جون ۲۰۲۵

فہرست مضامین

تیونسی صدر ظالموں کے راستے پر

حافظ محمدعبداللہ | جون ۲۰۲۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

تیونس میں خصوصی ’فوجداری عدالت‘ نے جمعہ کی شب، صدر قیس سعید کے درجنوں سیاسی مخالفین کو ۱۳ سے ۶۶سال کی سزائیں سنادیں۔ سزا پانے والوں میں جناب راشد الغنوشی (رئیس تحریک نہضت)، عصام الشابی (سیکرٹری جنرل جمہوری پارٹی)، نجیب الشابی (اپوزیشن اتحاد جبھۃ الخلاص کے رہنما)، غازی الشواشی (سابق سیکرٹری جنرل ڈیموکریٹک موومنٹ) اور اپوزیشن کے ایک اور معروف رہنما جوہر مبارک سمیت تیونس کی نمایاں ترین سیاسی، صحافتی اور قانونی حلقوں سے وابستہ ۴۰ شخصیات شامل ہیں۔ 

ان سیاسی قیدیوں پر جو دو سال سے زائد عرصے سے حراست میں ہیں، حددرجہ سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن میں ریاستی سلامتی کے خلاف سازش ، ملکی و غیرملکی عناصر سے خفیہ روابط، صدرقیس سعید کا تختہ اُلٹنے کی کوشش، اور دہشت گرد گروہ تشکیل دینا شامل ہیں۔ ان سبھی سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات کی کارروائی آن لائن چلائی گئی۔ ساری عدالتی کارروائی عدل و انصاف کے ادنیٰ سے ادنیٰ تقاضوں سے یکسر خالی اور ’قانونِ انسداد دہشت گردی‘ اور ’فوجداری قانون‘ کے تحت سخت ترین ماحول میں انجام پائی، جس پر دُنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانون پسند حلقوں نے شدید تنقید کی ہے۔ 

۸۳برس کے جناب راشدالغنو شی گذشتہ دو برس سے جیل میں قید ہیں۔ یاد رہے، اس سے ہٹ کر ایک نام نہاد مقدمے میں انھیں پہلے ہی ۲۲برس قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ 

اپوزیشن رہنمائوں پر یہ مقدمہ دوخفیہ مخبروں کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے، جن کا نام آج تک دُنیا کے سامنے نہیں آسکا۔ اس سے پہلے ۲۰۲۳ء میں صدرقیس سعید بیان دے چکے ہیں: ’’جو جج قیدیوں کو بری کریں گے، وہ بھی شریک جرم سمجھے جائیں گے‘‘۔ 

جناب راشدالغنوشی عرب اور اسلامی دُنیا کے نمایاںترین مفکرین اور سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے ۱۹۷۰ء کے عشرے میں حزب النہضۃ  (تحریک ِ نہضت) کی بنیاد رکھی۔ سابق صدر حبیب بورقیبہ کے دور میں انھیں قید کیا گیا، اور پھر زین العابدین بن علی کے اقتدار میں جلاوطن کردیا گیا۔۲۰۱۱ء میں ’تیونسی انقلاب‘ کے بعد، وہ جلاوطنی ترک کرکے لندن سے واپس تیونس آئے، اور ان کی سیاسی جماعت نے آئین ساز اسمبلی کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی، جس کے نتیجے میں انھوں نے عبوری دور کے خدوخال متعین کرنے میں فعال حصہ لیا۔ 

بعدازاں انھوں نے دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ مفاہمت کی حکمت عملی اپنائی، جس کا نتیجہ مرحوم صدر باجی قائدالسبسی کے ساتھ اتحاد کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ دور انقلاب کے بعد کے اَدوار میں سب سے زیادہ مستحکم دور شمار ہوتا ہے۔ الغنوشی، ’مسلم جمہوریت‘ کا تصور کو پیش کرنے والے اوّلین اسلامی مفکرین میں سے ہیں۔ 

راشدالغنوشی ۲۰۱۹ء سے تیونس کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے منصب پر فائز رہے، اور ۲۵جولائی ۲۰۲۱ء کو جس وقت صدر قیس سعید نے پارلیمنٹ کو معطل کیا، تو الغنوشی نے بطور اسپیکر اسمبلی صدر کے اس اقدام کی کھل کر مذمت کی اور اس صدارتی اقدام کو دستوری اختیار اور ۲۰۱۴ء کے آئین کے خلاف بغاوت قرار دیا۔ 

صدر قیس سعید نے ۲۵جولائی۲۰۲۱ء کو وزیراعظم ہشام مشیشی کی حکومت کو برطرف کر دیا، پارلیمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ کو تحلیل کر دیا اور ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے وسیع تر اختیارات کے ساتھ ملک کا کنٹرول خود سنبھال لیا۔ بعدازاں صدر قیس سعید نے تیونس میں ایک نیا آئین نافذ کیا، جس کے تحت مزید اختیارات سمیٹ لیے۔ ۲۰۲۴ء کے صدارتی انتخابات میں رائے دہندگان نے ملکی تاریخ کے کم ترین شرح سے ووٹ ڈالے تھے ، جس کی بنیاد پر خود کو دوبارہ صدر منتخب قرار دے دیا۔