اکتوبر۲۰۲۰

فہرست مضامین

اخوان المسلمون اور ہم عصر سیاسی چیلنج!

ڈاکٹر محمد مرسی شہید | اکتوبر۲۰۲۰ | بحث و نظر

Responsive image Responsive image

اخوان المسلمون ایک جامع اسلامی اجتماعیت ہے، جو ایک واضح اور مخصوص طریق کار رکھتی ہے۔ ایسا طریق کار کہ جو در حقیقت اہل سنت و الجماعت کا منہج ہے۔ اخوان اس امر کا لحاظ اپنی ان تمام سرگرمیوں میں رکھتی ہےجو وہ معاشرے کی اصلاح اور تبدیلی کے لیے بروے کار لاتی ہے، تاکہ وہ اپنی ذمہ داری کو حکمت اور بہترین اسلوب کے ساتھ ادا کرے۔ وہ ذمہ داری جو عین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہو اور جو معاشرے کے ہر فرد اور ادارے میں ان کی گوناگونی کےباوجود ایک احساس امن اور آزادی پیدا کرے۔ اخوان المسلمون معاشرے کی اصلاح کے لیے جو کردار ادا کرنا چاہتی ہے، وہ ایک مسلم فرد، مسلم گھرانے اور مسلم امت کی اساس پر قائم ہوتا ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ایک مسلمان اگر اسلام کے صحیح تصور کے مطابق زندگی گزارتا ہے، تو اس کے اسی عمل کے نتیجے میں کامیابی کی دوسری تمام راہیں کھلتی ہیں۔ اور ایسا شخص لازمی طور پر ایک صالح شہری بھی ہوتا ہے، جو اس بات کا فہم اور علم رکھتا ہے کہ ایک صالح مسلما ن گھرانا ہی وہ بنیادی اکائی ہے، جس پر ایک مسلمان معاشرے کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اخوان یہ بھی جانتی ہے کہ اللہ کی مرضی سے جب تک امت مسلمہ اس بات پر قادر رہے کہ وہ حق اور انصاف کا علَم اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق بلند کرتی رہے تو وہ نہ گمراہ ہوگی اور نہ بدبخت:

فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ ہُدًى۝۰ۥۙ  فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي۝۱۲۳ وَمَنْ   اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى۝۱۲۴ (طٰہٰ ۲۰:۱۲۳-۱۲۴) جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مبتلا ہو گا۔اور جو میرے ’ذِکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے۔

اپنے اس مخصوص طریقے کار پر عمل کرتے ہوئےتمام مشکلات، مصائب اور رکاوٹوں کے باوجود الحمدللہ اخوان اپنا فرض نبھاتی آرہی ہے اور اسلام کا اعتدال پسندانہ طرزِ عمل اختیار کرتے  ہوئے اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہے، تاکہ ایک ایسی اسلامی ریاست کی بناڈالے جو اسلام کو تمام گوشہ ہاے زندگی میں نافذ کرے۔ عوام شعوری طور پر اگر اس بات پر تیار ہو جاتے ہیں، تو نہ صرف وہ خوش نصیب ہوں گے بلکہ اس کے ذریعے انھیں دنیا میں عزت اور قیادت بھی ملے گی، اور اگر وہ اس کو رد کر دیتے ہیں تو اللہ کی ذات توتمام انسانوں سے غنی ہے۔ وہ تو صرف بندوں کو بخشنے کاروادار ہے،بشرطیکہ وہ توبہ کی روش اختیار کریں، صرف اسی کی طرف پلٹیں اور اسی کو خلوص دل سے پکاریں، نیک عمل کریں اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں۔

مختصراً یہ کہ اخوان المسلمون دعوتِ دین اور تحریک و تنظیم کے ذریعے عوام کو مخاطب کرتی ہے۔ ہم اُن کو اسلام کی طرف بلاتے ہیں جس کا ایک جز حکومت بھی ہے۔ اور آزادی اس کا ایک فریضہ ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ہی تمام انسانیت کے لیے دینِ حق ہے۔ اور وہ کسی خاص نسلی یا علاقائی یا جغرافیائی گروہ کی میراث نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام بنی نوع انسان کی جانب اپنی رحمت کے ساتھ مبعوث کیا تھا:

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِيْنَ۝۱۰۷  (الانبياء ۲۱:۱۰۷) اے محمدؐ، ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔

ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم لوگوں تک اللہ کا دین بے کم و کاست اور بنا کسی رد و بدل کے پیش کر دیں:

اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝۰ۭ (المائدہ ۵:۳) آ ج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔

اسی کے ساتھ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امت ہی قیادت اور سیادت کا منبع اور مصدر ہے۔ انھی اہلِ ایمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قیادت کا خود چناؤ کریں۔ اس معاملے میں ہم منصفانہ طور پر عوام کی منتخب راے کے ساتھ چلیں گے، چاہے یہ ہماری راے کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔ بس اس شرط کے ساتھ کہ وہ شریعت کے کسی اصول سے متصادم نہ ہو اور نہ اس معاملے میں کسی فرد یا جماعت کی جانب سے اس پر کسی دباؤ، دھمکی، یا آمریت و استبداد کا استعمال کیا گیا ہو۔

اخوان اور سیاسی جماعت

آج کل معاشرے میں سیاسی اور اسلامی جماعتوں کے حوالے سے کافی باتیں زیربحث ہیں۔ بہت سے کرم فرماؤں کی یہ راے ہے کہ ’’اخوان کوبھی انھی جماعتوں کی طرح ایک سیاسی جماعت ہونا چاہیے‘‘۔اُن کی نظر میں ’’اسے ایک عوامی سیاسی جماعت میں ڈھل جانا چاہیے‘‘جو دوسرے شعبوں، مثلاً نوجوانوں کی تربیت، دعوت دین اور خدمت خلق کے شعبوں کے ساتھ مربوط ہو اور سول سوسائٹی کے تمام اداروں، مثلاً رفاہی انجمنوں، کھیل کے کلبوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانونی امداد کمیٹیوںکے ساتھ مل کر کام کرے گی‘‘۔

اس حوالے سے اخوان کی پوزیشن پہلے روز سے آج تک بہت واضح ہے۔ اخوان کو ایسی کسی بھی تنظیم پر کوئی اعتراض نہیں ہے، جو اخوان کے پیش نظر مختلف جہتوں میں پھیلے ہوئے کسی بھی کام کےحوالے سے قائم کی جائے مگر شرط یہ ہے کہ محض حصولِ اقتدار اس جماعت کی اوّلین ترجیحات میں سے نہ ہو بلکہ وہ ایک ایسی اجتماعی ہیئت ہو، جو زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام کی دعوت کو اپنی اوّلین ترجیح رکھے اور اس بات کے لیےکوشاں رہے کہ یہ امت ایک صاحبِ رسالت امت بننے کے قابل بن سکے۔

اخوان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس وقت کسی ایسی جماعت کی رجسٹریشن کے لیے درخواست دینا بے سود ہے کیونکہ حکومت عوام پر ہر قسم کا تشدد روا رکھے ہوئے ہے اورجس میں اخوان اس کا مرکزی ہدف ہے۔ اور حکومت کسی بھی ایسی جماعت کی تشکیل کی اجازت نہیں دے گی اور اخوان بھی اس جبر کے نظام میں یک طرفہ طور پر متحرک نہیں ہو سکتے۔ اپنے اصلاحی کام کے ذریعے اگر کبھی ایسی جماعت بننے کی سبیل پیدا ہوئی، تو اخوان ایک مسلمان معاشرے اور ایک عادلانہ امت کے قیام کے لیے ضرور دعوت،تنظیم، تعلیم و تربیت اورخدمت کے ایجنڈے پر عمل کرے گی۔

 اس لیے اخوان کا عوامی کام جس میں سیاسی کام بھی شامل ہے، اپنے اہداف اور وسائل کے اعتبار سے اسلامی اصول و ضوابط سے باہر نہیں نکلتا، اور نہ نکل سکتا ہے، اور نہ یہ ممکن ہے کہ اخوان کسی تکنیکی حکمت عملی کے تحت تحریک کے جامع پروگرام کے کسی جزو کو نظر انداز کردیں۔ اگرچہ بہت سے ہمدرد یہ کہتے ہیں کہ ’’اخوان اگر اپنے تحریکی کام کے بعض اجزاکو ترک کردے، تو نہ صرف ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ ان کو مغرب اور صہیونیوں کے ہاں بھی پذیرائی مل سکتی ہے،اور اس طرح وہ قلیل وقت میں چند شعبوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں‘‘۔ لیکن ہماری نظر میں اگر ہم نے اپنے بنیادی دعوتی کام کے پہلوؤںکو نظر انداز کر کے کوئی جماعت بنا بھی لی، تو یہ بہرحال ایک اور ہی جماعت ہوگی، مگر کسی بھی صورت میں اخوان المسلمون نہیں ہو گی۔

اخوان تو ایک ایسے اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے کوشاں ہے، جس میں سے اسلامی حکومت ایک فطری طریقے سے ابھرے، جو امت مسلمہ کی اُمنگوں کی ترجمانی بھی کرے اور شریعت کا نفاذ بھی۔ لیکن یہ خواہش ایک طویل المیعاد ا ور جاںگسل جدو جہد کا مطالبہ کرتی ہے کیونکہ ہمارا ہدف بھی اتنا ہی بلند ہے:

اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۝۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۴۰ (یوسف ۱۲:۴۰)فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اُس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

ہاں، اگر کسی بھی مسلمان ملک میں کوئی اسلامی جماعت، حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے جیسا کہ ترکی میں ہوا تو ہم امت کے بھائی چارے اور آزادیوں اور انصاف کی روش عام ہونے کی مناسبت سے اس پر ضرور خوش ہوںگے۔ لیکن ان جماعتوں کی کامیابی اور اخوان کی حکمت عملی میں موازنہ کرنا خلط مبحث ہوگا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ دو مختلف النوع تحریکوں کا موازنہ ہے، جن کے اصول، اہداف اور طریق کار یکساں مختلف ہیں۔

مصر اور ترکی کے حالات کا موازنہ

اخوان المسلمون نے نہ تو اپنے اصولوں کو تبدیل کیا ہے اور نہ وہ مستقبل میں کبھی ایسا کریں گے۔ہمارے نزدیک اسلامی تحریک کا کوئی بھی جزو معطل نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری کامیابی زندگی کے انفرادی، اجتماعی، حکومتی اور ریاستی پہلوؤں کے حوالے سےایک ہمہ پہلو جد و جہد کا عنوان ہے۔ اسی کی ہم دعوت دیتے ہیں اور اسی کے لیےہم تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔

ترکی کی جسٹس پارٹی نے سیکولرزم کے مغربی تصور کے پہلو بہ پہلو چلنے کی رضامندی کا راستہ اختیار کیا ہے جو ہمارے اعلیٰ اجتماعی اور سیاسی ہدف سےیکسر مختلف ہے۔ہم یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک ایسی اسلامی ریاست قائم ہو، جو مغرب کی پاپائیت (Theocracy ) سے بالکل مختلف ہو۔اس موقعے پر ترکی اور مصر کا فرق ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔مصر جہاں اخوان المسلمون متحرک ہے، تمام خرابیوں کے باوجود اس کے دستور میں ریاست کا مذہب اسلام ہے، اسلامی شریعت کے مبادی ،قانون سازی کا مصدر ہیں، جو کہ مصری ریاست کے اسلامی پہلو کا مظہر ہے، جسے کوئی بھی مصری حکومت یا جماعت تبدیل نہیں کر سکتی۔ اس کے بر عکس ترکی کے دستور میں ابھی تک سیکولرزم ہی اس ریاست کی بنیاد ہے اور وہی اس کی قانون سازی کا منبع ہے۔ ترکی خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد سے اب تک مصطفیٰ کمال کی سیکولر قوم پرستی کے تصور پر گامزن ہے اور یورپ میں ضم ہونے کا حریص ہے، باوجود اس کے کہ مسلمان ترک قوم اور لادین یورپ میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اسی جوہری اختلاف سے حق اور انصاف کے دو مختلف معیار وجود میں آتے ہیں، جن میں اتفاق ممکن نہیں ہے۔

اس تفصیل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو شخص بھی ایک اسلامی جماعت اور اسلامی تحریک کو سمجھتا اور اس کے ساتھ چلتاہے تو ضروری ہے کہ اسلام ہی اس کا پہلا اور آخری ہدف ہوجو اس کے طریق کار اور مقاصد پر مکمل طور پر حاوی ہو۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمیں دل چسپی تو اسلام کے حقیقی مفہوم سے ہے، نہ کہ چندشعار اور اصطلاحات سے۔ اب جو چاہے اپنے لیے جس منزل کا انتخاب کرلے، لیکن یہ بات اچھی طرح جان لے کہ یہ صرف اسلام کا صحیح مفہوم اور اس کا صحیح طریق کار ہی ہے جس کو بقا ملے گی اور اس کے علاوہ سب فنا ہو جائے گا، جس طرح غروبِ آفتاب کے ساتھ دھوپ!