، ص ۷۵۲) 

۴- حنیف (یک سُو):حضرت ابراہیمؑ نے ایک ایسے معاشرے میں آنکھ کھولی، جو شرک و بُت پرستی میں ڈوبا ہوا تھا۔ لیکن ان کی طبیعت ان فرضی معبودوں کی گرویدہ نہیں ہوئی۔ اسرائیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بچپن ہی سے غوروفکر کے عادی تھے۔ اپنے والد سے جوکہ خود بھی پجاری و کاہن تھا، بعض چبھتے ہوئے سوالات پوچھ لیتے تھے۔ 

سورئہ مریم میں ہے کہ :’’اس نے اپنے باپ سے کہا کہ: ’’اباجان آپ کیوں ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں، نہ دیکھتی ہیں؟ اور نہ آپ کا کوئی کام بناسکتی ہیں؟‘‘ (مریم ۱۹:۴۲) 

معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم ؑ منطقی اور علمی نقطۂ نظر سے غوروفکر کیا کرتے تھے۔ کائنات میں غوروفکر کے نتیجے میں انھوں نے مشرکانہ رسوم و رواج، طرزِزندگی سے برأت کا اظہار کر دیا۔ قرآن کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ نے اعلان کیا: ’’مَیں نے تو یک سُو ہوکر اپنا رُخ اس ہستی کی طرف کرلیا، جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور مَیں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔ (الانعام ۶:۷۹) 

’حنیف‘ کی جمع حنفاء ہے۔ یہ اصطلاح ان سعید لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جوکہ شرک سے بے زاری کا اعلان کرچکے ہوں۔ ’شرک‘ ایک جامع اصطلاح ہے۔ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے سیّد قطب شہیدؒ رقم طراز ہیں: ’’ہروہ حالت یا کیفیت، جس میں زندگی کے تمام معاملات میں خالص خدائے واحد کی اطاعت و تابع داری نہ ہو، شرک ہے اور لا الٰہ الا اللہ کے منافی ہے۔ شرک کی شکل و ماہیت رُوبہ عمل آنے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ ایک شخص اپنی زندگی کے بعض گوشوں میں تو اللہ کی بندگی و اطاعت کرے، مگر دوسرے شعبہ ہائے حیات میں غیراللہ کی اطاعت کرے۔ مراسمِ عبودیت کی ادائیگی تو اطاعت و تابع داری کی بے شمار شکلوں میں سے صرف ایک شکل ہے۔ اس بابت ان دنوں انسانی معاشرے میں جو مثالیں پائی جاتی ہیں، ان سے ہمارے سامنے شرک کی حقیقی اور واقعی شکل اس طرح اُجاگر ہوتی ہے: ایک شخص جو خدائے واحد کی اُلوہیت پر یقین رکھتا ہے۔ پھر وضو، طہارت، نماز، روزہ، حج اور دیگر عبادات میں اللہ کے حکموں پر عمل کرتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اپنی زندگی کے معاشی، سیاسی اور معاشرتی اُمور میں غیراللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی پیروی کرتا ہے، تو وہ شرک کرتا ہے۔ (فی ظلال القرآن، جلدہفتم،ص ۱۰۱) 

حضرت ابراہیم ؑ نے جس ماحول میں دعوتِ حق کا فریضہ انجام دینا شروع کیا وہاں ستاروں کی پرستش زوروں پر تھی۔ علاوہ ازیں پروہتوں نے اپنے مکروفریب کا جال پھیلا رکھا تھا، جس میں بہت سے نادان پھنس کر اپنی دنیا و عاقبت خراب کر رہے تھے۔ ان حالات میں حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی داعیانہ تگ و دو اپنے وطن کے باہر بھی جاری رکھی۔چنانچہ وہ یہ دُعا مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں: ’’یاد کرو وہ وقت، جب ابراہیم ؑ نے دُعا کی تھی کہ :’’پروردگار! اس شہر (یعنی مکّہ)کوامن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بُت پرستی سے بچا‘‘ (ابراہیم۱۴:۳۵)۔اس دُعا سے یہ معلوم ہوا کہ شرک اور بُت پرستی کا جہاں بھی گزر ہوگا وہاں ظلم و زیادتی کا بازار گرم ہوجائے گا۔ امنِ عالم کے لیے شرک ناسور کی مانند ہے۔ 

۵- شاکر (شکر ادا کرنے والا):نعمتوں پر شکر ادا کرنا ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ اللہ کے برگزیدہ بندوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہرحال میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، یعنی وہ ان نعمتوں کا صحیح استعمال کرتے ہیں، جو ان کے ربّ نے انھیں عطا کی ہیں۔ 

قرآنِ حکیم میں ارشاد رباری تعالیٰ ہے کہ: ’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا‘‘ (الدھر ۷۶:۲-۳)۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ شکر اس رویے (attitude) کا نام ہے، جو کہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے، یعنی دینِ اسلام۔ 

حضرت ابراہیم ؑ کی ایک خوبی یہ بیان ہوئی کہ وہ: ’’اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا‘‘۔ (النحل ۱۶:۱۲۱) 

اس ضمن میں ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی لکھتے ہیں کہ ’’انعم جمع قلت کا صیغہ ہے۔ اس سے یہ لطیف اشارہ مقصودہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اس وقت بھی اللہ کے شکرگزار تھے، جب وہ زیادہ انعاماتِ الٰہی سے بہرہ ور نہیں ہوئے تھے۔ اگر کسی شخص پر انعام و اکرام کی بارش ہوجائے تب وہ اپنے محسن کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہو، اس میں کوئی ندرت نہیں ہے۔ قابلِ تعریف تو وہ شخص ہے،جو معمولی احسان کو بھی مانے اور قلیل نعمتوں پر بھی شکرگزار ہو‘‘۔ (امامِ انسانیت، ص ۱۵۴) 

شکرگزاری کا رویہ حضرت ابراہیم ؑ اپنی اولاد میں بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے اپنے ربّ سے دُعا کی کہ: ’’پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لابسایا ہے۔ پروردگار! یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تُو لوگوں کے دلوں کو اِن کا مشتاق بنا اور انھیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکرگزار بنیں‘‘۔ (ابراہیم ۱۴:۳۷) 

 ۵- حلیم (نرم دل و بُردبار):نفسِ انسانی کنٹرول میں رکھنا خاصا دشوار کام ہے۔ یہ صفت کہ ہر طرح کے حالات میں اپنے آپ کو قابو میں رکھا جائے انھی لوگوں کے حصے میں آتی ہے،جو کہ اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کردیتے ہیں۔ داعی حق کے لیے یہ وصف ناگزیر ہے۔ لفظ حلیم ’حلم‘ سے مشتق ہے۔ ’حلم‘ سے مراد یہ ہے کہ آدمی غصے کی حالت میں بھی اپنا آپ نہ کھو بیٹھے۔ اگر کوئی نادان شخص اس سے بدکلامی پر اُتر آئے تو قَالُوْا سَلٰــمًا کہہ کر آگے بڑھ جائے(الفرقان ۲۵:۶۳)۔  حلم و بُردباری کی یہ خوبی حضرت ابراہیم ؑ میں بدرجۂ اتم موجود تھی۔  

اس آیت کی تشریح سیّد قطب شہیدؒ نے اس طرح کی ہے: ’’یعنی وہ اللہ کے سامنے کثرت سے آہ و زاری کرنے والا، اور لوگوں کی اذیت برداشت کرنے والا تھا۔اس کے باپ نے اسے سخت تکلیف پہنچائی لیکن اس نے نہایت حلم و بُردباری کا مظاہرہ کیا اور جب اس پر یہ بات کھل گئی کہ وہ دشمنِ خدا ہے تو اس نے اس سے قطعِ تعلق کرلیا اور خدا کی بارگاہ میں اپنی غلطی پر رونے، گڑگڑانے لگا‘‘۔ (فی ظلال القرآن، جلدششم، ص ۷۴۷) 

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ ’حلیم‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حلیم اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہو، نہ غصے اور دشمنی اور مخالفت میں آپے سے باہر ہو، نہ محبت اور دوستی اور تعلقِ خاطر میں حد ِ اعتدال سے تجاوز کرجائے۔ (تفہیم القرآن، دوم، ص ۲۴۳) 

دوسرے مقام پر قرآنِ مجید نے یہ صراحت کی ہے کہ جو لوگ اللہ کی یاد سے غافل ہوتے ہیں وہ افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے افراد حلم و بُردباری جیسی صفات سے عاری ہوتے ہیں۔ لہٰذا قرآن اہلِ ایمان کو نصیحت کرتا ہے کہ: ’’کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے‘‘۔ (الکہف ۱۸:۲۸) 

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہ وہ اعلیٰ اوصاف ہیں جن کا ذکر قرآن کرتا ہے تاکہ اہلِ ایمان ان اعلیٰ اوصاف کو اپنا کر دنیا کے سامنے دینِ اسلام کے گواہ بن سکیں، اوریہ ثابت کرسکیں کہ: ’’اب کون ہے جو ابراہیم ؑ کے طریقے سے نفرت کرے؟ جس نے خود اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کرلیا ہو اس کے سوا کون یہ حرکت کرسکتا ہے؟ ابراہیمؑ تو وہ شخص ہے جس کو ہم نے دنیا میں اپنے کام کے لیے چُن لیا تھا اور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہوگا‘‘۔(البقرہ ۲:۱۳۰)