جون ۲۰۲۵

فہرست مضامین

’اسلامی‘ یا ’مسلم‘ جمہوریت اور الغنوشی

سعیدہ شریف | جون ۲۰۲۵ | مطالعہ کتاب

Responsive image Responsive image

’اسلام‘ ، ’جمہوریت‘ اور ’جدیدیت‘ ،معاصر اسلامی فکر کا مستقل مسئلہ رہا ہے۔ اس کے جوابات بھی مختلف اسلامی تحریکوں نے الگ الگ طریقے سے دیے ہیں۔ ان جوابات میں مفکرین اور محققین نے اسلامی تحریکوں کی حد بندی کی ہے۔ کچھ اسلامی مفکرین کہتے ہیں کہ ’اسلام اور جمہوریت میں توافق پیدا کیا جا سکتا ہے، جب کہ دوسرے اسلامی مفکرین کا خیال ہے کہ جمہوریت تو وہی ہے، جس کا ذکر قرآن میں ’شوریٰ‘ کے نام سے آیا ہے‘۔ یہ حضرات احادیث نبویؐ اور بعض فقہی آراء سے استشہاد کرتے ہیں جس کی رُو سے ’شوریٰ ‘واجب ہے۔ انھی میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو کہتے ہیں کہ جمہوریت اور شوریٰ ایک ہی چیز ہے۔ یہ لوگ دستورِ مدینہ سے استدلال کرتے ہیں کہ وہ انسانی تاریخ میں مشترک شہریت کا پہلا معاہدہ تھا کیونکہ اس میں انصاف، کثرتیت اور اقلیتوں کی حفاظت کی بات کی گئی تھی، نیز یہ کہا گیا تھا سب مسلمان ایک امت کا حصہ ہیں۔  

اس کے برعکس اسلامی مفکرین کی ایک جماعت ایسی بھی ہے، جو کہتی ہے کہ ’جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں اور دونوں جمع نہیں ہو سکتے ہیں‘۔ یہ لوگ دو جماعتوں میں تقسیم ہو گئے ہیں: ایک روایت پسند ہے اور دوسری جہاد پر مبنی سرگرمیوں کی قائل۔ یہ دونوں قرآن اور سنت سے اپنے موقف کا استشہاد کرتے ہیں کہ ’حقِ حکومت‘ اللہ کا ہے، عوام کا نہیں ہے اور قانون سازی کا حق صرف اللہ کو ہے، پارلیمنٹ کو نہیں ہے۔ پہلے فریق کا کہنا ہے کہ ’جمہوریت‘ اسلام کے سیاسی طاقت اور حکومت کے تصور سے ٹکرا رہی ہے، جب کہ دوسرا فریق فقہی مباحث سے آگے بڑھ کر عقیدے کی بات کرتا ہے کہ جمہوریت کفر ہے بلکہ وہ اسے موجودہ زمانے کا ’طاغوت‘ کہتا ہے۔ 

یہ آراء اور تصورات ’قابلِ تبدیلی‘ اور ’نا قابلِ تبدیلی‘ اعتقادات پر مبنی ہیں، جو سوسائٹی کے بدلتے ہوئے سیاسی فکر و نظریات سے متاثر ہیں اور جو دنیا بھر میں جمہوریت کے پچھلی صدی کے آٹھویں عشرے سے چلن کا نتیجہ ہے۔ ان آراء کی وجہ سے عربی اور دوسری زبانوں میں بہت کچھ شائع ہوا ہے، جس کا موضوع ہے: فکری تجدید، جدیدیت، جمہوریت، لبرلزم اور سیاسی اسلام وغیرہ۔ 

 یہ سلسلہ ’عرب بہار‘ کے بعد مزید تیز ہو گیا ہے، جس کے بعد عرب قومیں آزادی، عزّت، برابری، جمہوریت اور سیاسی زندگی میں خواتین کے کردار کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ان مسائل پر لکھنے والوں میں عالم اسلام کے کچھ مشہور سیاسی رہنما اور مجتہد شامل ہیں۔ مثلاً سوڈان کے سیاسی و دینی مفکر اور قائد ڈاکٹر حسن عبداللہ الترابی (م: ۲۰۱۶ء) جنھوں نے السیاسۃ و الحکم: النظم السلطانیۃ بین الأصول و سنن الواقع (۲۰۰۳ء) اس وقت لکھی، جب وہ سوڈان کی حکومت کے ساتھ اختلاف کے باعث جیل میں بند تھے، حالانکہ خود اسی حکومت کو لانے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔ اُن لکھنے والوں میں تیونس کی تحریک نہضہ کے قائد راشد الغنوشی [پ:۲۲جون ۱۹۴۱ء]بھی شامل ہیں، جو اپنے ملک میں سیاسی اختلاف کی وجہ سے ۲۰۲۳ء سے جیل میں قید ہیں۔ انھوں نے الحریات العامۃ فی الدولۃ الاسلامیۃ  کتاب لکھی، جس کی پہلی جلد ۱۹۹۳ء میں شائع ہوئی اور دوسری جلد ۲۰۱۲ء میں۔ انھوں نے الدیمقراطیۃ وحقوق الانسان فی الاسلام بھی لکھی، جو مرکز الجزیرۃ برائے تحقیق اور الدار العربیۃ سے ۲۰۱۲ء میں شائع ہوئی۔  

  • راشد غنوشی اور اسلامی جمہوریت : راشد غنوشی نے اپنی ۲۰ سے زیادہ کتابوں میں اسلام میں آزادی اور جمہوریت کے بارے میں واضح موقف اختیار کیا ہے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے ان افکار کو سیاسی طور پر تیونس میں پرکھا بھی ہے، جس کی وجہ سے عرب اور مغربی محققین کی نظر ان کی آراء پر مرکوز ہوئی ہے۔ ان محققین نے راشد غنوشی کے بارے میں اتنا کچھ لکھا ہے، جو کسی اور معاصر مسلم سیاسی مفکر کے بارے میں نہیں لکھا گیا ہے۔ ان میں جدید ترین کو شش امریکا کی میساچوسٹس یونی ورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر اینڈریو ایف مارچ کی ہے، جنھوں نے غنوشی کے ساتھ مل کر ان کے بارے میں On Muslim Democracy: Essays and Dialogues  کتاب لکھی ہے، جو اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس سے شائع ہوئی۔  

اس کتاب میں امریکی پروفیسر نے راشد غنوشی کےمتعدد عربی مقالوں کا انگریزی ترجمہ کیا ہے، اور کتاب میں غنوشی کے ساتھ ایک طویل انٹرویو بھی شامل ہے، جس میں انھوں نے اپنے فکری اور سیاسی سفر اور اس میں بڑی تبدیلیوں پر بات کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ کیسے ’اسلامی جمہوریت‘ سے ’مسلم جمہوریت‘ تک پہنچے۔ یہ ۲۸۴ صفحات پر مشتمل کتاب ہے۔ اس کے بارے میں ۱۸ مارچ کو پروفیسر اینڈریو مارچ نے شہر ’سلا ‘(مراکش) میں اسلام اور جمہوریت پر بات کرتے ہوئے ایک کانفرنس میں اظہار خیال کیا، جس میں ممتاز اہلِ قلم، سیاسی رہنمااور اہلِ فکر شریک تھے۔ اس موقعے پر غنوشی کے ایڈوائزر برائے امور خارجہ رضا ادریس بھی موجود تھے۔  

پروفیسر مارچ نے کہا: کتاب لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ میں حکومت اور آزادی کے متعلق اسلامی افکار سے دلچسپی رکھتا ہوں۔ شیخ غنوشی کی کتاب الحریات العامۃ فی الدولۃ الاسلامیۃ (اسلامی حکومت میں عمومی آزادیاں) پڑھنے کے بعد ان سے ’استخلاف‘ (خلافت)کے بارے میں مزید بات کرنے کی خواہش ہوئی کیونکہ اسلامی سیاسی فکر میں یہ تصور ایک بنیادی مقام رکھتا ہے۔ میں سمجھنا چاہتا تھا کہ کس طرح تقلیدی ’خلافت‘ کا نظریہ عصری جمہوری تبدیلیوں سے متاثر ہوا ہے، بالعموم عرب اور اسلامی ممالک میں ’عرب بہار‘ کی وجہ سے جو حالات پیدا ہوئے اور بالخصوص تیونس میں جہاں سے ۲۰۱۱ء میں ’عرب بہار‘ کی پہلی چنگاری پھوٹی تھی۔  

  • تحریکِ نہضہ: پروفیسر مارچ نے مقدمے میں کتاب لکھنے کا سفر بھی بیان کیا ہے۔ اس کی ابتدا انھوں نے ییل یونی ورسٹی کے تعاون سے غنوشی کی کتاب ’اسلامی ریاست میں عمومی آزادیاں‘ کے ترجمے سے کی۔ اس کے بعد انھوں نے غنوشی سے ملاقات کی اور تیونس کے جمہوری تجربے اور ’عرب بہار‘ کے بارے میں لکھا، جس کی کامیابی میں غنوشی کا بڑا ہاتھ تھا۔ انھوں نے اس وقت کے صدر جمہوریہ الباجی قائد السبسی کے ساتھ مل کر کام کیا۔  

 دوسری اسلامی تحریکوں کے برعکس ،تحریک نہضہ نے اپنے سیکولر مخالفین کے لیے بہت نرمی کا رویہ اختیار کیا، تاکہ تیونس میں سیاسی استحکام پیدا ہوسکے۔ تحریک نہضہ اس سے بھی آگے تک گئی اور واضح طریقے سے الیکشن جیتنے کے با وجود، ایک ٹیکنوکریٹ حکومت کے حق میں دست بردار ہوگئی ۔ یہی نہیں بلکہ تیونس کے آئین بننے کے تین سال بعد مئی ۲۰۱۶ میں تحریک نہضہ نے کافی اندرونی بحث و مباحثہ کے بعد اپنی دسویں کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ عصرحاضر میں اسلامی احیا کے اپنے طریق کار سے آگے بڑھ کر اب اپنی سیاسی فکر کو ’مسلم جمہوریت‘ کا نام دیتی ہے۔  

اسی کے ساتھ تحریک نہضہ نے مسلم ڈیموکریٹس کو دعوت دی کہ وہ یہ راستہ اپنانے کے لیے مکالمہ شروع کریں تاکہ اسلامی سوچ اور جدیدکاری میں کوئی ٹکرائو باقی نہ رہے۔ اس نئی سوچ کے بارے میں حالات پر نظر رکھنے والوں کا تجزیہ تھا کہ اس طرح تحریک نہضہ اپنے اس تاریخی اور نظریاتی راستے سے ہٹ گئی ہے، جس پر وہ ابتدا میں کار بند تھی۔  

پروفیسر مارچ نے کہا کہ غنوشی کی گرفتاری اور ان کے ساتھ اب تک کا معاملہ تیونس میں ڈیموکریٹک تجربے کو پیچھے لے جانے والا قدم ہے۔ یہ صورت حال اس چیلنج کو واضح کرتی ہے، جو ’اسلامی جمہوریت‘ کو نہ صرف سیاسی تجربے کے طور پر بلکہ ایک فکر کے طور پر بھی درپیش ہے،جب کہ اسلامی جمہوریت اسلامی فریم ورک میں کثرتیت اور آزادی پر یقین رکھتی ہے۔ پروفیسر مارچ نے کہا کہ اس سے پہلے بھی ’اسلامی جمہوریت‘ کے بارے میں لکھا گیا ہے، لیکن ان کی کتاب انگریزی میں اس موضوع پر پہلی کتاب ہے، جس میں بنیادی اُمور اور تحریک نہضہ کو پیش کیا گیا ہے، جس نے اسلامی تحریکی سوچ سے تجاوز کرتے ہوئے ’مسلم جمہوریت‘ کے مفہوم کی وضاحت کی ہے۔ یہ مفہوم روایتی اسلامی سیاسی فکر سے آگے بڑھ کر ایک قدم ہے۔  

اسلام اور جمہوریت کے درمیان تعلق  

  • کیا ’مسلم جمہوریت‘ صرف ایک سیاسی اصطلاح ہے یا وہ ایک مکمل فکر ہے جو اسلامی تحریکی فکر سے آگے کا ایک قدم ہے؟  
  • کیا ’مسلم جمہوریت‘ ایک سیاسی اسلامی آئیڈیالوجی یا نظریہ ہے؟  
  • ’مسلم جمہوریت‘ کس طرح سابقہ اسلامی سیاسی نظریے یا اسلامی تحریکی فکر سے الگ ہے؟  
  • ’مسلم جمہوریت‘ کس طرح غیر اسلامی ڈیموکریٹک نظریات سے الگ ہے جو کثرتیت اور پارلیمانی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں؟  
  • کیا یہاں معاملہ صرف الیکشن کے زمانے میں سیاسی مارکیٹنگ کا ہے یا یہ ’اسلامی جمہوریت‘ کی مخالفت کرنے والی سیاسی پارٹیوں کے خلاف اسٹرے ٹیجک فیصلہ ہے؟  

یہ وہ سوال ہیں جن پر پروفیسر مارچ نے اس کتاب میں گفتگو کی ہے اور اس کے لیے انھوں نے ’مسلم جمہوریت‘ کی اصطلاح کی تشریح کی غرض سے راشد غنوشی کے ۱۰ مقالات کا ترجمہ کیا ہے اور ان سے تفصیلی گفتگو بھی کی ہے، جس سے اس نظریے کی وضاحت ہوتی ہے۔ اس گفتگو سے پچھلے چالیس برسوں کے درمیان غنوشی کے بحیثیت سیاسی لیڈر پر روشنی پڑتی ہے۔  

راشد غنوشی نے اپنی سیاسی زندگی کی ابتدا ایک سیکولر اور قوم پرست لیڈر کے طور پر کی تھی اور دھیرے دھیرے نہضہ پارٹی کے ذریعے اسلامی تحریک میں شامل ہوئے تھے۔ اس دوران ان کو پریشانیوں، گرفتاریوں اور تعذیب کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلی صدی کے نویں عشرے میں ان کی پھانسی کا دو بار حکم صادر ہوا، جس کی وجہ سے وہ ۱۹۸۹ء سے لے کر ۲۰۱۱ء تک جلاوطن کے طور پر لندن میں مقیم رہے ،کیونکہ ان کے خیالات اور نظریات ان کے مخالفین کو نا پسند تھے۔ خصوصاً اس لیے کہ انھوں نے ایک نیا فکری ماڈل پیش کیا تھا، جس سے سیاسی اور اجتماعی تبدیلی کے خواہش مند مسلم ممالک کو ایک راستہ نظر آتا ہے۔  

اس کے برعکس غنوشی کے سیاسی مخالفین، یقین رکھتے ہیں جن میں اسلامی حرکیات سے تعلق رکھنے والے بعض پُرجوش حضرات اور سیکولر دونوں شامل ہیں کہ اسلامی تحریکی فکر اور جمہوریت کو ایک دوسرے سے قریب لانا ممکن نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جمہوریت کا اسلامی حرکی پہلو یا اسلامی تحریکوں کا جمہوریت کے ذریعے اقتدار میں آناایک وقتی حربہ ہے تاکہ یہ لوگ حکومت پر قبضہ کرسکیں اور اس کے بعد یہ لوگ جمہوریت اور جمہوری قدروں کے خلاف بغاوت کر کے تاریخی اسلامی خلافت جیسی حکومت قائم کریں۔ مگر ان لوگوں کے برعکس تحریک نہضہ نے جمہوریت، سماجی امن و سلامتی اور وطن کی خاطر، حکومت میں سیاسی شرکت سے کنارہ کشی کا راستہ اپناکر دکھایا تھا۔ 

پروفیسر مارچ کے خیال میں غنوشی صرف ایک سیاسی لیڈر نہیں ہیں بلکہ وہ ایک مفکر اور مجدد ہیں، جنھوں نےاسلامی سیاسی روایت اور جدید جمہوریت کے درمیان قربت تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس گفتگو سے سیاسی کثرتیت، حقوق، آزادیاں، بالخصوص عقیدے اور ضمیر کی آزادی ، عوامی حکومت اور انصاف کے بارے میں غنوشی کے افکار واضح ہوتے ہیں۔  

  • اسلامی جمہوریت سے ’مسلم ڈیموکریسی‘ کی طرف: تیونس کا تجربہ دوسرے ممالک مثلاً ترکیہ، ملائشیا اور پاکستان وغیرہ سے مختلف ہے۔ ان کا تقابل راشد غنوشی کی فکر سے کرتے ہوئے پروفیسر مارچ ’اسلامی جمہوریت‘ اور ’مسلم ڈیموکریسی‘ کے درمیان فرق واضح کرتے ہیں۔ ’اسلامی جمہوریت‘ ریاست پر ایک اسلامی ماڈل نافذ کرنا چاہتی ہے،جب کہ ’مسلم ڈیموکریسی‘ کثرتیت کو ایک سیاسی حقیقت کے طور پر تسلیم کرتی ہے، جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پروفیسر مارچ نے بتایا ہے کہ تیونس کے تجربے نے اس تبدیلی کو ایک حقیقت کے طور پر پیش کیا ہے جس کے تحت سیکولر، لبرل اور بائیں بازو کی پارٹیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی بنیاد پر ایک زیادہ لچک دار طریقۂ کار اپنانا پڑتا ہے تاکہ سوسائٹی میں بہت سی مشکلات سے بچا جا سکے۔ اس کا بنیادی عنصر آزادی کا التزام ہے۔  

غنوشی کے خیال میں ’’آزادی صرف ایک لبرل قدر (value ) نہیں ہے بلکہ وہ کسی اخلاقی اور دینی عمل کے لیے ایک بنیادی شرط ہے اور دینی فضیلت کو حقیقی آزادی کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اسی کے ساتھ غنوشی سیاسی کثرتیت کاگہرے طور پر اعتراف کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں سیاسی کثرتیت کوئی جادو کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سیاست کی حقیقت کوسمجھنے کا مسئلہ ہے۔ انھوں نے اشارہ کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دستورِ مدینہ بنایا اور نافذ کیا، جو اسلامی حکومت کی تاریخ میں پہلا سول دستور تھا۔ غنوشی کے خیال میں دستورِ مدینہ کثیرقومی ریاست کا سیاسی و انتظامی ماڈل تھا، جس میں سوسائٹی کے مختلف عناصر شہری انتظامی مصلحتوں کی بنیاد پر حکومت بناتے ہیں، نہ کہ دین یا عقیدے کی بنیاد پر۔  

پروفیسر مارچ کا کہنا ہے: برسوں کے سیاسی سفر کے دوران غنوشی،ایک خیالی، مثالی مرحلے سے نکل کر سیاسی واقعیت کے مرحلے میں داخل ہوئے اور ان کی سوچ زیادہ واضح ہو گئی کیونکہ وہ تجربے سے اس نتیجے پر پہنچے کہ سیاست میں مثالیت نہیں چلتی بلکہ مصلحتوں کے درمیان موافقت پیدا کرنی ہوتی ہے اور مسائل کو کم کیا جاتا ہے۔ اس سفر کے دوران غنوشی، اسلامی تحریک اور سیکولر لوگوں کے درمیان تعلقات کے بارے میں اس مرحلے تک پہنچے جس میں سیاسی کش مکش کو دینی نقطۂ نظر سے نہیں دیکھا جاتاہے، جس میں لوگوں کے درمیان دوست اور دشمن، دین دار اور کافر سمجھ کر تفریق نہیں کی جاتی۔ کیونکہ ’مسلم ڈیموکریسی‘ کے دائرے میں جمہوریت کے مخالف کو ’دشمن ‘سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ شخص اسلام پسند ہو یا سیکولر، اور ’دوست‘ اس کو سمجھا جاتا ہے جو جمہوریت پر یقین رکھتا ہے، چاہے وہ نظریاتی طور پر کسی بھی بات پر یقین رکھتا ہو ۔دوستوں میں وہ شامل نہیں ہیں جو ڈکٹیٹرشپ یا سیاسی استبداد پر یقین رکھتے ہوں یا غیر ملکی طاقتوں کے بل پر کھڑے ہوں۔  

پروفیسر مارچ کے خیال میں: ’مسلم ڈیموکریسی‘ کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ وہ استبداد کے خلاف ایک عملی متبادل پیش کرتی ہے جو آزادی، کثرتیت اور انصاف پر قائم ہے۔ اسلامی حکومت کا ایک مثالی ماڈل پیش کرنے کے بجائے ’مسلم ڈیموکریسی ‘ ایک ایسا نظام پیدا کرنا چاہتی ہے، جس میں مختلف نظریات کا آپس میں نبھا ہوسکے۔ پروفیسر مارچ نے لکھا ہے کہ میں نے راشد غنوشی سے زیادہ اس بات پر عمل کرنے والا کسی کو نہیں پایا۔ وہ اپنے ان نظریات کی وجہ سے اب تک دو رمضان جیل میں گزار چکے ہیں۔ ان کا جیل میں رہنا ’مسلم ڈیموکریسی‘ کے لیے ایک حقیقی امتحان ہے اور وہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ عالم اسلام میں جمہوریت کی جڑیں پھیلانا کتنا مشکل ہے۔ 

پروفیسر مارچ نے کہا کہ جمہوریت محض ایک نظام کا نام نہیں بلکہ وہ ایک کلچر ہے جس پر لوگوں کا یقین اور اعتماد ہونا ضروری ہے۔ اگر جمہوریت ، استبداد اور خانہ جنگی میں سے کسی ایک کو چننا ہو، تو ایسی حالت میں ’مسلم ڈیموکریسی‘ ہی بہترین حل ہے، جو مسلم معاشروں میں استحکام اور کثرتیت کی ضامن ہوگی۔ (الجزیرہ، ۲۷مارچ ۲۰۲۵ء)