اشارات


اس فانی دنیا میں باعزت اور باوقار زندگی گزارنے کا اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ بتایا ہے کہ نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔نبی کریم نیکی کا بہترین نمونہ تھے۔ اس لیے ہمیں ان کے اُمتی ہونے کے حیثیت سے ہر لمحے نہ صرف خود نیکی اختیار کرنی ہے بلکہ نیکی کا حکم بھی دینا ہے۔ برائی سے    خود بھی رُکنا ہے اور دوسروں کوبھی روکنا ہے۔ جس کلمہ توحید کی بنیاد پر یہ ملک بنا تھا__ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہَ مُحَمَدٌ رَّسُوْلُ اللّہ اس کا مقصد بھی نیکی عام کرنا اور بدی کی روک تھام کرناہے۔  ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرفخر ہے۔ آئیے ہم مل کر ان پر دل کی گہرائیوں سے درود و سلام پیش کریں۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اُمت ِوسط، یعنی اعتدال والی امت کا درجہ دیا ہے۔ ایک ایسی امت جو انصاف پسند ہو ، جو حق کی نصیحت کرنی والی ہو اور ظلم کے خلاف ایک مضبوط قوت ہو۔ ظلم کو روکنا اور ظلم کو ہونے سے بچانا دونوں اس امت کے فرائض میں شامل ہیں۔

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ  الْمُنْکَرِ تُؤْ مِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمران ۳:۱۱۰) دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اس کا تقاضا ہے کہ ہم اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائیں۔ ہماری انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ ظاہر اور باطن ایک ہونا چاہیے۔ہمارا گھر اسلام کامرکز اور جنت کا نمونہ ہونا چاہیے۔ جہاں والدین کواحترام ملے۔ بڑوں کو عزت ملے۔ بچوں کو شفقت ملے اور جہاں میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس بنیں۔ ایک گھر ہمار ا یہ ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ہے۔۔ہمیں اس کی عافیت اور بہتری بھی مطلوب ہے۔ ہمیں اس گھر میں بھی اللہ اور اس کے رسول کا حکم نافذ کرنا ہے۔

ہم نے اسی جذبے کے ساتھ اس اجتماع عام کا انعقاد کیا۔ ہم نے تجدید عہد کرنے کے لیے اپنے بھائیو، بہنو ،جوانوںاوربزرگو ں کویہاں مشورے کے لیے بلایا۔ میں نے آج تک وہ جذبہ نہیں دیکھا جو آج میں دیکھ رہاہوں۔تاکہ اس ملک میں انصاف کے قیام اورحق کی گواہی قائم ہوجائے۔ اجتماع عام کاانعقاد ایک غیرمعمولی فیصلہ تھا۔ ہمارے پاس نہ وسائل تھے اور نہ خفیہ قوتوں کی آشیر باد۔ہم نے صرف اللہ کے نام پر سب کو یہاں اکٹھا کیا۔ تحریک پاکستان کے نام پر سب کو اکٹھا کیا۔

اس اجتماع کے انعقاد کے لیے کارکنان جماعت اسلامی، مرد و خواتین سب نے دن رات  اَن تھک محنت کی۔یہاں ہم سب اللہ کی رضا کے لیے آئے ہیں اور ان شاء اللہ آپ یہاں سے محبت ، اخوت اور بھائی چارے کا پیغام لے کر جا رہے ہیں۔

 قائد اعظم ؒ نے فرمایا تھا کہ تحریک پاکستان اُس وقت شروع ہو گئی تھی جب ہندستان میں پہلا مسلمان داخل ہواتھا۔ تحریک پاکستان برسو ں جا ری تھی مگر قراردادِ پاکستان۱۹۴۰ء میں منظور ہوئی۔ اس قرارداد میں مملکت پاکستان کا واضح نقشہ رکھ دیا گیا اور مرکز اور محور قرآن و سنت کو قرار دیا گیا۔ مغرب زدہ لوگ آج بھی قائد اعظم پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے حالانکہ قائد اعظم، پاکستان کو اسلام اور جمہوریت کا مرکز بنانا چاہتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اُس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر ؐاسلام نے ہمار ے لیے بنایا ہے‘‘۔ انھوں نے یہ بھی فرمایاتھا کہ: ’’مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے جائیںگے ہم میں زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گاکیونکہ ہم ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک امت کے پیروکار ہیں‘‘۔

مؤرخ پاکستان ڈاکٹر صفدر محمود نے …… آج میں یہ بات بڑے واضح طو ر پر کہنا چاہتا ہوںکہ تحریک پاکستان میںاس وقت تیزی آئی تھی جب ۱۹۴۵ء میں یہ نعرہ لگا کہ پاکستان کا مطلب کیا  لا اللہ الا اللہ۔ پھر دنیا نے دیکھاکہ دو سال کی قربانیوں کے بعد پاکستان وجود میں آگیا۔ یہ تھی طاقت لا اللہ الا اللہ کی۔ اور آج سب لوگ جان لیں لیںکہ اس ملک کا مستقبل ان الحکم الااللہ ہے یہاں کوئی دوسرا نظام نافذ نہیں ہو سکتا۔ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ قائد اعظم کی اس مسجد میں کوئی دوسرا اِزم نافذ کر سکتا ہے۔

قائد اعظم ؒ نے تو پاکستان اسلام اور جمہوریت کے لیے بنایا مگر یہاں نہ اسلام کو نافذ ہونے دیا گیا اور نہ جمہوریت کو۔ قائداعظم کی وفات کے بعد اس ملک پر مفاد پرستوں نے قبضہ کر لیا۔ انگریز کے ٹکڑوں پر پلنے والے جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، سول اور ملٹری ڈکٹیٹروں نے بار بار شب خون مارا۔اسلام اور جمہوریت کے خلاف سازشیں کیں۔شہری آزادیاں سلب کیں اور قومی خزانے کو لوٹنا شروع کیا۔ ۱۹۵۴ئمیں غلام محمد نے اقتدار سنبھالا۔ ۱۹۵۶ئمیں پہلا آئین بنا لیکن اس کو چلنے نہیں دیا گیا اور ایوب خانی مارشل لا آگیا۔ ۱۹۶۲ء میں دوسرا آئین بنا اور یحییٰ خان کا مارشل لا آگیا۔ اس عرصے میں اس ملک میں نفرتوں کے بیج بوئے گئے اور سیاسی جماعتوں کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔ اخبارات پر پابندی لگائی گئی۔ سیاسی لیڈروں اور صحافیوں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور ظلم کی انتہا کر دی گئی۔ ۱۹۷۰ئمیں جب پہلے عام انتخابات ہوئے تو اس کے نتائج کو اسٹیبلشمنٹ اور مفاد پرست جاگیرداروں نے قبول نہیں کیا۔ عوام کے فیصلے کو قبول نہیں کیا گیا۔ اقتدار اکثریتی جماعت کو سپر د نہیں کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے دونوں حصوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیا گیا۔

۱۹۷۳میں تیسرا آئین بنا۔ یہ وہ متفقہ آئین تھا جس میں چاروں صوبوں اور ملک کی تمام جماعتوں نے دستخط کیے۔ اس میں مقتدرِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو تسلیم کیاگیا۔اس دستور میں قرار داد مقاصد شامل ہے۔ اس آئین میں وفاقی شرعی عدالت ہے۔ اس آئین کے مطابق کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا ، اس آئین کے مطابق قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کرنا ہے ، عربی زبان کو سکھانااور اس آئین کے مطابق اسلام کے منافی کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔ اس آئین کے مطابق کوئی طالع آزماجمہوریت کو ختم نہیں کر سکتا، میرٹ کو ختم نہیں کر سکتا ،بنیاد ی حقوق کوختم نہیں کرسکتا ، شہری آزادیوں کو ختم نہیں کر سکتا ،اظہار راے کو ختم نہیں کر سکتا عورتوں پر تعلیم کے دروازے بند نہیں کر سکتا ، ریاست کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتا اور آزادیِ اظہار کو بھی ختم نہیں کرسکتا۔ اس آئین میں صوبوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ وسائل کی تقسیم کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کو فیصلوں کا اختیار دیا گیاہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا گیاہے۔ شفاف انتخابی نظام اور الیکشن کمیشن کی گارنٹی دی گئی ہے مگر کیا یہاں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا۔۱۹۹۹ئمیںپرویز مشرف نے ایک مرتبہ آئین کو توڑنے کا گناہ کیا۔ اور پھر دوسری مرتبہ ۲۰۰۷ئمیںبندوق کے زو ر پر آئین کو پامال کیا اور ملک کی عزت کو ایک ٹیلی فون کال پر امریکا کے سپرد کیا۔اپنی بہنو ںاور بھائیوںکوڈالروں کے عوض بیچ ڈالا۔آج بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور کئی پاکستانی امریکا کے جیلوں میں پرویز مشرف کی وجہ سے پڑے ہوئے ہیں۔سیکڑوں پاکستانی لاپتا ہو گئے ہیں۔ بلوچستان کے اندر آپریشن کے ذریعے بلوچوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا پہاڑوں پر چڑھ کر گوریلاجنگ کرنے پر مجبور کر دیا۔ ہندستان کے ساتھ ساز باز کر کے مسئلہ کشمیر کو سردخانے میں ڈالا اور لاکھوں کشمیری شہدا کے خون سے بے وفائی کی۔ یہاں تک کہ اسرائیل کے ساتھ بھی پینگیں بڑھائی۔ جو قبلہ اول اور مسجد اقصیٰ پر قابض ہے اور وہ ہزاروں فلسطینیوں کا قاتل ہے۔ ملک میں انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا ، بے حیائی کا سیلاب بہایا گیا اور ملک کے تعلیمی نصاب کو غیر اسلامی بنانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن جب  وہ اپنے اقتدار سے ہٹا تو اس کے جرائم پر پردہ پوشی کرتے ہوئے اسے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔   وی آئی پی بنایا گیا۔ یہ دنیا کا واحدملک ہے کہ جہاں ملک توڑنے والوںکو ، آئین توڑنے والوں کو ، اپنی بہنوںکو بیچنے والوں کو اور اپنی فضائیں دشمنوں کو دینے والوں کو وی آئی پی بنا کر رکھا جاتاہے اور جب وہ مرتے ہیں تو پاکستان کے جھنڈے میں ان کو دفنایا جاتا ہے۔

آئین کی بار بار پامالی سے یہ ملک بھی ٹوٹا ، اس کے ادارے بھی تباہ ہوئے۔ یہ آئین کئی مرتبہ  بے توقیر ہوا۔ اس ملک میں نہ اسلام کو آنے دیا گیا ، نہ جمہوریت کو جڑ پکڑنے دی گئی۔ جس کے پاس دولت تھی یا بندوق، اُس نے اس ملک کے عوام کا ستیاناس کر دیا۔ اس ملک کی بنیادیں ہلادیں۔ اس ملک کے شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیا۔ اسلامی حقوق، معاشی حقوق اور معاشرتی حقوق سے محروم کیا۔ تعلیم سے محروم کیا۔ صحت سے محروم کیا۔ اچھے ماحول سے محروم کیا۔ خواتین پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ نوجوانوں پر ملازمتوں کے دروازے بند کیے گئے۔ ہسپتال اور سکولوں میں طبقاتی نظام لایا گیا۔ مزدوروں کو حق نہیں دیا گیا ، بچوں سے مشقت کروائی گئی۔ ان کو اپنا غلام سمجھا گیا۔ اس ملک میں کرپٹ اشرافیہ نے آمروں اور مفاد پرستوں کے ساتھ مل کرپاکستان کی بیوروکریسی کو تباہ کیا، پولیس کو تباہ کیا ،ٹیکسوں کے نظام کو تباہ کیا ، کرپشن کو عام کیا ، اقرباء پروری کو عام کیا ، طبقاتی نظام کو دوام بخشااور سارے اداروں کو تباہ و برباد کیا۔ آج ملک کا کوئی بھی ادارہ چوروں اور لٹیروں سے ، ظالموں اور استحصالیوں سے خالی نہیں۔ ہر طرف وی آئی پی کلچر کا راج ہے۔ تھانوں میں ، عدالتوں میں ، ہسپتالوں میں ، سکولوں میں ، دفتروں میں۔ دوسری طرف اس ملک کو اس مٹھی بھر اشرافیہ نے اپنے مفادات کی خاطر تقسیم در تقسیم کیا۔ مذہبی منافرت پھیلائی ، مسلکی جھگڑے پیدا کیے ، فرقہ پرستوں کی حوصلہ افزائی کی اور سیاسی انتشار پیدا کیا۔ کسی کو اقتدار میںلائے اورکسی کو محروم کیا۔ انتخابات ، پارلیمنٹ اورقومی اداروں کو بے وقعت کیا۔ اپنے اقتدار کو دوام پخشنے کے لیے امریکی دہشت گردی کا ساتھ دیا۔ معاشی نظام کو بر باد کر کے غریبوں سے دو وقت کی روٹی چھین لی۔ مہنگائی میں اضافہ کر دیا۔ سی این جی کو نایاب کردیا۔ گیس اور بجلی کے بلوں میں اضافہ کردیا۔ کرایے بڑھ گئے ، فیسیں بڑھ گئیں۔ہر طرف بھوک کے سائیے نظر آرہے ہیں۔ ہر طرف غربت ناچ رہی ہے۔ ہر طرف لاقانونیت ہے ، بھتے ہیں ، کمیشن ہے اور ٹارگٹ کلنگ ہے۔ کیا یہ قائد اعظم ؒ کی خوابوں کی تعبیر ہے ؟ کیا اس کے لیے مسلمانوں نے قربانی دی تھی ؟ کیا اس کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا؟   

سوات آپریشن کے دوران لاکھوں لوگوں کو اپنے ملک میں مہاجر بنایا گیا اور کیمپوں میں ان کی تذلیل کی گئی۔ اب فاٹا میں اور شمالی وزیرستان میں آپریشن کیاجارہا ہے۔ ۹ لاکھ قبائلی پاکستانی اپنے ہی ملک میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ وہ خواتین جو حیا کی وجہ سے ڈاکٹروں کے پاس بھی نہیں جاتی تھیں ان کو کیمپوں میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا۔ آج ان کا کوئی والی وارث نہیں۔ آج امریکا کو بتایا جا رہا ہے کہ ہندستان کی کاروائیوں کی وجہ سے پاکستانیوں کے خلاف آپریشن متاثر ہو گیا ہے۔ میں واضح کرنا چاہتاہوں کہ قبائلی پاکستانی ہیں ان کی تذلیل بند کی جائے اور ان کے خلاف آپریشن بند کیا جائے۔ اور ان کو اپنے گھروں کو عزت کے ساتھ جانے دو۔ قبائلیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کا ازالہ کرواور امریکا کی جنگ سے باہر نکلو۔

اس ملک میں کرپٹ اشرافیہ نے اقتدار میں باریاں لگائی ہوئی ہے۔ ایک اقتدار میںآجاتا ہے تو دوسرے کے مفادات کی حفاظت کرتاہے۔ یہ اقتدار پرستوں کی جائنٹ فیملی ہے جس میں میڈیابھی ان کے قدموں کے اندر بیٹھتا ہے۔ دولت کی ریل پیل میں حق اور سچ سامنے نہیں آتا۔

ایسے میں اس ملک کے اندر ہم امید کی کرن دکھانے کے لیے اجتماع عام کر رہے ہیں تاکہ قائد اعظم کے نامکمل مشن کو اور پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچائیں۔ تحریک پاکستان کا دوبارہ آغاز ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ قائد اعظم کے مشنـ اسلام، جمہوریت اور عوام کی فلاح کوپوراکریں جس ملک کا قیام اسلامی بنیادوں اور اسلامی جذبوں کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اسی طرح اس کا تحفظ ، اس کی سلامتی اور آزادی بھی اسلام کے سچے اور عادلانہ نظام کے بغیر ممکن نہیں۔ ہم اس ملک کو اسلامی اورخوش حال پاکستان اس لیے بنانا چاہتے ہیں کہ یہاں پر طبقاتی تقسیم ختم ہو، کرپشن ، ناانصافی ، ظلم و زیادتی ، جہالت اورغربت ختم ہو۔ ہماری تحریک پاکستان کے ذریعے اختیارات اور اقتدار عوام کے حقیقی نمایندوں کو سپرد کرنے کے لیے نچلی سطح تک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم قومی زبان کو ترویج دیں گے اور مقابلہ کا امتحان بھی قومی زبان میں کرائیں گے۔ تحریک پاکستان کی اس تحریک میں ہم صوبائیت اور علاقائی تعصبات کو ختم کریں گے۔ غیر مسلم برادری کے حقوق دوسرے شہریوں کے برابرہوں گے۔ ان کو مذہبی اور معاشی آزادیاں حاصل ہوں گی۔ ہم تحریک پاکستان کی اس تحریک میں عوام کے سیاسی شعور میں اضافہ کر کے آمریت کی ہر شکل کو بے نقاب کریں گے۔ ہم دھاندلی سے بننی والی حکومتوںکو بے نقاب کریں گے۔ ہم سیاستدانوں کی خریدوفروخت کی گھنائونی سازشوںکو طشت ازبام کریں گے۔ ہم عوام کو ظاہری اور باطنی حکومتوں کا فرق سمجھائیں گے۔ اس لیے میں پاکستان کے ہر مرد اور عورت کو ،ہر پاکستانی کو ، ہر نوجوان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ تحریک پاکستان کی اس نئی جدوجہد کا حصہ بنے پاکستان کو ایک جدید ریاست بنانے کے لیے ، اسلامی ریاست بنانے کے لیے اور خوش حال پاکستان بنانے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔

 میں ہر پاکستانی سے اپیل کرتا ہوں کہ اسلامی پاکستان اور خوشحال پاکستان کی خاطر تحریک پاکستان کا پیغام گھر گھر تک پہنچائیں۔یہ ہماری تقدیر کا سوال ہے ،یہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے۔ میں پاکستان کے عوام کو کہتا ہوں، اور سب سے کہتا ہوںکہ ہم نے جو عوامی ایجنڈا آپ کو دیا ہے۔ یہ قومی ایجنڈا ہے ، یہ پاکستان کو بچانے کا ایجنڈا ہے۔ ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان کو راستہ دے دو تاکہ یہ ملک ترقی کر جائے۔ہماری جدوجہد سیاسی ہے۔ قائد اعظم نے پاکستان لشکر کشی کے ذریعے سے حاصل نہیںکیا تھا نہ گوریلا جنگ کے ذریعے سے بلکہ پاکستان عوامی اور جمہوری جدوجہدکے بعد حاصل کیا گیا تھا اور ہم بھی عوامی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے سے قائد اعظم کے وژن کے مطابق پُرامن ذرائع سے پاکستان کو حقیقی اسلامی ، جمہوری ، سیاسی اور پروگریسو ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یاد رکھو کہ تمھاری جاگیریں اور تمھارا پیسہ اور تمھاری طاقت صدانہیں رہے گی۔ نا م صرف  اللہ کا  رہے گا ، اسی اللہ تعالیٰ کا حکم چلے گا۔ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (انعام۶ :۵۷)

نائن الیون کے بعد امریکا نے ہمارے ملک پر ایک علانیہ جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ پرویز مشرف ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو گیاتھا۔ عالمی ایٹمی قوت ہونے کے باوجود امریکا اور نیٹو فورسز نے افغانستان پر قبضہ کرنے کے لیے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوگئیں۔ جوان قتل ہو گئے۔ اس پر بس نہیں کیا بلکہ امریکا نے پاکستان میں ایک خفیہ جنگ مسلط کی۔ جن کی وجہ سے داخلی انتشار میں مزید اضافہ ہوا۔ ۵۵ہزار پاکستانی شہید ہوگئے مگر امریکا اب بھی قلعہ بند ہو کر افغانستان پر قابض ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ ہم افغانستان کے عوام کے ساتھ ہیں اور ان کی آزادی ، سلامتی اور خودمختاری کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ افغان اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کر کے اپنی آزادی کو امریکا سے واپس لیں گے۔

 تحریک پاکستان کے آغازِ نو پر میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی دنیا کے کسی ملک کے خلاف نہیں۔ ہم سب کی آزادی اور خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔ ہم امریکا کے عوام کے خلاف نہیں بلکہ امریکی حکمرانوں کی ظالمانہ پالیسی کے خلاف ہیں جو وہ مسلمانوں اور مسلمان ممالک کے خلاف اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ہم یورپ و امریکا سے اچھے تعلقات برابری کی بنیاد پر چاہتے ہیں۔ ہم بین المذاہب مکالمہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم تمام مذاہب کااحترام کرتے ہیںاور ہر قسم کے عالمی تعصب کے مخالف ہیں۔

ہم امریکا اور یورپ سے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف عالمی جنگ کو ختم کریں۔ اگر تم دنیا میں امن لانا چاہتے ہو اور لڑنا چاہتے ہو تو غربت ،جہالت اور ناخواندگی کے خلا ف لڑو۔

 جماعت اسلامی پاکستان تمام اسلامی اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو اولیت دیتی ہے۔ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، قطر ، کویت اور دوسرے عرب ممالک میںلاکھوں پاکستانی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جویہاں زرمبادلہ بھیجتے ہیں ہم ان کا احترام اور ان کے احسان مند ہیں۔ مسلم ممالک کے باہمی تنازعات کے بارے میں ہماری رائے ہے کہ اس کو بات چیت اور نیک جذبوں سے حل کیا جائے۔ اخوان المسلمین اور حماس کے بارے میں بعض دوست ممالک کو غلط فہمی ہو گئی ہے۔ ہم اپیل کرتے ہیںکہ مسلم امت کی خاطر اپنے بھائیوں اور اپنی طاقت کو تقسیم نہ کریں اور متحد ہوجائیں۔ ہم اسرائیل کی فلسطین اور فلسطینی بچوں ، عورتوں اوربوڑھوں پر اور سکولوں اور ہسپتالوں پر بمباری کی مذمت کرتے ہیں اور قبلہ اول کی آزادی تک فلسطینی عوام کی حمایت کرتے رہیں گے۔

ہم ہمسایہ ممالک ، چین ایران ، افغانستان کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر بہترین تعلقات کے خواہاں ہیں۔ ہم ہندستان کے ساتھ بھی اچھے اور دوطرفہ تعلقات چاہتے ہیں مگر تعلقات، کشمیر کی قیمت پر نہیں ہو ں گے۔ پیاز اور ٹماٹر ڈپلومیسی یا کرکٹ ڈپلومیسی سے بہتر نہیں ہوں گے۔ جنوب مشرق ایشیا میں امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے ذریعے حل کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر  میں بچوں ، جوانوں اور بوڑھوں کا قتل عام بند کیا جائے۔ کشمیریوں کی نسل کشی بند کی جائے۔ مَیں کشمیر کے مسلمانوں کو پیغام دیناچاہتا ہوںکہ آپ کی جدوجہد زمین کے ٹکڑے کے لیے نہیں بلکہ اسلامی پاکستان کی تکمیل کی جدوجہد ہے۔ آپ کا جذبہ جہاد اور شوق شہادت اور طویل جدوجہد پر پاکستان کے عوام آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیںاور امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ وہ وقت آنے والا ہے جب سری نگر اسلامی پاکستان کا گرمائی دارالخلافہ بنے گا۔

جماعت اسلامی نے ہمیشہ پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی۔ ۱۹۷۱ء میں جب مشرقی پاکستان پر ہندستان نے حملہ کیا اور جماعت اسلامی کے رضا کاروں نے ہندستان کی تربیت یافتہ فورس کے خلاف مادروطن کی حفاظت کی۔ ہزاروں نوجوان بھارتی فوج اور ان کی تربیت یافتہ مکتی باہنی کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ فوج نے ہتھیار ڈال دیئے مگر ایک طرف ہمارے ملک میں بعض لوگوں نے مادر وطن کی حفاظت پر جماعت اسلامی کو طعنے دئیے تو دوسری طرف بنگلہ دیش بننے کے بعد جماعت اسلامی کے کارکنوں کو آزادی دشمن اور پاکستان دوست قرار دیا اور آج ۴۴سال گزرنے کے باوجود جماعت اسلامی کے بزرگ رہنمائوںکو جھوٹے مقدمات میں سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں دی جا رہی ہیں۔ ہم حسینہ واجد کے انتقام کی مذمت کرتے ہیں مگر ساتھ ہی اپنی حکومت سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان کی حمایت اگر جرم ہے تو پھر کل کیوں اس مادرِ وطن کے لیے قربانی دینے کے لیے کوئی تیار ہو گا۔

 یہ بنگلہ دیش کا داخلی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمی معاملہ ہے۔ عالمی معاہدوں کا تقدس ہوتا ہے  ایک طرف حکومت مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر اور دوسری طرف بنگلہ دیش کے ساتھ عالمی معاہدوں پر عمل درآمد نہیں کروا سکی۔ کیا بنگلہ دیش کو اس لیے تسلیم کیا تھا کہ وہ عالمی معاہدوں سے روگردانی کر ے اور ظلم اور فاشزم کا ثبوت دے۔

ملکی بحران کا اصل سبب

سوال یہ ہے کہ نظام کیسے تبدیل ہوگا؟

مولانا مودودی ؒ نے فرمایا تھا کہ پُرامن آئینی جدوجہد کرو، ذہنوں کو تبدیل کرو، انسان کو اندر سے تبدیل کرو، پھر عوام کو منظم کرو اور قیادت مہیا کرو۔ منتشر معاشرے کو ایک کرنا، عوام کو روشنی دینا، عوام کو منزل دینا یہ قیادت کا کام ہے۔ ہم زیرزمین سازشوں، گوریلا جنگ یا ڈنڈے کے زور پر یقین نہیںرکھتے۔ دلوں کی دنیا کو تبدیل کریں تو معاشرہ تبدیل ہوگا۔ اگر آپ اس ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں تو دلوں کو فتح کرنا ہوگا۔ خیالات اور خواہشوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اچھا اخلاق اور کردار ہماری قوت ہیں۔

مَیں کارکنانِ جماعت سے اپیل کرتا ہوں کہ سورج کی طرح کرنیں بکھیرو، چاند اور تاروں کی طرح جگمگانا سیکھو، گلاب کے پھول بنو اور کردار کی خوشبو تقسیم کرو۔ ان شاء اللہ خلقِ خدا تمھارے گرد جمع ہوجائے گی۔معاشرے کے خدمت گار بنو۔ یتیموں، مسکینوں، بیوائوں اور بوڑھوں کا سہارا بنو۔ مظلوموں کی آواز بنو اور ان کی دُعا بنو۔ خالق کو راضی کرنا ہے تو مخلوقِ خدا کی خدمت کرو۔

ہم جانتے ہیں کرپٹ اشرافیہ نے صرف پاکستان کو منزل سے ڈی ریل ہی نہیں کیا بلکہ انھوں نے بیوروکریسی کو بھی کرپٹ کیا، پولیس کا نظام بھی تباہ کیا۔ ٹیکس کا نظام عوام کو نچوڑنے کا اور اِن کی تجوریاں بھرنے کا ذریعہ ہے۔ انھوں نے اس ملک میں کرپشن، اقرباپروری اور طبقاتی نظام کو دوام دیا۔ ریلوے غریبوں کی سواری ہے، اس کو تباہ کیا۔ کرپشن کی وجہ سے ہی پی آئی اے کو مفلوج کیا۔ پارلیمنٹ پر عوام کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں لیکن اس سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔ مظلوم کو سننے کے لیے کوئی ادارہ نہیں ہے۔ چور اور لٹیروں کو پکڑنے کا کوئی نظام نہیں ہے۔

پاکستان کے آئین میں اللہ کی بادشاہت اور انسانوں کی خلافت کو تسلیم کیا گیا ہے مگر یہاں منافقت کا نظام ہے۔ کرپٹ اشرافیہ کا نظام ہے، جاگیرداروں کا نظام ہے، امریکی وفاداروں کا نظام ہے۔ اللہ کا نظام کہیں نظر نہیں آتا اور نہ خلافت کا نظام نظر آتا ہے۔ آئینِ پاکستان قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا، لیکن سارا معاشی نظام سود پر چلتا ہے۔ سود تو اللہ اور رسولؐ کے ساتھ جنگ ہے۔

ہم آئینِ پاکستان کے ساتھ ہیں اس لیے کہ اس آئین نے پاکستان کو جوڑ رکھا ہے۔ اس میں اللہ کی حاکمیت کو اقتدارِاعلیٰ تسلیم کیا گیا ہے۔ اگر پاکستان کا آئین ختم ہوا تو فساد کی قوتیں دوبارہ ایسا متفقہ دستور نہیں بننے دیں گی۔ وفاقی شرعی عدالت ختم ہوجائے گی۔ پھر صوبوں کو اکٹھا کرنا مشکل ہوگا۔ یہاں سامراجی قوتیں ہمیشہ غیرجمہوری نظام کی حمایت کرتی ہیں تاکہ اس ملک کا تشخص بدل ڈالیں، اور اس ملک کو بھارت کا غلام بنا ڈالیں۔ ان کے لیے ایک ڈکٹیٹر سے سودا کرنا آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں مسئلہ آئین کا نہیں، قیادت کا اور قیادت کی بے عملی کا ہے۔ عوام کو جب موقع ملتا ہے تو انھی لوگوں کو جھولیاں بھربھر کر ووٹ دیتے ہیں جنھیں بعد میں جھولیاں بھرکر بددعائیں دیتے ہیں۔ خود ہی سانپوں کے منہ میں دودھ ڈالتے یں اور جب وہ اژدھا بن کر ڈستے ہیں تو پھر خوب روتے بھی ہیں۔

ان اژدھوں نے آپ کو دبایا ہوا ہے۔ یہی سانپ خزانے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے مقصد پاکستان کو سبوتاژ کیا اور پاکستان کے جغرافیے کو بھی۔ چین اور ملایشیا کو اچھی قیادت ملی تو ترقی کرگئے اور ایشیا کے ٹائیگر بن گئے۔ یہاں استحصالی طبقے نے خود کو امیر اور آپ کو غریب بنایا۔ انھوں نے ہماری صنعت کو تباہ کیا۔ انھوں ہماری زراعت کو تباہ کیا۔ ان کی وجہ سے غریب اور مزدور فاقوں کا شکار ہیں۔ ان کے بچے باہر پڑھتے او رہمارے بچے گندگی کے ڈھیر میں رزق تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ ان کو ووٹ دیتے ہیں اور وہ آپ کو بجلی اور گیس کے ظالمانہ بل بھیجتے ہیں اور     یہ وی وی آئی پی کلچر تو یہودیوں کا ہے۔ کیا اس ملک میں ہم سب برابر نہیں ہیں؟ ہسپتالوں میں،   ہوٹلوں میں، دفاتر میں، ہر جگہ وی آئی پی کلچر ہے۔ محمود اور ایاز کب ایک صف میں نظر آئیں گے۔ جب اسلامی حکومت قائم ہوگی تو تعلیمی اداروں میں طالب علم ، ہسپتالوں میں بیمار، اور عدالتوں میں ہرمظلوم وی آئی پی ہوگا۔ ہم موجودہ وی آئی پی  کلچر کو ختم کریں گے تو لوگ خود کہہ اُٹھیں گے کہ  ع

رہے نہ کوئی عالی جاہ ، لا الٰہ الا اللہ

قومی ایجنڈا

ہمیں قوم کو روشنی کے گرد اکٹھا کرنا ہے، اُمید کی شمع روشن کرنی ہے۔ میں محروموں کو، مظلوموں، مزدوروں اور مجبوروں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی عام آدمیوں اور غریب عوام کی اصل جماعت ہے۔ یہاں موروثی اور خاندانی سیاست نہیں ہے۔ یہاں کوئی گدی نشین نہیں ہے۔ آئیے ہم سب مل کر مٹی بھر کر پٹ اشرافیہ کی کرپٹ فیملی کا مقابلہ کریں۔ اسلامی پاکستان کے لیے، جمہوری پاکستان کے لیے، فلاحی پاکستان کے لیے، پروگریسیو پاکستان کے لیے ایک ہوجائیں تاکہ محمود و ایاز ایک صف میں نظر آئیں۔

مَیں عوامی ایجنڈے میں یہاں ہر فرد کو خوش حال دیکھنا چاہتا ہوں۔ فرد خوش حال ہوگا تو قوم خوش حال ہوگی، پھر ریاست بھی خوش حال ہوگی۔ اس کے لیے انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ میں مانتا ہوں کہ یہاں پرانے سیاسی کھلاڑیوں اور سیاسی پنڈت بڑے مضبوط ہیں۔ ان کے پاس وسائل ہیں، امریکا ان کے ساتھ ہے اور میڈیا پر بھی ان ہی کا بول بالا ہے۔

ہمارے پڑوس چین میں غریب کسان جاگیرداروں کے خلاف اکٹھے ہوئے اور انقلاب برپا کر دیا۔ فرانس میں مزدور ساہوکاروں کے خلاف اکٹھے ہوئے اور کامیاب ہوگئے۔ ترکی میں اسلامی تحریک کے کارکنوں نے ۱۸، ۱۸ بار ایک ایک گھر پر دستک دی اور کامیاب ہوگئے۔ ہم تو ۱۸کروڑ ہیں۔ ہمارے ساتھ اللہ ہے، ہاتھوں میں قرآن ہے اور ہمارے ساتھ ایک شان دار ماضی ہے۔ اگر عوام بیدار ہوگئے تو کوئی ہماراراستہ نہیں روک سکتا۔

  •  روزگار کی فراھمی اور بے روزگاروں کے لیے الاؤنس: ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں میں ڈگریاں ہیں ، مگر یہ کارآمد نہیں ہیں، اور نہ ان سے روزگار ملتا ہے۔ کیا یہ حکومت کا فرض نہیں ہے کہ وہ ہر بے روزگار نوجوان کو باعزت روزگار دے یا بے روزگاری الائونس۔ ہمارے ہنرمند اور قابل نوجوان روزگار کی تلاش میں باہر کیوں بھاگ رہے ہیں۔ حکومت ان کو بلاسود قرضے کیوں نہیں دیتی۔ نظام ایسا بنایا ہے کہ پھر معاف بھی ہوجاتے ہیں۔

جب اسلامی حکومت قائم ہوگی تو ہر بے روزگار ہنرمند نوجوان کو روزگار دیں گے ، اور روزگار ملنے تک بے روزگاری الائونس دیں گے۔

  • مفت تعلیم اور اُردو ذریعۂ تعلیم:کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہمارے پیارے پھول جیسے بچوں کے لیے سکول میں کرسیاں نہیں ہیں، ان کے لیے ٹاٹ اور چٹائیاں نہیں ہیں اور استاد بھی نہیں ہے۔ جب کہ اعلیٰ طبقے کے لیے ’اے لیول‘  ’او لیول‘ ، اوکسفرڈ اور کیمبرج کا نظام ہے۔ کیا غریب آدمی کسی اچھے سکول یا کالج میں پڑھ سکتا ہے؟

ہمارا عزم ہے کہ اسلامی حکومت قائم ہوگی تو یکساں نظامِ تعلیم کو رواج دیںگے۔ جس سکول میں وزیراعظم کا بیٹا پڑھے گا اسی میں مزدور اور ہاری کا بیٹا بھی پڑھے گا۔ یکساں ماحول ہوگا تو پتا چل جائے گا کہ کون ہیرو ہے اور کون زیرو؟

ہمارے معاشرے میں ۵۱ فی صد خواتین ہیں۔ اس شرح سے ان کے لیے سکول، کالج  اور یونی ورسٹیاں بھی ہونی چاہییں مگر تنگ نظر حکومتوں نے ان کو بھی تعلیم سے محروم رکھا ہے۔ اڑھائی کروڑ بچے سکول سے باہر رہ جاتے ہیںیا نکل جاتے ہیں۔

ہم غیرترقیاتی اخراجات کو کم کرکے تعلیم کو مفت اور عام کریںگے۔ میٹرک تک تعلیم لازمی ہوگی۔ تعلیم کا ذریعہ قومی زبان ہونا چاہیے اور قومی اور علاقائی زبانوں کو ان کا قرار واقعی مقام ملنا چاہیے۔ انگریزی اہم ہے لیکن انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بنانا اوراس کی بالادستی قائم کرنے سے اجتناب ضروری ہے۔ انگریزی زبان کی بادشاہت میں کروڑوں نوجوان زندگی کی دوڑ میں پیچھے  رہ جاتے ہیں۔ تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی پاکستان میں علم کے نور سے منور پاکستان میں تعلیم مرکز اور محور ہوگی۔

  • مفت علاج: ملک کے ہسپتالوں کا کیا حال ہے؟ پرائیویٹ ہسپتال مہنگے، جب کہ سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات نہیں ہیں، نہ ڈاکٹر ہے نہ دوائیاں، نہ مریضوں کے لیے بستر اور خدمت گار۔ وہاں بھی کرپشن نے اپنا اثر دکھایا ہے۔ اسمبلی ممبران کے ایک دانت پر سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں،وہ بھی لندن میں۔ دوسری طرف سرکاری ہسپتالوں میں سردرد کی دوا بھی ملتی۔ غریب یہاں بھی اپنی موت کا انتظار کرتا ہے مگر وہ بھی اپنے وقت پر ہی آتی ہے۔

اسلامی فلاحی حکومت قائم ہوگی تو بڑی بیماریوں کا علاج مفت کریں گے۔

  • پیداوار میں مزدور اور کسان کی شراکت: ملک کے لیے قربانی عام آدمی دیتا ہے، خون پسینہ بہاتا ہے۔ ہماری بلندوبالا عمارتیں غریب بناتا ہے اور ان عمارتوں میں رہتا کوئی اور ہے۔ کھیت ان کی وجہ سے لہلہاتے ہیں مگر ان کی پیداوار کھاتا کوئی اور ہے۔ کارخانوں میں پسینہ بہاتا ہے مگر منافع کوئی اور لے جاتا ہے۔ اسلامی پاکستان میں کارخانوں کے منافعے میں مزدورشریک ہوگا اور جاگیرداروں اور زمین داروں کی پیداوار امیں کسان اور ہاری شریک ہوگا۔
  • غریبوں کے لیے سستی اشیا کی فراھمی: ہمارا عزم ہے کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست ہوگی۔ اس طرح ہر وہ پاکستانی جس کی ماہانہ آمدن ۳۰ہزار سے کم ہو اس کو آٹا، دال، چاول، گھی، چینی اور چائے پر سبسڈی دیں گے۔ عیش اور عشرت کی چیزوں پر ٹیکس لگائیں گے۔ غریب کا پیٹ بھی روٹی چاہتا ہے۔ وہ اپنے بچے کے ہاتھ میں قلم اور کتاب چاہتا ہے۔ عزت کی زندگی اور رہنے کو ایک چھت چاہتا ہے۔
  • عمر رسیدہ لوگوں کے لیے الاؤنس:عمر رسیدہ لوگ آخری عمر میں اپنے آپ کو زمین پر بوجھ سمجھتے ہیں۔ نہ ان کی سوشل لائف ہوتی ہے، نہ بڑھاپے کے اخراجات کا کوئی انتظام اور اس طرح وہ موت کے منتظر ہوتے ہیں۔ اسلامی حکومت قائم ہوگی تو ان کو ان کی زندگی آسان بنانے کے لیے اولڈ ایج سوشل الائونس دیں گے۔
  • ائمہ مساجد کے لیے تنخواہ: پاکستان میں لاکھوں مساجد ہیں، یہاں آئمہ پانچ وقت قوم کی امامت کرتے ہیں، بچوں کو پڑھاتے ہیں، مساجد کو سنبھالتے ہیں۔ اسلامی حکومت قائم ہوگی تو پاکستان کے دوسرے محکموں کی طرح ان کے لیے بھی تنخواہیں مقرر کرے گی اور یہی مساجد عبادت کے مراکز تو ہیں ہی، علمی مراکز بھی بنیں گے۔ منبر ومحراب کو قوم کو منظم کرنے کے لیے متحد کرنے کے لیے اور علم کے نور کو عام کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
  • غیرمسلموں کے لیے تحفظ: میں غیرمسلم پاکستانیوں کو بھی یقین دلاتا ہوں کہ اسلامی حکومت میں تمھاری جان و مال اور عز ت و آبرو کو تحفظ حاصل ہوگا۔ آج کی طرح کوئی تمھیں جھوٹے الزام لگاکر آگ کی نذر نہیں کرسکے گا۔ پچھلے ڈیڑھ ہزار سال میں مذہبی اقلیتوں کو سب سے زیادہ تحفظ اگر ملا ہے تو مسلم حکمرانی میں ملا ہے۔ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جس مسلمان نے کسی غیرمسلم کا حق مارا یا اسے اپنے ظلم کا نشانہ بنایا، قیامت میں اس مسلمان کے خلاف دعویٰ لے کر خود مَیں کھڑاہوں گا‘‘۔

اللہ اللہ! جس غیرمسلم کی طرف سے وکیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں، کیا ہم اسے تکلیف دے سکتے ہیں۔ ملک کے وسائل پر آپ کا بھی اسی طرح حق ہے جس طرح مسلمانوں کا ہے۔

  • سود کے خلاف اعلانِ جنگ: سود اور سودی کاروبار نے معاشرے میں تصادم پیدا کیا ہے۔ ہم سود کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہیں۔ بنک مال داروں کو قرضے دیتے ہیں لیکن جھونپڑی والوں کو، گھر بنانے والوں کو قرضہ نہیں دیتے۔ بچوں کو تعلیم کے لیے قرضہ نہیں دیتے۔۵۱ فی صد عورتوں کو قرضے نہیں دیتے۔ ہم اس سودی نظام کو مُردہ باد کہتے ہیں۔

اسلامی حکومت قائم ہوگی تو بنکوں کے دروازے عام لوگوں کے لیے کھل جائیں گے۔ حکومت اسلام کے معاشی نظام کو اپنائے گی تو عام آدمی ترقی کرے گا۔

ہم حکومت سے بھی کہتے ہیں کہ وہ سود کے حوالے سے سپریم کورٹ سے اپنی اپیل واپس لے ورنہ ہم عوام سے سودی اداروں کے بائیکاٹ کی اپیل کریں گے۔ سودی نظام کی وجہ سے مہنگائی ہے۔ عالمی بنک کے قرضے بھی امیروں پر خرچ ہوتے ہیں اور ہتھکڑیاں غریبوں کو پہنائی جاتی ہیں۔ ہم زکوٰۃ کا نظام نافذ کریں گے کہ ہر بیوہ اور یتیم کی کفالت کا سامان ہوسکے۔ غریب کے لیے مفت علاج کا انتظام ہوسکے اور جو مظلوم عدالت میں اپنا فیصلہ، اپنا کیس خود نہیں چلا سکتا تو سرکار ان کو یہ سہولت دے گی۔

  • ناجائز جاگیروں کی غربا میں تقسیم: جس ملک میں بھی جاگیرداری نظام ہے، وہاں انسان ترقی نہیں کرسکتا۔ یہاں انگریزوں نے جن غلاموں کو غداری کے عوض بڑی بڑی جاگیریں دی تھیں، ہم ان کو واپس لے کر غریبوں میں تقسیم کریںگے اور قومی خزانے کو جس نے بھی لوٹا ہے اس کا احتساب کریں گے، اس کے ساتھ حساب کتاب کریں گے۔
  • منصفانہ انتخابات اور متناسب نمایندگی: ہم چاہتے ہیں کہ عام انتخابات سے قبل پوری انتخابی نظام کی اوور ہالنگ کی جائے۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو ہونی چاہیے۔ عوام الیکشن کے نام پر سلیکشن قبول نہیں کریں گے۔ بیلٹ بکس پر ووٹرز کا اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ خدا کے لیے عوام کے فیصلے عوام کو کرنے دیں۔

یہ کیسی عجیب بات ہے کہ الیکشن سے پہلے صوبے اور علاقے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ یہاں ظاہری حکومت ایک ہے اور باطنی حکومت دوسری اور جب دونوں ایک پیج پر نہیں ہوتے تو عوام بھی مشکل سے دوچار ہوتے ہیں اور باہر کی دنیا بھی حیران ہوتی ہے کہ ظاہر حکومت سے معاہدے کرے یا باطنی سے۔ الیکشن کا راستہ ہی تبدیلی کا راستہ ہے۔ جب پُرامن جدوجہد کے راستے بند ہوجاتے ہیں پھر مسلح جتھے بنتے ہیں۔

عوام کا مطالبہ ہے کہ متناسب نمایندگی کی بنیاد پر الیکشن ہو تاکہ کسی کا ووٹ ضائع نہ ہو۔ موجودہ طریقے میں پارٹی اور لیڈر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں اور دولت مندوں کے ہاتھوں یرغمال ہوتے ہیں۔ متناسب نمایندگی میں لوگ پارٹی کو ووٹ دیں گے، منشور کو ووٹ دیں گے اور میرٹ کی بنیاد پر لوگ آئیں گے۔ پھر ہر کوئی نہیں کہے گا کہ ہمارے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔

  • آزاد خارجہ پالیسی: ہم آزادخارجہ پالیسی کے قائل ہیں۔ تمام ممالک سے دوستی کا رشتہ استوار کرنا چاہتے ہیں اور خصوصیت سے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے بھی قائل ہیں۔ ہم دوسروں کے معاملات میں عدم مداخلت کے بھی قائل ہیں لیکن وہ آقا اور ہم غلام کی حیثیت سے ہوں، اس خارجہ پالیسی کو ہم یکسر مسترد کرتے ہیں۔ پاکستان کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور نظریاتی تشخص اور ملک کے مفادات کا تحفظ ہماری خارجہ پالیسی کا اصل ہدف ہوگا۔

قوم سے اپیل

ہم پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی ریاست جہاں حاکمیت اور شریعت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ہوگی اور حکومت عوام کے مخلص بندوں کی۔ اس مقصد کے لیے عوام ہمارا ساتھ دیں۔ ہمارے پاس وژن ہے، ہمارے پاس مخلص ماہرین کارکنان کی ٹیم ہے۔ ہم عوام کے تعاون سے ’اسٹیٹس کو‘ کو شکست دیں گے۔

جماعت اسلامی ہی تبدیلی لاسکتی ہے۔ کرپشن کا سومنات ہم ہی توڑ سکتے ہیں۔ ہم نے ہردور میں قربانی دی ہے۔ پاکستان کی محبت میں جماعت اسلامی کے قائدین کے جنازے جیلوں سے نکل رہے ہیں۔ ہم زلزلوں اور سیلاب کی مصیبت میں عوام کے ساتھ کھڑے تھے۔ ہم نے ہمیشہ فلسطینیوں کا ساتھ دیا    ؎

سر جلائے ہیں مشعلوں کی طرح

یوں بھی لوگوں کی رہبری کی ہے

ہمارا ایجنڈا قوم نے قبول کیاتو ہم آپ کو ایک ایسی حکومت دیں گے جس میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہوگا۔ ایک ایسی حکومت جس کا وزیراعظم ۱۸کروڑ عوام کی قیادت کرسکے۔ مسجد میں امامت بھی کرسکے اور اقوام متحدہ میں ایک ارب مسلمانوں کی نمایندگی بھی کرسکے۔    مَیں ساری جماعتوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس ملک کی خاطر ہمارے ایجنڈے کو تسلیم کرلیں تاکہ یہ ملک ترقی کرسکے۔ یہ پارٹی کا نہیں، قومی ایجنڈا ہے۔

میرے بھائیو اور دوستو!

۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کا جو پودا لگایا گیا تھا، وہ اب ایک تناور درخت بن گیا ہے۔ جو قطر ہ تھا وہ اب ایک سمندر بن گیا ہے۔ یہ ذرّہ اب فولادی چٹان بن گیا ہے۔ ہمارے ہاتھوں میں قرآن ہے اور ہمارے رہنما نبی آخرالزمانؐ ہیں۔ ہم حق پر ہیں۔ ہمیں حق کے ساتھ چلنا ہے،    حق کے ساتھ جینا ہے، اور حق کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔

انسانی تاریخ میں برپا ہونے والے انقلابات کا جائزہ لیا جائے تو یوں نظرآتا ہے جیسے مکافاتِ عمل کا ایک سلسلہ ہے جس پر غور کرنے سے کامیابی یا زوا ل اور تباہی کا راستہ واضح شکل میں نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اگر تاریخی حقائق سے آنکھیں بند کرلی جائیں تو سورج کی روشنی بھی منظر کو صاف طور پر نہیں دکھاسکتی۔ قرآن کریم نے اسی انسانی فطرت کے پیش نظر جگہ جگہ اور باربار نئے سے نئے پیرایے میں اہلِ دانش، اہلِ ہوش اور اہلِ فکر کو پکارا ہے: کدھر جارہے ہو؟  این تذھبون! آنکھیں کھولو، مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ، زمین کو، آفاق کو، اپنی ہستی کو تجزیاتی نگاہ کے ساتھ جائزہ لے کر دیکھو۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی تخلیق کردہ اشیا میں ایسی خوب صورتی ، ایسا تناسب، ایسا حُسن رکھ دیا ہے جو ہر دیکھنے والے کو اس کی قدرت، کمال اور قوت سے آگاہ کرتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ دیکھنے والے کے پاس نگاہِ بینا ہو اور اس نے عقل کے دروازے بند نہ کردیے ہوں۔ فرمایا گیا: دیکھو آسمانوں اور زمین میں، رات اور دن کے اختلاف میں منہ بولتی روشن نشانیاں ہر اُس فرد کے لیے رکھ دی گئی ہیں، جو سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔  (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۰)

کلامِ عزیز کی روشن آیات اور حق و صداقت کے یہ جواہر باشعور تحریکی کارکنوں کو متوجہ کرتے ہیں کہ جب تک وہ اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ: بازار میں اور دفتر میں، گھر میں اور مسجد میں، جہاں کہیں بھی ہوں، اس کی حمد، اس کے کلام پر غوروفکر اور اس کے حضور رات کی تنہائی میں اپنی بندگی کا ثبوت پیش نہیں کریں گے، ان کے کام میں برکت پیدا نہیں ہوگی۔

اس عظیم کتابِ ہدایت، ذکریٰ اور نور کے سایے میں زندگی گزارنے کا عہد کرنے والے ہرلمحے اپنے رب سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ انھیں ان افراد میں سے کردے، جنھیں وہ خود جہنم کی آگ سے محفوظ کر دے گا اور اپنے دامنِ عفو و مغفرت میں، اپنی اُس رحمت میں جس کی وسعتیں زمین اور آسمانوں کی مجموعی وسعتوں سے زیادہ ہیں، لیتے ہوئے نہ صرف اُخروی زندگی میں ہی نہیں بلکہ اس دنیا کی زندگی میں، یہاں کے کاروبارِ حیات میں شرمندگی اور ناکامی سے بچاتا رہے، اوران میں شامل نہ کرے جو اپنے اُوپر ظلم کرنے والے ہوں۔ ان ابدی کلماتِ ہدایت کو اگر روزمرہ کی زندگی کی سرگرمیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو نقشۂ عمل بڑا واضح نظر آتا ہے۔

  • اوّلاً :اس بات کا شعوری طور پر اعلان کہ اصل قوت، اقتدار اور حاکمیت صرف اور صرف  اللہ رب العالمین کی ہے۔ چنانچہ اردگرد پائی جانے والی بیرونی قوتیں ہوں یا عوام کی طاقت،   عالمی منڈیوں پر سرمایہ دارانہ نظام قابض ہو یا نام نہاد سائنسی اور ٹکنالوجی پر عبور رکھنے والوں کے عظمت و کمال کے یک قطبی دعوے، یا پھر حکومت پر قابض افراد کا اپنی انتظامیہ اور قانونی اداروں اور عسکری قوت کی بنا پر بزعمِ خود ناقابلِ فنا اور غالب قوت ہونے کا دعویٰ ہو__ ان تمام ظاہری قوتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اللہ کے جو بندے حق کی گواہی کے لیے کھڑے ہیں، وہ بندے صرف  ایک بات کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا، اس کی صداے حق نے بندگیِ رب کی دعوت دی اور ہم نے بندگی کی اس دعوت کو قبول کر لیا۔ ہم نے اپنے آپ کو، اپنے نفس، اپنی برادری،اپنے خاندان، اپنی نسلیت، اپنی زبان، اپنے رنگ اور خون، اپنی سیاسی وابستگی ، اپنی مسلکی وفاداری، اپنے مادی مفادات، اپنے بزرگوں کی روایات و رسوم، غرض ہرہر چیز کو نکال کر صرف اُس ہستی کی بندگی میں دے دیا جو تمام مراسمِ عبودیت، قربانیوں ، دعائوں، سجدوں اور اعترافات کی مستحق ہے___ اسی کا نام توحید ہے۔

اس اعلانِ توحید کا تقاضا ہے کہ اللہ کو اپنا رب ماننے والا ہر شخص اور خصوصیت سے  تحریکِ اسلامی کا ہر کارکن اپنا جائزہ لے کر دیکھے کہ وہ جس مالک کی بندگی میں آنے کا اعلان زبان سے کرتا ہے، اُس عہد کا پاس کرتے ہوئے اُس نے اپنی زندگی کے ایک دن میں، ہفتے کے   سات دنوں میں اور مہینے کے ۳۰دنوں میں کتنا وقت اپنے کاروبار اور پروفیشن کی ترقی میں صرف کیا، اور کتنے لمحات احتسابِ نفس کرتے ہوئے، اپنے ہرہرکام کو ستایش اور خودپرستی کی شکل میں نہیں، بلکہ اپنے کام میں کمی اور کمزوری تلاش کرنے میں صرف کیے۔

معاشرتی بگاڑ اور فریضۂ اقامت دین

یہ کہنا بڑا آسان ہے کہ ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے ہے، جو بدنظمی کے عادی اور قانون شکنی پر فخر کرتے ہیں، جو مادیت کے غلام اور سیاسی مفادات کے بندے ہیں۔ یہ لوگ ہلڑبازی،     ناچ گانے کے رسیا ہیں۔ ہماری باتیں سن کر ہوا میں اُڑا دیتے ہیں۔ بھلا ہم انھیں کیسے تبدیل کریں؟ کیوں نہ ہم بھی انھی نسخوں کو استعمال کریں؟ شاید اسی طرح بات دلوں میں اُتر جائے! لیکن وہ شعور جو قرآن کریم دیتا ہے وہ ایک نئے زاویے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ حسنِ صوت کو تو تسلیم کرتا ہے لیکن چیخ پکار اور دھمکیوں کی سیاست کی جگہ حکمت ِدعوت اورموعظۂ حسنہ کی حکمت عملی سے روشناس کراتا ہے۔

یہ حکمت عملی وہی ہے جو انبیاے کرام ؑ نے ہر دور میں اختیار کی۔ یہ دعوت بھی وہی ہے جسے   انبیاے کرام ؑ نے ہر دور میں اپنے دور کے اُن جباروں، ناچ گانوں کے رسیا اور اپنی ذاتی عظمت اور اپنی شخصیت اور بزعمِ خود اپنی کرشمہ سازی پر فخر کرنے والوں کے سامنے پیش کی۔ یہ لوگ انبیا ؑ کی دعوت کا مذاق اُڑانے کے عادی تھے۔ اس کے باوجود انبیاے کرام ؑ بددل نہیں ہوئے، مایوس نہیں ہوئے اور انھوں نے دعوت کا کام جاری رکھا۔ ایسے افراد ہر دور میں رہے ہیں اور دعوتِ دین کا اعجاز یہی ہے کہ وہ ایسے افراد کو جو گمراہی کے گرو سمجھے جاتے ہوں، انھیں خیارکم فی الاسلام میں تبدیل کردیتی ہے۔ یہ دعوت ان لوگوں کو جو ہادیِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے ہوں،   پلک جھپکتے شمعِ رسالت کے پروانے بنادیتی ہے۔ یہی تو وہ چیلنج ہے، جسے ایک داعی اور ایک کارکن کو اپنے رب کی نصرت پر بھروسے کے ساتھ آگے بڑھ کر اختیار کرنا ہے۔ یہی اقامت ِ دین کا تقاضا ہے۔

اس دعوت اور دعوت کے طریق کار کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں نمود و نمایش اور ریا کا کوئی دخل نہ ہو۔ خودستائی اور ہربات کی تان ’میں‘ پر آکر نہ ٹوٹتی ہو۔ اس دعوت کے طریقے میں حکمت ِ دین کو اختیار کیا گیا ہو، یعنی دعوتی ترجیحات متعین ہوں اور ایک ترتیب سے ،ایک منصوبے کے تحت اقدامات کیے جائیں۔ اگر رب کریم نے ایسے مواقع پیدا کردیے ہوں کہ کسی مقام پر برسوں سے قابض سیاسی قوتوں کی نااہلی، خرابی اور بدمعاملگی کی بنا پر عوام کوئی اور راستہ تلاش کرنے لگے ہوں، تو ایسے حالات میں اپنے رب کے ساتھ اپنی وابستگی میں اضافہ، اپنی کمزوریوں کا جائزہ اور اس کی نصرت کے سہارے روشن مستقبل کی حکمت عملی پر بلاتاخیر دن رات کی محنت سے کام میں لگ جانا ہی دینی مصلحت ہے۔

اقامت ِ دین کی جدوجہد اور جہاد فی سبیل اللہ کو دن اور رات کی متاعِ حیات سمجھتے ہوئے اختیار کیا جائے، اس تگ و دو اور جہاد کا مقصد نہ محض حصولِ اقتدار ہو، نہ عوامی مقبولیت و شہرت،     نہ علمی کمال کا اعتراف، بلکہ صرف اور صرف وتوفنا مع الابرار کی تمنا اور اس تمنا کی تکمیل کے لیے ہمہ تن شہادتِ حق میں مصروف ہوجانا ہو۔

اس جدوجہد میں مصروف ایک کارکن ہو یا قائد، اس کا ہر چھوٹا یا بڑا عمل، وہ جو عالم الغیب والشہادہ ہے ،اسے اپنے پاس محفوظ کرلیتا ہے اور ضائع نہیں ہونے دیتا۔ ایک عام دیکھنے والی آنکھ یہ سمجھتی ہے کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد میں کسی اجتماع گاہ میں کرسیوں کی صف بنانا، یا دریاں بچھانا، یا شرکاے اجتماع کا خوش دلی سے استقبال کرنا ایک چھوٹا سا عمل ہے، لیکن وہ جو  سراپا رحم و رحمت ہے، وہ ایسے کام کو بھی جس میں جیب سے ایک پیسا خرچ نہ ہو رہا ہو، ایک صدقہ قرار دیتا ہے۔ لکھنے والے اس چھوٹے سے عمل کو بھی ایسے لکھتے ہیں جیسے اس نے اپنی جیب سے سونے کا پہاڑ اللہ کی راہ میں انفاق کر دیا ہو۔

مستقبل کی حکمت عملی کے تقاضے

اقامت ِ دین کی مستقبل کی حکمت عملی کا ہدف جہاں اس دنیا میں متوقع نتائج کے تناظر میں ہونا ہے، وہاں اُس سے بھی زیادہ آخرت میں کامیابی کے نقطۂ نظر سے طے ہونا چاہیے۔ اس دنیا میں سیاسی اتحاد ہو یا معاشی اتحاد، وقتی افہام و تفہیم ہو یا طویل المیعاد اسٹرے ٹیجک تعاون، ایسے تمام معاہدوں پر غور کرتے ہوئے مقصود و مطلوب حصولِ اقتدار نہیں بلکہ حصولِ رضاے الٰہی ہونا چاہیے۔ اس جادۂ حق پر عمل کرتے ہوئے حصولِ مقصد کے لیے عمرنوح ہی کیوں درکار نہ ہو۔

یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے یہود و نصاریٰ کے حوالے سے بُرہانِ قاطع ہمارے سامنے رکھ دی ہے کہ وہ کبھی اسلامی جماعت کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔ اگر یہودو نصاریٰ کے رویے پر اصولی نقطۂ نظر سے غور کیا جائے تو وہ طرزِعمل غیریہودی اور غیرنصاریٰ میں بھی پایا جاسکتا ہے، یعنی جو اپنے وعدوں کو مسلسل توڑنے اور ان کے خلاف عمل کرنے کی ایک تاریخ رکھتے ہوں۔

اس تناظر میں تحریکاتِ اسلامی کو اپنے روشن مستقبل کے حوالے سے یہ سخت فیصلہ کسی نہ کسی مرحلے میں کرنا پڑتا ہے کہ ایک وقتی مفاد کو ترجیح دی جائے یا ابدی کامیابی کے لیے طویل جدوجہد کے راستے کو اختیار کیا جائے۔ یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جس میںحکمت دین (جو اللہ کی طرف سے ایک عطیہ ہے) کے ساتھ زمینی حقائق کا جامع علم رکھنا انتہائی اہم اور ضروری ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر کہیں مڈٹرم انتخابات کا معاملہ ہو تو اپنی مقبولیت و شہرت کا اظہار کرنے کے لیے ہرہرمقام سے افراد کو قیادت کے لیے کھڑے کر دینا جذباتی اعتبار سے تو شاید قابلِ فہم ہو مگر طویل عرصے کی حکمت ِعملی کے اعتبار سے محلِ نظر ہے۔ ہماری کامیابی کا انحصار اصولی اور اخلاقی برتری پر ہے، عوامی برتری پر نہیں۔ ممکن ہے قریب تک دیکھنے والی نگاہ کے لیے ایک اچھا کام ہو، لیکن وہ جو دُور رس نگاہ رکھتا ہو اس کے لیے فوری اور بھاری کامیابی کی جگہ وہ عمل جو چاہے چھوٹا نظرآئے مگر دیرپا ہو اور مطلوبہ تبدیلی کے لیے مؤثر ذریعہ بنے، کہیں زیادہ اہم ہے۔ انبیاے کرام ؑ اور اہلِ حق کی نظر ظاہری سے زیادہ اس کامیابی پر رہی ہے جو جوہری اعتبار سے دین کے قیام کے لیے ممدومعاون ہو اور سب سے بڑھ کر جو آخرت میں جواب دہی کے وقت ساتھ دے سکے۔ گویا سیاسی حکمت عملی ہو یا انسانوں کو دین کی طرف بلانے کے ذرائع، ہرشعبے میں اصل ہدف آخرت کی کامیابی اور ’ابرار‘ کے ساتھ جنت میں داخلے کی طلب ہو، تو پھر دنیوی اعتبار سے بھی مفید اور دیرپا اثرات رُونما ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی یہی توشۂ نجات ہوں گے۔ اس پس منظر میں ہماری کامیابی اور ناکامی کا معیار محض دنیا طلب قوتوں سے مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کبھی یہاں کی ظاہری ہاری ہوئی بازی بھی بہت بڑی کامیابی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

ایک ظاہربین نگاہ کے لیے تو قریب المیعاد کامیابی ہی قوت کا مظہر ہوتی ہے کہ کسی طرح اقتدار پر قابض ہوجائے۔ کسی طرح ایک مروجہ نظام کو چیخ پکار کے ذریعے ایک نام نہاد، غیرمنصفانہ، غیرجمہوری نظام قرار دے کر گلی کوچے میں ہلڑبازی کرنے والوں کی مدد سے گرا کر کرسیِ اقتدار پر قبضہ کرلیا جائے۔ مگر ایسی تبدیلی صرف قصرِاقتدار کے پہرے داروں کی تبدیلی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن وہ جو بجاے خود نہ اقتدار کا طالب ہو، نہ سیدھے یا ٹیڑھے قوتِ نافذہ پر قبضہ کرلینے کو فتح سمجھتا ہو، بلکہ اُس کے لیے اصل مقصود اللہ رب العالمین کی رضا اور خوشنودی ہوتی ہے، وہ اُس راستے کو اختیار کرتا ہے جو چاہے طویل ہو لیکن ہرقدم انبیاے کرام ؑ کے نقوشِ پا کی پیروی میں آگے بڑھ رہا ہو۔

وہ جو روشن مستقبل اور اُخروی کامیابی کے لیے پکارتے ہیں، جو نمازوں میں خشیت اختیار کرتے اور اپنی عبادات میں توازن و اعتدال اختیار کرتے ہیں، جو اپنے وعدوں اور عہد کی پاسداری کرتے ہیں، جو اپنی پاک بازی پر قائم رہتے ہیں، جو اپنے اہلِ خانہ کو اپنے عمل سے دعوت دے کر نارِ جہنم سے بچانے والے ہوتے ہیں___ ایسے ہی اہلِ ایمان کے لیے کہا گیا ہے کہ اگر وہ اقامت ِ دین کی جدوجہد میں صرف ۲۰ افراد ہوں تو ۲۰۰ پر غالب آئیں گے۔ دنیا ہجوم جمع کر کے اپنی قوت کا مظاہرہ کرتی ہے اور غضب ناک ہجوم کے بل پر نظاموں کو تہس نہس کرنے کا اعلان کرتی ہے، جب کہ ربِ کریم ان اہلِ ایمان کی صرف ۲۰ کی نفری کو جنھیں ہم کسی شمارقطار میں نہیں لاتے ۲۰۰؍افراد پر بھاری ہونے کا فیصلہ فرماتے ہیں۔ سوچنا ہوگا کہ وہ ۲۰؍ افراد کیا اپنی قوتِ ایمانی،  ایثار و قربانی، مقصد کی لگن، منزل کے واضح شعورسے کس حد تک آگاہ ہیں۔ اگر ان کا تصورِ منزل دھندلا گیا ہو، اگر ایثاروقربانی کی جگہ نفسا نفسی ہو، اگر قوتِ ایمانی کی جگہ محض افرادی قوت کو کامیابی کا پیمانہ بنابیٹھیں، تو یہ قصور حکمت ِعملی کا نہیں ان افراد کا ہے جو آغازِ سفر ہی کو اپنی منزل سمجھ بیٹھے ہوں۔

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو راہِ حق میں داعی بن کر نکلا ہے، کیا اُس نے واقعی وہ ہجرت کی ہے جو اسے ان تمام تعلقات اور وابستگیوں سے آزاد کرے، جو ماضی میں اس کی زندگی کا حصہ رہی ہیں؟ کیا وہ اب بھی اپنے کاروبار میں وسعت و برکت کی بنا پر اپنے آپ کو طاقت ور انسان سمجھتا ہے؟ کیا وہ اب بھی قیادت و سربراہی کرنے والے افراد کے اردگرد رہ کر اپنے مستقبل کے روشن امکان تلاش کرتا ہے؟ کیا وہ منظرنامے میں نظر نہ آنے کو پسند کرتا ہے اور اُس اینٹ کی طرح جو منوں  ملبے کے بوجھ تلے دب کر بنیاد کا حصہ بن جاتی ہے اور جسے کبھی کوئی پرچم لگاکر نمایاں نہیں کیا جاتا، خاموش کارکن کی حیثیت سے اپنے دعوتی کام میں مصروفِ عمل رہتا ہے۔ کیا وہ اللہ کی راہ میں باطل کے خلاف جدوجہد کرتے وقت نہ صرف اپنے وقت، اپنی صلاحیت، اپنے مال، بلکہ اپنی جان کو بھی بازی پر لگانے کے لیے تیار رہتا ہے۔

ایسے افراد کے لیے ان جنتوں کا وعدہ ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ جہاں ہر وہ شے ہے جو ایک متلاشیِ حق کو خوش، مطمئن اور مسرور کرسکتی ہے۔ اس حقیقی منزل تک پہنچنے کا راستہ جس وادی سے گزرتا ہے، وہ یہی چند روزہ دنیا ہے جہاں اصل کارزارِ حیات حق و باطل کی کش مکش ہے۔ جہاں ایک شخص کو صرف اور صرف ہدایتِ الٰہی اور سنتِ رسولؐ سے اپنی حکمت عملی اور  طریق کار کو اخذ کرنا ہے۔ ہمارے لیے غورطلب بات یہ ہے کہ کیا ہم ان ۲۰؍افراد میں سے ہیں جن کی کامیابی کا وعدہ وہ ہستی کر رہی ہے جس کا ہر وعدہ سچا ہوتا ہے!

اس منزل کے حصول کے لیے جو وصیت قرآن کریم فرماتا ہے وہ بڑی واضح، عملی اور جامع ہے، یعنی اہلِ ایمان کا صبر کی روش کو اختیار کرنا اور مضبوطی کے ساتھ، یکسو ہوکر اسلامی دعوت میں لگ جانا۔ موعظۂ حسنہ اور حکمت کے ساتھ دین کو بلاکسی تردد اور مداہنت کے پیش کرنا۔ وہ ایوانِ حکومت ہو یا عوامی اجتماع، حق کی بات کو پہنچانا اور اس میں کمی بیشی نہ کرنا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ بعض سیاسی اتحادوں سے وقتی فائدے ہوسکتے ہیں، جو شاید دعوت کی توسیع میں آسانی پیدا کردیں گی، اس کے باوجود ان قوتوں کے ساتھ شامل نہ ہونا جو اپنی ذاتی زندگی میں اور سیاسی تاریخ میں دین کا احترام نہ کرتی ہوں۔ عقل کہتی ہے کہ کشاکش کا حصہ بننے سے تنہا صدیوں تک جدوجہد کرنا زیادہ برکت کا باعث ہے۔

بلاشبہہ بعض مشروط اتحاد ایسے ہوسکتے ہیں جو وقتی مصلحت کی بنا پر کیے جائیں لیکن وہاں بھی اس بات کا خیال رکھنا کہ تحریک کسی ایسے کام میں تعاون نہ کرے جو دین کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہو۔ جس طرح کفر ملت واحدہ ہے ایسے میں قرآن کریم چاہتا ہے کہ اسلامی جماعت کے افراد کی پہچان صبر، ربط باہمی اور تقویٰ ہو: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (الِ عمرٰن ۳:۲۰۰) ’’اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، صبر پر قائم ہوجائو، صبر پر ثبات کے ساتھ قائم رہو، آپس میں جڑجائو، ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح سے، تمھارے دل اور تمھارے احساسات سب یک جان ہوجائیں‘‘۔

اصْبِرُوْا کہنے پر اکتفا نہیں کیا گیا اور فوری طور پر کہا گیا وَ صَابِرُوْا، یعنی یہ ایک انفرادی صفت ِ محمودہ نہیں ہے بلکہ اسے اجتماعی طور پر اختیار کیے بغیر کامیابی نہیں ہوسکتی۔ اس صبر کا مفہوم    نہ صرف انفرادی طور پر استقامت ہے بلکہ تحریک کا مجموعی طور پر اس طرزِعمل کو اختیار کرنا ہے جو  اس کے اخلاص، تقویٰ، بے لوثی اور صرف اور صرف رضاے الٰہی کے حصول کا مظہر ہو۔

تحریکاتِ اسلامی کی مستقبل کی حکمت عملی میں جائزہ و احتساب کو مرکزیت حاصل ہے کہ ہماری آج تک کی پالیسی میں کہاں خلا تھا، کہاں عاجلانہ اقدام کیا گیا، اور کہاں مستقبل کے مطالبات کو سمجھتے ہوئے حکمت عملی اختیار کی گئی، جس کی بنیاد قرآن و سنت کے اصول ہوں، تو پھر وہ غیبی نصرت، جس کا وعدہ ماضی میں انبیاے کرام ؑ کی اُمتوں سے کیا گیا تھا، جس کا وعدہ اُمت محمدیہؐ سے کیا گیا ہے، وہ نصرت آئے گی۔

حالیہ سیاسی بحران: چند غورطلب پہلو

قوموں کی زندگی میں ایسے مواقع بارہا آتے ہیں جب دیکھنے والی آنکھ یہ سمجھے کہ ملک میں افراتفری ہے،قانون کو پامال کیا جا رہا ہے، حکومت اور مہذب معاشرہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر رہے، حکومت ماضی اور حال سے کوئی سبق لیے بغیر اپنی روش پر قائم ہے، معیشت غیرمستحکم ہے، ثقافتی یلغار جاری ہے۔ جس ملک کو پسندیدہ قرار دیا جاتا ہے وہ ہماری شہری آبادی پر بم باری کر رہا ہے اور سیاسی بیانات میں خصوصاً کشمیر کے حوالے سے وہ باتیں دہرا رہے ہیں جن کا ہرلفظ زہر، عناد اور تکبر سے بھرا ہوا ہے۔ ان حالات میں دارالحکومت میں دھرنے کی شکل میں دو سیاسی جماعتوں نے اپنی حمایت اور قوت کے مظاہرے کے ساتھ ایسی صورت حال پیدا کردی کہ اچھے خاصے باشعور افراد بھی ملک کی سالمیت، یک جہتی اور تحفظ کے حوالے سے خاصے فکرمند نظر آتے ہیں۔

اس تناظر میں کیا ایک عام شہری سیاسی منظرنامے کے پیش نظر مستقبل کو روشن اور کامیابی سے ہم کنار دیکھ رہا ہے یا اُس میں ہمت اور ارادے میں کمی اور شدید مایوسی کی کیفیت پیدا ہورہی ہے؟ اس حوالے سے برقی ابلاغ عامہ نے خصوصاً جو کردار ادا کیا ہے، قوم اسے کس نگاہ سے دیکھتی ہے، اور اس عرصے میں جو سیاسی مطالبات بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں، ان کے کیا اثرات ملک کے اندر اور عالمی تناظر میں پاکستان کی تصویر (image) پر پڑ رہے ہیں؟ ملک میں سیاسی ارتقا کے نقطۂ نظر سے دو جماعتوں کی مہم جمہوری روایت کو تقویت دے گی یا تبدیلی یا انقلاب کا نعرہ دوبارہ قوم کو اُس مقام پر لاکھڑا کرے گا کہ ماضی کے چار مارشل لائوں کی طرح ایک مرتبہ پھر خدانخواستہ سیاسی بساط کو لپیٹ دیا جائے، اور فوج ملک کی نجات دہندہ بن کر ایک پیشہ ورانہ نمایندہ حکومت  اپنی سرپرستی میں قائم کرنے کے بعد یہ طے کرے، کہ اسے دوبارہ اپنی بیرکوں میں واپس جانا ہے، یا ماضی کی طرح کم از کم ۱۰ برسوں کے لیے ملک میں اصلاح کے نام پر فوج کو سابقہ فوجی سربراہوں کی طرح جمہوریت کے احیا کے نام پر جمہوریت کا قتلِ عام کرنا ہے؟

یہ وہ چند سوالات ہیں جو آج قوم کے ہرباشعور فرد کو پریشان اور متفکر کر رہے ہیں۔ یہ سوالات کوئی نئے سوالات نہیں ہیں۔ ماضی میں جب بھی فوج نے سیاسی اقتدار سنبھالا تو اسی نوعیت کے سوالات قوم کے ذہن میں اُبھرے تھے۔ اب ان کی شدتِ تاثیر میں اضافہ ہوگیا ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ عامہ مسلسل مایوسی اور الزام تراشی کو ہوا دے رہے ہیں۔ ایک جانب حکومت مخالف صحافتی اتحاد اور دوسری جانب حکومت حمایتی صحافتی اتحاد جس طرح حالات کا رُخ دکھا رہا ہے،   اس نے ابلاغ عامہ کی غیرجانب داری اور معلومات کو ان کے صحیح تناظر میں پیش کرنے اور براہین پر مبنی واقعات پیش کرنے پر سے قوم کے اعتماد کو اُٹھا دیا ہے اور ابلاغ عامہ صحافتی دیانت (professional integrity) سے عوام کو حالات و واقعات سے مطلع کرنے کے بجاے خود سیاسی پریشر گروپوں کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔

جب برقی ابلاغ عامہ دن کے کم از کم ۱۰ گھنٹے مسلسل دو متضاد تصاویر پیش کر رہے ہوں،  ایک حکومت کے اقدامات کی توثیق اور عقلی جواز اور دوسری جانب چند ہزار افراد کے ایک ہجوم کا مطالبہ کہ اپنی ناکارہ کارکردگی کی بنا پر حکومت ِوقت مستعفی ہوجائے اور پانچ سال تک انتظار کرنے کے بجاے فوری طور پر مستعفی ہوجائے اور چند ماہ میں تازہ انتخابات کرائے جائیں، تو نہ صرف مغالطہ بلکہ حالات سے مایوسی کا رجحان بھی تقویت پکڑنے لگتا ہے۔

ان حالات سے نجات کی راہ کیا ہو اور کس طرح فوج کی دخل اندازی کے بغیر حالات کو  صحت مند اور تعمیری رُخ پر لے جایا جائے؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس پر ملک کے ہرباشعور شہری کو  غور کرنے کی ضرورت ہے۔

دو سیاسی جماعتوں کے گذشتہ مہینوں کے احتجاجی منظرنامے نے بعض بنیادی پہلو اُجاگر کیے ہیں۔ ایک یہ کہ ملک کے عوام پاکستان میں دو پارٹیوں اور فوج کے یکے بعد دیگرے ملک پر حکمرانی کرتے رہنے سے تنگ آچکے ہیں اور اب دو نام نہاد بڑی پارٹیاں عوام کے اعتماد سے محروم ہو چکی ہیں۔ دونوں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ فرق صرف انیس بیس کا ہے۔ جب ایک پارٹی پانچ سال حکومت کرتی ہے تو لوگ ایک ایک دن گن کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں کب ان سے نجات دے گا، اور جب دوسری پارٹی برسرِاقتدار آتی ہے تو محض چند دن کے لیے تویہ احساس اُبھرتا ہے کہ شاید یہ اپنی ماضی کی غلطیوں پر نادم ہوکر قوم کو معاشی، سیاسی، اخلاقی اور اندرونی وبیرونی خطرات سے محفوظ کرنے میں کوئی پیش رفت کرے گی، لیکن چند ماہ کے بعد ہی یہ اُمید دم توڑتی نظر آتی ہے اور پھر تبدیلی کے انتظار کی گھڑیاں شروع ہوجاتی ہیں۔

لیکن آخر کب تک؟ یہی وجہ ہے کہ حالیہ احتجاج نے قوم کی ایک نفسیاتی ضرورت کو پورا کیا اور اسے بلندآواز سے یہ اعلان کرنے کا موقع دیا کہ وہ دو موروثی سیاست والی جماعتوں کی جگہ ایک تیسری نجات دہندہ قوت کی منتظر ہے۔ یہ ایک انتہائی مثبت طرزِعمل ہے جو اُبھر کر سامنے آیا ہے۔

اس فضا میں جو سوالات ہرباشعور شہری کے ذہن میں اُبھر رہے ہیں وہ بھی کچھ غیراہم نہیں ہیں، مثلاً یہ کہ ملک کی آبادی کا تقریباً نصف یا ۶۰ فی صد حصہ نوجوان آبادی کا ہے اور کم از کم ایک سیاسی پارٹی نے ان نوجوانوں کو سابقہ انتخابات اور حالیہ احتجاج کی مہم میں شامل کر کے اس بات کا ثبوت فراہم کیا ہے کہ اگر نوجوانوں کو صحیح طور پر متحرک کیا جائے تو ملکی حالات میں اصلاح کے لیے ایک تیسرے عنصر کا اُبھرنا اور کامیاب ہونا ایک ممکن بات ہے۔ بزرگ اور معمر سیاست کاروں کی سیاسی دانش مندی، تجربہ اور حکمت کے اعتراف کے ساتھ اب دَور نوجوان قیادت کا ہی ہے۔ اس لیے وہی سیاسی جماعت قیادت کی زیادہ مستحق ہوگی جو بڑی تعداد میں نوجوانوں کو اپنے ساتھ لے کر ان کی قوت کو تعمیری رُخ دے اور روایتی سیاست سے ہٹ کر قومی مفادات کے حصول اور عوام کی مشکلات کے حل کے لیے خود قوم کی عملی شرکت کے ذریعے تبدیلی کی راہ ہموار کرے۔

یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ تبدیلی کی ضرورت پر قومی اجماع ہے لیکن تبدیلی کون سی؟ اور نوجوانوں کو متحرک کرنے والا کون سا نعرہ؟مستقبل کی تعمیرواصلاح کی کون سی حکمت عملی اور کون سا ٹھوس قابلِ عمل منصوبہ قوم کو اس دلدل سے نکال سکے گا؟

۱۸ کروڑ انسانوں نے اپنی آنکھوں سے تبدیلی کے نام پر ہرشب نوجوانوں کو موسیقی اور رقص میں مصروف جو منظر دیکھا، اس پر قوم یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ تبدیلی لانے کے دعوے دار   ایک جانب جس معاشی اور سیاسی حل کا ذکر کر رہے ہیں، کیا ان کے پاس کوئی واضح پروگرام ہے اور کیا ایسی ٹیم موجود ہے جو اہلیت اور دیانت کے ساتھ انقلابی تبدیلیوں کا سفر کامیابی سے انجام دے سکے؟ محض جوش اور بھنگڑوں کے ذریعے تو یہ کام انجام نہیں پاسکتا۔ اس کے لیے جہاں نوجوان خون ازبس ضروری ہے، وہیں مقصد اور منزل کا صحیح شعور رکھنے اور اعلیٰ صلاحیت اور اچھے اخلاق کی حامل نئی قیادت بھی بشرط لازم ہے۔ ضرورت ایسے نوجوانوں کی ہے جو اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے دیے ہوئے تصورِ پاکستان پرسنجیدگی سے یقین رکھتے ہوں۔ جن کے شب و روز اس ملک کی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں صرف ہورہے ہوں، جنھیں محض موسیقی اور رقص کی کشش کھینچ کر نہ لائی ہو بلکہ وہ سوچ سمجھ کر اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ہرقربانی دینے کے لیے تیار ہوں اور جن سے اعلیٰ کارکردگی اور بہترین اخلاق دونوں کی توقع کی جاسکے۔

اس پہلو سے دیکھا جائے تو جس طرح ایک طوفان کی طرح تبدیلی کا نعرہ اُبھرا اور اسے پذیرائی ملی، اس رفتار سے شام کی محفلوں، بیانات اور عمل میں تضاد نے اُس تیسرے راستے (option ) کی اُمید کی لَو کو مدہم کردیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ نوجوانوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے انھیں محض شورشرابے اور اُچھل کود کی جگہ ایک واضح نقشۂ عمل دے کر متحرک کیا جائے، تاکہ قوم مایوسی اور نااُمیدی سے نکل سکے اور نوجوان علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے تصورِ پاکستان کو عملی شکل دے سکیں۔

ملک کی دو آزمودہ سیاسی پارٹیوں اور دیگر جماعتوں نے اس سیاسی ارتعاش کے دوران جس عزم کے ساتھ دستورِ پاکستان کی پاس داری پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے، چاہے اس کا سبب ان کی اپنی کوئی ذاتی ضرورت ہی کیوں نہ ہو، اس کے باوجود یہ ایک قابلِ تحسین عمل ہے۔ اس کے مقابلے میں جن جماعتوں نے دستور اور اسمبلی کے ادارے کو یا عدلیہ کو نظرانداز کرتے ہوئے ماوراے دستور اقدامات کا مطالبہ کیا ہے، شاید انھیں جلد یا بدیر اپنے موقف کی کمزوری کا احساس ہوجائے گا۔

سیاسی عمل کا تحفظ اور تسلسل ملکی مسائل کے دیرپا حل کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ملک سے افلاس، بھوک، تعلیم کی کمی، مغرب کی اندھی تقلید اور غلامی، ریاستی اداروں کی کمزوری، فرقہ واریت، اسلام کے نام پر تشدد کا استعمال، اور تشدد کو دُور کرنے کے بہانے اسلام پر ہاتھ صاف کرنے کی خواہش، جہاد کو دہشت گردی سے وابستہ کرنا، بعض علاقائی اور قبائلی روایات کو پہلے اسلام قرار دینا اور پھر ان کے پردے میں دراصل اسلام پر تنقید کرنا، ان مسائل کو جو ہمارے آج اور مستقبل سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، انھیں بلاضرورت اُبھار کر پیش کرنا___ یہ اور ان جیسے مسائل کا حل صرف ایک ہے کہ قوم کے سامنے ایک ایسا واضح اور قابلِ عمل نقشۂ کار پیش کیا جائے جو بجاے نظری حل پیش کرنے کے، عملی حل پیش کرے۔ پاکستان کی نظریاتی اساس کا فیصلہ تو مفکرِپاکستان علامہ اقبالؒ اور بانیِ پاکستان محمد علی جناحؒ کے ۱۰۰ سے زیادہ ارشادات کی روشنی میں قرارداد مقاصد اور دستور پاکستان میں دوٹوک الفاظ میں رقم کیا جاچکا ہے کہ اس ملک کی بنیاد صرف اور صرف اسلام ہے۔ اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ دستور میں دیے ہوئے قومی پالیسی کے اصولوں کی روشنی میں عوام کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں، مفاد پرست طبقات کی گرفت سے قوم کو نجات دلائی جائے اور تعمیرو تشکیلِ نو کے لیے صحیح ترجیحات کے تعین کے ساتھ ان پر عمل درآمد کے لیے حکمت عملی اور مدت کے تعین کے ساتھ نقشۂ کار پیش کیا جائے، تاکہ قوم جس تیسری قیادت کی تلاش میں ہے، اُس قیادت کی طرف سے قوم کے سامنے ایک قابلِ عمل منصوبہ آسکے۔ نعروں، احتجاجوں اور دھرنوں کی جگہ معاشی، معاشرتی، تعلیمی، قانونی، ضلعی سطح پر پیش آنے والے مسائل کے حل شریعت کی روشنی میں ترتیب دینے کے ساتھ، ملک کے نوجوانوں کو اُس تبدیلی کے عمل میں مصروف کیا جائے جو مصلحانہ جہاد کا درجہ رکھتی ہو۔

تحریکِ اسلامی کے لیے امکانات

قرآنِ کریم نے ہمیں بار بار اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمت ِعملی شیطان کی سو حکمت ِعملیوں پر غالب ہوتی ہے۔ پاکستان لازمی طور پر ایک ایسے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے جب عوام نے ایک تیسرے حل اور تیسری پسند کے بارے میں کھل کر حمایت کا اعلان کیا ہے۔ تحریکِ اسلامی نے اس بحران میں اللہ تعالیٰ کی مدد سے اپنے ناقدین اور حامیوں اور حمایتیوں دونوں کی نگاہ میں ایک اچھا مقام حاصل کیا ہے، اور آج پاکستانی عوام اس بات کے شاہد ہیں کہ سنجیدہ،  بے لوث، قابلِ اعتماد اور تعمیری رُخ پر لے جانے والی قیادت تحریک میں موجود ہے۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ بلاتاخیر ملک کے نوجوانوں کو تحریک سے وابستہ کرنے کے لیے شہروں اور ضلعوں کی بنیاد پر ایک منصوبۂ عمل بنایا جائے۔ اس میں اس بات کا خیال رہے کہ   ہم کن تعمیری سرگرمیوں کو اختیار کرسکتے ہیں اور کم سے کم مدت میں نوجوانوں کی کتنی تعداد کو دعوتِ حق سے روشناس کرانے کے بعد ان کی زندگیوں میں عملی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ کردار کی تبدیلی اور    خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کی بندگی اختیار کیے بغیر نوجوانوں کا کوئی جمِ غفیر ایک ہجوم تو فراہم کرسکتا ہے، حقیقی سماجی تبدیلی نہیں لاسکتا۔

آج تحریک کے لیے سنہری موقع ہے کہ تاریخ اسلامی تحریک کو ایک کلیدی کردار کی دعوت دے رہی ہے جس میں ملک و ملّت سے تمام مخلص اور خیرخواہ عناصر کو جمع کر کے اور نوجوانوں کی قوت کو صحیح طور پر منظم کر کے پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی اور جمہوری ریاست کی اس منزل کی طرف رواں دواں کیا جاسکتا ہے جو تحریکِ پاکستان کا اصل مقصد اور ہدف تھا۔

اس تبدیلی کی بنیاد محض ہمارے دعوے نہیں ہوسکتے۔ ہمیں قوم اور خصوصیت سے نوجوانوں کو  متعین طور پر ایک ایسا منشور اور نقشۂ کار دینا ہوگا جو ان کی اُمنگوں، قوتوں اور صلاحیتوں کو تعمیری اور مثبت رُخ پر لے جائے، اور وہ ہنگاموں اور بھنگڑوں کی ثقافت سے نکل کر اقبال کے شاہینوں کی طرح نئے اُفق اور نئے محاذوں پر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد کے سہارے ملک و ملّت کا پرچم سربلند کرسکیں۔

قرآنِ کریم تعداد کی قوت کی جگہ تقویٰ، ایمان، اخلاص اور ایثار و قربانی کی بنیاد پر ایک نئی نسل کی تعمیر چاہتا ہے۔ جیساکہ پہلے عرض کیا گیا وہ صرف ایسے ۲۰ باشعور، مخلص، عادل نوجوانوں کو تربیت دے کر یہ اصول بیان کرتا ہے کہ یہ ۲۰ اللہ کے سپاہی، ۲۰۰ مسلح اور اعلیٰ ٹکنالوجی سے لیس افراد کو بآسانی شکست دے سکیں گے۔ گویا سوال صرف ۲۰ نوجوانوں کا ہے۔ یہ تربیت یافتہ نوجوان جن کے سامنے منزل واضح ہو اور لائحہ عمل قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کرلیا گیا ہو، اپنے سے ۱۰گنا زیادہ باطل نظام کے ماننے والوں پر بھاری رہیں گے۔ یہ اعلان اُس کی طرف سے ہے جو انسانوں اور کائنات کا خالق ہے۔ جس کا ہر وعدہ سچا ہوتا ہے۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ نوجوانوں کو متحرک و سرگرم کرکے  ملک گیر پیمانے پر عوام کی انتظار کی گھڑیوں کا جواب فراہم کیا جائے!

قرآن کریم نے توحید کو انبیاے کرام ؑ کی دعوت کا مرکزی مضمون قرار دیا ہے۔ ہر دور میں ہراُمت کو دعوت دیتے وقت انبیاے کرام ؑ نے صرف یہی کہا : اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل ۱۶:۳۶)، یعنی ایک مثبت رویہ اور طرزِعمل کو اختیار کرتے ہوئے صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی اور اپنے آپ کو ہرقسم کے باغیانہ اور نافرمانی کے رویے سے نکال کر اللہ کی پناہ میں آجانا۔ اسلام اللہ کی بندگی، اللہ کی حاکمیت، ربوبیت اور آخرت میں مالکِ حقیقی ماننے اور اپنے عمل سے اطاعت کے رویے کے اظہار کا نام ہے۔ توحید کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ ہے کہ رب کریم اپنی رحمت و ربوبیت میں جوشِ کمال کے سبب یہ چاہتا ہے کہ اسے خوش کرنے کے لیے اس کے بندوں کی خلوص کے ساتھ مدد، رہنمائی اور دست گیری کی جائے۔ ایسا کرنے میں اللہ کا بندہ،نہ صرف ربِ کریم کے عبد کی حیثیت سے اس کی عبادت کر رہا ہوتا ہے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایک اعلیٰ صفت کو ادنیٰ انسانی درجے پر اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کے اخلاقِ حمیدہ کی پیروی کر رہا ہوتا ہے۔

تحریکِ اسلامی کی دعوت کا بنیادی نکتہ بھی اللہ تعالیٰ کی بلاشرکت غیربندگی اور اللہ کی حاکمیت کو زمین پر قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے۔ تحریکِ اسلامی کے ہر باشعور کارکن کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ دین کی دعوت چند مراسمِ عبودیت کی طرف بلانے تک محدود نہیں ہے، بلکہ  اللہ کے بندوں کو مشکلات سے نکالنے، ان کی خدمت کے ذریعے ربِ کریم کو خوش کرنے کا نام ہے۔ مکہ مکرمہ میں دعوتِ توحید محض نظری دعوت نہ تھی، بلکہ مظلوم کو ظالم کے چنگل سے نکالنے اور لوگوں پر سے بوجھ اُتارنے کا نام تھی۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے ہزارہا اشرفیاں ان معمر اور کمزور افراد کو رہا کرانے میں صرف کردیں جن سے انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس طرح حضرت ابوبکرؓ نے خدمت ِ خلق اور رفاہِ عامہ کے کام کا اجر اپنے رب کے پاس محفوظ کرلیا۔

قرآنِ کریم کے بنیادی مضامین سے ایک اہم مضمون انفاق فی سبیل اللہ ہے جس کی وضاحت خود قرآن کریم نے کردی ہے: یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ط وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ o (البقرہ ۲:۲۱۵)’’لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبر ہوگا‘‘۔

یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ فعل خیر کی اصطلاح کا استعمال حقوق العباد کی ادایگی میں غیرمعمولی وسعت پیدا کردیتا ہے: وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُ o فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ o یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْمِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o (البلد۹۰:۱۲-۱۶)’’ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا‘‘۔ یہ وہ فعلِ خیر ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o(الحج ۲۲:۷۷) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو اور نیک کام کرو اسی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہوگی‘‘۔

سورئہ ماعون میں مزید فرمایا گیا: اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ o فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ o وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o (الماعون۱۰۷:۱-۳)’’تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اُکساتا‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ یومِ آخرت اور دین کا انکار صرف اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان سے انکار تک محدود نہیں، بلکہ حقوقِ انسانی کی ادایگی کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ نے جو احکام دیے ہیں ان کا مکمل اہتمام بھی ضروری ہے، اور مسکین کو کھانا نہ کھلانا اور یتیم کے حقوق کی ادایگی کا اہتمام نہ کرنا بھی دین اور آخرت کے انکار کے مترادف ہے۔ حقوقِ انسان کی ادایگی کے لیے اس سے بڑا چارٹر اور کون سا ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں ایمان اور عملِ صالح کے ساتھ اقامت ِ صلوٰۃ اور انفاق کا حکم دیا گیا ہے اور یہ ناقابلِ تقسیم ہے۔ حقوق العباد کی ادایگی کے بغیر ایمان کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔

حدیث فعلِ خیر کی مزید وضاحت کرتی ہے اور اہلِ ایمان کو اللہ کے بندوں کے حوالے سے ذمہ داریوں سے آگاہ کرتی ہے کہ ربِ کریم جو رحمت ہی رحمت ہے، کرم اور بندوں کی بھلائی کے جذبے سے بھرپور ہے، ہم سے کیا توقع رکھتا ہے۔

حدیث قدسی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسان سے کہے گا: اے ابن آدم! میں بیمار پڑا رہا لیکن تو نے میری عیادت نہیں کی۔ انسان گھبرا کر عرض کرے گا: اے میرے رب! تو سارے جہانوں کا پروردگار، تو کب بیمار تھا اور میں تیری عیادت کیسے کرتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے لیکن اس کے باوجود تو اس کی تیمارداری کے لیے نہیں گیا۔ اگر تو اس کے پاس جاتا تو مجھے وہاں پاتا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ انسان عرض کرے گا: اے رب العالمین! تو کب بھوکا تھا اور میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:  کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا لیکن تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تو نے اس کا سوال پورا کیا ہوتا تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا۔

اسی طرح رب العالمین فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ انسان عرض کرے گا: اے دوجہاں کے پروردگار! تو کب پیاسا تھا اور میں تجھے پانی کیسے پلاتا؟ فرمایا جائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا لیکن تو نے اس کی پیاس بجھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اگر تو نے اس کی پیاس بجھائی ہوتی تو آج اس کا ثواب پاتا‘‘۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ)

حدیث قدسی واضح پیغام دے رہی ہے کہ اگر اللہ کو خوش کرنا ہے تو اس کا راستہ اس کے بندوں کی خدمت ہے۔ جب اہلِ ایمان کی جماعت زمین پر بسنے والوں سے رحمت و شفقت کا سلوک کرے گی تو الرحم الراحمین جو سراپا عفو و درگزر اور محبت و کرم ہے وہ زمین پر بسنے والوں پر رحمت کرے گا۔ اگر ایک ملک میں سیلاب نے تباہی مچائی ہو، اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عمل نہ کرنے کے سبب اللہ کی طرف سے ایک سخت انتباہ (red warning) کے طور پر پانی کے ریلے نے اللہ کے بندوں کو، حیوانات کو گھر سے بے گھر کر دیا ہو، تو عقل کا تقاضا ہے کہ نہ صرف اس پیغام کو سمجھا جائے، بلکہ جو لوگ سیلاب سے متاثر نہ ہوئے ہوں وہ اپنے رب کا شکر ادا کرنے اور متاثرین کی امداد کے ذریعے اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے گھروں سے نکل آئیں۔

اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ جب کسی آبادی میں ظلم، حقوق کی پامالی، اپنے احکامات کی خلاف ورزی، سودی کاروبار، فحاشی اور عریانی کو حد سے گزرتا دیکھتا ہے، تو وہ آبادی والوں کو مختلف آفات کے ذریعے متنبہ کرتا ہے کہ وہ سنبھل جائیں اور جس دنیاطلبی، منافع خوری اور دولت کے  جمع کرنے کے لیے وہ بڑی بڑی زمینوں پر کاشت کاری اور کئی کئی منزلہ مکانوں کی تعمیر کے ذریعے اپنی بڑائی اور تکبر کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، ان سب کو پانی کے ایک ریلے سے تباہ کردیتا ہے کہ انسان سبق لے اور اس کی طرف لوٹ آئے۔ دوسری جانب دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والے دل رکھنے والوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ سیلاب سے بچ گئے تو ان کی نجات ہوگئی۔ جب تک وہ اپنے فرائض، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو جیساکہ ان کا حق ہے، ادا نہیں کریں گے وہ بھی خطرے سے محفوظ نہیں ہوسکتے ۔ اگر کسی رحم و کرم کی بنا پر ان کی گرفت فوری طور پر اس دنیا میں نہیں ہوسکی تو بہرصورت آخرت میں اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ بلاشبہہ اللہ کی گرفت سب سے زیادہ شدید گرفت ہے اور اُس سے بچنے کے لیے اگر انسان اس دنیا میں اپنی تمام جمع کردہ پونجی بھی لگا دے تو سودا بہت سستا ہے۔

قرآن و سنت کا بڑا واضح رجحان یہ نظر آتا ہے کہ وہ ایک بندئہ مومن اور خصوصاً ان افراد میں جو اپنے آپ کو تحریکِ اسلامی سے وابستہ تصور کرتے ہیں، اجتماعیت کا احساس جاگزیں کرنا چاہتا ہے۔ اسلام کی اعلیٰ پہچان اس کی اجتماعیت میں ہے جو اس کے ہرہر مطلوب عمل میں پائی جاتی ہے۔ وہ نماز ہو، روزہ ہو، حج ہو یا جہاد، اجتماعیت کے بغیر اس سے صحیح استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔  اسلام میں عبادات جہاں انفرادی نجات کے لیے ضروری ہیں وہیں اجتماعی فلاح کا بھی ذریعہ ہیں، اور ان دونوں کے درمیان کوئی تفریق جائز نہیں۔ اس کا اظہار پانچ وقت اذان کے کلمات میں بھی صاف نظر آتا ہے۔ اس اجتماعیت میں قرآن کریم نہ صرف خاندان کی مرکزیت کو بلکہ خاندان سے باہر کے حلقے کے افراد کو بھی شامل کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اہلِ ایمان اُس فطری داعیے کو جو اپنے والدین یا اولادکی ضروریات پورا کرنے کا انسانوں ہی میں نہیں حیوانات تک میں پایا جاتا ہے، اسے مزید آگے بڑھائیں اور اللہ کی مخلوق کو اس میں اہم مقام دیں۔ فرمایا گیا: ’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آئو، اور پڑوسی رشتہ دار سے ، اجنبی ہمسایے سے ، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان خدمت گاروں سے جو تمھارے قبضے میں ہوں احسان کا معاملہ رکھو۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے‘‘۔ (النساء ۴:۳۶)

اس آیت مبارکہ میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کے مطالبے کے فوراً بعد جس فریضے کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ والدین کے ساتھ احترام، خدمت اور بھلائی کا رویہ ہے۔ پھر اسے مزید وسعت دیتے ہوئے اجتماعیت کی روح پیدا کرنے کے لیے حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ اقربا جو  رشتہ دار بھی ہوں اور پڑوس میں بھی ہوں، اور پھر وہ جو رشتہ دار تو نہ ہوں لیکن صرف پڑوسی ہوں،  پھر جو مستقل پڑوسی نہ ہوں بلکہ وقتی طور پر پڑوسی بن گئے ہوں جیسے ویگن میں سفر کرتے وقت برابر بیٹھا شخص یا ٹرین یا جہاز میں ساتھ سفر کرنے والا، ان سب کے حقوق ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ گھر کے خدمت گار ہوں، یا جن پر ایک شخص کو حاکم بنا دیا گیا ہو اس کے تمام ماتحت، ان کے ساتھ بھلائی کا رویہ اور ان کی خدمت اختیار کی جائے تاکہ صحیح اجتماعیت معاشرتی فلاح کی ضامن ہو۔

معاشرے کے بے بس، ضرورت مند افراد کی امداد اور مصیبت زدہ افراد کو وسائل فراہم کرنا اللہ کی مخلوق کے حقوق میں شامل ہے۔ یہ کسی پر احسان کرنا نہیں ہے بلکہ خود اپنے اُوپر احسان کرنے کی ایک شکل ہے۔ اسی بات کو کئی مقامات پر یوں فرمایا گیا کہ ’’ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے‘‘۔ (المعارج ۷۰:۲۵)

اسی تصور کو قرآن کریم نے انفاق فی سبیل اللہ کی جامع اصطلاح سے بیان کیا ہے کہ ’’لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں اور مسکینوں او ر مسافروں پر خرچ کرو۔ اور جو بھلائی [خیر] بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبرہوگا‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۱۵)

اسی سورۃ میں چند آیات کے بعد دوبارہ اس طرف متوجہ فرماتے ہوئے کہا گیا: ’’پوچھتے ہیں ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ بھی تمھاری ضرورت سے زیادہ ہو‘‘۔ اس طرح    اللہ تمھارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو‘‘۔(البقرہ ۲:۲۱۹)

یہاں قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ نہ صرف ان رشتوں پر جو معروف ہیں بلکہ ان اللہ کے بندوں پر جو اجنبی اور غیرمعروف ہیں، خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی اور اللہ کو خوش کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ مزید یہ کہ ایک شخص کی اپنی ضروریات سے زائد جو کچھ بھی ہو وہ اسے اللہ کی راہ میں لگادے تاکہ یہ عملِ خیر اس کے لیے توشۂ آخرت بن جائے۔احادیث صحیحہ بھی اسی بات پر زور دیتی ہیں کہ ایک شخص اگر حلال کمائی خود اپنی اولاد اور بیوی پر اور ماں باپ پر خرچ کرتا ہے تو یہ ایک قسم کا صدقہ ہے۔ اسی طرح اپنے ایک بھائی سے مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے۔

صدقے کا غلط العام تصور جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ صدقہ دراصل سچائی کے ساتھ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک کام کا کرنا ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا: وَ اٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً (النساء ۴:۴) ’’اور عورتوں کے مہر صدقِ دل کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو‘‘۔

صدقِ دل کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینا دوہرے اجر کا باعث ہے۔ جہاد بجاے خود وہ عمل ہے جس کو قرآنِ کریم نے سب سے افضل قرار دیا اور پھر اسے صدقِ دل سے کرنا، اپنے وقت کا، مال کا اور اپنی جان کا صدقہ ہے۔یہ صدقہ نہ صرف قابلِ محسوس اور قابلِ پیمایش (measurable) اعمال میں ہے، بلکہ اجتماعیت کی روح پیدا کرنے والے رویوں میں بھی ہے۔ اگر ایک صاحب ِ ایمان اپنے بھائی یا بہن کو مسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہتا ہے تو اس کا مسکرانا صدقہ ہے۔ سبحان اللہ، وہ دین کتنا اعلیٰ ہوگا جو مسکراہٹ کو بھی عبادت کا حصہ بنادے اور اپنے پاس سے ایک روپیہ خرچ کیے بغیر محض اپنے بھائی کو دیکھ کر محبت و الفت کے اظہار کے لیے مسکرانے کو صدقہ قرار دے دے۔

احادیث ِ شریفہ میں خدمت ِ خلق اور رفاہِ عامہ کے لیے اپنے مال، وقت، صحت کو لگانا صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں رفاہی کاموں کا براہِ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی بندگی، اس کی حاکمیت اعلیٰ کے قیام، اور ایک بندے کی عاجزی اور صرف اللہ کو خوش کرنے کے لیے انسانوں کی خدمت کرنے کے عمل کے ساتھ ہے۔ حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ سے روایت ہے، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر مسلمان پر صدقہ کرنا واجب ہے۔ اس پر صحابہ نے سوال کیا کہ اگر کسی کے پاس صدقے کے لیے کچھ نہ ہو تو کیا کرے؟ فرمایا: اپنے ہاتھ سے کوئی کام کرے ،جو ملے ا س سے خود بھی فائدہ اُٹھائے اور دوسروں پر خرچ کرے۔ صحابہ نے عرض کیا: اس کی بھی طاقت نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ فرمایا: کسی ضرورت مند اور مصیبت زدہ کی (مال کے علاوہ کسی اور طریقے سے) مدد کرے۔ عرض کیا گیا: اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو کیا کیا جائے؟ فرمایاکہ: معروف کا حکم دے۔ عرض کیا گیا کہ: اگر کوئی شخص یہ بھی نہ کرسکے تو اس کے لیے کیا ہدایت ہے؟ فرمایا: وہ بُرائی سے رُک جائے۔ یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔(بخاری، کتاب الادب، باب کل معروف صدقہ، مسلم، کتاب الزکوٰۃ)

موجودہ حالات میں اس حدیث کی صداقت اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ لاکھوں کروڑوں میں کھیلنے والا ایک شخص ہو یا بمشکل نان جویں پر گزربسر کرنے والا شخص، حتیٰ کہ ایک ایسا شخص بھی جو  یہ بھی نہ کرسکتا ہو کہ کسی کو بھلائی کا حکم دے، دعوتِ دین دے، دین کا علم سکھائے، تو ایسا شخص بھی   اللہ تعالیٰ کو خوش کرسکتا ہے صرف اپنے آپ کو بُرائی سے روک کر۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ  الرحم الراحمین کس کس طریقے سے اپنے بندوں پر رحم و کرم کرنا چاہتا ہے کہ اگر ایک شخص نے    کسی مصیبت زدہ کی، سیلاب سے متاثر خاندان کی مالی مدد کر دی، کھانا کھلا دیا، کپڑا دے دیا، تو    یہ لازماً صدقہ ہے۔ لیکن اگر وہ یہ سب کچھ نہ کرسکے اور صرف ان مصیبت زدہ افراد کا ہاتھ پکڑ کر سواری پر سوار کرا دے تو یہ بھی صدقہ ہے۔

ایک دوسری حدیث میں یہی بات فرمائی گئی ہے کہ کسی کو سواری پر سوار کرا دینا بھی صدقہ ہے۔ راستے سے ایک کانٹے یا پتھر کا ہٹانا بھی صدقہ ہے، تاکہ معاشرتی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو اور ایک صاحب ِ ایمان اپنی ذات سے باہر نکل کر یہ سوچے کہ وہ معاشرے کو کیا دے رہا ہے۔ معاشرے کی بھلائی کے لیے کون سے کام کر رہا ہے، یا وہ صرف روزمرہ کی دفتری کارروائیوں کی حد تک اسلام پر عامل ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام مخلوق اللہ کی عیال (کنبہ) ہے، سو ان میں سے اللہ کو سب سے زیادہ پیارا شخص وہ ہے جو اُس کے عیال کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہے‘‘۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص دنیا میں کسی مومن کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دُور کرے گا، جو شخص کسی مشکل میں پھنسے ہوئے آدمی کو آسانی فراہم کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانی فراہم کرے گا۔ جو کسی مسلمان کی سترپوشی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی سترپوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتا ہے‘‘۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعا)

حدیث کے آخری کلمات غیرمعمولی طور پر تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتے ہیں اور آج ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی نفسا نفسی کا حقیقی علاج ہیں، یعنی جب تک ہم اپنے بھائی کی مدد، اس کی مشکل کے حل اور اس کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہیں گے، تو خود ہمارے لیے اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا کرتا رہے گا۔ جب اجتماعیت کو چھوڑ کر ہم فرد بن جائیں، محض اپنی نجات ، محض اپنے مفاد کی فکر ہوگی، تو اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت اور حمایت بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس حدیث کی تائید اُس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لَایَرْحَمُ اللّٰہُ مَنْ لَّا یَرْحَمُ النَّاسُ، یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا۔ (بخاری، کتاب التوحید)

جو لوگ آفات و مصائب کا شکار ہوں، جو گھر سے بے گھرہوگئے ہوں، جن کے مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہوں، جن کے کھیت اور گھر طوفانی پانی کی نذر ہوگئے ہوں، ان سے زیادہ امداد کا مستحق کون ہوسکتا ہے۔ تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے اسلام کی دعوت ان مصائب کے شکار افراد کی دلجوئی، ان کی مالی اور جسمانی مدد ہے لیکن یہ اُسی وقت تک عبادت ہے جب اس سے  کوئی غرض وابستہ نہ ہو۔ نہ ستایش نہ تمغہ، نہ سرٹیفیکیٹ، یا کوئی سیاسی مفاد بلکہ صرف اور صرف اللہ رب العالمین کو خوش کرنے کے لیے اس کے بندوں کی خدمت۔

ایک آخری بات یہ کہ اللہ کے بندوں کی خدمت اور امداد کرتے وقت تحریکی کارکنوں اور اداروں کو (مثلاً الخدمت) یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آفات و مصائب میں گرفتار افراد میں سے بعض تو وہ ہوں گے جو خود آگے بڑھ کر امداد طلب کریں گے یا اُس کے خواہاں ہوںگے لیکن کچھ افراد ایسے بھی ہوں گے جو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے یا اپنا دُکھ درد بیان کرنے سے گریزاں ہوں گے۔ ایسے سفیدپوش ،خوددار، غیرت مند، قناعت کرنے اور سوال نہ کرنے والے افراد کو نظرانداز کرنا اور بظاہر ضرورت مند نہ سمجھنا قرآنی دعوت کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ  نہ صرف ان کی جو آنکھوں کے سامنے امداد کی توقع کر رہے ہوں، بلکہ ان کی بھی جو آگے بڑھ کر امداد مانگنے سے گریز کریں ، یکساں بلکہ زیادہ امداد کی جائے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھِر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب ِ معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے۔ ان کی خودداری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں۔ تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو مگر وہ ایسے نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں۔ ان کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۷۳)

خدمت ِ خلق اسلامی دعوت کا ایک لازمی جز ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کی ترجیحات میں اس کا مقام اعلیٰ ہونا چاہیے اور ربِ کریم کے حضور اس کا اجر اس کی خصوصی رحمت کی بناپر حدوشمار سے زیادہ ہے۔ اس لیے ایسے مواقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے، جن میں حقوق العباد کی ادایگی کے ذریعے، ہم معاشرے میں بھلائی اور نیکی پھیلانے کا کام صداقت اور دل کی یکسوئی کے ساتھ کرسکیں۔ اگر دیکھا جائے تو تحریکِ اسلامی کی دعوت اس کے سوا کیا ہے کہ لوگوں کو   موعظۂ حسنہ کے ذریعے نصیحت کی جائے۔ خود ایسا کرنا بھی صدقہ اور عبادت کا حصہ شمار کیا جاتا ہے۔

حضرت تمیم بن ادس الداریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین سراپا خیرخواہی [نصیحۃ] ہے۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا: کس کے لیے خیرخواہی ہے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اس کے رسول ؐکے لیے، اللہ کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے سربراہوں کے لیے، اور اُمت کے عام لوگوں کے لیے۔(بخاری)

عام مسلمانوں کی خیرخواہی یہی ہے کہ ان کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی حقوق کے حصول میں ان کی مدد کی جائے۔ ان کے مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کیا جائے، اور رحم و شفقت کے رویے کے ساتھ ہر مصیبت زدہ کو مصیبت سے نجات دلانے میں اپنی تمام قوت صرف کردی جائے۔ معاشرے میں ظلم و استحصال کا خاتمہ اور عدل و سلامتی کے نظام کے قیام کی جدوجہد اس نصیحت کا لازمی جزو ہے۔ یہی وہ دین کی اجتماعی فکر ہے جس کی بنا پر مسلمان ایک جسدِ واحد کی طرح ہوجاتے ہیں کہ اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو تمام جسم اس کی کسک کو محسوس کرے، اور  ایک صاحب ِ ایمان اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہو۔

اگست ۲۰۱۴ء کا یہ مہینہ پاکستان پر بہت ہی بھاری پڑا ہے۔ اس وقت ملک اور قوم جس خطرناک صورتِ حال سے دوچار ہیں، اس پر ہر محب وطن دل گرفتہ اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دست بہ دُعا ہے کہ حکومت اور اسے چیلنج کرنے والے دونوں ہی گروہ ذاتی اور گروہی مفادات اور اَنا کے ہر جذبے سے بلند ہوکر، اس ملک کے مفاد میں، جو تاریخ اور ملت اسلامیہ پاک وہند کی ہم سب کے ہاتھوں میں بڑی قیمتی امانت ہے، افہام و تفہیم کے ذریعے دستور، قانون اور اجتماعی اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے سیاسی حل نکالیں، اور جو خطرات سیاسی اُفق پر منڈلا رہے ہیں ان کے پورے اِدراک کے ساتھ تصادم اور خون خرابے کی ہرشکل سے اجتناب کریں۔ جماعت اسلامی نے الحمدللہ اس زمانے میں مفاہمت اور مسائل کے سیاسی حل کے لیے جو کوششیں بھی کی ہیں ہم ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ ان شاء اللہ    ان کے اچھے نتائج نکلیں گے۔ جماعت اسلامی اس جدوجہد میں تنہا نہیں، دوسری سیاسی اور دینی قوتیں بھی اپنااپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ہمیں توقع ہے اور شب و روز اللہ تعالیٰ سے دُعا کررہے ہیں کہ وہ ان کوششوں کو بارآور فرمائے اور یہ ملک تصادم، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، تنقید اور تنقیص میں ہرحد کو پامال کردینے اور کفن اور قبرستان کے المیے سے بچ جائے، اور ملک و ملت کے بدخواہ جو خطرناک کھیل پورے عالم اسلام میں کھیل رہے ہیں اس سے پاکستان محفوظ رہے۔ بلاشبہہ حالات بے حد سنگین ہیں لیکن ہمیں اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور ہرسطح پر اپنی کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بے حدوحساب ہے اور اس کا ارشاد بھی یہی ہے کہ اہلِ ایمان کبھی بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں (لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط  الزمر ۳۹:۵۳)۔

یہ صورتِ حال کیوں رُونما ہوئی، بگاڑ کے اس مقام تک پہنچنے میں کس نے کیا اور کتنا کردار ادا کیا اور مسئلے کے مستقل حل خصوصیت سے نظامِ حکمرانی کی اصلاح، حقیقی اسلامی جمہوریت کے فروغ، اور ایک عوام دوست فلاحی معاشرے کا قیام، انتخابی نظام کی تشکیلِ نو، سیاسی اختلاف اور تبدیلی کے طریقے کے بارے میں صحیح حدود کا تعین اور ان کے مطابق عملی جدوجہد کے آداب کا تعین اور ان کا احترام، اختلاف کی حدود اور تنقیدواحتساب کی زبان___ یہ سب وہ اُمور ہیں جن پر کھل کر بات کرنے اور قومی اتفاق راے کے ذریعے سیاست کو صحیح خطوط پر استوار کرنے، اور ہرسطح پر اور ہر قوت کے لیے دستور اور قانون کی حدود میں رہ کر اپنے اپنے پروگرام کے مطابق جدوجہد کرنے کے مکمل اور کھلے مواقع فراہم کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ ان شاء اللہ !

آیندہ ہم ان اُمور کے بارے میں اپنی معروضات پیش کریں گے لیکن اس وقت اللہ تعالیٰ سے ہدایت، رہنمائی اور توفیق کی دعائوں کے ساتھ حکومت اور اسے چیلنج کرنے والی قوتوں سے پوری دل سوزی کے ساتھ یہی درخواست کرتے ہیں کہ تصادم سے ہرقیمت پر پرہیز کریں۔ ہرپارٹی چند قدم پیچھے ہٹائے اور ملک و قوم کے اعلیٰ مفاد میں بیچ کا راستہ نکالنے اور ماضی کے اُمور پر انتقام کی جگہ آگے کے حالات کی اصلاح کو اولیت دے۔ احتساب ضرور ہونا چاہیے لیکن اس کے لیے بھی مناسب ماحول بنانا ضروری ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ احتساب قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے،  ورنہ احتساب انتقام بن جاتا ہے جو بڑے فساد کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ اس سے بچنا اس وقت ہم سب کے لیے ضروری ہے۔

ان حالات میں، اس دُعا اور گزارش کے ساتھ ہم اس مہینے کے ’اشارات‘ کو کچھ اصولی باتوں کی یاددہانی کے لیے مخصو ص کر رہے ہیں تاکہ ہم سب اپنا اپنا جائزہ     لے سکیں اور نفس کی اُکساہٹوں سے بلند ہوکر اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ ایک مظلوم قوم اور ملک کے مفاد کی خاطر وہ راستہ اختیار کریں جو فساد سے پاک اور خیروصلاح کی راہوں کو استوار کرنے کا ذریعہ بن سکے۔ رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا سکتۃ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o (اعراف ۷:۲۳) ’’اے رب، ہم نے اپنے اُوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے‘‘___ (مدیر)

قرآنِ کریم نے اہلِ ایمان کی جماعت اور معاشرے کو باہم دگر محبت ، نرمی، رواداری،  گرم جوشی، عفو و درگزر اور اخوت و یک جائی کی صفات سے متصف جماعت قرار دیا ہے۔ یہ وہ پہلو ہیں جو اہلِ ایمان کے اپنے رب کو رب مان کر اس پر مستقیم ہوجانے اور اپنی عبادات اور قربانیوں کو صرف اللہ کے لیے خالص کردینے کے نتیجے میں شخصیت کا لازمی حصہ بن جاتے ہیں۔ ان صفات پر مبنی جماعت جہاں آپس میں ریشم کی طرح نرم ہوتی ہے، وہاں ایک محبت کرنے والے باپ کی طرح بیک وقت گرفت کرنے والی اور شفیق، اور ایک درگزر کرنے والے بھائی کی طرح نظرانداز  کرنے والے معاشرے کی مثال ہوتی ہے۔

ربِ کریم نے اس جماعت کے بارے میں یوں بیان فرمایا : مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ (الفتح ۴۸:۲۹) ’’محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں اہلِ ایمان کی دو بنیادی صفات کو، جو ان کی پہچان قرار دی گئی ہیں نمایاں کیا گیا ہے۔ ایک مثبت صفت جس کا تعلق ان کے باہمی تعلقات اور معاملات سے ہے۔ یہ ہے کہ جب وہ آپس میں کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو اپنے جائز حق کو بھی اپنے بھائی کے لیے قربان کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ جب ان کے ایک بھائی کو دنیا کے کسی خطے میں تکلیف پہنچتی ہے وہ غزہ ہو، بنگلہ دیش ہو، تھائی لینڈ ہو، کشمیر ہو، عراق ہو، مصر ہو یا شام، اس کے درد کی کسک وہ نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ ایک رحیم شخصیت ہونے کی بنا پر اس کو سکون پہنچانے، امن دینے، ان کی جان و مال کے تحفظ میں اپنی تمام قوت صرف کردیتے ہیں۔

ایک رحیم ماں یا باپ یہ کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ ان کا لخت ِ جگر درد میں مبتلا ہو اور وہ سکون کی نیند سو سکیں۔ ان کی بے چینی اور اضطراب محض پریشانی کی حد تک نہیں بلکہ ان کے عمل کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور وہ آگے بڑھ کر اپنا مال، اپنی جان، اپنی قوت، اپنی صلاحیت ہرشے کے ساتھ اپنے بھائی کو ظلم سے بچانے، اس کی جان کا تحفظ کرنے، اس کے مال کو ظالم سے بچانے کے لیے بے خطر میدان میں کود پڑتے ہیں۔ یہ ایک عظیم عطیہ الٰہی ہے کہ وہ جو کل تک ایک دوسرے کے مال پر نگاہیں جمائے ہوئے تھے، قبائلی تعصبات اور نسلی دشمنیوں میں گھرے ہوئے تھے، اس نے انھیں آپس میں رحیم بنا کر ان کے دلوں کو، ان کی روحوں کو، ان کی فکر کو، ان کے طرزِعمل کو ایک اعتماد کے رشتے میں جوڑ دیا اور وہ دیکھتے دیکھتے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔

 دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کفار پر سخت (اشداء) ہوتے ہیں۔ ایک تو خود   کفر میں سخت ہونا ہے جس کا تذکرہ سورئہ توبہ میں یوں ہوا: اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْرًا وَّ نِفَاقًا (التوبہ ۹:۹۷) ’’یہ بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں‘‘۔کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کو شدید قرار دیا گیا ہے: وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (البقرہ ۲:۱۹۶) ’’خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔ دوسری جانب کفار پر سخت ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ جب اہلِ ایمان اور اہلِ کفر ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہوتے ہیں تو پھر خون اور خاندان یا قبیلے کی محبت درمیان میں نہیں آتی۔ نظریاتی جنگ میں اہلِ ایمان اہلِ کفر کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔ دین کے معاملے میں کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتے اور اپنے موقف پر جم کر استقامت کے ساتھ کفر کو اس کے انجام تک پہنچاتے ہیں۔

پھر کیا وجہ ہے کہ مسلم دنیا میں اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کبھی فرقہ پرستی کے نام پر اور بعض اوقات قبائلی عصبیت اور جغرافیائی قومیت کی بنیاد پر ایک مسلمان دوسرے کے سامنے صف آرا ہوجاتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ وہ جنھیں باہم شیروشکر ہونا چاہیے تھا نہ صرف زبان سے بلکہ ہاتھ سے اپنے بھائی کو نقصان پہنچانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں؟انفرادی اور معاشرتی سطح پر تشدد، عدم رواداری اور عدم برداشت کیوں پیدا ہوتی ہے؟ کیا اس کا علاج مزید شدت، عسکریت اور قوت کے ساتھ اس کو دبانے سے کیا جاسکتا ہے یا ان برائیوں کو اچھائیوں میں تبدیل کرنے کے لیے کسی خاص حکمت عملی کی ضرورت ہے؟ اس تحریر کا مقصد ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ہے۔

انسانی معاشرے میں بُرائی، ظلم و استحصال اور طاغوت کا آغاز غیرمحسوس طور پر ایک بظاہر معصومانہ غلطی سے ہوتا ہے اور وہی غلطی جو کل تک غیرمحسوس تھی انسان کو گھنائونے جرم تک لے جاتی ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور حدیث ہے کہ برائی کا آغاز انسان کے دل پر ایک چھوٹے سے داغ سے ہوتا ہے۔ اگر مسلمان توبہ کرلے اور نیکی کی طرف پلٹ آئے تو یہ داغ مٹ جاتا ہے لیکن اگر وہ دوبارہ غلطی کا ارتکاب کرے تو یہ داغ بڑھتا رہتا ہے، حتیٰ کہ یہ پورے قلب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ جب پورا قلب اس کی گرفت میں آجاتا ہے تو پھر انسان کے ذہن سے برائی کے برائی ہونے کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ ہم عموماً یہ بات کہتے ہیں کہ کیا کوئی انسان ایسا گھنائونا جرم کرسکتا ہے کہ وہ ایک بچی یا بچے کو زیادتی کا نشانہ بنائے، یا کسی مسلمان بھائی پر قتل کی نیت سے ہاتھ اُٹھائے، یا کسی راہ چلتے کو، یا مسجد میں اللہ کے حضور اپنا سر جھکانے والے کو مسجد میں گھس کر  نشانۂ قتل بنائے؟ اس حدیث ِ مبارکہ میں سمجھایا گیا ہے کہ شقاوتِ قلبی کس طرح پیدا ہوتی ہے۔ قرآن کریم جن دلوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ شقاوتِ قلبی میں پتھر بلکہ اس سے زیادہ سخت ہوجاتے ہیںکیونکہ بعض پتھر ایسے بھی تو ہوتے ہیں جو پھٹ پڑتے ہیں اور ان سے پانی کا چشمہ رواں ہوجاتا ہے۔ لیکن جو قلب احساسِ بندگی کو دبا کر نفسی نفسی کے زیراثر داغ دار ہوچکے ہوں پھر وہ انسان جن کے دل میں ایک دھڑکنے والا قلب ِ سلیم نہ ہو بلکہ پتھر کا ایک ٹکڑا ہو تو وہ نہ اپنی آنکھ سے سچائی اور جھوٹ میں تمیز کرسکتے ہیں، نہ اپنے کان سے اچھی اور فحش بات میں تمیز کرسکتے ہیں۔   قرآن کریم نے صحیح کہا ہے: صُمٌّم بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۱۸) ’’یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، یہ اب نہ پلٹیں گے‘‘۔

عدم رواداری، شدت پسندی، ظلم، ناانصافی، حقوق پر ڈاکا، بچوں اور خواتین کے ساتھ ظالمانہ رویہ، معاشرے میں دھوکا دہی، رشوت، عدم تحفظ، غرض تمام برائیوں کا آغاز ایک فرد کے دل کے داغ دار ہو جانے سے ہوتا ہے اور جب کئی دل داغ دار ہوجائیں تو پورے معاشرے میں فساد و بدامنی پھیل جاتی ہے۔

انسانی حقوق کی پامالی

اس داخلی سبب کے ساتھ ساتھ بعض بیرونی عناصر بھی انسان میں انتقام، توڑ پھوڑ، ظلم و استحصال کے جذبے کو فروغ دیتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم انسانوں کے حقوق کا پامال کرنا ہے۔ اگر ایک معاشرہ یا ریاست اپنے باشندوں کو ان کے حقوق سے محروم کرے اور خود آسایش اور ثروت کی زندگی گزارے تو حقوق سے محروم افراد میں انتقامی جذبہ اُبھرنا ایک فطری عمل ہے۔ ایک حدیث میں اس طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے پڑوسی کو عمدہ اور قیمتی پھل نہ کھلا سکتا ہو تو  کم از کم پھل کھانے کے بعد ان کے چھلکے اپنے دروازے کے سامنے گلی میں نہ پھینکے۔ احساسِ محرومی اور فقر انسان میں جو ردعمل پیدا کرتا ہے حدیث میں اسے شرک سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور شرک ایک شخص کو کسی بھی ایسے کام پر آمادہ کرسکتا ہے جو اسلام کے اعلیٰ اخلاقی رویے کی ضد ہو۔ چوری، ڈاکا، قتل کا ایک سبب یہی احساسِ محرومی ہوتا ہے کہ ایک فرد یہ سمجھتا ہے کہ جس دولت میں سے اسے کچھ ملنا چاہیے تھا وہ صرف چند افراد کے قبضے میں ہے، اس لیے وہ اسے غیر اسلامی ذرائع سے چھین کر حاصل کرنا چاہتا ہے۔

ریاست اور معاشرہ اپنی اس ذمہ داری سے اسی وقت عہدہ برآ ہوسکتا ہے جب وہ ناداروں کو ان کا حق دے، بے علم افراد کو تعلیم سے آراستہ کرے اور بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرے۔ یہ شہریوں کے وہ حقوق ہیں جو اسلام نے آج سے تقریباً پندرہ سو سال قبل قرآن اور سنت کے واضح احکامات کی شکل میں ہم کو دیے ہیں۔ ہم نہ ان احکامات سے واقفیت حاصل کرنے کی جستجو کرتے ہیں اور نہ انھیں معاشرے اور ریاست میں نافذ کرنے کی۔ آخر زکوٰۃ کو ایک عبادت اور فریضہ قرار دینے کا مقصد اور کیا تھا۔ زکوٰۃ کو ایک ٹیکس قرار دینا زکوٰۃ کے مفہوم اور روح سے ناواقفیت کی علامت ہے۔ یہ دراصل معاشرے سے افلاس، فقر، بھوک، جہالت، بیماری اور     عدم تحفظ کے خاتمے کے شرعی نظام کا نام ہے۔ نہ صرف زکوٰۃ بلکہ وسیع تر پیمانے پر صدقات اور انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے اسلامی معاشرے کے ہر مجبور، نادار اور ضرورت مند کو اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

تعلیم

معاشرے اور فرد میں بغاوت و انتقام کا جذبہ پیدا کرنے میں جہالت کا کردار اہم ہے۔ اسی بنا پر قرآن و سنت میں تعلیم کو ایک فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ تعلیم محض چند صلاحیتوں کا پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ بنیادی اخلاقی رویوں کے اختیار کرنے کا نام ہے۔ وہ تعلیم اُمت کے لیے زہر ہے جو اخلاق و آداب اور تعمیر سیرت کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک اعلیٰ معاشی مزدور تو پیدا کرتی ہو لیکن اسے اخلاق، عدل و انصاف، سچائی، پابندیِ عہد اور انسانوں کے حقوق سے آگاہ نہ کرتی ہو۔

گھر کا ماحول

انسانی کردار کی تعمیر کی پہلی بنیاد گھر کی چار دیواری میں رکھی جاتی ہے۔ اگر ایک بچے کو  ماں باپ کی طرف سے محبت، توجہ اور اچھے اخلاق و عادات کو پیدا کرنے پر متوجہ نہ کیا جائے اور بچوں کو مصروف رکھنے اور ان کے سوالات سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے  ٹی وی اسکرین کے حوالے کردیا جائے، تو پھر وہ روزِ اوّل سے تشدد ، ماردھاڑ ، قتل و غارت، چالاکی ، دھوکادہی اور عریانیت و فحاشی کو کارٹونوں کی شکل میں بار بار دیکھ کر اُس حدیث کے مصداق احساسِ مروت، احساسِ شرم، احساسِ فرض سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتے ہیں جس میں دل کی سختی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔جدید تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ ایک بچہ عموماً دن میں چار تا آٹھ گھنٹے ٹی وی کے سامنے گزارتا ہے، اور مسلسل چار تا آٹھ گھنٹے تک جب آنکھ کے پردے پر تشدد کے مناظر دہرائے جائیں تو ان کے نقوش یادداشت کے پردے پر مرتسم ہوجاتے ہیں۔ پھر ایک بچے کا ہنسنا، رونا، روٹھنا، مطالبہ کرنا، چلنا، اپنے چہرے سے مختلف قسم کے تاثرات کا اظہار کرنا، غرض اس کا پورا کردار کارٹون کے کردار کا ایک چربہ بن جاتا ہے۔

گھریلو رویے

جنسی مساوات (Gender Equality) کے زیرعنوان خاندان کے تقدس و احترام کو بڑی تیزی کے ساتھ پامال کیا جارہا ہے اور اس میں ابلاغِ عامہ اور سرکاری تعلیم کے نصاب کا بڑا دخل ہے۔ تعلیمی ادارے سرکاری ہوں یا نجی، دونوں شکلوں میں جو کتب استعمال کی جارہی ہیں ان میں انفرادی امتیازات (individualities) اور جنسی مساوات کو مثالوں اور بیانات کی شکل میں بار بار دہرایا جاتا ہے،حتیٰ کہ ایک طالب علم اس مغربی تصور ہی کو حق سمجھتا ہے۔ یہ تصور نہ صرف  اس کی ذاتی شخصیت بلکہ اس کی خاندانی زندگی کو اجتماعیت کی جگہ انفرادیت میں تبدیل کردیتا ہے۔ ایک شوہر اور بیوی دونوں اپنی اَنا، ذاتیت اور انفرادیت کے خول میں گرفتار رہتے ہیں۔ ان کی فکر، ان کا طرزِعمل، ان کا اظہارِ محبت بھی اسی کا اسیر ہوتا ہے اور کسی لمحے بھی اپنے آپ کو بدلنے کے لیے  آمادہ نہیں ہوتے۔ شوہر کی ہرمعاملے میں اپنی پسند ، وہ کھانا ہو، لباس ہو، گھر کا رہن سہن ہو، تفریح ہو، باہمی تعلقات ہوں، اور ایسے میں بیوی کا اپنی ذاتی پسند پر اصرار ، گھریلو عدم تعاون، جذباتی فاصلے اور آخرکار گرم گفتاری اور پھر گھریلو تشدد تک پہنچتا ہے۔ جدید اعداد و شمار، انتہائی تشویش ناک حد تک یہ پتا دیتے ہیں کہ اس وقت ۸۰، ۸۵ فی صد شادیاں اس بحران یا انتشار سے دوچار ہیں۔ یہ وبا ایک معاشرتی کینسر کی شکل اختیار کرگئی ہے اور جب تک تشدد، خودرائی اور انفرادیت کے بتوں کو گھر کے اندر مسمار نہیں کیا جائے گا، ان بتوں کی پرستش سے معاشرہ پاک نہیں ہوسکتا۔

جو بچے ایسے ماحول میں تربیت پائیں گے جہاں گھر روزانہ ایک معرکۂ جنگ کی شکل پیش کرتا ہو وہ معاشرے کو امن و سکون نہیں دے سکتے۔ جو بچہ باپ کو ماں پر ہاتھ اٹھاتے دیکھتا ہے یا جو  ماں باپ اپنے بیٹے کو اپنی بہن کو دھکا دے کر گرانے پر سزا نہیں دیتے وہ گھریلو اور معاشرتی فساد کو کبھی نہیں روک سکتے۔

معاشی استحصال

جس کھیت سے دہقان کو تو روزی میسر نہ ہو لیکن اس کھیت کے مالک کے گھر میں ہر شام محفلِ موسیقی اور پُرتکلف دعوتیں ہورہی ہوں وہ کب تک اپنی ناداری پر نازاں ہوسکتا ہے۔ معاشرے میں معاشی ظلم و استحصال جب بھی بڑھے گا ، عدم تحفظ، تشدد اور توڑپھوڑ کے عمل میں اضافہ ہوگا۔ اس برائی کا دُور کرنا نہ صرف ریاست بلکہ معاشرے کے ہرفرد کا فرض ہے۔ اجتماعی اصلاح کا احساس اس کے لیے مناسب اداروں کا قیام اور سیاسی اور سماجی تحریکات کا ان معاملات میں آگے بڑھ کر اصلاح کا آغاز کرنا ہی معاشرے کو دوبارہ امن و سکون دے سکتا ہے۔

سیاسی عدم استحکام

معاشرے میں جب سیاسی عدم استحکام ہوگا اور کسی کو یقین نہیں ہوگا کہ کل کیا ہونے والا ہے، حکومت کتنے دن کی مہمان ہے تو قانون نافذ کرنے والے  اداروں کا تقدس بھی متاثر ہوگا، اور جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اثر معاشرے میں نہیں ہوگا تو بدامنی ، قانون شکنی اور فساد زمین پر پھیلے گا۔ بیرونی دشمن ہمیشہ یہی حکمت عملی اختیار کرتا ہے کہ کسی ملک کو اندورنی خلفشار میں مبتلا کردے تو پھر بغیر کسی جنگ یا عسکری فتح کے وہ دوسرے ملک کو ناکارہ بنا سکتا ہے۔ جب بھی سیاسی عدم استحکام اور بدامنی ہوگی معاشی بدحالی اور بدانتظامی کا دور دورہ ہوگا تو یہ مزید استحصال، ظلم اور    عدم تحفظ کو پیدا کرے گا۔ اس طرح بیرونی سرمایہ کار اس ملک کا رُخ کرتے ہوئے ہچکچائیں گے  اور مقامی سرمایہ کار اپنا سرمایہ ملک سے باہر منتقل کرنا چاہیںگے۔ نتیجتاً معاشی انتشار، زوال اور بے روزگاری اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوگا۔

اس لیے معاشرتی توڑ پھوڑ کے عمل کو چند خوب صورت سیاسی بیانات سے دُور نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے حکومت ِ وقت اور معاشرے کے ذمہ دار ارکان کو یکساں طور پر اپنے فرائض کو پورا کرنا ہوگا۔

اخلاق و کردار

کسی بھی معاشرے کے بگاڑ میں سب سے بنیادی دخل اس معاشرے کی اخلاقی اقدار کا  ہوتا ہے۔ اگر اخلاق گر گیا تو معاشرہ بھی گرے گا اور اگر اخلاق اعلیٰ اور بلند ہوگا تو معاشرہ بھی   صاف ستھرا، پُرامن اور پُرسکون ہوگا۔

ہم نے مغرب کی اندھی نقالی میں اپنے اخلاقی سرمایے کو ایک طرف لپیٹ کر رکھ دیا ہے اور ہرہرشعبے میں مغربی اخلاق و اقدار کے منفی پہلوئوں کو عالم گیریت کے نام پر سینے سے لگا لیا ہے۔ چنانچہ مغرب کی پابندیِ وقت، محنت کرنے کی عادت، عوام کو جواب دہی، عدالتوں میں قانون کی بالادستی جیسی عادات کی جگہ مغربی فحاشی ، آزادی کے نام پر احترام اور تقدس کو تارتار کرنا، مساوات کے نام پر خواتین کا استحصال اور انھیں ایک معاشی کھلونا بنا دینا، دین کی جامع تعلیمات کی جگہ اسلام کو مذہب قراردینا اور پھر مذہب کو تمام معاشرتی، ثقافتی، تعلیمی، معاشی، سیاسی اور قانونی معاملات سے خارج کرنے کو ترقی پسندی کا نام دے دیا ہے۔

اسلام کے اعلیٰ اخلاقی نظام کی جگہ ہم نے لادینی مفاد پرست اخلاقیات کو ہرسطح پر رائج کرنے کے لیے اپنے ابلاغِ عامہ کو بداخلاقی کے ہراول دستے کا مقام عطا کردیا ہے۔ ہمارا ابلاغِ عامہ ملک سے مایوسی، ملک کے محافظوں سے نفرت، ملک کی اخلاقی اقدار کی جگہ ہندوانہ ثقافت کو رائج کرنے میں پیش پیش ہے، اور ہر وہ بُرائی جو سرحد پار کے معاشرے میں رائج ہو اسے مزید بدتر شکل میں ہمارے ہاں متعارف کرانے میں مصروف ہے۔

اس غیر اخلاقی عمل کو ہم نے ’ابلاغِ عامہ کی آزادی‘ کے خوش کن نعرے کی شکل دی ہے اور آزادیِ اظہار کی ایک نئی تعریف ایجاد کی ہے جس کے نتائج معاشرے میں جابجا نظر آرہے ہیں۔

رواداری اور برداشت : اسلامی حکمت عملی

ہر وہ معاشرہ جو اسلامی تصور صبر، قناعت، مسابقت فی الخیرات، اخوت، قربانی اور   تعاون علی البر کی جگہ درآمد کیے ہوئے ہندوانہ یا مغربی تصورات و اقدار کو اختیار کرے گا، اس میں معاشرتی توڑ پھوڑ کا عمل فطری طور پر ہوگا اور قوتِ برداشت کی جگہ فوری فائدے کے حصول کی نفسیات کارفرما ہو گی۔

قرآن و سنت کا دیا ہوا حل نہ صرف آسان ہے بلکہ انتہائی عملی ہے۔ زندگی کے ہرمرحلے کے لیے اس نے جو حکمت عملی دی ہے ہم نے اسے اپنی ناسمجھی کی بنا پر پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ اسلام کایہ حل نہ وقت میں قید ہے نہ مکان میں بلکہ ہر دور میں اور ہرمقام پر یکساں قابلِ عمل ہے۔ اس حکمت عملی کے چند نمایاں پہلو یہ ہیں:

فرد میں اعتدال:

توازن اور عدل کا رویہ:قرآن کریم کاہر فرمان ایک فرد، خاندان، معاشرے اور ریاست ہر سطح پر امن و سکون پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ ہمیں اسے گھر، تعلیم گاہ اور معاشرے میں متعارف کرانا ہوگا۔

قرآنِ کریم کی بنیادی تعلیمات میں توحید کے بعد سب سے اہم تعلیم، عدل، توازن اور اعمال کو جیساکہ اس کا حق ہے ادا کرنے کی ہے۔ ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور عدل کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ توازن سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کی روش سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘ (المائدہ ۵:۸)۔ یہ عدل انسان کے ذاتی، خاندانی، معاشرتی اور بین الانسانی معاملات میں خوب صورتی اور حُسن پیدا کرتا ہے اور اس عدل کی کمی ، ظلم، استحصال اور ناانصافی کو پیدا کرتی ہے۔ اس لیے عدل کے بغیر کسی معاشرے میں بھلائی اور اصلاح نہیں ہوسکتی ۔ معاشی بدحالی سے زیادہ عدل کا فقدان تباہی کا باعث بنتا ہے۔

معاشرتی حقوق کی ادایگی:

وہ حقوق والدین کے ہوں یا بیوی اور بچوں اور پڑوسیوں کے، ہمیں انھیں اولیت دینا ہے اور مغربی انفرادیت کے خول سے نکل کر اسلام کے اجتماعیت کے تصور کو اختیار کرنا ہے۔اسلام ایک جامع اجتماعی نظام ہے، یہ محض ایک فرد کی انفرادی اصلاح کا نسخہ نہیں ہے۔ حقوق کی ادایگی باہمی رواداری، اخوت کو پروان چڑھانے اور طبقاتی نظام سے نجات کا ذریعہ بنے گی۔ فقرا و مساکین کی ضروریات کا پورا کرنا کوئی ’خیراتی‘ کام نہیں ہے۔   یہ انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے۔ اس لیے فرمایا گیا: وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاریات ۵۱:۱۹)یعنی’’ تمھارے اموال میں سائل اور محروم کا حق ہے‘‘۔

مسلمان کے مسلمان پر حقوق کو تعلیم گاہوں، دفتروں، تجارتی مراکز، غرض ہر مقام پر تعلیمی اور دیگر ذرائع کا استعمال کرکے ان حقوق کی آگاہی اور ان پر عمل کو ضابطہ بنانا ہوگا۔ اس سلسلے میں جو کم از کم عملی کام کرنے ہوں گے وہ اختصار سے درج ذیل ہیں:

غصہ پر قابو:

یہ وہ شیطانی عمل ہے جو ایک انسان کو چند لمحات کے لیے عقل و دانش کی جگہ انتقام اور زیادتی کی طرف لے جاتا ہے۔ ارشاد رحمۃ للعالمینؐ ہے: ’’جو (خلافِ حق بولنے سے) اپنی زبان کی حفاظت کرے گا، اللہ اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا، اور جو اپنے غصے کو روکے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عذاب کو اس سے ہٹائے گا،اور جو خدا سے معافی مانگے گا خدا اس کو معاف کردے گا‘‘۔(عن  انسؓ، مشکوٰۃ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت موسٰی ؑ نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا: ’’اے میرے رب! آپ کے نزدیک آپ کے بندوں میں سے کون سب سے پیارا ہے؟‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’وہ جو انتقامی کارروائی کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردے‘‘۔(عن ابوہریرہؓ، مشکوٰۃ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’طاقت ور وہ شخص نہیں ہے جو کُشتی میں دوسروں کو پچھاڑ دیتا ہے بلکہ طاقت ور تو درحقیقت وہ ہے جو غصے کے موقعے پر اپنے اُوپر قابو رکھتا ہے (یعنی غصے میں آکر کوئی ایسی حرکت نہیں کرتا جو اللہ او رسولؐ کو ناپسند ہو)۔(عن ابوہریرہؓ، بخاری)

جھوٹ سے نجات:

ہر وہ شے جھوٹ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے گئے معاہدۂ اطاعت و فرماں برداری سے ٹکراتی ہو۔ ایفاے عہد، خوش کلامی، عفو و درگزر، امانت داری یہ وہ احکامات ہیں جن کے خلاف کوئی عمل کرنا جھوٹ پر عمل کرنا ہے۔

خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’چار خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ پکا منافق ہوگا اور جس شخص کے اندر ان میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی تو اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہوگی، یہاں تک کہ اس کو ترک کردے۔ وہ چار خصلتیں یہ ہیں: جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرے، اور جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، اور جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، اور جب کسی سے اس کا جھگڑا ہوجائے تو گالی پر اُتر آئے‘‘۔(عن عبداللہ بن عمروؓ، بخاری، مسلم)

تعلقات کی اصلاح اور دوغلے پن سے نجات:

ہمارے معاشرے میں دوعملی اور دورُخاپن ایک بیماری کی شکل اختیار کرگیا ہے جو آخرکار تشدد و ٹکرائو کا باعث بنتا ہے۔ ہمیں دورُخے پن کو ختم کر کے اخلاص اور بھلائی کی تلقین کا رویہ اختیار کرنا ہوگا۔

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’جو شخص دنیا میں دو رُخاپن اختیار کرے گا تو قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی دو زبانیں ہوں گی‘‘۔( عن عمارؓ، ابوداؤد)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم قیامت کے دن بدترین آدمی اُس شخص کو پائو گے جو دنیا میں دو چہرے رکھتا تھا۔ کچھ لوگوں سے ایک چہرے کے ساتھ ملتا تھا اور دوسرے لوگوں سے دوسرے چہرے کے ساتھ‘‘۔(متفق علیہ)

صوبائی،قبائلی ، سیاسی عصبیت:

ظلم اور عدم رواداری کا ایک بڑا سبب برائی کا دفاع، اپنی برادری یا قبیلے کا ساتھ دینے کی بنا پر کرنا ہے۔ یہ ایک عظیم گناہ اور معاشرتی بگاڑ کا ایک بڑا سبب ہے۔ جو شخص اس مرض میں گرفتار ہوا اس کی آنکھ وہی دیکھتی ہے جو اس کی برادری، قبیلہ یا جماعت اسے دکھائے۔

ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرض کی نشان دہی یوں فرمائی: ’’وہ شخص ہم میں سے نہیںہے جو عصبیت کی دعوت دے، اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی بنیاد پر جنگ کرے، اور وہ بھی ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی حالت میں مرے‘‘۔( عن جبیر بن مطعمؓ، ابوداؤد)

راوی کہتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ’’اپنے لوگوں سے محبت کرنا کیا عصبیت ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ عصبیت یہ ہے کہ آدمی ظلم کے معاملے میں اپنی قوم کا ساتھ دے‘‘۔(عن ابونسیلہؓ، مشکوٰۃ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص (کسی ناجائز معاملے میں) اپنی قوم کی مدد کرتا ہے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی اُونٹ کنویں میں گر رہا ہو اور یہ اس کی دُم پکڑ کر لٹک گیا ہو تو یہ بھی اس کے ساتھ جاگرا‘‘۔(عن ابن مسعودؓ، ابوداؤد)

جھوٹی گواھی:

ہم اکثر اپنی وابستگیوں اور تعلقات کے اتنے غلام ہوجاتے ہیں کہ عدل اور حق ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ لسانی عصبیت ہو یا قبائلی اور نسلی عصبیت ان بتوں کو پوجنے کے لیے ہم ایسی اصطلاحات ایجاد کرلیتے ہیں جو ہمیں محبت کے نام پر نفرتوں کو پھیلانے کی آزادی دے دیں۔

کسی طاغوتی طاقت کو امن و سلامتی کا رکھوالا سمجھنا، کسی سودی قرض دینے والے ادارے کی ہرطرح کی شرائط تسلیم کرکے قوم کو قرض کے بوجھ تلے دبا دینا، کسی نام نہاد عالمی ادارے کو خوش کرنے کے لیے اسلامی شریعت کے منافی دستوری ترمیمات کے ذریعے شرعی احکام کو پامال کرنا، اپنے ذاتی مفاد اور معاشی فائدے کے لیے قومی مفاد کو پسِ پشت ڈال دینا___ یہ سب معاملات شہادت زور (جھوٹی گواہی) کی تعریف میں آتے ہیں اور جب تک ان سے توبۃ النصوح نہ کی جائے اور ان کی طرف پھر کبھی رُخ نہ کیا جائے اس وقت تک معاشرے میں امن و سکون، رواداری اور اخوت و محبت پیدا نہیں ہوسکتی۔

آج شہادت زور ٹی وی اسکرین پر ہو یا عدالت میں یا کسی عظیم الشان اجتماع میں، اسے ایک فنکارانہ صلاحیت اور چابک دستی قرار دیاجاتا ہے۔ اس کی اصلاح کے بغیر معاشرہ اور فرد بھلائی اور سکون حاصل نہیں کرسکتا۔ شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرض کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے: ’’خریم بن فاتکؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی اور جب لوگوں کی طرف رُخ پھیرا تو بیٹھے رہنے کے بجائے آپؐسیدھے کھڑے ہوگئے اور تین بار فرمایا: ’’جھوٹی گواہی دینا اور شرک کرنا دونوں برابر کے گناہ ہیں‘‘۔(ابوداؤد)

پھر آپؐ نے پڑھا: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ (تو تم ناپاکی یعنی بتوں سے دُور رہو اور جھوٹی بات کہنے سے دُور رہو اور خدا کے لیے یک سُو ہوجائو، شرک چھوڑ کر توحید اختیار کرو)۔

شہادتِ زور کو الرجس قرار دینا خود اس کے گھنائونا ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ جھوٹی گواہی محض عدالتوں میں نہیں بلکہ ایمان کے دعوے کے بعد نماز کی ادایگی نہ کرنا، زکوٰۃ کا ادا نہ کرنا، ظلم ہوتے ہوئے دیکھ کر خاموش رہنا، طاغوتی قوتوں کے خلاف کلمۂ حق بلند نہ کرنا غرض زندگی کے تمام معاملات میں اس اہم تعلیم کا دخل ہے۔ اسلامی شخصیت کی تعمیر اسی وقت ہوسکتی ہے جب شہادتِ زور سے مکمل طور پر نجات حاصل کی جائے۔

افواھوں کی سرکوبی:

آج آزادیِ صحافت اور آزادیِ راے کے نام پر جس بے دردی کے ساتھ حقائق کا گلا کُندچھری سے ذبح کیا جاتا ہے وہ اپنی مثال آپ بن گیا ہے۔ یہ افواہیں بُرائی کے فروغ اور ظلم و استحصال کے لیے سازگار فضا پیدا کرتی ہیں اور لوگوں کو ورغلا کر سڑکوں پر آکر توڑپھوڑ اور معصوم شہریوں کی اِملاک کو نقصان پہنچانے پر اُبھارتی ہیں۔ اس فتنے کی اصلاح بلاتاخیر کرنی ہوگی۔ دین کی حکمت کو قیامت تک سب سے زیادہ سمجھنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’شیطان آدمی کے بھیس میں کام کرتا ہے، وہ لوگوں کے پاس آکر جھوٹی باتیں بیان کرتا ہے۔ پھر لوگ جدا ہوجاتے ہیں (یعنی مجلس ختم ہوجاتی ہے اور یہ لوگ منتشر ہوجاتے ہیں) تو ان میں سے ایک آدمی کہتا ہے کہ مَیں نے یہ بات ایک آدمی سے سنی ہے جس کا چہرہ تو مَیں پہچانتا ہوں لیکن نام نہیں جانتا‘‘۔ ( عن ابن مسعودؓ، مسلم)

خیرخواھی اور حق گوئی:

معاشرے کے ہر کلمہ گو فرد کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے اصلاح اور نیکی کے قیام کے لیے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دینا ہوگا۔ وہ افراد جو اپنے آپ کو اسلامی تحریک سے وابستہ سمجھتے ہوںان پر یہ فریضہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ عائد ہوتا ہے کہ وہ ہرہرسطح پر اپنے ہاتھ،اپنی زبان اور اپنے دل کے ساتھ امربالمعروف ونہی عن المنکر اور خیرخواہی اور نصیحت کے فریضے کو انجام دیں۔

خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’دین خلوص و خیرخواہی کا نام ہے‘‘۔ یہ بات آپؐ نے تین دفعہ فرمائی۔ صحابہؓ نے عرض کیا: کس کے لیے خلوص اور خیرخواہی؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے اجتماعی نظام کے سربراہوں کے لیے، اور عام اہلِ اسلام کے لیے‘‘۔(عن تمیم داریؓ، مسلم)

خلوصِ نیت سے اصلاحِ احوال کے لیے بھلائی کا مشورہ دینا، امر بالمعروف کرنا اور اس مشورے میں کوئی تخصیص نہ کرنا دین کا تقاضا ہے۔ یہ نصیحت ہرہرسطح پر کرنی ہوگی۔ وہ ایوانِ اقتدار ہو یا کسی تحریک کا نظم، وہ عام کارکن ہوں یا مرکزی ذمہ داران، اس سے کسی کو بھی مستثنیٰ نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک یہ پُرخلوص تنقید ہوتی رہے گی ادارے، تحریکات اور ملک کے سربراہان راہِ راست پر رہیں گے۔ جب مصلحت، بزرگی اور منصب کے احترام کی بنا پر حق بات کا نہ کہنا عام ہو جائے تو پھر نہ کوئی ادارہ، نہ کوئی گھر، نہ کوئی جماعت اور نہ کوئی ملک صحیح خطوط پر ترقی کرسکتا ہے۔

 تعلق باللّٰہ:

دین کے تمام معاملات کا انحصار تعلق باللہ پر ہے۔ اس لیے امربالمعروف اور نصیحت ہو یا افواہوں کو رد کرتے ہوئے حق کی گواہی دینے کا مرحلہ، تحریک کے اندر کسی کمزوری کی نشان دہی اور خلوصِ نیت کے ساتھ اس کی اصلاح کی کوشش ہو یا احتسابِ نفس اور ذمہ داران کا احتساب، ہرہرعمل کی بنیاد تعلق باللہ پر ہے۔ جتنا ہمارا تعلق اپنے رب سے، اس کے بھیجے ہوئے  کلامِ قرآنِ مجید اور اس کے مقرر کردہ ہادی اعظمؐ اور خاتم النبیینؐ سے انتہائی قریبی نہیں ہوگا، ہماری کوئی کوشش بارآور نہیں ہوسکتی۔ ربِ کریم کا وعدہ ہے اور اس کا ہر وعدہ حق ہوتا ہے کہ جب اہلِ ایمان اللہ کو رب مان کر اس پر استقامت سے جم جاتے ہیں اور کسی اور کی حاکمیت ماننے کو تیار نہیں ہوتے، تو وہ اَن دیکھی قوتوں سے ان کی نصرت کرتا ہے اور کامیابی کو ان کا مقدر بنا دیتا ہے۔

معاشرہ، خاندان اور ریاست سے تشدد کا خاتمہ مزید تشدد سے نہیں دین کی حکمت اور دین کی واضح تعلیمات کے نفاذ ہی سے ہوسکتا ہے۔ عدل کا قیام، سچائی کا فروغ اور امانتوں کا ان کے اہل افراد کے سپرد کرنا کامیابی کی بنیادی شرط ہے۔

بلاشبہہ اس کائنات کے ذرے ذرے میں اللہ تعالیٰ کی آیات اور نشانیاں بکھری پڑی ہیں، اور یہ نشانیاں ہیں ہی اس لیے کہ ان پر غوروفکر کیا جائے اور ان کی روشنی میں اپنا رویہ اور عمل مرتب کیا جائے۔ مگر افسوس کہ انسانوں کی عظیم اکثریت ان نشانیوں پر کوئی توجہ نہیں دیتی اور اندھوں اور بہروں کی طرح اللہ کی روشن نشانیوں سے معاملہ کرتی ہے۔ قرآن بار بار انسانوں کو  اللہ کی ان نشانیوں پر غور کرنے اور کھلی آنکھوں اور کھلے دماغ سے ان سے روشنی حاصل کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ یُبَیِّنُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ o(البقرہ۲:۲۲۱) ’’اور وہ اپنی نشانیاں واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ سبق سیکھیں‘‘۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ o(النحل ۱۶:۱۱) ’’اس میں ایک بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں‘‘۔  اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّذَّکَّرُوْنَo(النحل ۱۶:۱۳) ’’ان میں ضرور نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو سبق حاصل کرنے والے ہیں‘‘۔

ملت ِاسلامیہ پاکستان کے لیے ۱۴؍اگست کا دن بھی اللہ کی ایک نشانی ہے۔ صرف سات سال کی بھرپور اور پُرامن جدوجہد کے نتیجے میں دنیا کے سیاسی نقشے پر، اور وہ بھی ایک ایسے سیاسی نقشے پر جس کے سبھی نقش مغربی تہذیب، مادیت، سیکولرزم اور لبرلزم کے رنگوں سے آلودہ تھے، عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر ایک ریاست کا قیام ایک تاریخی کرشمے سے کم نہ تھا۔ تحریکِ پاکستان کی اصل بنیاد اور روح ہی یہ تھی کہ برعظیم ہند میں مسلمان محض دوسری اکثریت نہیں بلکہ ایک نظریاتی قوم ہیں۔ ان کا مقصد صرف یورپی استعمار سے آزادی ہی نہیں، توحید اور رسالت ِ محمدیؐ کی بنیاد پر ایک نئے سیاسی اور اجتماعی نظام کا قیام ہے۔ جو بہرحال وقت کے غالب تصورات سے بغاوت اور ایک نئے نظریاتی مستقبل کی تعمیر کے عزم سے عبارت تھا۔ آزادی کا حصول اس اصل مقصد کے لیے تھا۔ ان دونوں میں لازم و ملزوم کا رشتہ تھا، جسے علامہ محمد اقبال نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبے اور پھر قائداعظم محمدعلی جناح کے نام اپنے خطوط میں بہت صاف الفاظ میں بیان کردیا تھا:

  • سیاسی مطمح نظر کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند، ملک میں جداگانہ سیاسی وجود رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اندرون اور بیرونِ ہند دنیا کو بتا دیا جائے کہ ملک میں صرف اقتصادی مسئلہ ہی تنہا ایک مسئلہ نہیں ہے، اسلامی نقطۂ نگاہ سے ثقافتی مسئلہ ہندستان کے مسلمانوں کے لیے اپنے اندر زیادہ اہم نتائج رکھتا ہے۔
  • اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعے کے بعد مَیں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے، تو ہرشخص کے لیے کم از کم حقِ معاش محفوظ ہوجاتا ہے، لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقا ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہا سال سے میرا یہی عقیدہ رہا ہے۔
  • مسلم ہندوستان کے ان مسائل کا حل آسان طور پر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو ایک یا ایک سے زیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کیا جائے، جہاں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ کیا آپ کی راے میں اس مطالبے کا وقت نہیں آپہنچا؟

انگریزوں سے آزادی اور حصولِ ملک براے قیامِ نظامِ اسلامی‘ ہی تحریکِ پاکستان کی امتیازی خصوصیت ہے اور قائداعظم کی قیادت میں جو تاریخی کامیابی قیامِ پاکستان کی شکل میں حاصل ہوئی، اس کا سہرا اسی تصور اور اس تصور کی خاطر برعظیم کے مسلمانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے سر ہے۔ ۱۴؍اگست کی اصل اہمیت ہی یہ ہے کہ یہ تاریخ ہرسال پوری قوم کو تحریکِ پاکستان کے اصل مقصد اور ہدف و منزل کی یاددہانی کراتی ہے، اور ہمیں اس امر پر سوچنے کی دعوت دیتی ہے کہ  سات سال میں کیا کچھ اس قوم نے حاصل کرلیا تھا پھر آزادی کے چھے عشروں میں اس اصل مقصد کے باب میں غفلت اور بے وفائی کا راستہ اختیار کیا، تو اب ٹامک ٹوئیاں مارنے کے نتیجے میں  موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہیں، لیکن افسوس تو یہ ہے کہ اللہ کی اس نشانی سے سبق سیکھتے ہوئے راہِ راست کی طرف آنے کی کوشش اور جدوجہد نہیں کررہے۔

آزادی کی ۶۸ویں سالگرہ کے موقعے پر ہم قوم کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ اس عظیم موقعے کو محض چند روایتی اور نمایشی کارروائیوں کی نذر کرنا ایک سنگین مذاق اور بڑا المیہ ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری دیانت داری کے ساتھ اس عظیم دن کی اصل نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ پھر اس سبق اور پیغام کو حرزِ جاں بنایا جائے جس کی نشانی (آیت) ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء، ۲۷رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ ہے۔

 تحریکِ پاکستان کی اساس

پاکستان کا قیام ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ اس ملک کے قیام کی جدوجہد جہاں زوال پذیر برطانوی استعمار اور اُبھرتے ہوئے ہندو سامراج کی گرفت سے آزادی کی تحریک تھی، وہیں اس سے زیادہ یہ ایک نظریاتی اور تہذیبی احیا کی تحریک تھی۔ اس کا اصل مقصد برعظیم کے ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے، وہاں کے لوگوں کو اپنے دین، ایمان، تصورِ حیات، روایات اور ملّی عزائم کی روشنی میں آزاد فضا میں ایک روشن مستقبل کی تعمیر کا موقع فراہم کرنا تھا۔ سیاسی آزادی اور دینی اور تہذیبی تشکیلِ نو کا مقصد اور عزمِ تحریکِ پاکستان کے دو اہداف تھے، جو ایک ہی تصویر کے دو رُخ کی حیثیت رکھتے ہیں___ ان دونوں کا ناقابلِ انقطاع تعلق اسلامیانِ پاکستان کی قوت کا راز ہے اور ان میں تفریق اور امتیاز بگاڑ اور خرابی کی اصل وجہ ہے۔

تحریکِ پاکستان کا یہ کارنامہ ہے کہ اس نے برعظیم کے مسلمانوں کو ان کی قومی شناخت دی اور اس شناخت کی بنیاد پر ایک آزاد مملکت کے قیام کے لیے ان کو سرگرم اور متحرک کردیا، جس کا نتیجہ تھا کہ سات سال کی مختصر مدت میں برعظیم کے دس کروڑ مسلمانوں نے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند اپنی آزادی اور دین کے تحفظ کی جنگ لڑی اور بلالحاظ اس کے کہ پاکستان کے قیام سے کس کو کیا فائدہ پہنچے گا اور کس کو کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی، ایک نظریاتی جنگ کے نتیجے میں ایک آزاد ملک قائم کیا۔

تحریکِ پاکستان کی بنیاد اسلام کا تصورِ قومیت ہے جس کی روشنی میں قوم کی آزادی اور آزادی کے سایے میں قوم کی اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کے لیے مملکت کا حصول عمل میں آیا۔ لیکن پاکستان کے ساتھ یہ المیہ رُونما ہوا کہ وہ قوم جسے مختصر ترین وقت میں یہ مملکت ِ خداداد ملی تھی، اسی قوم کے اہلِ حل و عقد اسلامی قومیت کی بنیاد پر ملک کی تعمیر سے غافل ہوگئے۔ نظریاتی شناخت اور بنیاد سے ہٹ کر ملک کو ’ترقی یافتہ‘ بنانے کی سعی لاحاصل میں ملک کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔ جس کانتیجہ ہے کہ صرف ۲۴برس بعد ۱۹۷۱ء میں ملک دولخت بھی ہوگیا اور آج جو کچھ موجود ہے، اس کی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ آج جس حقیقت کے اِدراک اور اقرار کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کا قیام اور پاکستان کے وجود،بقا اور ترقی کا انحصار اس نظریے پر ہے، جو تحریک کی روح اور کارفرما قوت تھی۔ قائداعظم نے ایک جملے میں اس حقیقت کو بیان کردیا تھا:

اسلام ہمارا بنیادی اصول اور حقیقی سہارا ہے۔ ہم ایک ہیں اور ہمیں ایک قوم کے طور پر آگے بڑھنا ہے۔ تب ہی ہم پاکستان کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔

لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ قائد کے اس انتباہ کو ہم نے بحیثیت قوم نظرانداز کیا۔

۱۴؍اگست ایک عظیم یاددہانی ہے، اور یہ ایک انتباہ بھی ہے کہ اگر ملک اور نظریے کے رشتے کو نظرانداز کیا گیا تو ملک کا وجود بھی معرضِ خطر میں ہوگا (یوں تو اس وقت بھی معرضِ خطر ہی میں ہے) ۔ ہم قیامِ پاکستان کی ۶۸ویں سالگرہ کے موقعے پر اسی بنیادی نکتے پر قوم کو غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ ملک آج  جن مشکلات میں پھنسا ہوا ہے، ان سے نکلنے کے لیے اس بنیاد کی طرف لوٹ کر آنے کے سوا کوئی راستہ نہیں، جو تحریکِ پاکستان کی اساس ہے، جو ہماری قوت کا اصل منبع ہے، جس کے ذریعے ہم یہ ملک حاصل کرسکے اور جس کے بغیر ہم اس کو نہ قائم رکھ سکتے ہیں اور نہ ترقی دے سکتے ہیں۔

آج سب سے بڑی ضرورت قوم اور ملک کے اس تعلق کو سمجھنے اور اس پر سختی سے قائم رہنے میں ہے کہ اللہ کی سنت یہ بھی ہے کہ اگر ایک فرد یا قوم اس کی نعمتوں پر شکر کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو اس کے انعامات میں بیش بہا اضافہ ہوتا ہے اور اگر وہ کفرانِ نعمت کرتے ہیں تو پھر اس کی پکڑ بھی بہت ہی شدید ہے___ اور ناشکری کے نتیجے میں جو بگاڑ اور تباہی رُونما ہوتی ہے، اس کی ذمہ داری صرف اور صرف فرد اور قوم کے اپنے رویے اور کرتوتوں پر ہوتی ہے:

وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ  لَشَدِیْدٌ o (ابراہیم ۱۴:۷) اور یاد رکھو، تمھارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر تم شکرگزار ہو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔

اور یاد رکھو:

وَ مَا کُنَّا مُھْلِکِی الْقُرٰٓی اِلَّا وَ اَھْلُھَا ظٰلِمُوْنَ o(القصص ۲۸:۵۹) اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہوجائیں۔

 قیامِ پاکستان کے اصل محرکات

جیساکہ ہم نے عرض کیا پاکستان کا قیام ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ جس میں ہمیں آزادی کی نعمت حاصل ہونے کے ساتھ یہ موقع بھی ملا کہ آزاد فضا میں اپنے تصورات کے مطابق نئی زندگی تعمیر کریں۔ لیکن افسوس کہ ابتدائی چند برسوں کے بعد ہی جو عناصر قیادت پر قابض ہوگئے تھے، انھوں نے نہ صرف ان مقاصد کو فراموش کیا بلکہ ملک کو انھی باطل نظریات اور مفادات کے حصول کی بھٹی میں جھونک دیا جن سے نکلنے کے لیے تحریکِ پاکستان برپا کی گئی تھی۔ وہ یک سوئی جو تحریکِ پاکستان کا طرئہ امتیاز تھی ختم ہوگئی اور ملک اندرونی کش مکش اور بیرونی سازشوں کی آماج گاہ بن گیا اور آج ہماری آزادی بھی معرضِ خطر میں ہے اور ملک بھی معاشی، سیاسی، ثقافتی، اخلاقی غرض ہر اعتبار سے تنزل کا شکار نظر آتا ہے۔

۱۴؍اگست ہمیں دعوت دے رہا ہے کہ ان اصل مقاصد کی نشان دہی کریں جو قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا محرک اور اس تحریک کی امتیازی خصوصیت تھے اور پھر اس بگاڑ کی نشان دہی کریں جس نے ہمیں تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا ہے۔ اس تجزیے کی روشنی میں ایک بار پھر اس راستے اور منزل کی نشان دہی کریں جو اس تباہی سے بچنے اور اصل مقاصد کے حصول کی طرف پیش قدمی کا راستہ ہے۔

تحریکِ پاکستان کا پہلا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے دورِحاضر میں برعظیم کے مسلمانوں نے اپنی خودی کو پہچانا اور اس طرح اپنے حقیقی وجود کو پایا۔ تحریکِ پاکستان نے پاکستانی قوم کو اس کا اصل تشخص دیا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس اور سامراجی قوتیں جو خطرناک کھیل کھیل رہی تھیں، وہ ناکام ہوئیں اور مسلمانوں نے اپنے اصل تشخص کی بقا اور استحکام کے لیے جان کی بازی لگادی۔ انھوں نے بھی جن کو اس جدوجہد کے نتیجے میں سیاسی آزادی ملی اور انھوں نے بھی جو جانتے تھے کہ سامراج کے رخصت ہونے کے بعد وہ خود حقیقی آزادی کی روشن صبح سے محروم رہیں گے۔ انھیں یہ یقین تھا کہ مسلمانوں کی ایک ایسی آزاد مملکت قائم ہوگی، جو اسلام کا مظہر اور سارے مظلوم انسانوں کا سہارا ہوگی۔ نظریاتی وطن کے قیام کی اس کامیاب جدوجہد نے مغرب کی لادینی قومیت کے بت کو پاش پاش کردیا اور ملت اسلامیہ پاک و ہند نے اقبال کا ہم زباں ہوکر انسانیت کے لیے ایک نئے روح پرور تشخص کی یافت سے ایک نئے دور کا آغاز کیا:

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ

ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار

قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں

اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

قیامِ پاکستان کا یہی وہ پہلو ہے کہ ۱۹۴۷ء کے بعد پوری مسلم دنیا میں اسلامی ریاست اور اسلامی تہذیب کے احیا کی لہریں بار بار اُٹھ رہی ہیں اور سارے نشیب و فراز کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے اور ان شاء اللہ جاری رہے گا۔

قیامِ پاکستان کا دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ اس کے نتیجے میں ایک طرف اہلِ پاکستان نے غلامی کی زنجیریں توڑیں، دوسری طرف برعظیم کے مسلمانوں کو امن کی جگہ میسر آئی۔ برعظیم کے مسلمانوں کے ایک بڑی تعداد ’’ہے ترکِ وطن سنت محبوب الٰہی‘‘ پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھربار چھوڑ کر اس نئے ملک کی تعمیر کے لیے سرگرمِ عمل ہوگئی۔ جس جذبے اور جن عزائم سے یہ ترک و اختیار،  واقع ہوئے، وہ ہماری تاریخ کا نہایت ایمان افروز اور روشن باب ہے۔ یہی وہ جذبہ تھا، جس نے پاکستان کو ان اولیں ایام میں ایسے تمام خطرات کا مقابلہ کرنے کے لائق بنایا، جو اس نوزائیدہ ملک کو درپیش تھے اور جن حوادث کا ہدف اس غنچے کو پھول بننے سے پہلے ہی مَسل دینا تھا۔ آزادی خود ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس کا پورا اِدراک انھی لوگوں کو ہوسکتا ہے، جنھوں نے غلامی کی تاریک رات کی صعوبتوں کو برداشت کیا ہو۔ آزادی کی شکل میں جو نعمت آج اہلِ پاکستان کو حاصل ہے،  وہ ہر دوسری نعمت سے زیادہ قیمتی اور حیات افروز ہے۔

اس تحریک کا تیسرا پہلو یہ تھا کہ یہ ایک عوامی اور جمہوری تحریک تھی۔ قائداعظمؒ نے مسلمان قوم کو بیداراور منظم کیا اور سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے عوامی قوت اور تائید کے ذریعے  سات سال کی قلیل مدت میں وہ کام کردکھایا، جسے دوسرے، سالہا سال میں بھی انجام نہ دے سکے۔ تحریکِ پاکستان ایک عوامی تحریک تھی۔ جن کی نظر تحریکِ پاکستان کی تاریخ پر ہے، وہ جانتے ہیں کہ سیاسی اشرافیہ (elites) نے کس کس طرح اس تحریک کاراستہ روکنے کے لیے سازشوں کے جال بُنے۔ لیکن اللہ کے فضل سے قائداعظمؒ کی قیادت اور عوام کی تائید و اعانت نے اس تحریک کو آزادی کی منزل سے ہم کنار کیا۔

اس تحریک کاچوتھا پہلو یہ تھا کہ قیامِ پاکستان ،اس تحریک کی آخری منزل نہیں تھا بلکہ پہلا سنگِ میل تھا۔ اصل ہدف ایک ایسے معاشرے اور ریاست کا قیام تھا، جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی سچی وفادار اور ان تعلیمات کی آئینہ دار ہو، جو انھوں نے انسانیت کو عطا کی ہیں۔ جس میں اخلاقی اقدار کو بالادستی حاصل ہو، جہاںفرد کے حقوق کی پوری حفاظت ہو، جہاں ہر مرد اور ہرعورت کی جان، مال اور آبرو محفوظ ہو۔ جہاں تعلیم کی روشنی سے بلاتخصیص مذہب و عقیدہ ہرفرد نورحاصل کرسکے۔ جہاں قانون کی حکمرانی ہو۔ جہاں حلال رزق اور معاشی ترقی کے مواقع تمام انسانوں کو حاصل ہوں۔ جہاں عدلِ اجتماعی کا بول بالا ہو اور جہاں ریاست اور اس کے کارپرداز عوام کے خادم ہوں۔ اسلام اور اس کے دیے ہوئے جمہوری اور عادلانہ نظام کا یہ تصور تھا، جس نے مسلمانوں کو اس تحریک میں پروانہ وار شریک کیا تھا اور وہ برملا کہتے تھے ہمیں ایک بار پھر اس دور کا احیا کرنا ہے، جس کی مثال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفاے راشدینؓ نے قائم کی تھی۔

آیئے، قیامِ پاکستان کے ان مقاصد اور عزائم کے پس منظر میں اپنی قومی زندگی کے اس نئے سال کے آغاز پر اس امر کاجائزہ لیں کہ پاکستانی قوم اور اس کی قیادتوں نے کہاں تک ان اہداف کی طرف پیش قدمی کی اور ملک عزیز کو آج کون سے مسائل، خطرات اور چیلنج درپیش ہیں۔ نیز ان حالات میں اصل منزل کی طرف پیش رفت کے لیے صحیح حکمت عملی اور لائحہ عمل کیا ہے۔

ملک کا اصل المیہ

تحریکِ پاکستان اور تاریخ ِ پاکستان کے معروضی تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قیامِ پاکستان کا اصل سہرا اللہ تعالیٰ کے فضلِ خاص کے بعد اگر کسی کے سر جاتا ہے تو وہ قائداعظم کی فراست و قیادت اور مسلمان عوام کا جذبہ اور قربانی ہے۔ آزادی کے فوراً بعد ان کی بیماری اور وفات نے ایک ایسی صورت حال پیدا کردی، جس میں وہ کھوٹے سکے، جو ان کے گرد جمع تھے، اقتدار پر قبضہ جماکر ریاست کی مشینری کو بالکل دوسرے ہی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے میدان میں کود پڑے۔

پہلے وزیراعظم کو گولی کا نشانہ بنا کر قومی منظر سے ہٹا دیا گیا، دوسرے وزیراعظم کو برطرفی کی تلوار کے بل پر نکال باہر کیا گیا اور ان کے مخلص ساتھیوں کو سازشوں کے ذریعے غیر مؤثر بنادیاگیا، اور چند ہی برسوں میں بساط سیاست ایسی اُلٹی کہ اصل نقشہ درہم برہم کرکے یہ مخصوص ٹولہ اقتدار کے ہرمیدان پر قابض ہوگیا۔قانون اور ضابطے کا احترام ختم ہوگیا۔ منتخب دستور ساز اسمبلی کو بار بار توڑ دیا گیا۔ انتظامیہ اور پولیس کو سیاسی قیادت نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، جو بالآخر انھی کے ہاتھوں اسیر ہوکر رہ گئی۔ فوج کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور پھر فوج نے اپنے لیے سیاسی کردار حاصل کرلیا۔ عدلیہ نے کچھ مزاحمت کی، لیکن اسے بھی زیردام لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔

 نوسال بعد پہلا دستور بنا، جسے دوہی سال کے بعد توڑ دیا گیا، اور دستور شکنی کی ایک ایسی ریت چل پڑی، جس کے مذموم اثرات سے آج بھی نجات ممکن نہیں۔ جس احساس تشخص نے قوم کو جوڑا تھا، اس پر ہر طرف سے تیشہ چلایا گیا، لادینی نظریات، علاقائیت، لسانیت، برادری کا تعصب، قبائلیت، غرض کون سا تیشہ ہے جو اس پر نہ چلایا گیا ہو۔

آزادی کے بعد۲۳سال تک بالغ راے دہی کی بنیاد پر انتخاب نہ کرائے گئے اور پھر دسمبر ۱۹۷۰ء میں انتخابات منعقد ہوئے تو وہ دھونس، دھاندلی اور بدعنوانی کا شاہ کار رہے کہ عوامی مینڈیٹ ایک مذاق بن گیا۔ سیاسی جماعتوں میں ذاتی بادشاہت، خاندانی قیادت اور علاقائی اور لسانی تعصبات کا غلبہ رہا اور حقیقی جمہوریت کے فروغ کا ہر راستہ بند کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں علاقائی تعصبات نے سیاست کو آلودہ کیا اور قومی سیاست کی گاڑی پٹڑی سے اُتر گئی۔ مغربی اور ہندو تہذیب کو رواج دینے کی دانستہ کوشش کی گئی۔

معاشی ترقی کا وہ راستہ اختیار کیا گیا جس نے ملک کو ایک طرف طبقاتی تصادم میں مبتلا کیا تو دوسری طرف مغرب کے سودی سامراج کے چنگل میں اس طرح گرفتار کردیا کہ آج ملک اندرونی اور بیرونی قرضوں کے پہاڑ جیسے بوجھ تلے سسک رہاہے۔ بیرونی قرضے ۶۰؍ارب ڈالر کی خبر لارہے ہیں اور قرضوں کا کُل حجم ۱۵کھرب روپے سے متجاوز ہے۔ وفاقی حکومت کے کُل سالانہ بجٹ کا تقریباً ایک تہائی صرف سود اور قرضوں کی ادایگی کی نذر ہورہا ہے اور ملک کا ہر بچہ، جوان اور بوڑھا ۸۰ ہزار روپے کا مقروض ہے۔

پاکستان کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ اصل اقتدار اور اختیار آج تک عوام کی طرف منتقل نہیں ہوا، اور سارے وسائل پر ایک طبقہ قابض ہے جس کا تعلق سیاسی، انتظامی اور عسکری اشرافیہ سے ہے اور جو باری باری اقتدار پر براجمان ہوکر ملک کے سفید و سیاہ کا مالک بنا ہوا ہے۔ قومی دولت کا ۸۰فی صد آبادی کے اُوپر کے ۱۰ فی صد کے پاس ہے۔ ۱۰/۱۲ہزار بڑے خاندان ہیں جو زراعت، صنعت اور تجارت پر مکمل تصرف رکھتے ہیں اور یہی خاندان سیاست پر بھی چھائے ہوئے ہیں۔ پارٹی خواہ کوئی بھی ہو، سول بیوروکریسی اور عسکری اسٹیبلشمنٹ بھی اس گٹھ جوڑ کا حصہ ہے۔

دستور موجود ہے مگر اس کا بڑا حصہ عملاً معطل ہے۔ قانون صرف کتاب قانون کی ’زینت‘ ہے، اور عملاً قانون، ضابطے اور میرٹ کا کوئی احترام نہیں۔ پولیس سیاسی قیادت کی آلۂ کار بنی ہوئی ہے۔ ہرسمت کرپشن کا دور دورہ ہے ۔ عوام کے مسائل اور مشکلات کا کسی کو درد نہیں اور نہ کوئی ان کا پُرسانِ حال ہے۔ عدالت، خصوصیت سے اعلیٰ عدالت نے کچھ آزادی حاصل کی ہے مگر اس کے فیصلوں اور احکام کو بھی کھلے بندوں نظرانداز کیا جاتا ہے، یا عملاً انھیں غیرمؤثر (frustrate) کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ بجلی،گیس اور پانی کے بحران نے تباہی مچائی ہوئی ہے اور لاقانونیت اور دہشت گردی کے سبب عوام کی جان، مال اور عزت، سب معرضِ خطر میں ہیں۔

اندرونی انتشار اور بیرونی مداخلت

ان حالات کو اور بھی سنگین بنادینے والے چند پہلو اور بھی ہیں، جن کا اِدراک ضروری ہے۔

ان میں سب سے اہم محاذ یہ ہے کہ ملک کے معاملات میں بیرونی قوتوں اور خصوصیت سے امریکا اور مغربی اقوام کی دراندازیاں ہیں۔ یہ سلسلہ توملک غلام محمد اور جنرل ایوب خان کے دور ہی سے شروع ہوگیا تھا مگر جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے اَدوار میں یہ اپنے عروج کو پہنچ گیا اور یہی اُلٹا سفر آج بھی جاری ہے۔ ویسے تو قوم کو اس کا پورا پورا اِدراک تھا مگر  وکی لیکس، ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آباد کے واقعے اور شکیل آفریدی کے اسکینڈل، این آر او اور پھر جنرل مشرف کے صدارت سے استعفے کے ڈرامے، فوجی سلامی کے ساتھ رخصتی، اور پھر بیرونِ ملک روانگی کے سلسلے میں جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں اور ان میں جو کردار سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ امریکا اور برطانیہ کے سفارت کاروں کا سامنے آیا ہے، اس نے تو ملک کی آزادی اور ہماری سیاسی قسمت کی تخریب و تعمیر میں بیرونی کردار کا پردہ بالکل ہی چاک کر کے رکھ دیا ہے۔

معاشی اعتبار سے بھی انھی قوتوں کی گرفت ہماری معیشت پر مضبوط تر ہورہی ہے اور سیاسی اعتبار سے بھی اندرونی معاملات کی باگ ڈور انھی کے ہاتھوں میں نظر آرہی ہے۔ سول اور فوجی تعلقات کے جو نشیب و فراز قوم نے رواں سال میں دیکھے ہیں اور دیکھ رہی ہے، معاشی پالیسیوں کی صورت گری جس طرح عالمی بنک اور عالمی مالیاتی فنڈ کے اشاروں پر کی جارہی ہے اور سیاسی اُفق پر تبدیلیوں کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس نے آزادی اور قومی خودمختاری کی حقیقت کا بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

اس پر مستزاد وہ نظریاتی انتشار ہے جو ملک و قوم اور خصوصیت سے نئی نسلوں پر مسلط کیا جارہا ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ بھی آج متنازع بنایا جارہا ہے۔ قراردادِ مقاصد ہدف تنقید و ملامت ٹھیری ہے۔ تاریخ کے قتل کا ہوّا دکھا کر تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ ریاست اور مذہب کے تعلق کو زیربحث لایا جا رہا ہے۔

ایک فی صد سے بھی بہت کم تعداد رکھنے والا سیکولر اور لبرل طبقہ ہے جو میڈیا پر قابض ہے، اور آزادیِ فکر کے نام پر قومی زندگی کے مسلمات کو چیلنج کر رہا ہے اور ملک و قوم میں فکری انتشار اور خلفشار پیدا کرنے اور بھارت اور مغربی اقوام کے سامراجی ایجنڈے کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ان ۶۷برسوں میں جو طبقہ حکومت، معیشت اور سیکورٹی کے نظام پر قابض رہا ہے وہ یہی سیکولر گروہ ہے جو کبھی سوشلزم کے نام پر، کبھی سرمایہ داری کے نام پر،  اور کبھی روشن خیال جدیدیت کے نام پر حکمران رہا ہے اور سارے بگاڑ کا سبب رہا ہے۔ ملّا کو گالی دینا اور ہر خرابی کو ضیاء الحق کے سر تھوپنا تو اس کا وتیرا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ غلام محمد کے دور سے لے کر مشرف اور زرداری کے دور تک اقتدار اگر کسی طبقے کے ہاتھوں میں رہا ہے تو وہ یہی سیکولر مراعات یافتہ اشرافیہ ہے۔ سول دور ہو یا عسکری ، اس دوران میں یہی سیکولر طبقہ حکمران رہا ہے ۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں کچھ چیزیں اسلام کے احکام کے مطابق ضرور ہوئیں، لیکن بحیثیت مجموعی اس دور میں بھی اصل فکر اور اصل کارفرما ہاتھ بہت مختلف نہ تھے۔ اس لیے اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ آزادی کے چھے عشروں میں اگر کوئی فکر اور کوئی طبقہ حکمران رہا ہے تو وہ یہی سیکولر فکر اور سیکولر طبقہ ہے۔ چند مغربی محققین نے بھی اس امر کا برملا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان اور عرب ممالک میں خود مسلمانوں کی مغرب زدہ سیکولر قیادت ہے جو ناکام رہی ہے اور بگاڑ کی بھی  بڑی حد تک ذمہ دار یہی بدعنوان اور نااہل قیادت ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر ولفریڈ کینٹ ول اسمتھ اور پروفیسر کیتھ کیلارڈ نے بہت صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ ان ممالک میں آج جو بھی حالات ہیں وہ مذہبی قوتوں کے پیدا کردہ نہیں ہیں، بلکہ ان ممالک میں مغرب نواز سیکولر قیادتیں ان کی ذمہ دار ہیں۔

انھی حالات کا نتیجہ ہے کہ پاکستان آج صرف سیاسی اور معاشی بحران ہی کا شکار نہیں، نظریاتی، اخلاقی اور تہذیبی انتشارمیں بھی مبتلا ہے۔ حالات کی اصلاح کے لیے اس طرح کی ایک ہمہ جہتی نظریاتی تحریک اور جدوجہد کی ضرورت ہے، جیسی برعظیم کے مسلمانوں کو برطانوی اور برہمن سامراج سے نجات دلانے کے لیے اقبال کی فکری اور قائداعظم کی سیاسی رہنمائی میں برپا کی گئی تھی۔

اس ہمہ گیر بگاڑ کے تین بڑے تشویش ناک پہلو ہیں:

  • پہلا اخلاقی بگاڑ جو خود سرکاری سرپرستی میں منظم اور ہمہ گیر کوششوں کے نتیجے میں بد سے بدتر صورت اختیار کررہا ہے اور ظلم اور بداخلاقی اس نشان کو چھو رہی ہے جہاں کارواں کے دل سے احساسِ زیاں بھی رخصت ہوتا نظر آتا ہے۔ ہرسُو بدعنوانی کا دور دورہ ہے جو تقریباً ہرسطح پر طرزِحیات بنتی جارہی ہے، حتیٰ کہ بین الاقوامی ادارے بھی پاکستان کو دنیا کے دو یا تین سب سے زیادہ بدعنوان ملکوں میں شامل کر رہے ہیں۔ ملکی اور عالمی ذرائع ابلاغ سبھی اسلامی شعائر اور معاشرے کی مسلّمہ اقدار و آداب کو پامال کرنے میں مصروف ہیں۔ تعلیم کے نظام نے صرف علم ہی کی رسوائی کا سامان نہیں کیا ہے، بلکہ اخلاق کا بھی جنازہ اُٹھا دیا ہے۔ روایات کے بندھن کھل رہے ہیں اور اباحیت پسندی اور آزاد روی کا سیلاب اُمڈ رہا ہے اور بچشم سر دیکھا جاسکتا ہے کہ اس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں۔
  • دوسرا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ افراد کے اس اخلاقی بگاڑ کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کے ہر اس ادارے کو تباہ کیا جا رہا ہے، جو قوم کی کشتی کو لنگر کی طرح تھامتا ہے۔ دستور ہو یا قانون، پارلیمنٹ ہو یا انتظامیہ، عدلیہ ہو یا پولیس، سول سروس ہو یا بلدیاتی نظامِ حکومت، تعلیم ہو یا ذرائع ابلاغ، حتیٰ کہ قوم کا آخری سہارا، یعنی خاندان___ ہر ایک کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ جن اداروں کو بڑی محنت اور قربانی سے استعمار کے اقتدار کے باوجود محفوظ رکھا گیا تھا، آج ان کی چولیں بھی ہل گئی ہیں اور دیواریں گر رہی ہیں۔
  • بگاڑ کا تیسرا پہلو پالیسی سازی کے سارے عمل اور فیصلہ کرنے والے اداروں اور افراد کا بیرونی اثرات کے تابع ہونا ہے، جس سے ملک کی سیاسی اور نظریاتی آزادی خطرے میں پڑگئی ہے۔ معاشی پالیسیاں بیرونی ساہوکاروں کے ہاتھوں گروی رکھ دی گئی ہیں اور اب عالمی بنک اور  عالمی مالیاتی فنڈ کا عمل دخل اتنا بڑھ گیا ہے کہ ملک کا بجٹ ملک کی پارلیمنٹ نہیں، ان اداروں کے احکام کے مطابق بنایا جا رہا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ خود وزیراعظم کے معاشی مشیر تاجروں اور صنعت کاروں سے کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ کو اپنی سفارشات کو منظور کرانا ہے تو آئی ایم ایف کے کارپردازوں سے بات کریں۔

یہی حال قانون سازی کا ہے۔ قانون بناتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جا رہا کہ ملک و ملّت کا مفاد کیا ہے یا، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کیا ہے؟ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ امریکا اور مغرب کس بات پر خوش ہوں گے؟ اور کس پر نکتہ چیں؟ چونکہ مغرب نے آج کل فنڈامنٹلزم اور تشدد کا ہوّا کھڑا کر رکھا ہے اس لیے ہماری قومی قیادت کی جانب سے نہ صرف قسمیں کھائی جارہی ہیں کہ ہم فنڈامنٹلسٹ نہیں ہیں بلکہ ہرقانون اور اخلاقی قدر کو پامال کر کے واشنگٹن اور اس کے گماشتوں کے آگے ناک رگڑی جارہی ہے اور انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ان بھیڑیوں اور درندوں کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ خود اقتدار میں آنے اور اقتدار میں رہنے کے لیے عوام اور پارلیمنٹ کے بجاے واشنگٹن کی خوش نودی حاصل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔

غرض سیاست، معیشت اور ثقافت و تمدن ہر میدان میں ہم اپنی آزادی اور حاکمیت پر سمجھوتے کر رہے ہیں اور جو کچھ مسلمانانِ پاک و ہند نے اپنی جان، مال اور آبرو کی قربانی دے کر حاصل کیا تھا اسے چند طالع آزما اپنے مفاد کی خاطر مسلسل دائو پر لگاتے چلے آرہے ہیں۔

یہ ہے وہ حالت ِزار جس میں، آزادی کے ۶۷سال کے بعد ماضی کے کچھ فوجی اورماضی اور حال کی کچھ نام نہاد جمہوری قوتوں کی حکمرانی کے طفیل پاکستان اور اہلِ پاکستان مبتلا ہیں۔ وہ ملک جو پوری ملت اسلامیہ کے لیے نئی اُمیدوں اور ایک روشن مستقبل کا پیغام لے کر سیاسی اُفق پر نمودار ہوا تھا، اسے ان اتھاہ تاریکیوں میں پہنچا دیا گیا ہے اور بگاڑ اس انتہا کو پہنچ گیا ہے کہ جہاں لوگ خود ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوس ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ   ع

وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ!

تبدیلی کا لائحہ عمل

صورتِ حال کے بگاڑ اور تاریکی کی شدت کا انکار ، دراصل حقیقت کے انکار اور عاقبت نااندیشی کے مترادف ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود ہماری نگاہ میں مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ اس لیے بھی کہ مایوسی کفر ہے، اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ حالات کیسے ہی خراب کیوں نہ ہوں، مومن کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا (لَاتَقْنَطُوا مِن رَحْمَۃِ اللّٰہ) ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مخلص انسانوں کی قربانیوں کو کبھی رائیگاں نہیں کرے گا، جن کے خون اور عصمتوں کی قربانی سے یہ ملکِ عزیز وجود میں آیا ہے۔ اس لیے بھی کہ تاریخ کا یہی فیصلہ ہے کہ بگاڑ کی قوتیں ایک خاص حد پر پہنچنے کے بعد شکست و ریخت کا نشانہ بنتی ہیں اور خیر اور صلاح کی قوتیں بالآخر غالب ہوتی ہیں۔ جس طرح زوال اور انتشار ہماری تاریخ کی ایک حقیقت ہے، اسی طرح تجدید اور احیا بھی ایک درخشاں حقیقت ہیں   ؎

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے

آغوش میں ہرشب کے سحر ہوتی ہے

سوال یہ ہے کہ اصلاح کا راستہ کیا ہے؟ ہماری نگاہ میں نہ فوج کی مداخلت حالات کو درست کرسکتی ہے اور نہ تشدد کی سیاست۔ ملکی سیاست میں تصادم اور تلخی جس حد کو پہنچ گئی ہے،    اس سے صرف سیاست ہی نہیں ملک کا وجود بھی خطرے میں ہے، جس کی بڑی وجہ حکومتوں کی آمرانہ روش، تنگ دلی اور تنگ نظری ہے۔ اگر ایک طرف معاشی بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے اور وسائلِ حیات کی قلت اور مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے تو دوسری طرف لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ اور اب تو عالم یہ ہے کہ کراچی سے راولپنڈی تک معصوم انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور کسی کی آنکھ نہیں کھل رہی۔ یہی وہ حالات ہیں جو تشدد کی سیاست کو جنم دیتے ہیں۔

اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک کے وہ تمام عناصر جو حالات سے غیرمطمئن ہیں، بگاڑ کے اسباب پر متفق ہیں اور جو اصلاح کے خواہاں ہیں، وہ مل جل کر مؤثر سیاسی جدوجہد کے ذریعے نظام کو بدلنے کی جدوجہد کریں۔ بگاڑ کے ایک ایک سبب کو دُور کرنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک نئی قیادت اُبھرے جس کا دامن پاک ہو ، جو عوام میں سے ہو اور جو عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔

بگاڑ کے اسباب 

  • سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کے اصل مقاصد، اس کی منزل اور ترجیحات کے بارے میں یکسوئی ہو۔ وہ تمام دینی اور سیاسی عناصر جو اسلام، جمہوریت، عدلِ اجتماعی اور خودانحصاری پر یقین رکھتے ہیں، وہ ایک دوسرے سے قریب آئیں اور اصولوں پر پختہ ایمان رکھنے والی باکردار قیادت کو قوم کے سامنے لائیں۔

قائداعظمؒ نے اپنا مقدمہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور روایتی سیاست کاروں کے سامنے نہیں، برعظیم کے مسلم عوام کی عدالت میں پیش کیا تھا۔ ان کو بیدار اور متحد کرتے ہوئے ایک ایسی عوامی اور جمہوری لہر پیدا کی تھی کہ روایتی قیادتیں اس سیلاب کے آگے بہہ گئیں۔ آج پھر اس کی ضرورت ہے کہ جمہوری ذرائع سے جمہور کو بیدار اور منظم کیا جائے اور قیامِ پاکستان کے مقاصد کے لیے ان کو متحرک کیا جائے۔ ملکی اور غیرملکی سازشی عناصر کا اصل توڑ عوام کی بیداری اور ان کی منظم قوت ہے۔

  • دوسری بنیادی چیز قیادت کا صحیح معیار ہے۔ قوم نے بہت دھوکے کھائے ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ نئی قیادت عوام میں سے اُبھرے اور اپنے اخلاق اور کردار کے اعتبار سے دستورِپاکستان میں مرقوم معیار (دفعہ ۶۲، ۶۳) پر پوری اُترے۔ عوام اور الیکشن کمیشن کو یہ اختیار ملنا چاہیے جیساکہ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ وہ ان دفعات کو عملاً نافذ کرسکیں۔ یہ وہ چھلنی (filter) ہے، جس سے بہتر قیادت رُونما ہوسکتی ہے۔

خودقائداعظم نے اپنی ۱۹۳۶ء کی ایک تقریر میں قیادت کے لیے بڑے نپے تلے انداز میں مطلوبہ معیار کی نشان دہی کی تھی، جس پر آج ہمیشہ سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔ طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا: ’’ملکی حالات کا بغور مطالعہ کیجیے، تجزیہ کیجیے اور سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ اس بات کو یقینی بنایئے کہ مقننہ (Legislature) میں دیانت دار، حقیقی، مخلص اور محب ِ وطن نمایندے پہنچیں‘‘۔

  • تیسری ضرورت آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل اور مؤثر تنفیذ ہے ۔ امریکا اور مغربی اقوام سے محتاجی کا جو رشتہ قائم ہوگیا ہے اور جو اب صرف پالیسیوں تک محدود نہیں بلکہ ایک طرح کا  انتظامی تعلق (structural relationship) بن گیا ہے، جس کے نتیجے میں سیاسی، عسکری، معاشی اور تہذیبی ہر میدان میں بیرونی ممالک اور قوتوں کااثرو نفوذ بڑھ کر اس مقام پر پہنچ چکا ہے، جہاں وہ پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور نظریاتی شناخت کو متاثر کررہا ہے۔ بڑے پیمانے (macro) کی سطح پر اثرات سے بڑھ کر بات اب جزوی انتظام و انصرام (micro-management ) تک پہنچ چکی ہے۔ اس لیے نئی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل اب ملک کی آزادی اور سلامتی کے لیے ازبس ضروری ہوگئی ہے۔

اس کے لیے ایک طرف امریکا کی اعلان کردہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے ہمارانکلنا ضروری ہے، تو دوسری طرف ملکی وسائل کی بنیاد پر معاشی ترقی کا نقشۂ کار بنانا ضروری ہے۔ عسکری میدان میں بھی پہلے قدم کے طور پر اسلحے کے نظام اور خریداری میں مختلف ممالک سے رابطوں کی ضرورت ہے تو دوسری طرف جو حکمت عملی ۱۹۷۰ء میں بنیادی صنعتوں کے قیام اور فروغ کے سلسلے میں ہیوی مکینیکل کمپلیکس اور اسٹیل ملز کے قیام کی صورت میں اختیار کی گئی تھی، اسے نئے حالات کی روشنی میں ایک نئے انداز میں فروغ دینا ضروری ہے۔

شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی جو صورت حال ہے اسے بھی جلد اور ایک متعین شکل دے کرکے مسئلے کے اصل سیاسی، معاشی اور تعلیمی ذرائع سے حل کی طرف بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں بھارت سے تعلقات کے باب پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ملکی مفاد کا تقاضا ہے کہ جزوی اُمور میں اُلجھنے کے بجاے اصل بنیادی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کی جائے اور اس کے لیے فوری اور دیرپا دونوں نوعیت کی پالیسیاں بنائی جائیں۔ کشمیر اور پانی کے مسئلے کے حل ہی پر بھارت سے سیاسی اور معاشی تعلقات کا دیرپا بنیادوں پر فروغ ممکن ہے۔ ان اساسی پہلوئوں کو نظرانداز کرکے محض ’اعتماد سازی‘ کے اقدامات اور تجارت کا راستہ اختیار کرنا سیاسی اور معاشی ہردوپہلو سے مہلک ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک آزاد اور حقیقی معنی میں پاکستانی مفادات اور ترجیحات پر مبنی خارجہ پالیسی اختیار کی جائے اور اس کے لیے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے پاکستانی عوام کے حقیقی جذبات اور خطوطِ کار میں بعدالمشرقین ہے۔ تمام عوامی سروے اس امر کا ثبوت ہیں کہ پاکستانی قوم امریکا اور بھارت کو اپنا دوست نہیں سمجھتی اور ان کی پالیسیوں کو ملک کے لیے سب سے اہم خطرہ شمار کرتی ہے، جب کہ جنرل مشرف دور سے اب تک حکومت کی پالیسی اور ترجیحات عوام کے جذبات اور خواہشات کی ضد ہیں۔

  • چوتھی چیز ایک ملّی ضابطۂ اخلاق کی تشکیل ہے جس کی پابندی تمام سیاسی جماعتوں، پریس اور میڈیا پر لازم ہو۔ اسے افہام و تفہیم سے مرتب کیا جانا چاہیے۔ اس ذیل میں بہت کام ماضی میں ہوا ہے۔ خود دستورِ پاکستان میں بھی اس سلسلے میں بڑی رہنمائی موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر نیا اتفاق راے پیدا کیا جائے اور اس کے نفاذ کے لیے کوئی مؤثر نظام بنایا جائے، خواہ عدلیہ اس کام کو انجام دے یا کوئی اور نیا قومی ادارہ۔
  • پانچویں چیز نظامِ انتخاب کی اصلاح ہے۔ انتخابی کمیشن حکومت اور حزبِ اختلاف کے باہم مشورے اور اتفاق راے سے مقرر ہونا چاہیے۔ پاکستان کے حالات میں انتخابات نگران حکومت کے تحت ہونے چاہییں، جس کے بغیر منصفانہ انتخابات کی توقع عبث ہے۔ اس امر پر بھی غور کی ضرورت ہے کہ اسمبلی کی مدت پانچ سال سے کم کر کے ۴سال کردی جائے تاکہ احتساب کم وقفے میں ہوسکے۔
  • چھٹی چیز ایک اعلیٰ احتسابی کمیشن کا قیام ہے، جس کا مطالبہ جماعت اسلامی اول روز سے  کر رہی ہے اور جس کا وعدہ خود پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں اس سے پہلے کرچکے ہیں۔ مسلم لیگ کے تو منشور میں بھی اس کا وعدہ ہے۔ اسی طرح اس کا مطالبہ تحریکِ انصاف نے بھی کیا ہے۔ گویا کہ یہ ایک متفقہ قومی مطالبہ ہے۔ پھر اس سے فرار کیوں؟ یہ مستقل کمیشن ایسا ہوناچاہیے جو حکومت، حزبِ اختلاف یا کسی بھی شہر ی یا متاثر ہونے والے فرد کی طرف سے تمام منتخب اور دوسرے ذمہ دار افراد کا احتساب کرسکے۔ اس ادارے کو یہ اختیار حاصل ہو کہ جس نے بھی اپنی سرکاری حیثیت کو ذاتی نفع کے لیے استعمال کیا ہو، اسے قرارواقعی سزا دے سکے اور عوامی وسائل ان سے واپس لے کر سرکاری خزانے میں لائے۔
  • ساتویں چیز دستور کے مطابق صوبائی اور لوکل باڈی کی سطح پر اختیارات کی منتقلی ہے اور ان میں ضروری صلاحیت کار پیدا کرنا ہے۔ سینیٹ کو زیادہ مضبوط اور مؤثر بنانا بھی اس سلسلے میں بڑا مفید ہوسکتا ہے۔
  • آٹھویں چیز عدلیہ کی آزادی، اس کی انتظامیہ سے علیحدگی اور عدلیہ کے فیصلوں کی بلاامتیاز تنفیذ ہے۔
  • نویں چیز سول انتظامیہ اور پولیس کا ایسا انتظام ہے، جو ان کی آزاد اور غیر سیاسی حیثیت کو مستحکم کرسکے۔ ملکی، سول انتظامیہ اور پولیس، ریاست کے ادارے تو ہوں، مگر حکمران پارٹی کے سیاسی آلۂ کار نہ ہوں۔ اس کے لیے ان کو دستوری تحفظ دیا جائے، نیز ان کی تربیت اور وسائل دونوں کا اہتمام کیا جائے۔
  • دسویں چیز قومی زندگی سے کرپشن کا خاتمہ اور اس کے لیے ہرسطح پر مؤثر مہم ہے۔
  • آخری اور بہت ہی ضروری چیز ایک نئی سماجی اور معاشی پالیسی ہے، جس کا ہدف صحیح تعلیم کا فروغ، علاج کی سہولتوں کی فراہمی ، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ اور روزگار کے مواقع کی فراہمی اور ایسی معاشی اصلاحات ہیں، جن سے سود، قمار اور ہر طرح کے استحصال کا خاتمہ ہو، دولت کی تقسیم منصفانہ ہوسکے اور تمام انسانوں کو زندگی کی جائز ضروریات مل سکیں۔

یہ وہ گیارہ نکات ہیں جن پر عمل کر کے قوم ایک بار پھر اسلام کے حیات بخش نظام کے قیام کے لیے متحد اور سرگرمِ عمل ہوسکتی ہے اور چمن میں اس کی روٹھی ہوئی بہار واپس آسکتی ہے۔

۱۱مئی ۲۰۱۳ء کو منعقد ہونے والے قومی انتخابات کو، اپنی تمام تر خامیوں اور بے قاعدگیوں کے باوجود، ملکی حالات میں تبدیلی اور اصلاح کے باب میں ہوا کا ایک تازہ جھونکا سمجھا جا رہا تھا اور توقع تھی کہ دو بار کا تجربہ رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے صدر جناب نواز شریف صاحب کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت مشرف اور زرداری اَدوار کی روش کے مقابلے میں پاکستان کے حقیقی مفادات اور عوام کے جذبات اور توقعات کے مطابق اور خود اپنے ماضی کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادے گی جس میں وہ پھنسی ہوئی ہے۔ سب ہی نے کھلے دل سے اس کو موقع دیا اور اچھی توقعات وابستہ کیں۔ راے عامہ کے جائزے اور اخبارات کے صفحات اس کے غماز ہیں۔

اس فضا میں پارلیمنٹ کی تمام پارٹیوں نے اپنے اپنے انداز میں اور سارے تحفظات کے باوجود، دست ِ تعاون بڑھایا اور نواز شریف صاحب نے بھی ملک کے دستور اور مسلم لیگ (ن) کے منشور کی پاس داری کے دعوے کے ساتھ اچھی طرزِ حکمرانی کا وعدہ کر کے اُمیدوں کے کچھ چراغ روشن کیے۔ عدلیہ سے ماضی کی حکومت کا جو ٹکرائو چل رہا تھا، وہ ختم ہوتا نظر آیا۔ سول اور عسکری اداروں میں نئے صحت مند تعاون اور اعتماد باہمی کی بات ہونے لگی۔ میڈیا کا رویہ بھی بحیثیت ِ مجموعی مثبت اور اُمید افزا تھا اور پھر صوبہ سندھ میںپیپلزپارٹی اور صوبہ خیبرپختونخوا میں تحریکِ انصاف کی اکثریت کا احترام کرتے ہوئے ان کی حکومتوں کے قیام، اور بلوچستان کے مخصوص حالات کی روشنی میں قومی وطن پارٹی کی اکثریت نہ ہوتے ہوئے بھی مسلم لیگ (ن) کی مدد سے مخلوط حکومت کا قیام ایک اچھا آغاز تھا۔ لیکن چند ہی ہفتوں میں پرانی سیاست کے تاریک سایے مطلع کو سیاہ آلود کرنے لگے، عوامی مسائل اور انتخابی وعدے پسِ پشت پڑنے لگے اور شخصی ترجیحات اور خاندانی سیاست ایک نئی شان کے ساتھ جلوہ فگن ہوگئی۔ اُمیدیں دم توڑنے لگیں، تصادم اور کش مکش کی لہریں اُٹھنے لگیں، مفادات کا کھیل پھر شروع ہوگیا، اور اُمیدوں کے جو چراغ روشن ہوئے تھے، ایک ایک کرکے  بجھنے لگے۔ عوام اور سیاسی حلقوں میں مایوسی کی ایک لہر اُبھرنے لگی جو اَب شدید مایوسی کا رُوپ اختیار کرچکی ہے۔ گیلپ کے تازہ جائزے کی رُو سے  ملکی آبادی کا ۴۴ فی صد حکومت کی کارکردگی سے غیرمطمئن ہے اور صرف ۸ فی صد نے مکمل طور پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ پہلے ہی سال کی  اس ’کارکردگی‘ پر بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے   ع

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

جنرل مشرف کے اقتدار کے نو سال اور پیپلزپارٹی کی حکمرانی کے پانچ سال ہماری تاریخ کا تاریک باب ہیں۔ دونوں کی پالیسیوں میں ایک گونہ تسلسل تھا اور یہ اُس این آر او (مفاہمتی گٹھ جوڑ) کا ایک حد تک فطری نتیجہ تھا، جس کے تحت پیپلزپارٹی برسرِاقتدار آئی تھی اور جو امریکا اور برطانیہ دونوں کے بنائے ہوئے نقشے کے مطابق اور ان کی سفارت کاری کا ثمرہ تھا۔ یہ اور بات ہے کہ حالات نے کچھ ایسی کروٹ لی اور حزبِ اختلاف نے ایک خاص کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں گو جنرل مشرف کو سلامی دے کر بھی ملک سے رخصت کردیا گیا، مگر بدقسمتی سے مشرف کی بنائی ہوئی پالیسیوں کو  اس کے ساتھ رخصت نہ کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں نوازشریف صاحب نے جب جون ۲۰۱۳ء میں اپنے دورِ حکومت کا آغاز کیاتو ملک اندرونی اور بیرونی ہرمحاذ پر شدید ترین بحرانوں کی گرفت میں تھا۔

حکومت کو درپیش سات چیلنج :

نئی حکومت کو کم از کم سات بڑے ہی اہم اور گمبھیر چیلنجوں سے سابقہ تھا، یعنی:

  1. ملک عملاً اپنی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری سے محروم ہوچکا تھا۔ سیاسی اور معاشی ہردوپہلو سے امریکا کی گرفت اتنی مضبوط ہوگئی تھی کہ ملک کی خارجہ پالیسی، دہشت گردی کے باب میں پالیسی اور معاشی پالیسی اسی کے اشارے پر چلائی جارہی تھیں۔ بات یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ امریکا کے دوسرے اور تیسرے درجے کے سیاسی اور فوجی نمایندے بھی ہمارے صدرِ مملکت، وزیراعظم اور سول اور عسکری ذمہ داروں کو ہدایات ہی نہیں دے رہے تھے، بلکہ دھمکیوں سے بھی  اپنا کام نکال رہے تھے اور سی آئی اے کے کارندے ملک کے طول وعرض میں اپنی کارستانیاں کرنے میں آزاد تھے۔ بہت سے ریمنڈ ڈیوس اور بہت سے شکیل آفریدی یہاں امریکا کا کھیل کھیل رہے تھے، ڈرون میزائل کی بارش تھی، سلالہ اور ایبٹ آباد ہمارا مقدر بن چکے تھے اور ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی کا دور دورہ تھا اور معیشت کا بال بال بیرونی اور اندرونی قرضوں میں جکڑ ا گیا تھا۔ ان حالات میں نواز حکومت کے سامنے پہلا بڑا چیلنج ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کا تحفظ اور اس کی عزت و وقار کی بحالی تھا۔
  2.  ملک میں امن و امان کی حالت بھی سخت مخدوش تھی۔ لاقانونیت، بھتّا خوری ، ڈاکے اور رہزنی، قتل اور ٹارگٹ کلنگ نے زندگی اجیرن بنا دی تھی۔ جرائم کے ساتھ دہشت گردی اور سیاسی، لسانی، علاقائی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر خون خرابے کا بازار گرم تھا۔ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کی شرکت نے ملک میں دہشت گردی کا ایک طوفان برپا کردیا تھا اور جس خطرناک آگ کے شعلے ۲۰۰۴ء میں اُبھرے اور ۲۰۰۶ء کے لال مسجد کے واقعے کے بعد وہ ایک ملک گیر الائو کا رُوپ دھار گئے۔ زرداری کے دور میں ان میں نہ صرف یہ کہ کمی نہیں ہوئی بلکہ ان کا دائرہ بڑھتا ہی گیا اور جیسے جیسے اور جتنا ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں ہماراکردار بڑھا،اتنے ہی اس جنگ کے شعلے ہمارے اپنے در و دیوار کو خاکستر بنانے لگے۔ دہشت گردی کا یہ مسئلہ پیچیدہ اور گمبھیر تھا اور اس کی مختلف شکلیں الگ الگ حکمت عملی کا تقاضا کر رہی تھیں، جب کہ امریکا کے دبائو میں ہماری حکومتیں مسئلے کے سیاسی اور دوسرے پہلوئوں کو نظرانداز کرکے صرف عسکری قوت سے اسے ختم کرنے کی کوشش کر رہی تھیں جو مسائل کو بڑھانے اور آگ کو پھیلانے کا ذریعہ بن رہی تھیں۔ عالمی سطح پر بھی یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے مقابلے کے لیے کثیرجہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ رہا قوت کا استعمال تو اس سے جتنے دہشت گردوں کا خاتمہ ہوتا ہے، ان کی خاک سے اس سے ۱۰گنا زیادہ دہشت گرد جنم لے لیتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ پارلیمنٹ اور کُل جماعتی کانفرنسوں کی چھے قرار دادیں موجود ہیں جن میں مسئلے کے سیاسی حل کی ضرورت کی نشان دہی کی گئی ہے اور قوت کے استعمال کو چند متعین حدود تک محدود کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو حکمت عملی تجویز کی گئی وہ تین نکتوں پر مشتمل تھی، یعنی مکالمہ،  ترقی اورمزاحمت (Dialogue, Development and Deterrence)۔ اس جامع حکمت عملی کو صحیح اور مطلوب قرار دیا گیا لیکن عملاً اس حکیمانہ ہدایت کو نظرانداز کرکے محض عسکری قوت سے حالات کو قابو کرنے کے ناکام تجربے ہی کو بار بار دہرانے کا راستہ اختیار کیا گیا، حالانکہ دنیابھر میں آج اس امر کا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ وہ جنگ ہے جس کا آغاز تو آسان ہے لیکن جب آغاز ہوجائے تو پھر اس سے نکلنا اور اسے ختم کرنا ایک مصیبت بن جاتا ہے۔ مشرف اور زرداری کے دور کا یہ دوسرا چیلنج تھا جس کے مقابلے کے لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت تھی اور نواز حکومت سے توقع تھی کہ وہ لکیر پر لکیر کھینچنے کے بجاے نیا آغاز کرے گی۔
  3. تیسرا بڑا مسئلہ پاکستان کے نظریاتی، تہذیبی اور اخلاقی تشخص کا بُری طرح مجروح ہونا ہے۔ پاکستان اسلامی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے اور پاکستان کی بقا اور ترقی کا انحصار اسلام کی بنیادوں پر اس کی تعمیر اور تشکیل پر منحصر ہے۔ پاکستان کا دستور اس منزل اور منہج کو بالکل واضح الفاظ میں متعین کردیتا ہے لیکن سیکولر اور لبرل طبقہ جو اقتدار پر قابض رہا ہے، اس نے پاکستان کی اس بنیاد کو کمزور ہی نہیں منہدم کرنے اور ’روشن خیالی‘ اور ’موڈریشن‘ کے نام پر مغرب کے ان سیکولر اور لبرل تصورات کو ملک و قوم پر مسلط کرنے کی کوششیں تیز تر کردی ہیں، جو خود مغرب میں ناکام ہوچکے ہیں اور تہذیب و تمدن کے بگاڑ اور انتشار کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ زرداری حکومت نے پرویز مشرف کی اس تباہ کن پالیسی کو جاری رکھ کر ملک کی نظریاتی شناخت کو مزید مجروح اور کمزور کیا۔ مسلم لیگ سے، جسے قیامِ پاکستان کی تحریک کی قیادت کی سعادت حاصل ہے، توقع تھی کہ وہ اس نظریاتی اور تہذیبی خلفشار کا خاتمہ کر کے دستور کے مطابق  ملک کے نظریاتی تشخص کو دوٹوک انداز میں واضح کرے گی۔
  4. چوتھے چیلنج کا تعلق توانائی کے بحران سے ہے جو ماضی کی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے مشرف کے دور میں رُونما ہوگیا تھا، اور لوڈشیڈنگ نے عام آدمی کی زندگی دشوار اور معیشت کی گاڑی کو بے رفتار کردیا تھا۔ بجلی، گیس اور پانی، ہر تین کے باب میں ملک میں شدید قلت کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی جو زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کر رہی تھی۔ رہی سہی کسر بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے پوری کردی تھی اور لوگ بجلی کی نایابی اور گرانی دونوں کے عذاب میں مبتلا تھے۔ توقع تھی کہ نئی حکومت اپنے دعوئوں اور منشور کے اعلانات کے مطابق توانائی کے بحران پر قابو کے لیے مؤثر حکمت عملی اختیار کرے گی اور عوام کی مشکلات دور ہونا شروع ہوجائیں گی۔ مسلم لیگ کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس کام کا واضح نقشہ اور باصلاحیت ٹیم ہے اور اس چیلنج کے مقابلے میں اس کا بڑا امتحان تھا۔
  5. پانچواں مسئلہ معیشت کا عمومی بحران تھا جو معاشی ترقی کی رفتار کے ٹھیر جانے سے پیدا ہورہا تھا۔ عوام غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کے عفریت کی گرفت میں تھے۔ ایک طرف پیداواری عمل سُست تھا، تو دوسری طرف درآمدات اور برآمدات میں خوفناک حد تک بڑھا ہوا  عدم توازن، بجٹ کے ہولناک خسارے اور قرضوں کے سونامی نے معیشت کی چولیں ہلا دی تھیں اور عوام کے لیے زندگی ایک عذاب اور آزمایش بن گئی تھی۔ لوگ خودکشیوں تک پر مجبور ہورہے تھے۔نئی معاشی حکمت عملی وقت کی ضرورت تھی۔
  6. چھٹا مسئلہ کرپشن کا تھا جس نے زندگی کے ہر دائرے کو مسموم کردیا تھا۔ ملک کے وسائل کو جس بے دردی سے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور جس طرح ہر سطح پر ملک کو لوٹا گیا، اس نے اشرافیہ کا ایک طبقہ پیدا کردیا ہے جو قومی دولت پر قابض ہے۔ صرف ٹیکس چوری کو لیا جائے تو آزاد تخمینوں کے مطابق ملک کے خزانے کو سالانہ ایک ہزار ارب روپے سے ڈیڑھ ہزار ارب روپے تک محروم رکھا جا رہا ہے۔ ملک کی دولت جو ملک سے باہر لے جائی جاچکی ہے اس کا اندازہ ۱۰۰ سے ۲۰۰؍ارب ڈالر کا ہے۔ اگر صرف کرپشن پر ۵۰ فی صد ہی قابو پالیا جائے تو ملک کو کسی بیرونی قرضے یاامداد کی ضرورت نہیںرہے گی۔
  7. ساتواں مسئلہ اداروں کے درمیان تنائو، بے اعتمادی اور ٹکرائو سے پیدا ہورہا تھا۔ پرویزمشرف نے عدالت کو اپنی مٹھی میں لانے کے لیے اس پر ضربِ کاری لگائی اور پھر جب وکلا اور عوام کی تحریک کے نتیجے میں وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکا تو ایمرجنسی پلس لگاکر عدالت کا بوریا بستر ہی لپیٹ دینے کی جسارت کی۔ زرداری حکومت نے پہلے تو عدلیہ کی بحالی میں لیت و لعل کی اور پھر جب عوامی دبائو سے مجبور ہوکر عدلیہ کو بحال کیا تب بھی عملاً اس کے ہرحکم کی خلاف ورزی کو اپنا شعار بنالیا۔ اس دور میں بھی عدلیہ ، انتظامیہ اور سول اور عسکری اداروں کے درمیان سرد اور گرم جنگ کا سلسلہ جاری رہا جس نے پولیس اور انتظامیہ کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ دستور صفحۂ قرطاس پر تو موجود تھا مگر عملاً اس کو پامال کیا جا رہا تھا اور دستوری اداروں کے درمیان تعاون اور تواقف ناپید تھا۔ ملک دستوری اور انتظامی بحران (constitutional and structural crisis) کا شکار تھا۔

یہ تھے وہ سات بڑے بڑے چیلنج جو نواز حکومت کو درپیش تھے اور توقع تھی کہ وہ ان میں سے ہر ایک کے باب میں مناسب اور مؤثر حکمت عملی بنائے گی اور ایک واضح نقشۂ راہ کے ذریعے ملک کو اس دلدل سے نکالنے کی خدمت انجام دے گی۔

اچھی طرزِ حکمرانی کا فقدان:

حکومت نے عوام کی اچھی توقعات اور سیاسی اور دینی قوتوں کے تعاون کی فضا میں سفر کا آغاز کیا۔ پھر نواز حکومت کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل تھی اور مخلوط حکومت کی جو مجبوریاں ہوتی ہیں، وہ اس کی راہ میں حائل نہ تھیں۔ سب سے بڑے صوبے، یعنی پنجاب میں مسلم لیگ کی اپنی حکومت تھی اور بلوچستان میں بھی مسلم لیگ کو اسمبلی میں مضبوط پوزیشن حاصل تھی اور وہ حکومت کا حصہ تھی۔ ۲۰۱۳ء تک جو سفر جمہوریت نے طے کیا تھا اس میں بھی یہ اشارے موجود تھے کہ اگر حکومت اچھی حکمرانی کا مظاہرہ کرے تو تمام دوسرے ادارے اور قوتیں دستور میں دیے ہوئے توازنِ اختیارات کی طرف سفر جاری رکھ سکیں گے اور جو عدم توازن مشرف دور میں راہ پاگیا تھا، وہ اچھی حکمرانی، آزادعدلیہ اور فعّال میڈیا کی بدولت آگے کے مراحل کامیابی سے طے کرسکے گا۔ پھر یہ بھی توقع تھی کہ مسلم لیگ کے پاس نسبتاً زیادہ تجربہ کار اور باصلاحیت ٹیم ہے جو پارلیمنٹ کی تائید اور رہنمائی میں ملک کو درپیش بحرانوں سے نکالنے اور وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ان تمام مثبت پہلوئوں کی موجودگی میں توقع کی جارہی تھی کہ حالات نئی کروٹیں لیں گے، ملک مسائل سے نکل سکے گا اور پاکستان حقیقی ترقی کی منزل کی طرف ایک آزاد اور اسلامی اور فلاحی ملک کی حیثیت سے پیش رفت کرسکے گا۔ لیکن یہ تمام توقعات ان ۱۲ مہینوں میں پاش پاش ہوگئی ہیں اور پانی کی تلاش میں سرگرداں قوم کا مقدر ایک اور سراب کا نشانۂ ستم بنتا نظر آرہا ہے۔

اس ایک سال میں نواز شریف حکومت نے جو کارکردگی دکھائی ہے، اس نے قوم کو مایوس کیا ہے اور بے اطمینانی بڑھ رہی ہے۔ وہ عناصر جو جمہوریت کو ترقی کرتے نہیں دیکھناچاہتے، پَرتول رہے ہیں کہ کس طرح وار کریں اور جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اُتار دیں۔ ہم بڑے دکھ اور دل سوزی سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ حالات کو بگاڑنے میں بیرونی عناصر کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ ذمہ داری خود مرکزی حکومت کی بے عملی، غلط حکمت عملی، بُری حکمرانی، بے تدبیری ، وقتی اقدامات (adhocism)  اور مہم جوئی (adventurism)  پر بھی آتی ہے۔ اگر حکومت نے اپنی روش فی الفور تبدیل نہیں کی تو ہمیں خطرہ ہے کہ جمہوریت کی گاڑی کے پٹڑی سے اُترنے کے خدشات خدانخواستہ حقیقت کا رُوپ اختیار کرسکتے ہیں۔

ابھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں اور حالات کو قابو میں لانے کے لیے سرتوڑ کوشش کی جائے اور اس کے لیے تمام سیاسی اور دینی جمہوری قوتوں کا تعاون حاصل کیا جائے۔

نواز حکومت کے اس پہلے سال کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں، جن کا اِدراک اور پھر اصلاحِ احوال کے لیے مؤثر حکمت عملی کی تشکیل اور اس پر عمل ہی ملک کو تباہی سے بچاسکتے ہیں۔ وقت اور مہلت کی گھڑیاں کم ہیں، اس لیے فوری توجہ اور عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ اس جائزے سے جو باتیں سامنے آئی ہیں ان کو دو بڑی بڑی درجہ بندیوں میں بیان کیا جاسکتا ہے: ایک کا تعلق طرزِحکمرانی سے ہے اور دوسری کا پالیسی کے اہداف اور خطوط کار سے۔

طرزِ حکمرانی کے باب میں صاف نظر آرہا ہے کہ وزیراعظم صاحب نے مشاورت اور فیصلہ سازی کے معروف جمہوری اور اداراتی راستے کو اختیار کرنے کے بجاے شخصی حکمرانی اور ذاتی وفاداریوں کی بنیاد پر کاروبارِ حکومت چلانے کے طریقے کو ترجیح دی ہے، جو بگاڑ کی بنیادی وجہ ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ساری فیصلہ سازی ایک مختصر ٹولے میں محدود ہے جس کا انتخاب  خون کے رشتے یا ذاتی دوستی یا مفادات کے اشتراک پر ہے‘ صلاحیت، تجربے اور فہم وفراست پر نہیں۔

اچھی حکمرانی کا انحصار اصول اور ضابطۂ کار پر اعتماد، مشاورت کے وسیع تر نظام، پالیسی سازی میں تحقیق اور تجزیے کا اہتمام، اور ہر کام کے لیے صحیح ترین فرد کا انتخاب اس کی صلاحیت اور دیانت کی بنیاد پر ہے۔ ذاتی پسند و ناپسند سے ادارے تباہ ہوجاتے ہیں اور مسائل وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔

اداروں کے درمیان تصادم:

ہر کامیاب نظام کے لیے، اور خصوصیت سے جمہوری نظام کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ، کابینہ، پارلیمنٹ اور کابینہ کی کمیٹیوں ، تحقیقی اداروں، صوبوں اور ملک کے دوسرے تمام متعلقہ اداروں اور اسٹیک ہولڈرز سے مؤثر اور مسلسل مشورہ ہو۔ اس طرح پالیسی سازی باہمی مشاورت، مذاکرات اور تعاونِ باہمی کے ذریعے انجام دی جائے۔ پارلیمنٹ اور میڈیا میں کھلی بحث ہو۔ مرکزی حکومت کے بارے میں عام شکایت یہ ہے کہ چند افراد پورے ملک کی قسمت کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ میں نہ کوئی قابلِ ذکر قانون سازی ہوئی ہے اور نہ پالیسی اُمور پر بحث۔ پھر وزیراعظم صاحب پورے سال میں صرف آٹھ بار پارلیمنٹ میں تشریف لائے ہیں اور وہ بھی رسمی طور پر ۔ وزیراعظم نے بمشکل دو پالیسی بیان اس زمانے میں پارلیمنٹ میں دیے ہیں۔ سینیٹ میں پورے سال کے بعد اب ایک بار چند منٹ کے لیے شریک ہوئے ہیں، وہ بھی اس شان سے کہ جو تقریر قومی اسمبلی میں کی ہے وہی سینیٹ میں دہرا کر رخصت ہوگئے، اور مقامِ حیرت ہے کہ اس تقریر میں یہ جملہ بھی اسی طرح ادا کردیا جس طرح قومی اسمبلی میں کیا تھا کہ ’’میں نے ۲۹جنوری کو اس ایوان میں جو اعلان کیا تھا‘‘ اس سہل انگاری پر ماتم کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے۔

سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس بار بار یاددہانی کرا رہی ہیں لیکن اہم ترین اداروں پر یا تو تقرریاں ہوہی نہیںرہی ہیں یا اگر ہورہی ہیں تو قواعد کے مطابق مستقل تقرریوں کی جگہ ایڈہاک انداز میں نامزدگیاں کی جارہی ہیں یا قائم مقام کام چلا رہے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ ۱۰ماہ سے خالی ہے، پیمرا کے سربراہ کا عہدہ خالی ہے، ۴۰ سے زیادہ سرکاری ادارے ہیں، جن کے سربراہوں کا تقرر اس ایک سال میں نہیں ہوسکا۔ اخباری اطلاع کے مطابق نو اہم اداروں کے سلسلے میں سمری وزیراعظم کے دفتر میں موجود ہے، لیکن ان پر فیصلے کی نوبت نہیں آتی۔ نیشنل کمیشن براے ہیومن رائٹس بل پارلیمنٹ میں مئی ۲۰۱۲ء کو منظور ہوا تھا، مگر کمیشن اور اس کے سربراہ کا تقرر آج تک معرضِ التوا میں ہے۔ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کا اعلان وزیرداخلہ نے پارلیمنٹ میں کرتے ہوئے کہا تھا کہ NACTA کے سربراہ کا تقرر،  Rapid Deployment Force کا قیام اور جائنٹ انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کا نظام دواڑھائی ماہ میں متحرک ہوجائے گا۔ یہ اعلان ۱۳؍اگست ۲۰۱۳ء کو ہوا ہے مگر ان میں سے کوئی بھی ادارہ اب تک عملاً اپنا کام شروع نہیں کرسکا ہے۔

اعلان کیا گیا تھا کہ کابینہ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کا اجلاس ہر ماہ ہوا کرے گا اور دستوری ادارہ مشترکہ مفادات کی کونسل (Council of Common Intersts) کا اجلاس ہر تین ماہ میں ایک بار ضرور ہوگا لیکن کوئی بھی ادارہ اپنے وقت پر اپنا اجلاس منعقد نہیں کر رہا ہے۔ بات صرف ان ایک یا دو اداروں کی نہیں، اس سلسلے میں باقی ادارے بھی تقریباً اسی حالت میں ہیں۔

ہم بڑے دکھ سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ شخصی حکمرانی اور اہم ترین تقرریوں میں کوتاہی یا ذاتی پسند و ناپسند کا دور دورہ محض مرکز ہی میں نہیں‘ صوبوں میں بھی عام ہے۔ پنجاب تو میاں صاحب کی روایات کا اسیر ہے، لیکن خود سندھ کے حالات بھی کچھ مختلف نہیں۔ کراچی جو ۳۰سال سے دہشت گردی کی لعنت کی گرفت میں ہے وہاں پولیس اور انتظامیہ سیاسی قیادتوں کی دخل اندازیوں سے تباہ ہے۔ کراچی پولیس کے سربراہ کے تقرر کو سیاسی کھیل بنایا ہوا ہے۔ پچھلے ۱۸مہینوں میں      چھے سربراہ تبدیل ہوئے ہیں۔ اوسط مدت ملازمت ۱۲ہفتے بنتی ہے۔ شاہدحیات کو سب سے زیادہ زمانہ ایڈیشنل آئی جی رہنے کا موقع ملا، لیکن انھیں بھی نومہینے میں تبدیل کردیا گیا اور یہ سب اس کے باوجود کہ ڈی جی رینجرز ان کو قیامِ امن کے لیے عہدے پر فائز دیکھنا چاہتے تھے اور مرکزی وزیرداخلہ بھی اس تبدیلی پر کھلے بندوں احتجاج پر مجبور ہوئے، مگر چہیتوں کو تقرر کرنے والوں کا ہاتھ کوئی نہ روک سکا۔ شاید کچھ قوتیں چاہتی ہی نہیں کہ کراچی میں امن قائم ہو۔

سرکاری وسائل کا بے دردی سے استعمال:

سرکاری وسائل کو کس طرح ذاتی نام و نمود پر خرچ کیا جا رہا ہے، اس کی داستان بھی بڑی دل خراش اور شخصی حکمرانی کی بدترین مثال ہے۔ اس وقت جب تھر میں قحط پڑ رہا تھا اور بچے بھوک، پیاس اور ادویہ کی عدم فراہمی سے لقمۂ اجل بن رہے تھے، بلاول صاحب کے ’ذوقِ ثقافت‘ کی تسکین کے لیے موہن جوڈارو کا فیسٹیول منعقد کیا گیا جس پر ۲؍ارب روپے سرکاری خزانے سے خرچ کیے گئے۔ زرداری حکومت نے تحریکِ خواتین کی مدد کے پروگرام کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام دے کر سیاسی فائدہ اُٹھانے کا سامان کیا۔ اب سندھ حکومت نے بے نظیر شہید ڈویلپمنٹ پروگرام شروع کیا ہے۔ پھر لیاری میں سرکاری خرچ پر بلاول انجینیرنگ کالج قائم کیا جا رہا ہے اور لیاری ہی میں آصفہ انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹرانکس قائم  کیا جارہا ہے۔ یہ سب شخصی حکمرانی کی بدترین مثالیں ہیں۔ قومی وسائل جو ایک امانت ہیں، ان کو بے دریغ ذاتی اور سیاسی مصالح کے لیے صرف کیا جا رہا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے سمِ قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔

اندازِ حکمرانی کی اس تباہ کاری کے ساتھ قومی سلامتی و خارجہ پالیسی، اور سیاسی اور معاشی حکمت عملی کے باب میں بھی حکومت کا ریکارڈ نہایت مایوس کن ہے۔

ملکی سلامتی کو خطرہ اور طالبان:

سب سے پہلے ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کے مسئلے کو لیجیے۔ آزاد خارجہ پالیسی کی سمت میں کوئی پیش قدمی کسی سطح پر بھی نظر نہیں آتی۔ امریکا کا عمل دخل حسب سابق جاری وساری ہے۔ ڈرون حملے چھے ماہ کے تعطل کے بعد پھر اسی زور و شور سے شروع ہوگئے ہیں اور مغربی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ حکومت پاکستان کی اجازت اور فوجی انٹیلی جنس کے تعاون سے ہماری حاکمیت پر یہ حملے کیے جارہے ہیں۔ امریکاکو ۱۰سال کی کوشش اور دبائو کے بعد شمالی وزیرستان میں آپریشن کرانے میں کامیابی حاصل ہوگئی ہے اگرچہ اس کی ذمہ داری خود لی جارہی ہے، لیکن حقیقت وہی ہے جس کا اظہار ۱۵جون کے اقدام کے دو دن بعد ۱۷؍جون ۲۰۱۴ء کے انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز میں کیا گیا ہے۔ یعنی: ’’۱۰سال بعد جاکر امریکی مطالبے کو بڑی مشکل سے پذیرائی ملی، اگرچہ پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت کے لیے بہت بڑا رسک ہے‘‘۔ ۲۶ جون کو امریکا میں پاکستان کے سفیر جناب جلیل عباس جیلانی نے صاف الفاظ میں اس دعوے پر یہ کہہ کر مہرتصدیق ثبت کردی ہے کہ: ’’امریکا وزیرستان آپریشن کے بارے میں مثبت رویہ رکھتا ہے اور کولیشن سپورٹ فنڈوزیرستان آپریشن کے لیے ہے ۔ امریکا پاکستانی فوج کی قربانیوں کا معترف ہے‘‘۔

قومی سلامتی اور خارجہ امور کے بارے میں وزیراعظم کے مشیر نے ایک سے زیادہ بار اس امر کا اظہار کیا ہے کہ: پاکستان افغانستان سے امریکی افواج کی ۲۰۱۴ء کے اختتام پر واپسی پر ناخوش ہے اور وہ امریکی افواج کے مزید افغانستان میں رہنے کاقائل ہے۔ حالانکہ علاقے میں امن کے قیام کا اس وقت تک کوئی امکان نہیں جب تک امریکی اور ناٹو افواج کاافغانستان سے مکمل انخلا نہیں ہوجاتا اور افغانستان میں ایک ایسی قومی حکومت وجود میں نہیں آتی، جس میں تمام افغان، بشمول طالبان، شریک ہوں۔لیکن ہماری حکومت وہی راگ الاپ رہی ہے جو مشرف نے امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر کی آواز میں ملاکر شروع کیا تھا۔

طالبان کے تصورِ اسلام کے بارے میں ہمارے تحفظات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہم نے ان کا اظہار اس وقت کیا جب طالبان افغانستان میںبرسرِاقتدار تھے اور امریکا کی خفیہ تائید انھیں نہ صرف حاصل تھی بلکہ ان کے ساتھ توانائی اور معدنیات کی دریافت کے لیے کھلے مذاکرات کیے جارہے تھے۔

۱۳سال کی افغان جنگ کے بعد اب امریکی قیادت اور تحقیقی ادارے یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ طالبان افغانستان میں ایک حقیقت ہیں اور ان سے مذاکرات اور ان کی حکمرانی میں شرکت کے بغیر وہاں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ امریکا اور طالبان میں مذاکرات کے سلسلے بھی ڈھکے چھپے اورکھلے بندوں جاری ہیں اور قیدیوں کا تبادلہ بھی کھلے عام ہورہا ہے۔

ان حالات میں پاکستان کی قیادت کا ان کے خلاف اور خصوصیت سے حقانی گروپ جس سے پاکستان کوکبھی کوئی خطرہ نہیں تھا کے خلاف ہونا ایک ناقابلِ فہم معاملہ ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان اور اس کے نام پر کی جانے والی ان تمام کارروائیوں کی ہم نے ہمیشہ مذمت کی ہے، جن میں معصوم انسان شہید کیے گئے ہیں یا ریاستی اور قومی املاک کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اسی طرح ہم قوت کے ذریعے شریعت یا جمہوریت اور سیکولر لبرلزم دونوں کے قیام کے ہمیشہ سے مخالف رہے ہیں اور اسے اسلام اور معروف جمہوری اور سیاسی اصولوں کے خلاف سمجھتے ہیں۔ نیز ہم نے ہمیشہ اس راے کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردی کی کوئی ایک قسم نہیں ہے اور اس کی ہرہرنوعیت کو سامنے رکھ کر اس کا مقابلہ اور ازالہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ لیکن ہماری آواز مقتدر حلقوں کے لیے صدابصحرا ثابت ہوئی اور فوجی آپریشن کے دائرے کو شمالی وزیرستان تک وسیع کردیا گیا ہے۔

ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اب بھی پاکستانی حکومت، ہماری افواج اور خود طالبان کو ہدایت دے اور وہ بندوق کے بجاے دلیل اور افہام و تفہیم سے معاملات کو طے کرنے کا راستہ اختیار کریں۔ پاکستان کی افواج ہماری قیمتی متاع ہیں اور ہم قوم اور وطن کے لیے ان کی خدمات اور قربانیوں کے دل سے معترف اور ان کی قوت اور کامیابی کے لیے دعاگو ہیں لیکن جس عمل کو ہم   بے فیض دیکھ رہے ہوں تو اس کے بارے میں اپنے تحفظات کے اظہار کے باب میں کسی مداہنت کو  بھی صحیح نہیں سمجھتے۔ ہماری کوشش تھی کہ نوبت آپریشن تک نہ آئے اس لیے ہم مذاکرات شروع کرانے کے لیے کوشاں رہے۔ لیکن اب، جب کہ آپریشن شروع ہوگیا ہے تو ہماری خواہش اور دعا ہے کہ یہ جلد از جلد ختم ہو اور معاملات کے سدھار اور اصلاح کا کوئی معقول راستہ اب بھی نکل آئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہرممکن کوشش اس امر کی ہو کہ اس سے جو مشکلات اور مسائل علاقے کے عوام کے لیے پیدا ہوگئے ہیں، ان کے فوری حل کے لیے تمام وسائل بروے کار لائے جائیں۔

جماعت اسلامی کے کارکن اور الخدمت کے سرفروش مقدوربھر کوشش کر رہے ہیں کہ ۷لاکھ افراد جو بے گھر ہوگئے ہیں اور دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ان کی ہرممکن مدد کی جائے۔ پتا نہیں ان کی آزمایش کی مدت کتنی طویل ہوگی۔ اس موقعے پر اس امر کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ مرکزی حکومت نے اس آپریشن کے نتائج سے نبردآزما ہونے کے لیے کوئی تیاری نہیں کی، حالانکہ اسے  چھے مہینے ملے تھے کہ خراب سے خراب صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے پیش بندی کرتی، صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیتی، مناسب مقامات پر بے گھر ہونے والے متاثرین (IDPs) کے قیام اور طعام کا انتظام کرتی اور اس کے لیے مناسب وسائل فراہم کرتی، تاکہ مرکز اور صوبے دونوں کے تعاون اور اشتراک سے اس صورتِ حال کا مقابلہ ہوسکتا۔

 یہاں بھی حکومت نے اس سہل انگاری کا مظاہرہ کیا جو اس کے اندازِ حکمرانی کا خاصّہ بن گیا ہے۔ پہلے ۱۰ دن میں ساڑھے چار لاکھ افراد صرف بنوں کے علاقے میں رجسٹر ہوچکے تھے۔ سوات اور دوسرے علاقوں کی طرف منتقل ہونے والے افراد اس کے علاوہ ہیں۔ کم سے کم اندازہ ہے ان ۱۰دنوں میں ۷لاکھ افراد بے گھر ہوگئے ہیں اور ان کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ وفاقی حکومت نے کمالِ فیاضی سے اس کے لیے ۵۰کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا، جب کہ اقوامِ متحدہ کے تخمینے کے مطابق فوری طور پر کم از کم ۲۸؍ارب روپے درکار ہوں گے۔ اس حکومت کی ترجیحات کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اسی زمانے میں پنڈی اسلام آباد ۲۴کلومیٹر کے میٹروبس پراجیکٹ کے لیے ۴۴؍ارب ۲۱کروڑ کی رقم رکھی گئی ہے۔

یہ تو فوری ضرورت ہے، لیکن دہشت گردی کے مسئلے کا صرف یہی ایک پہلو نہیں۔ اس کے تمام پہلوئوں کے بارے میں مناسب حکمت عملی کی فوری ضرورت ہے۔ اس وقت جہاں بے گھر ہونے والے متاثرین کا مسئلہ سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے اور فوری توجہ چاہتا ہے، وہیں دہشت گردی کے تمام اسباب کو سامنے رکھ کر ہمہ گیر پالیسی بنانے کی بھی ضرورت ہے، جس سے صرفِ نظر تباہ کن ہوگا۔ امریکا سے تعلقات پر نظرثانی اور امریکی جنگ سے نکلنے کے راستوں سے غفلت بہت ہی خسارے کا سودا ہوگا۔ ملک کے باقی تمام علاقوں میں جو دہشت گردی ہے، اس سے نبٹنے کے لیے بھی صحیح پالیسی اور اقدام درکار ہیں۔ یک رُخی پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ نیز جو پالیسی محض ردعمل میں بنائی جائے یا جس کا محرک غصہ، بدلہ یا انتقام ہو، وہ خیروبرکت کا باعث نہیںہوسکتی۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ حکومت تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو اعتماد میں لے اور کھلے ذہن کے ساتھ مسئلے کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر زیادہ سے زیادہ قومی اتفاق راے پیدا کرکے ہمہ جہتی پالیسی بنائے۔ حالات کو سنبھالنا، نقصانات کو کم سے کم کرنا اور تباہ حال خاندانوں کو سینے سے لگانا اور ان کی مشکلات کو دُور کرنا ہم سب کی مشترک ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں کوئی بھی کوتاہی بڑی مہنگی پڑسکتی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فاٹا پر ہمارا دستور ۶۷سال سے لاگو نہیں ہے اور سوات، باجوڑ اور دوسرے علاقوں میں جہاں فوجی آپریشن ہوا ہے پانچ سال گزرنے کے باوجود سول نظام بحال نہیں ہوسکا ہے۔ شمالی وزیرستان کے آپریشن کے ۱۰، ۱۱ دن ہی میں جو کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور   جو خطرات منڈلا رہے ہیں ان سے صرفِ نظر تباہ کن ہوگا۔ ٹی وی اینکر اور کالم نگار سلیم صافی نے بڑی دردمندی کے ساتھ متنبہ کیا ہے کہ ذرا سی غلطی کتنی خطرناک ہوسکتی ہے:

اللہ کے بندو! اس ملک اور اس قوم پر رحم کرو۔ ہماری خاطر نہیں اپنی اولاد کی خاطر۔   یہ ۷لاکھ آئی ڈی پیز [بے گھر ہم وطن] نہیں ہیں۔ آپ لوگوں کا رویہ یہ رہا تو یہ ۷لاکھ خودکش بمبار بن جائیں گے۔ آج آپ لوگ سیاست اور اقتدار کے نشے میں مبتلا ہو لیکن یاد رکھو آپ پر بھی کبھی یوسف رضا گیلانی والاوقت آسکتا ہے اور خاکم بدہن آپ میں سے بھی کسی کا بیٹا حیدرگیلانی یا شہباز تاثیر بن سکتا ہے۔ ہماری خاطر نہیں، اپنے بچوں کی خاطر ان ۷ لاکھ وزیرستانیوں کی طرف توجہ دو تاکہ وہ خودکش بمبار، طالب یا پھر اغواکار بن کر مستقبل میں آپ کے بچوں کے ساتھ وہ کچھ نہ کریں، جو انھوں نے ایک سابق گورنر اور سابق وزیراعظم کے بیٹے کے ساتھ کیا ہے۔ (روزنامہ جنگ، ۲۴جون۲۰۱۴ء)

ناقص افغان پالیسی:

اندازِ حکمرانی کی اصلاح کے ساتھ بیرونی اور اندرونی سلامتی کی پالیسی کی اصلاح کو اولیں اہمیت دینا وقت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا مرکزی ہدف درست ہونا چاہیے۔ پاکستان کی سلامتی اور اس کو درپیش حقیقی خطرات___ بیرونی اور اندرونی دونوں پر توجہ مرکوز رکھنا ضروری ہے۔ اندرونی خطرات کو نظرانداز کرنا خودکشی کے مترادف ہوگا اور اندرونی خطرات کے غبار میں بیرونی خطرات سے صرفِ نظر اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اندرونی خطرات کے اسباب کے ساتھ ان کے بیرونی رابطوں کا شعور اور ان کے مقابلے کی حکمت عملی بھی سلامتی پالیسی کا اہم حصہ ہے۔

افغانستان سے اختلافات اور نوک جھونک تو قیامِ پاکستان کے وقت سے رہی ہے، لیکن افغانستان سے پاکستان کی سلامتی کو کبھی حقیقی خطرہ نہیں رہا۔ پہلی بار واضح خطرے کاسگنل افغانستان میں روس کی بالواسطہ مداخلت (ترکی ریولیوشن) سے رُونما ہوا، اور ڈیڑھ سال کے اندر اندر بالآخر دسمبر ۱۹۷۹ء میں روس کی بلاواسطہ فوج کشی کی صورت میں ایک فوری خطرے کی شکل اختیار کرلی۔ پاکستان کا ردعمل اسی وجہ سے ہوا اور اسی سے ہمارے دفاعی اور سلامتی کے ڈھانچے میں ایک بنیادی تبدیلی واقع ہوئی اور اس وقت سے آج تک افغانستان ہماری خارجہ پالیسی کا ایک مرکزی ایشو بن گیا۔

افغانستان میں بھارت کا کردار ۱۹۴۷ء سے تھا، مگر افغانستان پر امریکی فوج کشی اور بھارت اور امریکا کی اسٹرے ٹیجک شراکت کاری نے افغانستان میں اور افغانستان کے راستے میں بھارت کے کردار کو ایک نئی شکل دی ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں ایک ایسا رشتہ کہ دونوں ایک دوسرے کا سہارا اور پشتی بان ہوں، دونوں کے مفاد میں ہے اور اس کا راستہ ایک دوسرے کے معاملات میں حقیقی عدم مداخلت کے ساتھ تعاون اور افغانستان میں ایسے نظام کا ہے جو قومی مفاہمت اور یک رنگی سے عبارت ہو۔ تاہم، یہ اسی وقت ممکن ہے، جب افغانستان کے تمام عناصر اور خصوصیت سے پشتون، ہزارہ اور تاجک مل کر اپنے معاملات کو سنبھالیں۔ طالبان سے مذاکرات اور مفاہمت کی ضرورت خود امریکا محسوس کر رہا ہے اور پاکستان کا بہترین مفاد بھی اُس افغان یک جہتی کے حصول میں ہے جس میںسب افغان شریک ہوں۔ وزیرستان میں آپریشن اس کا ذریعہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس مقصد سے دُور کرنے کا باعث ہوگا۔ ہماری قومی سلامتی کی پالیسی میں اس پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

بھارت سے دوستی اور حقائق سے چشم پوشی:

پاکستان بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایوں سے دوستی چاہتا ہے لیکن بھارت سے جو خطرات ہماری قومی سلامتی کو درپیش ہیں، ان سے صرفِ نظر کرنا بدترین تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ افغانستان میں نئے صدارتی انتخاب کے نتیجے میں جو بھی تبدیلی آئے گی اور جو بھی نئی قیادت برسرِاقتدار آتی ہے، پاکستان کو اس سے یک جان و دو قالب کے رشتے کو استوار کرنے کو اوّلیت دینی چاہیے۔ اس کے ساتھ بھارت میں جس نئی قیادت نے زمامِ کار سنبھالی ہے اس کے عزائم، تاریخ اور ترجیحات کا بھی گہری نظر سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور بھارت میں دوستانہ تعلقات دونوں ممالک کی ضرورت ہے، لیکن یہ مقصد یک طرفہ طور پر حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جو بنیادی تنازعات موجود ہیں، ان کو حق وانصاف کے مطابق طے کیا جائے اور محض طاقت اور معیشت کے حجم کی بنیاد پر یاجزوی اور شخصی مفادات کو اولیت دے کر لیپاپوتی کے ذریعے حالات کو نارمل بنانے یا سمجھنے کی حماقت نہ کی جائے۔ جناب نواز شریف کا ذہن اس سلسلے میں بڑا پراگندا ہے۔ وہ بھارت کی تاریخ ، اس کے سیاسی اور معاشی عزائم اور اس کی سیاست کے پیچ و خم سے واقف نہیں اور اس غلط فہمی اور خوش خیالی میں مبتلا ہیں کہ تجارت اور معاشی لین دین سے تعلقات کو نئی جہت دے سکتے ہیں۔

ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ بھارت کی طرف سے خطرات کا ان کو صحیح اِدراک نہیں اور جناب نریندرمودی، بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکومت کے بارے میں وہ شدید غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اس سلسلے میں وزارتِ خارجہ اور ہماری عسکری قیادت کو حالات کا بہتر اِدراک ہے۔ بھارت سے مستقبل کے تعلقات کے مسئلے کو شخصی پسنداور ترجیحات کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا۔ اس سلسلے میں پوری سوچ بچار اور تمام پہلوئوں پر گہرے غوروفکر کے ساتھ کسی تاخیر کے بغیر ایک دیرپا پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف صاحب نے جس طرح نریندرمودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے موقعے پر معاملات انجام دیے ہیں، وہ بہت محل نظر ہیں۔ وہ اپنے کاروباری صاحب زادے حسن نواز کو اس دورے میں ساتھ لے کر گئے، چنانچہ بھارت میں لوہے کی صنعت کے کرتادھرتا سے ان کی ملاقاتوں کے بارے میں بجاطور پر سوالیہ نشان اُٹھائے گئے ہیں، جو سنجیدہ غوروفکر کا تقاضا کرتے ہیں۔ پھر کشمیر کے مسئلے پر جس طرح اس دورے میں خاموشی کا روزہ رکھ لیا گیا اور حسب سابق کشمیری قیادت سے ملاقات تک کی زحمت نہیں کی گئی وہ بہت تشویش ناک ہے۔ آزاد خارجہ پالیسی کے باب میں بھارت کے بارے میں پالیسی اور جنوب سے اُبھرتے ہوئے خطرات کی روشنی میں عسکری اور سفارت کاری کے میدانوں میں صحیح حکمت عملی کی صورت گری ازبس ضروری ہے۔

پاک امریکا تعلقات اور قومی و ملّی مفادات کی نفی:

آزاد خارجہ پالیسی کے سلسلے میں سب سے اہم مسئلہ امریکا سے تعلقات کی تنظیم نو ہے جو خواہشات کی بنیاد پر نہیں،اصل زمینی حقائق اور پاکستان کے مفادات کی بنیاد پر مرتب ہونی چاہیے۔ نیز مشرق وسطیٰ خصوصیت سے شام، عراق، لیبیا، مصر اور ایران کے سلسلے میں امریکا کی جو پالیسی ہے، اسے بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔ حالیہ افغان جنگ میں امریکا نے جو کچھ کھو دیا ہے اور جو کچھ پایا ہے، اس پر امریکا کے علمی، سفارتی، صحافی اور سیاسی حلقوں میں بحث ہورہی ہے اور اس بحث کے دُور رس نتائج مرتب ہونے کی توقع ہے۔ امریکا کی خارجہ پالیسی میں اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کو جو حیثیت حاصل ہے وہ بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح امریکا اور بھارت کے تعلقات نے جو رُخ گذشتہ ۱۰سال میں اختیار کیا ہے، اس کا پاکستان اور اس کی خارجہ اور داخلی پالیسیوں سے گہرا تعلق ہے۔ امریکا میں راے عامہ اور سیاسی اور سفارتی حلقوں میں پاکستان کا جو تصور ہے، اس سے صرفِ نظر کرکے خیالی پالیسیاں بنانا بڑا خسارے کا سودا ہوسکتا ہے۔ اس لیے پوری عرق ریزی کے ساتھ اور حقیقت پسندی کا دامن تھامتے ہوئے تعلقات کا ایک نیا دروبست بنانے کی ضرورت ہے۔

یہ بات بھی سامنے رہے کہ پاکستانی عوام کی نگاہ میں امریکا سب سے زیادہ ناقابلِ اعتماد ملک ہے اور امریکی راے عامہ کی نگاہ میں پاکستان کی یہی تصویر ہے۔ دونوں ممالک میں باہمی اعتماد کا شدید فقدان ہے اور تعلقات کو نئی جہت دینے کا کام ان زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے انجام دینا بڑی حماقت ہوگی۔ ہیلری کلنٹن نے اپنی یادداشتیں مرتب کی ہیں، اس میں اس نے اعتماد کے فقدان کا کھل کر اعتراف کرتے ہوئے صاف لکھا ہے کہ اسی وجہ سے ایبٹ آباد کے امریکی آپریشن کا اہتمام پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر کیا گیا۔ یہ صرف ہیلری کلنٹن کے خیالات نہیں پوری امریکی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی اور ذہنی قیادت کی سوچ کا آئینہ ہے۔ امریکا اس وقت مشرق وسطیٰ کے سیاسی نقشے کی تشکیل نو میں جو کردار ادا کر رہا ہے اور افغانستان اور عراق میں امریکی مداخلت کا جس سے گہرا تعلق ہے، اس کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ امریکی دانش ور اور عسکری تجزیہ نگار پاکستان اور عرب دنیا کے نقشوں کی ٹوٹ پھوٹ کی جو تصویریں بنا رہے ہیں، وہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔

نائن الیون کے بعد سے اسلام اور مسلم دنیا کو جس طرح ہوّا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، وہ محض شاعرانہ خوش خیالی نہیں، سیاسی عزائم اور ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔ دوستی اور تعاون کے رشتوں کو قائم رکھنے کے تمام دعوئوں کے ساتھ جو ذہن بنایا جا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ امریکا کے لیے اصل خطرہ پاکستان ہے۔ اس کا بڑا ہی کھل کر اظہار اسی مہینے شائع ہونے والی کتاب The Wrong Enemy میں کیا گیا ہے جس کی مصنفہ ایک مشہور صحافی کارلوٹا گال ہے، جس نے گذشتہ ۱۲برس افغانستان اور پاکستان سے نیویارک ٹائمز کی نمایندے کی حیثیت سے کام کیا ہے اور جسے امریکا میں دونوں ممالک پر ایک مستند حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ موصوفہ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ افغانستان پر فوج کشی کرکے ہم نے ناحق اپنے فوجیوں کی جانیں اور اپنے ٹیکس دینے والوں کی دولت کو ضائع کیا۔ ہمارا اصل دشمن تو پاکستان ہے اور جب تک اسے ٹھکانے نہیں لگایا جاتا، امریکا کے مفادات معرضِ خطر میں رہیں گے۔ ملاحظہ ہو ، کیا ارشاد ہے:

جنگ ایک المیہ رہی ہے جس کی قیمت اَن گنت زندگیوں نے چکائی ہے۔ یہ بہت طویل عرصے سے جاری ہے۔افغانی کبھی بھی دہشت گردی کے وکیل نہیں رہے، لیکن    نائن الیون کے بعدسزا کا اصل دبائو انھوں نے ہی برداشت کیا۔پاکستان جو اتحادی فرض کیا جاتا ہے دھو کے باز ثابت ہوا۔ اس نے افغانستان میں تشدد کو اپنی بالادستی جیسے مقاصد کے لیے آگے بڑھایا ہے۔ پاکستان کے جرنیلوں اور ملائوں نے اپنے آپ کو، اپنے افغان پڑوسیوں کو اور ناٹو کے حلیفوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ افغانستان نہیں، پاکستان حقیقی دشمن رہا ہے ۔ (The Wrong Enemy: America in Afghanistan (2001-2014) by Carlotta Gall, Houghton Mifflin Harcourt, Boston- New York-2014)

ہم ایک بار پھر واضح کرناچاہتے ہیں کہ پاکستان کو دنیا کے تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے چاہییں۔ ہم دوست بنانا چاہتے ہیں، دشمن نہیں۔ لیکن یہ تعلقات حقائق پر مبنی ہونے چاہییں، اور پاکستان کے حقیقی مفادات کے حصول کو اولیت حاصل ہونی چاہیے۔ حقائق کو نظرانداز کرکے جو اڑان بھی کی جائے گی، وہ مفید نہیں ہوسکتی  ع

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

نواز حکومت نے اس ایک سال میں خارجہ پالیسی، قومی سلامتی اور دہشت گردی کے باب میں جو بھی پالیسیاں بنائی ہیں اور اقدامات کیے ہیں، ہم بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ بڑی حد تک سابقہ اَدوار کے تسلسل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات اور عوام کے جذبات جن تبدیلیوں کا تقاضا کر رہے تھے، ان کی کوئی جھلک ان میں دُور دُور نظر نہیں آتی۔ جو بات خارجہ پالیسی، قومی سلامتی کی پالیسی اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی حکمت عملی کے سلسلے میں درست ہے، کم و بیش وہی ملک و قوم کو درپیش دوسرے چیلنجوں اور مسائل پر بھی صادق آتی ہے جن پر حسب توفیق ہم آیندہ گفتگو کی کوشش کریں گے۔ البتہ اس پہلے سال کے جائزے کا یہ پیغام واضح ہے کہ ملک و قوم کو جس تبدیلی کی ضرورت تھی، اس کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ ابھی وقت ہے اورحکومت اگر چاہتی ہے کہ پاکستان اس دلدل سے نکلے اور جمہوریت کی گاڑی آگے چل سکے، تو اسے اپنی روش میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔

اسلامی زندگی کی عمارت کو قائم ہونے اور قائم رہنے کے لیے جن سہاروں کی ضرورت ہے، ان میں سب سے مقدم سہارا یہ ہے کہ مسلمانوں کے افراد میں فرداً فرداً اور ان کی جماعت میں بحیثیت مجموعی وہ اوصاف پیدا ہوں جو خدا کی بندگی کا حق ادا کرنے اور دنیا میں خلافت ِ الٰہی کا بار سنبھالنے کے لیے ضروری ہیں۔

وہ غیب پر سچا اور زندہ ایمان رکھنے والے ہوں۔ وہ اللہ کو اپنا واحد فرماں روا تسلیم کریں اور اس کے فرض شناس اور اطاعت کیش بندے ہوں۔ اسلام کا نظامِ فکرونظریۂ حیات ان کی رَگ رَگ میں ایسا پیوستہ ہوجائے کہ اسی کی بنیاد پر اُن میں ایک پختہ سیرت پیدا ہو، اور ان کا عملی کردار اسی کے مطابق ڈھل جائے۔ اپنی جسمانی اور نفسانی قوتوں پر وہ اتنے قابو یافتہ ہوں کہ اپنے ایمان واعتقاد کے مطابق ان سے کام لے سکیں۔ ان کے اندر منافقین کی جماعت اگر پیدا ہوگئی ہو یا باہر سے گھس آئی ہو تو وہ اہلِ ایمان سے الگ ہوجائے۔ ان کی جماعت کا نظام اسلام کے اجتماعی اصولوں پر قائم ہو، اور ایک مشین کی طرح پیہم متحرک رہے۔ ان میں اجتماعی ذہنیت کارفرما ہو۔ ان کے درمیان محبت ہو، ہمدردی ہو، تعاون ہو، مساوات ہو، وحدتِ روح اور وحدتِ عمل ہو۔ وہ قیادت اور اقتدار کے حدود کو جانتے اور سمجھتے ہوں اور پورے نظم و ضبط کے ساتھ کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ یہ تمام مقاصد چونکہ نماز کی اقامت سے حاصل ہوتے ہیں، لہٰذا اس کو دین اسلام کا ستون قرار دیا گیا۔ یہ ستون اگر منہدم ہوجائے تو مسلمانوں کی انفرادی سیرت اور اجتماعی ہیئت دونوں مسخ ہوکر رہ جائیں اور وہ اس مقصد ِعظیم کے لیے کام کرنے کے اہل ہی نہ رہیں جس کی خاطر جماعت وجود میں آئی ہے۔ اسی بنا پر فرمایا گیا کہ نماز عماد الدین ہے، یعنی دین کا سہارا ہے جس نے اس کو گرایا اس نے دین کو گرا دیا۔

ان مقاصد کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ ان کو حاصل کرنے کے لیے صرف نماز کو کافی نہ سمجھا گیا بلکہ اس رکن کو مزید تقویت پہنچانے کے لیے ایک دوسرے رکن روزے کا بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ نماز کی طرح یہ روزہ بھی قدیم ترین زمانے سے اسلام کا رُکن رہا ہے۔ اگرچہ تفصیلی احکام کے لحاظ سے اس کی شکلیں مختلف رہی ہیں مگر جہان تک نفسِ روزے کا تعلق ہے وہ ہمیشہ الٰہی شریعتوں کا جزولاینفک ہی رہا۔ تمام انبیا علیہم السلام کے مذہب میں یہ فرض کی حیثیت سے شامل تھا۔ جیساکہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:

کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ (البقرہ ۲:۱۸۳) تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔

اس سے یہ بات خودبخود مترشح ہوتی ہے کہ اسلام کی فطرت کے ساتھ اس طریقِ تربیت کو ضرور کوئی مناسبت ہے۔

زکوٰۃ اور حج کی طرح روزہ ایک مستقل جداگانہ نوعیت رکھنے والا رُکن نہیں ہے بلکہ دراصل اس کا مزاج قریب قریب وہی ہے جو رکنِ صلوٰۃ کا ہے اور اسے رکنِ صلوٰۃ کے مددگار اور معاون ہی کی حیثیت سے لگایا گیا ہے۔ اس کا کام انھی اثرات کو زیادہ تیز اور زیادہ مستحکم کرنا ہے جو نماز سے انسانی زندگی پر مترتب ہوتے ہیں۔ نماز روزمرہ کا معمولی نظامِ تربیت ہے جو روز پانچ وقت تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے آدمی کو اپنے اثر میں لیتا ہے اور تعلیم و تربیت کی ہلکی ہلکی خوراکیں دے کر چھوڑ دیتا ہے، اور روزہ سال بھر میں ایک مہینے کا غیرمعمولی نظامِ تربیت (special training course) ہے جو آدمی کو تقریباً ۷۲۰ گھنٹے تک مسلسل اپنے مضبوط ڈسپلن کے شکنجے میں کَسے رکھتا ہے تاکہ روزانہ کی معمولی تربیت میں جو اثرات خفیف تھے وہ شدید ہوجائیں۔ یہ غیرمعمولی نظامِ تربیت کس طرح اپنا کام کرتا ہے، اور کس کس ڈھنگ سے نفسِ انسانی پر مطلوب اثر ڈالتا ہے ، اس کا تفصیلی جائزہ ہم ان صفحات میں لینا چاہتے ہیں۔

روزے کے اثرات

روزے کا قانون یہ ہے کہ آخر شب طلوعِ سحر کی پہلی علامات ظاہر ہوتے ہی آدمی پر یکایک کھانا پینا اور مباشرت کرنا حرام ہوجاتا ہے اور غروبِ آفتاب تک پورے دن حرام رہتا ہے۔ اس دوران میں پانی کا ایک قطرہ اور خوراک کا ایک ریزہ تک قصداً حلق سے اُتارنے کی اجازت نہیں ہوتی اور زوجین کے لیے ایک دوسرے سے قضاے شہوت کرنا بھی حرام ہوتا ہے۔ پھر شام کو ایک خاص وقت آتے ہی اچانک حُرمت کا بند ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ سب چیزیں جو ایک لمحے پہلے تک حرام تھیں یکایک حلال ہوجاتی ہیں اور رات بھر حلال رہتی ہیں، یہاں تک کہ دوسرے روز کی مقررہ ساعت آتے ہی پھر حُرمت کا قفل لگ جاتا ہے۔ ماہِ رمضان کی پہلی تاریخ سے یہ عمل شروع ہوتا ہے اور ایک مہینے تک مسلسل اس کی تکرار جاری رہتی ہے۔ گویا پورے ۳۰دن آدمی ایک شدید ڈسپلن کے ماتحت رکھا جاتا ہے۔ مقرر وقت تک سحری کرے، مقرر وقت پر افطار کرے، جب تک اجازت ہے، اپنی خواہشاتِ نفس پوری کرتا رہے اور جب اجازت سلب کرلی جائے تو ہر اس چیز سے رُک جائے جس سے منع کیا گیا ہے۔

احساسِ بندگی

اس نظامِ تربیت پر غور کرنے سے جو بات سب سے پہلے نظر میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام اس طریقے سے انسان کے شعور میں اللہ کی حاکمیت کے اقرار و اعتراف کو مستحکم کرنا چاہتا ہے، اور اس شعور کو اتنا طاقت ور بنادینا چاہتا ہے کہ انسان اپنی آزادی اور خودمختاری کو اللہ کے آگے بالفعل تسلیم (surrender) کردے۔ یہ اعتراف و تسلیم ہی اسلام کی جاں ہے، اور اسی پر آدمی کے مسلم ہونے یا نہ ہونے کا مدار ہے۔

دین اسلام کا مطالبہ انسان سے صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ بس وہ خداوندعالم کے وجود کو مان لے، یا محض ایک مابعد الطبیعی نظریے کی حیثیت سے اس بات کا اعتراف کرلے کہ اس کائنات کے نظام کو بنانے اور چلانے والا صرف اللہ واحد قہار ہے، بلکہ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی اس امرواقعی کو ماننے کے ساتھ ہی اس کے منطقی اور فطری نتیجے کو بھی قبول کرے۔ یعنی جب وہ یہ مانتا ہے کہ اس کا اور تمام دنیا کا خالق، پروردگار، قیام بخش اور مدبر امر صرف اللہ تعالیٰ ہے، اور جب وہ تسلیم کرتا ہے کہ نہ تخلیق میں کوئی اللہ کا شریک ہے، نہ پرورش میں، نہ قیامِ بخشی میں اور نہ تدبیر امر میں، تو اس تسلیم و اعتراف کے ساتھ ہی اسے اللہ کی حاکمیت و فرماں روائی کے آگے سپرڈال دینی چاہیے۔ اپنی آزادی و خودمختاری کے غلط اِدعا سے خیال اور عمل دونوں میں دست بردار ہوجانا چاہیے، اور اللہ کے مقابلے میں وہی رویّہ اختیار کرلینا چاہیے جو ایک بندے کا اپنے مالک کے مقابلے میں ہونا لازم ہے۔

یہی چیز دراصل کفر اور اسلام کے درمیان فارق ہے۔ کفر کی حالت اس کے سوا کچھ نہیں کہ آدمی اپنے آپ کو اللہ کے مقابلے میں خودمختار اور غیرجواب دہ سمجھے اور یہی سمجھ کر اپنے لیے زندگی کا راستہ اختیار کرے، اور اسلام کی حالت اس کے سوا کسی اور چیز کا نام نہیں کہ انسان اپنے آپ کو  اللہ کا بندہ اور اس کے سامنے جواب دہ سمجھے اور اسی احساسِ بندگی و ذمہ داری کے ساتھ دُنیا میں زندگی بسر کرے۔ پس حالت ِ کفر سے نکل کر حالت ِ اسلام میں آنے کے لیے جس طرح اللہ کی حاکمیت کا سچا اور قلبی اقرار ضروری ہے، اسی طرح اسلام میں رہنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی کے دل میں بندگی کا احساس و شعور ہردم تازہ، ہروقت زندہ اور ہر آن کارفرما رہے ۔ کیونکہ اس احساسِ شعور کے دل سے دُور ہوتے ہی خود مختاری و غیرذمہ داری کا رویّہ عود کرآتا ہے، اور  کفر کی وہ حالت پیدا ہوجاتی ہے جس میں آدمی یہ سمجھتے ہوئے کام کرتا ہے کہ نہ اللہ اس کا حاکم ہے اور نہ اسے اللہ کو اپنے عمل کا حساب دینا ہے۔

جیساکہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے، نماز کا اوّلیں مقصد انسان کے اندر ’اسلام‘ کی اسی حالت کو پے درپے تازہ کرتے رہنا ہے ، اور یہی روزے کا مقصد بھی ہے، مگر فرق یہ ہے کہ نماز روزانہ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے اس کو تازہ کرتی ہے، اور رمضان کے روزے سال بھر میں ایک مرتبہ پورے ۷۲۰گھنٹوں تک پیہم اس حالت کو آدمی پر طاری رکھتے ہیں، تاکہ وہ پوری قوت کے ساتھ دل و دماغ میں بیٹھ جائے اور سال کے باقی ۱۱مہینوں تک اس کے اثرات قائم رہیں۔ اول تو روزے کے سخت ضابطے کو اپنے اُوپر نافذ کرنے کے لیے کوئی شخص اس وقت تک آمادہ ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اللہ کو اپنا حاکم اعلیٰ نہ سمجھتا ہو اور اس کے مقابلے میں اپنی آزادی و خودمختاری سے دست بردار نہ ہوچکا ہو۔ پھر جب وہ دن کے وقت مسلسل ۱۲،۱۲؍۱۳،۱۳گھنٹے کھانے پینے اور مباشرت کرنے سے رُکا رہتا ہے، اور جب سحری کا وقت ختم ہوتے ہی نفس کے مطالبات سے یکایک ہاتھ کھینچ لیتا ہے، اور جب افطار کا وقت آتے ہی نفس کے مطلوبات کی طرف اس طرح لپکتا ہے کہ گویا فی الواقع اس کے ہاتھوں اور اس کے منہ اور حلق پر کسی اور کی حکومت ہے، جس کے بند کرنے سے وہ بند ہوتے اور جس کے کھولنے سے وہ کھلتے ہیں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس دوران میں اللہ کی حاکمیت اور اپنی بندگی کا احساس اس پر ہروقت طاری ہے۔ اس پورے ایک مہینے کی طویل مدت میں یہ احساس اس شعور یا تحت الشعور سے ایک لمحے کے لیے بھی غائب نہیں ہوا۔ کیونکہ اگر غائب ہوجاتا تو ممکن ہی نہ تھا کہ وہ ضابطے کو توڑنے سے باز رہ جاتا۔

اطاعتِ امر

احساسِ بندگی کے ساتھ خود بخود جو چیز لازمی نتیجے کے طور پر پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو جس کا بندہ سمجھ رہا ہے اس کے حکم کی اطاعت کرے۔

ان دونوں چیزوں میں ایسا فطری اور منطقی تعلق ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو ہی نہیں سکتے، نہ ان کے درمیان کبھی تناقض (inconsistency) کے لیے گنجایش نکل سکتی ہے۔ اس لیے کہ اطاعت دراصل نتیجہ ہی اعترافِ خداوندی کا ہے۔ آپ کسی کی اطاعت کر ہی نہیں سکتے جب تک کہ اس کی خداوندی نہ مان لیں، اور جب حقیقت میں کسی کی خداوندی آپ مان چکے ہیں، تو اس کی بندگی و اطاعت سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتے۔ انسان نہ اتنا احمق ہے کہ خواہ مخواہ کسی کا حکم مانتا چلا جائے درآں حالے کہ اس کے حقِ حکمرانی کو تسلیم نہ کرتا ہو۔ اور نہ انسان میں اتنی جرأت موجود ہے کہ وہ فی الواقع اپنے قلب و روح میں جسے حاکمِ ذی اقتدار سمجھتا ہو، اور جسے نافع و ضار اور پروردگار مانتا ہو، اس کی اطاعت سے منہ موڑ جائے۔ بس درحقیقت خداوندی کے اعتراف اور بندگی و طاعت کے عمل میں لازم و ملزوم کا تعلق ہے، اور یہ عین عقل و منطق کا تقاضا ہے کہ ان دونوں کے درمیان ہر پہلو سے کامل توافق ہو۔

آقائی و خداوندی میں توحید لامحالہ بندگی و طاعت میں توحید پر منتج ہوگی، اور آقائی و خداوندی میں شرک کا نتیجہ لازماً بندگی و اطاعت میں شرک ہوگا۔ آپ ایک کو خدا سمجھیں گے تو ایک ہی کی بندگی بھی کریں گے۔ دس کی خداوندی تسلیم کریں گے تو بندگی و طاعت کا رُخ بھی ان دسوں کی طرح پھرے گا۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ آپ خداوندی دس کی تسلیم کر رہے ہوں اور اطاعت ایک کی کریں۔

ذاتِ خداوندی کا تعین لامحالہ سمت ِ بندگی کے تعین پر منتج ہوگا۔ آپ جس کی خداوندی کا اعتراف کریں گے لازماً اطاعت بھی اسی کی کریں گے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ خداوند ایک کومانیں اور اطاعت دوسرے کی کریں۔ تعارض کا امکان زبانی اعتراف اور واقعی بندگی میں تو ضرور ممکن ہے، مگر قلب و روح کے حقیقی احساس و شعور اور جوارح کے عمل میں ہرگز ممکن نہیں۔ کوئی عقل اس چیز کا تصور نہیں کرسکتی کہ آپ فی الحقیقت اپنے آپ کو جس کا بندہ سمجھ رہے ہیں اس کے بجاے آپ کی بندگی کا رُخ کسی ایسی ہستی کی طرف پھر سکتا ہے جس کا بندہ آپ فی الحقیقت اپنے آپ کو نہ سمجھتے ہوں۔ بخلاف اس کے عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ جس طرف بھی آپ کی بندگی کا رُخ پھر رہا ہے اُسی کی خداوندی کا نقش دراصل آپ کے ذہن پر مرتسم ہے، خواہ زبان سے آپ اس کے سوا کسی اورکی خداوندی کا اظہار کررہے ہوں۔

خداوندی کے اعتراف اور بندگی کے احساس میں کمی بیشی لازماً اطاعت ِامر کی کمی بیشی پر منتج ہوگی۔ کسی کے خدا ہونے اور اپنے بندہ ہونے کا احساس آپ کے دل میں جتنا زیادہ شدید ہوگا اسی قدر زیادہ شدت کے ساتھ آپ اس کی اطاعت کریں گے، اور اس احساس میں جتنی کمزوری ہوگی اتنی اطاعت میں کمی واقع ہوجائے گی، حتیٰ کہ اگر یہ احساس بالکل نہ ہو تو اطاعت بھی بالکل نہ ہوگی۔

ان مقدمات کو ذہن نشین کرنے کے بعد یہ بات بالکل صاف، واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کا مدّعا اللہ کی خداوندی کا اقرار کرانے اور اس کے سوا ہر ایک کی خداوندی کا انکار کرا دینے سے اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی بندگی و اطاعت نہ کرے۔ جب وہ اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ [آگاہ رہو اللہ ہی کے لیے ہے اطاعت ِ خالص۔الزمر۳۹:۳] کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اطاعت خالصاً و مخلصاً صرف اللہ کے لیے ہے، کسی دوسری مستقل بالذات اطاعت کی آمیزش کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔ جب وہ کہتا ہے کہ:

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (البینہ۹۸:۵) اور نہیں حکم دیے گئے سواے اس کے کہ اللہ کی بندگی کریں خالص کرتے ہوئے اس کے لیے دین۔

تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صرف اللہ ہی کی بندگی کرنے پر انسان مامور ہے اور اس کی بندگی کرنے کی شرط یہ ہے کہ انسان اس کی اطاعت کے ساتھ کسی دوسرے کی اطاعت مخلوط نہ کرے۔ جب وہ کہتا ہے کہ:

قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (الانفال ۸:۳۹) لڑتے رہو اُن سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے۔

تو اس کا صاف اور صریح مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلمان کی اطاعت پوری کی پوری اللہ ہی کے لیے وقف ہے اور ہر اس طاقت سے مسلمان کی جنگ ہے جو اس اطاعت میں حصہ بٹانا چاہتی ہو۔ جس کا مطالبہ یہ ہو کہ مسلمان خداوندعالم کے ساتھ اس کی اطاعت بھی کرے، یا خداوندعالم کے بجاے صرف اسی کی اطاعت کرے۔ پھر جب وہ کہتا ہے کہ:

ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَـہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ط (الفتح۴۸: ۲۸) وہی ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ وہ غالب کردے اسے سارے دین پر۔

تو اس کا صاف اور صریح مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی اطاعت تمام اطاعتوں پر غالب ہو، اطاعت اور بندگی کا پورا نظام اپنے تمام شعبوں اور سارے پہلوئوں کے ساتھ اطاعت ِ الٰہی کے نیچے آجائے، جس کی فرماں برداری بھی ہو، خداوندعالم کی اجازت کے تحت ہو، اور جس فرماں برداری کے لیے وہاں سے حکم یا سند ِ جواز نہ ملے اس کا بند کاٹ ڈالا جائے، یہ اس دین حق اور اس ہدایت کا تقاضا ہے جو اللہ اپنے رسولؐ کے ذریعے سے بھیجتا ہے۔

اس تقاضے کے مطابق خواہ انسان کے ماں باپ ہوں، خواہ خاندان اور سوسائٹی ہو، خواہ قوم اور حکومت ہو، خواہ امیر یا لیڈر ہو، خواہ علما اور مشائخ ہوں، خواہ وہ شخص یا ادارہ ہو جس کی انسان ملازمت کرکے پیٹ پالتا ہے، اور خواہ انسان کا اپنا نفس اور اس کی خواہشات ہوں، کسی کی اطاعت بھی خداوندعالم کی اصلی اور بنیای اطاعت کی قید سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتی۔ اصل مطاع اللہ تعالیٰ ہے۔ جو اس کی خداوندی کا اقرار کرچکا اور جس نے اس کے لیے اپنی زندگی کو خالص کرلیا، وہ جس کی اطاعت بھی کرے گا، اللہ ہی کی اطاعت کے تحت رہ کر کرے گا۔ جس حد تک جس کی بات ماننے کی وہاں سے اجازت ہوگی اسی حد تک مانے گا، اور جہاں اجازت کی حد ختم ہوجائے گی وہاں وہ ہرایک کا باغی اور صرف اللہ کا فرماں بردار نکلے گا۔

روزے کا مقصد آدمی کو اسی اطاعت کی تربیت دینا ہے۔ وہ مہینے بھر تک روزانہ کئی کئی گھنٹے آدمی کو اس حالت میں رکھتا ہے کہ اپنی بالکل ابتدائی (elementary) ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی اس کو خداوندعالم کے اذن و اجازت کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ غذا کا ایک لقمہ اور پانی کا ایک قطرہ تک وہ حلق سے گزار نہیں سکتا جب تک کہ وہاں سے اجازت نہ ملے۔ ایک ایک چیز کے استعمال کے لیے وہ شریعت ِ خداوندی کی طرف دیکھتا ہے۔ جو کچھ وہاں حلال ہے وہ اس کے لیے حلال ہے، خواہ تمام دنیا اُسے حرام کرنے پر متفق ہوجائے ، اور جو کچھ وہاں حرام ہے وہ اس کے لیے حرام ہے، خواہ ساری دنیا مل کر اُسے حلال کردے۔ اس حالت میں خداے واحد کے سوا کسی کا اذن اس کے لیے اذن نہیں، کسی کا حکم اس کے لیے حکم نہیں، اور کسی کی نہی اس کے لیے نہی نہیں۔ خود اپنے نفس کی خواہش سے لے کر دنیا کے ہرانسان اور ہر ادارے تک کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جس کے حکم سے مسلمان رمضان میں روزہ چھوڑ سکتا ہو یا توڑسکتا ہو۔ اس معاملے میں نہ بیٹے پر باپ کی اطاعت ہے، نہ بیوی پر شوہر کی، نہ ملازم پر آقا کی، نہ رعیّت پر حکومت کی، نہ پیرو پر لیڈر یا امام کی۔ بالفاظِ دیگر اللہ کی بڑی اور اصلی اطاعت تمام اطاعتوں کو کھاجاتی ہے اور ۷۲۰گھنٹے کی طویل مشق و تمرین سے روزے دار کے دل پر کالنقش فی الحجر یہ سکّہ بیٹھ جاتا ہے کہ ایک ہی مالک کا وہ بندہ ہے ، ایک ہی قانون کا وہ پیرو ہے، اور ایک ہی اطاعت کا حلقہ اس کی گردن میں پڑا ہے۔

اس طرح یہ روزہ انسان کی فرماں برداریوں اور اطاعتوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر ایک مرکزی اقتدار کی جانب پھیر دیتا ہے اور ۳۰ دن تک روزانہ ۱۲،۱۲؍ ۱۴،۱۴ گھنٹے تک اسی سمت میں جمائے رکھتا ہے، تاکہ اپنی بندگی کے مرجع اور اپنی اطاعت کے مرکز کو وہ اچھی طرح متحقق کرے اور رمضان کے بعد جب اس ڈسپلن کے بند کھول دیے جائیں تو اس کی اطاعتیں اور فرماں برداریاں بکھر کر مختلف مرجعوں کی طرف بھٹک نہ جائیں۔

اطاعت ِ امر کی اس تربیت کے لیے بظاہر انسان کی صرف دو خواہشوں (یعنی غذا لینے کی خواہش اور صنفی خواہش) کو چھانٹ لیا گیا ہے اور ڈسپلن کی ساری پابندیاں صرف انھی دو پر لگائی گئی ہیں۔ لیکن روزے کی اصل روح یہ ہے کہ آدمی پر اس حالت میں خدا کی خداوندی اور بندگی و غلامی کا احساس پوری طرح طاری ہوجائے اور وہ ایسا مطیع امر ہوکر یہ ساعتیں گزارے کہ ہراُس چیز سے رُکے جس سے خدا نے روکا ہے، اور ہراُس کام کی طرف دوڑے جس کا حکم خدا نے دیا ہے۔ روزے کی فرضیت کا اصل مقصد اسی کیفیت کو پیدا کرنا اور نشوونما دینا ہے نہ کہ محض کھانے پینے اور مباشرت سے روکنا۔ یہ کیفیت جتنی زیادہ ہو، روزہ اتنا ہی مکمل ہے، اور جتنی اس میں کمی ہو اتنا ہی وہ ناقص ہے۔ اگر کسی آدمی نے اس احمقانہ طریقے سے روزہ رکھا کہ جن جن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے ، ان سے تو پرہیز کرتا رہا اور باقی تمام ان افعال کا ارتکاب کیے چلاگیا جنھیں خدا نے حرام کیا ہے، تو اس کے روزے کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک مُردہ لاش کہ اس میں اعضا تو سب کے سب موجود ہیں، جن سے صورتِ انسانی بنتی ہے مگر جان نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان انسان ہے۔ جس طرح اس بے جان لاش کو کوئی شخص انسان نہیں کہہ سکتا اسی طرح اس بے روح روزے کو بھی کوئی روزہ نہیں کہہ سکتا۔ یہی بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی کہ:

من لم یدع قول الزور والعمل بہٖ فلیس للّٰہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ (بخاری، کتاب الصوم) جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑ دے۔

جھوٹ بولنے کے ساتھ ’جھوٹ پر عمل کرنے‘کا جو ارشاد فرمایا گیا ہے یہ بڑا ہی معنی خیز ہے۔ دراصل یہ لفظ تمام نافرمانیوں کا جامع ہے۔ جو شخص خدا کو خدا کہتا ہے اورپھر اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ حقیقت میں خود اپنے اقرار کی تکذیب کرتا ہے۔ روزے کا اصل مقصد تو عمل سے اقرار کی تصدیق ہی کرنا تھا، مگر جب وہ روزے کے دوران میں اس کی تکذیب کرتا رہا تو پھر روزے میں بھوک پیاس کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ حالانکہ خدا کو اس کے خلوئے معدہ کی کوئی حاجت نہ تھی۔ اسی بات کو دوسرے انداز میں حضوؐر نے اس طرح بیان فرمایا ہے:

کم من صائم لیس لہ من صیامہ الا الظماؤکم من قائم لیس لہ من قیامہ الاسھر(سنن الدارمی) کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا، اور کتنے ہی راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں جنھیں اس قیام سے رت جگے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

یہی بات ہے جس کو قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح تر الفاظ میں ظاہر فرما دیا کہ:

کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo (البقرہ۲:۱۸۳) تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔ توقع ہے کہ اس ذریعے سے تم تقویٰ کرنے لگو گے۔

یعنی روزے فرض کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔ تقویٰ کے اصل معنی حذر اور خوف کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں اس سے مراد خدا سے ڈرنا اور اس کی نافرمانی سے بچنا ہے۔ اس لفظ کی بہترین تفسیر جو میری نظر سے گزری ہے، وہ ہے جو حضرت ابی ابن کعبؓ نے بیان کی۔ حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا: تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ انھوں نے عرض کیا: امیرالمومنینؓ! آپؓ کو کبھی کسی ایسے رستے سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہوں اور راستہ تنگ ہو؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: بارہا۔ انھوں نے پوچھا: تو ایسے موقعے پر آپ کیا کرتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: میں دامن سمیٹ لیتا ہوں اور بچتا ہوا چلتا ہوں کہ دامن کانٹوں میں نہ اُلجھ جائے۔ حضرت ابی ؓ نے کہا: بس اسی کا نام تقویٰ ہے۔

زندگی کا یہ راستہ جس پر انسان سفر کر رہا ہے، دونوں طرف افراط و تفریط ، خواہشات اور میلاناتِ نفس، وساوس اور ترغیبات (temptations) ، گمراہیوں اور نافرمانیوں کی خاردار جھاڑیوں سے گھِرا ہوا ہے۔ اس راستے پر کانٹوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے چلنا اور اطاعت ِ حق کی راہ سے ہٹ کر بداندیشی و بدکرداری کی جھاڑیوں میں نہ اُلجھنا، یہی تقویٰ ہے، اور یہی تقویٰ  پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کیے ہیں۔ یہ ایک مقوّی دوا ہے جس کے اندر خداترسی و راست رَوی کو قوت بخشنے کی خاصیت ہے، مگر فی الواقع اس سے یہ قوت حاصل کرنا انسان کی اپنی استعداد پر موقوف ہے۔ اگر آدمی روزے کے مقصد کو سمجھے ، اور جو قوت روزہ دیتا ہے اس کو لینے کے لیے تیار ہو، اور روزے کی مدد سے اپنے اندر خوفِ خدا اور اطاعت ِ امر کی صفت کو نشوونما دینے کی کوشش کرے، تو یہ چیز اس میں اتنا تقویٰ پیدا کرسکتی ہے کہ صرف رمضان ہی میں نہیں بلکہ اس کے بعد بھی سال کے باقی ۱۱مہینوں میں وہ زندگی کی سیدھی شاہراہ پر دونوں طرف کی خاردار جھاڑیوں سے دامن بچائے ہوئے چل سکتا ہے۔ اس صورت میں اس کے لیے روزے کے نتائج، ثواب اور منافع (اجر) کی کوئی حد نہیں۔ لیکن اگر وہ اصل مقصد سے غافل ہوکر محض روزہ نہ توڑنے ہی کو روزہ رکھنا سمجھے اور تقویٰ کی صفت حاصل کرنے کی طرف توجہ ہی نہ کرے، تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے نامۂ اعمال میں بھوک پیاس اور رت جگے کے سوا اور کچھ نہیں پاسکتا۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

کل عمل ابن اٰدم یضاعف الحسنہ بعشر امثالھا الٰی سبع مائۃ ضعف قال اللّٰہ تعالٰی الا الصوم فانہ لی وانا اجزی بہ(متفق علیہ) آدمی کا ہر عمل خدا کے ہاں کچھ نہ کچھ بڑھتا ہے۔ ایک نیکی ۱۰ گنی سے ۷۰۰ گنی تک پھلتی پھولتی ہے۔ مگر اللہ فرماتا ہے کہ روزہ مستثنیٰ ہے، وہ میری مرضی پر موقوف ہے، جتنا چاہوں اس کا بدلہ دوں۔

یعنی روزے کے معاملے میں بالیدگی و افزونی کا امکان بے حد و حساب ہے۔ آدمی اُس سے تقویٰ حاصل کرنے کی جتنی کوشش کرے اتنا ہی وہ بڑھ سکتا ہے۔ صفر کے درجے سے لے کر اُوپر لاکھوں، کروڑوں، اربوں گنے تک وہ جاسکتا ہے بلکہ بلانہایت ترقی کرسکتا ہے۔ پس یہ معاملہ چونکہ آدمی کی اپنی استعداد اخذ وقبول پر منحصر ہے کہ روزے سے تقویٰ حاصل کرے یا نہ کرے، اور کرے تو کس حد تک کرے۔ اس وجہ سے آیت مذکورہ بالا میں یہ نہیں فرمایا کہ روزے رکھنے سے تم یقینا متقی ہوجائو گے، بلکہ لَعَلَّکُمْ ۱؎کا لفظ فرمایا جس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ توقع کی جاتی ہے، یا ممکن ہے کہ اس ذریعے سے تم تقویٰ کرنے لگو گے۔

تعمیرِسیرت

یہ تقویٰ ہی دراصل اسلامی سیرت کی جان ہے۔ جس نوعیت کا کیرکٹر اسلام ہرمسلمان فرد میں پیدا کرنا چاہتا ہے اس کا اسلامی تصور اس تقویٰ کے لفظ میں پوشیدہ ہے۔ افسوس ہے کہ آج کل اس لفظ کا مفہوم بہت محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک خاص طرز کی شکل و وضع بنالینا، چند مشہور و نمایاں گناہوں سے بچنا اور بعض ایسے مکروہات سے پرہیز کرنا جنھوں نے عوام کی نگاہ میں بہت اہمیت اختیار کرلی ہے، بس اسی کا نام تقویٰ ہے۔ حالانکہ دراصل یہ ایک نہایت وسیع اصطلاح ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ قرآنِ مجید انسانی طرزِخیال و طرزِعمل کو اصولی حیثیت سے دو بڑی قسموں پر تقسیم کرتا ہے:

ایک قسم وہ ہے جس میں انسان:

  1. دنیوی طاقتوں کے ماسوا کسی بالاتر اقتدار کو اپنے اُوپر نگران نہیں سمجھتا، اور یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے کہ اسے کسی فوق البشر حاکم کے سامنے جواب دہی نہیں کرنی ہے۔
  2. دنیوی زندگی ہی کو زندگی، دنیوی فائدے ہی کو فائدہ اور دنیوی نقصان ہی کو نقصان سمجھتا ہے اور اس بنا پر کسی طریقے کو اختیار کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ صرف دنیوی فائدے اور نقصان ہی کے لحاظ سے کرتا ہے۔
  3. مادی فائدوں کے مقابلے میں اخلاقی و روحانی فضائل کو بے وقعت سمجھتا ہے، اور مادی نقصانات کے مقابلے میں اخلاقی و روحانی نقصانات کو ہلکا خیال کرتا ہے۔
  4. کسی مستقل اخلاقی دستور کی پابندی نہیں کرتا، بلکہ موقع و محل کے لحاظ سے خود ہی اخلاقی اصول وضع کرتا ہے اور دوسرے موقعے پر خود ہی ان کو بدل دیتا ہے۔

دوسری قسم وہ ہے جس میں انسان:

  1. اپنے آپ کو ایک ایسے بالاتر حکمران کا تابع اور اس کے سامنے جواب دہ سمجھتا ہے جو   عالم الغیب والشہادت ہے، اور یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے کہ اسے ایک روز اپنی دنیوی زندگی کے پورے کارنامے کا حساب دینا ہوگا۔
  2. دُنیوی زندگی کو اصل حیاتِ انسانی کا صرف ایک ابتدائی مرحلہ سمجھتا ہے اور ان فوائد و نقصانات کو جو اس مرحلے میں ظاہر ہوتے ہیں عارضی اور دھوکا دینے والے نتائج خیال کرتا ہے، اور اپنے طرزِ عمل کا فیصلہ ان مستقل فائدوں اور نقصانات کی بنیاد پر کرتا ہے جو آخرت کی پایدار زندگی میں ظاہر ہوں گے۔
  3. مادی فائدوں کے مقابلے میں اخلاقی و روحانی فضائل کو زیادہ قیمتی سمجھتا ہے، اور مادی نقصانات کی بہ نسبت اخلاقی و روحانی نقصانات کو شدید تر خیال کرتا ہے۔
  4. ایک ایسے مستقل اخلاقی دستور کی پابندی کرتا ہے جس میں اپنی اغراض و مصالح کے لحاظ سے اس کو ترمیم و تنسیخ کرنے کی آزادی حاصل نہیں ہے۔

ان میں سے پہلی قسم کے طرزِخیال و طرزِعمل کا جامع نام قرآن نے فجور۱؎ رکھا ہے، اور دوسرے طرزِ خیال و عمل کو وہ تقویٰ ۲؎ کے نام سے یاد کرتا ہے۔ یہ دراصل زندگی کے دو مختلف راستے ہیں جو بالکل ایک دوسرے کی ضد واقع ہوئے ہیں اور اپنے نقطۂ آغاز سے لے کر نقطۂ انجام تک کہیں ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ فجور کے راستے کو اختیار کرکے آدمی کی پوری زندگی اپنے تمام اجزا اور تمام شعبوں کے ساتھ ایک خاص ڈھنگ پر لگ جاتی ہے جس میں تقویٰ کی ظاہری اشکال تو کہیں نظر آسکتی ہیں مگر تقویٰ کی اسپرٹ کا شائبہ تک نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ فجور کے تمام فکری اجزا ایک دوسرے کے ساتھ منطقی ربط رکھتے ہیں اور تقویٰ کے فکری اجزا میں سے کسی جُز کو بھی ان کے مربوط نظام میں راہ نہیں مل سکتی۔ برعکس اس کے تقویٰ کا راستہ اختیار کرکے انسان کی پوری زندگی کا ڈھنگ کچھ اور ہوتا ہے، وہ ایک دوسرے ہی طرز پر سوچتا ہے۔ دنیا کے ہرمعاملے اور ہرمسئلے کو ایک دوسری ہی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور ہرموقع و محل پر ایک دوسرا ہی طرز اختیار کرتا ہے۔

ان دونوں راستوں کا فرق صرف انفرادی زندگی ہی سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اجتماعی زندگی سے بھی اس کا اتنا ہی تعلق ہے۔ جو جماعت فاجر افراد پر مشتمل ہوگی یا جس میں فاجرین کی اکثریت ہوگی اور اہلِ فجور کے ہاتھ میں جس کی قیادت ہوگی، اس کا پورا تمدن فاجرانہ ہوگا۔ اس کی معاشرت میں، اس کے اخلاقیات میں، اس کے معاشیات میں، اس کے نظامِ تعلیم و تربیت میں، اس کی سیاست میں، اس کے بین الاقوامی رویے میں، غرض اس کی ہرچیز میں فجور کی روح کارفرما ہوگی۔ یہ بہت ممکن ہے کہ اس کے اکثر یا بعض افراد ذاتی خود غرضیوں اور منفعت پرستیوں سے بالاتر    نظر آئیں، مگر زیادہ سے زیادہ جس بلندی پر وہ چڑھ سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کو اس قوم کے مفاد میں گم کردیں۔ جس کی ترقی سے ان کی اپنی ترقی اور جس کے تنزل سے ان کا اپنا تنزل وابستہ ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخصی سیرت میں فجور کا رنگ کم بھی ہو تو اس سے کوئی فرق واقع نہ ہوگا۔ قومی رویہ بہرحال افادیت، ابن الوقتی، مصلحت پرستی اور مادہ پرستی ہی کے اصولوں پرچلے گا۔

اسی طرح تقویٰ بھی محض انفرادی چیز نہیں ہے۔ جب کوئی جماعت متقین پر مشتمل ہوتی ہے یا اس میں اہلِ تقویٰ کی کثرت ہوتی ہے، اور متقی ہی اس کے رہنما ہوتے ہیں، تو اس کے پورے اجتماعی رویے میں ہرحیثیت سے خدا ترسی کا رنگ ہوتا ہے۔ وہ وقتی اور ہنگامی مصلحتوں کے لحاظ سے اپنا طرزِعمل مقرر نہیں کرتی بلکہ ایک مستقل دستور کی پیروی کرتی ہے اور ایک اٹل نصب العین کے لیے اپنی تمام مساعی وقف کردیتی ہے، قطع نظر اس سے کہ دنیوی لحاظ سے قوم کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے یا کیا نقصان پہنچتا ہے۔ وہ مادی فائدوں کے پیچھے نہیں دوڑتی بلکہ پایدار اخلاقی و روحانی منافع کو اپنا مطمح نظر بناتی ہے۔ وہ مواقع کے لحاظ سے اصول توڑتی اور بناتی نہیں ہے بلکہ ہرحال میں اصولِ حق کا اتباع کرتی ہے۔ کیونکہ اسے اس کی پروا نہیں ہوتی کہ اس کی مدِّمقابل قوموں کی طاقت کم ہے یا زیادہ، بلکہ اُوپر جو خدا موجود ہے و ہ اس سے ڈرتی ہے اور اس کے سامنے کھڑے ہوکر جواب دہی کرنے کا جو وقت بہرحال آنا ہے اس کی فکر اسے کھائے جاتی ہے۔

اسلام کے نزدیک دنیا میں فساد کی جڑ اور انسانیت کی تباہی و بربادی کا اصلی سبب ’فجور‘ ہے۔ وہ اس فجور کے سانپ کو ہلاک کردینا چاہتا ہے یا کم سے کم اس کے زہریلے دانت توڑ دینا چاہتا ہے، تاکہ اگر یہ سانپ جیتا رہے تب بھی انسانیت کو ڈسنے کی طاقت اس میں باقی نہ رہے۔  اس کام کے لیے وہ نوعِ انسانی میں سے ان لوگوں کو چُن چُن کر نکالنا اور اپنی پارٹی میں بھرتی کرنا چاہتا ہے جو متقیانہ رجحانِ طبع رکھتے ہوں۔ فجور کی جانب ذہنی رجحان (Bent of Mind) رکھنے والے لوگ اس کے کسی کام کے نہیں، خواہ وہ اتفاق سے مسلمانوں کے گھر میں پیدا کیے گئے ہوں اور مسلم قوم کے درد میں کتنے ہی تڑپتے ہوں۔

اسے دراصل ضرورت ان لوگوںکی ہے جن میں خود اپنی ذمہ داری کا احساس ہو، جو آپ اپنا حساب لینے والے ہوں، جو خود اپنے دل کی نیتوں اور ارادوں پر نظر رکھیں، جن کو قانون کی پابندی کے لیے کسی خارجی دبائو کی حاجت نہ ہو بلکہ خود اُن کے اپنے باطن میں ایک محاسب اور آمر بیٹھا ہو جو انھیں اندر سے قانون کا پابند بناتا ہو اور ایسی قانون شکنی پر بھی ٹوکتا ہو جس کا علم کسی پولیس، کسی عدالت اور کسی راے عام کو نہیں ہوسکتا۔ وہ ایسے افراد چاہتا ہے جنھیں یقین ہو کہ ایک آنکھ ہرحال میںا نھیں دیکھ رہی ہے، جنھیں خوف ہو کہ ایک عدالت کے سامنے بہرحال انھیں جانا ہے، جو دنیوی منافع کے بندے، ہنگامی مصالح کے غلام اور شخصی یا قومی اغراض کے پرستار نہ ہوں۔ جن کی نظر آخرت کے اصلی و حقیقی نتائج پر جمی ہوئی ہو، جن کو دنیا کے بڑے سے بڑے فائدے کا لالچ یا سخت سے سخت نقصان کا خوف بھی خداوندعالم کے دیے ہوئے نصب العین اور اس کے بتائے ہوئے اصولِ اخلاق سے نہ ہٹا سکتا ہو، جن کی تمام سعی و کوشش صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو، جنھیں اس امر کا پختہ یقین ہو کہ پایانِ کار بندگیِ حق ہی کا نتیجہ بہتر اور بندگیِ باطل ہی کا انجام بُرا ہوگا، چاہے اس دنیا میں معاملہ برعکس ہو۔

پھر اس کو جن آدمیوں کی تلاش ہے وہ ایسے آدمی ہیں جن کے اندر اتنا صبر موجود ہو کہ ایک صحیح اور بلند نصب العین کے لیے برسوں بلکہ ساری عمر لگاتار سعیِ بے حاصل کرسکتے ہوں، جن میں اتنی ثابت قدمی ہو کہ غلط راستوں کی آسانیاں، فائدے اور لطف و لذت کوئی چیز بھی ان کو اپنی طرف نہ کھینچ سکتی ہو، جن میں اتنا تحمل ہو کہ حق کے راستے پر چلنے میں خواہ کس قدر ناکامیوں، مشکلات، خطرات، مصائب اور شدائد کا سامنا ہو، ان کا قدم نہ ڈگمگائے، جن میں اتنی یکسوئی ہو کہ ہرقسم کی عارضی اور ہنگامی مصلحتوں سے نگاہ پھیر کر اپنے نصب العین کی طرف بڑھے چلے جائیں، جن میں اتنا توکّل موجود ہو کہ حق پرستی و حق کوشی کے زیرطلب اور دُور رس نتائج کے لیے خداوندعالم پر بھروسا کرسکیں، خواہ دنیا کی زندگی میں اس کام کے نتائج سرے سے برآمد ہوتے نظر ہی نہ آئیں۔ ایسے ہی لوگوں کی سیرت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ، اور جو کام اسلام اپنی پارٹی سے لینا چاہتا ہے    اس کے لیے ایسے ہی قابلِ اعتماد کارکنوں کی ضرورت ہے۔

تقویٰ کی اس صفت کا ہیولیٰ (ابتدائی جوہر) جن لوگوں میں موجود ہو ان کے اندر اس صفت کو نشوونما دینے اور اسے مستحکم کرنے کے لیے روزے سے زیادہ طاقت ور اور کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ روزے کے ضابطے پر ایک نگاہ ڈالیے، آپ پر خود منکشف ہونے لگے گا کہ یہ چیز کس مکمل طریقے سے ان صفات کو بالیدگی اور پایداری بخشتی ہے۔ ایک شخص سے کہا جاتا ہے کہ روزہ خدا نے تم پر فرض کیا ہے۔ صبح سے شام تک کچھ نہ کھائوپیو۔ کوئی چیز حلق سے اُتارو گے تو تمھارا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ لوگوں کے سامنے کھانے پینے سے اگر تم نے پرہیز کیا اور درپردہ کھاتے پیتے رہے، تو خواہ لوگوں کے نزدیک تمھارا شمار روزہ داروں میں ہو، مگر خدا کے نزدیک نہ ہوگا۔ تمھارا روزہ صحیح اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ خدا کے لیے رکھو، ورنہ دوسری کسی غرض، مثلاً صحت کی درستی یا نیک نامی کے لیے رکھو گے تو خدا کی نگاہ میں اس کی کوئی قیمت نہیں۔ خدا کے لیے اپنا روزہ پورا کرو گے تو اس دنیا میں کوئی انعام نہ ملے گا اور توڑو گے یا نہ رکھو گے تو یہاں کوئی سزا نہ دی جائے گی۔ مرنے کے بعد جب خدا کے سامنے پیش ہو گے اسی وقت انعام بھی ملے گا اور اسی وقت سزا بھی دی جائے گی۔ یہ چند ہدایات دے کر آدمی کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کوئی سپاہی، کوئی ہرکارہ، کوئی سی آئی ڈی کا آدمی اس پر مقرر نہیں کیا جاتا کہ ہروقت اس کی نگرانی کرے۔ زیادہ سے زیادہ راے عام اپنے دبائو سے اس کو اس حد تک مجبور کرسکتی ہے کہ دوسروں کے سامنے کچھ نہ کھائے پیے، مگر چوری چھپے کھانے پینے سے اس کو روکنے والا کوئی نہیں، اور اس بات کا حساب لینا تو کسی راے عام، یا کسی حکومت کے بس ہی میں نہیں کہ وہ رضاے الٰہی کی نیت سے روزہ رکھ رہا ہے یا کسی اور نیت سے۔

ایسی حالت میں جو شخص روزے کی تمام شرائط پوری کرتا ہے، غور کیجیے کہ اس کے نفس میں کس قسم کی کیفیات اُبھرتی ہیں:

  1. اس کو خداوندعالم کی ہستی کا، اس کے عالم الغیب ہونے کا، اس کے قادرمطلق ہونے کا، اور اس کے سامنے اپنے محکوم اور جواب دہ ہونے کا کامل یقین ہے، اور اس پوری مدت میں، جب کہ وہ روزے سے رہا ہے اس کے یقین میں ذرا تزلزل نہیں آیا۔
  2. اس کو آخرت پر، اس کے حساب کتاب پر اور اس کی جزا اور سزا پر پورا یقین ہے۔ اور یہ یقین بھی کم از کم ان ۱۲،۱۴ گھنٹوں میں برابر غیرمتزلزل رہا ہے، جب کہ وہ اپنے روزے کی شرائط پر قائم رہا۔
  3. اس کے اندر خود اپنے فرض کا احساس ہے۔ وہ آپ اپنی ذمہ داری کو سمجھتا ہے۔ وہ اپنی نیت کا خود محتسب ہے، اپنے دل کے حال پر خود نگرانی کرتا ہے۔ خارج میں قانون شکنی یا گناہ کا صدور ہونے سے پہلے جب نفس کی اندرونی تہوں میں اس کی خواہش پیدا ہوتی ہے اسی وقت وہ اپنی قوتِ ارادی سے اس کا استیصال کردیتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ  پابندیِ قانون کے لیے خارج میں کسی دبائو کا وہ محتاج نہیں ہے۔
  4. مادیت اور اخلاق و روحانیت کے درمیان انتخاب کا جب اسے موقع دیا گیا تو اس نے اخلاق و روحانیت کو انتخاب کیا۔ دنیا اور آخرت کے درمیان ترجیح کا سوال جب اس کے سامنے آیا تو اس نے آخرت کو ترجیح دی۔ اس کے اندر اتنی طاقت تھی کہ اخلاقی فائدے کی خاطر مادی نقصان و تکلیف کو اس نے گوارا کیا، اور آخرت کے نفعے کی خاطر دنیوی مضرت کو قبول کرلیا۔
  5. وہ اپنے آپ کو اس معاملے میں آزاد نہیں سمجھتا کہ اپنی سہولت دیکھ کر اچھے موسم، مناسب وقت اور فرصت کے زمانے میں روزہ رکھے، بلکہ جو وقت قانون میں مقرر کردیا گیا ہے اسی وقت روزہ رکھنے پر وہ اپنے آپ کو مجبور سمجھتا ہے خواہ موسم کیسا ہی سخت ہو، حالات کیسے ہی ناسازگار ہوں اور اس کی ذاتی مصلحتوں کے لحاظ سے اس وقت روزہ رکھنا کتنا ہی نقصان دہ ہو۔
  6. اس میں صبر، استقامت، تحمل، یکسوئی، توکّل اور دنیوی ترغیبات و تحریصات کے مقابلے کی طاقت کم از کم اس حد تک موجود ہے کہ رضاے الٰہی کے بلند نصب العین کی خاطر وہ ایک ایسا کام کرتا ہے جس کا نتیجہ مرنے کے بعد دوسری زندگی پر ملتوی کیا گیا ہے۔ اس کام کے دوران میں وہ رضاکارانہ اپنی خواہشاتِ نفس کو روکتا ہے۔ سخت گرمی کی حالت میں پیاس سے حلق چٹخا جا رہا ہے، برفاب سامنے موجود ہے، آسانی سے پی سکتا ہے، مگر نہیں پیتا۔ بھوک کے مارے جان پر بن رہی ہے، کھانا حاضر ہے، چاہے تو کھا سکتا ہے، مگر     نہیں کھاتا۔ جوان میاں بیوی ہیں، خواہشِ نفس زور کرتی ہے، چاہیں تو اس طرح  قضاے شہوت کرسکتے ہیں کہ کسی کو پتا نہ چلے، مگر نہیں کرتے۔ ممکن الحصول فائدوں سے یہ صرفِ نظر، اور ممکن الاحتراز نقصانات کی یہ پذیرائی اور خود اپنے منتخب کیے ہوئے  طریقِ حق پر ثابت قدمی کسی ایسے نفعے کی اُمید پر نہیں ہے جو اس دنیا کی زندگی میں حاصل ہونے والا ہو، بلکہ ایسے مقصد کے لیے ہے جس کے متعلق پہلے ہی نوٹس دے دیا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے اس کے حاصل ہونے کی اُمید ہی نہ رکھو۔

یہ کیفیات ہیں جو پہلے روزے کا ارادہ کرتے ہی انسان کے نفس میں اُبھرنی شروع ہوتی ہیں۔ جب وہ عملاً روزہ رکھتا ہے تو یہ بالفعل ایک طاقت بن جاتی ہیں۔ جب ۳۰دن تک مسلسل وہ اسی فعل کی تکرار کرتا ہے تو یہ طاقت راسخ ہوتی چلی جاتی ہے، اور بالغ ہونے کے بعد سے مرتے دم تک تمام عمر ایسے ہی ۳۰،۳۰ روزے ہرسال رکھنے سے وہ آدمی کی جبلّت میں پیوست ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے نہیں ہے کہ یہ صفات صرف روزے ہی رکھنے میں اور صرف رمضان ہی کے مہینے میں کام آئیں، بلکہ اس لیے ہے کہ انھی اجزا سے انسان کی سیرت کا خمیر بنے۔ وہ فجور سے یکسر خالی ہو اور اس کی ساری زندگی تقویٰ کے راستے پڑجائے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس مقصد کے لیے روزے سے بہتر کوئی طریقِ تربیت ممکن ہے؟ کیا اس کے بجاے اسلامی طرز کی سیرت بنانے کے لیے کوئی دوسرا کورس تجویز کیا جاسکتا ہے؟(اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، ص۶۴-۹۲)

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے دعوتی زندگی کا آغاز ۱۹۳۳ء میں ترجمان القرآن کے ذریعے کیا۔ آٹھ سال کی مسلسل جدوجہد کے ذریعے فکری میدان میں باطل نظریات پر ضربِ کاری لگائی اور اسلامی فکر کی تشکیلِ نو اور محکم دلائل سے اس فکر کی بالادستی کو وقت کی اصل ضرورت قرار دیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے چومکھی لڑائی لڑی اور مسلمانوں کے سامنے اسلام کی روشن شاہراہ واضح کرکے اصل منزل کی ان کے سامنے نشان دہی کردی۔ برعظیم پاک و ہند کی، اس وقت کی ذہنی فضا میں ، جہاں یہ ایک منفرد اور چونکا دینے والی آواز تھی، وہیں قرآن و سنت کی اصل دعوت کے احیا کے لیے یہ ایک انقلابی اقدام بھی تھا۔

اسلامی احیا کا یہ تصور ہمارے معاشرے میں اپنی جڑیں رکھتا تھا، جو ہمارے اکابر کی علمی، فکری اور دعوتی جدوجہد کا فطری اور منطقی نتیجہ تھا۔ برعظیم کے مسلمانوں پر مغربی تہذیب اور یورپی استعمار کے فکری اور سیاسی و تہذیبی غلبے کے خلاف اور اسلامی احیا کے لیے سیّداحمدشہید، سیّداسماعیل شہید، مولانا قاسم نانوتوی، شبلی نعمانی، مولانا محمودحسن، مولاناابوالکلام آزاد، مولانا اشرف علی تھانوی، اور علامہ محمداقبال اپنے اپنے انداز میں مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے اسلام کے احیا اور دین حق کی اقامت کی جدوجہد کو مسلمانوں کے اصل اور حقیقی مقصد ِ زندگی کے تصور کے طور پر پیش کیا۔ انھوں نے اقامت ِ دین کے تصور کو مدلل، منطقی اور دعوتی اسلوب میں قرآن و سنت کے محکم دلائل کے ساتھ واضح کیا۔ تجدید و احیاے دین کے سلسلے کی ۱۴ سو سال پر  پھیلی ہوئی مسلمانوں کی تابناک تاریخ کے پس منظر میں انھوں نے بتایا کہ اسلام کا اصل مدعا اور مقصود کیا ہے، اور مسلمانوں کی اصل پہچان اور ان کی زندگی کا حقیقی مشن کیا ہے۔

دراصل اسلام نام ہے اللہ کو اپنا رب تسلیم کرنے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا پیغمبر اور انسانوں کا اصل ہادی اور راہبر ماننے، اور اپنی پوری زندگی کو اللہ کی بندگی اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں د ے دینے کا۔ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کا اقرار اور اعلان پوری زندگی کے لیے ایک راستہ اور نظام کار طے کرنے کا عہد ہے۔ یہ عہد محض چند الفاظ کے زبان سے ادا کرنے اور چند عبادات کا اہتمام کرنے سے عبارت نہیں ہے۔ عقیدہ اور عبادات وہ دو ستون ہیں جن پر اسلام پوری زندگی کی عمارت تعمیر کرتا ہے۔

مولانا مودودی نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور اسوئہ حسنہ کے اس پہلو کو اُجاگر کیا کہ اسلام عقیدے اور عمل کا ایک حسین امتزاج ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں انسانی زندگی کے لیے ایک مکمل نظامِ زندگی کا نقشہ پیش کرتا ہے، تاکہ انسان، زندگی کے ہر میدان میں طاغوت کی غلامی سے نجات پاسکے اور اپنی انفرادی اور اجتماعی، روحانی، اخلاقی اور مادی زندگی کے ہرپہلو کی تشکیل جدید کے ذریعے، اُسے آخرت میں کامیابی حاصل ہو۔جماعت اسلامی اسی وژن کی حامل ہے اور اس دعوت کو عملی طور پر مسلمانوں کے لیے اور بالآخر پوری انسانیت کے لیے جاری و ساری کرنے کی اجتماعی کوشش کا نام ہے۔ اس کا پیغام اصولی اور آفاقی ہے، البتہ اس کی عملی جدوجہد کا مرکز و محور وہ خطۂ زمین ہے، جہاں اس نظامِ زندگی کو قائم کرکے اُمت مسلمہ اور انسانیت کے لیے ایک نمونہ پیش کیا جاسکتا ہے۔

جماعت اسلامی: انتخابی روایت کا تسلسل

ان معروضات کی روشنی میں آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی اپنی اصل کے اعتبار سے ایک نظریاتی، فکری اور تہذیبی تحریک ہے۔ یہ محض ایک مذہبی یا سیاسی جماعت نہیں، بلکہ وسیع معنی میں ایک اصولی تحریک (Ideological Movement) ہے اور قرآن و سنت کی فراہم کردہ ہدایت کو زندگی کے ہر شعبے میں عملاً نافذ کرنا چاہتی ہے۔ یہ جماعت کوئی قوم پرست یا محض وطن پرست جماعت بھی نہیں ہے، بلکہ اس کا نظریۂ حیات عالم گیر ہے اور پوری انسانی تہذیب کی تشکیل نو اس کے پیش نظر ہے۔ یہ پوری زندگی کو اللہ کی بندگی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فراہم کردہ ہدایت اور ان کے سکھائے ہوئے منہج کے مطابق استوار کرنا چاہتی ہے۔ صرف مسلمانوں ہی کی اصلاح و نجات اس کے پیش نظر نہیں، بلکہ وہ پوری انسانیت کی فلاح اور اس کی دنیوی اور اُخروی کامیابی چاہتی ہے۔ اس جامع نصب العین کو اس کے دستور میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

 جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصود عملاً اقامت ِ دین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضاے الٰہی اور فلاحِ اُخروی کا حصول ہوگا(دفعہ ۴)۔

الدین، حکومت الٰہیہ اور اسلامی نظام زندگی تینوں ہم معنی الفاظ ہیں اور اصطلاح ’اقامت دین‘  ان تینوں کی جامع ہے۔ دستور میں اس کی تشریح یوں کی گئی ہے:

اقامت ِ دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے، بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔ نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیے و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہرمومن کو اسے بطورِ خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہلِ ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگرچہ مومن کا اصل مقصدِ زندگی رضاے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت ِ دین اور حقیقی نصب العین وہ رضاے الٰہی ہے جو اقامت ِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔

زندگی کا یہ تصور اور اس کا یہ مشن جماعت اسلامی کا اصل امتیاز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تنظیم، اس کا اسلوبِ کار، اس کا دائرۂ عمل اور اس کی سرگرمیوں کا پھیلائو محض ایک سیاسی جماعت جیسا نہیں۔ بلاشبہہ جب پاکستان کی پہلی دستور سازاسمبلی نے مارچ ۱۹۴۹ء میں قراردادِمقاصد  منظور کی، تو اس کے بعد سے وہ معروف معنی میں ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے کام کررہی ہے۔ لیکن وہ محض ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ اسلام کے مشن کے مطابق ایک ہمہ گیر نظریاتی اور تہذیبی انقلاب کی داعی جماعت ہے۔ یہی اس کی امتیازی حیثیت ہے، یہی اس کی بہت سی خوبیوں اور خصوصیات کی بنیاد ہے اور یہی اس کی متعدد تحدیدات (limitations) کا سبب بھی ہے جسے سمجھنا اور جاننا بہت ضروری ہے۔

جماعت اسلامی کے قیام کے پہلے دن سے ’نظامِ امر‘ کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے لیکن یہ ’نظامِ امر‘ ایک دستور اور اس کے مطابق ضابطہ کار اور روایات سے عبارت ہے، جس کی صورت گری قرآن و سنت کی ہدایات اور تحریکِ اسلامی کی ضروریات اور تجربات کی روشنی میں کی گئی ہے۔

اس نظامِ جماعت میں وفاداری کا اصل مرکز وہ نصب العین ہے، جس کے حصول کے لیے جماعت قائم ہوئی ہے اور اس کے پورے نظام کی تشکیل و تعمیر ایک تحریری دستور کے ذریعے کی گئی ہے، جو خود بلاشبہہ ارتقائی مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ تاہم یہ ہردور میں اور ہرسطح کے لیے نقشۂ کار فراہم کرتا ہے۔ جو صرف تبرک کے لیے نہیں بلکہ معاملات کو طے کرنے میں اصل رہنما اور کارفرما حیثیت رکھتا ہے۔ الحمدللہ جماعت اسلامی اور اس کے تمام ادارے دستور کے مطابق کام کرتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو جماعت اسلامی کو دوسری جماعتوں سے ممتاز کرتی ہے۔ جماعت اسلامی میں کسی ایک فرد، گروہ یا خاندان کی بات نہیں چلتی بلکہ سب ایک خاندان کی طرح، ایک دستور کے تحت، اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں پالیسی سازی، ڈسپلن، اطاعت، تعاون، ہم آہنگی، مشاورت اور تنقیدو احتساب کا وہ ماحول پیدا کرنے کوشش کی گئی ہے جو اسلام کا منشا اور اچھی حکمرانی (good governance)کی ضرورت ہے۔

جماعت اسلامی کا پورا نظام، اس کے دستور اور ضابطہ کار کے مطابق کام کر رہا ہے اور اس کی اصل پہچان اسلامی اصولوں پر مبنی جمہوری اور شورائی نظام ہے۔ انسانوں کی جماعت ہونے کے ناتے کوتاہیوں اور کمزوریوں سے کوئی پاک نہیں لیکن الحمدللہ، بحیثیت مجموعی اس جماعت میں مشاورت اور احتساب کا ایک مضبوط نظام قائم ہے، جس پر پوری شفافیت کے ساتھ عمل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں شخصی وفاداری، خاندانی سیادت اور گروہ بندی کا کوئی کردار نہیں۔ دستور کے مطابق ایک نظامِ مشاورت و احتساب قائم ہے۔ اس نظام میں جہاں ایک دوسرے کی معاونت اس کا لازمی حصہ ہے، وہیں غلطیوں اور کمزوریوں کی اصلاح بھی ہرشریکِ کار کی ذمہ داری ہے۔

مارچ ۲۰۱۴ء میں جماعت اسلامی میں امارت کا تیرھواں انتخاب دستور کے مطابق ہوا جس میں ارکانِ جماعت نے کثرت راے سے برادرم سراج الحق کو امیر جماعت اسلامی پاکستان  منتخب کیا اور ۹؍اپریل ۲۰۱۴ء کو منصورہ میں منعقدہ ایک روح پرور اجتماع میں انھوں نے جماعت اسلامی کے پانچویں امیر۱؎ کی حیثیت سے امارت کا حلف اُٹھا کر اللہ سے وفاداری، دستورِ جماعت کی پاس داری اور نظامِ جماعت کے سامنے جواب دہی کا عہد کیا اور بڑے انکسار کے ساتھ اللہ، اس کے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے دین کی سربلندی کی اس جدوجہد کے لیے اپنی ساری توانائی کو صرف کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ قدم قدم پر ان کی رہنمائی فرمائے، انھیں اس عظیم ذمہ داری کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کی توفیق سے نوازے، وہ اس تاریخی امانت کے سچے امین ثابت ہوں، تحریک کے قدم آگے بڑھیں اور ان کی قیادت میں اللہ تعالیٰ اس تحریک، اس ملک اور اس ملت کو دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے شادکام فرمائے، آمین! تحریک اسلامی کے تمام ساتھیوں اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کے تمام خیرخواہوں کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔

نظامِ جماعت اور نظامِ انتخاب

جماعت اسلامی میں قیادت کے انتخاب کے باب میں ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ اس میں امارت ایک عہدہ نہیں بلکہ ایک بڑی گراں بار ذمہ داری ہے۔ امیر کا انتخاب جماعت کے دستور کے مطابق ارکانِ جماعت ہر پانچ سال کے بعد کرتے ہیں۔ یہاں امارت کے لیے کوئی مدعی اور طالب نہیں ہوتا اور نہ کوئی انتخابی مہم ہوتی ہے۔ ایک ضابطے کے مطابق مرکزی شوریٰ تین نام تجویز کرتی ہے وہ بھی صرف رہنمائی کے لیے۔ ارکان ان مجوزہ تین ناموں میں سے کسی ایک کو یا ان کے علاوہ بھی، اپنی نگاہ میں کسی اور اہل تر فرد کو اس ذمہ داری کے لیے ووٹ دے سکتے ہیں۔ باہر کی دنیا کے لیے یہ عمل خواہ کتنا ہی اجنبی ہو، لیکن اسلامی تحریک کے مزاج اور اس کی ضرورت کے لیے اس سے بہتر انتظام مشکل ہے۔ انتخابِ امیر کے اس انتظام اور تحریکِ اسلامی کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ جماعت کی تاسیس کے وقت، اس جماعت کی جو خصوصیات داعیِ تحریک نے بیان کی تھیں، وہ ہرلمحے سامنے رہیں۔ آج شاید ان کا جاننا اور ذہن نشین رکھنا یقینا اس سے بھی کچھ زیادہ ضروری ہے ،جتنا تاسیس جماعت کے وقت تھا۔ اس وقت داعیِ تحریک مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی مرحوم نے فرمایا تھا:

جو لوگ ایک ہی عقیدہ، ایک ہی نصب العین اور ایک ہی مسلک رکھتے ہوں، ان کے لیے ایک جماعت بن جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ان کا ایک جماعت بن جانا بالکل ایک فطری امر ہے.... اب، جب کہ آپ کی جماعتی زندگی کا آغاز ہورہا ہے۔ تنظیم جماعت کی راہ میں کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام میں جماعتی زندگی کے قواعد کیا ہیں؟

میں اس سلسلے میں چند اہم باتیں بیان کروں گا:

  • خیرخواہی کا جذبہ: پہلی چیز یہ ہے کہ جماعت کے ہر فرد کو نظامِ جماعت کا بحیثیت مجموعی اور جماعت کے افرادکا فرداً فرداً سچے دل سے خیرخواہ ہونا چاہیے۔ جماعت کی بدخواہی یا افرادِ جماعت سے کینہ، بُغض، حسد، بدگمانی اور ایذارسانی وہ بدترین جرائم ہیں، جن کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ایمان کے منافی قراردیاہے۔
  • دوسری جماعتوں سے فرق: دوسری چیز یہ ہے کہ آپ کی اس جماعت کی حیثیت دنیوی پارٹیوں کی سی نہیں ہے، جن کا تکیہ کلام یہ ہوتا ہے کہ ’’میری پارٹی، خواہ حق پر ہو یا ناحق پر‘‘، نہیں، آپ کو جس رشتے نے ایک دوسرے سے جوڑا ہے،      وہ دراصل اللہ پر ایمان کا رشتہ ہے، اور اللہ پر ایمان کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ آپ کی دوستی اور دشمنی، محبت اور نفرت جو کچھ بھی ہو، اللہ کے لیے ہو۔ آپ کو اللہ کی فرماں برداری میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہے، نہ کہ اللہ کی نافرمانی میں___ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ  (المائدہ ۵:۲)۔ اللہ کی طرف سے جماعت کی خیرخواہی کا جو فرض آپ پر عائد ہوتا ہے، اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ بیرونی حملوں سے آپ اس کی حفاظت کریں، بلکہ یہ بھی ہیں کہ ان اندرونی امراض سے بھی اس کی حفاظت کے لیے ہروقت مستعد رہیں، جو نظامِ جماعت کو خراب کرنے والے ہیں۔ جماعت کی سب سے بڑی خیرخواہی یہ ہے کہ اس کو راہِ راست سے نہ ہٹنے دیا جائے۔ اس میں غلط مقاصد اور غلط خیالات اور غلط طریقوں کے پھیلنے کو روکا جائے۔ اس میں نفسانی دھڑے بندیاں نہ پیدا ہونے دی جائیں۔ اس میں کسی کا استبداد نہ چلنے دیا جائے۔ اس میں کسی دنیوی غرض یا کسی شخصیت کو بت  نہ بننے دیا جائے، اور اس کے دستور کو بگڑنے سے بچایا جائے۔

اسی طرح اپنے رفقاے جماعت کی خیرخواہی کا جو فرض آپ میں سے ہرشخص پر عائد ہوتا ہے، اس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ آپ اپنی جماعت کے آدمیوں کی بے جا حمایت کریں اور ان کی غلطیوں میں ان کا ساتھ دیں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ معروف میں ان کے ساتھ تعاون کریں، اور مُنکر میں صرف عدم تعاون ہی پر اکتفا نہ کریں، عملاً ان کی اصلاح کی بھی کوشش کریں۔ ایک مومن دوسرے مومن کے ساتھ سب سے بڑی خیرخواہی جو کرسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ جہاں اس کو راہِ راست سے بھٹکتے ہوئے دیکھے، وہاں اُسے سیدھا راستہ دکھائے، اور جب وہ اپنے نفس پر ظلم کر رہا ہو تو   اس کا ہاتھ پکڑلے۔ البتہ آپس کی اصلاح میں یہ ضرور پیش نظر رہنا چاہیے کہ نصیحت میں عیب چینی اور خُردہ گیری [نکتہ چینی ] اور تشدد کا طریقہ نہ ہو، بلکہ دوستانہ دردمندی و اخلاص کا طریقہ ہو۔ جس کی آپ اصلاح کرنا چاہتے ہیں، اس کو آپ کے طرزِعمل سے یہ محسوس ہونا چاہیے کہ اس اخلاقی بیماری سے آپ کا دل دُکھتا ہے، نہ کہ اس کو اپنے سے فروتر دیکھ کر آپ کا نفسِ متکبر لذت لے رہا ہے۔

  • جتھہ بندی اور نفسانی رقابت سے اجتناب: تیسری بات جس کی طرف مَیں ابھی اشارہ کرچکا ہوں ، مگر جس کی اہمیت اس کی متقاضی ہے کہ اسے واضح طور پر بیان کیا جائے، یہ ہے کہ جماعت کے اندر جماعت بنانے کی کوشش کبھی نہ ہونی چاہیے۔ سازشیں، جتھہ بندیاں، نجویٰ (convassing)، عہدوں کی اُمیدواری ، حمیت ِ جاہلیہ اور نفسانی رقابتیں، یہ وہ چیزیں ہیں جو ویسے بھی جماعتوں کی زندگی کے لیے سخت خطرناک ہوتی ہیں، مگر اسلامی جماعت کے مزاج سے تو ان چیزوں کو کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔ اسی طرح غیبت اور تنابز بالالقاب اور بدظنی بھی جماعتی زندگی کے لیے سخت مہلک بیماریاں ہیں، جن سے بچنے کی ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے۔
  •  مشاورت اور اس کی روح: چوتھی بات یہ ہے کہ باہمی مشاورت جماعتی زندگی کی جان ہے، اس کو کبھی نظرانداز نہ کرنا چاہیے۔ جس شخص کے سپرد کسی جماعتی کام کی ذمہ داری ہو، اس کے لیے لازم ہے کہ اپنے کاموں میں دوسرے رفقا سے مشورہ لے، اور جس سے مشورہ لیا جائے اُس کا فرض ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ اپنی حقیقی راے کا صاف صاف اظہار کرے۔ جو شخص اجتماعی مشاورت میں اپنی صواب دید کے مطابق راے دینے سے پرہیز کرتا ہے، وہ جماعت پر ظلم کرتا ہے اور جو کسی مصلحت سے اپنی صواب دید کے خلاف راے دیتا ہے، وہ جماعت کے ساتھ غدر کرتا ہے، اور جو مشاورت کے موقعے پر اپنی راے چھپاتا ہے اور بعد میں جب اس کے منشا کے خلاف کوئی بات طے ہوجاتی ہے تو جماعت میں بددلی پھیلانے کی کوشش کرتا ہے، وہ بدترین خیانت کا مجرم ہے۔
  •   اختلاف راے اور راے پر اصرار: پانچویں بات یہ ہے کہ جماعتی مشورے میں کسی شخص کو اپنی راے پر اتنا مُصر نہ ہونا چاہیے کہ یا تو اس کی بات مانی جائے، ورنہ جماعت سے تعاون نہ کرے گا، یا اجماع کے خلاف عمل کرے گا۔ بعض نادان لوگ بربناے جہالت اس کو ’حق پرستی‘ سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ صریح اسلامی احکام اور صحابہ کرامؓ کے متفقہ تعامل کے خلاف ہے۔ خواہ کوئی مسئلہ کتاب و سنت کی تعبیر اور نصوص سے کسی حکم کے استنباط سے تعلق رکھتا ہو یا دُنیوی تدابیر سے متعلق ہو، دونوں صورتوں میں  صحابہ کرامؓ کا طرزِعمل یہ تھا کہ جب تک مسئلہ زیربحث رہتا، اُس میں ہرشخص اپنے علم اور اپنی صواب دید کے مطابق پوری صفائی سے اظہارِ خیال کرتا اور اپنی تائید میں دلائل پیش کرتا تھا، مگر جب کسی شخص کی راے کے خلاف فیصلہ ہوجاتا تو وہ یا تو اپنی راے واپس لے لیتا تھا، یا اپنی راے کو درست سمجھنے کے باوجود فراخ دلی کے ساتھ جماعت کا ساتھ دیتا تھا۔ جماعتی زندگی کے لیے یہ طریقہ ناگزیر ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ جہاں ایک شخص اپنی راے پر اس قدر مصر ہو کہ جماعتی فیصلوں کو قبول کرنے سے انکار کردے، وہاں آخرکار پورا نظامِ جماعت درہم برہم ہوکر رہے گا۔
  •  امارتِ جماعت ، گراں بار ذمہ داری:آخری چیز جو جماعتی زندگی کے لیے اہم ترین ہے، وہ یہ ہے کہ ’’اسلام بغیر جماعت کے نہیں ہے، اور جماعت بغیر امارت کے نہیں ہے‘‘۔اس قاعدۂ کلیہ کے بموجب آپ کے لیے ضروری ہے کہ جماعت بننے کے ساتھ ہی آپ اپنے لیے ایک امیر منتخب کرلیں۔ امیر کے انتخاب میں آپ کو جو اُمور ملحوظ رکھنے چاہییں، وہ یہ ہیں کہ کوئی شخص جو امارت کا اُمیدوار ہو، اُسے ہرگز منتخب نہ کیا جائے، کیونکہ جس شخص میں اس کارِعظیم کی ذمہ داری کا احساس ہوگا، وہ کبھی اس بار کو اُٹھانے کی خود خواہش نہ کرے گا، اور جو اس کی خواہش کرے گا، وہ دراصل نفوذ و اقتدار کا خواہش مند ہوگا، نہ کہ ذمہ داری سنبھالنے کا۔ اس لیے اللہ کی طرف سے اس کی نصرت و تائید کبھی نہ ہوگی۔ انتخاب کے سلسلے میں لوگ ایک دوسرے سے نیک نیتی کے ساتھ تبادلۂ خیالات کرسکتے ہیں، مگر کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف نجویٰ اور سعی نہ ہونی چاہیے۔ شخصی حمایت و موافقت کے جذبات کو دل سے نکال کر بے لاگ طریقے سے دیکھیے کہ آپ کی جماعت میں کون ایسا شخص ہے، جس کے تقویٰ، علمِ کتاب و سنت، دینی بصیرت، تدبر، معاملہ فہمی اور راہِ خدا میں ثبات و استقامت پر آپ سب سے زیادہ اعتماد کرسکتے ہیں۔ پھر جو بھی ایسا نظر آئے، اللہ پر توکّل کر کے اُسے منتخب کرلیجیے، اور جب آپ اُسے منتخب کرلیں تو اس کی خیرخواہی، اس کے ساتھ مخلصانہ تعاون، معروف میں اس کی اطاعت اور مُنکر میں اس کی اصلاح کی کوشش آپ کا فرض ہے۔(رُوداد جماعت اسلامی، اوّل، ص۲۱-۲۵)

چنانچہ ۱۹۴۱ء میں  جب تاسیس جماعت اور حلف ِرکنیت کے بعد، امیر کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو فطری طور پر نظر انتخاب داعیِ تحریک مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی پر پڑی اور انھیں متفقہ طور پر امیرجماعت منتخب کیا گیا۔ اس وقت تاسیسی ارکان کا خیال یہ تھا کہ امیر کا انتخاب تاحیات ہونا چاہیے، لیکن مولانا مودودی نے اس وقت کسی فقہی بحث میں پڑے بغیر ،ارکانِ جماعت پر واضح کیا کہ وہ امارت کو تاحیات جاری رکھنے کے قائل نہیں اور ارکان کو ہراجتماع کے موقعے پر انتخابِ نو کا موقع دیں گے۔ بعد میں دستورِ جماعت میں امیر کے لیے پانچ سال کی مدت اور فطری طور پر نئے انتخاب کا ضابطہ مقرر کردیا گیا، جس پر آج تک پوری دیانت داری سے عمل ہورہا ہے۔

جماعت کا نظامِ امر اور اس کا مزاج

۲۷؍اگست ۱۹۴۱ء کو امیر کے انتخاب کے بعد، مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے جو تقریر کی، وہ بھی جماعت کے نظامِ امر اور اس کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ الحمدللہ یہ جماعت اس روایت کی سچی امین ہے:

میں آپ کے درمیان نہ سب سے زیادہ علم رکھنے والا تھا، نہ سب سے زیادہ متقی، نہ کسی اور خصوصیت میں مجھے فضیلت حاصل تھی۔ بہرحال، جب آپ نے مجھ پر اعتماد کر کے اس کارِعظیم کا بار میرے اُوپر رکھ دیا ہے، تو مَیں اب اللہ سے دعا کرتا ہوں اور آپ لوگ بھی دعا کریں کہ مجھے اس بار کو سنبھالنے کی قوت عطا فرمائے اور آپ کے اس اعتماد کو مایوسی میں تبدیل نہ ہونے دے۔ مَیں اپنی حد وسع تک انتہائی کوشش کروں گا کہ اس کام کو پوری خدا ترسی اور پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ چلائوں۔ میں    قصداً اپنے فرض کی انجام دہی میںکوئی کوتاہی نہ کروں گا۔ میں اپنے علم کی حد تک کتاب اللہ و سنت ِ رسولؐ اللہ اور خلفاے راشدینؓ کے نقشِ قدم کی پیروی میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھوں گا۔ تاہم، اگر مجھ سے کوئی لغزش ہو اور آپ میں سے کوئی محسوس کرے کہ  مَیں راہِ راست سے ہٹ گیا ہوں، تو مجھ پر یہ بدگمانی نہ کرے کہ مَیں عمداً ایساکر رہا ہوں، بلکہ حُسنِ ظن سے کام لے اور نصیحت سے مجھے سیدھا کرنے کی کوشش کرے۔

آپ کا مجھ پر یہ حق ہے کہ مَیں اپنے آرام و آسایش اور اپنے ذاتی فائدوں پر جماعت کے مفاد اور اس کے کام کی ذمہ داریوں کو ترجیح دوں، جماعت کے نظم کی حفاظت کروں، ارکانِ جماعت کے درمیان عدل اور دیانت کے ساتھ حکم کروں، جماعت کی طرف سے جو امانتیں میرے سپرد ہوں ان کی حفاظت کروں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ   اپنے دل و دماغ اور جسم کی تمام طاقتوں کو اس مقصد کی خدمت میں صَرف کردوں، جس کے لیے آپ کی جماعت اُٹھی ہے۔

میرا آپ پر یہ حق ہے کہ جب تک مَیں راہِ راست پر چلوں، آپ اس میں میرا ساتھ دیں، میرے حکم کی اطاعت کریں، نیک مشوروں سے اور امکانی امداد و اعانت سے میری تائید کریں اور جماعت کے نظم کو بگاڑنے والے طریقوں سے پرہیز کریں۔ مجھے اس تحریک کی عظمت اور خود اپنے نقائص کا پورا احساس ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ یہ وہ تحریک ہے جس کی قیادت اولوالعزم پیغمبروں ؑ نے کی ہے، اور زمانۂ نبوت گزرجانے کے بعد وہ غیرمعمولی انسان اس کو لے کر اُٹھتے رہے ہیں، جو نسلِ انسانی کے گُل سرسَبد تھے۔ مجھے ایک لمحے کے لیے اپنے بارے میں یہ غلط فہمی نہیں ہوئی کہ مَیں اس عظیم الشان تحریک کی قیادت کا اہل ہوں، بلکہ مَیں تو اس کو ایک بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ اس وقت اس کارِعظیم کے لیے آپ کو مجھ سے بہتر کوئی آدمی نہ ملا۔ مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اپنے فرائضِ امارت کی انجام دہی کے ساتھ مَیں برابر تلاش میں رہوں گا کہ کوئی اہل تر آدمی اس کا بار اُٹھانے کے لیے مل جائے اور جب مَیں ایسے آدمی کو پائوںگا تو خود سب سے پہلے اُس کے ہاتھ پر بیعت کروں گا۔ نیز مَیں ہمیشہ ہر اجتماعِ عام کے موقعے پر جماعت سے بھی درخواست کرتا رہوں گا،کہ اگر اب اس نے کوئی مجھ سے بہتر آدمی پالیا ہے تو وہ اُسے اپنا امیر منتخب کرلے، اور مَیں اس منصب سے بخوشی دست بردار ہوجائوں گا۔ بہرحال، مَیں ان شاء اللہ اپنی ذات کو کبھی خدا کے راستے میں سدِّراہ نہ بننے دوں گا، اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ دوں گا کہ ایک ناقص آدمی اس جماعت کی رہنمائی کر رہا ہے، اس لیے ہم اس میں داخل نہیں ہوسکتے۔

نہیں، مَیں کہتا ہوں کہ کامل آئے اور یہ مقام جو آپ نے میرے سپرد کیا ہے ہر وقت اس کے لیے خالی ہوسکتا ہے، البتہ مَیں اس کے لیے تیار نہیں ہوں کہ اگر کوئی دوسرا اس کام کو چلانے کے لیے نہ اُٹھے تو مَیں بھی نہ اُٹھوں۔ میرے لیے تو یہ تحریک عین  مقصد ِ زندگی ہے۔ میرا مرنا اور جینا اس کے لیے ہے۔ کوئی اس پر چلنے کے لیے تیار ہو یا نہ ہو، بہرحال مجھے تو اسی راہ پر چلنا اور اسی راہ میں جان دینا ہے۔ کوئی آگے نہ بڑھے تو مَیں بڑھوں گا۔ کوئی ساتھ نہ دے گا تو مَیں اکیلا چلوں گا۔ ساری دنیا متحد ہوکر مخالفت کرے گی تو مجھے تن تنہا اُس سے لڑنے میں بھی باک نہیں ہے۔ (رُوداد جماعت اسلامی، اوّل،ص ۲۹-۳۱)

یہی وہ جذبہ اور اسپرٹ ہے جو بعدازاں بھی جماعت کے امرا میں موجود رہی ہے۔  مولانا محترم سے لے کر سیّدمنورحسن تک ہر ایک نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ اس عظیم ذمہ داری کے تقاضوں کو پورا کرنے کی طاقت اپنے میں نہیں پارہے تو ازخود ارکان سے ذمہ داری سے فراغت کی درخواست کی، اور اگر اس کے باوجود جماعت نے کوئی ذمہ داری ان پر ڈالی تو وہ ہر قربانی دے کر اسے انجام دینے کے لیے سینہ سپر ہوگئے۔ اس تحریک میں جو جس مقام سے بھی، جو خدمت بھی انجام دے سکے، وہ ایک سعادت اور اعزاز ہے۔ اور ہر ایک کی خواہش، کوشش اور دعا ہوتی ہے کہ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۰۲) ’’تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘۔

تحریکوں کی مثال دریا کی سی ہے جس کی بلارکاوٹ روانی کا انحصار نئے پانی کی آمد پر ہے۔ اب جماعت کی تیسری نسل امارت کی ذمہ داری کو سنبھال رہی ہے۔ مولانا محترم اور میاں طفیل محمد صاحب بانی ارکان میں سے تھے۔ محترم قاضی حسین احمد اور برادرم سیّدمنور حسن کا تعلق دوسری نسل سے تھا۔ الحمدللہ، اب قیادت تیسری نسل کی طرف منتقل ہوئی ہے اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ اسی خوش اسلوبی کے ساتھ چلتا رہے گا۔ تحریک کی زندگی اور قوت کا راز تسلسل اور تبدیلی میں ہے۔ اگرکسی تحریک میں تبدیلی کے راستے بند ہوجائیں تو وہ جمود کا شکار ہوجاتی ہے اور دریا ’جوے کم آب‘ کا منظر پیش کرتا ہے۔ وہ تبدیلی جو تسلسل سے اپنا رشتہ توڑلیتی ہے، کٹی ہوئی پتنگ بن جانے کے خطرے سے اپنے کو دوچار رکھتی ہے۔ ’بحر بے کراں‘ وہی تحریک ہوتی ہے جس کا امتیاز تسلسل اور تبدیلی دونوں کا امتزاج ہو۔ اور سماں یہ ہو کہ    ؎

فصلِ بہار آئی ہے، لے کررُت بھی نئی، شاخیں بھی نئی

سبزہ و گل کے رُخ پر لیکن، رنگ قدامت آج بھی ہے

جماعت اسلامی اور خود احتسابی

جماعت اسلامی کے حالیہ انتخابِ امیر کا ایک قابلِ غور پہلو وہ ردعمل بھی ہے جو پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اور سیاسی ، مذہبی اور دانش ور حلقوں کی طرف سے سامنے آیا ہے۔ غالباً پاکستان کی تاریخ میں کسی جماعت کی مرکزی قیادت کے انتخاب پر ایسا بھرپور ردعمل نہیں ہوا اور یہ ملک کے سوچنے سمجھنے والے حلقوں کی جماعت اسلامی میں دل چسپی ہی کا مظہر نہیں، بلکہ   کئی حیثیتوں سے ملک کی سیاسی زندگی کے کچھ پہلوئوں پر بڑی روشنی ڈالنے والا عمل ہے اور خود جماعت اور اس کی قیادت کے لیے بھی اس میں غوروفکر کا بڑا سامان ہے۔ اس لیے چند پہلوئوں پر کچھ اشارات کرنا مفید محسوس کرتا ہوں۔

سب سے پہلے مَیں ان تمام افراد کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جنھوں نے اپنے اپنے   نقطۂ نظر سے اور اپنے اپنے انداز میں ہمارے انتخابی عمل اور نتائج پر تبصرہ کیا ہے اور جماعت اسلامی، اس کے نظام کار، سیاسی کارکردگی اور مستقبل کے کردار کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار    کیا ہے۔ ان میں سے ہر تحریر میں ہمارے لیے سوچنے کا کچھ نہ کچھ مواد موجود ہے، اس لیے جماعت بلاتفریق سبھی نقطہ ہاے نظر سے واقفیت اور استفادے کی کوشش کرے گی۔ البتہ اس حقیقت کا اِدراک بھی ضروری ہے کہ مختلف تحریروں اور تجزیوں میں جماعت کا جو امیج پیش کیا گیا ہے، وہ حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بہرحال ہماری جن کمزوریوں کی نشان دہی کی گئی ہے، ہمیں ان کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے اور جو آرا غلط فہمیوں، معلومات کی کمی اور تعصب اور مخاصمت پر مبنی ہیں، ان کے بارے میں یہ کوشش ہونی چاہیے کہ مذاکرے اور بہتر ربط و ارتباط (dialogue, engagement and communication) کے ذریعے اپنے نقطۂ نظر کی توضیح و تشریح کریں۔

صاف نظر آرہا ہے کہ جماعت اسلامی کے نصب العین، اس کے نظامِ کار، اس کی خدمات، اس کی پالیسیوں اور جو تبدیلیاں پاکستان میں لانا چاہتی ہے، ان سے صحیح معنوں میں واقفیت اور اِدراک کے باب میں بڑی کمی ہے۔ اس کی ذمہ داری بڑی حد تک خود ہم پر بھی آتی ہے کہ ہم اپنی بات قوم اور اس کے بااثرطبقات تک مناسب انداز میں لے جانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ہم اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ دوست اور مخالف سب اس امر کا اعتراف کررہے ہیں کہ جماعت اسلامی ہی وہ جماعت ہے، جس میں باقاعدگی سے انتخابات منعقد ہوتے ہیں، جس کے ارکان اپنی آزاد مرضی سے اپنی قیادت کو منتخب کرتے ہیں، جس میں شخصی، موروثی یا گروہی قیادت کا کوئی تصور نہیں، جس میں دولت اور سیاسی اثرورسوخ کا کوئی کردار نہیں ہے، جس میں متوسط طبقے کے افراد کو ان کی صلاحیت، دیانت، مقصد ِ تحریک سے وابستگی اور وفاداری اور تحریک اور عوام کی خدمت کی بنیاد پر قیادت کی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔

الحمدللہ، جماعت اسلامی میں خود احتسابی کا عمل بھی زندہ ہے۔ جس میں عہدوں کی بندربانٹ بھی نہیں ہوتی بلکہ عہدے کا تصور ہی بدل گیا ہے___ یہاں قیادت کے لیے باہمی کوئی مقابلہ نہیں ہوتا اور نہ کسی کی ’فتح‘ یا ’شکست‘ کا کوئی تصور پایا جاتا ہے۔ امارت اور قیادت ایک ذمہ داری ہے جسے ارکان اپنے میں سے زیادہ سے زیادہ مناسب فرد کے سپرد بطور امانت کرتے ہیں، جو اسے عبادت کے جذبے سے انجام دیتا ہے۔ جس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ ادایگیِ فرض کے جذبے سے اس بوجھ کو اُٹھاتا ہے، اور جو اس ذمہ داری سے بچ جاتا ہے، وہ ایک حد تک خود کو سبک بار محسوس کرتا ہے لیکن اس کی وفاداری اور سرگرمی کا مرکز و محوریہی دعوت اور تحریک ہی رہتی ہے۔ یہ ایک دوسری ہی نوعیت کا جماعتی کلچر ہے، جس کی حکمت، تاثیر اور لذت سے وہ آشنا نہیں جو اس قافلے کے ہم سفر نہ ہوں۔

 جماعت اسلامی ’پاکستان‘ میں کیا تبدیلی چاہتی ھے؟

جماعت اسلامی کا اصل ہدف فرد، معاشرہ اور ریاست کی سطح پر ان تبدیلیوں کو برپا کرنا ہے جو اسلام کو مطلوب ہیں۔ اس کی کوشش ہے کہ نہ صرف افراد بلکہ پورے معاشرے اور ریاست کو   اسلامی اخلاق و آداب کا آئینہ دار بنایا جائے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے زندگی کے ہر شعبے میں ایک ایسی قیادت بروے کار لائی جائے جو اسلام کی صحیح نمایندہ ہو۔ اس کے لیے دعوت و ارشاد، تعلیم و تربیت، ترغیب و ترہیب، معاشی اور سماجی اصلاح، اور قانون اور میڈیا، سب کا استعمال اپنے اپنے دائرے میں ضروری ہے۔

اس تبدیلی کا آغاز انسان کے قلب سے ہوتا ہے۔ اس کے فکروذہن کی اصلاح کے ساتھ اخلاق و آداب کی اصلاح، خاندان اور معاشرتی اداروں کی تشکیلِ نو اور انفرادی اور اجتماعی وسائل کا مؤثر استعمال ضروری ہے۔ اس تاریخی عمل میں فرد اور معاشرے کے ساتھ ریاست کا کردار بھی فیصلہ کن ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی ضروری سمجھتی ہے کہ دستورِ پاکستان نے وطن عزیز کو    ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست بنانے کے لیے جو نقشۂ کار دیا ہے، اس پر پوری دیانت اور بہترین صلاحیت کے استعمال سے کام کیا جائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے، جب اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہو، جو اپنے فکرونظر، اخلاق و کردار اور صلاحیت کار کے اعتبار سے اسلام کے اچھے نمایندے ہوں اور ریاست کے وسائل کو امانت تصور کرتے ہوئے عوام کی خدمت اور پاکستان کی اسلامی خطوط پر تعمیروترقی کے لیے استعمال کریں۔

اسی غرض کے لیے جماعت اسلامی پُرامن، آئینی اور جمہوری طریقوں سے نظامِ حکومت کو بدلنا چاہتی ہے۔ اس کے پیش نظر پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنانا ہے:

  •  جو قرآن و سنت کے اِتباع کی پابند اور خلافت ِ راشدہ کے نمونے کی پیرو ہو اور  جس میں اسلام کے اصول و احکام پوری طرح کارفرما ہوں،
  • جوبُرائی کو مٹائے، نیکی کو پروان چڑھائے اور دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرے،
  •  جوظلم، استحصال اور اخلاقی بے راہ روی کی ہرشکل کو مٹائے،
  • جو اسلامی اقدار کی بنیاد پر معاشرے کی تعمیر نو کرے اور زندگی کے ہر پہلو میں عدل قائم کردے،
  • جوایک خادمِ خلق ریاست ہو، ہر شہری کو اُس کی بنیادی ضروریات (غذا، لباس، مکان، تعلیم اور علاج) کی فراہمی کی ضمانت دے، رزقِ حلال کے دروازے کھولے، کسب ِ حرام کے دروازے بند کرے۔ تمام جائز ذرائع سے ملک کی دولت بڑھائے اور اس دولت کی مُنصفانہ تقسیم کا انتظام کرے،
  • جولوگوں کے چیخنے چلّانے سے پہلے اُن کی ضرورتوں کو سمجھے، اور فریاد سے پہلے اُن کی مدد کو پہنچے،
  • جودرحقیقت عوام کی خیرخواہ ہو اور عوام اس کے خیرخواہ، جس میں لوگوں کے تمام بنیادی حقوق پوری طرح محفوظ ہوں،
  • جوصحیح معنوں میں ایک جمہوری حکومت ہو، عوام اپنی آزاد مرضی سے جن لوگوں کو اس کا اقتدار سونپنا چاہیں، وہی انتخابات کے ذریعے سے برسرِاقتدار آئیں، اور عوام جنھیں اقتدار سے ہٹانا چاہیں انھیں انتخابات کے ذریعے سے بآسانی ہٹایا جاسکے۔

یہ ہیں جماعت اسلامی کے مقاصد___ جو لوگ اِن مقاصد سے اتفاق رکھتے ہوں، انھیں ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان کے حصول میں ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ (منشور جماعت اسلامی)

جماعت اسلامی، ماضی کی طرح آج بھی فرد، معاشرے اور حکومت کی سطح پر ان تمام تبدیلیوں کو رُوبہ عمل لانے کے لیے مصروفِ عمل ہے، جو اسلام کو مطلوب ہیں اور جو ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے ناگزیر ہیں۔ ان شاء اللہ، نومنتخب امیر جماعت کی قیادت میں ہمارا سفر روزِاوّل کے سے عزم اور ایمان و ایقان کے ساتھ جاری رہے گا!

دعوتِ اسلامی اورآزمایش کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرنے اور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلانے کی دعوت و تحریک کو کبھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا گیا۔ اقبال نے تاریخ کی گواہی کو کس خوب صورتی سے بیان کیا ہے    ؎

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز

چراغ مصطفویؐ سے شرارِ ُبولہبی

اور اللہ تعالیٰ نے خود بھی اپنی راہ میں جدوجہد کرنے والے بندوں کو آگاہ کردیا تھا، بلکہ بہ الفاظ صحیح تر متنبہ کردیا تھا کہ کامیابی کی منزل کش مکش، آزمایش اور ابتلا کے مراحل سے گزر کر ہی حاصل ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں بار بار خاک و خون کے دریا پار کرنا ہوں گے اور پھر ان شاء اللہ آزمایش کی بھٹی میں سونے کو سہاگا بنانے والے اس عمل سے گزرنے والوں ہی کو غلبہ و کامیابی نصیب ہوگی:

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا ط سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَo (العنکبوت ۲۹:۲-۴) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاںکہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمایش کرچکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔ اور کیا وہ لوگ جو بُری حرکتیں کر رہے ہیں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں گے؟ بڑا غلط حکم ہے جو وہ لگا رہے ہیں۔

پھر اللہ نے اپنے بندوں کو یہ بھی بتا دیا کہ کس کس قسم کی آزمایشوں سے ان کو گزرنا پڑے گا:

وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ o الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ o اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ قف وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۷) اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں  مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ انھیں خوش خبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں۔

مقابلے کا راستہ بھی بتا دیا کہ وہ صبر اور صلوٰۃ کا راستہ ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ ط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ گویا استقامت اور دعوتِ حق پر قائم رہنا اور شر اور ظلم و زیادتی کا بھی خیر اور صلاح کے ذریعے مقابلہ کرنے میں کامیابی کا راستہ ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ج وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ o نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ o وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ o وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ o وَمَا یُلَقّٰھَآ اِِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰھَآ اِِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ o (حم السجدہ ۴۱:۳۰-۳۵) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی، یہ ہے سامانِ ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفورورحیم ہے‘‘۔

اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور  نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔  تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر   ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔ اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اُکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ  مانگ لو، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

آزمایش اور مقابلے کی حکمت عملی

ان آیاتِ مبارکہ میں ہمارے رب نے ہمیں ان مراحل سے بھی آگاہ کردیا جن سے  اہلِ حق کو گزرنا پڑتا ہے، اور ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی اور راہِ عمل کی طرف بھی رہنمائی فرما دی جس کے ذریعے مخالفتوں کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ جواب میں انتقام اور    بدی کے بدلے بدی کا راستہ اختیار کرنے سے منع فرما دیا اور صبرواستقامت اور حق و شرافت کے ہتھیاروں سے غلط فہمیوں کو دُور کرنے اور انسانوں کے دل میں خیر کا جو عنصر ودیعت کیا گیا ہے، اسے بیدار کرکے نیکی کی راہ کو غالب کرنے کی جدوجہد کو اختیار کرنے کی ہدایت کی جارہی ہے۔    واضح رہے کہ صبرواستقامت کا راستہ عدل و انصاف سے عبارت ہے۔ انتقام اور ظلم و زیادتی اختیار کرنا مقصد کو فوت کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں، اور انسانی زندگی ایک خرابی کے بعد دوسری خرابی کی آماج گاہ بن جاتی ہے۔ اصلاح اورخیر کا راستہ بدی کو نیکی اور بھلائی سے دُور کرنا ہے اور جہاں غلط کار قیادت اور اُولی الامرکے غلط فیصلوں اور اقدام پر مداہنت کا راستہ بند کیا ہے، وہیں اصلاحِ احوال کے لیے  اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے ہی کو اختیار کرنے اور اس پر قائم رہنے کی ہدایت کی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط  ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًاo  (النساء ۴:۵۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو   تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔

تمام اہلِ ایمان کو خواہ وہ اصحاب امر ہوں یا عام افراد، عدل و انصاف پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی ہدایت فرمائی گئی ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَ اتَّقُوْا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَo  (المائدہ ۵:۸) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو،  اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

عالمِ عرب اور اخوان

اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو ’اُمت وسط‘ قرار دیا ہے اور اُمت کے افراد کے درمیان  بلالحاظ رُتبہ، نسل، اور حیثیت، وحدت اور اخوت کا رشتہ قائم کیا ہے اور ان کے باہمی تعلقات کو رحماء بینھم کے حسنِ تعلق کی شکل میں بیان فرمایا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ:

اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ  ___ دین ایک دوسرے کی خیرخواہی کا نام ہے۔

اصحابِ رسول رضوان اللہ اجمعین نے پوچھا: لمن؟ ’’کن سے؟‘‘

آپؐ نے فرمایا:

لِلّٰہِ  وَلِرَسُوْلہٖ وَلِکِتَابِہٖ وَلِاٰئِمَّۃِ المُسْلِمِیْنَ  وَعَامَّتَِھِمْ

اللہ سے، اللہ کے رسولؐ سے، اللہ کی کتاب سے، مسلمانوں کے اولی الامر سے اور عام مسلمانوں سے۔

نصیحت کا یہی وہ تعلق ہے جس کی بنا پر ہم مسلمان حکمرانوں، خصوصیت سے عرب دنیا کے حکمرانوں کو پوری دل سوزی کے ساتھ دعوت دیتے ہیں کہ مصر میں عالمِ عرب کی سب سے بڑی اسلامی تحریک اخوان المسلمون کے ساتھ اس وقت جو ظلم ہو رہا ہے، نہ اس پر خاموش تماشائی بنیں اور نہ کسی طرح بھی اور کسی شکل میں بھی ظلم کرنے والوں کے لیے تقویت کا ذریعہ بنیں۔ صحیح راستہ اس ظلم کو رُکوانے اور مصر کی حکومت کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کا ہے جس کے لیے ہر صاحب ِ امر اور صاحب ِ خیرکو متحرک ہوناچاہیے۔ اُمت مسلمہ کا اجتماعی ضمیر اس باب میں یکسو ہے کہ جس طرح مصر میں ایک منتخب صدر کو ہٹایا گیا ہے اور پھر جس طرح اخوان المسلمون اور دوسرے تمام  جمہوریت پسند عناصر کو نشانۂ ظلم وستم بنایا جارہا ہے وہ حق وا نصاف کا خون ہے اور خود مصر اور عالمِ عرب کے مفاد سے متصادم ہے۔

اسلام اور اسلامی تحریکات کے خلاف جو عالم گیر جنگ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے برپا کی ہوئی ہے اور جس کی فکر ی نکیل اسرائیل اور صہیونی عناصر کے ہاتھ میں ہے، ہمارے حکمرانوں کو اس ناپاک کھیل کو سمجھنا چاہیے اور تصادم کی جگہ افہام و تفہیم کے ذریعے اسلامی اقدار  کی پاس داری، ملک کے دستور اور قانون کے احترام اور جمہوری روایات کے فروغ کے راستے کو اختیار کرنا چاہیے۔ اس میں سب کے لیے خیر ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر عرب اور مسلمان ملک اپنی آزادی، سلامتی اور اسلامی شناخت کی حفاظت کرسکتے ہیں۔

اخوان المسلمون ایک نظریاتی، اصلاحی اور جمہوری تحریک ہے۔ غلطی سے پاک کوئی انسانی کوشش نہیں ہوسکتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اخوان المسلمون ایک خیر کی دعوت ہے، اور اس نے اپنی ساری جدوجہد اسلامی مقاصد کے حصول کے لیے اخلاقی آداب اور معروف جمہوری روایات کے دائرے میں انجام دی ہے، اور عرب اور مسلم دنیا کے حقیقی مفادات کے تحفظ اور مسئلۂ فلسطین کے منصفانہ حل کے لیے اس کی خدمات نوشتۂ دیوار ہیں۔ مصر میں فوجی حکمران اسے جس طرح     نشانہ بنائے ہوئے ہیں، وہ ایک صریح ظلم اور خود مصر، فلسطین اور عالمِ عرب کے حقیقی مفادات پر ضربِ کاری ہے۔ ان حالات میں مظلوم کی مدد تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔

اس پس منظر میں ہمیں اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی حکومتوں کا مصر کی تقلید میں اخوان المسلمون اور حماس کو ’دہشت گرد‘ تنظیمیں  قرار دینا نہایت تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے۔ الدین نصیحۃ پرعمل کرتے ہوئے ہم پوری  دل سوزی سے ان تمام حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے رویے پر نظرثانی کریں اور حق و انصاف کے تقاضوں کی پاس داری کرتے ہوئے اس روش کو تبدیل کریں اور خود مصر میں اصلاح احوال کے لیے مثبت کردار ادا کریں، ورنہ اُمت میں مزید انتشار بڑھے گا اور حکمرانوں اور عوام میں خلیج وسیع تر ہوگی، اور خود عرب ممالک میں اختلاف اور تقسیم در تقسیم کی کیفیت پیدا ہوگی، جو اُمت کے مفادات کے خلاف ہے اور جس سے ہمارے دشمنوں کے عزائم کو تقویت ملے گی۔

اخوان المسلمون کا موقف

اخوان المسلمون کوئی خفیہ تنظیم نہیں۔ وہ ۱۹۲۸ء سے دعوت و اصلاح کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ ہزاروں صفحوں پر پھیلا ہوااس کا لٹریچر، اس کی فکر، دعوت، طریق کار اور خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس نے ابتلا اور آزمایش کے اَدوار میں بھی اپنے اصولی، اصلاحی ، اخلاقی اور جمہوری مسلک پر پوری استقامت سے قائم رہ کر عوام کے دلوں میں اَنمٹ مقام بنالیا ہے۔ محض مغربی اقوام کے پروپیگنڈے اور مصر میں جمہوریت کا خون کرنے والے عناصر کے بیانات سے اخوان المسلمون کی ۸۰سالہ جدوجہد کو پادر ہوا نہیں کیا جاسکتا۔ ہم مصر کے حکمرانوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ شخصی اقتدار کی خاطر مصر، فلسطین، عرب دنیا اور مسلم اُمت کے حقیقی مفادات کو قربان نہ کریں، اور تصادم کی جگہ حق و انصاف پر مبنی مفاہمت کی راہ اختیار کرکے تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے کا راستہ اختیار کریں، اور ان عرب ممالک کے ارباب حل و عقد سے بھی اپیل کرتے ہیں جو اخوان کی مخالفت کے ناقابلِ فہم راستے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور مسلمان عوام میں اضطراب اور مایوسی میں اضافہ کرنے کا باعث ہورہے ہیں کہ وہ اپنے رویے پر نظرثانی کریں۔

 اخوان المسلمون نے چند عرب حکمرانوں کے حالیہ اعلان پر جس ردعمل کا اظہار کیا ہے،  وہ بڑا محتاط اور اصلاحِ احوال کے لیے ایک حکیمانہ ردعمل ہے۔ اخوان المسلمون کے اس سرکاری بیان پر ٹھنڈے دل سے اور اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے، جس کی ہم اُمت مسلمہ کے تمام ہی اولی الامر کو خصوصیت سے دعوت دیتے ہیں۔

اخوان المسلمون کے مطابق: ’’سعودی وزارتِ داخلہ کی جانب سے اچانک اخوان کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے پر اخوان المسلمون کو انتہائی حیرت ہوئی ہے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ فیصلہ اس مملکت کی طرف سے سامنے آیا ہے، جسے عوامی مفادات کے تحفظ، اُمت مسلمہ کی وحدت، معاشرتی اور قومی تعمیروترقی میں مؤثر کردار ادا کرنے اور صحیح اسلامی فکر کی ترویج کے لیے اخوان کی کوششوں کا سب سے زیادہ علم ہے اور جس نے ان مساعی کو ہمیشہ سراہا ہے۔ سعودی عرب اس راستے میں اخوان کو پیش آنے والی تکالیف اور آزمایشوں سے بھی بخوبی آگاہ ہے۔

اخوان اس حوالے سے درج ذیل وضاحت ضروری سمجھتی ہے:

  • ملکی اُمور میں عدم مداخلت کے مستقل اصول پر قائم رہتے ہوئے ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ سعودیہ کی جانب سے سامنے آنے والا حالیہ موقف، مملکت کے بانی کے دور سے لے کر   آج تک جماعت کے ساتھ سعودیہ کے تعلقات کی پوری تاریخ کے بالکل برعکس ہے۔
  • تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ الاخوان المسلمون کی جماعت ہرطرح کے غلو اور انتہاپسندی سے دُور رہتے ہوئے صحیح اسلامی فکر اور سوچ کی ترویج و اشاعت میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔ اس امر کی گواہی مملکت کے متعدد اکابر علماے کرام اور حکام بھی کئی بار دے چکے ہیں۔

سعودی عرب میں بھی تمام لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ اخوان ہمیشہ علی الاعلان کہتی رہی ہے کہ جس حق پر وہ ایمان رکھتے ہیں، وہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ کی تعلیمات سے ماخوذ طریقۂ کار ہے اور نص صریح اور دلیل واضح پر مبنی ہے۔

  • اخوان، عالمِ اسلام کے ممالک کی سیاسی قیادت کے ساتھ واضح نظریاتی نقطہ ہاے نظر کی بنیاد پر تعامل کرتی ہے، جن میں سب سے اہم یہ اعتقاد ہے کہ ہمارے معاشرے مسلم معاشرے ہیں۔ ہمارے اور ان کے مابین اور ان مسلم معاشروں کی مختلف سیاسی قوتوں اور حکومتوں کے   مابین نصیحت و خیرخواہی کا تعلق ہے نہ کہ دوسروں کو کافر یا خائن قرار دینے کا۔ اخوان نہ تو کسی ملک کو کافر قرار دیتی ہے، نہ مرتد کہ جس کی وجہ سے وہ اس کی دشمنی اور تصادم مول لے۔ اسی اصول کی بناپر سعودیہ کے ساتھ اخوان کا تعلق بھی صرف اور صرف خیرخواہی اور مشورے پر مبنی ہے۔
  •  اخوان کو اپنے نظریات اور فکر پر فخر ہے اور تمام مسلم معاشروں کے عوام کے ساتھ وابستہ اپنی تاریخ پر بھی۔ اس نے ہمیشہ اسلام کے جامع مفہوم کو اپنی دعوت کی پہچان بنایا ہے اور آیندہ بھی اسے اپنا بنیادی تعارف قرار دیتے ہیں۔ اخوان تقریباً ہرمسلمان ملک میں اُمت کا حصہ ہے اور اسی بنیاد پر وہ اُمت مسلمہ، عالمِ اسلام اور عوام کے مسائل حل کروانے کے لیے اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے۔

جماعت اخوان ہرشہری کی آزاد اور عزت بخش زندگی یقینی بنانے کے لیے سیاسی میدان میں ملک کے تمام شہریوں سے تعاون پر یقین رکھتی ہے۔ سیاسی، دینی یا مذہبی اختلافات کے باوجود مختلف قومی شخصیات و جماعتوں سے اشتراک و اتحاد کرتی ہے اور یہ واضح اعلان کرتی ہے کہ وہ اسلام کے نام پر لوگوں کی نگران یا ٹھیکے دار نہیں بنائی گئی۔ جماعت اخوان اعلیٰ اخروی ہدف رکھتی ہے اور اس کا حصول تمام نظریاتی، معاشرتی، سیاسی اور دینی گروہوں سے گفت و شنید کے ذریعے ہی ممکن سمجھتی ہے۔

اخوان خیرخواہی کی راہ پر چلتے او رملک و قوم کے مفادات کے برعکس کیے جانے والے ہراقدام کی مخالفت جاری رکھتے ہوئے یہ واضح کرتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی اور اصلاحی جدوجہد کو کسی بھی ملک میں محض کسی حکمران کی مخالفت کی بنیاد پر شروع نہیں کرتی۔ وہ ہرقسم کے تشدد، ایذارسانی اور انتہاپسندی سے دُور رہتے ہوئے حکمت پر مبنی دعوت اور خیرخواہی پر مبنی نصیحت پر یقین رکھتی ہے‘‘۔

مسلم اُمّہ کا ردعمل

پاکستان کے عوام اُمت مسلمہ کی عظیم اکثریت کی طرح اخوان المسلمون کو مظلوم سمجھتے ہیں اور چند عرب حکمرانوں کے اخوان کو دہشت گرد جماعت قرار دینے پر بے حد مغموم اور مضطرب ہیں۔ تمام اسلام پسند قوتیں تو اس پر دل گرفتہ اور شکوہ سنج ہیں ہی لیکن خود لبرل عناصر بھی اس پر اپنے انداز میں تنقید کررہے ہیں اور عرب حکمرانوں کو اپنے رویے پر نظرثانی کی دعوت دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں روزنامہ ڈان کے ادارتی تبصرے کے چند اقتباس پاکستان کی مجموعی راے عامہ جو ہرطبقے اور مکتب فکر کے دل کی آواز ہے، کو سمجھنے میں ممدومعاون ہوں گے:

سعودی عرب کے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے فیصلے سے  قدامت پسند بادشاہت کے اُس وہم کے پیش نظر تعجب نہیں ہونا چاہیے، جو وہ نہ صرف انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے کھڑی ہونے والی تحریکوں بلکہ ان اسلامی گروپوں یا تحریکوں کے بارے میں بھی رکھتی ہے جو جمہوریت پر یقین رکھتی ہیں۔ اخوان المسلمون کا اپنا ایجنڈا ہوسکتا ہے اور اس کے اپنے اہداف اور مقاصد ہوسکتے ہیں جو زمانے کے تقاضے کے مطابق نہ ہوں، لیکن ایک طویل مدت سے حسن البنا کی قائم کردہ یہ جماعت اقتدار حاصل کرنے کے لیے جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہے۔

لیکن ریاض نے اخوان کی منتخب حکومت، جس کے سربراہ محمدمرسی تھے، کو برطرف کرنے والے فوجی انقلاب کو خوش آمدید کہا۔ صرف سعودی عرب ہی اس میں تنہا نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں خلیج کی دو اور بادشاہتوں___ امارات اور بحرین___  نے قطر سے اپنے سفیرا واپس بلوا لیے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ قطر مصر میں غلط گھوڑے کی  پشت پناہی کر رہا ہے۔

سیاسی تحریکوں پر پابندیاں لگانے یا عسکریت پسند گروپوں کو پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کے مؤثر ہونے کی اُمید نہیں۔ ان کے برعکس نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ ان حکومتوں کی یہ ضرورت ہے کہ اپنے ممالک اور معاشروں میں وسعت پیدا کریں اور اختلاف راے اور عوام کی مرضی کو جگہ دیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔حقیقت یہ ہے کہ شرقِ اوسط کے علاقے کی مطلق العنان حکومتوں کو اب اپنی داخلی اور علاقائی پالیسیوں پر ازسرِنوغوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ تبدیلی لانے والی عرب بہار کا تقاضا ہے کہ بنیاد پرستوں سے پہلے ہر ایک ازسرِنو غوروفکر کرے۔(روزنامہ ڈان، ۱۰مارچ ۲۰۱۴ء)

یہ جذبات و احساسات صرف پاکستانی مسلمانوں ہی کے نہیں ہیں، درحقیقت پوری دنیا کے مسلم عوام کے ہیں جو بالعموم اور خصوصیت سے دینی قوتیں مصر اور چند عرب ممالک کے اس رویے پر بے حد مایوس ہوئی ہیں اور اسے حق و انصاف کے خلاف اور اُمت مسلمہ کے مفادات سے متصادم سمجھتی ہیں۔ ان ممالک کے حکمرانوں اور اربابِ حل و عقد کو مسلمان عوام کے جذبات کے بارے میں ضروری حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بھارت کے مسلمانوں کے جذبات کا اندازہ   نئی دہلی سے شائع ہونے والے Home Slider ___ Indian Muslims کی اس رپورٹ سے ہوسکتا ہے جو ۱۵مارچ کو شائع ہوئی ہے:

اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے پر سعودی حکمرانوں کی مذمت برابر    بڑھ رہی ہے۔ دارالعلوم ندوۃ العلما کے بعد نمایاں مسلم علما اور تنظیموں نے سعودی حکومت کو اخوان اور حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے پر سخت لتاڑا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سعودی حکمرانوں نے جو حرمین شریفین کے والی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، پوری دنیا میں مسلمانوں کو اپنے اس غیرمنصفانہ اور خلافِ اسلام فیصلے سے تکلیف پہنچائی ہے۔

جماعت اسلامی ہند، مرکزی جمعیت علما، آل انڈیا دینی مدارس بورڈ اور بہت سی   دوسری مسلم تنظیموں نے سعودی عرب کے مصر میں قائم ہونے والی اخوان المسلمون کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے فیصلے پر سخت تنقید کی ہے اور اُمید کی ہے کہ   سعودی بادشاہت فوری طور پر فیصلے پر نظرثانی کرے گی۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا جلال الدین عمری نے کہا کہ اخوان المسلمون نے جس تحریک کا آغاز کیا ہے وہ اسلامی اصولوں پر مبنی ہے۔ اس لیے اس پر پابندی یقینا پوری مسلم دنیا کو تکلیف دے گی۔ انھوں نے کہا کہ اخوان المسلمون ایک بین الاقوامی اصلاحی اور سماجی تنظیم ہے، اور حماس وہ تنظیم ہے جو شرق اوسط میں صہیونی ریاست کا بے خوفی سے مقابلہ کررہی ہے۔

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا عیسٰی منصوری، فتویٰ موبائل سروس کے      مفتی محمدارشد فاروقی، مدارس بورڈ کے سربراہ مولانا یعقوب بلندشہری اور جمعیت کے سیکرٹری مولانا فیروز اختر قاسمی نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ سعودی حکمرانوں نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دے کر ایک بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ انھوں نے شاہ عبداللہ اور سعودی عرب کے سرکردہ علما سے اپیل کی ہے کہ اخوان کے بارے میں اس فیصلے کو واپس لیں۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ ساری دنیا کے مسلمان  سعودی عرب کے اس اقدام کی مذمت کریں گے اور مزاحمت کریں گے۔ انھوں نے اُمید ظاہر کی کہ سعودی علما سعودی حکمرانوں کو قائل کریں گے کہ وہ اس فیصلے کو     واپس لیں۔ سعودی علما کا یہ فرض ہے کہ اپنے حکمرانوں پر اس حوالے سے دبائو ڈالیں، اس لیے کہ تمام مسلمان اس اقدام پر مشتعل ہیں۔

انھوں نے توجہ دلائی کہ مسلمان سعودی عرب کا بہت احترام کرتے ہیں، اس لیے کہ یہاں اسلام کے مقدس مقامات موجود ہیں، جب کہ اس ملک کے مطلق العنان حکمرانوں کے لیے جو مغربی طاقتوں کے آلۂ کار ہیں، ان کے پاس کوئی محبت نہیں ہے۔ اس سے قبل دارالعلوم ندوۃ، لکھنؤ کا تاریخی ادارہ سعودی وفد کی آمد پر اس کی تحقیر کرکے اس ضمن میں سبقت لے گیا۔

اُمت کو درپیش چیلنج

اسلام اور اُمت مسلمہ کے دشمنوں اور مخالفین کی کوشش ہے کہ مسلمانوں میں انتشار اور تصادم بڑھے اور مسلمان اپنی تمام قوتوں کو یک جا کرکے اصل مخالفین کا مقابلہ کرنے کے بجاے  ایک دوسرے کا گریبان چاک کرنے اور اندرونی خلفشار اور جنگ و جدال میں اُلجھ کر اپنی قوت کو پارہ پارہ کرلیں۔ ہنری کسنجر نے تو ۱۹۶۰ء کی دہائی میں کہا تھا کہ: ’’مشرق وسطیٰ کو قابو میں رکھنے   اور اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے شرق اوسط کو فرقہ واریت اور لسانی اور نسلی گروہ بندیوں کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کیا جائے‘‘۔

چار سال پہلے تیونس سے عوامی انقلاب اور عرب دنیا کی بیداری کی جو نئی لہر اُبھری تھی،  اس نے مغربی دنیا میں خطرے کی گھنٹیاں بجادیں۔ ترکی اور عرب دنیا میں جو قربت ترکی میں طیب اردگان کی قیادت کی کوششوں سے رُونما ہورہی تھی، اس نے اسرائیل اور امریکاو یورپ کے حکمرانوں کی نیندیں حرام کردیں۔ عراق اور افغانستان میں امریکی افواج کی ناکامی نے اس علاقے کے بارے میں جو امریکا اور یورپ کے عزائم تھے، ان کو خاک میں ملا دیا ۔ ان حالات میں ایک بار پھر مسلمان اور عرب ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے اور عوام کو شیعہ اور سُنّی، ترک اور کرد، عرب اور عجم، بنیاد پرست اور لبرل، مسلمان اور قبطی کی تقسیم اور ان کے درمیان تصادم کی راہ پر ڈالنے کی سرتوڑ کوششیں ہورہی ہیں۔

 ان حالات میں عوام اور حکمران سب کے لیے ضروری ہے کہ مخالفین کے کھیل کو سمجھیں اور اپنی صفوں میں انتشار اور خلفشار کو راہ نہ پانے دیں۔ ذاتی، گروہی اور دوسری عصبیتوں اور مفادات کی سطح سے بلند ہوں اور ایک دوسرے کو کھلے دل سے تسلیم کر کے مشترکات کی بنیاد پر تعاون کی راہیں استوار کریں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسلام اور اُمت مسلمہ کے مفاد کی بنیاد پر نئی سوچ اختیار کی جائے اور مفاہمت اور تعاون کے ذریعے ایک دوسرے کی تقویت کا ذریعہ بنا جائے۔ ہم پوری   دل سوزی سے مصر کے حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اخوان المسلمون اور دوسری اسلامی اور جمہوری قوتوں کو نشانہ بنانے کے بجاے انھیں اتحادِ اسلامی اور تعمیرنو کی جدوجہد میں اعوان و انصار کا درجہ دیا جائے۔ اس کے نتیجے میں ان شاء اللہ سب کے لیے خیر اور استحکام کا حصول ممکن ہوگا،      جو اُمت کی تقویت کا باعث ہوگا۔ اور اس طرح مسلمان اپنے گھر کی اصلاح کے ساتھ انسانیت کی تعمیرنو میں ایک اہم کردار ادا کرسکیں گے۔

تحریک طالبان کے ساتھ مذکرات ہونے چاہییں یا اس کے خلاف آپریشن؟ بیک وقت مذاکرات اورآپریشن کافیصلہ سود مندہوگا یا نہیں؟ مذاکرات آئین پاکستان کے تحت ہونے چاہییں یا کسی شرط کے بغیر؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج کل ہر جگہ موضوع بحث ہیںاور پاکستان کی سلامتی و بقا کو درپیش خطرات کو ان کی کامیابی و ناکامی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

 بلاشبہ دہشت گردی اس وقت پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے اور اس عفریت نے ریاست اور معاشرے کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر امریکا نے جس جنگ کا آغاز کیا تھا وہ افغانستان سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئی ہے۔ اس جنگ میںجو اصلاً اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تھی،پاکستان فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر شامل ہوا تھا۔ ہم نے اس جنگ میں شمولیت کے وقت ہی آگاہ کر دیا تھا کہ افغانستان بہانہ اور پاکستان نشانہ ہے۔وقت اور حالات نے ہمارے موقف کو ثابت کر دیا ہے۔ اس مذموم جنگ کو اب ۱۲ سال ہونے کو ہیں، اور جس دن سے  ہم اس میں شامل ہوئے ، اسی دن سے تباہی و بربادی ہمارا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔ ملک کے ہر کونے میں دہشت گردی پھیل گئی ہے، اوراس کی جتنی قسمیں ہو سکتی ہیں، وہ سب ہمارے ملک میں موجود ہیں اور دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں۔فرقہ وارانہ اور مسلکی دہشت گردی بھی موجود ہے، لسانی و علاقائی دہشت گردی بھی روز افزوں ہے،بھتہ و لینڈمافیا بھی لوگوں کی جانیں لے رہا ہے، بھارتی دہشت گردی کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے، اور امریکی دہشت گردی بھی پھن پھیلائے کھڑی ہے۔

میاں محمد نوازشریف کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اپنے  انتخابی وعدے کے مطابق وہ اس جنگ سے نکلنے کے لیے ایک ٹھوس اور مربوط لائحہ عمل قوم کے سامنے پیش کریں گے۔ اگرچہ ایک عرصے تک حکومت کی طرف سے اس پر خاموشی رہی مگر دبائو بڑھا تو وزیراعظم نے پہلے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس نے دہشت گردی سے نجات کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، اور بعد ازاں قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے امن کو آخری موقع دینے اور مذاکرات کا اعلان کیا۔ چنانچہ حکومت اور طالبان کی طرف سے مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور اس حوالے سے ابتدائی ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن بعض ناخوش گوار واقعات کی وجہ سے مذاکرات کا یہ سلسلہ رک گیا۔ اب حکومت نے قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا ہے جس میں بیک وقت مذاکرات اور آپریشن کی بات کی گئی ہے۔ ہمارے خیال میں پالیسی جو بھی ہو،    دہشت گردی کا سدباب اس وقت تک ممکن نہیں ہے، جب تک ڈور کا سرا ہاتھ نہ آئے اور ڈور کا سرا ’دہشت گردی کے نام پرامریکی جنگ‘ ہے۔ امریکا خطے میں موجود رہا اور نام نہاد جنگ جاری رہی  تو صحیح معنوں میں کوئی پالیسی کارگر نہیں ہو سکے گی۔ کیونکہ امریکا اور بھارت مل کر افغانستان کے راستے سے بھی اور براہ راست پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بھی اس جنگ کو ہوا دے رہے ہیں، اور اس کو بھڑکائے رکھنے کے لیے مذہب، فرقے، لسانیت اور علاقائیت، ہر طرح کے کارڈز اور ذرائع اور وسائل استعمال کر رہے ہیں۔

پاکستان کا اصل المیہ

 پاکستان کااصل المیہ یہ ہے کہ اس نے امریکی خوشنودی کی خاطر اس جنگ میں ۱۰۰؍ ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھایا۔ انفرا سٹرکچر تباہ ہو گیا،معیشت اور معاش دونوں بربادی کی نذر ہو گئے اور قوم کا مستقبل دائو پر لگ گیا۔ حساس ہوائی اڈے امریکا کے حوالے کر دیے گئے،انٹیلی جنس نیٹ ورک فراہم کیا گیا ،لاجسٹک سپورٹ دی گئی اور ہر قسم کی مراعات مہیا کی گئیں، لیکن اس کا صلہ یہ دیا گیا کہ نہ صرف پاکستان پر ڈبل گیم اور دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگایا گیا بلکہ امریکا نے بڑے آرام سے ایبٹ آباد آپریشن کیا۔سلالہ پر حملہ کرکے فوجی جوان شہید کیے، ڈرون سے میزائل برساکر ہزاروں لوگوں کوقتل کیا، افغانستان میں بھارت کو تخریبی سرگرمیاں منظم کرنے کی اجازت دی اور پاکستانی سرزمین پرخود اس کے ریمنڈڈیوس نیٹ ورک جیسے درجنوںـ نیٹ ورک کام کرتے ہیں۔ اگر امریکا اس خطے میں موجود رہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر یہ سارا کھیل    بھی جاری رہتا ہے اور ہم اس کا حصہ بنے رہتے ہیں، تو کوئی اچھی سے اچھی پالیسی بھی کارگر نہیں ہوسکے گی۔

سنجیدہ حلقے حکومت اور ریاستی اداروں کو بارہا متوجہ کر چکے ہیں کہ پاکستان میں امن و امان کے قیام اور ترقی و خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ خارجہ پالیسی کو ازسر نو ترتیب دیا جائے، اور امریکی مفاد کو قومی مفاد قرار دینے کے دھوکے سے نکل کر صحیح معنوں میںاپنے مفاد کو ملحوظخاطر رکھ کر پالیسی بنائی جائے۔ اس پالیسی کا بنیادی نکتہ یہ ہو کہ امریکی جنگ سے فوری طور پر باہر نکلنے کا اعلان کیا جائے۔ اس ایک اعلان سے ہی دہشت گردی اور افراتفری میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ پھر فاٹا سے بلوچستان تک مذاکرات کے ذریعے معاملات اور مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بعد بھی اگر بعض گروہ امریکی و بھارتی شہ پر اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں سے باز نہ آئیں تو قانون کے مطابق آہنی ہاتھ سے ان کا قلع قمع کرنا چاہیے۔

آپریشن نھیں مذاکرات

پہلے پیپلزپارٹی اوراب ن لیگ کے دور حکومت میں پارلیمنٹ کے جتنے مشترکہ اجلاس ہوئے ہیں، وزراے اعظم نے آل پارٹیز کانفرنسز بلائی ہیں یا مختلف سیاسی جماعتوں نے اس کا اہتمام کیا ہے، ان سب کی متفقہ قراردادوں میں مسئلے کے فوجی حل کی مخالفت کی گئی ہے اور مذاکرات کو مسئلے کا حل قرار دیا گیا ہے۔ لیکن جن لوگوں کے ہاتھ میں زمام کار ہے، انھوں نے پارلیمنٹ اور عوام کے جذبات کو یکسر نظرانداز کر تے ہوئے امریکا کے اشارہ چشم و ابرو پر عملاً انھیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ بطور ایک سیاسی جماعت کے ،جماعت اسلامی نے مسلسل مذاکرات کے حق اور فوجی آپریشن کی مخالفت میں بات کی ہے۔ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے جماعت اسلامی آج نہیں ہمیشہ سے فوجی آپریشن کی مخالفت کرتی آرہی ہے اور سیاسی مسائل کے سیاسی حل کی بات کرتی رہی ہے، کیونکہ اس سے معاملات پوائنٹ آف نوریٹرن کی طرف جاتے ہیں۔ فوج اور عوام میں خلیج بڑھتی ہے، اور ملک دولخت ہو جاتاہے۔ مشرقی پاکستان، بلوچستان، کراچی، فاٹا، کہیں بھی اس سے قبل فوجی آپریشن سے مثبت نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے۔ ایک اورآپریشن سے کیسے مثبت نتائج حاصل کیے جاسکیں گے۔ ماضی سے سبق حاصل کرنے کے بجاے ایک اور آپریشن کو نسخۂ کیمیا سمجھنا دانش مندی نہیں ہے۔ عاقبت نااندیش قیادت اورملک دشمن قوتیں    فوجی آپریشن کے ذریعے حالات کو ایک ناقابلِ واپسی مقام پر لے جانے کے لیے کوشاں ہیں، تاکہ جس طرح اس حکمت عملی کے نتیجے میں ۱۹۷۱ء میں پاکستان دولخت ہوا، اسی طرح ایک بار پھر وہ اپنے انھی مکروہ عزائم کو پورا کرسکیں۔

امریکا اور بہارت کی سازشیں، حکومت کی خاموشی

سیاسی و فوجی قیادت اِن کیمرہ اجلاسوں اور نجی محافل میں امریکا اور بھارت کی ان سازشوں کا ذکر کرتی ہے لیکن ان کا سدباب کرنے کے لیے عملاً کچھ کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے۔      امریکا و بھارت کی اب بھی یہی خواہش ہے کہ افواجِ پاکستان کو ایسی دلدل میں دھکیل دیا جائے، جہاں سے وہ نکل نہ پائے، ملک انتشار اور انارکی کا شکار ہو،اور اس کی آڑ میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو عالمی کنٹرول میں لینے اور اس کے حصے بخرے کرنے کا کھیل کھیلا جائے، نیز جموں و کشمیر میں جاری جدوجہد کو نقصان پہنچے اور بھارت خطے کے تھانیدار اور بالادست قوت کے طور پر سامنے آئے۔ وقت آگیا ہے کہ غیر ملکی ہاتھ کو نہ صرف پوری قوت کے ساتھ بے نقاب کیا جائے بلکہ اسے توڑنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔

سیاسی و فوجی قیادت جن میں وفاقی وزرا اور جرنیل شامل ہیں، ایک عرصے سے یہ بات کہہ رہی ہے کہ : ’’بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے اور عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے سازشیں کر رہا ہے‘‘۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ نہ تو بھارت سے باضابطہ طور پر کبھی احتجاج کیا گیا ہے اور نہ عالمی فورمز پر اس مسئلے کو اٹھایا گیا ہے۔ حال ہی میں ایک دفعہ پھر مسلح افواج کے ترجمان نے ’را‘ اور سی آئی اے کا نام لے کر یہ کہا ہے کہ ان کے کارندے پاکستان میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے اور انارکی پھیلانے میں ملوث ہیں۔ وزارت داخلہ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھارت کی تخریب کاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ امریکی سرپرستی میں ہونے والی بھارتی مداخلت کاری پر پارلیمنٹ کے ذریعے قوم کو اعتماد میں لے اور قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو ثبوت مہیا کرے ۔ امرواقعہ یہ ہے کہ اگر امریکی وبھارتی گٹھ جوڑ اور اس کی اس شرانگیزی کو طشت از بام کر دیا جائے تو میڈیا سے لے کر دہشت گردوںتک، اور این جی اوز سے لے کر آلہ کار سیاست دانوں تک، ان کے طرف دار چہرے قوم کے سامنے آجائیں گے۔

میاں محمد نوازشریف کی دانش مندی

 ہمارے خیال میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے صورت حال کی نزاکت اور سنگینی کا احساس کرتے ہوئے مذاکرات کو موقع دینے کا دانش مندانہ فیصلہ کیا اوراشتعال انگیزی اور مخالفانہ پروپیگنڈے کے باوجود اب تک انھوں نے اس حوالے سے صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا ہے۔ بعض ناخوش گوار واقعات کی وجہ سے مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہوا تو ہماری طرف سے انھیں یہی مشورہ دیا گیا کہ تعطل کے خاتمے کے لیے وہ خود آگے بڑھیں اور طالبان اور حکومتی کمیٹیوں سے خود ملاقات کرکے ملک میں امن کی راہ ہموار کریں۔ اس ملاقات میں وہ چاہیں تو فوج کے نمایندے بھی شامل کرسکتے ہیں۔ انھیں اس بات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ امریکا اپنے حلیف ناٹو کے ۴۶ممالک کی افواج اور جدید ترین اسلحے اور سازوسامان کے استعمال کے باوجود    پچھلے ۱۲برسوں سے افغانستان کو فتح کرنے میں ناکام رہا ہے۔آج امریکا اور افغان قیادت دونوں بعد از خرابی بسیار یہ راگ الاپنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ امن مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اگر فوجی قوت اور بندوق کی طاقت سے امن آنا ہوتا تو امریکا اور ناٹو افواج کب کا افغانستان کو  فتح کر چکی ہوتیں۔

نئی قومی سلامتی پالیسی کے تناظر میں حکومت پاکستان کا یہ فیصلہ کہ: جو گروہ دہشت گردی کے مرتکب ہوں گے، ان کے خلاف کارروائی ہوگی اور جومذاکرات کرنا چاہیں گے ان کے ساتھ مذاکرات ہوںگے، بظاہر متوازن پالیسی کا عکاس ہے ۔لیکن اس میں فیصلہ کن چیز یہ طے ہونا ہے کہ دہشت گرد کون ہیں اور مذاکرات کی میز پر کس کو بلایا جائے؟ ظاہر ہے کہ حکومت  کے پاس تمام ایجنسیاں موجود ہیں جو اس سلسلے میں رہنمائی بھی کرسکتی ہیں اور تعاون بھی دے سکتی ہیں۔

 میاں محمد نواز شریف چاہیں تواپنا ایک با اختیار وفد افغانستان کے طالبان اور ملا عمر سے رابطے کے لیے بھیج کر، ملک میں امن کی بحالی کے لیے ان سے مددلے سکتے ہیں۔ افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے اب تو امریکا بھی نہیں شرما رہا اور یہ وہی طالبان ہیں جن کے ساتھ    میاں نوازشریف کی سابقہ حکومت کے ریاستی اور سفارتی تعلقات تھے۔ ان سے رابطہ کاری میں میاں صاحب کو ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ رابطہ معاملات کو افہام و تفہیم کی پٹڑی پر لانے اور اصلی اور نقلی طالبان کی پہچان میں مددگار بن سکے گا۔

امن دشمن خفیہ ہا تھ

ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی خفیہ ہاتھ ایسا ہے، جو حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی سبوتاژ کر دیتاہے۔ حکومت کو ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے مہمند ایجنسی کے واقعے اور طالبان کے اس الزام کہ’’ ان کے ساتھیوں کی لاشیں پھینکی جارہی ہیں ‘‘کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کرانی چاہیے۔ مہمند ایجنسی میں ایف سی کے ۲۳؍ اہل کاروں کی شہادت اور ان کی لاشوں کی مبینہ بے حرمتی پر ہمیں شدید رنج ہے، اس کی ہم نے پرزور مذمت کی ہے اور ہمیں شہید اہل کاروں کے پس ماندگان سے دلی ہمدردی ہے۔ حکومت اور درد دل رکھنے والے تمام طبقات کو کھلی آنکھوں اور کھلے کانوں سے ایسی قوتوں کو قوم کے سامنے لانا چاہیے، جو مذاکراتی عمل کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھناچاہتیں اور جن کی پوری کوشش ہے کہ فوج اور طالبان کو آپس میں لڑا یا جائے اور اس کے نتیجے میں ملک بھر میں خوںریزی کا بازار گرم ہو۔ وزیراعظم اور وزیرداخلہ دونوں نے یہ کہاہے کہ جب بھی مذاکرات کسی اہم موڑ پر پہنچتے ہیں، کسی نادیدہ قوت کی طرف سے ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیںجس سے مذاکرات تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں، تو پھر وزیراعظم ہی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان شرانگیز قوتوں کی نشان دہی اور ان کے سدباب کے لیے مئوثر اقدامات کریں۔بلا لحاظ اس سے کہ ان کا تعلق کس فریق یا گروہ سے ہے۔

مذاکرات مخالف قوتیں یہ امید لگائے بیٹھی ہیں کہ مذاکرات ناکام ہوںگے اور اس کے بعد ان کے ایجنڈے کے مطابق ملٹری آپریشن شروع ہوجائے گا۔مذاکراتی عمل کو کسی تعطل کے  بغیر آگے بڑھتا دیکھ کر ان کی نیندیں اڑ گئی تھیں اور وہ اس عمل میں رکاوٹیں پیداکرنے کے لیے  ملک میں افواہ سازی کے ذریعے افراتفرای پھیلانے میں مصروف دیکھی گئی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان حا لات میں پوری قوم کو مذاکراتی کمیٹیوں کی پشت پر کھڑا نظر آنا چاہیے تاکہ حکومت کسی دبائو کے بغیر مذاکراتی عمل کو آگے بڑھاتی رہے۔اس حقیقت کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اصل مذاکرات حکومت اور طالبان کے درمیان ہی ہوں گے۔طالبان کمیٹی کے نام سے کام کرنے والی موجودہ کمیٹی صرف رابطہ کار اور مددگار کا کردار ادا کررہی ہے ،تاکہ حکومت اور طالبان کے درمیان پائے جانے والے خدشات دُورکرکے مذاکرات کے ماحول کو ساز گار بنایا جائے۔ امریکا اور بھارت کی تمام تر سازشوں اور رکاوٹوں کے باوجودمذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں، لیکن سیکولر اور اسلام مخالف لابی قوم کے اندر نااُمیدی اور مایوسی پھیلا رہی ہے،اور حکومت کو فوجی آپریشن کی طرف دھکیلنے کی ’خدمت‘ انجام دے رہی ہے۔

جوابی کارروائی

ایف سی اہل کاروں کی شہادت کے روح فرسا واقعے کے بعد جو ’جوابی کارروائیاں‘ کی گئی ہیں، دہشت گردوں کوبھی اس سے نقصان پہنچا ہوگا لیکن شنید یہی ہے کہ عام آباد ی اس سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ مہذب معاشرے میں عام شہریوں کو دوران جنگ بھی اندھا دھند بمباری کی لپیٹ میں لینے کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔کوئی ایسی مثال بھی ہمارے سامنے نہیں ہے کہ جس میں ایک ریاست نے اپنے ہی شہریوں کے خلاف فضائی قوت اور بھاری بمباری کا استعمال کیا ہو، یہاں تک کہ کشمیر پر قابض بھارتی افواج نے بھی ایسا نہیں کیاہے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے مجرموں اور عوام الناس کی جانوں سے کھیلنے والے قاتلوں کی گرفت ضروری ہے اور ان کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیے مگر یہ کارروائی قانون اور ضابطے کے مطابق ہی ہو، ایف ۱۶ اور کوبرا گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نہیں۔بڑے آرام سے یہ کہہ دینا کہ اس بمباری کے نتیجے میں صرف مجرمین اور دہشت گرد نشانہ بن رہے ہیں، ایک جسارت اور زمینی حقائق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔ہمارے نزدیک حکومت کا یہ دعوی درست نہیں ہے۔ معمولی سی دانش رکھنے والا انسان بھی یہ بات سمجھتا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کبھی جیٹ طیاروں کے ذریعے نہیں ہوا کرتی۔ اس سے خوف اور تباہی پھیلتی ہے، دہشت کی فضا بنتی اور افراتفری  جنم لیتی ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ آزاد میڈیا کے لیے حالات کی صحیح صحیح رپورٹنگ کا دروازہ    بند کردیا گیا ہے، اور ستم ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی نوحہ کر رہے ہیں کہ میران شاہ میں سویلین آبادی اور عورتیں اور بچے نشانہ بن رہے ہیں۔

جماعت اسلامی مذاکرا ت کی حامی کیوں؟

جماعت اسلامی کی جانب سے مذاکرات کے ذریعے امن کی خواہش کو بعض عناصرمنفی رنگ دے کر جماعت اسلامی پر طالبان کی نمایندگی کرنے کے بے سروپا الزام لگا رہے ہیں تاکہ وہ اپنے گھنائونے ایجنڈے کو پورا کرسکیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کو اسلام کا قلعہ اور امت کی امیدوں کا مرکز و محور سمجھتی ہے ۔ملکی سلامتی اور خود مختاری کے تحفظ کے لیے جماعت اسلامی کی قربانیوں کی پوری قوم معترف ہے اورہم ملک میں قیام امن کے دل و جان سے خواہاں ہیں، نیز  اس سلسلے میں ہماری مسلح افواج نے جو بھی مثبت خدمات انجام دی ہیں، ان پر ہمیں اور پوری قوم کو فخرہے۔ البتہ دستور کا احترام اور انصاف کے اصولوں کی مکمل پاس داری سب کے لیے ضروری اور ملک کے استحکام اور بقا کے لیے مرکزی اہمیت کی حامل ہے۔

جماعت اسلامی آئینی، دستوری اور جمہوری طریقے سے حکومتوں کی تبدیلی اور قانون سازی کی علَم بردار اور ملک میں خفیہ انجمن سازی اور تشدد کے ذریعے کسی ہدف کو حاصل کرنے کی مخالف ہے۔ اس ضمن میں اس کا دستور، تاریخ اور عمل گواہ ہے۔جماعت اسلامی کی اپنے ملک میں     فوجی آپریشن کی مخالفت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں مختلف انسانی المیے جنم لیتے ہیں۔  اس سے ہونے والا نقصان نفسیاتی، فکری اور اخلاقی بھی ہوتاہے اور مادی و جسمانی بھی۔ اس کا علاج اس وقت تک ممکن ہی نہیں ہوتا، جب تک آپریشن ختم نہ ہو۔

نقل مکانی، ایک بڑا انسانی المیہ

 فوجی آپریشن سے ایک بڑا مسئلہ نقل مکانی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ قبل ازیں بھی سوات اور فاٹا سے لوگوں نے ہجرت کی تھی اور پوری دنیا میں اپنے ملک کے اندر ہونے والی یہ سب سے بڑی ہجرت تھی۔اس وقت بھی جتنے بڑے پیمانے پر شمالی اور جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی ہورہی ہے وہ ایک انسانی المیے سے کم نہیں ہے۔ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں اگر لوگ ہجرت پر مجبور کر دیے جائیں ، ان کے گھروں کو مسمار اور مستقبل کو تاراج کر دیا جائے اوران کے بچوں کا جینا دوبھر کر دیا جائے، تو ایسی جگہ سے قانون کا احترام کرنے والوں کی نہیں بلکہ دہشت گردی اور انتقام لینے والوں کی کھیپ ہی کے رونما ہونے کا امکان زیادہ ہے ۔ حکومتی کارپردازوں کویہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ہجرت کرنے والے لوگ تاجک اور ازبک نہیںبلکہ پاکستانی ہیں اور بے بسی و بے چارگی اور درماندگی میں اپنی جان بچانے کے لیے ہجرت پر مجبور ہیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کو بالخصوص اور مرکزی حکومت کو بالعموم اس معاملے میں آگے بڑھنا چاہیے اور بے گھر ہونے والوں کوہر ممکن سہولتیں فراہم کرنی چاہییں۔ جماعت اسلامی بھی اس سلسلے میں مقدوربھر کوششیں کررہی ہے اور الخدمت فائونڈیشن نے اس سلسلے میں پیش رفت کی ہے لیکن ظاہر ہے کہ جو نیٹ ورک حکومت کا ہوسکتا ہے اس کو فوری طور پر بروے کار آنا چاہیے، تاکہ سردی کی شدت اور گھر بارچھوڑنے کے نتیجے میں جو مسائل پیدا ہورہے ہیں ان کا مقابلہ کیا جاسکے اور سب مل کر ایک دوسرے کی مدد کرسکیں۔ مہاجرین کے لیے جتنے بڑے پیمانے پر وسائل اور انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے وہ حکومت ہی فراہم کر سکتی ہے، بالخصوص وفاقی حکومت۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پہلے ان علاقوں سے نکلنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کراچی کی طرف ہجرت کر جاتی تھی۔اور وہاں عزیز و اقارب اور کسی جاننے والے کے ہاں ان کو پناہ مل جاتی تھی لیکن اب خود کراچی آپریشن کی زد میں ہے۔ طالبانائزیشن کے نعرے کے سایے میںاگرفاٹا کے لوگ وہاں آئیں گے اور دکھائی دیں گے تو بڑی آسانی سے گرفتار کرلیے جائیں گے یا انھیں دیگر مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ سندھ حکومت اور ایم کیو ایم نے بھی ان کی کراچی آنے کی مخالفت کی ہے ۔

آئین شکنی نھیں، جمھوریت حل ھے

ایم کیو ایم فوجی آپریشن کی بڑی حامی ہے، اور طالبان سے مذاکرات کو آئین کی خلاف ورزی قرار دے رہی ہے۔ بجاے اس کے کہ وہ مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہتی، اس کے    قائد نے مہاجرین کا استقبال کرنے کے بجاے فوج کا استقبال کرنے کا عندیہ دیا، آئین توڑنے کی بات کی اور جرنیلوں کو دعوت دی کہ وہ ایک دفعہ پھر اقتدار پر قبضہ کرلیں۔ ایک جانب طالبان کو آئین شکن کہہ کر پوری قوت انھیں اور ان کے آس پاس رہنے والے بے گناہ شہریوں کو کچل دینے کے لیے بیانات کی آگ اگلی جارہی ہے، تو دوسری طرف ایسی نفرت انگیز آگ بھڑکانے والے   اسی گروہ کے لندن میں بیٹھے لیڈر نے علی الاعلان آئین کو تسلیم نہ کرنے کی بات کی، حالانکہ وہ اسمبلیوں کے اندر موجود ہیں۔ اس دفعہ وہ بظاہر حکومت میں شریک نہیں ہیں، مگر کارِ حکومت میں   ان کی رسائی اور نازبرداری کا سب کواندازہ ہے۔ان کا نمایندہ سندھ کے گورنر ہائوس میں اسی طرح کارفرما ہے جس طرح وہ جنرل مشرف اور جناب آصف زرداری کے زمانے میں جلوہ افروز تھے۔ واضح رہے کہ موصوف اس سے پہلے ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۳ء تک کم از کم چار بار پہلے بھی فوج کو    دعوت اقدام دے چکے ہیں اور اپنی مکمل تائید کا یقین دلا چکے ہیں۔ اس قابلِ مذمت بیان میں پورے جمہوری اور انتخابی دائرے اور نظام کو لپیٹ دینے کا عنوان موجود ہے۔اور یہ اس پس منظر میں ہے کہ جب باربار کے تلخ تجربات کے بعد عوام ، اعلیٰ عدالتیں اور معاشرے کے دیگر طبقات یکسو ہیں کہ سیاسی نظام میں فوج کی مداخلت میں کوئی خیر نہیں ہے اور ملک کا مستقبل جمہوریت اور صرف جمہوریت سے وابستہ ہے۔ آج جو جمہوری رویے پورے معاشرے کے اندر فروغ پارہے ہیں، کچھ خامیوں کے باوجود ان جمہوری رویوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملنا چاہیے۔

علماے کرام کا کردار

ان سنگین حالات میں اہل علم بالخصوص علماے کرام کو آگے آنا چاہیے اورآئین و جمہوریت کے حوالے سے ہونے والی بحث اور گتھیوں کو سلجھانے میں اپنا کردارادا کرنا چاہیے۔ جو کام وہ کرسکتے ہیں، کوئی اور نہیں کر سکتا۔علماے کرام کواس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ پاکستان کے  آئین کی کیا حیثیت ہے؟اس کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹیں کیا ہیں؟ شریعت کس طرح نافذ ہوتی ہے؟ شریعت سے تعلق رکھنا، حُب ِالٰہی اور حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار رہناہم سب کا ایمان ہے، لیکن یہ بات اہل علم ہی بتا سکتے ہیں کہ اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کا طریقہ وہ نہیں ہے، جو اختیار کیا گیا ہے اور جس کا یہاں اور وہاں اعلان کیا جا رہا ہے۔علماے کرام کو اسلام اور شریعت کے وکیلِ صفائی کا کردار ادا کرنا چاہیے اور غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہیے۔ یہاں پر یہ بات بھی    ذہن نشین رہے کہ جو لوگ فوجی آپریشن کے حامی ہیں، ان کا خیال ہے کہ آپریشن تو شریعت کے خلاف ہو رہا ہے، اس لیے اچھا کام ہے۔ اور ان کے لیے سکون کا باعث ہے۔

۱۹۷۳ء کا آئین بنانے والوں میں وہ جید علما شامل تھے، جنھیں آج کے علما اپنا استاد مانتے ہیں۔ مولانا ظفراحمد انصاری، مولانا مفتی محمود ،مولانا عبدالحق ،مولانا شاہ احمد نورانی اور پروفیسر غفور احمد جیسی قدآور قومی شخصیات آئین ساز کمیٹی میں شامل تھیں۔ وہ کیسے قرآن و سنت کے منافی آئین کو تسلیم کر سکتی تھیں۔ آئین کو غیر اسلامی کہنے کے بجاے آئین پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔   جس آئین کی بنیاد ہی یہ ہے کہ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہوگا اور اس کا آئین قرآن و سنت کے تابع ہوگا، اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا قومی یک جہتی کے لیے مضر ہے۔ قوم ۷۳ء کے آئین پر متحد ہے۔ اس اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ خود حکمران غیر آئینی ہتھکنڈوں کو  چھوڑ کر آئین کی بالا دستی کو دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرلیں اور اس پر خلوص سے عمل پیرا ہوں۔ یادرہے کہ اس آئین کو توڑنے والوں میں سب سے پیش پیش سیکولر اور ریاست کے اسلامی تشخص کے مخالف افراد اور گروہ ہیں، اور یہی وہ طبقات ہیں بشمول امریکی اور بھارتی لابی کے سرخیل اور قادیانی عناصر، جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو پس پشت ڈالنے اور اسے غیر متعلق بنانے کے خواہشمند ہیں۔ اس لیے اس دستور کو مشتبہ بنانے والوں اوراس کے مطابق کام نہ کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس کا راستہ صاف کر رہے ہیں؟

۱۹۷۳ء کا آئین قرآن و سنت کے مطابق ہے۔اگر حکومت آئین کو اس کی روح کے مطابق نافذ کردے تو طالبان سمیت کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا۔اس قوم کی بدقسمتی ہے کہ آئین پر  عمل درآمد کی راہ میں خود جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں نے رکاوٹیں ڈالیں ۔برسرِاقتدار جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سیکولرسٹوں اور وڈیروں نے آئین شکنی کا رویہ اختیار کیا۔ قرآن و سنت کے تابع پاکستان کے آئین کی مسلسل پامالی اور بے حرمتی سے ملک کے بارے میں بے آئین سرزمین کا تاثر پیدا کیا۔حکمران طبقوں نے اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے ملک و قوم کو مقروض کیا اور پھر قرض دینے والے عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات مانتے ہوئے عوام کش پالیسیاں بنائی گئیں۔ ایسا کرتے وقت آئین، اسلام، عوام اور انسانی قدروں میں سے کسی بھی چیز کی پروا نہیں کی گئی۔جب آئین و قانون کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی اور تمام فیصلے بیرونی دبائو کے تحت کیے جائیں گے، تو آئینی ادارے کمزور اور تابع مہمل ہوں گے، اور عوام کا ان اداروں پر اعتماد ختم ہوجائے گا۔آج پاکستان میں بہترین آئین کی موجودگی کے باوجود عوام کے حقوق غصب کیے جارہے ہیں، جب کہ ہماری داخلہ و خارجہ پالیسیاں قومی مفادات کے بجاے امریکی و بھارتی مفادات کو سامنے رکھ کر بنائی جارہی ہیں۔ ایسی صورت میں نہ امن آسکتا ہے اور نہ عوام کا اعتماد بحال ہوسکتا ہے۔

 پاکستان کی اسلامی شناخت کونہ کوئی پہلے بدل سکا ہے اور ان شاء اللہ نہ آیندہ بدل سکے گا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسی نام سے قائم اور وابستہ رہے گا۔اسلامی شریعت، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کا نام ہے ،جوکسی کی خواہشات پر بدلے نہیں جاسکتے۔ ملّی وحدت اور قومی یک جہتی کے لیے اسلام سے متصادم رویوں کو ترک کرناضروری اورمذاکرات مخالف قوتوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے اپنا کردار اداکرنا ہر ذمہ دار شہر ی کا فرض ہے۔جماعت اسلامی کی ساری جدوجہد کا مقصد ملک میں امن اور اسلامی شریعت کا نفاذ ہے۔ امن قائم ہوگا تو شریعت آئے گی اور آئین پر بھی عمل ہوگا۔

حالات کو بڑی تیزی سے ایک ہولناک تباہی کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ قوم اور اس کی سیاسی اور عسکری قیادت کو متنبہ کیا جائے کہ وہ کوئی انتہائی فیصلے کرتے وقت ہوش کے ناخن لے اور ملک و ملّت کو تباہی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ آج دانا دشمن اور نادان دوست دونوں ہی اپنے اپنے انداز میں ملک کو ایک نئے تصادم کی طرف لے جانے میں سرگرم ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ محب وطن دینی اور سیاسی قوتیں خاموش تماشائی نہ بنیں اور مل کر اور پوری دانش مندی کے ساتھ حکومت اور برسرِاقتدار قوتوں کو ملک کو آگ اور خون کے اس گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ حکومت کے ذمہ داران سے، خصوصیت سے وزیراعظم، وزیرداخلہ، ارکانِ پارلیمنٹ، عسکری قیادت اور میڈیا کے ذمہ دار عناصر سے ہماری درخواست ہے کہ حالات کا ٹھنڈے دل سے دلیل،     زمینی حقائق اور تاریخ کے تجربات کی روشنی میں جائزہ لے کر قومی سلامتی اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی اور پروگرام مرتب کریں۔ اس سلسلے میں ملک کی سیاسی اور دینی قیادت کو اعتماد میں لیں، اور پوری قوم کو ساتھ لے کر ان حالات کا مقابلہ کریں۔

زمینی حقائق کے اِدراک کی ضرورت

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہر وہ پالیسی اور اقدام جو بیرونی یا اندرونی دبائو کا نتیجہ ہو یا جسے بڑی حد تک جذبات، غصے اور انتقام کے جذبے کے تحت اختیار کیا جائے، وہ تباہ کن ہوتا ہے۔ دورِحاضر میں اس کی بدترین مثال وہ ردعمل ہے، جو امریکا نے ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے دہشت گردی کے افسوس ناک اور قابلِ مذمت واقعے کے ردعمل کے طور پر اختیار کیا، اور جس کے نتیجے میں نہ صرف  یہ کہ دہشت گردی کا سدِّباب نہ ہوسکا، بلکہ اس کو عالمی سطح پر ہزار گنا زیادہ فروغ حاصل ہوگیا۔  آج دنیا، بشمول امریکا، ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی غیرمحفوظ ہے۔ بلاشبہہ ان ۲۹۰۰؍ افراد کی ہلاکت ایک دل دوز سانحہ اور کھلا ظلم تھا، جو نائن الیون کے اقدام کا نشانہ بنے۔ لیکن کیا اس حقیقت سے آنکھیں بند کی جاسکتی ہیں کہ ’دہشت گردی کے خلاف امریکا کیجنگ‘ کے نتیجے میں ان تقریباً ۳ہزار جانوں کے مقابلے میں افغانستان میں تقریباً ایک لاکھ ۲۰ ہزار افراد اور عراق میں ۶لاکھ افراد موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے ہیں۔ صرف افغانستان میں اب تک خود امریکا کے ۲۸۰۶فوجی ہلاک ہوئے اور ۱۸ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔ امریکا کے جتنے فوجی افغانستان گئے ہیں  ان میں ۱۰فی صد ہمیشہ کے لیے اپاہج ہوچکے ہیں۔ سیکڑوں نے خودکشی کی ہے اور دسیوں ایسے ہیں، جنھوں نے دیوانگی کے عالم میں اپنے ہاتھوں امریکی اور ناٹو افواج ہی کو نشانہ بناڈالا ہے۔ برطانیہ کے ۴۴۷فوجی ہلاک اور کئی ہزار زخمی ہوئے ہیں۔ امریکا صرف افغانستان کی جنگ پر ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے اور برطانیہ ۴۰ ارب پونڈ اس آگ میں جھونک چکا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا اور ناٹو افواج کو ذہنی اور سیاسی و عسکری دونوں قسم کی شکست سے سابقہ ہے۔ افغانستان  خود امن و چین سے محروم ہے۔ افغانستان کی فوج اور معیشت دونوں امریکا کی مدد کی محتاج ہیں۔ افغان بجٹ کا ۸۰ فی صد امریکی امداد پر منحصر ہے، اور باقی بجٹ کا بڑا انحصار افیون کی تجارت پر ہے۔

رہی افغان عوام کی حالت ِ زار تو افغانستان کے پے درپے دوروں کے بعد ایک امریکی مصنف اور صحافی پیٹرک کک برن (Patrick Cockburn) کاؤنٹرپنچ کے ۱۳جنوری ۲۰۱۴ء کے شمارے میں لکھتا ہے:

بلاشبہہ جو رقم افغانستان پر خرچ کی جارہی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ افغانستان میں خرچ کی جارہی ہے۔ لیکن اس بات کو پیش نظر رکھ کر بھی بہت بڑی بڑی رقمیں خرچ کرنے کے باوجود سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۶۰ فی صد بچے غذا کی کمی کا شکار ہیں اور صرف ۲۷ فی صد افغانوں کو پینے کا صاف پانی مہیا ہے۔ بہت سے باہر سے رشتہ داروں کی بھیجی ہوئی رقم سے زندہ ہیں یا منشیات کے کاروبار سے جو افغانستان کی قومی آمدن کا ۱۵ فی صد تک ہے۔

یہ اعداد و شمار افغانستان اینلسٹ نیٹ ورک کابل سے وابستہ تھامس رٹنگ کے جائزے:  ’’افغانستان میں بین الاقوامی مداخلت کے ۱۲سال‘‘ سے سامنے آئے ہیں۔ اس مستند جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج افغانستان کہاں کھڑا ہے؟

یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ امریکا اور برطانیہ کی فوجی مداخلت مکمل ناکامی پر منتج ہوئی ہے۔ طالبان کچلے نہیں جاسکے ہیں جو ملک کے تمام حصوں میں فعال ہیں، اور ہلمند جیسے صوبوں میں امریکا اور برطانیہ کی افواج کے جاتے ہی اقتدار سنبھال لیںگے۔ غیرملکی فوجوں کی پشت پناہی کے باوجود حکومت ِ افغانستان کا کنٹرول دارالحکومت کے ضلع سے باہر چندکلومیٹر کے فاصلے پر ختم ہوجاتا ہے۔ پورے افغانستان پر عموماً فوجی طورطریقوں کے بارے میں بات چیت کی جاتی ہے، جب کہ امریکا برطانیہ کی ناکامی کی سب سے اہم وجوہ سیاسی ہیں۔ بہت سے افغان بدتر انجام سے خوف زدہ ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ ۲۰۱۴ء میں ۱۹۹۰ء کے عشرے کا ظلم اور انارکی کا دور جب جہادی دستے افغانستان پر حکومت کرتے تھے، آجائے گا۔

امریکا کو اس جنگ کے نتیجے میں بدنامی، شکست اور پسپائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ افغانستان تباہ و برباد ہوگیا۔ جس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دنیا کو اور خصوصیت سے افغانستان، پاکستان اور شرق اوسط کو جنگ کی آگ میں جھونکا گیا، وہ سب ماقبل سے بُرے حال میںہیں۔ یہ نتیجہ ہے ایک بدمست سوپرپاور کے اس ردعمل کا، جس کی بنیاد دلیل، حق و انصاف کے اصول اور زمینی حقائق کے صحیح اِدراک اور حکمت و توازن کی بنیاد پر پالیسی سازی کے فقدان پر مبنی ہے۔ طاقت کے زعم میں، سیاسی اور عسکری غرور وتکبر اور سب سے بڑھ کر غصے اور انتقام کے جذبات سے آلودہ تھی۔ اس ساری تباہی کی بڑی وجہ امریکی صدربش کا وہ ردعمل تھا، جس کی کوئی عقلی بنیاد نہ تھی بلکہ غرور، غصے اور انتقام کے جذبات تھے جن سے مغلوب ہوکر واحد سوپرپاور کے صدر نے امریکا کی سیاسی اور معاشی قوت پر ضرب لگانے والوں کو تہس نہس کرنے کے جذبات میں بہنا پسند کیا۔ موصوف نے مناسب تحقیق کے بغیر اور عالمی قانون کو حقارت سے نظرانداز کرتے ہوئے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر افغانستان پر فوج کشی کرڈالی اور پھر اس کا دائرہ بلاجواز عراق تک بڑھا دیا۔ پاکستان کو کان پکڑ کر اس جنگ میں جھونکا۔ نتیجہ یہ ہے کہ پوری دنیا ۱۲برس سے اس عذاب میں مبتلا ہے۔ عراق سے تو امریکی افواج واپس چلی گئیں مگر عراق خانہ جنگی کی آگ میں آج تک جل رہا ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا ٹائم ٹیبل دیا جارہا ہے مگر خانہ جنگی اور علاقائی بدامنی کے بھوت فضا میں منڈلا رہے ہیں اور امن اورسلامتی کا دُور دُور پتا نہیں۔

ماضی کی حکمت عملی کے نتائج

اگر امریکا نے جذبات سے مغلوب ہوکر غرور، غصے اور انتقام کی بنیاد پر دنیا کو جنگ میں جھونکا، تو پاکستان کے سیاہ و سفید پر قابض جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے امریکی دبائو میں شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ، اور قومی مفادات اور عوامی جذبات کو یکسرنظرانداز کرکے امریکا کی اس جنگ میں اپنے کو شریک کرکے اپنے مسلمان ہمسایہ برادر ملک پر فوج کشی کے لیے امریکا کو   نہ صرف ہرسہولت دے ڈالی، بلکہ اپنی زمینی اور فضائی حدود پر امریکا کو تسلط اور غلبہ عطا کیا۔ امریکا کے احکام پر اپنے شہریوں اور برادر ملک کے ان مہمانوں کو جو ہماری امان میں تھے، ڈالروں کے عوض امریکا کے حوالے کیا اور اس سلسلے میں سفارتی اور اسلامی آداب کو بھی بُری طرح پامال کیا۔ اس کی شرم ناک داستان پاکستان میں افغانستان کے سفیر مُلّا عبدالسلام ضعیف کی کتاب My Life with the Taliban میں دیکھی جاسکتی ہے۔

پاکستان کو ان ۱۲ برس میں دینی، سیاسی، عسکری، معاشی، غرض یہ کہ ہر میدان میں بے پناہ نقصانات ہوئے اور پاکستان عملاً اپنی آزادی اور خودمختاری سے محروم ہوکر رہ گیا۔ ۵۰ہزار سے زیادہ افراد جان کی بازی ہارگئے، جن میں ۶ سے ۸ہزار افراد کا تعلق فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہے۔ زخمیوں کی تعداد اس سے دو تین گنا زیادہ ہے، اور جو نقل مکانی پر مجبور ہوئے ان کی تعداد ۳۰لاکھ سے متجاوز ہے۔ مالی اور معاشی اعتبار سے نقصان کا کم سے کم اندازہ ایک سو ارب ڈالر کا ہے اور سب سے بڑھ کر پورے ملک کا امن اور چین درہم برہم ہوگیا۔

جو دوست تھے وہ دشمن بن گئے اور جو دشمن تھے انھوں نے ملک کے طول و عرض میں اپنے اثرات بڑھا لیے۔ ملک کے حالات اور پالیسیوں میں امریکا کا عمل دخل اتنا بڑھ گیا اور اس کی  خفیہ ایجنسیوں اور کارندوں کو ایسے ایسے مقامات تک رسائی حاصل ہوگئی، جس سے ہماری سالمیت معرضِ خطر میں ہے۔ عوام اور حکمرانوں، عوام، فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں دُوری بڑھ گئی۔ جن کے درمیان رشتے کی امتیازی خصوصیت اعتماد، افتخار اور محبت تھی، وہ بُری طرح متاثر ہوئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب بے اعتمادی اس حد کو پہنچ گئی کہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے باقاعدہ فوجی اہلکاروں کو ہدایت دی کہ عام سواریوں میں فوجی وردی میں سفر نہ کریں۔ جس فوج کو عوام اپنی زندگی، آزادی اور عزت کا نگہبان سمجھتے تھے اور جس سے نسبت پر فخر محسوس کرتے تھے، اس سے تعلقات او راعتماد میں یہ کمزوری صرف اور صرف اس وجہ سے رُونما ہوئی کہ اس وقت کی قیادت نے عوام کے جذبات اور قومی مفادات سے صرفِ نظر کرکے، امریکا کی اس جنگ میں ملک اور اس کی قانون نافذ کرنے والی قوتوں کو جھونک دیا تھا۔

۲۰۰۱ء میں امریکا کے لیے پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کو کھول دیا گیا تھا۔ پھر ۲۰۰۴ء سے عملاً پاکستانی افواج کو بھی آہستہ آہستہ اس جنگ میں شریک کردیا گیا، جس میں ۲۰۰۷ء کے بعد شدت آگئی۔ یہی وہ سال ہے جب پاکستان کے قبائلی علاقے میں باقاعدہ تحریکِ طالبان پاکستان کی تشکیل ہوئی۔ نتیجہ یہ کہ روز بروز تصادم بڑھتا گیا ، اور معصوم عوام دونوں طرف سے نشانہ بننے لگے۔ آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نہ سرکاری املاک، فوجی چھائونیاں اور پولیس کی چوکیاں دہشت گردی سے محفوظ ہیں اور نہ مساجد، امام بارگاہیں، دینی مدارس، تعلیمی ادارے اور عام آبادیاں امن کا گہوارا ہیں۔

دہشت گردی آج ملک عزیز کی سلامتی کے لیے ایک اہم ترین خطرہ بن گئی ہے۔ دہشت گردی کی ہرشکل سے نجات وقت کی ضرورت ہے، خواہ اس کا ارتکاب افراد، گروہ یا مسلح تنظیمیں کررہی ہوں یا خود ریاستی ادارے اپنی حدود سے بڑھ کر ان کے مرتکب ہورہے ہوں۔   اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت تمام دینی اور سیاسی قوتیں اور قوم کے تمام محب وطن عناصر مل کر قومی سلامتی کی پالیسی مرتب کریں اور سب مل جل کر اس پر عمل کو یقینی بنائیں۔ جو پالیسی بیرونی دبائو کے تحت بنے گی یا جو اصول قومی عزائم اور مفادات کے مقابلے میں، گروہی جذبات، غصے، انتقام یا مفاد پرست لابیوں کے اثرونفوذ کے نتیجے میں وجود میں آئیں گے، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ گذشتہ ۱۲برسوں میں برپا ہونے والی تباہی کا بڑا سبب وہ پالیسیاں ہیں جو بیرونی دبائو یا اندرونی کمزوری کے تحت بنائی گئی تھیں۔ اب اس روش سے مکمل اجتناب کے ساتھ خالص قومی مقاصد، ملکی مفادات، عوام کے جذبات اور احساسات کی بنیاد پر نئی پالیسیوں کی تشکیل اور تنفیذ کی ضرورت ہے۔

جذباتی انداز میں یہ کہہ دینا کہ ’’پہلے یہ جنگ ہماری نہیں تھی، لیکن اب بن گئی ہے‘‘ ایک نامعقول اور فریب خوردگی پر مبنی دعویٰ ہے۔ ضرور ت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی اور اس کی مختلف اقسام اور ان کے اسباب سب پر نگاہ ڈالی جائے، اور حالات کے معروضی تجزیے کے بعد ایسی ہمہ گیر پالیسی بنائی جائے، جو مسئلے کے ہرہرپہلو کا احاطہ کرے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب حقائق کو بنیاد بنایا جائے اور جذبات اور تعصبات کو فیصلوں پر اثرانداز نہ ہونے دیا جائے۔

اس وقت کچھ طاقت ور لابیاں ایک خاص زاویہ بنانے میں مصروف ہیں اور ایک ایسی جذباتی فضا بنانے کے درپے ہیں، جس میں حق و صداقت اور انصاف اور توازن کی بات نامطلوب بن جائے۔ انجامِ کار ملک اور فوج کو ایک ایسے آپریشن میں جھونک دیا جائے، جو امریکا کے مقاصد، مفادات اور ایجنڈے کا تو حصہ ہو اور اوباما اور جان کیری کی ’do more‘ [اور مارو]کی تعمیل پر پاکستان کو جنگ کی ایک ایسی آگ میں جھونک دے، جو افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد بھی پاکستان اور افغانستان کو بھسم کرتی رہے۔

یہ وقت ٹھنڈے دل سے پورے معاملے کے صحیح تجزیے کے بعد ایسی پالیسیاں وضع کرنے کا ہے جو پاکستان، افغانستان اور اس علاقے کے مفاد میں ہوں اور فوری اور دُور رس امن و سلامتی کی ضمانت دے سکیں۔ امریکا کو تو یہاں سے جانا ہے، لیکن پاکستان اور افغانستان دائمی ہمسایہ ممالک ہیں اور ہمیں ایک ساتھ رہنا اور ایک دوسرے کے لیے سہارا بننا ہے۔ اس کے لیے حالات کو امریکا کی نگاہ سے دیکھنے اور امریکی مفادات کے چنگل سے نکل کر اپنے اور اپنے برادر ملک کے مفادات کی روشنی میں حالات کی صورت گری کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

ہمیں اس امر کو سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا کا کھیل ناکام ہوچکا ہے۔ اب پاکستان اور افغانستان کو مل کر آگ بجھانے اور نئی زندگی کی بساط بچھانے کی فکر کرنا ہے۔ بلاشبہہ آج کا افغانستان بدامنی اور تصادم کی آماج گاہ بنا ہوا ہے اور پاکستان بھی، خصوصاً اس کے شمالی اور مغربی علاقے کے طول و عرض میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔ کراچی شہر اور صوبہ بلوچستان بھی اپنے اپنے طور پر دہشت گردی کی گرفت میں ہیں ۔ نو سال سے جاری فوجی اور نیم فوجی آپریشنوں کے باوجود حالات قابو میں نہیں آرہے۔ جس پالیسی کے نتیجے میں گذشتہ نو سال میں امن قائم نہیں ہوا، بھلا اس کو کچھ اور بھی دوآتشہ کرکے کس طرح کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جب خود امریکا اپنی ساری عسکری اور معاشی طاقت اور ٹکنالوجی کی فوقیت کے باوجود ۱۲برس تک آگ اور خون کی بارش کر کے  افغانستان سے ناکام و نامراد واپسی اور پسپائی پر مجبور ہوچکا ہے، تو اس تناظر میں یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ ہم اس ناکام حکمت عملی کے وارث اور ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کے اسیر بن جائیں۔

بلاشبہہ گذشتہ چند دنوں میں ایسے ہولناک واقعات ہوئے ہیں جنھوں نے سب کو ہلاکر رکھ دیا ہے لیکن غصے اور انتقام کے جذبات کے زیراثر ردعمل کبھی مفید نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وقت ٹھنڈے دل سے غوروفکر کرنے اور تمام ضروری پہلوئوں کو سامنے رکھ کر نئی حکمت عملی بنانے کا ہے۔ورنہ اس عاجلانہ قوت آزمائی کے نتائج ان تباہ کن نتائج سے مختلف نہیں ہوسکتے، جو جارج بش اور ان کے حواریوں کے نائن الیون کے موقعے پر جذباتی اور انتقامی ردعمل سے رُونما ہوئے، اور جن کی آگ میں آج تک سب جل رہے ہیں۔

عالمی راے عامہ اور ردعمل

گیلپ انٹرنیشنل نے نائن الیون کے واقعے کے بارے میں امریکی قیادت کے ردعمل کے بارے میں، عالمی راے عامہ کی جو تصویر پیش کی ہے، اسے آج نگاہوں کے سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ۱۹ستمبر ۲۰۰۱ء کو اصل واقعے سے صرف آٹھ دن بعد دنیا کے ۲۹ممالک میں سے ۲۷ کی آبادی کی اکثریت نے افغانستان پر فوجی حملے کی مخالفت کی تھی۔ گیلپ رپورٹ کے الفاظ ہیں:

یہ بات دل چسپ ہے کہ ۲۹ ممالک میں سے جن ۲۷ میں یہ عالمی جائزہ گیلپ انٹرنیشنل نے لیا، اکثریت نے فوجی کارروائیوں کی مخالفت کی۔ دو استثنا میں ایک امریکا تھا جہاں ۵۴فی صد لوگوں نے فوجی کارروائیوں کی حمایت کی، اور دوسرا اسرائیل، جہاں ۷۷ فی صد لوگوں نے فوجی کارروائیوں کی حمایت کی۔

واضح رہے کہ امریکامیں بھی ۴۶ فی صد عوام نے اس فوج کشی کی مخالفت کی یا کم از کم تائید نہیں کی۔ پاکستان کی راے عامہ کی جو تصویر اس جائزے میں آتی ہے، وہ پاکستانی عوام کی سیاسی بصیرت کا مظہر ہے۔ صرف ۷ فی صد کی راے تھی کہ پاکستانی حکومت کو امریکی کارروائی کا ساتھ دینا چاہیے، جب کہ ۶۳ فی صد کا فیصلہ یہ تھا کہ اس وقت کی افغانستان حکومت کا ساتھ دیا جائے اور ۲۷فی صد نے غیرجانب دار رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ گویا عملاً ۹۰ فی صد نے امریکا کی اس جنگ سے الگ رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن اس وقت پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے ۹۰ فی صد عوام کی راے کو ٹھکرا کر امریکی دبائو کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور پورے ملک کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا۔  یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت نے اسے کبھی اپنی جنگ نہیں تصور کیا اور آج بھی دہشت گردی کا نشانہ بننے اور ۵۰ہزار سے زیادہ افراد کی قربانی دینے کے باوجود، وہ اسے اپنی جنگ نہیں سمجھتے اور اس سے نکلنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔

پاکستانی عوام کی نگاہ میں امریکا کو نائن الیون کے اصل مجرموں کو قانون اور انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے، بین الاقوامی قانون کے مطابق کارروائی کرنا چاہیے تھی اور اُس وقت کی افغان حکومت ہرممکن تعاون کے لیے تیار بھی تھی۔ لیکن امریکا طاقت کے نشے میں بدمست تھا اور انتقام کی آگ میں دہک رہا تھا۔ اس نے بین الاقوامی قانون اور عالمی راے عامہ، اخلاق اور انصاف، انسانیت اور بُردباری سبھی کچھ کو نظرانداز کرکے فوج کشی کا راستہ اختیار کیا۔ وہ اس زعم میں تھا کہ چند ماہ میں کامیاب و کامران ہوجائے گا۔ امریکی جنگ باز قیادت کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ افغان عوام ایسی مزاحمت کریں گے کہ امریکی اور ناٹو افواج کو ۱۲برس بعد ناکام و نامراد واپس لوٹنا پڑے گا۔ امریکی اور عالمی تجزیہ نگار بہ یک زبان یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ: ’’یہ جنگ غلط تھی‘‘ اور اب امریکا اور اس کے اتحادی جان بچاکر نکل جانے کے لیے سرگرداں ہیں۔

نیویارک ریویو آف بکس کے ۲۴؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں War on Terror  پر ایک اہم کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے میلسی روتھوین لکھتی ہیں کہ: ’’اس کے علاوہ کوئی نتیجہ     نکالنا مشکل ہے کہ امریکا نے ایک غلط جنگ، غلط حکمت عملی سے اور غلط دشمن کے خلاف لڑی۔ صاف ظاہر ہے کہ اس کے نتائج بھی غلط کے علاوہ کچھ اور نہ ہوسکتے تھے‘‘۔

امریکا اور یورپ کے چوٹی کے تجزیہ نگار صاف الفاظ میں لکھ رہے ہیں کہ: ’’امریکا یہ جنگ ہارچکا ہے‘‘ ۔ دسیوں کتابوں اور بیسیوں مضامین میں اس کا اعتراف کیا جارہا ہے کہ: ’’امریکا کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ یا کھلی شکست کا اعتراف کرے یا پھر مذاکرات کے ذریعے کوئی فرار کی راہ نکالے‘‘۔ مثال کے طور پر امریکا کے موقر جریدے فارن افیئرز کے ایک تازہ شمارے (ستمبر،اکتوبر ۲۰۱۳ء) میں جارج واشنگٹن یونی ورسٹی میں علمِ سیاسیات کے پروفیسر اسٹیفن بڈل نے اپنے مضمون ’افغانستان میں جنگ کا خاتمہ‘ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ: ’’شکست یا مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں‘‘۔ ساری بحث کا خلاصہ بس یہ ہے کہ:

اس جنگ کے صرف دو حقیقی متبادل ہیں، جن میں سے کوئی بھی خوش گوار نہیں۔ ایک یہ کہ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ ہوجائیں، گو یہ بھی کوئی امرت نہیں لیکن یہ مکمل شکست کا واحد متبادل ہے۔

لندن کے معروف اخبار دی گارڈین نے ۲۳جنوری ۲۰۱۴ء کے اداریے میں کھل کر اعتراف کیا ہے کہ: ’’آج تمام دنیا کے عوام جنگ سے تنگ آگئے ہیں اور جرنیلوں کی مہم جوئی سے نالاں ہیں۔ وقت کی اصل ضرورت یہ ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے جو حکمت عملی اب تک بنائی گئی تھی، اس پر نظرثانی کی جائے اور زمینی حقائق کی روشنی میں سیاسی مسائل کے سیاسی حل کا راستہ اختیار کیا جائے، کیونکہ فوجی حل کہیں بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔ عوام جس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں وہ یہ ہے کہ عراق کی جنگ مکمل طور پر ناکام تھی اور افغانستان میں بھی جنگ کا نتیجہ اس سے مختلف  نظر نہیں آتا‘‘۔

برطانیہ کی پالیسیوں پر گرفت کرتے ہوئے اداریے میں صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ: ’’دونوں محاذ پر برطانیہ نے سخت ٹھوکر کھائی۔ فوجی محاذ پر اس جنگ میں شرکت اور ملکی سلامتی کے محاذ پر ایسے قوانین بنائے جو حقوقِ انسانی پر ضرب کی حیثیت رکھتے تھے‘‘۔(دی گارڈین، ۲۳جنوری ۲۰۱۴ء)

طالبان اور پاکستانی راے عامہ

دراصل ہم اہلِ پاکستان کا مسئلہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ عبرت کا مقام یہ ہے کہ امریکا اور برطانیہ میں، جہاں دہشت گردی کے مقابلے کے لیے فوجی آپریشن اور ملک میں سخت قوانین جو انصاف کے مسلّمہ اصولوں اور حقوقِ انسانی کے معروف ضابطوں سے انحراف پر مبنی اقدام کی ناکامی کا کھلم کھلا اعتراف ہیں، وہاں بھی سیاسی حل کے لیے نئے راستے تلاش کیے جارہے ہیں مگر ہم ہیں کہ آنکھیں بند کرکے انھی ناکام پالیسیوں کے اتباع میں مکھی پر مکھی مارنے کو اپنی معراج  سمجھ رہے ہیں۔ حالانکہ خود پاکستان میں عوام کی سوچ بالکل مختلف ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ گیلپ اور PEW کے جو جائزے پاکستان کے عوام کی سوچ کے عکاس ہیں، ان کو بھی مختصراً بیان کردیں، تاکہ ہمارے حکمرانوں کو، اگر وہ بیرونی تجربات اور رجحانات اور خود اپنے ملک کے عوام کے جذبات اور احساسات کا کچھ بھی لحاظ کرنا چاہتے ہیں، تو ان کی روشنی میں، نئی حکمت عملی مرتب کرسکیں۔

۱- گیلپ کے ۱۶ستمبر ۲۰۱۳ء کے سروے کے مطابق پاکستانی عوام کے ۷۱فی صد کی راے میں پاکستان کو امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہرگز تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ ۲۷فی صد کی راے میں تعاون کرناچاہیے۔ تعاون نہ کرنے والوں کی صوبہ وار پوزیشن یہ ہے:

خیبرپختونخوا:..........۸۹ فی صد

بلوچستان:...............۷۷ فی صد

پنجاب:...................۶۸  فی صد

سندھ :...................۶۶  فی صد

واضح رہے کہ خیبرپختونخوااور بلوچستان زیادہ متاثرہ علاقے ہیں اور وہاں کے ۸۹ فی صد اور ۷۷ فی صد لوگ جنگ سے عدمِ تعاون اور اپنا دامن بچانے کے خواہش مند ہیں۔

۲- چند سال پہلے منعقد ہونے والے عالمی جائزے میں، جسے گیلپ نے Voice of the Peoples Survey 2006 کہا تھا اور جو ۶۳ممالک کے۵۹ہزار افراد کے سروے پر مشتمل تھا، اس میں دنیا کی آبادی کے ۳۶ فی صد لوگوں نے امریکا کی اس جنگ کو ناکام قرار دیا تھا۔

۳- اسی طرح  PEW Survey کے Global Attitude Project میں، جو ۲۷جون ۲۰۱۲ء کو منعقد ہوا تھا، ۷۴ فی صد پاکستانیوں نے امریکا کو ’ایک دشمن‘ ملک قرار دیا تھا۔

۴- PEW  تحقیقاتی مرکز کے Global Attitude Project کی ۳۰جون ۲۰۱۱ء کی رپورٹ Support for Compaign Against Extremist Wanes (انتہاپسندی کے خلاف عسکری کارروائیوں کی تائید میں کمی ) میں راے عامہ کا  یہ چشم کشا فیصلہ پیش کیا گیا ہے، کہ فاٹا میں فوجی آپریشن جو ۲۰۰۷ء میں شروع ہوا تھا، اسے حاصل شدہ عوامی تائید میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ ۲۰۰۹ء میں ’دہشت گردی‘ اور ’انتہاپسندی‘ کے خلاف فوج کے استعمال کی تائید کرنے والوں کی تعداد ۵۳ فی صد تھی، جو ۲۰۱۱ء میں کم ہوکر ۳۷ فی صد رہ گئی ہے۔ رپورٹ کا یہ حصہ ہمارے اہل حل و عقد سے سنجیدہ غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے:

شدت پسند گروپوں کے خلاف حکومت پاکستان کی فوجی مہم کی حمایت حالیہ برسوں میں کم ہوگئی ہے۔ صرف ۳۷ فی صد اس کی حمایت کرتے ہیں کہ فاٹا اور خیبرپختونخوا میں شدت پسندوں سے لڑنے کے لیے پاکستانی فوج استعمال کی جائے۔ یہ سطح دو سال قبل  کی سطح سے کافی نیچے ہے، جب دو سال قبل کے ایک ایسے جائزے میں جو کہ سوات میں حکومت اور طالبان کے حامی گروپوں میں تنازعے کے بعد کیا گیا تھا جس میں ۵۳ فی صد نے اس کی حمایت کی تھی کہ ان گروپوں سے فوج لڑے۔

۵- واضح رہے کہ پاکستانی عوام دہشت گردی کو ایک اہم مسئلہ سمجھتے ہیں، لیکن تمام ہی راے عامہ کے سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے Threat Perception (اندیشوں پر مبنی خیال) میں امریکا سب سے اُوپر ہے، اور آبادی کا ۷۳ فی صد اسے خطرہ سمجھتا ہے۔ بھارت کو خطرہ سمجھنے والوں کی تعداد ۵۹فی صد ہے، جب کہ طالبان کو خطرہ سمجھنے والوں کی تعداد ۲۳ فی صد ہے۔

۶- گیلپ نے ۱۹۸۰ء سے ۲۰۱۰ء تک کا ۳۰ برس کا ایک جائزہ پاکستان میں جرائم اور خصوصیت سے دہشت گردی کے بارے میں پیش کیا ہے۔ اس میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ عوام کی نگاہ میں دہشت گردی کے اصل ذمہ دار کون ہیں۔عوام کے اندیشے کو سمجھنے کے لیے اس کی حیثیت ایک آئینے کی سی ہے اور کوئی پالیسی ساز ادارہ اس عوامی احساس کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔۱؎

واضح رہے کہ عوام کی نگاہ میں دہشت گردی کی سب سے بڑی ذمہ داری بھارتی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں پر ہے، یعنی ۳۲ فی صد اور ۳۱ فی صد۔ گویا ۶۳فی صد کی نگاہ میں اس بدامنی، تشدد اور دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ سب سے اہم عامل ہے، خواہ اس کا ذریعہ کوئی بھی ہو۔ 

1- 30 years of Polling on Crimes, Violence, Terrorism, and Social Evils  (1980-2010): Perceptions and Fears of Pakistan's Public, Gallup, January 6, 2011, p 46.

دہشت گردوںکو براہِ راست ذمہ دار ٹھیرانے والے ۲۶ فی صد ہیں۔ ۲۰۰۹ء میں طالبان کا نام لینے والے صرف ایک فی صد تھے۔ بعد کے متعدد جائزوں میں اس اندازمیں سوال نہیں پوچھا گیا، تاہم ’گیلپ‘ اور ’پیو‘ (PEW) دونوں ہی کے جائزوں میں طالبان کی تائید میں نمایاں کمی آئی ہے اور طالبان کی کارروائیوں کی مذمت کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ’پیو‘ کے ۲۰۱۱ء کے   سروے میں ۲۳ فی صد نے طالبان سے خطرہ محسوس کیا اور اور گیلپ کے ایک سروے کے مطابق دسمبر ۲۰۰۹ء میں طالبان کے حوالے سے منفی تصور ۷۲ فی صد تک بڑھ گیا۔ عام انسانوں کی ہلاکت اور مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں، اسکولوں اور مدرسوں پر حملوں کے ردعمل میں طالبان کے بارے میں منفی رجحان میںاضافہ ہوا ہے۔ البتہ گیلپ کے سروے کی روشنی میں دہشت گردی کے متعین واقعات کے بارے میں، طالبان یا ان کے نام پر ذمہ داری قبول کیے جانے کے اعلانات کے باوجو د عوام کا تصور بڑا چشم کشا ہے۔ مثلاً پشاور/بنوں کے ۲۰۰۹ء کے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری کے سلسلے میں عوام کا ردعمل یہ تھا:

۱- یہ واقعات انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کا ردعمل ہیں......۴۴ فی صد

۲- ان واقعات میں غیرملکی ایجنسیاں ملوث ہیں.....................۴۲ فی صد

۳- معلوم نہیں..................................................۱۴ فی صد

واضح رہے یہ دونوں واقعات خودکش حملوں کا نتیجہ تھے۔

اسی طرح ۲۰۰۹ء میں راولپنڈی جی ایچ کیو (پاکستانی مسلح افواج کے مرکز) پر کیے جانے والے حملے کے بارے میں کہ ذمہ دار کون ہے؟ عوامی راے یہ تھی:

بھارت:...............۱۹ فی صد

طالبان:...............۲۵ فی صد

امریکا:...............۱۶ فی صد

فارن ایجنسی:........۲۷ فی صد

لوکل ایجنسی:........۲ فی صد

سیاسی جماعتیں:.....ایک فی صد

ہم نے یہ چند مثالیں عوامی جذبات، احساسات اور ان کی سوچ کے رُخ کو سمجھنے کے لیے دی ہیں۔ مزید تفصیل ان جائزوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔

۷- عوام کے ذہن کو سمجھنے کے لیے ایک سروے کی طرف مزید اشارہ کرنا ضروری ہے۔   یہ گیلپ کا سروے ہے جو دسمبر ۲۰۱۳ء میں امیرجماعت سیّدمنور حسن صاحب اور مولانا فضل الرحمن صاحب کی جانب سے بیت اللہ محسود کے امریکی ڈرون کا نشانہ بنائے جانے کے واقعے پر ردعمل سے متعلق تھا۔

سوال: ’’حال ہی میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سیّدمنورحسن اور مولانا فضل الرحمن نے کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دیا ہے۔ آپ اس بیان کی کس حد تک حمایت یا مخالفت کرتے ہیں؟‘‘

بہت زیادہ حمایت:........۱۴ فی صد

بہت زیادہ مخالفت:.......۲۹ فی صد

کسی حد تک حمایت:.....۲۵   فی صد

کسی حد تک مخالفت:....۲۹   فی صد

مجموعی حمایت:.........۳۹   فی صد

مجموعی مخالفت:........۵۸   فی صد

معلوم نہیں:............۱۰    فی صد

قابلِ غور بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علماے اسلام (ف) کو مجموعی طور پر ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں ۵ فی صد ووٹ ملے اور دونوں قائدین کے بیانات کے بعد میڈیا پر ان کے مخالفین نے ایک طوفان برپا کردیا تھا، لیکن آبادی کے تقریباً ۴۰ فی صد نے ان کی راے سے اتفاق کا اظہار کیا، جو عوام کی سوچ کا غماز ہے۔(گیلپ انٹرنیشنل، ۹دسمبر ۲۰۱۳ء)

یہاں مقصد کسی قانونی، فقہی یا سیاسی پہلو کو زیربحث لانا نہیں ہے، صرف توجہ کو اس طرف مبذول کرانا ہے کہ ملک کے عوام طالبان اور طالبان کے نام پر جو کچھ کیا یا کہا جارہا ہے اسے    اس کے ظاہری خدوخال پر نہیں لیتے، بلکہ پورے مسئلے، یعنی دہشت گردی اور اس میں امریکا کے کردار کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ ان دو عالمی جائزوں سے مختلف پہلوئوں کو سامنے لانے سے ہمارا مقصد اصل مسئلے اور اس کے جملہ پہلوئوں کی طرف توجہ کو مبذول کرانا ہے۔

نئی حکمت عملی کے رہنما خطوط

ان معروضات کی روشنی میں، پالیسی سازی کے لیے چند نہایت اہم پہلو سامنے آتے ہیں، جن کی ہم نشان دہی کرنا چاہتے ہیں:

۱- پالیسی سازی میں اصل اہمیت ملک اور قوم کے مقاصد، اس کے مفادات اور اس کے عوام کی سوچ، خواہش اور عزائم کی ہونی چاہیے۔ جو پالیسی بیرونی دبائو یا گروہی اور کسی خاص اداراتی سوچ، عصبیت یا جذبات کی روشنی میں بنائی جائے گی، وہ مفید اور مناسب نہیں ہوگی۔

۲- اصل مسئلہ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ‘ ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے کا اس سے گہرا تعلق ہے۔ بلاشبہہ دوسری انواع کی دہشت گردیاں بھی ہیں اور ان کے لیے بھی مؤثر حکمت عملی اور پروگرام درکار ہیں، لیکن مرکزی اہمیت بہرحال امریکا کی اس جنگ اور اس میں ہمارے کردار سے منسوب ہے۔ طالبان کیا مطالبہ کر رہے ہیں اس سے قطع نظر، پاکستانی قوم کا اس جنگ کے بارے میں ایک واضح تصور ہے اور ہمارے پالیسی ساز اداروں کو اصل اہمیت عوام کی اس راے کو دینا چاہیے۔

پاکستانی عوام اس جنگ کو ہرگز جاری نہیں رکھنا چاہتے۔ وہ پاکستان کو امریکا کی اس جنگ سے نکالنے اور ایک آزاد خارجہ پالیسی بنانے کے حق میں ہیں۔ مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں انھوں نے اُن جماعتوں کو رد کردیا، جو اس جنگ میں پاکستان کی شرکت کی ذمہ دار تھیں اور ان جماعتوں کو اعتماد کا ووٹ دیا جو آزاد خارجہ پالیسی کی داعی اور اس جنگ سے نکلنے اور مسائل کے سیاسی حل کی خواہش مند تھیں۔ عوام کا یہ موقف ۲۰۰۱ء سے واضح تسلسل رکھتا ہے۔

۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں جو پارلیمنٹ بنی تھی، اس نے بھی عوام کے ان جذبات کو تسلیم کیا تھا اور ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کی متفقہ قرارداد میں آزاد خارجہ پالیسی، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے بارے میں نظرثانی، مسائل کے سیاسی حل اور مذاکرات، ترقی اور ردِ جارحیت (deterrance) کے سہ نکاتی فارمولے کا واشگاف اظہار کیا تھا۔ پھر اپریل ۲۰۰۹ء میں پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی نے بھی، جس میں تمام جماعتوں کو نمایندگی حاصل تھی، مکمل اتفاق راے کے ۵۵نکات پر مشتمل ایک واضح پروگرام قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا تھا۔ اسی طرح پارلیمنٹ نے ایک بار پھر ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کی قرارداد میں اس پالیسی کا اظہار کیا تھا اور ۹ستمبر ۲۰۱۳ء کی کُل جماعتی کانفرنس میں مذاکرات کو اولین ترجیح دے کر موجودہ پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں نے اس پالیسی کی توثیق کی تھی۔

اصل مسئلہ پالیسی کے اہداف اور مقاصد کے بارے میں ابہام کا نہیں ہے، حکومت اور  اس کے اداروں کی طرف سے قومی پالیسی پر عمل نہ کرنے کا ہے۔

۳- پاکستان میں پائی جانے والی دہشت گردی کی کم از کم پانچ بڑی شکلیں ہیں جن میں  ہر ایک کی نوعیت، اسباب اور اہداف کو سمجھنا اور ان کی روشنی میں اس کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی بنانا ضروری ہے:

  • پہلی اور سب سے اہم شکل وہ ہے جس کا تعلق امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘، افغانستان پر فوج کشی، افغانستان میں امریکی استعمار کی مزاحمت، اور پاکستان کے اس جنگ میں امریکا کے حلیف اور مددگار بننے سے رُونما ہوئی ہے۔ جس وقت تک پاکستان نے امریکا کے دبائو میں عملاً اپنی فوج کو اس جنگ میں نہیں جھونکا تھا، پاکستان کی سرزمین پر اس راستے سے دہشت گردی نہ ہونے کے برابر تھی۔ لیکن جب ہماری فوج کو اس میں جھونک دیا گیا، تو افسوس ناک ردعمل بھی رُونما ہوا، جو بڑھتے بڑھتے خود ایک فتنہ بن گیا۔ خودکش بمبار بھی اس کا ایک آلۂ کار بن گئے۔ باجوڑ اور اسلام آباد میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ بھی اس خونیں سلسلے کے سنگ میل بن گئے۔ پھر مسجد اور مدرسہ، سرکاری دفاتر اور افواج کے مورچے، حتیٰ کہ بازار اور گھربار سب نشانہ بننے لگے اور معصوم انسانوں کا لہو ارزاں ہوکر بہنے لگا۔ بچے، عورتیں، مسافر، مریض، کوئی بھی اس خون آشامی کی زد سے نہ بچ سکا۔ شریعت، قانون، اخلاق، روایات کون سی حد ہے جو اس میں پامال نہیں کی گئی اور بدقسمتی سے ہرفریق کی طرف سے یہ ظلم روا رکھا گیا۔ معصوم انسانوں کی ہلاکت اور قومی وسائل کی تباہی، جس کے ہاتھوں بھی ہوئی، قابلِ مذمت ہے۔ لیکن انتقام در انتقام مسئلے کا حل نہیں، بلکہ بگاڑ کا راستہ ہے۔ اس لیے لفظی نزاکتوں اور عملی کوتاہیوں  کو نظرانداز کرتے ہوئے ،ملک کے وسیع تر مفاد میں مسئلے کے سیاسی حل کی تلاش ہی اس عذاب سے نکلنے کا راستہ ہے۔ دنیا میں ایسے معاملات کا فوجی حل نہ کبھی پہلے ہوا ہے اور نہ آج ہوسکتا ہے۔ امریکا خود افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کی راہیں تلاش کررہا ہے اور اب تو ان کے اپنے مقرر کردہ افغان صدر حامد کرزئی تک نے بھی  کہہ دیا ہے کہ: ’’امریکا طالبان سے مذاکرات کرے اور پاکستان اس کی معاونت کرے، اس کے بغیر افغانستان میں امن نہیں آسکتا‘‘۔ برسرِ جنگ عناصر ہی کے درمیان مذاکرات سے امن کی راہیں نکلتی ہیں۔ اس سلسلے میں سطحی جذباتیت حالات کو بگاڑ تو سکتی ہے، اصلاح کی طرف نہیں لاسکتی۔
  • دہشت گردی کی دوسری بڑی شکل فرقہ واریت کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ یہ نائن الیون سے بہت پہلے سے موجود ہے اور بدقسمتی سے اس میں مقامی عناصر کے ساتھ بیرونی ہاتھ بلکہ حکومتیں بھی ملوث رہی ہیں۔ الحمدللہ، عوامی سطح پر کوئی نفرت اور تصادم نہیں ہے، لیکن مخصوص عناصر بڑے ہولناک انداز میں یہ آگ بھڑکانے اور معصوم انسانوں کو نشانہ بنانے کا گھنائونا خونیں کھیل کھیل رہے ہیں۔ یہاں بھی مذاکرات، افہام و تفہیم، تعلیم و تلقین کا ایک اہم کردار ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک مجرمانہ سرگرمی ہے، جس پر آہنی ہاتھوں سے قابو پانا ضروری ہے۔ تمام مذہبی فرقوں کے معتبر اور مقتدر افراد کو مل کر اس فتنے کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معلومات فراہم کرنے والی مددگار ایجنسیوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ نیز جو بھی بیرونی قوتیں ملوث ہیں ان پر مؤثر گرفت اور تادیبی کارروائی ہونی چاہیے۔
  • دہشت گردی کی تیسری شکل کا تعلق ان قوتوں سے ہے، جو علیحدگی پسندی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ ان کے بارے میں بھی ہماری سوچی سمجھی راے یہ ہے کہ محض قوت کے استعمال سے ان رجحانات کا مقابلہ ممکن نہیں ہے۔ جہاں بھی مذاکرات اور سیاسی حل کی ضرورت ہے، وہاں حقیقی مشکلات اور محرومیوں کو دُور کیا جانا چاہیے۔ یہ محرومیاں محض معاشی ہی نہیں، سیاسی بھی ہیں اور خصوصیت سے سیاسی عمل میں صحیح مقام نہ ملنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کا سیاسی حل ضروری ہے۔ البتہ جو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لے یا معصوم انسانوں پر ظلم کرے اور ان کے جان و مال پر حملہ کرے، اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ لیکن یہ کارروائی ردِ جارحیت (deterrance) کی نوعیت کی ہونی چاہیے اور جرم پر قانون کے مطابق گرفت کی شکل میں بھی۔
  • سیاسی میدان میں دہشت گردی کی ایک اور قبیح شکل وہ ہے، جو چند سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ کی شکل میں پائی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے اس بدترین منظرنامے کا اصل گہوارا کراچی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں نام لے کر بتادیا ہے کہ کون کس کس شکل میں یہ گھنائونا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ دستورِ پاکستان کی واضح خلاف ورزی ہے اور محض سیاسی مفاہمت کے لالچ میں  نہ صرف یہ کہ اسے برداشت کیا گیا ہے، بلکہ فروغ دیا گیا ہے اور فروغ دیا جارہا ہے۔ آج بھی روزانہ اعلان ہوتا ہے کہ اتنے ٹارگٹ کلر پکڑے گئے ہیں، جن کا ایک سیاسی جماعت سے تعلق ہے، لیکن نہ اس جماعت کا نام لیا جاتا ہے اور نہ اس کے خلاف دستور اور قانون کے مطابق معاملہ کیا جاتا ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں مذاکرات نہیں قانون کے مطابق کارروائی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں سب سے زیادہ منافقت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
  • دہشت گردی کا پانچواں میدان وہ ہے، جس کی کوئی سیاسی بنیاد نہیں ہے، بلکہ وہ    کھلے کھلے جرم کی قبیل میں آتی ہے۔ لینڈمافیا، بھتہ مافیا، ڈرگ مافیا، اغوا براے تاوان، گلی محلے کے جرائم وغیرہ، یہ سب اسی زمرے میں آتے ہیں اور ان کا مقابلہ بھی قانون کی آہنی گرفت سے کیا جانا چاہیے۔ اس نوعیت کی دہشت گردی کے لیے فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں۔ یہ پولیس کی ذمہ داری ہے، اور پولیس مؤثرانداز میں اس کا سدباب کرسکتی ہے، بشرطیکہ پولیس کو سیاست بازی سے پاک رکھا جائے، اسے ضروری وسائل فراہم کیے جائیں۔ مناسب تربیت ہو اور وہ دستور اور قانون کے مطابق آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام دے سکے۔ پولیس کو سیاسی دبائو کی آلایشوں سے پاک کرکے اس میں پیشہ ورانہ کمال  پیدا کرنے کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ضرورت ہو تو وقتی طور پر دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی دستور کے تحت مدد لی جاسکتی ہے، لیکن مستقل حل پولیس کی اصلاح، تربیت، وسائل کی فراہمی اور نگرانی کا مؤثر انتظام ہے۔

یہاں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ ان جرائم کی قوتِ محرکہ اور مددگار عامل دراصل اس غیرقانونی اسلحے کی فراوانی ہے، جس نے پورے ملک کو لاقانونیت اور دھونس کی آگ میں دھکیل رکھا ہے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ گذشتہ ۱۲برسوں کے دوران اس خودکار اور آتشیں اسلحے کو ضبط کرنے کے بیانات تو ضرور نظرنواز ہوتے رہے ہیں، مگر اس سمت میں ایک قدم بھی بامعنی طور پر نہیں اُٹھایا جاسکا۔ اور یہ سب شاخسانہ ہے، سیاسی پشت پناہی اور فیصلوں پر عمل کرنے سے راہِ فرار اختیار کرنے کا۔ اس لیے حکومت اور انتظامیہ کو اس عفریت پر قابو پانا چاہیے ورنہ یہ تمام دعوے اور اقدامات خواب و خیال ہی رہیں گے۔

۴-  فوجی آپریشن کے بارے میں ہم بہت صاف الفاظ میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ    فوج ملک کی سرحدوں کے دفاع کے لیے ہے۔ ملک میں امن و امان کا قیام بنیادی طور پر پولیس کی ذمہ داری ہے، اور اس فرق کو سختی سے ملحوظ رکھنا لازم ہے۔ فوج کی تربیت ایک خاص انداز میں ہوتی ہے اور اسے امن و امان کے قیام کے کاموں میں اُلجھانا اس کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو متاثر کرتا ہے اور سول نظام کے ارتقا کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ غیرمعمولی حالات میں وقتی طور پر دستور میں فوج کے استعمال کی گنجایش موجود ہے، لیکن وہ مخصوص حالات تک محدود ہے اور اسے معمول بنادینا پورے نظام کو تباہ کرنے کا باعث ہوسکتا ہے۔

پھر پاکستان کی تاریخ میں فوجی حکمرانی کے جو تلخ تجربات رہے ہیں، اس کی روشنی میں تو یہ ہرگز قرین حکمت نہیں کہ فوج کو ان معاملات میں اُلجھایا جائے۔ فاٹا اور سوات میں جو کام فوج کو سونپا گیا، وہ اس غلط حکمت عملی کا حصہ تھا، جس پر مشرف دور سے عمل ہورہا ہے۔ سوات میں فوج پانچ سال سے موجود ہے اور اب تک سول نظام وہاں ذمہ داری اُٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، حالانکہ یہ کام زیادہ سے زیادہ ایک دو سال ہی میں ہوجانا چاہیے تھا۔ شمالی علاقہ جات کا معاملہ   اس سے بھی نازک ہے۔ وہاں کی اپنی تاریخ اور روایات ہیں۔ ان کو نظرانداز کرکے جو انتظام قائم کیا گیا ہے، وہ چلنے والا نہیں ہے۔ بندوق اور ایف-۱۶ کی بم باری سے امن قائم نہیں ہوسکتا اور نہ کلاشنکوف یا خودکش بمباری سے شریعت کا نفاذ ہوسکتا ہے۔

 ہم صاف الفاظ میں متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ان علاقوں میں فوج کا اقتدار قائم ہوتا ہے تو اسے کوئی چیز دوام سے نہ روک سکے گی۔ الجزائر اور مصر کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ جب فوج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا یا اسے یہ کردار ادا کرنے دیا جائے گا تو پھر اقتدار پر  اسے بُراجمان ہونے سے روکنا ممکن نہیں رہتا۔ ہمیں اس خطرناک کھیل سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہیے۔

ان علاقوں میں امن اس وقت قائم ہوسکتا ہے اور قائم رہ سکتا ہے، جب ہم اس پالیسی کو بحال کریں جو قائداعظم نے ۱۹۴۸ء میں اختیار کی تھی اور جس کی بدولت ۵۰برس تک کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا تھا۔ ہاں، جو غلطی ہم نے کی، وہ یہ تھی کہ اس کے تقاضوں کو پورا نہ کیا اور سیاسی ارتقا کا جو عمل ۱۹۴۸ء کے بعد شروع ہوجانا چاہیے تھا، وہ دستورسازی کے باوجود شروع نہ ہوا کہ ہماری قیادتوں نے دستور کے عمل دخل سے پورے شمالی علاقہ جات کو باہر قرار دے دیا۔ انگریز کے سامراجی دور کے فرنٹیر کرائمز ریگولیشن کے ذریعے وہاں حکمرانی ہوتی رہی اور وہاں کے روایتی نظام کو جو مَلک، جرگہ اور پولیٹیکل ایجنٹ پر مشتمل تھا، باقی ملک کے نظام سے مربوط نہ کیا گیا۔ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ بلاتاخیر شمالی علاقہ جات کو اس کے تاریخی نظام اور روایات کی روشنی میں باقی ملک کے نظام سے پیوست کیا جائے۔ پاکستان کے دستور اور عدالتی نظام کا وہاں پورا پورا اطلاق ہو۔

اس علاقے کو وہاں کے لوگوں کے مشورے سے یا صوبہ خیبرپختونخوا میں شامل کیا جائے، جیساکہ FATA کے سلسلے میں کیا جاچکا ہے، یا پھر ان کو ایک صوبے کی حیثیت دی جائے اور وہ پاکستان کی تعمیروترقی میں اپنا پورا کردار ادا کرسکیں۔ جو مضحکہ خیز صورت اس وقت پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں تو وہ نمایندگی رکھتے ہیں، مگر اسمبلی اور سینیٹ کو ان کے علاقے کے بارے میں کوئی اختیار نہیں، یہ دو رنگی ختم ہونا چاہیے۔ اس بنیادی تبدیلی کے نتیجے میں بہت سی وہ خباثتیں آپ ختم ہوجائیں گی، جو خرابی کا باعث ہیں اور سیاسی، معاشی ، سماجی اور تعلیمی ترقی کا وہ عمل بھی مؤثر ہوسکے گا، جو اس وقت ٹھٹھرا ہوا ہے۔

شمالی علاقہ جات کے مستقبل کا انحصار اس بنیادی تبدیلی پر ہے۔ آگاہ رہنا چاہیے کہ  فوجی آپریشن حالات کو بگاڑ تو سکتا ہے مگر اصلاح کی راہیں استوار نہیں کرسکتا۔ اس لیے ہم حکومت  پاکستان کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ ملک اور فوج دونوں کو کسی نئی تباہی سے دوچار کرنے سے مکمل طور پر احتراز کرے اور اصلاحِ احوال کے لیے وہ راستہ اختیار کرے، جو عوام کی خواہشات کے مطابق ہو اور جو قائداعظم کے وژن اور ان کے دکھائے ہوئے راستے کا تسلسل ہو۔

ہم اپنی معروضات کو ختم کرنے سے پہلے ملک کی تمام سیاسی اور دینی جماعتوں سے درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ وہ حالات کی سنگینی کو محسوس کریں اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے مثبت کردار ادا کریں۔ ہم خصوصیت سے تمام مکاتب ِ فکر کسے علماے کرام سے درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بھی اپنا دینی، اخلاقی اور سماجی اثرورسوخ استعمال کریں اور افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات کو حل کرنے میں سرگرم حصہ لیں۔ نیز ہم طالبان کے تمام ہی گروپوں سے اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایسی تمام سرگرمیوں کو سختی سے روکیں، جن کے نتیجے میں معصوم انسانوں کا خون    بہہ رہا ہے، ظلم اور فساد رُونما ہورہا ہے، ملک و ملت کے وسائل تباہ ہورہے ہیں اور اسلام کے   روشن چہرے پر بدنما داغ لگ رہے ہیں۔

اسلام رحمت اور عدل و انصاف کا دین ہے۔ تمام انسانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاطت کا ضامن ہے۔ اسلام کے مفاد اور شریعت کی بالادستی کا وہی طریقہ معتبر اور محترم ہے، جو    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا ہے، اور جس کے اتباع کا انھوں نے ہمیں حکم دیا ہے۔ ہرمسلمان ہی نہیں، ہر انسان محترم ہے، جیساکہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰)۔ اسلام انسانوں کو جوڑنے کے لیے آیا ہے، ان کو بانٹنے اور کاٹنے کے لیے نہیں    ؎

تو براے وصل کردن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی

آیئے! سب مل کر اس ملک کی تعمیر، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کے مطابق کریں۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے یہ ملک قائم ہوا تھا اور یہی منزل دستور میں اس    کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ جو بھی کوتاہی ہمارے عمل میں رہی ہے، اسے مل جل کر مشاورت سے  دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور دوسری طرف    ایک دوسرے کا سہارا بن کر اسلامی شریعت کے نفاذ اور دستور پر مکمل عمل کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صبروحکمت کے ساتھ انصاف، ترقی اور خدمت کی راہوں پر چلنے کی توفیق  عطا فرمائے اور تصادم کی راہ سے محفوظ و مامون رکھے، آمین!

قرآنِ پاک نے ایک جانب انسانی جان کی حُرمت کا حکم دیا ہے، تو دوسری جانب جائز طور پر جان لینے کے بارے میں عدل اور قصاص کی شرط کو ایک ابدی اصول کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہی وہ اصل الاصول ہے جس کی بنیاد پر انسانی معاشرے میں جان کا تحفظ اور امن و آشتی کا قیام ممکن ہے:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَ مَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ ۵:۳۲)   جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا، کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی، اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخشی۔

اس آیت مبارکہ سے انسانی زندگی کے کم از کم تین بنیادی اصول سامنے آتے ہیں

اوّل:انسانی جان سب سے محترم شے ہے۔ زندگی اللہ کی دی ہوئی ہے۔ اللہ کی دی ہوئی مہلت میں زندہ رہنے کا حق تمام انسانوں کو حاصل ہے، اِ ّلا یہ کہ وہ خونِ ناحق کے مرتکب ہوں یا زمین پر فساد پھیلانے کا ذریعہ بن کر دوسروں کے لیے جینا محال کردیں۔ اگر ایسی صورت پیدا ہوجائے تو وہ اپنے زندہ رہنے کے حق سے اپنے کو محروم کرلیں گے۔ لیکن سزا کا یہ نظام قانون اور عدل کے مسلّمہ طریقے کے مطابق ہوگا ورنہ فساد فی الارض کا موجب ہوگا۔

دوم:بات خواہ ایک ہی فرد کی زندگی کی حفاظت یا قانون کے مطابق کی ہو، لیکن ہرفرد کی زندگی اتنی اہم ہے، جتنی پوری انسانیت کی زندگی۔ اگر ایک جان بھی ناحق جاتی ہے اور اس کا صحیح احتساب نہیں ہوتا تو پھر کسی کی زندگی بھی محفوظ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے اور اپنے نتائج اور عواقب کے اعتبار سے یہ ایک چشم کشا حقیقت ہے۔

سوم:اس میں ایک لطیف اشارہ یہ بھی موجود ہے کہ بات صرف قتلِ ناحق پر ختم نہیں کردی گئی، بلکہ ایک جان کو بچانے اور زندگی دینے کا بھی اس آیت میں ذکر کردیا گیا ہے، تاکہ یہ پیغام بھی مل جائے کہ قتلِ ناحق پر خاموش نہ رہو۔ مراد یہ ہے کہ ایک معصوم کی جان بچانا بھی پوری انسانیت کو زندگی دینے کے مترادف ہے اورجان کی حفاظت اور شریعت کے احکام اور ضابطوں کے مطابق قصاص بھی ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان کو جہاں ناحق خون بہانے سے روکا گیا ہے، وہیں خونِ ناحق سے انسانوں کو بچانے کی ترغیب بھی دی گئی ہے، تاکہ زندگی کا سفر رواں دواں رہ سکے۔

اس آیت ِ مبارکہ کی روشنی میں ہرمسلمان کو اپنا احتساب کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ آج دنیا میں، اور خصوصیت سے خود مسلم دنیا میں جس طرح معصوم انسانوں کا خون ارزاں ہوگیا ہے،  اس سے کیسے نجات پائی جائے۔

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما جناب عبدالقادر مُلّا کو محض سیاسی انتقام کے  جنون میں جس طرح شہید کیا گیا ہے، وہ عدالتی قتل کی بدترین مثال ہے جس نے ہردردمند آنکھ کو اَشک بار کردیا ہے۔ اسلامی دنیا کے طول و عرض میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور بنگلہ دیش کو سیاسی خلفشار اور تصادم کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ ان سطور کی تحریر تک سال ۲۰۱۳ء کے دوران میں ۴۰۰سے زیادہ افراد صرف ان جعلی مقدمات کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے جان کی بازی ہارچکے ہیں اور صرف پچھلے دو مہینوں میں حسینہ واجد کی گولیوں کا نشانہ بننے والوں کی تعداد ۱۱۵ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے، جس کے تھمنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

ان حالات میں اُمت مسلمہ اور انسانیت کے تمام بہی خواہوں کا فرض ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکنے کے لیے ہرممکن تدابیر کریں اور اپنے ایک برادر ملک کو تباہی کی طرف بگ ٹٹ دوڑنے سے روکیں کہ دوستی اور بہی خواہی کا یہی تقاضا ہے۔ اس سلسلے میں مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کے اہم پہلوئوں کو اچھی طرح سمجھ لیاجائے اور حالات کے معروضی تجزیے کی روشنی میں پالیسی اور حکمت عملی کے خطوطِ کار مرتب کیے جائیں۔

بنگلہ دیش جنگی جرائم کا ٹربیونل

۱۹۷۱ء میں پاکستان کیوں دولخت ہوا؟ اور بنگلہ دیش کن حالات میں اور کن وجوہ سے وجود میں آیا؟ یہ ہماری تاریخ کا ایک الم ناک باب ہے اور اس پر سنجیدگی اور دیانت سے غور کرنے اور اس سے سبق سیکھنے کی اپنی جگہ بے حد اہمیت ہے۔ البتہ اب یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ سب نے کھلے دل کے ساتھ اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ بنگلہ دیش ہمارا ایک آزاد اور خودمختار برادر ملک ہے اور اہلِ پاکستان دل کی گہرائیوں سے اس کی ترقی اور سلامتی کے طالب ہیں۔

فروری ۱۹۷۴ء میں ماضی کے تلخ باب کو بند کر کے پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں نے   بہتر مستقبل کی تعمیر اور باہمی تعاون کا عزم کیا تھا اور اس راہ پر گامزن بھی ہوئے تھے، لیکن اچانک بنگلہ دیش کی عوامی لیگ کی قیادت نے ۲۰۱۰ء میں ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے نام پر ایک نام نہاد  بین الاقوامی ٹربیونل بنا کر، اپوزیشن کی جماعتوں ، خصوصیت سے جماعت اسلامی اور ایک حد تک  بی این پی (بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی)کو نشانہ بنایا ہے اور سیاسی انتقام اور ریاستی دہشت گردی کا ایک خطرناک کھیل شروع کردیا ہے۔ خود بنگلہ دیش میں قوم کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے اور بھائی بھائی کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا گیا ہے۔ ریاست کی قوت کو سیاسی مخالفین کے خلاف بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ سرکاری میڈیاسے ایک خاص نقطۂ نظر کو ذہنوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور جھوٹے مقدمات کے ذریعے جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی قیادت کو ہدف بنایا جارہا ہے۔

یہ سلسلہ ۲۰۰۹ء میں دستور اور قانون میں ترامیم کے ذریعے شروع ہوا۔ پھر ۲۰۱۰ء میں ایک نام نہاد انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل قائم کیا گیا اور ۲۰۱۱ء میں گرفتاریاں اور مقدمات شروع ہوگئے جن کے ذریعے اب تک سات افراد، یعنی: علامہ دلاور حسین سعیدی، ابوالکلام آزاد،محمدقمرالزمان،   علی احسن مجاہد، صلاح الدین قادر، معین الدین، اشرف الزماں کو سزاے موت، پروفیسر غلام اعظم کو عمرقید اور عبدالقادر مُلّا کو پہلے عمرقید اور پھر کھلے کھلے سیاسی دبائو کے ڈرامے کے بعد سزاے موت کا اعلان کیا گیا۔ اسی طرح بی این پی کے عبدالعلیم کو عمرقید سنائی اور مزید دو درجن افراد پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

اس سلسلے نے۱۳دسمبر ۲۰۱۳ء کو ایک خطرناک شکل اختیار کرلی جب آخرالذکر، یعنی جناب عبدالقادر مُلّا کو عملاً سولی پر چڑھا کر حسینہ واجد کی بھارت نواز حکومت نے عدالتی قتل سے اپنے ہاتھ خون آلود کرلیے۔ اس لیے اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بنیادی مسئلہ پاکستان پر الزام تراشی اور حقوقِ انسانی کی پامالی، بنگلہ دیش کی موجودہ قیادت کا غیرآئینی، غیرقانونی اور غیراخلاقی اقدام ہے، جن کی وجہ سے برادر مسلم ملک بنگلہ دیش بحران کا شکار ہے۔ سیاسی عمل درہم برہم ہے، معیشت پر بُرے اثرات پڑ رہے ہیں اور ملک کا آئینی نظام نئے خطرات سے دوچار ہوگیا ہے۔   یہ حکومت ملک کی اسلامی قوتوں کو نشانہ بناکر اپنی سیاسی ناکامیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے ایک ہیجانی فضا ہموار کرنا چاہ رہی ہے۔

ملک اور ملک سے باہر اس صورت حال پر شدید احتجاج ہو رہا ہے۔ انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز،  ماضی میں عوامی لیگ کی حکومت کی جائز اور ناجائز تائید ہی کرتا رہا ہے، مگر اب اس نے اپنے دو ادارتی کالموں میں بنگلہ دیش کے سیاسی بحران کو حکومت کی پے درپے غلطیوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ان مذکورہ مقدمات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی مذمت کی ہے۔ جنگی جرائم کے مقدمات کی اصولی تائید کرنے کے باوجود، ان میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو جس طرح پامال کیا گیا ہے اور ثبوت اور معروف عدالتی طریق کار کے بغیر جس طرح لوگوں کو  پھانسی اور عمرقید کی سزائیں دی جارہی ہیں، ان پر مذکورہ اخبار نے شدید گرفت کی ہے۔ اپنے ۲۰نومبر ۲۰۱۳ء کے اداریے میں اس نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ:’’لگتا ہے کہ بیگم حسینہ یہ عزم کیے ہوئے ہیں کہ جنوری [۲۰۱۴ء] میں ہونے والے انتخابات سے پہلے اقتدار سے چمٹی رہیں، اور  جن ذرائع سے بھی ضرورت ہو اپنے مخالفین کو بے اثر کریں‘‘۔

ان نام نہاد بین الاقوامی جرائم کے ٹربیونل کے بارے میں اخبار لکھتا ہے:’’مقدمے نے حزبِ اختلاف کے لیڈروں کو ہدف بنایا اور یہ دوسرا حربہ ہے جس کے ذریعے سیاسی مخالفوں کی آواز کا گلا گھونٹا جا رہا ہے‘‘۔

نیویارک ٹائمز نے نشان دہی کی ہے کہ بنگلہ دیش کے سیاسی بحران سے نکلنے کا راستہ حسب ذیل تین نکات پر مشتمل ہے:

  1. عدلیہ کی آزادی کی بحالی اور اس کے سیاسی استعمال سے گریز۔
  2. انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی گرفتاریوں اور تعذیب کا خاتمہ۔
  3. تمام سیاسی قوتوں بشمول حزبِ اختلاف کے مشورے سے ایک حقیقی، غیر جانب دار عبوری حکومت کا قیام جس پر سب کا اعتماد ہو اور جو جنوری ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات کا اہتمام کرائے۔

اصل ایشو یہ نہیں ہے کہ بنگلہ دیش کیوں بنا اور کس نے تائید کی اور کس نے مخالفت___ اس وقت اصل ایشو یہ ہے کہ ۴۳سال کے بعد مقدمات کا ڈراما کیوں رچایا جا رہا ہے، اور عدل و انصاف اور ملکی اور عالمی قانون کو پامال کرتے ہوئے محترم اور مقتدر سیاسی شخصیات کو میدان سے ہٹانے   اور جماعت اسلامی کو سیاسی دوڑ سے نکالنے کا گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا ہے، جسے سمجھنا ضروری ہے۔  یہ سب ۲۰۱۴ء میں بنگلہ دیش کے انتخابات کو ہائی جیک کرنے کے لیے ہے، جو جمہوریت کے قتل پر منتج ہوسکتا ہے۔

۲۵دسمبر ۲۰۱۳ء کے الجزیرہ (انگریزی) کی ویب سائٹ پر ایک بنگالی نژاد سیاسی تجزیہ نگار ضیاحسن کا مضمون شائع ہوا ہے۔ مقالہ نگار ’جنگی جرائم‘ کے مقدمے کے حق میں اور جماعت اسلامی کے بارے میں مخالفانہ راے رکھنے کے باوجود لکھتے ہیں:

بنگلہ دیش کو جنگی جرائم کے ٹربیونل کی واقعی ضرورت تھی، لیکن اس عمل کے دوسال بعد زیادہ تر لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ مقدمے کو حکمران پارٹی کے لیے سیاسی ہتھیار میں تبدیل کرنے کی کوشش نے اسے بیرونی مداخلتوں کے لیے آسان ہدف بنا دیا ہے۔ ایسی صورت میں سیاست، عدلیہ، انتخابات اور انصاف کے درمیان حدود زیادہ مبہم ہوتی جارہی ہیں۔ [بنگلہ دیش کی] ساری آبادی اب نظریاتی طور پر دو واضح کیمپوں، یعنی ٹربیونل کے حامی اور ٹربیونل کے مخالف میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ججوں میں سے ایک جج کے اسکائپ اکائونٹ کے ہیک ہونے سے سامنے آنے والی گفتگو کے انکشاف، اور سزائیں سنانے کے لیے عوامی لیگ کی بے تابی نے انتخابات کو مکتی باہنی کے مخالف یا حامی ہونے کی بنیاد پر تقسیم کردیا ہے۔

اس مضمون کا عنوان ہے: How not to do a war crimes tribunal: the case of Bangladesh  (کس طرح ایک جنگی جرائم کا ٹربیونل نہ چلایا جائے___ بنگلہ دیش کی مثال)۔ انھوں نے آگے چل کر اس کھیل کو ایک سانحہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:

ٹربیونل کے قابلِ اعتماد آغاز کے بارے میں پہلے یہ خیال تھا کہ عوام کو قریب لائے گا لیکن اب وہ سیاسی طاقتوں کی کش مکش اور اقتدار کی سیاست کا حصہ بن گیا ہے.... بہت سے لوگ یقین رکھتے تھے کہ جنگی جرائم کا ٹربیونل ملک کو ماضی کی بھول بھلیوں سے نجات دلانے کا باعث ہوگا، لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹربیونل کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی بے تابی نے آبادی میں ایک تفریق پیدا کردی ہے۔

جماعت اسلامی کے ایک مخالف کا یہ تجزیہ مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے میں مددگار ہے:

  1. مقدمات ایک سیاسی کھیل ہیں، انصاف اور قانون سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
  2. ملک ایک نئے بحران کا شکار ہوگیا ہے۔ یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ بنگلہ دیش کی عوامی لیگی حکومت کے ظلم اور انصاف کشی کے خلاف ہماری تنقید کا کوئی تعلق بنگلہ دیش کی آزادی یا خودمختاری سے نہیں، بلکہ انسانی حقوق کی پامالی، معصوم انسانوں کے عدالتی قتل اور ظالمانہ قیدوبند، اور عوام کے حقوق اور سیاسی تبدیلی کے جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کے اقدامات سے ہے۔ یہ انسانی اور عالمی معاملات ہیں، محض کسی ملک کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔

جماعت اسلامی محض سیاسی انتقام

جماعت اسلامی کا بجاطور پر دعویٰ ہے کہ اس کا اور اس کے کارکنوں کا دامن الحمدللہ ایسے تمام مبینہ جرائم سے پاک ہے، جو اس کی قیادت کی طرف منسوب کیے جارہے ہیں۔ وہ احتساب سے بھاگنے والی جماعت نہیں ہے۔ وہ عدل و انصاف کی میزان کی علَم بردار ہے اور آئین اور قانون کے مطابق ہرجواب دہی کے لیے تیار ہے۔ جماعت اسلامی نے ۱۹۷۰ء کے انتخابی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کیا تھا اور ان کے مطابق انتقالِ اقتدار کا مطالبہ کیا تھا۔ پاکستان جو ’لا الٰہ الااللہ‘ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اس کے دستور ، اس کی آزادی، سالمیت اور استحکام کی علَم بردار تھی اور سیاسی اختلافات کے علی الرغم سقوطِ ڈھاکہ تک، پاکستان کے دفاع میں کمربستہ رہی۔ لیکن جب بنگلہ دیش ایک آزاد ملک کی حیثیت سے قائم ہوگیااور ۱۹۷۴ء میں پاکستان، اسلامی دنیا اور اقوامِ متحدہ نے اسے تسلیم کرلیا تو جماعت اسلامی سے وابستہ تمام افراد جو بنگلہ دیش میں تھے، اس کی آزادی، سالمیت اور استحکام کے لیے سرگرم ہوگئے۔

یہی وہ پس منظر تھا جس میں ۱۹۷۸ء میں جماعت اسلامی کو ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت ملی اور پھر ایک مقدمے کی طویل سماعت کے بعد پروفیسر غلام اعظم صاحب کی شہریت وہاں کی سپریم کورٹ نے بحال کردی۔ اس وقت سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش ایک نظریاتی تحریک کی حیثیت سے بنگلہ دیش میں زندگی کے ہرشعبے میں خدمات انجام دے رہی ہے اور ملک کی سیاسی تعمیرِنو کے لیے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔بحالی جمہوریت کی تحریک میں اس نے تمام سیاسی جماعتوں بشمول عوامی لیگ کے ساتھ مل کر جدوجہد کی اور بحالی جمہوریت کے بعد پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے اور بی این پی کے ساتھ حکومت میں بھی شریک رہی ہے۔

۱۹۸۴ء سے ۱۹۹۱ء تک سات سال جماعت اسلامی اور عوامی لیگ ایک جمہوری تحریک میں شانہ بشانہ شریکِ کار تھے اور جماعت کی تمام قیادت بشمول پروفیسر غلام اعظم صاحب،    مولانا اے کے ایم یوسف، مطیع الرحمن نظامی، عبدالقادرمُلّا، علی احسن محمد مجاہد اور عوامی لیگ کی قیادت بشمول شیخ حسینہ واجد، عبدالصمد آزاد مرحوم، عبدالجلیل، صلاح الدین قادر چودھری، طفیل احمد، سرجیت سین گپتا اور مسز ساجدہ چودھری ایک ہی محاذ پر سرگرم تھے، حتیٰ کہ ۱۹۹۱ء میں عوامی لیگ نے انتخابات کے بعد جماعت کو کابینہ میں شمولیت کی دعوت بھی دی تھی، جسے جماعت نے شکریے کے ساتھ قبول نہیں کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر جماعت اسلامی اور اس کی قیادت جنگی جرائم کی مرتکب تھی تو عوامی لیگ کو کیا اس وقت اس بات کا علم نہیں تھا؟ اور کیا یہ انکشاف ۲۰۰۹ء کے بعد ہوا؟

اگر ۱۹۸۴ء سے ۱۹۹۶ء تک جماعت میں کوئی خرابی نہ تھی تو پھر اس سے کیسے انکار کیاجاسکتا ہے کہ ۲۰۰۹ء میں نئی سیاسی مصلحتوں کی خاطر یہ افسانہ تراشا گیا اور انھی افراد کو جن کے ساتھ مل کر جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاسی جدوجہد کی جارہی تھی، اب سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

رہا معاملہ ۱۹۷۱ء کے واقعات کا، تو یہ ایک حقیقت ہے کہ تشدد کی سیاست کا آغاز    عوامی لیگ نے کیا اور ۱۹۶۹ء میں اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ)کے رہنما عبدالمالک کو شہید کیا گیا۔ ۱۹۷۰ء میں پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کو جلسہ نہ کرنے دیا گیا جس میں تقریر کرنے کے لیے مولانا مودودی ڈھاکہ پہنچ گئے تھے اور اس کے متعدد کارکنوں کو شہید اور بیسیوں کو زخمی کیا گیا۔ عوامی لیگ کے عسکری ونگ کے طور پر مکتی باہنی کا قیام مئی۱۹۷۰ء میں کرنل عثمانی کے ہاتھوں ہوا۔ مارچ ۱۹۷۱ء سے ۱۰ ماہ پہلے مکتی باہنی نے پاکستان کی فوج اور پولیس سے بغاوت کرنے والے عناصر کے ساتھ مل کر قتل و غارت اور لُوٹ مار کا بازار گرم کیا، جس کے نتیجے میں ۵۰ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ اسی طرح یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی افواج نے جب ۲۶مارچ ۱۹۷۱ء کو آپریشن شروع کیا تو اس دوران بھی زیادتیاں ہوئیں اور شرپسندوں کے ساتھ ساتھ بعض جگہوں پر بے گناہ افراد بھی ہلاک ہوئے۔ یوں بدقسمتی سے زیادتیاں دونوں طرف سے ہوئیں اور ان کا کچھ نہ کچھ ریکارڈ بھی ایک حد تک موجود ہے۔

بیسیوں کتابیں ہیں جن میں پاکستانی، بنگلہ دیشی اور دوسرے مصنفین نے ذاتی مشاہدے کی بنا پر اس الم ناک دورکا نقشہ کھینچا ہے۔ خود حمودالرحمن کمیشن نے بھی تینوں فریقوں، یعنی پاکستانی فوج اور اس کے معاونین، مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے کارکن، اور خود بھارتی افواج کے خونیں اور  شرم ناک کردار کو اپنے ریکارڈ کا حصہ بنایا ہے اور مناسب احتساب کی ضرورت کو بھی واضح کیا ہے۔ اس تکلیف دہ اور خون آشام دور کے بارے میں دو ہی طریقے ہوسکتے تھے: ایک بین الاقوامی سطح پر مکمل طور پر آزاد اور غیر جانب دار عدالت کے ذریعے احتساب، اور دوسرا غلطیوں کے مجموعی اعتراف کے ساتھ عفو و درگزر اور آیندہ کے حالات کی اصلاح کا راستہ۔

بنگلہ دیش کی مجیب الرحمن حکومت نے ۱۹۷۲ء میں Collobarators Act کے تحت  سول سوسائٹی کے افراد اور ۱۹۷۳ء کے انٹرنیشنل کرائمز ایکٹ کے تحت فوجی اور نیم فوجی ادارے سے متعلق افراد پر مقدمہ چلانے کا راستہ اختیار کیا۔ پھر فوجی دائرے میں ۱۹۵؍ افراد کو جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا گیا۔ دوسری جانب سول سوسائٹی میں ۳۷ہزار۴سو۷۱ لوگوں پر الزام عائد کیا گیا، لیکن ان میں سے ۳۴ہزار۶سو۲۳ کو ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے رہا کردیا گیا۔عملاً مقدمہ ۲ہزار۸سو۴۸ ؍افراد پر چلا، جن میں سے ۷۲۰ کو سزا ہوئی، اور ۲ہزار سے زیادہ افراد کو بری کردیا گیا۔ واضح رہے کہ    ان ۳۷ہزار افراد میں جماعت اسلامی کا کوئی فرد شامل نہیں تھا اور جن افراد کو آج الزام دیا جا رہا ہے، ان میں سے پروفیسر غلام اعظم کے سوا تمام افراد اس وقت بنگلہ دیش میں موجود تھے اور کہیں چھپے ہوئے نہیں تھے۔

البدر پس منظر اور جدوجہد

غلطی کا ارتکاب کسی بھی فرد سے ممکن ہے، تاہم یہ بات پوری ذمہ داری سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جماعت کے کارکنوں اور البدر کے رضاکاروں کا دامن ہرقسم کے فوج داری یا اخلاقی جرائم سے پاک ہے۔ انھوں نے دفاعی خدمات ضرور انجام دیں، لیکن کسی قتلِ ناحق یا بداخلاقی اور لُوٹ مار میں وہ ہرگز ملوث نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ کل بھی اور آج بھی وہ شفاف عدالتی نظام میں   اپنے آپ کو پیش کرنے کو تیار ہیں۔ جماعت اسلامی نے کسی سے بھی رحم کی درخواست نہیں کی۔ جب تک وہ حصہ پاکستان تھا، اس وقت تک جماعت اسلامی کے کارکنوں نے دینی، اخلاقی، قومی اور قانونی فریضہ سمجھ کر مشرقی پاکستان میں امن و امان کی بحالی کے لیے جدوجہد کی اور بھارتی مداخلت کاروں سے وطن کو بچانے کے لیے دفاعی پوزیشن اختیار کی۔ جب بنگلہ دیش کو قبول کرلیا تو اس کے ساتھ وفاداری کا معاملہ کیا۔ لیکن یہ صریح ظلم ہے کہ ۴۳سال کے بعد ان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کرکے انصاف کا کھلے بندوں خون کیا جارہا ہے اور سیاسی طور پر محکوم ٹربیونل کے ذریعے ان کو سزائیں دلوائی جارہی ہیں۔ ہمارا احتجاج انصاف اور انسانیت کے اس قتل کے خلاف ہے۔

البدر‘ کے نوجوانوں کا کیا کردار تھا؟اس بارے میں کتاب البدر (۱۹۸۵ء)کو پڑھا جاسکتا ہے۔ اسی ضمن میں روزنامہ نئی بات میں شائع ہونے والے آصف محمود صاحب کے مضمون: ’یہاں بھی غدار، وہاں بھی غدار‘ کا ایک اقتباس پیش ہے۔ واضح رہے کہ صاحب ِ مضمون کا کوئی تعلق جماعت اسلامی سے نہیں اور نہ میجر ریاض حسین ملک کا کوئی تعلق جماعت اسلامی سے تھا:

کیا ہم جانتے ہیں کہ البدر کیا تھی؟ یہ تنظیم [بلوچ رجمنٹ کے]میجر ریاض حسین ملک نے بنائی۔ میجر سے میرا تعلق دوعشروں پر محیط ہے۔ میجر ریاض بتاتے ہیں کہ [میمن سنگھ] میں فوج کی نفری کم تھی اور ہمارے لیے ممکن نہیں رہا تھا کہ ہم پُلوں اور راستوں کی نگرانی کرسکیں۔ ایک روز کچھ بنگالی نوجوان ان کے پاس آئے اور کہا کہ دفاعِ وطن کے لیے آپ کے کچھ کام آسکیں تو حاضر ہیں۔ ان نوجوانوں کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔ میجر ریاض نے انھیں کہا: ’’ٹھیک ہے آپ فلاں فلاں پُلوں پر پہرا دیجیے‘‘۔ ایک نوجوان نے کہا: ’’میجرصاحب ہمیں اپنی حفاظت کے لیے بھی کچھ دیں‘‘۔ یہ وہ دن تھے جب ہائی کمان کی طرف سے حکم آچکا تھا کہ تمام بنگالیوں کو غیرمسلح کردو۔ میجر ریاض کی آج بھی آہیں نکل جاتی ہیں جب وہ بتاتے ہیں کہ یہ سن کر وہ اندر گئے اور سورئہ یٰسین کا ایک نسخہ اس نوجوان کو پکڑا دیا کہ اپنی حفاظت کے لیے میں تمھیں اس کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔ وہ نوجوان چلے گئے، گھر نہیں بلکہ میجر کے دیے مشن پر۔ بانس کے ڈنڈے انھوں نے بنالیے اور ندی نالوں اور پُلوں پر جہاں سے مکتی باہنی اسلحہ لاتی تھی، پہرے شروع کر دیے۔ میجرریاض بتاتے ہیں کہ اس کے بعد انھوں نے اسلحہ نہیں مانگا، لیکن میجرکے مَن کی دنیا اُجڑچکی تھی۔ فوجی ضابطے انھیں عذاب لگ رہے تھے۔ ایک روز ۳۰کے قریب نوجوان ان کے پاس آئے کہ انھیں بھی اس رضاکار دستے میں شامل کرلیں۔ ان میں ایک بچہ بھی تھا۔ میجر نے اسے کہا: بیٹا! آپ بہت چھوٹے ہو واپس چلے جائو۔ وہ بچہ اپنے پنجوں پر کھڑا ہوگیااور کہنے لگا: میجرشاب ہن تو بڑا ہوئے گاشے‘ (میجرصاحب! اب تو بڑا ہوگیا ہوں)۔ میجر تڑپ اُٹھے، انھیں معوذؓ اور معاذؓ یاد آگئے، جن میں ایک نے نبی کریمؐ کی خدمت اقدس میں ایسے ہی ایڑیاں اُٹھا کر ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اتنے چھوٹے بھی نہیں کہ جہاد میں حصہ نہ لے سکیں۔ میجرنے اس بچے کو سینے سے لگالیا۔  ہائی کمان کا حکم پامال کرتے ہوئے ان جوانوں کو مسلح کردیا اور جنگ ِ بدر کی نسبت سے اس رضاکاردستے کو ’البدر‘ کا نام دے دیا۔ کئی ہفتے بعد ہائی کمان نے ان سے پوچھا کہ ان کے علاقے میں اتنا امن کیسے ممکن ہوا، تو میجر نے یہ راز فاش کیا کہ میں نے آپ کی حکم عدولی کی اور میں نے تمام بنگالیوں پر عدم اعتماد نہیں کیا۔ میں نے بنگالیوں کو مسلح کر کے بھارت اور مکتی باہنی کے مقابلے میں کھڑا کردیا ہے۔ تب یہ رضاکار تنظیم پورے بنگال میں قائم کردی گئی۔

ایک روز مَیں نے میجرسے پوچھا کہ ہم میں عمروں کے فرق کے باوجود تکلف باقی نہیں ہے۔ ’البدر‘ نے ظلم تو بہت کیے ہوںگے اپنے سیاسی مخالفین پر۔ یہ سوال سن کر میجر کو ایک چپ سی لگ گئی۔ کہنے لگے: آصف تم میری بات کا یقین کرو گے؟ میں نے کہا: میجرصاحب آپ سے ۲۵سال کا تعلق ہے، میرا نہیں خیال کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ میجر نے کہا: میں اپنے اللہ کو حاضرو ناظر جان کر کہتا ہوں میں نے ’البدر‘ کے لوگوں سے زیادہ قیمتی اور نیک لڑکے نہیں دیکھے، یہ لڑکے اللہ کا معجزہ تھے۔ میرے علم میں کوئی ایک واقعہ بھی نہیں کہ انھوں نے کسی سے ذاتی انتقام لیا ہو۔ مجھے تو جب یہ پتا چلا کہ ان کی فکری تربیت مودودی نام کے ایک آدمی نے کی ہے تو اشتیاق پیدا ہوا کہ دیکھوں یہ مودودی کون ہے؟ برسوں بعد جب میں بھارت کی قید سے رہا ہوا تو میں اپنے گھر نہیں گیا، میں سیدھا اچھرہ گیا، مودودی صاحب کے گھر، مَیں دیکھنا چاہتا تھا  وہ شخص کیسا ہے جس نے ایسے باکرداراور عظیم نوجوان تیار کیے۔

آج یہی ’البدر‘ پھانسی پر لٹک رہی ہے۔

ہم تحدیث نعمت کے طور پر یہ کہتے ہیں کہ ’البدر‘ کوئی کرایے کی فوج (mercenary) نہیں تھی، بلکہ اللہ کے دین کی خدمت کرنے والے مجاہدین کا گروہ تھے، جو صرف اللہ سے اپنے اجر کے طالب تھے اور جو ایک مقدس عہد کر کے اپنے کو اس خدمت کے لیے وقف کرتے تھے۔ ہرکارکن جو حلف لیتا تھا، وہ اس کے جذبات و احساسات، اس کے عزائم اور اس کے ضابطۂ اخلاق کا آئینہ ہے۔

البدر کا ہر مجاہد مختصر تربیت کی تکمیل کے بعد اپنے ساتھیوں کے رُوبرو یہ حلف نامہ پڑھتا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہٗ ورسولہٗ

مَیں خداے بزرگ و برتر کو حاضرناظر جان کر اعلان کرتا ہوں کہ:

  •   پاکستان کی سالمیت پر آنچ نہ آنے دوں گا۔
  •   پُرامن شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کروں گا۔
  •   اسلام اور پاکستان کے لیے ہرسطح پر جیتے جی جنگ جاری رکھوں گا اور اپنے جان و مال کو اس مقصد کے لیے وقف کردوں گا۔

اللہ میرا حامی و ناصر ہو۔ آمین!

اسی طرح البدرمجاہدوں کا اجتماعی حلف نامہ یہ ہوتا تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

خدا کو حاضرناظر جان کر اقرار کرتے ہیں کہ ہم البدر کے رضاکار:

  •  سیاسی مخالفت یا خاندانی رنجش کی بنا پر کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
  • کسی فرد کے خلاف محض عوامی لیگ کا حامی یا ہندو ہونے کی بناپر تادیبی کارروائی نہیں کریں گے، تاآنکہ پوری تحقیق کے بعد غداروں کی اعانت کرنے یا براہِ راست ملکی مفاد کو نقصان پہنچانا ثابت نہ ہوجائے۔
  • متحدہ پاکستان کے لیے پُرامن جمہوری ماحول کی تیاری اور عام زندگی کے معمولات کی بحالی کے لیے تمام مثبت اقدامات کریں گے۔
  • ذرائع مواصلات کو درہم برہم کرنے اور پُلوں کو تباہ کرنے والوں، لُوٹ مار،    قتل و غارت اور عزت و ناموس پر حملے کے مرتکب افراد کے خلاف جدوجہد کریں گے۔

خدا ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!

ہم بڑی عاجزی کے ساتھ اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ الحمدللہ! ہمارے کارکنوں کا دامن ظالمانہ اور انتقامی کارروائیوں سے پاک ہے۔ بیسیوں کتابیں اس پر شاہد ہیں جو ضروری تحقیق کے بعد لکھی گئی یا جن میں دیانت داری سے اس زمانے کے حالات کو شخصی مشاہدے کی بنیاد پر بیان کیا گیا ہے۔ ان میں ’البدر‘ پر متعین الزامات کا کوئی وجود نہیں۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ سے لے کر بنگلہ دیش کے مصنّفین، بشمول سابق فوجی اور سفارت کار لیفٹیننٹ کرنل(ر) شریف الحق دالیم کی کتاب Bangladesh Untold Facts اور حمیدالحق چودھری کی خودنوشت Memoires، بھارتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) جے ایف آر جیکب کی Surrender at Dacca: Birth of a Nation  اور پروفیسر شرمیلا بوس کی کتاب Dead Reckoning ، اسی طرح غیرجانب دار بلکہ پاکستان کی حکومت کے ناقد پاکستانی مصنّفین، مثلاً لیفٹیننٹ جنرل (ر) کمال متین الدین کی Tragedy of Errors: East Pakistan Crises 1968-1971 اور میجر جنرل (ر) خادم حسین راجا کی A Stranger in My Own Country ۔ ان میں پاکستانی فوج اور خصوصیت سے اس کی قیادت پر سخت تنقید ہے مگر البدر کی کسی غلط کاری کا کوئی ذکر نہیں۔

پھر وہ دل دہلا دینے والی کتابیں جو ذاتی مشاہدات پر مبنی ہیں، جیسے سابق سفارت کار قطب الدین عزیز کی کتاب Blood and Tears ہے جو ۷۰ کے چشم دید واقعات پر مشتمل ہے، یا مسعود مفتی کی دل دہلا دینے والی تصانیف لمحے اور چہرے اور مہرے اور نسرین پرویز کی داستان سلمٰی کا مقدمہ: ڈھاکہ سے کراچی تک، یا پھر ڈاکٹر صفدرمحمود کی کتاب Pakistan Divided۔ ان اور دوسری تمام مستند کتابوں میں دونوں طرف کی زیادتیوں کا ذکر ہے، مگر البدر پر متعین طور پر الزام کہیں بھی نہیں ملے گا بلکہ کرنل صدیق سالک نے اپنی کتاب Witness to Surrender (میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا)میں اعتراف کیا ہے کہ البدر کے نوجوان بڑے جانثار اور مقصد سے وفادار تھے، جو اسلام اور پاکستان سے محبت کی بناپر خطرات انگیز کرنے کے لیے کمربستہ تھے اور : ’’ان میں سے بعض نے قربانی کے ایسے جذبے کا مظاہرہ کیا، جس کا دنیا کی بہترین افواج سے مقابلہ کیا جاسکتا تھا‘‘ (ص ۱۰۵)۔ صدیق سالک نے پاکستانی فوج کے چند اہل کاروں کی غلط کاریوں کا اعتراف کیا ہے، لیکن ’البدر‘ کے جان نثاروں کا دامن ایسے خبائث سے پاک تھا۔

انسانیت کا قتل اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی

ہم ایک بار پھر بہت ہی انکسار اور اللہ سے عفوودرگزر کی طلب کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ آزاد اور غیر جانب دار عدلیہ کے سامنے ہمارے کارکن انصاف کے حصول کے لیے اور اپنی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے ہرلمحہ تیار ہیں۔ لیکن جو خونیں اور شرم ناک ڈراما    بین الاقوامی جرائم کے ٹربیونل کے نام سے کھیلا گیا ہے، وہ ظلم اور انتقام کا بدترین کھیل ہے۔ اس کا عدل اور انصاف سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ انسانی حقوق کی پامالی اور معصوم انسانوں کی کردارکشی اور ان کے لیے قیدوبند اوردارورَسن کا بازار سجانے کی کوشش ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اس ڈھونگ کا پردہ چاک کریں اور عالمی راے عامہ کو اس کے خلاف متحرک کریں، تاکہ عدل اور انسانیت کے قتل کا یہ سلسلہ روکا جاسکے۔

جیساکہ ہم نے عرض کیا کہ پہلا راستہ عدل و انصاف کا ہے اور ہم اس کے لیے تیار ہیں اور دوسرا راستہ مفاہمت اور عفوودرگزرکا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستانی فوجی و سیاسی قیادت کی حماقتوں اور بھارت کی سیاسی اور عسکری مداخلت کے نتیجے میں رُونما ہونے والی زیادتیوں کے اس تلخ باب کو بند کر کے ایک نئے باب کو کھولنا حکمت اور دانش مندی کا راستہ تھا۔ اس کا آغاز بھی شملہ معاہدے اور پھر ۹؍اپریل ۱۹۷۴ء کے سہ فریقی معاہدے کی شکل میں ہوا، جس پر پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے وزراے خارجہ نے دستخط کیے اور جس کی حیثیت ان ممالک کے درمیان ایک عہدوپیمان (treaty) کی ہے۔

اس معاہدے ہی کے نتیجے میں بھارت میں قید ۱۹۵ پاکستانی فوجیوں کو معافی (clemency) ملی، جن کو بنگلہ دیش کے بین الاقوامی جرائم کے ٹربیونل نے جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا تھا۔ اس کے نتیجے ہی میں پھر پاکستان اور بنگلہ دیش نے سفارتی تعلقات قائم کیے، تجارت اور دوسرے میدانوں میںتعاون اور اشتراک کا دروازہ کھلا۔ اس میں ماضی کی غلطیوں پر افسوس کا اظہار بھی ہے اور ایک دوسرے کو معاف کرنے اور درگزر کا اعلان بھی ہے، جسے حسینہ واجد صاحبہ نے  بھلا دیا ہے، اور بین الاقوامی معاہدہ شکنی کی مرتکب ہوئی ہیں۔ طے شدہ اُمور کو دوبارہ کھولنے کی کوشش کی ہے اور پرانے زخم تازہ کیے ہیں۔ ان کا یہ رویہ نہ حق و انصاف اور سفارتی عہدوپیمان کے محکم اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ مصلحت اور حکمت سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس معاہدے کے الفاظ پر غور کرلیا جائے، تاکہ معلوم ہوسکے کہ گاڑی کے پہیے کو پیچھے کی طرف چلانے کی جو مذموم کوشش کی جارہی ہے، اس کی اصلیت کیا ہے۔ معاہدے کی شق۱۴ اور ۱۵ میں معاملات کو یوں طے کیا گیا ہے:

اس بارے میں تینوں وزرا نے نوٹ کیا کہ اس معاملے کو تینوں ملکوں کے اس عزم کے تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ وہ صلح صفائی کے لیے پُرعزم اقدامات کریں گے۔ وزرا نے مزید یہ بھی نوٹ کیا کہ ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے بعد وزیراعظم پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے وزیراعظم کی دعوت پر بنگلہ دیش آئیں گے۔ انھوں نے بنگلہ دیش کے عوام سے یہ اپیل کی کہ وہ صلح صفائی کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ماضی کی غلطیوں کو معاف کردیں اور بھول جائیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش کے وزیراعظم نے بنگلہ دیش میں ۱۹۷۱ء کی تباہی اور مظالم کے حوالے سے یہ اعلان کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ عوام ماضی کو بھول جائیں اور ایک نیا آغاز کریں۔

مذکورہ اُمور کی روشنی میں اور خاص طور پر وزیراعظم پاکستان کی بنگلہ دیش کے عوام سے ماضی کی غلطیوں کے بارے میں عفوودرگزر کرنے اور بھول جانے کے پس منظر میں  بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ نے کہا کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ      عام معافی کے اقدام کے طور پر مقدمات میں مزید پیش رفت نہیں کرے گی۔ یہ بات بھی طے پائی کہ ۱۹۵جنگی قیدی بھی پاکستان اُن دوسرے قیدیوں کے ساتھ جو معاہدہ دہلی کے تحت واپس بھیجے جارہے ہیں، بھیج دیے جائیں گے۔

اس کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ قبل ازیں بنگلہ دیش کو دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس، لاہور کے موقعے پر تسلیم کیا گیا اور شیخ مجیب الرحمن نے لاہور میں کانفرنس کے اجلاس میں شرکت کی۔ اس کے بعد پاکستان کے تین سربراہانِ حکومت نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا، یعنی ذوالفقار علی بھٹو، جنرل محمدضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی دونوں وزراے اعظم، یعنی   خالدہ ضیا اور خود حسینہ واجد نے پاکستان کا دورہ کیا۔ تجارتی تعلقات میں برابر مضبوطی آئی، پاکستان کے سرمایہ کاروں نے بڑھ چڑھ کر بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کی اور عالمی فورم پر دونوں کے درمیان بھرپور تعاون ہو رہا تھا، حتیٰ کہ اس دور میں چشم تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جب بنگلہ دیش کو بھارت اور مغربی ممالک نے اسلحے کی فراہمی روک دی تو جنرل ضیاء الرحمن کی خواہش پر جنرل ضیاء الحق نے بنگلہ دیش کو اسلحہ فراہم کیا اور اس کی قیمت وصول کرنے سے بھی انکار کردیا جس کا اعتراف    کرنل (ر) شریف الحقدالیم نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کیا ہے (اُردو ڈائجسٹ، دسمبر۲۰۱۳ء)۔ نیز ڈھاکہ میں جب پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ ہوا تو بنگلہ دیش کے عوام نے پاکستان کی ٹیم کی کامیابی کے لیے اس طرح کردار ادا کیا جس طرح متحدہ پاکستان کے دوران کرتے تھے لیکن  افسوس صدافسوس کہ ۲۰۰۹ء میں عوامی لیگ کی حسینہ واجد نے گاڑی کو پٹڑی سے اُتارنے کے عمل کا آغاز کردیا ہے۔ واضح رہے کہ Collaborators Act جس کے تحت غیرفوجی عناصر پر مقدمات قائم کیے گئے تھے، اس کے تحت سزا پانے والوں میں سے بھی سنگین ترین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو چھوڑ کر ۱۹۷۵ء میں سب کو معافی دے دی گئی اور بالآخر ۳۱دسمبر ۱۹۷۵ء کو خود اس قانون کو بھی کالعدم قرار دے دیاگیا۔

 ۱۹۷۴ء ہی میں شیخ مجیب الرحمن نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو مخاطب کرکے پورے عالمی میڈیا کے سامنے کہا تھا کہ Let The World know how Bengalies can forgive (دنیا جان لے گی کہ بنگالی کس طرح معاف کرتے ہیں)۔ لیکن مجیب صاحب کی صاحب زادی نے ایک نئی مثال قائم کی ہے کہ والد جو سربراہِ مملکت تھے، کی جانب سے معاف کر نے کے بعد  ان کی بیٹی نے کس بھونڈے انداز میں انتقام کی آگ بھڑکائی ہے۔

اس وقت جو کچھ بنگلہ دیش کی حکومت نے کیا ہے وہ بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی انسانی قانون، بنگلہ دیش کے دستور اور پاکستان بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان سہ فریقی معاہدے، سب کے خلاف ہے، اور پاکستان کو صرف انسانی حقوق ہی کے باب میں نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کے سلسلے میں بھی احتجاج اور سفارتی ردعمل کا نہ صرف حق حاصل ہے بلکہ اس پر فرض بھی ہے۔

 عبدالقادر مُلّا کا اصل جرم اور مقدمہ

اس اصولی بحث اور وسیع تر قانونی، سیاسی اور اخلاقی پہلوئوں پر گفتگو کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ مختصراً عبدالقادر مُلّا کے مقدمے اور شہادت کے بارے میں بھی چند گزارشات پیش کریں۔

عبدالقادر مُلّا کا اصل جرم یہ نہیں ہے کہ وہ کسی فوج داری یا اخلاقی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مقدمے کی پوری کارروائی پڑھ لیجیے، کوئی الزام ان پر ثابت نہیں ہوتا اور محض سنی سنائی اور  بے سروپا تضاد بیانیوں کی بنیاد پر ان کو ’مجرم‘ قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے،جو بُری طرح ناکام ہوئی ہے۔ ہم نے ٹربیونل کا فیصلہ بغور پڑھا ہے۔ یہ پورا فیصلہ سیاسی دستاویز ہے جس میں زبان کے تنازعے سے لے کر تفریق تک کو اصل پس منظر مقرر فرما کر کارروائی کی ہے۔ اس طرح بلاثبوت   سنی سنائی باتوں اور نام نہاد circumstantial evidence پر سزاے موت دینے کی جسارت کی ہے جو بین الاقوامی اور خود ملکی قانون سے متصادم ہے۔ اور اس پورے پس منظر اور سازش کے نام پر جو اصل جرم سامنے آتا ہے، وہ بنگلہ دیش کی تحریک میں عدم شرکت ہے حالانکہ یہ ایک سیاسی پوزیشن توضرور ہے مگر قانون کی نگاہ میں کوئی جرم نہیں۔ دنیا کے جتنے ممالک نے بھی آزادی حاصل کی ہے ان کی آزادی کے حصول سے قبل کسی کی جو بھی سیاسی پوزیشن ہو وہ نئے دور میں غیرمتعلق ہوجاتی ہے جس کا واضح ثبوت قیامِ پاکستان کے بعد انڈین نیشنل کانگرس کے ان ہندو ارکان کو جو مشرقی پاکستان میں تھے، ریاست اور پارلیمنٹ میں برابر کا مقام دیے جانے میں دیکھا جاسکتا ہے۔

اس فیصلے میں انصاف کا کس طرح خون کیا گیا ہے اس کا اندازہ درج ذیل حقائق سے کیا جاسکتا ہے

عبدالقادر مُلّا ۱۴؍اگست ۱۹۴۸ء میں موضع امیرآباد، ضلع فریدپور میں پیدا ہوئے اور ۱۹۶۸ء میں بی ایس سی تک فریدپور شہر میں تعلیم پائی۔ ۱۹۷۱ء میں ڈھاکہ یونی ورسٹی میں ایم اے کے طالب علم تھے، مگر ۲۵مارچ کو فوجی آپریشن کے شروع ہونے سے دو ہفتے قبل یونی ورسٹی بند کردی گئی۔ اس پر عوامی لیگ کے اسٹوڈنٹ ونگ ’چھاترو لیگ‘ کا قبضہ تھا۔ ہوسٹل بند کردیے گئے اور عبدالقادر مُلّا اپنے گائوں فریدپور چلے گئے جہاں وہ ۱۹۷۲ء کے آخر تک رہے۔

۱۹۷۱ء میں ڈھاکہ میں خوں ریز ہنگاموں کے اس پورے زمانے میں عبدالقادر مُلّا کی عدم موجودگی کی حقیقت کو تو ٹربیونل نے یکسر نظرانداز کردیا حالانکہ فریدپور جہاں وہ وسط مارچ ۱۹۷۱ء سے دسمبر ۱۹۷۲ء تک رہے، پورا شہر اس حقیقت کی گواہی دے رہا تھا۔ لیکن جس دوسری حقیقت کو بھی اس نام نہاد عدالت نے قابلِ اعتنا نہ سمجھا وہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے۔ دسمبر ۱۹۷۲ء میں عبدالقادر مُلّاڈھاکہ یونی ورسٹی میں آگئے جو عوامی لیگ کا گڑھ تھا، وہ مزید تعلیم کے لیے وہیں ہوسٹل میں رہے۔ دو سال میں ’تعلیمی انتظامیات‘ میں ایم اے کیا۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ کسی کو اس وقت ان کے ’میرپور کے قصاب‘ ہونے کی ہوا نہ لگی۔ پھر دو سال انھوں نے بنگلہ رائفلز (Bangla Rifles)  میں ٹریننگ لی اور یہاں بھی ان کے بارے میں کسی کو شبہہ نہ ہوا۔ پھر تین سال انھوں نے ایک سرکاری اسکول میں استاد کی حیثیت سے اور پھر پرنسپل کی حیثیت سے کام کیا۔ پھر حکومت کے تحقیقی ادارے اسلامک فائونڈیشن میں، جہاں ملک کے تمام ہی دانش وروں سے ربط رکھنا ہوتا ہے،    اس میں خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد صحافت اور سیاست میں نمایاںکردار ادا کرتے رہے۔

سات سال تک عوامی لیگ کے ساتھ جماعت اسلامی کی ٹیم کے حصے کے طور پر کام کرتے رہے اور سب کے ساتھ ان کے فوٹو اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ وہ ’میرپور کے قصاب‘ سے شب و روز مل رہے ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا رہا اور کسی نے عبدالقادر مُلّا پر انگشت نمائی نہ کی۔ پھر اچانک ۲۰۱۰ء میں عوامی لیگ پر یہ راز فاش ہوا کہ عبدالقادر مُلّا’میرپور کا قصاب‘ ہے اور اس کو ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کی پاداش میں نام نہاد انٹرنیشنل ٹربیونل میں گھسیٹ لیا گیا۔

عبدالقادر شہید پر چھے میں سے پانچ الزامات کا تعلق ۲۶مارچ ۱۹۷۱ء سے وسط اپریل ۱۹۷۱ء کے واقعات سے ہے، جب کہ وہ ڈھاکہ یا اس کے گردونواح میں موجود ہی نہیں تھے۔  عبدالقادر شہید کے وکلاے صفائی نے عبدالقادر مُلّا کے ڈھاکہ میں نہ ہونے اور تمام الزامات کے زمینی حقائق سے متصادم ہونے کو ثابت کرنے کے لیے ۹۶۵ گواہ پیش کرنے کی اجازت چاہی اور تمام گواہوں کے کوائف سے ٹربیونل کو مطلع کیا۔ لیکن اسی ٹربیونل نے عدالتی عمل کی تاریخ میں یہ نادر اور مضحکہ خیز پوزیشن اختیار کی کہ: ’’یہ استغاثہ کا کام ہے کہ وہ جرم ثابت کرے اور دفاع کرنے والوں کو متبادل شہادت لانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حالانکہ ان تمام گواہوں کا موقف یہ تھا کہ ۱۹۷۱ء کے جس زمانے کے بارے میں عبدالقادر مُلّا پر الزام لگایا جارہا تھا وہ اس زمانے میں فریدپور میں تھے جنھیں شب و روز ان تمام افراد نے دیکھا۔ بڑی رد و کد کے بعد عدالت نے ۹۶۵ میں سے صرف چھے گواہوں کو پیش کرنے کی اجازت دی اور ۹۵۹ گواہوں کو سننے تک سے انکار کردیا۔ پھر ان چھے گواہوں کی شہادت کو بھی کسی دلیل کے بغیر رد کردیا۔

اپنے فیصلے تک میں اتنی مضحکہ خیز بات لکھی ہے کہ: ’’ایک گواہ کی گواہی میں تضاد تھا کہ عبدالقادر مُلّا کا دعویٰ ہے کہ: وہ وسط مارچ ۱۹۷۱ء سے نومبر ۱۹۷۲ء تک فریدپور میں تھے اور وہاں ایک دکان بھی چلا رہے تھے، جب کہ گواہ نے یہ کہا کہ اس نے ان کو فریدپور میں مارچ ۱۹۷۱ء سے مارچ ۱۹۷۲ء تک دیکھا، یعنی ڈیڑھ سال نہیں ایک سال‘‘۔ سوال یہ ہے کہ عبدالقادر مُلّا پر جو چھے الزامات ہیں، ان میں سے پانچ کا تعلق ۲۶مارچ ۱۹۷۱ء سے وسط اپریل ۱۹۷۱ء تک ہے اور صرف ایک کا تعلق نومبر ۱۹۷۱ء سے ہے۔ لیکن یہ تمام اس ایک سال ہی سے متعلق ہیں، جس کے بارے میں گواہ گواہی دے رہا ہے کہ اس نے شب وروز ان کو فریدپور میں دیکھا ہے، یعنی مارچ ۱۹۷۱ء سے مارچ ۱۹۷۲ء تک۔ عدالت کی جانب داری، حقائق سے آنکھیں بند کرنے، بودے اور مضحکہ خیز تضادات کا سہارا لے کر پہلے سے طے شدہ فیصلوں پر مہرتصدیق ثبت کرنے کی اس سے زیادہ بدتر مثال کیا ہوسکتی ہے؟

ضمنی طور پر یہ بھی عرض کردوں کہ جن پانچ الزامات کا تعلق ۲۶مارچ ۱۹۷۱ء سے وسط اپریل ۱۹۷۱ء سے ہے، ان کا انتساب ’البدر‘ سے کیا گیا ہے حالانکہ ’البدر‘ قائم ہی ۲۱مئی ۱۹۷۱ء کو ہوئی تھی، اور وہ بھی ڈھاکہ یا فریدپور میں نہیں، بلکہ بہت دُور شیرپور، ضلع میمن سنگھ میں۔استغاثہ اور خصوصی عدالت دونوں ہی کے علم اور دیانت پر ماتم کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے۔

استغاثہ نے ۴۹ گواہ پیش کرنے کا دعویٰ کیا تھا، مگر وہ صرف ۱۲ گواہ لاسکے جن میں سے کسی کی شہادت بھی عینی گواہی کی نہیں تھی۔ سب نے یہی کہا کہ انھوں نے ایسا سنا ہے اور اس طرح یہ اور اس سلسلے کے تمام مقدمے سنی سنائی باتوں، غیرتصدیق شدہ افواہوں اور اخبار کے تراشوں اور  سیاسی گپ شپ کی بنیاد پر طے کیے جارہے ہیں۔ ٹربیونل کا دعویٰ ہے کہ ایسے سنگین جرائم کے باب میں سنی سنائی (heresay ) باتوں کو بھی معتبر قرار دے کر شریف اور معتبر انسانوں کو موت یا عمرقید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ غضب ہے کہ خود ۱۹۷۲ء کے ریاستی قانون میں عدل و انصاف کے تمام  مسلّمہ اصولوں اور قواعد کو معطل کردیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کے قانونِ فوج داری اور قانونِ شہادت دونوں کو ان مقدمات کے لیے غیرمؤثر (excluded) کردیا گیا ہے اور اس طرح شہادت کو مذاق بنادیا گیا ہے۔

عبدالقادر مُلّا کو موت کی سزا جس ایک نام نہاد شہادت کی بنیاد پر دی گئی ہے، وہ ۱۹۷۱ء میں ۱۳سال کی ایک لڑکی کی شہادت ہے، جو خود یہ کہہ رہی ہے کہ وہ پلنگ کے نیچے چھپی ہوئی تھی اور اس نے یہ سنا کہ ’عبدالقادر‘ نے اس کے باپ کو قتل کیا ہے حالانکہ یہی لڑکی اس سے پہلے بنگلہ دیش قومی عجائب گھر کو یہ بیان ریکارڈ کرا چکی ہے کہ وہ اس دن گھر پر موجود نہیں تھی اور اسی لیے اس کی جان بچ گئی۔ اس کا یہ بیان بنگلہ دیش کے سرکاری عجائب گھر میں آج موجود ہے جو جنگی جرائم کے محفوظات کو ریکارڈ کرنے کے لیے قائم کیا گیا۔ اس بیان کی فوٹوکاپی وکلا کی دفاعی ٹیم نے مذکورہ خصوصی عدالت میں پیش کی، لیکن اس عدالت نے جو ’سنی سنائی‘ باتوں کو معتبر قرار دیتی ہے، اس دستاویز کو قابلِ اعتنا نہ سمجھا۔ اسی طرح اسی خاتون نے ایک اخباری بیان جو واقعے کے چند سال بعد کا ہے اور جس میں اس کے موقع واردات پر موجود نہ ہونے کا اعتراف ہے، نظرانداز کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ٹربیونل کی کارروائی پر ملک اور ملک سے باہر ماہرین قانون کی بڑی تعداد نے صاف لکھا ہے کہ ٹربیونل کی پوری کارروائی ہر دواعتبار سے، یعنی بنیادی عدل (substantive justice) اور عدالتی طریق کار (procedural justice) کی شدید بے قاعدگیوں سے بھری پڑی ہے۔ اور اسے کسی صورت میں بھی تقدیرِ عدل (dispensation of justice)  نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ قانون اور انصاف کا خون ہے اور عبدالقادر کو عدالتی قتل کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

عبدالقادر مُلّا نے اعتماد، اطمینان، ہمت اور شجاعت کے ساتھ اس مقدمے میں اپنا دفاع کیا، ہرموقعے پر اپنی پاک دامنی کو ثابت کیا اور پھر عمرقید اور سزاے موت کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ انھوں نے، ان کی صابروشاکر اہلیہ اور اہلِ خانہ نے اس ظلم کا پول کھولا اور کسی قسم کی کمزوری نہ دکھائی، حتیٰ کہ رحم کی اپیل سے بھی انکار کر دیا۔ پھر جو وصیت عبدالقادر نے لکھی اور جس شان سے تختہ دار پر گئے، وہ ان کی معصویت اور صداقت کی دلیل ہے۔ دنیا کے بڑے سے بڑے ماہر نفسیات کو یہ ساری داستان سنادیجیے، کبھی کوئی مجرم اس طرح معاملہ نہیں کرسکتا ۔ عبدالقادر کے بے گناہ ہونے کے لیے اگر کوئی اور شہادت اور لوازمہ موجود نہ بھی ہوتا، تب بھی صرف ان کا یہ عزیمت سے سرشار کردار ہی ان کے دامن کے پاک ہونے کی گواہی دینے کے لیے کافی ہے    ؎

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں

نام نہاد ٹربیونل ایک کھلا تضاد

ایک اور قابلِ ذکر پہلو وہ تضادبھی ہے کہ ایک طرف تو جن کا دامن پاک ہے ان کو سولی پر لٹکایا جا رہا ہے اور دوسری طرف جو دن دھاڑے انسانوں کے قتل، لُوٹ مار اور ظلم وستم  میں سرگرم رہے ہیں، یعنی عوامی لیگ کے جیالے اور جو ۱۹۷۰ء سے آج تک کشت و خون اور سیاسی انتقام اور کرپشن کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں اور جن کے انسانیت سوز کارناموں کی داستانیں چپے چپے پر پھیلی ہوئی ہیں، وہ نہ صرف یہ کہ محفوظ ہیں بلکہ بڑی ڈھٹائی سے جج اور منصف بنے بیٹھے ہیں۔ ٹربیونل کے تمام ہی ارکان عوامی لیگ کے کارکن یا سرگرم کمیونسٹ کامریڈ رہے ہیں۔ استغاثہ کے ارکان میں سے چار افراد، جنوری ۲۰۱۴ء کے انتخابات کے لیے عوامی لیگ کے نمایندے ہیں۔ عدلیہ عوامی لیگ کے کارکنوں سے بھر دی گئی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ افراد بھی جو ۱۹۷۱ء کے فوجی آپریشن کے دوران پاکستانی جرنیل اے اے کے نیازی کے شریکِ کار (collaborators) تھے، وہ بھی عوامی لیگ کی بنائی ہوئی عدالتوں میں جج بن گئے۔ اس کی ایک چشم کشا مثال     انتھونی مسکارن ہیس نے، جو ۱۹۷۱ء کے کشت و خون کے حقائق اور افسانوں کا پہلارپورٹر تھا اور  جس کے مضامین لندن ٹائمز میں شائع ہوئے تھے اور جس نے ۳۰لاکھ افراد کے قتل کا ’راز‘  طشت ازبام کیا تھا، اسی رپورٹر نے شیخ مجیب کے حکمران بننے کے بعد ۷۴-۱۹۷۳ء میں عوامی لیگ کے ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کو اپنی کتاب Bangladesh: Legacy of Blood میں بیان کیا ہے۔ اس نے اس میں یہ واقعہ بھی لکھا ہے، جو بنگلہ دیش میں انصاف کے قتل اور منصف کی کرسی پر بیٹھنے والوں کے چہروں پر سے پردہ اُٹھانے کا ذریعہ بناہے:

حامیوں کے اولین مقدمات جیسور میں منعقد ہوئے۔ ایم آر اختر اپنی کتاب میں ایک دل چسپ واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کٹہرے میں جو شخص کھڑا تھا جس پر رضاکار ہونے کا الزام تھا، خاموشی سے کھڑا رہا۔ جب مجسٹریٹ نے اس سے باربار پوچھا کہ تم مجرم ہو یا نہیں؟ کچھ وکلا اس پر چیخ پڑے کہ تم کیوں نہیں اپنا مقدمہ شروع کرتے؟ بالآخر    اس شخص نے جواب دیا کہ مَیں سوچ رہا ہوں کہ کیا کہوں؟ مجسٹریٹ نے پوچھا کہ تم کیا سوچ رہے ہو؟ ملزم نے مجسٹریٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مَیں یہ سوچ رہا ہوں کہ جو آدمی کرسی پر بیٹھا ہے، وہی تو ہے جس نے مجھے رضاکار بھرتی کیا تھا۔ اب وہ مجسٹریٹ بن گیا ہے۔ یہ تقدیر کا کھیل ہے کہ میں کٹہرے میں ہوں اور وہ میرا مقدمہ چلا رہا ہے۔

ایک اور دل چسپ تبصرہ برطانوی رکن پارلیمنٹ رابرٹ میکلین کا ہے، جو مقدمے میں آبزرور تھے۔ انھوں نے کہا کہ کٹہرے میں دفاع کرنے والے اس سے زیادہ قابلِ رحم ہیں جتنا کہ استغاثہ کے اُلجھے ہوئے گواہوں کا سلسلہ.... انھوں نے بھی پاکستان حکومت کی ملازمت کی، مگر اب یہ حلف اُٹھانے کو تیار ہیں کہ ان کی حقیقی وفاداری بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کے ساتھ تھی۔ پورا معاملہ انصاف کے ساتھ مذاق تھا۔ حکومت نے بالآخر اس کو ختم کردیا لیکن بدنظمی بڑھ جانے کے بعد۔

اس آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کے زمانے میں کیا ہوا ،اور اب حسینہ واجد کے زمانے میں کیا کیا جارہا ہے۔

بنگلہ دیش کے ایک محترم جج نے جو جنگی جرائم کے ایک حقیقی بین الاقوامی ٹربیونل کے ممبر رہے ہیں، صاف الفاظ میں کہا ہے کہ: ’’بنگلہ دیش کے ٹربیونل اور حقیقی بین الاقوامی ٹربیونل میں زمین آسمان کا فرق ہے اور اس کی کارروائیوں کو کسی اعتبار سے بھی عالمی انصاف کی میزان پر صحیح ثابت نہیں کیا جاسکتا‘‘۔

پھر عبدالقادر شہید کے سلسلے میں تو دستور، قانون اور اصولِ انصاف کا اس طرح خون کیا گیا ہے کہ اس نام نہاد ٹربیونل نے بھی کمزور گواہی کی بناپر ان کو عمرقید کی سزا دی تھی۔ لیکن پھر عوامی لیگ کے کارکنوں کے شاہ باغ میں احتجاج کی بنیاد پر ٹربیونل کے قانون مجریہ ۱۹۷۲ء میں فروری ۲۰۱۳ء میں ترمیم کی گئی اور حکومت کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ سزا میں اضافے کے لیے سپریم کورٹ میں جاسکتی ہے اور عدالت کو بھی سزا میں اضافے کا اختیار دے دیا گیا اور اس قانون کو قانون کے بننے سے پہلے کے جرائم پر بھی لاگو کردیا گیا ہے۔ قانون کی تاریخ میں بدنیتی پر مبنی قانون سازی کی یہ منفرد مثال ہے،جسے تمام ہی عالمی ، قانونی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ظالمانہ اور انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دیا ہے۔

فیصلے کے خلاف عالمی ردعمل

یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بھی سوچنے سمجھنے والے اہلِ دانش: قانون اور دستور کی ان خلاف ورزیوں پر یریشان ہیں اور اسے آمریت اور ظالمانہ کارروائیوں کے دروازے کھولنے کے مترادف سمجھ رہے ہیں، اور عالمی سطح پر ان تمام اقدامات کی شدید مذمت ہورہی ہے۔ دی گارڈین، لندن کے کالم نگار اور مصنف جان پلجر (John Pilger)  نے اپنے ۱۵دسمبر ۲۰۱۳ء کے مضمون: The Prison that is Bangladesh میں اس کی سخت مذمت کی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ: ’’مُلّا کی موت ہرگز واقع نہیں ہونا چاہیے تھی‘‘۔

اقوام متحدہ کی کمشنر براے انسانی حقوق نیوی پلّاے (Navi Pillay) نے پورے عدالتی طریق کار اور کارروائی پر سخت تنقید کی ہے۔ انھوں نے انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے عبدالقادر مُلّاکی پھانسی کو روکنے کی اپیل کی تھی۔ یورپی پارلیمنٹ کے ۲۵؍ارکان، امریکی کانگریس کے چھے کانگریس مین، برطانیہ کے متعدد ایم پیز، حماس کے ترجمان، ترکی کے وزیراعظم سمیت ساری دنیا میں اس عدالتی قتل کی مذمت کی گئی ہے۔

بنگلہ دیش کے ایک سابق آرمی چیف، لیفٹیننٹ جنرل(ر) محبوب الرحمن نے جنگی جرائم کے ٹربیونل کے حق میں اصولی بات کہنے کے بعد موجودہ ٹربیونل اور اس کے فیصلوں کے بارے میں کہا ہے کہ:’’عوامی لیگ کی حکومت محض سیاسی محرکات کے تحت جنگی مجرموں پر مقدمے چلانے کے لیے پیش رفت کررہی ہے‘‘۔

اسی بات کا اظہار بنگلہ دیش کے ایک مشہور وکیل اور سابق وزیر مودود احمد نے کیا ہے اور اس پوری کوشش کو seeking a vendetta against political opponents (سیاسی مخالفوں سے جذبۂ انتقام کی کوشش)قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے مضبوط اور جان دار تنقید برطانیہ کے مشہور قانون دان اور جنگی جرائم کے مقدمات کے باب میں عالمی شہرت کے حامل بیرسٹر ٹوبی کیڈمین نے کی ہے:’’جنابِ مُلّا کو ایک منصفانہ ٹرائل نہیں ملا۔ ان کو اچانک پھانسی پر چڑھا دیا گیا، جسے ایک عدالتی قتل ہی کہا جاسکتا ہے‘‘۔

بنگلہ دیش کے سابق وزیرخارجہ اور شیخ مجیب کے دست راست ڈاکٹر کمال حسین کے داماد ڈیورڈ برگ مین، جو ایک معروف صحافی اور مصنف ہیں اور بنگلہ دیش کے اہم اخبارات میں خدمات انجام دے چکے ہیں،اس مقدمے کو ابتدا سے دیکھ رہے ہیں اور مسلسل لکھ رہے ہیں۔ ان کے مضامین اور بلاگ اس پورے عدالتی ڈرامے اور گندے سیاسی کھیل کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ ہم ان کے صرف چند جملے پیش کرتے ہیں:

بین الاقوامی قانون اور جرائم کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جس قانون کے تحت عبدالقادر مُلّا کا مقدمہ چلایا گیا، وہ ناقص اور قانونی سقم سے پُر تھا.... دو کلیدی وجوہ جن کی بنا پر مَیں نے یہ سوچا کہ مُلّا کی سزاے موت غیرمعمولی طور پر قابلِ اعتراض تھی: پہلی یہ کہ جن جرائم کی وجہ سے انھیں سزاے موت دی گئی، ان کے لیے قابلِ اعتماد گواہی کا مکمل فقدان تھا۔ دوسری وجہ مُلّا کو مناسب دفاع سے روکنا ہے۔ مُلّا کو صرف پانچ گواہ پیش کرنے کی اجازت دی گئی، جب کہ استغاثہ جتنے چاہے گواہ لاسکتا تھا۔

ٹوبی کیڈمین نے بنگلہ دیش کی حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ:’’ جو کچھ اس نے کیا ہے اس پر وہ خود جنگی جرائم کی مرتکب ہوئی ہے اور ایک دن آسکتا ہے جس میں خود اسے اس کی جواب دہی کرنا پڑے‘‘۔پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا ہے:’’بین الاقوامی برادری کو اس پر    ذمہ دارانہ ردعمل دینا چاہیے‘‘۔

پاکستان کا مطلوبہ کردار

یہ ہے عالمی ردعمل، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ خود پاکستان میں ایسے لوگ موجود ہیں اور حکومت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ جو کچھ بنگلہ دیش میں ہوا اور ہورہا ہے وہ بنگلہ دیش کا داخلی معاملہ ہے۔ اس سے زیادہ بے حکمتی اور بے حمیتی کی بات کا تصور بھی مشکل ہے۔ انسانی حقوق کا مسئلہ کسی بھی ملک کا محض داخلی معاملہ نہیں ہے۔ بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کہیں بھی ہو، تمام دنیا کے لوگوں اور حکومتوں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ انسانوں اور انصاف کے قتل کو رُکوانے کے لیے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ پھر ستم ظریفی ہے کہ اس معاملے میں تو بنگلہ دیش کی حکومت نے خود اسے ’انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل‘ کا نام دیا ہے، لیکن اب اسے خالص داخلی معاملہ قرار دے رہی ہے۔ نیز اسی طرح بحیثیت مسلمان ہمارا حق ہی نہیں فرض بھی ہے کہ اگر کوئی مسلمان ظلم کا ارتکاب کر رہا ہے تو اسے ظلم سے روکنے کی کوشش کریں۔ یہ حق ہم صرف اپنے لیے نہیں طلب کررہے کہ یہ حق اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کے تمام افراد کو دیا ہے اور اس حق میں بنگلہ دیش کے مسلمان بھی برابر کے شریک ہیں۔

پھر پاکستان کا تو ان مقدمات سے براہِ راست تعلق ہے کہ یہ اس زمانے سے متعلق ہیں جب بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا اور جن لوگوں کو آج ظلم اور ناانصافی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ   اس وقت پاکستان کے شہری تھے۔ جیساکہ ہم نے عرض کیا ۱۹۷۴ء کے سہ فریقی معاہدے کی رُو سے اس سیاہ باب کو بند کردیا گیا تھا۔ معاہداتی ذمہ داری (treaty obligation) کے اصول کے مطابق اگر آج بنگلہ دیش اس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو بحیثیت ریاست ہمارا فرض ہے کہ اس پہلو سے معاہدہ شکن حکومت کے فعل پر اس کی گرفت کریں اور بین الاقوامی سیاسی، سفارتی اور قانونی ہرمحاذ پر اپنا کردار ادا کریں۔

پاکستان کی پارلیمنٹ نے کثرت راے سے مذمتی قرارداد منظور کر کے ایک ادنیٰ مگر    صحیح اقدام کیا ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے پارلیمنٹ کی حاکمیت اور بالادستی کا دعویٰ کرنے والی  وزارتِ خارجہ اور اس کے ترجمان: قانون، معاہدہ اور پارلیمنٹ کی قرارداد کسی کو بھی پِرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے۔ اور وہ جماعتیں جنھوں نے اس قرارداد کی تائید نہیں کی، انھوں نے بھی قوم کو اپنا اصل چہرہ دکھا دیا ہے کہ وہ کہاں تک پاکستان، اس کے دستور، اس کے دفاع اور اس کی عزت کی محافظ ہیں۔ اگر عوام اب بھی ہماری قومی قیادت کے ان دو مختلف چہروں کو نہیں پہچانتے تو یہ مستقبل کے لیے کوئی نیک فال نہیں۔   

ع ۔  ٹھوکریں کھا کر تو کہتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ