ترجمہ: نواب صدیق حسن خاں
یہ تحریر کتاب روزمرہ اسلام (۱۳۰۶ھ) سے لی گئی ہے۔ یہ ملا علی قاری حنفی (م: ۱۰۱۴ھ) کے مسائل سے ماخوذ ہے۔ ترجمہ بھوپال کے معروف عالم دین نواب صدیق حسن خاں (م: ۱۳۰۷ھ) نے کیا ہے اور کہیں کہیں کچھ اضافہ کیا ہے۔ تدوین کرتے ہوئے زبان کی قدامت دور کی گئی ہے اور کچھ حصے حذف کیے گئے ہیں (ادارہ)۔
حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابن آدم! اگر تو وہ مال‘ جو زیادہ ہے خرچ کرے تو یہ تیرے لیے بہتر ہے۔ سب سے پہلے اپنے اہل و عیال پر خرچ کر۔ اور اگر روک رکھے گا تو یہ تیرے لیے برا ہے۔ بقدر ضرورت تجھ کو ملامت نہیں (مسلم) ۔ دوسری روایت یہ ہے کہ ایک شخص نے کہا: اے رسولؐ خدا! کون سا صدقہ بہت بڑا اجر رکھتا ہے؟ فرمایا:تو صدقہ دے‘ جب کہ تو تندرست و بخیل ہو‘ فقر سے ڈرتا اور غنا کی امیدرکھتا ہو‘ اور اتنی دیر نہ کر کہ جان گلے میں پہنچے تب تو کہے کہ فلاں کو اتنا اور فلاں کو اتنا۔ وہ تو اس کا ہو ہی چکا ہے (متفق علیہ)۔ حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ رسولؐ اللہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے۔ میں آیا‘ مجھے دیکھ کر فرمایا: قسم ہے رب کعبہ کی! وہی زیاں کار ہیں۔ میں نے کہا: میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں‘ وہ کون ہیں؟ فرمایا: یہی بڑے مال دار‘ مگر جس نے دیا دائیں اور بائیں سے‘ سامنے اور پیچھے سے۔ اور ایسے لوگ تھوڑے ہیں (متفق علیہ)۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ سخی قریب ہے اللہ سے‘ قریب ہے جنت سے‘ قریب ہے لوگوں سے‘ دور ہے آگ سے۔ بخیل دور ہے اللہ سے‘ دور ہے جنت سے‘ دور ہے لوگوں سے‘ قریب ہے آگ سے۔ البتہ جاہل سخی دوست تر ہے اللہ کو عابد بخیل سے(ترمذی)۔ حضرت ابوسعیدؓ کی روایت میں ہے کہ اگر آدمی اپنی حیات میں ایک درہم صدقہ دے تو یہ بہتر ہے اس سے کہ ۱۰۰ درہم صدقہ دے موت کے وقت (ابوداؤد)۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ہر دن‘ جب کہ بندے صبح کرتے ہیں دو فرشتے اترتے ہیں۔ ایک کہتا ہے: اللھم اعط منفقا خلفا۔ دوسرا کہتا ہے: اللھم اعط ممسکا تلفا (متفق علیہ)‘ یعنی ایک سخی کو دعا دیتا ہے‘ دوسرا بخیل کے لیے بددعا کرتا ہے۔ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: قال اللّٰہ تعالٰی انفق یا ابن آدم انفق علیک (متفق علیہ)۔ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ دو خصلتیں مومن میں جمع نہیں ہوتیں‘ بخل و بدخلقی (ترمذی)۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اسے یوں روایت کیا ہے کہ نہ جائے گا جنت میں مکار و بخیل اور احسان جتانے والا(ترمذی)۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آدمی میں بدترین اشیا شح ہالع اور جبن خالع ہیں‘ یعنی شدید بخل اور سخت کم ہمتی (ابوداؤد)۔ حدیث ابوہریرہؓ میں ذکر ہے کہ ایک شخص نے اپنا صدقہ ایک بار چور کو‘ دوسری بار زانیہ کو‘ اور تیسری بار آسودہ آدمی کو ناواقفیت سے دے دیا۔ جب لوگوں میں اس بات کا چرچا ہوا تو اس نے کہا: اللھم لک الحمد علی سارق وزانیۃ وغنی۔ اس سے کہا گیا کہ تیرا صدقہ چور پر ہوا شاید وہ چوری سے اور زانیہ زنا سے باز رہے‘ اور غنی عبرت پکڑے اور خود بھی خرچ کرے(متفق علیہ)۔ معلوم ہوا کہ جو صدقہ اخلاص نیت سے دیا جاتا ہے اگر غلطی سے وہ کسی غیر مستحق کو پہنچتا ہے تو بھی متصدق کو اجر ملتا ہے اور غیر مستحق کے حق میں بھی کبھی نافع ہو جاتا ہے۔
ایک طویل حدیث میں حصرت ابوہریرہؓ ایک کوڑھی‘ گنجے اور اندھے کا قصہ بیان کرتے ہیں جن کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا۔اللہ نے ان کا امتحان لیا۔ ان کی خواہش کے مطابق کوڑھی کو اچھا کر کے خوب صورت خوش رنگ بنا دیا گیا اور اس کو اونٹ یا گائے عطا کی گئی۔ اسی طرح گنجے کو عمدہ بال اور گائے بخشی اور اندھے کو آنکھیں اور بکریاں دیں یہاں تک کہ ہر ایک کے مال سے ایک جنگل بھر گیا۔ پھر وہی فرشتہ جس نے اپنا ہاتھ ان پر پھیرا تھا اور یہ اچھے ہو گئے تھے ان میں سے ہر ایک کے پاس شکل اول میں آکر سائل ہوا اور کہا جس اللہ نے تجھ کو ایسا کر دیا ہے اس کے نام پر کچھ مجھ کو بھی دے کہ میں مسکین اور مسافر ہوں اور گھر تک نہیں پہنچ سکتا۔ کوڑھی نے کہا حقوق بہت ہیں ۔ اس نے کہا میں تجھ کو پہچانتا ہوں تو ابرص اور فقیر تھا‘ اللہ نے تجھ کو یہ مال دیا۔ کہا: یہ مال تو پشت ہا پشت سے مجھ کو ملاہے۔ اس نے کہا: اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تجھ کو پھر ویسا ہی کر دے۔ اسی طرح گنجے سے برتائوہوا اور اس کو بھی بددعا دی۔ پھر اندھے کے پاس آکر وہی گفتگو کی۔ اس نے کہا :میں اندھا تھا‘ اللہ نے مجھ کو بینا کر دیا‘ تو جتنا چاہے لے جا۔ آج میں تجھ کو کسی شے سے نہ روکوں گا۔ فرشتے نے کہا تو اپنا مال اپنے پاس رکھ: فانما ابتلیتم فقد رضی عنک وسخط علی صاحبیک (متفق علیہ)‘یعنی تمھارا امتحان ہوا۔ تجھ سے اللہ راضی رہا اور ان دونوں سے خفا ہوا۔
حضرت اُمِ مجیدؓ نے حضرتؐ سے کہا کہ مسکین میرے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے۔ میں شرم کرتی ہوں کہ گھر میں اس کے دینے کو کچھ نہیں پاتی۔فرمایا: اس کے ہاتھ میں دے اگرچہ ایک سم سوختہ ہو(مسند احمد)۔ معلوم ہواکہ گدا کو خالی ہاتھ نہ پھیرے۔ کچھ نہ کچھ دے دے اگرچہ بے حقیقت و حقیر و یسیر چیز ہو۔ سلف ہر روز صدقہ دیتے تھے‘ اگرچہ ایک گرہ پیاز کی یا ایک ڈلی نمک کی ہوتی۔ کوئی دن صدقہ سے خالی نہ چھوڑتے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے: کیا میں تم کو بدتر درجے والے لوگوں کی خبر نہ دوں؟ کہا: ہاں۔ فرمایا: الذی یسئل باللّٰہ ولایعطی بہ (مسند احمد)‘یعنی جس سے اللہ کا نام لے کر مانگیں اور اس کو کچھ نہ دیا جائے۔ اس زمانے میں یہ بہت ہوتا ہے کہ سائل باللہ کو نہیں دیتے۔ کچھ نہ کچھ تو دینا چاہیے۔ سائلین نے بھی یہ عادت بنا لی ہے کہ جب بھی مانگتے ہیں تو یہی کہتے ہیں کہ للہ فی اللہ براے خدا ہم کو دو‘ اگرچہ بسبب موجود ہونے طعام صبح و شام‘ ان پر سوال کرنا حرام ہوتا ہے۔ آپ بھی ڈوبتے ہیں‘ اور دوسروں کو بھی بدترین خلق بناتے ہیں۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے ]انھوں نے [فرمایا: صدقہ دینے میں جلدی کرو‘ بلا اس سے آگے نہیں بڑھتی۔ مطلب یہ ٹھیرا کہ صدقہ ردّبلا ہوتا ہے۔ وللّٰہ الحمد۔ تجربے نے اس کی شہادت دی ہے۔ دوسری دافع بلا چیز دعا ہے ‘جب کہ غفلت سے نہ ہو۔
حضرت ابوہریرہ ؓروایت فرماتے ہیں کہ جس نے صدقہ دیا برابر ایک کھجور کے پاک کمائی سے‘ اور اللہ قبول نہیں کرتا مگر پاک کمائی‘ تو لیتا ہے اللہ اس کو اپنے دست راست سے۔ پھر پالتا ہے اس کو واسطے صاحب صدقہ کے جس طرح کہ پالتا ہے کوئی تم میں بچھڑے کو۔ یہاں تک کہ ہو جاتا ہے برابرپہاڑ کے (متفق علیہ)۔ ایک دوسری روایت اس طرح سے ہے کہ جس نے راہ خدا میں خرچ کیا ایک جوڑا کسی شے کا اشیا میں سے‘ وہ بلایا جائے گاابواب جنت سے۔ ہر عمل صالح کا ایک دروازہ ہے جس پر جیسا عمل غالب ہوگا وہ اسی عمل کے دروازے سے بلایا جائے گا‘ اور جس پر سب اعمال صالحہ یکساں غالب ہوں گے وہ سب ابواب سے پکارا جائے گا ۔وللّٰہ الحمد۔
حضرت جابرؓ اور حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ ہر معروف صدقہ ہے(متفق علیہ)۔ حضرت ابوذرؓ روایت کرتے ہیں کہ کسی معروف یعنی نیکی کو حقیر نہ جان ‘ اگرچہ ملے تو اپنے بھائی سے بہ کشادہ روی (مسلم)۔ یعنی یہ بھی ایک نیکی و صدقہ ہے۔ ’’معروف‘‘ کہتے ہیں ہر طاعت خدا اور احسان الی الناس کو۔ منجملہ معروف کے ایک پہلو اپنے اہل و غیرہم کے ساتھ حسن صحبت ہے اور لوگوں سے ہشاش بشاش ملنا۔
حضرت ابوموسیٰ ؓسے روایت ہے کہ ہر مسلمان پر صدقہ ہے۔ کہا کہ اگر نہ پائے۔ فرمایا: اپنے ہاتھوںسے کام کرے‘ یعنی کچھ کمائے اپنی جان کو نفع پہنچائے اور صدقہ کرے۔ کہا کہ اگر نہ کر سکے یا نہ کرے؟ فرمایا: کسی حاجت مند کی مدد کرے۔ کہا کہ اگر یہ بھی نہ کرے؟ فرمایا: خیر کا حکم کرے۔ کہا کہ یہ بھی اگر نہ کرے؟ فرمایا: شر سے باز رہے کہ یہ بھی صدقہ ہے(متفق علیہ)۔اللہ کے احسان کی کچھ نہایت نہیں ہے۔ مسلمان کی ہر بات معروف ہے۔ اس کا ہر کام ہمراہ نیت صالحہ کے صدقہ ٹھیرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ہر جوڑ پر آدمی کے ایک صدقہ ہے۔ ہر دن جس میں سورج نکلتا ہے دو شخصوں کے درمیان عدل کرنا صدقہ ہے۔ کسی کے جانور پر بار لادنے میں مدد کرنا یا متاع کا اٹھا دینا صدقہ ہے۔ اچھی بات کہنا صدقہ ہے۔ نماز کے لیے ہر قدم صدقہ ہے۔ ایذا کی چیز دور کرنا صدقہ ہے(متفق علیہ)۔
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ تمھارا جماع کرنا صدقہ ہے۔ پوچھا گیا کہ وہ تو جنسی تسکین کرتا ہے اور اس میں اس کو اجر ملتا ہے؟ فرمایا: اگر وہ اس شہوت کو حرام میں صرف کرتا توکچھ گناہ ہوتا۔ جب اس کو حلال میں صرف کیا تو اب اس کے لیے اجر ہوگا(مسلم)۔ یعنی اس کے ضمن میں تحصین فرج اور اداے حق زوجہ و طلب ولد صالح ہے اور یہ امور بذاتہا صدقات و قربات ہیں۔ حضرت انسؓ کی روایت یہ ہے کہ نہیں لگاتا کوئی مسلمان کوئی درخت یا کرتا ہے کھیتی‘ پھر اس سے انسان یا پرندے یا بہائم کچھ کھاتے ہیں لیکن یہ اس کے لیے صدقہ ہوتے ہیں(متفق علیہ)۔ حضرت جابرؓ کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ جو کچھ اس میں سے چوری ہو گیا وہ بھی صدقہ ہے۔ غرض یہ ساری خوبی اسلام کی ہے کہ مسلمان کاہر فعل و عمل عبادت ہوتا ہے ورنہ کافر کی کوئی نیکی بھی کیسی ہی عمدہ اور اعلیٰ درجے کی کیوں نہ ہو‘کچھ نفع اس کو نہیں دیتی۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کہ ایک گناہ گار عورت محض اس وجہ سے بخش دی گئی کہ اس کا گزر ایک کتے پر ہوا تھا جو برلب چاہ مارے پیاس کے زبان نکالے مرا جاتا تھا۔ اس عورت نے اپنا موزہ اتارکراور اپنی اوڑھنی میں باندھ کر پانی نکالا اوراس کو پلایا۔ اللہ نے اس بات پر اس کو بخش دیا۔ صحابہؓ نے کہا کہ کیا ہم کو بہائم میں بھی اجر ملتا ہے؟ فرمایا: ہر جگر ترمیں اجر ہے(متفق علیہ)۔ جگر تر سے مراد حیوان ہے۔ یعنی ہر جانور کے کھلانے پلانے میں اجر ملتا ہے مگر وہ جانور جس کے قتل کا حکم ہے جیسے سانپ‘ بچھو۔
حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضرتؐ نے فرمایا: عذاب کی گئی ایک عورت ایک بلی کے پیچھے کہ اس کو باندھ کر رکھا یہاں تک کہ بھوک سے مر گئی۔ نہ اس کو کھلایا اور نہ چھوڑ دیا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھاتی (متفق علیہ)۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرد کا گزر ایک شاخ درخت پر ہوا جو راہ میں تھی۔ اس نے کہا میں اس شاخ کو مسلمانوں کی راہ سے الگ کر دوں گا تاکہ یہ ان کو ایذا نہ دے۔ وہ شخص جنت میں داخل کیا گیا(متفق علیہ)۔ ظاہر حدیث یہ ہے کہ مجرد نیت پر اس کی مغفرت ہوئی۔مگر انھوں نے ایک دوسری روایت یوں بیان کی کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ جنت میں لوٹ پوٹ رہا ہے بسبب ایک درخت کے جس کو اس نے راہ سے کاٹ ڈالا تھا کہ وہ لوگوں کو ایذا دیتا تھا(مسلم)۔
ان حدیثوں سے اللہ تعالیٰ کی نکتہ نوازی اور نکتہ چینی ثابت ہوتی ہے کہ چاہے ادنیٰ بات پر پکڑ لے اور چاہے ادنیٰ بات پر بخش دے۔ لیکن پکڑ گناہ ہی پر ہوتی ہے‘گو صغیرہ ہو۔ اور مغفرت حیلہ جو ہے‘ ذرا سی خیر پر بھی بخش دیتا ہے۔ حضرت ابوبرزہؓ نے حضرتؐ سے کہا تھا کہ مجھے کوئی ایسی بات بتایئے جس سے مجھے نفع ہو۔ فرمایا: دور کر ایذا کی چیز کو مسلمانوں کی راہ سے(مسلم)۔ اس سے معلوم ہوا کہ راہ کاسنگ وخار وغیرہ اشیا موذیہ سے صاف کرنا اور اہل اسلام کے آرام کے واسطے سڑکوں کا بنانا منجملہ اسباب مغفرت کے ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ صدقہ رب کے غضب کو بجھا دیتا ہے اور بری موت کو دور کرتا ہے (ترمذی)۔ بری موت سے مراد وہ حالت بد ہے جو مرنے کے وقت ہوتی ہے ‘ عاذنا اللّٰہ منہ۔ یہ نفع صدقے کا کہ سوء خاتمہ کا دافع ہے‘ افضل منافع ہے۔ اگر صدقہ دینے میں کوئی فضلیت و منفعت نہ ہوتی اور صرف یہی دفع میتۃ السوء ہوتا تو کفایت کرتا۔
حضرت سعد بن عبادہؓ نے نبی کریمؐ سے عرض کیا: اے رسولؐ خدا! سعد کی ماں کا انتقال ہو گیا‘ کون سا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا:پانی۔ انھوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا: ھذہ لِاُمِّ سعد (ابوداؤد)۔ معلوم ہوا کہ مردے کی طرف سے صدقہ کرنا درست ہے اور بہتر صدقہ پانی ہے۔ اس لیے کہ اس کا نفع امور دنیا و دین میں عام ہے خواہ کنواں ہو یا تالاب یا نہر یا حوض یا سبیل یا سقایہ۔حضرت ابوسعیدؓ روایت کرتے ہیں کہ جس مسلمان نے کسی ننگے مسلمان کو کپڑا پہنایا‘ اللہ اس کو جنت کا لباس سبز پہنائے گا اور جس مسلمان نے کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلایا‘ اللہ اس کو جنت کے پھل کھلائے گا۔ اور جس مسلمان نے کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلایا‘ اللہ اس کو شراب مہرزدہ پلائے گا(ابوداؤد)۔ معلوم ہوا کہ ننگے کو پہنانا‘ بھوکے کو کھلانا‘ پیاسے کو پلانا افضل صدقات وانفع خیرات واکرم مبرات ہے۔ شراب مہرزدہ سے مراد بادئہ ناب ہے۔ نفیس شے کو بوتل میں بند کر کے مہر لگا دیتے ہیں‘ اور وہ خاص لوگوں کو ملتی ہے۔
حضرت فاطمہ بنت قیسؓ روایت کرتی ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا: ان فی المال حقا سوی الزکٰوۃ‘ پھر یہ آیت پڑھی: لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب(ترمذی)۔ مال کا حق یہ ہے کہ سائل کو محروم نہ پھیرے‘ اور قرض خواہ کو اور متاع بیت کو مانگنے والے سے نہ روکے جیسے دیگ یا رکابی اور ایسی دوسری اشیا۔ آیت سے استشہاد یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اولاً ان وجوہ کو ذکر کیا‘ پھر ذکر کا دینا فرمایا۔ اس سے ثابت ہوا کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا اور بھی حق ہے۔ سو‘ ایک حق تووہ ہوتا ہے جو اللہ نے بندے پر واجب کیا ہے‘ اور دوسرا حق وہ ہے جو خود بندہ اپنی جان پر لازم کر لیتا ہے تاکہ وہ صفت بخل سے محفوظ رہے۔
حضرت ابن مسعودؓ نے روایت کیا ہے کہ جس نے اپنے عیال کے نفقہ میں توسیع کی عاشورے کے دن‘ وسعت دیتا ہے اللہ اس کو باقی سال میں۔ حضرت ابوذرؓ نے حضرتؐ سے پوچھا تھا کہ صدقہ کیا ہے یعنی اس کا ثواب کتنا ہے؟ فرمایا: اضعاف مضاعف ہے‘ اور اللہ کے نزدیک مزید ہے(مسند احمد)۔
(تدوین: امجد عباسی)