ایک طالبہ کا سوال تھا کہ اس کے والد کے دوست نے ٹیوشن پڑھائی اور اس دوران اسے غلط راہوں پرلے گئے۔ اب اپنی عملی زندگی کے آغاز پر وہ احساس گناہ سے پریشان ہے‘ کیا کرے؟
جواب : آپ کا خط پڑھ کر بہت صدمہ ہوا کہ کسی استاد نے آپ کی سادہ لوحی اور جذباتیت کو ناجائز طور پر اپنی تسکین کا ذریعہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ ان صاحب کو ہدایت دے اور وہ آپ کی طرح کسی اور طالبہ کو اپنے جال میں پھنسانے میں کامیاب نہ ہوں۔ آپ کے خط سے تین اہم نکات ابھرتے ہیں:
پہلی بات یہ کہ الف نے آپ کے والد صاحب سے اپنے تعلقات اور ان کے اعتماد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی غم بھری کہانی آپ کو سنا کر آپ کے دل میں اپنے لیے ہمدردی پیدا کی اور پھر آپ کے ساتھ نازیبا رویہ اختیار کیا۔ یہ اخلاقی اور قانونی دونوں حیثیت سے ایک جرم ہے۔ اس جرم میں خاموش کردار کی حیثیت سے آپ بھی برابر کی شریک ہیں۔ الف کی طرف سے پہلی مرتبہ جو کوشش ہوئی تھی اس کے بعد آپ کو اس سے قطع تعلق کر لینا چاہیے تھا‘ چاہے اس کا اثر آپ کی تعلیم پر پڑتا۔
دوسری اہم چیز اس سلسلے میں یہ ہے کہ اسلام وہ واحد دین ہے جو ایک غلطی کرنے والے کو غلطی کے احساس کے بعد احساسِ گناہ سے نکال کر دوبارہ پاک صاف اور حقیقی زندگی میں واپس لے آتا ہے۔ یہ خلوصِ نیت سے توبہ و استغفار کرنے کے نتیجے میں ماضی کو مکمل طور پر محو کر دیتا ہے۔ گویا اب‘ جب کہ اس تلخ تجربے سے گزرنے کے بعد آپ کو یہ احساس ہوا کہ آپ نے بھی الف کی طرح غلطی کی تھی اور اب آپ اس احساسِ گناہ سے اپنے آپ کو نکالنا چاہتی ہیں تو اسلام آپ کو امید اور بشارت دیتا ہے اور ماضی کی غلطیوں کو مکمل طور پر احساسِ گناہ سے بالکل پاک کر دیتا ہے۔ سورہ مومن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست ہے‘ سب کچھ جاننے والا ہے‘ گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے… (۴۰: ۲)۔ گویا گناہ کرنے کے بعد جیسے ہی غلطی کا احساس ہو اور انسان توبہ و استغفار کی طرف مائل ہو ‘ تو وہ اپنی رحمت سے اپنے بندے کے ماضی کو محو کر کے اسے نئی زندگی دے دیتا ہے۔
غلطی کا صادر ہونا بلاشبہ کمزوری کی علامت ہے لیکن یہ وہ کمزوری ہے جو انسان شیطان کے بہکاوے میں آکر اکثر کر بیٹھتا ہے۔ حضرت آدم ؑشیطان کے بہکاوے میں آکر ممنوعہ درخت کے قریب گئے۔اور پھر جب غلطی کا احساس ہوا تواللہ رب کریم سے مخاطب ہوئے: ’’اے ہمارے رب‘ ہم نے اپنے اوپر ستم کیا‘ اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہو جائیں گے‘‘ (الاعراف ۷:۲۳)۔
اسی طرح اللہ کے ایک اور نبی حضرت یونس ؑ نے جب اللہ تعالیٰ کی اجازت اور حکم کے بغیر اپنی قوم سے علیحدگی اختیار کرنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک مچھلی کے پیٹ میں قید کر دیا۔لیکن جیسے ہی انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے رب کریم سے دعائیہ استدعا کی: ’’نہیں ہے کوئی خدا مگر تو‘ پاک ہے تیری ذات‘ بے شک میں نے قصور کیا‘‘ (الانبیاء ۲۱: ۸۷)۔
حقیقت یہ ہے کہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی یہ شان ہے کہ اپنے بندوں سے محبت اور ان پر رحمت کی وجہ سے ان کے گناہوں کو معاف کرے ۔ سورہ اٰل عمرٰن میں اہل ایمان کے حوالے سے ایک انتہائی اہم زمینی حقیقت بیان کی جاتی ہے کہ ایمان کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود کبھی بھول یا وسوسے کی بنا پر اگر وہ کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں تو محض کڑھتے نہیں بلکہ اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہ کمالِ محبت سے انھیں معاف کر دیتاہے۔ فرمایا: ’’دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے‘ اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بدحال ہوں یا خوش حال‘ جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں--- ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں--- اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انھیں یاد آجاتا ہے۔ اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو…‘‘ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۳-۱۳۴)۔
خط کشیدہ الفاظ کے مفہوم پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ آیت ہمارے لیے آج ہی نازل ہوئی ہے۔ کیونکہ ہم جس طرح گناہ اور بعض اوقات فحش کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں ‘ اسے اللہ ہی معاف کرسکتا ہے۔ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔
یہاں قرآن یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ صرف شرک ایک ایسا ظلم ہے جسے اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرتا: ’’اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا‘‘ (النساء ۴:۴۸)۔ مزید یہ کہ: ’’اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے‘ اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتا ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے‘‘ (۴:۱۱۶)۔
جس غلطی کا ذکر آپ نے اپنے خط میں کیا ہے اس کا حل قرآن کریم نے بہت واضح الفاظ میں یوں پیش کیا ہے کہ جو اپنی حرکت سے تائب ہو جائے اور اصلاح کر لے ‘ وہ اس کی نگاہ میں مقبول ہے (النور۲۴:۵)۔ رب کریم پکار پکار کر اپنے بندوں کو‘ ہم جیسے کمزور بندوں کو ‘ روشن مستقبل کی خبر یوں دیتا ہے: ’’(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو‘ جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو۔ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ وہ تو غفور و رحیم ہے‘‘ (الزمر ۳۹:۵۳)۔
اپنے اس کرم کا‘ جان بوجھ کر یا بھول کر غلطی کا ارتکاب کرنے والے کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے گناہوں کو ڈھانک لینے والا‘ مغفرت کر دینے والا‘ گناہوں کو دھو کر ایک گناہ گار کو برف کی طرح سفید بنا دینے والا‘ اپنے عظیم کلام میں یوں مخاطب ہوتا ہے: ’’تمھارے رب نے اپنے اوپر رحم و کرم کا شیوہ لازم کر لیا ہے (یہ اس کا رحم و کرم ہی ہے کہ) اگر تم میں سے کوئی نادانی کے ساتھ کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو‘ پھر اس کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح کر لے تووہ اسے معاف کردیتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے‘‘ (الانعام ۶: ۵۴)۔
کلام الٰہی کے ان واضح ارشادات کے بعد جن میں ہم میں سے ہر غلطی کرنے والے‘ بھولنے والے‘ حد سے گزرنے والے‘ فحش کا ارتکاب کرنے والے کے لیے سرتاسر مغفرت‘ رحم‘ بخشش اور محبت ہی محبت ہے‘ ہمارے لیے صرف ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ اللہ کی مغفرت کی طرف لپک لپک کر‘ اس کے سامنے سربسجود ہو کر‘ نم ناک آنکھوں کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف اور پھر کبھی دوبارہ وہ غلطی نہ کرنے کا عزم صمیم کریں‘ اور ماضی کو یکسر بھول جائیں۔یہ وہ راستہ ہے جس میں نہ کوئی ٹیڑھ ہے‘ نہ ناامیدی‘ نہ احساسِ گناہ‘ اور نہ توبہ کے بعد دل میں کسی قسم کی پریشانی۔ اس طرح نئی زندگی کے آغاز کے بعد آپ جس شخص سے بھی عقد کریں گی اس سے ماضی کے اس تلخ تجربے کے تذکرے کی کوئی ضرورت نہیں‘ اس لیے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا‘ اسے سچی توبہ نے ایک گناہ کی طرح سے دھو دیا۔
اس سلسلے میں بہترین طریقہ جو سنت مطہرہ سے ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ وضوکر کے تنہائی میں اللہ کے حضور دو رکعت نفل کی نیت کیجیے اور اپنے رب سے خلوص نیت سے توبہ و استغفار کیجیے اور جو کچھ ماضی میں ہوا اس کا ذکر کبھی زبان پر بلکہ ذہن میں بھی نہ لایئے۔ ان شاء اللہ‘ رب کریم آپ کو ایمان‘ اعتماد اور قوت کردار دے گا اور آپ اس دنیا میں اور آخرت میں اپنی نیکیوں کا بہترین اجر پائیں گی۔ سچی توبہ کے بعد اپنے بارے میں کبھی یہ بات ذہن میں نہ لایئے کہ آپ کا اپنا کردار کسی سے کم تر ہے (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)۔