بلاشبہ ۷مئی ۲۰۲۵ء کی پاک انڈیا جنگ کے بعد پوری قوم یکجاہو گئی ہے۔ ہر سطح پر یہ نظر آیا کہ عوام سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور سارے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر لوگوں نے پاکستان کی سالمیت کےلیے دینی جذبے سے سرشار ہو کر افواج پاکستان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا۔
طویل عرصے سے پاکستان میں یہ صورتِ حال رہی ہے کہ لوگ منقسم نظر آتے ہیں۔ علاقائیت، قوم پرستی، مسلک پرستی اور سیاسی تقسیم کے مظاہر بہت نمایاں طور پر مشاہدے میں آتے رہے ہیں، اور اسی بنیاد پر پاکستان کے حال اور مستقبل سے مایوسی کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے۔ مگر اس بیرونی جارحیت کے نتیجے میں پوری قوم متحد ہوئی ہے، جو اپنی جگہ بڑا قابلِ قدر پہلو ہے۔
پاکستان کے وجود اور ترقی کےلیے بنیادی قوت اسلام ہی ہے۔ ایک چیز جو پاکستان کو اور پاکستان کے ۲۵ کروڑ عوام کو جوڑ سکتی ہے وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ افواج پاکستان بھی اسلام اور جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کے حوالے سے سامنے آتی ہیں تو لوگ اُن سے جڑتے ہیں اور اگر کوئی ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگاتا ہے، جو بظاہر ’پاکستانیت‘ ہے، لیکن درحقیقت جب وہ نعرہ امریکا نوازی کے موسم اور اسی مہم کی توسیع میں لگایا گیا، تو اس پر قوم منقسم تھی، متحد نہیں تھی۔ ہم نے دیکھا کہ ۲۰۰۱ء سے جو جنگ امریکا کے کہنے پر لڑی گئی، اس میں لوگ اپنی ہی فوج سے دُور یا لاتعلق رہے، اور ساتھ نہیں دیا،لیکن جب جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کو سامنے رکھ کر اور دشمن کو ٹھیک طریقے سے متعین کیا گیا کہ ہمارا حقیقی دشمن کون ہے؟ اور فوج بھی اسلام کے جذبۂ جہاد سے سرشار ہوکر بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ کی طرح سیسہ پلائی دیوار میں ڈھل گئی، تو پوری قوم بھی متحد ہوگئی۔
ابھی تین چار سال پہلے تک یہ کہا جاتا تھا کہ ’’قوم منتشر ہے‘‘، مگر آج جب قیادت نے یکسوئی دکھائی تو پوری قوم متحد ہو گئی۔ دشمن کے ۸۰ سے زائد ڈرون مار گرائے گئے اور وہ طیارے جو ناقابلِ شکست سمجھے جاتے تھے، تباہ کر دیے گئے۔ انڈیا کا گھمنڈ، جو برسوں سے بڑھتا جا رہا تھا، الحمدللہ اب زمین بوس ہوا۔
انڈیا جو خود کو ناقابلِ شکست سمجھتا تھا، وہ پاکستان کے مؤثر دفاع، اتحاد اور جذبۂ ایمان کے سامنے ٹھیر نہیں سکا۔ دشمن نے تکبر کیا، پاکستان نے تدبر سے جواب دیا۔فرانس سے خریدے گئے رافیل طیارے گرے، روس سے لی گئی دفاعی ٹکنالوجی تباہ ہوئی، اسرائیل سے لیے گئے ڈرون خاک میں ملے۔ جسے طاقت ور سمجھا جاتا تھا، وہ پاکستان سے شکست کھا گیا۔ وہ حالات کہ جن میں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی پھیل رہی تھی اور جگہ جگہ ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے تھے، جیسے بغاوت کے آثار نمودار ہورہے ہوں۔لیکن بھارتی جارحیت کے نتیجے میں پاکستان کی فتح نے قوم کو پھر سے متحد اور یکجا کر دیا ہے۔
گویا اسلام ہی واحد قوت ہے، جو پوری پاکستانی قوم کو متحد کرسکتی ہے۔ یہ بات تو خود پاکستان کے وجود کا حصہ ہے۔ پاکستان تو بنا ہی اس بنیاد پر ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے اور دو قومی نظریہ ہماری اساس ہے۔ ہندوؤں سے ہماری کوئی نسلی دشمنی نہیں ہے۔ ان کا عقیدہ الگ ہے، ان کا طرزِ زندگی الگ ہے، ان کی بودو باش الگ ہے، اور اس کی بنیاد پر ان کا معاشرہ الگ ہے، اور مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں۔ اگرچہ ملک میں بلوچ اور پختون بھی ہیں، پنجابی، سندھی اور مہاجر بھی ہیں، ہرزبان اور ہرعلاقے کے رہنے والے ہیں، لیکن ہم لاالٰہ اِلَّا اللہ محمد رسول اللہ کی بنیاد پر ایک امت ہیں۔ لہٰذا نظریۂ پاکستان ہی وہ قوت ہے جو ہمیں جوڑ سکتا ہے۔ اب بھی اس نے ہمیں جوڑا ہے ، آئندہ بھی یہی چیز جوڑے گی۔ یہ تاریخ کا ایک سبق ہے ، اس کو ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے۔
جب انڈیا کو شرمناک جارحیت کے بعد جوابی کارروائی کے نتیجے میں شکست اور ذلّت کا سامنا ہوا تو اس نے امریکا سے مداخلت کی درخواست کی۔ انڈیا کے کہنے پر امریکی صدر ٹرمپ نے مداخلت کی اور جنگ بندی کروائی۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے کہ جب انڈیا پٹنے لگتا ہے تو دوڑا دوڑا اقوام متحدہ چلا جاتا ہے۔ ۱۹۴۸ء میں بھی یہی ہوا تھا کہ جموں و کشمیر میں اس کو شکست ہو رہی تھی اور مجاہدین سری نگر تک پہنچ گئے تھے۔ آج جو گلگت، بلتستان، آزاد کشمیر ہے، یہ بھی جذبۂ جہاد کے نتیجے میں آزاد کرایا گیا ہے۔ اور جب انڈیا اقوام متحدہ میں گیا اور اس نے کسی طرح جنگ بندی کروائی، اور پوری دُنیا کے سامنے استصواب رائے کا وعدہ کیا ، مگر اس نے آج تک وہ وعدہ پورا نہیں کیا۔
جب پہلگام میں انڈیا نے ’فالس فلیگ آپریشن‘ کیا، اس وقت امریکی نائب صدر انڈیا کے دورے پر تھے۔ انھوں نے انڈیا کی حمایت میں بیان جاری کیا جیسے انڈیا کوئی بہت بڑی طاقت ہے اور اس کو امریکا کی سرپرستی حاصل ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ کیونکہ یہ ٹکنالوجی میں بہت آگے ہے، اور ایک بڑی اور طاقت ور فوج رکھتا ہے۔
انڈیا نے اسی زعم میں ۷مئی ۲۰۲۵ء کو آدھی رات کے وقت پاکستان پر میزائل کے حملے کرکے جارحیت کا ارتکاب کیا۔ پاکستان نے بہت بالغ نظری سے، پوری جرأت ایمانی اور استقامت سے جب منہ توڑ جواب دیا تو اس کے نتائج پوری دُنیا کے سامنے روزِ روشن کی طرح واضح ہوئے۔ پاکستان نے انڈیا کی طرح شہری آبادی اور عبادت گاہوں کو نشانہ نہیں بنایا، بچوں اور عورتوں پر بم نہیں برسائے، بلکہ ان کی فوجی تنصیبات پر حملہ کیا۔پاکستان کی ریاست اور افواج نے جذباتی ہوکر فوری طور پر ایسی کوئی کارروائی نہیں کی جس سے افراتفری پھیلے بلکہ انتظار کیا، ٹارگٹ کو دیکھا اور بروقت نپی تلی کارروائی کی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے یہ ثابت کیا کہ اللہ کے فضل و کرم سے وہ ایک قوت ہے۔ وہ صرف نام کی ایٹمی قوت نہیں ہے بلکہ اس کی فوجی طاقت اور جنگی مہارت بھی زبردست ہے ، جس میں پاک فضائیہ کی برتری بھی واضح اور تاریخ ساز ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایک ایٹمی قوت کے مسلط کردہ جنگی منصوبے کو پاکستان نے ہرمیدان میں شکست دی ہے۔
اب سفارتی محاذ پر جامع اور بھرپور انداز سے کام کی ضرورت ہے۔ پوری دُنیا پر واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک طرف انڈیا کا غیرذمہ دارانہ رویہ ہے اور دوسری طرف پاکستان کا ذمہ دارانہ رویہ۔ ہم حملے کا جواب بھی دیتے ہیں تو پوری ذمہ داری کے ساتھ، مگر انڈیا ہمارے ڈیموں کو نشانہ بنارہا ہے، ہمارے بچوں کو نشانہ بنارہا ہے۔
انڈیا نے یکطرفہ طور پر’ سندھ طاس معاہدہ‘ معطل کرنے کا غیرقانونی اعلان کیا ہے۔ اس نے ’فالس فلیگ آپریشن‘ کیا ہے اور جب پاکستان نے غیرجانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تو اس سے انڈیا بھاگ گیا۔ اس لیے جب تک انڈیا اپنے غیرذمہ دارانہ اقدامات اور رویوں پر ندامت کا اظہار نہیں کرتا، اور سندھ طاس منصوبے کو معطل کرنے جیسے فیصلے کو واپس نہیں لیتا، امن کی ضمانت کا اس سے کوئی وعدہ نہیں ہوسکتا۔
پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔ ہم ایک اچھے پڑوسی کی طرح انڈیا کے ساتھ رہنا چاہتے تھے۔ لیکن پہلے دن سے جو مسئلہ ہمیں پیش آیا وہ کشمیر ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان بنیادی وجۂ تنازع کشمیر ہے۔ کشمیر میں انڈیا کی اس وقت بھی ۱۰ لاکھ ملٹری اور پیراملٹری فورسز موجود ہیں، ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ تعذیب خانوں میں نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،ان کے بنیادی حقوق سلب ہیں۔ ان کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش ہورہی ہے۔ مگر حکومت پاکستان کی طرف سے وہ کردار ادا نہیں کیا جارہا جو کرنا چاہیے۔
ہمیں اس بات پر افسوس ہے کہ انڈیا نے جب آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو ختم کیا تھا۔ اس وقت پاکستان کی حکومت اور اس کے آرمی چیف نے کوئی کردار ادا نہیں کیا، بلکہ مایوسی کی باتیں کی جارہی تھیں، بزدلانہ باتیں پھیلائی جارہی تھیں۔ پھر دیکھیے کہ اس کے نتیجے میں ہمیں کیا حاصل ہوا؟ اس کے برعکس آج اگر ہم نے ہمت دکھائی، جرأت و استقامت کا مظاہرہ کیا، قومی غیرت اور حمیت کی بات کی، فورسز بھی کھڑی ہو گئیں اور پوری قوم بھی کھڑی ہوگئی، تو اس پورے عمل کے نتیجے میں پوری قوم یک جان بھی ہوگئی اور کشمیر کا مسئلہ ایک حقیقی مسئلہ بن کر عالمی سطح پر اُجاگر ہوگیا ہے۔
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اصل مسئلہ تو کشمیر ہے اور اسے ہرصورت میں حل ہونا چاہیے۔ یہ معاملہ عالمی سطح پر اقوام متحدہ کی منظورشدہ قراردادوں کے تحت حل کیا جائے، اور اس کے لیے سفارتی محاذ پر کامیابی ضروری ہے۔ لہٰذا اسے پوری قوم کا ایشو بننا چاہیے اور بھرپور سفارت کاری کے ذریعے عالمی سطح پر اُجاگر کیا جانا چاہیے۔
بے شک مزاحمت زندگی ہے۔ اسی میں نجات اور عزّت و توقیر ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطینیوں کی مزاحمت ،انھیں پوری دنیا میں سرخرو کر رہی ہے۔ فلسطینی تو پہلے بھی شہید ہو رہے تھے ، ۱۰۰ سال سے شہید کیے جارہے تھے، مگر اس مرتبہ تو حد ہوگئی ہے، لیکن ان کی مزاحمت نے پوری دنیا میں ان کے ہمدرد پیدا کر دیے ہیں۔ ’حماس‘ جس کے خلاف دہشت گردی کا لیبل لگایا گیا ، اس سے امریکا بھی مذاکرات کر رہا ہے اور اسرائیل کو بھی کرنا پڑ رہے ہیں۔ حماس نے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ آج مغربی ممالک میں فلسطینیوں کے لیے جتنے سروے آرہےہیں، ان کے مطابق خود ’حماس‘ سے ہمدردی ۵۰ فی صد کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ افراد کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی طاقت، جب مزاحمت کا راستہ اختیار کرتی ہے، حق اور سچ پر کھڑی ہوجاتی ہے، قربانیاں دیتی ہے، تو وہ پوری دنیا میں اپنے ہمدرد پیدا کر لیتی ہے اور بالآخر طاغوتی قوتوں کو جھکنا پڑتا ہے۔
مزاحمت میں زندگی کا یہ تاریخی سبق موجود ہے۔ ہم اندھی جنگ نہیں لڑنا چاہتے۔ بحیثیت قوم ہم تو کسی سے بھی تصادم نہیں چاہتے، لیکن ہم اپنی آزادی اور خودمختاری اور قومی وقار کا سودا بھی نہیں کرسکتے۔ لہٰذا جب ہم نے بھارتی جارحیت کے خلاف ردعمل دیا ہے اور صحیح طریقے سے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا، تو پوری دنیا میں ہماری عزّت و وقار میں اضافہ ہوا ۔
اسلام ہماری بنیاد ہے اور پاکستان محض ایک جغرافیے کا نام نہیں ہے۔ پاکستان ایک نظریے اور عقیدے کا نام ہے۔ پاکستان کے لیے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے خون کا دریا عبور کیا تھا۔ علامہ اقبال ؒنے محض خواب نہیں دیکھا تھا بلکہ ایک زندہ تصور دیا تھا۔ قائد اعظم ؒ کی قیادت بے داغ تھی۔ وہ سچے اور مخلص انسان تھے ، پوری قوم ان کی قیادت میں یکجا ہوگئی تھی۔ اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ کے پاس قائداعظمؒ اور اُن کے جانثار ساتھیوں کے پاس جو مدلل لٹریچر تھا جسے نوجوان اور طلبہ گلی گلی، اور قریہ قریہ جا کر تقسیم کرتے تھے اور مسلمانوں کو قیامِ پاکستان کے لیے ترغیب دیتے تھے، تو وہ دو قومی نظریے پر مشتمل مسئلہ قومیت تھا، جو سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے لکھا تھا۔ مولانا مودودیؒ نے لوگوں کو علم اور تجزیے کے اعتبار سے، اور تاریخ کے حوالوں سے، یہ بات سمجھائی کہ مسلمان کسی رنگ اور نسل کی بنیاد پر قوم نہیں ہیں بلکہ وہ ایک عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر اُمت ہیں اور ان کی اپنی تہذیب ہے، ان کی اپنی ثقافت اور کلچر ہے۔
پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کبھی معاندانہ رویہ اختیار نہیں کیا گیا، اور یہ سب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل کا نتیجہ ہے۔ اور اگر کہیں، کبھی کوئی افسوسناک واقعہ سامنے آیا، تو پوری قوم نے اس کی مذمت کی، کبھی حکومت نے اور انتظامیہ نے اس کی سرپرستی نہیں کی۔ دوسری طرف انڈیا ہے جو اپنے آپ کو دُنیا کی بڑ ی اور ایک سیکولر جمہوریت کہتا ہے، وہاں آر ایس ایس اور بی جے پی ’ہندوتوا‘ کے پرچم تلے ریاستی اور حکومتی فسطائیت کا دن رات مظاہرہ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے زندگی اجیرن ہے، مسیحیوں کی عبادت گاہیں محفوظ نہیں اور سکھ قیادت کو چُن چُن کر قتل کیا جارہا ہے۔ کسی نہ کسی صورت میں اقلیتوں کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھا گیا ہے۔ ’اوقاف‘ کو سلب کرنے کی موجودہ قانون سازی نے بدترین برہمنی درندگی کا دروازہ کھول دیا ہے، جس کے متاثرین مسلمان، مسیحی، سکھ، جین اور بدھ مت کے پیروکار ہیں۔
اس جنگ کے نتیجے میں درج ذیل اُمور کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے:
جماعت اسلامی میں اور دوسری پارٹیوں میں یہی بنیادی فرق ہے۔ جماعت اسلامی کا حکومت سے اختلاف بلکہ شدید اختلاف بھی ہوتا ہے ، حکومت سے مطالبہ اور احتجاج بھی ہوتا ہے اور آئینی بالادستی کی جدوجہد بھی ہوتی ہے، مگر اس بنیاد پر ملک کی مخالفت کے خیال کی رمق پیدا نہیں ہوسکتی۔ مولانا مودودیؒ ۱۹۴۸ء اور ۱۹۵۳ء میں گرفتار ہوئے، اور ۱۹۶۴ء میں جماعت اسلامی پر پابندی لگادی گئی اور مرکزی مجلس شوریٰ سمیت ساری قیادت کو گرفتار کرلیا گیا۔ آمروں کے مقابلے میں کھڑے رہے، ڈکٹیٹروں کا مقابلہ کیا، لیکن جب ملک کی سالمیت کا معاملہ پیش آیا تو جماعت اسلامی نے حکومت سے تعاون کیا۔اگر اتفاق اور اختلاف اصولی بنیادوں پر ہو اور اصولی بنیادوں پر سیاست کی جائے تو روایات و اقدار فروغ پاتی ہیں اور ملک مستحکم ہوتا ہے۔ اگرشخصی بنیاد پر اور ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر اتفاق یا اختلاف کیا جائے تو یہ خطرناک رجحان ہے۔ اس کے نتیجے میں قومیں برباد ہو جاتی ہیں۔
پاکستان پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے امید کا چراغ ہے۔ حالیہ پاک انڈیا جنگ کے مثبت نتائج سے نہ صرف ملکی وقار میں اضافہ ہوا ہے بلکہ پاکستان کا عالمی کردار بھی اُجاگر ہوا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم تحریک پاکستان کے جذبے کو دوبارہ زندہ کریں اور ہرسطح پر، ہر میدان میں پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنانے کی کوشش کریں۔