عالم اسلام کو ایک بار پھر اپنی تاریخ کی سنگین تر آزمایشوں کا سامنا ہے۔ دشمنوں کی عیارانہ سازشیں بھی انتہا پر ہیں اور اپنوں کی غلطیاں اور جرائم بھی آخری حدوں کو چھورہے ہیں۔ سامراجی چالیں عالم اسلام کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کررہی ہیں اور کئی مسلم حکمرانوں اور گروہوں کے مظالم کے سامنے ہلاکو اور چنگیز بھی بونے نظر آ رہے ہیں۔ رب ذو الجلال کی ذات کا سہارا نہ ہوتا، اس کی طرف سے لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط ، وَ لَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ (اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں) جیسی تلقین اور اِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (یقینا تنگی کے ساتھ ہی آسانی ہے) جیسے مسلمہ اصول نہ ہوتے، تو لگتا کہ پانی سر سے گزر چکا، عالم اسلام کا اختتام قریب آن لگا اور اُمت پھر زوال پذیر ہوگئی۔
مسلم ممالک اور اپنے معاشرے پر نگاہ دوڑائیں تو ہم ان سب نافرمانیوں پر تلے ہوئے ہیں جن کے انجام بد سے خالق کائنات نے خبردار کیا تھا۔ واضح طور پر بتادیا گیا تھا کہ: وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ (الانفال۸: ۴۶)’’اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوااکھڑ جائے گی‘‘۔ لیکن ہم ایک نہیں کئی کئی اختلافات و تنازعات میں دھنسے ہوئے ہیں۔ ظلم کرنے سے بار بار منع کرتے ہوئے ہمیں خبردار کردیا گیا تھا کہ: وَمَنْ یَّظْلِمْ مِّنْکُمْ نُذِقْہُ عَذَابًا کَبِیْرًاo (الفرقان۲۵: ۱۹) ’’اور جو بھی تم میں سے ظلم کرے اُسے ہم سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے‘‘۔ لیکن آج ہم میں سے کسی فرد کا داؤ چلے یا کسی حکومت کے ذاتی مفادات خطرے میں پڑیں، ہم ظلم کے وہ پہاڑ توڑ دیتے ہیں کہ الأمان الحفیظ!ہمیں کسی بھی ظالم کا ساتھ دینے سے خبردار کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں بتا دیا گیا تھا کہ:وَ لَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ لا وَ مَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَآئَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ o (ھود۱۱: ۱۱۳)’’اِن ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاؤ گے اور تمھیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمھیں بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی‘‘۔ لیکن ہم اپنے عارضی اور محدود مفادات کی خاطر، سفاک ترین ظالم کے حق میں بھی دلیلوں کے انبار لگانے لگتے ہیں۔ ہمیں بدکاری کرنے سے ہی نہیں، بدکاری کے قریب بھی پھٹکنے سے منع کرتے ہوئے بتادیا گیا تھا کہ: وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ط وَ سَآئَ سَبِیْلًاo(بنی اسرائیل ۱۷:۳۲)’’اور زنا کے قریب نہ پھٹکو۔ وہ بہت بُرا فعل ہے اور بڑا ہی بُرا راستہ‘‘۔ ہم ضرورت کی ادنیٰ ترین چیز کو بھی فحش اشتہارات کے بغیر بازار میں نہیں لاتے۔
ایک ایک کرکے خالق کے تمام احکامات کو سامنے رکھ کر دیکھ لیں۔ ہم بحیثیت فرد ہی نہیں بحیثیت اُمت و ملت انھیں پامال کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ ہماری ان تمام نافرمانیوں کو خالق نے ایک لفظ میں سمو کر اور اس سے خبردار کرتے ہوئے، راہ نجات کی طرف بھی نشان دہی کر دی ہے۔ وہ لفظ ہے: ’ظلم‘۔ جو کبھی دشمنوں کی طرف سے ہوتا ہے اور کبھی اپنوں ہی کے ہاتھوں۔ کبھی دوسروں پر کیا جاتا ہے اور کبھی خود اپنی ہی جان پر۔ ظلم کی ان تمام اقسام سے نجات حاصل کرنے کا اولین قدم، ظلم کو ظلم سمجھنا اور اسے ظلم کہنا ہے۔ آدم علیہ السلام کو جیسے ہی احساس ہوا تو وہ فوراً پکار اُٹھے: رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (اعراف۷:۲۳)’’اے ہمارے پروردگار ہم خود پر ظلم کربیٹھے ہیں، آپ نے معاف نہ فرمایا تو خسارہ پانے والوں میں شمار ہوں گے‘‘، جب کہ ابلیس سراسر نافرمانی کے بعد بھی بولا: رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَo (الحجر۱۵: ۳۹) ’’اے اللہ جیسا تو نے مجھے بہکایا اسی طرح اب میں بھی (ان بندوں کے سامنے) گناہوں کو خوش نما بناکر پیش کروں گا اور ان سب کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا‘‘۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دُعا فرمایا کرتے تھے کہ: و أرنا الباطل باطلاً و ارزقنا اجتنابہ، ’’اور ہمیں باطل کو باطل ہی دکھا اور اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرما‘‘۔
پانچ برس گزر گئے جب عالم اسلام میں اُمید ِبہار دکھائی دی تھی۔ ۳۰،۳۰ ؍ ۴۰،۴۰ سال سے اپنی قوم پر مسلط ظالم ڈکٹیٹر شپ کے بت گرنے لگے۔ صہیونی عزائم اور عالمی نقشہ گروں کو اپنے منصوبے خاک میں ملتے دکھائی دیے، تو پہلے شام پھر مصر، لیبیا اور یمن میں انھی ’اپنوں‘ ہی کو اپنے عوام پر بدترین مظالم ڈھانے کی راہ دکھا دی۔ آج صرف شام میں ۳ لاکھ سے زائد شہید، اور ڈیڑھ کروڑ سے زائد انسان بے گھر ہوچکے ہیں۔ پورا ملک کھنڈرات کا ڈھیر بن چکا ہے۔ منفی ۲۰ درجے کی سردی ہو یا جھلسا دینے والی گرمی، تیزی سے رزق خاک بنتے یہ انسان مہاجر کیمپوں ہی میں مقید رہنے پر مجبور ہیں۔ کیمپوں کی یہ زندگی اس قدر جان لیوا ہے کہ اس سے نجات پانے کے لیے مہاجرین کی بڑی تعداد آئے دن وہاں سے نکلنے کی کوششوں کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔ابھی ۲۱جنوری کو بھی یونان کے قریب ۲۲ بچوں سمیت ۴۵ افراد سمندر کے برفیلے پانیوں میں ڈوب کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مہاجر کیمپوں میں خوراک ناپید ہونے کا یہ عالم ہے کہ حالت اضطرار میں بلیاں اور کتے تک کھانے کے فتوے جاری ہوجاتے ہیں۔ سفاکی کا عالم یہ ہے کہ حکومت مخالف کسی ایک قصبے کو فتح کرنے کے لیے اس کا مکمل محاصرہ کرلیا جاتا ہے، یہاں تک کہ بڑی تعداد میں بچے اور بوڑھے بھوک کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن بشارالاسد اور اس کی مددگار افواج کا دل موم نہیں ہوپاتا۔ گذشتہ دسمبر اور جنوری میں شام کے قصبے ’مضایا‘ پر گزرنے والی قیامت نے کئی عالمی اداروں تک کو جھنجھوڑ ڈالا، لیکن ہم مسلمان، ہمارے ذرائع ابلاغ اور حکمران تو شاید اس قصبے کانام تک بھی نہیں جانتے۔ جانتے بھی ہیں تو اسے کسی نہ کسی مذہبی، علاقائی یا قومیتی تعصب کی چادر میں چھپا کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق صرف شام میں ایسے محصور علاقوں کی تعداد ۱۵ ہے جن میں ساڑھے چار لاکھ سے زائد انسان حشرات الارض سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
عراق کے علاقے ’المِقدادیۃ‘ اور یمن کے شہر’تَعِز‘ میں بھی یہی صورت حال ہے۔ عراق کے سابق نائب صدر طارق الہاشمی کے مطابق’المقدادیۃ‘ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ وہاں کی مساجد کئی روز سے اذان کی آواز سے محروم ہیں۔ مذہبی اختلاف و تعصب اور شیعہ و سُنّی کی تقسیم یقینا وہ زہرِ قاتل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس سے اسلامی تحریکوں کو محفوظ رکھا ہے، اور وہ پوری اُمت کو اس زہر سے محفوظ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم، یہاں مرض کی تشخیص و شدت بیان کرنے کے لیے مجبوراً یہ اصطلاحات ہی استعمال کرنا پڑرہی ہیں۔ گذشتہ دو ماہ کے دوران المقدادیۃ میں اہلسنت کی اتنی مساجد شہید کردی گئیں کہ خود عراق کے اعلیٰ ترین شیعہ رہنما آیت اللہ السیستانی نے ۱۵جنوری کو اپنے خطبہء جمعہ میں عراقی حکومت کو اس مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے یہ سلسلہ رُکوانے کا مطالبہ کیا۔ ضلع ’دیالا‘ ایران کے ساتھ جس کی سرحد ۲۴۰ کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے اور جس کی آبادی کا ۸۵ فی صد اہل سنت پر مشتمل تھا، بھی ایسی ہی بربادی کا شکار ہے۔
چند علاقوں کے یہ نام تو محض ایک مثال ہیں وگرنہ ۲۰۰۳ میں امریکی افواج کی آمد کے بعد سے پورا عراق، اور اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنے والے شامی عوام کے خلاف بشار الاسد کی فوجی کارروائیاں شروع ہونے کے بعد سے پورا شام، خون آشام ہے۔ ان دونوں ملکو ںمیں اب تک بلامبالغہ لاکھوں انسان اور ہزاروں مساجد اور امام بارگاہیں شہید کی جاچکی ہیں۔ صد افسوس کہ دونوں ملک اب کبھی شاید پہلے والے ممالک نہ بن سکیں گے۔ عراق تین ملکوں میں تقسیم کیا جاچکا ہے اور شام کئی ٹکڑیوںمیں۔ یہ بندگان خدا ان ٹکڑیوں میں بٹ کر ہی کوئی نئی زندگی شروع کرلیتے تو شاید غنیمت ہوتا، لیکن صہیونی ریاست اور عالمی طاقتوں کا ایجنڈا ابھی مکمل نہیں ہوا۔ ابھی ان کا خون مزید بہایا جانا ہے۔ لڑانے اور لڑنے والوں کے خوں ریز جبڑوں سے مسلسل ایک ہی جہنمی آواز سنائی دے رہی ہے: ھل من مزید...؟ ھل من مزید...؟
مذہبی تعصب کے ساتھ ساتھ اب یہ تنازعات ایک مہیب علاقائی جنگ میں بھی بدل گئے ہیں۔ پہلے تو اظہار نہیں ہوتا تھا لیکن اب مسلسل اعتراف و اعلان کیے جارہے ہیں۔شام اور عراق سے آئے روز ایران اور لبنان (حزب اللہ) کے عسکری ذمہ داران اور سپاہیوں کے تابوت و جنازے واپس آتے ہیں۔ ان کے اعلیٰ عسکری منصوبہ ساز وہاں مستقلاً موجود ہیں۔ ایرانی ملیشیا القدس بریگیڈ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی وہاں کے اصل حکمران قرار دیے جاتے ہیں۔ گذشتہ ماہ شام میں ایرانی پاس داران انقلاب کے ایک اہم ذمہ دار حمید رضا اسد اللہی مارے گئے، تو جنازے کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پاس داران کے سربراہ محمد علی جعفری نے ایک تہلکہ خیز بیان دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے گذشتہ عرصے میں شام، عراق، یمن، افغانستان اور پاکستان کے ۲ لاکھ نوجوانوں کو فوجی تربیت دی ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کو عسکری تربیت دینے کا مقصد کیا ہے؟
برادر مسلم ممالک کے مابین یہ کھلی جنگ کس حد تک سنگین ہوچکی ہے اس کا اندازہ اسی مثال سے لگا لیجیے کہ گذشتہ مہینے شام میں حزب اللہ کے ایک بڑے کمانڈر سمیر قنطار قتل ہوگئے۔ سَمیرِ قنطار اُمت مسلمہ کے وہ ہیرو تھے کہ ۲۸ سال تک اسرائیل کی قید میں رہے۔ رہائی کی کئی ناکام کوششوں کے بعد بالآخر حماس کے ہاتھوں اغوا ہونے والے صہیونی فوجی کے بدلے میں رہائی پانے والوں میں درجنوں فلسطینی قیدیوں کے علاوہ لبنانی سَمِیْر القنطار بھی شامل تھے۔ ان کی رہائی لبنان میں ایک قومی جشن میں بدل گئی اور دنیا بھر کے ٹی وی سکرینوں پر براہِ راست دکھائی گئی۔ لیکن صہیونی ریاست کے خلاف اتنی طویل جدوجہد کی تاریخ رکھنے والا سَمِیْر مسجد اقصیٰ پر قابض یہودی سے لڑائی میں شہید نہیں ہوا، گذشتہ ماہ بشار الاسد کے فوجیوں کے ساتھ مل کر مظلوم شامی عوام کے خلاف لڑتے ہوئے مارا گیا۔ شام میں ان کا مارا جانا خطے کے عوام میں مزید تنازعے اور اختلافات کا باعث بنا۔ شامی عوام اور ان کے حامیوں نے اس قتل پر مبارک بادوں کا تبادلہ کیا، جب کہ بشارانتظامیہ اور حزب اللہ نے اس پر گہرے صدمے اور دکھ کا اظہا ر کیا۔ یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی طویل تاریخ رکھنے کی وجہ سے تحریک حماس نے سمیر کے لیے چند سطری تعزیتی بیان جاری کردیا، تو اس پر شامی اور خلیجی عوام نے سخت احتجاج کرتے ہوئے حماس کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا، چند ہی روز بعد بشار الاسد کے خلاف مزاحمت کی ایک بڑی علامت اور ۴۰ مختلف شامی مسلح گروہوں کے اتحاد ’جیش الاسلام‘ کے سربراہ زھران علوش قتل ہوگئے۔ ان پر روسی جہازوں نے بمباری کی تھی۔ ان کی شہادت پر الاخوان المسلمون شام سمیت بشار مخالف تمام اطراف نے سوگ منایا، لیکن ایران و حزب اللہ سمیت بشار کے حامی تمام عناصر نے اس پر خوشی کا جشن منایا۔ اس موقعے پر صرف ایک ملک ایسا تھا جس نے ان دونوں قائدین کے قتل پر سُکھ کا سانس لیا اور وہ تھا اسرائیل۔ تیسری جانب اسی عرصے میں ترکی، عراق، لیبیا، یمن، نائیجیریا اور سعودی عرب میں کئی ایسے خوں ریز بم دھماکے ہوئے، جن میں سیکڑوں بے گناہ شہری شہید و زخمی ہوئے۔ ان دھماکوں میں سے اکثر کی ذمہ داری سرکاری طور پر داعش نے قبول کرتے ہوئے اپنی ان کارروائیوں میں تیزی لانے کا اعلان کیا۔
اب ان جھلکیوں کی مدد سے آج مشرق وسطیٰ کا نقشہ دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ترکی کا اپنی فضائی حدود میں گھس آنے والا روسی جنگی جہاز مار گرانا، روس کا ترکی کو سنگین دھمکیاں دینا یا سعودی عرب میں سزاے موت پانے والے ۴۷ افراد میں ایک شیعہ رہنما بھی شامل ہونے پر ایران کا شدید مشتعل ہوجانااو رتہران میں سعودی عرب کا سفارت خانہ اور مشہد میں اس کا قونصل خانہ جلاڈالنا، اصل تنازع نہیں، بلکہ یہ خطے میں جاری ایک بڑی جنگ کے چند خوف ناک شعلے ہیں۔ عالم اسلام کے سب دشمن ان شعلوں کو مزید ہوا دینے کے لیے سرگرم ہیں۔
امریکا، اسرائیل اور دیگر مغربی ممالک کے فکری مراکز تجزیے کررہے ہیں کہ:what would a Saudi - Iran war look like? dont look now, but it is already here (ایران و سعودی عرب کی جنگ کیسی ہوگی؟ اگرچہ یہ اس وقت دکھائی نہیں دیتی لیکن یہ عملاً جاری ہے)۔ اعداد و شمار شائع کیے جارہے ہیں کہ افواج اور عسکری سازوسامان کے اعتبار سے سعودی عرب ۲۸ ویں، جب کہ ایران ۲۳ ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب کی افواج ۲ لاکھ ۳۳ ہزار، جب کہ ایران کے ۵لاکھ ۴۵ہزار ہیں۔ سعودی عرب کے پاس ۱۲۱۰ ٹینک ہیں اور ایران کے پاس ۱۶۵۸۔ سعودی عرب کے پاس ۱۵۵ جنگی جہاز ہیں اور ایران کے پاس ۱۳۷ (Globe Fire Power)۔ اس طرح کے اعداد و شمار شائع کرنے کا ایک مقصد یقینا یہ بھی ہے کہ جنگ کا ماحول اور خوف کی فضا بنا کر مزید اسلحہ بیچا جائے۔ اسی ماحول میں ۱۳ جنوری کو کویتی پارلیمنٹ نے اپنے محفوظ مالی ذخائر میں سے اضافی ۱۰؍ ارب ڈالر منظور کیے تاکہ ان سے مزید اسلحہ خریدا جاسکے۔ یہی عالم خطے کے دیگر کئی ممالک کی طرف سے کیے جانے والے کئی بڑے عسکری معاہدوں کا ہے۔
داعش کے خلاف امریکی جنگ بھی خود اعلیٰ امریکی ذمہ داران کے بقول آیندہ ۳۰ برس تک جاری رہنا اور اس پر ۵۵۰؍ ارب ڈالر کا بجٹ آنا ہے۔ اس بجٹ کا بڑا حصہ بھی خطے کے مسلم ممالک ہی سے لیا جانا ہے۔ یہ دونوں پہلو (۳۰ سالہ جنگ اور ۵۵۰؍ ارب ڈالر کا بجٹ) ذہن میں رکھیں تو پھر یہ راز کوئی راز نہیں رہتا کہ تمام تر فوجی کارروائیوں اور بمباری کے باوجود بھی داعش کیوںکر ایک کے بعد دوسرا میدان سر کرتی جارہی ہے۔
امریکی کونسل براے اُمور خارجہ کے سینئرمحقق میکازنکو (Micah Zenko) ۷جنوری کو اپنی ایک تحریر میں گذشتہ ایک سال میں امریکا کی طرف سے مسلمان ملکوں پر گرائے گئے بموں کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اوباما انتظامیہ نے صرف ۲۰۱۵ میں عراق، شام، افغانستان، پاکستان، یمن اور صومالیہ پر ۲۳ہزار ایک سو۴۴ بم برسائے‘‘۔ (حقیقی تعداد یقینا اس سے زیادہ ہوسکتی ہے کہ اس میں پاکستان پر برسائے گئے بموں کی تعداد صرف ۱۱ لکھی ہے)۔ لیکن خود زنکو اس امر پر تمسخر خیز حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’امریکی وزارت دفاع کے ذمہ داران کے مطابق اس بمباری سے داعش کے ۲۵ ہزار مسلح عناصر مار ے گئے۔ ۲۰۱۴ میں سی آئی اے کا کہنا تھا کہ داعش کے مسلح عناصر کی تعداد ۲۰ سے ۳۱ ہزار تک ہے۔ ان میں سے ۲۵ ہزار مارے جانے کے بعد اب ان سے پوچھیں کہ داعش کے ان عناصر کی تعداد کیا ہے تو اَب بھی جوا ب یہی ملتا ہے: ۳۰ ہزار‘‘۔ زنکو کے بقول اس نئے امریکی حسابی فارمولے کے مطابق اب ۳۰ ہزار منفی ۲۵ ہزار ۳۰ ہزار کے مساوی ہوا کریں گے۔ زنکو نے اس پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ افغانستان میں ۱۶ سالہ جنگ کے بعد بھی فارن پالیسی جیسے وقیع رسالے یہ لکھ رہے ہیں کہ طالبان افغانستان میں پہلے سے کسی بھی وقت سے زیادہ علاقے پر قابض ہیں۔
جملۂ معترضہ کے طور پر یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ داعش کے ساتھ جاملنے والوں کی ایک تعداد مخلص اور دین دار نوجوانوں پر بھی مشتمل ہے۔ یہ لوگ بظاہر اسلامی ریاست اور اسلامی خلافت کا قیام او رجنت کا حصول چاہتے ہیں۔ نیتوں کا حال تو اللہ جانتا ہے لیکن نیک نیتی کے ساتھ ساتھ ظاہری عمل بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل تعلیمات کے مطابق ہونا ضرور ی ہے۔یہ نہ ہو کہ صرف ذرائع ابلاغ اور ظاہری اعلانات سے متاثر ہو کر کوئی ایسی راہ اختیار کرلی جائے کہ یہ قرآنی وصف صادق آنے لگے:قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا o اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا o (الکہف ۱۸:۱۰۳-۱۰۴) ’’اے نبیؐ ان سے کہو، کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں‘‘۔ جو کچھ وہاں ہورہا ہے اس کے بارے میں خود شام اور عراق کے جلیل القدر اور مخلص علماے کرام کی راے بھی سن لیجیے۔ شام کے معروف عالم دین اور رابطۂ علماے شام کے ذمہ دار علامہ مجد مکی کا کہنا ہے کہ: ما فعلتہ داعش في صد الناس عن دین اللّٰہ لم تفعلہ جیوش جرارۃ قوامہا ملایین الجنود،’’ لوگوں کو اللہ کے دین سے متنفر کرنے کے لیے جو خدمت داعش نے انجام دی ہے وہ لاکھوں سپاہیوں پر مشتمل بڑے بڑے عالمی لشکر بھی نہیں دے سکتے تھے‘‘۔
یہ درست ہے کہ نظریۂ سازش بنیادی طور پر انسان کو مایوس اور بے دست و پا کردیتا ہے، لیکن یہ بھی کسی طورممکن نہیں کہ بندہ اپنے سامنے وقوع پذیر حقائق سے آنکھیں بند کرلے۔ شام میں اپنے پورے لاؤلشکر سمیت آکودنے والے روس ہی کو دیکھ لیجیے کہ اس کی تمام تر کارروائیوں کا نشانہ مظلوم شامی عوام بن رہے ہیں۔ شامی عوام ہی کا ساتھ دینے پر وہ ترکی کو سبق سکھانے اور اسے عبرت کا نشان بنادینے کا اعلان کررہا ہے۔ لیکن بظاہر اعلان اس کا بھی یہی ہے کہ وہ داعش سے جنگ کرنے اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے آیا ہے۔ اپنی اس آمد کو سیاسی اور عوامی حمایت دلوانے کے لیے اس نے مصر کے صحراے سینا میں مار گرائے جانے والے روسی مسافر جہاز کو بھی خوب پراپیگنڈے کی بنیاد بنایا۔ اس نے بھی اسے داعش کی کارروائی قرار دیا، اور خود داعش نے بھی ذمہ داری قبول کی۔
روسی مسافر جہاز میں مارے جانے والے بے گناہ شہری یقینا ظلم کا شکار ہوئے۔ لیکن ذرا ایک نظر برطانوی اخبار ڈیلی میل میں ۲۶ دسمبر ۲۰۱۵ء کو شائع شدہ روسی خفیہ ایجنسی کے ایک سابق افسر پورس کارپشکوف کا وہ تفصیلی انٹرویو بھی دیکھ لیجیے جس میں اس نے تہلکہ خیز انکشافات کیے ہیں۔ روس سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ فرار ہوکر برطانیہ میں پناہ لینے والے اس سابق روسی افسر کا پُرزور دعویٰ ہے کہ صحراے سینا میں تباہ ہونے والا جہاز روس نے خود گرایا تھا۔ اس کے بقول روسی خفیہ ادارے کے خصوصی شعبے GRU میں یہ منصوبہ خود روسی صدر کی منظوری سے تیار ہوا، تاکہ اس کے نتیجے میں ایک طرف داعش کا ہوّا مزید مستحکم ہو اور دوسری طرف روس خطے میں اپنے اثر و نفوذ کے دیگر منصوبوں کو رُوبہ عمل لاسکے۔ اس روسی افسر نے منصوبے پر عمل در آمد کی جزئیات تک بیان کرتے ہوئے ان تمام افراد کے نام، ان کا منصوبہ، جہاز میں ٹائم بم پہنچانے کا طریق کار، دھوکے سے استعمال ہونے والی روسی سیاح خاتون اور اس کی سیٹ نمبر وغیرہ سمیت سب کچھ تفصیلاً بتادیا ہے۔ اب اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ ساری کہانی جھوٹی اور دعویٰ غلط ہے تو روسی ذمہ داران، برطانوی قانون کے مطابق اخبار اور انٹرویو دینے والے پر کروڑوں روپے ہرجانے کا دعویٰ کرسکتے تھے۔ ہرجانے کا کوئی دعویٰ یا کوئی تردید تو نہیں ہوئی، البتہ ۲۱ جنوری کو برطانوی عدالت کے ایک فیصلے سے کارپشکوف کے اس دعوے کو تقویت ضرور ملی۔ عدالت نے ۲۰۰۶ء میں لندن میں ایک روسی جاسوس الگزنڈر لیٹفینکو کے قتل کا فیصلہ سنایا ہے۔ اس فیصلے کے مطابق سابق روسی جاسوس کو روسی خفیہ ایجنسی نے زہر دے کر قتل کیا تھا۔ قصور اس کا یہ تھا کہ اس نے اپنی ایک کتاب میں کئی خوف ناک انکشافات کر دیے تھے۔ ان میں یہ بات بھی شامل تھی کہ چیچنیا میں اپنی فوجیں اُتارنے سے پہلے، راے عامہ ہموار کرنے کے لیے کئی روسی شہری آبادیوں میں چیچن ’باغیوں‘ سے منسوب بم دھماکے، دراصل روس نے خود کروائے تھے، اور پوٹن نے ان کی سرپرستی کی تھی۔
یہ خبریں بھی ساری دنیا جانتی ہے کہ شام میں روسی افواج کی آمد کے موقع پر روسی صدر پوٹن اور صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو کے مابین تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا۔ بشار الاسد کی حمایت کے لیے روس کی آمد بظاہر اسرائیل کے اہداف سے متصادم ہے، لیکن دونوں ملکوں نے باہم تعاون اور مفاہمت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ باہم قریبی روابط رکھیں گے تاکہ دونوں کسی غلط فہمی کی بناپر ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچا بیٹھیں۔
شاید اس سے بھی زیادہ حیرت آپ کو امریکی صدر اوباما کے حالیہ سالانہ خطاب سے متصل واشنگٹن کے وڈرو ویلسن ریسرچ سنٹر (Woodrow Wilson International Center for Scholars) میں اسرائیلی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل ڈوری گولڈ کے خطاب سے ہوگی۔ یہ ریسرچ سنٹر واشنگٹن میں ایرانی نفوذ کا اہم ذریعہ، اور ڈوری گولڈ اسرائیل کے حقیقی وزیر خارجہ سمجھے جاتے ہیں۔ شام کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈوری گولڈ نے بعینہٖ وہ بات کہی جو کویت پر حملے کا سبز اشارہ دیتے ہوئے امریکی سفیر نے صدام حسین سے کہی تھی۔ اس نے کہا : ’’اسرائیل شام کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتا‘‘۔ دوسری اہم بات جو اس نے کہی، اس کا خلاصہ یہ تھا کہ گولان (مقبوضہ شامی علاقہ) کے گردونواح میں ایرانی اثرونفوذ میں اضافہ اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جائے گا اور اسرائیل کسی صورت اس کی اجازت نہیں دے گا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ دمشق پر آپ کا قبضہ ہمیں قبول اور گولان پر ہمارے قبضے کو آپ کسی صورت چیلنج نہ کریں۔
یہ امر بھی ہر شک سے بالاتر ہے کہ اس علانیہ اور خفیہ سفارت کاری، امریکا ایران ایٹمی معاہدے، ایران سے اقتصادی پابندیاں ہٹنے کامطلب ہرگز یہ نہیں لیا جاسکتا کہ اسرائیل اور امریکا ایران، سعودی عرب یا کسی اور مسلم ملک کے حقیقی خیر خواہ اور دوست بن گئے ہیں۔ امریکا اپنے قوانین اور معاہدوں کی روشنی میں اس بات کا پابند ہے کہ مشرق وسطیٰ کے کسی بھی ملک کو فوجی سازوسامان فروخت کرتے ہوئے یہ بات یقینی بنائے کہ اس سے خطے میں اسرائیل کی عسکری بالادستی متاثر نہیں ہوگی۔ امریکی پالیسی ساز اداروں میں صہیونی نفوذ ان سے خود امریکی مفادات کے منافی فیصلے تو کرواسکتا ہے، اسرائیل کو ناگوار محسوس ہونے والے کسی اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ دہشت گردی کے نام پر اس کی جنگ اور اس کی پالیسیوں کا مرکز و محور، مسلم ممالک کی مشکیں کسنا اور اسرائیلی ریاست کا دفاع یقینی بنانا ہے۔ اسی مقصد کی خاطر تباہ کن اسلحہ رکھنے کا جھوٹا پروپیگنڈا کرکے عراق کو نشان عبرت بنایا گیا تھا اور یہ قتل و غارت ہنوز جاری ہے۔ اسرائیل ہو یا کوئی بھی عالمی سامراجی قوت، اس وقت سب کا مشترک ہدف ایک ہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اختلافات کی یہ آگ کسی صورت بجھنے نہ دی جائے۔ جو فریق بھی کمزور ہونے لگے گا، وہ اسے کسی نہ کسی طور آکسیجن دیتے رہیں گے۔ اگر کہیں اقتصادی پابندیاں ہٹائیں گے تو بھی تیل کی قیمت میں تاریخی کمی کرتے ہوئے اسے عملاً بے وقعت کردیں گے۔ داعش اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر ہزاروں بم برسائے جاتے رہیں گے، لیکن وہ ایک کے بعد دوسرے ملک میں نمودار ہوتی رہے گی۔
ایسے میں اصل امتحان مسلم ممالک اور ان کی قیادت کا ہے۔ اگر جانتے بوجھتے بھی کسی نہ کسی تعصب، ضد یا نفرت و عداوت کا شکار ہو کر اور صرف اپنے اپنے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے دشمن کے بچھائے جال میں پھنستے رہے، تو شاید زیادہ وقت نہ گزرے گا کہ سب ہی ندامت و شکست سے دوچار ہوں گے۔ لیکن اگر اس وقت کھلے ذہن، اعلیٰ ظرفی اور تمام تعصبات سے بالاتر ہوکر فیصلے کیے گئے تو یقینا دوجہاں کی سرفرازی قدم چومے گی۔ بصورت دیگر ظلم اور ظالموں کے بارے میں قرآن کے اس خطاب کا مخاطب ہر ظالم اور اس کا ہر مددگار ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یہ ظالم لوگ جو کچھ کررہے ہیں ، اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔ اللہ تو انھیں ٹال رہا ہے۔ اس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں، سر اُٹھائے بھاگے چلے جارہے ہیں، نظریں اُوپر جمی ہیں اور دل اُڑے جاتے ہیں۔ اے نبیؐ، اُس دن سے تم انھیں ڈرادو، جب کہ عذاب انھیں آلے گا۔ اس وقت یہ ظالم کہیں گے کہ ’’اے ہمارے رب، ہمیں تھوڑی سی مہلت اور دے دے، ہم تیری دعوت پر لبیک کہیں گے اور رسولوں کی پیروی کریں گے۔‘‘ (مگر انھیں صاف جواب دیا جائے گا) کہ ’’کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو اس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ہم پر تو کبھی زوال آنا ہی نہیں ہے؟ حالانکہ تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ بس چکے تھے جنھوں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا تھا او ردیکھ چکے تھے کہ ہم نے اُن سے کیا سلوک کیا اور اُن کی مثالیں دے دے کر ہم تمھیں سمجھا بھی چکے تھے۔ انھوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں، مگر اُن کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا اگرچہ اُن کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ اُن سے ٹل جائیں۔ ’’پس اے نبیؐ، تم ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ اللہ کبھی اپنے رسولوں سے کیے ہوئے وعدوں کے خلاف کرے گا۔ اللہ زبردست ہے اور انتقام لینے والا ہے‘‘۔(ابراہیم ۱۴:۴۲-۴۷)
ہمارا ایمان ہے کہ اگر ہم خلوص کے ساتھ جدوجہد کرتے رہیں گے تو اللہ پاک ہمیں کامیابی سے ہم کنار فرمائیں گے۔
توجہ فرمایئے
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، انتظامی دفتر کا نیا فون نمبر:042-3525212
اس وقت ملک و ملّت کے تقریباً ہر طبقے میں، اور ہر میدانِ کار میں چند بنیادی مسائل پر بحث و گفتگو کا سلسلہ گرم ہے۔ نجی محفلوں، سیاسی اجتماعات اور اخبارات و رسائل کے صفحات سے لے کر پارلیمنٹ کے ایوانوں تک ہر جگہ یہی مسائل زیربحث ہیں: امن و امان کی زبوں حالی، معاشی بحران، علاقائی عصبیت کی زہرناکی، فرقہ واریت کے عفریت کی کارفرمائیاں، لوٹ کھسوٹ کی ہوش ربا داستانیں، خارجہ سیاست میں پاکستان کی آزمایش، بھارت کے جارحانہ عزائم کی افزونی، امریکا کی بے وفائیاں اور اندورنی قلابازیاں و ریشہ دوانیاں سرفہرست ہیں۔
اس پس منظر میں تحریکِ اسلامی نے قوم اور اس کی قیادت کو یہ سوچنے کی دعوت دی ہے کہ ان مسائل کے حقیقی اور دیرپا حل کے لیے جس فکرونظر کے انقلاب اور جس مضبوط اور ہمہ گیر ملّی اقدام کی ضرورت ہے، وہ نفاذِ شریعت ہے،مگر بدقسمتی سے ہماری سیاسی اور انتظامی قیادتوں نے اس مسئلے کو ہمیشہ ایک متنازع مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ساری توجہ شریعت کی کلید سے زندگی کے مسائل حل کرنے سے ہٹ کر سیاسی اور قانونی موشگافیوں ہی پر نہیں، بلکہ نیتوں کے فتور اور انفرادی اور گروہی اقتدار کی شرم ناک جنگ پر مرکوز ہوگئی ہے۔ یہ مقتدر طبقہ جو خواہ اپنی تعداد اور عوامی بنیاد کے اعتبار سے کتنا ہی قلیل اور غیرثقہ کیوں نہ ہو، مگر سیاسی اثرات، ذرائع ابلاغ میں اپنی قوت اور بیرونی تائید و معاونت کے اعتبار سے بڑا زورآور ہے، کھل کر اسلام، اسلامی ریاست، شریعت کی بالادستی اور اجتماعی زندگی میں دین کے کردار ہی پر حملہ آور ہے۔
ان حالات میں ضرورت ہے کہ اس شوروغوغا میں اس بنیادی مسئلے کو گم ہوجانے سے بچایا جائے۔ ہر جماعتی، گروہی اور ذاتی اختلاف، مفاد اور تعصب سے بالا ہوکر نفاذِ شریعت کی حقیقت کو سمجھا جائے اوراسے حقیقت بنانے کے لیے جس طرزِ فکر، طریق کار اور عملی اقدام کی ضرورت ہے، اس کی نشان دہی کی جائے تاکہ شریعت، جو نام ہے دین اسلام اور اس کے دیے ہوئے طرزِ فکروعمل کا، اور جس کی امتیازی خصوصیت ہی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتائی ہے کہ وہ یکسوئی کے ساتھ منزلِ مقصود تک لے جانے والا (حنیفیہ) ،نرمی اور آسانی پیدا کرنے والا (سمحہ)، سہولت بخش (سہلہ)، منور، تابناک (بیضائ)، اور اتنا واضح ہے کہ اس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے (لیلھا کنھارھا)، عملاً نافذ ہو۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم ان چند بنیادی غلط فہمیوں اور غلط بیانیوں کی تصحیح کرنا چاہتے ہیں جو اس بحث میں بڑے بڑے جغادری اور بااثر افراد کی طرف سے بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ پھیلائی جارہی ہیں۔
سب سے افسوس ناک اور باغیانہ رویہ ملک کی سیکولر اور غیرمسلم لابی کا ہے۔ یہ لابی کھل کر اسلامی ریاست اور شریعت کی بالادستی کے خلاف محاذآرائی میں پیش پیش ہے اور بڑے تند اور تلخ انداز میں جارحانہ طور پر حملہ آور ہے۔ اس میں انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کا نام لینے والے منظم گروہ اور ایک وہ گروہ بھی شامل ہے جو اپنے آپ کو ’دین کی جدید تعبیر‘ کا حق دار قرار دے کر، نئی نئی موشگافیاں پھیلاتا اور لمحہ بہ لمحہ موقف تبدیل کرتا دکھائی دیتا ہے (اس گروہ میں اور منکرینِ سنت میں بس دو چار ہاتھ کا فرق ہے)۔ یہ سبھی ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
وزیراعظم صاحب نے کھل کر مذموم لبرلزم سے نسبت جوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں حقوقِ انسانی کے نام پر ہنگامہ برپا کرنے والا پورا طائفہ ہر طرف اپنی توپیں داغ رہا ہے اور مسلمانوں کو ان کے اپنے ملک میں ان کی اپنی شریعت نافذ کرنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور بے سروپا پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ مغربی ذرائع ابلاغ اور پالیسی ساز، جمہوریت اور اکثریت سے فیصلوں کے سارے دعوئوں کے اصول کو تسلیم کرنے کا دم بھرنے والے اس معمولی سی اقلیت کی آواز میں آواز ملا رہے ہیں اور اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
ایک دوسرا طبقہ ذرا مختلف انداز میں کرم فرما ہوا ہے۔ اسے کھل کر سیکولرزم، لبرلزم اور لادینیت کی بات کرنے کی تو ہمت اور جرأت نہیں۔ اس لیے اس نے ایک خیالی خطرے کا ہوّا اُٹھایا ہے، یعنی اس کا نشانہ نام نہاد مذہبی پیشوائیت، تھیوکریسی اور ’مُلّاکا اسلام‘ ہے اور ’اقبال اور قائداعظم کے اسلام‘ کا نام لے کر یہ نفاذِ شریعت کی راہ کھوٹی کرنا چاہتا ہے۔
اندریں حالات ملک کے عوام اور اس کی اسلامی قیادت کو اصل سوال___ یعنی شریعت کی بالادستی کے قیام کی تحریک کو، خواہ وہ کسی بھی سمت سے آئے اور کسی بھی شکل میں ہو، تقویت پہنچانے اور اس مسئلے کو دستوری اور قانونی اعتبار سے ایک بار مکمل طور پر طے کرا لینے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا اور تحریکِ پاکستان کے حقیقی مقاصد کو پورا کرنا اور ان قربانیوں کا حق ادا کرنا ہے جو پاکستان کو دورِحاضر میں اسلام کی حقیقی تجربہ گاہ بنانے کے لیے برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں نے دی تھیں اور جس کے لیے تحریک اسلامی نے ۱۹۴۸ء میں مطالبہ نظامِ اسلام کی آواز بلند کی اور اس دن سے لے کر آج تک شریعت کی بالادستی اور دین حق کی اقامت کے لیے جدوجہد کی ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ نے بندے کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے مالک و آقا اور رب کو تسلیم کرے یا نہ کرے اور اپنے لیے اللہ کی بندگی یا اس سے بغاوت کا راستہ اختیار کرے (اور یہی معنی ہیں: لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کی ضمانت کے) تو بلاشبہہ ہم یا کوئی مسلمان ملک انسانوں کو ان کے اس حق سے محروم نہیں کرسکتے۔لیکن دو باتیں صاف ہونے چاہییں:
o جہاں کفر اور انکار کی راہ اختیار کرنے والوں کو اپنے ذاتی عقیدے اور عمل کی آزادی کا اختیار حاصل ہے، وہاں انھیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو، جو اپنے عقیدے اور ایمان کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی بالادستی کی بنیاد پر استوار کرنا چاہتے ہیں، اس عمل سے روکیں اور اس کے لیے بیرونی، سیاسی اور تہذیبی قوتوں کی معاونت سے زورآوری کا ہر حربہ استعمال کریں۔ سیکولر لابی جو دوسروں کو ’مذہبی فسطائیت‘ ، ’انتہاپسندی‘ اور ’عدم برداشت وغیرہ کا طعنہ دیتی ہے، خود بدترین ’سیکولر فسطائیت‘ کی مرتکب ہورہی ہے۔ اس محدود اقلیت کو، اپنے سارے اثرورسوخ اور وسائل ابلاغ پر قدرت کے باوجود، یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنی مرضی کے مطابق اپنے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے سے روکے۔ ان حضرات کو اپنی بات پر قائم رہنے اور اس کے اظہار کی آزادی کا حق ہے اور ہم اس کا دفاع کریں گے۔ تاہم، دلیل اور شائستگی کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے وہ اپنی بات کہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اگر وہ اس دائرے سے باہر نکلتے ہیں تو خود پاکستان میں ان کی تحدید اور گرفت کے لیے قوانین موجود ہیں۔ لہٰذا انھیں اپنی راے اور ترجیحات کو ملّت اسلامیہ پاکستان کی عظیم اکثریت پر مسلط کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ جمہوریت کو اصل خطرہ اس آمرانہ اور جارحانہ ذہنیت سے ہے اور اسے قابو میں رکھنا خود جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے لیے ضروری ہے۔
خود مسلم معاشرے میں جو کمزوریاں اور نظریاتی تنوع بہت سے تاریخی اسباب کی بناپر پیدا ہوگیا ہے اس کو برداشت کرنا ضروری ہے۔ افہام و تفہیم، تعلیم و تعلّم اور بحث و مباحثہ اور مکالمے کے ذریعے مختلف علیہ اور مختلف فیہ کا تعین ہوسکتا ہے۔ اتفاق کے وسیع دائرے میں تعاون ہو اور اختلاف کا احترام بھی اصول کے معاملات میں یکسوئی اور استقامت کی طرح ضروری سمجھا جائے۔ مسلم معاشرہ آزادی اور رواداری کی بنیاد پر وجود میں آتا اور ترقی کرتا ہے۔ کثرت میں وحدت اور حدود اللہ کے دائرے میں تنوع اس کی امتیازی شان ہے۔ اس کی مثال اس باغ کی سی ہے جس میں طرح طرح کے پھول کھلے ہوں۔
سارے اختلافات کے باوجود نرمی اور توسع ہمارا شعار رہا ہے اور آج بھی اسی میں بقا اور ترقی کا راز مضمر ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جن چیزوں پر عظیم اکثریت یکسو ہے، جن کو وہ اپنی زندگی کا مقصد سمجھتی ہے اور جن پر اپنی اُخروی زندگی کی کامیابی کا یقین رکھتی ہے، ان کے بارے میں محض کسی اختلافی نقطۂ نظر کے دبائو میں عمل نہ کیا جائے۔ جس طرح نظریاتی اقلیت کے حقوق ہیں، اسی طرح نظریاتی اکثریت کے بھی حقوق ہیں اور ان دونوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔
o یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان ہونے اور قرآن و سنت پر ایمان کا دعویٰ کرنے کے کچھ تقاضے بھی ہیں۔ ایک شخص اسلام قبول کرتا ہے یا نہیں، یہاں تک تو اس کو آزادی حاصل ہے، لیکن اسلام کو قبول کرنا ایک ذمہ داری ہے۔ ہر ذمہ داری کے کچھ بنیادی تقاضے ہوتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انسان کی یہ آزادی کچھ میدانوں میں محدود ہوجاتی ہے، اس لیے کہ اسلام نام ہی اس عہد کا ہے کہ انسان اللہ کو اپنا رب، خاتم الانبیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول، ہادی، آقا اور رہبر اور اسلام کو اپنا دین اور طریق زندگی تسلیم کرلے اور اس پر راضی اور مطمئن ہوجائے۔ ’جزوی مسلمان‘ یا ’نیم مسلمان‘ کا کوئی تصور دائرۂ اسلام میں نہیں اور عقل بھی اسے گوارا نہیں کرتی۔ قرآن کریم نے صاف صاف فرمایا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط (البقرہ ۲:۲۰۸) اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، دائرۂ اسلام میں داخل ہوجائو پورے کے پورے، اور شیطان کے طریقے پر عمل پیرا نہ ہو۔
اسلام کی کچھ تعلیمات اور احکام کو ماننا اور کچھ کا انکار کر دینا، اللہ کی اطاعت اور بندگی کا راستہ نہیں ہے۔ اسلام کے شعوری اقرار کے بعد بندہ اپنی آزادی کو اللہ کی حدود کا پابند کرلیتا ہے اور پھر صرف ان حدود کے دائرے میں اپنے اختیار کو استعمال کرتا ہے۔ یہ تحدید وہ اپنی مرضی سے قبول کرتا ہے، لیکن اس تحدید کے بعد یہ حق اسے نہیں رہتا کہ جس چیز کو چاہے اختیار کرے اور جسے چاہے رد کردے۔ یہ آزادی نہیں تناقض، دو رنگی اور منافقت ہے جس کی اسلام ہی نہیں کسی بھی نظام میں گنجایش نہیں ہوسکتی اور جس کے نتیجے میں بجز کش مکش اور صلاحیتوں اور وسائل کے ضیاع کے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ قرآنِ کریم کا فیصلہ ہے:
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ (یوسف ۱۲:۴۰) فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے۔
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ ط (اعراف ۷:۳) لوگو، جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔
وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ o(المائدہ ۵:۴۴) اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o(النساء ۴:۶۵) نہیں (اے محمدؐ) تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو، اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سربسر تسلیم کرلیں۔
یہ ہے سچے مسلمانوں کی روش۔ اسی کا تقاضا ہے کہ شریعت کو بالادستی حاصل ہو۔ ماننے والوں کے لیے صحیح راستہ یہی ہے اور نہ ماننے والوں کو حق نہیں کہ ماننے والوں کو اپنے ایمان اور عقیدے کے مطابق اپنی زندگی کی شاہراہ تعمیر کرنے سے روکیں۔
یہ بات بھی واضح ہو جانی چاہیے کہ اسلام ایک اور صرف ایک ہے اور وہ اللہ کا بھیجا ہوا دین اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا دکھایا ہوا راستہ ہے۔ یہ مکمل نظامِ حیات ہے اور اس میں زندگی کے تمام مسائل اور معاملات کا حل بھی موجود ہے اور انسانی معاشرے میں تغیر و تبدل اور ترقی و ارتقا کی جو حقیقی ضروریات ہیں ان کا بھی پورا پورا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس فریم ورک میں اطاعت، آزادی، اختلاف اور تنوع ہر ایک کا اپنا مقام ہے لیکن یہ سب کچھ اس کے اپنے اصول اور ضابطوں کے مطابق ہے۔ جہاں اسلام زندگی کے بنیادی معاملات کے بارے میں واضح اور دوٹوک راہ نمائی دیتا ہے وہیں زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے لیے بھی خود اپنے نظام میں کافی و شافی گنجایش اور مواقع رکھتا ہے۔ البتہ وہ کسی ایسی چیز کو قبول نہیں کرتا، جو اس کے نظامِ اقدار کی ضد اور نفی کرنے والی یا ان کو مجروح کرنے والی ہو۔ خُذْ مَا صَفَا وَدَع مَا کَدَر (جو صحیح اور صحت مند ہے اسے قبول کرلو اور جو نامواقف ہے اسے ترک کر دو) کا اصول اس عمل کو ہمیشہ جاری و ساری رکھتا ہے۔
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (المائدہ۵:۳) کے اعلان کے بعد زمان و مکاں کے تمام تغیرات اور وسعتوں کے باوجود آج تک اسلام ایک ہی رہا ہے۔نہ عربوں کا اسلام کوئی الگ ہے اور نہ پاکستان، ایران، ترکی، یورپ، امریکا اور افریقہ کے مسلمانوں کا۔ اسی طرح پہلی صدی کا اسلام، چوتھی صدی کا اسلام اور بیسویں صدی کا اسلام اپنا کوئی الگ الگ وجود نہیں رکھتے۔ اسلام تو ایک ہی رواں دواں دریا کے ما نند ہے، جس میں پانی کے نئے دھارے ملتے بھی رہتے ہیں اور اس کی نوعیت اور سمت پھر بھی ایک جیسی ہی رہتی ہے خواہ ابوحنیفہ، شافعی، احمد بن حنبل، مالک، غزالی، ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ کا تصورِ اسلام ہو یا اقبال اور قائداعظم کا تصور۔ یہ سب اسی ایک اسلام کے علَم بردار تھے اور قرآن و سنت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے باہر یا اس میں غیراسلام کی آمیزش کے رُونما ہونے والے کسی نظرثانی شدہ اسلام کے نہ قائل تھے اور نہ داعی۔ ان پر اس سے بڑا ظلم کوئی اور نہیں ہوسکتا کہ ان کے اسلام اور مُلّا کے نام نہاد اسلام کو دست و گریباں کیا جائے۔ اور اقبال اور قائداعظم کا نام لے کر اللہ اور اس کے رسولؐ کی شریعت سے فرار کی راہیں تلاش کی جائیں۔ علامہ اقبال کی تو پوری زندگی کا مشن اور پیغام ہی یہ تھا کہ:
علمِ حق غیر از شریعت ہیچ نیست
اصلِ سُنت جز محبت ہیچ نیست
ملّت از آئینِ حق گیرد نظام
از نظامِ محکمے خیزد دوام
قدرت اندر علم او پیدا ستے
ہم عصا و ہم یدِبیضا ستے
با تو گویم سِّرِ اسلام است شرع
شرع آغاز است و انجام است شرع
ہست دینِ مصطفیٰؐ دینِ حیات
شرعِ او تفسیرِ آئینِ حیات
تا شعارِ مصطفٰےؐ از دست رفت
قوم را رمزِ بقا از دست رفت
(رموزِ بے خودی)
سچا علم، شریعت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ، اور سنت ِ رسولؐ کی بنیاد محبت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
ملّت کو بھی شریعت ہی سے نظام حاصل ہوتا ہے اور پختہ نظام اسے دوام عطا کرتا ہے۔
شریعت کے علم ہی سے (عمل پر) قدرت حاصل ہوتی ہے: یہ عصا (قوت کا نشان) اور یدِبیضا (نورِ ہدایت) بھی حاصل ہوتا ہے۔
میں یہ کہتا ہوں کہ اسلام کا راز ہے ہی ’شرع‘ کا آغاز اور ’شرع‘ ہی کا انجام۔
حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہی دینِ فطرت ہے، اور شرعِ محمدیؐ آئینِ حیات کی تفسیر ہے۔
جب حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا شعار (یعنی شریعت) ہاتھ سے نکل گیا تو قوم رمزِبقا سے بھی محروم ہوگئی۔
رہے قائداعظمؒ اور ان کے حقیقی رفقا (نواب زادہ لیاقت علی خاں، نواب اسماعیل خاں، بہادر یار جنگ، سردار عبدالرب نشتر، مولانا شبیر احمد عثمانی وغیرہ) تو تحریکِ پاکستان کے دوران اور قیامِ پاکستان کے بعد کم ز کم ڈیڑھ دو سو ایسے واضح بیانات تو صرف قائداعظمؒ کے موجود ہیں، جن میں اسلام کو اس جدوجہد کی منزل اور قرآن، اسوئہ رسولؐ، اسلامی قوانین اور اسلامی تہذیب و تمدن کی بالادستی کے قیام کو پاکستان کا مشن اور ہدف قرار دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود پوری ڈھٹائی کے ساتھ ان کی دو ایک تقاریر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر ان کے تصورات کی غلط تصویر پیش کرنے کی مذموم سعی کی جاتی ہے۔ یہ روش ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ہے اور تمام حقائق کے سامنے آجانے کے باوجود ایک گروہ وہی رٹ لگائے جا رہا ہے ۔ اس سے خود اس گروہ کی بدنیتی بے نقاب ہوتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ان حضرات کا مقصد قائداعظم کے پورے تصور کو پیش کرنا نہیں، بلکہ اپنے مقاصد کے لیے چند جملوں کو استعمال کرنا ہے۔ ایسی صریح بددیانتی پر اُٹھائی جانے والی دیوار ریت کی دیوار ہی ہوسکتی ہے جو کسی تعمیر میں کام نہیں آسکتی۔
وہ کون سی چٹان ہے جس پر ملّت کی عمارت قائم ہے اور وہ کون سا لنگر ہے جو سفینۂ ملّی کو تھامے ہوئے ہے؟ مسلم انڈیا کے سفینۂ ملّی کا مستحکم لنگر عظیم المرتبت کتاب قرآنِ مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے جائیں گے ویسے ہماری یہ وحدت بھی بڑھتی جائے گی۔ ایک خدا، ایک کتاب، ایک رسولؐ، ایک قبلہ اور ایک قوم!
پاکستان کا مطلب صرف آزادی و حُریت کا حصول نہیں ہے بلکہ اسلامی نظریے کا تحفظ بھی ہے جس کو محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ یہ قیمتی تحفے اور بیش بہا خزانے ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔
بہ جز ان لوگوں کے جو بے خبر ہیں ہرشخص آگاہ ہے کہ قرآنِ مجید مسلمانوں کا ہمہ گیر و بالاتر اور مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ مذہبی بھی، معاشی و معاشرتی بھی، دیوانی بھی، فوج داری بھی، تجارتی بھی، عدالتی بھی اور تعزیری بھی___ یہ ضابطہ زندگی کی ایک ایک چیز کو باقاعدگی اور ترتیب عطا کرتا ہے۔
میرا ایمان ہے کہ ہم سب کی نجات ان سنہری قواعد اور زریں احکام کی پیروی میں مضمر ہے جو ہمارے رہن سہن اور معاملاتِ زندگی کو درست رکھنے کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کیے ہیں۔ آیئے! ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورت پر استوار کریں۔ خداے قادر و مطلق نے ہمیں سکھایا ہے کہ مملکت کے تمام اُمور میں ہمارے فیصلے بحث و تمحیص اور مشاورت کی راہ نمائی میں ہوں۔
ہمیں بتایا جائے کہ قرآن و سنت کی واضح شاہراہ اور اسلام کے ضابطۂ قانون سے ہٹ کر اقبالؒ اور قائداعظمؒ کا اسلام کون سا ہے؟ یہ ان دونوں بزرگوں پر تہمت اور خلط مبحث کی ایک شرم ناک کوشش ہے۔ شریعت میں کوئی ابہام نہیں اور ہرمسلمان اس شریعت کا علَم بردار اور طالب ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی امانت کی شکل میں دی ہے۔ شریعت جو ہماری آزادی ، دنیوی فلاح اور اُخروی کامیابی کی ضامن ہے، جو تمام انبیا کی سنت رہی ہے اور جسے اپنی آخری اور مکمل شکل میں محمد عربیؐ نے انسانیت تک پہنچایا اور آج جس کی امین اُمت مسلمہ ہے۔ کامیاب اب وہی ہوگا جو اس راستے پر گامزن ہو:
(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر، نبی اُمّی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (اعراف ۷:۱۵۷)
شریعت اور اس کے نفاذ کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ شریعت کی نوعیت اور حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے اور جو فرق شریعت یا اسلامی قانون اور مغربی قانون میں ہے، اسے نظر میں رکھا جائے۔ لغت کے اعتبار سے ’شرع‘ اور ’شریعت‘ کے معنی راستے کے ہیں۔ پرانے زمانے میں گھریلو استعمال کے لیے پانی، محلے یا دیہات کے کنویں، تالاب، نہر یا چشمے وغیرہ سے لایا جاتا تھا اور انسانوں اور مویشیوں کے باربار وہاں آنے جانے سے ایک ایسا راستہ بن جاتا تھا، جو سیدھا، مختصر، کشادہ، واضح اور صاف ہوتا تھا۔ اسی راستے کو عربی لغت میں شریعت کہا جاتا تھا۔ گویا وہ سیدھا، کشادہ اور واضح راستہ جو کسی بستی کے لوگوں کو پانی کے ذخیرے اور مصدر و ماخذ تک پہنچا دے۔
اصطلاحی اعتبار سے ’شریعت‘ سے مراد زندگی گزارنے کا وہ راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انسانوں کے لیے مقرر فرمایا اور جو دین کے احکام اور اصولوں پر عمل پیرا ہونے اور انسانی زندگی کی ان اصولوں کے مطابق عملی تشکیل کرنے کا واحد راستہ ہے۔
قرآن و سنت اس شریعت کے اصل اور بنیادی ماخذ ہیں۔ اس کے ایک حصے کا تعلق عقائد، افکار اور احساسات سے ہے اور دوسرے کا انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے۔ فقہ یا اسلامی قانون، شریعت کے اس حصے کا نام ہے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کی اسلامی تشکیل سے بحث کرتا ہے۔ فقہاے کرام ’فقہ‘ کی یہی تعریف کرتے ہیں: ’’فقہ وہ علم ہے، جس کے ذریعے شریعت کے عملی احکام کو ان کے تفصیلی دلائل سے حاصل کیا جاتا ہے‘‘۔
شریعت انسان کی عملی زندگی کے کم و بیش ہر پہلو کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اس کے احکام جہاں ایک طرف امرونہی، حلال و حرام، مستحب اور مکروہ کی نشان دہی کرتے ہیں، وہیں حدود کی اس صف بندی کے ساتھ ساتھ مباح اور انسانی آزادی کے میدان کو بھی واضح اور نمایاں کردیتے ہیں۔ اور یہی وہ میدان ہے جس میں ہردور میں اصولوں کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعے نئی قانون سازی کی جاتی رہی ہے اور کی جاتی رہے گی۔
شریعت کے صرف ایک حصے کا نفاذ ہر فرد اور ادارہ اپنی ذاتی مرضی اور پیش قدمی (initiative) کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس طرح ایک خودکار نظام (self-executing system) کے ذریعے شریعت مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں رچی بسی ہے۔ عبادات و مناکحات میں معاملات کا ایک بڑا حصہ آجاتاہے۔ لیکن شریعت کا ایک حصہ وہ ہے، جسے نافذ کرنے کے لیے معاشرے اور ریاست کی اجتماعی قوت درکار ہوتی ہے۔ یہی وہ حصہ ہے جس کے لیے آج کے دور میں دستور، قانون، ریاستی مشینری اور ضابطۂ کار اور عدالتی نظام کو شریعت کے مقاصد اور احکام کا خادم اور کارندہ بنانا ضروری ہے۔
اسلامی قانون بیک وقت ایک خالص مذہبی، نظریاتی اور روحانی قانون ہی نہیں بلکہ ملکی اور عدالتی قانون بھی ہے۔ دوسری تہذیبوں اور مذاہب میں مذہبی قانون اور ملکی اور عدالتی قانون میں فرق کیا گیا ہے۔ مذہبی قانون بالعموم فرد کا ذاتی معاملہ سمجھا گیا ہے اور اس کے نفاذ کو بھی اس کے فہم و ارادے اور ضمیر پر چھوڑ دیا گیا۔ ریاستی اور عدالتی قانون صرف دنیاوی معاملات سے متعلق رہا اور اس کا انحصار رسم و رواج، بادشاہ کے حکم یا کسی بالاتر مقتدر یا مقننہ کے فیصلے اور عدالت کے فیصلے کی نظیر پر رہا۔ اسلامی قانون میں وحدت، ہم آہنگی اور ہمہ گیری ہے۔ یہ قانون محض عبادات اور اللہ اور بندے کے تعلق تک محدود نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کا تعلق انسانوں سے اور فرد کا معاشرے، اجتماع اور ریاست سے تعلق بھی اس کے دائرۂ کار میں شامل ہے۔ اسلام کا قانون شخصی، معاشی، دیوانی، تعزیری، بین الاقوامی تمام دائروں پر محیط ہے۔ یہ عبادات سے لے کر خاندانی زندگی، معاشی تگ و دو، عمرانی معاملات، جرم و سزا، جنگ و صلح، غرض ان سب کی شیرازہ بندی کرتا ہے۔
ایک مذہبی قانون ہونے کی حیثیت سے یہ ہرمسلمان کے ایمان کا معاملہ ہے اور اس پر عمل اس کے ایمان اور عقیدے کا تقاضا ہے۔ اس لیے قانون محض جبر اور قوتِ قاہرہ کی علامت نہیں، بلکہ ایمان کا تقاضا، دل کی پکار، زندگی کی آرزو اور اجتماعی زندگی کا ادب بن جاتا ہے۔ اس کا نفاذ صرف ڈنڈے اور پولیس کے ذریعے نہیں، بلکہ ضمیر کی آمادگی اور رب کی طاعت گزاری کے جذبے سے عبارت ہے۔ بلاشبہہ پولیس اور عدالت کا بھی ایک مقام ہے، لیکن جو چیز اسلام کے قانون کو منفرد درجہ دیتی ہے، وہ اندر کی آواز اور باہر کے قانون کی ہم آہنگی اور ایک دوسرے کو تقویت دینے کی صلاحیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قانون پر پولیس کے پہرے اور مخبروں کے خوف سے کہیں زیادہ ضمیر کی خلش اور آخرت کی کامیابی کے جذبے سے عمل ہوا ہے۔ رات کی تاریکیوں اور تنہائوں میں بھی اس پر عمل درآمد کا جذبہ ویسا ہی قوی ہوتا ہے جیسا دن کی روشنی اور محتسب کی موجودگی میں۔ اور جرم کے ارتکاب کے بعد توبہ ہی نہیں بلکہ پاکی کے حصول کے لیے ’مجرم‘ خود سزا کا طالب بن جاتا ہے۔
جہاں اسلامی قانون کی یہ روح ہے، وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شریعت اپنے نفاذ کو محض ضمیر اور فرد کے ذاتی جذبے پر نہیں چھوڑتی، بلکہ انسانی فطرت اور معاشرے کی ضروریات کو سامنے رکھ کر ریاست کی شیرازہ بندی کے واضح احکام دیتی ہے، نظامِ امر قائم کرتی ہے، انتظامی مشینری وجود میں لاتی ہے، پولیس اور عدالت کے نظام کو قائم کرتی ہے ،اور اس طرح اندرونی قوت اور جذبے کی تکمیل بیرونی قوت اور نظام کے ذریعے کرتی ہے۔ ریاست اپنے تمام اداروں کے ذریعے ایک طرف تلقین، تعلیم اور بہتر نمونے کا اہتمام کرتی ہے تو دوسری طرف ریاستی قوت اور عدالتی اداروں کے ذریعے قانون توڑنے والوں کی گرفت اور معاشرے کو جرم اور ظلم سے پاک کرنے کا اہتمام کرتی ہے۔ دین اور ریاست ایک دوسرے کے معاون اور مددگار بن جاتے ہیں۔ سیکولر ریاست اور اس کے تمام ادارے دین کی رہنمائی سے آزاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دین ریاست اور معاشرے کے وسائل سے محروم رہتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے حضرت عثمانؓ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ:
اسلام ایک بنیاد ہے جس پر مسلمانوں کی زندگی کی عمارت تعمیر ہوتی ہے اور حکومت ایک نگہبان اور محافظ ہے۔ اگر کسی عمارت کی بنیاد نہ ہو تو وہ کمزور رہتی ہے اور گر جاتی ہے، اور اگر کسی عمارت کا کوئی محافظ اور نگہبان نہ ہو تو وہ ضائع ہوجاتی ہے، اس کو لوٹ لیا جاتا ہے یا اس پر دوسرے قابض ہوجاتے ہیں۔
یہ عمل ہر فرد سے دل کی گہرائیوں سے اور آخرت کی کامیابی کے جذبے سے سرشار ہوکر شرکت کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت، ریاست اور اس کے تمام اداروں کے لیے بھی لازم کرتا ہے کہ وہ تعلیم و تلقین اور اچھی مثال کے ساتھ ساتھ نیکی کا حکم اور برائیوں کے روکنے کا کام انجام دیں۔ حق دار کو اس کا حق پہنچانا اور ظالم کو ظلم سے روکنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا نماز اور روزے کا اہتمام___ بلکہ نماز تو ہے ہی اس لیے کہ بُرائیوں سے روکے (اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ - العنکبوت ۲۹:۴۵)۔ اور روزے کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ لوگ متقی بنیں اور قانون کی پاس داری کریں (لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ)۔
شریعت کے نفاذ کا کام بڑا منفرد اور بابرکت ہے۔ اس میں قانون اور اس کی حقیقی اسپرٹ دونوں کا ساتھ ساتھ اہتمام ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عمل میں فرد، عوام، نظامِ تعلیم، ذرائع ابلاغ، اجتماعی اداروں اور حکومت سب کی شرکت ضروری ہے۔البتہ دو وجوہ سے حکومت کا کردار سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے اور وہ یہ ہیں:
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
غیراسلامی اور مغربی دنیا سے درآمد شدہ ادارے اور انتظامی در و بست مسلم معاشرے پر بزور ٹھونسے جاچکے ہیں۔ ان حالات میں تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک فرد کی کوششوں کے ساتھ معاشرہ، ریاست اور اس کے تمام ادارے ظلم اور باطل سے نجات اور حق اور معروف کے قیام میں مکمل طور پر شریک نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف انفرادی کوششیں بارآور نہیں ہو رہیں۔ نجی طور پر خیر کے فروغ اور بدی کے مٹانے کے لیے جو کچھ کیا جا رہا ہے، وہ بہت غنیمت ہے اور اس کے اچھے اثرات بچشم سر دیکھے جاسکتے ہیں، مگر مطلوبہ تبدیلی کے لیے وہ کافی نہیں۔ پاکستان کی گذشتہ تاریخ میں اس کش مکش اور اس کے بُرے نتائج کو دیکھا جاسکتا ہے۔ زندگی کو اس تناقض (contradiction) اور تصادم سے پاک کیے بغیر ہم اپنے انسانی اور مادی وسائل کو صحیح صحیح استعمال نہیں کرسکتے اور مطلوبہ نتائج رُونما نہیں ہوسکتے۔
آج مسئلہ صرف انفرادی خطا اور بے راہ روی نہیں اجتماعی فساد اور منظم ظلم ہے۔ اس کی بھی یہ کیفیت ہے کہ گویا زمین و آسمان بگاڑ اور فساد سے بھر گئے ہیں (ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ- الروم ۳۰:۴۱)۔ ان حالات میں اجتماعی قوتوں کو تعلیم و تلقین، مظلوم کی دادرسی، حق دار کو حق پہنچانے اور ظلم اور فساد دُور نہیں ہوجاتے، غربت اور افلاس کا خاتمہ نہیں ہوتا، مجبور اور مظلوم قوی نہیں بن جاتے اور منہ زور اور ظالم قابو میں نہیں کر دیے جاتے___ شریعت کے اہداف حاصل نہ ہوسکیں گے۔اور یہی وہ میدان ہے جس کی اصلاح کے لیے ریاست اور اس کی اجتماعی قوتوں کو اسلام کے لیے مسخر کرنا ضروری ہے، تاکہ قرآن کے الفاظ میں انسانوں کے لیے انصاف اور عدل قائم ہوسکے (لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ - الحدید ۵۷:۲۵)۔
سوال یہ ہے کہ اس منزل کی طرف پیش قدمی کیوں نہیں ہوپاتی؟ اصل کمی، کسر اور بگاڑ کہاں ہے؟ شریعت کے نفاذ کی راہ میں اصل رکاوٹیں کیا ہیں اور ان کا سدباب کیسے ممکن ہے؟
جیساکہ ہم نے اُوپر نشان دہی کی شریعت نے اپنے نفاذ کے لیے چار راستے اختیار کیے ہیں، یعنی: ۱- ایمان اور اندرونی محرک، ۲- تعلیم و تلقین اور وعظ و نصیحت کا ایک ہمہ گیر نظامِ دعوت، ۳-معاشرہ اور اس کے ادارے، خاندان سے لے کر وقف اور تکافل اجتماعی (رفاہ عامہ) تک، اور ۴- ریاست، قانون اور نظامِ قضا (عدالتی نظام)۔
شریعت چاہتی ہے، یہ تمام کام انفرادی اور نجی سطح پر بھی انجام دیے جائیں اور اجتماعی طور پر بھی۔ چونکہ ریاست نظامِ امر کا مرکز ہے، اور اللہ کے رسولؐ نے جو وظائف بحیثیت سربراہ انجام دیے، ان کی امین ہے۔ اس لیے ریاست اور حکومت کی ذمہ داری دوہری ہے، یعنی خود اپنے دائرے میں اپنے فرائض کی انجام دہی اور دوسرے تمام اداروں کی معاونت و سرپرستی، تاکہ فرد اور سول ادارے اپنے اپنے کردار بخوبی انجام دے سکیں۔
اجتماعی دائرے میں نفاذِ شریعت کے لیے جو حکمت عملی مسلمانوں نے اپنی تاریخ میں اختیار کی ہے اس میں تنوع اور جدت ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وقت کے حالات او ر مسائل کی روشنی میں انھوں نے کیا کیا راستے اختیار کیے۔ اصل نمونہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ہے جو داعی اور مربی اور معلّم بھی تھے اور سربراہِ مملکت، قاضی اور حاکم بھی۔ آپؐ کی راہ نمائی میں ایک مرکزی نظام کے ذریعے مندرجہ بالا چاروں دائروں کی رہنمائی کا حق ادا کیا گیا اور تاریخ کا روشن اور کامیاب ترین انقلاب رُونما ہوا۔
خلافت راشدہ نے اسی نمونے پر عمل کیا اور نظامِ ریاست و قیادت میں شگاف پڑنے کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اُموی دور میں اس نمونے کے احیا کی کامیاب کوشش کی۔ بعد کے اَدوار میں یہ مرکزیت اور ہمہ گیری باقی نہ رہی لیکن ہر ہر میدان کے لیے مؤثر انتظام کی کوشش کی گئی اور وقت کے چیلنجوں کی روشنی میں خصوصیت سے ریاست، قانون اور نظامِ عدالت کو اسلام کے مطابق اور شریعت کی حدود میں رکھنے کے لیے نئے تجربات اور نئے انتظامات کیے گئے۔ اس سلسلے کا سب سے عظیم اور تاریخی کارنامہ اُمت کے معتبر اور معتمد علما کا غیرسرکاری انتظام کے تحت فقہ اور اصولِ فقہ کی تدوین ہے۔ یہ قانون اخلاقی اور اجتماعی عوامی قوت و تائید سے ملک کا قانون بنا اور ایک مؤثر اور آزاد نظام قضا (عدل) کا قیام عمل میں آیا جو شریعت کے نفاذ کا ضامن بن گیا اور خود اربابِ اقتدار بھی اس قانون کے اسی طرح تابع ہوگئے جس طرح باقی انسان۔
اس طرح قانون کا وہ تصور جو دوسری تہذیبوں اور مملکتوں میں ’حکمران کی مرضی‘ کے مترادف تھا، بالکل بدل گیا۔ اسلامی قلمرو میں ’شریعت‘ ہی ملک کا قانون بن گئی اور حکمران کی مرضی بھی اس کے تابع ہوگئی۔ یہ قانون کسی قانون ساز اسمبلی نے نہیں بنایا تھا، مگراس کی تشکیل و ترقی میں: سرکاری سرپرستی یا نظام سے وابستہ کسی ادارے نے نہیں بلکہ مسلمان اُمت اور اس کے آزاد فکری قائدین، علما، فقہا اور دوسرے اُمور زندگی کے ماہرین نے حصہ لیا۔ علمی، عوامی اور جمہوری طریقے اور عمل سے یہ قانون وجود میں آیا اور مسلسل ترقی کرتا رہا۔ اجتہاد، قیاس، استنباط، استحسان، مصالح مرسلہ، استدراک اور اجماع کے ذریعے تازہ فکر، مشاہدہ اور تجربہ، اپنی اصل بنیاد سے تعلق قائم رکھتے ہوئے ترقی کرتا رہا اور ایک ہزار سال تک پوری اسلامی قلمرو کو سیراب کرتا رہا۔
ایسی مثالیں بھی ہیں کہ کچھ خدا ترس حکمرانوں نے اس قانون کو مرتب اور مدون کر کے اپنی قلمرو میں نافذ کرنے کی کوششیں کیں۔ اسلامی قانون کا یہ مزاج ہے کہ وہ محض حکمران کی مرضی یا ترجیحات یا مقننہ (قانون ساز ادارے) کی آزاد مرضی کا نام نہیں ہے، بلکہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام، منشا و مرضی اور قرآن وسنت کے اصولوں کی روشنی میں پیش آمدہ معاملات کے بارے میں اصل ماخذ اور ان سے استفادے کے ضوابط کار کے مطابق رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کا نام ’اسلامی قانون‘ ہے۔
یہی وہ قانون ہے جسے دورِ غلامی سے نجات پانے اور آزاد مسلمان ریاست کے قیام کے بعد حاصل کردہ اختیار اور اقتدار کے اس زمانے میں ملّت اسلامیہ پاکستان، نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ برطانوی اقتدار کے نقصانات اور مظالم کی فہرست تو بہت طویل ہے لیکن بیرونی استعمار کا سب سے پہلا ہدف شریعت اور نظامِ قضا (نظامِ عدل) ہی تھا۔ پھر آہستہ آہستہ سارے ہی ادارے تباہ کردیے گئے اور آخری حصار، یعنی خاندانی نظام پر بھی مختلف سمتوں سے تابڑ توڑ حملے کیے گئے اور اس عظیم الشان نظام کو تہ و بالا کردیا گیا جو مسلمانوں نے اجتماعی میدان میں قائم کیا تھا۔
حصولِ آزادی کے بعد پہلا مرحلہ یہ تھا کہ ریاست کا قبلہ درست کیا جائے، اس کے مقاصد اور اہداف کو متعین کیا جائے اور نظامِ قانون کے مطابق اصول و ضوابط مرتب کیے جائیں۔ برطانوی دور میں تقریباً چار ہزار قوانین حکومت نے اپنے فرمان کے ذریعے مسلط کیے تھے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ دستور کی صحیح بنیادں پر تدوین کے بعد قانون کا جائزہ لیا جاتا۔ ایمان اور آزادی کے تقاضوں کے مطابق پورے قانونی ورثے کا جائزہ لے کر نہ صرف ان تقاضوں سے متصادم قوانین یا قوانین کے حصوں کو ختم کیا جاتا، بلکہ نئی قانون سازی ہو تی، تاکہ مثبت انداز میں ان دونوں ضرورتوں کے مطابق نیا قانونی نظام اور عدالتی ڈھانچا وجود میں آتا اور اس طرح وجود میں آتا کہ کوئی بحرانی کیفیت نہ پیداہوتی۔ مگر اس سمت میں اول تو کوئی کوشش نہ کی گئی، اور اگر کوئی قدم اُٹھایا گیا تو وہ بھی نیم دلی کی تصویر بنا رہا۔
قراردادِ مقاصد اس سمت میں پہلا روشن اور تابناک قدم تھا۔ لیکن اس کے بعد سے آج تک ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی گردان کی جاتی رہی ہے اور اس سے وہ حالات پیدا ہوتے ہیں جن میں باربار نفاذِ شریعت کے مطالبے اُٹھتے ہیں اور حکمران جان بچانے کے لیے چند نمایشی اقدام تو کرتے ہیں لیکن کوئی حقیقی پیش رفت نہیں ہوتی۔ مجھے ذاتی طور پر اس کا بہت قریب سے تجربہ صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ہوا۔ ہم نے پورے خلوص سے ان کو اسلامی نظام کے نفاذ کا ایک مربوط اور مکمل پروگرام دیا، مگر اسلام کے لیے مخلصانہ جذبات کے اظہار کے باوجود وہ اس طرف کوئی حقیقی اور دیرپا پیش رفت نہ کرسکے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ نفاذِ شریعت کے مسئلے کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیاجائے۔ پھر مسئلے کی نوعیت کی مناسبت سے عملی اقدامات کا ایک ہمہ جہتی پروگرام مرتب کیا جائے اور اس کے نفاذ کے لیے مؤثر اور کارفرما مشینری وضع کی جائے۔
نفاذِ شریعت کسی ایک اعلان کا نام نہیں۔ یہ تو ایک مسلسل عمل ( process) ہے جس کی مختلف جہتیں ہیں اور ہرجہت کو دوسری کا معاون و مددگار اور اس کی تقویت کا باعث ہونا چاہیے، تب ہی مربوط اور دیرپا نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ جنرل ضیاء صاحب بار بار کہتے تھے کہ آپ مجھے کوئی ایک چیز بتا دیں جس کے اعلان سے شریعت نافذ ہوجائے، اور میں ہمیشہ ان کو یہی سمجھاتا تھا کہ اگر آپ فی الحقیقت نفاذِ شریعت چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایک اعلان نہیں، تبدیلی کا ایک مفصل اور مربوط پروگرام بنانا ہوگا___ اس کے اہم اجزا یہ ہیں:
۱- دستور میں قرآن و سنت (شریعت) کی بالادستی کا اظہار اور اسے قانون سازی اور پالیسی سازی کے لیے مستقل ماخذ قرار دینا۔نیز دستور میں ایسی ترامیم جو اس کو شریعت سے متصادم اجزا سے پاک کردے۔ دستور کو بار بار ادھیڑنا صحیح نہیں۔ اسی لیے دستور سازی اور قانون سازی میں فرق کیا جاتاہے اور اس کا احترام ہونا چاہیے۔ خاص طور پر جب ہم نے تحریری دستور کا راستہ اختیار کیا ہے تو اس کے تقاضے بھی پورے کرنے چاہییں۔
۲- دستور میں شریعت کے قانونی احکام کے نفاذ کے لیے ایک واضح اور مؤثر نظامِ کار کا تعین۔
___ دفعہ ۲۲۷ ایک اہم انتظام ہے لیکن اس کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ ایک متعین مدت میں اپنا فرض انجام دے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں اس کے لیے سات سال کی مدت رکھی گئی تھی کہ اس زمانے میں تمام مروجہ قوانین کو شریعت سے ہم آہنگ کرلیا جائے گا۔ یہ کام آج تک نہیں ہوا ہے۔
___ اسی دفعہ کی رُو سے آیندہ کے لیے بھی شریعت کے احکام کے نفاذ کے لیے قانون سازی ضروری ہے اور یہ قانون سازی، اسمبلی اور سینیٹ کو ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ کے مشورے اور معاونت سے کرنا تھی۔ مگر اس باب میں بھی ہمارا قومی ریکارڈ بڑا ہی افسوس ناک ہے۔
۳- دستو ر نے شریعت کے نفاذ کے سلسلے میں دفعہ ۲۲۷ کے ساتھ ایک دوسرا راستہ ’پالیسی رہنما اصول‘ (باب ۲، دفعہ ۲۹ تا ۴۰) کی شکل میں نکالا۔ جو عدالتوں کے ذریعے نافذالعمل نہیں تھا مگر ہر سال پارلیمنٹ کو کارکردگی کی رپورٹ کی شکل میں اس عمل کو آگے بڑھانا پیش نظر تھا۔ اس سلسلے میں بھی پیش رفت صفر ہی رہی ہے۔
ان تینوں کے عملاً غیرمؤثر ہوجانے کے بعد نفاذِ شریعت کا ایک دوسرا نسبتاً مختصر راستہ عدلیہ کو یہ اختیار دینا تھا کہ خود اپنے ایما یا اختیار (suo moto)، یا کسی کے توجہ دلانے اور استغاثہ کرنے پر کسی قانون کا جائزہ لے کر متعین کرسکے کہ وہ قانون قرآن و سنت کے مطابق ہے یا متصادم،اور تصادم اور عدم تطابق کی صورت میں اسے کس طرح کالعدم کیا جائے۔
یہاں مسئلہ یہ پیش آیا کہ عدالتوں کے جج حضرات بالعموم اس بنیادی علم سے آراستہ نہیں جو اس کام کو انجام دینے کے لیے درکار ہے۔ صحیح راستہ تو یہ تھا کہ قانون کی تعلیم کے نظام کو، وکلا اور ججوں کی تربیت،انتخاب، ترقی کے اصول و ضوابط کو تبدیل کیا جائے۔ ایک ایسا انتظام کیا جائے کہ ایک معقول مدت میں نیچے سے اُوپر تک جج قانون کے علم کے ساتھ شریعت کا علم بھی رکھتے ہوں اور اخلاق و تقویٰ کے اعتبار سے بھی دینی معاملات میں قوم کے اعتماد کے مستحق ہوسکیں۔ یہ عمل صحیح اور معیاری ہونے کے باوجود وقت طلب تھا۔ اس لیے صدرضیاء الحق کے دور میں پہلے تمام ہائی کورٹوں میں شریعت بنچ کے قیام کی تجویز آئی، جسے عدلیہ نے پسند نہیں کیا۔ وفاقی شرعی عدالت کا راستہ اختیار کیا گیا، جس پر ۱۹۸۰ء سے عمل ہو رہا ہے اور جس کے لیے دستور میں ایک پورے باب کا اضافہ کیا گیا۔ اس میں چند بڑی بڑی خامیاں رہ گئیں:
۱- اس کا دائرۂ کار محدود تھا۔ قوانین کی اکثریت اس کے دائرۂ کار سے باہر تھی۔
۲- یہ صرف قانون یا اس کے کسی حصے پر کلام کرسکتی تھی۔ انتظامی احکام اس کے دائرے سے باہر تھے۔
۳- اس کے ججوں کا تقرر، تبدیلی، تنزلی وغیرہ کے بارے میں ایسے من مانے ضابطے بنائے گئے جو نہ صرف عدلیہ کی آزادی اور اس عدالت کے مستقل وجود کے منافی تھے، بلکہ خود اسلام کے تصورِ عدل کے ساتھ بھی مذاق تھے۔
۴- اسے داد رسی اور عارضی احکام (interim injunctions)کا اختیار حاصل نہ تھا، یعنی یہ عدالت بالکل بے طاقت تھی۔
۵- اس کو صرف حدود کے معاملات میں اپیلوں کی سماعت کا اختیار حاصل تھا۔ باقی اس کا اصل دائرئہ اختیار صرف قوانین کے بارے میں راے دینے تک محدود تھا۔ غنیمت ہے کہ اتنی گنجایش تھی کہ اگر اس کے دیے ہوئے وقت میں مقننہ قانون سازی نہ کرے یا سپریم کورٹ میں اپیل نہ ہوجائے تو کم از کم زیرنظر قانون کا خلافِ شریعت حصہ معدوم ہوجائے گا۔ گو اس کی نوبت کم ہی آسکی۔
اس طرح نفاذِ شریعت (قانون کے جدید تصور کی حد تک) کے جو جو راستے ہو سکتے ہیں، عملاً دونوں ہی غیرمؤثر رہے۔ اور اس وقت سب سے اہم فیصلہ یہی کرنا ہے کہ ان میں سے کون سا راستہ اختیار کیا جائے، یا دونوں طریقوں کو بہ یک وقت جاری رکھا جائے۔
نفاذِ شریعت کا عمل محض قانونی عمل نہیں ہے، گو قانونی دائرے میں قانونی مشینری کے ذریعے اس کام کو انجام دینا ازبس ضروری بھی ہے اور اس کے لیے مزید مؤثر اقدامات بھی درکار ہیں۔ اس قانونی عمل کے ساتھ جن دوسرے اقدامات کی ضرورت ہے ہم ان کی نشان دہی کرتے ہیں:
’پاکستان قومی اتحاد‘ ۱۹۷۸ء کے وسط سے ۱۹۷۹ء کے اوائل تک، چند ماہ کے لیے ضیاء حکومت کا حصہ رہا۔ مگر قومی اتحاد کے حکومت سے نکلنے کے بعد (۱۹۷۹ئ) سارا انتظام بتاشے کی طرح بیٹھ گیا۔ اس سے دو سبق حاصل ہوتے ہیں: ایک یہ کہ جب تک تمام پالیسی ساز اداروں اور افراد کو عملاً اس کام میں شریک نہ کیا جائے کوئی پیش رفت مشکل ہے۔ دوسرے، یہ کام محض وقتی طور پر نہیں، مستقل بلکہ اداراتی انتظام کی شکل میں ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے سب سے اہم چیز سیاسی اثرورسوخ، عزم و ارادہ اور جذبۂ عمل (political will) ہے۔ پاکستان کی گذشتہ تاریخ پر نگاہ ڈالنے سے یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ نفاذِ اسلام کے عمل کو غیرمؤثر اور غیرنتیجہ خیز کرنے والی چیز اسی سیاسی ارادے کی کمی ہے اور یہ صرف ایک فرد کے عزم کا مسئلہ نہیں، یہ پوری سیاسی مشینری اور اجتماعی قیادت کے ارادے اور عزم کا مسئلہ ہے۔ اور جب تک یہ حل نہ ہوگا، گاڑی آگے نہیں چل سکتی۔
اول: اس کا اپنا عزم، وژن، کردار اور نمونہ۔
دوم: اس کا علم، تجربہ، صلاحیت کار، مشاورتی نظام اور اعلیٰ کارکردگی۔
سوم: ایک مؤثر نظامِ شوریٰ اور احتساب تاکہ قیادت صحیح راستے پر قائم اور گامزن رہ سکے۔
اس سلسلے میں اہم ترین مثال سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کی ہے کہ کس طرح ایک ایسے نظام میں جس میں بگاڑ واقع ہوگیا تھا اور قدیم جاہلیت نے اسلام کی انقلابی اصلاحات کو غیرمؤثر یا معدوم کرکے پیچھے کی طرف چلانا شروع کر دیا تھا، انھوں نے ڈھائی سال کے مختصر وقت میں دوبارہ نظامِ حکومت و ریاست کو خلافت راشدہ کی راہ پر ڈالا۔ اور بے نفسی، قربانی، مفاد پرست طبقات پر ضرب اور ریاست کو اس کے اسلامی مقاصد کے لیے دوبارہ منظم کرنے کا کام انجام دیا۔ اپنی ذات سے اصلاح کا آغاز کر کے، اپنے خاندان اور قبیلے کو لگام دی۔ حق پرستی، اصولوں پر عدم لچک، مظلوموں کی دادرسی، میرٹ کا اہتمام اور نتائج سے بے پروا ہوکر باطل سے سمجھوتوں کی روش سے اجتناب کیا۔ یہ تھا قیادت کا وہ نمونہ جو عمرثانی رحمۃ اللہ علیہ نے پیش کیا اور یہی وہ نمونہ ہے جس کی آج ضرورت ہے۔
یہ بڑی معنی خیز حقیقت ہے کہ اسلام کے تعزیری قانون میں جن حدوں کے تحفظ کو قرآن و سنت نے سزائوں کے تعین کے ساتھ طے کردیا وہ یہی پانچ مقاصد ہیں۔ دنیا کے دوسرے تعزیری قوانین میں سیکڑوں نہیں ہزاروں جرائم اور ا ن کی سزائیں ہیں، لیکن اسلام نے جن جرائم اور ان کی سزائوں کو حدود کا مقام دیا وہ یہی پانچ چیزیں ہیں۔ دین و ایمان کی حفاظت کے لیے ارتداد کی سزا کی حد، جسم و جان کے تحفظ کے لیے قصاص و دیت کا قانون، اخلاق، خاندان، عزت و عصمت اور نسل کے تحفظ کے لیے زنا اور قذف کی حدود، عقل کے تحفظ کے لیے تحریمِ خمر اور شراب کی حد اور مال کے تحفظ کے لیے سرقہ اور حرابہ کی حدود___ یہ حدود محض سزائیں نہیں، یہ تو شریعت کے اصل مقاصد اور انسانی معاشرے کی اصل بنیادوں کے تحفظ کا نظام ہیں۔ مقصد سزا دینا نہیں، مقصد ان بنیادوں کا تحفظ، ان کی مضبوطی اور انسانی زندگی کو عدل و انصاف اور عزت و خوش حالی کی برکتوں سے مالا مال کرنا ہے۔
نفاذِ شریعت کے یہ ہیں وہ تمام پہلو ،جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور مل کر ایک نامیاتی کُل (organic whole) بناتے ہیں۔ نفاذِ شریعت کے عمل کو ان سب کا احاطہ کرنا چاہیے، ورنہ وہ نامکمل اور غیرمؤثر رہے گا۔ اس مقصد کے لیے تمام اہلِ وطن کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔
پورے ۱۴۳۶ سال گزرگئے، سیرتِ اطہرؐ کے تمام ابواب کی طرح باب ہجرت آج بھی سراسر باب رُشد و ہدایت ہے۔ ہجرت کے ایک ہی موڑ نے، اہل ایمان کو ظلم و عذاب سے نجات دلا کر، ایک حقیقی اسلامی انقلاب کی منزل سے آشنا کردیا تھا۔ پھر یثرب، یثرب نہ رہا قیامت تک کے لیے ایک شہر روشن: ’مدینہ منورہ ‘ میں بدل گیا۔ عناد و تکبر کے بت دیکھتے ہی دیکھتے رزق خاک ہوتے چلے گئے اور صرف آٹھ برس بعد قافلۂ حق جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ (حق آگیا اور باطل رسوا ہوگیا) کا سرمدی ترانہ دہراتے ہوئے، بیت اللہ کو اپنے مخلصانہ سجدوں سے آباد کررہا تھا۔
سفر ہجرت یقینا قربانیوں کی ایک بے مثال و لازوال داستان ہے۔ مقصدِ حیات کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنا گھر بار، مال و متاع بلکہ اہل و عیال تک قربان کردیے۔ سفر ہجرت، اللہ کی معیت و نصرت اور معجزاتِ نبیؐ کا ایمان افروز تذکرہ بھی ہے۔ غارِ ثور کی سرگوشی لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ج ( فکر نہ کریں اللہ یقینا ہما رے ساتھ ہے۔ التوبہ ۹:۴۰)، اُم معبد کا خیمہ اور سراقہ کی سواری سب اس کی تفصیل سناتے ہیں۔ لیکن سفر ہجرت آپؐ کی عظیم منصوبہ بندی اور اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ (ان کے مقابلے کے لیے جتنی تیاری کرسکتے ہو ضرور کرو۔ انفال ۸:۶۰) کی جامع تفسیر بھی ہے۔ خون کے پیاسے دشمن ہی سے نہیں، ان کی طرف سے اعلان کردہ بڑی انعامی رقم کے لالچ میں ہر قدم پر ممکنہ دشمن سے خطرات لاحق تھے۔ آپؐ نے احتیاط و حذر، مناسب سواری، جاں نثار یارِ غار، صحرائی راستوں کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح جاننے والے راہ نما، دشمن کی نقل و حرکت سے آگاہ کرنے والے زیرک خبررساں___ گویا ایک ایک ضرورت کا اہتمام اور انتظام فرمایا تھا۔ پورا سفر خود اذنِ الٰہی سے شروع ہوا تھا، اللہ پر بھروسا اور اعتماد بھی آپؐ سے زیادہ کون کرسکتا تھا، لیکن انسان ہونے کے ناتے ہر وہ تیاری کی گئی جس کا تصور اس دور میں کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ منتظم ہی کرسکتا تھا۔
ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی گئی، تو وحی کے انداز و موضوعات بھی بدلتے گئے۔ اب دعوت و تربیت، ایک اُمت اور ایک ریاست میں بدل رہی تھی۔ انسانیت کو عقائد و عبادات کے ساتھ، معاشرت و ریاست کے تفصیلی احکام کی بھی ضرورت تھی۔ یہاں تک کہ ایک روز یہ بشارت مل گئی کہ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے، اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے، اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘ (المائدہ۵:۳)۔ زندگی کا کوئی گوشہ رہنمائی کے بغیر نہیں چھوڑا گیا۔ خالق نے مخلوق کے حقوق بھی تمام تر جزئیات کے ساتھ بیان کردیے۔ یہ اعزاز و سرفرازی اتنی شان دار تھی کہ غیر مسلم بھی حسرت سے کہنے لگے: ’’یہ آیت ہمارے لیے نازل ہوئی ہوتی تو ہم آج کا دن روزِ عید قرار دے دیتے‘‘۔
اسی کامل و اکمل شریعت میں کئی اہم اُمور ایسے ہیں جن کے بارے میں اصولی رہنمائی دے کر بندوں کو فیصلے اور چناؤ کا اختیار دے دیا گیا۔ یہ بھی رحمن و رحیم پروردگار کی رحمت ہی کا ایک پرتو تھا، تاکہ بندے ہر بدلتے حالات میں اپنی سہولت اور ضرورت کے مطابق فیصلہ کرسکیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق:’’ اللہ تعالیٰ نے تم پر فرائض عائد کردیے، انھیں ضائع نہ کرو۔ تمھارے لیے حدود متعین کردیں، ان سے تجاوز نہ کرو۔ تمھیں کچھ چیزوں سے منع کردیا، ان کا ارتکاب نہ کرو۔ اور کچھ اُمور کے بارے میں اس نے بھولے بغیر او رتم پر رحم کرتے ہوئے سکوت اختیار فرمایا، ان کے بارے میں غیر ضروری تکلف میں پڑے بغیر انھیں قبول کرلو‘‘۔
حکومت سازی اور انتقالِ اقتدار کا معاملہ بھی انھی اہم اُمور میں سے ایک ہے۔ اسلام میں کسی بھی طرح کی آمریت، ظلم و تعدی یا انتشار و فساد کی قطعاً کوئی گنجایش نہیں۔ مسلم معاشرے کا ہرشہری یکساں حقوق و مواقع رکھتا ہے۔ واضح حکم دے دیا گیا کہ: شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ( ہر اہم کام میں ان سے مشورہ کیا کیجیے۔آل عمران۳:۱۵۹)۔ آپؐ اور آپؐ کے بعد صحابہ کرامؓ نے اجتماعیت کے اس بنیادی حسن، شورائیت و مشاورت کا حق ادا کردیا۔ اللہ کا نبی اور صاحبِ وحی ہونے کے باوجود صحابہ کرامؓ نے اگر آپؐ کی راے سے مختلف کوئی راے رکھی، تو کامل اخلاص و محبت سے اس کا اظہار کیا۔ آپ نے بھی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے ان کی آرا کو تسلیم کیا۔ بدر میں پڑاؤ اور اُحد کے میدان کا انتخاب جیسے درجنوں واقعات اس مشاورتی عمل کی روشن مثالیں پیش کرتے ہیں۔ آپؐ کی رحلت کے بعد انتقالِ اقتدار کا مرحلہ آپؐ کی تربیت اور قرآنی تعلیمات پر عمل در آمد کا پہلا کڑا امتحان تھا۔ یہی صورت خلیفۂ اول اور ان کے بعد آنے والوں کو درپیش آئی۔ آئیے! یہاں چاروں خلفاے راشدین کے انتقالِ اقتدار کے واقعات مختصراً تازہ کرلیں۔
’’میں نے اپنے بعد عمر بن الخطاب کو اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ ان کی بات سنیں اور ان کی اطاعت کریں۔ میں نے اللہ، اس کے رسول، اس کے دین اور خود اپنی بھلائی کے لیے بہترین فیصلہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا۔ اگر انھوں نے انصاف سے کام لیا تو ان کے بارے میں میرا یہی گمان اور علم ہے۔ اور اگر وہ اس راے سے مختلف نکلیں، تو ہر شخص اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے، مجھے کوئی علم غیب نہیں۔ کیا آپ بھی انھیں تسلیم کرتے ہیں جنہیں میں نے اپنے بعد آپ لوگوں کا خلیفہ بنایا ہے؟‘‘ تمام صحابہ کرام نے بالاجماع اسے تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
بظاہر ان چاروں خلفاے راشدین کے لیے طریق انتخاب مختلف رہا، لیکن سب نے اسلامی تعلیمات کی بنیادی روح، یعنی آزادانہ راے اور شورائیت کی اعلیٰ مثالیں پیش کیں۔ ان سب قدسی نفوس نے ہمیشہ خود کو عوامی عدالت میں پیش کیا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے الفاظ میں کہا: ’’میں آپ کا ذمہ دار بنایا گیا ہوں لیکن تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر اللہ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کریں اور اگر غلطی کروں تو میری اصلاح کردیں‘‘۔ اس ضمن میں صحابہ کرامؓ اس قدر دوٹوک اور بیدار تھے کہ ایک خاتون نے بھی راہ چلتے خلیفۂ راشد کو روک کر کہا: آپ نے کیسے یہ فرمان جاری کردیا کہ خواتین کے لیے حق مہر کی رقم ایک متعین حد سے زیادہ نہیں ہوسکتی حالانکہ خود قرآن کریم ڈھیروں کے ڈھیر مہر ہوسکنے کا ذکر کرتا ہے ۔ عمرفاروق رضی اللہ عنہ وہ خلیفہ تھے کہ کئی مواقع پر ان کی راے کی توثیق خود وحی الٰہی نے کی تھی۔ آپ چند لمحے سوچ کر بولے: أَصَابَت اِمرَأَۃٌ وَ أَخطَأَ عُمَر( ایک خاتون کی راے درست ہے اور عمر کی راے غلط)۔ حق مہر کی رقم محدود کردینے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ پورا دور خلافت راشدہ آزادیِ راے اور حقیقی جمہوریت کی ایسی لاتعداد مثالوں سے درخشاں ہے۔ رسول اکرمؐ نے بھی اس درخشندہ دورِ خلافت راشدہ کی بشارت دیتے ہوئے اسے انسانیت کے لیے رول ماڈل قرار دیا تھا۔ ’’آپ نے مختلف فتنوں سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’آپ لوگوں میں سے میرے بعد جو زندہ رہا، وہ معاشرے میں بہت سارے اختلافات دیکھے گا۔ ایسے میں آپ لوگ میری اور میرے بعد آنے والے سراپا ہدایت خلفاے راشدین کی سنت کی پیروی کیجیے گا۔ اسے مضبوطی سے تھامے رکھیے گا‘‘۔ (صححہ الالبانی)
۱۴۳۶ سالوں پر مشتمل تاریخ شاہد ہے کہ اس پورے عرصے میں جو معاشرہ جتنا جتنا اس سرچشمہء خیر سے قریب رہا، اتنا ہی کامران ہوا۔ شورائیت، احترامِ آدمیت، امانت اور عدل و رحمت کے اس درست ترین پیمانے سے جو بھی او رجتنا بھی دُور ہوا اتنا ہی برباد و بے آبرو ہوتا چلا گیا۔ تاریخ کے تمام ادوار اور زندگی کے باقی تمام ابواب ایک طرف رکھ کر، ہم اگر عہد حاضر کے مختلف نظام ہاے حکومت ہی پر نگاہ دوڑائیں، تو صرف وہی نظام سرخرو ثابت ہوگا کہ جس میں ان بنیادی اسلامی تعلیمات کی روح کارفرماہوگی۔ شورائیت، احترامِ آدمیت، امانت اور عدل و رحمت کا نظام رائج ہو تو غیر مسلم معاشرے بھی امن و خوش حالی کی اعلیٰ مثالیں بن کر دنیا کے سامنے آنے لگتے ہیں۔
دوسری جانب جب آزاد اور پُرامن معاشروں میں اسوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر چلتے ہوئے اسلامی ریاست قائم کرنے کی بات ہو تو یہ تحریکیں مکمل طور پہ پُرامن جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں۔ ان کی قیادت اور کارکنان کو پھانسیوں پر چڑھادیا گیا اور چڑھایا جارہا ہے۔ ان کے کارکنان پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا۔ مصر، شام، بنگلہ دیش اور یمن سمیت کئی ممالک میں آج بھی ان تحریکوں کے ایک لاکھ سے زائد کارکنان جیلوں میں عذاب و اذیت سہ رہے ہیں، لیکن کسی بھی جگہ انھوں نے دل و دماغ پر دعوت کی دستک دینے کے بجاے، بم دھماکوں یا اپنے مخالفین کو ذبح کردینے کی بات نہیں کی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تین نکات کی صورت دوٹوک اصول واضح کردیے:
۱- آپ اس ملک میں اسلامی نظام زندگی عملاً قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے قیادت کی تبدیلی ناگزیر ہے۔
۲-آپ جس ملک میں کام کررہے ہیںوہاں ایک آئینی و جمہوری نظام قائم ہے اور اس نظام میں قیادت کی تبدیلی کا ایک ہی آئینی راستہ ہے: انتخابات۔
۳- ایک آئینی و جمہوری نظام میں رہتے ہوئے تبدیلی قیادت کے لیے کوئی غیر آئینی راستہ اختیار کرنا شرعاً آپ کے لیے جائز نہیں ہے۔
اور پھر فرمایا: ’’ان تین حقیقتوں کو ملا کر جب آپ غور کریں گے توبالکل منطقی طور پر وہی نتیجہ نکلے گا جو قرارداد میں بیان کیا گیا ہے۔ آپ انتخابات میں آج حصہ لیں یا ۱۰،۲۰،۵۰ برس بعد، بہرحال اگر آپ کو یہاں کبھی اسلامی نظام زندگی قائم کرنا ہے تو راستہ آپ کو انتخابات ہی کا اختیار کرنا پڑے گا‘‘۔
رب ذو الجلال کی مشیت ان اسلامی تحریکات کو ایک اور طرۂ امتیاز عطا کرتی ہے۔ مصر، شام، بنگلہ دیش، فلسطین یا ترکی و یمن کی جیلیں ہوں یا وہاں کے پھانسی گھاٹ اور عقوبت خانے، جتنا جتنا ان تحریکات کو کچلنے کی کوشش کی گئی اور کی جارہی ہے، ان تحریکات کو اللہ نے مزید قوت و اہمیت عطا کی ہے۔ وہ تحریک جسے مصر اور پاکستان ہی میں نابود کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، آج نہ صرف پورے عالم اسلام بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی مضبوط و توانا وجود رکھتی ہے۔ ۱۹۴۹ء میں امام حسن البناؒ کو شہید کرکے ساری تحریکی قیادت جیلوں میں بند کردی گئی۔ جیلوں اور شہادتوں کا یہ سلسلہ تب سے لے کر آج تک جاری ہے۔ ۲۰۱۱ء میں پہلی بار اخوان کو برسرِاقتدار آکر قوم کی رہنمائی و نمایندگی کا موقع ملا تو ساری دنیا نے دیکھا کہ وہ جو ہزاروں کی تعداد میں جیلوں میں گئے تھے، اب صرف مصر میں ان کی تنظیمی افرادی قوت ۲۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ تقریباً یہی عالم دیگر مسلم ممالک میں ہے۔
ترکی میں ملّی نظام پارٹی، ملّی سلامت پارٹی، رفاہ پارٹی اور پھر فضیلت پارٹی پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ لیکن آج ان پابندیوں اور گرفتاریوں کا شکار رہنے والی قیادت ہی ترکی میں اصلاح و استحکام کی شان دار مثالیں قائم کررہی ہے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی نے کبھی انتخابی نتائج میں وہ سرخروئی حاصل نہیں کی تھی، جو جیلوں میں رہ کر حالیہ بلدیاتی انتخابات میں حاصل کی ہے۔ خاکم بدہن بہت ممکن ہے کہ یہ پرچہ آپ تک پہنچنے تک علی احسن مجاہد ( سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی بنگلہ دیش) کی شہادت کی روح فرسا خبر بھی پہنچ جائے، لیکن پیچھے رہ جانے والوں سے زیادہ، ان آگے جانے والوں کو یقین ہے کہ ان کی یہ قربانیاںبالآخر شورائیت پر مبنی حقیقی جمہوریت کے قیام کی بنیاد بنیں گی۔ رہ گئیں ان کی قربانیاں، تو دنیا میں ہر آنے والے کو بہرحال واپس جانا ہے، اور شہادت کی سعادت کے لیے خود رسولِؐ رحمت اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ تمنا اور دُعائیں کرتے رہے۔
یہ حقیقت بھی کسی کی نظروں سے اوجھل نہیں رہنی چاہیے کہ مادر پدر آزاد معاشروں کی مغربی جمہوریت اور سر پہ ’حاکمیت اعلیٰ‘ کا تاج سجائے مسلمان ممالک کے تصورِ جمہوریت میں ایک جوہری فرق ہے۔ مغربی ممالک کا جمہوری نظام اس حوالے سے یقینا باعث رشک ہے کہ اس میں اب بھی کرپشن، دھاندلی،ہارس ٹریڈنگ، غنڈا گری اور جعل سازی کا عنصر قدرے محدود ہے، جب کہ مصر، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے ممالک میں یہ سب خرابیاں اور انتخابات لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن ان سب مفاسد کے باوجود مسلم ممالک، اپنی مجالس شوریٰ، یعنی ایوان ہاے اسمبلی کے ذریعے اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہنے کے پابند ہیں۔ مثال کے طور پہ کوئی مسلم معاشرہ اہل مغرب کی طرح اس بہیمیت و حیوانیت کی سطح تک گرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ عورتوں کی عورتوں اور مردوں کی مردوں سے شادی کو جائز و ممکن قرار دینے جیسے جرائم کا ارتکاب کرسکے۔ اصل سوال البتہ یہ ہے کہ مروجہ نظام راے دہی، یعنی انتخابی عمل کی خامیوں سے نجات کیسے حاصل کی جائے؟
افسوس ناک امر یہ ہے کہ جب اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی تو نظام سے زیادہ خود اپنی اور اپنے معاشرے کی خامیاں سامنے آئیں گی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور سکھایا تھا: نَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَفْجُرُکَ، ہم تیرے نافرمان ہر شخص کی اطاعت کا قلاوہ اتارنے اور اسے چھوڑنے کا اعلان کرتے ہیں‘‘۔ حضرت عمر فاروقؓ فرماتے تھے: ’’جس نے کسی فاجر کو اپنا ذمہ دار چنا تو وہ بھی اسی کی طرح کا فاجر ہے‘‘۔
امام غزالی احادیثِ نبویؐ کی روشنی میں فرماتے ہیں: ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ دنیا کے بغیر دین پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت اور دین جڑواں چیزیں ہیں۔ دین اصل اور اقتدار نگہبان ہے۔ جس عمارت کی اصل و بنیاد نہ ہو، وہ ڈھے جاتی ہے اور جس کا نگہبان نہ ہو وہ ضائع ہوجاتا ہے‘‘۔ امام احمد بن حنبل نے کہا تھا’’اگر میری ایک ہی دُعا قبول ہونی ہوتی تو میں وہ دُعا حکمران کی اصلاح کے لیے کرتا‘‘۔ لیکن اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا دعوے دار ہمارا معاشرہ صرف آپ کی ولادت و بعثت و ہجرت اور مختلف صحابہ کرامؓ کی شہادت کے ایام منانے ہی کو دین کی اصل معراج قرار دیتا ہے۔ انتخاب و اقتدار کو محض ایک کھیل تماشا، اور مفادات کی غلیظ جنگ بنادیا گیا ہے۔ اس پوری جدوجہد کو دینی فریضہ اور عبادت سمجھنے والوں کی اکثریت بھی اس کے تقاضے پورے کرنے کے بجاے اپنے محدود دائرے میں مخصوص سرگرمیوں پر اکتفا کرکے خود کو بری الذمہ قرار دیے بیٹھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر ہجرت اور آپؐ کی سراپا عمل و جہاد حیاتِ طیبہ کا ذکر تو کرتے ہیں، لیکن خود آپؐ کے نقوش پا کی پیروی کرنے کا مرحلہ آئے تو صرف طفل تسلیوں سے دل بہلاتے ہیں۔ ان کا زیادہ وقت اخبارات، ٹی وی کے تبصروں، باہمی پسند و ناپسند اور گروہ بندیوں اور افراد کی غلطیوں کی بنا پر پوری تحریک کو مطعون کرتے ہوئے مایوسی پھیلانے کی نذر ہوجاتا ہے۔
بعثت کا اعزاز ملنے کے بعد سے لے کر وصال تک، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لمحوں کے لیے بھی اس فریضے کو نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔مکہ والوں میں سے کوئی ایک بھی فرد ایسا نہ چھوڑا جس تک آپ نے اپنی دعوت نہ پہنچائی۔ قریبی شہروں میں بھی تشریف لے گئے اور مکہ آنے والے ایک ایک قافلے اور قبیلے کے پاس جاکر انھیں اس قافلہء حق میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ بالآخر ایک شب یثرب کے چھے مبارک نفوس ابتدائی قبولِ دعوت کے بعد واپس چلے گئے۔ اگلے برس موسم حج میں وہ دُگنے (۱۲) ہوکر آئے۔ بیعتِ عقبہ اولیٰ ہوئی۔ اس سے اگلے برس (۷۵) (چھے گنا سے بھی زیادہ) ہوگئے۔ آپ نے ان کے ۱۲ نقیب مقرر کرکے گویا انھیں ۱۲ ذیلی تنظیموں کی لڑی میں پُرو دیا۔ چند ہی ماہ بعد پورا یثرب آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کے استقبال کی تیاریاں کرنے لگا۔ اور پھر ایک وقتیَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا کا منظر نصیب ہوگیا۔
آج ہمارا کام تو نسبتاً آسان ہے۔ ہم نے کسی کو اس کے دینِ آبا سے نکال کر دائرۂ اسلام میں داخل نہیں کرنا۔ ہم نے انھیں صرف حقیقت ِاسلام بتانی اور یاد دلانی ہے۔ خصوصی طور پر قرآن کی چار بنیادی اصطلاحوں دین، عبادت، رب اور الٰہ کا حقیقی مفہوم بتانا ہے۔ رسولؐ و بتولؓ کے جگرگوشے نے اپنے ناناؐ کی قائم کردہ اور خلفاے راشدین کی امانت اسلامی ریاست اور نظامِ حکومت کی حفاظت کی خاطر، کربلا میں جو عظیم قربانی پیش کی تھی، اس کے اصل مقصد سے آشنا کروانا ہے۔ حضرت امام حسینؓ نے بھی یزید کے ہاتھ پر بیعت نہ کرکے اس کے حق میں اپنا ووٹ دینے سے انکار ہی تو کیا تھا۔ آج ہمیں اپنے معاشرے اور اس سے پہلے خود کو یہ فرمانِ الٰہی یاد دلانا ہے کہ وَلَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ o(ھود۱۱: ۱۱۳)’’ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجائو گے‘‘۔
ہم نے اپنے حصے کا یہ کام کرلیا، بلااستثنا معاشرے کے ہر فرد تک پہنچنے اور انھیں قافلۂ حق میں شریک کرنے کا آغاز کردیا تو ان شاء اللہ بہت جلد ایک اور فرمانِ الٰہی ہمیں بشارت دے رہا ہوگا: وَ کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ o(الروم۳۰: ۴۷) ’’اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں گے‘‘۔
’قراردادِ مقاصد‘ ایک تاریخی دستاویز ہی نہیں، ایک ایسا آئینہ بھی ہے، جس میں تحریکِ پاکستان کے اصل مقصد اور منزل کی ایک واضح تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۷۳ء کے ’دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ میں دیباچے کے طور پر اسے شامل کرنے کے بعد دیباچے کے دوسرے حصے میں کہا گیا کہ جو دستور منظور اور نافذ کیا جا رہا ہے وہ ’’قادر مطلق اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے بندوں کے سامنے اپنی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ کیا جا رہا ہے‘‘۔ اور جو تصور ریاست اور حکمرانی کا نظام اس میں تجویز کیا جا رہا ہے، وہ محض اس وقت کی اسمبلی کے احساسات کا عکاس نہیں بلکہ وہ بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کے اس اعلان سے وفاداری کے ساتھ کیا جا رہا ہے، جو انھوں نے برعظیم کے مسلمانوں سے سماجی عدل کے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک جمہوری حکومت کے قیام کے لیے کیا تھا اور جس کے لیے پورے برعظیم کے مسلمانوں نے عظیم قربانیاں دی تھیں اور دے رہے ہیں۔
’قراردادِمقاصد‘ اور اس کی روشنی میں بننے والے دستور کا یہی وہ امتیازی پہلو ہے، جو اس کے اسلامی، جمہوری اور فلاحی تصور کو اس کی ناقابلِ تغیر شناخت بنادیتاہے، اور انتظامی دروبست کو ایک ثانوی حیثیت دیتا ہے، جس میں حسب ِ ضرورت تبدیلی اور ترمیم ہوسکتی ہے، مگر اس مملکت کی نظریاتی بنیاد اور اس کو مستحکم کرنے والی دستوری دفعات میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں کی جاسکتی، جو اس شناخت کو مجروح کرنے والی ہو۔ پاکستان کا وجود تحریکِ پاکستان کا نتیجہ ہے اور اس تحریک میں پورے برعظیم کے مسلمانوں نے کچھ خاص مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی تھی۔ اس ملک کا قیام ایک معاہدۂ عمرانی کا نتیجہ ہے، جسے کسی مصلحت یا وقتی رو کے نتیجے میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست کے تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اس بنیاد کی حفاظت کریں اور اس شناخت کو روشن تر کرنے کی کوششیں کریں اور اس کو کمزور کرنے یا اس کی شکل بگاڑنے کی ہر کوشش کا پوری قوت سے مقابلہ کریں۔ ہر ادارے کی حقانیت (legitimacy) کا انحصار اس بصیرت (vision) سے وفاداری پر ہے۔ ہر ادارہ قرآن و سنت کی بالادستی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حدود کی پاس داری کا ذمہ دار ہے۔ پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ ہی نہیں، پارلیمنٹ کو منتخب کرنے والے عوام بھی ان حدود کے دائرے ہی میں اپنا اختیار استعمال کرنے کے پابند ہیں۔
اللہ کی حاکمیت اور اس کی بنیاد پر قائم ہونے والی ریاست کا اپنا مزاج اور اپنا نظام ہے۔ اس ریاست کو دوسروں کے معیارات کا تابع کرنا اس عہد سے بے وفائی اور صریح ظلم ہوگا، جو اس مملکت کی بنیاد ہے۔ آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے، لیکن یہ اتنی ہی بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ ایک شخص محض اس دعوے کی بنیاد پر کہ میں آزاد ہوں، اپنی آزاد مرضی سے اپنے کو کسی دوسرے کی غلامی میں نہیں دے سکتا اور نہ خود اپنی جان لے سکتا ہے۔ خودکشی ہر مہذب نظام میں ایک جرم ہے اور انسانوں کی فروخت رضامندی سے بھی ناقابلِ قبول عمل ہے۔ اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ کی حاکمیت اور تمام اختیارات کو امانت تسلیم کرنے کے بعد یہ حق مانگنا کہ: ’’فلاں ادارہ ’سپریم‘ ہے، اور وہ دستور میں ترمیم کے نام پر جو تبدیلی چاہے کرسکتا ہے‘‘ فی الحقیقت امانت اور خلافت کے تصور ہی کی نفی ہے۔ اللہ کی حاکمیت کے اقرار کے بعد وہ تمام حدود محترم ہوجاتی ہیں جو قرآن و سنت نے مقرر فرما دی ہیں۔ اس لیے ہماری آزادی کا دائرہ ان حدود کے اندر ہے، ان کے باہر نہیں۔
دستورِ پاکستان میں ’قراردادِ مقاصد‘ کا بطور دیباچہ اور دفعہ ۲-الف کے طور پر شامل کرنا اسے دستور کا وہ ترازو بنادیتا ہے، جس پر مطلوب اور نامطلوب کا تعین کیا جائے گا۔ جس طرح عدلیہ دستور کی تخلیق (creature) ہے، بالکل اسی طرح پارلیمنٹ، انتظامیہ اور فوج بھی اس کی تخلیق ہیں، حتیٰ کہ عوام بھی دستور کے تحت ہی اپنے حکمرانی کے اختیارات استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔ اسلامی نظریہ اور اسلام کے اصولوں کی روشنی میں جمہوریت، عدلِ اجتماعی، قانون کی حکمرانی اور عوامی فلاح و بہبود کے اہداف وہ ناقابلِ تغیر پہلو ہیں، جن کے بارے میں کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دستور میں قرآن و سنت کے احکام کے خلاف قانون سازی کی واضح طور پر تحدید کر دی گئی ہے۔ اسی طرح بنیادی حقوق کو مجروح کرنے والی قانون سازی کے اختیار سے مقننہ کو محروم کیا گیا ہے۔ دفعہ۶ میں دستور کو توڑنے، اس کو تہ و بالا (subvert) کرنے، معطل (suspend) کرنے، غیرمؤثر کرنے، یا اسی نوعیت کے عمل میں کسی قسم کی معاونت کو جرم اور غداری قرار دیا گیا ہے۔ اس پابندی کا اطلاق ہر فرد اور ادارے پر ہے: بشمول انتظامیہ، فوج، مقننہ اور عدلیہ۔
دستورِ پاکستان میں صرف یہی ایک جرم ایسا ہے، جسے دفعہ۱۲(۲) کی رُو سے اطلاق بہ ماضی کی حُرمت سے مستثنیٰ کیا گیا ہے، یعنی دستور ۱۹۷۳ء میں بنا ہے مگر اس کا اطلاق ۱۹۵۶ء سے ہوگا، جب پاکستان میں پہلا دستور نافذ ہوا تھا۔ نیز عدالتوں پر بھی ایسے اقدام کے لیے بعد از عمل جواز (validation) پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پھر اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ صدرِمملکت، وزیراعظم ، وزرا اور پارلیمنٹ کے ارکان کے حلف نامے میں دستور کی پابندی اور اس کے مطابق کام کرنے کے عہد کے ساتھ ساتھ، دستور کے تحفظ اور دفاع اور اسلامی نظریے کے تحفظ کا عہد بھی لیا جاتا ہے۔ کیا یہ تمام اُمور اس امر کا ثبوت نہیں ہیں کہ اسلام جو پاکستان کی بنیاد ہے اور ’قرادادِ مقاصد‘ نظامِ حکمرانی کے جن اصولوں اور حدود کی نشان دہی کرتے ہیں، وہ دستور کی اساس اور اس کے ناقابلِ تغیر حصوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر کوئی ان کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو روکنے کا کوئی نہ کوئی انتظام ہونا چاہیے۔
قانون کے دائرے میں اس کا معروف طریقہ یہی ہے کہ عدلیہ، دستور کے محافظ کے طور پر اپنا کردار ادا کرے۔ البتہ حالات کو دیکھ کر عدلیہ دونوں میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کرسکتی ہے، یعنی یہ کہ وہ ایسی ترمیم کو پارلیمنٹ کو دوبارہ غور کرنے کے لیے بھیج دے، تاکہ پارلیمنٹ خود اصلاح کرے، جیساکہ اٹھارھویں ترمیم کے سلسلے میں عدالت عظمیٰ نے کیا۔ بصورتِ دیگر ایسی ترامیم کو دستور کی اصل سے متصادم ہونے کی حد تک غیرمؤثر کرنے کا اختیار عدلیہ کو حاصل ہونا چاہیے۔ یہ اعتراض کہ اس طرح’ منتخب نمایندوں‘ پر ’غیر منتخب عدلیہ‘ کی بالادستی کا نظام قائم ہوجائے گا، خلطِ مبحث سے زیادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ اگر دفعہ۸ کے تحت پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کو کالعدم قرار دینے سے منتخب نمایندوں کی بے توقیری نہیں ہوتی اور ان پر ’غیرمنتخب‘ کی بالادستی صادق نہیں آتی، اگر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی رُو سے قرآن و سنت سے متصادم قانون مہلت کے ختم ہوتے ہی غیرمؤثر ہوجاتا ہے، اور اس کے پارلیمنٹ کے اختیارات پر کوئی ضرب نہیں لگتی، تو دستوری ترمیم کے سلسلے میں عدلیہ کے اقدام کو ’عدالتی جارحیت‘ اور عدالتی استبداد‘ (judicial autocracy) کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟
اگر غیرمنتخب عدلیہ ،پارلیمنٹ کے اکثریت سے منظور کردہ قانون کو خلافِ قانون قرار دے کر مطلق العنان نہیں بنتی تو دستوری ترمیم کے باب میں کیسے اس الزام کی سزاوار ہوسکتی ہے؟ عام حالات میں دستوری ترمیم سیاسی عمل ہی سے ہونی چاہیے۔ لیکن اگر مقننہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتی ہے تو دستور ہی میں طے کردہ گرفت کرنے اور توازن قائم کرنے (check and balance) کے نظام کے تحت اس کے ہاتھ کو کیسے روکا جاسکتا ہے کہ وہ بھی دستور اور قانون ہی کی پیداوار اور تخلیق ہے اور ان کی پابند بھی ہے۔ پھر عدلیہ بھی اسی دستور سے اپنے اختیارات حاصل کر رہی ہے، جس دستور سے پارلیمنٹ، حکومت اور عوام حاصل کرتے ہیں۔
اگر ایک منتخب صدر، وزیراعظم، رکن پارلیمنٹ کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو کیا غیرمنتخب پولیس اس کے خلاف قانونی کارروائی نہ کرے؟ کیا غیرمنتخب الیکشن کمیشن، منتخب ارکان کی بے ضابطگیوں پر احتساب نہ کرے؟کیا غیرمنتخب آڈیٹر جنرل منتخب حکومت کی بدعنوانی یا بے قاعدگی پر گرفت نہ کرے؟ ریاست کا ہر ادارہ اپنے دائرے میں اپنے اختیارات کو استعمال کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اسی طرح پارلیمنٹ بھی اپنے دائرۂ اختیار سے اگر تجاوز کرتی ہے تو عقل اور عدل کا تقاضا ہے کہ اس پر گرفت کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔ عوام کا احتساب اور انتخابات میں محاسبہ بھی ایک حقیقت ہے، لیکن وہ احتساب کا واحد ذریعہ نہیں ہے۔ مختلف معاملات کے سلسلے میں اپنے اپنے دائرے میں احتساب اور گرفت کی دوسری شکلیں بھی ہیں، جو معروف ہیں۔ ایسی تمام صورتیں دستور کے نظام کا حصہ ہیں، اس لیے محض منتخب اور غیرمنتخب کے حوالے سے پارلیمنٹ کو کھلی چھوٹ نہیں دی جاسکتی۔
بلاشبہہ ایک اسلامی معاشرے میں مسلم آبادی کے لیے یہ ایک طے شدہ امرِواقعہ ہے کہ پوری کائنات پر خودمختاری اور فرماںروائی اللہ وحدہ کو سزاوار ہے۔ لیکن اس الہامی اصول کے حدود کے اندر ان معاملات میں منتخب نمایندے ہی اقدام کرنے کے مجاز ہیں، کوئی اور نہیں۔ اسی کا اطلاق دستوری ترامیم پر بھی ہوتا ہے۔
ہم بڑے ادب سے عرض کریں گے اور اسلامی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ اربابِ اقتدار کے قرآن و سنت سے انحراف کے معاملات پر عوام الناس نے اپنے انداز میں، اور علما، فقہا اور عدلیہ نے اپنے انداز میں احتساب کیا ہے اور ہر دور میں کھلے عام یہ احتساب کرنا ان کی ذمہ داری رہی ہے۔
دورِ خلافت ِ راشدہؓ میں آزاد عدلیہ کا قیام وجود میں آگیا تھا اور خلیفۂ وقت بھی عدلیہ کے سامنے اسی طرح جواب دہ تھا جس طرح کوئی دوسرا فرد۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی عام افراد کی طرح قاضی کے سامنے پیش ہوئے۔ ہماری ساری فقہ آزاد اور غیرسرکاری انتظامات کے تحت وجود میں آئی ہے۔ افتا اور قضا یہ دو اہم ادارے تھے، جن کے ذریعے پورا قانونی سرمایہ وجود میں آیا ہے۔ مہر کی حد مقرر کرنے کے سلسلے میں خود حضرت عمر فاروقؓ کے فیصلے کو ایک محترمہ صحابیہؓ نے چیلنج کیا اور امیرالمومنین نے اپنے طے کردہ قانون کو واپس لیا اور اعتراف فرمایا کہ: ایک خاتون نے مجھے ایک بڑی غلطی سے بچالیا۔ ہماری تاریخ میں، ججوں کے وضع کردہ قوانین ( judge made law) کا ایک بڑا کردار ہے۔ اسلام نے تو اربابِ اختیار کے باب میں اطاعت کے لیے اصول ہی یہ طے کیا ہے کہ لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِق ( کسی انسان کی اطاعت جائز نہیں، اگر اس کے نتیجے میں اللہ کی نافرمانی واقع ہوتی ہو)۔ اسلامی حکمرانی کا ایک بنیادی اصول قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا o(النساء ۴:۵۹) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو اللہ کے رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر تم اگر کسی معاملے میں تمھارے اور ان کے درمیان نزاع ہو تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو، اگر تم ایمان رکھتے ہو، اللہ اور آخرت کے دن پر۔ یہ بہتر ہے اور بلحاظ انجام بھی اچھا ہے۔
غیرمشروط اطاعت صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہے۔ اصحابِ امر کے اختلاف اور دلیل سے ان سے مجادلہ اور مباحثہ زندگی کی ایک حقیقت ہی نہیں، بلکہ ایک جائز حق بھی ہے۔ لیکن آخری فیصلے کے لیے معیار: اللہ اور اس کے رسولؐ کے ارشادات ہی ہیں، اور فطری طور پر اس کے جائزے اور تحکیم کے لیے کوئی نہ کوئی ادارہ ہونا چاہیے۔ ہماری تاریخ میں علما، فقہا اور قاضی حضرات یہ خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔ آج کے دور میں جب قانون سازی کے ادارے انتخابی بنیادوں پر وجود میں آگئے ہیں، تو ایسے منظم نظام کی ضرورت دوچند ہوجاتی ہے۔ ہمارے دور کے اہلِ علم نے اس نازک اور بنیادی ذمہ داری کے تعین کے لیے عدلیہ ہی کو مناسب ادارہ تجویز کیا ہے۔ خود ہمارے دستور میں ’وفاقی شرعی عدالت‘ کا وجود اس کی مثال ہے۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے اس سلسلے میں جس راے کا اظہار کیا تھا، اس سے روشنی حاصل کی جاسکتی ہے۔ تعبیرِ دستور کے مسئلے پر کلام کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا:
رہے عام دستوری مسائل، جن میں شریعت کوئی منفی یا مثبت احکام نہیں دیتی، ان میں مقننہ کو آخری فیصلہ کن اختیارات دے دینا بحالاتِ موجودہ خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک غیر جانب دار ادارہ ایسا موجود ہونا چاہیے، جو یہ دیکھ سکے کہ مقننہ نے کوئی قانون بنانے میں دستور کے حدود سے تجاوز تو نہیں کیا ہے اور ایسا ادارہ ظاہر ہے کہ عدلیہ ہی ہوسکتا ہے۔ (اسلامی ریاست ، مولانا مودودی،ص ۵۳۹)
تاریخی نظائر کا معاملہ بہت نازک ہے۔ ہر دور کے اپنے حالات، مسائل اور امکانات ہوتے ہیں، اور شریعت نے ان کا لحاظ رکھا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملوکیت (بادشاہت) کے باوجود اسلامی قانون کی برکت سے اربابِ اقتدار پر بڑی گرفت رہی۔ یوں قانون کی حکمرانی اور بالادستی کی اعلیٰ نظیریں ہر دور میں مل جاتی ہیں۔ خلافت عثمانیہ کے بارے میں امریکی مصنف پروفیسر جان لویئس اسپوزیٹو اور پروفیسر جان وول اپنی کتاب Islam and Democracy میں لکھتے ہیں:
بعد کی صدیوں میں عثمانی سلطنت کے دور میں اس معاہدے کے مفہوم کو قانونی حیثیت دے دی گئی۔ سلطنت ایک اسلامی سلطنت تھی اور اس کا سربراہ سلطان اسلامی قانون کے ماتحت تھا اور اس کا یہ اختیار تسلیم کیا جاتا تھا کہ انتظامی فرمان جاری کرے جو قانون کے مثل ہوتے تھے۔ اِس سلطانی نظام کے علما کو بہرحال یہ حق حاصل تھا جو عموماً سیاسی وجوہ کی بنا پر استعمال نہیں کیا جاتا تھا کہ بادشاہ کے جاری کردہ کسی ضابطے کو اگر اُن کی راے میں وہ اسلامی قانون کے مطابق نہیں ہے ناجائز قرار دیں۔
اس سے بھی آگے بڑھ کر سلطنت میں سرکاری علما کا سربراہ شیخ الاسلام ایسے احکامات جاری کرسکتا تھا جس میں بنیادی اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرنے پر سلطان کو معزول کیا گیا ہو۔ گو کہ یہ اختیار خال خال ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ اختیار سلطان ابراہیم (۱۶۴۸ئ)، محمد چہارم (۱۶۸۷ئ)، احمد سوم (۱۷۳۰ئ)، سلیم سوم (۱۸۷۷ئ) کی معزولی میں حقیقتاً استعمال کیا گیا۔ اِن رسمی اقدامات میں سلطان کے اختیارات پر تاریخی قدغن اس واقعے کی بنیاد پر عائد کی گئی کہ علما دستور کے نمایندے تھے، یعنی اس میں اسلامی قانون کا مکمل اظہار ہوتا تھا۔ اسلامی ورثے میں یہ اختیارات کے علیحدگی کی امکانی جہتوں کو ظاہر کرتا ہے۔
جیساکہ ہم نے عرض کیا ہے، تاریخی نظائر سے مقصود اس امر کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ مختلف اَدوار اور زمانوں میں اپنے اپنے حالات کے مطابق، اصل مسئلے کا حل نکالنے کی کوششیں کی گئی ہیں، اور آج ہمارے اپنے حالات کی روشنی میں اس امر کی ضرورت ہے کہ مقننہ (Legislature) کی قانون سازی کو، دستور کی حدود میں رکھنے اور بنیادی دستوری ڈھانچے کی حفاظت کے لیے اداراتی (institutional)انتظام ہو۔ اعلیٰ عدلیہ یہ خدمت انجام دے سکتی ہے اور اس میں اس کی صلاحیت پیدا کرنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ خود عدلیہ پر بھی عوام، میڈیا، علما اور سول سوسائٹی کی نگاہ اسی طرح ہونی چاہیے، جس طرح پارلیمنٹ اور حکومت پر رکھی جانی ضروری ہے۔ تقسیمِ اختیارات کے ذریعے زیادہ مؤثر انداز میں ایک جدید ریاست میں شریعت کے مقاصد اور اسلامی جمہوری نظام کے تقاضوں کو پورا کیا جاسکتا ہے۔احتساب سے بالاکسی کو بھی نہیں ہونا چاہیے، لیکن یہ تصور کہ قانون سازی اوردستور میں ترمیم کے غیرمحدود اختیارات پارلیمنٹ کو صرف اس لیے دے دیے جائیں کہ وہ منتخب ہے، ایک محل نظر مفروضہ ہے۔ دستور کے بنیادی ڈھانچے اور مملکت کی نظریاتی، اخلاقی اور جمہوری شناخت کی حفاظت کے لیے عدلیہ کا ایک واضح کردار، مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ البتہ خود عدلیہ کی ساخت ، معیار اور عمل کے باب میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے کہ وہ معیارِ مطلوب پر پوری اُترے اور خوداحتسابی کی روایت کے فروغ کے ساتھ، آزادانہ احتساب کے لیے بھی عدالت کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے مناسب اور مبنی بر حکمت انتظام کا اہتمام بھی مفید ہوگا۔
ہر جج ہی نہیں، ہر صاحب ِ علم کا حق ہے کہ وہ اپنے مطالعے اور تجزیے کی روشنی میں اپنی دیانت دارانہ راے قائم کرے اور اس کا بلاتکلف اظہار کرے۔ اختلاف راے اگر غوروفکر کی نئی راہیں کھولنے کا ذریعہ بنے تو ایک بڑی نعمت ہے۔ ہر علمی بحث و مباحثے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان کو ایسے بہت سے گوشوں پر سوچنے کی تحریک ہوتی ہے، جو بالعموم نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔ محترم جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب نے بالعموم اپنی راے کا اظہار دلائل سے اور سلیقے سے کیا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’قراردادِ مقاصد ‘ کی طرح خود ’دستورِ پاکستان‘ کے بارے میں ان کی متعدد آرا نے کچھ ایسی شکل اختیار کرلی ہے کہ وہ چونکا دینے والی ہیں۔ چونکہ ان آرا کا اظہار عدالت ِ عظمیٰ کے ایک بڑے وقیع فیصلے کا حصہ ہے، اس لیے اس پر کلام، تلاشِ حق کی جستجو کا ایک ناگزیر حصہ بن گیا ہے۔ ہم پورے ادب سے عرض کریں گے کہ پاکستان کے دستور، اس کے پس منظر، اور اس کے بنانے والوں کے بارے میں جو کچھ انھوں نے فرمایا ہے اس پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ دستور کے بارے میں ایک خاص نوعیت کا بیانیہ زیربحث مسائل کی تفہیم اور تنقیح کے لیے کہاں تک ضروری تھا۔ نیز بھارت کے دستور کے معتبر اور محترم ہونے اور پاکستانی دستور کے اعتبار نامے (credentials) کے داغ دار ہونے کے تذکرے سے کتنی روشنی ان تین امور پر پڑتی ہے، جن کے بارے میں عدالت کو رہنمائی دینا تھی اور فیصلہ کرنا تھا۔
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور ایک بار پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں کہ ۱۹۷۳ء کا دستور جن حالات میں منظور ہوا، وہ ایک تاریخی کارنامہ تھا۔ تاہم وہ ایک انسانی کوشش تھی۔ بہت سے پہلوئوں سے اس میں کئی خلا اور سقم تھے، جن میں سے کچھ کو ترامیم کے ذریعے دُور کردیا گیا ہے مگر کچھ اب بھی باقی ہیں، جن کی اصلاح کی کوشش جاری رہنی چاہیے۔
’قراردادِ مقاصد‘ ، اسلامی تعلیمات و احکام کی تنفیذ اور دستور کے مندرجات کے سلسلے میں بھی کچھ مسائل اور اُلجھنیں تاحال موجود ہیں۔ خصوصیت سے وہ اُمور جن کا تعلق دفعہ۴۵ اور دفعہ ۲۴۸ سے ہے۔ تمام ہی اصلاح طلب اُمور پر توجہ مرکوز رہنی چاہیے۔ پالیسی کے اصولوں میں سے جو چیزیں حقوق کے دائرے میں آنی چاہییں اور جنھیں قابلِ داد رسی (justiciable) ہونا چاہیے، ان کے لیے کوشش جاری رہنی چاہیے لیکن دستور ایک محترم دستاویز ہے، اس کے بارے میں احترام اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔
بھارت میں اس کے بانیوں نے دستور تیار کیا تھا۔ اس لیے بھارت کے دستور کی فکر اور ارتقا میں اسے ایک خاص مقام حاصل ہے (پیرا ۱۸۵-اے) ۔ (ص ۵۳۵)
یاد رہے کہ بھارتی دستور بہت پہلے ۱۹۴۹ء میں تشکیل دیا گیا تھا اور دستور کے بنانے والے وہ لوگ تھے جنھوں نے آزادی کی جدوجہد کی تھی۔ دستور کو اپنی اصل شکل میں بھارت کے دستوری قانون میں اسے خصوصی تقدس کا مقام حاصل ہے۔
ہمیں اعتراف ہے کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی بروقت دستور بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی، اور جب ۱۹۵۴ء میں دستور کا مسودہ تیار ہوگیا تو اس طاقت ور اور بے لگام بیوروکریسی نے، جس کا فی الحقیقت پاکستان کی تحریک میں کوئی حصہ نہ تھا، شب خون مارا اور اسمبلی کو برطرف کردیا۔ لیکن دنیا کا ہر تحریری دستور محترم ہے، اور حکمرانی سے متعلقہ اُمور میں آخری مرجع کی حیثیت رکھتا ہے۔ محض اس بنا پر کہ اس کے بنانے والے تحریکِ آزادی کے قائدین ہیں، وہ غلطیوں اور کمزوروں سے پاک نہیں ہوجاتا۔ ہم بھارت کے دستور کے مشہور ترین شارح پروفیسر باسو کے حوالے سے عرض کرچکے ہیں کہ دستور کے بنانے والے بلاشبہہ تحریکِ آزادی کے قائدین تھے مگر دستور کا تین چوتھائی حصہ ’۱۹۳۵ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ‘ سے ماخوذ تھا اور باقی حصوں میں بھی دنیا کے کئی دساتیر کی خوشہ چینی کی گئی تھی۔ پھر اسی بھارتی دستور میں ۱۵؍اگست ۲۰۱۵ء تک ۱۰، ۲۰ نہیں پوری ۱۰۰؍ ترامیم ہوچکی ہیں۔ان میں چار ترامیم ایسی ہیں، جنھیں وہاں کی اعلیٰ عدلیہ خلافِ دستور قرار دے چکی ہے۔
واضح رہے کہ مغربی دنیا کا پہلا تحریری دستور امریکا کا ہے، جو ۱۷۸۹ء میں نافذ ہوا اور اس میں ۲۲۶سال میں کل ۲۷ ترامیم ہوئی ہیں۔ پاکستان کے دستور میں جو ۱۹۷۳ء میں نافذ ہوا، ۲۰۱۵ء تک ۲۱؍ ترامیم ہوئی ہیں۔
کسی دستور کے معیاری ہونے کی بنیاد دستور کے مندرجات پر ہے، محض اس امر پر نہیں کہ اس کے بنانے والے تحریکِ آزادی کے قائدین تھے۔ گذشتہ ۷۰سال میں ۱۵۰ ملک آزاد ہوئے ہیں اور بیش تر کے دساتیر ان کی تحریکاتِ آزادی کے قائدین ہی کے بنائے ہوئے ہیں، لیکن کتنے دستور ایسے ہیں، جو باربارناکام ہوچکے ہیں اورکتنے ہیں جو بدترین آمریتوں کے قیام کا ذریعہ بنے ہیں۔
پاکستان کی ’قراردادِ مقاصد‘ بھی تو اس دستورسازاسمبلی نے بنائی تھی جو تحریکِ پاکستان کے قائدین پر مشتمل تھی اور جن کا انتخاب انھی بنیادوں پر اور اسی طریق کار سے ہوا تھا، جن پر بھارت کی دستورساز اسمبلی منتخب ہوئی تھی۔ لیکن ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ’قراردادِ مقاصد‘ اپنے انقلابی پیغام اور منفرد تصورِ ریاست کے باوجود کیوں معتبر نہ تصور کی جائے؟ اور بھارت کا دستور معتبر اور روشنی کا مینار تصور کیا جائے؟
۱۹۷۳ء کا دستور بانیانِ پاکستان کے نظریات کا اظہار نہیں کرتا تھا بلکہ اس وقت کے سیاسی رہنمائوں کے نظریات کا اظہار کرتا تھا۔ اسے ایک ایسی پارلیمنٹ نے بنایا تھا جس کی اکثریت ایک خاص پارٹی کے ممبران پر مشتمل تھی جو کھلے سوشلسٹ منشور پر منتخب ہوئی تھی۔ یہ نکتہ کچھ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ آزادی و خودمختاری کے لیے اصل حرکت کا آغاز ایک بالکل مختلف بنیاد پر ہوا تھا، یعنی قائداعظم کا پیش کیا ہوا وژن کہ برعظیم کے مسلمان ہربامعنی مفہوم میں ایک قوم ہیں اور اس کا حق رکھتے ہیں کہ ایک قومی ریاست بنائیں اور تخلیق کریں۔ تاریخی طور پر بیان کیا جائے کہ اسلامی نظریہ، پاکستان کی تخلیق کا اصل سبب اسلام تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جن پارٹیوں نے ۱۹۶۵ء کا دستور بننے سے پہلے انتخابات میں حصہ لیا خاص طور پر مذہبی پلیٹ فارم سے وہ پارلیمنٹ میں مناسب مقام حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی تھیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔(ص ۱۸، ۸۴، ۳۰۸)
جب ہم دستور کا معائنہ کرتے ہیں جیساکہ وہ اصل میں تحریر کیا گیا تھا تو ہم دیکھتے ہیں مذہبی اصول اور ساتھ ہی ساتھ سوشلسٹ نظریات کا عکاس ہے۔ دستور کی دفعہ۲ یہ بیان کرتی ہے کہ اسلام ہی ریاست کا مذہب ہوگا۔ اس کے فوراً بعد دفعہ۳ بتاتی ہے کہ ریاست استحصال کے تمام طریقوں کے خاتمے کو یقینی بنائے گی اور اس بنیادی اصول کی بتدریج تکمیل کو یقینی بنائے گی اور ہر ایک سے اُس کی قابلیت کے مطابق کام لیا جائے گا۔ اس طرح دفعہ۳دراصل دستور کی سوشلسٹ اصل کا اظہار کرتی ہے۔ ہر ایک سے اُس کی قابلیت کے مطابق لینا اور کام کے مطابق دینا بلاشبہہ مارکسزم اور لینن ازم کا بنیادی اصول ہے (درحقیقت یہ زبانUSSR کے دستور ، جیساکہ وہ اُس وقت تھا، کی دفعہ ۱۲ سے نقل کی گئی ہے جو بلاشبہہ کارل مارکس کی تحریرات پر مبنی تھا)۔ استحصال کے تصور کا ایک فنی مفہوم ہے جیساکہ وہ معاشیات میں کارل مارکس کے نظری کام میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہ حوالہ کسی بھی استحصال یا ہر استحصال کے لیے نہیں ہے بلکہ استحصال کی وہ قسم ہے جو سرمایہ دارانہ طبقہ ورکنگ کلاس کے مفادات کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ دل چسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دفعہ۲ اور ۳ کی دفعات میں کس طرح مفاہمت پیدا کی جائے کیونکہ دونوں اصول دستور کے لیے بنیادی اصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ واضح طور پر یہ بنیادی ثنویت ہے۔ مارکسزم مذہب کی تمام شکلوں کو مسترد کرتا ہے کیونکہ وہ صبر اور تکلیف برداشت کرنے کو بڑی خوبی بتاتا ہے جو ایک پُرتشدد اور انقلابی جدوجہد ہے (کمیونسٹ پارٹی جس کا ہراول دستہ بورژوا کا تختہ اُلٹتا ہے)۔ مارکسزم کے ایک مشہور مقولے کے مطابق: مذہب کو افیون بیان کیا گیا ہے۔ بہرحال یہ ناپسندیدہ حقیقت برقرار رہتی ہے کہ ہمیں مارکسزم اور اسلام کے عقائد کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے۔
ہم نے فاضل جج صاحب کا یہ طویل اقتباس اس لیے دیا ہے کہ ان کے ذہن کا وہ مخمصہ جس سے وہ پریشان ہیں، انھی کے الفاظ میں سامنے آجائے اور جس اُلجھن کی وجہ سے وہ دستور کے بنیادی ڈھانچے کے برملا منکر ہیں، اس کی بنیاد کو سمجھا جاسکے اور اس پر گفتگو ہوسکے۔
محترم جج صاحب کے فیصلے کے پیراگراف ۱۸ اور ۱۹ کا تجزیہ کیا جائے تو درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں:
۱- پاکستان کا ۱۹۷۳ء کا دستور بنانے والے، پاکستان کے اصل معمار نہیں تھے اور وہ صرف ۱۹۷۰ء کے عشرے کی سیاسی نسل کی نمایندگی کرتے تھے۔
۲- یہ دستور ایک خاص جماعت کے ذہن کی تخلیق ہے جو سوشلزم کی علَم بردار تھی۔
۳- پاکستان کے قیام کی تحریک کا محرک نظریاتی تھا۔ اسلام قیامِ پاکستان کی اصل بنیاد ہے۔
۴- ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں ان جماعتوں کو قابلِ لحاظ کامیابی نہ ہوئی جو اسلام کے پلیٹ فارم سے شریکِ انتخاب ہوئی تھیں۔
۵- دستور، اسلام اور مارکس ازم، لینن ازم کے دو متحارب تصورات کی زد میں آگیا اور وہ ان دونوں کاملغوبہ ہے، جو باہم متحارب تصورات اور نظریات ہیں۔
۶- ایسے تضادات کی موجودگی میں دستور کا ایک بنیادی ڈھانچا کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ ایک ایسا تضاد ہے جس نے دستور کو یک رنگی سے محروم کر دیا ہے اور اس میں کسی بنیادی اور مربوط ڈھانچے کا تصور ہی ممکن نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انھوں نے نکتہ ۲۱ میں جناب خالد انور صاحب ایڈووکیٹ کے الفاظ میں اسے ’بے راحت شادی‘ قرار دیا ہے اور یہ فتویٰ بھی اس فیصلے میں موجود ہے کہ ایسی شادی کا مقدر طلاق ہی ہوسکتا ہے۔
اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی دستور سازی کی ذمہ داری ادا نہ کرسکی اور پھر ۱۹۵۶ء میں جو پہلا دستور بنا، اسے فوجی قیادت نے بیوروکریسی کے تعاون سے منسوخ کرڈالا۔ لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف وجوہ سے دساتیر منسوخ یا غیرمؤثر ہوتے رہے ہیں اور ہرناکامی کے بعد ہر زندہ قوم نے اپنے لیے نیا دستور بنایا اور اپنے اصل مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے منزل کی جانب گامزن ہوئی۔ فرانس اور جرمنی اس کی اہم ترین مثالیں ہیں۔
فرانس میں تو اس وقت پانچواں دستور نافذ ہے، لیکن اس عمل کی وجہ سے نیا دستور غیرمعتبر نہیں ہوجاتا اور ضروری نہیں کہ نئی نسل کا بنایا ہوا دستور تاریخی حقائق کے ادراک اور قومی عزائم کی ترجمانی کے باب میں اپنے پیش روئوں سے تہی دست ہو۔ فرانس اور جرمنی میں بھی فسطائی قوتوں نے اصل دساتیر کو تار تار کر دیا تھا، مگر پھر فرانس نے اپنے تصور کے مطابق اٹھارھویں صدی کے انقلابِ فرانس ہی کے نعروں اور مقاصد کے اعادے کے لیے نیا دستور بنایا۔ جرمنی اور اٹلی نے ہٹلر اور مسولینی کے دستوروں سے نجات پاکر، اپنے اپنے حالات کے مطابق جمہوری دساتیر کی تدوین کی۔ روس نے کبھی زارِشاہی دور کے دستور کے تحت زندگی گزاری۔ پھر اشتراکی انقلابِ روس کے جلو میں نیا دستور بنا۔ اسی نظام کے تحت ۱۹۳۶ء میں دوسرا دستور وجود میں آیا۔ پھر ۲۰۰۷ء کا دستور بنا۔ زندگی کے ایسے نشیب و فراز سے بہت سی اقوام کو سابقہ رہتا ہے۔
ہماری تاریخ بھی کچھ ایسے ہی حادثات سے عبارت ہے۔ لیکن یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ’قراردادِ مقاصد‘ وہ بنیاد کا پتھر ہے جو ہردور میں دستور اور نظامِ حکمرانی کے لیے رہنما قوت رہا ہے اور تسلسل کا ذریعہ ہے۔ ۱۹۵۶ء کا دستور جس اسمبلی نے بنایا، وہ اس وقت کی پیداوار تھی، مگر دستور کے خدوخال کا تعین اس وقت کی سیاسی قوتوں، خصوصیت سے چودھری محمدعلی کی قیادت میں تحریکِ پاکستان کے مقاصد اور قراردادِ مقاصد کی روشنی میں کیا گیا تھا۔ ۱۹۶۲ء کا دستور ایک فوجی آمر کا مسلط کیا ہوا دستور تھا، مگر اسے بھی نئی اسمبلی کے تحت صدارتی شکل دینے کے باوجود، ۱۹۵۶ء کے نظام کے قریب کرنے کی کوشش کی گئی۔
اسی طرح جو اسمبلی دستور سازی کے اختیار کے ساتھ ۱۹۷۰ء میں منتخب ہوئی تھی ، اس نے دسمبر ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد ۱۹۷۲ء اور ۱۹۷۳ء میں دستور سازی کے عمل کو تیز کیا۔ مسلسل کوشش سے اپریل ۱۹۷۳ء میں نیا دستور منظور کیا، جو ۱۴؍اگست ۱۹۷۳ء سے نافذ ہوا۔ بلاشبہہ یہ ۱۹۷۰ء کے عشرے کی سیاسی قیادت کا بنایا ہوا دستور ہے ،لیکن محض ان کے دماغ کی اختراع نہیں ہے۔ اس کی بنیاد ۱۹۴۹ء کی ’قراردادِ مقاصد‘ اور ۱۹۵۶ء کا دستور تھے۔ اس طرح اس وقت کی قیادت کے خیالات اور عزائم کے ساتھ تاریخی تسلسل کی قوت بھی ایک کارفرما قوت کی حیثیت سے موجود تھی۔
۱۹۷۳ء کا دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان، ۱۹۶۲ء کے دستور سے جوہری طور پر مختلف مگر ۱۹۵۶ء کے دستور سے بھی بہتر دستاویز ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس میں بہت سے معاملات پر سمجھوتا کیا گیا اور کچھ پہلو سے خامیاں رہیں۔ لیکن ۱۹۷۱ء کے بعد کے حالات پر نظر رکھی جائے تو اسے ایک مثبت اور تاریخی کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس وقت کے دستور کی کچھ خامیوں کی نشان دہی محترم جج صاحب نے کی ہے، جن میں متعدد حوالوں سے درست نشان دہی ہے۔ ان میں سے بیش تر خامیوں کی اصلاح دستوری ترامیم کے ذریعے کردی گئی ہے۔ خصوصیت سے اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے اور اس کا اعتراف و اِدراک محترم جج صاحب کے فیصلے میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ارتقا کا ایک فطری عمل ہے۔ لیکن محض اس وجہ سے کہ یہ دستور تحریکِ پاکستان کی قیادت کا بنایا ہوا نہیں ہے، اس سے دستور بے توقیر نہیں ہوجاتا۔ ہماری نگاہ میں تاریخی تسلسل کی وجہ سے اس دستور کو فطری ارتقائی عمل کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس پہلو سے یہ دستور ایک ایسی دستاویز ہے جس پر قوم بجاطور پر فخر کرسکتی ہے۔
جس اسمبلی نے یہ دستور منظور کیا ، اس کے تمام ارکان نے اسے متفقہ طور پر منظور کیا تھا، غالباً صرف ایک رکن ایسا تھا، جس نے دستخط نہیں کیے۔ گویا اسے پوری اسمبلی کی تائید حاصل تھی۔ پھر پوری قوم نے جس طرح اس کو قبول کیا اور بعد کے اَدوار میں ہرانحراف کے بعد اس دستور کی طرف مراجعت کے لیے جو تاریخی جدوجہد کی ہے، اس نے اس دستور کو بجاطور پر ایک تاریخی قومی دستاویز کا درجہ دے دیا ہے۔
ہم پھر یہ بات عرض کریں گے کہ کسی دستور کے معیاری یا غیر معیاری اور معتبر یا غیرمعتبر ہونے کا انحصار محض اس بات پر نہیں ہوتا کہ اس کے بنانے والوں میں کون شریک تھا، جو اپنی جگہ اہم ہے مگر فیصلہ کن نہیں، بلکہ اصل اہمیت دستور کے مندرجات (content) کی ہے اور اسی کسوٹی پر اسے جانچنا چاہیے۔
اس پس منظر میں ہم دو اُمور کی طرف خصوصیت سے متوجہ کرنا چاہتے ہیں:
پہلا یہ کہ ۱۹۷۳ء سے اب تک کے دستوری اور سیاسی تجربات اس بات پر شاہد ہیں کہ ۱۹۷۳ء کا دستور ہی ملک اور قوم کو مضبوط سیاسی بنیاد فراہم کر رہا ہے اور ہر انحراف کے بعد اس کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے۔ اس دستور میں ہر تحریف کے بعد اصل کی طرف مراجعت میں نجات کی راہ موجود ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ’قراردادِ مقاصد‘ اور پاکستان کے اصل اہداف کی روشنی میں دستور میں نئی اصلاحات اور اضافے ہوتے رہیں۔
دوسری بات جس پر غور کرنے اور اللہ کا شکر ادا کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ ریاست کی نظریاتی تشکیل اور اسلامی نظریے کو دورِ جدید میں ریاست اور حکمرانی کے نظام میں سمونے کے سلسلے میں جو پہلا تاریخی قدم ’قراردادِ مقاصد‘ کی شکل میں ۱۹۴۹ء میں اُٹھایا گیا تھا ، اس نے دستور سازی کے میدان میں وسیع پیمانے پر اثر ڈالا۔ اس کی روشنی میں اللہ کی حاکمیت، قانون سازی میں قرآن و سنت کے کردار، انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل نو میں اسلام کے رہنما اصولوں اور اقدار کا کردار، اسلام کے نظامِ انصاف اور عدلِ اجتماعی کو پالیسی کے اصول بنانے کے باب میں نشانِ منزل متعین کرنے کا جو اقدام پاکستان میں اُٹھایا گیا تھا، اس کے اثرات عالمِ اسلام میں بعد میں بننے والے دساتیر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
۱۹۴۹ء میں پاکستان کی ’قراردادِ مقاصد‘ کی منظوری سے پہلے کے دساتیر پر نگاہ ڈالیے، زیادہ سے زیادہ دو چیزیں چند مسلم ممالک کے دساتیر میں ملتی ہیں، یعنی: ’’ریاست کا مذہب اسلام ہوگا اور سربراہِ مملکت مسلمان ہوگا‘‘۔ لیکن جمہوریت،حقوقِ انسانی، اجتماعی عدل، تعلیم و تربیت، معیشت اور معاشرت کے باب میں اسلام کا کردار کیا ہوگا، اس باب میں دساتیر خاموش تھے۔ اسی طرح مملکت کا نام ملک کے دینی اور نظریاتی تشخص کا آئینہ دار ہو، یہ بھی ہمیں نہیں دکھائی دیتا تھا۔ اس سلسلے میں پہل ’قراردادِمقاصد‘ اور پھر ۱۹۵۶ء کے دستور کی تشکیل میں ہوئی۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ کئی ممالک نے اپنے نظریاتی تشخص کے اظہار کے لیے ملک کے نام میں اسلام کو شامل کیا۔ ۱۹۷۹ء کے انقلابِ ایران کے بعد ایران کو ’اسلامی جمہوریہ ایران‘ قرار دیا گیا۔ ۱۹۷۱ء میں موریتانیا نے اپنے کو ’اسلامی جمہوریہ‘ قرار دیا اور دستور کی ’دفعہ ۱‘ میں اس کی تشریح یوں کی کہ: ’’موریتانیہ ایک اسلامی ، ناقابلِ تقسیم، جمہوری اور سوشل جمہوریہ ہے‘‘۔
اسی طرح افغانستان میں اشتراکی روس کے انخلا کے بعد جو دو نظام قائم ہوئے، ان میں سے ایک میں اسلامی امارت (۱۹۹۶ئ) اور دوسرے میں اسلامی جمہوریہ افغانستان (۲۰۰۴ئ) قراردیا۔ اگر ان ممالک کے دساتیر کے دیباچے کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں اللہ کی حاکمیت کے تصور کا صاف الفاظ میں اظہار کیا گیا ہے۔ اس طرح ریاست کی پالیسی کے رہنما اصولوں میں بھی اسلام کے اصولوں اور اقدار کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے، گویا:
ہم نے جو طرزِ فغاں کی تھی قفس میں ایجاد
’آج‘ گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھیری ہے
سوشلزم اور اسلام کے ’ملغوبے‘ کا طعنہ؟
محترم جسٹس ثاقب نثار صاحب نے دستور کی ایک اور کمزوری کے طور پر اس امر کا اظہار کیا ہے کہ: وہ ایک خاص جماعت کے ذہن کی تخلیق ہے اور یہ کہ وہ جماعت سوشلزم کی علَم بردار تھی جو اسلام کی ضد ہے۔ اس اسلام کی، جو پاکستان کے قیام کا اصل محرک تھا۔ عدالتی فیصلے میں کیے گئے یہ دونوں دعوے محلِ نظر ہیں۔
۱۹۷۳ء کے دستور کی صورت گری کا ہرمرحلہ کھلی کتاب کی طرح موجود ہے اور خود اسمبلی کی کارروائی اور دستوری مسودات، کمیٹیوں کی رپورٹیں، اختلافی نوٹ اور پھر متفق علیہ اعلانات پبلک ریکارڈ کا حصہ ہیں، جن سے ہرکوئی استفادہ کرسکتا ہے۔ ہمیں تعجب ہے کہ اتنی معلومات کی موجودگی میں فاضل جج نے یہ دعویٰ کیسے کر دیا کہ یہ دستور محض ایک جماعت کے ذہن کا عکاس ہے۔
اس دستور کی تو سب سے بڑی خوبی ہی یہ ہے کہ یہ متفق علیہ دستاویز ہے اور ہمیں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں اور متعدد اقدامات سے کتنی ہی شکایت ہو، لیکن یہ ان کا ایک تاریخی کارنامہ ہے کہ انھوں نے دستور سازی کو پارٹی کی سیاست کا شکار نہیں ہونے دیا اور پوری کوشش کی کہ پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتیں اس عمل میں شریک ہوں۔ ان کے نقطۂ نظر کی ہمراہی سے معاملات طے کیے جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے اپنی اعلان شدہ پوزیشن سے بار بار پیچھے ہٹنا گوارا کرلیا اور قومی اتفاق راے پیدا کرنے کے لیے قربانی دی اور دوسروں کو بھی ہم کار اور ہم راہ رکھنے کے لیے دستور سازی میں دعوت دی۔ ان کا یہی وہ عمل ہے جس نے ۱۹۷۳ء کے دستور کو پیپلزپارٹی کا نہیں پاکستان کی تمام جماعتوں کا اتفاق راے سے طے کیا جانے والا دستور بنایا۔ ان کے بعد یہی روایت قائم رکھنے کی کوشش کی گئی۔ خصوصیت سے اٹھارھویں ترمیم میں جس کے ذریعے دستور کے بہت سی کج رویوں ( distortions) کو دُور کردیا گیا اور ۱۹۷۳ء کے وژن سے قریب تر کیا گیا۔ ’قراردادِ مقاصد‘ کے وژن کی روشنی میں آگے قدم بڑھائے گئے اور یہ کام بھی تمام جماعتوں کے مکمل تعاون اور اتفاق راے سے ہوا۔ چند اُمور پر اگر اختلاف رہا بھی تو اسے مشترکات کی بنیاد پر قومی اتفاق راے پیدا کرنے میں حائل نہ ہونے دیا۔
اس سلسلے میں تاریخی حقائق کے نظروں سے اوجھل ہوجانے سے بچنے کے لیے ہم چند اُمور کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں:
۱۹۷۳ء میں دستور سازی کا عمل جب شروع ہوا، تو اس کا آغاز ایک عبوری آئین سے ہوا، جو پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کے ذہن کا عکاس تھا اور اس میں پارلیمانی نہیں صدارتی نظام کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ اسلامی نظریہ، بنیادی حقوق، اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا معاملہ بھی بہت کمزور تھا۔ لیکن حزبِ اختلاف کی تمام ہی جماعتوں نے ان تمام کوششوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دستور کو صحیح اسلامی جمہوری اور وفاقی اصولوں کے مطابق مرتب کرانے کی جدوجہد کی، چار اُمور مرکزی نوعیت اختیار کرگئے:
۱- اسلامی نظریہ اور ’قراردادِ مقاصد‘ کا کردار۔
۲- انسانی حقوق کا مسئلہ۔
۳- صوبوں اور مرکز کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور صوبوں کی خودمختاری کی حدود۔
۴- پارلیمنٹ کا کردار اور انتظامیہ، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے اختیارات میں توازن۔
کئی مہینے کے مذاکروں، احتجاجوں، اسمبلی کے بائیکاٹ اور نہ معلوم کس کس عمل کے بعد ۲۰؍اکتوبر ۱۹۷۲ء کو حکومت اور حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس میں دستور سازی کے لیے کیے گئے ۴۲؍ اصولوں پر اتفاق ہوا۔ وزیرقانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے دستور کے مسودے پر خطاب کرتے ہوئے کھلے الفاظ میں اس امر کا اعتراف کیا کہ اسمبلی کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کے اجتماع میں:
چار دن کی گفتگو اور بحث و مباحثے کے بعد ۴۲ بنیادی اصولوں پر اتفاق راے ہوا، جسے ’’۲۰؍اکتوبر کی دستوری مفاہمت‘‘ کا نام دیا گیا۔ ان تجاویز کا تعلق کم سے کم ۴۰ فی صد حزبِ اختلاف سے تھا جنھیں اکثریتی پارٹی نے قبول کیا۔ (کارروائی قومی اسمبلی، ۱۰؍اپریل ۱۹۷۳ئ، ص ۲۴۶۴)
بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی۔ ان اصولوں کی روشنی میں دستور کے پورے مسودے پر نظرثانی کی گئی اور اس طرح ۲۸۰ دفعات پر مشتمل دستور کا مسودہ تیار ہوا۔ حزبِ اختلاف کے مزید اصرار پر ۱۰ سے ۱۵ دفعات میں ترامیم تسلیم کیں اور پھر آخری مرحلے پر ایک بار پھر پالیسی کے بنیادی اصولوں کے متعلق ۱۲ دفعات میں حزبِ اختلاف کے اصرار پر تبدیلی کی گئی۔ آخری دو دنوں میں ایک بار پھر دستور کی سات دفعات میں حزبِ اختلاف کی ترامیم کو قبول کیا گیا۔ بالکل آخری مرحلے پر ججوں کے احتساب کے بارے میں پارلیمنٹ کے کردار کے مسئلے پر حکومت کے موقف کو حزبِ اختلاف نے ماننے سے انکار کیا اور بھٹوصاحب نے کمال دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کے نقطۂ نظر کو قبول کرلیا۔
یہ ہیں اصل تاریخی حقائق___ ان کے باوجود اگر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ۱۹۷۳ء کا دستور اسمبلی کا متفق علیہ دستور نہیں تھا اور وہ صرف ایک جماعت کے ذہن کا عکاس ہے تو اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ؎
یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو ، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
اس سلسلے کے دوسرے نکتے پر بھی کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہہ پیپلزپارٹی نے سوشلزم کو اپنی معاشی پالیسی کی بنیاد قرار دیا اور ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے نعرے سے سیاسی فائدہ اُٹھایا۔ عالمی سطح پر اور خود ملک میں ۱۹۶۰ء کے عشرے کے اواخر اور ۱۹۷۰ء کے عشرے کے شروع میں سوشلسٹ فکرنے ایک ہلچل مچائی ہوئی تھی اور جماعت اسلامی پاکستان نے اور دوسری دینی قوتوں نے سوشلزم کی اس یلغار کا سیاسی، علمی اور مکالماتی سطح پر بھرپور مقابلہ کیا۔ لیکن پیپلزپارٹی کو ’مارکسزم اور لینن ازم‘ سے مربوط فکر اور سیاسی اسٹرے ٹیجی کا علَم بردار کہنا اور پاکستان کے دستور میں سوشلزم کے وجود کا دعویٰ کرنا ایسے دعوے ہیں جو دلیل سے محروم ہیں۔
مارکسزم ایک مربوط فلسفہ ہے جس کا اپنا تصورِ کائنات، تصورِ تاریخ، تصورِ زندگی، تصورِ انسان، تصورِ قانون، تصورِ معیشت اور ایک مخصوص تجزیہ اور تنظیم نو کا نقشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارکس اور لینن اس سوشلزم سے برأت کا اعلان کرتے ہیں، جو ۱۸ویں صدی سے ۲۰ویں صدی تک یورپ میں مختلف شکلوں میں ظہور پذیر ہوئے۔ مارکس کی تصنیف Das Kapital[سرمایہ] محض معاشیات کے موضوع پر ایک کتاب نہیں ہے، بلکہ وہ تاریخ اور خصوصیت سے صنعتی انقلاب کے بعد سرمایہ دارانہ نظام پر ایک ایسی نقدو جرح (critique) ہے، جو طبقاتی تصادم (class conflict) کے محور کے گرد گھومتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں سوشلزم اور اسلام کو جمع کرنے کی کوشش ضرور کی گئی تھی۔ مگر جہاں تک دستورِ پاکستان کا تعلق ہے، وہ مارکسزم کے فلسفے اور اس کے سیاسی و معاشی نظام سے دُور دُور تک کوئی مماثلت نہیں رکھتا۔ پیپلزپارٹی میں بھی یہ بات صرف سوشلزم کے تذکرے کی حد تک تھی، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ پیپلزپارٹی نے جو منشور دیا تھا، اس کے چار ستون تھے جن کی نشان دہی پارٹی کی تمام دستاویزات میں نمایاں طور پر کی گئی تھی اور وہ یہ تھے:
۱۹۷۰ء کے منشور کا دوسرا پیراگراف ہی یہ اعلان کرتا ہے کہ:
پارٹی پروگرام کی روح اور تفصیلات اسلام کی تعلیمات کا تقاضا کرتی ہیں اور سرگرمیاں اُس کے مطابق ہوتی ہیں۔ پارٹی اسلام اور قرآن کے خلاف کوئی قانون نہیں بنائے گی۔ پارٹی کی تجاویز: عقیدے میں درج احکامات کے اصول اور روح سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ اسلام میں مسلمانوں کے اندر جو مساوات بیان کی گئی ہے، وہ صرف ایک ایسے معاشی اور سماجی ڈھانچے میں ممکن ہے، جو اسے حاصل کرنے کے لیے روبۂ عمل لایا گیا ہو۔ ( پیپلزپارٹی کا منشور ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۷ئ، پی پی پی سرکاری مطبوعات، ۲۰۰۹ئ)
اس منشور میں استحصال (exploitation) سے پاک معاشرے کی بات ہوئی ہے، لیکن مارکس اور لینن کے تصور کے مطابق نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں کے طور پر۔ ملاحظہ ہو:
ایک سوشلسٹ پروگرام اختیار کرنے ہی میں مسائل کا حقیقی حل ہے، جیساکہ منشور میں بیان کیا گیا ہے۔ پورے پاکستان کی معیشت کو تبدیل کردیا جائے، استحصال کو روک دیا جائے اور دستیاب وسائل کو اختیار کرکے سرمایہ دارانہ مداخلتوں کے بغیر ملک کو ترقی دی جائے۔ یہ اسلام کی سیاسی اور اجتماعی اخلاقیات کا نتیجہ ہے۔ اس طرح پارٹی دراصل مسلم عقیدے کے اعلیٰ اصولوں کو عملاً برپا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ (ایضاً، ص۹)
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پارٹی کے خیالات میں جھول اور تضادات تھے۔ جن کے تحت وہ سوشلزم کو ایک محدود معنی میں لے رہی تھی حالانکہ وہ ایک مکمل نظامِ زندگی کا دعویٰ رکھتا تھا۔ نیز اسلام کے کچھ تصورات کی تشریح کے باب میں بھی اس کے نقطۂ نظر سے اختلاف کیا جاسکتا تھا اور ہم نے کیا۔ لیکن منشور کے ان واضح اعلانات کے علی الرغم یہ کہنا کہ دستور سازی کے عمل میں شریک بڑی جماعت پیپلزپارٹی مارکسزم اور لینن ازم کی علَم بردار تھی اور اس نے دستور میں روس کے نظام کے تصورات کو ٹھونس دیا ہے، ایک ایسا دعویٰ ہے جس کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں۔
اسلام اور سوشلزم کو خلط ملط کرنے اور متضاد اور متصادم تصورات کے امتزاج سے ایک ملغوبہ بنانے کے باب میں اگر تنقید کا ہدف اس وقت کی اکثریتی جماعت پیپلزپارٹی کا ۱۹۷۰ء کا منشور ہوتا تو اس میں صداقت ہوتی۔ واضح رہے کہ ۱۹۷۷ء میں اسی پارٹی کے منشور کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ اس پارٹی کی قیادت خود سوشلزم کے معروف تصور سے جان چھڑانے اور اسلام کے سہارے سے تعبیرات کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ پھر ۱۹۷۳ء کے دستور کے متن میں ایسے تضادات کے اجتماع کا دعویٰ حقیقت سے کوئی نسبت نہیں رکھتا، اور ایک معتبر عدالتی فیصلے میں ایسے دعویٰ کا آنا اور اس کو چیلنج نہ کیا جانا علمی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے بڑے خسارے کا معاملہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تعبیر کی اس غلطی کی اصلاح ضروری سمجھتے ہیں۔
محترم جسٹس صاحب کے پورے فیصلے میں جس ایک بات کو دستور کو سوشلسٹ نظریے سے ہم آہنگ کرنے کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ: ’’دستور کی دفعہ ۳ میں استحصال اور تقسیم دولت کا جو تصور دیا گیا ہے، وہ اس وقت کی سوویت یونین کے دستور کی دفعہ۱۲ سے ماخوذ ہے۔ گویا یہ ایک مماثلت، دستور کو سوشلسٹ رنگ میں رنگنے کے لیے کافی ہے‘‘۔ دستورِ پاکستان کی دفعہ۳ میں ہے:
ریاست استحصال کی تمام قسموں کے خاتمے کو یقینی بنائے گی اور بتدریج اِس بنیادی اصول کی تکمیل کرے گی کہ ہر ایک سے اُس کی صلاحیت کے مطابق لیا جائے اور ہر ایک کو اُس کے کام کے مطابق دیا جائے۔
سوویت روس کے اُس وقت کے دستور کی دفعہ ۱۲ میں درج تھا:
سوویت یونین میں کام ایک فرض ہے اور ہر مناسب جسامت کے مالک شہری کے لیے عزت کی بات ہے۔ اس اصول کے مطابق جو کام نہیں کرتا وہ کھائے بھی نہیں۔ سوویت یونین میں سوشلزم کے اس اصول پر عمل ہوتا ہے کہ ہر ایک سے اُس کی قابلیت کے مطابق کام لیا جائے اور کام کے مطابق دیا جائے۔
پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ سوویت یونین کے دستور کی دفعہ۱۲ میں جو بات کہی گئی ہے، وہ اس سے پہلے کی ۱۱ دفعات سے مربوط ہے۔ جس میں سوشلسٹ اسٹیٹ کا پورا نقشہ بیان کیا گیا ہے اور پرولتاریہ کی آمریت اور اس کے لیے جن اداروں اور ریاست کی جس نوعیت کی تنظیم درکار ہے، اس کے خدوخال پیش کیے گئے ہیں۔ پیداوار کے پورے نظام کو سرکاری ملکیت میں لینا اور کمیونسٹ پارٹی اور The Soviets of Working Peoples Deputies کے ذریعے سیاسی اور معاشی عمل کو نئی بنیادوں پر مرتب کرنے کا نقشہ دیا گیا ہے۔ اس انتظامی اور تنظیمی ڈھانچے اور ملکیت کے نظام کی تبدیلی کے بغیر سوشلسٹ معیشت کا قیام ممکن نہیں۔ پاکستان کے دستور میں ان چیزوں کا دُور دُور کوئی وجود نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر روسی دستور کی دفعہ۱۲ پر تنقیدی نظر ڈالی جائے، تو اس میں جو کچھ کہا گیا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں بدترین استحصالی دروبست کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے، اس میں اور اس دفعہ میں بیان کردہ ضابطے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
کام اور محنت کا ایک ذمہ داری ہونا ہر نظام کا حصہ ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں بھی تو یہی ہوتا ہے کہ جو کام نہ کرے وہ بھوکا مرے! اس میں سوشلزم نے کون سا تیر مار لیا؟ہرشخص سے اس کی صلاحیت کے مطابق محنت اور اس کی کارکردگی کے مطابق اُجرت___ اس سے کس کو اختلاف ہوگا؟ سرمایہ دار بھی کم از کم نظری طور پر یہی کہتا ہے: ’’ہر کام کرنے والے کو اس کی کارکردگی اور صلاحیت کے مطابق اُجرت دی جائے‘‘۔ مارکس کے نظریۂ محنت میں اسے چیلنج کیا گیا کہ محنت کا ایک حصہ سرمایہ دار لے اُڑتا ہے اور مزدور محروم رہتا ہے۔ عدل پر مبنی ہر نظام میں محنت کار کو اس کی کارکردگی اور صلاحیت کے مطابق اُجرت ملنی چاہیے۔ اس اصول کے تعین میں سوشلزم کو کوئی امتیاز حاصل نہیں۔ مارکس کے افکار کے مطالعے سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سرمایہ داری کے نظامِ استحصال سے نکلنے کے لیے وسائل پیداوار کو قومی ملکیت میں لے کر تقسیمِ دولت کے جو اصول بیان کیے، اس کے دو مراحل بیان کیے تھے: درمیانی(transitional) دور میں یہ اصول ہوگا: ’’ہر ایک سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور محنت کا اجر کارکردگی کے مطابق ہوگا‘‘۔
لیکن جب اشتراکیت طبقات سے پاک معاشرہ بنائے گی تو پھر اصل سوشلزم کا اصول آئے گا جس میں:’’کام صلاحیت کے مطابق لیا جائے گا، اور اُجرت ضرورت کے مطابق دی جائے گی‘‘۔ یہ ہے اشتراکیت یا مارکسزم کا اعلان کردہ موقف۔
ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک دوسرے پس منظر میں دستورِ پاکستان کی دفعہ ۳ میں ایک بے ضرر سے جملے کے شامل کیے جانے سے پورا قصر کریملین کیسے تعمیر کیا جاسکتا ہے؟ ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں مارکس نے استحصال کا ایک خاص تصور پیش کیا ہے۔ لیکن ہراخلاقی اور مصنفانہ نظام میں استحصال ایک جرم ہے اور اس سے معاشرے کو پاک کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کے دستور میں استحصال کی کسی خاص شکل کا ذکر نہیں۔
’استحصال‘ (exploitation) کا لفظ انگریزی زبان میں دو مختلف بلکہ ایک حد تک متضاد مفاہیم میں استعمال ہوتا ہے۔ مثبت معنی میں یہ لفظ کسی ’چیز کو دریافت کرنا‘ اور ’ترقی دینے‘ کے مفہوم کی ادایگی کے لیے استعمال ہوتا ہے جس طرح کہ exploit resources of country یا explore new venues ۔ اس کے برعکس دوسرے مفہوم میں، استحصال اور دوسروں کے حقوق پر ناجائز قبضہ یا ان کو حقوق سے محروم رکھنے اور ان کے وسائل سے ناجائز فائدہ اُٹھانا شامل ہے، جس میں ذم کا پہلو ہے اور اس استحصال کی درجنوں شکلیں ہوسکتی ہیں۔ کارل مارکس نے اس کی ایک خاص شکل کو، جو اس کی نگاہ میں نظامِ سرمایہ داری کی پہچان ہے اور طبقہ واریت کی بنیاد پر مظلوم اور کمزور طبقات کے حقوق پر بااثر طبقات خصوصیت سے اہلِ سرمایہ کی دست درازیاں ہیں۔ پاکستان کے دستور کی دفعہ۳ میں یہ لفظ اپنے وسیع تر مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور جس پر all forms of exploition (استحصال کی تمام صورتوں ) کے الفاظ شاہد ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس کو صرف ایک مخصوص شکل تک محدود کردیا جائے اور طلسماتی عینک سے وہ تصویر بھی دیکھ لی جائے، جس میں مارکس اور لینن کی شبیہہ جھلکتی ہو!
محترم جج صاحب نے ایک مقام پر شکایتاً ایک بڑی معقول تنبیہہ ’’قراردادِمقاصد میں زیادہ معنی نکالنے کی ترغیب‘‘ (ص ۵۳۸) کے بارے میں کی ہے۔ بلاشبہہ یہ علمی دیانت کا تقاضا ہے اور اس تنبیہہ کا اطلاق نہ صرف ’قراردادِ مقاصد‘ پر ہوتا ہے بلکہ خود دستورِ پاکستان پر بھی۔ ہماری کوشش ہونا چاہیے کہ جو اس میں ہے اسے من و عن پیش کردیں، نہ کچھ چیزوں کو دیکھنے سے انکار کریں اور نہ وہ کچھ ان میں بڑھا ڈالیں جن کا کوئی وجود نہیں۔
استحصال کی ہرقسم کا ذکر ہے اور یہ وہ تصور ہے جو خود اسلام نے پیش کیا ہے۔ قرآن صاف الفاظ میں متنبہ کرتا ہے کہ:
وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo(البقرہ ۲:۱۸۸) اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھائو اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض سے پیش کرو کہ تمھیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔
مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَوْفُوا الْکَیْلَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ o وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ o وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَھُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ o وَاتَّقُوا الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالْجِبِلَّۃَ الْاَوَّلِیْنَo (الشعرا ۲۶: ۱۸۱-۱۸۴) پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو۔ صحیح ترازو سے تولو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو۔ زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو اور اس ذات کا خوف کرو جس نے تمھیں اور گذشتہ نسلوں کو پیدا کیا ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌo(انفال ۸:۲۷-۲۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جانتے بوجھتے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو اور جان رکھو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامان آزمایش ہیں اور اللہ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔
اسلام نے ظلم اور استحصال کی ہرشکل سے اجتناب کا حکم دیا ہے اور ہر حق دار کا حق ادا کرنا اہلِ ایمان پر فرض کیا ہے۔ مزدور کو اس کی محنت کا پورا پورا حق اور پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی اُجرت ادا کردینے کا حکم دیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ ذمہ داری بھی معاشرے اور حکومت پر ڈالی ہے کہ کمزوروں کے لیے سہارا بنیں، ناداروں کی مدد کریں، قرض دار کو قرض سے نجات دلانے میں معاونت کریں، غریب اور مستحق کی مالی معاونت کریں اور معاشرے میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے بلالحاظ مذہب و نسل و رنگ، جو بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہو___ اس حکم کا کوئی تعلق اشتراکیت سے نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کے اخلاقی ، سماجی ، معاشی اور دینی نظام کا بنیادی اصول ہے، جس کی پاس داری ہر مسلمان فرد اور مسلمان حکومت کے لیے ضروری ہے۔ ’قراردادِ مقاصد‘ کے تقاضوں کی نشان دہی کرتے ہوئے ۱۹۵۱ء میں تمام مکاتب ِ فکر کے چوٹی کے ۳۱ علما نے اسلامی مملکت کے جو ۲۲نکات مرتب کیے، ان میں یہ تین دفعات بھی شامل تھیں:
یہ ہے اسلام کا مطلوبہ نظام جس کے قیام کا تصور ’قراردادِ مقاصد‘ نے دیا ہے۔ اس کی موجودگی میں مسلمان اُمت کو دوسرے نظریات سے خوشہ چینی کی کیا ضرورت ہے۔
ہم پورے ادب سے عرض کریں گے پاکستان پیپلزپارٹی نے ۱۹۷۰ء میں سوشلزم کے بارے میں جو کچھ بھی کہا ہو، جہاں تک ۱۹۷۳ء کے دستور کا تعلق ہے، اس پر سوشلزم کی پرچھائیں تک نہیں پڑی۔ ہم پیپلزپارٹی سے اپنے تمام اختلافات کے باوجود اسے اس الزام سے بری سمجھتے ہیں اور اپنے اس دعوے کے ثبوت میں دو مزید شہادتیں پیش کرنا چاہتے ہیں، یعنی خود جناب ذوالفقار علی بھٹو کی وہ تقریر جو انھوں نے دستور کے مسودے کی آخری سماعت اور دستور کی منظوری کے موقعے پر کی اور جس میں دستور کے بنیادی ڈھانچے کو انھوں نے اپنے الفاظ میں پیش کر دیا۔ اس پوری تقریر میں سوشلزم یا اس کے کسی جزوی پہلو کا بھی کہیں دُور دُور ذکر نہیں ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
۲۵سال کے بعد بہت سارے اعتراضات اور جھگڑوں کے بعد ہم ایک ایسے نکتے پر پہنچ چکے ہیں، جہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ایک بنیادی قانون ہے، ہمارا ایک دستور ہے اور کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جمہوریت کی کسی بھی تعریف کے مطابق یہ ایک جمہوری دستور ہے۔ کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ ایک وفاقی دستور ہے۔ کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ صوبائی خودمختاری کے بارے میں ایک مفاہمت ہے، اور اس پر خدا کا شکر ہے۔ کوئی اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ یہ ایک اسلامی دستور ہے۔ اس میں پاکستان کے کسی بھی ماضی کے دستور سے زیادہ اور مسلمان ملکوں کے علاوہ بادشاہتوں پر مبنی ممالک کے کسی بھی دستور سے زیادہ اسلامی دفعات ہیں۔ اگر آپ بادشاہتوں پر مبنی ممالک سے اس کا موازنہ کریں تو اس میں پاکستان کے کسی بھی سابقہ دستور سے زیادہ اسلامی دفعات ہیں۔ (قومی اسمبلی کی رُوداد، ۱۰؍اپریل ۱۹۷۳ئ، ص ۲۴۶۸)
چنانچہ میرے دوستو! یہ دستور جو جمہوری ہے، جو وفاقی ہے، جس میں اسلامی نظام کی اہم خصوصیات شامل ہیں، اور اسلامی معاشرے کو تحفظ دیتا ہے، اور عدلیہ کو آزادی فراہم کرتا ہے، یہ دستور شہریوں کے بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے۔ (ایضاً، ص ۲۴۶۹)
اور اپیل کی کہ اس دستور کو پورے قلبی اطمینان کے ساتھ اور مکمل اتفاق راے سے منظور کیجیے، خصوصیت سے تمام اپوزیشن جماعتوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا:
اب میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ ایوان میں واپس آگئے ہیں ایک قدم آگے بڑھانے کے لیے، تاکہ اپنی حاضری کو منطقی انجام تک پہنچائیں اور ہمارے ساتھ پاکستان کے عوام کو ایک ایسا دستور دیں جو ایک متفق علیہ دستور ہو۔(ایضاً، ص ۲۴۶۹)
اور پھر اسمبلی نے مکمل اتفاق راے سے دستور کو منظور کیا اور حزبِ اختلاف کے ایک قائد مولانا مفتی محمود صاحب [سربراہ :جمعیت علماے اسلام] سے دعاے شکرانہ کروا کر اسمبلی کی کارروائی ختم کی۔
۱۹۷۳ء کا دستور ایک متفقہ قومی دستاویز ہے، کسی ایک پارٹی کے خیالات کا عکاس نہیں۔ اس دستور کا بنیادی ڈھانچا جن اصولوں پر مشتمل ہے، وہ پانچ ہیں: l اسلام l جمہوریت l وفاق اور تقسیمِ اختیارات l بنیادی حقوق کا تحفظ l عدلیہ کی آزادی۔
گو بات واضح ہوگئی ہے، لیکن صرف اتمامِ حجت کے لیے ہم ایک شہادت اور پیش کردیتے ہیں اور یہ ہے پیپلزپارٹی کا ۱۹۷۷ء کا منشور، جس میں وہ ۱۹۷۳ء کے دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اپنے ایک کارنامے کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ لیکن دیکھیے کہ دستور کی جن چیزوں کی داد طلب کررہے ہیں ، وہ یہ ہیں:
پیپلزپارٹی نے ایک ایسے دستور کا وعدہ کیا تھا جو اسلامی، جمہوری،پارلیمانی اور وفاقی طرزِحکومت کا آئینہ دار ہو۔ ہم نے یہ عہد پورا کردیا ہے۔
۱۲؍اپریل ۱۹۷۳ء کو پاکستان کا پہلا دستور عوام کے ان نمایندوں نے متفقہ طور پر منظور کیا جو بالغ راے دہی کی بنیاد پر براہِ راست منتخب ہوئے تھے اور ۱۴؍اگست ۱۹۷۳ء سے نافذالعمل ہوا۔ (پاکستان پیپلزپارٹی، منشور، ۱۹۷۷ئ، ص ۴۶)
اس منشو ر میں جو بھٹو صاحب کے دستخطوں سے جاری ہوا تھا، سوشلزم کا ذکر تو صرف ایک دو بار سرسری طور پر وہ بھی اس صراحت کے ساتھ کہ وہ اسلام کے مقدس اور ابدی اصولوں کے مطابق ہوگا، لیکن اسلام کے بارے میں شروع ہی میں بڑے مؤثرانداز میں اپنی خدمات کا ذکر کیا:
پیپلزپارٹی نے اپنے منشورکے آغاز ہی میں یہ اعلان کیا کہ: اسلام ہمارا عقیدہ ہے۔ ہم نے آغاز ہی میں عہد کیا کہ ہمارا پروگرام اسلام کی روح اور احکامات کے مطابق ہوگا۔ گذشتہ پانچ سال میں پیپلزپارٹی کی پالیسیاں ہمارے اسی عہد پر مبنی تھیں اوراسلام کی عظمت و شان کے لیے ایسے جذبے سے نافذ کی گئیں، جس کا کوئی مقابلہ کسی سابقہ حکومت سے نہیں ہوسکتا۔
پہلی دفعہ دستور کی دفعات میں اسلامی نظریۂ حیات ایمان داری سے شامل کیا گیا ہے۔ اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا ہے۔ ہم نے دستور میں اپنا یہ عہد رقم کردیا ہے کہ ہم قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کریں گے۔
پیپلزپارٹی کی حکومت نے ٹھوس اقدامات اُٹھائے ہیں:
o ۹۰ سالہ قادیانی مسئلہ، دستور میں یہ اعلان کرکے کہ جو شخص محمدؐ کی ختم نبوت کو تسلیم نہیں کرتا مسلمان نہیں ہے، حل کر دیا۔
o فروری ۱۹۷۴ء میں لاہور میں مسلم ریاستوں اور حکومتوں کے سربراہوں کی سربراہ کانفرنس منعقد کی۔
o اعلان کیا کہ جولائی ۷۷ء سے اتوار کے بجاے ہفتہ وار تعطیل جمعہ کی ہوگی۔
o پہلی بار سیرت کانفرنس منعقد کی اور مسجد نبویؐ کے اماموں کے دوروں کا اہتمام کیا۔
o حاجیوں پر سابقہ حکومتوں کی لگائی ہوئی پابندیاں ختم کیں، جس سے تقریباً ۳لاکھ پاکستانیوں نے فریضۂ حج ادا کیا۔
o زکوٰۃ کے لیے منصوبہ بند پالیسی بنائی اور اختیار کی۔
o غلطیوں کے بغیر قرآنِ پاک کی طباعت کے لیے قوانین نافذ کیے۔
o جہیز اور شادی کے تحائف پر اسلام کی روح کے مطابق پابندی کا قانون نافذ کیا، جو عام آدمی کو شادی کے موقعے پر کمرتوڑ اخراجات سے نجات دلاتا ہے۔
oریڈ کراس کا نام ہلال احمر سوسائٹی کردیا۔
محترم جج صاحب کے ارشادات کے سلسلے کے پہلے دو نکات پر ہم نے تفصیل سے گفتگو کرلی ہے۔ تیسرے نکتے کے بارے میں ہم اتنا ہی عرض کریں گے کہ یہ ایک تاریخی حقیقت کا منصفانہ اعتراف ہے اور ہم اس پر انھیں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں۔ البتہ چوتھے نکتے کے بارے میں صرف ریکارڈ درست کرنے کے لیے یہ عرض کریں گے کہ ۱۹۷۰ء کی انتخابی مہم میں بلاشبہہ اسلام اور سوشلزم دونوں کی صداے بازگشت موجود تھی، لیکن یہ بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام متنازع نہیں تھا۔ اختلاف جو بھی تھا، وہ اسلام کے تصور اور تقاضوں کے ادراک کے باب میں تھا۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں بھی اسلام سرفہرست تھا۔ مسلم لیگ کے تین دھڑے میدان میں تھے، مگر ہرایک نے اسلام کو اپنی ترجیح کے طور پر بیان کیا تھا۔
جن جماعتوں کو دینی جماعتیں کہا جاتا ہے، ان کے پلیٹ فارم کا مرکزی نکتہ اسلام اور اس کا نظامِ حیات ہی تھا۔ اس لیے پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں کے موازنے میں ان کے تصورِ اسلام کے بارے میں اختلافات اور ترجیحات کے نظام میں فرق کی بات تو معقول اور مناسب ہے، لیکن پاکستان میں اسلام کے کردار کو نزاع کا باعث کہنا حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ رہا معاملہ اسمبلی میں نشستوں اور عوامی مقبولیت کا، تو اس بارے میں عمومی راے کو ایک دوسرے تصور کے مطابق پیش کرنا مناسب نہیں ہے۔
بلاشبہہ اسمبلی میں پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کو اکثریت حاصل تھی مگر یہ سب سیاسی بساط کے روایتی کھیل کا حصہ ہے کیونکہ اس وقت کے صوبہ سرحد [خیبر پختونخوا] اور بلوچستان میں جمعیت علماے اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی (NAP) شریکِ اقتدار تھے اور صوبہ سرحد کی حکومت مولانا مفتی محمودصاحب کی وزارتِ اعلیٰ میں نیشنل عوامی پارٹی کی تائید اور شمولیت سے وجود میں آئی تھی۔ دستور سازی کے باب میں نظریاتی پہلو اور سیاسی گروہ بندی میں اگر فرق رکھا جائے تو حالات کو سمجھنے میں سہولت ہوگی۔
اُوپر کی گزارشات کی روشنی میں یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ دستور کی یہ تعبیرکہ وہ اسلام اور سوشلزم کا ایک مرکب ہے، قطعاً اپنے اندر کوئی وزن نہیں رکھتی۔ اور اگر یہ مفروضہ درست نہیں تو پھر اس غبارے سے بھی ساری ہوا نکل جاتی ہے کہ ان دو متضاد رجحانات کی موجودگی کی وجہ سے دستور میں کسی بنیادی ڈھانچے کی تلاش لاحاصل مشق ہے۔ دستور کا ایک واضح ڈھانچا، اس کی مستحکم واضح بنیاد اور اساسی اصول موجود ہیں اور دستور کی تعبیر میں ان کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے اور رہے گی۔
آخر میں ہم بحث کا خلاصہ ان نکات میں پیش کرتے ہیں:
۱- ’قراردادِ مقاصد‘ ایک مستقل بالذات دستوری دستاویز ہے، جو تحریکِ پاکستان کے مقاصد اور اہداف کی ترجمان اور پاکستان کی منزلِ مقصود کی آئینہ دار ہے۔ یہ قرارداد ہی دستور کی بنیاد اور اس کے بنیادی ڈھانچے کی اصل صورت گر ہے۔
۲- دستورِ پاکستان اس قرارداد کی روشنی میں مرتب اور مدون کیا گیا ہے۔ ریاست پاکستان جس اصول پر قائم ہے، وہ یہ ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اور پاکستانی قوم حدوداللہ کی مکمل پاس داری کے عہدوپیمان کے ساتھ قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کو اپنا مقصدِ وجود سمجھتی ہے، اور دستور اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک فریم ورک کی حیثیت رکھتا ہے۔
۳- اس دستور کی بنیاد اور اس کے ناقابلِ تغیر پہلو کم از کم پانچ ہیں، یعنی:lاس کا اسلامی کردار اور شناخت ۔ lجمہوری طرزِ حکومت جس میں قانون کی بالادستی اور عوام کی مرضی کے مطابق ان کی فلاح و بہبود اور ان کے اخلاقی، نظریاتی، تہذیبی، معاشی عزائم اور توقعات کی تکمیل کو اولیں حیثیت حاصل ہے۔lبنیادی حقوق کا تحفظ اور اسلام کے اصولِ حکمرانی اور حقوق و فرائض کے نظام کا مکمل احترام ایک بنیادی قدر ہے، جس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔ lپاکستان کا نظام وفاقی ہے جس میں مرکز اور وفاق کی اکائیوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا مکمل احترام اور وسائل کے طے شدہ اصولوں اور شرائط کی روشنی میں استعمال کا اہتمام ضروری ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری، جو انصاف کی فراہمی کے ساتھ دستور کے تحفظ اور بنیادی حقوق کی پاس داری کی نگرانی کے نظام کی آخری ذمہ دار ہے۔
یہ دستور کا بنیادی ڈھانچا ہے، جس کی پاس داری مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور عوام سب کی ذمہ داری ہے۔
۴- قرآن و سنت کی بالادستی اور اسلام کے اصولوں کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیروترقی اصل ہدف اور منزل ہے۔
۵- اخلاقی اقدار کو ہمارے نظام میں مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہیے، تاکہ قوم و ملک کی ترقی کا وہ نقشہ حقیقت کا رُوپ دھار سکے، جس میں عدل و انصاف کا بول بالا ہو، انسانوں کے درمیان حقیقی مساوات قائم ہو، اور اللہ کی زمین فساد سے پاک اور خیر اور فلاح کا گہوارا بن سکے۔
۶- عوام کی اخلاقی، سیاسی، معاشی اور تہذیبی ترقی ہمارا مقصود ہے اور اس عمل میں عوام ہی کا کردار سب سے اہم ہے۔ ہرسطح پر عوام کو اختیارات کی منتقلی اور ان اختیارات کے مناسب استعمال کے مواقع کی فراہمی، ریاست اور اس کے تمام اداروں کی ترجیح اور ریاستی وسائل کے استعمال کا مقصد و محور ہونا چاہیے۔
۷- حقوقِ انسانی کا تحفظ، قانون کی حکمرانی، اختیارات کی تقسیم اور توازن، خاندانی نظام کی تقویت اور معاشرے میں امن، برداشت، مشاورت، تعاون باہمی کا فروغ اور اچھی حکمرانی کامیابی کا معیار اور میزان ہوں۔
۸- دستور پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق عمل اور افراد کی اصلاح کے ساتھ اداروں کا استحکام اصل ترجیح ہو۔
۹- آزادی اور قومی سلامتی کے تحفظ کے ساتھ ایک حقیقی جمہوری، فلاحی اور استحصال سے پاک معاشرے کا قیام اور معاشرے کے تمام طبقات کو ترقی کے مساوی مواقعے کی فراہمی کا اہتمام ہو۔
۱۰- اقلیتوں کا تحفظ اور ان کے لیے ایسے مواقع کی فراہمی کہ وہ اپنے مذہب اور ثقافت کے دائرے میں رہتے ہوئے قومی زندگی کی تعمیر اور ترقی میں بھرپور کردار ادا کرسکیں۔
یہ وہ اہداف ہیں جو ’قراردادِ مقاصد‘ اور دستور کے قومی پالیسی کے خطوطِ کار کا تقاضا ہیں اور یہی وہ میزان اور کسوٹی ہے جس پر حکومت، سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں کی کامیابی یا ناکامی کو جانچا جانا چاہیے۔
پاکستان اپنی اصل کے اعتبار سے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ یہ محض ایک خطۂ زمین کا نام نہیں۔ پاکستان ایک نظریہ پہلے ہے اور ایک مملکت بعد میں۔۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء سے پہلے پاکستان نام کا کوئی خطۂ زمین دنیا کے نقشے پر موجود نہ تھا لیکن ایک نظریہ تھا ،جو ایک قوم کو اپنے نظریاتی اور تہذیبی وجود کے تحفظ اور ترقی کے لیے ایک خطۂ زمین پر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی ایک تاریخی جدوجہد میں سرگرم کیے ہوئے تھا۔ یہی وہ جدوجہد تھی جس کے نتیجے میں اللہ کے فضل سے، قائداعظمؒ کی قیادت میں اُمت مسلمہ پاک و ہند کی بے پناہ قربانیوں کے نتیجے میں پاکستان کے تصور نے ایک خطۂ زمین کی شکل اختیار کی۔ عالمی سیاسی بساط پر ایک ایسے ملک کا رُوپ دھارا جو صرف ایک قومی ریاست (نیشن اسٹیٹ) نہیں، بلکہ اپنی اصل میں ایک نظریاتی ریاست ہے۔یہ مغرب کی لادینی لبرل جمہوریت اور ایشیا کی اشتراکی ریاست اور بھارت کی سیکولر ریاست کے مقابلے میں ایک ایسے سیاسی تصور کے مظہر کے طور پر وجود میں آئی جس میں دنیوی مسائل کو حل کرتے ہوئے الہامی ہدایت اور اخلاقی قوت کی تسخیر کے ذریعے سب کے لیے عدل و انصاف، اخوت اور بھائی چارے اور حقوق و فرائض کی پاس داری پر مبنی نظام قائم کیا جاسکے۔
پاکستان کے تمام مسائل اور مصائب کی اصل جڑ ہی یہ ہے کہ قائداعظم اور قائدملّت کے بعد ملک کی زمامِ کار پر ایسے لوگوں نے قبضہ کرلیا، جن کا کوئی عملی کردار تحریکِ پاکستان میں نہ تھا۔ ملک غلام محمد، محمد علی بوگرا، جسٹس منیر، اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان ایک دوسری ہی فکر کے علَم بردار، اورایک دوسرے ہی طرزِ زندگی کے گرویدہ تھے۔ انھوں نے نظریاتی نیشن اسٹیٹ کو محض ایک ’نیشن اسٹیٹ‘ (قومی ریاست) میں ڈھالنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں نظریاتی، معاشی اور تہذیبی کش مکش رُونما ہوئی۔ اس کش مکش نے قوم کو بانٹ دیا ہے اور وہ اصل منزل کی طرف یکسوئی اور یک جہتی سے گامزن ہونے کے بجاے مفادات کی جنگ کی آماج گاہ بن گئی ہے۔ قائداعظمؒ نے نہایت صاف الفاظ میں حصولِ آزادی کے بعد قوم کو یہی یاد دہانی کرائی تھی کہ:
ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کو آزما سکیں۔ (۱۲جنوری ۱۹۴۸ئ، اسلامیہ کالج پشاور)
۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حکومت پاکستان کے افسروں سے خطاب میں قائداعظمؒ نے فرمایا تھا:
جس پاکستان کے قیام کے لیے ہم نے گذشتہ ۱۰ برس جدوجہد کی ہے، آج اللہ کے فضل سے وہ ایک مسلّمہ حقیقت بن چکا ہے، مگر کسی قومی ریاست کو معرضِ وجود میں لانا مقصود بالذات نہیں ہوسکتا بلکہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہی ہوسکتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریں، جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں، جو ہماری تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلے پھولے، اور جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی تصور کو پوری طرح پنپنے کا موقع ملے۔
پاکستان کی طاقت کا سرچشمہ یہی وژن اور اس کو حقیقت کا رُوپ دینے کی انفرادی اور اجتماعی کوشش ہے، اور پاکستان کی کمزوری اور خلفشار کا سبب اس نصب العین اور منزل سے صرفِ نظر کرکے چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے سرگرم ہونے میں ہے۔
اس مرکزی اہمیت کے مسئلے پر ہماری اور پوری قوم کی توجہ ایک بار پھر سپریم کورٹ کے فل کورٹ (۱۷ ججوں) کے فیصلے نے مرکوز کرا دی ہے۔ اگرچہ فیصلے کا اصل موضوع دستور کی ۱۸ویں، ۱۹ویں اور ۲۱ویں ترامیم ہیں اور ان کے بارے میں اکثریتی راے سے وہ تلوار ہٹ گئی ہے جو ان ترامیم پر منڈلا رہی تھی۔ پارلیمنٹ کو بھی سُکھ کا سانس لینے کا موقع مل گیا ہے کہ ان ترامیم کو ردّ نہیں کیا گیا۔ عدالت بھی خوش ہے کہ اس نے اپنے اختیارات سے دست برداری اختیار نہیں کی، اور دفاعی ادارے بھی سُکھ کا سانس لے رہے ہیں کہ فوجی عدالتوں میں سویلین ملزموں پر مقدمات چلانے کا راستہ ہموار ہوگیا ہے۔ کوئی اسے عدالتی تدبر (judicious statesmanship) قرار دے رہا ہے، کسی نے اسے ’عدالتی حقیقت پسندی‘ (judicial pragmatism)کا نام دے دیا ہے اور کوئی اس پر ’عدالتی موقع پرستی‘ (judicial opportunism) کی پھبتی کی تہمت دینے سے بھی گریز نہیں کر رہا۔ بظاہر فیصلہ چند قانونی اور انتظامی اُمور سے متعلق ہے، لیکن ۹۰۲ صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں بڑی اہم قانونی اور نظریاتی بحثیں کی گئی ہیں۔ بڑی عرق ریزی سے جج حضرات نے اپنے فیصلے لکھے ہیں۔ آٹھ ججوں کا مرکزی اور اجتماعی فیصلہ ہے اور اِس وقت کے چیف جسٹس سمیت نو ججوں نے الگ اپنے اپنے فیصلے لکھے ہیں اور پاکستان کے نظریاتی تشخص، قراردادمقاصد کے مقام اور کردار، دستور میں کسی ناقابلِ تغیر اساس کے وجود یا عدم وجود، عدالتوں کے کردار اور پارلیمنٹ کے دستور میں ترمیم کے اختیار جیسے اہم موضوعات پر سیرحاصل بحث کی ہے۔ فیصلہ متفقہ نہیں لیکن اختلافی فیصلے (split judgement) کی وجہ سے بحث بڑی مفید، متنوع اور ہمہ جہتی ہوگئی ہے اور نقطہ ہاے نظر کے اختلاف اور امکانات کے تنوع نے سوچ بچار کے نئے گوشے وَا کرا دیے ہیں۔ یہ بات بھی باعث ِ مسرت ہے کہ بحث کا معیار بالعموم بڑا علمی اور باوقار ہے اور ان مباحث میں غوروفکر اور اختلاف و اتفاق کا بڑا سامان موجود ہے اور منظر یہ نظر آتا ہے کہ ع
البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان مباحث میں کچھ بڑے سخت مقامات بھی آگئے ہیں، جن پر نقدواحتساب، علمی بحث اور کھلے ذہن سے افہام و تفہیم کی کوشش کی ضرورت ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے قومیں ترقی کرسکتی ہیں۔
دستور میں ۱۸ویں ترمیم اپریل ۲۰۱۰ء میں ہوئی تھی اور اس کے خلاف درخواستیں اس وقت سے عدالت کے زیرسماعت تھیں۔ دستور کی دفعہ ۱۷۵-اے کے بارے میں، جس کا موضوع اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کا تقرر تھا، عدالت کے ایک جزوی فیصلے کی روشنی میں پارلیمنٹ نے ۱۹ویں ترمیم کی اور اسی طرح ۱۸ویں اور ۱۹ویں دونوں ترامیم عدالت کے زیرغور آگئیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے دستوری چھتری فراہم کرنے کے لیے ’ضربِ عضب‘ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اور تینوں افواج سے متعلق خصوصی قوانین میں اور خود دستور میں ۲۱ویں ترمیم کے ذریعے تبدیلیاں کی گئیں، تاکہ ایسی فوجی عدالتیں قائم ہوسکیں جن میں سول ملزموں پر مقدمہ چلایا جاسکے۔ ان ترامیم کو عدالت میں چیلنج کیا گیا اور تقریباً ۳۹ درخواستیں(petitions) سپریم کورٹ میں داخل کی گئیں، جن کے بارے میں فل کورٹ کا فیصلہ ۵؍اگست ۲۰۱۵ء کو سنایا گیا ہے۔
اگر مرکزی مباحث کا تجزیہ کیا جائے تو بنیادی مسائل تین ہی تھے: یعنی اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کے تقرر کا نظام اور اس میں پارلیمنٹ کا کردار، ایسی فوجی عدالتوں کا قیام کہ جن میں کچھ خاص نوعیت کے الزام میں سویلین شہریوں پر مقدمہ چلایا جائے، اور غیرمسلموں کے لیے پارلیمنٹ میں مخصوص نشستوں پر تقرر کا طریقہ۔ پہلے اور تیسرے مسئلے کا تعلق ۱۸ویں اور ۱۹ویں ترمیم سے ہے اور دوسرے کا تعلق ۲۱ویں ترمیم سے ہے، لیکن بات صرف ان متعین مسائل کی نہیں تھی۔ عدالت کو زیادہ موضوعات پر بڑی گہرائی میں جاکر راے قائم کرنا پڑی اور اصل اہمیت ان بنیادی مسائل ہی نے اختیار کرلی، یعنی:
۱- کیا پاکستان کے دستور کا کوئی بنیادی ڈھانچا یا متعین اور ناقابلِ تغیر حصے ہیں جو دستور کی اساس ہیں اور جن کو تبدیل کرنے کا اختیار خود پارلیمنٹ کو بھی حاصل نہیں؟ بہ الفاظِ دیگر دستورِ مملکت، بلاشبہہ ملک کے سیاسی اور قانونی نظام کی بنیاد ہے، لیکن زمانے کی تبدیلیوں اور نئے مسائل اور مشکلات کے پیدا ہونے سے اس میں ترمیم و تبدیلی بھی وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ: دستور اگر ایک قوم اور ملک کے اجتماعی نظام کا صورت گر ہے، اور اسے قوم نے ایک بنیادی فیصلے کے طور پر طے کیا ہے، تو اس میں کن چیزوں کو تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ کون سی ایسی بنیادیں ہیں، جو قوم کی شناخت کے ان پہلوئوں کی حامل ہیں، جن کی تبدیلی سے اس کا وجود اور اجتماعی تشخص بھی مجروح ہوجاتا ہے؟ یقینا کچھ ایسے ناقابلِ تغیر حصے، اصول یا اقدار ہیں جنھیں پارلیمنٹ ترمیم کے نام پر تبدیل نہیں کرسکتی۔ ترمیم صرف جزوی معاملات کے بارے میں ہوسکتی ہے۔ اصل مقاصد کے حصول کی راہ میں اگر کچھ رکاوٹیں آرہی ہوں تو ان کو رفع کرنے کے لیے ہوسکتی ہے، لیکن قوم کے مقاصد اور نظریاتی اہداف، بنیادی حقوق اور اساسی اداروں، یعنی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور ان کا توازن، یا ایسی ہی کچھ دوسری چیزیں ہیں، جو وجود کا درجہ رکھتی ہیں وہ ناقابلِ تغیر ہیں۔ نیز ان ناقابلِ تغیر حصوں یا اصولوں کا تعین کو ن کرے گا؟ کیا دستور خود یہ طے کرے گا یا دستور کی روشنی میں عدلیہ کا بھی اس میں کوئی کردار ہے؟
۲- اگر دستور کا کوئی بنیادی ڈھانچا یا ناقابلِ تغیر اصول، اقداراور اہداف ہیں تو پھر ان کی حفاظت کیسے ہو؟ کیا پارلیمنٹ ہی ان کی واحد ذمہ دار ہے، یا دستور کے ان پہلوئوں کی حفاظت کی ذمہ داری میں عدلیہ کا بھی کردار ہے جسے قانون کی اصطلاح میں عدلیہ کے نظرثانی کرنے کا اختیار (judicial review) کہتے ہیں؟
۳- بنیادی حقوق کو دستور میں کیا مقام حاصل ہے؟ دستور نے ہی پارلیمنٹ پر یہ پابندی لگا دی ہے کہ وہ بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی نہیں کرسکتی اور دستور نے اعلیٰ عدلیہ کو یہ اختیار دیا ہے کہ متاثر افراد کی شکایت پر یا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نہ صرف نوٹس لے، بلکہ اگر کوئی قانون ان سے متصادم ہو تو اس کو خلافِ دستور قرار دے کر منسوخ کردے۔ لیکن کیا یہ اختیار اس صورت میں بھی حاصل ہے جب پارلیمنٹ عام قانون سازی نہیں، بلکہ کوئی ایسی دستوری ترمیم کرے جو بنیادی حقوق کو پامال کرنے یا مجروح کرنے کا سبب بن سکتی ہو؟
انسانی حقوق کی حفاظت اور عام افراد کے لیے عدل کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب عدلیہ آزاد ہو۔ کیا پارلیمنٹ ایسی قانون سازی یا دستوری ترمیم کرسکتی ہے، جو عدلیہ کی آزادی کو مجروح کردے اور اس طرح وہ دستور کی حفاظت اور بنیادی حقوق کی ضمانت کا فرض ادا نہ کرسکے۔ نیز اگر ریاست کا کوئی نظریہ ہے، جیسے پاکستان کے دستور میں ’قراردادِ مقاصد‘ اور دستور کی دفعہ۲ اور ۲-اے میں اسلام کو ملک کا مذہب قرار دیا گیا ہے اور قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی پر پابندی ہے، کیا ان حصوں میں بھی ترمیم ہوسکتی ہے یا نہیں؟ اور کیا دفعہ ۲-اے کے نتیجے میں قانون ہی نہیں دستور کے بارے میں بھی عدالت یہ فیصلہ دے سکتی ہے کہ اس کی کچھ شقیں قرآن و سنت سے متصادم ہیں؟ یہ سوال بھی اس سلسلے میں اہمیت رکھتا ہے کہ کیا ایسی ناقابلِ تغیر چیزوں کا تعین ہوگیا ہے یا خود اس بارے میں غوروفکر کا دروازہ کھلا رہے گا اور اس فہرست میں اضافہ یا کمی ہوسکتی ہے اور اگر ہوسکتی ہے تو یہ فیصلہ کون کرے گا___ یعنی کیا پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ ہی وہ ادارہ ہے، جو اس کو متعین کرنے کا کام انجام دے گی، یا اس میں پارلیمنٹ کا بھی کوئی کردار ہے، یا صرف پارلیمنٹ ہی یہ فریضہ انجام دے سکتی ہے؟
اس بحث میں ایک بنیادی اور مشکل سوال یہ بھی سامنے آتا ہے کہ کیا ترمیم کے معنی معمولی اور جزوی تبدیلیاں ہیں، جو اصل مقاصد کے حصول کے لیے ضرورت کے تحت یا مشکلات کو دُور کرنے کے لیے یا نئے امکانات سے فائدہ اُٹھانے کے لیے کی جاسکتی ہیں؟ یا ترمیم کے معنی دستور کو re-writeکرنا، یا زیادہ خام لفظوں میں اس کی مکمل تنسیخ (abrogation) ،یا ایسی تبدیلیاں کرنا ہے جو اس کا حلیہ ہی بگاڑ دیں، یعنیsubversion؟ اور اگر ترمیم اور تنسیخ دو الگ الگ چیزیں ہیں تو یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کیا جو ترامیم کی گئی ہیں ان میں کہاں معاملہ صرف ترمیم کا ہے اور کہاں بات تخریبی (subversive) حد تک پہنچ گئی ہے اور کہاں بات تنسیخ یا معطل کرنے (suspension) کی صورت اختیار کر گئی ہے؟
۴- ایک اور اہم مسئلہ وہ ہے جس کا تعلق ’نظریۂ ضرورت‘ سے ہے۔ جسٹس محمدمنیر کے زمانے سے آج تک یہ آسیب باربار سایۂ فگن رہا ہے۔ ملک غلام محمد کے پہلی دستوریہ کو تحلیل کرنے سے لے کر جنرل پرویز مشرف کے دستور کو معطل کرنے تک، دستور پر بار بار یہ شب خون مارا گیا ہے، اور ہربار اعلیٰ عدالتوں نے ’نظریۂ ضرورت‘ کا سہارا لے کر ایسے اقدام کو جواز اور اعتبار (validation) فراہم کیا ہے اور پارلیمنٹ نے بھی بعد میں بہ امر مجبوری انھیں تحفظ دیا ہے، لیکن عدالت ِ عظمیٰ ہی نے کم از کم دوبار دوٹوک الفاظ میں ’نظریۂ ضرورت‘ کی نفی کی ہے۔ دستور کو منسوخ کرنے یا محض معطل کرنے کو اختیارات کا بدترین استعمال کہا ہے اور اسے کسی بھی قسم کا قانونی تحفظ فراہم کیے جانے کو بھی وطن دشمنی یا غداری (high treason) قرار دیاہے، اور اس کے مرتکب کو غاصب (usurper) کہا ہے۔
اسماء جیلانی کیس میں چیف جسٹس حمودالرحمن کی صدارت میں عدالت نے جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا (۱۹۶۹ئ-۱۹۷۱ئ) کو ایسا ہی جرم قرار دیا تھا، اور ایک مقدمے میں چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں فل کورٹ نے ’نظریۂ ضرورت‘ کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا اعلان کیا تھا۔ خود پارلیمنٹ نے ۱۸ویں ترمیم کے ذریعے دفعہ۶ میں مزید ترمیم کر کے ’نظریۂ ضرورت‘ سے براء ت کا اعلان کیا تھا، لیکن کیا فی الحقیقت ’نظریۂ ضرورت‘ کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا گیا ہے؟ کیا بظاہر اس کا دروازہ بند کیا گیا ہے، مگر کھڑکی یا روشن دان کھلے ہیں، جن سے اس کے داخل ہوجانے یا دَر آنے کے امکانات موجود ہیں؟
یہ وہ بڑے ہی بنیادی مسائل ہیں جن پر اس موجودہ فیصلے میں معرکہ آرا بحثیں کی گئی ہیں، گو کوئی متفقہ فیصلہ نہیں آسکا۔ تاہم، اکثریتی اور اقلیتی فیصلوں کی شکل میں بحث کے تمام ہی اہم گوشے منقش ہوکر سامنے آگئے ہیں اور اس طرح اختلاف راے کے آئینے میں امکانات کی شکلیں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔
اگر ہم فیصلے کا خلاصہ پیش کریں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ:
(الف) اکثریت نے دبے لفظوں میں یہ تسلیم کرلیا ہے کہ دستور کے کچھ حصے اور کچھ اصول اور اقدار جن پر دستور مبنی ہے وہ ناقابلِ تغیر ہیں۔ بھارت میں جس انداز میں بنیادی ڈھانچے کے نظریے کو دستوری اصولِ قانون (constitutional jurisprudence) کا حصہ بنا دیا گیا ہے وہ کیفیت تو ہماری عدالت کے فیصلے میں نظر نہیں آتی، مگر اصول کی حد تک الفاظ بدل کر دستور کے بنیادی خدوخال (salient features) کی بات کو اکثریت نے تسلیم کیا ہے۔
(ب) اُوپر جس اصول کو تسلیم کیا گیا ہے، اس کا لازمی تقاضا ہے کہ اس باب میں پارلیمنٹ کے اختیارات بسلسلہ ترمیم دستور کی تحدید ہوجاتی ہے، اور اس حد تک اعلیٰ عدلیہ کو یہ اختیار حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ دستوری ترامیم پر بھی نظرثانی کرسکے، جس کے معنی یہ بھی ہیں کہ اگر وہ کسی ترمیم کو دستور کے بنیادی خدوخال سے متصادم پائے تو اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
(ج) دستور کے بنیادی خدوخال کیا ہیں___ اس بارے میں کچھ نکات کو فیصلے کے مختلف حصوں میں بیان کیا گیا ہے، لیکن کوئی جامع فہرست اور مکمل تصویر نہیں دی گئی۔ بنیادی حقوق کا تحفظ اور عدلیہ کی آزادی اور حقوق اور دستور کی حفاظت کے باب میں اس کے کردار کو واضح طور پر دستور کے بنیادی خدوخال کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ اسلام کو ملک کا مذہب تسلیم کرنے اور اس کے وجود کی اصل وجہ (raison d'etre) تسلیم کرنے کے باوجود کھل کر اسے دستور کے بنیادی خدوخال میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ اس کا انکار نہیں کیا گیا ہے اور چند محترم جج صاحبان نے اپنے انفرادی فیصلے میں ’قرارداد مقاصد‘ اور دستور کی اسلامی دفعات کو بنیادی خدوخال کا حصہ قرار دیا ہے، خصوصیت سے جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس دوست محمد خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحبان نے بلاواسطہ یا بالواسطہ انداز میں قراردادِ مقاصد اور دفعہ۲- اے کو ایک مرکزی اہمیت دی ہے۔ آٹھ ججوں کے مشترک فیصلے میں اس کو بالکل نظرانداز کردیا گیا ہے، حالانکہ عدالت کے دستوری ترمیم پر نظرثانی کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ جناب جسٹس ثاقب نثار نہ عدالت کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں اور نہ قرارداد مقاصد کوکوئی مستقل اور فیصلہ کن کردار دینے کا عندیہ دیتے ہیں، بلکہ ان کے فیصلے میں ’قراردادِ مقاصد‘ کا قد کاٹھ کم کرنے ( belittle) کے متعدد پہلو پائے جاتے ہیں، جن پر ہم آگے کلام کریں گے۔
چیف جسٹس ناصرالملک صاحب نے بھی چونکہ پارلیمنٹ کو اس بارے میں مکمل اختیارات کا حامل قرار دیا ہے، اور اس ضمن میں عدلیہ کے کسی کردار کی نفی کی ہے، اس لیے وہ بھی ’قراردادِ مقاصد‘ کی فیصلہ کن حیثیت پر خاموش ہیں۔ اس طرح اکثریت نے بلالحاظ اس کے کہ وہ دستوری ترمیم کے باب میں عدالت کے نظرثانی کے حق کے قائل ہیں یا نہیں، کھل کر دستور کے بنیادی خدوخال میں ’قراردادِمقاصد‘ اور ’اسلامی دفعات‘ کا ذکر نہیں فرمایا۔ جناب جسٹس (ریٹائرڈ) وجیہہ الدین احمد نے اسے ایک بھول قرار دیا ہے۔ خدا کرے یہ صرف بھول ہو، لیکن اگر یہ بھول ہے تب بھی کوئی معمولی بھول نہیں ہے، جلد ازجلد اس کی تلافی ہونی چاہیے اور ایسا ہونا ہی خوشی کی بات ہوگی!
(د) فوجی عدالتوں کے باب میں ۱۷ میں سے چھے جج صاحبان نے انھیں دستور کے خلاف قرار دیا ہے لیکن ۱۱ جج صاحبان نے دستور اور اس کی بنیادی حقوق کی دفعات سے انھیں متصادم تصور نہیں کیا۔ البتہ عدالت کے لیے جزوی نظرثانی کی کھڑکی ضرور کھول دی ہے، جو روشنی کی ایک ہلکی سی کرن ہے۔ نیز اس ترمیم کا ایک متعین مدت (دو سال) کے لیے ہونا بھی ایک مثبت پہلو ہے جسے عدالت نے اپنی راے قائم کرتے وقت ملحوظ رکھا ہے۔
(ھ) غیرمسلموں کی اضافی نشستوں کے بارے میں عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ لیکن چونکہ اکثریت نے آٹھویں ترمیم کو دستور سے متصادم قرار نہیں دیا، اس لیے اس سلسلے میں درخواست خود بخود غیرمؤثر ہوگئی ہے۔
ہم قانون کی حکمرانی کے قائل ہیں اور عدالت کا فیصلہ ہی اس وقت کا قانون ہے اور اس وقت تک رہے گا، جب تک پارلیمنٹ یا عدلیہ اس میں تبدیلی نہ کریں، لیکن دنیا بھر میں یہ بڑی صحت مند روایت ہے کہ عدالتی فیصلوں کے ان پہلوئوں پر بحث و گفتگو کی جاتی ہے، جن کا تعلق اصولوں سے ہو، یا ان اُمور سے متعلق ہوں جو عوامی اہمیت کے حامل ہیں، جیسے انسانی حقوق، معاشی حقوق، معاشرتی عدل اور معاشرے کے اخلاقی اور تہذیبی مسائل وغیرہ۔ اس فیصلے کے اختلافی فیصلہ ہونے کے معنی یہ بھی ہیں کہ خود اعلیٰ عدالت میں مختلف آرا، بلکہ متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آج کا اکثریتی فیصلہ کل کا اقلیتی فیصلہ بھی بن سکتا ہے اور آج کا اقلیتی فیصلہ کل کا اکثریتی فیصلہ۔ اسی طرح صرف علمی بحثوں میں ہی نہیں، عدالتی بحثوں میں بھی اکثریتی فیصلے کے ساتھ اختلافی فیصلوں کو بھی دلیل کی بنیاد بنایا جاتا ہے اور ایسے فیصلوں کا حوالہ (quote) بھی دیا جاتا ہے۔ یہی وہ صحت مند روایت ہے جس کے ذریعے غوروفکر کا باب کھلا رہتا ہے اور علمی ترقی اور انصاف کی فراہمی دونوں میں مدد ملتی ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ ہم فاضل عدالت کے ججوں کے لیے احترام کے بہترین جذبات کے ساتھ کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں:
پہلی گزارش ’نظریۂ ضرورت‘ کے دوبارہ بڑی خاموشی سے سر اُٹھانے کے بارے میں ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ فیصلے میں ’نظریۂ ضرورت‘ کا کھل کر دفاع نہیں کیا گیا ہے، اور ایک ڈھکے چھپے انداز میں حالات کی سنگینی اور غیرمعمولی کیفیات کی بناپر، وقتی طور پر ایک محدود مدت کے لیے، کچھ نظرثانی کی گنجایش پیدا کرتے ہوئے،سویلین افراد کے لیے فوجی عدالتوں کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے لیے کچھ گنجایش اس بنیاد پر نکالی گئی ہے کہ دستور میں عدالتی نظام میں کثرتیت (plurality ) پہلے ہی موجود ہے۔ اگر ’خصوصی عدالتیں‘ اور ’ٹریبونل‘ موجود ہیں، تو اسی چلن کے تحت وقتی طور پر تھوڑی سی گنجایش اور بھی پیدا کی جاسکتی ہے، لیکن یہاں اس بنیادی بات کو شاید ملحوظ نہیں رکھا گیا کہ دستور نے مرکزی نظامِ عدل سے ہٹ کر جہاں کہیں گنجایش پیدا کی ہے، وہ بھی بنیادی طور پر سول قانون ہی کی فراہمی کی ایک شکل ہے۔ جہاں تک قانون کے مرحلہ وار عمل (due process of law) کا تعلق ہے ،جو اَب دستور میں ایک بنیادی حق کے طور پر موجود ہے، اور جو اسلام کا بھی ایک مسلّمہ اصول ہے، اس باب میں نظامِ عدل میں کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ دوسرے لفظوں میں قانون کا بنیادی ڈھانچا اور قانونی عمل ایک ہی ہے، گو خصوصی میدانوں کے لیے علیحدہ انتظام کیا گیا ہے۔ فوجی عدالتوں کا معاملہ اصولاً مختلف ہے۔ بلاشبہہ اس کے اپنے آداب اور قواعد ہیں ، لیکن شہری قانون (civil law) میں جسے ’قانونی مرحلہ وار عمل‘ کہا جاتا ہے اور جس میں گرفتاری کی وجہ، دفاع کا حق، اپنی مرضی کے وکیل کا انتظام، دورانِ حراست ضروری تحفظات، مقدمے کی کھلی سماعت و کارروائی، شہادتوں پر جرح کا حق، فیصلے کے خلاف اپیل کے امکانات وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے برعکس فوجی عدالتی نظام میں یہ چیزیں نہیں ہوسکتیں۔
اصل ضرورت اس کی ہے کہ ہم اپنے عدالتی نظام کو ٹھیک کریں۔ تفتیش (investigation) اور استغاثے (prosecution) کو صحیح بنیادوں پر منظم کریں۔ ججوں، وکیلوں اور گواہوں کو تحفظ فراہم کریں۔ عدالتوں کی تعداد میں اضافے اور مقدمے کے لیے فیصلے کی مدت میں کمی، انصاف کی فراہمی کو بہتر بناسکتے ہیں۔ اسی طرح دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کو بہتر بناکر وہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے جو فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کے ملزمان کو بھیجنے سے حاصل کیا جانا پیشِ نظر ہے۔ پھر قانون میں یہ بڑا سقم ہے کہ دہشت گردی کو بھی انواع و اقسام میں تقسیم کردیا گیا ہے، گویا مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر کی جانے والی دہشت گردی اور شے ہے، اور نسلی، لسانی، معاشی، سیاسی اور دوسری بنیادوں پر کی جانے والی دہشت گردی اور شے ۔ یہ صریح امتیاز (discrimination) ہے جو انسانی شرف اور ہمارے دستور دونوں کے خلاف ہے۔
’نظریۂ ضرورت‘ نے اس قوم کو بڑے چرکے لگائے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ نظریہ کسی چوردروازے سے آکر ایک بار پھر ملک میں قانون کی حکمرانی اور عدل کی فراہمی کے نظام کو تہ و بالا نہ کردے۔
دوسرا اور اہم ترین پہلو جس پر ہم بات کرنا چاہتے ہیں، اس کا تعلق دستور کی اسلامی دفعات اور ملک کے نظریاتی تشخص کی حفاظت اور ترقی سے ہے۔ ہماری نگاہ میں ملک و قوم کے مستقبل کا انحصار اس مسئلے کے بارے میں صحیح موقف اختیار کرنے پر ہے۔ ریاست اور مذہب کے تعلق اور پاکستان کے نظامِ حکومت اور نظامِ زندگی میں اسلام کے کردار کے بارے میں ملک کے اندر اور باہر ایک مخصوص طرز فکر کو منظم انداز سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک خاص گروہ ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت فکری انتشار پھیلانے اور اسلام اور دینی قوتوں کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ اس پس منظر میں عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یہ ضرورت اور بھی محکم ہوجاتی ہے کہ اس بارے میں قوم میں مکمل یکسوئی ہو۔دلیل، تاریخی حقائق اور قوم کے حقیقی جذبات و احساسات کی روشنی میں قوم، پارلیمنٹ اور عدالت ایک واضح راستہ اختیار کریں۔ ہمیں توقع ہے کہ ان شاء اللہ سپریم کورٹ آف پاکستان اس فیصلے پر نظرثانی کرکے وقت کی اس ضرورت کو پورا کرے گی۔ ہم مسئلے کی اہمیت اور نوعیت کی صحیح تفہیم کے لیے اصل مسئلے اور عدالت کے فیصلے میں اُٹھائے گئے سوالات کے بارے میں اپنی معروضات پیش کرتے ہیں۔ ہم دلیل سے بات سننے اور خود اپنی راے پر دوبارہ غور کرنے کے لیے ہمیشہ آمادہ ہوں گے۔ ہماری درخواست اور دُعا ہے کہ ہماری اعلیٰ ترین عدالت کے فاضل جج بھی دلیل سے بات سننے اور اگر دلیل معقول ہو تو اپنی راے پر نظرثانی کرنے کی اعلیٰ اخلاقی اقدار کا پاس کریں گے۔
پاکستان کا قیام محض تحریکِ آزادی کا ایک حصہ نہیں، بلکہ ایک قوم کے حق خود ارادی کی بات، ایک نظریے کی بنیاد پر ایک علاقے کے حوالے سے تھی، یعنی قوم ایک نظریے کے تحفظ اور ترقی کے لیے ایک علاقے کو حاصل کر رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نظریہ ہی قوم کی بنیاد تھا اور نظریہ ہی ریاست کی بنیاد بنا۔ قراردادِ مقاصد اس نظریاتی اور تاریخی حقیقت کا دستاویزی مرقع اور پاکستانی قوم کے ریاست سے عمرانی معاہدے کا اقرار و اظہار ہے۔ یہ روایتی طور پر دساتیر اور قوانین میں درج ہونے والے عام پیش لفظوں (preambles)سے قطعاً مختلف اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک منفرد دستاویز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف دستور ہی نہیں، پاکستانی قوم اور ریاست کی زندگی میں اس کا ایک ایسا مقام ہے، جس کی کوئی نظیر نہیں پائی جاتی اور جسے کوئی درہم برہم نہیں کرسکتا۔
’قراردادِ مقاصد‘ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تین اور دستاویزات کو بغور دیکھا جائے اور ان کے پس منظر میں قراردادِ مقاصد کے اصل پیغام اور مقام کو متعین کیا جائے:
اوّلاً: اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے۔ دین و دنیا کی تفریق کی اس میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ ایمان باللہ اور ایمان بالرسولؐ صرف ایک عقیدہ نہیں بلکہ وہ بیک وقت بندے اور رب کے درمیان جہاں ایک روحانی اور اخلاقی تعلق کو استوار کرتے ہیں، وہیں انسانوں کے درمیان تعلقات اور سماجی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کے لیے بھی ایک واضح ضابطۂ کار فراہم کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عقیدے اور اجتماعی زندگی میں ایک ناقابلِ تنسیخ تعلق قائم ہوتا ہے۔ یہ تعلق اتنا بنیادی ہے کہ ایک کی کمزوری یا رشتے کی نوعیت کی تبدیلی واقع ہو، تو دوسرا رشتہ بھی باقی نہیں رہتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ عقیدے کے طور پر اجتماعی اور سیاسی زندگی کو اسلام کے احکام کے مطابق ڈھالنے کا اہتمام ہو اور جو چیزیں اس میں مانع ہیں، ان سے نجات حاصل کی جائے۔
دوم: برعظیم پاک و ہند میں مسلمان مغرب کے لبرل جمہوری نظام کا حصہ بن کر اپنا دینی اور اجتماعی تشخص برقرار نہیں رکھ سکتے۔ مسئلہ صرف مسلمانوں کے دنیوی مفادات اور سیاسی حقوق کا ہی نہیں، ان کے دین و معاشرت اور ان کے عقیدے اور ایمان کا بھی ہے۔ جن حالات سے مسلمان دوچار ہیں، ان میں ہندو اکثریت کے ساتھ مشترک قومیت اور مشترک سیاسی اور اجتماعی نظام کی صورت میں نہ ہماری تہذیب و تمدن کی بقا ممکن ہے اور نہ سیاست اور معاشرت کی اور نہ عقیدے اور ایمان کی حفاظت۔اس لیے نئی سیاسی تنظیم بندی اور سیاسی اقتدار کے لیے نئی علاقائی تشکیل ناگزیر ہوگئی ہے۔
سوم: اُوپر کے مقاصد کے حصول کے لیے جو قابلِ عمل راستہ ہے، وہ تقسیمِ ملک ہے، تاکہ جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہاں ان کو نئی سیاسی تنظیم کے ذریعے آزاد اور خودمختار ملک کی شکل دے دی جائے ،اور جن علاقوں میں ہندوئوں کی اکثریت ہے وہاں وہ حکمران ہوں۔
یہ ہیں وہ تین دستاویزات، جن کے خمیر سے قراردادِ مقاصد کی صورت گری کی گئی ہے۔ اس کا سلسلۂ نسب کسی اور طرف جوڑنا تاریخ اور حقائق دونوں سے زیادتی ہوگا۔
قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظمؒ نے کم از کم ۱۳ بار پاکستان کے اسلامی تشخص اور تاریخی کردار کا کھل کر اظہار کیا، اور تقسیم سے قبل ۱۰۰ سے زیادہ بار جو تصور انھوں نے دیا تھا اور جس نے برعظیم کے مسلمانوں کو ایک نیا عزم، نئی زندگی اور نئی جدوجہد پر کمربستہ کیا تھا اس کا اعادہ کیا۔ جوافراد اس مشن اور منزل سے انحراف یا اغماض کی باتیں کر رہے تھے ان کو منہ توڑ جواب دیا۔
اس پس منظر میں پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر اس امر پر کھلا اظہارِ خیال ہوا کہ دستور کو کیسا ہونا ہے، اس کو ایک قراردادِ مقاصد کی شکل میں دستور کے بننے سے پہلے مرتب کر دیا جائے، تاکہ پاکستان کی منزل کا تحریکِ پاکستان کے اوّلیں ذمہ داران کے ہاتھوں دستوری زبان میں تعین کردیا جائے۔ اس زمانے کے اخبارات میں دیکھا جاسکتا ہے کہ تحریکِ پاکستان کے سیکڑوں قائدین اور کارکنوں اور علماے کرام کی بڑی تعداد نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ریاست کے اسلامی کردار کے بارے میں دستوری زبان میں جلد از جلد اظہار و اعلان کیا جائے۔
مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مفتی محمد شفیعؒ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ ، مولانا اکرم خان کے مشورے سے جناب لیاقت علی خان اور ان کے رفقا خصوصیت سے جناب عبدالرب نشتر، جناب ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے ایک مسودہ تیار کیا، جس پر پارلیمنٹ سے باہر اہلِ علم سے بھی مشاورت ہوئی۔ میں گواہ ہوں کہ اس کا مسودہ پارلیمنٹ میں آنے سے پہلے مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم کے ذریعے مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کو ملتان جیل میں دکھایا گیا اور انھوں نے اس پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔
قراردادِ مقاصد محض ایک دستوری دیباچہ (preamble) نہیں بلکہ ایک مستقل دستوری دستاویز ہے اور ’میگناکارٹا ‘کی طرح اپنا منفرد وجودرکھتی ہے۔ بلاشبہہ اس میں پاکستان کی نظریاتی اساس کو واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اور پاکستان میں کن بنیادوں پر اور کن خطوط پر اجتماعی نظام کا قیام عمل میں آئے گا، اس کے تمام ضروری خدوخال واضح کردیے گئے ہیں۔ ساتھ ان بنیادی خدوخال کی روشنی میں دستور بنانے کی ہدایت (direction) دی گئی ہے، جو محض ایک خواہش یا نظری تمنا نہیں، بلکہ واضح طور پر ایک قانونی حکم کی حیثیت رکھتا ہے۔ قراردادِ مقاصد کی زبان، اس کی ترتیب، اس کے مندرجات ایک منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیا کے تمام دساتیر میں پائے جانے والے دیباچوں سے اس کا موازنہ کر لیجیے، یہ سب سے مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں پاکستان میں بنائے جانے والے تمام دساتیر میں بطور دیباچہ یہ شامل ہے، وہاں اس کی اپنی ایک مستقل بالذات حیثیت ہے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں اور پھر ۱۹۸۵ء میں ترمیم کے ذریعے بطور دفعہ ۲-اے شامل ہوجانے سے، اس کے قانونی کردار میں اگر کوئی ابہام تھابھی، تووہ دُور ہوچکا ہے۔
قراردادِ مقاصد پہلی دستوریہ میں بڑی اچھی فضا میں کھلی بحث کے بعد منظور کی گئی۔ تمام مسلمان ارکانِ پارلیمنٹ نے اس کی تائید کی اور چند نے بڑی جان دار تقاریر کیں، جو ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ صرف کانگریس کے ارکانِ اسمبلی نے مخالفت کی، اور اس طرح ایک بار پھر وہی منظر دنیا نے دیکھ لیا، جو تقسیم سے قبل تحریکِ پاکستان کے دوران شب و روز نظر آتا تھا___ مسلمان اپنے ایمان، نظریے اور نظامِ زندگی پر مبنی شناخت کی بنیاد پر ایک فریق اور ہندو اور سیکولر قوتیں دوسرا فریق۔ مسلمانوں میں علما بھی تھے اور لبرل بھی، لیکن سب یک زبان تھے۔ مولانا شبیراحمدعثمانی ؒ سے لے کر میاں افتخارالدین صاحب تک سب نے اس قرارداد کے حق میں پورے جذبے اور جوش سے بڑے محکم دلائل کے ساتھ اظہارِ خیال کیا اور کانگریس کے ہندو ارکان نے اپنے تاریخی اور روایتی موقف کے مطابق اختلاف کا اظہار کیا۔ کانگریس کے ارکان نے درجن بھر ترامیم بھی پیش کیں، جو اکثریت سے رد کردی گئیں۔ پھر قرارداد منظور ہوئی، لیکن اس پر کوئی ووٹنگ نہیں ہوئی۔ اس لیے اسے دستور ساز اسمبلی کی متفقہ قرارداد بھی کہا جاسکتا ہے، لیکن اس سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ پوری قوم نے یک زبان ہوکر اس کی تائید کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، اس کے ذریعے ملک کی منزل اور ترقی کا رُخ متعین کردیا اور اس کی شکل میں اللہ کی حاکمیت کا ابدی اور سب سے بڑی حقیقت کی حیثیت سے اظہار کیا۔ واضح رہے کہ حالیہ سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایک ملک کی قیادت نے اللہ کی حاکمیت اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حدود کے اندر اپنی آزادی اور اجتماعی اور انفرادی زندگی کی تشکیل کا عہد کیا اور پارلیمنٹ کو حکم دیا کہ ان خطوط پر نیا دستور مرتب کرے۔ یہ محض ایک خواہش کا اظہار نہ تھا، جیساکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے بھی اپنے وضاحتی نوٹ میں لکھا ہے۔ قراردادِ مقاصد کی امتیازی شان ہی یہ ہے کہ وہ ایک واضح رہنمائی (direction) ہے اور اس حیثیت سے وہ خود بھی ایک حکم (order)کا درجہ رکھتی ہے اور اس میں جو اصول طے کیے گئے ہیں، وہ بھی اپنی ایک مستقل حیثیت رکھتے ہیں، جو ایک تاریخی عمرانی معاہدہ ہیں اور جن میں کسی کو بھی تغیر و تبدیلی کی اجازت نہیں۔ وہ اصول کیا ہیں؟ پہلے ان کو ذہنوں میں تازہ کرلیں تاکہ قراردادِ مقاصد کی امتیازی شان اور اس کا دیا ہوا پاکستان کا وژن واضح ہوجائے:
۱- قراردادِ مقاصد کا سب سے اہم حصہ اس کا ابتدائیہ ہے، جو پوری قرارداد کے رُخ اور خطوطِ کار کو متعین کرتا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ پوری قوم، ریاست اور اس کے تمام اداروں کے لیے واضح اور مستقل ہدایات کی بنیاد فراہم کرتا ہے:
چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلاشرکت ِغیرے حاکمِ مطلق ہے اور اس نے جمہور کی وساطت سے مملکت ِ پاکستان کو اختیارِ حکمرانی اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کے لیے نیابتاً عطا فرمایا ہے اور چونکہ یہ اختیارِ حکمرانی ایک مقدس امانت ہے۔
اس تمہید پر جو اساس ہے، غور کیا جائے تو پاکستان کا خصوصی اور امتیازی کردار واضح ہوجاتا ہے:
۱- سیکولر تصورِ زندگی کے مقابلے میں یہ زندگی کا ایک بالکل دوسرا تصور ہے کہ کائنات کا اصل حاکم اللہ تعالیٰ ہے، انسان کی حیثیت اس کے خلیفہ کی ہے۔ جو انسان اس خلافت کی ذمہ داری کو قبول کریں وہ مسلمان ہیں اور اس حاکمِ مطلق کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے اور زندگی کا نظام چلانے کا عہد کرتے ہیں۔
۲- اس تصور کا تقاضا ہے کہ زندگی اور حکمرانی کا پورا نظام اللہ کی بتائی ہوئی حدود کے اندر اور اس کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق انجام دیا جائے اور یہ ہدایت زندگی کے تمام پہلوئوں کے بارے میں ہے، کوئی دائرہ اس سے باہر نہیں۔
۳- اجتماعی زندگی میں حکمرانی کا یہ اختیار کسی خاص فرد، خاندان، گروہ یا طبقے کو نہیں دیا گیا بلکہ یہ اختیار ملک کے تمام عوام کو دیا گیا ہے، جن کی مرضی سے اور جن کے منتخب نمایندوں کے ذریعے اسے انجام دیا جائے گا۔
۴- زندگی اور تمام وسائل کی حیثیت ایک امانت کی ہے اور امانت کے تصور میں یہ دونوں باتیں شامل ہیں کہ جس نے یہ امانت دی ہے اصل فیصلہ کرنے والا وہی ہے اور اس امانت کو اس کی ہدایت کے مطابق ادا ہونا چاہیے، اور دوسرے یہ کہ اس امانت کے ساتھ جواب دہی بھی لازمی ہے اور اس فریم ورک میں یہ جواب دہی دُہری ہے، یعنی ایک اللہ کے سامنے اور دوسرے عوام کے سامنے جن کے ذریعے اس امانت کو استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
۵- آخری چیز یہ ہے کہ اس طرزِ حکمرانی اور طریقۂ فیصلہ سازی کا اطلاق ریاست اور اس کے تمام اداروں پر یکساں ہے۔ ریاست کے لفظ کا استعمال یہاں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ جہاں اختیار عوام کو دیا گیا ہے وہیں یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ ریاست کے جتنے بھی ادارے ہیں وہ اپنے اپنے دائرے میں اس امانت کے امین اور اس کے سلسلے میں جواب دہ ہوں گے۔
واضح رہے کہ جس مثالیے ( paradigm) کو اس قرارداد میں پیش کیا گیا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں مدینہ کی ریاست کے قیام سے لے کر آج تک اُمت کا یہی نقطۂ نظر رہا ہے۔
چیف جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیس مسلمانوں کے اس امتیازی طرزِعمل کو یوں بیان کرتے ہیں:
اسلامی ریاست کی بنیاد خود مذہب کی آمد کے ساتھ ہی رسولؐ اللہ کو اللہ کی طرف سے براہِ راست ہدایت کے ذریعے مکمل جزئیات کے ساتھ ڈال دی گئی تھی۔ جن کو ایسی روشن بصیرت، فہم کی گہرائی اور ذہنی قوت مرحمت کی گئی تھی کہ ۱۰سال کے مختصر عرصے میں قرآنی ہدایت اور رسولؐ اللہ کے عمل کی روشنی میں حکومتی نظم و ضبط، قانون اور خارجہ اُمور چلانے کے اصول، یعنی ایک ایسی سلطنت کے تمام لوازمات جو پورے عرب پر حاوی تھی، بیان کردیے گئے تھے۔(Chief Justice Cornelius of Paksitan: An Analysis with Letters and Speeches، مرتبہ:رالف برے بنٹی، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۹ئ، ص ۲۸۹)
خود قائداعظم نے عثمانیہ یونی ورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی تصورِ ریاست کو اس طرح واضح کیا تھا:
اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے، جس کی تکمیل کا عملی ذریعہ قرآنِ مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرسکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآنی اصول و احکام کی حکومت ہے۔ (ملاحظہ ہو: قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ مرتبہ: حمیدرضا صدیقی، ناشر:کاروان، لاہور، ۱۹۹۳ئ، ص ۸۱)
قراردادِ مقاصد کے محرک جناب لیاقت علی خان نے قرارداد پیش کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا تھا، وہ بھی قرارداد کی منظوری کے اُس موقعے کو ملک کی زندگی کااہم واقعہ سمجھتے تھے: ’’اہمیت کے اعتبار سے صرف حصولِ آزادی کا واقعہ اس سے بلند تر ہے‘‘ کہہ کر انھوں نے فرمایا تھا:
پاکستان اس لیے قائم کیا گیا ہے کہ برعظیم کے مسلمان اپنی زندگی کی تعمیر اسلامی تعلیمات اور روایات کے مطابق کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے وہ دنیا پر عملاً واضح کر دینا چاہتے تھے کہ آج حیاتِ انسانی کو طرح طرح کی جو بیماریاں لگ گئی ہیں، ان سب کے لیے اسلام ہی اکسیراعظم (panacea) کی حیثیت رکھتا ہے۔
انھوں نے میکیاولی کے تصورِ سیاست کے مقابلے میں اسلام کے اصولِ حکمرانی کی بنیاد پر ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور صاف الفاظ میں کہا: ’’ہماری ریاست کی بنیاد یہ ہے کہ تمام اختیار اور اقتدار ذاتِ الٰہی کے تابع ہونا لازمی ہے اور اس طرح مملکت کے وجود کو خیر کا آلۂ کار ہوناچاہیے، نہ کہ شرکا‘‘۔ اور یہ بھی فرمایا کہ ’’ہم پاکستانیوں میں اتنی جرأتِ ایمانی موجود ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ تمام (انسانی) اقتدار اسلام کے قائم کردہ معیارات کے مطابق استعمال کیا جائے، تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہوسکے‘‘۔
ہماری ان گزارشات سے یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ قراردادِ مقاصد کوئی روایتی قرارداد یا محض ایک دستور کے لیے مقدمہ نہیں تھی، بلکہ ایک نئے تصورِ زندگی کو ریاست کی بنیاد بنانے کا اعلان اور اس اعلان کے مطابق ایک دستور کی تدوین اور نظامِ حکمرانی کے قیام کے لیے واضح اور حتمی حکم نامہ ہے۔
یہاں ضمناً ہم یہ وضاحت بھی کردیں کہ قراردادِ مقاصد کے اصل مسودے میں لفظ ’اسٹیٹ‘ موجود ہے اور اب بھی دستور کی دفعہ ۲-اے میں جس قرارداد کا ذکر کیا گیا ہے، وہ قرارداد انھی الفاظ کے ساتھ ہے، جو ۱۲مارچ ۱۹۴۸ء کو دستورساز اسمبلی میں منظور کی گئی تھی اور جس میں سے ’’اسٹیٹ‘‘ کے لفظ کو نکلوانے کے لیے کانگریس کے رکن جناب پروفیسر چکرورتی نے ایک ترمیم پیش کی تھی، کہ اسے ’عوام‘ سے بدل دیا جائے جو اس وقت منظور نہیں ہوئی تھی۔ آج بھی یہ اصل ’قراردادِ مقاصد‘ میں موجود ہے۔ دستور کے ضمیمے میں جو قرارداد دی گئی ہے، وہ انھی الفاظ میں ہے جن میں وہ اصلاً منظور کی گئی تھی۔ اس میں ’ریاست‘ کے ساتھ ’عوام‘ کا ذکر بھی ہے۔ البتہ، بعد میں جب دستور میں اس قرارداد کو بطورِ دیباچہ شامل کیا گیا تو ’ریاست‘ کا لفظ نکال دیا گیا۔ ضمناً یہاں یہ بھی وضاحت کردوں کہ یہ تبدیلی ۱۹۵۶ء کے دستور میں کی گئی تھی اور فاضل جج جسٹس جواد ایس خواجہ کا یہ خیال درست نہیں کہ یہ تبدیلی ۲۴سال بعد ۱۹۷۳ء میں کی گئی ہے۔ ۱۹۵۶ء اور ۱۹۶۲ء دونوں کے دساتیر نکال کر دیکھ لیں ان میں ’ریاست‘ کا لفظ نہیں ہے۔ میری ذاتی راے میں ’ریاست‘ کا لفظ رہنا چاہیے تھا، اس لیے کہ عوام کے ذریعے اس اختیار کے استعمال کی بات قرارداد کے دیباچے اور آگے کی ہدایات دونوں میں موجود ہے۔
قراردادِ مقاصد کا اصل جوہر اور اساس یہی تصورِ کائنات، تصورِ زندگی اور سیاسی نظام کا تصور ہے اور یہ جدید عالمی سیاسی تناظر میں ایک حقیقی مرکز ثقل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ایک تبدیلی سے ہر چیز بدل جاتی ہے کہ اب ہماری آزادی ان حدود کی پابند ہوجاتی ہے، جو قرآن و سنت نے ہمارے لیے متعین کی ہیں۔ آزادی برحق اور عوام کا یہ اختیار کہ وہ ہی حکمرانوں کا انتخاب کریں اور ان کا احتساب کریں اپنی جگہ مسلّم، لیکن عوام اور اربابِ اقتدار، افراد اور ادارے سب حدود اللہ کے پابند کردیے گئے ہیں۔ سب کو وہ مقصد اور مشن دے دیا گیا ہے، جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ؑ بھیجے اور جس کا مکمل ترین اظہار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، تعلیمات اور نمونے میں ہے۔
قراردادِ مقاصد کی باقی تمام شقیں اس بنیادی اپروچ کی وجہ سے بالکل مختلف معنویت رکھتی ہیں اور اگر الفاظ میں دنیا کے دوسرے دساتیر سے کچھ مماثلت نظر آتی ہے، تو وہ بھی صرف ظاہری ہے۔ جوہری اعتبار سے ان سب کا مفہوم حدود اللہ کی وجہ سے بدل جاتا ہے۔ ویسے تو شکل و صورت کے اعتبار سے ایک مسلمان اور کافر میں بہت سی چیزیں مشترک اور مماثل ہیں، لیکن تصورِ زندگی اور حلال و حرام کی حدود دونوں کو دو مختلف شخصیتیں بنادیتے ہیں۔ اسی طرح قراردادِ مقاصد اور خصوصیت سے اس کے اساسی عقیدے نے ہر چیز کا رُخ بالکل بدل دیا ہے۔
۲- قراردادِ مقاصد نے اس بنیادی حقیقت اور پاکستان کے دستور اور حکمرانی کے لیے نئے مثالیے کی نشان دہی کے بعد پاکستان کے سیاسی نظام کا جو نقشہ دیا ہے وہ یہ ہے:
۱- مملکت اپنے اختیارات اور اقتدار کو جمہور کے منتخب نمایندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
۲- جمہوریت، آزادی، مساوات ، رواداری اور عدلِ عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے پوری طرح عمل کیا جائے گا۔
۳- جس کی رُو سے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنے کے لائق بنایا جائے گا۔
۴- جس کی رُو سے اس امر کا قرار واقعی انتظام کیا جائے کہ اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنے اپنے مذہب پر عقیدہ رکھ سکیں اور اس پر عمل کرسکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں۔ نیز اقلیتوں اور پس ماندہ طبقوں کے جائز حقوق کو تحفظ ملے گا۔
۵- جس کی رُو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں قانون و اخلاقِ عامہ کے ماتحت مساوات، حیثیت و مواقع، قانون کی نظر میں برابری، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عدل، اظہارِ خیال، عقیدہ و دینی عبادات اور ارتباط کی آزادی شامل ہو۔
۶- جس کی رُو سے وفاق کے علاقوں کی حفاظت، اس کی آزادی اور اس کے جملہ حقوق کا جن میں اس کے برو بحر و فضا پر سیادت کے حقوق شامل ہیں، تحفظ کیا جائے۔
ان چھے بنیادوں پر پاکستان کی علاقائی سالمیت اور عوام کی خوش حالی اور اقوامِ عالم میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کرنے اور امنِ عالم کے قیام میں اپنا کردار ادا کرنے کے مقاصد کے حصول کو ملک و قوم کا ہدف اور منزل مقرر کیا گیا۔
واضح رہے کہ قرارداد میں نظریاتی ریاست کی تشکیل کے باب میں ابتدائیہ کے علاوہ: دو دفعات نظریاتی ریاست میں مسلم معاشرے کی تشکیل سے متعلق ہیں، اور دو دفعات غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت کے لیے۔ ایک دفعہ عوامی نمایندہ حکومت اور عوام کے سرچشمۂ قوت ہونے کے بارے میں ہے۔ ایک کا تعلق سب شہریوں کے لیے بنیادی حقوق کی ضمانت سے ہے۔ ایک عدلیہ کی آزادی کے بارے میں ہے، ایک علاقائی حدود کے تعین اور ان کی حفاظت سے متعلق ہے، اور ایک مملکت کے وفاقی نظام کی وضاحت کرتی ہے۔ یہی تمام پہلو دستور کے وہ بنیادی خصائص (features) ہیں، جن سے ہمارا سیاسی اور تہذیبی وجود عبارت ہے اور جن میں کوئی تبدیلی کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔ قرارداد اور دستور کے یہ پہلو ہر چیز پر غالب اور حکمران ہیں اور ان کی حفاظت عوام، پارلیمنٹ، حکومت اور عدلیہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔(جاری)
۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء ، ۲۷رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ ہماری تاریخ کا ایک روشن اور سنہری دن ہے۔ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضلِ خاص سے بیسویں صدی میں پہلی بار ایک آزاد اسلامی ملک وجود میں آیا__ ایک ایسا ملک، جو آزادی کی تحریکات کے قافلے میں ایک منفرد مقام رکھتا تھا۔
اس امتیازی شان کی بنیاد یہ تھی کہ مغربی استعمار کے خلاف جو دیگر اقوام اور ممالک، آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے، وہ پہلے سے اپنا نام اور جغرافیہ رکھتے تھے، اور صرف اپنے اُوپر سے بیرونی تسلط سے نجات پانے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ ان کے برعکس برعظیم کی صورت حال یہ تھی کہ ایک قوم جس کی بنیاد عقیدے اور نظریے پر تھی، وہ اپنے لیے ایک نیا ملک وجود میں لانے کے لیے سرگرم تھی۔ اس کی جنگ ایک نہیں دو طاقتوں کے خلاف تھی۔ ایک طرف برطانوی سامراج تھا جس نے برعظیم میں محض قوت کے بل بوتے پر قبضہ کرلیاتھا اور دوسری طرف ہندستان کی ہندو اکثریت تھی، جو ’متحدہ ہندی قومیت‘ کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے سیاسی محکومی کا ایک نیا جال بُن رہی تھی۔ برعظیم کے مسلمانوں نے ان دونوں طاقتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور بڑی گراں قدر قربانیوں کا نذرانہ پیش کر کے ایک خطۂ زمین حاصل کیا جسے انگریزوں اور ہندوئوں نے بڑی کانٹ چھانٹ کے بعد ہی دیا۔ یہ ملک، جغرافیائی قومیت کی بنیاد کے مقابلے میں ایک اصولی اور نظریاتی قومیت کی بنیاد پر حاصل کیا گیا، تاکہ ہندی مسلمان اپنی دینی، تہذیبی اور ملّی شناخت کی حفاظت اور ترقی کا اہتمام کرسکے، نیز اپنے اصول و نظریات کی روشنی میں اپنا مستقبل تعمیر کرسکے۔
انسانی تاریخ میں نظریاتی ریاست کی یہ روشن مثال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کی شکل میں قائم ہوئی تھی، اور ۱۲۰۰ سال تک مختلف شکلوں میں یہ اپنا جلوہ دکھاتی رہی، لیکن مغربی استعمار کے دو ڈھائی سو سالہ دور میں اس شمع پر اندھیروں نے غلبہ حاصل کرلیا تھا۔ اگرچہ دلوں میں یہ شمع روشن تھی، لیکن اس کی روشنی سے سیاسی اور اجتماعی زندگی محروم ہوگئی تھی اور مغربی دنیا ہی نہیں تقریباً دنیا کے سارے طول و عرض پر ایک نئے سیاسی اور تہذیبی نظام کو مسلط کردیا گیا تھا جس میں قوموں کی شناخت کی بنیاد نظریے اور اقدار کی جگہ جغرافیے، نسل، رنگ اور سیاسی مفادات پر رکھی گئی تھی۔ پھر سیکولرزم، لبرلزم، جمہوریت اور سرمایہ داری کے نام پر انسانیت کے استحصال کا ایک نیا اور بڑا ہی تباہ کن نظام دنیا کی اقوام پر عسکری قوت، جبرواستبداد، تہذیبی یلغار اور جدید ٹکنالوجی کے ذریعے مسلط کردیا گیا۔
تحریکِ پاکستان سیاسی غلامی ہی کے خلاف محض آزادی کی ایک تحریک نہ تھی، بلکہ ایک نظریاتی اور تہذیبی تحریک بھی تھی، جس نے وقت کے غالب تصورات کو چیلنج کیا اور دنیا سے اس اصول کو تسلیم کرایاکہ عقیدے، نظریے اور تہذیب کی بنیاد پر قائم ایک قوم کا یہ حق ہے کہ جن علاقوں میں اسے اکثریت حاصل ہو، وہ ان میں اپنے تصورات کے مطابق نظامِ زندگی قائم کر کے اپنی دینی اور تہذیبی شناخت کے مطابق اپنا مستقبل تعمیر کرسکے۔ مغربی سامراج اور ہندو اکثریت نے بڑی مجبوری کے عالم میں اس دعوے کو قبول کیا۔ یہ ہے وہ خصوصی پس منظر، جو پاکستان کی تحریک اور پاکستان کو ایک ملک کی حیثیت سے منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے، یعنی یہاں کسی ملک نے آزادی حاصل نہیں کی بلکہ ایک قوم نے ایک ملک حاصل کیا اور اس طرح تاریخ کے ایک نئے دور کی طرف پیش قدمی کا دروازہ کھول دیا۔ اس کے لیے ان مسلمانوں نے بھی بیش بہا قربانیاں دیں جو ان علاقوں میں رہتے تھے جو پاکستان کا حصہ بنے، اور ان سے بھی زیادہ قربانیاں، ان مسلمانوں نے دیں جو یہ جانتے تھے کہ وہ پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے، لیکن پھر بھی برعظیم کی اُمت اسلامیہ کے مستقبل کی خاطر وہ اس جدوجہد کا حصہ بنے اور اس کے لیے سردھڑ کی بازی لگادی۔ یہ تاریخ کی بڑی ہی نادر مثال ہے کہ کروڑوں انسانوں نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس جدوجہد کے ثمرات میں کوئی حصہ نہ پائیں گے، صرف ایک نظریے کے غلبے کے لیے اپنے دنیاوی مفادات کو دائو پر لگادیا اور بے لوث نظریاتی جدوجہد کی ایک نادر مثال قائم کردی۔
تحریکِ پاکستان تک پہنچنے اور پھر اس کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے برعظیم کے مسلمان بڑے صبرآزما مراحل سے گزرے، جن کو سمجھے بغیر پاکستان کی حیثیت اور تحریکِ پاکستان کے مزاج، مراحل اور مقاصد کو سمجھنا مشکل ہے۔
برعظیم میں ایک نہیں متعدد نسلیں آباد تھیں۔ دراوڑ، آریائی، سامی، عرب، مغل اور ان کے ارتباط سے رُونما ہونے والی بے شمار نسلیں، اس سرزمین کا انسانی سرمایہ تھیں۔ بدھ مذہب، ہندومت، جین مت، اسلام اور پھر سکھ مت، عیسائیت اپنے اپنے دور اور اپنے اپنے انداز میں کارفرما قوت بنتے رہے۔ ہندومذہب اور سماج کی بنیاد ذات پات پر ہے۔ اس معاشرے کی بنیاد تخلیق انسان کے بارے میں ان کے مذہبی تصورات پر ہے اور ذات پات کی یہ تقسیم ہی ان کی اصل تہذیبی اور مذہبی شناخت ہے۔ اسلام نے ان تصورات کو چیلنج کیا اور عقیدے اور دین کی بنیاد پر انسانوں کے اجتماع کو قائم کر کے ایک حقیقی انسانی اور عالمی سماج اور ریاست کی بنیاد رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ برعظیم کے مسلمانوں کا تعلق بھی انھی نسلوں سے تھا، جو برعظیم میں پائی جاتی ہیں لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی شناخت، نسل، رنگ، زبان، قبیلے یا طبقے پر نہیں، ایمان کی بنیاد پر ایک اُمت کی صورت اختیار کرگئی اور یہی ان کی قومیت کی بنیاد بنی۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے تحریکِ پاکستان کی بنیاد، یعنی دو قومی نظریے کو بڑے سادہ مگر تاریخی حقائق پر مبنی انداز میں علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے یوں بیان کیا کہ ’’پاکستان کی بنیاد اس دن پڑگئی جس دن برعظیم کی سرزمین پر پہلا ہندو، مسلمان ہوا تھا‘‘۔
برعظیم میں مسلمانوں نے آٹھ نو سو سال تک حکمرانی کی، لیکن اس پورے دور میں تمام نشیب و فراز کے باوجود ان کی کوشش یہی رہی کہ اپنی شناخت پر کوئی سمجھوتا نہ کریں۔ دوسروں کو ان کی اپنی شناخت کے مطابق زندگی گزارنے کے پورے پورے مواقع دیں اور ان کے حقوق کا مکمل تحفظ کریں، لیکن ان کی اور اپنی شناخت کو گڈمڈ کرکے کوئی مشترکہ دین اور تہذیب نہ بنائیں۔ اس سلسلے میں جو کوششیں بھی مختلف حلقوں کی جانب سے ہوئیں وہ ناکام و نامراد ہوئیں، خواہ وہ اکبربادشاہ کے سرکاری قوت کے استعمال کے ذریعے ہوں، یا انگریز سامراج کے ترغیب و ترہیب کے ہتھکنڈوں سے، یا انڈین نیشنل کانگریس کے سیکولر اور جمعیت العلماء ہند کے ایک دھڑے کے مذہبی حربوں سے ہوں۔
اس جدوجہد کا بڑا ہی اہم اور چشم کشا منظر برعظیم کی بیسویں صدی کی سیاسی جدوجہد میں دیکھا جاسکتا ہے۔ سیّداحمدشہید کی قیادت میں تحریک مجاہدین،دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلمائ، سرسیّداحمد خان کی علی گڑھ تعلیمی تحریک، ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کا قیام، تحریک ِخلافت کا ظہور اور ہندستان بھر میں پھیلائو اور پھر تحریک ِپاکستان اپنے اپنے انداز میں مسلم شناخت کی یافت اور حفاظت کی کوششیں تھیں۔ بلاشبہہ ایک مدت تک یہ کوشش ہوتی رہی کہ برعظیم کی تمام اقوام متحدہوکر سیاسی اہداف حاصل کریں، جن میں مسلمانوں کی شناخت کی حفاظت اور ترقی کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہو۔ جداگانہ انتخابات اور تہذیب، تعلیم، زبان اور مذہبی حقوق کی حفاظت، ۱۹۰۵ء سے لے کر ۱۹۴۰ء تک کی جدوجہد کے ہر مرحلے میں بحث و گفتگو کا مرکز اور محور رہے۔ جب کانگریس کے مسلم کش اور جارحانہ کردار، اور برطانوی حکمرانوں کے دوغلے پن سے یہ واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کی قومی شناخت، ان کی اقدار اور ان کی تہذیبی روایات کی حفاظت و ترقی کسی بھی مشترک سیاسی انتظام میں ممکن نہیں، اور اس پر تاجِ برطانیہ کے ’۱۹۳۵ء کے قانون‘ کے نفاذ اور ۱۹۳۷ء کے صوبائی انتخابات کے بعد نیشنل کانگریس کی حکومتوں کے برہمنی جارحانہ اقدامات نے مہرتصدیق ثبت کردی، تو پھر علامہ محمد اقبال کے ۱۹۳۰ء کے خطبے کی روشنی میں مارچ ۱۹۴۰ء میں مسلم لیگ نے تقسیمِ ملک کی منزل کو اپنا ہدف مقرر کیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے صرف سات سال کے اندر قائداعظم کی روح پرور قیادت اور برعظیم کے مسلمانوں کی پوری یکسوئی کے ساتھ ایمان پرور اور قربانیوں سے بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں مسلمانوں کا ایک آزاد ملک وجود میں آگیا اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی کے طور پر یہ نعمت ۲۷رمضان المبارک کے دن حاصل ہوئی۔ اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
تحریکِ پاکستان کا مقصد جہاں انگریز اور ہندو سامراج دونوں سے نجات حاصل کر کے ایک آزاد اسلامی ملک کا قیام تھا، وہیں اس کا اصل ہدف پاکستان کو ایک آئینی اسلامی فلاحی ریاست کی حیثیت سے ترقی دینا تھا، تاکہ دین اور تہذیب کی بنیاد پر استوار ہونے والی قوم کو جب آزاد ملک کی نعمت میسر آجائے، تو پھر وہ اس ملک کو اپنے نظریے کی بنیاد پر ایک مثالی ریاست بناسکے۔ جو ایک طرف اپنے نظریے کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری کرے، تو دوسری طرف دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے لیے نہ صرف تمام شہری اور انسانی حقوق کی ضمانت دے، بلکہ ان کے مذہبی اور سماجی تشخص کی حفاظت اوراس کو پروان چڑھائے جانے کے تمام مواقع بھی فراہم کرے۔
علامہ اقبال، قائداعظم اور ملت اسلامیہ پاک و ہند کا وژن اور تحریکِ پاکستان کی قیادت اور برعظیم کے مسلمانوں کے درمیان جو عمرانی میثاق ہوا، وہ بالکل واضح ہے۔ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کی ۶۹ویں سالگرہ کے موقعے پر سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ اس وژن اور اس میثاق کو ذہنوں میں تازہ کیا جائے اور خصوصیت سے اپنی نئی نسلوں اور زندگی کے ہر شعبے کے ذمہ دار حضرات کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ یہ ملک لاکھوں افراد کی جانوں، ہزاروں معصوم بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں، کھربوں روپے کی مالی قربانیوں، اور لاکھوں انسانوں کی ہجرت کی قیمت پر قائم ہوا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا قیام، تحفظ اور ترقی صرف ان مقاصد سے وفاداری ہی کے ذریعے ممکن ہے، جو اس کی اساس ہیں۔ یہی وہ بات ہے جو قائداعظم نے قیامِ پاکستان کے بعد قوم سے صاف لفظوں میں کہی تھی:
اسلام ہمارا بنیادی اصول اور حقیقی سہارا ہے۔ ہم ایک ہیں اور ہمیں ایک قوم کے طور پر آگے بڑھنا ہے۔ تب ہی ہم پاکستان کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔
اقبال اور قائداعظم نے قوم کو جس منزل کی طرف دعوت دی، اس کو آج دھندلا کرنے بلکہ بالکل مخالف سمت میں ڈالنے کی شرانگیز کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے سے پہلے اس وژن کو بالکل دوٹوک الفاظ میں ایک بار پھر قوم، اس کے دانش وروں، پالیسی ساز اداروں اور افراد اور سب سے بڑھ کر نئی نسل اور اس کے نوجوانوں کے ذہنوں میں تازہ اور راسخ کردیا جائے۔ اس لیے کہ پاکستان کی بقا اور ترقی صرف اس وژن اور منزل کے صحیح اِدراک اور ان کو حرزِجان بنانے پر منحصر ہے۔
علامہ محمد اقبال نے اس تحریک کی فکری اور نظریاتی بنیادیں رکھیں تو قائداعظم محمدعلی جناح نے ان بنیادوں پر سیاسی اور نظریاتی تحریک برپا کی، اور اس کی قیادت اس طرح انجام دی کہ پوری قوم یکسو ہوکر ان کی تائید میں میدانِ عمل میں نکل آئی۔ ان کا اصل محرک آزادی کا حصول اور اپنی تہذیبی شناخت کی حفاظت اور ترقی تھا اور یہ دونوں ایک ہی جدوجہد کے دو رُخ ہیں، جن کو ایک دوسرے سے کسی صورت میں بھی جدا نہیں کیا جاسکتا۔
علامہ اقبال نے The Reconstruction of Religious Thought in Islam میں اسلام کے تصورِ توحید اور ریاست کے تعلق کو اس طرح بیان کیا ہے کہ:
گویا بہ حیثیت ایک اصول، عملِ توحید اساس ہے حریت، مساوات اور حفظ ِ نوعِ انسانی کی۔ اب اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ازروے اسلام، ریاست کا مطلب ہوگا ہماری یہ کوشش کہ یہ عظیم اور مثالی اصول زمان و مکان کی دنیا میں ایک قوت بن کر ظاہر ہوں۔ وہ گویا ایک آرزو ہے ان اصولوں کو ایک مخصوص جمعیت ِ بشری میں مشہود دیکھنے کی۔ لہٰذا، اسلامی ریاست کو حکومت ِ الٰہیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو انھی معنوں میں۔ ان معنوں میں نہیں کہ ہم اس کی زمامِ اقتدار کسی ایسے خلیفۃ اللہ فی الارض کے ہاتھ میں دے دیں، جو اپنی مفروضہ معصومیت کے عذر میں اپنے جورواستبداد پر ہمیشہ ایک پردہ سا ڈال رکھے۔(Reconstruction،ص ۱۲۲-۱۲۳، ترجمہ: سید نذیر نیازی،تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ،ص ۲۳۸)
علامہ محمد اقبال نے ۳۰،۳۱ دسمبر ۱۹۳۰ء کے کُل ہند مسلم لیگ کے اجتماع الٰہ آباد میں اپنے خطبۂ صدارت میں نظریاتی اور دینی بنیادوں پر تقسیمِ ہند کا تصور پیش کرتے ہوئے اس کی جس بنیاد پر روشنی ڈالی وہ بہت اہم ہے۔ انھوں نے اپنی بات کا آغاز ہی اس دعوے سے کیا کہ:
آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کے لیے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا ہے، جو اس امر سے مایوس نہیں ہوگیا ہے کہ اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے، جو ذہنِ انسانی کو نسل اور وطن کی قیود سے آزاد کرسکتی ہے۔ جس کا عقیدہ ہے کہ مذہب کو فرد اور ریاست دونوں کی زندگی میں غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے اور جسے یقین ہے کہ اسلام کی تقدیر خود اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ بحیثیت ایک اخلاقی نصب العین اور نظامِ سیاست کے، اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزو ترکیبی تھا، جس سے مسلمانانِ ہند کی تاریخِ حیات متاثر ہوتی ہے۔ اسلام ہی کی بدولت ان کے سینے ان جذبات اور عواطف سے معمور ہوئے، جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے، جن سے متفرق اور منتشر اجزا بتدریج متحد ہوکر ایک متمیزومعین قوم کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔مسلمانوں کے اندر اتحاد اور ان کی نمایاں یکسانیت، ان قوانین اور روایات کی شرمندۂ احسان ہے جو تہذیب اسلامی سے وابستہ ہیں۔
اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے، جو خود اس کا پیدا کردہ ہے، الگ نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نے ایک کو ترک کر دیا تو بالآخر دوسرے کو بھی ترک کرنا لازم آئے گا۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان ایک لمحے کے لیے بھی کسی ایسے نظامِ سیاست پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہوگا، جو کسی ایسے وطنی یا قومی اصول پر مبنی ہو، جو اسلام کے اصولِ اتحاد کے منافی ہو۔ یہ مسئلہ ہے جو آج ہندستان کے مسلمانوں کے سامنے ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔ پھر اسلام کو اس امر کا موقع ملے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہوکر، جو عربی شہنشاہیت کی وجہ سے اب تک اس پر قائم ہیں، اس جمود کو توڑ ڈالے گا جو اس کے تہذیب و تمدن، شریعت و تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے۔ اس سے نہ صرف اس کے صحیح معانی کی تجدید ہوسکے گی، بلکہ وہ زمانۂ حال کی رُوح سے بھی قریب ہوجائے گا۔
آپ نے غور کیا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبۂ محرکہ کیا تھا؟ مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ مملکت کی وجۂ جواز کیا تھی؟ اس کی وجہ نہ ہندوئوں کی تنگ نظری ہے، نہ انگریزوں کی چال__ بلکہ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔
مسلمانو! ہمارا پروگرام قرآنِ پاک میں موجود ہے۔ ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآنِ پاک کو غور سے پڑھیں، اور قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کرسکتی۔
ان لوگوں کو چھوڑ کر جو بالکل ہی ناواقف ہیں، ہرشخص جانتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطۂ حیات ہے۔مذہبی، معاشرتی، دیوانی، معاشی، عدالتی، غرض یہ کہ ان مذہبی رسومات سے لے کر روزمرہ کے معاملات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، اجتماعی حقوق سے لے کر انفرادی حقوق تک، اخلاقیات سے لے کر جرائم تک، دنیاوی سزائوں سے لے کر آنے والی [اُخروی] زندگی کی جزا وسزا کے تمام معاملات پر اس کی عمل داری ہے۔ اور ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کی ہے کہ ہرشخص اپنے پاس قرآن رکھے اور خود رہنمائی حاصل کرے۔ اس لیے کہ اسلام صرف روحانی احکام اور تعلیمات تک ہی محدود نہیں ہے، یہ ایک مکمل ضابطہ ہے جو مسلم معاشرے کو مرتب کرتا ہے۔
ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا ہے، ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزمائیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل اور عنایت ِ خاص کے ساتھ جس چیز نے پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا اور یہ تاریخی کرشمہ وجود میں آیا، اسے چار نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
۱- آزادی کا جذبہ اور اس کے حصول اور حفاظت کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہ کرنا۔
۲- دین، نظریۂ حیات، تہذیب و تمدن کی حفاظت اور ترقی کو انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ترجیح بنانا۔
۳- عوام کی جمہوری قوت، ا ن کا اتحاد اور ان کا یہ جذبہ کہ اپنی آزادی اور اپنے دین اور نظریے کے باب میں کوئی سمجھوتا قبول نہیں کریں گے اور ان کی خاطر جان کی بازی لگادیں گے۔
۴- مخلص، باصلاحیت اور ایمان دار قیادت۔
قائداعظم نے ہر ذاتی مفاد سے بالا ہوکر صرف قوم کی خاطر اور اللہ کی خوشنودی کے لیے، عوامی قوت کے ذریعے اور پوری یکسوئی کے ساتھ اصل ہدف پر ساری توجہ مرکوز کردی۔ اس مسلم قیادت نے قوم پر اعتماد کیا اور قوم نے اس پر اعتماد کیا اور دونوں نے اپنے اپنے اعتماد کو سچ کر دکھایا۔ ایک طبقہ آج قائداعظم کو مسلم قوم کا صرف ایک ’وکیل‘ بناکر پیش کر رہا ہے، جب کہ قائداعظم نے یہ پوری جدوجہد ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے کی تھی، یہ محض وکالت نہیں تھی۔ اس سے بڑا بہتان اُن پر اور کیا ہوسکتا ہے؟ قائدکے جذبات اور محرکات کیا تھے، انھی کے الفاظ میں سننے اور ذہن میں نقش کرنے کی ضرورت ہے:
مسلمانو! میں نے دنیا کو بہت دیکھا۔ دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اُٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی۔ میں آپ کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے مدافعت ِ اسلام کا حق ادا کردیا۔ جناح تم مسلمانوں کی حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علَمِ اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔(روزنامہ انقلاب، ۲۲؍اکتوبر ۱۹۳۹ئ)
یہی وہ جذبہ تھا، جس نے تحریکِ پاکستان کو ملت اسلامیہ ہند کے دلوں کی آواز بنادیا ،اور وہ ایک آزاد اسلامی ملک کے قیام کے لیے سرگرمِ عمل ہوگئی۔ قوم کی یکسوئی اور تائید اور قائد کا عزم اور بے لاگ خدمت__ جب یہ دونوں قوتیں یک جا ہوجاتی ہیں تو تاریخ کی کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ آج ہمارے مسائل اور مشکلات کی اصل وجہ یہ ہے کہ منزل اور مقصد کا شعور دھندلا دیا گیا ہے۔ قوم اور اس کی فلاح و بہبود کو یکسر بھلادیا گیا ہے۔ مخصوص مفادات کے پرستار زمامِ اقتدار پر قابض ہیں، جو عوام کے اعتماد سے محروم ہیں اور جن کی دیانت اور صلاحیت دونوں مشتبہ ہیں۔ وژن اور مقصد سے محرومی، عوام کی تائید اور ان کے مرکزی کردار کا عدم وجود اور صحیح قیادت کا فقدان ہمیں پستی کی انتہائوں کی طرف دھکیلے جا رہا ہے۔
۱۴؍اگست کے تاریخی لمحے کی یاد میں ان تمام حقائق، جذبات اور عزائم کو ذہنوں میں تازہ کرنا ضروری ہے، تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ہماری قوت کا اصل سرچشمہ یہی عزائم، جذبات اور داعیات ہیں۔ سات سال میں تحریکِ پاکستان کی کامیابی کا راز مندرجہ بالا چاروں عوامل پر ہے۔ انھی کے سہارے ہم ان بلندیوں پر پہنچے، جن کا نقطۂ فراز ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء تھا اور گذشتہ سات عشروں میں جس پستی کی طرف ہم لڑھکتے جارہے ہیں، اس کا تعلق بھی انھی چاروں کے بارے میں کمزوری یا فقدان سے ہے۔
پاکستان کا محلِ وقوع تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی اور مادی دونوں وسائل سے ہمیں مالا مال کیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی قوم نے جس درجے میں ان چاروں عناصر کا اہتمام کیا ہے، وہ بلندیوں کی طرف بڑھنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ مایوسی کفر ہے اور حالات کی خرابی کے باوجود کسی درجے میں بھی مایوسی مسلمان کا شعار نہیں ہوسکتی۔ اگر صحیح مقاصد کے لیے، صحیح قیادت کی رہنمائی میں، مؤثر اجتماعی اور عوامی جدوجہد کی جائے، تو بڑی سے بڑی مشکل دُور ہوسکتی ہے اور دُور دراز واقع منزل بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جس جس درجے میں یہ چیزیں حاصل ہوں، اسی حد تک محدود دائروں میں بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جس طرح پاکستان کا قیام ایک تاریخی کامیابی تھا، اسی طرح اوّلین دور میں پاکستان کی بقا اور ترقی بھی ایک کرشماتی نعمت سے کم نہیں۔ بھارتی قیادت کو یقین تھا اور انگریز سامراج بھی اسی وہم میں مبتلا تھا کہ پاکستان باقی نہیں رہ سکے گا۔
تقسیمِ ملک کے لیے اصل تاریخ اپریل ۱۹۴۸ء تھی لیکن انگریز اور کانگریسی قیادت دونوں انتقالِ اقتدار کے لیے مناسب وقت اور نقشۂ کار سے پاکستان کو محروم رکھنے اور اوّلین برسوں ہی میں شکست وریخت (collapse ) کے خطرات سے دوچار کرنے کے لیے ۱۱ مہینے کی مدت کو کم کرکے یک طرفہ طور پر ڈھائی مہینے کردیا، یعنی ۳جون کو اسکیم کا اعلان ہوا اور ۱۴؍اگست تک اس پر عمل مکمل کرنے کا نوٹس دے دیا۔ پھر سرکاری وسائل اور مالیات کی تقسیم کے پورے انتظام کو درہم برہم کردیا اور پاکستان کو اس کے حقوق سے محروم رکھا۔ ریڈکلف نے ایوارڈ میں تبدیلیاں کرکے پاکستان کو کشمیر اور دوسرے اہم علاقوں سے محروم کردیا۔ پورے ملک میں فسادات کی آگ بھڑکا دی گئی اور اتنے بڑے پیمانے پر آبادی کی نقل مکانی واقع ہوئی کہ پورا انتظامی ڈھانچا درہم برہم ہو گیا۔
یہ سب ایک منظم منصوبے کے مطابق ہوا، جس میں برطانوی حکومت، اس کا مقرر کردہ گورنرجنرل مائونٹ بیٹن اور کانگریس کی حکومت اور ہندو عوام سبھی برابر کے شریک تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک طرف تقسیمِ ہند کی اسکیم پر دستخط کیے تو دوسری طرف اپنی قوم سے کہا:
ہماری اسکیم یہ ہے کہ ہم اس وقت جناح کو پاکستان بنالینے دیں اور اس کے بعد معاشی طور پر یا دیگر انداز سے ایسے حالات پیدا کردیے جائیں، جن سے مجبور ہوکر مسلمان گھٹنوں کے بل جھک کر ہم سے درخواست کریں کہ ہمیں پھر سے ہندستان میں مدغم کرلیجیے۔
برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے ایک طرف آزادیِ ہند کے منصوبے کی منظوری دی اور برطانوی پارلیمنٹ میں بل منظور کروایا، تو دوسری طرف یہ بھی کہہ دیا کہ:
ہندستان تقسیم ہو رہا ہے لیکن مجھے اُمید واثق ہے کہ یہ تقسیم زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکے گی اور یہ دونوں مملکتیں جنھیں ہم اس وقت الگ کر رہے ہیں، ایک دن پھر آپس میں مل کر رہیں گی۔(تاریخ نظریۂ پاکستان ، پروفیسر محمد سلیم، لاہور، ۱۹۸۵ئ، ص ۲۷۵)
ان حالات میں پاکستان کا باقی رہ جانا اور جلد اپنے پائوں پر کھڑے ہوجانا، اسی طرح کا ایک دوسرا تاریخی کرشمۂ قدرت تھا جیسا سات سال میں اس کا قیام۔پاکستان کے لیے ایٹمی صلاحیت کا حصول بھی اسی طرح کا ایک ناقابلِ تصور کرشمہ ہے۔ بلاشبہہ اس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی پوری ٹیم کی مہارت اور کوشش، سیاسی اور عسکری سطح پر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر صدر محمدضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، میاں محمد نواز شریف اور غلام اسحاق خان کی قیادت اور قوم کی تائید اور دُعائیں سب کا کردار ہے۔ دنیا کی مخالفت، امریکا اور مغربی اقوام کی جان لیوا پابندیاں اور وسائل کی قلت کے باوجود جب وژن، محنت اور صلاحیت، تنظیم اور کوشش، عوامی تائید اور دعائیں مل جاتی ہیں، تو بڑی سے بڑی مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ پاکستان نے ساری پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود ایک ترقی پذیر ملک ہوتے ہوئے بھی یورنیم کی افزودگی ( Uranuim Enrichment) اور اسلحہ سازی (weaponization) کے اس مشکل عمل کو، جو امریکا میں۱۸سال میں مکمل ہوا تھا، صرف سات آٹھ سال میں مکمل کرلیا۔ صدر محمد ضیاء الحق نے راجیوگاندھی کو ۱۹۸۷ء میں یہ پیغام دیا کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا، ہمارے پاس وہ چیز ہے جو تمھیں منٹوں میں تباہ کرسکتی ہے۔ مئی۱۹۹۸ء میں ہندستانی ایٹمی دھماکے کے نتیجے میں امتحان کا لمحہ آیا تو الحمدللہ ۱۵دن کے اندر پاکستان نے چھے ٹیسٹ کرکے ہندستانی جنگ ُجو قیادت کے ہوش اُڑا دیے اور دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا اور دنیا کے چپے چپے میں مسلمانوں کا سر بلند کردیا۔ اس سے پہلے ۱۹۶۵ء میں بھارت کے حملے کے موقعے پر بھی فوج اور قوم نے جس کردار کا مظاہرہ کیا وہ لاجواب تھا۔
اکتوبر ۲۰۰۵ء میں ہولناک زلزلے نے ایک بار پھر قوم کی خوابیدہ صلاحیتوں کے خزانے کو بے نقاب کیا۔آزمایش کی اس گھڑی کے موقعے پر خیبر سے کراچی تک عوام جس طرح متحرک ہوئے اور اس قومی تباہی کا مقابلہ کرنے کے لیے سینہ سپر ہوگئے، وہ ایمان افروز اور اُمیدافزا تھا۔ اس موقعے پر اپنی مدد آپ کی ایک روشن مثال قائم ہوئی اور ایک بار پھر یہ یقین تازہ ہوگیا کہ ع
ذرا نم ہو تو یہ مٹی ، بہت زرخیز ہے ساقی!
آج حالات کتنے ہی خراب ہوں، لیکن ساری خرابیوں کے باوجود قوم میں خیر کا بڑا خزانہ موجود ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی صلاحیتوں اور کارکردگیوں پر عدم اعتماد اپنی جگہ، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرکاری زکوٰۃ کٹوتی میں ہر رمضان میں حکومت کو چارپانچ ارب روپے حاصل ہوتے ہیں۔ ملکی اور غیرملکی تحقیقی اداروں کے مطابق اصحابِ خیر کی طرف سے رضاکارانہ صدقات کی مد میں (صرف رمضان کے مہینے میں نہیں بلکہ سال بھر میں) ۱۱۰؍ارب روپے سے زیادہ رقم مستحقین کو منتقل ہوتی ہے۔ اور ’پاکستان سنٹر فار فلن تھراپی‘ کی رپورٹ کے مطابق سالانہ پاکستان میں عوامی سطح پر ۲۴۰؍ارب روپے سے زیادہ رقم مستحقین کو دی جاتی ہے۔ اس پہلو سے پاکستانی قوم، دنیا میں ان اقوام میں سرفہرست ہے، جن میں اہلِ ثروت، اہلِ ضرورت کی سب سے زیادہ مدد کرتے ہیں۔ ہارورڈ یونی ورسٹی کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق امریکا میں پاکستانی کمیونٹی،امریکا کی سب سے زیادہ خیرات دینے والی کمیونٹی ہے۔ پاکستان میں الخدمت، فلاحِ انسانیت، ایدھی فائونڈیشن، اخوت اور درجنوں ایسے ادارے ہیں، جو کسی نام و نمود کے بغیر خدمت ِ خلق کے جذبے سے دُکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔ یہ تمام وہ پہلو ہیں، جو اس مایوس کن اور تاریک ماحول میں اُمید کی کرن ہیں اور یہ یقین پیدا کرتے ہیں کہ اگر قوم کو صحیح قیادت میسر ہو اور کام کرنے کے لیے مناسب طریق کار اور صحیح تنظیمِ کار کا اہتمام کیا جائے تو اس قوم میں بڑی قوت اور صلاحیت ہے۔ ضرورت صحیح وژن،صحیح تنظیم، دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کی ہے۔
۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء ایک تاریخی بلندی کی علامت ہے، تو پاکستان کی تاریخ میں ۱۶ دسمبر۱۹۷۱ء پستی کی ایک ہولناک تصویر ہے۔ جب بھارت کی فوج کشی کے نتیجے میں اور خود اپنی بے پناہ غلطیوں کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوا ۔ تب پاکستان توڑنے کی سازش میں شریک بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ بھارت کی ہندو قیادت نے مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دورِاقتدار کا بدلہ لے لیا ہے اور دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ بھارت کے موجودہ ہندوقوم پرست وزیراعظم نریندر مودی نے جون ۲۰۱۵ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی میں اپنے خطاب میں بھارت کے دہشت پسندانہ کردار کا سرکاری اعلان کرتے ہوئے برملا کہا:’’ بھارتی فوجی، مکتی باہنی کے ساتھ مشرقی پاکستان میں مہینوں سرگرم رہے اور بالآخر بھارت کی فوج کشی نے پاکستان کو دو ٹکڑے کر دیا‘‘۔
آج بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ دوسری بین الاقوامی قوتوں کی معاونت سے ملک میں جو دہشت گردی کی آگ بھڑکانے میں جو کردار ادا کر رہی ہے، اسے بھی اس پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے اور ۱۶دسمبر ۲۰۱۴ء کو پشاور کے فوجی اسکول پر حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ۱۶دسمبر کی تاریخ کا یہ اشتراک بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ نائن الیون کے معاً بعد پاکستانی اقتدار پر متمکن جنرل پرویزمشرف نے جس طرح امریکی دھمکیوں کے آگے سپرڈالی اور ملک کو جس عذاب میں مبتلا کیا، وہ بھی ہماری تاریخ کا بڑا تاریک باب ہے۔ محض نریندر مودی کو خوش کرنے کے لیے دہلی میں پاکستانی سفارت خانے میں حُریت کانفرنس کی قیادت کے لیے افطارپارٹی کو ملتوی کرنا، اور اوفا (روس) کی ملاقات کے بعد اعلامیے کا کشمیر کے ذکر سے خالی رہنا بھی پستی کا دل خراش واقعہ ہے۔
پاکستان بننے کے بعد قائداعظم کے انتقال اور لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد اقتدار پر جس طرح بیوروکریسی، چند فوجی جرنیلوں اور جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں اور زرپرست عناصر کی ہوسِ اقتدار کے سایے پڑے ہیں اور جس طرح دستور کو پامال اور اداروں کو تباہ و برباد کیا گیا ہے، بد سے بد تر حکمرانی کے جن اَدوار سے قوم اور ملک کو گزرنا پڑ رہا ہے اور بدعنوانی اور کرپشن کی جو داستان رقم کی جارہی ہے، وہ دل خراش بھی ہے اور تباہ کن بھی۔ آج پاکستان دنیا کے بدعنوان ترین ممالک میں شمار کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ ہونے کے باوجود اسے دہشت گرد ملک بلکہ دہشت گردی کا مرکز بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔ جن ’اتحادیوں‘ کے لیے ہم نے اپنی عزت اور امن و چین کو قربان کیا، وہی ہم پر زبان طعن دراز کر رہے ہیں، اور ہماری سیاسی قیادتیں ہیں کہ ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں۔ دنیا میں ہماری تصویر کیا ہے؟ اس کا اندازہ ورلڈ اکانومک فورم ۲۰۱۴ء کی Golbal Competitiveness Report سے کیجیے:
یہ ملک [پاکستان] مسابقت اور مقابلے کے تمام بنیادی اور اہم دائروں میں بہت کم نمبر حاصل کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری اداروں کی کارکردگی میں، وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی بدعنوانی کی بیماری، بے جا نوازشات اور غیرقانونی سرپرستی کے کلچر کو پروان چڑھانے کے ساتھ ملکیتی حقوق کے تحفظ میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہے۔
اسی طرح عالمی بنک کی ۲۰۱۳ء کی رپورٹ Worldwide Governance Indicators میں بدعنوانی اور کرپشن کے باب میں پاکستان کا شمار نچلے ترین درجے میں ہوتا ہے۔ دنیا کے ممالک ۷۲ فی صد ہم سے بہتر ہیں، ہم آخری ۱۸ فی صد میں ہیں۔ بنگلہ دیش بھی ہم سے چھے درجے بہتر حالت میں ہے۔ یہی صورت قانون کی حکمرانی کی ہے۔ بنگلہ دیش اور موزمبیق ہم سے اُوپر ہیں۔ مجموعی طور پر اندازِ حکمرانی کے اشاریے میں بھی ہم پست ترین مقام پر ہیں، حتیٰ کہ غزہ بھی ہم سے اُوپر ہے۔ (ڈان، ۲۶ جون ۲۰۱۵ئ)
بدعنوانی اور کرپشن، وسائل کا ناجائز استعمال، اہم مناصب پر من پسند لوگوں کی تقرریاں، اہلیت کی دھجیاں بکھرتے ہوئے اداروں کی کمزوری اور تباہی، اداروں کے درمیان تصادم، پالیسیوں میں ہم آہنگی کا فقدان، پولیس اور بیوروکریسی کا سیاسی استعمال، عوام کی حقیقی ضروریات سے اغماض اور بنیادی سہولتوں کا فقدان اس بحران کے بدترین سرچشمے ہیں، جس نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے اور سول انتظامیہ اور سیاسی قیادت دونوں کو بے توقیر کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک طرف عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور دوسری طرف حکمران مہنگے منصوبوں کے عشق میں مبتلا ہیں۔ ستم ہے کہ ان حالات میں وزیراعظم صاحب کی ترجیح یہ ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کے قافلے میں نت نئی کاروں کا ہرسال اضافہ کیا جاتا رہے۔ اس وقت جب ملک سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میں ہے، قومی خزانے سے ۳۰کروڑ روپے کی قیمت پر ۱۰ لگژری کاریں خرید رہے ہیں، جن میں چھے وہ کاریں ہیں، جو یورپ کے سربراہانِ مملکت بھی استعمال کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔
یہ منظرنامہ جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑا خطرناک ہے اور جس کے نتیجے میں سول اور فوجی نظام کے درمیان توازن روز بروز بگڑ رہا ہے اور ایک طبقہ مسلسل یہ راہ ہموار کر رہا ہے کہ خدانخواستہ کوئی ’مصطفی کمال‘ بن کر جمہوری نظام کی بساط لپیٹ دے۔
افسوس کا مقام ہے کہ وہ دانش ور، صحافی اور اینکر خواتین و حضرات جو آزادی، روشن خیالی اور حقوق کی باتیں کرتے ہیں، وہی آج کسی طالع آزما کی تلاش اور فوجی قیادت کو کچھ کرگزرنے کی دعوتیں دے رہے ہیں۔ سیاسی قیادت کی نااہلی اور کرپشن اپنی جگہ، اور وہ ایک بڑا ناسور ہے جس کی اصلاح ضروری ہے، مگر اسے بہانہ بناکر اعلیٰ فوجی قیادت کو سیاست میں ملوث ہونے کی دعوت دینا، فوج اور ملک دونوں کے ساتھ خیرخواہی کا راستہ نہیں ہے۔
فوجی قیادت کی حکمرانی کے چار دور ہم دیکھ چکے ہیں اور اس میں سے ہر دور بنیادی طور پر قومی حالات کو بگاڑنے کا سبب بنا ہے، خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف کا آخری دور تو سب سے زیادہ تباہ کن رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف بھی فوج جو خدمت انجام دے رہی ہے، وہ چند مثبت پہلوئوں کے باوجود، بالآخر اس کی دفاعی صلاحیت کار کے لیے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ امرواقعہ ہے کہ فوج اور رینجرز کا استعمال: سول انتظامیہ، پولیس اور نچلی سطح پر عدالتی عمل کی ناکامی کی وجہ سے ہے اور ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر فوج کو اس کا موقع دیا گیا ہے۔ لیکن اسے سیاسی نظام اور دستوری انتظام کو درہم برہم کرنے کے لیے وجہ جواز بنانا ایک زیادہ بڑی تباہی کی طرف جانے کے مترادف ہوگا۔ جس دلدل میں فوج کو گرا دیا گیا ہے، وہ حقیقت ہے، لیکن اس سے نکلنے کا راستہ یہ نہیں کہ فوج کو اقتدار میں لایا جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان اسباب کا تعین کیا جائے، جو پستی کی طرف لے جانے اور بگاڑ کو گمبھیر کرنے کا سبب بنے ہیں اور پھر اس دلدل کے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے، تاکہ ایک دلدل سے نکلنے کی خواہش میں کسی دوسری اور زیادہ بڑی دلدل میں نہ پھنس جائیں بلکہ وہ راستہ اختیار کریں جو فی الحقیقت بلندی اور فراز کی طرف لے جاسکے۔
حکومت کی ترجیحات میں نمایشی منصوبے مرکزیت رکھتے ہیں، جب کہ عوام کی حقیقی ضرورتوں: خوراک، صاف پانی، تعلیم، صحت، رہایش پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ معیشت کا پورا نظام سرمایہ دارانہ اصولوں پر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔معاشی ترقی کا جو تصور چھایا ہوا ہے، اس کا فائدہ زیادہ سے زیادہ ۱۰ فی صد آبادی کو مل رہا ہے، جب کہ ۹۰ فی صد عوام محروم ہیں۔ دولت کی عدم مساوات روزافزوں ہے۔ غربت میں کمی نظر نہیں آرہی، بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ توانائی کا بحران حسب سابق ہے۔ زراعت رُوبہ زوال ہے۔ صنعت کی ترقیاتی رفتار ٹھیری ہوئی ہے، البتہ اسٹاک ایکسچینج میں بہار آئی ہوئی ہے اور بنکوںکے وارے نیارے ہیں۔ ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ (آئی ایم ایف) کی ایک تازہ ترین رپورٹ یہ کہنے پر مجبور ہوئی ہے: ’’دنیا میں جن دو ملکوں میں بنک سب سے زیادہ منافع کمارہے ہیں وہ پاکستان اور کولمبیا ہیں‘‘۔ گذشتہ سال جب زراعت کی پیداوار کا گراف نیچے گرا ہے، اور بڑی صنعت ۲ فی صد کی شرح سے بڑھی ہے، بنکوں کا منافع ۲۵ فی صد سے ۷ئ۴۰ فی صد تک رہا ہے اور وہ بھی اس عجیب و غریب سرمایہ کاری کے نتیجے میں کہ بنکوں کے وسائل کا ۹۰ فی صد حکومت کی سیکورٹیز اور بانڈز میں لگا ہوا ہے اور صنعت اور تجارت میں ان کی سرمایہ کاری ۱۰ فی صد سے بھی کم ہے۔ بنکوں کے چیف ایگزیکٹوز کی تنخواہوں پر نگاہ ڈالیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ یونائیٹڈ بنک لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو کی تنخواہ ایک کروڑ ۱۵لاکھ روپے ماہانہ ہے۔ مسلم کمرشل بنک
[بقیہ دیکھیے: ص ۱۰۹]
[’اشارات‘ ص ۲۳ سے آگے]
کے منتظم اعلیٰ کو ۴۵لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ مل رہی ہے۔ الائیڈبنک کے سربراہ کی تنخواہ ۴۴لاکھ ماہانہ ہے اور حبیب بنک کے سربراہ کی ۳۰ لاکھ روپے ماہانہ ہے، جب کہ ملکی آبادی کا ۶۰ فی صد اوسطاً ۶ہزار روپے ماہانہ اور ۳۰ فی صد اوسطاً صرف ۳ہزار روپے ماہانہ کما رہا ہے۔ یہ ہے وہ معاشی دہشت گردی جس کی آماج گاہ پاک وطن بن چکا ہے۔
یہ وہ حالات ہیں، جن کے نتیجے میں پاکستان آج صرف سیاسی اور معاشی بحران ہی کا شکار نہیں، نظریاتی، اخلاقی اور تہذیبی انتشار میں بھی مبتلا ہے، جس کی شدت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ آج حالات کی اصلاح کے لیے اسی طرح کی ایک ہمہ جہتی نظریاتی تحریک اور جدوجہد کی ضرورت ہے، جیسی برعظیم کے مسلمانوں کو برطانوی حکومتوں اور بھارتی سامراج سے نجات دلانے کے لیے علامہ محمد اقبال کی فکری اور قائداعظم کی سیاسی رہنمائی میں برپا ہوئی تھی۔
ہر زبان پر یہ سوال ہے کہ اصلاح کا راستہ کیا ہے؟
ہماری نگاہ میں نہ فوج کی سیاسی مداخلت پاکستان کے حالات کو درست کرسکتی ہے اور نہ تشدد اور لُوٹ مار کی سیاست۔ ملکی سیاست میں تصادم اور تلخی جس حد کو پہنچ گئی ہے، وہ صرف سیاست ہی نہیں بلکہ ریاست اور ملک کے وجود کے لیے بھی خطرہ بنتی جارہی ہے۔ حکومتوں کی آمرانہ روش، تنگ دلی، تنگ نظری اور مفادپرستی حالات کو بگاڑ رہی ہے اور اداروں کی کمزوری اور باہم آویزش حالات کو اور بھی مخدوش بنارہی ہے۔ ایک طرف عوام کی حالت روز بروز خراب ہورہی ہے تو دوسری جانب معاشی بگاڑ کم ہونے میں نہیں آرہا۔ توانائی کے بحران میں کوئی کمی نہیں ہورہی۔ وسائلِ حیات کی قلت اور مہنگائی نے عوام کی زندگی دوبھر کردی ہے تو دوسری طرف لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ ضربِ عضب اور دہشت گردی کے خلاف ’نیشنل ایکشن پلان‘ نے کچھ علاقوں میں بہتری پیدا کی ہے، مگر بحیثیت مجموعی حالات ابھی گرفت میں نہیں ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مسئلے کا حل صرف فوجی قوت کا استعمال نہیں۔ مناسب حد تک فوجی قوت کا استعمال اور ریاست کی رِٹ قائم کرنے کے تمام ضروری اقدامات اپنی جگہ بہت اہم، لیکن سیاسی فضا کی بہتری اور سب سے زیادہ اندازِ حکمرانی کی درستی اور اداروں کو سیاسی مداخلت اور مفاد پرستوں کی گرفت سے آزاد کرکے اہلیت اور قانون کی حکمرانی اور ضابطۂ کارکے احترام کی بنیاد پر متحرک اور مؤثر کیے بغیر تبدیلی اور اصلا ح محال ہے۔
کس قدر صدمے اور شرم کی بات ہے کہ سیاست اور جرم اس طرح شیروشکر ہوگئے ہیں اور ہرسطح پر یوں جلوہ گر ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ایک ماڈل گرل کو رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود چار مہینے بڑے ناز نخروں کے ساتھ زیرحراست رکھا جاتا ہے اور عدالت میں روز روز کی پیشیاں ایک تماشا بنادی جاتی ہیں، مگر اس کے باوجود چارج شیٹ نہیں کیا جاتا کہ جن پر ضرب پڑتی ہے وہ ہرقانون سے بالا اور ایک دوسرے کے محافظ ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جو پاکستان کی سیاست پر لوگوں کو تین حرف بھیجنے کا راستہ دکھاتے ہیں یا سیاست کی بساط لپیٹ دینے والوں کو موقع فراہم کرتے ہیں۔
اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ ملک کے وہ تمام عناصر جو حالات سے غیرمطمئن ہیں، بگاڑ کے اسباب پر متفق ہیں اور اصلاح کے خواہاں ہیں، وہ مل جل کر سیاسی جدوجہد کے ذریعے نظام کو دستور کے دائرے میں رہ کر بدلنے کے لیے سرگرم ہوں۔ اس مقصد کے لیے بگاڑ کے ایک ایک سبب کو دُور کرنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے، جب عوام کو متحرک اور منظم کیا جائے اور عوامی تائید سے اقتدار ایک ایسی قیادت کو سونپا جائے جس کا دامن پاک ہو، جو اعلیٰ صلاحیتوں کی حامل ہو، جس کا تعلق مفاد پرست طبقوں سے نہ ہو، بلکہ جو عوام میں سے ہو، جو عوام کے سامنے جواب دہ ہو، اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کا جذبہ اور صلاحیت رکھتی ہو۔
قوم میں یہ صلاحیت موجود ہے اور وہ بار بار اس کا مظاہرہ کرچکی ہے۔ ضرورت صحیح مقصد اور منزل کا تعین اور جماعتی اور گروہی تعصبات سے بالا ہوکر تمام محب ِ وطن عناصر کو ایک مؤثر اور متحرک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی ہے۔ آسمان سے فرشتے نہیں اُتریں گے، قوم کو خود اپنے معاملات کی اصلاح کے لیے اپنے میں سے اچھے لوگوں کو آگے لانا ہوگا۔ یہی راستہ صحت مند تبدیلی کا راستہ ہے۔ اسی کو اختیار کرکے ہم خوش حال اسلامی پاکستان کی طرف پیش قدمی کرسکیں گے۔
اللہ تعالیٰ کا فضل اور کرم ہے کہ رمضان کا بابرکت مہینہ ہم پر اور اُمت مسلمہ پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ مہینہ اہلِ ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کے انعامات میں ایک خاص مقام رکھتا ہے اور یہ ہماری بڑی بدنصیبی ہوگی کہ اس مبارک مہینے کو پائیں، اللہ کی رحمت سے اس میں روزوں کی سعادت بھی حاصل کریں، مگر اس اصل مقصد اور پیغام کے بارے میں غافل رہیں جو اس مہینے اور اس میں انسانیت کو دیے جانے والے ربانی تحفے کا اصل جوہر ہے۔
روزہ اللہ کے ماننے والے تمام انسانوں کے لیے ہر دور میں فرض کیا گیا ہے اور اس کی بے شمار مصلحتوں میں سے تین کم از کم ایسی ہیں جن کا ہرلمحے شعور از بس ضروری ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo(البقرہ ۲:۱۸۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑ کے پیروئوں پر فرض کیے گئے تھے، اس توقع کے ساتھ کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج (البقرہ ۲:۱۸۵) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے، اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔
بس یہ مہینہ قرآن کا مہینہ ہے اور اس مہینے کا حق یہ ہے کہ ہم پورے شعور کے ساتھ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ قرآن کیا ہے، اس کی اتھارٹی کی کیا حیثیت ہے، اس کی تعلیمات کی نوعیت کیا ہے، اس سے ہمارا تعلق کن بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے اور اس کے پیغام کے ہم کس طرح علَم بردار ہوسکتے ہیں تاکہ اللہ کے انعام کا شکر ادا کرسکیں۔ اس موقعے کی مناسبت سے ہم قرآن کے مقصد ِ حیات، اس سے تعلق کی بنیادوں اور ان کے تقاضوں پر اپنی معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔
وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۵) تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمھیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بنو۔
قدرت کا قانون ہے کہ جب تاریکی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو روشنی اس کا سینہ چیرتی ہوئی رُونما ہوجاتی ہے، ظلمتیں چھٹ جاتی ہیں اور فضا نور سے بھرجاتی ہے۔ تاریخِ انسانی میں روشنی اور نور کا سب سے بڑا سیلاب ۲۷رمضان المبارک ۱۳ قبل ہجرت میں رُونما ہوا۔
خشکی و تری اور بحروبر پر تاریکی کا غلبہ تھا۔ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ (الروم ۳۰:۴۱) کی حقیقی تصویر بن کر ظلم اور فساد سے خدا کی زمین بھر گئی تھی۔ انسان اپنے حقیقی معبود کو چھوڑ کر جھوٹے خدائوں کی بندگی کر رہے تھے۔ ارض و سما کے مالک نے اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے جو ہدایت اور رہنمائی بھیجی تھی، انسان نے اس کو گم کر دیا تھا۔ نتیجے کے طور پر گمراہی اور ظلمت کا دور دورہ تھا۔ انسان، آگ، درخت، پتھر، پانی اور جانوروں تک کی پوجا کر رہے تھے۔ زندگی کے اجتماعی معاملات میں کچھ انسان دوسرے انسانوں کے خدا اور رب بن بیٹھے تھے، اور اپنی من مانی کر رہے تھے۔ نیکیاں معدوم ہورہی تھیں اور بُرائیاں پَر افشاں تھیں۔ نسل، قوم اور قبیلے کے بتوں کی پوجا ہورہی تھی۔ حق، انصاف، آزادی، مساوات اور بندگیِ رب کو انسانیت ترس رہی تھی۔
یہ تھی وہ دنیا، جس میں خدا کے ایک برگزیدہ بندے، انسانیت کے گل سرسبد اور دنیا کے سب سے نیک انسان محمدؐ بن عبداللہ نے آنکھیں کھولیں۔ وہ ظلم کے اس راج اور بدی کے اس غلبے پر حیران و سرگردان تھا، وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَھَدٰیo (الضحٰی ۹۳:۷)۔ وہ جھوٹے خدائوں کا باغی اور ایک حقیقی خدا کی بندگی کا جویا تھا۔ دست ِ فطرت نے ۴۰سال اس کی تربیت فرمائی۔ پھر زمین و آسمان کے مالک نے ایک شب اس باکمال ہستی کو انسانیت کی رہنمائی کے لیے اپنے آخری نبیؐ کی حیثیت سے مامور فرما دیا۔ وہ غارِحرا میں عبادت میں مشغول تھا کہ خدا کا فرشتہ، اس کا امین اور پیام بر رُونما ہوا۔ بندگی میں مشغول بندے کو سینے سے لگایا، اسے خوب بھینچا اور رب السموات والارض کی طرف سے پہلی وحی اس پر نازل کی:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ o (العلق ۹۶:۱-۵) پڑھو (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام سے جس نے (ساری چیزوں) کو پیدا کیا۔ اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے بنایا۔ پڑھو اور تمھارارب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا،اس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو اس کو معلوم نہ تھیں۔
تاریکیوں کے لیے موت کا پیغام آگیا۔ طاغوت کے غلبے کا دور ختم ہوگیا۔ رب کی آخری ہدایت کا دور شروع ہوگیا۔ یہ سلسلہ ۲۳سال تک چلتا رہا، حتیٰ کہ ہدایت مکمل ہوگئی اور انسانیت کو نور کا وہ خزانہ مل گیا، جس کی روشنی تاقیامت قائم رہے گی جس کے ذریعے وہ ہمیشہ رہنمائی اور ہدایت حاصل کرتی رہے گی:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط(المائدہ ۵:۳)آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔
خدا کی اس زمین پر انسان کی ضرورتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق اس کی جسمانی اور مادی زندگی سے ہے، اور دوسری وہ جو اس کی روحانی، اخلاقی اور سماجی زندگی سے متعلق ہیں۔ خدا کی ربوبیت کاملہ کا تقاضا تھا کہ انسان کی یہ دونوں ضرورتیں پوری کی جائیں، تاکہ وہ زندگی کی آسایشیں بھی حاصل کرسکے اور ان کو صحیح طریقوں سے استعمال بھی کرسکے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی ان دونوں ضرورتوں کو بہ حسن و کمال پورا کیا ہے۔ مادی اور جسمانی ضروریات کی تسکین کے لیے زمین و آسمان میں بے شمار قوتیں ودیعت کردی ہیں، جن کی دریافت اور ان کے مناسب استعمال سے انسان کی تمام ضرورتیں پوری ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح انسان کی روحانی، اخلاقی اور سماجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت نازل فرمائی اور اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے نہ صرف یہ کہ اس ہدایت کو انسانوں تک پہنچایا بلکہ ان کی زندگیوں میں اسے متشکل کرکے بھی دکھا دیا۔ اس طرح انسانیت نے اپنا سفر تاریکی میں نہیں، روشنی میں شروع کیا، اور ہر دور میں خدا کی ہدایت اس کے لیے مشعلِ راہ بنی رہی۔ اس دنیا میں پہلا انسان [آدم ؑ] پہلا نبی بھی تھا۔ خدا کی یہ ہدایت اپنی آخری اور مکمل ترین شکل میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی۔ یہی ہدایت قرآن کی شکل میں موجود ہے اور قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی۔
۱- یہ دنیا بے خدا نہیں ہے۔ اس کا ایک پیدا کرنے والا ہے جو اس کا مالک، آقا، رب اور حاکم ہے۔ ہرشے پر اس کی حکومت ہے اور وہی اس کا حقیقی فرماں روا ہے۔ ساری نعمتیں اسی کا عطیہ ہیں۔ اس کا اختیارکُلی اور ہمہ گیر ہے۔ جس طرح وہ دنیا کی ہرچیز کا خالق اور مالک ہے، اسی طرح وہ انسان کا بھی خالق ، مالک اور حاکم ہے۔ اس مالکِ حقیقی نے انسان کو ایک خاص حد تک اختیار اور آزادی دے کر، اس زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا ہے اور باقی تمام مخلوقات کو اس کے تابعِ فرمان کیا ہے۔
۲-انسان کو خلافت کی ذمہ داریوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کے لائق بنانے کے لیے مالکِ حقیقی نے اسے اپنی ہدایت سے نوازا اور اس کی رہنمائی صراطِ مستقیم کی طرف کی ہے۔ اسے بتایا گیا ہے کہ پورا جہاں اس کے لیے ہے، اس کے تابع ہے، لیکن وہ خود خدا کے لیے ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ خدا کی بندگی اختیار کرے اور اپنی پوری زندگی کو رب کی اطاعت میں دے دے۔ اس زندگی کی حیثیت ایک امتحان اور آزمایش کی سی ہے۔ اس میں انسان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے ارادے کو مالک کی مرضی کے تابع کردے اور اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ لگا دے۔ جس نے اس راہ سے انحراف کیا ، وہ ناکام و نامراد ہے اور آنے والی ابدی زندگی میں جہنم اس کا ٹھکانا ہوگا۔
۳- یہ باتیں انسان کو ازل میں سمجھا دی گئیں۔ ان کا شعور اور احساس اس کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا۔ ان کی تذکیر اور بندگی رب کے راستے کی تشریح و توضیح کے لیے حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک، اللہ تعالیٰ انبیا علیہم السلام کو مبعوث کرتا رہا۔ ایک طرف انسان کو عقل اور سمجھ دی گئی کہ وہ حق کو پہچانے اور اس کے مطابق زندگی کے معاملات کی صورت گری کرے اور دوسری طرف خدا کے ان برگزیدہ بندوں (انبیا علیہم السلام) نے بڑی سے بڑی قربانی دے کر انسانیت کو سیدھی راہ پر لگانے کا کام انجام دیا۔ ہرملک اور ہرقوم میں انبیا مبعوث ہوئے۔ اس سنہری سلسلے کی آخری کڑی محمد عربی ؐ ہیں۔ آپؐ ساری دنیا کے لیے بھیجے گئے اور سارے زمانوں کے لیے مبعوث ہوئے۔ آپؐ نے اللہ کا وہی دین، یعنی اسلام لوگوں کے سامنے پیش کیا جو اس سے پہلے پیش ہوتا رہا تھا جن لوگوں نے آپؐ کی دعوت قبول کرلی اور اسلام کو بہ حیثیت زندگی کے دین اور راستہ اختیار کرلیا، وہ ایک اُمت بن گئے۔ اب یہ اُمت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود اپنی زندگی کا نظام اس ہدایت کے مطابق تشکیل دے جو اللہ کی طرف سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے اور جس کا نمونہ آپؐ نے اپنی مبارک زندگی میں پیش فرمایا، اور تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دیتی رہے۔
قرآن وہ کتاب ہے جس میں پوری دعوت موجود ہے ، جس میں اللہ کا دین اپنی مکمل اور آخری شکل میں ملتا ہے، جس میں وہ ہدایت ہے جو خالق کائنات نے اُتاری ہے اور جو تمام انسانوں کی دائمی خیروفلاح کی ضامن ہے۔ قرآن اپنی حیثیت اور اپنے مقصد کو اس طرح واضح کرتا ہے:
(الف) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ o (البقرہ ۲:۲) یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔
(ب) اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل ۱۷:۹) حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔
(ج) یہ رہنمائی تمام انسانوں کے لیے ہے:
الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ (البقرہ ۲:۱۸۵) قرآن انسانوں کے لیے ہدایت ہے۔
(د) یہ ہدایت کا ایسا مرقع ہے جسم میں ازل سے نازل ہونے والی ہدایت جمع کردی گئی ہے اور یہ پورے خیر کا مجموعہ ہے:
وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُھَیْمِنًا عَلَیْہِ (المائدہ۵:۴۸) پھر اے نبیؐ، ہم نے تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے ، اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے۔
(ہ) یہ ہدایت ہر لحاظ سے محفوظ بھی ہے اور تاقیامت محفوظ رہے گی:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo (الحجر۱۵:۹)بلاشبہہ ہم نے اس کو نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کو محفوظ رکھنے والے ہیں۔
(و) انسانیت کے دُکھوں کا واحد علاج یہ ہدایت ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ شِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ o (یونس۱۰:۵۷)لوگو!تمھارے پروردگار کی جانب سے تمھارے پاس ایک نصیحت آگئی ہے جو دل کے تمام امراض کے لیے شفا ہے اور ہدایت اور رحمت ہے اُن تمام لوگوں کے لیے جو اسے مانیں۔
(ز) اور یہی ہدایت ہے جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی اور حق کا حقیقی معیار ہے۔ اس لیے اس کو مھیمن کہا گیا ہے اور اسی لیے اس کا نام فرقان (حق و باطل میں تمیز کرنے والی) رکھا گیا ہے۔
قرآن کی اس نوعیت کو سمجھ لینے کے بعد اس کی حقیقت اور اس کے مقصد کی وضاحت آسان ہوجاتی ہے، اسے ہم مختصراً یوں بیان کرسکتے ہیں:
o قرآن کا موضوع انسان ہے کہ حقیقت کے اعتبار سے اس کی فلاح اور خسران کس چیز میں ہے۔
o قرآن کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ظاہربینی یا قیاس آرائی یا خواہش کی غلامی کے باعث انسانوں نے خدا، نظامِ کائنات ، اپنی ہستی اور اپنی دنیوی زندگی کے متعلق جو نظریات قائم کیے ہیں اور ان نظریات کی بنا پر جو رویے اختیار کرلیے ہیں، وہ سب حقیقت کے لحاظ سے غلط اور نتیجے کے اعتبار سے خود انسان ہی کے لیے تباہ کن ہیں۔ حقیقت وہ ہے جسے انسان کو خلیفہ بناتے وقت خدا نے خود بیان فرما دیا ہے۔ اس حقیقت کے لحاظ سے وہی رویہ درست اور خوش انجام ہے جو خدا کو اپنا واحد حاکم اور معبود تسلیم کرکے اس دنیا میں اس کی ہدایت کے مطابق اپنی پوری زندگی کو گزارا جائے۔
o قرآن کا مدعا انسان کو اس صحیح رویے کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے، جسے انسان اپنی غفلت سے گم اور شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: تفہیم القرآن، جلد اوّل، مقدمہ از مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ)
نزولِ قرآن کا اصل مقصد انسانوں کی تہذیب اور ان کے باطل عقائد اور گم کردہ اعمال کی اصلاح اور درستی ہے۔ (الفوز الکبیر)
قرآن تمام انسانوں کو ابدی سعادت کی طرف بلاتا ہے، اور انسان کے ظاہروباطن کی ایسی تعمیر کرتا ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو، دنیا اور آخرت کی زندگیوں میں حقیقی چین اور راحت نصیب ہو۔ یہی راستہ رب کی بندگی کا راستہ ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo (الذاریات ۵۱:۵۶) میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔
یہ بندگی انسان کی پوری زندگی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا ہر سانس احساسِ عبدیت سے معمور ہونا چاہیے اور اس کا ہرعمل مالک کی اطاعت کا مظہر ہونا چاہیے۔
یہ مقام ہے جہاں سے قرآن کا انقلابی تصورِ حیات ہمارے سامنے آتا ہے۔ قرآن انسانی زندگی کو مختلف گوشوں اور شعبوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ وہ پوری زندگی کو بندگیِ رب میں لانا چاہتا ہے۔ انسان کے فکروخیال اور عقیدہ و رجحان سے لے کر اس کی اجتماعی زندگی کے ہرپہلو پر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مطالبہ خود مسلمانوں سے یہ ہے کہ:
اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً (البقرہ۲:۲۰۸) داخل ہوجائو خدا کے دین میں پورے کے پورے۔
یعنی اسلام کے راستے کو اختیار کرنے کے بعد زندگی کے کسی شعبے کو خدا کی ہدایت سے آزاد رکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پھر انسان کی انفرادی زندگی اور اس کی اجتماعی زندگی ، خدا کے قانون کی پابندی اور اس کی رضا کو تلاش کرنے والی ہوگی۔پھر تمدن کے پورے نظام، یعنی معاشرت، سیاست، معیشت، قانون و عدالت، انتظام و انصرام، ملکی اور بین الاقوامی تعلقات، سب پر خدا کی حکمرانی قائم ہونی چاہیے۔ صرف اپنے اُوپر ہی اس قانون کو جاری و ساری نہیں کرنا، بلکہ پوری انسانیت کو اپنے قول اور عمل سے اس راستے کی طرف دعوت دینا ہے۔ انسانیت کو حق کی طرف بلانا ہے، اور ہر اس رکاوٹ کو ہٹانے کی جدوجہد کرنی ہے جو بندے اور اس کے رب کے درمیان اس تعلق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہے۔ اس کا نام دعوتِ حق ہے جو اسلام میں جہاد ہی کا ایک شعبہ ہے۔ یہی وہ دعوت ہے جس کی طرف یہ کتاب بلاتی ہے۔
علامہ اقبالؒ مشہور صوفی بزرگ شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ کے حوالے سے قرآن کے اس مخصوص مزاج کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں:’’محمد عربیؐ برفلک الافلاک رفت و باز آید واللہ اگر من رفتمے ہرگز با ز نیامدے، محمد عربی ؐ [معراج کے موقعے پر] آسمانوں پر گئے اور واپس آگئے۔ اللہ کی قسم! اگر میں جاتا تو ہرگز واپس نہ آتا۔ یہ مشہور صوفی بزرگ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی ؒ کے الفاظ ہیں جن کی نظیر تصوف کے سارے ذخیرۂ ادب میں مشکل ہی سے ملے گی۔ شیخ موصوف کے اس ایک جملے سے ہم اس فرق کا اِدراک نہایت خوبی سے کرلیتے ہیں جو شعورِ ولایت اور شعورِ نبوت میں پایا جاتا ہے۔ صوفی نہیں چاہتا کہ وارداتِ اتحاد سے جو لذت اور سکون حاصل ہوتا ہے اسے چھوڑ کر واپس آئے لیکن اگر آئے بھی، جیساکہ اس کا آنا ضروری ہے، تو اس سے نوعِ انسانی کے لیے کوئی خاص نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس ، نبیؐ کی بازآمد تخلیقی ہوتی ہے ۔ وہ ان واردات سے واپس آتا ہے تو اس لیے کہ زمانے کی رُو میں داخل ہوجائے اور پھر ان قوتوں کے غلبہ و تصرف سے، جو عالمِ تاریخ کی صورت گرہیں، مقاصد کی ایک نئی دنیا پیدا کرے۔ صوفی کے لیے تو لذتِ اتحاد ہی آخری چیز ہے۔ لیکن انبیا علیہم السلام کے لیے اس کا مطلب ہے ان کی اپنی ذات کے اندر کچھ اس قسم کی نفسیاتی قوتوں کی بیداری، جو دنیا کو زیروزبر کرسکتی ہیں، اور جن سے کام لیا جائے تو جہان انسانی دگرگوں ہوجاتا ہے۔ لہٰذا انبیا ؑکی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان واردات کو ایک زندہ اور عالم گیر قوت میں بدل دیں… لہٰذا انبیاؑ کے مذہبی مشاہدات اور واردات کی قدروقیمت کا فیصلہ ہم یہ دیکھ کر بھی کرسکتے ہیں کہ ان کے زیراثر کس قسم کے انسان پیدا ہوئے‘‘۔ (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، علامہ محمد اقبال، ترجمہ سیّد نذیرنیازی، بزمِ اقبال، لاہور، ص ۱۸۸-۱۹۰)
مطلب یہ کہ بزرگ صوفی کا یہ قول زندگی کے محدود تصور کا غماز ہے۔ اس تصور میں اصل اہمیت عرفانِ ذات کی ہے اور وہ اس سے اُونچے کسی مقام کا تصور نہیں کرسکتی ہے کہ بندے کے قدم وہاں پہنچ جائیں جہاں فرشتوں کے پَر جلتے ہیں۔ پھر اس دنیا کی طرف واپس آنے کا کیا سوال؟ لیکن محمدصلی اللہ علیہ وسلم جس دین کے علَم بردار ہیں وہ دین جس کا نبی اس بلندی پر پہنچ کر پھر اس دنیاے رنگ و بو میں لوٹتا ہے، تاریخ کے منجدھار میں قدم رکھتا ہے اور اس نور سے جو اسے حاصل ہوا ہے تنگ و تاریک دنیا کو منور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ صرف اپنے اس سینے کو گنجینۂ اَنوار نہیں بناتا بلکہ پورے عالم کو روشن کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ ایک نیا انسان بنانے، ایک نیا معاشرہ تعمیر کرنے، ایک نئی ریاست قائم کرنے اور تاریخ کو ایک نئے دور سے ہمکنار کرنے میں مصروفِ جہاد ہوجاتا ہے۔
قرآن اسی دعوتِ انقلاب کو پیش کرتا ہے، وہ زمانے کے چلن کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک نیا نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد ایک انقلاب برپا کرنا ہے___ دلوں کی دنیا میں بھی انقلاب اور انسانی معاشرے میں بھی انقلاب۔ وہ صالح انقلاب جس کے نتیجے میں خدا سے بغاوت کی روش ختم ہو اور اس کی بندگی کا دور دورہ ہوجائے۔ بُرائیاں سرنگوں اور نیکیوں کو غلبہ حاصل ہو۔ خدا کے منکر اور اس سے غافل قیادت کو مسند سے ہٹا دیا جائے اور اس کے مطیع اور فرماں بردار بندے زمانے کی قیادت سنبھال لیں___ یہ ہے نزولِ قرآن کا مقصد اور یہی ہے انسانیت کی نجات کا راستہ۔
ہم اُمت مسلمہ کو جس بات کی دعوت دیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اس اُمت کا ہر فرد اس موقعے پر اور بھی زیادہ سنجیدگی کے ساتھ قرآن کی اصل حقیقت کو سمجھے۔ اس کے مقصد کا حقیقی شعور پیدا کرے۔ اس کے پیغام پر کان دھرے اور اس کے مشن کو پورا کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہوجائے۔
قرآن نے انسانیت کو ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔ اس نے قبیلے، نسل، رنگ، خاک و خون اور جغرافیائی تشخص کے بتوں کو پاش پاش کیا ہے۔ اس نے یہ اعلان کیا ہے کہ پوری انسانیت ایک گروہ ہے اور اس میں جمع تفریق اور نظامِ اجتماعی کی تشکیل کے لیے صرف ایک ہی اصول صحیح ہے، یعنی عقیدہ اور مسلک۔ اسی اصول کے ذریعے اس نے ایک نئی اُمت بنائی اور اس اُمت کو انسانیت کی اصلاح اور تشکیل نو کے عظیم کام پر مامور کردیا:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
قرآن نے اس اُمت کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بھی صورت گری کی ہے، اور اسے باقی انسانیت کے لیے خیروصلاح کا علَم بردار بنایا ہے۔ یہی وہ چیز تھی جس نے چھٹی صدی عیسوی کی ظلم اور تاریکی سے بھری ہوئی دنیا کو تاریخ کے ایک نئے دور سے روشناس کرایا۔ جس نے عرب کے اُونٹ چرانے والوں کو انسانیت کا حدی خواں بنایا۔ جس نے ریگستان کے بدوئوں کو تہذیب و تمدن کا معمار بنادیا۔ جس نے مفلسوں اور فاقہ کشوں میں سے وہ لوگ اُٹھائے، جو انسانیت کے رہبر بنے۔ جس نے وہ نظام قائم کیا، جس نے طاغوت کی ہر قوت سے ٹکر لی اور اسے مغلوب کرڈالا۔
قرآن طاقت کا ایک خزانہ ہے۔ اس نے جس طرح آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے انسانوں کی اصلیت بدل کر رکھ دی تھی اور ان کے ہاتھ سے ایک نئی دنیا تعمیر کرائی تھی، اسی طرح آج بھی فساد سے بھری ہوئی دنیا کو تباہی سے بچا سکتا ہے۔ اپنے ماننے والوں کو، بشرطیکہ وہ اس کا حق ادا کرسکیں، انسانیت کا رہنما اور تاریخ کا معمار بناسکتا ہے۔
خوب کہا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے:
لَا یَصْلُحُ اٰخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلُحَ اَوَّ لُھَا، اس اُمت کے بعد کے حصے کی اصلاح بھی اسی چیز سے ہوگی، جس سے اس کے اوّل حصے کی اصلاح ہوئی تھی۔
___ اور یہ چیز قرآن ہے۔
قرآن سے حقیقی تعلق اور تقاضے
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن نے پہلے بنجر اور شور زمین سے ایک نیاجہاں پیدا کردیا تھا، تو آج وہ یہ کارنامہ کیوں سرانجام نہیں دے رہا؟
oاگر وہ کل شفا و رحمت تھا، تو وہ آج یہ وظیفہ سرانجام دیتا ہوا کیوں نظر نہیں آتا؟
oاگر ہم کل اس کی وجہ سے طاقت ور تھے، تو آج اس کے باوجود ہم کمزور کیوں ہیں؟
oاگر کل اس کے ذریعے ہم دنیا پر غالب تھے، تو آج اس کے ہوتے ہوئے ہم مغلوب کیوں ہیں؟
اگر غور کیا جائے تو اس کی دو ہی وجوہ ہوسکتی ہیں___ ایک،یہ کہ ہم نے عملاً اس کتابِ ہدایت کو اپنا حقیقی رہنما باقی نہ رکھا ہو۔ اس سے ہمارا تعلق، غفلت و سردمہری و بے التفاتی اور بے توجہی کا ہوگیا ہو۔ دوسرے، یہ کہ ہم بظاہر تو اس کا احترام اور تقدیس کررہے ہوں لیکن اس کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صحیح راستہ اور صحیح طریقہ اختیار نہ کر رہے ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاملے میں یہ دونوں ہی باتیں صحیح ہیں۔
برف کی طرح پگھلتی اور ہر آن قطرہ قطرہ ختم ہوتی، اس زندگی میں یہ بڑا ہی سنہری موقع ہے کہ ہم لمحہ بھر رُک کر سوچیں کہ خدا کی اس کتاب سے ہمارا تعلق کیا ہونا چاہیے؟ اور ہمیں اس سے کیا معاملہ کرنا چاہیے تاکہ یہ اپنے اثرات دکھاسکے اور اس کی روشنی دنیا کے گوشے گوشے کو نور سے بھردے۔
۱- اس سلسلے میں سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ اپنے اس سوئے ہوئے ایمان کو بیدار کیا جائے جو قرآن پر لایا تو ضرور گیا ہے، مگر اس کا یقین اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جذبے اور شوق سے عاری ہے۔ یاد رکھیے کہ یہ ایمان اس کے، خدا کی کتاب ہونے پر، اس کے مکمل طور پر محفوظ ہونے پر، اس کے ہرلفظ کے حق و صداقت ہونے پر، اس کے بتائے ہوئے طریقے کے درست اور مفید ہونے پر، اس کے بتائے ہوئے علاج کے اصل ضامنِ شفا ہونے پر ہے___ یہ ہے نقطۂ آغاز:
اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآئَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ o وَ مَآ اَنْتَ بِھٰدِی الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِھِمْ ط اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَھُمْ مُّسْلِمُوْنَ o (النمل ۲۷:۸۰-۸۱) بے شک تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہو۔ جب وہ اعتراض کرتے ہوئے منہ پھیر لیں، اور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال سکتے ہو۔ تم تو صرف انھی کو سنا سکتے ہو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔
وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَo(البقرہ ۲:۱۲۱) اور جو لوگ اس کا انکار کریں گے، وہ نقصان اُٹھانے والے ہیں۔
۲- پھر یہ بھی ضروری ہے کہ دل قرآن حکیم کی عظمت اور بلندی، اس کے اعلیٰ اور برتر کلام ہونے کے احساس سے معمور ہو۔ یہ وہ کلام ہے جو اگر پہاڑوں پر نازل ہوتا تو وہ شق ہو جاتے۔ اس پُرعظمت کلام کے مقابلے میں اپنی عاجزی کا احساس اور دل کا اس کے لیے موم ہوجانا بہت ضروری ہے:
وَ اِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ (المائدہ ۵:۸۳) جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اُترا ہے، تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوئوں سے تر ہوجاتی ہیں۔
یہ معرفت حق کا لازمی نتیجہ ہے۔
۳- قرآن سے رہنمائی اور رہبری کے لیے رجوع کرنا، اس کے بارے میں غفلت کی روش کو ترک کر کے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا، یہ دیکھنا کہ کس طرح وہ ہماری زندگی کا نقشہ بدلنا چاہتا ہے، اس کتاب کو مضبوطی سے تھامنا اور ہرمعاملے میں اس سے ہدایت حاصل کرنا__ یہی وہ طریقہ ہے جس سے اس کتاب کے اصل اسرار و رُموز ہم پر منکشف ہوسکیں گے:
فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْٓ اُوْحِیَ اِِلَیْکَ اِِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o وَاِِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ o (الزخرف ۴۳: ۴۳-۴۴) اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمھاری طرف وحی کیا گیا ہے، اس کو خوب مضبوط پکڑے رہو۔ یقین رکھو کہ تم سیدھے راستے پر ہو اور یہ (قرآن) تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے یقینا ایک نصیحت نامہ ہے اور آگے چل کر تم سب سے اس کی بابت بازپُرس ہوگی۔
امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے بجا فرمایا ہے:
جو شخص دین کو جاننا چاہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن ہی کو اپنا مونس و ہم دم بنائے۔ شب و روز قرآن ہی سے تعلق رکھے۔ یہ ربط و تعلق علمی اور عملی دونوں طریقوں سے ہونا چاہیے۔ ایک ہی پر اکتفا نہ کرے۔ جو شخص یہ کرے گا وہی شخص گوہر مقصود پائے گا۔ (الموافقات، ج۳، ص۳۴۶)
۴- قرآن کا مطالعہ کیا جائے اور اس طرح کیا جائے جو اس کا حق ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ط (البقرہ ۲:۱۲۱) جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے۔
اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ قرآن کی تلاوت کے ظاہری آداب پورے کیے جائیں، یعنی اسے پاک حالت میں چھوا جائے، ادب سے مطالعہ کیا جائے، ترتیل سے پڑھا جائے اور خوش الحانی سے پڑھا جائے وغیرہ۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کے معنی کو سمجھا جائے اور ان پر غوروفکر کیا جائے۔قرآن کے الفاظ پر سے یوں ہی نہ گزرجایا جائے، بلکہ اس کی گہرائیوں میں اُترنے اور اس کے مفہوم کو سمجھنے کی پوری کوشش کی جائے۔ یہی قرآن کا مطالبہ ہے:
کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَo(یونس ۱۰:۲۴) غور کرنے والوں کے لیے ہم نے اس طرح آیات تفصیل سے بیان کی ہیں۔
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَo(الانبیا ۲۱:۱۰) لوگو، ہم نے تمھاری طرف کتاب اُتار دی ہے، جس میں تمھارا ذکر ہے، کیا تم غور نہیں کرتے۔
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (صٓ ۳۸:۲۹) اے پیغمبرؐ، یہ قرآن برکت والی کتاب ہے، جو ہم نے تمھاری طرف اُتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں۔ جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، وہ اس سے نصیحت پکڑیں۔
یہی صحابہ کرامؓ کا طریقہ تھاکہ وہ قرآنِ پاک کی آیات کو سمجھ سمجھ کر پڑھتے تھے اور ان پر غوروفکرکرتے تھے۔
۵- قرآن پر عمل کیا جائے اور اس کے مطابق اپنے فکروعمل کو بدلا جائے۔ قرآن پر اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں ہوسکتا، کہ قرآن کے احکام کے مطابق اپنے کو بدلنے کے بجاے اپنی بداعمالیوں کے لیے جواز پیش کرنے کے لیے قرآن کو (نعوذباللہ) بدلنے کی کوشش کی جائے۔ اس طرح یہ بھی قرآن کے حقوق کے منافی ہے کہ اس کے احکام کو تو پڑھا جائے، مگر دوسری جانب ان پر عمل نہ کیا جائے۔ قرآن نازل ہی اس لیے کیا گیا ہے، کہ اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کے نقشے کو تعمیر کیا جائے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ قرآن کے مطابق عمل کی سعی کی جائے۔ حضرت ابن مسعودؓ کا ارشاد ہے کہ ’’جب کوئی شخص ہم میں سے ۱۰ آیتیں سیکھ لیتا تھا، تو اس سے زیادہ نہ پڑھتا تھا، جب تک ان کے معنی نہ سمجھ لیتا اور ان پر عمل نہ کرتا‘‘۔(ابن کثیر، جلداوّل، ص ۵)
۶- پھر قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کے سلسلے میں رہنما اور نمونہ اس مبارک ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننا، جس پر یہ کتاب نازل ہوئی:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النساء ۴:۸۰) جس نے رسولؐ کی اطاعت کی ، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ سے سرمو انحراف بھی قرآن سے دُور لے جانے والی چیز ہے۔
قرآن کے نظام کو قائم کرنے کے لیے جدوجھد
اور آخری چیز یہ ہے کہ قرآن جس دعوت کو لے کر آیا ہے، اسے پھیلانے اور اس کے نظام کو قائم کرنے کی عملی جدوجہد کی جائے۔ سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بہت سچ لکھا ہے کہ:
___ فہمِ قرآن کی ان ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا، جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے، جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے، کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصورِ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رُموز حاصل کرلیے جائیں.... یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اور وقت کے علَم برداران کفروفسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھرگھر سے، ایک ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعیِ حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے، ایک ایک فتنہ ُجو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کرائی۔ ایک فردِ واحد کی پکار سے کام شروع کر کے خلافت ِ الٰہیہ کے قیام تک پورے ۲۳سال میں یہ کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی۔ اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اس نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔
___ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاع کفر و دیں اور معرکہ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی منزل کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو، اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں۔ اسے تو پوری طرح آپ اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کر دیں اور جس جس طرح یہ کتابِ ہدایت دیتی جائے، اس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گی جو نزولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکہ، حبشہ اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر و اُحد سے لے کر حنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجہل اور ابولہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا۔ منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے اور سابقین اوّلین سے لے کر مولفۃ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ یہ ایک اور ہی قسم کا ’سلوک‘ ہے جس کو میں ’سلوکِ قرآنی‘ کہتا ہوں۔ اس سلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اس منزل میں اُتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں، لیکن یہ ممکن نہیں کہ قرآن اپنی روح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بخل برت جائے۔
___ پھر اس کلیے کے مطابق قرآن کے احکام، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی معاشی اور تمدنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اصول و قوانین، آدمی کی سمجھ میں اس وقت تک آ ہی نہیں سکتے، جب تک وہ ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا ہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہوسکتی ہے، جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔(تفہیم القرآن، ج۱، مقدمہ،ص ۳۳-۳۴)
یہ ہیں قرآن سے تعلق کی صحیح بنیادیں اور اگر ان پر ٹھیک ٹھیک عمل کیا ہو تو پھر قرآن انفرادی زندگی کا نقشہ بھی بدل دیتا ہے اور اجتماعی زندگی کی شکل بھی تبدیل کرا دیتا ہے۔ انفرادی زندگی اس کی برکتوں سے بھرجاتی ہے اور اجتماعی زندگی نیکی اور خوشی کی بہار سے شادکام ہوتی ہے۔
قرآن پر ایمان اسی وقت مفید اور معنی خیز ہوسکتا ہے، جب ہم قرآن کے پیغام کو سمجھیں اور اس کی دعوت پر لبیک کہیں۔ قرآن کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے اور اس کی ہدایت کے ذریعے اپنے معاملات کو طے کرنے کی کوشش کریں۔ آج عالمِ اسلام جن مسائل اور مصائب سے دوچار ہے، ان سے نکلنے، ترقی اور عزت کی راہ پر پیش قدمی کرنے کا راستہ صرف یہی ہے اور صادق برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی تلقین کی تھی:
رسولؐ اللہ: خبردار عنقریب ایک بڑا فتنہ سر اُٹھائے گا۔
حضرت علیؓ: اس سے نجات کیا چیز دلائے گی یارسولؐ اللہ!
__ اس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے حالات ہیں۔
__ تم سے بعد میں ہونے والی باتوں کی خبر ہے۔
__ اور تمھارے آپس کے معاملات کا فیصلہ ہے۔
__ اور یہ ایک دوٹوک بات ہے، کوئی ہنسی دل لگی کی بات نہیں۔
__ جو سرکش اسے چھوڑے گا، اللہ اس کی کمر کی ہڈی توڑ ڈالے گا۔
__ اور جو کوئی اسے چھوڑ کر کسی اور بات کو اپنی ہدایت کا ذریعہ بنائے گا، اللہ اسے گمراہ کردے گا۔
__ خدا کی مضبوط رسی یہی ہے۔
__ یہی حکمتوں سے بھری ہوئی یاد دہانی ہے۔
__ یہی بالکل سیدھی راہ ہے۔
__ اس کے ہوتے ہوئے خواہشیں گمراہ نہیں کرتیں۔
__ اور نہ زبانیں لڑکھڑاتی ہیں۔
__ اہلِ علم کا دل اس سے کبھی نہیں بھرتا۔
__ اسے کتنا ہی پڑھو طبیعت سیر نہیں ہوتی۔
__ اس کی باتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔
__ جس نے اس کی سند پر کہا، سچ کہا۔
__ جس نے اس پر عمل کیا، اجر پائے گا۔
__ جس نے اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا، اس نے انصاف کیا۔
__ جس نے اس کی دعوت دی، اس نے سیدھی راہ کی دعوت دی۔(مشکوٰۃ)
یہی وہ سیدھی راہ ہے، جس کی طرف قرآن ہم سب کو دعوت دے رہا ہے!
۱۱؍اپریل ۲۰۱۵ء کو پاکستانی وقت کے مطابق رات ۳۰:۹ بجے عالمِ اسلام کا ایک عظیم فرزند تختۂ دار پر جھول گیا۔ شہید محمد قمرالزمان ایک فرد نہیں بلکہ فی الحقیقت ایک تحریک تھے۔ وہ بنگلہ دیش میں تحریکِ اسلامی میں، ایک مدبر دینی و سیاسی رہنما، اور جماعت اسلامی کے مستقبل کے قائد تھے۔ وہ بہ یک وقت بزرگوں اور نوجوانوں میں مقبول اور نہایت سلجھی، متین اور متوازن طبیعت کے مالک تھے۔ انھوں نے دل و دماغ اور جسم کی تمام صلاحیتیں دین اسلام کی خدمت اور سرزمینِ بنگال میں مسلمانوں کی ترقی و سربلندی کے لیے کھپا دیں۔ صدافسوس کہ ایک سفاک، اذیت پسند اور بھارتی آلۂ کار گروہ نے انھیں موت کے گھاٹ اُتار دیا، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
جو اللہ کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے، صرف اہلِ حق کی یادوں ہی میں نہیں بلکہ اللہ کے وعدے کے مطابق انھیں ہراعتبار سے حیاتِ جاوداں حاصل ہے:
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۴) جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انھیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔
اور یہی وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جنھیں ان کا خالق و مالک ان کی اس وفاشعاری کا پورا پورا اجر دے گا:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o لِّیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِھِمْ وَ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ (الاحزاب ۳۳:۲۳-۲۴) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے اور منافقوں کو سزا دے۔
اہلِ حق کی آزمایش کا یہ سلسلہ صبرواستقامت کے ساتھ جاری ہے۔
بنگلہ دیش کے وزیرقانون انیس الحق نے ۴؍اپریل کو پوری ڈھٹائی کے ساتھ ان الفاظ میں چیلنج کیا ہے کہ: ’’تحمل سے دیکھتے جایئے، انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے دائرۂ کار میں وسعت لانے کے لیے ہم ایک ترمیم بہت جلد کابینہ میں پیش کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں، اسی ٹریبونل سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو ایک مجرم پارٹی کے طور پر غیرقانونی قرار دلایا جائے گا‘‘۔ (روزنامہ سٹار، ڈھاکہ، ۵؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
محمد قمر الزمان کو حسینہ واجد کی حکومت نے جھوٹے مقدمات میں ۱۳جولائی ۲۰۱۰ء کو گرفتار کیا۔ ۹مئی ۲۰۱۳ء کو ایک نام نہاد عدالت نے انھیں سزاے موت سنائی۔ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل پر اختلافی فیصلہ ۱۸فروری ۲۰۱۵ء کو جاری ہوا، جس میں کثرت راے سے سزاے موت کو برقرار رکھا گیا۔ اس فیصلے کے خلاف ۵مارچ کو سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی، اور سماعت کے لیے ۵؍اپریل کی تاریخ مقرر ہوئی۔ سپریم کورٹ بنگلہ دیش کے چیف جسٹس سریندر کمارسنہا کی صدارت میں قمرالزمان کی اپیل کو مستردکرتے ہوئے سزاے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔ اٹارنی جنرل محبوب عالم نے کہا: ’’اب پھانسی کی سزا پر عمل درآمد میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی‘‘۔(روزنامہ سٹار، ڈھاکہ، ۶؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
عالمی اور قومی سطح پر ردِعمل کی شدت کے باوجود عوامی لیگی حکومت بڑی تیزی سے معاملات کو ناقابلِ واپسی نشان تک پہنچا رہی تھی۔ بنگلہ دیش نیوز نیٹ ورک نے ۷؍اپریل کو خبر دی کہ سنٹرل جیل ڈھاکہ میں سزاے موت پر عمل درآمد کے منتظر قمر الزمان کے بچے جب شام ۴۵:۴ پر ملاقات کے بعد باہر آئے، تو انھوں نے انگلیوں سے فتح کا نشان بنایا۔ قمرالزمان کے سب سے بڑے بیٹے اقبال حسن نے بتایا:
ہمیں اس فیصلے پر کوئی پریشانی نہیں، ہم اپنے والد سے مسکراہٹوں کے ساتھ جدا ہوکر آرہے ہیں۔ یہ سارا مقدمہ بے بنیاد ہے اور اس مقدمے پر یہ فیصلہ شرم ناک ہے۔ ہمیں اللہ کے سوا کسی سے انصاف کی اُمید نہیں ہے۔ اس مقدمے کی تیاری اور فیصلے کے ذمہ داروں اور موجودہ نام نہاد وزیراعظم سے ہمارا اللہ ہی نبٹے گا، وہی حقیقی عادل ہے۔ (بی ڈی نیوز، ۷؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
’ہیومن رائٹس واچ‘(HRW) ایشیا کے ڈائرکٹر مسٹر براڈ ایڈمز نے قمرالزمان کی سزاے موت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’موت ایک ناقابلِ واپسی سزا ہے، اور جب ایسی سزا قانون کے تقاضوں کو نظرانداز کرکے دی جائے تو اس کے ظالمانہ ہونے میں دو راے نہیں ہوسکتیں۔ بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے مقدمات کا پورا عمل، شفاف قانونی طریقوں کی بے حُرمتی اور جانب دارانہ عدالتی طریق کار کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہونے سے کم حیثیت نہیں رکھتا… بلاشبہہ ہم نے ۱۹۷۱ء میں مبینہ جنگی جرائم پر بازپُرس کی تائید کی تھی، مگر ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ: ’’ان مقدمات کی سماعت بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ قانونی و عدالتی معیارات کے تحت ہونی چاہیے۔ کیونکہ اُس وقت قانون اور عدل کی پاس داری انتہا درجے کی اہمیت اختیار کر جاتی ہے، جب معاملہ کسی فرد کو سزاے موت سنائے جانے پر پہنچ رہا ہو۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ قمرالزمان کے مقدمے کا، ان قانونی اور مبنی بر عدل معیارات کے مطابق فیصلہ نہیں ہوا‘‘۔ (بنگلہ دیشی اخبارات، ۷؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
اقوامِ متحدہ کمیٹی براے انسانی حقوق (UNHRC) وہ ادارہ ہے، جو ’انسانی اور سیاسی حقوق کے عالمی معاہدوں‘ کی تشریح اور نگرانی کرتا ہے۔ اس کے مطابق: ’’سزاے موت کے فیصلوں کے عمل کو عادلانہ دفاع اور شفاف قانونی طریق کارکا اس درجے پابند ہونا چاہیے کہ کسی طرح کے شک و شبہے کی گنجایش نہ ہو۔ اور بنگلہ دیش نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ۱۸دسمبر ۲۰۰۷ء کو اس اتفاق راے پر مبنی قرارداد پر دستخط کیے ہیں، اس لیے بنگلہ دیش حکومت اس امر کی پابند ہے کہ وہ مسلّمہ عالمی عادلانہ اصولوں کی پاس داری کرے‘‘۔مگر جوشِ انتقام میں عوامی لیگی حکومت نے محمد قمرالزماں شہید کے معاملے میں اپنے تسلیم اور دستخط شدہ اصولوں کی دھجیاں اُڑائی ہیں۔
’انٹرنیشنل جیورسٹس یونین‘ (IJU) استنبول نے بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے سزاے موت سنائے جانے کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’’محمد قمرالزمان کے لیے اس انتہائی سزا کا اہتمام اپنی سیاسی مدِمقابل جماعت کو ختم کرنے کا کھلا منصوبہ ہے۔ جس ادارے کے ذریعے موت کی سزائیں سنائی جارہی ہیں، وہ کسی بھی معیار اور کسی بھی اصول کے تحت نہ تو ’عالمی‘ ہے اور نہ ’عدالت‘ کے معیار پر پورا اُترتا ہے۔ اس ضمن میں دنیا بھر کے قانون پسند اور مقتدر حضرات اور اداروں کو بنگلہ دیشی حکومت پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ اس غیرمنصفانہ سزا کو نافذ نہ کرے۔ اسی طرح خود بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کو ہیگ کے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) کے طے شدہ ضابطوں کے تحت تشکیل دیا جانا چاہیے، تاکہ کسی شک و شبہے اور زیادتی کی گنجایش نہ رہے‘‘۔(ورلڈ بلیٹن، ۸؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
شہید قمرالزمان کے بڑے بیٹے اقبال حسن نے ۱۱؍اپریل کی شام، شہادت سے چند گھنٹے پہلے اپنے والد سے ۳۵منٹ کی آخری ملاقات کے بعد جیل سے باہر نکل کر اخبارنویسوں کو بتا دیا تھا کہ: ’’میرے والد نے شہید عبدالقادر مُلّا کی طرح، ایک ظالم اور عدل کی قاتل حکومت سے رحم کی اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میرے والد کو آج صبح دو ججوں نے ملاقات میں یہ کہا کہ ’’آپ رحم کی اپیل کریں تو آپ کی جان بچ جانے کا پورا امکان ہے‘‘، مگر میرے والد نے انھیں واضح طور پر کہہ دیا:
حکومت نے جھوٹا اور بددیانتی پر مبنی مقدمہ درج کیا تھا۔ جب میں نے کسی جرم کا ارتکاب ہی نہیں کیا تو پھر میں معافی کس چیز کی مانگوں؟ میں ایسی ظالم، بدعنوان اور انسانیت کی قاتل حکومت کے صدر سے اپنی زندگی کی بھیک نہیں مانگ سکتا۔ جو آپ کے جی میں آتا ہے کریں، میرا حامی و مددگار صرف میرا اللہ ہے۔
اقبال حسن کے بقول: ’’جب ہم اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ہمراہ آخری ملاقات کے لیے والد محترم کی کوٹھڑی کے قریب پہنچنے تو وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ ہم ان سے ملنے قریب پہنچ چکے ہیں۔ مجھے اپنے والد کی پھانسی کوٹھڑی کا پتا دُور سے اُس آواز نے بتایا، جو اُن کی تلاوت قرآنِ پاک سے معمور تھی۔ جب ہم سلاخوں کے پیچھے کوٹھڑی کے قریب پہنچے تو انھوں نے مسکراہٹ سے ہمارا استقبال کیا، اور ’السلام علیکم‘ کہہ کر سب سے پہلی بات ہم سے یہ کہی کہ:
میں بنگلہ دیش میں اسلامی نظام کا نفاذ دیکھنا چاہتا تھا۔ اللہ کو میری اتنی ہی زندگی منظور ہے تو اب اگلے سفر کے لیے نوجوان اس تحریک کی قیادت سنبھالیں، اپنی بہترین صلاحیتیں پروان چڑھائیں اور ان صلاحیتوں کو اس راہ میں کھپائیں۔ ہم وطنوں کو بھارتی آلۂ کار حکومت کے ظلم اور غلامی سے بچائیں اور اس ظلم کا حساب بھی لیں۔ اس ظلم کا حساب یہ ہے کہ اس سرزمین پر اللہ کی حاکمیت قائم ہو اور اسی مقصد کے لیے جدوجہد کی جائے۔
انھوں نے ہم بہن بھائیوں کو یہ نصیحت کی کہ ہم اپنی تمام زندگی ایمان کے ساتھ اور ایمان پر عمل کے ذریعے گزاریں۔ہم اہلِ خانہ اور جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر [اسلامی جمعیت طلبہ] کے کارکنوں کو انھوں نے جو آخری پیغام دیا، وہ بہت مختصر ہے:
قرآن کو اپنا ساتھی بنائیں، قرآن کے سایے میں زندگی گزاریں ،اور قرآن و سنت ہی کو پوری زندگی کا رہنما بنائیں۔
جس وقت ہفتے کی رات ۳۰:۹ بجے محمد قمرالزمان کو پھانسی دی گئی، اُس وقت حکومتی اہتمام میں ’سیکولر کارکنوں‘ کا ایک جمگھٹا، سنٹرل جیل ڈھاکہ کے باہر: ’’پھانسی دو، پھانسی دو‘‘ کے نعرے بلند کر رہا تھا۔ پولیس اور مسلح اہل کاروں کی بڑی فورس کسی دوسرے فرد کو اس علاقے کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دے رہی تھی، مگر اس ’پسندیدہ گروہ‘ کو جیل کے قریب لے جاکر نعرے لگوانے کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔
بنگلہ روزنامہ نیادیگنتا کے مطابق جیل کے عملے نے بتایا:’’جب محمد قمرالزمان سے کہا گیا کہ: ’’وقت ہوگیا ہے، اب پھانسی گھاٹ چلنا ہے، تو وہ بسم اللہ پڑھ کر کھڑے ہوگئے۔ عملے کے دو آدمیوں نے سہارا دینے کے لیے قدم بڑھایا تو انھوں نے کسی طرح کا سہارا لینے سے انکار کردیا اور خود ہی منزل کی طرف چل پڑے۔ پھانسی گھاٹ کی طرف ان کے چلنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ساتھ دینے والا عملہ تقریباً دوڑ رہا تھا۔ یوں قمرالزمان بلندآواز میں تلاوت کرتے ہوئے پھانسی کے تختے پر جاکھڑے ہوئے اور آخری لمحے تک بغیر کسی گھبراہٹ کے تلاوت ہی میں مصروف رہے‘‘۔
اتوار کو سحری کے وقت جب شہید محمد قمرالزمان کی میّت شیرپور کے گائوں کماری بازی ٹکھالی (Kumari Bazitkhali) لائی گئی تو اس چھوٹے سے گائوں کو چاروں طرف سے پولیس، ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) اور بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (BGB)کے ہزاروں مسلح اہل کاروں نے گھیر رکھا تھا (بزدلی کی انتہا ہے)۔ سحری کے وقت صرف ۵۰؍افراد کو نمازِجنازہ پڑھنے کی اجازت دی گئی اور پاکستان کے وقت کے مطابق صبح چاربج کر ۴۵منٹ پر قمرالزمان کی تدفین عمل میں لائی گئی۔ ۸بجے کے بعد جوں ہی مسلح سرکاری اہل کاروں کا ایک حصہ وہاں سے واپس گیا، تو بی بی سی لندن کے مطابق مقامی صحافی عبدالرحمن نے بتایا:’’ بے شمار لوگ آہ و فغاں کرتے اور سسکیاں بھرتے قبرستان میں جمع ہوگئے‘‘۔ پھر کچھ دیر بعد ہزاروں لوگوں نے وہاں پر قمرالزمان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی۔
اخبارات کو جاری کیے گئے ایک خط میں محمد قمرالزمان شہید کے بیٹے حسن زمان نے لکھا ہے:
ہمیں اپنے والد گرامی کی عظیم الشان شہادت پر فخر ہے۔ اے حسینہ واجد! آپ میرے والد کو شہید کرنے میں کامیاب رہیں، لیکن آپ کو شاید علم نہیں کہ میرے والد قمرالزمان شہید جنت الفردوس میں ہیں اور آپ کے والد شیخ مجیب الرحمن جہنم کا ایندھن بنے ہیں۔ آپ نے میرے والد کو اس جرم میں پھانسی کا سزاوار ٹھیرایا کہ انھوں نے ۱۹۷۱ء میں اپنے علاقے میں امن کے قیام اور بھارتی مداخلت کے خلاف رکاوٹ بننے کی کوششیں کی تھیں۔ اگر انھوں نے وہ جرائم کیے ہوتے جو آپ نے جھوٹ پر مبنی مقدمے میں درج کیے تھے، تو علاقے کے لوگوں کو بھی اس کا کچھ علم ہوتا مگر پورے علاقے میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے ۴۲برس تک کسی ایک فرد نے بھی میرے والد کو بُرے نام سے نہیں پکارا۔ آپ نے میرے والد کو ۲۰۱۰ء میں گرفتار کرکے مختلف جیلوں اور تشدد گاہوں میں حیوانی تشدد کا نشانہ بنایا، مگر انھوں نے اس تمام تشدد کو خندہ پیشانی اور صبر سے برداشت کیا۔ آپ نے ہرحربہ اختیار کیا کہ میرے والد کو نفسیاتی طور پر توڑ دیا جائے، مگر الحمدللہ وہ ثابت قدم رہے۔ آپ کا خیال تھا کہ وہ سزاے موت کے خلاف آپ لوگوں سے زندگی کی بھیک مانگیں گے، لیکن انھوں نے آپ کی اس مذموم خواہش کو پائوں کی ٹھوکر سے اُڑا دیا۔ (بنگلہ اخبارات)
روزنامہ جسارت نے اس موقعے پر ’قمرالزمان کی پھانسی اور پاکستان کی بے حسی‘ کے زیرعنوان اپنے اداریے میں لکھا: ’’بنگلہ دیش حکومت کے تمام اقدامات خالصتاً پاکستان کے خلاف معاندانہ رویے پر مبنی ہیں۔ بنگلہ دیش کے متنازع اور غیرقانونی ٹریبونل کے مقدمات اور الزامات دراصل سب کے سب پاکستان اور پاک فوج کے خلاف چارج شیٹ ہیں، لیکن پاکستانی حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اسے بنگلہ دیش کا اندرونی مسئلہ قرار دے کر فرار کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ اس مقام تک بات پہنچانے میں مغرب، یہود اور ہنود کے زیرکنٹرول پاکستانی میڈیا نے اہم کردار اداکیا ہے، بلکہ اس کو ایجنڈا ہی یہ دیا گیا ہے کہ پاکستان، نظریۂ پاکستان اور اسلام سے وابستگی کو گالی بنا دیا جائے۔ چنانچہ [آج] جب بنگلہ دیش میں خاص طور پر جماعت اسلامی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو ہمارا میڈیا بالکل خاموش ہے… آج اگر بنگلہ دیش حکومت کو نہیں روکا گیا تو پھر وہ کل پاک فوج کے خلاف بھی اقدامات کرے گی، اور اس وقت اگر کچھ کہا گیا تو یہی یاد دلایا جائے گا کہ ’’یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے‘‘۔(۱۳؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
روزنامہ نواے وقت (۱۳؍اپریل) نے اداریے میں لکھا: ۱۹۷۱ء میں عالمی سازشوں کے نتیجے میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا۔ اس سے قبل یہ دونوں علاقے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کہلاتے تھے۔ جب بھارتی افواج اور اس کی حمایت یافتہ مکتی باہنی کے مسلح تخریب کاروں نے پاکستان کے خلاف کارروائیاں شروع کیں تو محب ِ وطن بنگالی پاکستانیوں نے اس کے خلاف حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کا ساتھ دیا۔ ان کا یہ فعل اپنے ملک کے دفاع کے لیے جائز اور برحق تھا۔ اب ۴۴برس بعد اپنے وطن کا دفاع کرنے والوں کو ’جنگی مجرم‘ قرار دے کر پھانسی پر لٹکائے جانے کا عمل نہایت افسوس ناک ہے۔ اگر یہ لوگ مجرم ہوتے تو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد انھیں تختۂ دار پر کیوں نہیں لٹکایا گیا۔ اب حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں ایسا [اس لیے] کیا جارہا ہے کہ جماعت اسلامی آج بھی بنگلہ دیش میں ایک مضبوط سیاسی جماعت ہے۔ جماعت اسلامی کے جن عہدے داروں کو پھانسی دی گئی ہے، انھوں نے بنگلہ دیش بننے کے بعد کبھی نئے ملک کی مخالفت نہیں کی، اور نہ اس کے خلاف کوئی کام کیا۔ وہ تو بنگلہ دیش کے پُرامن شہری بن کر رہے۔ پاکستان کو ایسے لوگوں کی پھانسی پر شدید ردعمل ظاہر کرنا چاہیے، کہ جن کو پاکستان کی حمایت کی سزا دی جارہی ہے، اور پاکستان کو ان لوگوں کی سزا ختم کرانے کے لیے کوششیں کرنی چاہییں‘‘۔
روزنامہ اُمت (۱۳؍اپریل)نے قمرالزمان کی شہادت پر جو خصوصی شذرہ شائع کیا، اس کا کچھ حصہ پیش ہے:
محمد قمرالزمان ۴جولائی ۱۹۵۲ء کو شیرپور کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۹ء میں میٹرک کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ کی دعوت قبول کی۔ ۱۹۷۱ء میں جب سالِ دوم کے طالب علم تھے، تو اپنے علاقے میں امن و امان کی بحالی کے لیے رضاکارانہ خدمات انجام دیں۔ ۱۹۷۶ء میں ڈھاکہ یونی ورسٹی سے ایم اے صحافت کیا۔ ۱۹۷۴ء سے ۱۹۷۷ء تک ڈھاکہ میں طلبہ کو منظم کیا اور ۶فروری ۱۹۷۷ء کو ڈھاکہ یونی ورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر کی تاسیس میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے پہلے مرکزی سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے، اور اگلے برس ۱۹۷۸ء میں مرکزی صدر منتخب ہوئے۔ تعلیم سے فارغ ہوتے ہی ۱۹۷۹ء میں جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ ۱۹۸۰ء میں عملی زندگی کا آغاز ڈھاکہ ڈائجسٹ کے مدیر منتظم کی حیثیت سے کیا۔ ۱۹۸۳ء میں ہفت روزہ سونار بنگلہ کی ادارت سنبھالی۔ روزنامہ سنگرام کی مجلس ادارت کے کلیدی رکن کی حیثیت سے اہم صحافتی خدمات انجام دیں۔ وہ بنگلہ دیش کے صحافیوں کی پیشہ ورانہ تنظیموں کے سرگرم رکن رہے، جن میں ’ڈھاکہ یونین آف جرنلسٹس‘، ’بنگلہ دیش فیڈرل یونین آف جرنلسٹس‘ اور نیشنل پریس کلب شامل ہیں۔ ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۱ء تک جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری نشرواشاعت اور ۱۹۹۲ء سے تاحال مرکزی سینیر ڈپٹی سیکرٹری جنرل تھے۔
قمرالزمان کی بے گناہی کا ثبوت ان کی پوری زندگی ہے اور جس شان سے وہ سوے دار چلے اور موت کے پھندے کو اللہ کا نام لے کر چوم کر انھوں نے اس پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ قمرالزمان ۱۹۷۱ء کے خون آشام دور کے بعد ڈھاکہ یونی ورسٹی میں اپنا سر فخر سے بلند کرتے ہوئے داخل ہوئے۔ وہی ڈھاکہ یونی ورسٹی جہاں عوامی لیگ کے طلبہ کا غلبہ تھا اور جو چھانٹ چھانٹ کر ان لوگوں کو نشانہ بنا رہے تھے، جن پر انھیں ’جنگی جرائم‘ کا شبہہ تھا۔ انھوں نے اسی یونی ورسٹی میں کھلے بندوں تعلیم حاصل کی۔ ایم اے میں اول پوزیشن حاصل کی، اسلامی چھاترو شبر کے سرگرم رکن رہے اور کسی نے ان پر انگلی نہ اُٹھائی۔ ۷۴-۱۹۷۳ء میں جب جنگی جرائم کے مرتکب افراد پر مجیب الرحمن کے دورِ حکومت میں مقدمات بنائے گئے تو ان کا کہیں ذکر نہ تھا۔ لیکن اب ۴۰برس بعد مجیب کی بیٹی اور اس کے حواریوں نے ان کو اس جھوٹے مقدمے میں محض سیاسی انتقام اور جماعت اسلامی کو زِک پہنچانے کے لیے پھانسا جسے عدالتی عمل میں ثابت نہ کیا جاسکا۔ سیکولر قوم پرستانہ ’انصاف‘ کی مثال دیکھیے کہ جن دیہات کے ۱۲۰؍افراد کو ’قتل کرنے‘ اور ’بے حُرمتی‘ اور ’لُوٹ مار‘ کا الزام لگایا گیا، وہاں سے ایک بھی گواہ پیش نہ کیا جاسکا۔ اور جو گواہ پیش کیے ان پر وکلاے صفائی کو جرح کا موقع تک نہ دیا گیا۔ محمدقمرالزمان نے اس ’عدالتی قتل گاہ‘ میں ظالموں کو ظالم کہا اور اپنی شہادت سے اپنے برحق ہونے کو ثابت کردیا۔
قمرالزمان سیاست دان اور صحافی ہی نہیں بلکہ ایک محقق اور دانش ور بھی تھے۔انھوں نے بہت سے مضامین اور متعدد بنگلہ کتب تصنیف کیں: mعصرِجدید اور اسلامی انقلاب mتحریک اسلامی اور عالمی منظرنامہ mمغرب کا چیلنج اور اسلام mانقلابی رہنما: پروفیسر غلام اعظم، جب کہ خرم مراد کی کتاب قرآن کا راستہ کا بنگلہ ترجمہ شامل ہیں۔
آج بنگلہ دیش میں جو صورتِ حال ہے، اس کے بارے میں جماعت اسلامی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن کا یہ بیان قابلِ توجہ ہے: ’’عوامی لیگی حکومت کی فسطائی حکمت عملی کے نتیجے میں نہ صرف بڑے پیمانے پر جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، بلکہ گرفتار کرتے وقت اُن پر وحشیانہ تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ان کے گھروں میں لُوٹ مار بھی کی جاتی ہے اور گھروں کے برتن، فرنیچر اور شیشے تک توڑ پھوڑ دیے جاتے ہیں۔ یہ طرزِعمل دراصل اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ اردگرد کے لوگوں میں دہشت پھیل جائے، اور خود نشانہ بننے والا گھرانہ دیر تک معاشی دبائو کی زد میں رہے۔سڑکوں پر اور مظاہروں میں ہمارے کارکنوں کو قتل کرنے کے لیے حکومتی مشینری اور عوامی لیگی کارکنوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اس نوعیت کے لاتعداد واقعات بھی ہیں: ۳؍اپریل کو گوبند گنج جیل میں اسلامی چھاترو شبر کے رکن سحرالاسلام کو تشدد کرکے شہید کردیا۔ انھیں دو ماہ قبل گرفتار کرتے وقت لاٹھیاں مار کر زخمی کر دیا تھا، اور زخمی حالت میں جیل میں ڈال دیا اور پھر تشدد کرکے مار دیا ۔ پھر ۶؍اپریل کو نواکھالی میں ’شبر‘ کے کارکن عمرفاروق کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ ۲؍اپریل کو سراج گنج میں پولیس افسر نے ’شبر‘ کے ۱۸سالہ رکن انیس الرحمن انیس کو گولی مار کر شہید کردیا۔ اسی طرح پبنہ صدر میں جماعت اسلامی کے رکن محمدشریف الاسلام کو بھرے بازار میں چھرا گھونپ کر مار دیا۔ یہ واقعات روزانہ کی بنیاد پر ریاستی، حکومتی اور سیاسی فسطائیت کی بدترین مثالیں ہیں‘‘۔
تاریخ میں یہ انوکھی مثال ہے کہ ۴۰برس گزرنے کے باوجود عوامی لیگ، ہندستان کی بی ٹیم کی پوزیشن ہی پر قائم رہنا چاہتی ہے اور اسی حیثیت میں اپنے ہی لوگوں کو مار کر اپنے بیرونی آقائوں کو خوش کرنے میں دن رات مصروف ہے۔ ایسی ظالمانہ غلامی کی مثال مسلم دنیا نے کم ہی دیکھی تھی، لیکن علاقائی قومیت و لسانیت کے بت کی پوجا کرنے والوں نے ایسی قابلِ نفرت مثال پیش کی ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عوامی لیگ، بنگلہ دیش کو ایک آزاد مسلم ملک کے طور پر ترقی دینا چاہتی ہے تو یہ اُس کی کم فہمی ہے۔ جب مسلم لیگ سے الگ ہوکر عوامی لیگ بنی تھی، تب سے اس پارٹی کا اوّلین ہدف بھارتی برہمنوں کی خوشنودی رہا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں جماعت اسلامی نے تو یقینا پاکستان کی سالمیت اور بھارتی گماشتوں اور بھارتی فوجوں کے مقابلے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھی تھی، لیکن اس کے برعکس بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے وہ عناصر جو ۱۹۷۱ء میں عملاً عوامی لیگ ہی کا حصہ تھے، اس بی این پی کو بھی عوامی لیگ دم لینے کی مہلت نہیں دینا چاہتی، کیونکہ بی این پی کا موقف بھی یہ ہے کہ: ’’بنگلہ دیش کی خودمختاری کا تحفظ کیا جائے، اسے ہمسایہ بھارت کا تابع مہمل طفیلی ریاست نہ بنایا جائے‘‘۔ یہ چیز نہ بھارت کو ہضم ہوسکتی ہے اور نہ بھارت کے بنگلہ دیشی کارندوں کو راس آسکتی ہے۔
یہ بھارت اور حسینہ واجد کے اس منصوبے کا حصہ ہے کہ جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی حلقوں کی سیاسی اور اجتماعی قوت کو بنگلہ دیش میں اس طرح کاٹ دیا جائے کہ وہ کبھی طاقت نہ پکڑسکیں۔ جماعت اسلامی کے دیگر اکابر رہنمائوں کو سزاے موت کی صف میں کھڑا کیا ہوا ہے۔ خصوصاً مئی ۲۰۱۵ء میں سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد اور غالباً مطیع الرحمن نظامی کو ہدف بنانے کا خدشہ ہے۔ بعداز شہادت احتجاج کے بجاے، ان قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے آج آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
حیرت انگیز بات ہے کہ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی انسانی ادارے اس ظلم و درندگی کو روکنے میں بہت سُست روی کے شکار دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ بنگلہ دیشی جنگی جرائم کے نام نہاد ٹریبونل نہ صرف بنگلہ دیش میں، بلکہ دنیابھر کے انصاف پسند اور غیر جانب دار حلقوں میں، کسی درجے بھی قابلِ اعتماد عدالتی ادارہ تسلیم نہیں کیے گئے۔ سبھی نے انھیں برسرِاقتدار گروہ کے سیاسی مقاصد کی تکمیل کا بدترین آلۂ شر تصور کیا ہے۔
۱۵؍اپریل ۲۰۱۵ء کو بنگلہ دیش کے اخبارات میں امریکی محکمہ خارجہ کے نام ایک خفیہ برقی پیغام افشا ہوکر شائع ہوا، جس کے مطابق: ’’عوامی لیگی حکومت کے انتہاپسند عناصر کی راے ہے کہ: ’’یہی درست وقت ہے، جب جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی پارٹیوں کو تباہ کیا جاسکتا ہے‘‘۔
بیرسٹر ٹوبی کیڈمین (Toby Cadman) برطانوی نژاد ، بین الاقوامی قانون کے عالمی ماہر ہیں۔ وہ بوسنیا اور روانڈا میں جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے ناقابلِ فراموش خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ انھوں نے بنگلہ دیش میں، جماعت اسلامی کے خلاف مقدمات کے اس عمل پر بہت سے مضامین لکھے ہیں۔ ان کے ایک مضمون سے چند حصے ملاحظہ ہوں:
’’بنگلہ دیش کا انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل مکمل طور پر ایک قومی [بنگالی] ادارہ ہے۔ اسے کسی بھی اعتبار سے بین الاقوامی نوعیت کا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بنگلہ دیش بہت سے عالمی یا بین الاقوامی معاہدوں کا پابندہے، مگر پوری کوشش کی گئی ہے کہ ۱۹۷۱ء کے واقعات کے حوالے سے قائم کردہ ٹریبونل کی کارروائی میں کسی بھی بین الاقوامی معاہدے کا کچھ خیال نہ رکھا جائے۔ پھر اس ٹریبونل کو ایک آزاد، خودمختار اور غیر جانب دار ٹریبونل کی حیثیت سے کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے مطلوب وسائل بھی فراہم نہیں کیے گئے‘‘۔
’’حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت کی پہلے دن سے یہ کوشش رہی ہے کہ کوئی بین الاقوامی ماہر قانون اس ٹریبونل کے سامنے پیش نہ ہو۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کئی عالمی ماہرین قانون نے بنگلہ دیشی حکومت کو جنگی جرائم کے ان نام نہاد مقدمات میں معاونت کی پیش کش کی، مگر ہربار اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا گیا۔ ایسا غالباً اس لیے کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت کو یہ خوف لاحق ہے کہ غیر جانب دارانہ انداز سے مقدمات چلائے جانے کی صورت میں،اس کے لیے مطلوبہ فیصلوں کا حصول ناممکن ہوگا۔اس بارے میں جیوفرے رابرٹسن کی رپورٹ بہت اہم ہے،جن کے بقول: ’’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے لیے غیرملکی اور غیر جانب دار ججوں کا تقرر لازم ہے، کیونکہ ملک کے اندر سے مقرر کیے جانے والے جج قومی عصبیت میں بہہ گئے ہیں اور قانون کے بنیادی اصولوں پر خاطرخواہ توجہ دینے میں ناکام رہے ہیں‘‘۔
’’اسی طرح بنگلہ دیش میں نام نہاد جنگی ٹریبونل کی کارروائی غیرمعمولی حد تک اُلجھی ہوئی اور متنازع ہے، جس میں انصاف کی فراہمی کے پورے عمل کو دائو پر لگادیا گیا ہے۔ مقدمات کی کارروائی کسی بھی اعتبار سے ایسی شفاف نہیں ہے کہ اس پر کہیں سے کوئی اعتراض کیا ہی نہ جاسکے۔ حالانکہ اس معاملے میں شفافیت اور جامعیت کا خیال رکھا جانا لازم ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں جانب داری اور ناانصافی کا الزام عائد کیا جانا بالکل فطری امر ہے۔ میں پورے یقین کی بنیاد پر یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ مدعا علیہان [جماعت اسلامی سے نامزد کردہ ملزمان] نے کسی بھی مرحلے پر معاملات کو خواہ مخواہ اُلجھانے اور بگاڑنے کی کوشش نہیں کی، اور ان کا ایسا کوئی ارادہ تھا ہی نہیں۔ وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ جنگی جرائم کے نام نہاد مقدمات عالمی برادری کی نگرانی میں چلائے جائیں تاکہ غیرجانب دارانہ کارروائی کے نتیجے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ مگر بدقسمتی سے اس پورے عمل کا بنیادی محرک سیاسی انتقام دکھائی دیتا ہے۔ عالمی سطح پر دنیا مجموعی طور پر یہی سمجھتی ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت ’جنگی جرائم کی تحقیقات‘ کے نام پر اور غیرمعیاری طریق کار اپنا کر محض سیاسی انتقام لے رہی ہے‘‘۔(tobycadman.com)
عالمی ادارے اس امر میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتے ہیں کہ وہ بنگلہ دیش کی غیرقانونی حکومت کو مجبور کریں کہ وہ بددیانتی پر مبنی عدالتی ڈرامے کے بجاے درست عدالتی عمل کو شروع کرے۔
نام نہاد جنگی جرائم ٹریبونل کے یہ تمام مقدمات ظاہر کرتے ہیں کہ گذشتہ برسوں میں عدلیہ میں عوامی لیگ کی سیاسی بھرتیوں نے ایسی صورت حال پیدا کردی ہے کہ وہاں کے چیف جسٹس سے لے کر نچلی سطح تک، ججوں میں انصاف کی پاس داری سے بڑھ کر زمانۂ طالب علمی کی عوامی لیگ کی سیاست پرستی رنگ جما رہی ہے۔ اسلامی قوتوں اور خصوصاً جماعت اسلامی سے نفرت کے جذبات رکھنے والے برسلز، بلجیم میں مقیم ڈاکٹر احمد ضیاء الدین اس خونیں ڈرامے کے ہدایت کار ہیں، جنھیں اکانومسٹ لندن اور وال سٹریٹ جرنل نے دسمبر ۲۰۱۲ء میں بے نقاب کردیا تھا۔ یاد رہے کہ اُس وقت مذکورہ متنازع ٹریبونل کے چیئرمین جسٹس نظام الحق اور ضیاء الدین کی اس گفتگو کو اکانومسٹ نے ان لفظوں میں شائع کیا تھا: ’’ڈاکٹر ضیاء الدین نے جسٹس نظام الحق سے کہا تھا کہ وہ جلد از جلد فیصلے نمٹائیں (فیصلوں کا مطلب سزاے موت سنانا ہے)۔ کوئی بھی آپ کو مقدمات کی سماعت سے نہیں روک سکے گا، اور ان ملزموں کو اسی سرزمین پر پھانسی دی جائے گی‘‘۔ (روزنامہ اسٹار، ڈھاکہ، ۳مارچ ۲۰۱۳ئ)۔ بیرسٹر ٹوبی کیڈمین کے بقول: ’’نظام الحق اور ضیاء الدین کی اس گفتگو سے بالکل واضح شکل سامنے آئی کہ بنگلہ دیش ’وار کرائمز ٹربیونل‘ کے سربراہ تو نظام الحق تھے، مگر وہ کام ڈاکٹر ضیاء الدین کی ہدایات کی روشنی میں کرتے تھے‘‘۔ان حقائق کی بنیاد پر نام نہاد ٹریبونل کی عدالتی دیانت کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ گیا تھا۔
اس سارے پس منظر میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاکستان کا دفاع کرنے والوں کے قتلِ عام پر پاکستان کی حکومت، سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کا رویہ تقریباً لاتعلقی کا ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خاں نے اس المیے پر جرأت مندانہ اور حقیقت پسندانہ بیان دیا، لیکن دوسری طرف وزیراعظم اور وزارتِ خارجہ کا اس ضمن میں رویہ ناقابلِ فہم اور حددرجہ مداہنت پر مبنی ہے۔یہ اس بیماری کی علامت ہے کہ ہمارے پاکستانی حکمران، دانش ور اور صحافتی حلقے اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ انھیں پروا نہیں کہ پاکستان کی تاریخ کے درست تناظر کو بگاڑا جارہا ہے اور ایک نیا جعلی تناظر تیار کیا جارہا ہے۔حالانکہ ان کا دشمن اپنی تمام تر حکمت عملی اُس تاریخ کی بنیاد پربنا رہا ہے، جو خود دشمن کے ہاتھوں مسخ کرکے لکھی اور جھوٹی داستانوں کی شکل میں پھیلائی گئی ہے۔صد افسوس کہ ہمارے مقتدر اور حکمران طبقے بھی اسی پر ایمان لابیٹھے ہیں۔
بنگلہ دیش میں تمام تر ریاستی فسطائیت دراصل اسلام پسند قوتوں کو کچلنے کی سازش ہے۔ تاہم قمرالزمان کی شہادت کے باوجود اہلِ بنگلہ دیش پُرعزم ہیں، اللہ کے اس فرمان کے پیش نظرکہ اللہ کے دین کو بہرحال غالب آکر رہنا ہے۔ وہ غلبۂ اسلام کی جدوجہد کو ایک نئے عزم، ولولے اور صبرواستقامت سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف ۶۱:۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
اسلام دشمن قوتوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ظلم و ستم اور جبر و سفاکیت سے اسلام کو غالب آنے سے نہیں روکا جاسکتا۔
قرآنِ پاک کی ہر آیت ہدایت کا منبع اور نور کا سرچشمہ ہے۔ یہ کتاب حق اور صرف حق کا ایک نہ خشک ہونے والا سمندر ہے۔ یہ بھی اس قرآن کا معجزہ کے کہ اس کی ایک ایک آیت میں ایسے حقائق کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے جن کا مکمل احاطہ فکرِ انسانی کی پوری تاریخ اورقوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کی صدیوں کی داستان بھی کماحقہ نہیں کرپائے۔ ایسی ہی ایک آیت میں فرد اورگروہ، معاشرہ اور قوم، اُمت اور انسانیت کے عروج و زوال، بنائو اور بگاڑ، ترقی اور تنزل، کامیابی اور ناکامی کے عمل (process) کی کنجی کو سنت ِالٰہی کے ایک بنیادی نکتے کی صورت میں پیش کردیا گیا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ط (الرعد ۱۳:۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
آلِ فرعون اور ان سے پہلے کی قوموں کا ذکرکرتے ہوئے اسی اصول کو یوں بیان کیا گیا ہے:
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَھَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ لا وَاَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o (الانفال ۸:۵۳) یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِعمل کو نہیں بدل دیتی۔ اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والاہے۔
دونوں آیات میں تبدیلی کا مدار ’انفس‘ کی تبدیلی کو قرار دیا گیا ہے جو فرد یا قوم کے اندرون کی پوری دنیا پر حاوی ہے۔ گویا انفس ہی وہ زمین ہے جہاں عروج و زوال کی تخم ریزی ہوتی ہے اور پھر یہی وہ بیج اور جڑ ہے جس سے تبدیلی اور انقلاب کا تناور درخت نشوونما پاتا ہے۔ تبدیلی محض بیرونی عوامل کا کرشمہ نہیں ہوتی، یہ اندر کے ایک گہرے اور ہمہ جہتی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ قرآنِ حکیم پر تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’انفس‘ سے مراد اندر کی دنیا کا ایک پورا عالم ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ’آفاق‘ سے باہر کی دنیا کا عالم مراد ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِھِمْ (حم السجدہ ۴۱:۵۳) ’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے نفس میں بھی‘‘___ انفس میں وہ تمام قوتیں شامل ہیں جن کا اثر کسی نہ کسی شکل میں انسانی عزائم، اعمال اور اس کی سعی و جہد پر پڑتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں انفس عبارت ہے تمام ذہنی اور نفسی، اخلاقی اور عملی قویٰ سے___ تبدیلی اور انقلاب کا آغاز دل و دماغ اور ذہن و اِدراک سے ایک اندرونی تبدیلی کی شکل میں ہوتا ہے جو ایمان و ایقان، افکار و احساسات، تصورات اور زندگی کے عزائم کی صورت میں فکروعمل کی صورت گری کرتی ہے۔ یہی وہ صلاحیت ہے جس سے عروج و ترقی کے سوتے ُپھوٹتے ہیں۔ فرد ہو یاقوم، وہ اپنے اخلاق اور اعمال ہی کے ذریعے بلندی یا پستی سے ہم کنار ہوتی ہے۔ مولانا ظفر علی خاں نے قرآن کے اس اصول کو بڑے سادہ اور دل نشین انداز میں یوں بیان کیا ہے ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اُمت مسلمہ کے حالات پر نظر ڈالیے یا پاکستان کے نصف صدی سے زائد کے شب وروز کا تجزیہ کیجیے، صاف نظر آتا ہے کہ بیرونی دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور شرانگیزیوں کو اگر کھل کھیلنے کا موقع ملا ہے تو وہ اسی اندرونی کمزوری کی وجہ سے۔ خرابی کی جڑ قلب و نظر کا فساد اور اندرون (انفس) کا بگاڑ ہے جس کی اصلاح کے بغیر صورتِ حال میں حقیقی تبدیلی کا امکان معدوم ہے۔ محض در و دیوار کی لیپاپوتی سے اُمت کی نشاتِ ثانیہ کا حصول ممکن نہیں۔ بلاشبہہ نظام کی اصلاح مطلوب بھی ہے اور ناگزیر بھی لیکن اس کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب اس کا نقطۂ آغاز اور محور و مرکز دلوں کی اصلاح، ایمان کی آبیاری اور انفرادی اور اجتماعی تقویٰ کا حصول اور اخلاق کی بہار ہو۔
مغربی تہذیب نے تبدیلی اور انقلاب کا جو فلسفہ پیش کیا ہے، اس کا سارا انحصار بیرون کی اصلاح اور معاشرے، ریاست اور معیشت کے نظام (structures) کی تبدیلی پر ہے، جب کہ اسلام جس انقلاب کا داعی ہے، وہ ’اندرون‘ کی اصلاح سے شروع ہوکر فرد اور معاشرہ دونوں کی مکمل قلب ِ ماہیت کردیتا ہے اور اس طرح پورے نظام کی تبدیلی پر منتج ہوتا ہے۔ اسلام اجتماعی زندگی کے بگاڑ کو اس سے بھی زیادہ خطرناک سمجھتا ہے جس کا اظہار مغرب کی فکرودانش میں کیا جاتا ہے لیکن اسلام کا دعویٰ اور تاریخ اس پر شاہد ہے کہ اجتماعی بگاڑ کی اصلاح محض اجتماعی زندگی کے دَروبست کو تبدیل کرنے سے نہیں ہوسکتی۔ ایسی صورت میں برائی نت نئے رُوپ دھار کر طرح طرح کی نئی شکلوں میں ظاہر ہوتی رہتی ہے اور مرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اجتماعی بگاڑ کی اصلاح کا راستہ بھی نفس کی اصلاح ہی کی وادی سے گزرتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے نہ سمجھ پانے کی وجہ سے مغربی تہذیب کے علَم بردار اور محض سیکولر بنیادوں پر زندگی کی تعمیر نو کے داعی برابر تاریکیوں ہی میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں اور انسانیت کے مصائب اور آلام کم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ عالم یہ ہے کہ:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
بیسویں صدی اپنے بہت سے مثبت اور منفی پہلوئوں کی وجہ سے یاد کی جائے گی لیکن عالمِ اسلام کے نقطۂ نظر سے دو پہلو بڑی اہمیت کے حامل ہیں:
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپایدار ہوگا
اسلام کی اس دعوت کو تحریکِ اسلامی اس لیے کہا گیا کہ صدیوں کے جمود کو توڑ کراسلام کو پھر اسی طرح ایک دعوت اور پیغام کی شکل میں پیش کیا گیا ہے جس طرح سرورِعالم محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاے راشدین اور صحابہ کرامؓ نے پیش کیا تھا۔ قول و فعل کی ہم آہنگی، اللہ کی رضا اور اس کے دین کے قیام کو ہر دوسری مصلحت پر غالب رکھنا اور فرد کے فکرونظر اور سیرت واخلاق سے لے کر معاشرے کے ہرہرپہلو کی اصلاح اس کا ہدف اور مزاج ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر دعوت ہے جس کا مقصدزندگی کے ہر شعبے میں اہلِ ایمان کی قیادت میں، شریعت کے مطابق اسلام کے نظامِ عدل و صلاح کا قیام ہے۔ اس تحریک نے دین و دنیا کی تفریق اور مذہب و سیاست کی دوئی کے جاہلانہ تصورات کو چیلنج کیا اور شریعت کے نفاذ اور اسلامی حکومت کے قیام کی جدوجہد کی۔ لیکن نظام کی تبدیلی کی یہ جدوجہد مغربی ماڈل پر نہیں بلکہ خالص اسلامی منہج پر ہے جس کی جڑیں ایمان، عملِ صالح،انفرادی اور اجتماعی تقویٰ اور دعوت الی الخیر میں پیوست ہیں۔ قانون اور نظام کی اصلاح، اس ہمہ گیر جدوجہد کا ایک لازمی حصہ ہے، اور یہ اس لیے کہ اجتماعی زندگی کی اصلاح کے بغیر انقلاب کا عمل مکمل نہیں ہوسکتا۔ لیکن نظام کی تبدیلی ایک وسیع تر تبدیلی کا حصہ ہے، اس سے ہٹ کر اس کا کوئی وجود نہیں۔
اجتماعی زندگی کی اصلاح اور اسلامی حکومت کے قیام پر زور دینے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ ۲۰۰سال اسلامی تاریخ کا وہ منفرد دور ہے جب اسلام اور ملت اسلامیہ قوت و اقتدار سے محروم ہوگئی اور اس کی گرفت رفتارِ زمانہ پر ڈھیلی پڑگئی۔ جو اُمت گیارہ بارہ سو سال تک ایک عالمی طاقت رہی وہ عملاً مغلوب اور محکوم ہوگئی۔ بالآخر ۱۹۲۴ء میں خلافت ِ عثمانیہ کی تحلیل سے وہ عالمی سیاسی اُفق پر سے معدوم کردی گئی۔ فطری طور پر جو چیز چھین لی گئی ہو اس کی بازیافت کو نئی جدوجہد میں ایک مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہیے تھی اور ملّی زندگی میں جہاں خلا واقع ہوگیا تھا اسے بھرنے کی ضرورت کو نمایاں کرنا اور اُبھارنا وقت کی ضرورت تھی۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی تحریکات کے پروگرام میں اُمت کی سیاسی آزادی اور متوازنِ قوت کی اسلامی تسخیر کو اہمیت حاصل ہوئی۔ لیکن اسلامی تحریکات کا یہ پروگرام ایک وسیع تر پروگرام کا حصہ ہے جو فرد کی اصلاح، معاشرے کی تعمیرنو، خیر کی قوتوں کی نظم بندی، نئی صالح قیادت اور اسلامی بنیادوں پر زندگی کے تمام شعبوں کی تعمیر سے عبارت ہے۔ یہ محض ’سیاسی اسلام‘ کا کوئی رُوپ نہیں، اسلام کی اصل دعوت کو دورِحاضر کے تناظر میں کسی سمجھوتے اور کسی مداہنت کے بغیر پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ان تحریکات کے امتیازی کردار کو سمجھے بغیر ان پر فتویٰ زنی حق و انصاف سے رُوگردانی اور دورِحاضر میں دعوت و تربیت کی مساعی اور ان کے تقاضوں کو سمجھنے میں ناکامی ہے۔
جس طرح ڈاکٹر یا حکیم مریض کو وہی دوا دیتا ہے جو مرض کا مداوا کرسکے اور وہی مقوّیات تجویز کرتا ہے جن کی کمی ہو، اسی طرح تحریکاتِ اسلامی نے بھی ان پہلوئوں کو اُجاگر کیا ہے جو نظروں سے اوجھل یا معدوم ہوگئے تھے۔
ہمارے پیش نظر پوری انسانی زندگی کی حقیقی اصلاح و فلاح ہے۔ ہم نہ محدود معنوں میں مذہبی جماعت ہیں، جس کی دل چسپیاں صرف اعتقادی و فقہی اور روحانی و اخلاقی مسائل سے متعلق ہوں اور اجتماعی زندگی کے بنائو اور بگاڑ پر اثرانداز ہونے کی عملی کوشش کرنا، جس کے دائرۂ فرض سے خارج ہو۔ اور نہ ان معنوں میں سیاسی جماعت ہی ہیں جس کی سرگرمیوں کا ہدف ہر حال میں اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی ہو۔ ہم پورے کے پورے دینِ حق کے علَم بردار ہیں جو دعوت و تربیت کے عمل سے گزر کر ایک مکمل نظامِ عدل کی شکل میں عملاً نفاذ بھی چاہتا ہے۔ ہم جس پیغامِ ہدایت و فلاح کے امین ہیں وہ اشخاص اور گروہوں کی دوستی اور دشمنی سے بالاتر ہے۔ ہم کسی فرد، گروہ یا طبقے کے مخالف نہ کبھی پہلے تھے نہ آج ہیں۔ فی الحقیقت ہم اپنی پوری قوم بلکہ پوری انسانیت کے بہی خواہ ہیں، حتیٰ کہ وہ تمام عناصر جو ہمارے مشن کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے ہمیں خواہ مخواہ اپنا دشمن تصور کربیٹھے ہیں، ہم ان کے لیے بھی اپنے ذہن کے کسی گوشے میں خیرخواہی کے سواکوئی جذبہ نہیں رکھتے۔ ہم الدین النصیحۃ (دین خیرخواہی ہے)کی ہدایت پر عمل کرتے ہیں۔
جس طرح ہماری دعوت ایک اصولی انقلاب کی دعوت ہے، اسی طرح ہماری کش مکش بھی ایک اصولی کش مکش ہے۔ دعوت و کش مکش کے اس سار ے کام سے ہمارا اصل مطلوب خدا پرست، خدا کی رضا ہی کے طالب اور بے لوث انسانوں کو تیار کرنا، ان کو منظم کرنا اور تربیت دے کر احیاے اسلام کے کام میں لگانا ہے جو اپنے ذاتی مفاد سے قطع نظر کرکے بے لوثی کے ساتھ تعمیرملت اور اصلاح اُمت کا عظیم فریضہ سرانجام دے سکیں۔ اور جن کے ذریعے ایک طرف ہم عوام کی صحیح ذہنی اور اخلاقی نشوونما کا کام کرسکیں اور دوسری طرف سیاسی نظام اور معاشی ادارات کو اسلامی تصورات کے ڈھانچے میں ڈھال سکیں۔ ہر کارکن کو اور بالخصوص ہرسطح کے ذمہ دار کو ان بنیادی حقیقتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
سب سے پہلے ذہنوں میں اس بات کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ دعوت کیا ہے جس کی طرف جماعت اسلامی پاکستان اپنے اہلِ وطن اور پوری اُمت مسلمہ کو، اور بالآخر پوری انسانیت کو بلاتی ہے؟ اس کی دعوت نہ کسی شخصیت کی طرف ہے اور نہ کسی مخصوص مسلک کی طرف۔ اس کی دعوت صرف ایک اللہ کی عبادت اور اس کے رسولؐ کی پیروی کی دعوت ہے۔ یہ اسی راستے کی دعوت ہے جس کی طرف تمام انبیاے کرام نے انسانیت کو بلایا اور جس کا آخری نمونہ اسوئہ محمدیؐ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ یہ دنیا کی زندگی کو آخرت کی کامیابی کے تابع کرنے کی دعوت ہے۔ یہ دین کے کسی جز یا اخلاق کے ایک یا چند پہلوئوں کی نہیں، پورے دین اور پوری زندگی کو صبغۃ اللّٰہ (اللہ کے رنگ) میں رنگ دینے کی دعوت ہے۔ یہ مسجد اور میدانِ کارزار، خانقاہ اور جہاد، مدرسہ اور کاروبارِ حیات، ذکروفکر اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو ایک لڑی میں پرونے اور ایک مربوط جہادِ زندگانی کے ناقابلِ تقسیم اجزا بنانے کی دعوت ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جسے اپنے اور پرائے دونوں ہی غتربود کردیتے ہیں اور تحریکی ترجیحات کو اپنے اپنے ذاتی ذوق کے مطابق نہ پاکر نکتہ سنجی فرمانے لگتے ہیں۔ ’سیاسی اسلام‘، ’راہِ تقویٰ سے انحراف‘ اور ’مسلک سلف سے فرار‘ کے طعنے دیے جانے لگتے ہیں۔ ان تمام کرم فرمائیوں پر دعوتِ اسلامی کے علَم برداروں کا ردعمل مخاصمانہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ پوری خود احتسابی کے ساتھ اپنی دعوت اور اس کے ہمہ پہلوئوں کی مخلصانہ پابندی اور وفاداری کا رویہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ صحیح مثالیہ (model) سامنے آسکے اور زبانِ حال سے غلط اندیشیوں کی تردید ہوسکے۔
اس دعوت کا خلاصہ جماعت اسلامی کے مؤسس نے دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات میں یوں بیان کیا ہے:
۱- یہ کہ ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں ان کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
۲- یہ کہ جو شخص بھی اسلام قبول کرلے، یا اس کو ماننے کا دعویٰ اور اظہار کرے، اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کرے، اور جب وہ مسلمان ہے یا بنا ہے تو مخلص مسلمان بنے اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہوجائے۔
۳- یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اورفساق و فجار کی رہنمائی میں چل رہا ہے، اور معاملاتِ دنیا کی زمامِ کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے، ہم دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت، نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے، مومنینِ صالحین کے ہاتھوں میں منتقل ہو۔
اس دعوت کو جماعت اسلامی کے دستور میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
اقامت ِ دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے، اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے، پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیے یا تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہرمومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہلِ ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگرچہ مومن کا اصل مقصدِ زندگی رضاے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیرممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت دین اور حقیقی نصب العین وہ رضاے الٰہی ہے جو اقامت دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔
فرد اور معاشرے کی اصلاح اور بالآخر انقلاب قیادت اور اسلامی نظام عدل و مساوات کے قیام کا یہ کام بہ یک وقت دو جہتوں سے مساعی کا متقاضی ہے۔ اپنی اصلاح، ایک دوسرے کی اصلاح، اور نظامِ زندگی اور قوت و اقتدار کی اصلاح___ ایک ہی کوشش اور جدوجہد کے مختلف رُخ اور پہلو ہیں جو ایک دوسرے کی تقویت اور تکمیل کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ الگ الگ دنیا نہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہر فرد کو یہ دعوت دی جائے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے، اس سے کیے ہوئے عہد (کلمہ طیبہ) کے تقاضوں کو جاننے اور پورا کرنے کی کوشش کرے۔ اپنی، اپنے خاندان، اہلِ و عیال اور اہلِ محلہ کی اصلاح کی کوشش کرے، اللہ کے تمام بندوںتک پہنچے اور انھیں بندگی کی دعوت دے، وہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ اجتماعی زندگی کے نظام اور محرکات کو اسلامی زندگی کے قیام اور فروغ کے لیے استعمال کیا جائے۔ تمام اجتماعی قوتوں، اور خصوصیت سے ریاست کے وسائل کو، ایمان کی آبیاری، صالحیت کے فروغ، نواہی کے خاتمے اور معروف کے قیام کے لیے استعمال کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں، ایک طرف ’خود اپنے کو بدلو‘ کی کوشش ہوتو دوسری طرف اجتماعی ماحول اور ریاست کے وسائل، اوامر کے نفاذ اور بدی، ظلم اور طغیان کے استیصال کے لیے استعمال ہوں، تاکہ خداکی زمین پر خدا کی مرضی پوری ہوسکے اور اس کا قانون جاری و ساری ہوسکے۔ یہ دونوں کام ایک دوسرے کے معاون اور تکمیل کرنے والے ہیں۔ ان میں ’یہ یا وہ‘ (either / or) کا تعلق نہیں بلکہ یہ دو جڑواں بھائیوں کی طرح ہیں، جیساکہ ارشاد نبویؐ ہے:
اسلام اور حکومت و ریاست دو جڑواں بھائی ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر درست نہیں ہوسکتا۔ پس اسلام کی مثال ایک عمارت کی ہے اور حکومت گویا اس کی نگہبان ہے۔ جس عمارت کی بنیاد نہ ہو وہ گر جاتی ہے اور جس کا کوئی نگہبان نہ ہو وہ لوٹ لیا جاسکتا ہے۔(کنز العمال)
آج کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ اسلام کی یہ عمارت اپنے ارکان کی بنیاد پر معاشرے میں مستحکم ہو اور حکومت وریاست اس کی نگہبانی کی ذمہ داری مؤثرانداز میں ادا کرے۔
اصلاحِ فرد و معاشرہ اور اصلاحِ حکومت اور انقلابِ قیادت ایک ہی جدوجہد کے دو پہلو اور محاذ ہیں اور ہرمحاذ اپنی جگہ اہم اور دوسرے محاذ کو تقویت دینے والا ہے۔ دعوت و تربیت کا ہدف یہ دونوں محاذ ہیں۔ کسی ایک کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ عوامی اصلاح اور تربیت، جماعت اسلامی کے لائحہ عمل کا اتنا ہی اہم پہلو ہے جتنا انقلابِ قیادت اور اسلامی حکومت کا قیام۔
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ۱۹۵۱ء میں لائحہ عمل کے جو چار نکات پیش کیے اور پھر ۱۹۵۷ء میں جن کو جماعت کی پالیسی کا مرکز و محور قرار دیا گیا تھا، انھیں آج تک جماعت کی حکمت عملی میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ مولانا مرحوم کے الفاظ میں اس کام کے بڑے بڑے شعبے اور پہلو یہ ہیں جن کی تذکیر، دعوت و تربیت کے حوالے سے ضروری معلوم ہوتی ہے تاکہ ہدف اور وژن میں کوئی ابہام نہ رہے۔
۱- عوام الناس کو اطاعت ِ خدا و رسولؐ کی طرف بلانا، ان میں آخرت کی بازپُرس کا احساس بیدار کرنا، ان کو نیکی اور بھلائی کی تلقین کرنا، اور انھیں اسلام کی حقیقت سمجھانا۔
۲- عام لوگوں کو ان ضروری احکامِ دینی سے باخبر کرنا جن کا جاننامسلمانوں کی سی زندگی بسر کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔
۳- مساجد کی حالت درست کرنا اور ان کے لیے مسلم معاشرے میں مرکزی اہمیت پیدا کرنا۔
۴- مذہبی جھگڑوں کوروکنا اور لوگوں کو اس کش مکش کے نقصانات کا احساس دلانا۔
ان اغراض کے لیے ہم صرف اخلاقی تلقین ہی پر اکتفا کرنا نہیں چاہتے بلکہ معاشرے کے شریف عناصر کو ان بُرائیوں کے مقابلے میں منظم کر کے ان کے خلاف عملی جدوجہد بھی کرنا چاہتے ہیں۔
۱- تُوْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِ ھِمْ وَتُـرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِ ھِمْ کے شرعی اصول پر بستیوں کے غریبوں، محتاجوں اور معذوروں کی باقاعدہ اعانت کا انتظام اور اس کے لیے انھی بستیوں کے ذی استطاعت لوگوں سے مدد لینا۔
۲- سرکاری محکموں اور اداروں سے عام لوگوں کی شکایات رفع کرانا اور داد رسی حاصل کرنے کے معاملے میں جس حد تک ممکن ہو، ان کی مدد کرنا۔
۳- بستیوں کے لوگوں میں اپنی مدد آپ کرنے کا جذبہ پیدا کرنا تاکہ خود ہی مل جل کر اپنی بستیوں کی صفائی اور راستوں کی درستی اور حفظانِ صحت کا انتظام کرلیا کریں۔
۱- بستیوں اور محلوں میں دارالمطالعے کھولنا۔
۲- تعلیم بالغاں کے مراکز قائم کرنا۔
۳- جہاں جہاں بستیوں کے لوگ مالی ذرائع فراہم کرنے پر تیار ہوں وہاں ایسے پرائمری اسکول قائم کرناجن میں سرکاری نصاب پڑھانے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم و تربیت کا انتظام بھی ہو۔
جماعت اسلامی کے سامنے ایک مکمل اسلامی معاشرے اور ریاست کا قیام ہے اور اس کے کارکن اس جدوجہد کو وقت کا اہم ترین چیلنج سمجھتے ہیں۔ وہ دلوں کی نگری کو ایمان اور احتساب سے منور کر کے پورے معاشرے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے منور کرنا چاہتے ہیں اور ساری جدوجہد اللہ کے بھروسے پر اس یقین کے ساتھ انجام دے رہے ہیں کہ ع
جان چو دیگر شد ، جہاں دیگر شود
( انسان کی جان (سوچ، نقطۂ نظر) صحیح سمت میں بدل جائے تو اس کے لیے یہ جہاں بھی بدل جاتا ہے)۔
ہماری دعوت کا مرکزی نکتہ قرآن کی طرف دعوت اور قرآن کے ذریعے زندگی اور نظامِ زندگی کو بدلنے کا عزم اور سعی ہے۔ الحمدللہ اس وقت بھی مطالعہ قرآن کے ہزاروں حلقے مردوں اور خواتین میں قائم ہیں۔ ہدف یہ ہے کہ پورے ملک میں مردوں اور عورتوں کے لیے بہت بڑی تعداد میں قرآن سرکل قائم کیے جائیں۔ جگہ کی قید نہیں، گھر کی بیٹھک ہو، مسجد کا دالان ہو، مدرسے کا حجرہ ہو، کالج کی کلاس ہو، درخت کی چھائوں ہو یا کمیونٹی ہال کی آسایش__ اسے قرآن کے اجتماعی مطالعے کا گہوارا بنادیا جائے۔ چھوٹا اجتماع ہو یا بڑا مجمع__ ہرمسلمان مرد اور عورت اوربچے اور جوان کو آمادہ کیا جائے کہ قرآن سے اپنا رشتہ جوڑے، اس کے معنی و مفہوم کو سمجھے اور اسے اپنے لیے کتاب ِ ہدایت بنالے۔ لمبی چوڑی علمی بحثوں اور تفسیری محفلوں کا اپنا مقام ہے اور ان کی افادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن اس پروگرام کا اصل مقصدہرمسلمان کو، خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا ناخواندہ، قرآنِ پاک کو پڑھنے اور اس کے ترجمے اور مفہوم سے واقفیت پیدا کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ مسلمانوں کی طاقت کا اصل سرچشمہ اللہ کی یہی کتاب ہے۔ جب بھی مسلمانوں نے اس کا دامن تھاما اور اس کے پیغام کو لے کر اُٹھے وہ بلندیوں اور کامیابیوں سے شادکام ہوئے، اور جب بھی وہ اس سے غافل ہوئے وہ پستیوں اور ذلتوں کی طرف لڑھک گئے۔ سب سے سچے انسان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان اللّٰہ یرفع بھذا الکتاب اقواما ویضع بہ آخرین (مسلم) ’’بے شک اللہ اس کتاب (قرآن پاک) کی بدولت بہت سی قوموں کو بامِ عروج پر پہنچائے گا اور اس (کو ترک کرنے) کے باعث دوسروں کو رُسوا کردے گا‘‘۔ اقبال نے اس حقیقت کو اپنے خاص انداز میں بیان کیا ہے ؎
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بقرآں زیستن
(اگر تو مسلمان بن کر زندہ رہنا چاہتا ہے تو یہ زندگی قرآنِ پاک کے بغیر ممکن نہیں)۔
اور ؎
ازیک آئینی مسلماں زندہ است
پیکرِ ملّت ز قرآں زندہ است
(مسلمان وحدت آئین ہی سے زندہ ہے، اور وہ آئین قرآن ہے)۔
اس کتاب پر ثبات نے دورِ اوّل میں مسلمانوں کو اوجِ ثریا سے ہم کنار کیا تھا اور یہی آج بھی ان کی قسمت بدل سکتی ہے اور انھیں ذلت اور پستی سے نکال کر امامت اور قیادت کے اعلیٰ مقامات پر متمکن کرسکتی ہے۔ سچ کہا امام مالکؒ نے: لَا یَصْلُحُ اٰخِرُ الامۃ اِلَّا بِمَا صَلَحَ بِہٖ اوَّلَھَا، اس اُمت کے آخری عہد کی اصلاح کبھی نہ ہوسکے گی مگر اس طریقے کے اختیار کرنے سے جس سے اس کے اوَلیں دور میں ترقی اور اصلاح پائی__ اور وہ ہے قرآن!
یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری دعوت میں مرکزیت صرف قرآن کی تعلیم کو حاصل ہے۔ قرآن کو باترجمہ پڑھنا اور اس کے پیغام کو سمجھنا اور سمجھانا، نیز اس کام کو انجام دینے کے لیے ہرضلع میں ایسے افراد کو تیار کرنا جو صحت کے ساتھ قرآن پڑھ سکیں، دوسروں کو پڑھاسکیں اور اس کا مطلب سمجھا سکیں۔ دعوت و تربیت کے اس پروگرام کا مقصد قرآن سے اس رشتے کو مضبوط کرنا اور اس کے ذریعے قوم کو روشنی کی راہ دکھانا اور اپنی کھوئی ہوئی منزل کی طرف گامزن کرنا ہے۔
گھر کی اصلاح اور خاندان کے یونٹ کو اقامت دین کی جدوجہد کا بنیادی مرکز بنا دینا ہماری اس دعوت کا دوسرا ہدف ہے۔ خاندان کی بنیاد محض ایک رسمی رشتہ نہیں۔ یہ تہذیب کا گہوارا اور اسلامی سیرت و کردار کی تعمیرکے لیے سب سے اوّلیں اور کارفرما ادارہ ہے۔ شریعت میں ایمانیات اور عبادات کے بعد سب سے زیادہ ہدایت جس ادارے کے بارے میں ہے وہ خاندان ہی کا ادارہ ہے۔ خود حضورپاکؐ کو دعوت کے باب میں ہدایت فرمائی گئی کہ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ o (الشعراء ۲۶:۲۱۴) ’’(پس اے نبیؐ) اپنے قریب ترین رشتے داروں کو ڈرائو‘‘ ___ تمام مسلمانوں سے فرمایا گیا: ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم ۶۶:۶)’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان والدین کو جنت کی بشارت دی جو اپنی اولاد کی صحیح تربیت کریں اور جو امانت ان کو سونپی گئی ہے اس کا حق پورا پورا ادا کردیں۔
آج خاندان کا نظام اندرونی ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت کے عمل سے دوچار ہے۔ اپنوں کی جہالت اور غفلت اور بیرونی دشمنوں کی ہمہ گیر یلغار دونوں کے باعث دین و تہذیب کا یہ حصار تباہی کی زد میں ہے۔ اس قلعے کی حفاظت اور اسے ایک بار پھر اسلامی قوت کا منبع بنانا ہماری اولیں ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مسلمان خواتین کا کردار سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن وہ اپنا کردار اسی وقت ادا کرسکتی ہیں جب ہم ان کے حقوق پورے ادا کریں اور انھیں عضو معطل بناکر نہ رکھیں بلکہ ان کو وہی مقام دیں اور مواقع فراہم کریں جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو مطلوب ہے۔ قرآن حق و باطل کی کش مکش کے سلسلے میں مردوں اور عورتوں کو ایک ہی زبان میں خطاب کرتا ہے اور ایک ہی ذمہ داری کو ادا کرنے کی طرف بلاتا ہے، لیکن ہم قرآن کی اس پکار کو غفلت سے نظرانداز کردیتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے دعوت و تربیت کے پروگراموں میں گھر کی اصلاح، اہلِ خاندان اور قرابت میں دعوتی کام اور مردوں اور خواتین کا دعوت الی الخیر، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داریوں کو اپنے اپنے دائروں، صلاحیتوں اور امکانات کے مطابق انجام دینے کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔
اس پروگرام کا ایک اور بڑا اہم حصہ بامقصد اور اسلامی اقدار پر مبنی تعلیم کا فروغ ہے۔ موجودہ تعلیمی صورتِ حال میں ضروری ہوگیا ہے کہ اہلِ خیر اچھی اور اسلامی اقدار پر مبنی تعلیم کی فراہمی کا انتظام نجی شعبے میں کریں اور ایک ایسی ملک گیر تعلیمی تحریک برپا کریں کہ ایک متبادل صحت مند نظام وجود میں آجائے۔ سرکاری سطح پر اصلاح کے امکانات کم سے کم ہونے کے بعد اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ملک و ملّت کے بہی خواہ اُوپر سے تبدیلی کا انتظار کیے بغیر اپنی نسل کو آگ کی لپیٹ سے بچانے اور اپنے دین و ثقافت کی حفاظت کے لیے جس طرح بیرونی استعمار کے دور میں اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے خود کوشاں ہوئے تھے،اسی طرح اندرونی استعمار سے ٹکر لینے کے لیے خود ہی اپنے بچوں کی بہترتعلیم کا بندوبست کریں۔ جماعت اسلامی نے ’اسلامی نظامت تعلیم‘ قائم کی ہے اور صوبائی اور مقامی سطح پر وقف کی بنیاد پر، یا خود کفالت کے نظام کے تحت ملک بھر میں اچھے تعلیمی اداروں کا ایک جال بچھا دینا چاہتی ہے۔ الحمدللہ، پچھلے چند برسوں کی کوشش سے کئی ہزار پرائمری اور سیکنڈری اسکول اس منصوبے کے تحت قائم ہوئے ہیں۔ اس سال ان میں خاطرخواہ اضافے کی کوشش کی جائے گی اور جن شہروں یا دیہات میں ابھی ایسے ادارے قائم نہیں ہوسکے ہیں وہاں مقامی آبادی اور اہلِ خیر کے تعاون سے جلد از جلد ان کے قیام کا اہتمام کیا جائے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ جس طرح مغرب کے زیراثر تعلیمی تحریک نے بقول اقبال، تعلیم کے ’تیزاب‘ میں مسلمان قوم کی خودی کو ڈال کر اپنے مفید مطلب انداز میں بگاڑنے کی کوشش کی، یہ اصلاحی تحریک اس قوم کی نئی نسلوں کو پھر اسلام کا سپاہی اور پاسبان بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی اور ان شاء اللہ ’دل بدل جائیںگے تعلیم بدل جانے سے‘۔
حکومت کی تعلیمی پالیسی پر تنقید، اس کی ناکامیوں کا احتساب اور صحیح نظام تعلیم کا مطالبہ اسی طرح جاری رہے گا لیکن اپنی مدد آپ کے تحت ایک متبادل نظام بھی قائم کرنا ضروری ہے۔
معاشرے سے ظلم و طغیان، فتنہ و فساد اور فحاشی اور عریانی کا خاتمہ، اور مظلوم کی مدد اور ظالم کا ہاتھ روکنے اور ظلم کے خلاف فضا بنانے کی کوشش بھی ہماری دعوت کا ایک حصہ ہے۔ لوگوں میں اپنے حقوق کا احساس پیدا کرنا اور حق کے لیے کھڑے ہونے کا داعیہ اور حوصلہ پیدا کرنا بھی تحریکِ اسلامی کے اہداف میں سے ہے۔ دعوتی اور تربیتی پروگرام میں معاشرے کی اصلاح کے ان پہلوئوں کو نمایاں کرنا اور اس کام کو انجام دینے کے لیے مردانِ کارتیار کرنا ایک مشکل لیکن ضروری کام ہے۔ سیاسی بیداری اور ہرسطح پر نئی اور صاف ستھری قیادت اُبھارنا بھی اسی جدوجہد کا ایک حصہ ہے۔ ممبرسازی، رابطہ کمیٹیوں کا قیام اور مجالسِ مشاورت کی تشکیل کا مقصد یہی ہے۔ یہ تمام کام اس لیے انجام دیا جا رہا ہے کہ ایک خادمِ دین اور خادمِ عوام قیادت اُبھر سکے اور بالآخر ملک کی زمامِ کار ان لوگوں کے ہاتھوں میں آسکے جو شر اور فساد، رشوت اور غبن، حقوق کی پامالی اور ظلم و استحصال کا خاتمہ کرسکیں اور معاشرے میں خیر اور فلاح کو عام کرسکیں۔
یہ وہ تحریک ہے جو دعوت و تربیت کے ذریعے معاشرے کی اصلاح، اور نئے مردانِ کار کی تیاری کرے گی تاکہ اجتماعی جدوجہد کے ذریعے نئی قیادت بروے کار آئے اور اجتماعی نظام بشمول نظامِ حکومت تبدیل ہو۔ اگر اس کا نقطۂ آغاز اپنی اصلاح ہے تو نظام کی اصلاح اور زمانے کی رو کی تبدیلی اس کا متوقع ہدف ہے۔ اور یہ سارا کام کسی دُنیوی منفعت کے لیے نہیں بلکہ صرف اللہ کی رضا، اللہ کے بندوں کی خدمت او ر آخرت کی کامیابی کے لیے انجام دیا جاناچاہیے۔ اگر یہ سارا کام اور ساری تگ ودو صرف اللہ کے بھروسے پر انجام دی جائے تو ان شاء اللہ لازماً ثمرآور ہوگی۔
ہم نے جماعت اسلامی کی دعوت کے چند پہلوئوں پر گفتگو کی ہے۔ ہرمنصوبہ محض کاغذ کا ایک پُرزہ ہے، اگر اس پر عمل نہ ہو اور اس کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے تن، من، دھن کی بازی نہ لگا دی جائے۔ ہماری دعوت اور ہمارے منصوبے کی کامیابی کا انحصا ر اللہ تعالیٰ کی استعانت کے بعد کارکنوں کے جذبے، محنت اور قربانی پر ہے۔ یہ جہاں ایک طرف ’اپنی اصلاح آپ‘ کا نسخہ ہے، وہیں دوسروں کی اصلاح اور خدمت اور معاشرے کی تعمیروتشکیل نو کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے پہلی ضرورت اللہ پر بھروسا، اس کے دامن کو تھامنا، اس سے اپنا رشتہ مضبوط اور گہرا کرنا، اس کی رضا کی طلب اور اس کی محبت کی خواہش ہے۔ جتنا یہ جذبہ مضبوط اور صائب ہوگا اتنا ہی راستہ آسان ہوجائے گا۔
اس کے لیے دوسری ضرورت خود اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ اگر شمع خود روشن نہ ہوتو دوسروں کو روشنی کیسے پہنچائے گی۔ اگر برف میں برودت اور آگ میں حرارت نہ ہو تو دوسروں کو ٹھنڈک یا گرمی کیسے پہنچا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کا نبیؐ جو داعیِ اوّل ہوتا ہے وہ سب سے پہلے ایمان لانے والا اور سب سے پہلے اطاعت کرنے والا ہوتا ہے (انا اول المومنین وانا اول المسلمین)۔ کارکن اور قیادت، ہر سطح پر، ہم میں سے ہر ایک کو، سب سے پہلے خود اپنی فکر کرنی چاہیے اور اس جذبے سے کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں خود بھی دین پر قائم رہنے اور اس راہ پر ترقی کرنے کی توفیق بخشے اور اس لائق بنائے کہ ہم شہادتِ حق کا فریضہ کماحقہٗ ادا کرسکیں۔
اس کے لیے اخلاص کے ساتھ ساتھ علم، قول و فعل کی یک رنگی، حُسنِ اخلاق، جذبۂ خدمت، حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی پاس داری، صبر اور تحمل، مسلسل جدوجہد، کوشش اور قربانی کے جذبے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے کی ایک اوربڑی اہم ضرورت اپنے دائرے سے نکل کر دوسروں تک پہنچنا، عوام میں اُٹھنا بیٹھنا، ان سے محبت اور ہمدردی کا معاملہ کرنا، ان کے دُکھ درد میں شریک ہونا اور ان کے دلوں کو موہ لینا ہے۔ یہ کام خود رائی، خودپسندی اور احساسِ برتری کے ساتھ انجام نہیں پاسکتا۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ مبارک میں جہاں ہمیں خوش اخلاقی کا اعلیٰ ترین نمونہ نظر آتا ہے (وَاِِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍo القلم ۶۸:۴)، وہیں آپؐ کے تمام معاملات، رہن سہن اور میل جول میں بلا کا انکسار اور عام انسانوں جیسی سادگی او رملنساری پائی جاتی ہے۔ حضرت عائشہؓ کی گواہی ہے: آپؐ فرماتے تھے: اِجْلِسْ کَمَا یَجْلِسُ الْعَبْدُ ،میںاسی طرح اُٹھتا بیٹھتا ہوں جس طرح خدا کا ایک عام بندہ اُٹھتا بیٹھتا ہے۔ جب آپؐ نے حضرت معاذؓ بن جبل کو یمن کا والی بناکر بھیجا تو نصیحت فرمائی: اَحْسِنْ خُلُقَکَ لِلنَّاسِ،لوگوں کے ساتھ بہتر اخلاق سے پیش آنا۔
آپؐ کے شوقِ دعوت اور دوسروں کی فکرگیری کی حالت یہ تھی کہ خود اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں آپؐ کو متوجہ فرماتا ہے کہ اے نبیؐ! شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے (لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَ لَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ o الشعراء ۲۶:۳)۔ آپؐ کی لگن اور فکرمندی کا یہ حال تھا کہ آپؐ نے فرمایا کہ لوگ پروانوں کی طرح آگ میں گر رہے ہیں اور میں ان کی کمر پکڑپکڑ کر ان کو آگ میں گرنے سے روک رہا ہوں۔ آپؐ کی استقامت کی یہ کیفیت تھی کہ آزمایش کے سخت ترین مرحلے پر بھی برملا فرمایا: خدا کی قسم! اگر تم میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لاکر رکھ دو تو پھر بھی میں بندگیِ رب کی دعوت سے قطعاً باز نہیں آئوں گا۔ میں اس راہ میں اپنی جان تو دے سکتا ہوں، پسپائی اختیار نہیں کرسکتا۔ احساسِ ذمہ داری کا یہ حال تھا کہ جب تھکے ہارے بخار کے عالم میں دارارقم میں آرام کے چند لمحات کے دوران آپؐ کو یہ اطلاع ملتی ہے کہ ایک قافلہ مکہ کے باہر آیا ہے تو دعوت پہنچانے کے لیے بے تاب ہوجاتے ہیں اور اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ کہتے ہیں آپؐ تھکے ہوئے ہیں، طبیعت بھی ناساز ہے، اس وقت آرام فرمالیں تو آپؐ کا ارشاد یہی ہوتا ہے کہ کیا خبر کل تک وہ قافلہ رخصت ہوجائے اور کیا پتا کل تک میرا ہی بلاوا آجائے۔ آرام اور استراحت ترک کردیتے ہیں اور دعوت پہنچانے کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں__ صلی اللہ علیہ وسلم!
دعوت، تربیت اور اقامت دین کا کام انجام دینے کے لیے اس عزم، اس ہمت، اس ولولے، اس احساسِ ذمہ داری اور اس مجاہدے کی ضرورت ہے ؎
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرکارواں کے لیے
بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ صرف میرکارواں ہی کے لیے نہیں، ہر کارکن اور اس منزل کے ہر راہ رو کے لیے یہی رخت ِ سفر ہے۔
اَللّٰھُمَّ اَیِّدِ الْاِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ ۔ اَللّٰھُمَّ اَنْصُرْ مَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ وَاجْعَلْنَا مِنْھُمْ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ وَلَا تَجْعَلْنَا مَعَھُمْ -
اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ، وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ
اے اللہ! جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی مدد اور اسے قائم کرنے کی سعی کریں، تو ان کی مدد فرما اور ہمیں ان میں سے کردے۔
اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو رُسوا کرے، تو ان کو رُسوا کردے اور ہم کو ان کے ساتھ نہ کرنا۔
اے اللہ! ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی پیروی کی توفیق عنایت فرما ،اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق عنایت فرما۔ آمین!
تبدیلی فون نمبر
عالمی ترجمان القرآن ادارتی دفتر، منصورہ کا فون نمبر تبدیل ہوگیا ہے۔
نیا فون نمبر: 042-35252356
اسلام وہ واحد دین ہے جو اپنے ماننے والوں سے ہر قدم پر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خالقِ کائنات کی نازل کردہ ہدایات و احکام کو غورو فکر اور تحقیق کے بعد اختیار کریں۔ اسی بنا پر قرآن و حدیث اسلام کو ’مذہب‘ نہیں بلکہ ’دین‘ قرار دیتے ہیں:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
’دین‘ قرآن کریم کی ایک جامع اصطلاح ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی بندگی اور اللہ کی حاکمیت قائم کرنے سے عبارت ہے۔ دیگر مذاہب میں اگر ان کے بنیادی معتقدات پر سوال اٹھایا جائے تو نوبت اخراج تک جا پہنچتی ہے، جب کہ اسلام چاہتا ہے کہ حق کو شعوری طور پر جانچ پرکھ کر اختیار کیا جائے۔ عقل و فکر کا یہ کردار اتنا اہم ہے کہ اسے سنت ِانبیا ؑبنا دیا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حیات ثانی کے بارے میں رب کریم سے سوالات کے ذریعے تقویت ایمان چاہی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے سفرِحکمت میں حضرت خضر ؑسے سوالات کرنے میں تکلف محسوس نہیں کیا۔
اس تناظر میں کسی غیرمسلم یا کسی مسلمان کا اسلام میں تصورِ خلافت کے پائے جانے پر استفہام نہ کسی تعجب کا باعث ہونا چاہیے اور نہ یہ ضرورت ہے کہ ایسے سوالات کے پیچھے چھپے محرکات تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بجاے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ جو سوالات اٹھائے جائیں، ان کا جواب ہدایت کے ان دو مستقل مآخذ و مصادر میں تلاش کیا جائے جو قیامت تک تمام انسانیت کے مسائل کا حل واضح اور بیّن طور پر فراہم کرتے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس اہم موضوع کا پوری علمی دیانت کے ساتھ معروضی (objective) انداز میں مطالعہ کیا جائے اور تعصب اور مرعوبیت کے ہرسایے سے اس بحث کو محفوظ رکھا جائے۔ اسلامی تحریکیں آج وجود میں نہیں آئی ہیں۔ ان کے افکار اور ان کا تاریخی کردار ایک صدی پر محیط ہے۔ دینی مدارس بھی صدیوں سے اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور جو نصاب آج رائج ہے، اس میں تبدیلی اور بہتری کی گنجایش تو بلاشبہہ ہے اور اس کی نشان دہی بھی کی جاتی رہی ہے اور کچھ اصلاحات لائی بھی گئی ہیں مگر جن نتائج کا شجرۂ نسب آج ان سے جوڑا جا رہا ہے، ان کی کوئی مثال برعظیم کی کم از کم ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ دین اور ریاست کے تعلق کو معروضی انداز میں دیکھا جائے۔
یہ سوال کہ ’خلافت‘ اسلامی اصطلاح ہے یا نہیں؟ اسے خود قرآن کریم سے کیا جائے اور جو جواب ملے، اسے محلے والوں کی ناراضی یا خوش نودی سے بلند ہو کر صدق دل سے مان لیا جائے۔ کیونکہ انسانی تعبیرات و تشریحات بظاہر کتنی ہی خوش منظر اور متاثر کن نظر آتی ہوں، ان کو اللہ کے آخری پیغام اور آخری ہادی علیہ الصلوٰۃو السلام کے ارشاد ات کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اور اگر وہ ان سے ہم آہنگ نہیں ہیں تو ان کو رد کردیا جائے گا۔
یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ قرآن کریم میں خلافت کی اصطلاح اپنی مختلف شکلوں میں ۱۴ مقامات پر استعمال ہوئی ہے۔ سورئہ نور میں فرمایا گیا:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ (النور ۲۴:۵۵) اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بناچکا ہے۔
اس آیت میں آگے چل کر فرمایا جارہا ہے کہ :
وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ م بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا ط یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا ط وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ o (النور ۲۴:۵۵) ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے اور ان کی (موجودہ) حالت ِخوف کو امن سے بدل دے گا، پس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔
استخلاف فی الارض کی یہ قرآنی اصطلاح تقریباً اسی معنی میں سورئہ اعراف میں استعمال ہوئی ہے:
قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰہِ وَ اصْبِرُوْا ج اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ قف یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ ط وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَo قَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَ مِنْ م بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ط قَالَ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَ یَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ o(الاعراف ۷: ۱۲۸-۱۲۹) موسٰی ؑ نے اپنی قوم سے کہا ’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخر کامیابی انھی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا ’’تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جارہے ہیں‘‘۔ اس نے جواب دیا: ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمھارا رب تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔
سورئہ انعام میں اسی حوالے سے فرمایا گیا:
وَ رَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُوالرَّحْمَۃِ ط اِنْ یَّشَاْ یُذْھِبْکُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْ م بَعْدِکُمْ مَّا یَشَآئُ کَمَآ اَنْشَاَکُمْ مِّنْ ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ o (الانعام ۶:۱۳۳)تمھارا رب بے نیاز ہے اور مہربانی اس کا شیوہ ہے اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور تمھاری جگہ دوسرے، جن کو چاہے، لے آئے جس طرح اس نے تمھیں کچھ اور لوگوں کی نسل سے اٹھایا ہے۔
ان تینوں مقامات پر استخلاف کی اصطلاح کی وضاحت قرآن کریم خود کر رہا ہے کہ اس کا مفہوم اللہ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ایک قوم کو خلافت یا حکمرانی کا دیا جانا ہے۔ ہم نے صرف ان تین مقامات کا ذکر اختصار کی خاطر کیا ہے ورنہ دیگر مقامات پر اور خود تخلیق آدم کے واقعے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ملائکہ سے انسان کا تعارف جس اصطلاح سے کرایا وہ خلیفہ ہی کی اصطلاح تھی۔ ظاہر ہے کہ قرآن کریم ایک نہیں ۱۴ مقامات پر اس اصطلاح کو اس کی مختلف شکلوں میں استعمال کر رہا ہے تو اسے اسلامی اصطلاح ہی ہونا چاہیے۔
اسلام کا مخاطب: فرد یا اجتماعیت
یہ سوال اٹھانا بھی کسی غیرمسلم اور مسلمان کے لیے ممنوع نہیں ہے کہ ’’کیا اسلام میں ریاست کا کوئی مذہب ہے؟‘‘ یا دوسرے الفاظ میں کیا اسلامی ریاست ایک سیکولر ریاست ہے؟ یا ایک وقت میں یورپ میں پائی جانے والی کلیسائی ریاست (Theocracy) کے مماثل ہے؟گو یہ سوال نہ تو نیا ہے اور نہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے ایک نئی بحث (discourse) یا ردِّبیانیہ (counter narrative) یا صرف بیانیہ (narrative)کا عنوان دے کر ندرت خیال تصور کرلیا جائے۔ یہ بات مستشرقین اور مغربی جامعات سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کر آنے والے دانش ور سیکڑوں مرتبہ دُہراتے رہے ہیں۔ ان دانش وروں کا اصل مسئلہ وہ تصورِ علم اور تصورِ تحقیق ہے جس کے زیر سایہ وہ اپنی اعلیٰ تعلیم کو مکمل کرتے ہیں، چنانچہ غیرمحسوس طور پر وہ تجربی طریقِ تحقیق (Empirical Research Methodology) پر ایمان بالغیب لانے کے بعد، اسی عینک سے اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں اسلام سیکولر نظر آتاہے یا تھیاکریٹک۔ اس لیے ہم نے آغاز میں یہ گزارش کی کہ اسلام اور ریاست کے موضوع پر ایک معروضی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
’جوابی بیانیہ‘ کا مرکزی تصور یہ مفروضہ ہے کہ ’’اسلام کی دعوت اصلاً فرد کے لیے ہے۔ وہ اس کے دل و دماغ پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس نے جو احکام معاشرے کو دیے ہیں، ان کا مخاطب بھی وہ افراد ہیں جو مسلمانوں کے معاشرے میں ارباب حل و عقد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دعویٰ اپنے اندر صرف جزوی صداقت رکھتا ہے، اس لیے زیادہ سے زیادہ اس کو ’نصف سچائی‘ (half truth) ہی کہا جاسکتا ہے جو ایک کے بعد دوسرے مغالطے کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے اور پورے بیانیے کو تضادات کی آماج گاہ بنادیتا ہے، اور صورتِ حال یہ ہوجاتی ہے ؎
خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
بلاشبہہ فرد کی اصلاح اسلام کی دعوت کا اہم ستون اور نقطۂ آغاز ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فرد از اوّل تا آخر اجتماعیت کا حصہ ہے۔ وہ خود اس دنیا میں اپنی کسی مرضی سے وجود میں نہیں آتا۔ اللہ کی مشیت کے مطابق دو افراد کے لیے ایک اجتماعی فیصلہ اور عمل کے نتیجے میں اس کے سفرِحیات کا آغاز ہوتا ہے۔ دوسری مخلوقات کی طرح اپنی بقا اورترقی و تکمیل کے لیے اس کا انحصار بنیادی طور پر جینیاتی (genetic )عوامل پر نہیں بلکہ جینیاتی عمل کے ساتھ ساتھ اس کو سماجی اور اداراتی عوامل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مرغی کا چوزہ انڈے سے نکلنے کے ساتھ ہی اپنا رزق تلاش کرنے کی صلاحیت لے کر آتا ہے لیکن انسان کا بچہ ماں کی گوداور اس کے دودھ کا محتاج ہے۔ تہذیب اور ثقافت کا ورثہ اسے جینیات کے ذریعے نہیں، خاندان، تعلیم اور معاشرے کی آغوش میں حاصل ہوتا ہے۔ وہ ایک خاندان، ایک معاشرے، ایک تہذیب و تمدن، ایک معیشت اور ایک ریاست میں نشوونما پاتا اور اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی دعوت کا مرکز و محور جہاں یہ فرد ہے، وہیں وہ معاشرہ، وہ اجتماع اور وہ ریاست بھی ہے جس سے اسے ہرلمحہ سابقہ درپیش ہے اور اس کی آماج گاہ ہے۔
بلاشبہہ اسلام جو نظامِ زندگی قائم کرنا چاہتا ہے، وہ فرد کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرد کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے مگر فرد کو جو مشن سونپا گیا ہے، وہ صرف اپنی اصلاح اور تزکیے تک محدود نہیں اور آخرت میں ہرفرد کو فرداً فرداً جو جواب دہی کرنی ہے، وہ صرف اس کی ذاتی زندگی تک محدود نہیں بلکہ وہ زندگی کی تمام وسعتوں پر محیط ہے۔ اسلام کی دعوت فرد اور معاشرے دونوں کے لیے ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں انسان کو پوری زندگی حق و باطل کی کش مکش کے درمیان بسر کرنی ہوتی ہے اور جو فرد اللہ کو اپنا رب تسلیم کرتا ہے، وہ پوری زندگی کو اس کی اطاعت اور بندگی میں دینے کا سودا کرتا ہے۔ اس لیے قرآن نے اس عہد کو خریدوفروخت کے ایک معاملے سے تعبیر کیا ہے کہ:
اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ قف وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ ط وَ مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ ط وَ ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ ط وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o (التوبہ ۹:۱۱۱-۱۱۲) حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں منائو اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اللہ کی طرف باربار پلٹنے والے، اس کی بندگی بجالانے والے، اس کی تعریف کے گن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے (اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے بیع کا معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبیؐ! ان مومنوں کو خوش خبری دے دو۔
سورئہ صف میں اہلِ ایمان کا کردار اس طرح واضح کیا گیا ہے:
یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ o کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ o اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ o (الصف ۶۱:۲-۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
اور پھر ان کو یہ بشارت بھی دی کہ:
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ o یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ o تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o (الصف ۶۱:۸-۱۳) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچا دے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کردے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبیؐ! اہلِ ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔
فرد کی زندگی حق و باطل اور نیکی اور بدی کے درمیان کش مکش کے درمیان گزرتی ہے اور فرد کی اصلاح کا مقصد اس کش مکش میں اس کے صحیح کردار کی ادائی ہے۔ اس پر گرفت صرف اس بات پر نہیں ہوگی کہ اس کے انفرادی کردار یا محرکات میں کیا خرابی یا کوتاہی ہے بلکہ اس پر بھی ہوگی کہ جس معاشرے میں وہ زندگی گزار رہا ہے، اس کو ظلم اور طاغوت کی حکمرانی سے نجات دلانے میں اس نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے کہ فرد کا اپنی ذات کا تزکیہ اور اجتماعی زندگی کی اصلاح اور تاریخ کے دھارے میں حق پرستی اور عدل وانصاف کی کش مکش کی جدوجہد میں تعاون ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ فرد کی اصلاح کو مرکزی اور کلیدی مقام حاصل ہے مگر دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات کا انحصار صرف فرد کی اصلاح پر نہیں بلکہ اصلاح یافتہ افراد کے اس کردار پر ہے جو وہ اپنی اصلاح کے ساتھ معاشرے کی اصلاح ، اور انسانی زندگی کے ادارے کی الہامی ہدایت کی روشنی میں تعمیر اور تشکیل نو کے لیے انجام دیتے ہیں، اور بالآخر تاریخ کے دھارے کو اللہ کی بندگی میں ڈھالنے اور انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کے قیام کے لیے انجام دیتے ہیں۔ فرد اجتماعیت کا حصہ ہے۔ معاشرے میں معیشت اور تمدن میں خیروشر کے درمیان جو کش مکش برپا ہے اس میںاحقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے لیے فرد جو کردار ادا کرتا ہے اور جدوجہد میں حصہ لیتا ہے، اس ہمہ گیر جدوجہد کا نام جہاد ہے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ یہ جہاد اپنے نفس کی اصلاح اور نفسِ امارہ کو زیر کرنے سے شروع ہوتا ہے لیکن جہاد باللسان، جہاد بالعمل اور جہاد بالسیف سے عبارت ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ ماضی میں جو مشن انبیاے کرام ؑنے انجام دیا، نبی آخرالزماںؐ کی سنت کے طور پر اب اُمت کی ذمہ داری ___ ہرہر فرد کی ہے۔ اُمت کا بحیثیت اُمت اس مقصد کے لیے اجتماعیت اور امامت کا قیام بھی ضروری ہے۔ فرد اور اجتماعیت دونوں کو اس وظیفے کو انجام دینا ہی ’اسلام‘ کا مقصود و مطلوب ہے۔ اس کا کام اقامت ِ دین ہے اور یہی استخلاف کا تقاضا ہے۔ شاہ ولی اللہ ازالۃ الخفا میں اُمت کے اس مشن کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
خلافت اس عمومی سربراہی اور ریاست ِعامہ کا نام ہے جو اقامت ِ دین کے کام کی تکمیل کے لیے وجود میں آئے۔ اس اقامت دین کے دائرے میں علومِ دینیہ کا احیا، ارکانِ اسلام کا قیام، جہاد اور اس کے متعلقات کا انتظام، مثلاً لشکروں کی ترتیب، جنگ میں حصہ لینے والوں کے حصص و مالِ غنیمت میں ان کا حق، نظام قضا کا اجرا، حدود کا قائم کرنا، مظالم اور شکایات کا ازالہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرض کی ادائی شامل ہے اور یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت اور نمایندگی میں ہونا چاہیے۔
فرد کی اصلاح اس ہمہ گیر مقصد کے لیے ہے، خود مقصود بالذات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے صاف الفاظ میں متنبہ کردیا ہے کہ فرد کی محض اپنی ذات کی اصلاح کافی نہیں مگر معاشرے کے بگاڑ کی زَد بھی اس پر پڑتی ہے، اور اگر وہ اس کی اصلاح اور اسلامی اصولوں کے مطابق اجتماع کے ہرادارے میں انصاف اور عدل کے قیام سے غافل رہتا ہے تو وہ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکے گا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ج وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ قَلْبِہٖ وَ اَنَّــہٗٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ o وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ج وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o (انفال ۸:۲۴-۲۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسولؐ کی پکار پر لبیک کہو، جب کہ رسولؐ تمھیں اُس چیز کی طرف بلائے جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جائو گے۔ اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
اسلام کا طرئہ امتیاز ہی یہ ہے کہ اس نے فرد اور اجتماعیت کے درمیان توازن قائم کیا ہے۔ نہ انفرادیت کو اس حد تک آزاد چھوڑا ہے کہ انسان اپنی ذات کے سوا کسی کو خاطر میں نہ لائے اور نہ اجتماع ،جماعت اور ریاست کو ایک شتربے مہار بننے کا موقع دیا ہے کہ فرد، اس کی آزادی، حقوق اور تعمیر میں اور تشکیلی کردار کی نفی کردے اور اسے مشین کا ایک بے جان پرزہ بنا دے۔ اس نے فرد کو اہم ترین اکائی بنایا ہے لیکن جس کلمے کی بنیاد پر وہ اللہ کا بندہ بنتا ہے اور رب کے خلیفہ کا مقام حاصل کرتا ہے، اس کلمے کی بنیاد پر اسی لمحے ملت ِ اسلامیہ او رحزب اللہ کا رکن بن جاتا ہے اور جماعت کی تقویت کا باعث اور اس کے ڈسپلن کا پابند بن جاتا ہے۔ یہ توازن اور توافق زندگی کے ہر میدان میں قائم کیا گیا ہے خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا کام و دہن کی لذت سے، خاندانی زندگی سے ہو یا معاشی سرگرمی سے، سیاست سے ہو یا معاشرت سے، ادب سے ہو یا ثقافت سے۔ بقول اقبال ؎
فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
آیئے، اسلام کے اس تاریخی کارنامے کے چند پہلوئوں پر غور کریں تاکہ اسلام اور ریاست کے تعلق کو سمجھنے اور استخلاف کے کردار کی ادائی اور اس کے تقاضوں کے صحیح ادراک اور ان کو پورا کرنے کے لیے جو منہج دین نے مقرر کیا ہے اور جس کا بہترین نمونہ حضور اکرمؐ نے مکہ اور مدینہ کی زندگی میں پیش فرمایا اور جس کا تسلسل دورِ خلافت راشدہ میں بہ تمام و کمال تاریخ کا حصہ بن گیا ہے اور اُمت کے لیے ہمیشہ کے لیے روشنی کا مینار ہے، اس منہج کی روشنی میں اجتماعیت کے بارے میں اسلام کے رویے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بات کا آغاز ہم خود عبادات پر غوروفکر سے کرتے ہیں۔
اسلام کا تصور عبادت دیگر مذاہب سے جوہری طور پر مختلف اس بنا پر ہے کہ یہاں مسئلہ محض ذاتی نجات (Personal Salvation) کا نہیں ہے بلکہ اپنے ارد گرد کے افراد کی اصلاح اور اخروی کامیابی کی فکر کا ہے۔ آخرت میں جواب دہی بھی نہ صرف انفرادی ہے بلکہ ہر مسلمان کو جواب دینا ہوگا کہ اگر اس تک صرف ایک آیت ہی پہنچی تھی تو کیا اس نے اسے دوسروں تک پہنچایا؟ اپنے ماحول، معاشرے اور دنیا میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے اپنی صلاحیت و اختیار کو کہاں تک استعمال کیا؟ قرآن کریم نے دو ٹوک انداز میں فرمایا ہے:
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم ۶۶:۶)اے لوگو جو ایمان لائے ہو بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔
اسلام کے تصور عبادت کی روح اجتماعیت میں ہے۔ وہ نماز ہو یا زکوٰۃ کا نظام یا عمرہ اور حج یا روزہ اور جہاد ہو، ہر عبادت اجتماعیت کا پہلو رکھتی ہے اور اجتماعی طور پر معروف کے قیام اور منکر اور فواحش کے انسداد کی تعلیم دیتی ہے۔
قرآن کریم نے توحید کی اساسی تعلیم کے ذریعے اس غلط فہمی کی اصلاح کر دی ہے کہ انسان اپنی زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کرسکتا ہے۔ توحید کا مطالبہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت محض اس گوشت کے لوتھڑے تک محدود نہ کردی جائے جس کا نام قلب ہے بلکہ اس قلب کو مزّکی کرنے کے بعد پورے جسم اور زندگی کی تمام وسعتوں پر اس کی حکمرانی قائم کی جائے، تاکہ جسمِ انسانی کے ساتھ کاروبارِ حیات کے تمام شعبوں میں اللہ کی حاکمیت اور حتمی اقتدار کو نافذ کیا جائے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلام فرد کا تو دین ہو لیکن جس نظام سیاسی میں وہ رہے وہ مشرکانہ، جاہلانہ یا مادہ پرست ہو۔ اگر ہم قرآن کریم سے اس کا جواب پوچھیں تو صاف طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ تسلط، اقتدار، حکم اور حرفِ آخر اگر کسی کا ہے تو وہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہے۔ صرف وہ مقتدرِ اعلیٰ (Sovereign) ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی ارشاد ہوا:
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ o مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ ط اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ o (یوسف ۱۲:۳۹-۴۰)اے زنداں کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ اکیلا اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماںروائی کا اقتدار (حاکمیت) اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی دین قیم (صحیح طریق زندگی) ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
اس آیت مبارکہ نے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ (Sovereignty) کے الفاظ استعمال کرکے یہ بات طے کر دی کہ کوئی انسان Sovereign نہیں ہو سکتا۔ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے۔ حاکمیت کا دائرہ اثر صرف ذاتی معاملات میں نہیں بلکہ یکساں طور پر سیاسی، معاشی، معاشرتی، ثقافتی، قانونی اور بین الاقوامی معاملات میں بھی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مسجد میں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اعظم، اعلیٰ اور اکبر ہو لیکن پارلیمنٹ میں پارلیمان اعلیٰ، اکبر اور اعظم بن جائے۔ اور پارلیمان طے کرے کہ اسلام کے کس حکم کو ماننا اور نافذ کرنا ہے اور کس کو نظر انداز کر دینا ہے۔ نہ یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مسجد میں تو سجدے کا مستحق ہو لیکن بازار میں کھوٹے سکے سجدے کے مستحق بن جائیں، یا نام نہاد ثقافتی دنیا میں عریانی، فحاشی اور صنم پرستی تہذیب کا معیار بن جائے۔
اسلام میں داخلہ کوئی جزوقتی کام نہیں ہے کہ جمعے کے دن مسجد میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو رب مان لیا جائے اور بقیہ دنوں میں ذاتی مفاد، شہرت اور دولت، پارلیمان کی رکنیت علامت ِبندگی بن جائے۔
خلافت کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ سیاسی نظام جس میں حکومت اور حکام اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع ہوں۔ یہ نہ تھیاکریسی ہے نہ آمریت، نہ فوجی ڈکٹیٹرشپ، نہ موروثی بادشاہت اور ملوکیت۔
خلافت، تاریخ کی روشنی میں، انبیاے کرام کی پیروی کرتے ہوئے خالق کائنات کی شریعت کو اس کی زمین پر اور اس کی مخلوق پر نافذ کرنے کا نام ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام ہوں یا حضرت سلیمان علیہ السلام یا حضرت دائود علیہ السلام، ان سب کا اسوہ استخلاف فی الارض، یعنی اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کی اعلیٰ مثال پیش کرتا ہے۔ قرآن کریم کا خود اس معاملے کو واضح کردینے کے بعد کسی دانش ورانہ نکتہ سنجی کی گنجایش باقی نہیں رہتی۔
اگر پھر بھی اصرار کیا جائے تو معروضی طور پر اس دور کے معروف مفسر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کی تالیف اسلامی ریاست (مطبوعہ لاہور، دارالتذکیر ۲۰۰۲ئ) کے صفحات ۱۸ تا ۲۴ کا مطالعہ کر لیا جائے۔ کم از کم وہ حضرات جو مجازی طور پر انھیں کسی وقت اپنا استاد مانتے رہے ہوں، ان صفحات کا مطالعہ ان کے تصورِ خلافت کے خطوط پر چھائی ہوئی دھند کو بآسانی دُور کر دے گا۔
مولانا اصلاحی اس حوالے سے خلافت کے آٹھ تضّمنات پر روشنی ڈالتے ہیں: ۱- یہ کہ خلافت کا شعور خود انسانی فطرت کا مقتضا ہے۔ ۲- یہ کہ اس زمین پر انسان کا فطری منصب ایک خود مختار اور مطلق العنان ہستی کا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اور نائب کا ہے۔ ۳- یہ کہ اس زمین پر اصل حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ۴- یہ کہ منشاے تخلیق کے اعتبار سے اس منصب کے اہل سارے انسان ہیں۔ ۵- اس منصب کی ذمہ داریوں کی ادائی میں اگر انسان اللہ کی اطاعت نہ کرے تو فساد فی الارض کا ہونا یقینی ہے۔ ۶- یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر بغیر ہدایت و رہنمائی کے نہیں چھوڑا ہے۔ ۷- یہ کہ خلافت کی اساس وطن، نسل، نسب یا قبیلہ نہیں ہے بلکہ خلافت ایک اصولی اور نظریاتی ریاست ہے۔ ۸- یہ کہ اسلام کا سیاسی نظام عدل و مساوات کو یقینی بناتا ہے۔
اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام نہیں ہے جس طرح عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں کسی جگہ یہ نہیں کہا گیا کہ مسلمان ایک قوم ہیں یا انھیں ایک ہی قوم ہونا چاہیے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ (مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں)۔ تحریک پاکستان کے مخالفین کا استدلال یہی تو تھا کہ مسلمان کوئی الگ قوم نہیں ہیں۔ چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم، مولانا حسین احمد مدنی مرحوم اور جمعیت علماے ہند کے دیگر زعما نے اس تعبیر پر ایمان رکھتے ہوئے انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ دیا، جب کہ علامہ اقبال، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبد الحامد بدایونی اور مولانا مودودی نے مسلمانوں کے ایک الگ قوم ہونے کے تصور کی نہ صرف حمایت کی بلکہ مولانا مودودی نے اپنی کتاب مسئلۂ قومیت میں جمعیت علماے ہند کے تصورِ قومیت کو قرآن و سنت کی روشنی میں رد کیا اور مسلم لیگ نے اس کتاب کو بڑے پیمانے پر ملک میں تقسیم کیا۔ مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کے حوالے سے قائد اعظم محمدعلی جناح نے ایسوسی ایٹڈ پریس امریکا کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے تصور ِ قومیت کی وضاحت اس طرح کی تھی:
ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف بہت گہرا ہے اور اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہم ایک قوم ہیں، ہماری نمایاں ثقافت اور تہذیب، زبان اور ادب، فن اور تعمیرات، نام اور نام رکھنے کا نظام ہے۔ نسبت اور تناسب کا شعور، قانون اور اخلاقی ضابطے، رواج اور جنتری، تاریخ اور روایات، میلان طبع اور اُمنگوں کے اعتبار سے۔ مختصراً زندگی اور زندگی کے متعلق ہمارا اپنا نمایاں نقطۂ نظر ہے بین الاقوامی قانون کے جملہ ضابطوں کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدسوم، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، امریکی نامہ نگار سے گفتگو، بمبئی، یکم جولائی ۱۹۴۲ئ، ص ۶۷)
قرآن کریم اہل ایمان کو ایک دوسرے کا بھائی اور ایک سیسہ پلائی دیوار اور ـ’خیر اُمت‘ یا ’اُمت وسط‘ کے نام سے پکارتا ہے۔ اس امت کی بنیاد نہ رنگ ہے، نہ نسل، نہ زبان، نہ جغرافیائی سرحدیں۔ اس کا نظریۂ حیات اسے ایک قوم میں تبدیل کر دیتا ہے۔ پاکستان کا وجود میں آنا اس کی روشن دلیل ہے۔ برعظیم کے پٹھان ہوں یا پنجابی یا سندھی اور بلوچ، ان کی پہچان اور تشخص واحد قوم کی شکل میں پاکستانی ہونا ہے۔
مولانا حسین احمد مدنی مرحوم پر علامہ اقبال کی شدید تنقید اور یہ سوال اُٹھانا کہ ہند میں مسلمان سیّد بھی ہیں، مرزا بھی ہیں، افغان بھی ہیں لیکن ان سب حوالوں کے ساتھ کیا وہ مسلمان بھی ہیں؟ دراصل نسل اور ذات پر مبنی قومیت کے علَم برداروں کے موقف پر یہ بات واضح کرنا تھا کہ ان کی یک جہتی اور ایک قوم ہونے کی اصل بنیاد اسلام ہے۔
قرآن کریم نے مختلف مقامات پر اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں کا تذکرہ کرکے اس غلط فہمی کہ ’’ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘‘ کی اصلاح کر دی ہے۔ فرمایا گیا:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ط (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ (نظام) نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔
ان چار اہم کاموں کو کون کرے گا؟ کون زکوٰۃ وصول کرکے تقسیم کرے گا؟ محصلین زکوٰۃ کا تقرر کون کرے گا؟ کیا لوگ بزعم خود محـصلین زکوٰۃ بن جائیں گے؟ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ریاست پر عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام وسائل کو بھلائی کے قائم کرنے اور منکروفحش کو دُور کرنے میں صرف کرے اس کی تمام انتظامیہ منکر کو مٹانے میں لگ جائے۔
آیت کا واضح مفہوم سیاسی اقتدار کے ذریعے بھلائی کو عام کرنا اور منکر و فحش کو دُور کرناہے۔ اگر اسلام ایک انفرادی دین ہے تو پھر قرآنی قوانین و حدود کا اجرا کون کرے گا؟ قاضی کا تقرر کون کرے گا؟ جہاد کا اعلان کون کرے گا؟ کیا یہ سب کام انفرادی طور پر کیے جائیں گے اور اگر کیے جائیں تو کیا کوئی نظم و ضبط اور قانون کا احترام ہو سکتا ہے؟ یا اسلام کے ہر حکم کی روح کے مطابق تعمیل اسی وقت ممکن ہے جب اقتدار اور ریاست مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے تابع ہو۔
یہ کہنا کہ شرک، کفر اور ارتداد یقینا سنگین جرائم ہیں لیکن ان کی سزا کوئی انسان نہیں دے سکتا، قرآن کریم کے واضح احکامات سے متصادم ہے۔ قرآن کریم مسلسل نبی کریمؐ اور اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ:وَ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَھَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo ’’ ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے‘‘ (انفال ۸:۲۹)۔ نہ صرف یہ بلکہ رسولؐ اللہ سے کہا گیا ہے کہ وہ اہل ایمان کو جنگ پر ابھاریں۔یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ (انفال۸:۶۵) ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر ابھارو‘‘۔ اللہ چاہتا ہے کہ مشرکین اور کفار کے خلاف گھوڑے تیار رکھے جائیں ۔
آخر ان تمام احکامات کی ضرورت کیا تھی اگر کفروشرک کی سزا صرف یوم الحساب کے بعد ہی دی جانی تھی! مشرکین اور کفار کا آخری ٹھکانا تو جہنم ہو گا ہی لیکن اس دنیا میں ان کے خلاف جہاد کا حکم دوٹوک الفاظ میں دیا گیا ہے: یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ ط وَمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ ط وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ o (التوبہ ۹:۷۳)’’اے نبی، کفار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آئو۔ آخر کار ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بدترین جاے قرار ہے‘‘۔
شرک اور کفر ہی نہیں جو لوگ اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ کرتے یا زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ ان کو بھی اس دنیا میں سزا دے۔ ’’جو لوگ اللہ سے اور اس کے رسولؐ سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلاوطن کردیے جائیں۔یہ ذلت و رُسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لیے اس سے بڑی سزا ہے‘‘(المائدہ ۵:۳۳)۔ اس دنیا میں سزا کا نفاذ کون کرے گا اگر ریاست قرآن و رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ رکھتی ہو اور اگر ہر گمراہی کی سزا صرف آخرت میں دی جانی ہو؟ علمی دیانت کا تقاضا ہے کہ خلط ِمبحث نہ کیا جائے اور قرآن کریم اور سنت مطہرہ کے واضح احکام کو بلا کسی دلیل کے مختلف فیہ نہ بنا یا جائے۔ اس طرزِ فکر (mind-set) کو نہ تو جدت سے اور نہ اجتہاد سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اختلافِ راے بلاشبہہ اُمت کے لیے رحمت ہے لیکن اسی وقت تک جب اختلاف ادب کے دائرے میں کیا جائے۔ اسلام کی بنیادوں کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ نکالنا دین کی حکمت سے متعارض رویہ ہے۔
قرآن کریم اور دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان، قرآن و سنت کو پارلیمان سے بالا قرار دیتا ہے، اس لیے اگر تمام دانش ور مل کر بھی یہ مطالبہ کریں کہ پارلیمان حرفِ آخر ہونی چاہیے، تو قیامت تک نہ اُمت ِمسلمہ کا ضمیر اور نہ دستورِ پاکستان اس طرزِ فکر کو درست تسلیم کرے گا۔
ہمارے ملک کے ابلاغِ عامہ میں، خواہ وہ اخباری صحافت ہو یا برقی ابلاغِ عامہ، گذشتہ دودہائیوں سے مسلسل ایک بات کی تکرار کی جارہی ہے کہ دینی مدارس کا نصاب انتہاپسندی پیدا کرتا ہے۔ ایک سوال عموماً نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ اگر یہ وہی نصاب ہے جسے مُلّا نظام الدین سیالوی نے مرتب کیا تھا اور جسے دیوبند، سہارن پور اور بریلی کے مدارس میں اور بعض اصلاحات کے ساتھ فرنگی محل اور بعد میں ندوۃ العلماء میں بطور بنیاد کے استعمال کیا گیا تو کیا ان تمام مدارس سے صرف دہشت گرد اور انتہاپسند ہی پیدا ہوئے؟
کیا صورتِ حال کچھ ایسی نہیں ہے کہ جہادِ افغانستان کے بعد جب ہوا کا رُخ بدلا تو جو کل تک مجاہد تھے،وہ دہشت گرد قرار دیے جانے لگے۔ مزید یہ کہ جن مدارس کے طلبہ کو تربیت دے کر طالبان کے نام سے افغانستان کی حکومت کے خلاف کھڑا کیا گیا وہی ہوا کا رُخ بدلنے پر شدت پسند اور جدیدیت کے لیے خطرہ بن گئے۔
یہ سوال بھی غورطلب ہے کہ کیا سیکولر تعلیم اعتدال پسندی، رواداری، صبروتحمل اور انکساری پیدا کرتی ہے یا سیکولرازم خود ایک انتہاپسندانہ تصور ہے جو اپنی حقانیت کے علاوہ کسی اور بات کو حق نہیں مانتا، اور خصوصاً دین کو ذاتی معاملہ قرار دے کر مسجد، چرچ یا مندر تک محدود کردینے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ کیا اسی کا نام رواداری، برداشت اور تکثیریت (Pluralism)ہے؟
اسی سلسلۂ کلام میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اسلامی تحریکات اور مذہبی و سیاسی جماعتیں شب و روز انتہاپسندی کی تبلیغ کرتی ہیں۔ اس تجاہلِ عارفانہ پر سواے حیرت کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ تحریکاتِ اسلامی وہ واحد ادارہ ہیں جنھوں نے فرقہ واریت، مسلک پرستی اور تنگ نظری اور عدم رواداری کے خلاف ہمیشہ جدوجہد کی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تحریکات ِاسلامی اجتہادی تحریکات ہیں جو مروجہ محدود مذہبیت سے ہٹ کر دین کی جامع اور متحرک تصویر پیش کرتی ہیں تو بے جانہ ہوگا۔ انڈونیشیا، ترکی، شام، سوڈان ہو یا ’پاکستان اسلامی تحریکات نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اور اپنے اپنے انداز میں ہمیشہ شدت پسندی اور انتہاپسندی کے منطقی رد اور علمی محاکمے کے ذریعے ایک متوازن اور عدل پر مبنی معاشرے کے قیام کی جدوجہد کی ہے۔ حتیٰ کہ وہ جماعتیں بھی جن کی پہچان میں مسلک کا بھی ایک کردار اور رنگ ہے، مثلاً: جمعیت علماے پاکستان یا جمعیت علماے اسلام یا جماعت اہلِ حدیث یا تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ، وہ بھی دستوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں، اور پاکستان کے دستور میں طے شدہ شورائی اور جمہوری نظام ہی کو اپنی سیاست کا مرکز و محور بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ جس دستور کو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا ہے اور جس میں اسلام کے کم سے کم تقاضوں کو سمودیا گیا ہے، اس پر اس کی اصل روح کے مطابق مکمل طور پرعمل کیا جائے اور جو بھی اس دستور کا منکر یا اس سے منحرف ہو اس سے اپنا رستہ جدا رکھیں۔
پاکستان کے تناظر میں تحریکِ اسلامی نے ہمیشہ دستوری ذرائع سے ہی ملک میں اصلاح اور تبدیلی کو درست سمجھا ہے اور اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔علمِ سیاست کا ہرطالب علم اس امر سے آگاہ ہے کہ ریاست مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ یہ تینوں اعضا دستور کے تحفظ کے ذمہ دار اور امین ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر ایک دستور جس پر ایک ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا ہو، ریاست کو اسلامی قرار دیتا ہو اور حکمرانی کے لیے بھی اسلام پر ایمان اور اسلام کے نفاذ کا عہد، عہدنامۂ صدارت و وزارتِ عظمیٰ میں شامل ہو، تو پھر یہ کہنا کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہیے، ایک خواہش تو ہوسکتی ہے لیکن اسے دستور سے وفاداری نہیں کہا جاسکتا۔
اسلام حکمرانی کے آداب میں اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ حکمران اور قاضی بغیر کسی تعصب اور فرقہ پسندی کے عدل اور مکمل عدل کے ساتھ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے معاملات کا فیصلہ کریں۔ اس لیے ریاست اور ریاست کے اہل کاروں کا ایمان دار ہونا ہی عدل و انصاف کی ضمانت دے سکتا ہے۔ ایمان اور تقویٰ میں جتنی کمی ہوگی، ظلم و ناانصافی میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ ایک سیکولر نظام اپنے آپ کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ سے آزاد قرار دیتا ہے، اس لیے ایسے نظام میں خداخوفی کے ساتھ فیصلہ کرنے کا کوئی منطقی جواز نہیں رہتا۔ چنانچہ نفسا نفسی، اقرباپروری اور ظلم و استحصال بغیر کسی رکاوٹ کے معاشرے کو اپنا شکار بنا لیتا ہے۔
اسلامی ریاست انبیاے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی سنت ہے اور مدینہ منورہ میں قائم کی جانے والی اسلامی ریاست میں ہمیں وہ اصول کارفرما نظر آتے ہیں جو قیامت تک کسی بھی معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ پاکستان کے قیام کا مقصد اس کے بانیوں کی نگاہ میںصرف اور صرف یہی تھا کہ یہاں قرآن و سنت کا نظام رائج ہو اور یہ دنیا کے سامنے اسلامی ریاست کی شکل میں ایک قابلِ عمل نمونہ پیش کرسکے۔
ایک جانب یہ اصرار کہ نمازِ عید اور جمعہ سربراہِ مملکت پڑھائے اور دوسری جانب یہ تصور کہ ریاست سے نفاذِ شریعت کا مطالبہ بھی نہ کیا جائے___ ایک گہرے تضاد کا پتا دیتا ہے۔ دین اسلام مکمل نظامِ حیات ہے۔ یہ مناسکِ عبودیت کو مسجد تک محدود نہیں کرتا بلکہ عدلیہ اور مقننہ کو بھی اللہ کی بندگی کا پابند بناتا ہے۔ مقننہ وہی قانون سازی کرسکتی ہے جو قرآن و سنت سے مطابقت رکھتی ہو۔ اس لیے ریاست کے فرائضِ منصبی میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ملک سے قتل و غارت گری کو ختم کرنے کے لیے اپنی قوتِ نافذہ استعمال کرے۔ وہ ظلم و بغاوت کو دُور کرے۔ وہ انسانوں کو ان کے حقوق دلائے اور مقاصد ِ شریعت جو مقاصد ِ انسانیت بھی ہیں کا تحفظ کرتے ہوئے دین، جان، عزت، عقل، نسل اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائی ریاستی سرپرستی اور نگرانی میں انجام دے۔
اسلامی ریاست کا اپنا تشخص ہے اور وہ روایتی مذہبی ریاست (Theocracy) اور لبرل لادینی قومی ریاست (Liberal Secular Nation State) دونوں سے یکسر مختلف ہے۔ اس میں کسی مذہبی گروہ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی راے دوسروں پر مسلط کرے، یا اللہ کے نام پر اپنی حکمرانی قائم کرے۔ اسی طرح یہ لبرل سیکولر ریاست سے بھی مختلف ہے جہاں عوام کی حاکمیت کے نام پر ریاست اخلاق اور اقدار کی ہرقید سے آزاد ہوجائے اور حلال و حرام اور حق و باطل کو انسانی اغراض اور اہوا کا تابع بنا دے۔
مغرب میں جسے ’قومی ریاست‘ (National State)کہا جاتا ہے، وہ اپنا ایک خاص تاریخی پس منظر رکھتی ہے اور اس کا کوئی ایک متفق علیہ ماڈل بھی نہیں ہے۔ نیز قومی ریاستوں میں ایک سے زیادہ قومیں بستی ہیں اور تمام اقلیتوں کے مساوی حقوق کے دعووں کے باوجود رنگ، نسل، زبان، قومیت، مذہب اور ثقافت کی بنیاد پر اقلیتوں سے امتیازی سلوک کیاجاتا ہے۔ پھر پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد استعماری طاقتوں نے اپنے مفاد کے مطابق اور اپنے اقتدار اور اثرات کو دوام دینے کے لیے سیاسی نقشے کی کتربیونت کی ہے اور مختلف تعصبات کو فروغ دے کر اپنے مفاد میں ریاستوں کو وجود بخشا ہے اور انھیں قومی ریاستوں کا عنوان دیا ہے۔ عرب دنیا اور افریقہ میں یہ کھیل بڑی چالاکی اور عیاری سے کھیلا گیا اور اب بھی کھیلا جا رہا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود متعدد قومی ریاستوں پر مذہب کی چھاپ موجود ہے۔ فرانس سیکولرزم کے نام پر ایک نظریاتی دہشت گردی کا مرتکب ہے۔ اسرائیل مُصر ہے کہ وہ ایک یہودی ریاست ہے۔ نیپال ایک ہندو ریاست اور برما ایک بدھ مت کی علَم بردار ریاست ہے۔ عیسائیت کہیں Liberation Theology اور کہیں Christian Democracy کے جھنڈے تلے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اور بھارت جسے سب سے بڑی جمہوری ریاست کہا جاتا ہے وہ ’ہندوتوا‘ کی نقیب ہے مگر ساتھ ساتھ ’سیکولر نیشن اسٹیٹ‘ ہونے کی بھی دعوے دار ہے۔
یورپ اور امریکا کی جدید تاریخ پر نظرڈالیں تو اس نیشن اسٹیٹ نے عالمی سامراجی نظام کے فروغ اور دنیا کو الم ناک جنگوں کی آگ میں جھونکنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اور دوسری جنگ ِعظیم کے بعد خود یورپ میں جو ہوائیں چل رہی ہیں، ان کا عنوان Beyond Nation State ہے اور یورپی یونین پانچ ریاستوں سے ۱۹۵۸ء میں اپنے سفر کا آغاز کرکے آج ۲۸ریاستوں کا ایک Supranational Political Order قائم کرنے کے سفر میں سرگرمِ عمل ہے۔ ایک کرنسی اور ایک مرکزی بنک بن گیا ہے۔ یورپین پارلیمنٹ اور یورپین کورٹ وجود میں آچکے ہیں لیکن ہمارے دانش ور ہیں کہ ابھی تک ’نیشن اسٹیٹ‘ ہی کو نمونہ اور مثالیہ بنانے پر مصر ہیں۔
اسلامی ریاست اللہ کی حاکمیت، انسان کی خلافت، قرآن و سنت کی بالادستی اور تمام انسانوں کے درمیان انصاف اور عدل کے ساتھ مشاورت کی بنا پر حکمرانی کا تصور دیتی ہے۔ انسانی حقوق کا تحفظ محض ایک سیاسی مصلحت نہیں بلکہ دین کا تقاضا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضمانت کا ثمرہ ہے۔ اسلام کے نام پر اگر چند گروہ کوئی غلط رویہ اختیار کرتے ہیں تو ان کی غلطی پر بھرپور گرفت اور ہرغلط کاری کا سدباب ہونا چاہیے لیکن اس طرح کے انحرافات کی بنیاد پر اسلامی ریاست کے تصور ہی کو غیرضروری قرار دینا ایک ایسی جسارت ہے جس سے دین کا حلیہ ہی بگڑ جائے گا۔ وہ کون سا مذہب اور نظریہ ہے جس کے نام پر کچھ لوگوں نے غلط کاری نہ کی ہو۔ جو بھی کسی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے اس پر گرفت اور غلطی کے حجم کی مناسبت سے جوابی اقدام حق بجانب ہے لیکن اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا کہ ایسے بودے سہارے لے کر دین کے مسلمات ہی کو مسخ کرنے اور نت نئے بیانیے وضع کرنے کا راستہ کھولا جائے۔ یہ فتنہ اور فساد کا راستہ ہے اور ہم اس سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
معاشرہ کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ زندگی اور موت، تعمیر اور تخریب کا معاشرتی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ تاہم جب موت کے سایے گہرے اور تخریب کے حوالے بڑھ جائیں تو معاشرہ بیماری کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال میں زندگی اور تعمیر کی قوتوں کے لیے ناگزیر ہوجاتا ہے کہ وہ اپنا بھرپور اورمثبت کردار ادا کرکے معاشرے کو زندگی اور تعمیر کا نمونہ بنائیں۔
پاکستانی معاشرہ بھی اسی طرح کی کش مکش سے دوچار ہے۔ یہاں ایک طرف اگر تعمیر کا نشان بلند ہوتا ہے تو ساتھ ہی تخریب کی موجیں اسے زیرآب لے جانے کے لیے اُمڈ آتی ہیں۔ پاکستان کی نئی نسل کے لیے آج کے حالات کی شدت بے مثال ہے، لیکن انھیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ: ’ہم لائے ہیں طوفاں سے کشتی نکال کے‘ بھی ایک حقیقت ہے۔ ہمارا معاشرہ آج اچانک کسی عفریت کے جبڑوں میں نہیں جکڑا گیا، بلکہ یہ کام بہت پہلے شروع ہوا، اور یہ عفریت اپنی کینچلی اور رنگ بدل بدل کر اس معاشرے کی کمرتوڑنے کے درپے رہا ہے۔ یہ سب کچھ یکایک رُونما نہیں ہوگیا بلکہ اس میں درجہ بدرجہ بہت سی قوتوں نے حصہ ڈالا ہے، بالخصوص طاقت ور منفی طبقوں نے!
یہاں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ (۲۵ ستمبر ۱۹۰۳ئ-۲۲ستمبر ۱۹۷۹ئ)کی چند تحریروں اور بیانات کی روشنی میں پاکستانی تاریخ کے اوراق اُلٹے ہیں کہ اس موسمِ خزاں نے گلستانِ وطن کو کس کس طرح اُجاڑا ہے۔
پاکستان میں دستور سازی کا عمل ابتدائی منازل طے کررہا تھا، مگر طاقت کے حریص طبقے، ملک و قوم کے مستقبل سے بے پروا ہوکر باہم جنگ و جدل میں مصروف تھے۔ مغربی پاکستان سے جاگیردارانہ پس منظر کے حامل سیاست دان، کھلے عام اعلیٰ سول افسروں سے مل کر اور پس پردہ اعلیٰ فوجی افسروں سے سازباز کرکے، زیر تشکیل دستور میں نقب لگا رہے تھے۔ وہ اس امر سے بے پروا تھے کہ اس کا نتیجہ مشرقی پاکستان میں کیا نکلے گا اور خود یہاں مغربی پاکستان میں کیا عذاب آئے گا۔ جدید تعلیم یافتہ اور انگریزی طور طریقوں کا رسیا یہ حاکم طبقہ اپنی دُھن میں ہرچیز کو تہس نہس کر رہا تھا۔ ۱۴؍اکتوبر ۱۹۵۰ء کو مولانا مودودی نے قوم کو متنبہ کرتے ہوئے لاہور میں خطاب کے دوران کہا تھا:
کسی زندہ قوم کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ چند آدمیوں کے ہاتھ میں دے کر خاموش بیٹھ جائے، اور ان کی مرضی پر چھوڑ دے کہ وہ جس طرح چاہیں ملک کے نظام کو ڈھال دیں۔(سیّد مودودی: دستوری سفارشات پر تنقید و تبصرہ،ص ۴۱)
دراصل وہ خبردار کر رہے تھے کہ قومی معاملات کو چند ہاتھوں میں دے دینے کا نتیجہ محلاتی سازشوں اور ان کے نتیجے میں تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔ ظاہر ہے کہ ملک میں لاقانونیت اور غیردستوری کلچر کے فروغ سے ظلم کے علاوہ کون سی فصل برگ و بار لاسکتی ہے؟ اور جب مسئلہ ملک کے دفاع کا ہو تو حسِ انصاف کو بیدار رکھنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے، بجاے اس کے کہ جنگی صورتِ حال میں عدل کو بھی گولی کا نشانہ بنادیا جائے۔ یہاں مولانا مودودی کی ایک طویل تقریر سے اقتباس دیا جا رہا ہے۔ یہ تقریر انھوں نے ۲۲جولائی ۱۹۵۱ء کو لاہور میں کی تھی۔ تب بھارتی افواج، پاکستان پر حملے کے لیے تیار کھڑی تھیں اور ملک سخت ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھا۔ مولانا نے بنیادی اخلاقی اصولوں کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے فرمایا تھا:
یہ بات ہرجگہ ذہن نشین کرانے کی کوشش کریں کہ [قومی] مورال کے بحال رکھنے کے لیے جھوٹ کے بجاے سچ کا ہتھیار استعمال کیا جائے۔ خالی خولی پُرجوش باتوں سے مورال اگر بحال ہو بھی جائے تو یہ مستقل نہیں، عارضی ہوتا ہے۔
ایک اور چیز جسے دفاع کے معاملے میں خاص اہمیت حاصل ہے، وہ یہ ہے کہ ملک کے اندر ظلم و ستم اور بے انصافیوں اور حق تلفیوں کو قطعی طور پر بند ہونا چاہیے۔ ظلم سے بڑھ کر قومی دفاع کو کمزور کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سرزمین [پاکستان] ہمارا نہیں بلکہ اسلام کا گھر ہے۔ ہمارے لیے یہ سب سے بڑی نعمت ہے، اور ہم ہرقیمت پر اس کی حفاظت کے لیے تیار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ہرمسلمان میں اس نعمت کی قدر کا جذبہ پیدا کریں، اور اس کے قلب و روح میں یہ خیال جاگزیں کردیں کہ اس نعمت کی حفاظت میں کوئی قربانی بھی گراں نہیں ہے۔l(اخبار سہ روزہ کوثر، لاہور، ۲۸جولائی ۱۹۵۱ئ)
اس تقریر میں مولانا مودودی نے جنگی صورتِ حال میں جھوٹے پروپیگنڈے کی اشاعت اور ’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت محض جوشیلے طرزِ بیان کی نفی کی ہے۔ ساتھ ہی یہ بتایا ہے کہ بھلے لوگو، جب ملک جنگی صورتِ حال سے دوچارہو تو اپنے معاشرے میں اور زیادہ عدل و انصاف کی دولت لٹائو، نہ کہ عدل و انصاف کو صدمہ پہنچائو، اور یہ بھی کہ اسلام کے گھر کے مانند پاکستان کی حفاظت کرنے کے لیے ہر آن تیار بھی رہو۔
اس تقریر کو اڑھائی ماہ اور پاکستان کو قائم ہوئے ابھی چار برس گزرے تھے کہ اوّلین وزیراعظم لیاقت علی خاں کے قتل (۱۶؍اکتوبر ۱۹۵۱ئ) نے پاکستان کو خونیں دلدل میں دھکیل دیا۔ تلوار اور تشدد کے اس پہلو کو مولانا مودودی نے ’قاضیِ شمشیر‘ کی اصطلاح سے منسوب کیا، اور جماعت ِ اسلامی کے کُل پاکستان اجتماع منعقدہ کراچی میں خطاب کے دوران فرمایا:
کسی ملک کے لیے اس سے بڑھ کر اور کوئی بدقسمتی نہیں ہوسکتی کہ اس میں فیصلے کا آخری اختیار عقل، شعور، دلیل اور راے عام سے چھین کر ’قاضیِ شمشیر‘ کے سپرد کردیا جائے۔ یہ قاضی کوئی عادل اور صاحب ِ فکر قاضی نہیں ہے۔ یہ اندھا، بہرا اور گونگا قاضی ہے۔ اس سے جب کبھی فیصلہ چاہا گیا ہے ، اس نے حق اور انصاف دیکھ کر نہیں، بلکہ خون کی رشوت لے کر فیصلہ کیا ہے، اور جس نے بھی زیادہ خون چٹا دیا، اسی کے حق میں اس نے فیصلہ دیا ہے، خواہ وہ حق پر ہو یا ناحق پر، خواہ وہ نیک ہو یا نہ ہو۔
کوئی قوم جو خود اپنی دشمن نہ ہو، اور جس کی عقل کا دیوالیہ نہ نکل چکا ہو، ایسی بے وقوف نہیں ہوسکتی کہ اپنے معاملات کا فیصلہ: شعور و استدلال کے بجاے تلوار کے اندھے قاضی کے سپرد کردے۔ اگر ہم اپنا مستقبل تاریک نہیں کرنا چاہتے تو ہمیںپوری قوت کے ساتھ اپنے ملک کے حالات کو اس خطرناک رُخ پر جانے سے روکنا چاہیے۔(۱۰نومبر ۱۹۵۱ئ، رُوداد جماعت اسلامی،ششم: ص ۵۴)
مولانا مودودی کی جانب سے ’قاضیِ شمشیر‘ کا یہ اشارہ ہر اس اندھی بہری قوت کی طرف ہے، جو عدل کے نام پر عدل کوقتل کرے یا تشدد کے لیے خودساختہ اُصولوں کی بنیادپر دوسروں کی جان لینے کے بہانے گھڑے اور وسیلے تراشے۔ یہ فعل کسی کے بھی ہاتھوں رُونما ہوسکتا ہے: سیاسی لبادے میں ایم کیو ایم جیسے طائفے ہوں یا ’محرومی‘ کے نام پر قوم پرستوں کی پُرتشدد خفیہ تنظیمیں، یا مذہب کے نام کو استعمال کرنے والے خونیں گروہ، یا پھر عدل و انصاف کے مسلّمہ اصولوں سے بالاتر ادارے۔ انسانی جان لینے کے کھیل میں یہ سب ’قاضیِ شمشیر‘ بن جاتے ہیں۔
جب وزیراعظم لیاقت علی خاں کا قتل ہوا تو اُس وقت ملک میں دستورسازی اور اختیارات کی تقسیم کا معاملہ زیربحث تھا۔زیربحث کہنا درست نہیں، درست بات یہ ہے کہ دستورسازی کے موقعے پر مختلف طاقت ور گروہ زیادہ سے زیادہ اختیارات چھیننے کی دوڑ میں باہم معرکہ آرا تھے۔ ان حالات میں ۳۰جنوری ۱۹۵۳ء کو لاہور کے جلسۂ عام میں مولانا مودودی نے زیربحث بہت سی دستوری سفارشات کے بعض پہلوئوں پر مفصل تبصرہ کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے بارے میں چنداصولی نکات ارشاد فرمائے۔ یاد رہے کہ اُن کی تقریر کا یہ حصہ عام (سویلین) شہریوں کے حوالے سے نہیں بلکہ خود فوجیوں کے بارے میں اور فوجی عدالتوں کے حوالے سے تھا۔ انھوں نے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’دستوری سفارشات کی رپورٹ‘ میں فوجی عدالتوں کے مقدمات کے خلاف سماعت کرنے سے سپریم کورٹ کو روک دیا گیا ے۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیںآتی، حالانکہ خود انگلستان میں، سپریم کورٹ میں ہرعدالت کے [فیصلے کے] خلاف اپیل کی جاسکتی ہے، حتیٰ کہ فوجی عدالت کے خلاف بھی، اور پھر یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر ہمارے سپاہی کس پاداش میں انصاف سے محروم رکھے جائیں؟ جس طرح سے ایک عام آدمی کے لیے ملک کی آخری عدالت سے انصاف حاصل کرنے کا امکان ہے، اسی طرح سے ہمارے فوجیوں کے لیے بھی انصاف کے حصول کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے۔ کوئی شخص کہتا ہے کہ اس طرح فوج میں ڈسپلن قائم نہیں رہتا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ فوج میں بے انصافی سے ڈسپلن کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری فوج کے بھی ہرسپاہی کو پوری طرح سے یہ اطمینان حاصل ہونا چاہیے کہ اس کے ساتھ بے انصافی کبھی نہیں ہوسکے گی، اور یہ ایسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ کورٹ مارشل کے مقابلے میں سپریم کورٹ سے اپیل کرسکے۔ دستور میں کورٹ مارشل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گنجایش نہ رکھنا قطعی طور پر اسلامی اصولِ عدل کے خلاف ہے۔ (ماہ نامہ چراغِ راہ، کراچی، مدیر: نعیم صدیقی، خصوصی ضمیمہ، جولائی ۱۹۵۳ئ)
یاد رہے یہ اُس وقت کی بات ہے جب پاکستان کا نظامِ حکومت ۱۹۳۵ء کے برطانوی ترمیم شدہ ایکٹ کے تحت چل رہا تھا اور ابھی تک دستورسازی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اب، جب کہ دستور بن چکا ہے اور ۶۰برس کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد دستوری روایات اور عدالتی عمل اپنی گہری بنیادیں استوار کرچکے ہیں، تو فوج کے داخلی نظام میں فوجی عدالتوں کا معاملہ اور ان کا اختیارِ سماعت کہیں زیادہ واضح انداز میں طے ہوچکا ہے۔
اس دستور ی بحث کے دوران ۱۹۵۳ء کے ابتدائی مہینوں میں صوبہ پنجاب ’فتنۂ قادیانیت‘ کے مسئلے پر ہنگاموں میںگِھر گیا (ان ہنگاموں کی صورت گری کرنے والے چہروں سے کب کا نقاب اُترچکا، مگر ہمارا مقبوضہ میڈیا ان کے نام لینے سے شرماتا ہے)۔ پنجاب کے حاکم آگے بڑھے، سول اور فوجی اعلیٰ افسروں سے مل کر لاہور میں ۶مارچ کو مارشل لا لگادیا۔ اس اقدام سے ’قاضیِ شمشیر‘ نے اقتدار کا ذائقہ چکھا اور اپنی قوت کا اندازہ بھی لگایا۔ فوجی عدالت لگی، سرسری سماعت ہوئی اور ۱۱مئی ۱۹۵۳ء کے روز مولانا مودودی کو سزاے موت سنانے کا فیصلہ صادر ہوا۔ ازاں بعد شدید عوامی اور بین الاقوامی ردّعمل اور احتجاج کے نتیجے میں یہ سزا عمرقید میں تبدیل ہوگئی۔ وہ مولانا مودودی جو صرف ساڑھے چار ماہ قبل فوجیوں کے لیے انصاف اور اپیل کا حق مانگ رہے تھے، چند ہی ماہ بعد خود اُنھیں فوجی عدالت میں دھر لیا گیا اور اعلیٰ سول عدالت میں اپیل کے حق کا تو کوئی سوال ہی نہ تھا۔
انھی ہنگاموں کی تحقیقات کے لیے جسٹس محمد منیر (م: ۱۹۷۹ئ) اور جسٹس ایم آر کیانی (م:۱۹۶۲ئ) پر مشتمل ایک ’تحقیقاتی عدالت‘ ۱۹جون ۱۹۵۳ء کو قائم کی گئی۔ اس خصوصی عدالت میں ۱۳فروری ۱۹۵۴ء کو مولانا مودودی نے اپنا تیسرا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے فرمایا:
ایک جمہوری نظام میں یہ بات نہیں مانی جاسکتی کہ قوم خود اپنے مفاد کی دشمن ہے، اور اس کے مفاد کو [فقط] چند افسرزیادہ جانتے ہیں۔
دراصل یہ نشان دہی تھی اس خطرے کی، کہ ملک کے کاروبارِ حکومت اور فیصلہ سازی کے عمل کو چند (سول یا فوجی) افسروں کے ہاتھ میں دے دینے کا نتیجہ جمہوری بساط کے لپٹنے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ پہلے مارشل لا کی فوجی عدالتوں نے سول شہریوں کو سزائیں سنائیں، پھر تحقیقات کے نام پر انڈین سول سروس کے تیار کردہ عدالتی افسروں نے مذکورہ بالا تحقیقاتی عدالت کی ایک رپورٹ مرتب اور ۱۰؍اپریل ۱۹۵۴ء کو جاری کی گئی، جس میں دینی اصولوں اور علما کا مذاق اُڑایا گیا تھا اور بہت سی غیرمتعلقہ بحثیں بھی ٹھونس دی گئیں۔ حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کی یہ واحد تحقیقاتی رپورٹ ہے جو سرکاری طور پر بیک وقت انگریزی، اُردو اور بنگلہ زبان میں بڑے پیمانے پر شائع کی گئی (اور اب بھی لاہور کے فٹ پاتھوں سے دستیاب ہوجاتی ہے)۔ یہ رپورٹ دراصل تحقیقات سے زیادہ سیکولرزم کے جواز کا مقدمہ پیش کرنے کی دستاویز تھی، جسے سیاسی مقتدرہ اور اعلیٰ افسرشاہی نے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
رپورٹ کی بے سروپا اور حددرجہ متنازع باتوں کا مولانا مودودی نے جیل ہی میں بیٹھ کر جواب لکھا، جو ۱۹۵۵ء میں تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ کے نام سے شائع ہوا۔ مولانا مودودی نے برطانیہ میں اصولِ قانون کے مایہ ناز پروفیسر البرٹ وین ڈائسی (Dicey: ۱۸۳۵ئ-۱۹۲۲ئ) کی معروف کتاب The Law of Constitution (طبع نہم) کے حوالے سے لکھا:
مارشل لا کا مفہوم یہ ہے کہ ایک ملک کی یا اس کے کسی حصے کی حکومت عارضی طور پر فوجی عدالتوں کے ذریعے چلائی جائے… سپاہی ایک فساد کو اسی طرح دباسکتے ہیں جس طرح وہ ایک بیرونی حملے کو دفع کرسکتے ہیں۔ وہ باغیوں سے اسی طرح جنگ کرسکتے ہیں، جس طرح وہ غیرملکی دشمنوں سے کرسکتے ہیں۔ مگر وہ [یعنی فوجی] ازروے قانون اس کا کوئی حق نہیں رکھتے کہ فساد یا بدامنی کی سزا لوگوں کودیں۔ امن قائم کرنے کی کوشش کے دوران میں لڑتے باغیوں کو قتل کیا جاسکتا ہے، اور قیدیوں کو اگر وہ بھاگ نکلنے کی کوشش کررہے ہوں گولی سے ماراجاسکتا ہے، مگر کوئی ایسی سزاے موت، جو ایک کورٹ مارشل کی طرف سے دی جائے، غیرقانونی ہے بلکہ اصولاً ایک مجرمانہ قتل ہے۔(ایضاً،ص ۲۹۳).... جب باقاعدہ عدالتیں کھلی ہوں اور مجرموں کو ان کے حوالے کیا جاسکتا ہو، تاکہ وہ عام قانون کے مطابق ان کے بارے میں کارروائی کرسکیں، تو تاج [ریاست]کو دوسرا کوئی طریق کارروائی اختیار کرنے کا حق نہیں ہے۔ (ایضاً، ص ۱۹۸)
مولانا مودودی کسی بھی درجے میں ریاست یا ریاستی اداروں کوعدل اور انصاف کے مسلّمہ اصولوں سے ہٹ کر چلنے سے روکتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ریاست اور حکومت ایک مہذب حوالہ ہیں، جنھیں قانون شکن اور عدل کے قاتل باغیوں کے برعکس راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔ اسی لیے وہ مذکورہ تبصرے میں ڈبلیو فورسائیتھ کی کتاب Cases and Opinions on Constitutional Law کے حوالے سے لکھتے ہیں:
۱۸۶۶ء میں جمیکا کی بغاوت کو کچلنے کے لیے جو مارشل لا لگایا گیا تھا، اس پر انگلستان کے دو ممتازماہرین قانون بحث میں لکھتے ہیں: بغاوتوں کو فوجی طاقت سے دبانا بلاشبہہ قانونی فعل ہے، مگر غیرقانونی [یعنی فوجی] عدالتوں کے ذریعے سے جرائم کے مرتکبین کو سزا دینا ایسی کارروائی ہے جو ’دستاویز حقوق‘ (Petition of Rights) کے ذریعے ممنوع ہے۔ فوجی حکام کا یہ فرض تھا کہ قیدیوں کو دیوانی اقتدار کے سپرد کردیتے… اگر مسٹرگورڈن نے فی الواقع غداری کی بھی تھی تو وہ [یعنی فوجی حکام] اس کو سزا دینے کا کوئی حق نہ رکھتے تھے۔ ان کا دائرۂ اختیار صرف طاقت کے ذریعے دبا دینے تک محدود تھا، نہ کہ وہ جرائم کی سزا بھی دینے لگیں۔
قانون کے سب ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جہاں عام ملکی عدالتیں کھلی ہوئی ہوں، یا کھل سکتی ہوں، وہاں فوجی عدالتیں قائم کر کے لوگوں کو سزائیں دینا بالکل ناجائز ہے۔(تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ، ص ۶۰)
آگے بڑھنے سے پیش تر تاریخ کا یہ باب دیکھنا مفید ہوگا۔وزیراعظم محمدعلی بوگرہ [م:۱۹۶۳ئ] قوم کو یہ خوش خبری سناچکے تھے کہ: ’’۲۵دسمبر ۱۹۵۴ء کے روز قوم کو دستور کا تحفہ دیں گے‘‘۔ مگر منفی قوتوں کی شرانگیزی متحرک ہوئی، جسے یہاں پر ڈاکٹر صفدرمحمود کی کتاب مسلم لیگ کا دورِ حکومت سے نقل کیا جارہا ہے۔ یہ نثرپارہ بلاتبصرہ بہت کچھ بیان کرتا ہے۔ یاد رہے ۲۸؍اکتوبر کو اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنے کا اعلان ہوچکا تھا کہ:
گورنر جنرل [ملک] غلام محمد نے ۲۴؍اکتوبر ۱۹۵۴ء کو [پاکستان کی] مرکزی وزارت کو برطرف کر دیا، دستور ساز اسمبلی کوتوڑ دیا۔ یہ اقدامات فوج کے سربراہ [جنرل محمد ایوب خان] اور بیوروکریسی کی مکمل حمایت سے کیے گئے۔ امریکا میں خفیہ مواد کے سامنے آنے سے پتا چلا ہے کہ دستور سازاسمبلی کو واشنگٹن کی آشیرباد اور منظوری کے بعد توڑا گیا تھا۔ عملی اقدام سے پہلے اسکندر مرزا اور واجد علی (امریکا میں پاکستانی سفیر امجدعلی کے بھائی) نے امریکی سفیر [متعینہ پاکستان] کو اپنے ارادوں، منصوبوں اور سخت اقدامات سے آگاہ کیا، اور اسے بتایا کہ: ’’اس اقدام کا مقصد پاکستان کو مُلّاازم سے بچانا ہے‘‘ (ص ۲۳۵)۔ جب غلام محمد نے، جو عوام کے منتخب نمایندے نہیں تھے، نے دستورساز اسمبلی کو منسوخ کردیا تو… اسے [مسلح افواج پاکستان کے]کمانڈر انچیف محمدایوب خان کی بھی حمایت حاصل رہی (مسلم لیگ کا دورِ حکومت، ناشر: جنگ پبلشرز، لاہور، مارچ ۱۹۹۳ئ، ص ۲۳۶)
[ملک] غلام محمد کبھی کبھی اپنے فیصلوں پر ریوالور کی رہنمائی میں بھی عمل کرایا کرتے تھے۔ [سابق وزیراعظم] چودھری محمد علی (مسلم لیگ کا دورِ حکومت) اور اسکندر مرزا (غیرمطبوعہ سوانح عمری) دونوں راوی ہیں، امریکا سے واپسی پر [وزیراعظم] محمدعلی بوگرہ کو[گورنر جنرل ملک] غلام محمد کے سامنے پیش کیا گیا، تو غلام محمد نے تکیہ کے نیچے سے ریوالور نکال لیا اور جب تک بوگرہ نے [دستور ساز اسمبلی توڑنے کی] تجویز سے اتفاق نہ کرلیا غلام محمد انھیں قتل کی دھمکیاں دیتے رہے۔ اس کارروائی کے دوران [جنرل محمد] ایوب خان ریوالور ہاتھ میں پکڑے پس پردہ کھڑے رہے۔ ( خوشامدی ادب اور سیاست، القمر انٹرپرائزز، لاہور،۱۹۹۴ئ، ص ۲۷)
اس دعوے کی تردید کبھی سامنے نہیں آئی۔ اس میں سے ریوالور کی بات کو نظرانداز کر بھی دیں تو ’طاقت ور‘ کے قلم اور چھڑی میں بہرحال ریوالور سے زیادہ طاقت ہوتی ہے۔
اس دستور ساز اسمبلی کے توڑنے کے واقعے پر تڑپ کر میاں طفیل محمد (سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان) کراچی پہنچے اور جماعت اسلامی کراچی کے امیر چودھری غلام محمد کے ہمراہ تمیزالدین (م: ۱۹۶۳ئ) اسپیکردستور ساز اسمبلی کو بڑی مشکل سے آمادہ کیا کہ وہ اس آمرانہ اور ملکی سالمیت کے لیے تباہ کن اقدام کو عدالت میں چیلنج کریں۔ میاں طفیل محمد اپنی کتاب مشاہدات (نومبر۲۰۰۰ئ) میں تفصیل (ص ۲۳۲-۲۴۴) سے بیان کرتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے وکلا کی فیس تک کے لیے مالی وسائل جماعت اسلامی نے فراہم کیے اور سندھ ہائی کورٹ میں اس اقدام کو کس طرح چیلنج کیا گیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے گورنر جنرل غلام محمد کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا، مگر سپریم کورٹ نے پاکستانی سیکولر لابی کے نظریہ ساز رہنما چیف جسٹس محمدمنیر کی سربراہی میں گورنر جنرل کے فیصلے کو ایک کے مقابلے میں چار کی اکثریت سے سند ِ جواز عطا کی ۔ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی تائید اور جسٹس منیر کے فیصلے سے اختلاف کرنے والے وہ واحد رکن جسٹس اے آر کارنیلیس تھے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ۱۹۵۳ء میں لاہور میں نافذ ہونے والا مارشل لا عملی سطح پر سیاست دانوں کی ناکامی کا اعلان اور فوجی اقتدار کی ریہرسل تھا۔ چنانچہ اس کامیاب ریہرسل کے بعد، صدر اسکندر مرزا (م: ۱۹۶۹ئ) نے ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو اسمبلیاں توڑ کر اور سول حکومتیں برطرف کر کے پورے پاکستان میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ مسلح افواج کے کمانڈرانچیف جنرل محمد ایوب خان کو وزیراعظم اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔ (یاد رہے کہ ’قائد عوام‘ ذوالفقار علی بھٹونے اس مارشل لائی کابینہ میں وفاقی وزیر کا عہدہ حاصل کیا تھا)۔ ۲۰روز بعد ۲۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو جنرل ایوب خان، صدر اسکندرمرزا کو برطرف کر کے کرسیِ صدارت پر بھی متمکن ہوگئے۔ یاد رہے اس مارشل لا کے نفاذ سے قبل یہ اعلان ہوچکا تھا کہ فروری ۱۹۵۹ء میں عام انتخابات ہوں گے۔اس مارشل لا سے صرف دوماہ قبل سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی زیرادارت ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور (اگست ۱۹۵۸ئ) میں جو اداریہ (اشارات) شائع ہوا، اس کے انتباہ کو ملاحظہ کیجیے کہ کس قدر دُوراندیشی سے آنے والے خطرات سے قوم کو خبردار کیا گیا تھا، کس اندازسے سیاست دانوں کو جھنجھوڑا گیا تھا اور کن الفاظ میں اعلیٰ فوجی قیادت کو عقل و خرد کی بات سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ لکھا تھا:
اسے مسلمان ممالک کی بدقسمتی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ دنیا نے آج تک اجتماعی زندگی کے بارے میں جتنے مفید سبق سیکھے ہیں، نہ صرف ان سب کو بھلا دیا جاتا ہے بلکہ اُن غلطیوں کو باربار دُہرایا بھی جاتا ہے۔ مثال کے طور پر فوج کے غلط استعمال کو ہی لیجیے۔ ہرمعمولی عقل و خرد رکھنے والاآدمی بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ فوج اپنے ملک پر حکومت کرنے کے لیے نہیں بلکہ ملک کو بیرونی دشمنوں سے بچانے کے لیے منظم کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے دنیا کے تمام عقل مند لوگ ملکی معاملات میں فوج کی دخل اندازیوں کو پسند نہیں کرتے، مگر ہماری شومیِ قسمت کہ جو لوگ ہمارے ہاں اقتدار پر قابض ہیں، وہ چونکہ عوامی تائید کی قوت سے محروم ہیں، اس لیے وہ اس کمی کو فوج کی طاقت اور پشت پناہی سے پورا کرتے ہیں۔ جہاں کسی حلقے میں اضطراب یا عدم اطمینان دکھائی دیا، اُسے فوراً فوج کی مدد سے دبا دیا۔ بظاہر یہ نسخہ بڑا سستا اور آسان ہے، لیکن اس کے نتائج ملک، قوم، اصحابِ اقتدار اور خود فوج کے حق میں نہایت مہلک ہوتے ہیں۔ اس کا پہلااثر یہ پڑتا ہے کہ ملک کے باشندے خود اپنی فوج سے بوجوہ متنفر ہوجاتے ہیں اور ملک کی حفاظت کے لیے فوج اور قوم کا تعاون ممکن نہیں رہتا۔ یہ صورتِ حالات ’سامراجی من چلوں‘ کے لیے بڑی ہی حوصلہ افزا ثابت ہوتی ہے اور اس سے بسااوقات ملک کی آزادی پر آبنتی ہے۔
فوجی افسروں کے منہ کو جب ایک دفعہ اقتدار کا [ذائقہ] لگ جاتا ہے، تو پھر پوری فوج کا نظم تہ و بالا ہوجاتا ہے۔ ملک کے یہ پاسبان ہمیشہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ باہر چاہے انھیں کچھ فتح کا موقع ملے یا نہ ملے، مگرانھیں گھر کو ضرور فتح کرڈالنا چاہیے۔ اگر اخلاقی حیثیت سے اس معاملے کو دیکھا جائے تو یہ بے حد افسوس ناک ہے۔ اس سے بڑی غداری اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک فوج جن لوگوں کے روپے سے منظم اور مسلح ہوتی ہے، وہ طاقت پاکر خود اپنی قوم کی گردن پر ہی سوار ہوجائے اور سنگین کی نوک پر ملک میں اپنا حکم منوانا شروع کردے۔
معاملہ صرف ایک انقلاب تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ فوجی انقلاب ایک ایسا شیطانی چکر ہے کہ کوئی ملک بدقسمتی سے اس میں ایک دفعہ گرفتار ہوجائے تو اس سے بچ نکلنے کی کوئی اُمید باقی نہیں رہتی۔ ایسا ملک پیہم انقلاب اور ناگہانی تغیرات کی آماج گاہ بن جاتا ہے، اور کش مکش اور چھین جھپٹ کی بیماری سیاسی پارٹیوں سے نکل کر فوج کے مختلف طبقوں میں سرایت کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے جو معاملات بساطِ سیاست پر سیاسی جوڑتوڑ سے طے کیے جاتے تھے، اب ان کے فیصلے کے لیے ’قاضیِ شمشیر ‘کی طرف رجوع کرنا بالکل ناگزیر ہوجاتا ہے، اور یہ قاضی اپنے مزاج کے اعتبار سے اس قسم کا بے حس واقع ہوا ہے کہ اسے اگر ایک مرتبہ عدالت کی کرسی پر متمکن کردیا جائے تو پھر یہ اُس وقت تک چین نہیں لیتا، جب تک کہ سارا ملک تاخت و تاراج نہ کردیا جائے۔
اس کے علاوہ فوجی انقلاب کے وقت خواہ نعرے کتنے ہی خوش کُن اور احساسات و جذبات خواہ کتنے پاکیزہ ہوں، لیکن یہ انقلاب اپنی کامیابی اور بقا کے لیے اس بات پر مجبور ہے کہ کسی ایسے جابرانہ نظام کو جنم دے، جس میں نہ صرف لوگوں کے جسم گرفتار ہوں بلکہ ان کی روح بھی پابہ زنجیر رہے۔ اور لوگ دم بخود ہوکر ان فوجی آمروں کے افعال و اعمال دیکھتے چلے جائیں۔ پوری قوم بھیڑ بکریوں کا ایک بے زبان گلہ بن کر رہے جسے یہ ’مصلحین قوم‘ میکانکی طور پر جس طرف چاہیں ہانک کرلے جائیں۔
اس صورت ِ حال کو برقرار رکھنے کے لیے سب سے پہلے فوجی آمر کے کارناموں کو بڑے ہی مصنوعی اندازسے بڑھاچڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ یہ آمر ایک عام انسان کے بجاے فوق البشر دکھائی دے اور قوم اُسے اپنا واحد نجات دہندہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو۔ چنانچہ دیکھیے، ان فوجی آمروں کی کارگزاریوں کو کس مبالغہ آمیزی کے ساتھ مختلف طریقوں سے نشر کیا جاتا ہے اور قوم کے ذہن میں یہ خیال راسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان لوگوں کے کارنامے بالکل غیرمعمولی ہیں۔ دوسرے قوم کی ذہنی تربیت کے لیے ایک ایسا پروگرام طے کیا جاتا ہے، جس سے وہ ہرمعاملے کو فہم و فراست کی معتدل میزان پر تولنے کے بجاے اُسے جذبات کی شعلہ فشانیوں سے حل کرتی ہے اور اندھی پیروی کی اتنی خوگر بنادی جاتی ہے کہ تباہ کن حوادث میں مبتلا ہونے کے بعد بھی اُس کی آنکھیں کھلنے نہیں پاتیں۔
اس قسم کی تلاطم خیز ذہنی کیفیت پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جذبات کے سمندر میں طوفان اُٹھائے جائیں۔ یہ کام معمولی طریقوں سے تو سرانجام نہیں پاسکتا، اس کے لیے بڑے ہی غیرمعمولی حربے استعمال کیے جاتے ہیں، مثلاً سب سے پہلے پوری قوم کو ٹھوس حقائق کی دنیا سے نکال کر سپنوں کی ایسی فضا میں آباد کیا جاتا ہے، جہاں وہ صرف آرزوئوں اور تمنائوں پر مرنا سیکھتی ہے ۔جہاں وہ عقل کی بات بتانے والوں کو دشمن اور خوش کن باتیں بنانے والوں کودوست سمجھنے لگتی ہے۔ جہاں صرف خواب و خیال کی پرستش ہوتی ہے اور جہاں رہبرانِ قوم کے اخلاقی اور ذہنی اوصاف نہیں دیکھے جاتے بلکہ صرف اس بات کا اندازہ کیا جاتا ہے کہ وہ لاف گزاف میں کس قدر مشّاق اور زبان کے استعمال میں کس حد تک مطلق العنان ہیں۔
پھر اس قوم کے بارے میں اس بات کا بھی التزام کیا جاتا ہے کہ اُس کے دل و دماغ پر مستقل خوف کی کیفیت طاری رہے تاکہ وہ اپنے بچائو اور حفاظت کے لیے ایک فوجی آمر کی آمریت بخوشی قبول کرلے۔ اس صورتِ حال کے نتائج دیکھ کر ہر حساس مسلمان تڑپ اُٹھتا ہے۔ آئے دن کے تغیرات نے بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے وقار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ آخر مسلمانوں کو وہ کیا بیماری لاحق ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال نہیں کرسکتے اور اپنی قومی طاقت کو آپس کی کش مکش میں تباہ کردیتے ہیں۔
یہ وہ وقت ہے، جب کہ ہمارے فرماں روائوں کو اپنی آنکھیں کھولنی چاہییں۔ اپنے محلات میں بیٹھ کر وہ یہ نہ سمجھیں کہ آج سے ہزار سال پہلے کی فضا، جیسی کہ اُن کے محلوںکے اندر ہے، ویسی باہر بھی موجود ہے۔ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے، باہر انقلاب کی بڑی بڑی موجیں اُٹھ رہی ہیں، وہ ان کے دروازوں پر دستک دے رہی ہیں۔ ان سے صرفِ نظر کرکے چلنا کوئی دانش مندانہ فعل نہیں۔ ملکی اقتدار یا قیادت، خواہ وہ کسی نوعیت کی ہو، اُس کے بچائو کی صورت صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس جمہوری دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کر کے عوام کو اُن کے پورے پورے جمہوری حقوق بہم پہنچانے میں قطعاً بخل سے کام نہ لے۔ نیز عوام کے حقیقی مسائل کو سمجھے اور اپنی عیاشیوں میں مست رہنے کے بجاے اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام کرے… ہر شخص اور ہرملّت کے صبر کا ایک پیمانہ ہوتا ہے۔ اس میں خواہ کتنی ہی وسعت ہو، مگر ایک حد ایسی ضرور آتی ہے جہاں پہنچ کر وہ اپنی ساری وسعتوں کے باوجود چھلک پڑتا ہے۔ یہ حد بڑی ہی خطرناک اور ہلاکت خیز ہوتی ہے۔ اس سے ہمارے اصحابِ اقتدار کو بچنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اگر یہ حضرات وقت کے اس مطالبے کو پورا نہیں کریںگے تو زمانے کی کروٹ انھیں اس مطالبے کی تعمیل پر مجبور کرے گی اور یہ تعمیل اکثروبیش تر بہ نوکِ شمشیر ہی ہوا کرتی ہے۔(ماہنامہ ترجمان القرآن، لاہور، اگست ۱۹۵۸ئ)
اور پھر یہی ہوا کہ ملک میں ایسے مادرپدر آزاد انتخابات ہوئے، کہ جن میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور ان کی عوامی لیگ کو کھلی چھٹی دی گئی۔ مارشل لا حکومت کے زیرسایہ یہ فسطائیت خوب تروتازہ ہوئی، اور دھاندلی و غنڈا گردی کے زور پر پورا انتخاب ہی لُوٹ کر لے گئی۔ پھر نہ اُس ’دستورساز اسمبلی‘ کا اجلاس ہوا اور نہ آئین بنا، البتہ پاکستان ضرور ٹوٹ گیا۔
گذشتہ برس پاکستان کی وفاقی حکومت کی ہٹ دھرمی اور اس کے جواب میں دھرنا کریسی نے عملاً ریاست اور جمہوریت کو کمزور کیا ہے۔ حاکموں اور حاکموں سے لڑنے والوں کی کم فہمی کا یہ نتیجہ ہے یا پس پردہ قوتوں کی جادوگری کہ سیاست دانوںکو نااہل ثابت کردیا جائے، جیسا سوال یہاں زیربحث نہیں لا رہے، مگر نتیجہ تو یہی نکلا ہے۔ اس کھیل کے لیے کس نے کس کا کندھا استعمال کیا، یا کس نے اپنا کندھا پیش کیا، عملی سطح پر طاقت کے سرچشمے اپنی جگہ سے سرک کر وہاں جاپہنچے ہیں، کہ جہاں سے انھیں درست جگہ پر لانے کے لیے بڑی قربانیاں دی گئی تھیں۔
ہمہ وقتی وزیرخارجہ کو مقرر نہ کرنا، وزارتِ دفاع کا قلم دان ایسی شخصیت کو تھمانا کہ جن سے دفاعی ادارے ویسے ہی مغائرت محسوس کرتے ہیں، پالیسیوں کو عارضی (ایڈہاک) بنیادوں پر چلانا، بھارت سے تجارتی تعلقات کے لیے شوق و ذوق کا مظاہرہ کرنا اور فیصلہ سازی کو گنتی کی چند رکنی ٹیم کا کھیل بنانا، بہرحال کسی سازش کا نتیجہ نہیں، البتہ کم فہمی کا ثمرہ ہے۔ حماقت ایسی بلا ہے کہ جو بہت سی بلائوں کو جنم دیتی ہے۔ پھر وطن عزیز ایک جانب حالت ِ جنگ میں ہے تو دوسری جانب میڈیا گروپ ۲۴گھنٹے سنگ زنی میں مشغول ہیں، دلیل اور دلیل سے عاری گوناگوں میزائلوں سے لیس ہیں۔ اس عالم میں بے چاری جمہوریت کی کمزور سی عمارت کہاں تک ان حملوں کا مقابلہ کرتی۔ پھر طویل عدالتی جنگ کے نتیجے میں عدل کے ایوانوں کی کسی حد تک جو آزادی بحال ہوئی تھی، اسے ریاست و حکومت کی جانب سے اعانت کی ضرورت تھی، لیکن شاہانہ اندازِ حکومت نے بھی گویا ایک ایک کرکے اختیار کے سارے پتے بکھیر دینے کی ٹھان رکھی تھی۔ اور دکھائی یہ دیتا ہے کہ ریاستی اختیار و اقتدار کے قلم دان عملاً دوسری جگہ منتقل ہوچکے ہیں۔ آج اخبارات اور ٹیلی ویژن پروگراموں میں کہیں دبے الفاظ میں اور کہیں کھلے الفاظ میں کہا جا رہا ہے کہ: ’’سیاست دان نااہل، کرپٹ اور نالائق ہیں، یہ ملک نہیںچلاسکتے‘‘۔
ان جملوں میں پیغام صاف ظاہر ہے۔ اس طرح نہ صرف معاملات کوخاص جانب دھکیلا جارہا ہے، بلکہ ایک ایک کرکے حد توڑی جارہی ہے، اور ہر کام خود سیاست دانوں سے کرایا جا رہا ہے۔ ماضی میں اسی قسم کے شوروغوغے پر مولانا مودودی نے سبھی کو متنبہ کیا اور ۲۹؍اگست ۱۹۶۲ء کو چوک یادگار پشاور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا:
جب انتقام کے جذبے سے مغلوب قوم پرست بھگوڑے اور ان کے ہم نوا بھتّاخور ایک کمزور جمہوری حکومت کا مذاق اُڑاتے ہوئے کھلے عام فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دیتے ہیں تو انھیں مولانا مودودی کا یہ انتباہ یاد رکھنا چاہیے:
یہ کہنا کہ ملکی اقتدار کی آخری ذمہ داری فوج پر ہے، ایک غلط پالیسی ہے۔ فوج کی ذمے داری ملک کوبیرونی حملہ آوروں سے بچانے کی ہے، نہ کہ ملک چلانے کی۔ ملک فوج کا نہیں بلکہ اپنے باشندوں کا ہے۔ اور یہ باشندوں کا اپنا ہی کام ہے کہ وہ اپنے گھر کے معاملات کو چلائیں بھی اور بگڑ رہا ہو تو اسے درست بھی کریں۔ ملازمین خواہ فوج کے ہوں یا سول، ان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ ملک کا نظامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں۔(تحریکِ جمہوریت: اسباب اور مقاصد، ۱۹۶۷ئ،ص ۹)
یہ عاقبت نااندیش عناصر صرف دعوتِ اقتدار ہی نہیں دیتے بلکہ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج کھلے عام فوجی آپریشن کرے۔ ظاہر ہے کہ کچھ آپریشن تو ہوچکے اور کچھ آپریشن ہو بھی رہے ہیں، مگر معاملات سلجھنے کے بجاے اُلجھ رہے ہیں۔ اسی قسم کے خطرات کو بھانپتے ہوئے مولانا مودودی نے فرمایا تھا:
اس سے زیادہ غلط کام کوئی نہ ہوگا، اور اس ملک کا کوئی بدخواہ ہی ایسا کام کرسکتا ہے کہ ملک کی فوج کو ملک کے عوام سے لڑا دے۔ اگر فوج سے ہم وطنوں پر گولیاں چلانے کا کام لیا گیا تو اس سے فوج اور قوم دونوں کو نقصان پہنچے گا۔ بڑا ظالم ہوگا وہ حاکم، جو ملک کی فوج کو اپنے عوام کے سامنے لاکھڑا کرے۔ (۵-اے، ذیلدار پارک، اوّل: مرتبہ: مظفر بیگ،ص ۲۴۳)
درحقیقت جو عناصر قومی افواج کو سول آبادی میں آپریشن اور اقتدار سنبھالنے پر اُبھارتے ہیں، و ہ بظاہر دوست بن کر، لیکن عملاً دشمن کا سا کردار ادا کرتے ہیں۔ ۳۵برس تک فوج ملک کے سیاہ و سفید کی مالک رہ چکی ہے، مگر اس دوران میں معاملات کی کوئی کل سیدھی نہ ہوسکی، بلکہ ایسے ایسے اُلجھائو پیدا ہوئے کہ عشرے گزر جانے کے باوجود تار سلجھائے نہیں جاسکے۔
پاکستان میں ۲۱ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں جو فوجی عدالتیں قائم ہوئی ہیں ، ان کے بارے میں روزنامہ The Newsنے اپنی رپورٹ ۴جنوری ۲۰۱۵ء میں لکھا ہے:
دہشت گردی کے ملزموں پر پاکستان آرمی ایکٹ (PAA) کے تحت مقدمے چلائے جائیں گے، جنھیں کسی بھی سول عدالت میں اپیل کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا۔ سینیروکیل کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحمن کے بقول دہشت گردوں کو فوج گرفتار کرے گی، تفتیش کرے گی اور بند کمرے میں مقدمے کی سماعت کرے گی۔ پاکستان آرمی ایکٹ کے مطابق کورٹ مارشل کے فیصلوں کے خلاف کوئی دادرسی نہ ہوسکے گی۔ تاہم دفعہ ۱۴۳ کے تحت چیف آف آرمی اسٹاف ہی سزامیں کمی یا معافی کا اختیار رکھتے ہیں۔
یقینا بہت سوچ بچار کے بعد یہ اصول وضع کیے گئے ہوںگے، مگر یوں انصاف اور صفائی کے اصولوں کی کس حد تک پاس داری ممکن ہوگی؟ ایک نازک سوال ہے۔ اور کیا اس کے نتیجے میں واقعی معاملات سلجھ جائیںگے یا پھر عجلت میں سخت فیصلے، کسی اور بڑے ردعمل کی فصل بوئیں گے؟
جن تشدد پسندوں اور دہشت گردوں نے ملک کے امن کو تباہ کیا ہے، ان کی سرکوبی پر قوم میں اتفاق پایا جاتا ہے۔ ان عناصر کی ہمدردی یا اعانت کے لیے کوئی قابلِ ذکر آواز پاکستانی معاشرے میں سنائی نہیں دیتی۔ لیکن کیا انصاف کے طے شدہ ضابطوں کے برعکس اس بیماری کا علاج صرف گولی ہے؟ اس ضمن میں مولانا مودودی بڑی وضاحت کے ساتھ اسلام کا اصول بیان کرتے ہیں:
شریعت ِ الٰہی کسی بُرائی کو محض حرام کردینے یا اسے جرم قرار دے کر اس کی سزا مقرر کردینے پراکتفا نہیں کرتی، بلکہ وہ ان اسباب کا بھی خاتمہ کردینے کی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو اس بُرائی میں مبتلا ہونے پر اُکساتے ہوں، یا اُس کے لیے مواقع بہم پہنچاتے ہوں یا اس پر مجبور کردیتے ہوں۔
نیز شریعت، جرم کے ساتھ اسبابِ جرم، محرکاتِ جرم اور رسائل و ذرائع جرم پر بھی پابندیاں لگاتی ہے، تاکہ آدمی کو اصل جرم کی عین سرحد پر پہنچنے سے پہلے کافی فاصلے ہی پر روک دیا جائے۔ وہ اسے پسند نہیں کرتی کہ لوگ ہر وقت جرم کی سرحدوں پر ٹہلتے رہیں اور روز پکڑے جائیں اور سزائیں پایا کریں۔
وہ [شریعت ِ الٰہی] صرف محتسب (prosecutor) ہی نہیں ہے، بلکہ ہمدرد، مصلح اور مددگار بھی ہے۔ اس لیے تمام تعلیمی، اخلاقی اورمعاشرتی تدابیر اس غرض کے لیے استعمال کرتی ہے کہ لوگوں کو بُرائیوں سے بچنے میں مدد دی جائے۔(تفہیم القرآن، سوم، سورۃ النور، حاشیہ ۲۳،ص ۳۷۲)
اندریں حالات معاشرے کی تمام مقتدر اور ذمہ دار قوتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ باہم تصادم کے بجاے اس خطرناک صورتِ حال سے نکلنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کریں، ٹھنڈے دل و دماغ سے کوششیں کریں، اور جو عناصر ان کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے یا گہری دلدل میں دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ان کی شرانگیزی سمجھنے کی بصیرت حاصل کریں۔
اس تمام صورتِ حال کو پیش نظر رکھیں تو پاکستان کی تاریخ کے تناظر میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ’شمشیر‘ اور ’قاضیِ شمشیر‘ کے ہاتھوں یہ مسائل حل ہونے مشکل ہیں، بلکہ اس مقصد کے لیے قانون کی عمل داری اور جمہوری راستے کے سوا ہرراستہ سواے خرابی کے کچھ بھی نتیجہ نہ دے سکے گا۔مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کے سامنے لائحہ عمل پیش کرتے ہوئے ۱۹۵۷ء میں واضح طور پر یہ فرمایا تھا:
تیسری یہ کہ ایک آئینی و جمہوری نظام میں رہتے ہوئے تبدیلیِ قیادت کے لیے کوئی غیرآئینی راستہ اختیار کرنا شرعاً آپ کے لیے جائز نہیں ہے اور اسی بناپر آپ کی جماعت کے دستور نے آپ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ آپ اپنے پیش نظر اصلاح و انقلاب کے لیے آئین و جمہوری طریقوں ہی سے کام کریں۔(تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ۱۹۵۷ئ، ص ۱۳۸)
سانحۂ پشاورایسا الم ناک اور اندوہناک سانحہ ہے جس سے پوری قوم سوگوار ہے۔اتنے دن گزرنے کے بعد بھی کسی کو یقین نہیں آرہا کہ کلیوں کو ایسے مسلا جا سکتا ہے، پھولوں کو ایسے روندا جاسکتا ہے۔ ورسک روڈ پر واقع پاک فوج کے زیرانتظام اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے ۱۳۴بچوں سمیت ۱۴۴؍افراد شہیدکو کیا ،۱۲۰ سے زائد زخمی ہوئے۔ اسکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی بھی حملے میں شہید ہوئیں۔ قطار میں کھڑے کیے گئے بچے زورزور سے لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کا ورد کرتے اور اللہ کے واسطے دیتے رہے، آسمان کی طرف دیکھتے فریاد کرتے رہے اور ہاتھ جوڑتے رہے لیکن انھیں معاف نہیں کیا گیا۔سب سے پہلی گولی اسلامیات کے استاد کو لگی۔ پھول جیسے بچے جن میں سے بعض قرآن کریم کے حافظ تھے۔ ان معصوم بچوں کے چہرے دیکھ کریوں محسوس ہورہا تھا جیسے یہ معصوم فرشتے ہیں جنھیں سفید کپڑوں میں لپیٹ کر مٹی کے حوالے کیا جارہا ہے۔ میں نے خود کئی بچوں کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس دوران یوں محسوس ہوا جیسے میرے اپنے بچے سامنے پڑے ہیں۔
حالیہ تاریخ میں بدامنی سے سب سے زیادہ نقصان پشاور شہر کو پہنچاہے۔ گذشتہ تین عشروں سے اس کے گلی کوچوں اور گلیوں بازاروں میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔سابق سوویت یونین گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے افغانستان پر حملہ آور ہوا تولاکھوں افغان مہاجرین نے ادھرکا رُخ کیا۔ افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کا بدلہ روسی ایجنٹوں نے پشاور سے لیا اور اس کے معصوم شہری انتقام کا نشانہ بنے۔ امریکا، ناٹو فوجوں کے ساتھ افغانستان میں داخل ہوا تو اس کا بھی سب سے زیادہ نقصان پشاور کو ہوا۔ یہاں کے شہریوں نے کئی بار انسانی چیتھڑوں کو دیواروں، درختوں اور شاخوں پر دیکھاہے۔ یہ کبھی پھولوں کا شہر تھا،لیکن گذ شتہ تین عشروں سے افغانستان میں استعماری قوتوں کی مسلط کردہ جنگوں کی وجہ سے اس کے چوک، چوراہے اور گلیاں اور بازار خون رنگ ہوگئے ہیں۔ پاک افغان بین الاقوامی سرحد کے آرپار گذشتہ تین عشروں میں اتنا بارود اور ایسے خطرناک ہتھیار استعمال ہوئے ہیں کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے سینیر ڈاکٹروں کے ایک گروپ کاریسرچ کے بعد کہناہے کہ: ’’اس علاقے میں بعض ایسی بیماریاں اور علامات مریضوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں جو ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کے استعمال کے بعد دیکھنے کو ملتی تھیں۔ یہاں کی زمین اورپہاڑوں کے پتھروں، درختوں اورپانی کے چشموں نے جنگی ہتھیاروں کا اتنا زہریلا مواد جذب کیا ہے کہ آیندہ ۳۰۰سال تک اس کے اثرات رہیں گے‘‘۔ یہ اتنا بڑا انسانی المیہ ہے جو اب تک نظروں سے پوشیدہ ہے اور کوئی اس پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
آرمی پبلک اسکول جہاں یہ قیامت ٹوٹی،پشاور کے حساس ترین علاقے میں واقع ہے۔ وہاں سے چند گز کے فاصلے پر سرکاری دفاتر ہیں، گورنر ہاوس، وزیر اعلیٰ ہاوس اور سیکرٹریٹ ہے۔ وہاں بغیر کسی رکاوٹ کے دہشت گردوں کے پہنچ جانے اور بڑے پیمانے پر بے گناہ بچوں کے قتلِ عام نے عوام الناس کے ذہنوں میں بے شمار سوالات پیدا کیے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اوران کے بے شمار ادارے حادثات کے بعد توچند دنوں کے لیے متحرک ہوتے ہیں لیکن ایسے حادثات کا قبل از وقت اِدراک کرنے میں ناکام کیوں رہتے ہیں؟ سانحے کے اگلے دن وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے پشاور میں پارلیمانی پارٹیوں کا سربراہی اجلاس بلایا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے مل کر پشاور کا دورہ کیا، ایک جگہ سرجوڑ کر بیٹھے اور صورت حال کا جائزہ لیا۔ حالات کا تقاضا بھی یہی تھا کہ ذاتی اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے سب ایک ہوجائیں۔ اگر اس موقعے پر بھی سیاسی قیادت ایک نہ ہوتی تو پھرکبھی آپس میں مل بیٹھنا ممکن نہ ہوتا۔
سربراہی اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں نے قیام امن اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں۔ ہماری طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ ملک میں استحکام اورقیام امن کے لیے عدل و انصاف کی حکمرانی ضروری ہے۔ قصاص اللہ کا حکم ہے مگر یورپی یونین کے دبائو کی وجہ سے اسے معطل کر دیا گیا ہے۔ آئین میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن عملی طور پر اس سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ اسے عملاً نافذ اور حدود اللہ پر عمل درآمد کیاجانا چاہیے، اوریہ مناسب موقع ہے کہ آئین کی جن اسلامی دفعات کوعملی طور پر معطل کیا گیا ہے، انھیں بحال کیا جائے۔ ہماری تجاویز کا تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے خیرمقدم کیا۔ قانون نافذ کرنے میں کسی قسم کے بیرونی دبائو کو یکسر مسترد کر دینا چاہیے۔قصاص اللہ تعالی کا حکم ہے اورقرآن مجید میں اسے زندگی قرار دیا گیا ہے:
وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ ۲:۱۷۹)عقل و خرد رکھنے والو!تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے اُمید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے ۔
جب کوئی قتل کا مرتکب ہوتا ہے اورجرم ثابت ہوجاتا ہے تو صدر پاکستان ، ریاست اورحکومت کویہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ سزا کو معاف کر دے یا اس پر عمل درآمد نہ کرے۔ قاتل کو معاف کرنے کا حق وارث کاہے ،ریاست یا اس کے سربراہ کا نہیں۔ حکومت صلح کی کوشش کرواسکتی ہے لیکن اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں یورپ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے حدوداللہ کو معطل کرنا قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان میں جب حدود اللہ کے نفاذ کی بات ہوتی ہے تو یورپ سے متاثر بعض عناصراس پر واویلا کرتے ہیں کہ ملک کو اسلامی شریعت کے نفاذ کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ ایسے تمام عناصر کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اس کی منزل اسلامی نظام ہی ہے۔ مسلمانان پاکستان کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی نظام قابلِ قبول نہیںہے۔ اسلامی نظام سے ہی ملک کو خوش حالی و ترقی نصیب ہوگی۔ اسلامی پاکستان بنے گا تو امن آئے گا،رزق میں کشادگی ہو گی اورقوم کے اندر وحدت پیدا ہوگی۔
اس اجلاس میں ہم نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ اگر پورے اخلاص کے ساتھ ۲۰۱۵ء کو امن کا سال قرار دیتے ہوئے سیاسی قیادت اور قوم اس کے لیے یکسو ہو جائیں تو امن کو واپس لایا جا سکتا ہے۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے متفقہ طور پر وزیراعظم کو قیام امن کے لیے اعتماد اور مینڈیٹ دیا گیا۔اب یہ وزیراعظم اور حکومت کا امتحان ہے کہ وہ آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے ایسا جائز راستہ اختیار کرے کہ اس کے نتیجے میں امن یقینی ہوجائے۔ حکومت کا اولین کام ہی یہ ہے کہ وہ اپنی قوم ،اپنے بچوں اورمائوں بہنوں کو تحفظ دے۔ یہ ذمہ داری مرکزی حکومت کی بھی ہے اور خیبرپختونخوا حکومت کی بھی ۔ اپنے بچوں کو تحفظ فراہم نہ کرپانا، کسی ایک حکومت یا ادارے کی نہیں ، سب کی اجتماعی ناکامی ہے ۔ پوری قوم کی نظریں اس وقت وفاقی حکومت پر ہیں۔ وہ بجا طور پر توقع رکھتی ہے کہ حکومت اور اس کے ادارے اپنی کمزوریوں اور غلطیوںکا جائزہ لیں اور ان کے ازالے کی فوری کوشش کریں تاکہ آیندہ اس طرح کا کوئی روح فرسا واقعہ نہ ہو۔ ماضی کا تجربہ یہ ہے کہ ہر سانحے اور حادثے کے بعد کچھ عرصے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اورادارے متحرک ہو جاتے ہیں لیکن پھرسانحے کو بھلا دیا جاتا ہے اور معمول کی کارروائی شروع ہو جاتی ہے۔ سانحات اور حادثات کے تدارک کے لیے جامع لائحہ عمل بنایا جانا چاہیے اور قیام امن کے لیے امریکا اور یورپ کے بجاے اللہ تعالی اور اپنی قوم اور آئین و قانون کی طرف دیکھنا چاہیے۔
اس اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے مطالبے کے بعد حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جامع پالیسی بنانے کا اعلان کیا ہے،اور اس کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں پارلیمنٹ میں موجود ہر پارٹی سے ایک ممبر لیا گیاہے۔ جماعت اسلامی کی نمایندگی قومی اسمبلی میں اس کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ کر رہے ہیں اور ان کے ذریعے جماعت اسلامی نے اپنی تجاویز کمیٹی میں پیش کی ہیں۔ہمارے خیال میں اس واقعے کی وجہ سے چند نمایشی اور وقتی اقدامات کے بجاے پورے سسٹم پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس لیے اس کا مقابلہ یک رُخی حکمت عملی سے نہ ہوگا بلکہ اس کے لیے کثیرجہتی حکمت عملی درکار ہے۔ قوت کا استعمال کرتے ہوئے مختلف پہلوئوں کو سامنے رکھا جائے۔
مسلمانوں کو قتل کرنا کافروں کا کام ہے۔ حجۃ الوداع کے موقعے پر حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ دیکھو میرے بعد کافروں کی طرح نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔ ایک اور حدیث میں آنحضوؐرنے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی نے ایک انسان کو قتل کرنے کے لیے اُقتل پورا نہیں کہا، صرف اُق کہہ کر ارادہ کیا اورابھی بات مکمل نہیں کی تو وہ بھی قتل میں شریک ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تلوار یا تیر لے کر مسلمان کی طرف اشارہ نہ کرو، اس سے بھی اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے مروی حدیث میں آپؐنے فرمایاکہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور حقیقت میں مہاجر وہ ہے جو ان باتوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔کسی انسان کا قتل آنحضوؐر کو اتنا ناپسند تھا کہ جب ایک جنگ کے دوران بھی صحابی نے کلمہ پڑھ لینے والے دشمن کو قتل کیاتو آپؐ نے اس پر ناگواری کا اظہار فرمایا اور صحابی کو بلا کر پوچھا کہ جب اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا تواسے قتل کیوں کیا؟ صحابی نے جواب دیا کہ حضوؐر اس نے توخوف کی وجہ سے کلمہ پڑھا تھا تو نبی مہربانؐ نے فرمایا کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا۔ حضور نبی کریمؐ نے جنگ کے بھی آداب سکھائے اور اس کے اصول متعین فرمائے کہ خواتین ، بچوںاور بوڑھوں پر ہاتھ نہ اٹھانا ،پودوںاور فصلوں کو تباہ نہ کرنا، عبادت گاہوں کو نقصان نہ پہنچانا، دشمن کی لاش کا مثلہ نہ کرنا، کسی کی شکل کو نہ بگاڑنا۔
اصولی طور پر کسی ریاست کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے کا حق کسی فرد یا کسی جماعت اور گروہ کو نہیں ہے، یہ ریاست اور حکومت کا کام ہے۔ اسی طرح حدود جاری اور تعزیرات قائم کرنابھی ریاست اور حکومت کے ذمے ہے۔کوئی فرد یا گروہ کسی چور کو پکڑ کر اس کا ہاتھ نہیں کاٹ سکتا۔ اس راستے پر چلنے کے نتیجے میں معاشرے میں انتقامی جذبات پروان چڑھتے ہیں اور پورا معاشرہ فساد کا شکار ہوجاتا ہے۔ برائی دیکھ کر ہاتھ سے منع کرنے کا حکم بھی حکومت کے لیے ہے۔جو حکومت میں نہیں ہے اور جس کی ذمہ داری نہیں ہے اس کا کام دعوت دینا ہے، افہام و تفہیم کے ذریعے منع کرنا ہے، اوراگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل میں نفرت اور ناگواری کا اظہار کرنا ہے۔ ایک انسانی معاشرے میں ریاست کا کام ریاست کو کرنا ہے اوربحیثیت فرد ایک مسلمان کو اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنا فرض ادا کرنا ہے ۔ اگر کسی تنظیم اور گروہ نے من مانی کرتے ہوئے ازخود اپنے آپ کو قاضی کے منصب پر فائز کر لیا اوراپنی عدالتیں لگا کر سزائیں دینا شروع کر دیں، تو اس سے معاشرے میں فساد برپا ہوجائے گا اورہر چوک اور چوراہے اور ہر گلی اور بازارمیں خون خرابہ ہوگا اور پورا ملک دار الفساد بن جائے گا۔
جنگ عظیم اول کے بعد عالمِ اسلام کو استعماری طاقتوں نے تقسیم در تقسیم کیا ،اور برطانیہ ، فرانس، اٹلی اوردیگر ممالک نے مسلم ممالک پر قبضے کیے۔ فرانس اور برطانیہ نے ۱۹۱۷ء میں اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی اور خطے کی تقسیم کے نتیجے میں آزاد مسلم ممالک وجود میں آئے۔ اس تقسیم کا مقصد آزاد مسلم ممالک کے درمیان خانہ جنگی کروانا اور ان کی معدنیات پر ہاتھ صاف کرنا تھا۔ خزانے لوٹ کر اپنے ممالک میں پہنچائے گئے۔ جب مسلمانوں کی تہذیب اور زبان کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو ہر خطے میں ایسے لوگ اٹھے جنھوں نے ان استعماری طاقتوںکے خلاف طویل جدوجہد کرکے آزادی کی شمعوں کو روشن اور خوابیدہ مسلمانوں کو بیدارکیا۔پاکستان سے لیبیا تک آزاد ممالک وجود میں آگئے۔ اقوام متحدہ کے نقشے پر جگہ جگہ مسلم ریاستیں نمودار ہوئیں اور انھوں نے وحدت و ترقی کا سفر شروع کیا۔ ان ریاستوں میں قدرت کے عنایت کردہ پوشیدہ ذخائر تھے۔ تیل کے سمندر اور سونے وہیرے جواہرات کے ذخائر دریافت ہوئے۔
ترقی و خوش حالی کی طرف مسلمانوں کا گلوبل مارچ شروع ہوا تو سامراجی قوتوں نے پہلا وار پاکستان پر کرکے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنادیا۔ عراق، جہاں کی فوج اور کرنسی دونوں مضبوط تھیں، اسے پہلے ایران اور پھر کویت سے لڑا یااورپھر اس پر براہ راست حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، اورکارپٹ بمباری کے ذریعے وہاں کی فوج کو منتشر اور وحدت کو پارہ پارہ کیا۔عراقی صدر صدام حسین کو پھانسی دی اور شیعہ سُنّی فسادات شروع کروا کر ملک کو تقسیم کر دیا۔ افغانستان نے روسیوں کے خلاف طویل جہاد میں ۱۵لاکھ شہدا کی قربانی دے کر آزادی حاصل کی، مگر ابھی شہدا کا خون خشک نہیں ہوا تھا اورافغان قوم نے آزادی کی بہار نہیں دیکھی تھی کہ اس پر بھی ۵۲-بی بم بار طیاروں سے بمباری ہوئی اور ۴۶ممالک کی فوجوں نے امریکی قیادت میں افغانستان کو قبرستان بنادیا۔ لیبیا میں براہ راست کارروائی کرکے وہاں نظام کو درہم برہم کیا گیااور اس وقت وہاں پر مسلح تنظیمیں ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہی ہیں۔ شام میں لاکھوں مسلمان شہید کر دیے گئے اور تباہی کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے ۔ ہر طرف یہی استعماری قوتیں مدد دے رہی ہیں اوران کی سازشوں سے اس وقت تقریباً اسلامی ممالک میں باہمی جنگیں جاری ہیں۔
عالمی استعماری قوتیں ہمیشہ سے اسلامی ممالک میں جمہوریت کی حوصلہ شکنی کر تی رہی ہیں اور ہر جگہ بادشاہوں اور فوجی آمریت کو سپورٹ کیاہے۔ آمرانہ حکمرانی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مفیدمطلب حکومتوں کو بروے کار لایاگیا ہے۔ جہاں بھی عوام حق راے دہی کے ذریعے اپنے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں ، وہاں اسے سازشوں کے ذریعے سبوتاژکر دیا جاتا ہے۔ الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ الیکشن میں جیت گیامگر اسے اس لیے تسلیم نہیں کیا گیا کیوں کہ اس کی منزل اسلام تھی۔فوج کے ذریعے وہاں جمہوریت کا گلا دباکر ۸۰ہزار کارکنان کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ فلسطین میں حماس کی جیت کو تسلیم نہیں کیا گیا اور تبصرہ کیا گیا کہ دو سَروں والا سانپ ہے جس کے ایک سر پر ووٹ ہے اور دوسرے پر گولی۔مصرکو طویل عرصے کے بعد جمہوری حکمران ملا تو اس کے خلاف سازش کی گئی اورفوج کو استعمال کرکے ہزاروں کارکنان کو شہید کرنے کے بعد صدر محمدمرسی کو ہزاروں کارکنان کے ساتھ جیل میں ڈال دیا گیا۔پاکستان میں بھی امریکا اور یورپ نے ہمیشہ فوجی آمریت کی حمایت کی۔ جمہوریت کے مقابلے میں آمریت کو ترجیح اور جمہوری حکمرانوں کے مقابلے میں فوجی ڈکٹیٹروں کوزیادہ امداد دی۔ کیونکہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں وہ فوائد نہیں لیے جاسکتے جو ڈکٹیٹر سے لیے جا سکتے ہیں۔ جمہوری حکومت، عوام اور اداروں کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے، جب کہ ڈکٹیٹرکی جڑیں عوام میں نہیں ہوتیں اور وہ مغرب کا محتاج ہوتا ہے۔
امریکا اور اس کے مغربی حواری چاہتے ہیں کہ عالمِ اسلام میں جنگ ہواور مسلمان آگے بڑھ کر تعلیم وترقی کے میدان میں ان کا مقابلہ کرنے کے بجاے آپس میں دست و گریباں رہیں اور ایک دوسرے سے لڑکر تباہ ہوتے رہیں۔ اس وقت جہاں جہاں جنگ ہو رہی ہے تو یہ ان کی باقاعدہ طویل منصوبہ بندی کی وجہ سے ہے۔ امریکا اور مغرب کی اسلحہ سازی کی صنعت ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔ اسی لیے وہ جنگوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اپنے لیے نئی مارکیٹ تلاش کرتے ہیں۔ جنگ ہوتو ان کی اسلحہ انڈسٹری ترقی پاتی اور زرمبادلہ کماتی ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس کتاب اور دلیل کی قوت ہے اور مغرب کی جنگی مشینری کا مقابلہ اسی سے کیا جاسکتا ہے ۔ ضروری ہے کہ امریکا و یورپ کی سازش کا شکار ہونے کے بجاے نئی نسل کے ہاتھ میں قلم اور کتاب دی جائے اور لائبریریوں اور لیبارٹریوں کو آبادکیا جائے۔ مسلمانوں کا شان دار ماضی ان کے شان دار مستقبل کی نوید ہے۔ مغرب کے زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں ان کے پاس عدل و انصاف پرمبنی اسلامی نظام ہے۔
انسان کی جسمانی و روحانی اور معاشرتی و معاشی اور تہذیبی ضرورتوں کوصرف اسلام ہی پورا کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ یہ اللہ کا پسندیدہ نظام اور عدل و انصاف کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
اِعْدِلُوْا قف ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط (المائدہ۵:۸) عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔
اللہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ مومن کو قصداً قتل کرنے والے کی سزا جہنم ہے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اللہ کا غضب اور لعنت ہے اس پر اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کیا گیا ہے۔
وَمَنْ یَّقْتُلْ مُوْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاوُہ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہ وَاَعَدَّ لَہ عَذَابًا عَظِیْمًاo (النساء ۴:۹۳)رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اُس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے ۔
بڑے عذاب جہنم کا اعلان اور غضب و لعنت اس لیے ہے کہ اللہ رب العالمین بحیثیت خالق اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے اور جو مخلوق کو نقصان پہنچاتا ہے ، اس پر غضب ناک ہوتا ہے ۔ فرمانِ الٰہی ہے کہ جس نے ایک نفس کو بغیر کسی وجہ کے قتل کیا تو یہ ایسے ہی جیسے اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا ہو، اور جس نے ایک انسان کو بچایا تو یہ ایسے ہے جیسے اس نے ساری انسانیت کو بچایا :
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ۵:۳۲) جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا، اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔
قرآن کریم میںبارہا جہنم کا تذکرہ ہوا ہے۔ اس کی ہولناکی کا اندازہ اس حدیث ِمبارکہ کے مفہوم سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جہنم میں آگ کے بہت بڑے بڑے گڑھے ہیں اور ہر گڑھا بذات خود ایک عذاب ہے لیکن ہر گڑھا اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہے کہ میرے پڑوس میں آگ سے بچا۔ جہنم ایسی جگہ ہے جہاں آگ دوسری آگ سے پناہ مانگتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو کائنات میں اپنا خلیفہ بنا کر اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ اسے کائنات اور اپنے پورے نظام میں وی آئی پی کا درجہ دیا ہے ، توجو بھی اس کو ذلیل اور رُسوا کرتا ہے، اس پر اپنی خدائی مسلط کرنے کی کوشش کرتا اور انھیں اپنا بندہ اور غلام بنانے کی کوشش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے پسند نہیں فرماتا۔
ملت اسلامیہ بالعموم اور پاکستانی قوم بالخصوص اس وقت بہت بڑی آزمایش سے دوچار ہے۔ ایک انتہائی افسوس ناک صورت حال کا سامنا ہے۔ قتل و غارت گری کا ایک بازار ہے جو اسلام کے نام پر سجایا گیا ہے ۔ جو ذبح ہو رہا ہے وہ اشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ کا ورد کر رہا ہے اور جس نے اس کے گلے پر چھری رکھی ہے وہ بھی لا الٰہ الا اللّٰہ کا نعرہ لگا رہا ہے۔ اسلام کتنا مظلوم ہو گیا ہے اور دینِ رحمت کو کیسے یرغمال بنا لیا گیا ہے؟ سارے عالم کے لیے سراپارحمت وشفقت نبی کی امت کا آج یہ حال ہو گیا ہے۔ اس چہرے کے ساتھ دنیا کو اسلام کی دعوت کیسے دی جائے گی؟جب بھی پشاور جیسا کوئی سانحہ ہوتا ہے تو ایک مخصوص لابی اسے اسلام اور مذہب کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے حالانکہ مذہب اس سارے معاملے میں بذاتِ خود مظلوم ہے ۔ دین تو نام ہی انسان کے عقیدے اور جان و مال کی حفاظت کا ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسانی جان کے بچانے کو پوری انسانیت کو بچانا قرار دیا ہے۔
سانحۂ پشاور کے بعد ہم نے قوم سے اپیل کی کہ اپنے رب کے حضور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے جائیں کہ مسلمان پر جب بھی سخت وقت آتا ہے تو وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور دعا و التجا کے ذریعے اس سے رجوع کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چھت نہیں کہ جہاں پناہ لی جائے۔ مسلمان کی شان یہی ہے کہ وہ خوشی کے لمحے میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اورتکلیف کے لمحے میں صبراور دعا کرتا ہے۔ پوری قوم دعا گو ہے کہ ان بچوں کی شہادتوں کے بدلے اللہ تعالیٰ وطن عزیزکو امن کا تحفہ اورسکون کی نعمت عطا فرمائے ۔
بحیثیت مسلمان اور بحیثیت قوم ہمیں ایک طویل جدوجہد درپیش ہے۔ جماعت اسلامی کے ایک کارکن کے طور پر ہمیں آبادی کے ۵۰ فی صد سے زائدنوجوان نسل کو اسلام کا حقیقی پیغام دینا ہے اور اسے منظم کرنا ہے۔ شرح تعلیم میں اضافہ کرنا ہے اور سکول اور کالجوں کے علاوہ مساجد کو بھی عبادت کے ساتھ تعلیم کا مرکز بنانا ہے۔ رنگ ، نسل، علاقے، زبان اور مسلک کی بنیاد پر اختلافات ختم کرکے اپنی قوم کو ایک امت بنانا ہے۔وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کے دل پر دستک دی جائے اور اسے ذہن نشین کرایا جائے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل اسلامی نظام میں ہے۔ اس نظام سے بے وفائی کے نتیجے میں ہم آدھا ملک کھو چکے ہیں اور باقی ماندہ ملک خطرات سے دوچار ہے۔
ملک اور قوم کو بحران سے نکالنے اور تحریک پاکستان کا وعدہ ایفا کرنے کے لیے جماعت اسلامی نے اسلامی پاکستان کی جدوجہد کا آغاز کیا ہے۔ ہماری منزل ایک خوش حال اور ترقی یافتہ پاکستان ہے، اور یہ اسلامی پاکستان ہی سے ممکن ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ملک کے مؤثر ادارے اور مراعات یافتہ طبقے موجودہ صورتِ حال اور اسٹیٹس کو کے ساتھ ہیں اور سیاست و جمہوریت اور ریاست و حکومت کو انھوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ بنک غریبوں کا استحصال کرکے اسی اسٹیٹس کو ،کو آکسیجن مہیا کرتا ہے،اور نام نہاد آزاد میڈیا اسی کو مسلط رکھنے میں پیش پیش ہے مگرہمیں اپنے رحمان و رحیم رب کے اس وعدے پر کامل یقین ہے:
وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَـنَہْدِیَنَّہُمْ سُـبُلَنَا ط وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِـنِیْنَ o (العنکبوت۲۹:۶۹) جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقینا اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے ۔