مضامین کی فہرست


نومبر۲۰۲۰

معلوم انسانی معاشروں میں حق و باطل ، طہارت و خباثت ، حیا اور فحاشی کا وجود اتنا ہی قدیم ہے، جتنا انسان کا وجود ۔ ابلیسیت کی پہلی فتح، اوّلین انسانی جوڑے کو لباس سے محروم کرنا تھا۔اس کا دوسرا کارنامہ پہلے انسانی خاندان میں قتل جیسے گھناؤنے فعل پر ابھارنا اور اسے تکمیل تک پہنچانا تھا۔
اس کے بعد یہی ابلیسیت ان تمام تاریخی واقعات میں کار فرما نظر آتی ہے، جو انسانی تاریخ کے عبرت ناک واقعات کہےجاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اصحاب سبت کا طرزِ عمل، جنھوں نے حیلے بہانے اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اخلاقی اور الہامی ہدایات کی خلاف ورزی کی۔ اسی معاشرے کے بعض افراد ان ہدایات کے باوجود بے تعلق رہے، ظلم و زیادتی سے صرفِ نظر کیا اور خاموش رہے حالانکہ یہ افراد نمازیں پڑھتے تھے ، تورات کی تلاوت بھی کرتے تھے اور اپنے یوم عبادت، یعنی ’سبت ‘ کی شدت سے پابندی بھی کرتے تھے، مگر ان کی تمام عبادت اورخلوص پوری آبادی کو تباہی سے نہ بچا سکا۔ اور وہ باغی افراد جو حدود کو پامال کرنے اور اپنے ربّ کی اخلاقی تعلیمات کی خلاف ورزی کرنے والے تھے، وہ اپنے ساتھ ان پاک باز افراد کو بھی لے ڈوبے جو مصلحت کے پیش نظر اپنی چونچیں پروں کے نیچے چھپائے رکھنے اورنام نہاد ’غیرجانب داری‘ اختیار کرنا ہی اپنا تقویٰ سمجھتے تھے۔
تاریخ کے ایسے ناقابلِ تردید واقعات کا ذکر کرنے کے بعد مستند ترین الہامی کتاب قرآنِ عظیم ان پر ایک جامع تبصرہ کرتی ہے: فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ۝۲ (الحشر ۵۹:۲) ___یعنی اے وہ لوگو،جو اپنے آپ کو دانش مند، تعلیم یافتہ، روشن خیال اور زمینی حقائق سے آگاہ سمجھتے ہو، ان ناقابلِ تردید تاریخی شواہد پر غور کرو اور سوچو تم کس رخ پر جارہے ہو ۔ تمھیں خبر نہیں کہ تم ایک قعرمذلت کے کنارے کھڑے ہو اور نہیں جانتے کہ تمھارے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے۔
 ملک عزیز میں جب سے نام نہاد ’روشن خیالی‘ یا ’لبرل ازم‘ کے زیرعنوان معیشت، تعلیم، قانون ، معاشرت اورا بلاغ کو مشرف بہ ’مشرف‘ کیا گیا ہے اور آزادیِ رائے کے نام پر فحاشی اور عریانی کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔ خود کو فخریہ ’لبرل‘ کہنے والے پاکستانی چینلوں پر اشتہاروں کی شکل میں اور ہندستانی اور مغربی پروگراموں کے ذریعے معاشرے کو فحاشی ، عریانی اور جنسیت کا عادی بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اخلاقی زوال کی آخری حد کو بھی پار کر رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ایک بہت بڑا ہوش مند اور باشعور طبقہ چیخ اُٹھا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ: ’’بےغیرتی اور بےشرمی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ’پیمرا‘ کو اپنے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا اہتمام کرنا چاہیے اور اخلاقی حدوں کو پار کرنے والے عناصر کو بے نقاب کر کے ان کو سزا دینی چاہیے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہرسطح پر فحاشی برپا کرنے والوں اور قومی شاہراہ پر معصوم بچوں کے سامنے ایک شرمناک فعل اور سر عام درندگی و دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف محض ایک قرارداد ، ایک جلوس ، ایک دھواں دار تقریر یا فقط بددُعا کافی ہے؟ اور کیا کسی زندہ قوم کا ضمیر ایسے گھناؤنے واقعات کو ماضی میں دفن ہونے دے سکتا ہے؟ اور کیا صرف چند باشعور افراد کا مہذب انداز میں سنگین جرائم کی مذمت کر دینا ایسے واقعات کو روک سکتا ہے ؟
حقیقت ِحال یہ ہے کہ گھناؤنے اخلاقی جرائم کی خبریں، چاہے وہ معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی اور انھیں جنسی اذیت پسندوں کے لیے کھلونا بنا کر پیش کرنے پر مبنی ہوں یا ایسے ذلّت آمیز واقعات تصویری شکل میں ہوں، انھیں ابلاغ عامہ کے پلیٹ فارم سے اس طرح پیش کرنا جیسے یہ کوئی ’تفریحی خبر‘ ہو، بذاتِ خود ایک الم ناک رویہ ہے۔ پھر اس کی اشاعت میں سبقت لے جانے کو اپنی فنی عظمت اور کامیابی کی علامت قرار دینا ،ایک بیمار ذہن اور ایک مُردہ ضمیر کی مثال ہے ۔ برائی کو برائی کہنا، ایمان کا تقاضا ہے، لیکن برائی کی اشاعت کو اس حد تک مشتہر کرنا کہ وہ معمول کی خبروں کی طرح ایک واقعہ بن جائے، اپنی جگہ اس جرم کی سنگینی سے کم نہیں ہے۔

اس صورت حال میں حل کیا ہے ؟

ایسے جرائم کے سدباب کے لیے جو قوانین موجود ہیں، انھیں پوری قوت سے شفافیت کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ ان کے نفاذ میں جو کمی ہے یا الجھاؤ ہے، اسے دُور کیا جائے ۔ تفتیش اور فراہمی انصاف کے عمل کو فعال بنایا جائے۔
شرعی سزاؤں کا نفاذ، جو جرائم کی روک تھام کے لیے ضروری ہے، ان پر بے جا معذرت خواہی کا رویہ ترک کیا جائے۔ یاد رکھا جائے کہ مغربی تہذیب کی ہمدردی مجرم سے زیادہ دکھائی دیتی ہے اور مظلوم کے لیے داد رسی کے امکانات تنگ دلی کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلام عدل کا راستہ اپناتا ہے۔ کسی کو بے جا سزا کا شکار ہونے نہیں دیتا اور مظلوم کی دادرسی میں کوئی مداہنت نہیں برتتا۔اسلامی شریعت نے جن سزاؤں کو عام لوگوں کے سامنے نافذ کرنے کی ہدایت دی ہے، انھیں سرعام ہی نافذ ہونا چاہیے۔
اس مناسبت سے ابدی شریعت کی ہدایات کو شعوری طور پر معاشرے میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مزید جو اقدامات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، یہاں ان کی طرف اختصار سے اشارہ کیا جارہا ہے۔

حیا کے کلچر کو مستحکم کیا جائے

اہلِ اسلام کے اخلاقی نظام کی بنیاد حیا پر ہے ۔یعنی ایک فرد وہ مرد ہو یا عورت، وہ تمام ایسے مواقع سے اپنے آپ کو بچا کر رکھے، جن میں بے حیائی کا امکان پایا جاتا ہو ۔ اسلام کی خوبی  یہ ہے کہ وہ فقط نظر ی (تھیوریٹی کل)بات نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے ہر اخلاقی حکم کے ساتھ اس کی عملی شکل اور ماپنے کا پیمانہ بھی فراہم کرتا ہے، تاکہ فلسفے کی جگہ عملیت غالب آجائے۔
حیا کے ماپنے کا پہلا پیمانہ اور معیار ایک فرد کا اپنی بینائی یا بصارت کا استعمال بھی ہے۔ ایک آنکھ قدرت کے وہ بے شمار مناظر (مثلاً دریا کا پُرسکون کنارہ ، کسی آبشارکے بلندی سے گرنے کا منظر ، کسی ندی کے پانی کے پتھروں سے ٹکرا کر فضا میں ارتعاش بکھیرنےکی آواز ، پرندوں کی چہچہاہٹ ، طلوعِ آفتاب اور غروب آفتاب کے مسحور کن مناظر) دیکھتی ہے، تو انسان کے ذہن میں مسرت، لذت اور سکون کے جو احساسات جنم لیتے ہیں اور لطف ملتا ہے، وہ شاید بہت سے مادی لذت کے مواقع سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔ا س کے مقابلے میں اگر وہی آنکھ ٹی وی کی سکرین پر ایک نیم عریاں حوا کی بیٹی کو بچوں کے لیے چاکلیٹ، بسکٹ کی پیش کش کرتی نظر آتی ہےتو وہ چاکلیٹ سے زیادہ اپنے جسم کوایک پُرکشش اور گناہ کی طرف راغب کرنے والی شے بنا کر پیش کرتی ہے، جو نہ صرف اسلام بلکہ کسی بھی مہذب اخلاقی ضابطے سے میل نہیں کھاتی۔
’ حیا‘ کے احیا کا مطلب یہ ہے کہ ہماری درسی کتب ہوں یا کلاس روم میں معلم اور معلمہ کا تدریسی کام، یا گھر میں ماں باپ اور بچوں کا لباس ہو ، حیا پیش نظررہنا چاہیے۔ ایک کم اثاثے والے فرد کا کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں بھی اس کی تلقین ہے:
لِلْفُقَرَاۗءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِي الْاَرْضِ۝۰ۡيَحْسَبُھُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِيَاۗءَ مِنَ التَّعَفُّفِ۝۰ۚ تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ۝۰ۚ لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا۝۰ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۝۲۷۳ۧ (البقرہ۲:۲۷۳)خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھِر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسبِ معاش کے لیے زمین میں کوئی دَوڑ دھوپ نہیں کر سکتے۔ان کی خودداری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں۔ تم اُن کے چہروں سے اُن کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو۔ مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑکر کچھ مانگیں۔ اُن کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کروگےوہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہےگا۔
گویا حیا محض جسم کے بعض اعضا کا چھپانا ہی نہیں بلکہ یہ ایک طرزِ عمل ہے۔ اظہار زینت اور جسمانی خوب صورتی کو چھپانے کی شکل میں حیا کے حکم پر عمل کرنے کو ایک عقل کا اندھا بھی محسوس کرسکتا ہے۔ انسان کا عمل ہی اجر کا پیمانہ ہے۔جب تک حیا کا احیا گھر ، مدرسے، تعلیم گاہ، معاشرے کے کاروبار اور ریاستی ایوانوں میں نہیں ہو گا،ہوس کی خوف ناکی اور ابلیسیت کی جارحیت میں کمی نہیں ہو سکتی ۔اس کے لیے اگر ریاست نااہل ہو تو پھر معاشرہ خود بہت سے اقدامات کر سکتا ہے ۔

معاشرتی ضمیر  کی بیداری

جب کسی معاشرے میں برائی ، فحاشی ، عریانیت ، جنسیت پرستی اور خصوصاً خواتین کے جسم کو معاشی مفاد کے لیے استعمال کرنے کا عمل ( Sex-Exploitation) معمول بن جائے، تو پھر معاشرے کا اجتماعی ضمیر بھی غفلت کا شکا ر ہو جاتا ہے ۔ لیکن اگر اسے بروقت جھنجھوڑ کر جگا دیا جائے تو پھر وہ فحاشی اور عریانیت کے خلاف نہ صرف کمر بستہ ہوتا ہے بلکہ وہ اسے جڑ سے اُکھاڑ کر چھوڑتا ہے۔ اب یہ کام معاشرے کے افراد کا ہے ۔ اساتذہ ، تاجر، وکیل ، طبیب،انجینیر اور وہ لوگ جو معاشرے میں ایک قابلِ لحاظ مقام رکھتے ہیں، ان کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھ کر برائی کے خاتمے کے لیے، اپنے سیاسی اور مسلکی اختلاف سے بلند ہو کر اپنی اولاد اور بیٹیوں کی عزت کے تحفظ کے لیے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر فحاشی ، عریانی کے خلاف ایک زنجیر بن جائیں اور پوری قوت سے برائی کو پسپا کر دیں ۔اس میں ابلاغ عامہ کے شعبوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ابلاغ عامہ  کا کردار

اس بات کی ضرورت ہے کہ باشعور شہری اجتماعی طور پر فحاشی و عریانی کے خلاف اپنے عزم کے اظہار کے لیے ملک گیر پیمانے پر صرف تین دن کے لیے اپنے گھروں اور دفاتر میں جہاں کہیں بھی ہوں، ٹی وی اور انٹر نیٹ کے پروگراموں کو مکمل طور پر دیکھنا بند کر دیں تو تین دنوں ہی میں ابلاغ عامہ کے سوداگروں کو معلوم ہو جائے گا کہ عوام کیا چاہتے ہیں ۔ یہ کوئی نظری بات نہیں، یہ ایک قابلِ عمل چیز ہے ۔لیکن اس طرح کی ’پُرامن مزاحمت‘ صرف اس وقت ممکن ہے، جب ملک کے نوجوان  کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں اپنے تعمیری اثرات کا جو دعویٰ پیش کرتے ہیں، اس کا عملی ثبوت دیں۔  وہ میدان میں نکل کر، گلی گلی یہ پیغام دیں اور مساجد سے اعلان کروا کر یہ پیغام ہر فرد تک پہنچا دیں، خواہ شہروں میں رہتا ہو یا دیہات میں، اور نیکی کے سفیر بن کر بغیر کسی توڑ پھوڑ یا مطالبات کی سیاست کے، خود لوگوں تک پہنچ کر ان سے بھلائی ، نرمی ، محبت سے بات کریں، اور انھیں سمجھائیں کہ ہم ایسا کیوںکر رہے ہیں ؟

سوشل میڈیا  اور حیا کا کلچر

گذشتہ چند برسوں سے سوشل میڈیا ایک متعدی بیماری کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اچھے بھلے اور بظاہر ثقہ افراد بھی اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ طویل اور مختصر پیغامات پڑھنے اور بغیر کسی تصدیق کے انھیں انجانے افراد تک پہنچانے کا نامعقول فریضہ انجام دینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
سوشل میڈیا نے جس تیزی کے ساتھ افراد کے طرزِ حیات اور طرزِ فکر کو متاثر کیا ہے، اس کے مثبت اور تعمیری پہلو کے اعتراف کے باوجود اس کا نفسیاتی اور معاشرتی تجزیہ کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اس کا استعمال ایک ایسے مقصد کے لیے جس سے قوم کا مستقبل وابستہ ہے ہمارے خیال میں غور طلب ہے ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا پر مختصر پیغامات کی صورت میں قوم کو یہ بات سمجھائی جائے کہ جب تک وہ خود نہیں جاگے گی، اس کے نام نہاد سیاسی رہنما یا حکومت کوئی پیش قدمی نہیں کرے گی۔ فحاشی اور قوم کو بے غیرت بنانے کے عمل کے خلاف جہاد میں بلاتفریق مسلک و مذہب پوری قوم کو جگانے اور ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے ۔ نوجوان اور دیگر افراد اس کام کو بخوبی کر سکتے ہیں۔ اس میں کسی بڑی مالی امداد کی ضرورت نہیں، صرف اپنی لگن اور مقصد سے وابستگی کی بنا پر کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ایک قابلِ عمل کام ہے ۔ایک دستوری حق ہے اور یہ کسی تشدد کے بغیر کیا جا سکتا ہے ۔

اعلٰی تعلیمی اداروں کا کردار

اس مہم میں اس بات کی شدت سے ضرورت ہے کہ قومی سطح پر ملک کے تمام کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں طلبہ و طالبات ایک دن فحاشی، عریانی اور جنسیت کے خلاف یومِ احتجاج منائیں۔ طلبہ و طالبات خود الگ الگ مختلف سرگرمیاں ترتیب دیں۔ یہ خطبات بھی ہو سکتے ہیں ، تقریری مقابلے اور پوسٹرز کے مقابلے بھی۔ غرض وہ تمام ذرائع استعمال کیے جا سکتے ہیں، جن کے ذریعے ملک ِ عزیز میں اس احتجاج کا وزن محسوس ہو۔

قومی تشخص

نوجوان نسل نفسیاتی طور پر اس احساسِ کمتری میں مبتلا کر دی گئی ہے جس کا مظہر مغربی جنسیت زدہ طرزِ تہذیب ہے۔ اس میں لباس اتنا چست ہوتا ہے کہ اٹھنے بیٹھنے میں بھی دِقت کا باعث بنتا ہے ۔ قمیص کا چاک بڑھتے بڑھتے کمر تک پہنچنے کے بعد غائب ہوتا نظر آتا ہے یا قمیص بنیان کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ یہ سب تقلید اس وقت کی جاتی ہے جب کوئی مغربی رقاصہ یا مغرب کا کوئی پیشہ ور میراثی اور گویّا سٹیج پر اپنے مخصوص لباس میں نظر آتا ہے ۔یہ نفسیاتی اور ذہنی غلامی ہے، جسے دُور کرنے کے لیے یونی ورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کے مابین سنجیدہ مکالمے کرنے کی ضرورت ہے۔ مکالموں کے ساتھ مضامین بھی لکھے جائیں، تاکہ آیندہ نسل کو یہ احساس ہو کہ وہ کس طرح غیر شعوری طور پر بھونڈی نقالی میں مبتلا ہو کر اپنی اقدار کو ترک کررہی ہے اور جنسیت کا شکار ہو رہی ہے۔

ترقی اور نقطۂ کمال کا تعین

وہ قومیں جو اپنے تشخص کو برباد کرکے دوسروں کے دیے ہوئے اہداف کو آنکھیں بند کر کے قبول کرلیتی ہیں، وہ شاہراہ ترقی پر قدم نہیں رکھ سکتیں کیوں کہ درآمد شدہ اہداف وہ ہوتے ہیں جو بیرونی اقوام اپنے مقاصد کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دیتی ہیں ۔اس صدی کے اہداف (Millennium development goals) جن پر ہماری ہر سیاسی حکومت نے بغیر کسی تکلف اور عقل کے استعمال کے آمنا و صدقنا کہہ کر انھیں اختیار کیا ہے، اپنی جگہ وہ بھی فحاشی و عریانیت اور جنسیت کے پھیلاؤ کا ایک سبب ہیں۔
تعلیم کے اہداف ہوں یا معاشرتی صحت کے معیارات، ان میں جنسی تعلیم ، حتیٰ کہ غیرانسانی جنسی تعلق کو ایک قابلِ قبول تصور بنا کر گوناگونی یا تنوع ( Diversity )کی دھوکا دینے والی اصطلاح کے زیرعنوان حکومتی پالیسی میں شامل کیا گیا ہے ۔یہ جنسیت اور فحاشی کو ’اخلاقی‘مقام دلانے کی ایک کوشش ہے کہ انسانوں میں اس کا پایا جانا اس لیے برا نہیں ہے کہ مغرب نے اس بے راہ روی کو سینے سے لگا لیا ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو جس قرض پر ہم پلنے کے عادی ہوچکے ہیں، اس کے حصول میں دِقت ہو گی ۔
ہر اخلاقی برائی کو ’معاشرتی ضرورت‘ کہہ کر ایک اخلاقی عمل بلکہ ایک لبرل اخلاقی عمل قرار دینا، نہ عقل سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ قومی تشخص اور اقدار سے کیوں کہ ایک کافر بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس ملک کی بنیاد اور اساس کلمۂ کفر پر ہے ۔ ایک عقل سے عاری شخص بھی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان کا وجود صرف ایک کلمے کی بنیاد پر ہے، کہ یہاں اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں ہو گا ، نہ بیرونی قرضے اس کی قسمت طے کریں گے ، اور نہ کوئی لبرل اقدار ان کے مستقبل کا فیصلہ کریں گی کہ جن کا بہت تذکرہ کیاجاتا ہے۔
گویا ہمارا تشخص اور ہمارا وجود صرف اور صرف نظریۂ پاکستان سے وابستگی کی بنا پر ہے۔ – صرف اورصرف کلمۂ طیبہ اور کلمے کا نظام اس ملک کی بنیاد ہے اور اس ملک میں صرف اسی ربّ کا نظام نافذ ہو گا ، جس سے قوم نے اس ملک کے قیام کے موقعے پر وعدہ کیا تھا ۔یہ ملک اللہ ربّ العزت نے بطور تحفہ اُس قوم کو عطا کیا تھا، جو اپنے تشخص کی تلاش کے لیے سرگرداں تھی ۔ پھر اس قوم نے رنگ ، نسل ، زبان ، صوبائیت کے تمام جھوٹے خداؤں کو چھوڑ کر کلمۂ طیبہ لا الٰہ الا الله کی بنیاد پر جدوجہد کی۔
 سات سال (۱۹۴۰ءسے ۱۹۴۷ء) کے قلیل عرصے میں برصغیر کے مسلمان ایک امت اور ایک نظریاتی قوم بن کر ابھرے، جنھیں یہ خطۂ زمین عطا ہوا۔یہ خطۂ زمین اللہ ربّ العزت کی جانب سے ہمیں صرف اور صرف اس لیے عطا ہوا ہے کہ یہاں کی تہذیب ، ثقافت ، معیشت، معاشرت ،سیاست ،سب کے سب دائروں میں اللہ کے احکامات اور اس کی شریعت سے رہنمائی لی جائے، اور ابلیسی ہتھکنڈوں سے بچ کر جنسی اور معاشرتی استحصال سے پاک معاشرہ قائم کیا جائے، نیز یہاں شرم ، حیا ، عزّت ، احترام ، عدل اور انصاف کے اصولوں کی فرماں روائی ہو ۔
حیا کے کلچر اور تہذیب کا احیا قابلِ عمل ہے۔ صرف اخلاصِ نیت، شعورِ حیات ، شعورِ منزل اور اپنی ذات ، گھراور معاشرے سے کام کے آغاز کی ضرورت ہے ۔ بعد کے مراحل پر کامیابی دینا اللہ ربّ العزت کی مرضی پر منحصر ہے۔

آزاد کشمیرکی وادی بِناہ میں مولانا محمد اعظم صاحب، ہمیں قرآن کی تعلیم دیتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے بیٹے محمد شفیع بھائی سے بھی دوستی کا رشتہ قائم ہوگیا تھا۔ اور پھر یہ دوستی تھوڑے عرصے کے لیے استاد اور شاگرد کے رشتے میں بدل گئی کہ وہ ہمارے پاس انگریزی پڑھنے کے لیے آنے لگے۔ ہم میٹرک کے بعد نومبر ۱۹۶۰ء میں کراچی آگئے اور محمد شفیع بھی دینی تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے ،اور پھر وہیں، ماڈل ٹاؤن کی جامع مسجد میں خطیب مقرر ہوئے۔ انھوں نے اپنی خطابت میں جوشیلے پن کی مناسبت سے ’جوش‘ کا لاحقہ بھی لگا لیا۔
برسوں بعد ۱۹۸۰ء میں ایک ملاقات کے دوران انھوں نے مولانا مودودیؒ کی زندگی کے بعض ایسے درخشاں پہلوؤں پر روشنی ڈالی، جو ابھی تک ہم سے مخفی تھے اور ان کے بقول مولانا کی ہدایت تھی کہ ان کو بیان نہ کیا جائے۔ ایسی باتوں میں سے ایک حصہ اس رُوداد کا بھی شامل ہے، جو ’جب کلمہ طیبہ متنازع بنا دیا گیا‘ کے عنوان سے ترجمان القرآن کے ستمبر۲۰۲۰ء کے شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ مولانا محمد شفیع نے بڑی تفصیل کے ساتھ مولانا سے اپنی ملاقاتوں اور اسلامیات کی نصابی کتاب میں کلمہ طیبہ میں اضافے کی نشان دہی، اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور اس کے لیے مولانا مودودیؒ کی طرف سے جملہ اخراجات کی ذمہ داری تک کی تفصیلات بیان کی ہیں۔
مولانا مودودی فرقہ وارانہ سوچ سے نہ صرف لا تعلق تھے، بلکہ سارے مکاتب فکر کے  جید علمائے کرام کے لیے احترام کے جذبات رکھتے تھے اور اس اعلیٰ مقصد کے لیے بڑھ چڑھ کر تعاون کرنے اور ان کو اعتماد میں لینے کے بھی شدت سے حامی تھے۔ بریلوی مکتبہ فکر کے عالم دین مولانا شفیع جوش سے ان کا اس قدر قریبی تعلق اور ان پر اعتماد اس کا واضح ثبوت تھا کہ سیدی نے کلمہ طیبہ کے حوالے سے ان کی نشان دہی اور تشویش کو پوری ملت اسلامیہ کا اہم مسئلہ سمجھا اوران سے بھرپور علمی،قانونی اور مالی تعاون کیا۔
ایسے ہی اعتماد کا مظاہرہ انھوں نے ایک اور موقع پر مفتی اعظم پاکستان شیخ الحدیث مفتی ولی حسنؒ کے ساتھ بھی کیا تھا، کہ جب انھوں نے ۱۹۷۸ء میں ریڈیوپاکستان سے نشر ہونے والے مشہور انٹر ویو میں ایڈیٹنگ سے پیدا ہونے والے اعتراض کی اپنی طرف سے وضاحت لکھ کر اخبارات کو جاری کرنے کا اختیار انھیں دیا تھا۔
۱۹۸۰ء ہی میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں حج کی سعادت سے نوازا۔ رابطہ عالم اسلامی نے مختلف ممالک کے عازمین حج کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی مکہ المکرمہ میں اپنا مہمان بنا لیا۔ ان مہمانوں میں  چیف جسٹس (ریٹائرڈ ) سردار محمداقبال بھی شامل تھے، جوحج کی سعادت کے لیے تشریف لائے تھے۔ اس لیے ہمیں ان سے کئی بار ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور پھر مکہ المکرمہ سے مدینہ المنورہ کا مبارک سفر بھی ہم دونوں نے ایک ہی گاڑی میں کیا۔ مکہ المکرمہ سے مدینہ المنورہ کے سفر کے دوران ہم نے ان سے دوسری باتوں کے علاوہ اس خاص مقدمے کا بھی ذکر کیا اور اس کے بارے میں چند سوالات بھی کیے۔ انھوں نے حیران ہوکر سوال کیا: ’’آپ کو اس کا علم کیسے ہوا ؟‘‘ جس پر انھیں بتایا کہ ’’ہم اور مولانا شفیع جوش، آزاد کشمیر کے ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور بچپن کے دوست ہیں‘‘ تو یہ سن کر وہ بڑے خوش ہوئے اور مولانا جوش کے جذبۂ ایمانی اور کلمہ طیبہ کے تحفظ کے لیے ان کے جوش و خروش کو سراہتے ہوئے فرمایا: ’’میں ان کا شکر گزار ہوں کہ عدالت میں ان کے ایک مکالمے نے مجھے ایمان کی دولت سے مالامال کردیا‘‘۔
مولانا جوش نے ہمیں مزید بتایا تھا کہ ’’اسی زمانے میں مولانا مودودیؒ کی اپنے ساتھ شفقت، سرپرستی اور محبت سے بڑا متاثر تھا کہ انھوں نے قرآن وحدیث کے مجھ جیسے ایک ادنیٰ طالب علم کو اس قدر اہمیت دی اور قادیانیوں کی کتب کے حوالے سے تحقیقی کام کی سرپرستی اور رہنمائی بھی کی۔ نمازِ عصر کے بعد کی عصری نشستوں میں مَیں پابندی کے ساتھ شریک ہوتا تھا، اور ان دنوں اخبارات میں مضامین لکھنے کا بھی شوق تھا اور یہ مضامین نوائے وقت میں شائع ہوتے تھے۔ ایساہی میرا ایک مضمون امام اعظم امام ابو حنیفہؒ پر شائع ہوا، جس میں ان کے آباواجداد کے عجمی النسل اور اپنے قبیلے جاٹ ہونے اور قدیم علاقائی تعلق کے بارے میں یہ بات لکھی تھی کہ ’’امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے دادا ،شمالی ہندستان سے کشمیر، کشمیر سے افغانستان اور افغانستان سے کوفہ میں آباد ہوئے‘‘۔ اس مضمون کی اشاعت کے ایک دو دن بعد میں حسب معمول عصری نشست میں شرکت کے لیے پہنچا، تو مولانا نے بڑے خوش گوار موڈ میں منہ میں پان کی گلوری لیتے ہوئے میری طرف دیکھا اور بہت ہی پیارے انداز میں مخاطب ہوتے ہوئے کہا:’’جوش صاحب، امام ابوحنیفہؒ کے علاقائی تعلق کے بارے میں آپ نے شمالی ہندستان لکھنے کا خواہ مخواہ تکلف کیا ؟ سیدھے سبھاؤ لکھ دیتے کہ وہ ’مجوال شریف‘ ( آزاد کشمیر میں مولانا جوش کا گاؤں ) سے افغانستان اور وہاں سے کوفہ گئے تھے‘‘۔ اس پر مجلس میں زور کا قہقہہ لگا اور بات آئی گئی ہوگئی۔ تاہم، میں بہت حیران ہوا کہ مولانا نے مجھ جیسے عام نوجوان کا مضمون بھی مطالعہ فرمایا ہے۔
’’کچھ دن گزرے تو ہفت روزہ ایشیا میں یہ واقعہ ایک لطیفے کے طور پر شائع ہوگیا اور مَیں اس کی اشاعت سے بھی لا علم تھا۔ ایک ڈیڑھ مہینے بعد اپنے گاؤں گیا۔ آزاد کشمیر کے صدر سردار عبدالقیوم خان دورے پر ہمارے گاؤں آئے اور انھوں نے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں اس علاقے سے تو پہلے ہی واقف تھا، لیکن مولانا شفیع جوش نے ایک ایسا انکشاف کیا ہے کہ میں خاص طور پر اس گاؤں کو ایک بار پھر دیکھنے آیا ہوں کہ اس مجوال شریف کو دیکھوں جہاں امام ابو حنیفہؒ کا خاندان پہلے پہل آباد تھا‘‘۔ اور پھر انھوں نے ہفت روزہ ایشیا میں شائع ہونے والے مولانا مودودیؒ کے اس لطیفے کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’’مجھے تو یہاں کسی ’شریف‘ کا مزار نظر نہیں آیا‘‘۔ جس پر میرے والد نے جواب دیا کہ ’’ہمارے یہاں مرنے کے بعد نہیں بلکہ زندگی ہی میں لوگ’شریف‘ کہلاتے ہیں‘‘۔
محمد شفیع صاحب نے یہ بھی بتایا:’’۱۹۷۴ء میں سردار عبدالقیوم صاحب نے مجھے کہا کہ تم قادیانیوں کی ساری کتابوں کا عام مولویوں اور روایتی مناظرہ بازوں کی طرح نہیں بلکہ ایک ریسرچ اسکالر کی طرح آئین اور قانون کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں ناقدانہ جائزہ لو اور ایک    مدلل کیس تیار کرو کہ ان دلائل کی بنیاد پر انھیں دائرۂ اسلام سے خارج کیا جا سکتا ہے‘‘ ۔ چنانچہ میں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی سو سے اوپر اور دوسرے مصنّفین کی ۵۰ کتب کا تنقیدی مطالعہ کیا اور ان تمام عبارتوں کی نشان دہی کی جہاں جہاں من مانی تفسیر،تشریح اور تعبیر کی گئی تھی۔ ان کتب کے بغور مطالعے کے دوران پتا چلا کہ ختم نبوت کا انکار تو ایک جرم ہے،پھر جہاد کا انکار دوسرا جرم ہے لیکن مرزا غلام احمد قادیانی کا سب سے بڑا کفر اس جرم کی صورت میں سامنے آیا کہ اس نے اپنے گمراہ کن اور کافرانہ دعویٰ نبوت کو قرآن سے ثابت کرنے کے لیے سات آیات قرآنی میں لفظی تحریف کر رکھی ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی کتب کا مطالعہ کرتے کرتے جب میری نگاہ اس کی کتاب حقیقت الوحی  میں سورۃ الانبیاء کی آیت ۲۵ پر پڑی تو ماتھا ٹھنکا۔ جس کا اصل متن یہ ہے:  وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵ لیکن مرزا کی کتاب میں اس طرح لکھا ہوا ملا: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَلَا نَبِیٍّ وَلَا مُحَدِّثٍ۔ اس آیت کو براہین احمدیہ کی فہرست ص۳۸ میں سورۃ الانبیاء کی آیت ۲۱، اور ۲۵ دکھایا گیا تھا۔ اس میں لفظ ’محدث‘ کا اضافہ کیا گیا تھا۔ حالاں کہ پورے قرآن میں کہیں بھی یہ لفظ موجود نہیں ہے۔ اس کے بعد میں نے مرزا صاحب کی کتب میں موجود قرآنی آیات کا زیادہ گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا تو مزید چھے آیات میں لفظی تحریف کا سراغ مل گیا‘‘۔
’’ اس قسم کی گستاخی کا تو تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ میں نے قرآن کریم میں لفظی تحریف کی ان ساری آیات کو حوالوں کے ساتھ جمع کیا اور مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف سے قرآن مجید میں الفاظ کی تحریف پر تحریف قرآن اور قادیانی امت اور قرآن کے نام سے الگ الگ دو کتابچے لکھے جن کو جمعیت اتحاد العلمائے پاکستان نے بڑی تعداد میں طبع کرایا۔ پنجاب اسمبلی میں بھی اس کی باز گشت  سنی گئی اور حقائق جاننے کے لیے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جس کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ     یہ تحریف ثابت ہوتی ہے۔ اس پر قادیانی مرکز ربوہ سے ان کے ذمہ داروں کی طرف سے مجھ سے رابطہ کیا گیا اور اس لفظی تحریف کو ’سہو کتابت‘ قرار دیتے ہوئے یقین دلایا گیا کہ اس کی اصلاح کر دی جائے گی۔حالاں کہ اس تحریف کو کسی بھی طرح کتابت کی غلطی تسلیم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کاوش کا علم سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ہوا، توانھوں نے ملاقات میں میری کوشش کی تحسین فرمائی‘‘۔
میں نے یہ تفصیلات اس نسبت سے تحریر کی ہیں کہ قارئین مولانا مودودی مرحوم و مغفور کی اس خوبی سے واقف ہوں، جس کے تحت وہ دین کے کام کے لیے ہرسطح پر افراد کی قدر کرتے تھے، چیزوں پر نظر رکھتے تھے اور نہایت مشفقانہ انداز سے حوصلہ افزائی کرتے تھے۔

۶دسمبر۱۹۹۲ءکی رات ، بی بی سی نے نشریات روک کر اعلان کیا:’’ اترپردیش کے شہر فیض آباد سے سنڈے آبزرور کے نمایندے قربان علی لائن پر ہیں اور وہ ابھی ابھی ایودھیا سے وہاں پہنچے ہیں‘‘۔ اگلی پاٹ دار آواز قربان علی کی تھی۔ جس میں انھوں نے دنیا کو بتایا کہ ’’مغل فرماںروا ظہیرالدین بابر کی ایما پر تعمیر کی گئی بابری مسجد اب نہیں رہی‘‘۔ جس وقت و ہ ایودھیا سے روانہ ہوئے، وہ ملبہ کے ایک ڈھیر میں تبدیل ہوچکی تھی۔اس دن کسی بھی ابلاغی ادارے کا ایودھیا میںموجود اپنے رپورٹروں سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ بھارتی حکومت دعویٰ کر رہی تھی کہ ’’ایک ہجوم نے مسجد پر حملہ کرکے اس کو معمولی نقصان پہنچایا اور سکیورٹی دستوں نے ان کو پیچھے دھکیل دیا ہے‘‘۔
ہندو نسل پرست تنظیموں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور ویشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے جب رام مندر تحریک شروع کی، تو میں انھی دنوں دہلی میں صحافت کی تعلیم مکمل کر رہا تھا۔ بی جے پی کے مرکزی لیڈر ایل کے ایڈوانی کی ’رتھ یاترا‘ جب چاندنی چوک سے گزر رہی تھی، تو میںسڑک کے کنارے، ہوا میں تلواریں اوربھالے لہراتے ہجوم کو ’جے شری رام‘ ،’ مندر وہیں بنائیں گے‘ اور مغل فرماں روا ظہیرالدین بابر کی اولاد کے نام لے کر گالیوں ملے نعرے بلند کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اگرچہ آنجہانی پرمود مہاجن اس یاترا کے چیف آرگنائزر تھے، مگر دہلی میں بی جے پی کے دفتر میں موجودہ وزیر اعظم نریندرا مودی اس کے متعلق پروگرام وغیرہ کی بریفنگ دیتے تھے۔
نومبر ۲۰۱۹ء میں بھارتی سپریم کورٹ کے عجیب و غریب فیصلے کے بعد بابری مسجد ایک قصۂ پارینہ بن ہی گئی تھی۔ پھر ۳۰ستمبر ۲۰۲۰ء کے روز مسجد مسمار کرنے والوں کو بھی اتر پردیش صوبہ کے شہر لکھنؤ کی خصوصی عدالت نے ’بے گناہ‘ قرار دے کر، انصاف کو دفن کر نے کا مزید سامان مہیا کردیا۔
پچھلے ۲۸ برسوں کے دوران عدالت کے رویے کو دیکھ کرکچھ زیادہ امید یں نہیں بندھی تھیں۔ سپریم کورٹ نے ایک طرف مسجد کی زمین ہندو بھگوان رام للا کے سپرد کی۔ دوسری طرف مسلم فریق کے تین اہم دلائل کو بھی تسلیم کرکے فیصلہ میں شامل کردیا۔ یہ بھی تسلیم کیا کہ ’’۱۹۴۹ء کو رات کے اندھیرے میں مسجد کے محراب میں بھگوان رام کی مورتی رکھنا اور پھر دسمبر ۱۹۹۲ء کو مسجد کی مسماری مجرمانہ فعل تھے‘‘۔ پھر عدالت نے آثار قدیمہ کی تحقیق کا بھی حوالہ دے کر بتایا: ’’۱۵۲۸ء میں جس وقت مسجد کی تعمیر شروع ہوئی، اس وقت کی کسی عبادت گاہ کے آثار نہیں ملے۔ ہاں، کھدائی کے دوران، جو کچھ آثار پائے گئے، ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے ، کہ اس جگہ پر ۱۱ویں صدی میں کوئی عمارت موجود تھی، جو تباہ ہوچکی تھی‘‘ (یعنی اگلے ۵۰۰برسوں تک اس جگہ پر کوئی عمارت موجود نہیں تھی)۔
فیصلے میں شامل ان دلائل سے ایک موہوم سی امید جاگ اٹھی تھی، کہ چاہے مسجد کی زمین پر ایک پرشکوہ مندر کی تعمیر شروع ہو چکی ہے، مگر اس عبادت گاہ کو مسمار کرنے والوں کو قرا ر واقعی سزا دے کر ایک مثال قائم کی جائے گی۔ مگر ۲ہزارصفحات سے بھی زائد اپنے ۳۰ستمبر ۲۰۲۰ء کے فیصلے میںخصوصی عدالت کے جج سریندر کمار یادو نے سپریم کورٹ کی ہدایت اور تمام ثبوتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے تمام ۳۲ملزمان کو بری کر دیا۔ اس مقدمے کی کارروائی کا مَیں خود گواہ ہوں۔ استغاثہ نے جن ۳۵۱گواہوں کی فہرست کورٹ میں دی تھی، اس میں سے تین شخص میر ے قریبی رفیق تھے، جن سے مسلسل معلومات ملتی رہتی تھیں۔ نریندرا مودی کی دہلی میں آمد تو ۲۰۱۴ءمیں ہوئی، اس سے قبل سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سیاست کا کاروبار مسلمان ووٹوں کو سبزباغ دکھانے پر چل رہا تھا، انھوں نے بھی بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں دکھائی۔حتیٰ کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجرا نہیں کرسکیں جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جاسکتا۔ اور پھر خود نوٹیفکیشن میں تکنیکی خامیاں تھیں، جن کو ۲۰۱۰ء میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے کہنے پر دُور کیا گیا اور سبھی مقدمو ں کو یک جا کرکے لکھنؤ کی خصوصی عدالت میں سماعت شروع ہوئی۔
معروف فوٹو جرنلسٹ پروین جین نے نہ صرف ۶دسمبر کے دن بابری مسجد کی مسماری کی تصاویر لیں تھیں، بلکہ اس سے کئی روز قبل ایودھیا کے نواح میں کارسیوکوں کے گروپ میں شمولیت کرکے ریہر سہل میں حصہ لیا، اور ان سرگرمیوں کی تصویریں بھی کیمرے میں محفوظ کرلی تھیں۔ ان کے اخبار دی پائینیر نے مسجد کے مسمار ہونے پر ان کو شائع کیا تھا۔ استغاثہ نے پروین جین کو گواہ بنایا تھا۔ اس دوران ان کو کس طرح ہراساں و پریشان کیا جاتا تھا اور کورٹ میں حاضری کے دن ان کو وکیلوں و عدالتی اسٹاف کے اذیت ناک رویے کا کس طرح سامنا کرنا پڑتا تھا؟ یہ خود ایک دردبھری داستان ہے۔
سمن آنے پر مقررہ تاریخ سے ایک روز قبل وہ دہلی سے بذریعہ ٹرین لکھنوٗ کے لیے روانہ ہوتے تھے: ’’دن بھر عدالت کے باہر، عدالتی ہرکارے کی آوا ز کا انتظار کرنے کے بعد بتایا جاتا تھاکہ آج گواہی نہیں ہوگی، کیونکہ یا تو جج موجود نہیں ہے، یا استغاثہ یا وکیل دفاع موجود نہیں ہے‘‘۔ جین کے بقول: ’’کئی برسوں تک اس طرح کی گردشوں کے بعد جب ایک دن مجھے گواہوں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا، اورابھی بیان ریکارڈ ہونے ہی والا تھا، کہ ایک معمر وکیل نے کٹہرے کے پاس آکر اپنا منہ میرے کے کان کے پاس لاکر ماں ، بہن کی گندی گالی دے کر دھمکی بھی دے ڈالی‘‘۔اس پر جین نے بلند آواز میں جج کو متوجہ کرتے ہوئے شکایت کی، کہ ’’مجھ کو بھری عدالت میں دھمکیاں دی جا رہی ہیں‘‘۔ جج نے حکم دیا کہ ’’پروین کو ایک سفید کاغذ دیا جائے، تاکہ یہ اپنی شکایت تحریری طور پر دیں‘‘۔ شکایت جج کے پاس پہنچتے ہی ، وکیل دفاع نے دلیل دی،کہ    ’’اب پہلے اس کیس کا فیصلہ ہونا چاہیے کہ گواہ کو کس نے گالی اور دھمکی دی؟ اس دوران کورٹ میں ہنگامہ مچ گیا اور گواہی اگلی تاریخ تک ٹل گئی اور بتایا گیا کہ ’’تم اپنا وکیل مقرر کرو ، کیونکہ اب پہلے تمھیں عدالت میں دھمکانے کا کیس طے ہوگا‘‘۔
 تنگ آکر جین نے یہ کیس واپس لیا اور اصل کیس، یعنی بابری مسجد کی مسماری سے متعلق اپنا بیان درج کروانے کی درخواست کی۔ اس طرح کئی تاریخوں کے بعد جب گواہی درج ہوگئی تو ان کو بتایا گیا ، کہ ’’بس تصویریں کافی نہیں ہیں، ۶دسمبر کے دن ایودھیا میں اپنی موجودگی ثابت کرو‘‘۔ خیر کسی طرح کئی ماہ کی تگ ودو کے بعد انھوں نے ایودھیا کے ضلعی صدر مقام فیض آباد کے ایک ہوٹل سے پرانا ریکارڈ نکالا اور اپنے ادارے پائینیر کا ایک سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا۔ مگر اب کورٹ میں ان کو بتایا گیا کہ ’’یہ کاغذات بھی ناکافی ہیں‘‘۔ آخرکئی عشرے قبل کا ٹرین ٹکٹ ان کو مل گیا اور اب کئی برسوں کے بعد یہ طے ہو گیا کہ وہ اس دن واقعی ایودھیا میں تھے، مگر اب ان کو بتایا گیا کہ ’’تمھاری تصویریں قابلِ اعتبار نہیں ہیں، اس لیے ا ن کے نگیٹو پرنٹ کورٹ میں پیش کرنے ہوںگے‘‘۔
اسی دوران دہلی میں پروین جین کی عدم موجودگی میں ان کے فلیٹ پر ’چوروں‘ نے دھاوا بول دیا اور پورے گھر کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔ گھر کی جو حالت تھی، اس سے معلوم ہوتا تھا کہ درانداز کس چیز کو تلاش کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ نقدی، زیورات اور دیگر قیمتی سامان غائب تھا، مگر خوش قسمتی سے تصویروں کے نگیٹو بچ گئے تھے، کیونکہ وہ انھوں نے کسی دوسری جگہ حفاظت سے رکھے ہوئے تھے۔ کورٹ میں مسجد کی شہادت کی تیاری اور باضابط ریہر سہل کرنے کی تصویریں پیش کی گئیں۔ معلوم ہوا کہ دو سول انجینیر اور ایک آرکیٹیکٹ مسجد کی عمارت گرانے کے لیے کارسیوکوں کو باضابطہ ٹریننگ دے رہے تھے۔ ان سبھی کے چہرے تصویروں میں واضح تھے۔
اسی طرح میرے کشمیری پنڈت دوست سنجے کاوٗ بھی ایک گواہ تھے۔ انھوں نے مسجد کی شہادت سے قبل ایک اسٹنگ آپریشن کے ذریعے انکشاف کیا تھا کہ ۶دسمبر کو بابری مسجد کو مسمار کر دیا جائے گا۔ ان دنوں خفیہ کیمرہ سے اسٹنگ کا رواج نہیں تھا۔ اخبار اسٹیٹسمین کے دفتر سے رات گئے جب وہ آفس کی گاڑی میں گھر جا رہے تھے، تو ڈرائیور نے ان کو بتایا کہ ایودھیا میں اس بار کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے۔ ایڈیٹر نے اگلے دن ان کو ایودھیا جانے کی اجازت دے دی۔
 مگر کاوٗ نے صحافی کے بجائے ایک کارسیوک کے طور پر جانے کی ٹھانی اور دہلی میں بی جے پی کے دفترمیں سنجے کول کے نام سے اندراج کرواکے کار سیوک کا کارڈ حاصل کیا۔ ہندو اور کشمیری پنڈت ہونے کے باوجود نہ صرف ٹرین میں بلکہ فیض آباد میں بھی کئی بار ان کی پوچھ گچھ کی گئی۔ ’’شاید میں نیا چہرہ تھا، و ہ بار بار شک کی نگاہ سے مجھے دیکھتے تھے۔ میں نے اپنے آپ کو ایک انجینیرنگ اسٹوڈنٹ بتایا ، جس کو کشمیر میں حالات کی خرابی کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی ہے‘‘۔ ایودھیا پہنچنے پر ایک بار پھر ۶،۷افراد نے باقاعدہ تفتیش کی۔ کشمیری پنڈت ہونے کی دہائی دے کر آخر کار مجھ کو کارسیوکوں کے ایک گروپ میں شامل کرکے خیمہ میں رہنے کے لیے کہا گیا۔ واکی ٹاکی ہاتھ میں لیے ایک سادھو اس گروپ کا سربراہ تھا، جس نے اگلے دن ایک قبرستان میں لے جاکر ہم کو قبریں منہدم کرنے کا حکم دے دیا۔ وہ بار بار ان کو تاکید کر رہا تھا کہ ہاتھ چلانا سیکھو۔ کارسیوک آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ اسی طرح مسجد کو بھی توڑنا ہے‘‘۔ سادھو نے سنجے کاوٗ کو خبردار کیا تھا کہ ’’صحافی یا خفیہ محکمہ کا کوئی فرد ان کے آس پاس نہ پھٹکنے پائے ۔ بار بار کے انٹروگیشن، ریہرسہل اور صحافیوں کے بارے کارسیوکوں کے رویے نے کاوٗ کو کافی ڈرا دیا۔ رات کے اندھیرے میں وہ خیمہ سے بھاگ کر پہلے فیض آباد اور پھر دہلی روانہ ہوگیا، جہاں اس نے اسٹیٹسمین میں کئی قسطوں میں چھپی رپورٹوں میں بتایا کہ مسجدکی مسماری کی تیاریاں پوری طرح مکمل ہیں۔
دنیا کو مسجد کی شہادت کی خبر دینے والے صحافی قربان علی کے مطابق شام چھے بجے تک تاریخی شاہی مسجد کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ وہ بی بی سی کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف مارک ٹیلی کے ساتھ کئی روز سے ایودھیا میں مقیم تھے۔ ان کا کہنا ہے،اگرچہ افواہوں کا بازار گرم تھا، مگر مسجد کی مسماری کا اندازہ نہیں تھا۔ بھارتی وقت کے مطابق۳۰:۱۱ بجے صبح کارسیوکوں نے مسجد پر دھاوا بول دیا، جب کہ ایک گروپ صحافیوں کو ڈھونڈکر ان کو پیٹ پیٹ کر کمروں میں بند کر رہا تھا۔مارک ٹیلی اور علی ان کو غچہ دے کر کسی طرح ایودھیا سے نکل کر فیض آباد پہنچے ، اور وہاں کے ٹیلیگراف آفس سے دہلی خبر بھیجی۔ اس وقت فیض آباد میں مقیم سینٹرل ریزور پولیس فورس کے دستوں نے ایودھیا کی طرف مارچ کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہی آخری خبر تھی، جو دہلی تک پہنچ سکی تھی۔ واپسی پر ان دونوں صحافیوں نے دیکھا کہ سینٹرل فورس کو ایودھیا کے باہر ہی روک لیا گیا ہے۔
خیر وہ دوسرے راستے سے ایودھیا شہر میں داخل ہوئے اور ایک ہجوم نے مارک ٹیلی کو پہچان کر ان دونوں کو ایک بوسیدہ مندر کے کمرے میں بند کردیا۔ ’’وہ پہلے ہمارے قتل کے لیے آپس میں مشورہ کررہے تھے ۔ پھر ان کے سربراہ نے ان کو بتایا کہ پہلے مسجد کے قضیہ سے نپٹ لیں، یعنی پوری طرح مسمار ہو، پھر ان کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے‘‘۔ شام کو کسی دوسرے گروپ نے تالا کھولا اور ان کو وی ایچ پی کے سربراہ اشوک سنگھل کے دربار میں پیش کیا، جو قربان علی اور مارک ٹیلی سے واقف تھے۔ انھوں نے ان کو رہا کرادیا۔ مگر شہر سے جانا ابھی تک جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ قربان علی کا کہنا ہے کہ ایودھیا سے فیض آباد کی محض ۱۰ کلومیٹر کی دُوری، اس دن کئی سو کلومیٹر کا فاصلہ لگ رہا تھا اور جب وہ فیض آباد کے ہوٹل میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت بی بی سی اردو کی رات کی نشریات جاری تھیں، جس نے ان سے فون پر بات کرکے دنیا تک خبر پہنچائی۔
معروف قانون دان اور مصنف اے جی نورانی نے اپنی کتاب Destruction of Babri Masjid:A National Dishonour کی تیسری جلد میں بابری مسجد کو شہید کرنے کی سازش پر خوب بحث کی ہے۔ ان کے بقول: ’’مسجد کی شہادت میں بھارتی عدلیہ اور انتظامیہ نے بھر پور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا پول کھول دیا ہے۔نہ صرف نچلی عدالتوں کے لیت و لعل سے بلکہ اس وقت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس وینکٹ چلیا کے طریق کار نے بھی مسجد کی مسماری کی راہ ہموار کردی‘‘۔نورانی صاحب نے انکشاف کیا کہ ’’جسٹس چلیا مسجد کو بچانے اور آئین اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے بجائے کار سیوکوںکی صحت سے متعلق فکر مند تھے۔غالباً یہی وجہ تھی کہ ۱۹۹۸ء میں بی جے پی کی قیادت والی مخلوط حکومت کے قیام کے بعد ان کو شاید انھی خدمات کے بدلے ایک اعلیٰ اختیاری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا‘‘۔
نورانی صاحب لکھتے ہیں: ’’سابق سیکرٹری داخلہ مادھو گوڈبولے کے مطابق ان کو بھی مسجدکی شہادت کی تیاری کی اطلاع تھی۔ اسی لیے ان کے محکمے نے ریاست اتر پردیش میں مرکزی راج نافذ کرنے کا مشورہ دیا تھا،مگر کانگریسی وزیراعظم نرسمہا راؤ نے اس کو نامنظور کر دیا‘‘۔ نورانی کا کہنا ہے کہ ’’راوٗ خود، مسجد کی شہادت میں بلا واسطہ ملوث تھے۔ کانگریس کے اندرا گاندھی کے دورِاقتدار میں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے ویشوا ہندو پریشد کے ساتھ ایک معاملہ فہمی ہوئی تھی۔
بلاشبہہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی مگر راجیو گاندھی نے اس معاملہ فہمی کو پھر زندہ کیا۔ تاہم، اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لا میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی‘‘۔مصنف نے راجیوگاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیے کو اینگلومحمڈن قانون کے بجائے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے، مگر وہ مسلمانوںکو سیاسی طور پر بے وقوف بناکر پریشد کے ساتھ ڈیل کو آگے بڑھا رہے تھے۔
بابری مسجد کی شہادت میں سیکولر جماعتوں کے دامن بھی خون سے آلودہ ہیں۔ بابری مسجد نے شہادت کے بعد ان سبھی چہروں سے نقاب اتار کر پھینک دیے ہیں اور اگر ابھی تک کسی کو یہ چہرے اصل رُوپ میں نظر نہ آتے ہوں، تو یقیناً ان کی دماغی حالت پر شبہے کے علاوہ اور کیا ہی کیا جاسکتا ہے!

 

ربع صدی پہلے میاں طفیل محمد اور نعیم صدیقی صاحبان نے (اللہ دونوں کی قبر منوررکھے) والد مرحوم مولانا صدر الدین اصلاحی صاحب کی خدمت میں چند کتابوں کا تحفہ روانہ کیا۔ ان میں ایک کتاب مولانا ابوالکلام آزاد، سیّدابوالاعلیٰ مودودی اور مستری صاحب تھی، جو مستری محمد صدیق صاحب کے صاحبزادے جناب رحمان صدیقی نے مرتب کرکے جون۱۹۹۱ء میں شائع کی تھی۔ یہ کتاب بنیادی طور پر مستری صاحب پر لکھے ہوئے مختلف مضامین کا مجموعہ تھی۔


مستری صاحب ان پانچ افراد میں سے ایک تھے، جنھوں نے پٹھان کوٹ میں ۱۹۳۸ء کے دوران جماعت اسلامی کے نقش اوّل، ادارہ دارالاسلام کی داغ بیل ڈالی تھی۔ نیز جماعت اسلامی کی تشکیل میں بھی شریک تھے۔ مستری صاحب کی پیدایش ۱۸۷۵ء میں ڈیرہ اسماعیل خاں میں ہوئی، تاہم پرورش پنجاب ہی کی ایک بستی سلطان پور لودھی (کپورتھلہ)میں ہوئی۔ کچھ عرصہ انھوں نے الٰہ آباد میں بھی گزارا تھا، جہاں ان کی ملاقات مولانا حمیدالدین فراہی سے رہی۔ ان کے احباب میں نمایاں ترین ہستی مولانا ابوالکلام آزاد تھے۔ مستری صاحب عابد و زاہد، بہت سادہ مزاج اور طبعاً جذباتی شخص تھے۔ مرحوم کو مولانا مودودی کا پیش کردہ اسلامی انقلاب کا نقشہ طویل مدت پر پھیلا اور اپنے جذبوں سے کم تر محسوس ہوا تو ۱۹۴۳ء میں جماعت اسلامی سے علاحدگی اختیار کرلی۔


ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نےمذکورہ بالا کتاب کے دیباچے میں لکھا: ’’جب مولانا مودودی کے اصل داخلی رجحانات بروئے کار آئے، تومستری صاحب ان سے مایوس اور بددل ہوگئے، اور انھوں نے اپنی ’کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد‘ والی دُھن لیے اوّلاً ریاست کپورتھلہ [اب مشرقی پنجاب] میں ایک ویران مقام پر ڈیرہ ڈال کر اور بعد از تقسیم ہند،سکیسر کی پہاڑیوں میں پناہ گزین ہوکر تسکین کا سامان کیا‘‘(ص۱۴)۔


جب والد مرحوم کے سامنے یہ عبارت آئی تو انھوں نے اسے ایک سراسر غلط بیانی سے تعبیر کیا کہ وہ مولانا مودودی سے مایوس ہوگئے تھے اورکہا کہ ’’مستری صاحب جماعت سے نکل جانے کے بعد دوبارہ اس میں شامل ہونا چاہتے تھے، اور اس بات کا مَیں تنہا شاہد ہوں۔ کیونکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر مولانا مودودی کے پاس دوبارہ شمولیت کی خواہش لے کر گئے تھے۔ اب نہ مولانا بقیدِحیات ہیں اور نہ مستری صاحب۔تنہا میں ہی اس واقعہ کا عینی شاہد ہوں۔ نیز جماعت سے نکلنے کی وجہ بھی وہ نہیں ہے جو ڈاکٹر اسرار صاحب نے لکھی ہے، ورنہ وہ دوبارہ شامل ہونے کی بات کیوں کرتے؟‘‘ پھر انھوں نے واقعے کی پوری تفصیل بھی بیان کی، جو آیندہ سطور میں درج کی جارہی ہے۔


اس ضمن میں والد ِ محترم نے میاں طفیل محمد صاحب کے نام جو خط تحریر کیا،وہ آیندہ سطور میں نقل کیا جارہا ہے۔ میرا خیال تھا کہ اسے شاید ترجمان القرآن میں شائع کردیا جائے گا تاکہ ایک تاریخی واقعہ اپنی صحیح تفصیل کے ساتھ ریکارڈ پر آجائے۔ ان دنوں خرم مراد صاحب مرحوم ترجمان کے مدیر تھے۔ان سے ملاقات میں مَیں نے اس خط کا ذکر کیا تو انھوں نے اسے ترجمان  میں شائع کرنے کا عندیہ دیا۔ لیکن شاید خط کی نقل کہیں اِدھراُدھر ہوگئی اورخط منظرعام پر نہ آسکا۔
۲۵برس کا عرصہ گزر جانے کے بعد، غیرمتوقع طور پر ایک بار پھر یہ خط میرے سامنے آیا، تو اسے پیش کر رہا ہوں۔ مقصود کسی پرانی بحث کو زندہ کرنا نہیں بلکہ ایک تاریخی واقعے کو ریکارڈ پر لانا ہے۔
باسمہٖ تعالیٰ

پھول پور، ضلع اعظم گڑھ
محترمی و مکرمی جناب میاں صاحب،السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
اِن دنوں محترم مستری صدیق صاحب مرحوم و مغفور سے متعلق بعض ایسی تحریریں میری نظر سے گزریں، جن میں جماعت اسلامی سے ان کی وابستگی کا بھی تذکرہ ہے اور پھر اس وابستگی کے انقطاع کا بھی اظہارو بیان ہے۔ مگر اس ضمن کی جو ایک تیسری بات بھی ہے اس کا کوئی ذکر مجھے [کہیں] نظر نہیں آسکا۔ اور اب مجھے کچھ ایسا گمان ہورہا ہے کہ شاید یہ بات ماضی کے پردے میں مستور ہوکر رہ گئی ہے، اور کچھ بعید نہیں کہ خود آپ کےعلم میں بھی نہ آسکی ہو۔ اگرچہ مجھے اس طرح کی جزئیات اور تفصیلات کی کوئی خاص اہمیت محسوس نہیں ہوتی، مگر مذکورہ بالا تحریروں میں جو اندازِ کلام اور لب و لہجہ اختیار کیا گیا ہے، اور مرحوم کی جماعت سے علیحدگی کے واقعے کو جس طرح تحریک و جماعت کے خلاف ایک اور ’دلیل قاطع‘ کے طور پراستعمال کیا گیا ہے، اسے دیکھتے ہوئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس تیسری بات کو بھی منظرعام پر لے آؤں۔
یہ تیسری بات آج سے ۴۸برس قبل کی ہے۔ مستری صاحب مرحوم و مغفور نے جماعت سے علیحدگی ۱۹۴۳ء میں اختیار کی تھی۔ ۱۹۴۵ء میں دارالاسلام پٹھان کوٹ میں جماعت اسلامی کا جو کُل ہند اجتماع ہوا تھا، اس میں شرکت کے لیے وہ بھی تشریف لائےتھے۔ جب اجتماع ختم ہوگیا اور شرکاء اجتماع اپنے مقامات پر واپس چلے گئے، اس کے بعد بھی موصوف دارالاسلام میں بدستور ٹھیرے رہے۔
ایک روز عصر بعد میں حسب معمول قریب کی نہر کے کنارے ٹہلنے گیا۔ اس موقعے پر صرف مستری صاحب میرے ہمراہ یا ہم سیر تھے۔ ٹہلتے ٹہلتے انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ ’’تم مولانا مودودی سے میری ملاقات کرا دو‘‘۔میں نے عرض کیا: ’’مستری صاحب! یہ آپ کیا فرما رہے ہیں؟ مولانا سے ملاقات کے لیے کسی توسط اور کسی اجازت طلبی کی کیا ضرورت ہے؟ اور وہ بھی آپ جیسی شخصیت کے لیے‘‘۔ لیکن ان کا اصراررہا کہ ’’نہیں، پہلے مولاناسے مل کر اجازت حاصل کرلو‘‘۔ میں نے کہا: ’’اچھی بات ہے‘‘۔ اب مغرب کا وقت قریب آچکا تھا۔ ہم دونوں نہر کے کنارے سے دارالاسلام واپس لوٹے۔ مسجد میں نماز پڑھی۔ جب مولانا [مودودی] مسجد سے نکل کر اپنے کمر ےکی طرف جانے لگے، تو میں نے ان سے مل کر مستری صاحب کی خواہش سے مطلع کر دیا۔ مولانا نے فرمایا: انھیں ابھی بلا لیں، مل لیں‘‘۔ میں پلٹ کر مستری صاحب کے پاس آیا اور مولانا کی بات ان تک پہنچا دی۔ اس کے بعد مَیں اور مستری صاحب دونوں ہی مولانا کے کمرے میں جاداخل ہوئے۔ سلام و کلام کے بعد مستری صاحب نے مولانا سے کہا کہ ’’مولانا، میں جماعت میں پھر شامل ہونا چاہتا ہوں۔ مجھے رکن بنا لیا جائے‘‘۔ مولانا نے جواب میں فرمایا کہ ’’خوشی کی بات ہے، آپ تحریک کا کام شروع کردیجیے۔ رہا رکنیت کا سوال تو وہ ایک رسمی اور ضابطے کی کارروائی ہے، اپنے وقت پر وہ بھی انجام پاجائے گی۔ تحریک اور دعوت کا کام کرنے کے لیے اس کی چنداں ضرورت نہیں ہے‘‘۔
گفتگو ختم ہوئی، مستری صاحب اُٹھ کر اپنی قیام گاہ پر چلے گئے۔ میں چند منٹ رُکا بیٹھا رہا۔ مستری صاحب کے تشریف لے جانے کے بعد مولانا نے مجھ سے فرمایا کہ’’جو شخص جماعت میں شامل ہوکر اس سے نکل جائے، اسے جماعت میں دوبارہ داخل کرتے وقت بڑی احتیاط سے کام لیناچاہیے‘‘۔
یہ ہے اس واقعے یا معاملے کی پوری تفصیل۔
صدرالدین اصلاحی
۱۹دسمبر ۱۹۹۳ء


مستری صاحب کے بارے میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے دست ِ راست میاں طفیل محمد صاحب نے لکھاہے: ’’میرے کرم فرما مستری محمد صدیق مرحوم نے مجھے مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی صاحب کی تحریروں اور ان کی ذات سے متعارف کرایا تھا۔ وہ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کے نہایت قریبی معتمد اور فداکار ساتھیوں میں سے تھے۔ لیکن جب مولانا آزاد مرحوم ، متحدہ قومیت اور کانگریس میں جذب ہوگئے تو یہ مولانا مودودی کی تحریروںاور کردار سے متاثر ہوکر ان سے آملے۔ مستری صاحب نے میرے ذہن کو روشن اور مجھے بالکل یکسو کردیا، اور چند دن کے اندر میں سب کچھ چھوڑ چھاڑکر مولانا مودودی کی خدمت میں، جماعت اسلامی کے مرکز اسلامیہ پارک، چوبرجی، لاہور،  پہنچ گیا‘‘۔ (ہفت روزہ، چٹان، لاہور،مدیر: شورش کاشمیری، ۱۲؍اپریل ۱۹۷۱ء)
اس پیکر ِ صدق و صفا نے ۵؍اگست ۱۹۵۲ء کو سون سکیسر [خوشاب، پنجاب]کی پہاڑیوں میں واقع اپنی جھونپڑی میں بے سروسامانی کی حالت میں وفات پائی اور خوشاب میں آسودئہ خاک ہوئے۔

 

 

مشہورفرانسیسی فلسفی میشل فوکو (م: ۱۹۸۴ء) کے مطابق:’’جدید انسان سترھویں صدی کی پیداوار ہے۔ قبل ازیں اس قسم کے انسان کا کوئی معاشرتی وجود نہیں تھا‘‘۔ مغرب کے بقول: ’تحریک تنویر‘ (Enlightened Movement) سے قبل مغرب میں بھی انسان خدا کا بندہ تھا اور اس کا مقصد حیات اپنے نفس کو خدا کی رضا کے آگے جھکادینا تھا۔ اسی طرح انسانی زندگی کا مقصد محض دنیاوی زندگی کو پُرلطف بنانا نہیں بلکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا اور دوسرے انسانوں کے لیے ہمدردی کی خاطر ایثار کرنا بھی تھا۔ وہ انسان یہ تصور نہیں کرتا تھا کہ یہ زندگی اس کو کسی حق کے طور پر دی گئی ہے کہ وہ اسے جس طرح چاہے گزارے۔ لیکن ’جدید انسان‘ خود کو آزاد تصور کرتے ہوئے زندگی کو اپنا حق سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ اسے اپنے ہر ارادے اور خواہش کو پورا کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ مگر یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک مادی ترقی نہ ہو، اور مادی ترقی ہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے خواہشات کی زیادہ سے زیادہ تکمیل ممکن ہے۔ہر ارادے اور خواہش کی تکمیل کے لیے جس سرمائے کی ضرورت ہے اس کا حصول صرف مادی ترقی کی جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔

ترقی کی اس جدوجہد میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ اب عورت اس بات پر قناعت نہیں کرسکتی کہ صرف مرد ہی کما کر لائے اورخاندان کی ضروریات پوری کرے۔ آج کی عورت یہ سمجھتی ہے کہ اسے بھی مرد کی طرح آزادی اور مساوات کے اظہار کے لیے ذاتی سرمایہ اور ملکیت چاہیے۔ اس لیے اب دنیا کے ہر علاقے اور ملک میں خواتین کے لیے گھر سے باہر ملازمت (Job)کرنا قابلِ قبول ہوچکا ہے کہ جس کا ماضی میں تصور بھی ممکن نہ تھا۔ اس لیے اب ’اچھی اور سچی ماں‘ (Real Mother) کا روایتی تصور بھی تبدیل ہو گیا ہے اور اس کی جگہ ’ذمہ دار ماں‘ (Intensive Mother)کا تصور آگیا ہے۔ ذمہ دار ماں کے لیے بچوں کی پرورش، نگرانی اور ان کی ضروریات پوری کرنے کا کام اپنے ہاتھ سے سرانجام دینا ضروری نہیں۔ وہ جاب میں مصروف ہو تویہ کام کسی دوسرے فرد یا ادارے کے ذریعے بھی کروا سکتی ہے، یا پھر بہت سے خوش حال ممالک میں ان کی پرورش کی ذمہ داری ریاست لے لیتی ہے۔

ماں کے مذکورہ کردار میں تبدیلی کے باجود دنیا بھر میں بالغوں کی ایک بڑی تعداد، یعنی ۲۷ فی صد خواتین اور ۲۹ فی صد مردوں کی یہ خواہش ہے کہ’’ عورتوں کو ملازمت کے بجائے گھر میں رہنا چاہیے اور بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کرنی چاہیے‘‘۔ اس سوچ کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں مذہبی خیالات، تہذیبی روایات اوربچوں کی دیکھ بھال کے عملی مسائل شامل ہیں۔ مثال کے طور پر آج مادیت و جدیدیت کے ’امام ملک‘ امریکا میں ملازمت پیشہ عورت کے بچوں کی دیکھ بھال پر آنے والے اخراجات کالج کی تعلیم سے زیادہ ہوتے ہیں۔ بچوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے حکومتی سطح پر کوئی معقول بندوبست نہیں ہے۔ ۶۰ فی صد امریکی والدین کے مطابق انھیں گھر کے پاس، بچوں کی مناسب دیکھ بھال کے قابل اعتماد ذرائع میسر نہیں ہیں اور کام کرنے والی خواتین کے لیے بچوں کی دیکھ بھال ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

کینیڈا کے ایک محقق ایڈرینے (رابطہ کار: پالیسی اینڈ کمیونی کیشن، نیشنل فاؤنڈیشن فار فیملی ریسرچ) کے مطابق: ’’آج کل کی معاشی مسابقت کی صورتِ حال میں کینیڈین لوگ، بچوں کی پرورش کے حوالے سے ’ڈے کئیر‘ کو غیر تسلی بخش حل تصور کرتے ہیں اور اگر ان کے پاس مناسب ذرائع موجود ہوں تو وہ اپنے چھوٹے بچوں کی پرورش کے حوالے سے والدین میں سے کسی ایک کےگھر پر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور عملی طور پر بھی حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ تمام لوگوں کو ان کی پسند کے مطابق معیاری ڈے کیئر سینٹرز مہیا کرے‘‘۔
کینیڈا کی عورتوں کی اکثریت بھی یہی چاہتی ہے کہ جب ان کے ہاں بچے ہوں تو وہ گھر پر رہ کر بچوں کی پرورش کریں، لیکن جوزف مچلسکی کی رپورٹ کے مطابق: ’’کینیڈین معاشرے میں، والدین میں اس بات پر وسیع پیمانے پر اتفاق رائے نہیں پایا جاتا کہ جب ان کے ہاں بچے ہوں تو ان کی پرورش کے حوالے سے ان میں سے کسی ایک کو لازمی طور پر گھر پر رہنا چاہیے یا نہیں۔ بہت سی مائیں یہ چاہتی ہیں کہ وہ بچوں کی اچھی پرورش کے لیے گھر پر رہیں، لیکن بہت سی معاشی اور سماجی ضروریات اور مشکلات کے تحت سب کے لیے ایسا فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہوتا اور انھیں پارٹ ٹائم یا فل ٹائم جاب کرنا ہی پڑتی ہے‘‘۔
چین میں کمیونسٹ حکومت نے ۱۹۷۶ء میں، ماؤزے تنگ کے انتقال کے دوسال بعد ۱۹۷۸ء میں جبری فیملی پلاننگ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ایک سے زائد بچے کی پیدایش پر پابندی لگادی تھی۔ پھر چین نے خواتین کی بڑی تعداد کو ملازمت،محنت اور مشقت کی بھٹی میں جھونکتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ’’خواتین کو آزادی سے ہم کنار کر دیا گیا ہے‘‘۔ یہ الگ بات ہے کہ اس فرعونی قانون کے نتیجے میں کروڑوں بچیاں، والدین ہی کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتریں، یا پھر معذور بناکر دوسرے بچے کا ’جواز‘ پیدا کرنے کا حوالہ بنیں۔ پھر اسی چین نے ۲۰۱۶ء میں دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دے دی اور اس کے ساتھ ہی مردوں کی چھٹیاں کم کرکے خواتین کی چھٹیاں بڑھا دیں۔ چین میں اب سرکاری طور پر حاملہ عورتیں ۱۹۰ دن تک کی چھٹیاں مع تنخواہ لے سکتی ہیں۔ چونکہ پرائیویٹ کمپنیاں یہ سب سہولیات مہیا نہیں کر سکتیں، اس لیے اب وہ خواتین کو مردوں کی نسبت ملازمت میں ترجیح نہیں دیتیں اور یوں چین کی افرادی قوت میں عورتوں کی تعداد بھی مسلسل کم ہورہی ہے، لیکن چین اس بات کو ’عورتوں کی آزادی کے خلاف قدم‘ قرار نہیں دیتا۔
۲۰۱۶ء- ۲۰۱۷ء میں چین کے سرکاری میڈیا نے ’گھر واپس آنے والی خواتین‘ کی خوبیوں کے حوالے سے ایک عوامی آگہی کی مہم چلائی، جس میں بتایا گیا کہ’’ خواتین کا گھر میں رہنا نہ صرف بچوں کی افزایش، نشوونما، تعلیم و تربیت کے لیے مفید ہے بلکہ خاندان کے استحکام کا بھی باعث ہے اور پورے معاشرے پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں‘‘۔ اسی مہم کے دوران پوسٹرز کے ذریعے بتایا گیا: ’’اچھی ماں بننا خواتین کے لیے سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘۔
امریکا میں صنفی مساوات، تعلیم، روزگار اور سیاست میں قابل ذکر ترقی کے باوجود، مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین گھروں میں رہتی ہیں۔ دنیا کے تمام ممالک جنھوں نے صنفی برابری کو خاص طور پر فروغ دیا ہے، ان میں بھی اگرچہ خواتین کی لیبر فورس بڑھی ہے لیکن پھر بھی مردوں کے مقابلے میں یہ تعداد کم ہے۔ بچوں کی پیدایش کے بعد ماؤں کی ایک بہت بڑی تعداد ملازمت سے دست بردار ہو جاتی ہے یا پارٹ ٹائم ملازمت کو ترجیح دیتی ہے۔ ’معاشی تعاون اور ترقی کی تنظیم‘ (OECD) کے ممبر ممالک (یعنی آسٹریا، بیلجیم، چیک، ڈنمارک، اسٹونیا،فن لینڈ، برطانیہ، اٹلی، سویزرلینڈ، سویڈن وغیرہ) میں جزوقتی کام کرنے والی خواتین کی تعداد ۲۶ فی صد ہے،جب کہ جزوقتی ملازمت کرنے والوں مردوں کی تعداد صرف ۷فی صد سے بھی کم ہے۔
خواتین کی ملازمت کی شرح کا طلاق، علیحدگی اور گھریلو جھگڑوں وغیرہ سے بھی بہت گہرا تعلق ہے۔ ان ممالک میں چونکہ ایک بہت بڑی تعداد ان ماؤں کی پائی جاتی ہے، جو Single Mother  (تنہا ماں)ہیں اور گزر بسر کرنے کے لیے محنت مشقت کرنا ان کی مجبوری ہوتی ہے، اس لیے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ خواتین کی بہت بڑی تعداد برسرِروزگار ہے۔ ملازمت کرنے والی خواتین میں سے اگر غیر شادی شدہ خواتین اور اکیلی رہنے والی خواتین کو الگ کر دیا جائے تو ان ملازم پیشہ خواتین کی تعداد بہت ہی کم رہ جاتی ہے، جو اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہوتی ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں بھی خواتین گھر کے کام اور کنبے کی دیکھ بھال پر مردوں کی بہ نسبت دگنا سے بھی زیادہ وقت گزارتی ہیں اور گھریلو کام کے علاوہ کنبے کے بزرگوں اور بیماروں اور ضرورت مند افراد کی نگہداشت کا کام بھی سرانجام دیتی ہیں، جب کہ ان فرائض کی بجاآوری سے مردالگ یا لاتعلق رہتے ہیں۔

صنفی مساوات کے قائل خواتین اور خواتین کی خود اختیاریت کے علَم بردار مرد (مرد فیمنسٹ) لیڈر گھر میں رہنے والی ماؤں کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو بچے پیدا کرنے کو قابل مذمت فعل سمجھتے ہیں۔ وہ صرف ان عورتوں کو ماڈرن سمجھتے ہیں، جو اپنے کیرئیر پر توجہ دیتی ہیں، مردوں کے مقابلے میں ہر کام کرنے کو تیار ہوتی ہیں، اور اپنی ’آزادی‘ کے حصول کے لیے ذہانت اور قابلیت کا استعمال کرنا جانتی ہیں۔ مثلاً ۱۹۷۵ء میں فرانسیسی حقوقِ نسواں کے علَم بردار سائمن ڈی بوایر نے کہا تھا: ’’کسی بھی عورت کو گھر میں رہنے اور بچوں کی پرورش کا اختیار نہیں دینا چاہیے، کیونکہ اگر عورتوں کو انتخاب کا اختیار دیا جائے تو زیادہ تر اسی بات کا انتخاب کریں گی کہ انھیں گھر پر رہنا ہے‘‘۔
حال ہی میں آسٹریلیا کے معروف ہفت روزے The Sunday Telegraphکی چیف ایڈیٹر سارا لی مارکوانڈنے لکھا ہے: ’’اسکول کی عمر کے بچوں کی ماؤں کا گھر پر رہنا غیر قانونی قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ صنفی مساوات تو اسی وقت قائم اور برقرار رہ سکتی ہے، جب خواتین مردوں کی طرح گھر سے باہر کام کریں، پیسے کمائیں اور گھر کے اندر بھی تمام کام کاج شوہر، بیوی مل کر بانٹیں اور مساوی طور پر سرانجام دیں‘‘۔
کچھ ممالک میں فیمی نزم کے مذکورہ خیالات کے زیر اثر خواتین کو لیبر فورس میں شامل ہونے کے لیے ترغیبات دی جاتی ہیں، مثلاً معاشی آزادی، خود انحصاری، بیماری اور معاشی بدحالی سے نمٹنے کا بندوبست اور دیگر مراعات وغیرہ۔ لیکن اس کے باوجود خواتین کی اکثریت اب بھی گھر پر رہنے یا جز وقتی کام کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ مثلاً امریکا میں ۲۰۱۵ء میں ہونے والے گیلپ سروے کے مطابق وہ خواتین جن کے بچوں کی عمریں اٹھارہ سال سے کم ہوتی ہیں، ان کی نصف سے زیادہ تعداد گھر سے باہر کام کرنے کے بجائے گھر پر رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ وہ خواتین جن کے بچوں کی عمریں اٹھارہ سال سے زیادہ ہیں ان کی بھی ۴۰ فی صد تعداد گھرکے اندر کردار ادا کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔
’فیمی نزم‘ (Feminism)یعنی ’خواتین کی خود اختیاریت‘ کے سب نظریات اور مفروضات کا بنیادی مقصد عورتوں کو انتخاب کی آزادی دینے کی حمایت کرنا ہے۔ مثلاً اجرت کی مساوات اور کیرئیر کےانتخاب کےپیچھے یہ سوچ ہے کہ عورت کے پاس اپنی ملکیت اور وسائل ہوں تاکہ وہ مرد کی مرہون منت نہ ہو اور اپنی مرضی سے زندگی گزار سکے۔ جنسی ہراسانی کے خلاف پالیسی اور سسٹم بنانے کے پیچھے یہ محرک ہے کہ عورت کو جنسی انتخاب میں آزادی ہو اور وہ اپنی مرضی سے جو چاہے جنسی فیصلہ کرے۔ لیکن آزادی کے اسی اصول کے تحت اُن عورتوں کو انتخاب کی آزادی کیوں نہیں دی جا رہی، جو اپنی مرضی سے گھر پر رہنے اور گھر کے کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں؟ ان کو اپنے حقوق سے غافل کیوں قرار دیا جاتا ہے؟
جب ہم اپنی مرضی سے پیشے اور ملازمت کا انتخاب کرتے ہیں، تو جتنا وقت ہم اس سرگرمی پر لگاتے ہیں وہ وقت ہم اپنی بیوی بچوں کے ساتھ تو نہیں گزار سکتے ہیں۔ گویا ہم فیملی کو دیے جانے والے وقت کی قربانی دے کر کیرئیر بناتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جو خاتون گھر سنبھالتی ہے اور بچوں کی پرورش کرتی ہے اور اپنے خاندان کو وقت دیتی ہے، اسے اس وقت کو قربان کرنا پڑتا ہے جو وہ ملازمت یا پیشے پر لگا سکتی تھی۔ وقت کی قربانی تو دونوں صورتوں میں ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ آزادیِ نسواں کی علَم بردار لیڈر ایک طرح سے وقت کی قربانی کو توقابلِ قبول سمجھتی ہیں، لیکن دوسری طرح کی وقت کی قربانی کو قابل قبول نہیں سمجھتیں؟
اگر گھر پر رہنے والی خاتون یہ سمجھتی ہے کہ اس کا یہ فیصلہ اس کے انفرادی صواب دیدی اختیارات کے مطابق ہے، تو پھر اس کے اس انتخاب اور کیرئیر کا انتخاب کرنے والی خاتون کے فیصلے میں کسی بھی قسم کا فرق روا نہیں رکھا جانا چاہیے۔ لیکن علَم برداران حقوقِ نسواں اس میں تفریق کرتے ہیں اور بے جا مداخلت کرکے اپنے ہی اصولِ آزادی انتخاب کی نفی کرتے ہیں۔ انھیں یا کسی ریاستی ادارے کو اس وقت تک اس معاملے میں مداخلت کا کوئی حق نہیں پہنچتا، جب تک کسی خاتون کو گھر پر رہنے اور کیرئیر کا انتخاب نہ کرنے کے معاملے میں دھونس، جبر یا زبردستی کا سامنا نہ کرنا پڑ رہا ہو اور اس کی کوئی باقاعدہ شکایت یا تصدیق موجود نہ ہو۔ اگر کسی شکایت کے بغیر لوگوں کے انتخاب اور آگاہی کے بارے میں مفروضوں کی بنیاد پر مداخلت کی جائے گی، تو اسے متعصبانہ رویے کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے۔
حالات و واقعات دیکھ کر یہ نظر آتا ہے کہ علَم بردارانِ حقوقِ نسواں اس بات کے معتقد ہیں کہ ایک سچی فیمنسٹ (Feminist) کے لیے ضروری ہے کہ وہ خاتون ملازمت کرتی ہو، بچے پیدا کرنے میں دل چسپی نہ رکھتی ہو، خاوند، بچوں اور خاندان کی خدمت کرنے کو اپنی توہین سمجھتی ہو، خاوند سے ہر معاملے میں برابری کرنے کے لیے طلاق تک نوبت آتی ہے تو آئے اور گھر کے اجڑنے کی بھی پروا تک نہ کرتی ہو، وغیرہ وغیرہ۔ ہوسکتا ہے ایسی خواتین بھی ہوں، جو مذکورہ تمام منفی باتوں سے نفرت کرتی ہوں، لیکن پھر بھی خواتین کے حقوق کی حمایت کرتی ہوں۔
اسی طرح اگر کوئی حاملہ خاتون ملازمت چھوڑ کر گھر میں اس وقت تک رہنا چاہتی ہو، جب تک کہ اس کا پیدا ہونے والا بچہ سمجھ دار نہ ہوجائے، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب تک وہ دفتر میں کام کر رہی تھی وہ ’فیمنسٹ‘ تھی اور اب گھر میں بیٹھ جانے پر وہ حقوقِ نسواں سے باغی ہوگئی ہے۔ سیاست، انسانی شخصیت اور کردار کا صرف ایک پہلو ہوتا ہے اور یہ بالکل ضروری نہیں کہ وہ اس کی شخصیت اور کردار کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہو۔ امریکی ماہر سماجیات پروفیسر کا میل آنا پاغیلا اپنی کتاب Free Women, Free Menمیں لکھتی ہیں: ’’فیمنسٹ ماہرین کے نزدیک افزایش نسل اور تولیدی معاملات کی اہمیت اور احترام صفر سے بھی کم تر اہمیت رکھتا ہے، اور فیمی نزم نے کبھی زندگی میں ماں کے کردار کے ساتھ دیانت داری سے کام نہیں لیا‘‘۔
خواتین کے گھر پر رہنے یا کام کرنے کے حوالے سے بہت سی تحقیقات ہو چکی ہیں۔ جن محققین نے اپنی تحقیقات سے اخذ کردہ نتائج کی روشنی میں گھر پر رہنے کے حق میں دلائل دیے،  ان کے مطابق خاتون کے گھر پر رہنے سے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت بہتر انداز سے ہوتی ہے۔ ان کی تعلیمی سرگرمیوں میں دل چسپی اور کارکردگی بہتر ہوتی ہے، بچوں میں تنہائی کا احساس، چڑچڑاپن اور غصے جیسی کیفیات کم ہوتی ہیں اور ایسی خواتین کے گھر اور خاندان میں اطمینان پایا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ محققین جو خواتین کے کام کرنے کے حق میں دلائل دیتے ہیں، ان کے مطابق خواتین کچھ عرصے کے لیے تو بچوں کی پرورش کے دوران گھر پر وقت گزار سکتی ہیں، لیکن یہ دورانیہ جب بہت طویل ہو جاتا ہے تو خواتین میں دوبارہ کام پر جانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تاکہ وہ مالی طور پر مستحکم ہوں، اپنے اکیلے پن اور چڑچڑے پن کو ختم کر سکیں، اور سماجی کردار نبھانے کی خواہش کو پورا کر سکیں۔
سماجی مطالعے کی معروف تحقیقی تنظیم Pew  (ریسرچ سینٹر فار سوشل اینڈ ڈیموگرافک ٹرینڈز) کے مطابق: ۶۰ فی صد امریکیوں کا کہنا ہے کہ اگر والدین میں سے کم از کم ایک فرد، گھر پر بچوں کے ساتھ رہے تو ان کی پرورش اچھی ہوتی ہے، جب کہ ۳۵ فی صد کا کہنا ہے کہ اگر والدین میں سے دونوں کام کرتے ہوں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح ایرک پی بیٹنگر اور راشل بی بیکر نے ۲۰۱۴ء میں اپنی تحقیق میں بتایا ہے: ’’چھوٹے بچوں سے لے کر ہائی اسکول تک کے وہ بچے جن کی تعلیم و تربیت میں والدین خصوصی دل چسپی لیتے ہیں اور اس کے لیے اپنا وقت نکالتے ہیں، ان کی کارکردگی ان بچوں سے زیادہ اچھی ہوتی ہے کہ جن کے والدین ان کی تعلیم و تربیت کے لیے وقت نہیں دے پاتے یا اس میں خصوصی دل چسپی نہیں لیتے‘‘۔
مینی سوٹا یونی ورسٹی کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اور انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ڈیویلپمنٹ نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ ’’جن بچوں کی پرورش ’ڈے کئیر سینٹرز‘ میں ہوتی ہے، ان کے غصے اور چڑچڑے پن کی سطح ان بچوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، جن کی پرورش گھر میں ماں کے ہاتھوں ہوتی ہے‘‘۔
سینٹر فار ٹیلنٹ انوویشن کی ایک تحقیق کے مطابق: امریکا میں تقریباً ۹۰ فی صد ماؤں کی خواہش ہوتی ہے کہ جب ان کے بچے ذرا بڑے ہوجائیں، تو وہ جزوقتی یا کُل وقتی کچھ نہ کچھ ایسا کام کریں، جس سے انھیں آمدن ہو۔ ۲۰۱۲ء کے گیلپ سروے کے مطابق وہ خواتین جو زیادہ عرصے سے گھر پر ہوتی ہیں ان میں تنہائی، پریشانی، دباؤ اور غصے کے احساسات ان خواتین سے زیادہ ہوتے ہیں جو کام کرتی ہیں۔
جہاں تک تحقیقات کی بات ہے تو وہ مختلف قسم کے مشاہدات کی روشنی میں مختلف قسم کے نتائج اخذ کرتی رہتی ہیں۔ آپ اگر کسی ایک تحقیق کی تجاویزکے مطابق اپنا کوئی لائحہ عمل بنائیں گے تو اگلے روز ایک ایسی تحقیق آجائے گی، جو اس کے بالکل الٹ تجاویز دے گی۔ بالآخر آپ کو ایسا لائحۂ عمل بنانا پڑے گا، جو آپ کے گھر اور خاندان کی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کرتا ہو اور جس کو اپنا کر آپ اور آپ کا خاندان زیادہ سے زیادہ خوشی اور سکون حاصل کر سکیں۔ کوئی بھی تحقیق آپ کو یہ معلومات تو دے سکتی ہے کہ اس معاشرے میں بہت سے لوگ کس انداز سے سوچتے اور عمل کرتے ہیں، لیکن خاص طور پر آپ کے گھر اور خاندان کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے حوالے سے کوئی رہنمائی نہیں کر سکتیں۔
اپنے گھر اور خاندان کے حوالے سے آپ کو خود ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور جب آپ اپنے خاندان کے بہترین مفاد میں کوئی فیصلہ کر لیں تو پھر آپ کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ آپ کا یہ فیصلہ کچھ دیگر لوگوں سے مختلف کیوں ہے۔ کیونکہ ہر گھر اور خاندان کی ضروریات، حالات، وسائل ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کسی دوسرے گھر اور خاندان کا فیصلہ ہو سکتا ہے ان کے لیے بہترین ہو، لیکن آپ کے لیے مفید نہ ہو۔ اسی طرح آپ کا کوئی فیصلہ آپ کے خاندان کے بہترین مفاد میں ہو سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر گھر اور خاندان کے لیے قابلِ عمل ہو۔

دعوت واصلاح کے عمل کے مؤثر اور پائیدار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اُس منہج سے زیادہ سے زیادہ قریب اور ہم آہنگ ہو جسے رسولِ اکرم ؐ نے اختیار کیا۔ بقول امام مالکؒ: اس قوم کے آخری حصے کی اصلاح بھی اس وقت تک نہ ہو گی جب تک وہ اسی طریقے کو نہ اختیار کرے جس طریقے پر ابتدا میں اصلاح ہوئی تھی۔ بعثت نبوی کا ابتدائی دور ہو یا بعد کے ادوار، اللہ کے رسولؐ کے دعوتی منہج میں تذکیر بالقرآن کی خصوصیت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ آپ ؐ نے افراد کو دعوت دی یا قبائل کو، وفود کو تبلیغ کی یا شاہانِ وقت کو، آپؐ کی دعوتی گفتگو میں تلاوتِ قرآن کا التزام ہر جگہ دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ اللہ نے آپ کو مکی دور میں ہی اس بات کی ہدایت کی تھی:
وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا كَبِيْرًا۝۵۲ (الفرقان ۲۵:۵۲)اور اس قرآن کو لے کر ان (کافروں)کے ساتھ بڑا جہاد کرو۔
 گویا نظامِ باطل کو اگر چیلنج کرنا ہے تو مکی دور میں بھی جہاد کرنا ہو گا اور یہ جہاد قرآن کے ابلاغ کے ذریعے ہو گا۔ عرب کی اکھڑ اور جھگڑالو قوم کو ڈرانا بھی قرآن سنائے بغیر ممکن نہ تھا۔ فرمایا:
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّـرَ بِہِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا۝۹۷ (مریم ۱۹:۹۷) اس قرآن کو ہم نے آسان کر کے تمھاری زبان میں اسی لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیزگاروں کو خوش خبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو۔
تمام انسانیت کو خبردار کرنے کے لیے بھی یہی مؤثر ذریعہ ہے:
ہٰذَا  بَلٰغٌ  لِّلنَّاسِ  وَلِيُنْذَرُوْا  بِہٖ (ابراہیم ۱۴:۵۲) یہ ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لیے ، تاکہ ان کو اس کے ذریعے سے خبردار کر دیا جائے۔
قرآن کی تاثیر ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔ تلاوت کی تاثیر سے عرب کی اکھڑ اور جھگڑالو قوم نے اسلام قبول کیا اور جنھوں نے قبول نہیں کیا انھوں نے بھی اس کی تاثیر کا کھلے لفظوں اعتراف کیا۔ دوران دعوت قرآن سنانا نہ صرف سنتِ نبویؐ ہے بلکہ صحابہؓ کا عمل بھی ہے۔

تاثیر قرآن

قرآن کافروں کو انفرادی طور پر بھی اور ان کے مجمعوں کے اندر بھی سنایا گیا اور ان میں سے ہر ایک نے اس کی عظمت اور تاثیر کا اعتراف کیا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ قریش کا سردار ولید بن مغیرہ نبی ؐ کے پاس آیا۔ آپ نے اسے قرآن پڑھ کر سنایا ۔قرآن سن کر وہ نرم پڑ گیا۔ ابوجہل کو خبر پہنچی تو ولید کے پاس پہنچ کر اس نے کہا:’’اے چچا جان !آپ کی قوم آپ کے لیے مال جمع کرنا چاہتی ہے‘‘۔ولید نے پوچھا ’’کس لیے؟‘‘ ابو جہل نے کہا:’’آپ کو دینے کے لیے ، کیونکہ آپ محمد ؐ کے پاس اس لیے گئے تھے تا کہ آپ کو ان سے کچھ مل جائے‘‘۔ ولید نے کہا:’’قریش کو خوب معلوم ہے کہ میں ان میں سے سب سے زیادہ مال دار ہوں (مجھے محمدؐ سے مال لینے کی ضرورت نہیں )۔ ابو جہل نے کہا:’’تو پھر آپ محمد ؐ کے بارے میں ایسی بات کہیں جس سے قوم کو یقین ہو جائے کہ آپ محمد ؐ کے منکر ہیں‘‘۔ ولید نے کہا: ’’میں کیا کہوں ؟اللہ کی قسم ! تم میں سے کوئی آدمی مجھ سے زیادہ اشعار اور قصیدوں کا جاننے والا نہیں ہے۔ اللہ کی قسم !محمد ؐ جو کچھ کہتے ہیں، وہ ان میں سے کسی چیز کے مشابہ نہیں ہے۔ اللہ کی قسم !وہ جو کچھ کہتے ہیں اس میں بڑی حلاوت اور کشش ہے اور ان کا کہا ہوا ایسا تناور درخت ہے جس کے اوپر کا حصہ خوب پھل دیتا ہے اور نیچے کا حصہ خوب سر سبز ہے۔ یہ کلام ہمیشہ اونچا رہنے والا ہے۔ کوئی کلام اس سے برتر نہیں ۔ ایسا کلام جو اپنے سے نیچے والے کلاموں کو تو ڑ کر رکھ دیتا ہے‘‘۔
ابوجہل نے کہا کہ آپ کی قوم اس وقت تک آپ سے راضی نہ ہو گی جب تک آپ محمد ؐ کے خلاف کچھ کہیں گے نہیں۔ولید نے کہا :’’اچھا اس بارے میں مجھے کچھ سوچنے دو‘‘۔کچھ دیر سوچ کر ولید نے کہا: ’’محمد کا کلام جادو ہے جسے وہ دوسروں سے سیکھ کر بیان کرتا ہے‘‘(بیہقی، البدایہ ، ج۳، ص۶۰؛ تفسیر ابن کثیر، ج ۴،ص۴۴۳)۔
حضرت جابر ؓ بن عبداللہ اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایات کے مطابق ایک دن قریش نے مشورہ کیا کہ محمد ؐ کو سمجھانے کے لیے ایسے آدمی کا انتخاب کیا جائے جو جادو کا جاننے والا ، کاہن اور سب سے بڑا شاعر ہو۔ عتبہ بن ربیعہ کے نام پر ان کا اتفاق ہوا کہ اس سے بہتر کوئی آدمی نہیں ۔ عتبہ بن ربیعہ قریش کے نمایندے کی حیثیت سے حضوؐر کے پاس آیا اور کہنے لگا:
’’اے بھتیجے :میں سمجھتا ہوں کہ آپ ہم سب سے بہترین خاندان والے اور سب سے اونچے مرتبے والے ہیں لیکن آپ نے ہمیں ایک ایسی مصیبت میں ڈال دیا ہے کہ کسی نے اپنی قوم کو ایسی مصیبت میں مبتلا نہ کیا ہو گا ۔ اس کی وجہ سے قوم کا اتحاد پارہ پارہ ہو گیا ہے۔ اگر اس سے آپ کا مقصد مال جمع کرنا ہے تو آپ ؐ کی قوم آپ کے لیے اتنا مال جمع کر دے گی کہ آپ ہم سب سے زیادہ مال دار ہو جائیں ۔ اگر آپ باد شاہ بننا چاہتے ہیں تو ہم سب آپ کو اپنا باد شاہ بنا لیتے ہیں۔ اگر آپ کو کسی عورت کی خواہش ہو تو قریش کی جس عورت سے چاہیں ہم آپ سے شادی کرا دیتے ہیں۔ اگریہ سب جنّاتی اثرات سے ہے تو قوم آپ کا علاج اپنے خرچے پر کروانے کے لیے تیار ہے۔ بشرطیکہ آپ اس دعوت سے باز آ جائیں‘‘۔
عتبہ کی بات سن کر رسولِ اکرمؐ نے پوچھا: ’’اے ابو الولید تم نے اپنی بات مکمل کر لی؟‘‘ عتبہ نے جواب دیا ’’جی ہاں‘‘۔ اب حضور ؐ نے سورۂ حم السجدہ پڑھنا شروع کی۔ حتیٰ کہ آپ اس آیت پر پہنچے :فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ۝۱۳ۭ  (۴۱:۱۳) ’’پھر اگر یہ منہ پھیرتے ہیں تو آپ کہہ دیں کہ میں تمھیں ایسی چنگھاڑ کے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسی چنگھاڑ (کا عذاب) عادوثمود پر آیا‘‘۔
یہ سن کر عتبہ اتنا گھبرایا کہ بے ساختہ اس نے آپؐ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا:بس کریں۔ پھر عتبہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا لیکن ان آیات سے وہ اتنا مرعوب ہوچکا تھا کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ قریش کو کیا جواب دے۔ سرداران قریش نے اس کے اترے چہرے کو دیکھ کر دور سے ہی کہا:’’عتبہ جس شان کے ساتھ گیا تھا، ا س کا چہرہ بتا رہا ہے کہ وہ اس شان کے ساتھ واپس نہیں آ رہا ہے‘‘۔ قریش کی مجلس میں پہنچ کر اس نے کہا :’’میں نے اس سے تمام طریقوں سے بات کی اور پھر محمد ؐ نے میری بات کا ایسا جواب دیا جو جادو ہے، نہ شعر اور نہ کہانت۔ اس نے جو کلام سنایا اللہ کی قسم !میرے کانوں نے ایسا کلام نہیں سنا ۔ اے قریش آج تم میری بات مان لو ، آیندہ چاہے نہ ماننا۔ اس آدمی کو اس کے حال پر چھوڑ دو، کیونکہ وہ تو اس کام کو چھوڑنے والا نہیں ہے۔ اگر وہ ان عربوں پر غالب آیا تو اُس کی برتری تمھاری برتری ، اُس کی عزت تمھاری عزت ہوگی۔ اور اگر عربوں نے اسے دبا لیا تو تمھارے آپس میں لڑے بغیر تمھارا مقصد پورا ہو جائے گا‘‘۔
یہ سن کر قریش نے کہا:’’اے ابو الولید !لگتا ہے تم بھی بے دین ہو گئے ہو‘‘ (دلائل النبوہ ، بیہقی ،ص۷۵؛ مجمع الزوائد ،ج ۶،ص۲۰، البدایہ، ج ۳،ص۶۲)۔
ان دو واقعات سے معلوم ہوا کہ ادبی وشعری ذوق رکھنے والے لوگ قرآن کی عظمت اور تاثیر کلام سے مرعوب تھے اور یہ بھی کہ کافروں کی بڑی سے بڑی بات کا مؤثر جواب وہی ہے جو آیاتِ قرآنی کے ذریعے دیا جائے۔ اسی طرح سیرت ابن ہشام میں بیان شدہ وہ واقعہ کہ ابوسفیان ، ابوجہل ، اخنس بن شریق اور ابن وہب ثقفی تین رات تک مسلسل حضور ؐ کی تلاوتِ قرآن چھپ کر سنتے رہے اور جب ایک دوسرے کے سامنے آتے تو نہ سننے کا وعدہ کرتے لیکن اگلے دن پھر ایک ایک کر کے سننے پہنچ جاتے اور قرآن کی عظمت کا اعتراف کرتے ۔حضرت عمر ؓ نے چھپ کر حضور ؐ سے قرآن سنا اور اس سے مرعوب ہوئے (ابن ہشام)۔
معلوم ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بلند آواز سے تلاوت کر کے دوسروں کو سنانے کے مواقع پیدا کرتے تھے ۔ اور یہ بھی کہ کافر قرآن کی تاثیر سے خوف زدہ تھے۔ قرآن نے ان کے اس خوف کو یوں بیان کیا ہے:
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْہِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ۝۲۶ (حٰمٓ السجدہ ۴۱:۲۶)یہ کافر کہتے ہیں کہ اس قرآن کو ہرگز نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو تا کہ تم غالب آ جاؤ۔


عظمتِ قرآن کا اعتراف

اعلانیہ تبلیغ کے آغاز میں جب قریش نے زائرین حرم کے سامنے اپنا مشترکہ موقف طے کرنے کے لیے اجتماع کیا اور اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آپ کے کاہن، شاعر، دیوانے اور جادوگر ہونے کی تجاویز پیش ہوئیں تو ان کے سردار ولید بن مغیرہ نے ایک ایک تجویز کے بودے پن کو واضح کیا اور قرآن کی عظمت کا یوں اعتراف کیا:’’خدا کی قسم اس کلام میں بڑی حلاوت وشیرینی ہے۔ اس کی جڑ پائیدار اور شاخیں پھل دار ہیں۔ یہ پیغام غالب ہونے والا ہے، اسے کوئی مغلوب نہیں کر سکتا اور یہ سب کو کچل کر رکھ دے گا‘‘ ( سیرۃ ابن ہشام، ص۲۳۳)۔
lحضرت امیر معاویہ ؓ راوی ہیں کہ ان کے والد ابو سفیان اپنی بیوی ہندہ کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھائے اپنے کھیت کی طرف چلے۔ میں بھی اپنی گدھی پر سوار ان دونوں کے آگے چل رہا تھا۔ میری نو عمری کا زمانہ تھا۔ اس دوران حضوؐر ہمارے پاس پہنچے ۔ میرے باپ نے مجھے کہا: ’’اے معاویہ ! تم سواری سے نیچے اتر جاؤ تا کہ محمد ؐ اس پر سوار ہو جائیں‘‘۔ چنانچہ میں اس سے اتر گیا اور حضوؐر اس پر سوار ہو گئے ۔ آپ کچھ دیر ہمارے ساتھ چلے اور پھر ہماری طرف توجہ کرتے ہوئے فرمایا:’’اے ابو سفیان بن حرب، اے ہند بنت عتبہ !اللہ کی قسم تم ضرور مرو گے اور پھر تمھیں زندہ کیا جائے گا ۔ پھر نیکوکار جنت میں اور بد کار دوزخ میں جائیں گے اور میں تمھیں بالکل صحیح اور حق بات بتا رہا ہوں اور تم دونوں سب سے پہلے عذاب الٰہی سے ڈرائے گئے ہو‘‘۔ پھر حضوؐر نے سورئہ حٰمٓ السجدہ کی آیات  حٰـمۗ۝۱ۚ  تَنْزِيْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝۲ۚ  سے لے کر  قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ ۝ تک تلاوت فرمائیں۔ جب آپ اپنی بات سے فارغ ہوگئے تو گدھی سے اُتر گئے اور میں اس پر سوار ہو گیا۔ میری ماں ہند نے میرے باپ سے کہا: ’’کیا اس جادو گر کے لیے تم نے میرے بیٹے کو اس کی سواری سے اتارا؟ ابو سفیان نے کہا: ’’نہیں ! اللہ کی قسم وہ جادو گر اور جھوٹے نہیں ہیں‘‘ (طبرانی ، ابن عساکر، الہیثمی ج۴، ص۲۰، کنزالعمال ، ج ۷،ص۹۴)۔
اس حدیث کے مطابق حضوؐر نے پہلے فکرِ آخرت کے ذریعے دل کو نرم کرنے کی تدبیر کی اور پھر سورئہ حم السجدہ کی پہلی گیارہ آیات سنائیں جن میں قرآن کا تعارف اور قرآن سے لوگوںکی بے پروائی کا ذکر ہے ۔ پھر آپؐ کی رسالت اور توحید الٰہی اور اس کو نہ ماننے والوں کی تباہی کا ذکر ہے ۔ زمین و آسمان کی تخلیق اور وقوع آخرت پر دلیل دی گئی ہے۔
حضرت عمروؓبن عثمان اپنے والد حضرت عثمانؓ بن عفان سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ میں اپنی خالہ ارویٰ بنت عبدالمطلب (نبی ؐ کی پھوپھی) کے پاس ان کی بیمار پُرسی کے لیے گیا تو وہاں حضور ؐ بھی تشریف لے آئے۔ میں آپ ؐ کی طرف غور سے دیکھنے لگا تو آپ ؐنے مجھ سے پوچھا:’’اے عثمان!تم اس طرح مجھے کیوں گھور رہے ہو؟‘‘۔ میں نے کہا:’’میں اس بات پر حیران ہوںکہ آپ کا ہمارے ہاں بڑا مرتبہ ہے لیکن لوگ آپؐ کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کررہے ہیں ‘‘۔ یہ سن کر آپ ؐ نے فرمایا :لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ ۔ اللہ گواہ ہے کہ میں یہ سن کر کانپ گیا۔ پھر آپ ؐ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں: وَفِي السَّمَاۗءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ۝۲۲ فَوَرَبِّ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ اَنَّكُمْ تَنْطِقُوْنَ۝۲۳(الذاریات ۵۱:۲۲-۲۳) ’’اور آسمان ہی میں ہے تمھارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے ۔ پس قسم ہے آسمان اور زمین کے رب کی! یہ بات حق ہے۔ ایسی ہی یقینی جیسے تم بول رہے ہو‘‘۔ پھر حضوؐر کھڑے ہوئے اور باہر تشریف لے گئے ۔ میں بھی آپؐ کے پیچھے چل دیا اور پھر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوا(الاستیعاب ،ج۲،ص۲۲۵ ، بحوالہ حیاۃ الصحابہ ، ج ۱،ص ۸۳)۔
ابن اسحاق کے مطابق حضرت ابو بکرؓ نے مسلمان ہونے کے بعد حضرت زبیرؓ بن عوام ، حضرت عثمانؓ بن عفان ،حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ ، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص ، اور حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف کو تبلیغ کی اور انھیں لے کر خدمت رسولؐ میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا ۔ انھیں قرآن پڑھ کر سنایا اور انھیں اسلام کے حقوق بتائے ۔ وہ سب ایمان لے آئے (مسند احمد، ابوداؤد، طبقات ابن سعد ، ج ۵،ص۵۱۰، البدایہ ، ج ۵،ص۳۲)۔

ابن اسحاق ہی کی روایت ہے کہ قبیلہ دوس کے سردار طفیل بن عمرو مکہ گئے تو قریش کے چند آدمی ان سے ملے اور انھیں کہا کہ ہماری قوم کے محمدؐ نا می شخص سے کوئی بات نہ کرنا۔ وہ ایسا جادو اثر کلام رکھتا ہے کہ جس کے ذریعے اس نے باپ بیٹے، بھائی بھائی اور میاں بیوی کے درمیان جدائیاں ڈال دی ہیں۔ انھوں نے اتنا اصرار کیا کہ طفیل دوسی کے بقول :میں نے حضوؐر کے کلام سے بچنے کے لیے کانوں میں روئی ٹھونس لی اور آپ ؐ سے دور رہنے کی کوشش کی۔ ایک صبح جب حضوؐر خانہ کعبہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے تو میں بھی آپؐ کے قریب کھڑا ہو گیا ۔ تمام تر احتیاط کے باوجود اللہ نے مجھے آپ ؐ کی تلاوت کے الفاظ سنا ہی دیئے ۔ مجھے وہ کلام بہت ہی بھلا محسوس ہوا۔ میں نے اپنے دل میں کہا: ’’میری ماں مجھے روئے !میں ایک قبیلے کا سردار ہوں، خود شاعر ہوں، اچھے بُرے کلام میں تمیز کر سکتا ہوں ،کیا حرج ہے کہ میں محمد ؐ کی بات سنوں ۔ دل لگتی بات ہو گی تو قبول کر لوں گا۔ کوئی زبر دستی تو میرے ساتھ کر نہیں سکتا۔ چنانچہ میں خدمت رسولؐ میں حاضر ہو گیا۔ اپنی رُوداد سنانے کے بعد عرض کی:’’آپؐ اپنی دعوت میرے سامنے پیش کیجیے!‘‘ حضوؐر نے میرے سامنے اسلام کو پیش کیا اور قرآن سنایا ۔ اللہ کی قسم میں نے اس سے پہلے اس سے زیادہ عمدہ کلام اور انصاف والی بات نہیں سنی تھی، چنانچہ میں کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گیا (دلائل النبوہ للبیہقی، ص۷۸، طبقات ابن سعد ، ج۴،ص ۲۳۷ ، الاصابہ ، ج۲،ص۲۲۵)۔
ابن اسحاق کے مطابق حبشہ کے بیس عیسائیوں کا وفد حضوؐر کے پاس صحن حرم میں حاضر ہوا۔ رسولؐ اللہ سے جو سوالات وہ کرنا چاہتے تھے، جب کر چکے تو آپؐ نے انھیں اللہ کی طرف دعوت دی اور انھیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ جب انھوں نے تلاوت قرآن سنی تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ انھوں نے آپ ؐ کی نبوت کی تصدیق کی، ایمان لے آئے۔ جب وہ جانے لگے تو راہ میں ابو جہل نے انھیں دین اسلام سے متنفر کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے کہا کہ ہم جاہلوں سے نہیں الجھتے تو اللہ نے سورۂ قصص کی آیت ۵۲ اور ۵۵ نازل فرما کر ان کی تعریف فرمائی: وَاِذَا يُتْلٰى عَلَيْہِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖٓ اِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِـمِيْنَ۝۵۳  ’’اور جب انھیں قرآن سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے۔ یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ،ہم تو پہلے ہی سے مسلم ہیں‘‘ (سیرۃ ابن ہشام،ص۳۳۸-۳۳۹)۔


اخلاقی برتری پر مبنی تعلیمات

حضرت علی کی ایک طویل روایت تلخیصاً ذکر ہے کہ بعثتِ نبوی کے دسویں سال حج کے موقع پر حضوؐر حضرت ابو بکرؓ اور حضرت علیؓ کے ہمراہ منیٰ میں تشریف لے گئے۔ آپؐ قبیلہ بنوشیبان کے خیمے میں پہنچے ۔ باہمی تعارف کے بعد حضور ؐ نے انھیں توحید و رسالت کے قبول کرنے اور اپنی حمایت کرنے کی دعوت دی تو قبیلہ کے ایک سردار مفروق بن عمرو نے کہا:’’اے قریشی بھائی آپ مزید کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟‘‘ آپ نے اس کے سوال کے جواب میں سورۃ الانعام کی آیات ۱۵۱ تا ۱۵۳  قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ  سے لے کر ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ۝ تلاوت فرمائیں ۔ جن کا ترجمہ ہے:’’ کہو ! کہ آؤ میں تمھیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمھارے ربّ نے تم پر پابندیاں عائد کی ہیں۔کسی چیز کو اللہ کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ سے حُسنِ سلوک کرتے رہنا، ناداری کے باعث اپنی اولاد قتل نہ کرنا کیونکہ تمھیں بھی اور انھیں بھی رزق ہم ہی دیتے ہیں اور بے حیائی خواہ ظاہری ہو یا پوشیدہ، اس کے پاس نہیں پھٹکنا اور کسی جان کو جس کے قتل کو اللہ نے حرام کر دیا ہے، قتل نہ کرنا سوائے حق کے۔ ان باتوں کی وہ تمھیں تاکید کرتا ہے تا کہ تم سمجھو۔ اور مالِ یتیم کے پاس بھی ہرگز نہ جانا سوائے اس طریقہ کے جو پسندیدہ ہو حتیٰ کہ یتیم جوانی کو پہنچ جائے اور  ناپ تول میں پورا انصاف کرو۔ ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق۔ اور جب بات کہو انصاف کی کہو، خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو۔ اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ان باتوں کا اللہ تمھیں حکم دیتا ہے تا کہ تم نصیحت پاؤ۔نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اسی راستے پر چلو۔ اور راستوں پر نہ چلنا مبادا کہ اللہ کے راستے سے بھٹک جاؤ۔ اللہ تمھیں ان باتوں کا حکم دیتا ہے تا کہ تم پرہیز گار بنو‘‘(الانعام۶: ۱۵۱-۱۵۳)۔
 مفروق جسے اپنی فصاحت وبلاغت پر بڑا ناز تھا اللہ کا کلام سن کر کہنے لگا:’’اے قریشی بھائی ! آپ مزید کس بات کی دعوت دیتے ہیں؟ اللہ کی قسم یہ کلام جو تم نے سنایا ہے، زمین والوں کا کلام نہیں ہے اور اگر یہ زمین والوں کا کلام ہوتا تو ہم اسے ضرور پہچان لیتے ‘‘۔ اب حضور ؐ نے  سورۃ النحل کی آیت ۹۰  کی تلاوت کی: اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ۝۰ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۹۰ ’’بے شک اللہ تمھیں انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کی مدد کرنے کا حکم دیتا ہے۔ بے حیائی اور بُرے کاموں اور سرکشی سے منع کرتا ہے ۔وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم یاد رکھو‘‘۔ یہ سن کر مفروق نے کہا:     اے قریشی بھائی !اللہ کی قسم !آپ نے بڑے عمدہ اخلاق اور اچھے اعمال کی دعوت دی۔
اس کے بعد قبیلہ کے دوسرے سرداروں ہانی بن قبیصہ اور مثنیٰ بن حارثہ نے بھی آپؐ کی دعوت اورر قرآن کی عظمت کا اعتراف کیا۔ البتہ انھوں نے اپنی علاقائی اور قبائلی مجبوریوں کے  پیش نظر غوروفکر کی مہلت مانگی اور حضور ؐ نے بھی ان کی سچائی پر مبنی بات کو سراہا (چند سال بعد یہ قبیلہ مسلمان ہوا اور ان کے سردار مثنیٰ بن حارثہ نے ایک کمانڈر کی حیثیت سے عراق اور ایران کی فتوحات میں بنیادی کردار اداکیا)۔ بنو شیبان کے بعد حضور ؐ اوس وخزاج کی مجلس میں پہنچے ۔ ان کے سامنے اپنی دعوت پیش کی اور وہاں بھی قرآن کی تلاوت کی۔ مجلس سے اٹھنے سے پہلے ہی نعمان بن شریک اور دیگر کئی افراد مشرف بہ اسلام ہوئے(بیہقی ، حاکم،ابو نعیم، فتح الباری، ج ۷، ص۱۵۶، سیرۃ ابن کثیر ، ج ۲،ص۱۲۹)۔
ابن اسحاق کے مطابق سوید بن صامت حج کی لیے یثرب سے مکہ آئے۔ ان کے حسب نسب ، جسمانی قوت اور شعرو شاعری میں پختگی کے باعث ان کی قوم انھیں ’الکامل‘ کہتی تھی۔ رسول اللہ نے انھیں اسلام کی دعوت دی تو یہ کہنے لگے:’’غالباً آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی سے ملتا جلتا ہے جو میرے پاس ہے‘‘۔ آپ نے پوچھا:’’تمھارے پاس کیا ہے؟ سوید نے کہا: ’’حکمتِ لقمان‘‘۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ سناؤ۔ انھوں نے سنایا تو آپ ؐنے اس کی تعریف کی اور ساتھ فرمایا:’’میرے پاس اس سے بھی زیادہ عمدہ کلام ہے جو اللہ نے مجھ پر نازل کیا ہے ، وہ ہدایت ہے اور نور‘‘۔ اس کے بعد آپ ؐ نے قرآن کا کچھ حصہ تلاوت کیا اور انھیں اسلام کی دعوت دی۔ یہ سن کر سوید بولے:’’یہ تو بہت ہی اچھا کلام ہے‘‘ اور مسلمان ہو گئے (ابن ہشام،ص:۳۷۲-۳۷۴)۔

بندگیِ رب کی دعوت

خبیب بن عبدالرحمٰن کی روایت ہے کہ حضرت اسعدؓ بن زرارہ ، اور حضرت ذکوان ؓ بن عبدقیس، سردارِ قریش عتبہ بن ربیعہ سے اپنا ایک فیصلہ کروانے کے لیے یثرب سے مکہ پہنچے ۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے نبی ؐ کے بارے میں کچھ سنا تو وہ دونوں حضور ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے انھیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ وہ دونوں مسلمان ہو گئے اور عتبہ بن ربیعہ کے پاس بھی نہیں گئے، واپس مدینے آ گئے ۔مدینہ میں یہ اوّلین مسلمان تھے (طبقات ابن سعد، ج۳، ص۳۴۷)۔
l ابن اسحاق کے مطابق محمود بن لبید بیان کرتے ہیں کہ ان کے قبیلہ اوس کے خاندان بنواشہل کے کچھ نوجوان انس بن رافع کی سربراہی میں یثرب سے مکے پہنچے تا کہ قبیلہ خزرج کے مقابلے کے لیے قریش کے ساتھ حلیفانہ معاہدہ کریں ۔ اللہ کے رسولؐ کو جب ان کی آمد کی خبر ہوئی تو آپ ؐ ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا:’’تم جس کام کے لیے آئے ہو، میں تمھیں اس سے بھی بہتر بات نہ بتاؤں؟‘‘۔ انھوں نے کہا:’’وہ کون سی بات ہے ؟‘‘آپ ؐ نے فرمایا مجھے اللہ نے بندوں کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ میں انھیںایک اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور یہ کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اللہ نے مجھ پر کتاب نازل کی ہے۔ پھر آپ ؐ نے اسلام کی خوبیوں کا ذکر فرمایا اور انھیں قرآن پڑھ کر سنایا ۔ حضرت ایا سؓ بن معاذ ، جو کہ ابھی نوعمر لڑکے تھے، نے کہا:’’اے میری قوم !اللہ کی قسم !تم جس کام کے لیے آئے ہو، واقعی یہ بات اس سے بہتر ہے ، اگرچہ باقی لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا لیکن حضرت ایاسؓ نے خاموشی سے اسلام قبول کر لیا(مسند احمد، طبرانی ، کنزالعمال،ج۷،ص۱۱، سیرت ابن ہشام ، ص۳۷۴) ۔

دلوں کا نرم پڑ جانا

طبرانی نے حضرت عروہ سے مرسل روایت بیان کی ہے کہ زمانہ حج میں یثرب کے بنومازن کے حضرت معاذؓ بن عفرا اور حضرت اسعدؓ بن زرارہ ، بنوزریق کے حضرت رافعؓ بن مالک اور حضرت ذکوانؓ بن عبدالقیس ، بنو اشہل کے حضرت ابوالہیثمؓ بن تیہان اور بنو عمروبن عوف کے حضرت عویم بن ساعدہؓ مکہ گئے۔ حضوؐر نے ان کے سامنے اپنی نبوت پیش کی، انھیں قرآن پڑھ کر سنایا ۔ جب انھوں نے آپ کی بات سنی تو خاموش ہو گئے۔ جب ان کے دل آپؐ کی دعوت پر مطمئن ہو گئے تو انھوں نے آپ کی تصدیق کی اور اسلام قبول کیا (حیاۃ الصحابہ، ج۱،ص ۴۸۶) ۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ قرآن سننے کا یہ اثر ہو اکہ سننے والے: ۱- خاموش ہو گئے۔ ۲-ان کے دل دعوت پر مطمئن ہو گئے اس لیے کہ دلوں کا اطمینان ذکر الٰہی میں ہے اور قرآن سب سے بڑا ذکر ہے۔ ۳- نہ صرف تصدیق کی بلکہ آپؐ کی رسالت پر ایمان لائے۔
حضرت اُمّ سعد بنت سعد ربیعؓ کی روایت ہے کہ حضور ؐ یثرب کے کچھ لوگوں کے پاس پہنچے جو منیٰ میں عقبہ کی گھاٹی کے پاس بیٹھے ہوئے اپنے سرمنڈوا رہے تھے۔ وہ چھے سات افراد تھے   جن میں تین بنی نجار کے اور تین اسعد بن زرارہ اور عفرا کے دو بیٹے تھے۔ حضور ؐ نے ان کے پاس بیٹھ کر انھیں اللہ کی دعوت دی۔ انھیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ چنانچہ ان لوگوں نے اسلام قبول کرلیا(ابونعیم،دلائل النبوہ،ص۱۰۵)۔
حضرت عقیلؓ بن ابی طالب سے مروی ایک طویل روایت کا ایک حصہ ملاحظہ ہو۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ منیٰ کے دنوں میں جمرۂ عقبہ کے پاس رات کے وقت اوس وخزرج کے چھے آدمیوں سے حضوؐر کی ملاقات ہوئی۔ آپ نے انھیں اللہ کی عبادت اور دین اسلام کی نصرت کی دعوت دی۔ انھوں نے آپؐ سے وحی الٰہی سننے کی خواہش کی تو آپؐ نے سورۂ ابراہیم کی آیت ۳۵ تا۵۲    وَاِذْ  قَالَ اِبْرٰہِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ  سے لے کر آخر تک پڑھ کر انھیں سنائی ۔ جب انھوں نے قرآن سنا تو ان کے دل نرم پڑ گئے اور اللہ کے حضور عاجزی کرنے لگے اور انھوں نے آپؐ کی دعوت قبول کر لی۔
ان اٹھارہ آیات میں حضرت ابراہیم ؑ کی بیت اللہ کے لیے امن، رزق اور اولاد کی توحیدپرستی کی دعا مذکور ہے ۔ مومنوں کو تسلی دی گئی کہ آج کے ظالم کل روز قیامت خوف زدہ ہوں گے۔ روزِ قیامت کی ہولناکی اور میدان حشر کی پریشانی کا منظر پیش کیا گیا ہے ۔ یہ سننے کا نتیجہ یہ ہوا کہ: ۱-سننے والوں کے دل نرم پڑگئے ۲- اللہ کے حضور عاجزی کرنے لگے،۳- اسلام قبول کر لیا (ایضاً، بحوالہ حیاۃ الصحابہ  ، ج۱،ص۱۳۲)

دعوت دین کی اساس

حضوؐر جب مدینہ تشریف لے آئے تو وہاں بھی تلاوت قرآن آپؐ کی دعوتی گفتگو کا اہم حصہ تھی۔ صحیح بخاری اور سیرۃ ابن ہشام میں اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ ایک دن حضوؐر گدھے پر سوار بنو خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ کی بیمار پُرسی کے لیے چلے اور مجھے بھی ساتھ لے لیا۔ راستے میں عبداللہ بن ابی کے مکان کے سائے میں اس کی مجلس میں کچھ مسلمان، کچھ یہودی اور بت پرست ملے جلے بیٹھے تھے۔ آپ مروتاً وہاں رُک گئے، سواری سے اُترے، اہلِ مجلس کو سلام کیا اور کچھ دیر کے لیے بیٹھ گئے ۔ مجلس میں قرآن پڑھ کر سنایا اور لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دی۔ اللہ کی رحمت کی خوش خبری اور عذاب الٰہی کی وعید سنائی۔ عبداللہ بن ابی نے اگرچہ آپؐ کی دعوت پر ناگواری کا اظہار کیا لیکن مجلس میں بیٹھے عبداللہ ؓبن رواحہ اور دیگر صحابہ نے آپؐ کی گفتگو پر پسندیدگی کا اظہار کیا۔ بعد ازاں آپؐ سعد بن عبادہؓ کی عیادت کے لیے ان کے گھر چلے گئے۔ (سیرۃ ابن ہشام ، ص۵۲۷)
سیرتِ نبویؐ کے ان واقعات وحقائق کے پیش نظر آج کے مبلّغین اور داعیانِ اسلام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں ضعیف روایات وحکایات ، بزرگانِ دین سے منسوب کشف وکرامات کے غیر مستند واقعات اور اخباری کالم نگاروں کی سطحی معلومات کو دعوتی گفتگو کی بنیاد بنانے کی بجائے قرآن کی پُرتاثیر آیات اور ٹھوس تعلیمات کو اپنی دعوت کا محور ومرکز بنائیں۔ کیونکہ: الْقُرْاٰنَ يَہْدِيْ  لِلَّتِيْ ھِيَ   اَقْوَمُ (بنی اسرائیل ۱۷:۹) ’’قرآن وہ راہِ ہدایت دکھاتا ہے جو سیدھی اور واضح ہے‘‘۔  جس شخص میں تھوڑا سا بھی خوفِ خدا ہے، اس کی نصیحت کے لیے قرآن سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں۔ اسی لیے اللہ نے اپنے نبیؐ کو حکم دیا:  فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ يَّخَافُ وَعِيْدِ۝۴۵(قٓ۵۰:۴۵) ’’بس تم اس قرآن کے ذریعے ہراس شخص کو نصیحت کردو جو میری تنبیہ سے ڈرے‘‘۔
لہٰذا قرآن کے ابلاغ کا حق ادا کیے بغیر غلبۂ اسلام کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی یا ان کے نظامِ سیاست پر گفتگو کی جاتی ہے تولوگوں کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم توایک روحانی پیشوا اور رسولِؐ خداتھے۔ عبادت اور تعلق باللہ کے داعی تھے۔ ان سے پہلے جو رسول دنیا میں تشریف لائے، وہ بھی روحانی پیشوا تھے۔ سیاست سے ان کاکیا تعلق ہے اور ان کی سیاسی زندگی کا مطلب کیاہے؟یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ آج کے زمانے میں سیاست کی جو شکل وصورت ہمارے سامنے موجود ہے، وہ ظلم وزیادتی، جھوٹ، فریب، دھوکا اور وعدہ شکنی پر قائم ہے۔ اس میں بدعنوانی اور انسانوں کا استحصال بھی شامل ہے۔ اس سیاست میں جولوگ شامل ہیں خواہ انتخابی سیاست ہو یا آمرانہ سیاست، ان کے بارے میں لوگوں کی رائے اچھی نہیں ہے۔ لہٰذا، ایسی سیاست سے نبی اور رسول کا تعلق کیسے ہوسکتاہے!
’سیاست‘ عربی زبان کی ایک اصطلاح ہے، جس کے معنی اصلاحِ ذات، اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ حکومت کے ہیں: اَلْقِیَامُ عَلَی الشَّیْ ءِ بِـمَا یَصْلُحُہٗ (الزبیدی، تاج العروس، ج۱۶،ص ۱۵۷)
سیاست کا مطلب ایسی تدبیر کرنا ہے جس سے کسی چیز کو استحکام مل جائے، اس کی اصلاح ہوجائے اور وہ اپنی اصلی حالت پر قائم ہوجائے ۔ معروف معنی میں سیاست کا مفہوم ملک اور عوام کی اصلاح ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمْ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ھَلَکَ  نَبِیٌّ خَلَفَہٗ  نَبِیٌّ وَ اِنَّہٗ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ (صحیح البخاری، کتاب الانبیاء: ۳۲۸۶) نبی اسرائیل کی سیاست، یعنی قیادت انبیاء کرام فرماتے تھے۔ جب کوئی نبی انتقال کرجاتے تو ان کی جگہ دوسرے نبی آتے، اورمیرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا البتہ خلفاء ہوں گے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دنیا میںدو طرح کے مذاہب اور نظریے تھے۔ ایک تو یہ تھا کہ اگر آپ روحانیت چاہتے ہیں تو ’رہبانیت‘ اختیارکریں، یعنی دنیاسے کنارہ کشی کریں۔ اور اگر آپ سیاست کو دیکھناچاہتے ہیں تو ملوکیت کی طرف دیکھیں۔ چنانچہ حضرت عیسیٰؑ کی طرف یہ جملہ منسوب ہے کہ جو ’’خدا کاہے وہ خدا کو دو اور جو قیصر کا ہے وہ قیصر کودو‘‘۔ یعنی خدا کے حقوق الگ تھے اور قیصر کے حقوق الگ تھے۔ یہ تقسیم خدا اور قیصر کے حقوق کے درمیان تھی، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے، تو آپ ؐ نے اس تفریق کو مٹایا اور دنیا کو یہ نظریۂ حکومت دیا کہ انسان زمین کا’مالک‘ نہیں بلکہ ’امین‘ ہے۔کوئی چیز انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہے بلکہ ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے۔ انسان اس کا امانت دار ہے۔ اقتداراعلیٰ اور حاکمیت مطلقہ صرف اللہ کے لیے ہے، باقی سارے انسان اس کے بندے اورغلام ہیں۔ آپ ؐ نے اللہ کا یہ پیغام انسانوں تک پہنچایا:
وَہُوَ الَّذِيْ  فِي السَّمَاۗءِ اِلٰہٌ  وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰہٌ ۝۰ۭ وَہُوَالْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ۝۸۴ (الزخرف ۴۳ : ۸۴) وہی خدا جوآسمان میں معبود ہے وہی زمین میں بھی معبود ہے او روہ حکمت اور علم والا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو حکومت سازی کایہ نظریہ دیا:
اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۝۰ۭ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ۝۵۴ (الاعراف ۷: ۵۴)جس نے پیدا کیا ہے، اس کی مخلوق پر حکم اسی کا چلے گا۔بابرکت ہے اللہ تمام جہانوں کا ربّ۔
چوںکہ انسانوں کو پیدا اللہ تبارک وتعالیٰ نے کیاہے، اس لیے اس کی مخلوق پر کسی اورکا حکم نہیں چلے گا بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہی حکم چلے گا۔
lمستشرقین کی غلط فہمی: بیسویں صدی میں مشہور برطانوی مستشرق منٹگمری واٹ نے دو کتابیں لکھیں: Mohammad at Mecca  اور Mohammad at Madeena  پھر ان دونوں کتب کو ایک مجموعے Mohammad Prophet and Statesman کے نام سے شائع کیا۔ موصوف نے یہ فتنہ پھیلایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نعوذباللہ مکہ مکرمہ میں تو ایک داعی ، ایک روحانی پیشوا اور ایک پیغامبر تھے، لیکن جب وہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں نعوذباللہ وہ ایک حکمران تھے، ایک آمر تھے(محمد پرافٹ اینڈ سٹیٹسمین، ۲۰۱۰ء)۔یہ فتنہ انھوں نے اس لیے پھیلایا کہ ان کی تعلیم و تربیت میں مذہب اورسیاست کی دوئی شامل ہے۔ ان کے سامنے عیسائیت کی تاریخ ہے۔ وہاں خدا کا اقتدار اور اختیار الگ ہے اور قیصر کااقتدار واختیار الگ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت نہیںکرسکتے۔ اسی تناظر میں واٹ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کودیکھا۔
اسی طرح ٹائن بی (۱۸۸۹ء- ۱۹۷۵ء) بھی معروف عیسائی تاریخ نویس نے ریاست مدینہ کے قیام کی تعبیر کرتے ہوئے لکھا:’’اس میں شک نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ میں حکومت قائم کرنے کی دعوت قبول کی تو انھوں نے اپنے ضمیر کو یہ کہہ کر مطمئن کرلیا کہ وہ اللہ کی راہ میں پوری دلجمعی کے ساتھ گامزن ہیں.... [حالانکہ] وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے تھے‘‘ (A Study of History ،ج۳، ص ۴۷۱،  ۱۹۶۱ء)۔اس طرح ٹائن بی کم فہمی اور بدترین تعصب کا شکار ہوکر، رسولِ کریمؐ کی حیاتِ طیبہ اور قرآنِ عظیم کے پیغام کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے میں ٹھوکر کھاتا ہے۔
اس ڈگر میں استثناء مائیکل، ایچ ہارٹ کاہے کہ جب اس نے انسانی ’تاریخ کے سو عظیم رہنماؤں‘ کے حالات لکھے، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سرفہرست رکھا اور وجہ یہ بیان کی کہ ’’وہ واحد انسان ہیں جو مذہب اور سیاست دونوں سطح پر یکساں طور پر کامیاب قائد ہیں‘‘۔(The 100، ص۳۳)
lدین و دُنیا کی یکجائی: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ میں اسلام کی دعوت دی تو پہلے دن سے یہ بات ظاہر کردی تھی: سجدہ بھی خداہی کو کیاجائے گا اور حکم بھی خدا ہی کامانا جائے گا، اور اقتدار بھی اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کاتسلیم کیاجائے گا۔ جواب میں کفار نے آپ کی شدید مخالفت کی۔ پتھر برسائے، گالیاں دیں، جان لیوا حملے کیے، لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت جاری رکھی۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت ان کفار نے حضرت ابوطالب سے کی جو آپ کے چچاجان تھے۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبلایا اور کہا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنی دعوت سے باز آجائیں ورنہ یہ آپ کو نقصان پہنچائیں گے۔ آپ ؐ نے ان لوگوں کو ایک جواب دیا اور فرمایا:
کَلِمَۃٌ وَاحِدَۃٌ تُعْـــطُوْنِیْہَا تَمْـــلِکُوْنَ بِہَا الْــعَرَبَ وَتُدِیْنُ  لَکُمْ بِہَا الْعَـجَمُ   (سیرۃ النبی، ابن ہشام، ج۳، ص۲۷، دارالفکر)  میں تم سے ایک کلمہ کہلوانا چاہتا ہوں۔ اگر اس کو کہہ دوگے تو تم عرب کے اقتدار کے مالک ہوجاؤگے اور تمھاری باج گزاری عجم کے لوگ بھی کریں گے۔
یعنی جو کلمہ میں تم سے کہلوانا چاہتا ہوں اس کلمے میں یہ قوت ہے کہ اس کے ذریعے اقتدار عرب کا ہو یا عجم کا ہو وہ تمھارے قبضے میں آجائے گا۔ کفار کی نمائندگی ابوجہل کررہاتھا۔ ابوجہل نے کہا کہ اے بھتیجے! ایسا وہ کون سا کلمہ ہے جو تم ہم سے کہلوانا چاہتے ہو؟ ایسا ایک نہیں ہم دس کلمہ کہنے کے لیے تیار ہیں۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو لاالٰہ الااللّٰہ اوراس کے علاوہ تمام بتوں کی پرستش چھوڑ دو۔ کفار یہ سنتے ہی مشتعل ہوگئے۔ ابوجہل نے کہا :
 اَتُرِیْدُ یَا مُحَمَّدُ اَنْ تَجْعَلِ اْلآلِہَۃَ اِلٰــــہًا وَاحِدًا اِنَّ اَمْرَکَ لَعَـجَبٌ (ایضاً) اے محمدؐ! کیسی بات کرتے ہو، ہم لوگ متفرق بتوں کوپوجنے والے ہیں، کیا تم چاہتے ہو کہ ہم سارے دیوتاؤں کوچھوڑ کر ایک خدا کومان لیں؟ یہ بڑی عجیب بات ہے۔
کفار مکہ کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دین کی دعوت دی وہ یہ تھی کہ اگر تم ایک خدا کومان لوگے، تو صرف آخرت میں جنت ہی نہیں ملے گی بلکہ دنیا کا اقتدار بھی تمھارے ہاتھ میں ہوگا۔ دنیا کااقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں تھاجو ظالم تھے، اور کمزوروں کا استحصال کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جس دین کے ساتھ بھیجا اس میں نہ صرف آخرت کی کامیابی اور سعادت شامل تھی بلکہ انسانوں کی دنیاوی راحت اور سعادت بھی شامل تھی۔ مگر کفار نے اپنا عناد جاری رکھا۔ کفار کی مخالفت کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعوت پر قائم رہے یہاں تک کہ آپؐ کو مکہ چھوڑنا پڑا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت فرمائی توکفار مکہ نے اعلان کیا کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کر کے لائے گا، اس کے لیے سو اونٹوں کا انعام مقرر ہے۔ بہت سے لوگ آپؐ کے تعاقب میں دوڑے۔ دوڑنے والوں میں ایک شخص تھا جس کا نام سراقہ بن مالک تھا اور وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا۔ اس وقت آپ غارثور میں تھے۔ پتھریلی زمین میں اس کا گھوڑا دھنس گیا۔ اس نے محمدؐ سے دعا کی درخواست کی، آپؐ کی دعا سے اسے مصیبت سے نجات ملی۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: کَیْفَ بِکَ یَاسُرَاقَۃُ اِذَا  تَسَوَّرْتَ  بِسِوَارَیْ کِسْرٰی، سراقہ وہ دن کیسا ہوگا جب کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھوں میں ہوں گے؟ اس کویقین نہیں آیا۔ انھوں نے کہاکہ کیا کسریٰ بن ہرمز کا کنگن میرے ہاتھوں میںہوگا؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ ہاں کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھوں میں ہوں گے(السیرۃ الحلبیہ، از علی بن الحلبی،ج۲، ص۴۵، بیروت)۔
حضرت عمر فاروقؓ کے زمانۂ خلافت میں ایران فتح ہوا۔ مالِ غنیمت خلیفہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ مالِ غنیمت میں کسریٰ کا کنگن بھی تھا۔ حضرت عمرؓ نے سراقہ بن مالک کو بلایا اور کسریٰ کا کنگن ان کے ہاتھ میں پہنایا اور ان سے فرمایا: کہو:
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ سَلَبَہُمَا مِنْ کِسْرٰی بْنِ  ھُرْمُزَ الَّذِیْ کَانَ یَقُوْلُ اَنَـا رَبُّ النَّاسِ (السیرۃ الحلبیہ) تعریف ہے اس خدا کے لیے جس نے یہ کنگن کسریٰ سے چھین لیے جو یہ کہتاتھا کہ میں لوگوں کا پروردگار ہوں۔
عَصَیْبَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ   یَفَتَتِحُوْنَ اَلْبَیْتَ الْاَبْیَضَ  بَیْتَ کِسْریٰ (مسلم، کتاب الامارۃ: ۳۴۸۶) مسلمانوں کی ایک جماعت کسریٰ کے دارالحکومت کو فتح کرلے گی۔
 کسریٰ کی حکومت مسلمانوں کی حکومت ہوگی اور رستم کی جگہ ایک مسلم حکمراں وہاں حکومت کرے گا۔ جس طرح لوگوں کو سورج کے نکلنے کا یقین ہوتا ہے، اسی طرح صحابہ کرامؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی پر یقین تھا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی کہ وہ کلمہ طیبہ جس کے لیے ہمیں مکہ مکرمہ سے نکالا جارہا ہے، ہمارے اصحاب کو گھروں سے نکالا جارہا ہے اور ہمیں ہماری سرزمین سے بے دخل کیاجارہا ہے،ایک وقت آئے گا کہ صرف مکہ ہی فتح نہیں ہوگا بلکہ دنیا کی سب سے بڑی شہنشاہیت ایران یا عجم یاکسریٰ مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوگی۔ ہجرت پر روانگی کے وقت آپ ؐ نے دعا فرمائی :
رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا۝۸۰  (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) اے رب! اگر تو داخل کرے تو سچائی کے ساتھ اور اگر مکہ سے نکال رہا ہے تو سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے اقتدار کو میرا مددگار بنادے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت اور ہجرت سے واضح کردیا کہ اقتدار اللہ کا ہے اوراس کے صالح بندے اس اقتدار کے حق دار ہیں۔ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُہَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ۝۱۰۵ (الانبیاء۲۱:۱۰۵) ’’زمین کے اقتدار کے وارث نیک بندے ہوں گے‘‘۔ مکہ میں مومنوں کو ایک طرف بہت مارا گیا اور دوسری طرف مداہنت کی کوششیں بھی کی گئیں۔ کفار چاہتے تھے کہ کچھ آپؐ جھک جائیں اورکچھ ہم جھک جائیں، لیکن آپ ؐ نے شرک کی آمیزش کوقبول نہیں کیا۔
اس نظام کوقائم کرنے کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر جس ریاست کی بناڈالی اس کی بنیادی خصوصیات کے بارے میں پروفیسر یاسین مظہر صدیقی لکھتے ہیں: ’’۱۲؍ربیع الاول پہلی ہجری،۱۴ستمبر ۶۳۳ء کو جس اسلامی ریاست کی داغ بیل پڑی تھی، وہ دوسری دنیاوی سلطنتوں اور حکومتوں اور ریاستوں کی مانند ایک اور دنیاوی ریاست یا حکومت نہ تھی، بلکہ وہ ایک ایسی مثالی ریاست اور قابل تقلید حکومت تھی، جس کی بنیادیں خدائے قادر مطلق کی حاکمیت اعلیٰ، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت خداوندی، امت مسلمہ کی اخوت و مساوات اور احترام ومحبت،بنی آدم کے عظیم اصولوں اور عملی نمونوں پر قائم کی گئی تھیں۔ یہی وہ بنیادی خصوصیات ہیں جو اسلامی ریاست وحکومت کو اپنی تمام تر پیش رو اور جانشین حکومتوں اور ریاستوں میں ممتاز کرتی ہیں‘‘(عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت، محمد یاسین مظہر صدیقی، ص ۲۱)۔
l سیاسی حکمت عملی:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی کے چار پہلو تھے:
l پہلا یہ کہ مشرکوں کی مخالفت کے اس طوفان میں عفو ودرگزر کیجیے، وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْـرِکِیْنَ۔ جتنی پریشانیاں آتی ہیں، جتنے طنز کے تیر چلتے ہیں ان کو نظر انداز کیجیے، ان کی دشنام طرازیوں کو نظرانداز کیجیے۔ کفار جو اذیتیں آپ کودیتے ہیں ان کو نظر انداز نہ کرسکیں تو پھر اس دعوت کے میدان میں قدم رکھنا اور اپنے آپ کو مومن کہناسود مند نہیں ہوگا۔
l رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی حکمت عملی کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ مشرکوںکے ظلم پر صبر کیجیے۔ پتھر کے جواب میں پتھر نہیں برسانابلکہ اولوالعزم رسولوںؑ کی طرح صبر کرناہے:
فَاصْبِرْ كَـمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ۝۰ۭ (الاحقاف۴۶: ۳۵) آپ صبر کیجیے جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا ہے اور ان کے معاملہ میں جلدی نہ کیجیے۔
چنانچہ آپ ؐ نے خود بھی صبر کیا اور صحابہ کرام ؓ کو بھی صبر کی تلقین فرمائی۔ حضرت عمار بن یاسرؓ اوران کی والدہ سمیہؓ کو ایذا دی جارہی تھی۔ آپؐ وہاں سے گزرے آپؐ کی آنکھوں میں آنسو تھے، آپ ؐ نے ان مظلوموں کو دیکھااور فرمایا: آلِ یاسر صبر کرو، جنت کاوعدہ ہے (سیرۃ النبی، ابن ہشام، ج۱،ص ۳۴۲)۔کفار مکہ کے ہاتھ میں تلوار تھی، اور خون مسلمانوں کابہہ رہا تھا۔ آپ ؐ نے تلوار کامقابلہ صبرسے کیا۔
l آپؐ کی سیاسی حکمت کا تیسرا پہلو یہ تھا کہ مکہ سے ہجرت کرو، اگر مکہ کی زمین تنگ ہوگئی ہے تو اللہ کی دوسری زمین کشادہ موجود ہے:
 وَمَنْ يُّھَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِيْرًا وَّسَعَۃً۝۰ۭ (النساء۴: ۱۰۰) جو شخص اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ منفعت اور وسعت پائے گا۔
l  چنانچہ صحابہ کرامؓ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور نجاشی کے ملک میں جاکر پناہ لی۔ پھر دوسری مرتبہ مسلمانوں نے مدینہ منورہ ہجرت کی اور وہاں جاکر زندگی بسر کی۔ اس کے بعد بھی جب کفار نے مسلمانوں کو نہیں بخشااور مدینہ میں چھاپہ مار کارروائیاں کیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم ہوا کہ اب مسلمانوں کو ہاتھ اُٹھانے کا حق مل گیا ہے اور ان کو اپنا دفاع کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکمت عملی کا چوتھا پہلو تھا:
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا۝۰ۭ وَاِنَّ اللہَ عَلٰي نَصْرِہِمْ لَقَدِيْرُۨ۝۳۹ (الحج ۲۲:۳۹)جن لوگوں پر ظلم کیا گیا، جن لوگوں کو ان کے گھروںسے نکالا گیا ہے، جن کو ماراپیٹا گیا ہے صرف اس لیے کہ وہ خدائے وحدہٗ لاشریک پر یقین رکھتے ہیں، ان کو  آج اجازت دی جارہی ہے کہ وہ بھی ہتھیار اُٹھالیں اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔
 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلاب کے یہ چار پہلو تھے، جن کے ذریعے آپ ؐ نے دنیا کے اندر ایک ایسا نظام قائم کیا، جس میں اللہ کی حکومت، اللہ کی عبادت اور اس کی حاکمیت کو نافذ کیا گیا۔


قانون سازی کی بنیاد:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نظریۂ حکومت دیا، اس میں قانون سازی کاحق صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہے۔ انسان اس کا اتباع کرنے کامجاز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۱۸ (الجاثیہ۴۵: ۱۸) ہم نے ایک ایسا نظامِ قانون، ایک ایسی شریعت اور ایک ایسا دستور آپ کو دیا ہے جس کا اتباع کرنا ہے اور نادانوں کے اتباع سے پرہیز کرنا ہے۔
قرآن کی شکل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے سامنے دستور حیات لے کرآئے اور اس کا اتباع کرنے کی دعوت دی۔ اس کے علاوہ دنیا میں جتنے قوانین ہیں وہ خواہشات ، تجربات اور امیدوں پر مبنی ہیں۔ یہ غلطیوں کامجموعہ بھی ہوسکتے ہیں اور اچھائیاں بھی جزوی طور پر شامل ہوسکتی ہیں۔ لیکن قرآن کریم ایسا نظام قانون ہے جواللہ کی طرف سے منزل ہے اور جس کا کوئی جز غلط نہیں ہوسکتا اور انسانوں کے لیے مضر نہیں ہوسکتا۔ قانون سازی کاحق اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کونہیں دیا بلکہ اپنے ہاتھ میں رکھا۔ یہ اس سیاست نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بنیاد تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کایہ پیغام بھی آپ ؐ نے لوگوں کو پہنچایا :
وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ۝۰ۭ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ۝۰ۭ (الطلاق۶۵:۱)  اللہ تعالیٰ نے کچھ حدود مقرر کیے ہیں ان کی پابندی کرو۔ اگر پابندی نہیں کروگے تو تم اپنے آپ پر ظلم کروگے۔
اللہ کی شریعت اور اللہ کے قانون کو نظر انداز کرکے آج کا انسان ایک ظالمانہ نظام قانون کے اندر جکڑ گیاہے۔ جوقانون اللہ کے قانون سے ٹکراتا ہے وہ انسان کے لیے مفید نہیں ہوسکتا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 السَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ عَلَی الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِیْمَـا اَحَبَّ وَکَرِہَ   مَالَمْ یُؤْمَرْ بِمَعْصِیَۃٍ فَاِذَا اُمِرَ بِمَعْصِیَۃٍ  فَلَا سَمْعَ وَلَاطَاعَۃَ (صحیح البخاری، کتاب الاحکام) ہر مسلمان پر اپنے حاکم کی بات سننا اور ماننالازم ہے بشرطیکہ وہ گناہ کا حکم نہ دے۔ اگر وہ گناہ کاحکم دیتا ہے تو سننا اور ماننا واجب نہیں۔
یعنی اللہ کی نافرمانی میںکسی انسان کی فرماں برداری نہیںکی جاسکتی۔ قانون سازی کا اختیار صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے مخصوص ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے بعد اس کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیاردیا گیا ۔ یہی اصل قانون ساز اور شارع ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا گیا:
وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ۝۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۷ (الحشر۵۹: ۷) اللہ کے رسول جو کچھ دیں اس کو لے لو اور جس چیز سے منع کردیں اس سے تم رُک جاؤ۔ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا انسان کو حکومت کرنے کا کوئی اختیار نہیں؟اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ انسان نائب ہے۔ حضرت آدم کے متعلق فرشتوں سے کہا: اِنِّیْ جِاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً (البقرہ ۲:۳۰) ’’میں زمین میں خلیفہ بنانے والے ہوں‘‘۔خلیفہ وہ ہوتا ہے جو مالک کے قانون کو رد کرکے اپناقانون نہ چلائے بلکہ اپنے مالک کے قانون کودنیا کے اندر نافذ کرے۔ لہٰذا انسان کی ذمہ داری یہ ہے کہ جس اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے، اس مالک کاحکم مانے اور اس کے حکم کو زمین میں نافذ کرے۔ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَــــوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۝۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۝۴۱ (الحج ۲۲: ۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
 یہ حکمران اور خلیفہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپناحکم چلانے کے بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کو دنیا کے اندر نافذ کرے۔ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ۝۴۴ (المائدہ ۵: ۴۴)جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ کافر ہیں۔
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۴۵ (المائدہ ۵: ۴۵) جولوگ اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ فاسق ہیں۔
 گویا، اللہ کے قانون کے برخلاف اپنا قانون چلانا۔ اللہ کے نظام کوچھوڑ کر اپنا نظام چلانا، ظلم وزیادتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نظام دیا اس کے اندر شخصی خواہشات اور شخصی حکم کی جگہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کواور اللہ تبارک وتعالیٰ کی مرضی کونافذ کرنے کابنیادی طور پر فلسفہ موجود ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ (النساء۴: ۵۹)اللہ کی اطاعت کرو، اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکمراں کی اطاعت کرو۔
 حکمراں کی اطاعت اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کے بعد ہے۔ یہی وجہ ہے جس جگہ اللہ اور اس کے رسول کا کوئی حکم موجود نہ ہو، وہاں حکمراں کوقانون سازی کا اختیار دیاگیاہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبلؓ کویمن کاگورنر بنایا تو ان کورخصت کرنے سے پہلے پوچھا کہ تم لوگوں کے معاملات میں فیصلہ کس طرح کروگے؟ انھوں نے جواب دیا کہ اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ ؐ نے پوچھا کہ اگر وہاں نہ پاؤتوکیاکروگے؟ حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ ؐنے پوچھا کہ اگر وہاں بھی تم نہ پاؤتوکیا کرو گے؟ حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ تب رائے سے اجتہاد کروںگا اور اس میں کوتاہی نہیں کروںگا۔(سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیہ)
l مشاورت و شورائیت:اس نظام میں ’شورائیت‘ کو حکومت کرنے کا اصول قرار دیاگیاہے۔ آمریت کی جگہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شورائیت کوپسندفرمایا۔ مسلمانوں کا نظام حکومت آمریت پر مبنی نہیں ہوگا، شورائیت پر مبنی ہوگا۔ قرآن میں ہے، وَاَمْرُھُمْ شُورٰی بَیْنَہُمْ  (الشوریٰ۴۲:۳۸) ’’مسلمانوں کے معاملات شوریٰ سے طے ہوں گے، مشورے سے چلیں گے‘‘۔ یعنی حکومت سازی کے اندر اورکاروبار حکومت کوچلانے کے لیے تمام اہل الرائے کی شرکت ہوگی۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ایک شخص اپنی مرضی کے مطابق حکم چلائے، باقی سب لوگ سرجھکاکر اس کی اطاعت کرنے لگیں۔ دوسرا اصول آزادی پر مبنی ہے۔ اس نظام میں ایسا نہیں ہوگا کہ کچھ لوگ غلام ہوں گے اور کچھ لوگ آزاد ہوںگے بلکہ تمام انسان مساوی ہیں، کسی کوکسی کے اوپر فضیلت نہیں ہے سوائے تقویٰ کے۔ اللہ نے تمام انسانوں سے فرمایا:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۝۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۝۰ۭ (الحجرات ۴۹: ۱۳) لوگو تم کوہم نے ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، پھر تمھارے قبیلے بنائے، تمھاری برادریاں بنائیں تاکہ تم باہم متعارف ہوسکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں بہتر وہ ہیں جو خدا ترس ہیں۔
 اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ کچھ لوگ پیدائشی طور پر افضل ہیں اورکچھ لوگ پیدائشی طور پر ارذل۔ حقیقی عزت والے اللہ کی نظر میں وہ لوگ ہیں، جن کے اندر خداترسی اورخشیت اور انابت ہے، جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔ گویا فضیلت کا معیار تقویٰ ہے، ذات اور برادری نہیں۔ انسانوں کے مابین مساوات کاآخری مرتبہ اعلان آپ ؐ نے حجۃ الوداع کے موقعے پر فرمایا:
لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ  عَلٰی عَـجَمِیٍّ  وَلَا لِاَسْوَدَ  عَلٰی اَحْمَرَ (فتح المنعم بشرح صحیح المسلم) تم میں سے کسی عربی کو کسی عجمی کے اوپر فضیلت ہے اور نہ کسی کالے کوکسی گورے پر، نہ کسی گورے کوکسی کالے پر سوائے تقویٰ کے۔
 جن لوگوں میںخداترسی زیادہ ہے، وہ اللہ کی نظر میں سب سے زیادہ بلند ہیںاور جن میں خداترسی نہیں ہے، جو خدا سے نہیں ڈرے ان سے انسانوں کوڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اگر سارے انسان برابر ہیں تو سب کو آزادی ملنی چاہیے۔ اظہار رائے کی آزادی، عمل کی آزادی،فکر کی آزادی ملنی چاہیے۔ ایک موقع تھا کہ مصر کے گورنر کی شکایت ایک بدو نے حضرت عمرؓ کے سامنے کی کہ انھوں نے ناحق ان کومارا ہے۔ آپ نے انھیںبلایا اور بہت تاریخی جملہ فرمایا، آپ نے فرمایا:
مُذکَمْ  تعَبَّدْتُمْ  النَّاسَ  وَقَدْ  وَلَدَتْہُمْ  أُمَّھَاتُھُمْ اَحْرَارًا؟ (کنزالعمال، ج۱۲،ص ۶۶۱) کب سے تم نے لوگوں کو غلام بنانا شروع کیا ہے۔ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد پیدا کیا تھا۔
یہ آزادی انسان کابنیادی حق ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کو مجمع عام میں ایک شخص ٹوکتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ یہ بتادیں کہ سب کو مال غنیمت میںایک ایک چادر ملی تھی۔ آپ کودوچادریں کیوں ملیں؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے بیٹے عبداللہ کی چادر حاصل کی ہے۔ اورحضرت عبداللہ بن عمرؓ نے گواہی دی (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرہ، ج۲،ص ۵۶، مصر)۔یہ نظام قانون،    یہ مساوات، یہ آزادی اورحریت دنیا کونبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کی۔
l عدل و انصاف:رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست کا تیسرا اصول یہ تھا کہ کسی انسان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ کی جائے، خواہ وہ دوست ہو یا دشمن۔ انصاف وہ قدر ہے کہ جس کے اوپر آسمان وزمین قائم ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظام سیاست کا یہ آفاقی اصول دیا:
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۝۰ۭ اِعْدِلُوْا ۝۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۝۰ۡ (المائدہ۵: ۸)کسی قوم کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف سے پھر جاؤ۔ انصاف کرو یہ تقویٰ سے قریب ہے۔
اسلام انسانوں کے درمیان منصفانہ نظام قائم کرنے کے لیے اور ان کے ساتھ انصاف کا سلوک کرنے کے لیے آیا ہے۔ جو نظام حکومت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دیا، اس کی اساس مساوات ، آزادی اور انصاف پر قائم ہے۔ جہاں بھی اسلامی حکومت ہوگی اس کابنیادی فرض ہوگا کہ وہ انسانوں کوانصاف عطاکرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفائے راشدین کے زمانے میں انصاف کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔
l انسانی حقوق کا تحفظ:اللہ کے رسول نے جو نظام سیاست دنیا کو دیا اس کا چوتھا اصول یہ تھا کہ انسانی حقوق کی پاسبانی کی جائے۔ انسانی حقوق کوضائع نہ ہونے دیاجائے۔ جس کاجو حق ہے وہ حق اس کو عطا کیا جائے۔ خطبہ حجۃ الوداع میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اِنَّ دِمَائَکُمْ وَاَمْوَالَکُمْ وَاَعْرَاضَکُمْ بَیْنَکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَہْرِکُمْ ھٰذَا، فِیْ  بَلَدِکُمْ ھٰذَا، لِیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ (صحیح البخاری، کتاب العلم:۶۷) تمھارا خون، تمھارا مال اور تمھاری عزت ایک دوسرے کے اوپر حرام ہے اور ان کی حرمت کیسی ہے؟ جیسے آج کادن،آج کا شہر اورآج کا مہینہ۔ جولوگ یہاں موجود ہیں وہ یہ حکم دوسروں تک پہنچادیں۔
 مکہ مکرمہ ، ذی الحجہ کا مہینہ اور یوم النہر کا جو تقدس ہے، اسی طرح انسانی جانوں اور مالوں کاتقدس ہے اور انسانی عزتوں کو تحفظ حاصل ہے۔ دنیا میں ناحق نہ کسی کا خون بہایا جاسکتا ہے اور نہ ناحق کسی کامال کھایا جاسکتا ہے اور نہ ناحق کسی کی عزت لی جاسکتی ہے۔ یہ آفاقی پیغام ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نظام حکومت دنیا کودیا وہ ایک رفاہی نظام تھا۔ آمریت کانظام نہیں تھا اور ظلم واستحصال سے پاک تھا۔ اس میں ہر شخص خواہ وہ عورت ہو ، مرد ہو، غلام ہو، غریب ہو، نادار ہو، ان کے حقوق کی رعایت کی جاتی تھی۔ آپ ؐ نے فرمایا:
 السَّاعِیْ عَلَی الْاَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ (صحیح البخاری، کتاب النفقات: ۵۰۴۴) بیواؤں اور ناداروں کی خدمت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔
 یہ تو زندہ انسانوں کی خدمت وراحت کے بارے میں فرمایا۔ مُردہ انسان کے بارے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
 فَمَنْ مَاتَ وَعَلَیْہِ  دِیْنٌ  وَلَمْ یَتْرُکْ وَفَائً  فَعَلَیْنَا  قَضَاؤُہٗ  وَمَنْ تَرَکَ  مَالًا  مَلِوَرَثَتِہٖ (صحیح البخاری، کتاب الفرائض: ۶۳۶۲) جوشخص مرگیا اوروہ قرض دار تھا تو اس کا قرض میں ادا کروںگا، اورجوشخص مال چھوڑ کر مرا تواس کا مال اس کے وارثوں کو ملے گا۔
 کیا دنیا میں کوئی مثال اس حکومت کی ملے گی کہ مرنے والا اگر قرض دار ہو تو اس کے قرض کی ادایگی حکومت کرے گی؟
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں رفاہی حکومت قائم کرنے کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے بادشاہوں سے سفارتی تعلقات قائم کیے۔ ان کواسلام لانے کی دعوت دی اور اسلامی حکومت کو تسلیم کرنے اور اس کی تابع داری کرنے کی نصیحت کی۔ کیوںکہ یہ ایک مثالی حکومت تھی اور دنیا کی تمام حکومتوں کے لیے قابل تقلید نمونہ تھی۔ چنانچہ حسب ذیل بادشاہوں کے پاس اپنے سفیروں کوبھیجا۔ قیصرروم ہرقل کے پاس حضرت دحیہ کلبیؓ کو بھیجا۔ ایرانی شہنشاہ کسریٰ کے پاس عبداللہ ابن حذافہ السہمیؓ کوبھیجا۔ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس عمر و بن امیۃ الضمریؓ کوبھیجا۔ غسان کے بادشاہ حارث بن شمر کے پاس شجاع بن وھب الاسلمیؓ کوبھیجا۔ یمامہ کے بادشاہ ہوذہ بن علی الحنفی کے پاس سلیط بن عمرو العامریؓ کوبھیجا۔ بحرین کے بادشاہ منذر بن ساوی کے پاس العلاء بن حضرمی ؓ کوبھیجا۔ عمان کے بادشاہ جیفر اور عبد (دونوں بھائی) کے پاس عمرو بن العاصؓ کو بھیجا۔(سیرۃ النبی ؐ، ابن ہشام، ج۴، ص ۲۷۸)
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سفیروں نے نہایت جرأت، حکمت اور بصیرت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ان بادشاہوں کے سامنے رکھا، اور ان کو دین اسلامی اور اسلامی حکومت کی اطاعت کرنے کی دعوت دی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیروںکا یہ پیغام بین الاقوامی سفارت کاری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ ، رسولِ اکرمؐ   کی سیاسی زندگی میں رقم طراز ہیں:
جس ملک میں کبھی کوئی حکومت ہی قائم نہیں ہوئی تھی اس میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دستور مملکت مرتب کیا اور جونظامِ حکمرانی قائم فرمایا، اس پر عمل دنیا کی عظیم الشان مملکت کے لیے نہ صرف ہرطرح کارآمد و کافی ثابت ہوا بلکہ جب تک اس پر عمل رہا وہ دنیا کی مہذب ترین حکومت بنی رہی (ص۱۵)۔
l جواب دہی کا احساس:اس نظام حکومت کوقائم کرنے کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذمہ داری اور جواب دہی کا تصور پیدا کیا۔ آپ نے فرمایا:
اَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ(صحیح البخاری،کتاب الاحکام) یاد رکھنا تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور ہر شخص کو اپنی زیر نگرانی رعیت کے بارے میں اللہ کے یہاں جواب دینا ہے۔
 امت مسلمہ کواللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ اعزاز دیا:
 وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ (البقرہ۲:۱۴۳) اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔
 جولوگ صاحب ِاختیار اورصاحب ِاقتدار ہیں، وہ خود کو اس دنیا کا مالک نہ جانیں، بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ امانت دارہیں اور اللہ کے حضور جواب دہ ہیں۔ اگر حکمرانوں میں جواب دہی کا احساس پیدا ہوجائے تو دنیا کے اندر امن قائم ہوجائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کا جلوہ دنیا کو نظر آجائے۔
آج لوگ اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داری کی بات نہیں کرتے۔ ہرشخص کواس کا حق چاہیے لیکن اس پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو ادا کرنے سے آدمی کتراتا ہے۔ اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں پر انسان نظر رکھے۔ یعنی حکمراں ہے تو وہ اپنی ذمہ داریوں پر نظر رکھے، اگر وہ رعایا ہے تو اپنی ذمہ داریوں پر نظر رکھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جنگیں بھی ہیں، معاہدے بھی ہیں، امن بھی ہے، بین الاقوامی تعلقات بھی ہیں، ان کو پڑھیے اور دیکھیے کہ آپ ؐ نے غیرمسلم دنیا کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا، کن اصولوں پر معاملہ کیاتھا؟ آج دنیا میں بے اصولی پائی جاتی ہے۔ نہ جنگ میں اصول ہے، نہ صلح میں اصول ہے، نہ امن میں اصول ہے اور نہ معاہدوں میں اصول ہے۔ کسی چیز میں اصول کی پابندی نہیںکی جاتی ہے،پابندی جس چیز کی کی جاتی ہے وہ اپنا مفاد ہے۔ اگر مفاد ہو تو امن کی بات آدمی کرتا ہے اور اگر مفاد نہ ہو تو جنگ کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ مفاد کی خاطر معاہدے توڑ دئیے جاتے ہیں، غداری کی جاتی ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو ایسا نظام دیاجس میں ذاتی مفاد کی جگہ عام انسانوں کا مفاد اور اس سے بڑھ کر اللہ کی مرضی کو سربلند کرنے کی کوشش کی گئی۔
مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں: ’’سیاست کومفاد اور اغراض کے بجائے اخلاق کے تابع کرنا اوراسے خداترسی وپرہیزگاری کے ساتھ چلانا اس ریاست کی اصل روح ہے۔ اس میں فضیلت کی بنیاد صرف اخلاقی فضیلت ہے۔ اس کے کارفرماؤں اور اہلِ حل و عقد کے انتخاب میں بھی ذہنی وجسمانی صلاحیت کے ساتھ اخلاقی پاکیزگی سب سے زیادہ قابل لحاظ ہے۔ اس کے داخلی نظام کا بھی، ہر شعبہ دیانت وامانت اور بے لاگ عدل و انصاف پر چلنا چاہیے اور اس کی خارجی سیاست کوبھی پوری راست بازی، قول وقرار کی پابندی، امن پسندی اوربین الاقوامی عدل اورحسن سلوک پر قائم ہونا چاہیے‘‘۔(خلافت و ملوکیت، ص۵۴)
اگر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنالیں، ان کے حکمران رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کواپنائیں اور ان کے علما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنائیں، ان کے تجار رسولؐ کی سیرت کو اپنائیں اور ان کے طلبہ ، اورعوام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنائیں اور ان کے پیغام کو دنیا تک پھیلانے کی کوشش کریں، تو یقین سے کہاجاسکتا ہے کہ دنیا سے بدامنی کم ہوگی، جہالت کی تاریکی دور ہوگی اور ظلم کے اندھیرے چھٹ جائیںگے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو حکمران مطلق نہیں بنایا بلکہ اس کو امین بنایا، اس کوقانون کا پابند بنایا۔ اللہ کی خشیت اور ذمہ داری اور جواب دہی سے جوڑا۔ اگر انسان جواب دہی اور اس ذمہ داری کو محسوس کرلے اور اللہ کے قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت شامل ہوجاتی ہے اور جو شخص خواہش کی بنیاد پر حکومت طلب کرے تو وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوجاتا ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن سمرۃؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ’’کبھی حکومت کی تمنا نہ کرنا ،اگر تمنا کرنے سے یا خواہش کرنے سے تم کو اقتدار ملے گا تو تم اس کے حوالے کردیے جاؤگے، اور اگر تمھاری خواہش کے علی الرغم تم کو دی جائے تو اللہ کی مدد تمھارے اوپر آتی ہے(صحیح البخاری)۔چنانچہ جولوگ اللہ کے حکم کے مطابق حکومت کرتے ہیں اللہ کے بندوں کواللہ سے جوڑنے کے لیے، اللہ کے حقوق پہنچانے کے لیے، انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے حکمرانی کرتے ہیں وہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وشریعت کی پابندی کرتے ہیں، اور جو لوگ اپنا حکم چلاتے ہیں، اپنی خواہشات کا اتباع کرواتے ہیں، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے کوسوں دُور ہیں۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں روحانیت بھی ہے اور اخلاق بھی، عبادت بھی ہے اور سیاست بھی،معاشرت بھی ہے اور معیشت بھی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کو دنیامیں نافذ کرنے کی جدوجہد بھی ہے۔ یعنی اللہ کے حکم کے مطابق انفرادی اور اجتماعی نظام زندگی گزارنے کا اسوہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دعا سکھائی ہے :
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِـمَّنْ تَشَاۗءُ۝۰ۡ       وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۝۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۲۶  (اٰل عمرٰن۳: ۲۶) اے اللہ حکومت کامالک! تو جسے چاہے حکومت عطا کرے اور جس سے چاہے حکومت چھین لے، جسے چاہے عزت بخشے اورجسے چاہے ذلت دے، بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

زندگی کے سفر میں گزرنے والا ہرماہ و سال، جانے والے عزیزوں ، دوستوں اور حددرجہ قیمتی انسانوں کی جدائی کا دُکھ دیتا ہےاور باربار زندگی کی ناپایداری کا احساس دلاتا ہے۔ ہرجدائی ایک زخم ہے لیکن کچھ تو اتنے گہرے ہیں کہ ان کی ٹیسیں بے چین کرتی رہتی ہیں اور گاہے مایوسی کے سائے بھی تعاقب کرنے لگتے ہیں۔ لیکن جلد ہی خالق کائنات کا حکم اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی قدم جما دیتی ہے اور یہ سبق دیتی ہے کہ ہرفرد نے جانا ہے۔ وہ آیا بھی حکمِ الٰہی سے تھا اور گیا بھی خالق کی مرضی سے ہے۔ اللہ کی حکمت ہی غالب ہے، لیکن چشم کا اَشک بار ہونا بھی انسان کی فطری مجبوری ہے۔

ایسے قیمتی افراد میں بہت سی عظیم ہستیاں شامل ہیں۔ تاہم، چودھری غلام محمد صاحب مرحوم [م:۲۹جنوری ۱۹۷۰ء]کی یاد ہروقت ساتھ رہتی ہے، جنھوں نے تحریک ِ اسلامی کی دعوت کودنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کے لیے افریقہ، عالمِ عرب، جنوبی ایشیا، مشرق بعید اور یورپ و امریکا کے لیے بامعنی منصوبہ سازی کی، حالانکہ ا ن کے چوبیس گھنٹے کراچی میں جماعت اسلامی کی تنظیمی ذمہ داریوں کے لیے مخصوص تھے۔ چودھری صاحب کے ساتھ جن حضرات نے، ان کے دست و بازو کی حیثیت سے تحریک اسلامی کے پیغام کو دُنیابھر میں پھیلایا، ان کے تذکرے میں محترم مسعود عالم ندوی [م: ۱۶مارچ ۱۹۵۴ء]، محترم عاصم الحداد [م: ۱۱؍اپریل ۱۹۸۹ء]اور جناب خلیل احمد حامدی [م: ۲۵ نومبر ۱۹۹۴ء] نمایاں ہیں۔ ان حضراتِ گرامی کی پے درپے جدائی نے دل توڑا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خزانۂ غیب سے کوئی نہ کوئی بندوبست فرما دیا۔ اسی ضمن میں میرے لیے چھوٹے بھائی اور عزیز بیٹے کی مانند عبدالغفار عزیز اپنی خداداد صلاحیتوں کے ساتھ اُبھر کر سامنے آئے۔ ان سے رفاقت کا ۳۰برسوں پر پھیلا زمانہ یوں لگتا ہے کہ ایک لمحے میں سمٹ گیا اور وہ ۵؍اکتوبر ۲۰۲۰ء کو اپنے ربّ کے بلاوے پر ہمیں چھوڑ کر، اللہ کے حضور پیش ہوگئے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔

عبدالغفارعزیز بھائی کو یاد کرتا ہوں تو میرے ذہن میں ان کا خوب صورت، صحت مند اور توانا سراپا اُبھرتا ہے۔ ایساسراپا جو خوش خلقی، حُسنِ اخلاق، فروتنی، ہمدردی، لگن، اپنائیت اور جذبۂ دعوت سے سرشار ہے۔ان کی زندگی، خدمات اور کارکردگی پر نظر ڈالتا ہوں تو سورہ آل عمران کی آخری آیت نظروں کے سامنے آجاتی ہے:
 ترجمہ:’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اُمید ہے کہ فلاح پاؤگے‘‘۔

اس میں اہلِ ایمان کے لیے فلاح کی خوش خبری ہے، مگر چار شرائط کے ساتھ، یعنی صبر، ثابت قدمی، دین کی خدمت کے لیے کمربستہ رہنا اور تقویٰ جو نام ہے مقصد زندگی اور دین کے غلبے کی جدوجہد کے لیے استقامت اور استمرار کا۔ باطل کے مقابلے میں ہم قدم رفقا کے ساتھ مل کر، ایک دوسرے سے بڑھ کر پامردی دکھانا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے عبدالغفار عزیز کو صبر، ثابت قدمی، خدمت ِدین کے لیے کمر بستگی، اور تقویٰ___ ان چاروں خصوصیات کے اعتبار سے اللہ کا سچا بندہ اور دین کا مخلص خادم پایا۔

دعوتِ حق اور ایک بندئہ مومن کی کامیابی کی یہ چاروں صفات بے حد اہم ہیں۔ تاہم مَیں دیگر تین اعلیٰ صفات کے ساتھ دعوتِ دین کے کاموں کے لیے کمربستہ رہنے پر خصوصی توجہ کو بہت اہم سمجھتا ہوں، جنھیں بدقسمتی سے بالعموم نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ اس کے لیے مطالعہ، تحقیق، محنت، تیاری اور وقت کے تقاضوں کے مطابق اقدامات شامل ہیں۔ اس پہلو سے میں نےعزیزی عبدالغفار میں وہ کیفیت دیکھی، جو تحریک کی بڑی بنیادی ضرورت ہے۔ آج مطالعے، تحقیق، جستجو اور خوب سے خوب تر کی تلاش پر وہ توجہ نہیں دی جارہی، جو قرآن کا تقاضا اور تاریخ کا مطالبہ ہے۔ مجھے حالیہ تحریکی زندگی میں عزیزی حسن صہیب مراد [م: ۱۰ستمبر ۲۰۱۸ء] اور عزیزی عبدالغفار عزیز میں یہ کیفیت نظرآئی اور مجھے توقع تھی اور ہرلمحہ یہی دُعا تھی کہ اللہ تعالیٰ ان سے دین کی خدمت لے۔لیکن ہوتا وہی ہے جو خالق و مالک کو مطلوب ہے۔ یہ دونوں ہی ہم سے رخصت ہوگئے۔ تحریک کی قیادت، نوجوان کارکنوں اور اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں کو اس سلسلے میں بڑی فکرمندی اور عملی کاوش کی ضرورت ہے۔ اللہ کا قانون ہے کہ وہ توکّل اور صبرومصابرت کے ساتھ مقابلے کی تیاری اور تحقیق و جستجو اور مخالف پر علمی اور عملی برتری کو بھی جدوجہد کے لیے ضروری قرار دیتا ہے، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس طرف پوری توجہ دیں۔ عبدالغفار عزیز نے اس سلسلے میں ایک روشن مثال چھوڑی ہے۔

انھوں نے نوجوانی ہی میں، بہت سے روشن معاشی امکانات کو چھوڑتے ہوئے، اور کیرئیر کی قربانی دے کر، اپنا پورا مستقبل تحریک اسلامی کے سپرد کردیا کہ تحریک دین حق کی جدوجہد میں انھیں جہاں اور جس طرح کام کرنے کی ہدایت کرے گی، وہ پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھیں گے۔ ہمارے اس عابد و زاہدبھائی نے واقعی پلٹ کر نہیں دیکھا۔

یاد رہے کہ عبدالغفار عزیز، جماعت اسلامی کے بڑے مخلص رہنما حکیم عبدالرحمان عزیز مرحوم (سابق رکن مرکزی مجلس شوریٰ) کے صاحبزادے تھے۔ گویا کہ انھوں نے تحریک کے ماحول میں آنکھیں کھولیں، لیکن عملاً ان کی ابتدائی تربیت میں براہِ راست جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کا کوئی بڑا کردار نہیں تھا۔ ثانوی درجۂ تعلیم کے بعد ان کی فکری، دینی اور تعلیمی تربیت الاخوان المسلمون کے دامنِ محبت میں ہوئی، جب وہ علّامہ محمدیوسف القرضاوی صاحب کے   حلقۂ اثر میں زیرتعلیم تھے اور قطر کی درس گاہوں میں پڑھ رہے تھے۔ اخوان سے گہرے ربط نے ان کی شخصی تعمیر اور صلاحیتوں میں نکھار میں اہم کردار ادا کیا۔ قرآن کریم سے گہرا تعلق اور اذکار و اوراد سے عملی وابستگی ایسی کہ جیسے سانسوں کی آمدورفت، اللہ کی کبریائی اور احسانات کے اعتراف سے بندھی ہو۔ یہ چیز بھی اخوان سے تعلق کا عظیم عطیہ تھا، جسے انھوں نے اپنایا۔ اُردو زبان کا بہترین ذوق، انگریزی پر اچھی قدرت اور عربی زبان وادب سے عشق کی حد تک وابستگی نے ان میں اظہاروبیان کی قدرت کو چار چاند لگا دیے تھے۔

عزیزی عبدالغفار کی شخصیت کے تحریک اسلامی اور اس کی قیادت سے تعلق کا ایک یادگار واقعہ اس وقت رُونما ہوا، جب بے نظیر صاحبہ کے دورِ وزارتِ عظمیٰ اور جناب نصیراللہ بابر کے  زمانۂ وزارتِ داخلہ میں، بحالی جمہوریت تحریک کے دوران، اسلام آباد میں جماعت اسلامی کی پُرامن ریلی ہوئی۔ ریلی کے بعد میرے گھرسے اسلام آباد پولیس نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی قیادت میں، محترم امیرجماعت قاضی حسین احمد صاحب اور مجھے گرفتار کیا۔ عجیب منظر تھا کہ ہم نہتے افراد کو گرفتار کرنے کے لیے سو کے قریب مسلح پولیس اہل کار، ہمارے گھر اور گھر کی عقبی گلیوں پر قابض تھے۔ جب پولیس ہمیں لے جانے لگی تو عبدالغفار عزیز نے بڑھ کر ڈپٹی کمشنر سے کہا کہ ’’مجھے بھی ساتھ لے چلیں۔ محترم امیرجماعت کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور میں ان کی خدمت کے لیے اختیاری گرفتاری پیش کرتا ہوں‘‘۔ جس پر ڈپٹی کمشنر صاحب نے عبدالغفار عزیز کو ہمارے ساتھ لے جانے کا حکم دے دیا اور ہمیں سملی ڈیم کے گیسٹ ہاؤس میں لے جایا گیا ، جہاں ہم نے مغرب اور عشا کی نمازیں ادا کیں۔ یہ اور بات ہے کہ نصف شب کے بعد ہمیں رہا کردیا گیا، لیکن جس طرح عبدالغفارعزیز نے امیر جماعت کی رفاقت کا حق ادا کیا، اس کا نقش کبھی دل سے محو نہیں ہوسکتا۔

ملّت اسلامیہ کے مسائل و مشکلات، اسلامی تحریکوں کے معاملات اور کارکردگی پر گہری نظر نے، انھیں ملکوں اور قوموں کی تقسیم سے بالاتر حیثیت دے کر ملّت کا عزیز، ہمدرد اور مددگار بنا دیا تھا۔
مسئلہ فلسطین ہو یا مسئلہ کشمیر، مسئلہ شیشان ہو یا تقسیم سوڈان کا المیہ، مشرقی تیمور کی مسیحی تخلیق ہو یااراکان، بوسنیا، کوسووا ، سنکیانگ میں مسلمانوں کی نسل کشی، بنگلہ دیش میں تحریک اسلامی کے رفقا کے لیے پھانسیوں اور قیدوجبر کی کالی آندھی ہو یا بھارت میں مسلمانوں پر تنگ ہوتی زمین، مصرمیں اخوان المسلمون کی جدوجہد، تحریک و انتخابات میں کامیابی اور داروگیر کا سلسلہ ہو یا شام میں  قتل عام کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، تاجکستان، ترکی، مراکش، تیونس، الجزائر اور صومالیہ میں تحریک اسلامی کو درپیش چیلنج ہو یا یورپ میں پھیلی ہوئی تحریک اسلامی کی تنظیموں میں رابطہ کاری، ہرجگہ عبدالغفار عزیز ایک تازہ دم، ہمہ تن اور اَن تھک رہبراور مددگار کی حیثیت سے یوں کندھے سے کندھا ملا کر چلتے دکھائی دیتے، کہ جیسے وہ انھی ہم مقصد ساتھیوں کے ساتھ مدتوں سے سرگرمِ کار چلے آرہے ہیں۔
اس ضمن میں وہ قلم سے، تقریر سے، ملاقاتوں سے، ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر مکالموں اور مذاکروں کے ذریعے اور سوشل میڈیا پر تائید و ہمدردی اور ظالم کی مذمت کے لیے میدان میں ہروقت چوکس کھڑے رہتے اور درست موقف پوری قوت سے بیان کرتے ہوئے منظر پر چھا جاتے۔ عالمِ اسلام سے ان کی کمٹ منٹ رسمی نوعیت سے بالاتر اور جسم میں دوڑتے لہو کی مانند تھی۔

عالمِ اسلام کے مسائل اوربحرانوں پر انھوں نے ترجمان القرآن میں نہایت قیمتی مضامین لکھے، جو مصدقہ معلومات اور لکھنے والے کی براہِ راست معاملات کی جڑوں تک رسائی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ یہ مضامین مجرد معلومات سے آگے بڑھ کر جذبات کی گرمی اور عمل کی لگن کو بھی انگیخت کرتے۔ وہ مختلف ممالک میں بروئے کار اسلامی تحریکوں کے اندرونی بحرانوں اور تنظیمی مناقشوں کو حل کرنے کی صلاحیت اور بصیرت رکھتے تھے۔ میں نے انھیں مختلف درجات اور حلقوں میں مشاورت کے دوران بے لاگ اور صاف صاف راہِ عمل کی نشان دہی کرتے دیکھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ  وہ حفظ ِ راز اور حفظ ِ مراتب کا پورا پورا خیال رکھتے تھے۔

عالمی محاذ پر پاکستان کے قومی موقف کو پیش کرنے اور پاکستان کے نظریے کا دفاع کرنے اور تاریخ کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی پروپیگنڈے کی تردید کے میدان میں ان کی خدمات بے پناہ ہیں۔ بلاشبہہ انھوں نے پاکستان کے ایک رضاکار سفیر کا کردار ادا کیا۔
نہ صرف ماہ نامہ ترجمان القرآن ، بلکہ تحریک اسلامی نے عالمی سطح پر ان کی شخصیت سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں مگر یہ اللہ کی مرضی کہ عبدالغفار عزیز بھائی ربّ کے بلاوےپر لبیک کہتے ہوئے، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہم سے رخصت ہوگئے۔ اللہ انھیں غریق رحمت کرے، اور ان کی رحلت سے جو خلا واقع ہوا ہے، اسے پُر کرنے کا انتظام فرمائے، آمین!

عصرحاضر میں جدید ٹکنالوجی اور جینیات میں روزافزوں ترقی نے خیر کے بہت سے کاموں کے ساتھ، بعض صورتوں میں اخلاقی و سماجی تخریب کے نہایت بنیادی سوالات بھی کھڑے کیےہیں۔ اسی مناسبت سے یہاں پر ایک قلمی فقہی مذاکرے میں سوال اور قضیہ پیش کیا گیا ہے۔ جس کے جواب میں پاکستان سے جیّد عالمِ دین محترم مولانا مفتی منیب الرحمٰن صاحب (کراچی) اور بھارت سے محترم مولانا ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی  (نئی دہلی) کی جانب سے رہنمائی پیش کی جارہی ہے۔(ادارہ)
 محترم و مکرم مفتی منیب الرحمٰن صاحب /محترم ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
بلاشبہہ ہر زمانہ اور ہر عہد اپنے تقاضے، مطالبات اور چیلنج لے کر سامنے آتا ہے۔ پھر یہ بھی  ظاہر ہے کہ اسلام، ماضی سے حال اور حال سے مستقبل، یعنی ہر زمانے کے لیے آیا ہے۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ مسلمانوں کو ہمیشہ اسلام پر خود عمل پیرا ہونے کے ساتھ، ہر زمانے میں دوسروں (نوعِ انسانی) کے سامنے دعوت پیش کرنے کا فریضہ انجام دینا ہے۔
ہر زمانے میں مسائل و مشکلات کی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے دو صورتیں رہی ہیں: پہلی یہ کہ اسلام کے بنیادی اصولوں پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر، پیش آمدہ مسائل و مشکلات کا حل پیش کیا گیا، اور دوسرا یہ کہ مسائل و مصائب کے پہاڑ کے سامنے فدویانہ خودسپردگی کرتے ہوئے، خود اسلام میں قطع و بُرید کی کوشش کی گئی اور اسے چیلنجوں کے حسب ِ حال بنا کر گزارا کیا گیا۔ پہلا راستہ ایمان، عزیمت اور دانشِ بُرہانی کا تھا اور دوسرا طریقہ ترمیم پسندی ، مرعوبیت اور دین میں تحریف کا۔ پہلے راستے پر علما،فقہا،محدثین، مفسرین اور متکلمین اسلام کی ایک بڑی شان دار تعداد نے   علم و نُور کے چراغ روشن کیے۔ اور دوسرے طریقے پر چلنےوالوں نے شرمندگی، انتشار اور تذبذب کے ایسے کانٹے بکھیرے، جن سے اُمت مسلمہ کو فکری اور سماجی سطح پر سخت نقصان پہنچا۔ اس دوسری قسم میں چراغ علی، احمد دین امرتسری، عنایت اللہ خاںمشرقی، مرزا غلام احمد قادیانی، غلام احمد پرویز وغیرہ اور انھی کی خوشہ چینی کرتے ہوئے کچھ ڈگری یافتگان بھی شامل رہے ہیں۔
ذیل میں وہ سوال درج کیا جا رہا ہے، جو جناب جاوید احمد غامدی کے باقاعدہ نظام کے تحت چلائے جانے والے سوشل میڈیا پر فراہم کیا گیا۔ ایسے پروگرام سوچ سمجھ کر اور پوری تیاری کے ساتھ کیے جاتے ہیں، ایسے ہی سرِراہ چلتے چلتے نہیں کیے جاتے۔ ان پروگراموں میں سامعین بھی گنے چنے ہوتے ہیں اور سوالات بھی سوچے سمجھے۔ مذکورہ پروگرام میں ایک خاتون سوال کرتی ہیں:
میرا سوال Surrogate [متبادل] ماں کے حوالے سے ہے۔ آج کے دور میں یہ مسئلہ سامنے آیا ہے کہ اگر ایک خاتون ماں نہیں بن سکتی اور اس میں کچھ Physical (جسمانی) مسائل ہیں، تو دوسری خاتون کو کرائے پر حاصل کرکے اس سے بچہ پیدا کرایا جاتا ہے۔ ایک تو اس حوالے سے بتادیجیے کہ اس میں آپ کی کیا راے ہے؟ دین اسلام کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیا یہ صحیح ہے؟
 دوسرا یہ کہ ایک خاتون کو جسمانی مسائل نہیں ہیں لیکن وہ محض خود بچہ پیدا نہیں کرنا چاہتی، اور وہ [میاں، بیوی] باہر سے دوسری خاتون کو حاصل کرکے بچہ پیدا کرواتے ہیں تو کیا اس طریقے سے بھی جائز ہے؟
جواب میں جاوید احمد صاحب کہتے ہیں:
میرے نزدیک اس مسئلے کا تعلق ’رضاعت‘ سے ہے اور وہ قرآن میں بیان ہوگیا ہے۔ آپ کے علم میں ہے کہ یہ بات اللہ کی طرف سے واضح کردی گئی ہے کہ اگر کسی خاتون نے بچے کو دودھ پلادیا ہے تو اس سے تمام رشتے قائم ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ علانیہ ہونا چاہیے اور یہ ہر ایک پر واضح ہونا چاہیے کہ اس طریقے کا تعلق قائم کیا جائےگا۔ اگر محض چھاتیوں کا تعلق قائم کردینے کے نتیجے میں اتنی حرمتیں واقع ہوگئیں، تو یہاں [یعنی کرائے پر بچہ پیدا کرنے کی صورت میں] بھی واقع ہوں گی۔ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے کہ آپ نے کرایہ دیا اور فارغ ہوگئے۔ متعین طور پر معلوم ہونا چاہیے، اس کا اعلان ہونا چاہیے، بچے کے بارے میں واضح ہونا چاہیے کہ فلاں اس کی ماں ہے اور اس کے نتیجے میں جو رشتے پیدا ہوتے ہیں وہ تمام رشتے اسی طرح پیدا ہوجائیں گے کہ جس طرح ’رضاعت‘ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان تمام چیزو ں کا لحاظ کرکے کوئی آدمی اس جدید تکنیک سے فائدہ اُٹھاتا ہے تو اس پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔
جہاں تک دوسری صورت کا تعلق ہے، تو اس کا جواب بھی اسی میں موجود ہے، کہ دودھ نہیں اترا تو اس صورت میں بھی ’رضاعت‘ کا تعلق قائم کرلیا اور دودھ اترا ہے تو اس کے باوجود رضاعت کا تعلق قائم کرلیا___ دونوں صورتوں میں ٹھیک ہے لیکن یہ علانیہ ہونا چاہیے، یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح آپ ماں کا انتخاب کرتے ہیں، یعنی جیسے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حلیمہ سعدیہ کا دودھ پیا، اور وہ ماں کے درجے میں ہیں۔ ان کے تمام رشتے اسی طرح ہوں گے۔ قرآن مجید تو یہاں تک چلا گیا کہ جس خاتون کا دودھ پیا ہے آپ نے، اور پھر کسی اور نے بھی اسی خاتون کا دودھ پیا ہے، تو آپ کے باہم وہی رشتہ پیدا ہوجائے گا جو بہن بھائی کا ہے۔
یہ علانیہ ہونا چاہیے، ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ماں اور نان و نفقے کے حقوق قائم ہوجائیںگے اور جو کچھ معاہدہ ہوا ہے اس کی پابندی کرنی پڑے گی، اور اس کے نتیجے میں جو رشتے پیدا ہوتے ہیں، ان رشتوں کو بھی وہی حُرمت ملے گی، یعنی نکاح ہونا ہے طلاق ہونا ہے، دین میں ایسے [صورت] ہوگی اگر کسی نے کرنی ہے۔{ FR 737 }
اس مبہم اور متضاد جواب نے ایسی صورتِ حال پیدا کی ہے کہ جس میں بہت سے اشکالات پیدا ہوتے ہیں:
    ۱-     دوسری عورت کی جانب سے، غیر عورت کے بچے کو دودھ پلانے، یعنی رضاعت اور ایک بے نکاحی ماں کے بطن سے غیرمرد کے بچے کی پیدایش کا آپس میں برابری کا کیا تعلق ہے؟
    ۲-     بچے کی پیدایش کے لیے داخلی، جسمانی اور جذباتی کیفیات ___ اور دودھ پلانے کے عمل کو قائم مقام قرار دینا کہاں تک عقلی اور دینی مصالح کے تحت درست استدلال ہے؟
    ۳-    بچے کی خواہش رکھنے والے والدین یا خود بچہ پیدا نہ کرنے والی عورت کی جانب سے کسی غیرعورت سے بچے کی پیدایش کا اہتمام کرنا کیسے اخلاقی، سماجی و قانونی سوال پیدا کرتا ہے؟
    ۴-     ایک غیرمرد کے نطفے کو مصنوعی طور پر دوسری عورت کے ہاں منتقل کرنا، کہ جو اس مرد کے نکاح میں نہیں ہے، کیا یہ ایک ’میکانکی زنا‘تصور نہیں کیا جائے گا؟ اوراس صورت میں پیدا ہونے والا بچہ جائز اور ناجائز کی کون سی قسم سے منسوب ہوگا؟
    ۵-     اس کلام و بیان کے ساتھ یہ خدشہ موجود ہے کہ کل جاوید صاحب یہ بھی کہہ گزریں: ’’کمزور یا عدم بارآور سپرم رکھنے والا مرد، کسی دوسرے مرد یا دوست کا سپرم خرید کر یا تحفے میں لے کر، اپنی اہلیہ محترمہ کے ہاں میکانکی انداز سے منتقل کروا کر بچہ حاصل کرسکتا ہے، لیکن اس کا باقاعدہ اعلان کرنا ہوگا‘‘۔
    ۶-     کیااس شکل میں یہ صورتِ حال نہیں پیدا ہوگی کہ دولت مند مرد اور دولت مندعورتیں، اپنی دولت کے بل بوتے پر ’بچہ سپرمارکیٹ‘ سے بچے خریدنے یا بنوانے لگیں اور دولت نہ رکھنے والے والدین ’بچے کی خریدوفروخت‘ کے لیے تدابیر سوچنے لگیں۔ یوں میکانکی تناسل اور توالد کا ایک ایسا کھیل شروع ہو، جس میں ماں کا وجود، مرد کے سپرم اور بچے کی پیدایش کا تعلق، منڈی کی معیشت سے جڑ جائے۔ اور پھر سماجی، اخلاقی اور خانگی ڈھانچا ایک ایسی تہذیب پیدا کرے، جس میں نکاحی بیوی، اپنے خاوند کا بچہ دوسری بے نکاحی عورت سے جنوائے یا ایک مرد کسی دوسرے مرد سے نطفہ خریدکر کسی اور جگہ سے بچہ پیدا کرائے گا، تو یوں واقعی ’میرا جسم میری مرضی‘ ہی کا بول بالا ہوگا؟
مغرب اور غیرمسلم دُنیا میں ان خطوط پر کام ہو رہا ہے اور اس لہرسے متاثر ’روشن خیال‘ ’ماہرین‘ اسلامی فکریات جدیدیت سے مرعوبیت یا ’آسانی پیدا کرنے‘ کے ذوق و شوق میں کہاں کی اینٹ اور کہاں کے روڑے کا ملاپ کرا رہے ہیں۔ اس طرزِفکر کے بہرحال اثرات مسلمانوں کے تہذیب و تمدن پر پڑسکتے ہیں۔ اس لیے درخواست ہے کہ شخصی حوالے کو نظرانداز کرکے، مجرد مسئلے کی نوعیت اور مذکورہ بالا جواب میں اُبھرنے والی گمراہ کن سوچ کا جائزہ لے کر اور دین کے منشا اور حکمت کو بیان فرمائیں۔
والسلام
سلیم منصور خالد


rمحترم مفتی منیب الرحمٰن ، رئیس دارالافتاء جامعہ نعیمیہ ،کراچی

اَلْجَوَابُ   ھُوَ الْمُوَفَّقُ   لِلصَّوَاب
    Surrogate Motherاُس عورت کو کہتے ہیں، جو اپنا رحم اوربیضہ کسی غیر مرد کے نطفے کی افزایش کے لیے رضاکارانہ طور پر یا اجرت کے عوض پیش کرے۔ یہ عمل شرعاً اور اخلاقاً جائز نہیں ہے،حدیث پاک میں ہے:
عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الْاَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَامَ فِيْنَا خَطِيْبًا، قَالَ: أَمَا إِنِّي لَا أَقُوْلُ لَكُمْ إِلَّا مَا سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّهِ يَقُوْلُ  يَوْمَ حُنَيْنٍ: قَالَ:لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُوْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءُهٗ زَرْعَ غَيْرِهٖ،يَعْنِي: إِتْيَانَ الْحَبَالٰى،وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُوْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَقَعَ عَلَى امْرَأَةٍ مِنَ السَّبْيِ حَتّٰى يَسْتَبْرِئَهَا، وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُوْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَبِيْعَ مَغْنَمًا حَتّٰى يُقْسَمَ،  ترجمہ:’’رُوَیفع بن ثابت انصاری بیان کرتے ہیں: (ایک دن) ایک شخص نے ہمارے درمیان خطبہ دیتے ہوئے کہا: میں تمھیں وہی بات کہنے جارہا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے غزوۂ حنین کے موقع پر سنی ، آپؐ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ اس کا پانی (نطفہ) کسی غیر کی کھیتی (رحم) کو سیراب کرے، یعنی اسے حاملہ کرے، اور جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اُس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ رحم پاک ہونے تک کسی جنگی قیدی عورت سے مباشرت کرے، اور جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ تقسیم سے پہلے مالِ غنیمت میں سے کسی چیز کو فروخت کرے [کیونکہ مالِ غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں دوسروں کے حقوق بھی شامل ہوتے ہیں]‘‘۔(سنن ابوداؤد: ۲۱۵۸)
اس حدیث مبارک کے مطابق اپنی منکوحہ کے علاوہ کسی دوسری اجنبی خاتون کی کھیتی کو سیراب کرنے سے مراد جنسی ملاپ یا دیگر طبّی طریقوں سے اُس کے رحم میںاپنامادّہ مَنویّہ پہنچانا ہےاور یہ عمل حرام ہے۔لہٰذا، جب بیوی کے رحم میں شوہر کے علاوہ کسی اور شخص کے جرثومے رکھے جائیں گے تو وہ ازروئے حدیث حرام ہوگا اور جب بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کے رحم میں شوہر اور بیوی کا مادّہ مَنویّہ رکھاجائے گا، تب بھی وہ عورت غیر کی کھیتی ہے۔اس لیے اس کے رحم میں شوہرکے علاوہ کسی اور کا مادّہ مَنویّہ رکھنا ناجائز ہوگا ۔لیکن اس پر عمل زنا کی تعریف صادق نہیں آتی، البتہ یہ عمل واضح طور پر گناہ کا باعث ہےاورمعناً زنا ہے،کیونکہ اس سےاُس عورت کا حمل قرار پاسکتا ہے۔ جہاں تک بچے کے نسب کا تعلق ہے تو اس کا نسب، صاحبِ نطفہ کے ساتھ قائم نہیں ہوگااور نہ اس کی منکوحہ بیوی اس بچے کی ماں کہلائے گی۔ لہٰذا، شرعاً نہ تو یہ بچہ اُن کا وارث ہوگا اور نہ یہ دونوں بچے کے وارث بنیں گے۔بچے کی ماں وہی عورت کہلائے گی کہ جس کےبطن سےاُس نے جنم لیا ہے۔چنانچہ اللہ کا تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    ۱-    اِنْ اُمَّہٰتُہُمْ اِلَّا اڿ وَلَدْنَہُمْ۝۰ۭ ترجمہ:’’اور ان کی مائیں تو وہی ہیں، جنھوں نے انھیں جنا ہے (المجادلہ۵۸:۲)‘‘۔
    ۲-     حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ كُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ كُرْہًا۝۰ۭ ترجمہ: ’’اس (یعنی انسان کو) اُس کی ماں نے مشقت سے پیٹ میں اُٹھائے رکھا اور مشقت ہی سے جنا (الاحقاف ۴۶: ۱۵)‘‘۔
پہلی آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حقیقت میں انسان کی ماں وہی عورت ہے، جس نےاُسے جنم دیا ہے،اور دوسری آیت میں مزید صراحت کے ساتھ فرمایا :’’ انسان کی ماں وہ عورت ہے، جو حمل کو پیٹ میں رکھتی ہے اور پھر اسے جنتی ہے‘‘۔
اس کی مزید وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آنے والےاس مشہور واقعے سے ہوتی ہے: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بھائی عُتبہ نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد کو یہ وصیت کی کہ زَمعہ (جوکہ اُم المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کےوالدتھے) کی لونڈی کا بیٹا عبدالرحمٰن میرے نطفہ سے ہے، لہٰذا تم اس کو لے لینا۔ چنانچہ سعد رضی اللہ عنہ جب بچہ کو لینے گئے تو زَمعہ کےبیٹےعبدکہنے لگے کہ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بچہ ہے۔پھر یہ مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوا۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں:
 كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلٰى أَخِيْهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ ابْنَ وَلِيْدَةِ زَمْعَةَ مِنِّيْ فَاقْبِضْهُ، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عَامَ الفَتْحِ أَخَذَهٗ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَقَالَ: ابْنُ أَخِي قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ فِيْهِ، فَقَامَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ، فَقَالَ: أَخِي، وَابْنُ وَلِيْدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلٰى فِرَاشِهٖ، فَتَسَاوَقَا إِلَى النَّبِيِّ ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُوْلَ اللَّهِ! ابْنُ أَخِيْ كَانَ قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ فِيْهِ، فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي، وَابْنُ وَلِيْدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلٰى فِرَاشِهٖ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ:هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ!، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ:اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، ثُمَّ قَالَ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ  زَوْجِ النَّبِيِّ : اِحْتَجِبِيْ مِنْهُ لِمَا رَأٰى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ فَمَا رَآهَا حَتّٰى لَقِيَ اللهَ  ، ترجمہ:’’ عُتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو یہ وصیت کی: ’’زَمعہ کی باندی کا بیٹا میرے نطفہ سے ہے ،تم اس پر قبضہ کرلینا‘‘۔ حضرت عائشہؓ نے کہا:’’ جب فتح مکہ کا سال آیا تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے زَمعہ کے بیٹے کو لے لیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے اور میرے بھائی نے مجھے اس کی وصیت کی تھی‘‘۔ پھر حضرت عبد بن زَمعہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا:’’ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی باندی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے‘‘۔ پھر ان دونوں نے اپنا مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’یارسولؐ اللہ! یہ میرا بھتیجا ہے ،اس کے متعلق عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی ‘‘۔ حضرت عبد بن زَمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی باندی کا بیٹا ہے، ان کے بستر پر پیدا ہوا ہے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے عبد بن زَمعہ! وہ تمھارا (بھائی) ہے‘‘۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچہ اس کا ہے، جس کے بستر پر پیدا ہوا اور زانی کے لیے پتھر ہے‘‘۔ پھر آپؐ نے اُمُّ المومنین سَودہ بنت زَمعہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’سَودہ! تم اس سے پردہ کرنا‘‘، کیونکہ آپ نے اس لڑکے میں عُتبہ کی مشابہت دیکھی تھی‘‘۔ پھر زَمعہ کے بیٹے نے حضرت سَودہ کو نہیں دیکھا، حتیٰ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جاملا‘‘۔(صحیح البخاری:۲۰۵۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاھِرِ الْحَجَر‘‘ کے شرعی اصول کے تحت بچے کی ولدیت کے بارے میں فیصلہ عَبد بن زمعہ کے حق میں دیا کہ وہ ’’تمھارا بھائی ہے، اور چونکہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے حقائق پر بھی مطلع فرمایا تھا ،اس لیے آپؐ نے حضرت سودہ بنتِ زمعہ رضی اللہ عنہا کو حقیقتِ واقعہ کی بنا پر پردے کا حکم فرمایا۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ لفظِ ’فِراش‘ کی شرح میں لکھتے ہیں:
قَـوْلُهٗ: اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ: أَيْ لِمَالِكِ الْفِرَاشِ وَهُوَ السَّيِّدُ أَوِ الزَّوْجُ  ، ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’بچہ فِراش کا ہے‘‘ سے مراد ’مَالِکُ الْفِرَاش‘ ہے، یعنی وہ عورت جس سے شریعت نے کسی مرد کے لیے مباشرت کو حلال قرار دیا ہے اور وہ کسی کی منکوحہ بیوی ہے یا باندی ‘‘۔(فتح الباری، ج۱، ص۱۶۶)
علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ تعالیٰ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
قَوْلُهٗ :اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ : أَيْ لِصَاحِبِ الْفِرَاشِ، إِنَّمَا قَالَ: ذٰلِكَ عَقِيْبَ حُكْمِهٖ لِعَبْدِ بْنِ زَمْعَةَ إِشَارَةٌ بِأَنَّ حُكْمَهٗ لَمْ يَكُنْ بِمُجَرَّدِ الْاِسْتِلْحَاقِ بَلْ بِالْفِرَاشِ، فَقَالَ: اَلْوَلَدُ لِلْفِراشِ ،وَأجْمَعَتْ جَمَاعَةٌ مِنَ الْعُلَمَآءِ بِاَنَّ الْحُرَّةَ فِرَاشٌ بِالْعَقْدِ عَلَيْهَا مَعَ  إِمْكَانِ الْوَطْءِ وَإِمْكَانِ الْحَمْلِ، فَإِذَا كَانَ عَقْدُ النِّكَاحِ يُمْكِنُ مَعَهُ الْوَطْءَ وَالْحَمْلَ، فَالْوَلَدُ لِصَاحِبِ الْفِرَاشِ لَا يَنْتَفِيْ عَنهُ أبَدًا بِدَعْوٰى غَيْرِهٖ وَلَا بِوَجْهٍ مِنَ الْوُجُوْهِ إِلَّا بِاللِّعَانِ ،ترجمہ: ’’رسول اللہ ﷺ کے فرمان’’بچہ فِراش کا ہے‘‘، سے مراد ’’صَاحِبُ الْفِرَاش‘‘ ہے۔ یہ ارشاد آپؐ نے عبدبن زَمعہ کا حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ محض اِسْتِلْحَاق (یعنی کسی کے نسب کو اپنے ساتھ لاحق کرنے کے مطالبے)سے نسب ثابت نہیں ہوتا ، بلکہ فِراش سے ثابت ہوتا ہے ، آپؐ نے فرمایا:’’ بچہ صاحب فِراش کا ہے‘‘۔ علماء کی ایک جماعت کا اس پر اجماع ہے کہ آزاد عورت کا فِراش ہونا نکاح سے ثابت ہوتا ہے، جب کہ وطی کرنا اور حمل قرار پاناممکن ہو۔ پس جب اس امکان کے ساتھ نکاح منعقد ہو تو بچہ صاحبِ فِراش کا ہوگا۔ لعان کے سوا کسی غیر کے دعوے یا کسی اور سبب سے بچے کا نسب اُس سے منقطع نہیں ہوگا‘‘۔(عمدۃ القاری، ج۱۱، ص ۱۶۸)
علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاش‘کے بعد فرمایا: لِلْعَاھِرِ الْحَجَر،’’بچہ اس کا ہے، جس کے بستر پر ہو اور زانی کے لیے پتھر ہے (یعنی نسبت ِ نسب سے محرومی) ‘‘۔ اس سے واضح ہوگیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا کہ یہ بچہ زنا سے پیدا ہوا ہے، زَمعہ کے نطفے سے پیدا نہیں ہوا۔ اس کے باوجود آپ نے اس بچے کو زمعہ کے ساتھ لاحق کردیا۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ ثبوت نسب، صاحبِ نسب کے پانی اور اس کی وطی پر موقوف نہیں ہے ،بلکہ فِراش پر موقوف ہے ۔ جس کا فِراش ہوگا ،اس کا نسب ہوگا خواہ اس نے وطی کی ہو یا نہ کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہؒ نے فِراش ہونے کے لیے امکان وطی کی شرط نہیں رکھی (شرح صحیح مسلم، ج۳،ص۹۳۴)‘‘۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا نسب صاحبِ فراش سے ثابت ہوگا، اور صاحبِ فِراش سے مراد یہ ہے کہ وہ عورت جس کے نکاح میں ہے۔اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زانی کے لیے پتھر ہے‘‘، یعنی ایسا صاحبِ نطفہ اُس بچے کی نسبتِ نسب کے اعزاز سے محروم رہے گا۔ پس، جب بچے کا نسب صاحبِ فراش کے ساتھ لاحق ہوگا تو اس کی بیوی اس کی ماں قرار پائے گی اور اس عورت کا شوہر اس کا باپ قرار پائے گا، کیونکہ ثبوتِ نسب بھی شرعی ضروریات میں سے ہے اور اسی طرح دیگر رشتے قائم ہوں گے۔یہ مسئلہ کنواری ’مَزنیہ‘ ( جس سے زنا کیا گیاہو) کے بارے میں نہیں، بلکہ کسی کی منکوحہ کے بارے میں ہے۔
    جاوید غامدی صاحب نے تواجرت کے عوض یا رضاکارانہ طور پر اپنا بیضہ اور رحم فراہم کرنے والی عورت کو ’رضاعی ماں‘ قرار دیاہے، جب کہ حدیث نبویؐ میں تو اسے ’حقیقی ماں‘ ہی کا حکم دیا گیا ہے۔ رضاعی ماں تو اُسے کہتے ہیں کہ کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوجائے اور پھر وہ بچہ ’مدتِ رضاعت‘ (یعنی ڈھائی برس) کے اندرکسی دوسری عورت کا دودھ پیے ،وہ ’رضاعی ماں‘ کہلائے گی۔ اُس کا شوہر بچے کا رضاعی باپ کہلائے گا اور اسی طرح دوسرے رضاعی رشتے بھی قائم ہوں گے۔ یہ شریعت میں کوئی عیب نہیں ہے۔ یہ شعار اسلام سے پہلے بھی عالمِ عرب میں رائج تھا اور اسلام نے اسے برقرار رکھا ہے اور اس میں نسب کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں رہتا۔
     اگرجاوید غامدی صاحب کے بیان کیے ہوئے اصول کو قبولِ عام دے دیا جائے، تو آپ نے اِشکال نمبر۵میں جویہ لکھا ہے :’’اس کلام وبیان کے ساتھ یہ خدشہ موجود ہے کہ کل جاویدصاحب یہ بھی کہہ گزریں: ’’کمزور یا عدم بار آور سپرم رکھنے والا مرد، کسی دوسرے مرد یا دوست کا سپرم خرید کر یا تحفے میں لے کر، اپنی اہلیہ محترمہ کے ہاں میکانکی انداز سے منتقل کرواکے بچہ حاصل کرسکتا ہے، لیکن اس کا باقاعدہ اعلان کرنا ہوگا‘‘، اس کے وقوع کے امکان کو رَدّ نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح مغرب میں جنسی تسکین کے لیے مصنوعی اعضائے تناسل اور فرج کی دکانیں برسرِعام کھل رہی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس شعبے کے لیے بھی ایجنسیاں کھل جائیں اورآگے چل کریہ باقاعدہ کاروبار کی شکل اختیار کرلے اور ایسی صورت میں کنواری دوشیزائیں بھی شوقیہ یا اُجرت پر اپنی خدمات پیش کرسکتی ہیں۔ شنید ہے کہ بھارت میں باقاعدہ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ طور پر یہ طریقہ رائج ہے۔ گویا انسان مرتبۂ انسانیت سے گر کر حیوانیت کے درجے میں اتر آئے گا اور معاشرے میں یہ عمل کسی عار کا سبب نہیں رہے گا۔ پس یہ شریعت کی تعلیمات سے دُوری اور اخلاقی زوال کی انتہا ہوگی۔
اگرکسی بیماری یا عارضہ کی وجہ سےشوہر عمل تزویج پر قادر نہ ہو ،یاعورت میں کوئی خرابی پائی جاتی ہو اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ جنسی ملاپ کے ذریعے حاملہ ہونے کی صلاحیت نہ رکھتی ہوتومصنوعی عمل تولید یا ٹیسٹ ٹیوب بےبی کے ذریعے حقیقی شوہرکا جرثومہ اس کی اپنی بیوی کے رحم میں منتقل کرنا شرعاً جائز ہے۔ فقہائے اسلام پر اللہ تعالیٰ کروڑوںرحمتیں نازل فرمائے ،اُنھوں نے آج سےتقریباًایک ہزاربرس پہلے ایسے اُصول وقواعد بیان کردیےکہ جن سے کئی سو برس بعد پیش آنے والے مسائل حل ہوگئے ،حتیٰ کہ صحبت کے بغیرعورت کے حاملہ ہونے کی صورتوں کو بیان فرمادیا ۔محمدبن سَماعہ بیان کرتے ہیں : امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م:۱۵۰ھ) نے فرمایا:
إذَا عَالَجَ الرَّجُلُ جَارِيَتَهٗ فِيْمَا دُوْنَ الْفَرْجِ، فَاَنْزَلَ فَاَخَذَتِ الْجَارِيَةُ مَاءَهٗ فِي شَيْءٍ فَاسْتَدْخَلَتْهُ فِيْ فَرْجِهَا فِي حِدْثَانِ ذٰلِكَ فَعَلِقَتِ الْجَارِيَةُ وَوَلَدَتْ فَالْوَلَدُ وَلَدُهٗ وَالْجَارِيَةُ أُمُّ وَلَدٍ لَهٗ،ترجمہ:’’کسی شخص نے اپنی باندی کے ساتھ شرم گاہ کے علاوہ صحبت کی(یعنی بوس وکنار کیا) اور اُسے انزال ہوگیا ،پھر باندی نے اُس کے مادّہ مَنویّہ کو کسی چیز میں لے کر اپنی شرم گاہ میں داخل کرلیا اور اس سے وہ حاملہ ہوگئی اور اس نے بچہ جنا، تو بچہ اس کے مالک کا ہوگا اور وہ اُمِّ وَلَد قرار پائے گی‘‘۔(المحیط البرہانی، ج۹، ص۴۰۴، البحرالرائق، ج۴،ص ۲۹۲، رَدُّالْمُحْتَار عَلَی الدُّرِّالْمُخْتَار،ج۳، ص ۵۲۸)
آپ نے اُجرت کے عوض یا رضاکارانہ طور پر اپنا رحم پیش کرنے والی ماں کے حوالے سے پوچھا ہے:’’آج کے دور میں یہ مسئلہ آیا ہے کہ اگر ایک خاتون اپنے رحم میں جسمانی نقص کے سبب ماں نہیں بن سکتی تو کیا دوسری خاتون کو کرائے پر حاصل کر کے اس سے بچہ پیدا کرایا جاسکتا ہے؟ اس حوالے سے شریعت کی روشنی میں آپ کا موقف کیا ہے؟‘‘ دوسرا یہ کہ خاتون کسی جسمانی نقص میں مبتلا نہیں ہے ، لیکن وہ بچہ پیدا کرنے کی زحمت اٹھانے کے لیے آمادہ نہیں ہے اور زوجین باہمی اتفاقِ رائے سے دوسری خاتون کی خدمات حاصل کر کے بچہ پیدا کرواتے ہیں، کیا شریعت کی رُو سے یہ جائز ہے؟‘‘اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عمل ناجائز اور حرام ہے،چنانچہ ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں:
اَلتَّلْقِيْحُ الصِّنَاعِي: هُوَ اِسْتِدْخَالُ الْمَنِيِّ لِرَحْمِ الْمَرْأَةِ بِدُوْنِ جِمَاعٍ. ،فَإِنْ كَانَ بِمَاءِ الرَّجُلِ لِزَوْجَتِهٖ، جَازَ شَرْعًا، إِذْ لَا مَحْذُوْرَ فِيْهِ، بَلْ قَدْ يَنْدُبُ إِذَا كانَ هُنَاكَ مَانِعٌ شَرْعِيٌّ مِنَ الْاِتِّصَالِ الْجِنْسِيِّ،وَأَمَّا إِنْ كَانَ بِمَآءِ رَجُلٍ أَجْنَبِيٍّ عَنِ الْمَرْأةِ، لَا زِوَاجَ  بَيْنَهُمَا، فَهُوَ حَرَامٌ، لاِنَّهٗ بِمَعْنَى الزِّنَا الَّذِيْ هُوَ إِلْقَاءُ مَآءِ رَجُلٍ فِي رَحْمِ امْرَأَةٍ لَيْسَ بَيْنَهُمَا زَوْجِيَّةٌ، وَيُعَدَّ هٰذَا الْعَمَلُ أَيْضًا مُنَافِيًا لِلْمُسْتَوَى الْإنْسَانِیِّ ، ترجمہ: ’’ مصنوعی عملِ تولید، یعنی صحبت کےبغیر مادۂ مَنویّہ کو عورت کے رحم میں داخل کرنا، پس اگر یہ عمل حقیقی شوہراپنی بیوی کےلیے اپنے مادّہ مَنویّہ کے ساتھ کرتا ہےتوشرعاً جائز ہے، بلکہ بعض اوقات جب بیوی سے صحبت کرنے میں کوئی شرعی مانع پایاجاتا ہوایسا کرنا مستحب ہے۔لیکن اگر یہ عمل کسی ایسےشخص کے مادۂ منویہ کے ذریعےکیاجائےجو عورت کے لیے اجنبی ہواور ان کے درمیان ازدواجی رشتہ نہ ہو،تو ایسا کرنا حرام ہے،اس لیے کہ یہ معنوی طورپرزنا ہے، کیونکہ عورت کے رحم میں ایسے شخص کا نطفہ پہنچایا جاتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان زوجیت کا رشتہ نہیں ہوتا اور یہ عمل انسانی اَقدار کے بھی خلاف ہے‘‘۔(اَلْفِقْہُ    الْاِسْلَامِیْ وَاَدِلَّتُہٗ ،ج۴،ص ۲۶۴۹)
 علامہ غلام رسول سعیدی اس مسئلے کی تحقیق کے لیے کہ ’’بچہ صاحبِ فِراش کا ہے ‘‘ فرماتے ہیں کہ  علامہ شمس الدین سرخسی (متوفّٰی ۴۸۳ھ) نے لکھا ہے:’’جس شخص کا آلہ تناسل کٹا ہوا ہو اوروہ جماع نہیں کر سکتا، ایسے شوہر کا نطفہ اگر جماع کے بغیر کسی اور ذریعے سے عورت کے رحم میں پہنچادیا جائے اور بچہ پیدا ہو جائے ،تو اُس بچے کا نسب اس عورت کے شوہر سے ثابت ہو گا‘‘ (شرح صحیح مسلم ،ج۳، ص ۹۳۸)۔
اس سلسلے میں گزارش ہے کہ بلاشبہہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح کا مقصدافزایشِ نسلِ انسانی کو قرار دیا ہے ،چنانچہ حدیثِ مبارک میں ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُوْلَ اللَّهِ قَالَ:اَنْكِحُوْا أُمَّهَاتِ الْاَوْلَادِ، فَإِنِّي أُبَاهِيْ بِهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ  ، ترجمہ: ’’عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بچہ پیداکرنے کی صلاحیت رکھنے والی عورتوں سے نکاح کرو، کیونکہ میں ان کے سبب قیامت کے دن (دوسری امتوں پر) فخر کا اظہار کروں گا‘‘۔(مسند احمد:۶۵۹۸)
آپؐ کا فرمان ایک ترجیحی امر ہے، ایسا ضروری نہیں ہے ۔آپؐ کی کئی ازواجِ مطہرات سے بچے پیدا نہیں ہوئے، لیکن اس کے باوجود آپؐ نے ان کو طلاق نہیں دی۔ اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپؐ کی واحد کنواری بیوی تھیں اوران سے آپؐ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
جہاں تک اولاد کاتعلق ہے تو ایک مسلمان کو اس بات پر پختہ یقین رکھناچاہیے کہ اولادعطا کرنے والی اور اس سے محروم رکھنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔اگر شادی کے بعد کچھ برسوں تک اولاد نہ ہو تو مایوس ہونےاور ناجائز ذرائع واسباب اختیار کرنے کے بجائے رجوع الی اللہ اور صبر و توکّل سے کام لینا چاہیےاور اس مقصد کےلیےجائز اسباب اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ علاج کی ضرورت ہو تو جائز طریقوں سے علاج بھی کرنا چاہیے۔تمام اسباب اختیار کرنے کے باوجود اگر اولاد نہ ہو توتولید وتناسل کی صلاحیت کی طرح بانجھ پن بھی اللہ کی طرف سے ہے۔ اللہ پاک جسے چاہے اپنی حکمت کے تحت بانجھ کردیتا ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ۝۰ۭ يَہَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ اِنَاثًا وَّيَہَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ الذُّكُوْرَ۝۴۹ۙ اَوْ يُزَوِّجُہُمْ ذُكْرَانًا وَّاِنَاثًا۝۰ۚ وَيَجْعَلُ مَنْ يَّشَاۗءُ عَــقِـيْمـًا۝۰ۭ اِنَّہٗ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ۝۵۰   ترجمہ: ’’آسمانوں اور زمینوں میںحکومت اللہ ہی کی ہے ،وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے (صرف) بیٹے عطا کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں(دونوں )عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے، بے شک وہ بےحد علم والا بہت قدرت والا ہے‘‘۔(الشوریٰ ۳۲:۴۹-۵۰)
لیکن بانجھ پن کی صورت میں خلافِ شرع طریقے اختیار کرنا جائز نہیں ہے، اللہ نے فرمایا ہے:
وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ۝۵ۙ اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ۝۶ۚ فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْعٰدُوْنَ۝۷ۚ  ترجمہ:’’(وہ مومن کامیاب ہوگئے) جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، ماسوا اپنی بیویوں کے یا وہ جو اُن کی مِلک میں ہیں، یقیناً وہ ملامت زدہ نہیں ہیں، پس جو کوئی ان کے علاوہ (اپنی خواہش کی تکمیل )چاہے گا، تو وہی لوگ(اللہ کی حدود سے) تجاوز کرنے والے ہیں ‘‘۔ (المؤمنون۲۳:۵-۷)
یہ اللہ کی طرف سے آزمایش بھی ہوسکتی ہے۔ ایک مومن کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہرحال میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو مقدم رکھے۔ شوہر اگر بیوی کے بے اولاد ہونے کی وجہ سے اولاد کا خواہش مند ہے ، تو شریعت نے اس کے لیے دوسرے نکاح کی گنجایش رکھی ہے۔ اگر بیوی لاوَلد ہے اور اولاد کی خواہش مند ہے ، تو اپنے کسی عزیز کے ایسے بچے کو ، جس کا اس کے ساتھ مَحرم کا رشتہ ہو، گود لے سکتی ہے ، لیکن گود لینے سے وہ اس کا یا اس کے شوہر کا وارث نہیں بنے گا، نہ وہ بچہ ان کا وارث بنے گا، البتہ اس کے حق میں وصیت کرسکتے ہیں، اور اسے ہبہ بھی کرسکتے ہیں، نیز اس کا نسب بھی اس کے حقیقی باپ کی طرف منسوب ہوگا۔
سب سے بڑی بات قناعت اور تقدیرِ الٰہی پر راضی رہنا ہے۔ اس کے لیے خلافِ شرع طریقے اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اسے اُس درجے کی شرعی ضرورت قرار نہیں دے سکتے، جس کی بابت یہ فقہی اصول بیان کیا گیا ہے :اَلضَّرُوْرَاتُ تُبِیْحُ الْمَحظُوْرَاتِ اور اَلضَّرُوْرَاتُ تُقَدَّرُ بِقَدْرِھَا، ترجمہ:’’ ضرورتیں ممنوعات کو مباح کردیتی ہیں اور ضرورت کو اُس کی حد کے اندر رکھا جائے‘‘۔ اُسے عام معمول نہ بنایا جائے۔جاوید احمد غامدی بہت سے معاملات میں تقریباً اباحتِ کُلّی کے قائل ہیں ۔ فقہ اور اصولِ فقہ تو دُور کی بات ہے ،وہ احادیثِ مبارکہ کی قید سے آزاد ہوکر قرآن کو سمجھنا اور بیان کرنا چاہتے ہیں ،جب کہ ہم اپنی بشری استطاعت کی حد تک اصولِ شرع کے پابند ہیں۔  
rمحترم ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی،سکریٹری شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو زندگی گزارنے کا طریقہ بتا دیا ہے۔ قرآن مجید میں بنیادی اقدار، احکام اور تعلیمات مذکور ہیں، جب کہ احادیث میں تفصیلات اور جزئیات بیان کر دی گئی ہیں۔ زمانہ گزر نے کے ساتھ اور بدلتے ہوئے حالات میں جو مسائل اور مشکلات پیش آتے ہیں، انھیں حل کرنے کے لیے علما و فقہا اور اسرارِ شریعت کے ماہرین نے اجتہاد کیا ہے، لیکن ان کا اجتہاد ہمیشہ دین کی بنیادی ا قدار، اساسی تعلیمات اور روح ِ شریعت سے ہم آہنگ رہا ہے۔ مگر ان کے برعکس جن حضرات نے اس سے ہٹ کر اجتہاد کرنے کی کوشش کی ہے اور ایسی آرا پیش کی ہیں جو اساسیات ِدین اور روح ِ شریعت سے متصادم ہوں انھیں امت میں قبول ِ عام حاصل نہیں ہوا ہے۔
    انسان کی تخلیق کا معروف اور متداول فطری طریقہ یہ ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان جنسی اتصال ہو۔ اس کے نتیجہ میں مرد سے منی (سپرم) اور عورت سے بیضہ(اووم) نکلتا ہے۔ دونوں کا اتصال و امتزاج عورت کے اعضائے تناسل میں سے قاذف (Fallopian Tube) کے باہری تہائی حصے میں ہوتا ہے۔ اس طرح عمل ِ بارآوری (Fertilization) انجام پاتا ہے۔ پھر وہ مخلوط نطفہ (Zygote) عورت کے رحم (یوٹرس)میں منتقل ہوجاتا ہے، جہاں دھیرے دھیرے نشوونما پاتے ہوئے ’جنین‘ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ قرآن مجید میں اس پورے مرحلے کو بہت اختصار کے ساتھ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ۝۰ۤۖ (الدھر۷۶: ۲ ) ’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا ہے‘‘۔
قرآن مجید صراحت کرتا ہے کہ مرد اور عورت کا جنسی اتصال صرف نکاح کی صورت میں جائز ہے (النساء۴:۱، ۳، ۲۵، ۱۲۷، النور۲۴: ۳۲، الاحزاب۳۳: ۴۹، الممتحنۃ ۶۰: ۱۰)۔ بغیر نکاح کے جنسی تعلق کو وہ’ زنا‘ سے تعبیر کرتا ہے ، خواہ اسے علی الاعلان قائم کیا جائے یا چھپ کر، اوراسے حرام قرار دیتے ہوئے اس کا ارتکاب کرنے والے کے لیے عبرت ناک سزا تجویز کرتا ہے(بنی اسرائیل۱۷:۳۲، النور۲۴: ۲)۔
خلاصہ یہ کہ ’جنین‘ کی تخلیق کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں: مرد کا نطفہ، عورت کا بیضہ اور اس کا رحم۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مذکورہ بالا طریقہ اختیار کیا جائے، جس سے استقرارِ حمل ہو سکے۔ جنسی اعضاء میں کوئی نقص ہو، یا کسی وجہ سے مذکورہ طریقہ اختیار نہ کیا جاسکے تو بارآوری اور تولید کا عمل انجام نہیں پاسکتا۔ یہ نقص مرد میں بھی ہو سکتا ہے اور عورت میں بھی۔ مثلاً مرد قوتِ مردی میں کمی کی وجہ سے جماع پر قادر نہ ہو، یا اس کے مادۂ تولید میں حیوانات ِ منویہ کا تناسب مطلوبہ مقدار سے کم اور ان کی حرکت کم زور ہو، یا مادۂ تولید کو خصیوں سے عضو ِ تناسل (Penis)تک لانے والی رگیں مسدود ہو گئی ہوں، یا پھر خصیے بے کار ہوں۔ اسی طرح عورت میں کسی نقص کے سبب خصیۃ الرحم (Ovaries)سے بیضہ کا اخراج ممکن نہ ہو، یا قاذفین پیدائشی طور پر موجود نہ ہوں، یا مسدود ہوگئے ہوں ،یا وہ پیدائشی طور پر رحم سے محروم ہو، یا کسی مرض کے سبب اسے نکال دیا گیا ہو، یااس میں بار آور بیضہ کا استقرار ممکن نہ ہو، وغیرہ۔


   انسانی تخم کاری کے مغربی یا میڈیکل طریقے

مغرب نے میڈیکل سائنس کے میدان میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ چنانچہ وہاں مذکورہ بالا بہت سے نقائص کا حل نکال لیا گیا ہے اور ان کا متبادل تلاش کر لیا گیا ہے۔ اگر مرد کا نطفہ، عورت کا بیضہ اور اس کا رحم، سب حیاتیاتی اعتبار سے صحت مند ہوں، لیکن مرد جماع پر قادر نہ ہو ،یا اس کا نطفہ خصیوں سے عضو ِ تناسل تک لانے والی رگیں مسدود ہوگئی ہوں، تو اس کے نطفے کو ایک سرنج میں لے کر عورت کے رحم میں پہنچا دیا جاتا ہے، جہاں وہ عورت کے بیضہ سے مل کر بار آور ہوتا ہے۔ اسے’ مصنوعی تخم کاری‘ (Artificial Insemination) کہا جاتا ہے۔ اگر مرد کے نطفے میں حیوانات ِ منویہ کا تناسب کم اور ان کی حرکت کم زور ہو، یا وہ تولیدی صلاحیت سے محروم ہو، تو ضرورت پوری کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کا نطفہ استعمال  کیا جا تا ہے۔ اسے لے کر عورت کے رحم میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اس کا م کے لیے مغرب میں مادۂ منویہ کے بڑے بڑے مراکز (Sperm Banks)قائم ہیں، جہاں سے کوئی بھی شخص اپنی پسند کا نطفہ خرید سکتا ہے۔
اگر عورت میں ’قاذفین‘ پیدایشی طور پر موجود نہ ہوں، یا بعد میں کسی وجہ سے مسدود ہوگئے ہوں، البتہ اس کا ’بیضہ‘ صحیح سلامت ہو تو اسے اور مرد کا نطفہ حاصل کرکے دونوں کو ایک ٹیسٹ ٹیوب میں بارآور کیا جاتا ہے۔ پھر اسے ایک متعین مدت کے بعد عورت کے رحم میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اسے’ ٹیسٹ ٹیوب میں بارآوری‘ (In Vitro Fertilization)کہا جاتا ہے۔
اگر عورت کا رحم بالکل ٹھیک ہو اور استقرارِ حمل کی صلاحیت رکھتا ہو، لیکن خصیۃ الرحم میں کسی نقص کے سبب اس سے بیضہ خارج نہ ہو رہا ہو، تو کسی دوسری عورت کا بیضہ لے کر اس کے رحم میں منتقل کیا جا تا ہے، یا مرد کے نطفے سے دوسری عورت کا بیضہ اسی کے رحم میں بارآور کرکے، یا دونوں کو ٹیسٹ ٹیوب میں بارآور کرکے ،اس بارآور بیضہ کی تنصیب بیوی کے رحم میں کر دی جاتی ہے۔ اسے’ انتقالِ بیضہ‘ (Ovum implantation) کہا جاتا ہے۔
اگر مرد کا نطفہ اورعورت کا بیضہ دونوں صحت مند ہوں، لیکن عورت رحم کے کسی مرض میں مبتلا ہو، جس کی وجہ سے اس میں ’استقرار ِحمل‘ ممکن نہ ہو تو زوجین کسی دوسری عورت کے رحم کو کرایے پر لیتے ہیں۔ ٹیسٹ ٹیوب میں دونوں کے مادّوں کو ملا کر حاصل شدہ ’جنین‘ کو اس عورت کے رحم میں منتقل کر دیا جاتا ہے، جہاں وہ پرورش پاتا ہے۔
اسی طرح بعض عورتیں صحت مند ہونے کے باوجود حمل و رضاعت کے بکھیڑوں میں نہیں پڑنا چاہتیں ۔وہ بھی دوسری عورت کے رحم کو کرایے پر لے لیتی ہیں۔
 ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ بیوی سے بیضہ بھی نہیں حاصل ہو سکتا۔ چنانچہ دوسری عورت سے بیضہ حاصل کیا جاتا ہے اور پہلی عورت کے شوہر کے نطفے سے اس کی ’تخم کاری‘ کرکے  اسی (دوسری) عورت کے کرایے پر دیے گئے رحم میں اس کی پرورش کی جاتی ہے۔ اسے’ قائم مقام مادریت‘ (Surrogacy) کہا جاتا ہے۔
مغرب، جہاں کا کلچر خالص مادّیت پر مبنی اور اخلاقیات سے بالکل عاری ہے، وہاں ان تمام طریقوں پر عمل ہورہا ہے اور مر دو عورت کے تناسلی نظام میں پائے جانے والے خِلقی (Congenital) یا اکتسابی (Acquired)نقائص کو دور کرکے بچے پیدا کیے جارہے ہیں۔ اس چیز نے میڈیکل کی دنیا میں ایک زبردست انڈسٹری کی صورت اختیار کر لی ہے، جس میں اربوں کھربوں ڈالر کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔
انسانی پیدایش کے اسلامی ضوابط
اسلام اپنا ایک نظام رکھتا ہے۔ وہ عام حالات میں زندگی گزارنے کے طریقوں کی طرف راہ نمائی کرتا ہے اور ان میں کوئی دشواری لاحق ہونے پر کام یابی کے ساتھ ان کا حل پیش کرتا ہے۔ میڈیکل کی دنیا میں مروجہ مذکورہ بالا طریقوں کو اسلام کی بنیادی ا قدار اور اساسی تعلیمات کی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا۔ جو طریقے ان سے ٹکرائیں گے وہ کسی بھی صورت میں اس کے نزدیک قابل ِقبول نہیں ہوسکتے، البتہ جو ان سے متصادم نہیں ہوں گے انھیں اختیار کرنے کی اس کی طرف سے اجازت ہوگی۔
اسلام نے توالد و تناسل اور نسلِ انسانی کے تسلسل کے لیے نکاح کو مشروع کیا ہے۔ زوجین کے جنسی اتصال سے رحمِ مادر میں استقرارِ حمل ہوتا ہے۔عورت جنین کو نو مہینے اپنے پیٹ میں رکھتی ہے اور اپنے خون سے اس کی آبیاری کرتی ہے۔ اس طویل مدت میں وہ طرح طرح کی پریشانیاں اور تکلیفیں برداشت کرتی ہے۔ وضعِ حمل کا مرحلہ بھی بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ بچے کی پیدایش کے بعد دو برس وہ اسے دودھ پلاتی ہے۔ ان تمام مراحل کا بیان قرآن مجید میں موجود ہے (ملاحظہ کیجیے: النساء۴:۱، الاعراف۷: ۱۸۹، لقمان۳۱: ۱۴، الاحقاف۴۶: ۱۵)۔
 اسی بنا پر ماں کا تذکرہ باپ کے مقابلے میں زیادہ کیا گیا ہے اور اس کی فضیلتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ امومت (motherhood) کا جذبہ ہر عورت میں فطری طور پر ودیعت کیا گیا ہے۔ ماں بننے کے لیے ہی عورت ان تمام تکلیف دہ مراحل سے ہنسی خوشی گزرتی ہے۔ اب اگر کوئی عورت ان مراحل سے گزرے بغیر ماں بننا چاہے اور حمل اور وضع ِ حمل کے کاموں کے لیے دوسری عورت کی خدمات حاصل کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی فطرت سے بغاوت کر رہی ہے۔ عورت کو اس کا تو اختیار ہے کہ وہ کسی کی بیوی نہ بننا چاہے تو نکاح نہ کرے اور ماں نہ بننا چاہے تو جنسی تعلق سے احتراز کرے، لیکن اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے جسم کو سڈول رکھنے ،یا اس کی خوب صورتی کو دیر تک قائم رکھنے ،یا حمل اور وضع ِ حمل کی تکالیف سے بچنے کے لیے دوسری عورت کے رحم کو کرایے پر لے اور چند ٹکوں کے عوض اس سے بچہ پیدا کرواکے خود کواس بچے کی ماں بنا لے۔
اگر شوہر کا نطفہ، بیوی کا بیضہ اور اس کا رحم، سب صحیح سلامت اور صحت مند ہیں ،لیکن کسی نقص کے سبب نطفہ و بیضہ کا اتصال،’انسانی تخم کاری‘ اور استقرار ِ حمل ممکن نہ ہو تو قانونی بنیادوں پر نکاح کے رشتے میں بندھے میاں بیوی میں مصنوعی طریقہ ہائے تولید سے استفادہ جائز ہے۔ یہ عمل علاج کی صورت تصور کیا جائے گا، جس کی شریعت میں اجازت دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر اگر شوہر کسی وجہ سے جماع پر قادر نہ ہو، لیکن اس کا نطفہ حیاتیاتی اعتبار سے صحت مند ہو اوراس میں تولیدی صلاحیت موجود ہو، تو اسے کسی مصنوعی طریقے سے بیوی کے رحم میں منتقل کرنا، تاکہ وہ بیوی کے بیضہ سے مل کر بار آور ہوسکے، جائز ہوگا۔ اسی طرح اگر نطفہ اور بیضہ کا اتصال اور بارآوری فطری طریقے سے بیوی کے رحم میں ممکن نہ ہو تو ٹیسٹ ٹیوب میں ان کو بارآور کرکے بیوی کے رحم میں منتقل کرنا جائز ہوگا۔
البتہ اسلامی نقطۂ نظر سے ضروری ہے کہ ہرصورت میں نطفہ شوہر کا، بیضہ بیوی کا اور رحم بھی اسی بیوی کا ہو۔ اگر نطفہ شوہر کے علاوہ کسی اور مرد کا حاصل کیا جائے، یا بیضہ اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت سے لیا جائے ،یا نطفہ اور بیضہ تو زوجین کے ہی ہوں، لیکن دونوں کا استقرار اور جنین کی پرورش کسی اور عورت کا رحم کرایے پر لے کر اس میں کی جائے، تو یہ تمام طریقے اسلامی شریعت کی رُو سے قطعاً ناجائز ہیں۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
۱- شریعت میں اس چیز کو قطعاً حرام قرار دیا گیا ہے کہ کسی مرد کے نطفے سے ایسی عورت کا استقرار ِ حمل ہو، جس کا اس سے ازدواجی رشتہ نہ ہو۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
لَایَحِلّ لِامرِیٍٔ یُومِنُ بِاللّٰہِ وَالیَومِ الآخِرِأن یَّسقِيَ مَاؤہُ زَرعَ غَیرِہِ (ابوداؤد: ۲۱۵۸) کسی شخص کے لیے، جو اللہ اور روز ِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، جائز نہیں ہے کہ اپنے پانی (یعنی ماودۂ تولید) سے کسی دوسرے کی کھیتی کو سیراب کرے‘‘ (یعنی غیرعورت سے مباشرت کرے)۔
یہ حدیث اگر چہ استبراءِ رحم  کے پس منظر میں آئی ہے۔ یعنی کوئی عورت کسی مرد سے حاملہ ہو تو وضع ِ حمل سے قبل کسی دوسرے مرد کے لیے اس سے مباشرت جائز نہیں، لیکن اس کا عمومی مفہوم بھی لیا جا سکتا ہے کہ کسی مرد کا نطفہ کسی اجنبی عورت کے رحم میں داخل کرنا جائز نہیں ہے۔
۲- اسلام نے مردوں اور عورتوں ، دونوں کے لیے لازم کیا ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں:
قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ....وَقُل لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ (النور۲۴: ۳۰-۳۱)(اے نبیؐ!) مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ اور مومن عورتوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔
’شرم گاہوں‘ کی حفاظت کا وسیع مفہوم ہے۔ اس میں جہاں یہ بات شامل ہے کہ ماورائے نکاح کسی طرح کا جنسی تعلق قائم نہ کیا جائے وہیں اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ان سے کوئی ایسا کام نہ لیا جائے جو فطرت کے اصولوں اور شریعت کے ضابطوں کے خلاف ہو۔ رحم کی تخلیق استقرار ِ حمل سے وضعِ حمل تک جنین کی پرورش کے لیے کی گئی ہے۔ ضروری ہے کہ جنین کی تشکیل شوہر کے نطفہ اور بیوی کے بیضہ کے اتصال اور بارآوری کے نتیجہ میں ہو اور اس کی پرورش بیوی ہی کے رحم میں ہو۔
۳- اسلام میں نسب کی حفاظت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اس کے نزدیک یہ جائز نہیں کہ کوئی شخص اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی کو اپنا باپ کہے۔ اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ کوئی شخص کسی دوسرے کی اولاد کو اپنی اولاد قرار دے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَا جَعَلَ أَدْعِیَاءَکُمْ أَبْنَاءَکُمْ ذَلِکُمْ قَوْلُکُم بِأَفْوَاہِکُمْ (الاحزاب۳۳: ۴) اور نہ اس نے تمھارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارا حقیقی بیٹا بنایا ہے۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو۔
اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
اِنَّ مِن أَعظَمِ الفِرَیٰ أَن یَّدَّعِی الرَّجُلُ اِلٰی غَیرِ أَبِیہِ (صحیح البخاری: ۳۵۹۰) سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف خود کو منسوب کرے۔
رحمِ مادر کی کرایے داری سے اختلاط ِ نسب کا قوی اندیشہ ہوتا ہے۔جائز اور قانونی اولاد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی پیدائش اس عورت کے واسطے سے ہوئی ہو جو اس کے باپ سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو۔اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
الوَلَدُ لِلفِرَاشِ (صحیح البخاری:۷۱۸۲، مسلم:۱۴۵۷) بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر ( یعنی جس کی بیوی سے)پیدا ہوا ہو۔
اس حدیث کی رُو سے بچہ جس عورت کے بطن سے پیدا ہوگا ،قانونی طور پر اس کا اور اس کے شوہر کا کہلائے گا۔جس مرد کا نطفہ استعمال ہوا ہے اسے اس بچے کو اپنی طرف منسوب کرنے کی شرعی طور پر اجازت نہ ہوگی۔
۴- جو عورت اپنے رحم کو کرایے پر اٹھائے گی اور اسے کسی جوڑے کے بچے کی پرورش کے لیے پیش کرے گی، وہ چاہے شادی شدہ ہو یا بے شوہر کی (خواہ غیر شادی شدہ ہو یا مطلقہ یا بیوہ)، ہر صورت میں معاشرے میں اس پر بدکاری، بدکرداری اور دیگر ناپسندیدہ اور گھناؤنے الزامات لگنے کا قوی اندیشہ رہے گا۔
۵- رحمِ مادر کی کرایہ داری کے جواز کی صورت میں بہت سے خوف ناک اور بھیانک سماجی، اخلاقی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہوں گے، جن کا تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ مغرب میں عملاً ان کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک میں’بچہ سپر مارکیٹس‘ وجود میں آگئی ہیں۔ دولت مند طبقہ کی خواتین ایسی عورتوں کو تلاش کرتی ہیں، جو ان کے بچوں کی پرورش کے لیے اپنے رحم کرایے پر پیش کر سکیں اور غریب طبقہ کی عورتوں کی ایسی فوج تیار ہوگئی ہے، جو اپنے رحم کو کرایے پر اٹھا کر اچھا خاصا کمالیتی ہیں۔ اس چیز نے ایک انٹر نیشنل انڈسٹری کی شکل اختیار کر لی ہے اور اس کا رخ غریب ممالک کی طرف ہو گیا ہے، جہاں مال دار ممالک کے لوگ سفر کرکے آتے ہیں اور اپنے ممالک کے مقابلے میں کم خرچ پر بچے پیدا کرواتے ہیں۔ اس انڈسٹری کو ’تولیدی سیاحت‘ (Fertility Tourism){ FR 735 } کا نام دیا گیا ہے۔اس معاملے میں بھارت کو سبقت حاصل ہے ، چنانچہ اسے Surrogacy Capital of the World { FR 736 }کا درجہ دیا گیا ہے۔ ان قباحتوں کی وجہ سے مغرب کے سنجیدہ اور حساس طبقے میں اس کے خلاف آواز اٹھنے لگی ہے اور استحصال سے تحفظ کے لیے قانون سازی کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
’رحمِ مادر‘ کی کرایہ داری عالم ِ اسلام میں علما و فقہا، دانش وروں اور مجتہدین کے درمیان انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر غور و فکر کا موضوع بنا ہے۔ مشہور فقہا: ڈاکٹر جاد الحق علی جاد الحق (سابق شیخ الازہر مصر)، ڈاکٹر محمد سید طنطاوی (سابق شیخ الازہر)، ڈاکٹر یوسف القرضاوی(قطر) اور ڈاکٹر مصطفےٰ زرقاء (شام) نے اسے حرام قرار دیا ہے (ملاحظہ کیجیے، ڈاکٹر ہند الخولی، مقالہ:تأجیر الارحام في الفقہ الاسلامي، مجلۃ جامعۃ دمشق للعلوم الاقتصادیۃ والقانونیۃ، جلد ۲۷، شمارہ ۳، ۲۰۱۱ء، ص ۲۸۲-۲۸۳)۔ یہ موضوع رابطہ عالم اسلامی کی زیر نگرانی قائم اسلامک فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ (آٹھواں اجلاس، منعقدہ ۲۸؍ ربیع الثانی تا ۷؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۵ھ (۱۹۸۵ء)، اور تنظیم اسلامی کانفرنس کی زیر نگرانی قائم بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ (تیسرا اجلاس، منعقدہ عمان، ۸ تا ۱۳ ؍ صفر ۱۴۰۷ھ (۱۹۸۶ء) میں بھی زیر بحث آیا تھا اور ان میں بھی علما نے اسے بالاتفاق حرام قرار دیاتھا۔
’رحم مادر‘ کی کرایہ داری کو ’رضاعت‘ کے مسئلے پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔ دونوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ رحم میں جنین کی تخلیق اور پرورش ہوتی ہے۔ نطفہ و بیضہ کی بارآوری، حمل کا استقرار اور جنین کی پرورش، تمام مراحل میں صرف اس مرد اور عورت کا اشتراک جائز ہے جو نکاح کے بندھن میں بندھے ہوئے ہوں۔ بچے کی پیدائش کے بعد اسے دودھ پلانا ایک خارجی معاملہ ہے۔ اس کا جواز قرآن و سنت کے نصوص سے ثابت ہے۔ اس لیے اس پر قیاس کرکے غیرعورت کے رحم کی کرایہ داری کو جائز قرار دینا قطعاً درست نہیں ۔
اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔وہ جس کو چاہتا ہے اس نعمت سے نوازتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس سے محروم رکھتا ہے( الشوریٰ۴۲:۴۹-۵۰)۔ جس شخص کو یہ نعمت حاصل ہو اسے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور جو اس سے محروم ہو اسے چاہیے کہ وہ اسے آزمائش سمجھے اور اس پر صبر کرتے ہوئے اللہ سے اجر کی امید رکھے ۔ نکاح کے بعد اگر کچھ مدت گزر جانے کے باوجود اولاد نہ ہو تو زوجین کو کسی ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کے بعد اپنے مطلوبہ ٹیسٹ کرا لینے چاہییں۔اگر ایسے معمولی نقائص کا پتا چلے جن کا علاج اور تدارک ممکن ہو تواس کی حتّیٰ الامکان کوشش کرنی چاہیے۔  
اللہ کے آخری رسول ﷺ نے علاج کی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کا علاج رکھا ہے(ابو داؤد:۳۸۵۵)۔ اگر عورت میں کسی ایسے دائمی مرض کا علم ہو جس کی وجہ سے وہ بچہ پیدا کرنے کے قابل نہ ہو تومرد دوسرا نکاح کر سکتا ہے اوربیوی کو تنگ دلی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے بخوشی اس کی اجازت دے دینی چاہیے۔اور اگر کمی مرد میں ہو ،اس کے باوجود عورت بخوشی اس کے نکاح میں رہنا چاہتی ہو تو وہ اپنے رشتے کے کسی بچے کو گودلے کر اس کی پرورش کرسکتی ہے۔ اس صورت میںاس بچے کی نسبت تو اس کے حقیقی باپ کی طرف ہوگی،البتہ یہ جوڑا اس کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت کا اجر پائے گا۔واللہ اعلم بالصواب

 

ویسے تو خطہ جموں و کشمیر کی تاریخ میں سبھی مہینے بہت سی خونیں یادیں لے کر وارد ہوتے ہیں، مگر ۷۳ سال قبل اکتوبر کا مہینہ بدقسمتی کا ایک ایسا تازیانہ لے کرآیا، کہ اس سے چھٹکارے کی دور دور تک امید نظر نہیں آرہی ہے۔ برصغیر میں جب دو مملکتیں بھارت اور پاکستان وجود میں آکر آزاد فضاؤں میں سانسیں لینے کا آغاز کر رہی تھیں، امید تھی کی صدیوں سے غلامی اور مظالم کی چکی میں پسنے کے بعد اس خطے کے باسیوں کو بھی راحت ملے گی، مگر قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔  کچھ اپنے لیڈروں کے خود غرض اور عاقبت نااندیش فیصلوں، اور کچھ قوم کی نادانی اور ان بے لگام اور احتساب سے بالاتر لیڈروں کے پیچھے پالتو جانوروں کی طرح چلنے کی روش نے کشمیری قوم پر آزمایش اور ابتلا کا ایک ایسا دور شروع کیا، جو آج ایک بدترین مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔

جب بھارت اور پاکستان صبح آزادی کا جشن منانے میں مصروف تھے، اس وقت جموں خطے میں دنیا کی بدترین نسل کشی ہو رہی تھی۔ کئی بر س قبل جب دہلی میں ایک پروگرام کے دوران میں نے دی ٹائمز لندن کی ۱۰؍اگست ۱۹۴۸ءکی ایک رپورٹ کا حوالہ دے کر بتایا کہ اس نسل کشی میں ۲ لاکھ۳۷ہزار افراد کو ہلاک کردیاگیا تھا، تو سبھی کا یہی سوال تھا، کہ اتنا بڑا قتل عام آخر تاریخ اور عام اخبارات سے کیسے یکسر غائب ہے ؟ کشمیر کے ایک سابق بیوروکریٹ خالد بشیر کی تحقیق کا حوالہ دے کر ٹائمز آف انڈیا کے کالم نویس سوامی انکلیشور ائیر اور معروف صحافی سعید نقوی نے بھی جب جموں قتل عام کو اپنے کالم کا موضوع بنایا، تو کئی تحقیقی اداروں میں تہلکہ مچ گیا۔ مگر جلد ہی اس پر مباحثے کو دبادیا گیا۔

جدید تاریخ کی اس بدترین نسل کشی پر تعصب اور بے حسی کی ایسی دبیز تہہ جم چکی ہے، کہ کوئی یقین ہی نہیں کر پارہا ہے۔اس نسل کشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، کہ ۱۹۴۱ میں جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی۳۲ لاکھ اور ہندؤوں کی آبادی آٹھ لاکھ تھی۔وادی کشمیر میں ۹۳فی صد جب کہ جمو ں میں ۶۹فی صد مسلم آبادی تھی۔ اگر ان علاقوں کو، جو تقسیم کے بعد آزادکشمیر کا حصہ بنے، انھیں شمار نہ کیا جائے تو موجودہ جموں و کشمیر میں مسلم آبادی ۷۷ء۱  فی صد تھی۔ ۱۹۶۱ءکی مردم شماری میں مسلم آبادی گھٹ کر۶۸ء۲۹ فی صد رہ گئی تھی۔ جموں خطے میں مسلمانوں کی اکثر یتی شناخت کو چند مہینوں میں ہی اقلیت میں تبدیل کیا گیا۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق جموں کے خطے میں مسلم آباد ی کا تناسب ۳۳ء۴۵  فی صدہے۔

جموں کشمیر کی جدید صحافت اور مؤقر انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کے بانی آنجہانی وید بھسین ۱۹۴۷ء کے واقعات، اور جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے وہ چشم دید گواہ تھے۔  ان کے بقول: ’’ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ نے اس علاقے میں باضابطہ ٹریننگ کیمپ کھولے تھے، جن میں نہ صرف ہتھیاروں کی مشق کرائی جاتی تھی، بلکہ مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی بھی کی جاتی تھی‘‘۔ وہ کہتے تھے: ’’اور ہندو ساتھیوں کی دیکھا دیکھی میں بھی ٹریننگ کیمپ میں چلا گیا، مگر جلد ہی سڑکوں پر کشت و خون سے دلبرداشتہ ہو گیا۔ اس کو روکنے کے لیے، میں، بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ مہاراجا کے محل پہنچا۔ ہمیں جلد ہی وزیر اعظم مہرچند مہاجن کے روبرو لے جایا گیا۔ وہ الٹا ہمیں سمجھانے لگا کہ ہندو ہونے کے ناطے، ہمیں اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوںکا مطالبہ کرنا چاہیے، کیونکہ اب جمہوری دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے‘‘۔ اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا کہ ’’یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے‘‘۔ اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’بالکل اس طرح‘۔ جب ہم نے بغور دیکھا تو چند مسلم گوجروں کی بے گور و کفن لاشیں نظر آئی، جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے‘‘۔بقول وید بھسین، مہرچند مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے پر اڑا ہوا تھا۔ جب میں نے ایک دن ان سے پوچھا کہ وزیراعظم جواہر لال نہرو کی ایما پر جموں و کشمیر انتظامیہ کی لگام شیخ محمد عبداللہ کے ہاتھوں میں دی گئی تھی، تو انھوں نے اس قتل عام کو روکنے کی کوشش آخر کیوں نہیں کی؟ تو وید جی نے کہا: 'ہم نے کئی بار ان کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کی۔ میں خود بھی نیشنل کانفرنس میں شامل تھا، مگر وہ ان سنی کرتے رہے۔ یا تو وہ معذور تھے، یا جان بوجھ کر جموں کے معاملات سے الگ رہنا چاہتے تھے۔ بعد میں بھی کئی بار میں نے شیخ صاحب کو کریدنے کی کوشش کی، مگر یہ ذکر چھڑتے ہی وہ لب سی لیتے تھے یا کہتے تھے کہ ’’جموں کے مسلمانوں نے ان کوکبھی لیڈر تسلیم ہی نہیں کیا تھا‘‘۔ ان کو شکوہ تھا کہ کشمیری مسلمانوں کے برعکس ۱۹۳۸ء میں جب انھوں نے مسلم کانفرنس سے کنارہ کرکے نیشنل کانفرنس کی بنیاد ڈالی، تو جموں کے مسلمانوں نے ان کے مقابلے میں چودھری غلام عباس کا دامن تھامے رکھا۔ محقق خالد بشیر لکھتے ہیں: مسلم کش فسادات کا سلسلہ کشمیر میں قبائلی پٹھانوں کے داخل ہونے سے قبل ہی شروع کردیا گیا تھا۔ اس لیے متعصب مؤرخین اور تاریخ سے نابلد اور عاقبت نااندیش صحافیوں کا یہ کہنا کہ ’’وادی میں قبائلیوں کے حملے کے ردعمل میں جموں میں فسادات ہوئے، درست بات نہیں ہے، کیونکہ واقعات ان کی نفی کرتے ہیں‘‘۔

اس خطے پر اب ایسی نئی افتاد آن پڑی ہے، کہ فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں یہ ۳۳فی صد رہ جانے والی مسلم آبادی بھی کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ جموں خطے کے مسلم اکثریتی پیر پنچا ل اور چناب ویلی کے علاقوں سے مسلمان آکر جموں شہر اور اس کے آس پاس زمینیں خرید کر بس جاتے ہیں، جو کہ ’لینڈ جہاد ‘ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس سے جموں شہر اور اس کے   آس پاس آباد ی کا تناسب بگڑ رہا ہے‘‘۔ کیا پونچھ، راجوری، ڈوڈہ، بھدرواہ کے اضلاع جموں خطے کا حصہ نہیں ہیں؟  اگر ان دُور دراز علاقوں سے تعلیم اور معاش کے لیے لوگ اس خطے کے واحد بڑے شہر جموں وارد ہوتے ہیں، تو اس سے آبادی کا تناسب کیسے بگڑ سکتا ہے؟ دوسال قبل ایک مہم کے تحت جموں میں مسلمان گوجروں اور بکر والوں کی بستیوں کو ٹھنڈی ، سنجواں ، چھنی ،گول گجرال ، سدھرا ، ریکا، گروڑا اور اس کے گرد و نواح سے جبری طور پر بے دخل کردیا گیا۔ حالانکہ یہ زمینیں مہاراجا ہری سنگھ کے حکم نامے کے تحت ۱۹۳۰ء میں ان لوگوں کو دی گئی تھیں۔ دراصل جموں کا پورا نیا شہر ہی جنگلاتی اراضی پر قائم ہے، لیکن صرف مسلم اکثریتی علاقوں کو نشانہ بنانے کا مطلب مسلمانوںکو اس خطے سے بے دخل کرنا تھا، جہاں وہ پچھلے ۷۰برسوں میں کم ہوتے ہوتے حاشیے پر چلے گئے ہیں۔اب حال میں یہ افسانہ بیچا جا رہا ہے کہ ’’پچھلے کئی برسوں سے ’جموں و کشمیر روشنی ایکٹ‘ کے تحت زمینوں کے وسیع و عریض قطعے مسلمانوں کے حوالے کیے جارہے ہیں‘‘۔ اس سلسلے میں بے لگام بھارتی ٹی وی چینلوں نے بھی بغیر کسی ثبوت اور دستاویز کے طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیا ہے۔ برسوں کی عدالتی غلام گرد شوں سے تنگ آکر۲۰۰۱ء میں حکومت نے ’روشنی ایکٹ‘ کو اسمبلی میں پاس کروایا، جس کی رُو سے ۲۰لاکھ کنال کی حکومتی زمین پر لوگوں کے مالکانہ حقوق کو معاوضہ کے   عوض تسلیم کیا گیا تھا، بشرطیکہ وہ اس زمین پر ۱۹۹۰ءسے قبل رہ رہے ہوں۔ اس سے حکومت کو ۲۵۰بلین روپے کی رقم کمانے کی امید تھی۔۲۰۰۵ء میں وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے ۱۹۹۰ءسے بڑھا کر یہ مدت ۲۰۰۵ء، اور بعد میں غلام نبی آزاد نے ۲۰۰۷ء کردی۔ معلوم ہوا چونکہ اس کا فائدہ سیاست دانوں اور نوکر شاہی نے ا ٹھایا تھا، اس لیے حکومت ۷۰کروڑ روپے کی رقم ہی اکٹھا کرپائی۔

معروف صحافی مزمل جلیل نے ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس قانون کی رُو سے جموں میں۴۴۹۱۲ کنال زمین تقسیم ہوئی تھی، جس میں محض۱۱۸۰ کنال زمین یعنی۲ء۶۳ فی صد ہی مسلمانوں کے حصے میں آئی۔ مسلمانوں کو زمینوں کے مالکانہ حقوق دینا تو دُور کی بات، ان کی وقف زمینوں پر بے جا قبضے کر لیے گئے ہیں۔ چند برس قبل جلیل نے جب وقف زمینوں کو ہتھیانے پر تحقیق شروع کی، تو معلوم ہوا کہ نہ صرف فرقہ پرست، بلکہ حکومت کے مقتدر حلقے خود اس خرد برد میں ملوث تھے۔ اس خطے میں۳۱۴۴  کنال وقف زمین غیر قانونی  قبضہ میں ہے، جس میں کئی قبرستان ، رنبیر سنگھ پورہ کی جامع مسجد، چاند نگر کی زیارت وغیرہ شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مڑتحصیل میں وقف کونسل کی ۴۶۰کنال زمین ہے، جس کو محکمہ تعلیم نے ہتھیا یا ہے اور مسجد کو گوردوارے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مقامی افراد نے بقیہ زمیں پر آبادی کھڑی کر دی ہے۔ چاند نگر میں پیر بابا کی زیارت کے احاطے پر سبھاش نامی ایک شخص نے قبضہ جما لیا ہے۔ تحصیل سانبہ کے تھلوری گجران میں ۴۹کنال قبرستان پر ایک مندر اور اسکول بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ۶۵کنال زمین پر پولیس نے اپنا ٹریننگ اسکول تعمیر کیا ہے۔ ریہاری کی ۴۹کنال قبرستان کی زمین پر فوج کا قبضہ ہے۔ ’مسلم وقف کونسل‘ کی طرف سے بار بار نوٹس دینے کے باوجود فوج اس کو خالی نہیں کررہی ہے۔ اس قبرستان کا ایک قطعہ حکومت نے ایک بیوہ ایودھیا کماری کو ’عطیہ‘ کردیاہے۔ ’وقف کونسل‘ کی اجازت کے بغیر ہی ۶۰کنال کی زمین پولیس کو دی گئی ہے۔ جموں میونسپل کارپوریشن نے قبرستان کے ایک حصے پر بیت الخلا تعمیر کروائے ہیں۔ تحصیل سانبہ کے لیکی منڈا علاقے میں وقف کی۹۸کنال زمین ضلع سینک بورڈ کے حوالے کی گئی ہے۔ چنور گاؤں میں ۲۰کنال زمین بھی پولیس کے تصرف میں ہے۔ تحصیل اکھنور کے مہر جاگیر ۶۵کنال قبرستان پر مقامی افراد نے مکانات تعمیر کیے ہیں۔ اسی طرح پیر گجر میں بھی پولیس نے وقف کی ۳۷کنال زمین ہتھیا لی ہے۔

اگر موجودہ حالات اور کوائف پر نظر ڈالی جائے تو  اس بات کا خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ۱۹۴۷ء کے واقعے کو پھر سے دہرایا جا سکتا ہے، جیسا کہ سابق وزیر چودھری لا ل سنگھ نے ایک مسلم وفد کو ۱۹۴۷ء یاد کرنے کا مشور ہ دیا تھا۔ اس سلسلے میں بھارت میں مسلم قائدین سے بھی گزارش ہے کہ کچھ ملّی حمیت کا ثبوت دے کر عمل سے نہ سہی ، کچھ زبانی ہی جموں کے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام کریں۔ اگر لال سنگھ یا اس طرح کے افراد اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہیں، تو خون ان گونگے، بہرے، مسلم لیڈروں کی گردنوں پر بھی ہوگا۔ وزیر اعظم نریند ر مودی کی حکومت ،جو بیرونِ ہند گاندھی جی کی تعلیمات کو استعمال کرکے بھارت کو دنیا میں ایک اعتدال اور امن پسند ملک کے طور پر اجاگر کروانے کی کوشش کرتی ہے، کو اسی گاندھی کے ہی ایک قول کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں: ــ’’ہندستان اگر رقبے میں چھوٹا ہو، لیکن اس کی روح پاکیزہ ہو تو یہ انصاف اور عدم تشدد کا گہوراہ بن سکتا ہے۔ یہاں کے بہادر لوگ ظلم و ستم سے بھری دنیا کی اخلاقی قیادت کرسکتے ہیں۔ لیکن صرف فوجی طاقت کے استعمال سے توسیع شدہ بھارت مغرب کی عسکری ریاستوں کا تیسرے درجے کا چربہ ہوگا، جو اخلاق اور آتما سے محروم رہے گا۔اگر بھارت جموں و کشمیر کے عوام کو راضی نہیں رکھ سکا، تو ساری دنیا میں اس کی شبیہہ مسخ ہو کر رہ جائے گی‘‘۔ بقول شیخ عبداللہ، گاندھی جی کہتے تھے، کہ ’’کشمیر کی مثال ایسی ہے، جیسی خشک گھاس کے انبار میں ایک دہکتے ہوئے انگارے کی۔ذرا بھی ناموافق ہوا چلی تو سارے کا سار ا برصغیر اس آگ کے شعلوں میں لپٹ جائے گا‘‘۔ مگر گاندھی کے نام لیوا تو اس کی تعلیمات کب کی بھول چکے ہیں، اور اس کا استعمال تو اب صرف سفارتی ڈگڈگی بجا کر دنیا کے سامنے بچے جمورے کا کھیل رچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔